Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 2 Issue 2 of Journal of Islamic and Religious Studies

مفاتیح الغیب (تفسیر کبیر) میں سورۃ التوبہ کی تفسیر میں وارد موضوع احادیث کا علمی مطالعہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060030498_1191

Pages

117-129

DOI

10.36476/JIRS.2:2.12.2017.08

PDF URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/285/116

Chapter URL

https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/285

Subjects

Mafatiḥ Al Ghayb Imam Rāzi Tafsir Mafatiḥ al Ghayb Imam Rāzi Tafsir

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

موضوع کی تعریف

لغوی تعریف

یہ لفظ موضوع لغت میں وَضَعَ ، يضَعُ، وضع الشيئ سے ماخوذ ہے اسم مفعول کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں اس نے اسےگرادیا،مٹا دیا،ساقط کیا[1]"وضع الجناية عنه" یعنی اس نے اس سے جرم ساقط کیا ،افتراء،گھڑنا،جھوٹ"وضع فلان القصة" فلاں نے اپنی طرف سے قصہ گھڑا۔

موضوع روایت کو موضوع اس لئے کہتے ہیں کہ یہ اپنے رتبے سے گر جاتی ہے اور پستیوں میں چلی جاتی ہے۔

اصطلاحی تعریف

محدثین کی اصطلاح میں موضوع سے مراد وہ بنایا اور گھڑا ہوا جھوٹ، جس کی نسبت رسول اللہﷺ کی طرف کی گئی ہو۔ الموضوع هو المختلق المصنوع [2]

ملا علی قاریؒ اور ابن ملقن نے خبر موضوع کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا :

الموضوع هو المختلق المصنوع و شرّ الضعيف"[3]

موضوع من گھڑت، بناوٹی ،رو ایت کا نام ہے اور یہ ضعیف کی بد ترین شکل ہے۔

رسول اللہﷺ پر افتراء اور جھوٹ باندھنا بدترین گناہ ہے جو سخت ترین سزا کا موجب ہے اس کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: "من کذب علی فليتبوأ مقعده من النار"[4]

وضع حدیث کی ابتداء اور اسباب

جس قدر عہد نبویؐ سے دوری ہوتی چلی گئی فتنہ و فساد اور ہوس زور پکڑتے گئے ابھی ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ رسول اللہﷺ کی طرف جھوٹی روایتیں منسوب کی جانے لگیں اگر پہلی صدی ہجری میں ہی اس کا سدباب نہ کیا جاتا تو اسلام کا سارا ایوان سر بسجود ہو کر رہ جاتا گویا شروع ہونے کے ساتھ ہی اسلام کی تاریخ ہمیشہ کے لئےاس وقت ختم ہو جاتی۔

عہد عثمانی کے آخر ی سالوں میں غلط ، بے سروپا اور بے بنیاد روایتوں کا سیلاب مسلمانوں میں بہا دیا گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پیغمبر ﷺ کے متعلق اپنی ذاتی معلومات کی اشاعت سے اس طوفان کا مقابلہ مناسب خیال فرمایاآپ لوگوں سےخطاب کر کے فرمایا کرتے تھے :"حدثوا النّاس بما يعرفون ودعوا ما ينكرون"[5]

"اپنی باتوں کو لوگوں کے سامنے بیان کیا کرو جنہیں جانتے پہچانتے ہو اور جنہیں نہیں پہچانتے ہو انہیں چھوڑ دو"۔

ایک دو نہیں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں حدیثیں گھڑی جانے لگیں اور بڑی مضحکہ خیز قسم کی چیزیں مشہور کر دی گئیں اس کی ایک مثال عبد الکریم بن ابی العوجا کی ہے ۔ یہ شخص خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں گرفتار ہوا ۔ یہ شخص جھوٹی حدیثیں گھڑ گھڑ کر لوگوں کو بیان کرتا ۔عدالت سے اسے سزائے موت ہوئی اس نے خود اعتراف کیا کہ اس نے چار ہزار حدیثیں گھڑ کر لوگوں میں پھیلا دی ہیں ۔[6]

محدثین کرام ان احادیث کو روایت اور درایت کی چھلنی میں چھان کر نکال دیتے ہیں کہ کیا چیز صحیح ہے اور کیا چیز غلط ہے ایسے ماہرفن محدثین موجود تھے جو کھوٹے ااور کھرے کو الگ الگ کر دیتے ۔

اس صورت حال کا اندازہ رسول اللہ ﷺکو پہلے ہی سے ہو چکا تھا چنانچہ اس سلسلے میں حضرت ابو ہریرہؓ سےروایت منقول ہے کہ " قال رسول اللهﷺ سيکون فی آخر امتی أناس يحدثونکم ما لم تسمعوا انتم ولا آباؤکم فاياکم واياهم"[7]

آخری زمانے میں میری امت کے کچھ لوگ تم سے ایسی حدیثیں بیان کریں گے جن کو نہ تم نے اور نہ تمہارے آباؤ اجداد نے سنا ہوگا ، پس تم ان سے بچ کر رہنا"۔

کسی بھی چیز کو محفوظ رکھنے کے جتنے طریقے ہو سکتے ہیں اور انسانی ذہن و دماغ میں آسکتے ہیں وہ سارے کے سارے سنت کو اور ارشادات رسول اللہﷺ کو محفوظ رکھنے کے لئے محدثین کرام نے اختیار کئے اور ان سب ممکن طریقوں سے محفوظ ہو کر علم حدیث مرتب و منقح ہو کر ہم تک پہنچا ہے ۔ذخیرہ احادیث سے جعلی اور من گھڑت روایات کی نشاندہی ، ان کی جانچ پڑتال ایک دشوار ،کھٹن اور دقت طلب کام تھا جو محدثین کرام کی شبانہ روز محنت ،خدمت اور والہانہ عقیدت سے ممکن ہوا۔

جن محدثین کرام نے پوری زندگی علم حدیث میں گزاری اور سالہا سال شب و روز حدیث کا مطالعہ کیا انہیں اس والہانہ عقیدت سے ایک بصیرت اور ملکہ پیدا ہو گیا تھا جس سے وہ یہ اندازہ کر لیتے کہ یہ حدیث رسول اللہﷺ کا ارشاد نہیں ہو سکتی۔ان کو حدیث کی صحت وسقم کا اندازہ اس جوہری کی طرح ہو جاتا جو ایک پتھر کو دیکھ کر اس کے ہیرا اور زخرف ریزہ ہونے کا اندازہ کر لیتا ہے۔

صحیح اور ضعیف روایت کے بارے میں علقمہؓ نے عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت کیا ہے:

"إن من الحديث حديثا ضوء كضوء النهار، تعرفه وانّ من الحديث حديثا له ظلمة کظلمة الليل تنکره"[8]

"حدیثوں میں سے بعض حدیثیں ایسی ہیں کہ ان کی روشنی دن کی روشنی کے مانند پہچانی جاتی ہیں اور ان ہی حدیثوں میں بعض حدیثیں ایسی بھی ہیں کہ جن کی تاریکی رات کی تاریکی جیسی ہے جس سے تم مانوس نہ ہوگے" ۔

تفسیر "مفاتیح الغیب " اور موضوع احادیث

امام فخر الدین رازیؒ کی تفسیر "مفاتیح الغیب" بڑی جامع تفسیر ہے ۔انہوں نے اپنی اس تفسیر میں احادیث ،أثار اور اسلاف کے اقوال کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کیا ہے لیکن ان احادیث و أثار اور اقوال کی نقل میں سند کا اہتمام نہیں کیا گیا بلکہ اکثر مقامات پر راوی اور کتاب کا نام بھی ذکر نہیں کیا ہےاور نہ ہی ان روایات کی صحت و عدم صحت پر کوئی کلام کیا ہے ۔اس وجہ سے متعدد ضعیف اور موضوع احادیث بھی اس تفسیر میں جمع کی گئیں ۔اس طرح امام رازیؒ نے ایک ایک آیت کی تفسیر میں منقول متعدد احادیث و روایات کو جمع کیا ۔ اور صحیح ،ضعیف اور موضوع کو جانچنے کی ذمہ داری بعد میں آنے والے علماء و محققین کے ذمہ چھوڑ دیا ۔اب ان احادیث اور روایات کی تحقیق جرح و تعدیل اور تصحیح و تضعیف کے اصولوں کے مطابق کی جائے۔

اس سلسلے میں کی گئی کاوش زیر نظر مقالہ بھی ہے جس میں سورۃ التوبہ کی تفسیر میں موضوع روایات کی تحقیق کی گئی ہے اور چھان بین کے بعد جن احادیث میں وضع ِحدیث کی علتیں پائی گئیں ان کو اس مقالہ میں واضح کیا گیا ہے تاکہ "مفاتیح الغیب " کا مطالعہ کرنے والے ان احادیث کے بارے میں جان سکیں اور کسی غلط فہمی میں نہ پڑیں۔

حدیث نمبر1

"من أسرج فی مسجد سراجا، لم تزل الملائكة وحملة العرش يستغفرون له ما دام فی المسجد ضوءه"[9]

"جس نے مسجد میں چراغ روشن کیا تو عام فرشتے اور عرش کو اٹھانے والے فرشتے اس کے لئے اس وقت تک دعائے مغفرت کرتے ہیں جب تک مسجد میں چراغ کی روشنی ہوتی ہے"۔

سند حدیث پر کلام

یہ روایت الزیلعی کی کتاب "تخریج احادیث الکشاف" میں یوں مروی ہے:

"قلت هکذا ذکره المصنف موقوفاً وهو مرفوع رواه أبو الفتح سليم بن أيوب الرازي الفقيه الشافعي في کتابه الترغيب من طريق الحارث بن أبي أسامة حدثنا إسحاق بن بشر، ثنا أبو عامر الأسدي مهاجر بن کثير، عن الحکم بن مصقلة العبدی عن أنس رضي الله عنه قال قال رسول اللهﷺ"[10]۔یہ سند تین راویوں کی وجہ سے موضوع ہے۔

اس سند میں پہلا مجرح راوی" اسحاق بن بشر "ہے۔ أبو حاتم الرازی اپنی کتاب الجرح والتعدیل میں فرماتے ہیں:

"إسحاق بن بشر الکاهلي کان يکذب يحدث عن مالك وأبي معشر بأحاديث موضوعة"[11]

"اسحاق بن بشر جھوٹ بولتا تھا وہ مالک بن أنس اور ابو معشر سے موضوع أحادیث بیان کرتا ہے"۔

دوسرا مجروح راوی" مہاجر بن کثیر "ہے اس کے بارے میں ابن حجرؒ فرماتے ہیں:

" مهاجر بن کثير عن الحکم بن مصقلة قال أبو حاتم متروک الحديث انتهی و کذا قال الأزدی"[12]

"مہاجر بن کثیر حکم بن مصقلہ سے روایت بیان کرتا ہے جس کو ابو حاتم اور ازدی نے متروک الحدیث کہا ہے"۔

تیسرا راوی "الحکم بن مصقلہ "ہے جو متہم بالکذب ہے اور أنس بن مالک سے روایت کرتا ہے ۔الأزدی نے انہیں کذاب بتایا ہے امام ذہبی ؒ نے امام بخاریؒ کے حوالے سے بتایا" عنده عجائب" اور ان سے درج ذیل موضوع روایت بھی بیان کی ہے۔

"وقال البخاری : الحکم بن مصقلة العبدی عنده عجائب ،ثم ذکر له البخاری حديثا موضوعا، لکن فيه اسحاق بن بشر ، فهو الآفة ،فقال: حدثنی عبد الله ،حدثنا اسحاق بن بشر ،حدثنا مهاجر بن کثير ،عن الحکم عن أنس مرفوعا: من أسرج فی مسجد لم تزل حملة العرش يستغفرون له، ومن أذن سبع سنين محتسبا حرم الله لحمه ودمه علی دواب الارض أن تأکله فی القبر"[13]

اسی طرح کی ایک اور روایت امام طبرانیؒ نے "مسند الشامیین" میں درج ذیل سند کے ساتھ نقل کی ہے۔

أَخبرنا خير بن عرفة، ثنا هانئ بنُ المتوَكل، ثنا خالد بن حميد، عن مسلمة بن علی عن عبد الله بن مروان عن نعمة بن دفين عن ابيه عن علی بن ابی طالب رضی الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من علق قنديلا فی مسجد صلی عليه سبعون الف ملک و استغفروا له ما دام ذلک القنديل يقد۔۔۔"[14]

"رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے مسجد میں قندیل (چراغ) لٹکائی، ستر ہزار فرشتے اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور جب تک وہ قندیل روشن رہی وہ اس کے لئے استغفار کرتے رہیں گے۔۔۔۔"

سند حدیث پر کلام

طبرانیؒ سے یہ روایت مسند الشامیین میں بسند خیر بن عرفۃ،ہانی بن متوکل،خالد بن حمید،مسلمہ بن علی،عبد اللہ بن مروان،نعمۃ بن دفین ،وہ اپنے والد سے وہ علی بن ابی طالب سے اور وہ رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے ۔ اس روایت کی تخریج ابن عراق کنانی نے اپنی کتاب "تنزيه الشريعة المرفوعة" اور اسماعیل بن محمد العجلونی نے "کشف الخفاء ومزيل الالباس عما اشتهر من الاحاديث علی السنة الناس" میں کی ہے۔[15]

یہ روایت متن کے لحاظ سے درست نہیں ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنھم کی زندگی سے ہمیں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ انھوں نے کبھی مسجد میں چراغ روشن کیا ہو ۔اگر یہ عمل یا قول رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہوتا تو صحابہ اس فضیلت کے حصول کے لئے ضرور کوشش کرتے اور تاریخ میں اس کی کئی مثالیں ہوتیں ۔ابن عراق کنانی نے " تنزيه الشريعة المرفوعة " میں امام ذہبیؒ کا قول نقل کرتے ہوئے کہا ہے : "قال الذهبی و علمنا بطلان هذا بأن النبیﷺ مات ولم يوقد فی حياته فی مسجده قنديلا ولا بسط فيه حصيرا ولو کان قال لأصحابه هذا لبادروا الی هذه الفضیلة واللّٰه اعلم[16]

یہ روایت ایک دوسری سند سے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے :

"محمود بن سنجر قال نا عمر بن صبح العبسی قال نا عاصم بن سليمان الکوفی عن برد بن سنان عن مکحول عن الوليد بن العباس عن معاذ بن جبل قال: قال رسول اللهﷺ" من بنی مسجدا بنی الله له بيتا فی الجنة ومن علق قنديلا صلی عليه سبعون ألف ملك حتی يطفا ذلك القندیل ومن بسط فيه حصيرا صلی عليه سبعون الف ملك حتی تنقطع ذلك الحصير۔۔۔۔" [17]

یہ سند دو متہم بالکذب راویوں کی وجہ سے موضوع ہے ایک مجروح راوی "عمر بن صبح "ہے جس کے بارے میں محمد بن علی الشوکانیؒ اپنی کتاب " الفوائد المجموعة فی الأحاديث الموضوعة" میں لکھتے ہیں :

" فی أسناده عمر بن صبح کذاب "[18]

" اس کی سند میں عمر بن صبح جھوٹا ہے۔"

اس سند میں دوسرا متہم بالکذب راوی " عاصم بن سلیمان "ہے جو کہ عمر بن صبح کا شیخ بھی ہے ۔ابن الجوزیؒ اپنی کتاب "العلل المتناهيه فی الأحاديث الواهية" میں الفلاس کے حوالے سے لکھتے ہیں :

"هذا حديث لا يصح قال الفلاس کان عاصم بن سليمان يضع الحديث و قال النسائی متروک و قال الدار قطنی کذاب"۔[19]

"یہ حدیث صحیح نہیں ہے الفلاس کہتے ہیں کہ عاصم بن سلیمان احادیث وضع کرتا تھا ۔امام نسائی نے انہیں متروک اور امام دارقطنی نے کذاب کہا ہے"۔ اس طرح یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے۔"

حدیث نمبر:2

"من صام يوماً من أشهرالله الحرم کان له بکل يوم ثلاثون يوماً"[20]

"جس نے حرم کے مہینوں میں ایک دن روزہ رکھا اس کے لئے ہر دن کے بدلے تیس دن کا ثواب ہے"۔

سند حدیث

یہ روایت درج ذیل سند اور الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔

"محمد بن رزين بن جامع المصری ابو عبد الله المعدل،حدثنا اله يثم بن حبيب ،عن سلام الطویل عن حمزة الزيات ،عن ليث بن ابی سليم عن مجاهد عن ابن عباس رضی الله عنه قال :قال رسول الله ﷺ " من صام عرفة کان له کفارة سنتين ، ومن صام يوماً من المحرم فله بکل يوم ثلاثون يوماً"۔[21]

"جس نے عرفہ کے دن روزہ رکھا اس کے لئے دو سال کا کفارہ ہے اور جس نے حرم کے مہینوں میں ایک دن روزہ رکھا اس کے لئے ہر دن کے بدلے تیس دن کا ثواب ہے"۔

سند حدیث پر کلام

امام طبرانیؒ نے یہ روایت "المعجم الصغیر"میں الہیثم بن حبیب عن سلام الطویل،عن حمزۃ الزیات ،عن لیث بن ابی سلیم عن مجاہد عن ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نقل کی ہے۔

اس میں دو راوی متہم بالکذب ہیں اور ایک راوی ضعیف ہے ان علتوں کی وجہ سے یہ روایت موضوع اور ناقابل اعتبار ہے۔

پہلی علت

پہلا مجروح راوی "الہیثم بن حبیب" ہے جن کے بارے میں امام ذہبیؒ نے کہا ہے کہ اس کی روایت باطل ہے اور متہم بالکذب ہے۔جب کہ امام ابن حبان نے انہیں ثقہ کہا ہے۔[22]

دوسری علت

دوسرا مجروح راوی "سلام الطویل " ہے ۔ان کا پورا نام سلام بن سلیم التمیمی الطویل ہے ۔یحییٰ بن معین نے اس کے بارے میں کہا ہے:

" سلام الطويل ضعيف ولا يکتب حديثه ، قال وسمعت احمد بن حنبل يقول سلام الطويل منکر الحديث"۔

امام نسائی ؒ نے متروک الحدیث کہا ہے۔[23]

تیسری علت

لیث بن ابی سلیم ہےابن حبانؒ فرماتے ہیں وہ آخری عمر میں روایتوں میں اختلاط کرتا تھا یہاں تک کہ اُسے خود پتہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ کیا بیان کرتا ہے ۔اسی طرح اسانید کو بھی الٹ پلٹ اور خلط ملط کر دیتا تھا ۔اور اُسے ثقات کی طرف سے بیان کرتا جس کی وجہ سے اس سے روایت کرنا جائز نہیں ۔ ان کے بارے میں امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:"ضعيف الحديث جداً کثير الخطأ۔" یحییٰ بن معین فرماتے ہیں "وہ ضعیف راوی ہے"۔[24]

حدیث نمبر:3

"جبلت القلوب علی حب من أحسن اِليها ، وبغض من أساء اِليها" [25]

"دلوں کو احسان کرنے والے سے محبت اور ان سے برائی کرنے والے سے بغض کی جبلت پر پیدا کیا گیا۔"

مسند الشہاب میں ا س روایت کی تفصیل بیان کی گئی ہے:

"من طريق حسن بن عبد الله بن سعيد العسکری ،حدثنی احمد بن اسحاق التمار ،عن زيد بن اخزم ،عن ابن عائشة عن محمد بن عبد الرحمٰن رجل من قريش قال کنت عند الأعمش فقيل: ان الحسن بن عماره ولی المظالم، فقال الأعمش يا عجباً من ظالم ولی المظالم ما للحائک من الحائک و المظالم؟ فخرجتُ فأتيت الحسن بن عمارة فأخبرته فقال: علیّ منديل و أثواب فوجه بها اليه فلما کان من الغد بکرت الی الأعمش فقلتُ: أجری الحديث قبل أن يجتمع الناس يعی:فأجريت ذکره، فقال: بخِ بخِ، هذا الحسن بن عمارة زان العمل و ما زانه ، فقلت : بالأمس قلتُ ما قلتَ قال: واليوم تقول هذا، فقال دع هذا عنک ، حدّثنی خيثمة عن عبد الله أن النبي ﷺ قال: جبلت القلوب علی حب من أحسن اِليها، و بغض من أساء اليها"۔[26]

ابو نعیم اصفہانیؒ نے دوسری سند سے نقل کیا ہے:

" محمد بن عبيد بن عتبه،حدثنا بکار بن الأسود ،قال: حدثنا اسماعيل الخياط ،عن الأعمش ،قال: بلغ الحسن بن عمارة أن الأعمش ،وقع فيه فبعث اِليه بکسوة فلما کان بعد ذالک مدحه الأعمش، فقيل له کيف تذمه ؟ فقال: اِن خيثمة حدثنی عن ابن مسعود أن "جبلت القلوب۔۔۔أساء اِليها"۔[27]

یہ روایت اعمش سے مرفوعاً اورمو قو فاً نقل کی گئی ہے ۔

الفتنی نے "الموضوعات "میں لکھا ہے :

" روی مرفوعاً و موقوفاً علی الأعمش کلاهما باطل"۔[28]

ابن الجوزیؒ فرماتے ہیں :

" هذاالحديث لا يصح عن رسول اللهﷺ فان اسماعيل الخياط مجروح"۔

امام احمد ؒ فرماتے ہیں :کتبتُ عنه ثم حدث بأحاديث موضوعة فترکناه"۔میں اس سے حدیث نقل کرتا تھا لیکن پھر اس نے موضوع أحادیث بیان کرنا شروع کیں تو میں نے اس سے حدیث نقل کرنا چھوڑ دیا "۔ یحییٰ بن معین نے کذاب کہا ہے۔امام بخاریؒ ،امام مسلمؒ ،امام نسائی ؒ اور دا رقطنیؒ نے متروک کہا ہے ۔ابن حبان کا کہنا ہے : وہ ثقات سے موضوع احادیث بیان کرتا ہے ۔لہذا اس سے روایت کرنا جائز نہیں۔[29]

حدیث نمبر:4

"الإيمان نصفان نصف صبر و نصف شکر" [30]

امام بیہقیؒ نے "شعب الایمان " میں بطریق مسلم بن ابراہیم عن العلاء بن خالد القرشی عن یزید الرقاشی عن أنس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نقل کی ہے:

"مسند الشهاب: بسند عتبه بن السکن عن العلاء بن خالد عن يزيد الرقاشی عن أنس رضی الله عنه قال :قال رسول اللهﷺ ۔۔۔ "

یہ روایت دو علتوں کی وجہ سے موضوع ہے۔

پہلی علت

ایک مجروح راوی عتبہ بن السکن ہے ۔اسے امام دار قطنیؒ نے متروک الحدیث اور منکر الحدیث کہا ہے ۔ امام ابن حبانؒ کے مطابق خطا کا شکار ہے اور ثقہ راویوں کے خلاف کرتا ہے۔امام بیہقی ؒ کے مطابق موضوع احادیث سے منسوب ہے۔[31]

دوسری علت

دوسرا مجروح راوی یزید بن ابان الرقاشی ہے۔اسے امام نسائیؒ نے متروک کہا ہے ۔ابن ابی حاتمؒ نے ضعیف کہا ہے۔

یحییٰ بن معین سے ان کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا:

" هو رجل صالح لکن حديثه ليس بشيئ"۔

عبد الرحمٰن کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے والد سے یزید الر قاشی کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا :

"کان واعظاً بکاء کثير الرواية عن أنس بما فيه نظر، صاحب عبادة وفي حديثه ضعة"

امام بن حبان فرماتے ہیں یزید بن ابان شب زندہ دار اور نیک آدمی تھے مگر حدیث سے ناواقف تھے اس لئے ان کی روایت لیس بشیئ ہوتی ہے۔[32]

حدیث نمبر:5

"هو قصر في الجنة من اللؤلؤ، فيه سبعون دارا من ياقوتة حمراء، في كل دار سبعون بيتا من زمردة خضراء، في كل بيت سبعون سرِيرا، على كل سرِير سبعون فراشا، على كل فراش زوجةٌ من الحورِ العين، في كل بيت سبعون مائدة، على كل مائدة سبعون لونا من الطَّعامِ، وفي كل بيت سبعون وصيفة، يعطى المؤمن من القوة في غداة واحدة ما يأتي على ذلك أجمع"۔[33]

" یہ جنت میں موتیوں کے محل ہیں جس میں سرخ یاقوت کے ستر گھر ہیں ہرگھر میں ستر کمرے سبز زمرد کے ہیں اورہر کمرے میں ستر چارپائیاں ہیں اورہر چارپائی پر ستر گدے اورہرگدے پر ایک بیوی حور کی صورت میں ہوگی۔اورہر کمرے میں ستر دسترخوان اورہر دسترخوان پر ستر اقسام کے کھانے ہوں گے۔اورہر گھر میں ستر لونڈیاں ہوں گی۔اورہر صبح مومن کو اتنی قوت دی جائے گی کہ وہ ان کے ساتھ جماع کرسکے"۔

سند حدیث

"حدثنا عبد الوهاب بن رواحة قال: حدثنا ابو کريب قال: حدثنا اسحاق بن سليمان ،عن جسر بن فرقد ،عن الحسن قال: سألت عمران بن حصين و أباهريرة عن آية من کتاب الله عن قوله(وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ) [34]فقالا: علی الخبير سقطت، سألنا رسول اللهﷺ فقال هو قصر۔۔۔۔۔۔علی ذلک أجمع"۔(لم يروی هذاالحديث عن الحسن الا جسر بن فرقد) " [35]

سند حدیث پر کلام

سند میں مجروح راوی جسر بن فرقد ابو جعفر القصاب ہے جن کے بارے میں امام بخاریؒ نے کہا ہے "ليس بذاک" ابن معین نے کہا ہے" ليس بشيئ ولا يکتبهحديثه" امام نسائی اور الدارقطنی نے ضعیف کہا ہے ۔ امام ابن حبان نے کہا ہے"کان ممن غلب عليه القشف حتی أغضی عن تعهدا لحديث فأخذ بهم اِذا روی و يخطئی اِ ذا حدث خرج عن عدالة"۔[36]

ابن الجوزی نے کہا ہے یہ حدیث رسول اللہﷺ سے گھڑ لی گئی ہے:" هذاالحديث موضوع علی رسول اللهﷺ وفی اسناده جسر"۔ علامہ ابن عدی کے مطابق ان کی روایات غیر محفوظ ہیں۔[37]

حدیث نمبر:6

"نحن نحکم بالظاهر"

اس کےصحیح الفاظ عیہ ہیں:

" أمرت أن أحکم بالظاهر والله تولی السرائر"[38]

یہ کلام صحیح ہے لیکن حدیث نہیں ہے معروف کتب حدیث اور اجزاء الحدیث میں نہیں ملی مزنی اور دوسرے ماہرین فن نے اس کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے امام سیوطیؒ نے اس کو امام شافعیؒ کا کلام قرار دیا ہے:

"لا وجود له فی کتب الحديث المشهورة ولا الأجزاء المنشورة وجزم العراق بأنه لا اصل له وکذا أنکره المزی وغيره، وهوکلام صحيح لکنه لس بحديث"۔[39]

اس سے بہتر اندازمیں یہ مفہوم اس حدیث میں آیا ہے:

"لن أومر أن أنقب عن قلوب الناس"[40]

" مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں نقب کروں"۔

حاصل بحث:((Conclusion

امام فخر الدین الرازیؒ نے اپنی تفسیر "مفاتیح الغیب" میں ایک ایک آیت کی تفسیر میں منقول متعدد احادیث و روایات کو جمع کیا لیکن ان احادیث و روایات کی نقل میں سند کا اہتمام نہیں کیا گیا ۔

اکثر مقامات پر راوی اور کتاب کا نام بھی ذکر نہیں کیا ہے۔

روایات کی صحت وعدم صحت پر کوئی کلام نہیں کیا ہے ۔

آپؒ نے روایت باللفظ کی بجائے روایت بالمعنیٰ کو ترجیح دی ہے۔

لھٰذا اس تفسیر کا ایک ایسا محقق نسخہ مرتب کیا جائے جس میں ان تمام روایات،آثار و اقوال کے حوالے دئیے جائیں۔ جرح و تعدیل اور تصحیح و تضعیف کے اصولوں کے مطابق ،صحیح ،ضعیف اور موضوع احایث کی نشاندہی کی جائے تاکہ قارئین کو ہر ایک حدیث کی صحت اور سقم کو جاننے کے لئے متون الحدیث کی طرف رجوع نہ کرنا پڑے۔

 

This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.

 

حوالہ جات

  1. References الزبیدی،محمد بن محمد بن عبد الرزاق،تاج العروس من جواھر القاموس،تحقیق: عبد السلام احمد وآخرین،دار الھدایۃ،سن نامعلوم، مادہ(وض ع)؛ وحید الزمان قاسمی،القاموس الوحید ،ادارہ اسلامیات،لاہور،کراچی،2001م ،مادہ(و ض ع)۔ Muḥammad bin ‘Abd al Razzaq, Taj al ‘uroos, (Dār al Hidayah). Waḥid al Zaman Qasmi, Al Qamuos al Waḥid, (Lahore: Karachi: ʼedārah Islmaiyat, 2001), Madah: wauw ḍad ‘eyn
  2. الشہرزوری،عثمان بن عبد الرحمٰن ،مقدمہ ابن الصلاح ،مکتبۃ الفارابی،1984م،ص58؛ السخاوی،محمد بن عبد الرحمٰن بن محمد،التوضیح الأبھر لتذکرۃ ابن ملقن فی علم الأثر،تحقیق: عبد اللہ بن محمد عبد الرحیم البخاری،مکتبہ اصول السلف،سعودیہ،1418ھ، ص57۔ ‘Uthman bin ‘Abd al Raḥman , Muqaddimah Ibn e al ṣalaḥ, (Al Faraby, 1984), 58 Muḥammad bin ‘Abd al Raḥman, Al Tawḍyḥ al abhur le tadhkirat Ibn e mulaqqan fi ‘elm al athar, (Saudia: Maktabah Uṣool al Salaf, 1418), 57
  3. ابن ملقن، عمر بن علی،المقنع فی علوم الحدیث ،تحقیق: عبد اللہ بن یوسف الجدیع،دار فواز للنشر،سعودیہ،سن نامعلوم،ج1،ص232؛ ملا علی قاری، علی بن سلطان،شرح نحبۃ الفکر فی مصطلحات أھل الأثر،دار الارقم ،بیروت، لبنان،سن نامعلوم، ص 435۔ ‘Umar bin ‘Ali, Al Muqanne‘ fi ‘uloom al Ḥadtih , (KSA: Dār Fawaz le al Nashar), 1:232 ‘Alibin sulṭan, Sharaḥ Nukhbat al Fikar, (Beirut: Dār al ʼarqam ), 435
  4. البخاری،محمد بن اسمایل،الجامع الصحیح المختصر،تحقیق: محمد زھیر بن ناصر،دار طوق النجاۃ،بیروت،1422ھ/1987م،کتاب العلم، باب اِثم من کذب علی النبیﷺ،رقم:107۔ Muḥammad bin ʼisma‘il, Al jame‘ al ṣaḥyḥ al mukhtaṣar, (Beirut: Dār Ṭawq al Najat, 1987), No.: 107
  5. الذہبی،ابو عبد اللہ محمد بن احمد،تذکرۃ الحفاظ،دار الکتب العلمیہ،بیروت،لبنان، 1419ھ/1998م،ج1،ص15۔ Muḥammad bin Aḥmad, Tadhkirat al Ḥuffaẓ, (Beirut: Dār al kutub al ‘ilmiyyah, 1998), 1:15
  6. غازی ،محمود احمد،محاضرات حدیث،الفیصل ناشران و تاجران کتب،غزنی سٹریٹ،اُردو بازار،لاہور،2010،ص168۔ Maḥmood Aḥmad, Muḥaḍarat Ḥadtih
  7. امام مسلم ،مسلم بن حجاج قشیری،صحیح مسلم،تحقیق: محمد فواد عبد الباقی،دار احیاء التراث العربی، بیروت، سن نامعلوم،باب فی الضعفاء والکذابین ومن یرغب عن حدیثھم،رقم:6؛ احمد بن حنبل،ابو عبد اللہ احمد بن محمد الشیبانی،مسند الامام أحمد بن حنبل ،تحقیق: شعیب الارنوؤط ،عادل مرشد،مؤسسۃ الرسالہ،بیروت،1421ھ/2001م، مسند المکثرین من الصحابہ،مسند ابی ہریرہؓ ،رقم: 8267۔ Muslim bin Ḥajjaj, ṣaḥyḥ muslim, (Beirut: Dār ʼeḥya al turath al ‘Arabi), No.:6 Aḥmad bin Ḥunbal, Musnad Aḥmad bin Ḥunbal, (Beirut: Muassissat al Risalah, 2001), No.:8267
  8. السیوطی،عبد الرحمٰن بن ابی بکر،تدریب الراوی فی شرح تقریب النواوی،تحقیق: عبد الوھاب عبد الطیف،مکتبۃ الریاض الحدیثیہ، ریاض، سن نامعلوم،ج1،ص129۔ ‘Abd al Raḥman bin aby bakar, Tardryb al rawy, (Riyaḍ: Maktabah al Riyaḍ al Ḥadtihiyya), 1:129
  9. الرازی،فخرالدین محمد بن عمر،مفاتیح الغیب(التفسیر الکبیر)،دار احیاء التراث العربی،بیروت،1420ھ،ج16،ص11۔ Muḥammad bin ʼumar, Mafatyḥ al ghyb, (Beirut: Dār ʼeḥya al turath al ‘Arabi , 1420), 16:11
  10. الزیلعی،عبداللہ بن یوسف بن محمد،تخریج الأحادیث والأثار الواقعہ فی تفسیر الکشاف للزمخشری،تحقیق: عبد اللہ بن عبد الرحمٰن ،دار ابن خزیمہ، ریاض،1993م،ج2،ص59۔ ‘Abd allah bin yousaf , Takhryj al aḥadtih wa al athar al waqe‘ah fi tafsyr al kashshaf, (Riyaḍ: Dār Ibn e Khuzaimah, 1993), 2:95
  11. ابن ابی حاتم،ابو عبد الرحمٰن بن محمد،الجرح والتعدیل،دار احیاء التراث العربی،بیروت، 1271ھ/ 1952م، ج2، ص214، رقم:734۔ Abu ‘Abd al Raḥman bin Muḥammad, Al Jaraḥ wa al ta‘dyl, (Beirut: Dār ʼeḥya al turath al ‘Arabi , 1952), 2:214, No.:734
  12. العسقلانی،ابن حجر علی بن محمد ،لسان المیزان، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات،بیروت، 1986م ،ج2،ص104۔ ‘Alibin Muḥammad Ibn e Ḥajar, Lisan al Meyzan, (Beirut: Muassissat al a‘lmy le al maṭbo‘āt, 1986), 2:104
  13. الذہبی،محمد بن احمد،میزان الاعتدال فی نقد الرجال،تحقیق: علی محمدا لبجاوی،دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر،بیروت،1382 ھ/1963م، ج1،ص580،رقم:2202۔ Muḥammad bin Aḥmad, Myzan al ʼetidal fi naqd al rijal, (Beirut: Dār al ma‘rifa le al ṭiba‘at wa al nahsar, 1963), 1:580, No.:2202
  14. الطبرانی،سلیمان بن احمد بن ایوب،مسند الشامیین،تحقیق: حمد بن عبد الحمید،مؤسسۃ الرسالہ،بیروت،1405ھ/1984 م،ج2، ص273،رقم:1327۔ص Suleman bin Aḥmad, Musnad al Shamiyyain, (Beirut: Muassissat al Risalah, 1984), 2:273, No.:1327
  15. الکنانی، ابن عراق علی بن محمد ،تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الأخبار الشنیعۃ الموضوعۃ،تحقیق: عبد الوھاب عبد اللطیف ،عبد اللہ محمد الصدیق الغماری، دار الکتب العلمیہ،بیروت،1402ھ/1981م،ج2 ص116،رقم:100؛ العجلونی،اسماعیل بن محمد،کشف الخفاء و مزیل الالباس عما اشتہر من الأحادیث علی ألسنۃ الناس ،دار الکتب العلمیہ ،بیروت ، 1988م،ج2 ،ص134،رقم:2541۔ ‘Alibin Muḥammad, Ibn e ‘eraq, Tanzyh al shary‘ah, (Beirut: Dār al kutub al ‘ilmiyyah, 1981), 2:110, No.:100 ʼisma‘iel bin Muḥammad, Kshf al Khifaʼ (Beirut: Dār al kutub al ‘ilmiyyah, 1988), 2:134, No.:2541
  16. ابن عراق،تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ،ج2،ص116۔ Ibn e ‘eraq, Tanzyh al shary‘ah, 2:116
  17. ابن الجوزی،جمال الدین عبد الرحمٰن بن علی بن محمد ،العلل المتناہیۃ فی الأحادیث الواہیۃ،تحقیق: ارشاد الحق الأثری،ادارۃ العلوم الأثریہ، فیصل آباد،پاکستان،1401ھ/1981م،ج1،ص406،رقم:682۔ ‘Abd al Raḥman bin ‘ali, Al ‘elal al mutanahiyyah fi al aḥadith al wahiyyah, (Pakistan: ʼeDārat al ʼuloom al athriyyah, Fysal ābad, 1981), 1:406, No.:682
  18. الشوکانی،محمد بن علی،الفوائد المجموعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ،تحقیق: عبد الرحمٰن یحییٰ المعلی،المکتب الاسلامی،بیروت، 1407ھ /1986م، ج1،ص26،رقم:39۔ Muḥammad bin ‘ali, Al Fawaʼid al majmo‘ah fi al aḥadith al mawḍo‘ah, (Beirut: Al Maktab al islamy, 1986), 1:26, No.:39
  19. ابن الجوزی،العلل المتناہیۃ،ج1،ص406، رقم:681۔ Ibn e Jawzi, Al ‘elal al mutanahiyyah, 1:406, No.:681
  20. الرازی،مفاتیح الغیب،ج 16 ص 42۔ Al Rāzi, Mafatyḥ al ghayb, 16:42
  21. الہیثمی،نورالدین علی بن ابی بکر،مجمع الفوائد و منبع الزوائد،دار الفکر،بیروت،1412ھ/1992م،کتاب فضائل الصیام ،باب صیام یوم عرفہ،رقم: 5144؛الطبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب،المعجم الصغیر،تحقیق: محمد شکور،المکتب الاسلامی،دار عمار،بیروت،عمان،1405ھ/ 1985م، ج2،ص162،رقم:963۔ Nor al Din ‘Alibin ʼaby Bakar, Majma‘ al Fawaʼid, (Beirut: Dār al Beirut: Dār al Fikar, 1992), No.:5144 Suleman bin Aḥmad, Al Mu‘jam al ṣaghyr, (Beirut: Al Maktab al islamy, 1985). 2:162, No.:963
  22. الذہبی،میزان الاعتدال،ج4،ص320،رقم: 9294۔ Al dhahby, Meyzan al ʼetidal,4:320, No.:9294
  23. ابن عدی،ابو أحمد بن عدی الجرجانی،الکامل فی ضعفاء الرجال،تحقیق: عادل احمد عبد الموجود،علی محمد معوض،الکتب العلمیہ،بیروت،لبنان، 1418 ھ /1997 م،ج4،ص309،رقم:766۔ Abu Aḥmad bin ‘Adi, Al Kamil fi ḍu‘afa al rijal, (Beirut: Dār al kutub al ‘ilmiyyah, 1997), 4:309, No.:766
  24. ابن حبان، محمد بن حبان،المجروحین من المحدثین و الضعفاء والمتروکین،تحقیق: محمود ابراہیم زاہد،دار الوعی ،حلب،1396ھ، ج2، ص231،رقم:906۔ Muḥammad bin Ḥabban, Al Majroḥyn min al Muḥadethyn, (Ḥalb (Aleppo) : Dār al w‘aʼ, 1396), 2:231, No.:906
  25. الرازی، مفاتیح الغیب،ج16،ص78؛البیہقی،أحمد بن الحسین،شعب الایمان، مکتبۃ الرشد للنشر و التوضیع،ریاض، 1423ھ/ 2003م، ج11،ص306،رقم: 8573۔ Al Rāzi, Mafatyḥ al ghayb, 16:78 Aḥmad bin al Ḥusain, Shu‘ab al ʼeyman, (Riyaḍ: Maktabah al Rushd, 2003), 11:306, No.:8573
  26. القضاعی، محمد بن سلامہ،مسند الشہاب،تحقیق: حمدی بن عبد الحمید سلفی،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت،1402ھ/1986 م،ج1، ص350، رقم:8573۔ Muḥammad bin Salamah, Musnad al shyhab, (Beirut: Muassissat al Risalah, 1986), 1:350, No.:8573
  27. الأصبہانی ،ابو نعیم أحمد بن عبد اللہ بن أحمد،حلیۃ الأولیاء و طبقات الأصفیاء،دار الکتاب العربی، بیروت، 1405ھ/1984م، ج4، ص121۔ Aḥmad bin ‘Abd allah , Ṭabaqat al aṣfiyaʼ ,(Beirut: Dār al kitab al ‘Arabi, 1984), 4:121
  28. الفتنی،محمد طاہر بن علی، تذکرۃ الموضوعات، ادارۃ الطباعۃ المنیریہ،1343ھ،ص68۔ Muḥammad Ṭahir bin ‘Ali, Tadhkirat al Mawḍu‘at, (ʼeDārat al ṭiba‘ah al munyriyyah, 1343), 68
  29. ابن ا لجوزی،العلل المتناھیہ،ج2،ص30،رقم:861؛ابن الجوزی،عبد الرحمٰن بن علی،الضعفاء والمتروکون،تحقیق: عبد اللہ القاضی، دار الکتب العلمیہ، بیروت،1406ھ،ج1،ص111،رقم:367،ابن عدی،الکامل فی ضعفاء الرجال،ج3،ص98،رقم:445؛ ابن حبان، المجروحین من المحدثین و الضعفاء والمتروکین،ج1،ص128،رقم:47۔ Ibn e Jawzi, Al ‘elal al mutanahiyyah, 2:30, No.: 861 ‘Abd al Raḥman bin ‘ali, Al ḍu‘afaʼ wa al matrokon, (Beirut: Dār al kutub al ‘ilmiyyah, 1406), 1:111, No.:367 Abu Aḥmad bin ‘Adi, Al Kamil fi ḍu‘afa al rijal, 3:98, No.:445 Muḥammad bin Ḥabban, Al Majroḥyn min al Muḥadethyn,1:128, No.:47
  30. الرازی،مفاتیح الغیب،ج16،ص80۔ Al Rāzi, Mafatyḥ al ghayb, 16:80
  31. البیہقی،شعب الایمان،ج12،ص192،رقم:9264؛القضاعی،مسند الشہاب،ج1،ص127،رقم:159ابن الجوزی، الضعفاء والمتروکون،ج2،ص166،رقم:2255؛ابن حبان، محمد بن حبان،الثقات،دائرۃ المعارف العثمانیہ،حیدر آباد دکن، ہند،1393 ھ/9173م،ج8،ص508،رقم:14719؛العسقلانی،لسان المیزان،ج4،ص128،رقم:286۔ Al Bayhaqy, Shu‘ab al ʼeyman, 12:192, No.:9264 Al Qaḍa‘ey, Musnad al shehab, 1:127, No.:159 Ibn e al Jawzi, Al ḍu‘afa wa al matrukoon, 2:166, No.:2255 Muḥammad bin Ḥabban, Al Thiqat, (India: Daʼerah al M‘arif al uthmaniyyah, 1973), 8:508, No.:14719 Al ‘asqalany, Lesan al Meyzan, 4:128, No.:286
  32. ابن ابی حاتم،الجرح والتعدیل،ج9،ص252،رقم:1053؛ابن حبان،الجروحین،ج2،ص448،رقم:1175۔ Ibn e ʼaby Ḥatim, Al Jaraḥ wa al ta‘dyl, 9:252, No.:1053 Ibn e Ḥabban, Al Majroheyn, 2:448, No.:1175
  33. الرازی،مفاتیح الغیب،ج16 ص101۔ Al Rāzi, Mafatyḥ al ghayb, 16:80
  34. التوبہ:72۔ Surah al Tawbah, 72
  35. الطبرانی،ابو القاسم سلیمان بن احمد،المعجم الأوسط،تحقیق: طارق بن عوض اللہ،عبد المحسن بن ابراہیم،دار الحرمین ،قاہرہ، 1415ھ/ 1994م، ج5،ص120،رقم:4849۔ Suleman bin Aḥmad, Al Mu‘jam al ʼawsaṭ , (Qahirah: Dār al Ḥaramyn), 5:120, No.:4849
  36. ابن حبان،المجروحین،ج1،ص217،رقم:190۔ Ibn e Ḥabban, Al Majroheyn, 1:217, No.:190
  37. ابن الجوزی،عبد الرحمٰن بن علی، الموضوعات،تحقیق:عبد الرحمٰن بن عثمان،مکتبۃ السلفیہ،مدینہ منوّرہ، 1386ھ/1966م، ج3، ص252؛ ابن الجوزی،الضعفاء و المتروکون، ج1،ص169،رقم:657؛ابن عدی،الکامل فی الضعفاء،ج1،ص227،رقم:356۔ Ibn e al Jawzi ‘Abd al Raḥman bin ‘ali, Al Mawḍu‘at, (Saudia: Maktabah Al Salfiyyah, 1966), 3:252 Ibn e al Jawzi, Al ḍu‘afa wa al matrukoon, 1:169, No.:657 Abu Aḥmad bin ‘Adi, Al Kamil fi ḍu‘afa al rijal,1:227, No.:356
  38. ملا علی قاری،نور الدین علی بن محمد،الاسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ،تحقیق: محمد الصباغ،دار الامانۃ،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت، سن نامعلوم،ص155،رقم:65۔ ‘Alibin Muḥammad, Al Asrar al Marfo‘ah, (Beirut: Muassissat al Beirut: Muassissat al Risalah,) 155, No.:65
  39. السخاوی،محمد بن عبد الرحمٰن،المقاصد الحسنۃ فی بیان کثیر من الأحادیث المشتہرۃ علی الأسنۃ،تحقیق: محمد عثمان،دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان،1405ھ/1985م ،ج1،ص162،رقم:178؛الزرکشی،بدر الدین محمد بن عبد اللہ،التذکرۃ فی الأحادیث المشتہرۃ،دار الکتب العلمیہ،بیروت،لبنان،1406ھ/1986م،ج1،ص70۔ Muḥammad bin ‘Abd al Raḥman, Al Mqaṣid al Ḥasanah, (Beirut: Dār al kitab al ‘Arabi, 1985), 1:162, No.:178 Muḥammad bin ‘Abd allah, Al Zarkashy, Al Tadhkirah fi al aḥadith al mushtahirah, (Beirut: Dār al kutub al ‘ilmiyyah, 19896), 1:70
  40. البخاری،محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح (صحیح البخاری)،تحقیق: محمد زہیر بن ناصر،دار طوق النجاۃ،بیروت،1422ھ/2003م،کتاب المغازی،باب علی بن ابی طالبؓ،رقم:4094؛ امام مسلم،مسلم بن الحجاج القشیری،الجامع الصحیح(صحیح مسلم)،تحقیق: محمد فواد عبد الباقی،دار احیاء التراث العربی،بیروت،سن نامعلوم،کتاب الزکوٰۃ،باب ذکر الخوارج وصفاتھم،رقم:2500۔ Muḥammad bin ʼisma‘iel, Al jame‘ al ṣaḥyḥ al Bukhary , (Beirut: Dār Ṭawq al Najah, 2003), No.:4094 Muslim bin al Ḥajjaj, Al jame‘ al ṣaḥyḥ Muslim, (Beirut: Dār ʼiḥya al turath al ‘Arabi ), No.:2500
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...