Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

احکام القرآن میں اسلوب تفسیر اور امام جصاص پر نقد: تجزیاتی مطالعہ |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

امام صاحب کا پورا نام ’’ابوبکر احمد بن علی بن الرازی الجصاص ‘‘ہے اور بعض کتب احناف میں ’’الرازی الحنفی‘‘کے طور پر بھی معروف ہیں۔ آپ کے لقب میں ’’الجصاص‘‘کے بارے میں قدرے اختلاف ہے کہ یہ کیونکر معروف ہے ۔راجح قول کے مطابق وہ چونا گچ کے پیشہ سے منسلک ہونے کی وجہ سے جصاص کہلاتے تھے۔[1] کتبِ تراجم وتواریخ میں ان کی تاریخِ پیدائش 305 ھ درج ہےاور وہ’’ریّ ‘‘(جس کا رسم الخط ’’رے‘‘بھی معروف ہے)میں پیدا ہوئے جس کی نسبت سے وہ ’’الرازی‘‘ کہلائے۔ ان کی ابتدائی زندگی کے ادوار جن میں ان کی تعلیمی اور تربوی کیفیات کا ذکر ہو اتنا خاص نہیں جن سے معلوم ہوسکے کہ انہوں نے کن احوال میں علوم حاصل کیے ۔البتہ ان تاریخ کی کتب میں یہ بات معروف ہے کہ جس دور میں امام موصوف پیدا ہوئے اس وقت ’’رے ‘‘کے حالات کافی دگرگوں تھے تاہم علمی مشاغل اور سرگرمیاں عروج پر تھیں،جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام صاحب نے علمی حالات میں آنکھ کھولی۔غیر مفصل طور پر بیس سال کی عمر تک کے احوال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے رے میں ہی رہ کر علم حاصل کیا اور تعلیم وتعلم سے منسلک رہے[2]۔325ھ میں جب بیس سال کے ہوئے تو امام موصوف بغداد تشریف لے گئے اوربغداد میں کبار علماء کے حلقات میں حاضری دیا کرتے تھےاور ان سے کسبِ فیض کرتے۔ان میں ابو سہل الزجاجی اور ابوالحسن الکرخی ؒ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ [3]334ھ میں وہ بغداد میں پڑنے والے قحط کی بنا پر ’’اھواز‘‘چلے آئےجس کے احوال مؤرخین کے ہاں معروف ہیں۔[4]

 

کتب ِ تراجم میں یہ بھی مذکور ہے کہ امام جصاص اھواز سے نکل کر نیساپورتشریف لے گئے جہاں انہوں نے امام حاکم نیسابوری ؒ سے کسبِ فیض کیا۔[5]

 

علمی مقام ومرتبہ اور زہد وورع:
امام موصوف حد درجہ زاہد اور عابد تھے،حافظ ابن کثیر ؒ اس بار ےمیں فرماتے ہیں؛

 

کان عابدا زاهدا ورعا انتهت الیه ریاسة الحنفیة فی وقته ورحل الیه الطلبة من الآفاق [6]

 

ترجمہ:وہ عبادت گزاراور زہدوورع والے تھے۔حنفیہ کی سرداری ان پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔طلب علم میں انہوں نے دوردرز کا سفر کیا۔

 

امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں :

 

کان راسا من الزاهد[7]

 

ترجمہ:آپ زاہدوں کے سردار تھے۔

 

ان کے زہدوورع کی یہ بھی دلیل ہے کہ انھوں نے دو مرتبہ پیش کیا جانے والا عہدہ قضاء مسترد کردیا۔[8]

 

امام موصوف کا علمی جاہ وجلال بے حد تھا ۔آپ کے اس علمی وقار کو بیان کرتے ہوئے محض دو اقوال پر اکتفاء کرتے ہیں۔ امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں :

 

الامام العلامة المفتی المجتهد عالم العراق،ابوبکر احمد بن علی بن الرازی الحنفی،صاحب التصانیف و تصانیفه تدل علی حفظه للحدیث وبصره به [9]

 

ترجمہ:امام علامہ مفتی مجتہد عراق کے عالم ابوبکر احمد بن علی رازی حنفی متعدد تصانیف کے مؤلف،ان کی تصانیف ان کے حفظِ حدیث اوربصیرت پر دلالت کرتی ہیں۔

 

علامہ امیر الکاتب ؒ فرماتے ہیں :

 

الشیخ ابوبکر الجصاص،من کبار علمائنا العراقیین وهو بالمرتبة الاعلیٰ والدرجة القصویٰ فی العلم والورع، صاحب التصانیف فی الفروع والاصول وغیر ذلک۔[10]

 

ترجمہ:شیخ ابوبکر الجصاص ہمارے کبار عراقی علماء مین سے ہیں اور وہ بہت ہی عالی المرتبت ،اور علم وورع میں انتہاء کو پہنچے ہوئی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی اصول وفروع میں کثیر تصانیف ہیں۔

 

شیوخ وتلامذہ:
امام ابو بکر بن جصاص نے کبار علماء سے کسبِ فیض کیا ۔جن میں ابوالحسن الکرخی 340ھ،عبدالباقی بن قانع 351ھ، ابوالقاسم الطبرانی 360ھ،امام حاکم النیسابوری 405ھ،ابوالعباس الاحمر 346ھ،ابو سھل الزجاجی ،ابو علی الفارسی 377ھ وغیرہم قابلِ ذکر ہیں۔جبکہ ان کے تلامذہ میں مشہور ترین المفتی العلامہ ابوبکر محمد بن موسیٰ الخوارزمی 403ھ،الفقیہ ابو عبداللہ الحسین بن محمد بن الخلف الحنفی 390ھ،المحدث ابو الفرج بن سلمہ 415ھ،الفقیہ ابو عبداللہ الجرجانی 395ھ شامل ہیں۔[11]

 

اس کے علاوہ بغداد ،رے،اھوازمیں دیگر کئی کبار اور مشاہیر علماء ِ امت نے ان سے کسبِ فیض کیا اور وہاں ایک بہترین نظم میں رہتے ہوئے تعلیم وتعلم کا سلسلہ جاری رکھا۔ بے شمار حلقہ جات میں شرکت کرنے والے ان کے تلامذہ نے ان سے استفادہ کرنے کے بعد عراق وشام کے متعدد علاقوں کا سفر کیا اور اس علمی تراث کی نشر وتبلیغ کی۔

 

وفات:
امام موصوف ؒ نے ایک عرصہ تک تعلیم وتعلم اور افتاء وتالیف میں اپنی زندگی بسر کی ۔بالآخر بروز اتوار 7 ذی الحجہ 370ھ کو 65 سال کی عمر میں بغداد میں وفات پا گئے۔آپ کے شاگرد امام ابوبکر بن محمد بن موسیٰ الخوارزمی نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اوراپنے ہاتھوں سے استادِ محترم کو لحد میں اتارا۔

 

علمی تراث:
امام موصوف کی تالیفات جو کہ خود ان سے منقول ہیں اور جنہیں علامہ موصوف نے احکام القرآن اور دیگر کتب میں ذکر کیا ہے ،ان کی تعداد 16 ہے۔ذیل میں ان کا مختصر تعارف درج کیا جاتا ہے۔

 

شرح الجامع الصغیر للامام محمد بن الحسن الشیبانی:

 

احناف کی امہات کتب میں سے ایک اہم ترین کتاب جس میں مذہب کی روایات ومتون جمع ہیں،امام موصوف نے اس کی

 

شرح لکھی ہے۔ اس کی اول،دوم اور چہارم مجلدات موجود ہیں۔امام موصوف 348ھ میں اس کی تالیف سے فارغ ہوئے۔

 

شرح المناسک للامام محمد بن الحسن:

 

امام موصوف کی اس کتاب کا تذکرۃ خود انہوں نے مختصر الطحاوی میں کیا ہے۔

 

تعلیق علی کتاب الاصل للامام محمد بن الحسن:

 

امام صاحب نے اس کا تذکرہ اپنی کتاب ’’ادب القضاۃللخصاف‘‘ کی شرح میں کیا ہے۔

 

شرح ادب القضاء للخصاف:

 

امام ابو بکر جصاص نے امام ابو بکر احمد بن عمر الشیبانی کی شہرہ آفاق تالیف ادب القضاء کی شرح تحریر کی ہے جس کو علماء نے خاصی قبولیت عامہ سے نوزا۔حاجی خلیفہ نے اس کی ازحد تعریف کی ہے۔[12]

 

شرح مختصر الطحاوی:

 

مختصر الطحاوی فی فروع الحنفیۃ للامام ابی جعفر احمد بن محمد الطحاوی کی تالیف ہے جو اوائل ِ مختصرات ِ مذاہبِ احناف میں شمار ہوتی ہے۔ امام جصاص نے اس کی انتہائی نفیس ،عمدہ اور جامع ومانع شرح کی ہے جو اپنے اعتبار سے بہرحال بدیعی نوعیت کی حامل ہے۔

 

مختصر اختلاف العلماء للطحاوی:

 

علامہ طحاوی کی کتاب ’’اختلاف العلماء ‘‘ کا امام جصاص نے بہترین اختصار کیا ہے۔ اس میں انھوں نے مسائل کی ادلہ تفصیلیہ کے ذکر سے احتراز کیا ہے کیونکہ امام طحاوی غیر ضروری اور طویل گفتگو فرماتے ہوئے دلائل نقلیہ بہت زیادہ بیان کرتے ہیں۔جبکہ اس کے برعکس امام جصاص نے محض ضروری اور متعلقہ دلائل کو ذکر کرنے پرہی اکتفا کیا ہے۔

 

ان کے علاوہ امام صاحب کی کتب میں ’’تعلیق علی شروط الطحاوی،شرح مختصر الکرخی،شرح الاسماء الحسنیٰ ،کتاب الاشربۃ، مسالۃ القرء ، مسائل الخلاف ،جوابات المسائل ،کتاب اصول الفقہ،احکام القرآن‘‘معروف ہیں۔

 

احکام القرآن کا منہج وخصائص:

 

احکام القرآن امام جصاص کی مایہ ناز تالیف ہے اور تمام دیگر تالیفات سے ممتاز اور اہم ہے۔ احکام القرآن ایک فقہی طرزِ تفسیر پر لکھی گئی ہے۔ اس میں امام موصوف نے آیاتِ احکام کی تفسیر کی ہےاور طریقہ کار یہ ہے کہ کوئی سی ایک باب قائم کرکے اس سے متعلق دلیل ِ قرآنی ذکر کرتے ہوئے اس کی تفسیر کرتے ہیں۔امام جصاص کی یہ تفسیر اپنی نوعیت کی منفرد تفسیر ہے اور کئی خصوصیات کی حامل ہے۔ذیل میں ان کا اجمالاً ذکر کیا جاتا ہے۔

 

تفسیر القرآن بالقرآن :

 

امام موصوف نے اس تفسیر میں بے شمار مقامات پر قرآن کی تفسیر قرآن سے کی ہے اور اولین کوشش یہی کرتے ہیں کہ تفسیر ِ

 

قرآن ہی کی جائے۔مثال کےطور پراللہ تعالیٰ کےفرمان ’’وقولوا للناس حسنا‘‘ کی تفسیر آیت مبارکہ ’’ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ‘‘سے کرتے ہیں اور فرماتے ہیں:

 

والاحسان المذکورة فی الآیة انما هو الدعاء الیه والنصح فیه لکل احد[13]

 

ترجمہ:آیت کریمہ میں احسان ِ مذکور سے مراد دعوت دینا اور ہر ایک کی خیرخواہی کرنا ہے۔

 

قرآن سے لغوی معنی پر استشہاد:

 

امام جصاص قرآن کے بعض مقامات کی لغوی تفسیر کرتے ہوئےدیگر مقامات سے استشہاد کرتے ہیں اور لغوی معنیٰ کا تعیّن کرتے ہیں۔مثال کےطورپر آیت کریمہ’’والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجایتربصن بانفسھن‘‘میں لفظ ’’یتربصن‘‘ کا معنیٰ بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

 

والتربص بالشئی الانتظار به ؛قال الله تعالیٰ فتربصوا به حتی حین [14]

 

اور تربّص کا مطلب ہے انتظارکرنا جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ؛’’فتربصوا بہ حتی حین‘‘یعنی ایک مخصوص مدت تک اس کا انتظار کرو۔

 

تفسیر موضوعی کا اہتمام:

 

احکام القرآن تفسیر موضوعی کا نمونہ بھی پیش کرتی ہے جیساکہ متاخرین نے اس پر خاصی توجہ دی ہے۔اس میں ایک مسئلہ یاحکم میں مذکور آیات کو جمع کرتے ہیں اور اس موضوع کو سامنے رکھتے ہوئے مقاصدِ قرآنیہ کے تحت تفسیر کرتے ہیں۔مثال کے طور پر دین میں حرج اور مشقت کی نفی،کفار سے موالات کا ممنوع ہونا جیسے عنوانات کے تحت انھوں نے متعلقہ موضوع کے حوالے سے اکثر روایات کو جمع کردیا ہےاور ان کی ایک جگہ تفسیر کردی ہے۔[15]

 

تفسیر بالماثور کااہتمام:

 

امام جصاص نے احکام القرآن میں تفسیر بالماثور کا اہتمام کیا ہے اور ان کے نزدیک تفسیرالقرآن بالقرآن ،قرآن کی تفسیر سنت اور قرآن کی تفسیر اقوال صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین وسلف یعنی تابعین سے کرنے کا نام تفسیر بالماثور ہے۔ اس کی واضح مثال آیت کریمہ’’والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بانفسھن اربعۃ اشھر وعشرا‘‘کی تفسیر میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے جس میں انھوں نے تفسیر بالماثور سے متعلق متعدد عناصر ذکر کیے ہیں اور ساتھ ساتھ رائے واجتہاد سے بھی اسے منسلک کیا ہے۔[16]اسی طرح دوسری مثال آیت کریمہ ’’ولآمرنھم فلیغیرن خلق اللہ‘‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔[17]

 

اقوالِ سلف میں ترجیح وتفصیل:

 

امام موصوف جس آیت کریمہ کی تفسیر میں اقوال ذکر کرتے ہیں اس میں ان قوال کے مابین ترجیح دیکر بعض مقصود بھا اقوال

 

کو راجح قرار دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر آیت کریمہ ’’واذ یرفع ابراھیم القواعد من البیت واسماعیل‘‘کی تفسیر میں بیت کی بنا اٹھانے والے کے بارے میں مختلف اقوال کو زکر کرتے ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کہ ’’ابراہیم علیہ السلام بانی اور اسماعیل علیہ السلام ان کو پتھرپکڑانے والےتھے‘‘کو ترجیح دیتے ہیں۔[18]

 

بعض مقامات پر اقوال کی جمع:

 

بسا اوقات امام جصاص تفسیر کے دوران اقوال کو جمع کرتے ہیں اور ان میں بنا کوئی ترجیح قائم کیے محض تفسیری نکات سے متعلق متعدد اقوال ذکر کرتے ہیں۔ ان پر کسی قسم کا محاکمہ یا تعاقب نہیں کرتے۔جیساکہ آیت کریمہ ’’حافظوا علی الصلوات والصلاۃ الوسطیٰ‘‘ کے ضمن میں انھوں نے متعدد اقوال ذکر کیے ہیں لیکن ان میں کوئی ترجیح نہیں دی۔[19]

 

اخبارِ آحاد کا ذکر:

 

امام جصاص نےاخبارِآ حاد سے بھی استفادہ کیا ہے الا یہ کہ وہ ان کو امورِ عقیدہ میں لازم العمل نہیں قرار دیتے جیساکہ ان کا مشہور موقف ہے۔اس میں وہ عام طور پر مخصوص الفاظ’’الاخبار المقصّرة عن مرتبة ایجاب العلم لمخبرهافی امورالدین‘‘ استعمال کرتے ہیں۔جس کا مطلب ہے کہ یہ اخبار امورِدین یعنی عقائد میں علم کے وجوب کو ثابت کرنے میں قاصر ہیں۔[20]

 

بوقتِ ضرورت حدیث ِ رسول سے قولِ صحابی یا تابعی کی طرف عدول:

 

امام موصوف دو صورتوں میں حدیث ِ رسول سے قولِ صحابی یا تابعی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کو بطورِ دلیل ذکرکرتے ہیں۔ اوّلا، جب حدیث کی صحت مشکوک ہو ،ثانیا، جب وہ قرآن کے ظاہر کے معارض ہو۔مثال کے طور پر آیت الطلاق کی تفسیرکے دوران وہ اس قسم کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں اور مذکورہ دونوںوجوہات کا ذکر کرکے اقوالِ سلف کو ترجیح دیتے ہیں۔

 

تفسیر بالرائے :

 

احکام القرآن میں امام موصوف کئی ایک مقامات پر تفسیر میں رائے اور اجتہاد سے کام لیتے ہیں بلکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ عقل ورائے کے ساتھ تمسّک کو اختیار کرنے کی دعوت بھی دیتے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر آیت کریمہ ’’وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس مانزل الیھم لعلھم یتفکرون ‘‘کے تحت اہل علم و دانش کو فہم ورائےسے احکامات کے استنباط واستخرج میں کا م لینے کی تلقین کرتے ہیں۔[21]

 

اسی طرح وہ خود آیت ِ کریمہ ’’ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ بل احیاء ولک لا یشعرون‘‘ کی تفسیر میں خوب عقل ورائے سے کام لیتے ہیں۔[22]

 

اس کے ساتھ وہ تفسیر بالرائے کے رکائز وغیرضروری امور بھی ذکر فرماتے ہیں تاکہ تفسیر بالرائے مذموم تفسیر کا حصہ نہ بن سکے۔اس ضمن میں وہ ربط کے عدمِ ضرورت ،متشابہات کو محکمات کی طرف لوٹانے اور تاویل ِ فاسد کرنے کو مذموم قرار دیتے ہیں۔

 

لغوی استشہاد کی صورتیں:

 

امام ابو بکر الجصاص تفسیر کے دوران جب لغوی طورپر معانی ومفاہیم کو متعین کرتے ہیں اور استشہاد ذکر کرتے ہیں تواس کی درج ذیل اقسام ہوتی ہیں:(1)اشتقاق،(2) اقوال علماٰء لغت،(3)اشتراک ،(4)اشعار،(5)نحو واعراب،(6)بلاغت۔

 

مندرجہ بالا کی ایک ایک مثال بطورِ نمونہ ذکر کی جاتی ہے:

 

1:آیتِ کریمہ ’’ویسئلونک عن الخمر والمیسر‘‘ کی تفسیر میں لفظ ’’میسر‘‘کی وضاحت وہ اشتقاقی معنیٰ کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں۔[23]

 

2:اس ضمن میں وہ صحابہ کرام،تابعین عظام کے ذکر کردہ لغوی معانی کو دیگر اہل ِ لغت پر ترجیح دیتے ہیں اور ان کے منقول نہ ہونے پر متاخرین کی طرف رجوع کرتے ہیں،جیساکہ آیتِ کریمہ ’’ذلک ادنیٰ ان لا تعولوا‘‘ میں ’’العول‘‘کے معنیٰ کی وضاحت کرتے ہوئے اقوال ِ صحابہ وتابعین کا نقل کیا ہو جو لغوی معنیٰ کی توضیح کرتے ہیں۔[24]

 

3:اشتراک لغوی یعنی متعدد معانی کا ایک کلمہ پر اطلاق ،اس کی مثال ’’فولّ وجھک شطر المسجد الحرام‘‘ کی تفسیر میں امام موصوف لفظ"الشطر" کی وضاحت فرماتے ہوئے اس کے مشترکات کو ذکر کرتے ہیں۔[25]

 

4:اشعار سے استشہاد میں عموماً تمام مفسرین مشترک ہیں اور اس میں امام جصاص بھی متقدمین کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کی مثال آیت الصوم ہے جس میں وہ صوم کی لغوی توضیح میں متعدد اشعار کو نقل کرتے ہیں۔نیز وہ نحوی اور بلاغی استشہاد کے لئے بھی اشعار ذکر کرتے ہیں۔[26]

 

5:مثال کے طور پر امام جصاص آیت ِ کریمہ ’’فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم‘‘ کی تفسیر میں وہ ’’ما‘‘کا اعراب بیان کرتے ہیں اور اس کی نحوی تحلیل بھی کرتے ہیں۔[27]

 

6:تفسیر بلاغی میں وہ ممکنہ ہر صورت ،حقیقت ومجاز،تشبیہ وکنایہ،مشاکلت وغیرہ سے کام لیتے ہیں اور یہ متعدد مقامات پر ملتا ہے۔جن معروف مقامات پر دیگر مفسرین نے بلاغتی نکتہ نظر سے تفسیر اور لغوی معنیٰ کے تعین میں ان چیزوں سے استخدام کیا ہے علامہ موصوف بھی ان مقامات پر متقدمین کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔

 

احکام القرآن کی خصوصیات اور امام جصاص کے منہج سے متعلق معروضات کے بعد مناسب ہوتا ہے کہ امام موصوف کے فقہی رجحان اور تفسیر پر اس کے اثرات یا اپنے مسلک ومذہب اور آئمہ سے اختلاف کو بھی مختصراً ذکر کیا جائے۔

 

امام موصوف اور مذہبِ حنفیہ

 

اس ضمن میں پہلی گزارش یہ ہے کہ امام موصوف نے اپنی ساری زندگی فقہ حنفی کی خدمت میں صرف کی۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے جس قدر علمی تراث اور کتب چھوڑیں وہ سب فقہاء احناف کی کتب کی شروحات یا مختصرات پر ہی مشتمل

 

ہیں،نیز انھوں نے جو فروعات قائم کیں یا اصول مدون کیے وہ سب فقہ حنفی کے بنیادی اصولوں کے تحت ہی ہیں۔

 

دوم یہ ہے کہ فقہ حنفی کی خدمت کرنا عیب نہیں اس لیے کہ یہ ایک علمی مجال ہے ۔ اور یہ بات بھی معروف ہے کہ فقہاء نے بہرحال کسی نہ کسی خاص مسلک یا مشرب میں رہ کر احکام ومسائل اور شرعی رجحانات کا استخراج کیا ۔البتہ امام موصوف کے بارے میں یہ نظریہ عام ہے کہ وہ مجتہد فی المذہب تھے اور اپنے فن میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔دورانِ تفسیر امام موصوف نے بعض مسائل میں فقہ حنفی کی مخالفت بھی کی ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

 

1:مسئلہ تزکیہ گواہان میں انھوں نے امام ابوحنیفہ ؒ کے موقف کی مخالفت کی ہے کہ شاہد اگر ظاہری مسلمان ہو تو گواہی جائز ہوگی،جبکہ انہوں نے اس میں آیات قرآنیہ اور احادیث مبارکہ کو مدنظر رکھ کر اسے مرجوح قرار دیا ہے۔[28]

 

2:احناف کے نزدی امرِ مطلق تراخی پر محمول ہوتا ہے،جیساکہ بزدوی اور سرخسی [29]نےذکر کیا ہے۔جبکہ امام موصوف نے اس کو ’’الفور ‘‘ پر محمول کیا ہےاور اس کی نسبت ابوالحسن الکرخی کی طرف بھی کی ہے۔[30]

 

3:امام موصوف نے مسئلہ’’کیا کفار بھی شریعت کے فروعی احکامات کے مخاطب ہیں؟‘‘پر بحث کی ہے اور اس مسئلہ میں امام شافعی کی موافقت کرتے ہوئے امام ابو حنیفہؒ کی مخالفت کی ہے۔انہوں نے متعدد مقامات پر واضح الفاظ میں درج کیا ہے کہ کفار بھی فروعی احکامات کے مخاطب ہیں۔مثال کے طور پر آیتِ کریمہ’’ان الذین توفتھم الملائکۃ ظالمی انفسھم قالوا فیم کنتم‘‘ کےتحت فرماتےہیں ک:وهذایدل علٰی ان الکفارمکلفون بشرائع الاسلام معاقبون علٰی ترکها[31] یعنییہ آیت دلالت کرتی ہے کہ کفار اسلام کے شرائع کے مکلف ہیں اور ان کے ترک پر سزا پائیں گے۔

 

امام جصاص ؒ اور ان پر الزامات کاجائزہ:
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ احکام القرآن اپنی نوعیت کہ منفرد تفسیر ہے لیکن اس کے باوجود’’لکل جواد کبوة ولکل عالم هفوة‘‘کے مصداق اس میں بھی چند ایک پہلو محل ِ نظر ہیں اورعلماء نے ان کی بنیاد پر امام موصوف پردرج ذیل الزامات عائد کیے ہیں:

 

1-بعض مسائل میں معتزلہ سے موافقت

 

2-مذہب ِ حنفی سے شدتِ تمسک

 

3-بعض نامور اسلامی شخصیات کے بارے میں غیر مقبول رائے کا اظہار

 

4-تفسیر میں آیت کریمہ سے غیر مناسب مسائل اخذ کرنا

 

5-بعض روات پر غیر ضروری کلام

 

6-بعض ضعیف طرق کا تفسیر میں بنا تنبیہ ذکر کرنا

 

بعض مسائل میں معتزلہ کی موافقت:

 

امام موصوف پر اس الزام کی حقیقت جاننے سے پہلے دو باتیں جاننا ضروری ہیں:

 

1:امام جصاص کا ترجمہ نقل کرنے والوں نے ان میں اعتزال کی نشاندہی کی ہے جن میں علامہ ذہبی ؒ بطور خاص ہیں،اس بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ:قیل کان یمیل الیٰ الاعتزال وفی تآلیفه مایدل علیٰ ذلک[32]یعنی کہا جاتاہے کہ وہ اعتزال کی طرف مائل تھے اور ان کی تالیفات میں ایسے مسائل موجود ہیں جو اس پر دلالت کرتے ہیں۔

 

2:بعض مترجمین نے انہیں معتزلہ میں شمار کیا ہے ،جیساکہ محمد حسین ذہبی نے نقل کیا ہے:

 

ذکره المنصور بالله فی طبقات المعتزلة[33]

 

ترجمہ:منصور باللہ نے انھیں معتزلہ کے طبقات میں شمار کیا ہے۔

 

یہیں سے اخذ کرکے محمد حسین ذہبی نے انہیں معتزلی افکار سے متاثر قرار دیا ہے۔اس کی مزید تصدیق ان کی تفسیر سے معلوم ہوتی ہے کہ وہ معتزلی افکار سے متاثر تھے،جن میں سے دو اہم نظریات کو ہم ذکر کرتے ہیں۔

 

مسئلہ سحر میں معتزلہ کی موافقت:

 

امام جصاص نے آیتِ کریمہ ’’واتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ‘‘[34]میں جادو کی لغوی واصطلاحی بحث کی ہے اور اس کے بعد اس کی اقسام پر کلام ہوئے اس کی حقیقت اپنے نکتہ نظر سے واضح کی ہے جو درج ذیل نکات کی صورت میں ہے:

 

1:لغوی طورپر اس سے مراد وہ امر ہے جو اپنی لطافت اور خفاء کے باعث عجیب محسوس ہو۔

 

2:اس لیے ’’حلقوم وہنسلی ‘‘ پر سحر کا لفظ بولا جاتا ہےجیساکہ سیدہ عائشہ کا قول ہے:قبضه الله بين سحري ونحري[35]

 

3:اس سے مراد بسااوقات’’بشر‘‘بھی لیا جاتا ہے،جیساکہ کفار مکہ کا اعتراض تھا کہ ’’مال ھذا الرسول یاکل الطعام ویمشی فی الاسواق‘‘ یعنی یہ ہماری طرح ہنسلی وحلقوم والا ہے،پھر اس سے یہ لفظ منقول ہو کر اس امر میں بولا جانے لگا جو مخفی ہو اس قدر لطیف ہو کہ اس کی غیر حقیقی طور پر تخیلات میں اثرات ہوں اور خداع وفریب کا باعث ہو۔

 

لہٰذا جب اس کا اطلاق ہوگا تو مراد ایسا امر ہوگا جو خوشنما ہو اورملمع سازی کا مظہر ہو لیکن باطل ہو،جس کی کوئی حقیقت بالکل نہ ہو اور نہ ہی اس میں ثبات ہو، جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ[36]

 

یعنی ان کو خوش نما کرکے پیش کردیا گیا اور اس کی وجہ سے انھوں نے رسیوں اور لاٹھیوں کو دوڑتا ہواسمجھ لیا ،اس لیے لفظِ

 

’’تخیل‘‘ذکر کیا کہ حقیقتا ً کچھ نہ تھا محض تخیلات ہی تھے۔مزید آگے جا کر انھوں نے اس کی اقسام بیان کیں،جن میں سے بعض ایسی ہیں جو کفر کا موجب ہیں اور دیگر جو کہ حقیقت ہیں اور کچھ تخیلاتی ہیں۔[37]

 

نفسِ مسئلہ کی وضاحت:

 

اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام جصاص ؒ کے نزدیک ذوات و اشیاء میں جادو موثر نہیں اور نہ اس کی کوئی حقیقت ہے بلکہ اصلاً یہ اوہام وتخیلات ہی ہیں جو خلاف ِ حقائق امور کے مظہر ہوتے ہیں۔ان کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حیلے اور خفیہ اسباب سے لوگوں کو متاثر کردیا جاتا ہے۔یہی معتزلہ کا نظریہ ہے۔رہی وہ روایات جن میں نبی کریمﷺپرجادو کےمؤثر ہونے کا ذکر ہے ان کے بارے میں امام جصاص کا موقف یہ ہے کہ وہ دراصل ملحدین کی کوششوں کا شاخسانہ ہیں۔[38]

 

ڈاکٹر غلام شمس الرحمٰن نے اس حوالے سے اپنے تحقیقی مضمون میں لکھا ہے :

 

’’مندرجہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام جصاص ؒ کا سحر کے حوالے سے نکتہ نظر احناف اور جمہور علماء کی بجائے معتزلہ کے قریب ترین ہے ۔غالباً اسی وجہ سے معتزلی علماء نے ان کو معتزلہ میں شمار کیا ہےجیساکہ قاضی عبدالجبار نے معتزلہ کو مختلف طبقوں میں تقسیم کیا ہے اور پہلے طبقے میں خلفائے اربعہ اور پھر طبقاتِ صحابہ وتابعین اور اس طرح بارہویں طبقہ میں امام موصوف کو شمار کیا ہے۔لیکن اس سے امام جصاص ؒ کا معتزی ہونا لازم نہیں آتا ہے ورنہ صحابہ و تابعین کو بھی معتزلی مانا جائے گا جن کوانہوں نے طبقہ اولیٰ میں شمار کیا ہے۔اسی طرح اگرچہ وہ سحر کے حوالے سے معتزلی فکر رکھتے ہیں لیکن اس نقطہ نظر کی وجہ سے ان کو معتزلی قرار دینا درست نہیں ۔ درحقیقت یہ ان کا علمی تفرد ہے جس کا وجود مجتہدین میں ہونا ایک عمومی بات ہے ‘‘۔[39]

 

چنانچہ یہی موقف راجح معلوم ہوتا ہے کہ امام جصاص کا یہ نظریہ معتزلہ سے متاثر ہو کر نہیں بلکہ صحیح قول کے مطابق امام ابو حنیفہ ؒ اور امام ابو اسحاق اسفرائینی کی اس مسئلہ میں پیروی کرتے ہوئے ہےجس کا ذکر علامہ شوکانی(فتح القدیر،ج 1،ص 119) اور علامہ قرطبی ؒ (الجامع لاحکام القرآن،ج2، ص 46)نے کیا ہے۔ان کا موقف یہ ہے کہ سحر (جادو) محض ایک دھوکا ہے اور اس کی کوئی اصل یا حقیقت نہیں،البتہ امام جصاص کا صحیح احادیث کورد کرنا کسی طور مقبول نہیں۔دراصل اختلاف کا محل اس مسئلہ میں اس کلمہ (سحر) کا لغوی یا اصطلاحی معنیٰ نہیں، بلکہ اختلاف اس کی جزئیات میں ہے ،آیا سحر کی کوئی حقیقت بھی ہے یا نہیں؟ ۔اہل السنہ والجماعت کا اس مسئلہ میں موقف بالکل واضح ہے کہ سحر کی حقیقت بھی ہے اور اس کا تاثر بھی۔

 

مسئلہ رؤیت:

 

امام موصوف نے اس مسئلہ میں کافی اختصار سے کلام کی ہے۔آیتِ کریمہ ’’لاتدرکہ الابصاروھو یدرک الابصار‘‘کے تحت فرماتے ہیں:يقال إن الإدراك أصله اللحوق،نحوقولك:أدرك زمان المنصور،وأدرك أبا حنيفة،وأدرك الطعام أي لحق حال النضج،وأدرك الزرع والثمرة، وأدرك الغلام إذا لحق حال الرجال وإدراك البصر للشيء لحوقه له برؤيته إياه;لأنه لاخلاف بين أهل اللغة أن قول القائل:أدركت ببصري شخصامعناه رأيته ببصري،ولايجوزأن يكون الإدراك الإحاطة لأن البيت محيط بما فيه وليس مدركا له....والأخبار المروية في الرؤية إنما المراد بها العلم لو صحت، وهو علم الضرورة الذي لا تشوبه شبهة ولا تعرض فيه الشكوك;لأن الرؤية بمعنى العلم مشهورة في اللغة[40]

 

خلاصہ یہ ہے کہ ’’ادراک‘‘ کا مطلب کسی چیز کالاحق ہونا یا اس کا پالینا ہے۔جیسے کوئی شخص کسی زمانے کو پالے یا کسی مادی شئے کوپالے۔اسی طرح معنوی طور پر جوانی کو پالینا وغیرہ۔جبکہ ’’نظر سے پالینے‘‘سے مراد ہے کہ کسی شئے کو آنکھوں سے دیکھنا ۔ لہٰذا اس کا معنیٰ ’’احاطہ کرنا‘‘صحیح نہیں ۔آیتِ کریمہ’’لاتدرکہ الابصار‘‘کا اس طرح سے معنیٰ ہوگا:’’آپ اسےآنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے‘‘ یہ رویت ِ ابصار کی نفی کرکے محض مدح ہے جیساکہ فرمایا’’لاتاخذہ سنۃ ولانوم‘‘گویا اللہ تعالیٰ نے جس چیز کی اپنی ذات سے نفی کرکے مدح کی تو اس کے الٹ کااثبات یقیناً نقص اور ذم کو مستلزم ہےاور یہ ہرحال میں محال ہے۔نیز’’وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھاناظرۃ ‘‘میں ’’نظر‘‘کے معنیٰ میں اشتراک کی بنا پراحتمال ہےاس لیے اس اعتراض کرنا صحیح نہیں۔باقی رہااخباروروایات کا معاملہ تو اس میں امام صاحب کا کہنا ہے کہ بشرط صحت ان کی ’’علم‘‘کے ساتھ تاویل ہوگی،کیونکہ اس کی یہ تاویل (بمعنیٰ علم)لغت میں مشہور و معروف ہے۔

 

تبصرہ:

 

امام ابو بکر جصاص کے بارے میں ان نظریات کا ان سے ثبوت بہرحال ایک حقیقت ہے لیکن اس سے قبل ذکر کیے گئے اعتراضات کا یہ ہرگز جواب نہیں کہ وہ معتزلی تھے۔ ہمارے نکتہ نظر کے مطابق ان کو معتزلی کہنے والے دو گروہ ہیں :

 

اول: وہ حضرات جنہوں نے ان کو معتزلہ کے طبقات میں شمار کیا ہے، سرفہرست بعض معتزلی مؤلفین ہیں ۔

 

دوم: وہ لوگ جو ان سے نقل کرنے والے ہیں مثلاً امام ذہبی اور بعض معاصرین۔

 

لہذا حقیقت یہ ہے کہ اصلاً معتزلی مؤلفین نے انھیں اپنے طبقات میں درج کیا ہے اور اپنے نظریات سے انھیں متفق قرار دیا ہے بلکہ انہوں نے متعدد صحابہ کرام کے اقوال کو بھی اپنے نظریات کی دلیل بنایا ہے اور اپنی افکار کا ماخذ قرار دیا ہے۔جبکہ معاصرین نے محض ان کو پیشِ نظر رکھ کر اور گذشتہ دو آراء وامثال سے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ وہ معتزلی تھےحالانکہ ایسا ہرگز نہیں بلکہ مسلکِ حنفی کے ساتھ امام جصاص کا شدتِ تمسک تھا جیساکہ ہم آئندہ اس کا ذکر کریں گے۔نیز ان کی کتب میں اہل السنہ والجماعہ کے مذاہب کو مبرہن بیان کیا گیا ہے۔مثال کے طور پر عذابِ قبر ،ووعد وعید ،مرتکب کبائر،قرآن کے کلام اللہ ہونے میں انہوں نے معتزلی مذاہب کی سخت تردید کی ہے جو ان کتاب ’’الفصول فی الاصول‘‘ میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔

 

مذہبِ حنفی کے ساتھ شدتِ تمسک :

 

امام جصاص کی علمی خدمات مذہبِ حنفی کی ترویج میں کافی حد تک مشہور ہیں اور اس ضمن میں انہوں نے تفسیر میں مذہبِ

 

حنفی کی تائید میں ادلہ وبراہین کو بہت توجہ دی ہے،نیز احناف نے انھیں طبقہ ثانیہ یعنی مجتہد فی المذہب شمار کیا ہے۔مجتہد کاکسی خاص فقہی مذہب سے منسلک ہونا باعثِ ردوقدح نہیں لیکن اگر اس دوران وہ ادب واحترام اور اختلاف کی حدود وضوابط سے نکل جائے تو یہ مذموم عمل ہے۔امام جصاص نے جہاں مذہبِ حنفی کا ساتھ شدتِ تمسک اختیار کیا ہے وہیں اس کے دو برے اثرات بھی سامنے آئے۔جن میں پہلا ’’مذہبِ حنفی کے مخالفین پر شدید کلام‘‘اور دوسرا’’بعض نصوص کی تفسیر میں تعسّف ‘‘سے کام لینا ہے۔

 

مخالفینِ مذہب حنفی پر جرح اور شدید کلام:

 

احکام القرآن میں امام جصاص کے منہج کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ مخالفین ِ مذہب حنفیہ کا خوب رد کرتے ہیں اور ان کےخلاف بہت ہی سخت عبارات والفاظ استعمال کرتے ہیں۔مثال کے طور ’’قاضی اسماعیل بن اسحاق المالکی‘‘سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے مذہب کے دلائل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

 

کلامه ظاهره الاختلال واضح الفساد[41]

 

ترجمہ:اس کی کلام بالکل ناکارہ اور فاسد ہے۔

 

اسی طرح ایک جگہ لکھتے ہیں:

 

کلام فارغ لامعنیٰ تحته[42]

 

ترجمہ:یہ بے کار کلام ہے جس کی موضوع سے کوئی مناسبت نہیں۔

 

ایک اور جگہ پر لکھتے ہیں:

 

تخلیط وتشهٍّ غیر مقرون بدلالة[43]

 

ترجمہ:یہ اختلاط اور بنا دلالت ِ دلیل، خود پسندی ہے۔

 

مذاہبِ امام شافعی کے ساتھ ان کی مسلکی مخاصمت کا اندازہ بھی ا ن کے تفسیر ی رجحان سے کیا جاسکتا ہے۔امام جصاص ان کی کلام اور مستدلا ت کو شدت کے ساتھ رد کردیتے ہیں۔ایسا نہیں کہ انہوں نے امام شافعی ؒ پر تمام تفسیر میں سخت نکتہ چینی کی ہو بلکہ ان کی مدح بھی موجود ہے تاہم جہاں وہ ان کے مستدلات یا مسلکِ حنفی کے مخالف مذاہب کا تذکرہ کرتے ہیں تو انتہائی جارحانہ اندازا ختیار کرتے ہیں؛مثال کے طور پر آیت کریمہ ِ ’’وطعام الذین اوتو االکتاب حل لکم‘‘کے تحت امام شافعی کے موقف کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:

 

ولا نعلم من السلف والخلف اعتبر فیهم مااعتبر الشافعی فی ذلک وهو منفرد بهذه المقالة خارج بها عن اقاویل اهل العلم۔[44]

 

ترجمہ:ہمارے مطابق سلف وخلف میں سے اس موقف کو کسی نے معتبر نہیں کہا جس طرح امام شافعی نے کیا ہے اور وہ

 

اس بات کے اختیار کرنے میں منفرد ہیں اور اہل علم کے کلام سے خارج ہیں۔

 

مذکورہ عبارت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انکےنزدیک امام شافعی کی کلام اہلِ علم کے ہاں غیر معتبر قرارپاتی ہے۔ حالانکہ ایسا کہنا کسی طور پر بھی صحیح نہیں ۔اسی طرح آیت الوضوء کی تفسیر میں ترتیبِ افعال کے مسئلہ پر کلام کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:

 

هذا القول مماخرج به الشافعی عن اجماع السلف الفقهاء[45]

 

ترجمہ:یہ ایساقول ہے جس کی وجہ سےامام شافعی سلف فقہاء کے اجماعی مسئلہ سے نکل گئے ہیں ۔

 

گویا ان کے نزدیک امام شافعی کی رائے معتبر نہیں اور وہ اجماع منعقدہ کے مخالف اور اس سے خارج ہیں۔اس کے برعکس متاخرین احناف میں کئی ایسے علماء اوار مشایخ ہیں جو عزت واحترام اور حدود میں رہ کر اختلاف کرتے ہیں ،اس کے ساتھ ہی جب ائمہ میں سے کسی کا تذکرہ کرتے ہیں تو تکریم وشرف کا دامن نہیں چھوڑتے ۔مثال کے طور پر علامہ تھانوی ؒ (جن کی تالیف لطیف’’اعلاء السنن‘‘ ایک شاہکار کتاب ہے جس میں انہوں نے امام شافعی سے حنفیت کی بنا پربیسیوں مسائل میں اختلاف کیا ہے تاہم)ایک راوی پر کلام نقل کرتے ہوئے امام شافعی سے اس کی تائید ان لفظوں میں نقل فرماتے ہیں:

 

وکذا من روی الامام المعظّم سیدالفقهاء ورئیس المحدثین وامیر المومنین فی علوم الشریعة محمد بن ادریس الشافعی عالم قریش فهوثقة[46]

 

ترجمہ:اور اسی طرح امام ِ معظم سیدالفقہاء ،رئیس المحدثین و علوم ِ شریعت میں امیرالمؤمنین ،محمد بن ادریس شافعی جو کہ قریشی عالم ہیں ان سے بھی مروی ہے کہ یہ راوی ثقہ ہے۔

 

بعض نصوص کی تفسیر میں تعسّف سے کام لینا:

 

مذہبِ حنفیہ کے ساتھ شدتِ تمسک کا دوسرا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ انھوں نے بعض نصوص کی تفسیر میں حد سے زیادہ بے اعتدالی کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنے مذہب کی تقویت واثبات جبکہ مخالف کے ردمیں غلو وتعسف سے کام لیاہے ۔مثال کے طور پر آیت کریمہ"یسئلونک عن الخمر والمیسر"کے تحت انھوں نے شراب کو شامل اشیاء پر بحث میں لکھا ہے:

 

فقال الجمهور الأعظم من الفقهاء:اسم الخمر في الحقيقة يتناول التي المشتد من ماء العنب.وزعم فريق من أهل المدينة ومالك والشافعي أن كل ما أسكر كثيره من الأشربة فهو خمر[47]

 

ترجمہ:فقہاء میں جمہور کی ایک بہت بڑی جماعت کا کہنا ہے کہ خمر کا اسم حقیقت میں اس کو شامل ہے جو انگور کے ملغوبہ پانی سے حاصل کی جائے جبکہ اہلِ مدینہ ،امام مالک ؒاور شافعی ؒ کا گمان ہے کہ (پاکیزہ)مشروبات میں جس میں (ایک حد کے بعد )نشہ پیدا ہوجائے تو وہ خمر ہے۔

 

اس کے بعد انتہائی سختی سے کام لیتے ہوئے پہلا مذہب ثابت کرنے کی سعی کی ہے،جوکہ دراصل فقہاء ِ احناف ہیں۔لیکن

 

باعث ِ حیرت یہ ہےکہ ایک طرف جمہورِ اعظم کا دعویٰ کیا ہے جبکہ ساتھ ہی اہل ِمدینہ ،امام مالک وشافعی کومخالفین میں ذکر کیا نیز یہ بھی معلوم ہے کہ وہ فقہائے حنابلہ کوبالکل قابلِ التفات نہیں سمجھتے تو’’الجمھورالاعظم‘‘سے ان کی مراد پر اعتراض ہوتا ہے۔

 

دوسری مثال اس کی یہ ہے کہ آیتِ کریمہ ’’ثم اتمواالصیام الیٰ اللیل‘‘کے تحت نفلی روزہ رکھنے والے کے لیے اتمام کے وجوب پر بحث کرتے ہوئے کئی صفحات لکھ ڈالے ہیں اور بہت ہی جرح وقدح اور اپنے موقف کے متعد دتائیدی د لائل ذکرکرنے کے بعد مخالفین کے موقف کو مرجوح قرار دیتے ہیں[48]۔یہ ان کے مذہبِ حنفیہ کے ساتھ شدتِ تمسک کی عام مثالیں ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ وہ دورانِ تفسیر تعسّف سے کام لیتے ہیں۔

 

بعض اسلامی شخصیات کے بارے میں غیر محمود آراء کا اظہار:

 

امام جصاص پر عائد الزامات میں تیسرا الزام یہ ہے کہ وہ بعض اسلامی شخصیات پر مخصوص معاملات کی بنا پر خوب جرح کرتے ہیں اور ان کے بارے میں غیر محمود آراء کا اظہار کرتے ہیں۔اس ضمن میں دو مثالیں ذکر کی جاتی ہیں۔

 

معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ:

 

امام جصاص ان کے بارے میں غیر ضروری اور مقبول رائے کے مخالف رائے کا ذکر کرتے ہیں ۔مثال کے طورپر آیتِ کریمہ ’’الذین ان مکنھم اقاموا الصلوٰۃ واٰتوالزکاۃ‘‘کے تحت فرماتے ہیں:

 

وهذه صفة المهاجرين:لأنهم الذين أخرجوا من ديارهم بغير حق،فأخبر تعالى أنه إن مكنهم في الأرض أقاموا الصلاة وآتوا الزكاة وأمروا بالمعروف ونهوا عن المنكر،وهو صفة الخلفاء الراشدين الذين مكنهم الله في الأرض وهم أبو بكر وعمر وعثمان وعلي رضي الله عنهم وفيه الدلالة الواضحة على صحة إمامتهم لإخبار الله تعالى بأنهم إذا مكنوا في الأرض قاموا بفروض الله عليهم،وقد مكنوا في الأرض فوجب أن يكونوا أئمة قائمين بأوامر الله منتهين عن زواجره ونواهيه ولا یدخل معاویة هولاء لان الله وصف بذلک المهاجرین الذین اخرجوا من دیارهم ولیس معاویة من المهاجرین بل هو من الطلقاء[49]

 

یعنی یہ مہاجرین کے اوصاف مذکور ہیں ،جو خلفائے راشدین کو شامل ہیں اور اس آیت کریمہ میں ان کی صحتِ امامت کی دلیل بھی ہے اس لیے کہ ان میں اس کے تمام تر تقاضے موجود ہیں۔ البتہ اس میں معاویہ ہ داخل نہیں کیونکہ اللہ نے اس وصف کا مصداق ان مہاجرین کو قرار دیا ہے کو اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے ہیں جبکہ معاویہ ان مہاجرین میں سے نہیں بلکہ وہ طلقاء میں سے ہیں۔

 

اسی طرح آیت کریمہ ’’وعد الله الذين آمنوا منكم وعملوا الصالحات ليستخلفنهم في الأرض‘‘کے تحت فرماتے ہیں:وفیه دلالة علی صحة امامة الخلفاء الاربعة ایضاً لان الله استخلفهم فی الارض مکّن لهم کما جاء الوعد ولایدخل فیهم معاویة لانه لم یکن مومنا فی ذلک الوقت۔[50]

 

ترجمہ:اس آیت میں خلفائے اربعہ کی صحتِ امامت کی دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو زمین کی خلافت عطا کی تھی اور بموجبِ وعدہ تمکین دی،اس میں معاویہ داخل نہیں کیونکہ وہ اس وقت مومن ہی نہیں تھے۔(یعنی ایمان ہی نہیں لائے تھے)

 

خلاصہ یہ ہے کہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی غیر ضروری تنقیص کرتے ہیں اور ان کے بارے میں اہل السنہ والجماعہ کے موقف کے خلاف رائے رکھنے والے معلوم ہوتے ہیں جو دراصل تفسیر میں مناسب نہیں۔

 

اموی حکّام کی تنقیص:

 

امام موصوف اموی حکام کے دورمیں بعض دردناک واقعات کی وجہ سے تفسیر میں ان کی مذمت کرتے ہیں اور ان کے مقرر کردہ عمّال بالخصوص حجّاج بن یوسف پر بھی طعن کرتے ہیں۔مثال کے طور ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں :

 

ولم یکن فی العرب ولا آل مروان اظلم ولااکفر ولا افجر من عبدالملک ولم یکن فی عمّاله اکفر ولا اظلم ولاافجر من الحجّاج[51]۔مطلب یہ ہے کہ اموی حکمرانوں کے عمال میں حجاج سے بڑھ کر کوئی کافر ،ظالم یا فاجر نہیں آیا ۔

 

اسی طرح ایک اور مقام پر بھی انہوں نے حجاج بن یوسف اور مروان دونوں کو لعنت وملامت بھیجتےہوئے طعن کیا ہے۔[52]

 

تجزیہ:

 

اس الزام کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہے کہ امام موصوف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا اموی حکام کے بارے یہ رائے یقینا رکھتے تھے تاہم اس کا سبب ظاہری طور پر اس دور کے حالات وظروف کے اثرات محسوس ہوتے ہیں۔ شاید اس وقت امام جصاص کو جن احوال کا سامنا تھا ان کا یہ تقاضا تھا یا پھر کہا جا سکتا ہے کہ یہ امام موصوف کی ایک رائے ہے جس کا صحیح یا مرجوح ہونا کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کی بنا پر امام موصو ف کو طعن کا نشانہ بنایا جائے۔وہ مجتہد فی المذہب تھے اور ان کا کوئی بھی رائے اختیار کرنا عین ممکن ہے البتہ اس طرح کی رائے کو مرجوح قرار دیا جاسکتا ہے لیکن قائل کو مطعون ٹھہرانابہرحال محل ِ نظر ہے۔

 

آیات کے غیر متعلقہ تفسیری نکات:

 

امام موصوف دوران تفسیر فقہ القرآن والتفسیر کے برعکس آیت کے مناسب مسائل کے ساتھ غیر ضروری ومناسب مسائل کا ذکر بھی کرتے ہیں،جن کا اس تناظر میں ہرگز محل نہیں ہوتا۔مثال کے طور پر آیتِ کریمہ ’’وبشر الذين آمنوا وعملوا الصالحات أن لهم جنات تجري من تحتها الأنهار‘‘کے تحت لکھتے ہیں:

 

مذهب الحنفیة فی ان من قال لعبده :من بشرنی بولادة فلانة فهو حر فبشره جماعة واحداً بعد واحدٍ ان الاول یعتق دون غیره لان البشارة حصلت بخبره دون غیره[53]

 

ترجمہ:اگر کوئی شخص کہے کہ جس غلام نے مجھے فلاں کے ہاں بچے کی پیدائش کی خوش خبری پہلے سنائی تو وہ آزاد ہوگا ،پس اگر اسے ایک جماعت خبر دیتی ہے تو پہلا شخص آزاد ہوگا کیونکہ اس کی خبر سے خوش خبری حاصل ہوئی نہ کہ دیگر سے۔

 

اسی طرح آیتِ کریمہ ’’فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ‘‘کے تحت نیت کے شرط ِ طہارت نہ ہونے کی بحث کرتےہیں اور مذہبِ حنفیہ کی تائید میں طویل کلام کی ہے۔[54]

 

بعض ثقہ روات پر نقد وجرح:

 

علامہ ذہبی کے بیان کے مطابق ان کی اخبار وروایات پر گہری نظر تھی لیکن اصولِ روایت ودرایت کے حوالے سے یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ امام جصاص بسا اوقات تسامح کا شکار ہوجاتے ہیں،جس کی ایک صورت ثقہ روات پر جرح کرنا ہے۔مثال کے طور پر آیتِ کریمہ ’’ممن ترضون من الشھداء‘‘میں مذکور اثر ’’ان رسول اللہ قضیٰ بالیمین مع الشاھد‘‘کے تحت کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:فاما فساد ها من طریق النقل فان حدیث سیف بن سلیمان غیر ثابت لضعف سیف بن سلیمان هذا، ولان عمرو بن دینار لایصح له سماع عن ابن عباس فلا یصح لمخالفنا الاحتجاج به ۔[55]

 

الغرض اس اثر کو سیف بن سلیمان اور عمرو بن دینار کی وجہ سے سخت ضعیف قرار دیتے ہیں حالانکہ کتب ِ تراجم میں اس کے برعکس ہے۔سیف بن سلیمان اور عمرو بن دینار ثقہ اور ثبت ہیں۔یہاں تک کہ متشدد محدثین کے نزدیک بھی ان کی توثیق معروف ہے۔مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو:کتاب الجرح والتعدیل للامام عبدالرحمٰن بن ابی حاتم الرازی:4/74،التاریخ الکبیر للبخاری4/171، میزان الاعتدال:2/255، تقریب التھذیب للحافظ ابن حجر العسقلانی: 1/344۔

 

تفسیرِ ماثور میں ضعیف اقوال کا ذکر

 

دوران تفسیرامام جصاص تفسیرِماثورکرتےہوئےبعض دفعہ صریح ضعیف اقوال نقل کرتےہیں۔مثال کےطورپراکثر مقامات پر انہوں نے دورانِ تفسیر ’’روایۃ عطیۃ عن ابن عباس‘‘سے متعدد اثر ذکر کیے ہیں جبکہ اہلِ علم میں یہ بات معروف ہے کہ عطیہ العوفی سخت ضعیف ہے اور انھوں نے اس کے طریق سے آنے والی مرویات کو غیر ثابت قرار دیا ہے ۔تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو:میزان الاعتدال : 3/79، کتاب الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم الرازی: 6/382، تقریب التھذیب:7/224۔ اس کے باوجود امام جصاص ان سے بنا تنبیہ کیے نقل کرتے ہیں ۔

 

اس کی دوسری مثال دوران ِ تفسیر بالماثور ’’روایة جویبر عن الضحاک بن مزاحم التابعی المفسر‘‘ہے اور یہ طریق بھی جمہور محدثین کے ہاں جویبر کی وجہ سے ضعیف ہےجیساکہ ابن حجراور امام ذہبی ؒ نے اس کی صراحت کی ہے۔[56]

 

خلاصہ کلام:
امام ابوبکر جصاص ؒ کی تفسیر احکام القرآن ایک فقہی طرزِ تفسیر کابے نظیر نمونہ ہے۔

 

امام جصاص نے اس تفسیر کو محض آیات ِ احکام کی تفسیر کرنے تک ہی محدود رکھا ہے۔

 

امام موصوف چونکہ مذہبِ حنفیہ سے تعلق رکھتے تھے اس لئے انھوں نے تفسیر میں مذہب کے فقہی اسلوب کو مدنظر رکھا اور

 

تفسیری مسائل کو اس کے تحت مرتب کیا ہے۔

 

امام جصاص ؒ نے اس میں جن امور کا خیال رکھا اور وہ اس تفسیر کے میزات شمار ہوتے ہیں ان میں تفسیر القرآن بالقرآن، قرآن سے لغوی معنی پر استشہاد،تفسیر موضوعی کا اہتمام،تفسیر بالماثور کااہتمام،اقوالِ سلف میں ترجیح وتفصیل،بعض مقامات پر اقوال کی جمع،اخبارِ آحاد کا ذکر،بوقتِ ضرورت حدیث ِ رسول سے قولِ صحابی یا تابعی کی طرف عدول،تفسیر بالرائے اور لغوی استشہاد سے کام لینا شامل ہیں۔امام موصوف چونکہ مذہبِ حنفیہ سے شدت تمسک رکھتے تھے اس لیے ان کی تفسیر میں چند ایک تسامحات بھی ملتے ہیں ،جو یقیناً اجتہادی امور سے متعلق ہیں ،جن میں خاص طور پر مخالف مذاہب پر شدید نقدکرنا ،امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن،معتزلہ کی بعض مسائل میں موافقت اور ثقہ روات پر جرح شامل ہے،جن کے باوجود ان کے تبحرِ علمی میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا ۔

حوالہ جات

  1. 1 السمعانی،عبد الكريم بن محمد بن منصور،الانساب، مجلس دائرة المعارف العثمانية، حيدر آباد،ط1 ،1962 ء،ج2،ص63
  2. الذهبی،شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان،سیر اعلام النبلاء،مؤسسة الرسالة ، 1985 ء،ج16،ص340
  3. ایضاً
  4. الصمیری ،ابو عبدالله الحسین بن علی ، لطائف ومناقب حسان ،س ن ،ص83
  5. الذهبی،شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان، سیر اعلام النبلاء ،ج16،ص325
  6. ابن کثیر،اسماعیل بن عمر بن کثیر ابو الفداء،البدایة والنهایة ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،1988ء،ج 11،ص297
  7. الذهبی،شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان، سیر اعلام النبلاء،ج16،ص340
  8. الصمیری ،ابو عبدالله الحسین بن علی ، لطائف ومناقب حسان ، ص84
  9. الذهبی،شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان، سیر اعلام النبلاء،ج16،ص340
  10. امیر الکاتب، غایة البنان،جزء 2، لوحہ45 (در ضمن، تحقیقی مقالہ برائے ڈاکٹریٹ، تحقیق الجزء الثانی من شرح مختصر الطحاوی للجصاص،المکتبہ المرکزیہ،جامعہ ام القریٰ،المکۃ المکرمہ،رقم1924)
  11. الخطیب ، أبو بكر أحمد بن علي،البغدادی،تاریخ بغداد،دارالکتب العلمیة،ط1، 1417 هـ،ج4،ص314
  12. حاجي خليفة ،مصطفى بن عبد الله كاتب جلبي، القسطنطيني، کشف الظنون،مکتبة المثنیٰ،1941ء، س ن ،ج1،ص46
  13. الجصاص،أحمد بن علي أبو بكر الرازي ،الحنفي،ا حکام القرآن،دارالکتب العلمیة،بیروت،ط1، 1994ء،ج1،ص46
  14. احکام القرآن،ج1،ص501
  15. احکام القرآن: 2/215،2/11
  16. احکام القرآن،ج1،ص501
  17. احکام القرآن ،ج2،ص353
  18. احکام القرآن،ج1،ص97
  19. احکام القرآن،ج1،ص110
  20. احکام القرآن،ج1،ص122
  21. احکام القرآن،ج2،ص491
  22. احکام القرآن،ج1،ص113
  23. احکام القرآن ،ج1،ص398
  24. احکام القرآن،ج2،ص72
  25. احکام القرآن ،ج1،ص110
  26. احکام القرآن ،ج1،ص231
  27. احکام القرآن ،ج2،ص51
  28. احکام القرآن،ج1،ص614
  29. الحنفی ،البخاری،العزيز بن أحمد بن محمد،علاء الدين ،کشف الاسرار،دارالکتب الاسلامی ،س ن،ج1،ص254) (السرخسي محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة ،اصول السرخسی ،دار المعرفة – بيروت ، س ن ، ج1،ص26
  30. الجصاص، أحمد بن علي أبو بكر،الفصول فی الاصول ،وزارة الأوقاف الكويتية،ط2 ،1994ء ،ج2،ص103
  31. احکام القرآن،ج2،ص313
  32. الذهبی،شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان، سیر اعلام النبلاء،ج16،ص341
  33. الذهبي ،الدكتور، محمد السيد حسين ،التفسیر والمفسرون،مكتبة وهبة،القاهرة ، س ن،ج2،ص441
  34. البقرۃ102:2
  35. البخاری،محمد بن اسماعیل ،الجامع الصحیح، دارالسلا م ،الریاض،2002ء،کتاب الجنائز،باب ما جاء في قبر النبي ﷺ
  36. الاعراف:116
  37. احکام القرآن ،ج1،ص49-53
  38. احکام القرآن،ج1،ص57
  39. غلام شمس الرحمٰن،پروفیسر،امام جصاصؒ کی سحر کے حوالے سے تفسیری تعبیرات اور اعتزال:ایک تنقیدی جائزہ،مجلہ ضیائے تحقیق،شمارہ 12،شعبہ علومِ اسلامیہ و عربی،جی سی یو فیصل آباد،ص 36
  40. احکام القرآن،ج3،ص6، کامل عبارت یہ ہے:يقال إن الإدراك أصله اللحوق، نحو قولك: أدرك زمان المنصور، وأدرك أبا حنيفة، وأدرك الطعام أي لحق حال النضج، وأدرك الزرع والثمرة، وأدرك الغلام إذا لحق حال الرجال وإدراك البصر للشيء لحوقه له برؤيته إياه; لأنه لا خلاف بين أهل اللغة أن قول القائل: أدركت ببصري شخصا معناه رأيته ببصري، ولا يجوز أن يكون الإدراك الإحاطة لأن البيت محيط بما فيه وليس مدركا له،فقوله تعالى: {لا تدركه الأبصار} معناه: لا تراه الأبصار، وهذا تمدح بنفي رؤية الأبصار كقوله تعالى: {لا تأخذه سنة ولا نوم} وما تمدح الله بنفيه عن نفسه فإن إثبات ضده ذم ونقص، فغير جائز إثبات نقيضه بحال، كما لو بطل استحقاق الصفة بـ {لا تأخذه سنة ولا نوم} لم يبطل إلا إلى صفة نقص، فلما تمدح بنفي رؤية البصر عنه لم يجز إثبات ضده ونقيضه بحال; إذ كان فيه إثبات صفة نقص ولا يجوز أن يكون مخصوصا بقوله تعالى {وجوه يومئذ ناضرة إلى ربها ناظرة} لأن النظر محتمل لمعان، منه انتظار الثواب كما روي عن جماعة من السلف،فلما كان ذلك محتملا للتأويل لم يجز الاعتراض عليه بما لا مساغ للتأويل فيه والأخبار المروية في الرؤية إنما المراد بها العلم لو صحت، وهو علم الضرورة الذي لا تشوبه شبهة ولا تعرض فيه الشكوك; لأن الرؤية بمعنى العلم مشهورة في اللغة.
  41. احکام القرآن،ج1،ص370
  42. احکام القرآن ،ج1،ص513
  43. احکام القرآن،ج1،ص494
  44. احکام القرآن،ج2،ص406
  45. احکام القرآن،ج2،ص401
  46. التهانوی،ظفر احمد بن لطیف،العثمانی،قواعد فی علم الحدیث،دارالقلم،بیروت،ط 3،ص 221
  47. احکام القرآن،ج1،ص393
  48. احکام القرآن،ج1،ص283-290
  49. احکام القرآن،ج3،ص320
  50. احکام القرآن،ج3،ص425
  51. احکام القرآن ،ج1،ص86
  52. احکام القرآن ،ج3،ص132
  53. احکام القرآن،ج1،ص35
  54. احکام القرآن،ج1،ص237
  55. احکام القرآن،ج1،ص625
  56. ابن حجر ،احمد بن علی بن حجر ،العسقلانی،تقریب التهذیب ،دارالکتب العلمیة ـ بیروت،ط2، 1994ء،ج1،ص168-والذهبی ،ابو عبدالله محمد بن احمد بن عثمان، میزان الاعتدال ،دارالمعرفة ،بیروت،ط1 ، 1963ء،ج1،ص427
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...