Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Journal of Islamic and Religious Studies > Volume 4 Issue 1 of Journal of Islamic and Religious Studies

کتاب شرف المصطفی اور الشفا میں رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے اعلام و دلائل کا تجزیاتی مطالعہ |
Journal of Islamic and Religious Studies
Journal of Islamic and Religious Studies

تمہید

روحانیت کے درجات ومراتب میں سب سے افضل ترین مقام و مرتبہ نبوت و رسالت کا ہے جس میں انسان خالق کائنات سے براہ ِراست فیض اورعلم حاصل کرتا ہےاور پھر اس نور اور روشنی سے دیگر انسانوں کے قلوب کو منور کرتا ہے۔ یقینا یہ ایک غیر معمولی دعویٰ ہے جو نبی اور رسول کرتا ہےاور بدیہی طور پر اس کا متقاضی ہے کہ اس کے لئے مضبوط دلائل پیش کئے جائیں؛ اسی لئے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے تمام انبیاء علیھم السلام کو ایسی خصوصی صفات و امتیازات، نشانیوں اور دلیلوں سے نواز ا جاتا ہے جن سے واضح طور پرعقل سلیم رکھنے والے ان کی نبوت کی معرفت حاصل کرلیتے ہیں یہی"دلائل و اعلام نبوت" ہیں جن میں سے اعلیٰ ترین نشانی کا نام" معجزہ" ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ تمام انبیاء علیھم السلام کو ضرور عطا فرماتے ہیں۔

 

سیرت طیبہ کےمصادر کی ایک قسم " کتب دلائل اور اعلام نبوت" کہلاتی ہے جن میں محمدﷺکی نبوت کی نشانیا ں تحریر کی جاتی ہیں اورمختلف دلیلوں سےنبوت ورسالت کو ثابت کیاجاتا ہے ۔ امام ابو سعد الخرکوشیؒ [1]اورقاضی عیاض [2] کی کتابیں رسول اللہ ﷺکے شرف، عظمت اور حقوق کے حوالے سےتو مشہور ہیں لیکن ان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اعلام اور دلائل کابھی کافی مواد موجود ہے، یہی اس مقالے کا موضوع ہے۔

 

مقالہ کا بنیادی سوال

شرف المصطفی اور الشفا میں اللہ کے رسول محمدﷺ کی نبوت و رسالت کی کیا کیا نشانیاں اور دلائل مذکور ہیں ؟ اور عصر حاضر میں ان کی اہمیت وافادیت کیا ہے؟

 

سابقہ کام کا جائزہ

ان دونوں کتابوں کے منہج اور مؤلفین پر سیرت نگاروں کی حیثیت سے کام ہوا ہے لیکن خاص اس موضوع اور بطور کتب دلائل و اعلام ان پر سابقہ کوئی کام نہیں ہے۔

 

مقالہ کا اسلوب

مقالہ میں بیانیہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے اور ضرورت کے مطابق تحقیق، تخریج اور تجزیہ شامل ہے۔ آخر میں نتائج اور سفارشات ذکر کی گئی ہیں۔

 

اعلام كا مفہوم

ابن منظور تحریر کرتے ہیں:

 

"والعَلَمُ: شَيْءٌ يُنْصَب فِي الفَلَوات تَهْتَدِي بِهِ الضالَّةُ. . . . والعَلَمُ: العَلامةُ. وَالْجَمْعُ أَعْلامٌ وعِلامٌ. "[3]

 

"العَلَمُ: وہ چیز جو صحراؤں میں گاڑھی جاتی ہے جس سے راستہ بھٹکنےوالے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ نشانی۔ اس کی جمع "اَعْلامٌ اور عِلامٌ. "ہے۔"

 

دلائل کا مفہوم

محمد بن ابی بکر الرازیؒتحریر کرتے ہیں:

 

"و (الدَّلِيلُ) : مَا يُسْتَدَلُّ بِهِ. وَقَدْ (دَلَّهُ) عَلَى الطَّرِيقِ يَدُلُّهُ بِالضَّمِّ (دَلَالَةً) بِفَتْحِ الدَّالِ وَكَسْرِهَا وَ (دُلُولَةً) بِالضَّمِّ، وَالْفَتْحُ أَعْلَى. "[4]

 

"دَلِيل: ہر وہ چیز جس سے استدلال کیا جائے اور اسے دلیل بنایا جائے۔ (دَلَّ، يَدُلُّ) باب نصر سے اس کامعنی ہے: راستہ بتانا اور راہنمائی کرنا۔ اس کا مصدر (دَلَالَةً) فتحہ وکسرہ دونوں کے ساتھ منقول ہے لیکن فتحہ اولی ہے اور ضمہ کے ساتھ (دُلُولَةً) بھی مستعمل ہے۔"

 

لسان العرب اورمعجم المعانی الجامع میں تحریرہے:

 

"والدَّلِيل: اسم وَالْجَمْعُ أدِلَّة وأدِلَّاء ودلائلُ. وَالمرشد. والجمع: أدِلَّة، وأدِلاَّء، برهانٌ، بيِّنة، حجّة، شاهد، علامة. "[5]

 

"دَلِيل اسم ہے اور اس کی جمع "أدِلَّة، ادِلَّاء اور دلائل" آتی ہے۔ مرشد اور رہبرکے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جمع"ادِلَّة و ادِلاَّء" ہے۔حجت،   گواہ اور نشانی کو بھی دلیل کہا جاتا ہے۔ "

 

علامہ جرجاني ؒ اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 

"الدَّلِيلُ هو الذي يلزم من العلم به العلم بشيء آخر"[6]

 

"جس کےجاننے سے دوسری چیز کا جاننا لازم آتا ہو"

 

المعجم الوسيط میں ہے:

 

" (الدَّلالة) الإرشاد وما يقتضيه اللفظ عند إطلاقه، [ ج ] دَلائل ودلالات"[7]

 

"دَلَالَة: راہنمائی کرنا، عند الاطلاق لفظ کی مراد، اس کی جمع "دلائل اور دلالات" ہے۔"

 

جبکہ علامہ جرجاني تحریر کرتے ہیں:

 

"الدلالة: هي كون الشيء بحالة يلزم. . . والشيء الأول هو الدال، والثاني هو المدلول. "[8]

 

"دلالت کہتے ہیں کسی چیز کاایسے طریقے پر ہونا کہ اس کے جاننے سے دوسری چیز کاعلم حاصل ہوجائے۔ پہلی چیز کو "الدال" اور دوسری کو "المدلول" کہتے ہیں۔"

 

دلائل النبوۃ کا مفہوم

شيخ الاسلام ابن تيمیہؒ "آيات الانبياء" (دلائل النبوة) کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

 

"وهي الأدلة والعلامات المستلزمة لصدقهم، والدليل لا يكون إلاَّ مستلزما للمدلول عليه مختصاً به، لا يكون مشتركاً بينه وبين غيره؛ فإنّه يلزم من تحقّقه تحقّق المدلول وإذا انتفى المدلول انتفى هو. . . . فما وُجد مع النبوّة تارةً، ومع عدم النبوّة تارةً، لم يكن دليلاً على النبوّة، . . . "[9]

 

"اس سےمراد وہ نشانیاں اور دلیلیں ہیں جن سےانبیاء کرام علیہم السلام کا سچا ہونا لازم آتا ہےاور یہ اسی وقت ہوگا جب دلیل اپنے مدلول علیہ کے ساتھ مختص ہو کسی دوسرے کے ساتھ مشترک نہ ہوکہ جب بھی دلیل پائی جائے تومدلول بھی پایا جائےاور مدلول نہ ہو تو دلیل بھی باقی نہ رہے۔پس جو مدلول کی غیر موجودگی میں بھی پائی جائے وہ دلیل نہ ہوگی، اس لئے جودلیل کبھی نبوت کے ساتھ پائی جائے اور کبھی نہ پائی جائے تو وہ نبوت پر دلیل نہ ہوگی۔"

 

شيخ الاسلام ابن تيمیہؒ دوسری جگہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئےتحریرفرماتے ہیں:

 

"وَالْآيَاتُ وَالْبَرَاهِينُ الدَّالَّةُ عَلَى نُبُوَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ كَثِيرَةٌ مُتَنَوِّعَةٌ. . . وَيُسَمِّيهَا مَنْ يُسَمِّيهَا مِنَ النُّظَّارِ (مُعْجِزَاتٍ) . . . وَهَذِهِ الْأَلْفَاظُ إِذَا سُمِّيَتْ بِهَا آيَاتُ الْأَنْبِيَاءِ، كَانَتْ أَدَلَّ عَلَى الْمَقْصُودِ مِنْ لَفْظِ الْمُعْجِزَاتِ. . . "  [10]

 

"محمدﷺ کی نبوت پردلالت کرنے والی نشانیاں اور دلائل بہت زیادہ اور متنوع ہیں، متکلمین انہیں معجزات کانام دیتے ہیں لیکن مقصود پر زیادہ صحیح دلالت کرنے والا نام "آيَاتُ الْأَنْبِيَاء" ہےکیونکہ قرآن و سنت میں اس کے لئے "الْآيَةِ، الْبَيِّنَةِ" اور "الْبُرْهَانِ" کے کلمات وارد ہوئے ہیں۔"

 

اس اقتباس سے معلوم ہوا کہ شيخ الاسلام ابن تيمیہؒ کے نزدیک "دلائل النبوَّة، اعلام النبوَّة اور المعجزات"  ان سب سے بہتر وہ نام ہیں جوخود صاحب شریعت نے استعمال کئے ہیں، لیکن متکلمین کے نزدیک معجزہ کی اصطلاح سےمراد ایک خاص قسم کی نشانی ہے جبکہ دلائل و اعلام سے ان کی مراد وہ تمام اعزازات، براہین، اخبار اور واقعات ہیں جو محمدﷺکی نبوت کی صحت اورصداقت پر دلالت کرتے ہیں اگرچہ وہ معجزہ اورخارق عادت نہ ہوں ۔

 

دلائل النبوۃ اور معجزات میں فرق

ابن حجرؒ تحریرکرتے ہیں:

 

"الْعَلَامَاتُ جَمْعُ عَلَامَةٍ وَعَبَّرَ بِهَا الْمُصَنِّفُ لِكَوْنِ مَا يُورِدُهُ مِنْ ذَلِكَ أَعَمَّ مِنَ الْمُعْجِزَةِ وَالْكَرَامَةِ وَالْفَرْقُ بَيْنَهُمَا أَنَّ الْمُعْجِزَةَ أَخَصُّ لِأَنَّهُ يُشْتَرَطُ فِيهَا أَن يتحدى النَّبِي مَنْ يُكَذِّبُهُ. . . وَيُشْتَرَطُ أَنْ يَكُونَ الْمُتَحَدَّى بِهِ مِمَّا يَعْجَزُ عَنْهُ الْبَشَرُ فِي الْعَادَةِ الْمُسْتَمِرَّةِ. . . وَسميت المعجزة لِعَجْزِ مَنْ يَقَعُ عِنْدَهُمْ ذَلِكَ عَنْ مُعَارَضَتِهَا"[11]

 

"علامات "علامة" کی جمع ہےاور مصنفؒ نے یہ تعبیراس لئے اختیار کی ہے کہ یہ معجزہ اور کرامت سے زیادہ عام ہے ۔ ان میں فرق یہ ہے کہ معجزہ خاص ہے جس میں اپنے جھٹلانے والے کو چیلنج کرنا، خارق عادت ہونااور معارضہ کا ناممکن ہونا شرط ہے، اسی لئے اس کا نام معجزہ رکھا گیا۔"

 

اس اقتباس سے یہ معلوم ہوا کہ معجزہ کے لئے کم از کم تین شرائط ضروری ہیں: # وہ امرخارق عادت اور سنن کونیہ وطبیعیہ کے خلاف ہو۔

  1. اس امر کے ساتھ مخاطب کو چیلنج کیا گیا ہو ۔
  1. اس امر کامعارضہ اور مقابلہ کرنا ناممکن ہو۔

 

 

 

ان تینوں میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہوئی تو وہ معجزہ ہر گز نہیں کہلاسکتا لیکن دلیل اور نشانی بن سکتا ہے کیونکہ دلیل ِ نبوت عام ہے اورصرف معجزات میں محصور نہیں، یہی بات ابن ابی العزحنفی ؒ نے بھی کہی ہے۔[12]

 

محمدﷺ کی نبوت کے اعلام و دلائل

تمام انبیاء و رسل میں اعلی، افضل ا ور اکمل مقام سرور کونین ﷺ کو حاصل ہے جن کی نبوت کی صداقت اور افضلیت کے دلائل و اعلام بے شمار ہیں جو محدثین، مؤرخین اور علماء سیرنے بیان کئے ہیں اور اسی نام سے مستقل کتابیں تحریر فرمائی ہیں ۔ امام ابو سعد الخرکوشیؒ اور قاضی عیاضؒ نے اسی اہمیت کی خاطر اپنی کتابوں میں خصوصیت کے ساتھ ان کو ذکر فرمایا ہے، جن میں سے چند نمایاں ترین درجِ ذیل ہیں: == حسن وجمال نبویﷺ ==

 

قاضی عیاض ؒ فرماتے ہیں آپﷺکے حسن وجمال کاتذکرہ بے شمار احادیث میں ہے جن کی صحت میں کلام نہیں بلکہ بعض اخبار توصحت سے قطعیت بلکہ حق الیقین کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔سرور عالمﷺ کے حسن وجمال اورتناسب ِ اعضاء کے بیان میں آثار ِ صحیحہ کثیرہ مشہورہ واردہیں۔ ایسی احادیث حضرت علی کرم اللہ وجہہ، ام معبد الخزاعیہؓ، ابن ابی ہالہؓ، انس بن مالکؓ، البراء بن عازبؓ اوردیگر کئی صحابہ کرام ؓ﷡سے مروی ہیں جن کا ماحصل پیش ہے:

 

آقائے دوعالمﷺ کارنگ اجلاتھا۔ آنکھیں سیاہ، گہری اورقدرے سرخی مائل تھیں ۔ رنگ ایساسفید تھا جوسرخی کی جانب مائل ہو۔ پلکیں لمبی تھیں ۔دونوں حاجب (بھنویں) جدااورلمبائی میں ان پر باریک بال تھے، ناک مبارک لمبی اورمنور تھی، سامنے والے دانت ایک دوسرے سے جداتھے ۔ چہرہ مبارک کسی قدر گول، پیشانی کشادہ، ریش مبارک بھاری جوسینہ اقدس کو ڈھانپ لیتی تھی۔ سینہ بے کینہ اورشکم مبارک برابررہتے تھے۔ صدرانور کشادہ اوربڑے جوڑ موٹے تھے۔ بازو، کلائیاں اورپنڈلیاں بھاری، ہاتھ پیروں کی انگلیاں موٹی اورلمبی تھیں۔ جسم پربال بہت کم تھے، سینہ مبارک سے ناف مبارک تک بالوں کی ہلکی سی دھاری تھی۔[13]

 

فخرکون ومکان کاہنسناتبسم فرماناتھا، جب کسی کی طرف توجہ فرماتے تو پورےبدن مبارک کےساتھ متوجہ ہوتے۔کملی والےکی زلفیں شکن دار تھیں۔ جب تبسم فرماتے توبجلی کی روشنی یابادلوں کی چمک کی مانند دہن مبارک کھلتا ۔ جب کلام فرماتے تو سامنے والے اوپر اورنیچے کے دندان مبارک سے نور کی شعاؤں کے چشمے پھوٹ نکلتے تھے ۔ گردن حسین ترین تھی جوزیادہ لمبی اور نہ بہت چھوٹی تھی، چہرہ انور بالکل گول نہ تھا اور نہ ہی جسم اطہرزیادہ فربہ بلکہ پھر تیلا اورکم گوشت والا تھا۔ [14]

 

حضرت علی  آپؐ کایوں تذکرہ کرتےہیں:

 

". . . يَقُول نَاعِتُهُ: لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ "[15]

 

". . . حضورؐ کی صفت بیان کرنے والاصرف یہی کہہ سکتاہے: میری (آنکھوں) نے ایسا باجمال وباکمال نہ ان سے پہلے دیکھا اور نہ ان کےبعد ۔"

 

جسمانی محاسن، کمالات و امتیازات

ا ـ سامنے اور پیچھے سے دیکھنا

قاضی عیاض ؒ نے حضر ت مجاہد تابعی ؒ کی یہ مرسل خبر ذکر کی ہے کہ جب رسول خدا نماز کے لئے کھڑے ہوتے توجس طرح آگے کی چیزوں کو دیکھتے تھے پیچھے کی چیزیں بھی اسی طرح آپ کونظر آتی تھیں اور ارشادباری تعالیٰ "وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ"[16] کی تفسیر بھی یہی بیان کی گئی ہے۔[17]

 

صحیح بخاری ؒ میں حضرت انس ﷛سے مروی ہے:

 

"إِنِّي لَأَرَاكُمْ مِنْ وَرَائِي كَمَا أَرَاكُمْ"[18]

 

"میں تمہیں پیچھے سے بھی ایسے دیکھتا ہوں جیسے آگے سے دیکھتا ہوں۔"

 

ب ـ بے پناہ قوت وطاقت

رسول کریمﷺکی قوت و طاقت کے حوالہ سے قاضی عیا ض ؒ فرماتے ہیں:

 

"وَقَدْ جَاءَتِ الأَخْبَارُ بِأنَّهُ صَرَعَ رُكَانَةَ أَشَدَّ أَهْلِ وَقْتِهِ" [19]

 

"یہ بھی احادیث میں آیاہے کہ آپ ﷺ نے رُكَانَۃ کوپچھاڑا، جواپنے وقت کا زبردست پہلوان تھا۔"

 

اس روایت سے یہ ثابت ہوتاہےکہ محبوب خدانے کشتی فرمائی اور اپنے طاقتور ترین حریف پر غلبہ حاصل کیا جو ان کی نبوت کی علامت ہے۔

 

ج ـ تیز رفتارچال

حضرت ابوہریرہ ؓ ﷛فرماتے ہیں:

 

"مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَسْرَعَ فِي مِشْيَتِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَأَنَّمَا الْأَرْضُ تُطْوَى لَه إِنَّا لَنُجْهِدُ أَنْفُسَنَا وَإِنَّهُ لَغَيْرُ مُكْتَرِثٍ" [20]

 

"میں نے رسول اکرم ﷺ سےزیادہ تیز چلتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا گویا زمین ان کے واسطے لپٹی جاتی تھی (کہ ابھی چند منٹ ہوئے یہاں تھے اورابھی وہاں) ۔ ہم ساتھ چلتے وقت مشقت اور دشواری سے ان کی رفتار کو پہنچتے جبکہ وہ بے پرواہی سے اپنی عام چال چلتے تھے ۔"

 

د ـ لمبا اور اونچا نظر آنا

آنحضرتﷺکا قد مبارک میانہ تھا یعنی نہ بہت لمبے تھے اورنہ پست قد لیکن لمبے قدوالا آدمی بھی اگر آپ کے ساتھ چلتا تو دیکھنے والے کوآپ ہی اونچے محسوس ہوتے تھے ۔ ابو ہریرہ فرماتے ہیں:

 

"ما مشي رسول الله صلى الله عليه وسلم مع أحد إلا طاله"[21]

 

" جو کوئی بھی معیت میں چلتا تو آپ ﷺ اس سے زیادہ طویل نظر آتے تھے۔"

 

ھ ـ رعب ودبدبہ

حضرت علی سرور کائناتﷺ کے رعب و دبدبہ کے متعلق فرماتے ہیں:

 

" مَنْ رَآهُ بَدِيهَةً هَابَهُ، وَمَنْ خَالَطَهُ مَعْرِفَةً أَحَبَّهُ"[22]

 

" جو شخص آقا علیہ السلام کو اچانک دیکھتا مرعُوب ہوجاتا تھا (یعنی وقار، رعب اور دبدبہ اتنا زیادہ تھا کہ پہلی نظر میں دیکھنے والا رُعب کی وجہ سے ہیبت میں آجاتا تھا) ، اور جس شخص کی شناسائی ہوجاتی اور گھل مل جاتا تھا تو وہ اپنامحبوب بنالیتاتھا"۔

 

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حبیب کوجس ہیبت اوررعب ودبدبے سے نوازاتھااسی کااظہار حضرت ابوہریرہ کی اس صحیح حدیث میں بھی ہے:

 

" فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍ: . . . وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ"[23]

 

رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے: "مجھے باقی سب انبیاء پر چھ چیزوں میں برتری وفضیلت سے نوازا گیا ہے. . . اورمیر ی مدد رعب اوردبدبے سے کی گئی ہے ۔"

 

و ـ جسم اطہرسے خوشبو آنا

قاضی عیاض ؒ نے فخرِ کونین کےجسم اطہر کی نظافت او ر پاکیزگی اورپسینے کی خوشبو کے حوالے سے بہت سے خصائص ذکر کئے ہیں ۔وہ حضرت انس  سے درج ذیل حدیث نقل کرتے ہیں:

 

". . . وَلَا شَمِمْتُ مِسْكَةً وَلَا عَنْبَرَةً أَطْيَبَ مِنْ رَائِحَةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ" [24]

 

". . . اور میں نے اللہ کے پیغمبر کے جسم مطہر کی خوشبو سے زیادہ عمدہ اور بہترین کسی مشک و عنبر کی خوشبو کو بھی نہیں پایا۔"

 

علامہ ابن حجرؒ حدیث کی شرح کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں "شَمِمْتُ"کے لفظ کو پہلے میم کے کسرہ اور فتحہ دونوں طرح پڑھنا درست ہے جبکہ دوسرا میم ساکن ہے ۔[25]

 

امام ابو سعد خرکوشی ؒنے جسم اطہر کےپسینہ اور بہترین خوشبو کے بارے میں پوری ایک فصل قائم کی ہے جس کا عنوان ہے: "فصل: ذكر الآية في عرقه، وما جاء في طيب ريحه (صلى الله عليه وسلم) "[26] اس فصل میں انہوں نے حضرت انس بن مالكؓ، جابر بن عبد اللہ اور جابر بن سمرة  سے احادیث نقل کی ہیں۔== اعلی واشرف حسب ونسب ==

 

تمام انبیاء علیھم السلام اپنے معاشرہ کے سب سے زیادہ شریف النسب لوگ ہوتے ہیں اور آ پ ﷺتو پوری انسانیت میں سب سے اشرف و اعلیٰ نسب کے مالک ہیں جس کا تذکرہ خود رسول اللہﷺنے کئی احادیث میں کیاہے۔

 

حضرت عباس ﷛سے روایت ہے کہ نبیءکریم ﷺنے فرمایا:

 

" إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الخَلْقَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِهِمْ. . .، فَأَنَا خَيْرُهُمْ نَفْسًا، وَخَيْرُهُمْ بَيْتًا"[27]

 

"بے شک اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدافرمایاتومجھےبہترین لوگوں اوربہترین جماعت میں پیدا فرمایا۔۔۔، پس میں ذاتی طور پر اورگھر و خاندان کے اعتبار سے سب لوگوں میں اعلی و ارفع اور افضل ہوں۔"

 

حضرت واثلۃؓ بن اسقع ﷛ سے یہ صحیح حدیث مروی ہے:

 

"إن اللَّهَ اصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِبْرَاهِيمَ إِسْمَاعِيلَ وَاصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ بَنِي كِنَانَةَ وَاصْطَفَى مِنْ بَنِي كِنَانَةَ قُرَيْشًا وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ"[28]

 

"بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کی اولاد میں سے حضرت اسماعیلؑ کوچنااوران کی نسل سے بنی کنانہ کواور کنانہ کی اولاد سے قریش کو اورقریش میں سے بنی ہاشم کواوربنی ہاشم میں سے مجھے چناہے ۔"

 

حضرت انس ؓ﷛نے آپ ﷺ کا یہ فرمان نقل کیا ہے:

 

"أَنَا أَكْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلَى رَبِّي وَلَا فَخْرَ" [29]

 

"میں اپنے رب کے نزدیک تمام بنی آدم سے بڑھ کرعزت و تکریم والا ہوں اور میں اس پر فخر نہیں کرتا ۔"

 

نسب اطہر میں حضرت آدم ؑسے شروع ہوکرحضورؐکے والد گرامی تک سب ہی آپس میں شرعی و قانونی رشتۂ ازدواج میں منسلک تھے اور کسی کا بھی نا جائز تعلق نہیں تھا، یہی اس فرمان نبوی کا مفہوم ہے:

 

"وُلِدْت مِنْ نِكَاحٍ لَا مِنْ سِفَاحٍ لَمْ يُصِبْنِي مِنْ نِكَاحِ الْجَاهِلِيَّةِ شَيْءٌ"[30]== مکارم اخلاق ==

 

تمام انبیاء علیھم السلام اعلیٰ و ارفع اخلاق کے مالک ہوتے ہیں لیکن حضورﷺ کا تو اعلیٰ ترین وصف ہی مکارم اخلاق کا حامل ہونا ہے، قاضی عیاض ؒ فرماتے ہیں:

 

"وَهِيَ الَّتِي جِمَاعُهَا: حُسْنُ الْخُلُقِ"[31]

 

"تمام صفات حسنۃ اور جملہ خوبیوں کا جامع حُسنِ خُلُق ہے۔"

 

اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی اسی صفت سے تعریف فرماتے ہوئے ارشادفرمایا:

 

"وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ"[32]

 

"اور بلاشبہ آپﷺعظیم اخلاق کے اعلی درجے پرفائز ہیں۔"

 

اور خود رسول کریمﷺ نے اپنے متعلق فرمایا:

 

"إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ" [33]

 

"مجھےاسی لئے بھیجا گیا ہے کہ میں محاسن اخلاق کی تکمیل کروں۔"

 

قاضی عیاض ؒ محسن انسانیت کےمکارم اخلاق کےمتعلق تحریر فرماتے ہیں:

 

"محمدﷺکےاخلاق کریمانہ کی مکمل آگہی اورعلم اسی ذات اقدس کو ہے جس نے انہیں ان اخلاق فاضلہ سے نوازا، فضیلت بخشی اور آخرت میں آپ ﷺ کوایسے اعلی درجات ومقامات عطا فرمائیں گے جو عقل انسانی سے ماورا ہیں، جہاں ظن وتخمین اور انسانی خیال تک کی رسائی ممکن نہیں۔"[34]== سیرت طیبہ بطور دلیل نبوت ==

 

قاضی عیاض ؒ لکھتےہیں: بلاشبہ رسول اکرمﷺ سب سےزیادہ عقلمند اورذہین وفطین تھے ۔آپ ﷺنےاپنی رسالت کی صداقت پر سیرت طیبہ کو خود بطور دلیل پیش فرمایا، ارشاد ربانی ہے:

 

"فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًامِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ"[35]

 

" آخر اس سے قبل بھی زندگی کا بڑا حصہ میں تمہارے درمیان گذارچکا ہوں۔ کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے ؟"

 

محسن بشریت نے جب اسلام کی دعوت دینا شروع کی تو صورت حال یہ تھی کہ لوگ دیوانہ اور مجنون سمجھ رہے تھے ۔

 

"ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ"[36]

 

"پھر ان سب نے رسول سے منہ پھیر لیا اور کہا (یہ تو) سکھایا ہوا (اور) سودائی ہے۔"

 

لیکن دنیا سے رحلت فرماتے وقت یہی شخصیت جزیرۃ العرب کی بلا منازع مالک و حاکم تھی صرف 23 سال میں آپ ﷺنےعلمی، سیاسی، معاشی، معاشرتی، روحانی اوراخلاقی ہر حوالے سے ایک عظیم انقلاب برپا فرمادیا جو سیرت طیبہ کا عظیم معجزہ ہے ۔

 

قاضی عیاضؒ نےوہب بن منبہ ؒ کا یہ قول نقل کیا ہے:

 

"قَرَأْتُ فِي أَحَدٍ وَسَبْعِينَ كِتَابًا فَوَجَدْتُ فِي جَمِيعِهَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَرْجَحُ النَّاسِ عَقْلًا وأَفْضَلُهُمْ رَأْيًا"[37]

 

"میں نے اکہتر (71) کتابیں پڑھی ہیں سب کے اندر یہی لکھا ہواپایا کہ آپﷺسب انسانوں سےزیادہ عقلمند اور افضل وصائب رائے والے ہیں۔"

 

امام ابن حزمؒ آپ ﷺ کی پاکیزہ زندگی کے متعلق فرماتے ہیں:

 

"فَإِن سيرة مُحَمَّد ﷺ لمن تدبرها تَقْتَضِي تَصْدِيقه ضرورةً. . . فَلَو لم تكن لَهُ معْجزَة غير سيرته ﷺ لكفى وَذَلِكَ أَنه عَلَيْهِ السَّلَام نَشأ كَمَا قُلْنَا فِي بِلَاد الْجَهْل لَا يقْرَأ وَلَا يكْتب. . . "[38]

 

"محمدﷺکی حیات مبارکہ کا جو شخص بغور جائزہ لے گاوہ ضرور آپ کے نبی ہونے کی تصدیق کرے گاکیونکہ سیرت طیبہ اس بات کی شاہد ہے کہ آپ ﷺاللہ تبارک وتعالی کے سچے پیغمبرتھے ۔ اس پاکیزہ زندگی کے سوا اگر کوئی اور معجزہ نہ بھی ہوتا تب بھی سیرت طیبہ بطور معجزہ کافی تھی، کیونکہ آپﷺنےایسی جگہ پرورش پائی اور پروان چڑھے جہاں پڑھنے لکھنے کا تصورنہ تھا ۔"== امیّت علامت نبوت ==

 

نبوت کے دلائل و اعلام میں سے یہ بھی ہے کہ آپ ﷺامی وناخواندہ تھے اور خط وکتابت نہیں جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

 

"وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ"[39]

 

" اور اس سے پہلے آپ کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے داہنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو اہل باطل شک میں پڑجاتے۔"

 

آپ علیہ السلام اس قوم میں پیداہوئےجوتمام کی تمام امی اورناخواندہ تھی اور نشوونمااس شہر اوران لوگوں میں ہوئی جن میں گزشتہ علوم کاجاننے والاکوئی بھی نہ تھااورنہ ہی کسی ایسے شہر کی طرف سفر فرمایاجس میں کوئی عالم ہوتااورآپ ﷺاس سے علم حاصل کرتے اورتوریت، انجیل اورگزشتہ امتوں کے اخبار وحالات جان سکتے لیکن پھر بھی ہرفریق اور جماعت سے ایسی حجت فرمائی کہ اگر جہاں بھرکے تمام عالم ونقاد جمع ہوجاتے توبھی اس کی مثل کوئی دلیل نہ لاسکتے ۔ یہ اس امر پرواضح برہان ہے کہ آنحضرتﷺکے پاس جوکچھ تھا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھاکیونکہ بغیر تعلم واکتساب علم کے حضور ﷺعلم ومعرفت کے جس اعلیٰ مرتبے پرفائز تھے علوم اولین وآخرین اس کے سامنے ہیچ ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے:

 

"هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ"[40]

 

"وہی اللہ ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک پیغمبر کو بھیجا جو ان کے سامنےاس کی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے، ان کو پاکیزہ بناتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، جبکہ وہ قبل اس کے صریح گمراہی میں پڑے تھے۔"

 

اسی طرح یہ حقیقت بھی قابل التفات ہے کہ وہ لوگ جوجہل ونادانی اورفسق وفجور کے اسفل سافلین میں پڑے ہوئے تھے، وہ حضورﷺکی صحبت، تعلیم اورتربیت کی وجہ سے علم وعمل کے اعلیٰ علیین پرپہنچ گئے۔یہ واضح اور روشن دلیل ہے کہ آپ ﷺ اللہ تعالی کے سچے نبی ورسول ہیں۔== سابقہ کتب سماویہ میں تذکرہ ==

 

گذشتہ آسمانی کتابوں میں بھی رسول اللہ ﷺکا تذکرہ موجود ہےجس کی تائید قرآن کریم کی اس آیت کریمہ سے ہوتی ہے:

 

"الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ"[41]

 

"جو اس پڑھنا لکھنا نہ جاننے والے پیغمبر کے پیچھے چلیں گے جس کا ذکر وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پائیں گے۔"

 

امام ابو سعد خرکوشی ؒ نے اس حوالہ سے اپنی کتاب میں جامع ابواب بشائرہﷺمیں دو فصلیں قائم کی ہیں، جس میں اپنی سند کے ساتھ عبد اللہ بن سلام ﷛سے ایک طویل حدیث نقل کی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص أوشا نام کا تھا جوتورات کا بہت بڑا عالم تھاجسےآنحضرتﷺاور ان کی امت کی نعت اور صفات تورات سے معلوم ہوگئی تھیں لیکن اس نے اس وصف کو تورات سے علیحدہ اور جداکرکے اپنےخزانوں میں لوہے کے ایک تابوت میں تالا لگا کر چھپا دیا تھا جسے اس کے بیٹے بلوقیا نے اس کے مرنے کے بعد ظاہر کیا۔[42]

 

اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس ﷟ سے یہ روایت بھی نقل کی ہے:

 

"اللہ تعالی نے حضرت عیسی ؑ کی طرف وحی کی: اے عیسی محمد ﷺپر ایمان لے آؤ اور جو کوئی تمہاری امت میں سے انہیں پائے، اسے بھی حکم دیں کہ وہ حضرت محمد ﷺ پر ایمان لائے، اگر محمد نہ ہوتے تو میں آدم کی تخلیق نہ کرتا اور اگر محمد نہ ہوتے تو میں نہ جنت کو پیدا نہ کرتا اور نہ ہی دوزخ کو ۔"[43]== ارهاصات ==

 

" (رَهَصَ- الرَّهْصُ) الرَّاءُ وَالْهَاءُ وَالصَّادُ أَصْلٌ يَدُلُّ عَلَى ضَغْطٍ وَعَصْرٍ وَثَبَاتٍ. . . شِدَّةُ الْعَصْرِ"[44]

 

"ابن فارس فرماتے ہیں راء، ھاء اور صاد کا مادہ دبانے، سخت نچوڑنے، ثبات اور مضبوطی کے معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ "

 

ابن تیمیہؒ تحریر کرتے ہیں:

 

"الإرهاص هو المقدّمة للشيء. . . والإرهاص اصطلاحاً: ما يَصدُرُ من النبيّ قبل النبوةِ من أمرٍ خارق لِلعادةِ تمهيداً لها"[45]

 

"الإرهاص: وہ چیز جوکسی دوسری چیز کیلئے مقدمہ ہو اور اس کی اطلاع دیتی ہو۔اور اصطلاحاً اس سے مراد وہ انہونے واقعات ہیں جو کسی نبی سے اس کی بعثت سے پہلے نبوت کی تمہید کےطور پرظا ہر ہوتے ہیں۔"

 

علامہ جرجانی ؒ اس کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 

"الإرهاص: إحداث أمرخارق للعادة دال على بعثة نبي قبل بعثته"[46]

 

"اللہ تعالی کی طرف سے نبی کے ظہور سے قبل ایسے انہونےواقعہ کا ظاہرہونا جواس کی بعثت پردلالت کرے۔"

 

امام ابو سعد الخرکوشیؒ لکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺکی بعثت سے قبل بے شمار ایسے واقعات پیش آئے جو اس بات کی علامت اور پیش خیمہ تھے کہ کوئی عظیم واقعہ پیش آنے والا ہے جیسےاصحاب فیل کا واقعہ وغیرہ۔[47] انہوں نے اپنی کتاب" شرف المصطفى" میں حضورﷺ کےدلائل اور نبوت کی علامات پر کئی فصول قائم کی ہیں۔[48]

 

اسی طرح قاضی عیاضؒ نے بھی کئی فصول قائم کی ہیں جن میں آپ ﷺکی نبوت کے دلائل واعلام اور ارہاصات ہیں جو آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ کے وقت ظاہر ہوئے اوروہ عجائب وغرائب بھی ہیں جو رسول اللہﷺ کی والدہ محترمہ اور ان لوگوں سے منقول ہیں جواس مبارک موقعہ پر موجود تھےجن میں صحیح وسقیم دونوں قسم کی روایات ہیں۔[49]== آسمانوں کا شیاطین سے تحفظ ==

 

محمدﷺ کی بعثت سے پہلے جنات اور شیاطین آسمانوں پر آزادانہ آیا جایا کرتے تھےاور وہاں سے کوئی ایک بات سن لیتے جس کے ساتھ نو جھوٹ ملا کر آگے پھیلاتے لیکن آپ ﷺ کی بعثت سے قبل آسمانوں میں تحفظ کے نظام کو زیادہ سخت کر دیا گیا جس سے ان کیلئےاب کوئی بات سننابہت زیادہ دشوار ہو گیا اور اگر کوئی سننے کی کوشش کرتا تو شہابِ ثاقب اس کے تعاقب میں ہوتا۔ اسی کے متعلق سورۃ الجن کی یہ آیت کریمہ ہے:

 

"وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَصَدًا وَأَنَّا لَا نَدْرِي أَشَرٌّ أُرِيدَ بِمَنْ فِي الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدً"[50]

 

"اور بلاشبہ ہم نے آسمان کی تلاشی لینا چاہا تو ہم نے اسے اس حال میں پایا کہ وہ مضبوط چوکیداروں اور شعلوں سے بھرا ہوا ہے۔ اور بے شک ہم پہلے وہاں بہت سی جگہوں میں (خبریں) سننے کے لیے بیٹھا کرتے تھے، اب اگر کوئی سننا چاہے تو اپنےواسطے شعلہ تیار پائے۔ اور یقیناً ہمیں معلوم نہیں کہ اس سے زمین والوں کے حق میں برائی مقصود ہے یا ان کے پروردگار نے ان کی بھلائی کا ارادہ فرمایا ہے۔"

 

اس حوالے سےقاضی عیاض ؒ فرماتے ہیں:

 

"وَمِنْ ذَلِكَ حِرَاسَةُ السَّمَاءَ بِالشُّهُبِ وَقَطْعُ رَصَدِ الشَّيَاطِين وَمَنْعُهُم اسْتِرَاقَ السَّمْعِ"[51]

 

"محمدﷺ کی نبوت کی علامات ودلائل میں سے یہ بھی ہے کہ آسمانوں کی حفا ظت کا نظام آگ کے شعلوں یعنی شہابِ ثاقب کے ذریعہ سخت اور محفوظ کردیا گیا اور شیاطین کا تاک لگاکر گھات میں بیٹھ کر آسمانوں کی باتوں کو چوری چھپے سننے سے روک دیا گیا۔"

 

امام ابو سعد الخرکوشی نےبھی اس بابت پوری ایک فصل قائم کی ہے۔[52] == ختم اور مہر نبوت ==

 

نبوت کی ایک ظاہری علامت اور نشانی یہ بھی تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان "مہرنبوت "تھی ۔ جو آپﷺ کی صداقت اور سچائی پر دلالت کرتی تھی ۔یہ مہرنبوت کیسی تھی، اس کی شکل وصورت کیا تھی اور اس پر کیا تحریر تھا اس کے متعلق احادیث میں مختلف الفاظ وارد ہوئے ہیں ۔ امام بخاریؒ مہر نبوت کےحوالے سےالسائب بن یزید سےروایت کرتے ہیں:

 

"يَقُولُ: ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَى النبي ﷺ، . . . ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ" [53]

 

"میری خالہ مجھے حضور ﷺ کے پاس لے گئیں، ۔۔۔ پھر میں آپ ﷺ کی پشت کی جانب کھڑا ہوا تو میں نے آپ ﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت دیکھی جو "مسہری کی گھنڈیوں" جیسی تھی۔"

 

"امام بخاری ؒ نے آپ ﷺ کی مہر نبوت کو "مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ" کہاہے جس کاترجمہ مولانازکریاکاندھلویؒ نے "مسہری کی گھنڈیوں" (جوکبوتر کے بیضہ کے برابربیضوی شکل میں اس پردے میں لگی ہوئی ہوتی ہے جومسہری پرلٹکایاجاتاہے) سے کیا ہے۔"[54]

 

مہرنبوت کے وصف میں جابر بن سمرۃؓ ﷛سے ایک جملہ "غُدَّةً حَمْرَاءَ مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ "[55] یعنی "سرخ رسولی جیسی (اورمقدار میں) کبوتر کے انڈے جیسی" منقول ہے ۔"

 

اسی کے متعلق مولانا زکریا کاندھلویؒ فرماتے ہیں:

 

"مہر نبوت کی مقدار اور رنگ میں روایتیں کچھ مختلف ہیں۔ قرطبیؒ نے ان میں اس طرح تطبیق دی ہےکہ وہ کم وزیادہ بھی ہو جاتی تھی اور رنگ میں مختلف ہوتی رہتی تھی، [56] بندہ نا چیز کے نزدیک دوسری طرح جمع یہ بھی ممکن ہے کہ فی الحقیقت یہ سب تشبیہات ہیں اور تشبیہ ہر شخص کی اس کے ذہن کے موافق ہوتی ہے جو تقریبی حالت ہوتی ہے اور تقریب کے اختلاف میں اشکال نہیں ہوتا۔بندہ کے نزدیک یہ توجیہ زیادہ مناسب ہے۔"[57]

 

مولانازکریا ؒ کی یہی توجیہ زیادہ مناسب اور صحیح نظر آتی ہے۔== فصاحت وبلاغت ==

 

عرب اپنے مقابلے میں دیگر تمام انسانوں کوعجم (گونگے) کہتے تھے کہ ان کو بولنا نہیں آتا، زبان دانی صرف انہی کی خاصیت ہے اور اس میں بالکل مبالغہ نہیں تھاکیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عرب کا بچہ بچہ فصیح و بلیغ تھا۔

 

قاضی عیاض ؒ آپﷺ کی فصاحت وبلاغت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

 

"وَأَمَّا فَصَاحَةُ اللِّسَانِ وَبَلاغَةُ الْقَوْلِ فَقَدْ كَانَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ بِالْمَحَلِّ الْأَفْضَلِ. . . وَنَصَاعَةَ لَفْظٍ وَجَزَالَةَ قَوْلٍ وَصِحَّةَ مَعَانٍ. . . فَكَانَ يُخَاطِبُ كُلَّ أُمَّةٍ مِنْهَا بِلِسَانِهَا وَيُحاوِرُهَا بِلُغَتِهَا"[58]

 

" زبان وبیان میں رسول اللہﷺ کی شان بلحاظ فصاحت وبلاغت اتنی بلندی پر ہے کہ آپ ﷺ کے اس امتیاز سےکوئی سلیم الطبع بے خبر نہیں ہے، کسی بلند ہمت، کم گو، فصیح البیان، ماہر علم وفن، غواص معانی اورتکلف سے بچنے والے پر یہ امر مخفی نہیں ہےکہ نبی کریم ﷺ کوجامع کلمات عطا کئے گئے اورانمول حکمتوں کے ساتھ خصوصیت بخشی گئی عرب کی ساری زبانیں سکھائی گئیں، اسی لیے آپﷺ عرب کے ہرقبیلے والوں سے ان کی بولی میں کلام فرماتے اوران کی روز مرہ بول چال کابلاغت کے ساتھ لحاظ رکھتے تھے ۔"

 

جوکوئی بھی اللہ کے رسولﷺ کی گفتگو اوربرتاؤ میں تامل و تدبر کرے گا، اس پر ذکر کردہ اقتباس کی صداقت بخوبی واضح ہوجائے گی ۔

 

ایک مرتبہ بعض صحابہ کرامؓ نےعرض کیا: یارسول اللہ ﷺ آپ سے بڑھ کر فصیح ہم نے کسی کو نہیں دیکھا، فخر دوعالم ﷺ نے جواباً فرمایا:

 

"وَمَا يَمْنَعُنِي وَإِنَّمَا أُنْزِلَ الْقُرْآنُ بِلِسَانِي لِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ"[59]

 

"فصاحت وبلاغت سے میرے لئے کون سی چیز مانع ہے جب کہ قرآن کریم میری زبان میں نازل ہواہے جوصاف عربی زبان ہے ۔"

 

ا یک دوسرے موقع پر آپﷺ نےارشاد فرمایا:

 

"أَنَا أَفْصَحُ الْعَرَبِ بَيْدَ أَنِّي مِنْ قُرَيْشٍ وَنَشَأْتُ فِي بني سعد"[60]

 

"میں عرب کاسب سے فصیح ہوں کیونکہ میری پیدائش قریش میں اور پرورش بنی سعد میں ہوئی ہے۔"

 

اسی لئے رسول اکرم ﷺ کی زبان میں شہریوں کی شیرینی، اور دیہات والوں کی زبان کی فخامت وعظمت اور الفاظ کی درستگی، دونوں ہی چیزیں جمع تھیں ۔

 

حضرت ام معبد[61]نے آپﷺ کےکلام کی توصیف میں فرمایا:

 

"حُلْوُ الْمَنْطِقِ فَصْلٌ لَا نَزْرٌ وَلَا هَذْرٌ كَأَنَّ مَنْطِقَهُ خَرَزَات نُظِمْنَ. وَكَانَ جَهِيرَ الصَّوْتِ حَسَنَ النَّغَمَةِ ﷺ"[62]

 

"رسول اللہ ﷺ کاکلام شیریں ہوتاتھا، گفتگو کاہر لفظ دوسرے سے جداہوتا، نہ مراد ومفہوم سے کم اور نہ زیادہ ہوتا ۔بغیر ضرورت کلام نہیں فرماتے تھے ۔ آپ ﷺ کی بات چیت ایسے مربوط ہوتی جیسےموتی ایک لڑی میں پرود یئے ہوں اور آواز بلند و دلکش تھی ۔"== معجزات ==

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو بے شمار معجزات عنایت فرمائے ۔ ابن تیمیہ ان کی تعداد کے متعلق فرماتے ہیں:

 

وَمُعْجِزَاتُهُ تَزِيدُ عَلَى أَلْفِ مُعْجِزَةٍ، . . . وَمِثْلَ الْقُرْآنِ الْمُعْجِزِ، . . . وَبِشَارَةِ الْأَنْبِيَاءِ بِهِ. . [63]

 

"محمدﷺ کےمعجزات ایک ہزار سے زائدہیں ۔۔۔ جیسے چاند کا دو ٹکڑے ہونا، ۔۔۔ اور سابقہ انبیاء کا رسول اللہﷺ کی بشارت اور خوشخبری دیناوغیرہ ۔۔۔ "

 

ان معجزات میں سے چند مختصراً تحریر کیے جاتے ہیں:

 

حضرت جابر ﷛کے گھر میں غزوہ خندق کے موقعہ پر ایک صاع جَو (تقریبا ساڑھے تین کلو) اور ایک بکری میں آنحضرتﷺ نے اپنا لعاب دہن ملایا اور برکت کی دعا فرمائی جس سے ایک ہزار (وَهمْ الْفٌ) لوگوں نے کھانا کھایا اور وہ اسی طرح باقی رہا ۔[64]

 

آپ ﷺنے حدیبیہ کے موقعہ پر خشک کنویں کے اندر اپنا لعاب مبارک ڈالاتووہ پانی سے بھرگیااورچودہ سو (۱۴۰۰) لوگوں کو سیراب کردیا۔[65]

 

سرور کائناتﷺ نے وفد نجران کے عیسائیوں کودعوت مباہلہ دی اوران سے کہاکہ آؤ اپنے اوپر بددعاکرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ اگر تم ایساکرو گے توہلاک ہوجاؤگے ۔اس لئے وفد نجران کے عیسائیوں نے دعوت مباہلہ قبول نہیں کی بلکہ ان کا یوں کہنا "فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: لَا تُلَاعِنْهُ، فَوَاللهِ لَئِنْ كَانَ نَبِيًّا فَلَاعَنْتَهَ لَا نُفْلِحُ نَحْنُ وَلَا عَقِبُنَا مِنْ بَعْدِنَا"[66] رسول اللہ ﷺ کی سچائی کی بہت بڑی دلیل ہے۔

 

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ﷛سے روایت ہے:

 

"رسول اللہﷺنے ایک درخت کو ٹہنی سے پکڑا اور اسے کہا: اللہ کے حکم سے میرے آگے چلو۔ پھر دوسرے درخت کی ٹہنی پکڑی اور اسے بھی یہی کہا۔ جب دونوں اکٹھے ہوگئے تو آپ ﷺ نے ان کی اوٹ میں قضائے حاجت فرمائی، پھر ان کوحکم دیا تو وہ واپس اورعلیحدہ ہو گئے۔"[67]

 

نبیٔ اکرم ﷺ کی نبوت کی ایک دلیل اور معجزہ یہ بھی ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ابی بن خَلَف الجمحی سے کہاتھاکہ تمہیں میں قتل کروں گا۔غزوہ اُحد میں آپ ﷺنے اسے ہلکاسا زخم گردن میں لگایا "فَطَعَنَهُ فِي عُنُقِهِ" جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی۔[68]

 

یہ اوراس طرح مزید بے شمار علامات، دلائل اور معجزات ہیں جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت اور حقانیت پر دلالت کرتے ہیں۔[69]

 

نتائج

  1. اعلام جمع ہے اوراس کی مفر د "عَلَم " عین اورلام کے فتحہ کے ساتھ بمعنی نشانی ہےاور اسی طرح دلائل جمع اور اس کی مفرد "دلیل" ہےجس کا معنی حجت اور ثبوت ہے۔
  2. دلیل ہراس چیز کوکہاجاتاہے جسےبطور حجت اور ثبوت پیش کیا جا سکے جس کے جاننے سے دوسری چیز کاجاننا اور علم لازم آئے ۔
  3. سیرت کے مصادر میں سے ایک اہم ترین نوع دلائل واعلام نبوت ہے جس سے مراد وہ تمام اعزازات، امتیازات، نشانیاں اوربراہین و ثبوت ہیں جورسول اللہﷺ کی رسالت اورعظمت و رفعت پردلالت کرتے ہیں ۔
  4. دلائل واعلام نبوت اورمعجزات میں فرق ہے ۔معجزہ خاص ہے جس میں خرق عادت، چیلنج اورمعارضہ شرط ہے جبکہ دلائل واعلام مطلق ہیں ۔
  5. امام ابوسعد الخرکوشی ؒکی" شرف المصطفیٰ" اورقاضی عیاض ؒ کی" الشفاء" دلائل واعلام نبوت کے حوالے سےبھی بہترین کتابیں ہیں۔
  6. ان دونوں کتابوں میں صحیح کے ساتھ بعض انتہائی ضعیف اورموضوع اخباربھی مذکور ہیں اس لئے احتیاط لازم ہے ۔
  7. ان دونوں کتابوں سےرسول اللہ ﷺ کی نبوت وعظمت ثابت کرنے کے لئے جن دلائل واعلام کاانتخاب کیاگیاہے وہ گیارہ انواع "حسن وجمال نبویﷺ، اعلی واشرف حسب ونسب، مکارم اخلاق، سیرت طیبہ، اُمیّت علامت نبوت، سابقہ کتب سماویہ میں تذکرہ، ارہاصات، آسمانوں کا شیاطین سے تحفظ، ختم اور مہر نبوت، فصاحت و بلاغت، معجزات" پرمشتمل ہیں۔

 

 

 

سفارشات

  1. تمام کتب دلائل عمومی طورپراورشرف المصطفی اورالشفاء کاخصوصی طورپر مطالعہ کرکے ان سے صرف مستند اورصحیح دلائل واعلام کااستخراج کرکے مجموعہ مرتب کیاجائے ۔
  2. نبوت ورسالت اورعظمتِ رسولﷺ کوثابت کرنے کے لئے صرف معجزات پرانحصار نہ کیاجائے ۔
  3. رسول اللہ ﷺکی افضلیت اور علو شان کے اظہار و ثبوت کے لئے ضعیف اورموضوع و من گھڑت روایات والے اسلوب کوبالکل ترک کردیناچاہیے، یہ آپ ﷺ کے عالی مقام میں اضافہ کی بجائے کمی کاسبب ہے ۔
  4. شرف المصطفیٰ اورالشفاء بہت اچھی کتابیں ہیں لیکن ان میں کمزور و ضعیف اورمن گھڑت آثار ہونے کی بنا پر عام آدمی کے لئے کماحقہ استفادہ کرنامشکل ہے ۔
  5. اس کام کی اشد ضرورت ہے کہ ان کتابوں کے ساتھ عربی اوراردومیں ضعیف اورموضوع روایات کی فہرست شائع کی جائے تاکہ ان سے حقیقی طور پر استفادہ کیا جاسکے۔
  6. عصر حاضر میں خطباء اورواعظین کی تربیت کااہتمام کیاجائے کہ وہ اپنی تقاریر میں من گھڑت روایات بیان نہ کریں ۔

حوالہ جات

  1. == حوالہ جات (References) == آپ کا پورا نام "ابوسعد عبدالملک بن ابی عثمان محمدبن ابراہیم الخرکوشی" ہے، تاریخ پیدائش کا علم نہیں، نیشاپورمسکن ہے۔ خطیب بغدادیؒ نے آپ کی تاریخ وفات ۴۰۶ھ اور امام ذہبیؒ نے جمادی الاولی ۴۰۷ھ تحریرکی ہے ۔آپ عظیم عالم، عابد، زاہد اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ سیرت رسول ﷺپر"شرف المصطفی ٰ "کی شکل میں عظیم الشان کتاب تصنیف فرمائی۔ دیکھئے: البغدادی، تاریخ بغداد، تحقیق بشار عواد، دار الغرب الإسلامي، بیروت، طبع اولی، 2002ء، 12: 188، الذهبي، سیراعلام النبلاء، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، طبع ثالث، 1985ء، 17: 256-257 Al Baghdādī, Abū Bakar Aḥmad bin ʹAlī, Tarīkh Baghdād, (Beirut: Dār al Gharb al Islāmī, 1st Edition 2002) , 12: 188, Al Dhabī, Shams al Dīn Abū ʹAbdullah, Siyar A’lām al Nubala’, (Beirut: Mua’ssah al Risālah, 3rd Edition, 1985) , 17: 256-257
  2. آپ کاپورانام: عیاض بن موسی بن عیاض بن عمرون بن موسی بن عیاض بن محمدبن عبداللہ بن موسی بن عیاض الیحصبی السبتی اورکنیت ابوالفضل ہے ۔قضاء کے منصب پر فائز رہنے کی وجہ سےقاضی کہلائے اور اسی نام سے مشہور ہوئے، آپ عظیم محدث، فقیہ، سیرت نگار اور قابل قدر مفسر و ادیب تھے ۔آپ کاشمار عظیم مؤلفین میں ہوتاہے، " الشفا" آپ کی مشہور کتاب اور وجہ شہرت ہے۔۱۵شعبان ۴۷۶ھ کو اندلس کے شہر سبتہ میں ولادت ہوئی اور انتقال مراکش میں جمعہ کی نصف شب میں ۹ جمادی الاخریٰ ۵۴۴ھ کوہوا ۔ دیکھئے: ا بن بشكوال، ابو القاسم خلف بن عبد الملك، الصلۃ في تاريخ أئمۃ الأندلس، مكتبۃ الخانجي، طبع دوم، 1955 ء، ص: 429، ابن خلكان، وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، دار صادر، بیروت، طبع 1900ء، 3: 483 Ibn Bashakwāl, Abū al Qāsim Khalf bin ʹAbdul Malik, Al Ṣilah fī Tārīkh Ā’mmah al Andalus, (Maktabah al Khanjī, 2nd Edition, 1955) , p: 429, Ibn Khulikān, Shams al Dīn, Abū Al ʹAbbās, Aḥmad bin Muḥammad, Wafayāt Al Aʹyān Wa Anbā’ Abnā’ Al Zamān, (Beirut: Dār Sādir) , 3: 483.
  3. ابن منظور، لسان العرب، دار صادر، بیروت، طبع ثالث، 1414ھ، 12: 420-421 Ibn Manẓūr, Muḥammad bin Mukarram, Lisān ul ʹArab, (Beirut: Dār Sādir, 1414 H, 3rd Edition) , 12: 420-421.
  4. الرازی، محمد بن ابی بکر، مختار الصحاح، المكتبۃ العصریۃ، بيروت، طبع خامس، 1999م، ص: 106، (مادة: د ل ل) Al Rāzī, Muḥammad bin Abī Bakr, Mukhtār al Ṣiḥāḥ, (Beirut: Al Maktabah al ‘Aṣriyyah, 5th Edition, 1999) , p: 106.
  5. لسان العرب، مادة (دلل) 11: 249، معجم المعاني الجامع، معجم عربي عربي Ibn Manẓūr, Lisān ul ʹArab, 11: 249, [https: //www. almaany. com/ar/dict/ar-ar. https: //www. almaany. com/ar/dict/ar-ar. ] Retrieved: 30-04-2019 at: 01: 47 a. m
  6. الجرجانی، التعريفات، دار الكتب العلمیۃ، بيروت، طبع اول، 1983م، ص: 104 Jurjānī, ʹAlī bin Muḥammad bin ʹAlī al Zayn al Sharīf, Kitāb al Taʹrīfāt, (Beirut: Dār al Kutub al ʹIlmiyyah, 1st Edition, 1983) , p: 104.
  7. ابراہیم مصطفی اور دیگر، المعجم الوسيط، تحقيق: مجمع اللغۃ العربیۃ، دار الدعوة، استنبول، ترکی، 1: 294 Ibrāhīm Muṣṭafa and Others, Al Muʹjam al Wasīṭ, (Turkey: Dār al Daʹwah) , 1: 294
  8. الجرجانی، التعريفات، ص: 104 Jurjānī, Kitāb al Taʹrīfāt, p: 104.
  9. ابن تيمیۃ ؒ، النبوات، فصل في آيات الانبياء وبراهينهم، المطبعۃ السلفیۃ، القاهرة، 1386ھ، ص: 30 Ibn Timiyah, Al Nabuwwāt, (Cairo: Al Matba’ah al Salafiyyah, 1386 H) , p: 30
  10. ابن تيميہ، الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح، دار العاصمۃ، السعودیۃ، طبع ثانی، 1999م، 5: 412 Ibn e Timiyah, Al Jawāb al Ṣaḥiḥ Liman Baddal Deen al Maseeḥ, (K. S. A: Dār al ‘Āṣimah, 3rd Edition, 1999) , 5: 412
  11. ابن حجر، احمد بن علي بن حجر، ابو الفضل، العسقلاني، فتح الباري، باب علامات النبوة في الإسلام، دار المعرفۃ، بيروت، 1379ھ، 6: 581-582 Ibn Ḥajar, Aḥmad bin ʹAlī, Fatḥ al Bārī, (Beirut: Dār al Ma’rifah, 1379 H) , 6: 581-582
  12. ابن ابی العزالحنفیؒ، شرح العقیدۃ الطحاویۃ، تحقيق: احمد شاكر، وزارة الشؤون الإسلاميۃ والأوقاف والدعوة والإرشاد، السعودیۃ، طبع اول، 1418ھ، ص: 109 "وَلَا رَيْبَ أَنَّ الْمُعْجِزَاتِ دَلِيلٌ صَحِيحٌ، لَكِنَّ الدَّلِيلَ غَيْرُ مَحْصُورٍ فِي الْمُعْجِزَاتِ. . . " Ibn Abī Al ʹIzz Al Ḥanafī, Sharaḥ al ʹAqeedah al Tahawiyyah, (K. S. A: Wazarah al Shu’ūn al Islāmiyyah wal Awqāf, 1st Edition, 1418 H) , p: 109
  13. قاضی، عیاض بن موسى، الشفا بتعريف حقوق المصطفى، الشمنى، احمد بن محمد بن محمد، حاشیۃ مسمی: مزيل الخفاء عن ألفاظ الشفا، دار الفكر للطباعۃ والنشر والتوزيع، 1988م، 1: 60 Qāḍī, ʹIyāḍ bin Mūsa, Al Shifā bi Taʹrīf Ḥuqūq al Muṣṭafa, al Shumnī, Aḥmad bin Muḥammad bin Muḥammad, Ḥāshiyah al Shumnī: Muzīl al Khifā’ ‘An Alfāẓ al Shifā, (Beirut: Dār al Fikr) , 1: 60
  14. الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 58-70؛ الترمذي، محمد بن عيسى، سنن الترمذي، تحقيق: احمد محمد شاكر اور دیگر، شرکۃ مصطفى البابي الحلبي، مصر، طبع ثانی، 1975 م، حدیث رقم3642، ابن ابی شیبۃ، المصنف، تحقیق: محمدعوامۃ، دار القبلۃ، حدیث رقم: 32465 Al Shifa bi Taʹreef Ḥuqooq al Muṣṭafā, 1: 58-70; Al Tirmidhī, Muḥammad bin ‘Iīsa, Al Sunan, (Egypt: Shirkah Muṣṭafa al Bābī, 2nd Edition, 1975) , Ḥadīth # 3642, Ibn Abī Shaybah, Al Muṣannaf, (Dār al Qiblah) , Ḥadīth # 32465
  15. الترمذي، سنن الترمذي، باب ما جاء فی صفة النبیﷺ، حدیث رقم: 3638، الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 61 Al Tirmidhī, Sunan, Hadith: 3638; Al Shifa bi Taʹreef Ḥuqooq al Muṣṭafā, 1: 61
  16. سورۃ الشعراء، 219 Surah Al Shuʹarāʹ, 219
  17. قاضی عیاض، الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 67 Al Shifa bi Taʹreef Ḥuqooq al Muṣṭafā, 1: 67
  18. البخاری، صحيح البخاري، بَابُ عِظَةِ الإِمَامِ النَّاسَ فِي إِتْمَامِ الصَّلاَةِ، تحقیق: محمد زهير، دار طوق النجاة، طبع اول، 1422ھ، حدیث نمبر: 419 Al Bukhārī, Ṣaḥīḥ Al Bukhārī, (D ā r Tawq al Najah, 1st Edition, 1422 H) , Ḥadīth # 419
  19. قاضی عیاض، الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 69، الخركوشي، عبد الملك بن محمد، شرف المصطفی، دار البشائر الإسلامیۃ، مکہ، طبع اول، 1424ھ، شرف المصطفى، 3: 365، أبو داود، سنن أبي داود، رقم الحدیث: 4078 Al Shifā bi Taʹrīf Ḥaqūq al Muṣṭafā Wa Ḥāshiyah al Shumnī, 1: 69, Al Kharkūshī, ʹAbdul Malik bin Muḥammad, Sharaf Al Muṣṭafa, (Makkah: Dār al Bashāi’r al Islāmiyyah, 1st Edition, 1424 H) , 3: 365, Abū Dāw’ūd, Sunan, Ḥadīth # 4078
  20. الترمذي، الشمائل المحمديۃ، المكتبۃ التجاريۃ، ص: 112؛ الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 69 Al Tirmidhī, Al Shamai’l al Muḥammadiyah, (Al Maktabah al Tijāriyyah) , p: 112, Al Shifā bi Taʹrīf Ḥuqūq al Muṣṭafā, 1: 69.
  21. الصالحي، محمد بن يوسف، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، دار الكتب العلمیۃ، بيروت، طبع اول، 1993، 2: 83 Al Ṣāliḥī, Muḥammad bin Yūsuf, Subul Al Huda wal Rashād fī Sīrat Khayr al Iʹbād, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 1st Edition, 1993) , 2: 83
  22. الترمذي، سنن الترمذي، حدیث رقم: 3638. Al Tirmidhī, Sunan, Ḥadīth # 3638
  23. القشيري، مسلم بن الحجاج، صحیح مسلم، کتاب المساجدومواضع الصلاة، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي، دار إحياء التراث العربي، بیروت، حدیث نمبر: 523، البخاري، صحیح البخاری، رقم الحديث: 2977 Al Qushayrī, Muslim bin al Ḥajjāj, Ṣaḥīḥ Muslim, (Beirut: Dār Iḥya’ al Turath al ‘Arabī) , Ḥadīth # 523, Al Bukhārī, Ṣaḥīḥ Al Bukhārī, Ḥadīth # 2977
  24. القشيري، صحیح مسلم، 4: 1814، الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 62 Ṣaḥīḥ Muslim, 4: 1814, Al Shifā bi Taʹrīf Ḥaqūq al Muṣṭafā, 1: 62
  25. ابن حجر، فتح الباري، باب صفۃ النبی ﷺ، 6: 573 Ibn Ḥajar, Fatḥ al Bārī, 6: 573
  26. ابو سعد الخرکوشی ؒ، شرف المصطفى، 2: 116 Al Kharkūshī, Sharaf Al Muṣṭafā, 2: 116
  27. الترمذي، سنن الترمذي، تحقیق: بشارعواد، دار الغرب الإسلامي، بيروت، 1998، رقم الحدیث: 3607، الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 82 Al Tirmidhī, Al Sunan,) (Dār al Gharb al Islāmī, 1998) , Ḥadīth # 3607, Al Shifā bi Taʹrīf Ḥaqūq al Muṣṭafa, 1: 82
  28. الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 82، اخرجہ الترمذي، تحقیق: شاکر، حدیث نمبر: 3605 Al Shifā bi Taʹrīf Ḥaqūq al Muṣṭafa, 1: 82, Al Tirmidhī, Sunan, Ḥadīth # 3605
  29. الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 82، اخرجہ الترمذي في سننه في المناقب، حدیث نمبر: 3610 Al Shifā bi Taʹrīf Ḥaqūq al Muṣṭafa, 1: 82, Al Tirmidhī, Sunan, Ḥadīth # 3610
  30. اس حدیث کے متعلق امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: "الْحَدِيثُ مَعْرُوفٌ مِنْ مَرَاسِيلِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَغَيْرِهِ " ابن تیمیہؒ، مجموع الفتاوى، تحقیق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم، مجمع الملك فهد للطباعۃ، المدینۃ المنورۃ، 1995م، 32: 174 Ibn Taymiyyah, Majmuʹ al Fatāwā, (Madīnah: Majma’ al Malik Fahad lil Ṭabā‘ah, 1995) , 32: 174
  31. الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 55 Al Shifā bi Taʹrīf Ḥaqūq al Muṣṭafā, 1: 55
  32. سورۃ القلم: 4، 5 Surah Al Qalam, 4, 5
  33. صحيح، وهذا إسناد قوي، رجاله رجال الصحيح غير محمد بن عجلان، فقد روى له مسلم متابعة، وهو قوي الحديث، وأخرجه البيهقي في "السنن" حدیث نمبر: 21301 Al Bayhaqī, Al Sunan, Ḥadīth #: 21301
  34. الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 57 Al Shifā bi Taʹrīf Ḥaqūq al Muṣṭafā, 1: 57
  35. سورۃ يونس: 16 Surah Yūnus, 16
  36. سورۃ الدخان: 14 Surah al Dukhān, 14
  37. الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 67 Al Shifā bi Taʹrīf Ḥaqūq al Muṣṭafā, 1: 67
  38. ابن حزم، علي بن احمد بن سعيد بن حزم، الظاهري، الفصل في الملل والأهواء والنحل، مكتبۃ الخانجي، القاهرة، 2: 73 Ibn Ḥazm, ʹAlī bin Aḥmad bin Saʹīd bin Ḥazm, Al Ẓāhrī, Al Faṣal fīl Milal wal Ahwa' wal Niḥal, (Cairo: Maktabah al Khānjī) , 2: 73
  39. سورۃ العنكبوت: 48 Surah Al ʹAnkabūt, 48
  40. سورۃ الجمعة: 2 Surah Al Jumuʹah, 2
  41. سورۃ الأعراف: 157 Surah Al Aʹrāf, 157
  42. شرف المصطفى، 1: 137، احمد بن عبد الوهاب، البكري، نهاية الأرب في فنون الأدب، دار الكتب والوثائق القومیۃ، طبع اول، 1423ھ، 14: 183 Sharaf al Muṣṭafa, 1: 137, Aḥmad bin ‘Abdul Wahhāb, Nihāyah al ‘Arab fī Funūn al A’dab, (Cairo: Dār al Kutub lil Wathā‘iq al Siyāsiyyah, 1st Edition, 1423 H) , 14: 183
  43. شرف المصطفى، 1: 163-164، "لا أصل له مرفوعًا إنمااخرجہ الحاكم موقوفا وقال: "صحيح الإسناد" وتعقبه الذهبي بقوله "أظنه موضوعًا على سعيد". الحاكم، المستدرك على الصحيحين، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، دار الكتب العلمیۃ، بيروت، طبع اول، 1990، حدیث نمبر: 4227، انظر: الذهبي في الميزان، 3: 246، و وافقه ابن حجر في اللسان، 4: 354 Sharaf al Muṣṭafa, 1: 163-164, Al Ḥākim, Al Mustadrak ʹAla al Ṣaḥīḥyn, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 1st Edition, 1990) , Ḥadīth # 4227, Al Dhabī, Al Mīzān, 3: 246, Ibn Ḥajar, Al Lisān, 4: 354
  44. ابن فارس، مقاييس اللغۃ، 2: 449 Ibn Fāris, Maqāyīs al Lughah, 2: 449
  45. ابن تیمیہ، النبوات، 6: 8 Ibn Timiyah, Al Nabwāt, 6: 8
  46. جرجانی، التعريفات، ص: 16 Al Jurjanī, Kitab al Taʹrīfāt, p: 16
  47. شرف المصطفى، 1: 181، دیکھئے: ابن سعد، الطبقات الكبرى، تحقیق: احسان عباس، دار صادر، بيروت، طبع اول، 1968، 1: 90 Sharaf al Muṣṭafa, 1: 181, Ibn Saʹd, Al Ṭabqāt al Kubra, (Beurit: Dār Ṣadir, 1st Edition, 1968) , 1: 90
  48. شرف المصطفى، 1: 403 Sharaf al Muṣṭafa, 1: 403
  49. الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 366 Al Shifā bi Taʹrīf Ḥaqūq al Muṣṭafā, 1: 366
  50. سورۃ الجن: 8-10 Surah Al Jinn, 8-10
  51. الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 367 Al Shifā bi Taʹrīf Ḥaqūq al Muṣṭafā, 1: 367
  52. شرف المصطفى، 1: 473 Sharaf al Muṣṭafa, 1: 473
  53. البخاری، باب استعمال فضل وَضوء الناس، طبعۃ دار السلام، الریاض، رقم الحدیث: 190 Al Bukhārī, Ṣaḥīḥ Al Bukhārī, (Riyaḍ: Dār al Salām) , Ḥadīth # 190
  54. کاندھلوی، زکریا، مولانا، شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی، مکتبہ رحمانیہ اردوبازار لاہور، ص: 29۔30 Kāndhalwī, Zakariyyā, Shumāi’l Tirmidhī with Urdu Sharaḥ Khaṣāi’l e Nabvī, (Lahore: Maktabah Raḥmaniyyah) , p: 29-30.
  55. الترمذي، سنن الترمذي، حدیث نمبر: 3644، الترمذي، مختصر الشمائل، حدیث نمبر: 15 Al Tirmidhī, Al Sunan, Ḥadīth # 3644, Al Tirmidhī, Mukhtaṣar Al Shamai’l, Ḥadīth # 15
  56. القرطبی، المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم، 19: 59 Al Qurṭabī, Al Mufhim Limā Ushkila Min Talkhīṣ Kitāb Muslim, 19: 59
  57. کاندھلوی، شمائل ترمذی مع اردو شرح خصائل نبوی، ص: 30 Kāndhalwī, Shumāi’l Tirmidhī with Urdu Sharaḥ Khaṣāi’l e Nabvī, p: 30
  58. الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 70 Al Shifā bi Taʹrīf Ḥaqūq al Muṣṭafā, 1: 70
  59. ایضاً، 1: 80، المتقي الهندي، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال مؤسسۃ الرسالۃ، طبع خامس، 1981، رقم الحدیث: 15247 Ibid. , 1: 80, Al Muttaqī al Hindī, Kanz al ʹUmmāl fī Sunan al Aqwāl wal Afʹāl, (Mu’assasah al Risālah, 5th Edition, 1981) , Ḥadīth # 15247
  60. الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 80، "قال العجلوني: اوردہ اصحاب الغرائب ولا یعلم من اخرجہ ولا اسنادہ. " اسماعيل بن محمد العجلوني، كشف الخفاء ومزيل الإلباس، 1: 232 Al Shifā bi Taʹrīf Ḥaqūq al Muṣṭafā, 1: 80, Al ʹAjlūnī, Ismaʹil Bin Muḥammad, Kashf al Khifa’ wa Muzīl al I’lbās, 1: 232
  61. "أم معبد وهي عَاتِكَةُ بِنْتُ خَالِدِ بْنِ مُنْقِذِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ اصرم" ابن سعد، الطبقات الكبرى، دار صادر، بیروت، 8: 288 Ibn Sa’ad, Al Ṭabqāt al Kubra,) Beurit: Dār Ṣadir) , 8: 288
  62. الشفا بتعريف حقوق المصطفى، 1: 81، المعجم الكبير للطبراني، مكتبۃ ابن تيمیۃ، القاهرة، طبع ثانی، رقم الحديث: 3605 Al Shifā bi Taʹrīf Ḥaqūq al Muṣṭafā, 1: 81, al Tabrāni, Al Moʹjam al Kabīr, (Cairo: Maktabah Ibn-e-Taymiyyah, 2nd Edition) , Ḥadīth # 3605
  63. ابن تیمیہ، الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح، 1: 399 Ibn Tamiyah, Al Jawāb al Ṣaḥīḥ Li man Baddal Dīn al Masīḥ, 1: 399
  64. مسلم، صحيح مسلم، حدیث نمبر: 2039 Ṣaḥīḥ Muslim, Ḥadīth # 2039
  65. مسلم، صحيح مسلم، حدیث نمبر: 1807 Ṣaḥīḥ Muslim, Ḥadīth # 1807
  66. البیهقي، دلائل النبوة، تحقیق: عبد المعطي قلعجي، دار الكتب العلمیۃ، بيروت، طبع اول، 1988، حدیث نمبر: 2121 Al Bayhaqī, Dalāi’l al Nubuwwah, (Beirut: Dār al Kutub al ‘Ilmiyyah, 1st Edition, 1988) , Ḥadīth # 1086
  67. مسلم، صحيح مسلم، رقم الحديث: 3012 Ṣaḥīḥ Muslim, Ḥadīth # 3012
  68. البیهقي، دلائل النبوة، تحقیق: عبد المعطي قلعجي، حدیث نمبر: 1086 Al Bayhaqī, Dalāi’l al Nubuwwah, Ḥadīth # 1086
  69. ابن حزم، جوامع السيرة، تحقیق: احسان عباس، دار المعارف، مصر، طبع اول، 1900، ص: 10-14 Ibn Ḥazm, Jawāmiʹ al Sīrah, (Egypt: Dār al Ma’ārif, 1st Edition, 1900) , p: 10-14
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...