Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

اسلامی قیادت کے بنیادی اصول: سیرت نبویﷺ کی روشنی میں |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060029185_586

Pages

175-204

DOI

10.51411/rahat.2.1.2018.30

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/30/326

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/30

Subjects

Islamic Leadership Guiding Principles Seerha of the Holy Prophet Islamic Leadership Guiding Principles Seerha of the Holy Prophet

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید:

قرآن حکیم نے بار بار نشاندہی کی ہے کہ انسان آدم وحوا کی اولاد ہیں اور زمین پراللہ کاکنبہ ہیں، اسى اعتبارسےانسان فطرتاًمل جل کر رہنا پسند كرتا ہے ليكن زمین میں اصلی حاکمیت اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔وہی تنہا اس کائنات کا خالق و مالک اورحاکم ہےاور اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اپنے بندوں کے لیے نظام زندگی تجویز کرے اور ان کے لیے قانون بنائے۔ یہی وه بنیادی حقیقت ہے جس پر ایک اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے۔

 

اسلامی ریاست میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو زمین پر نافذ کرنے کامنصب اولوالامرکے سپرد کیا گیا ہے۔ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد یہ ذمہ داری امت کے قيادت یعنی ارباب حل و عقد کی طرف منتقل ہوئی۔ وہ اس بات کے لیے مسؤل قرار پائے کہ وہ اللہ تعالیٰکی زمین میں اس کے احکام و قوانین نافذ کریں۔ خود بھی ان کی اطاعت کریں اور دوسروں سے بھی اطاعت کرائیں۔ یہ قائدين درحقیقت رسول اللہ ﷺکے خلفا ءکی حیثیت رکھتے ہیں اس وجہ سے ان کی اطاعت واجب ہے۔الله تعالى كا ارشاد ہے:

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ﴾[1]

 

ترجمہ: ’’اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اور اپنے اولوالامر کی‘‘۔

 

اسلام نے اپنے نظام اطاعت میں قائدين کو بلند منصب اس لیے دیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰکی تشریعی حاکمیت کے زمین میں نفاذ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس منصب کا بد یہی تقاضا یہ ہے کہ وہ خود اللہ تعالیٰکے قانون کی اطاعت کریں اور اس کے بندوں کے اندر اسی کے قانون کو جاری و نافذ کریں۔

 

اس طرح ان کے منصب کا بدیہی تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ نہ تو خود رب کائنات کے قانون کی نافرمانی کریں اور نہ دوسروں کو کسی ایسی بات کا حکم دیں جو رب کائنات کے حکم کے خلاف ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں سے اطاعت کا یہ مطالبہ اس بنیاد پر ہے کہ اس کائنات کا حقیقی حکمران وہی ہے۔ بندوں کا حقیقی منصب صرف اطاعت کا ہے اور اگر وہ کوئی تصرف کا حق رکھتے ہیں تو صرف اس کے نائب کی حیثیت سے۔ اس وجہ سے ان کے لیے یہ بات کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے کہ وہ اصل حکمران کے حکم کے خلاف حکم دیں اور اگر وہ ایسا کر بیٹھیں تو وہ اپنا وہ درجہ از خود ختم کر دیتے ہیں جو اسلام نے ان کے لیے تسلیم کیا ہے۔

 

قائدين کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کچھ خصوصیات کے حامل ہوں۔ مثلاً وہ اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ پر ایمان رکھتے ہوں، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو دینی و قانونی سند مانتے ہوں۔ اسلام کے احکام و شرایع کے پابند ہوں۔ تہذیب و معاشرت میں اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہوں اور حلال و حرام کے بارے میں اسلام کے مقرر کی ہوئى حدود کے پابند ہوں۔ اسی لیے ایک خلیفۃ المسلمین ازروئے قانون اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کو بے کم و کاست جاری کرے۔ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے ۔

 

قیادت کامعنى و مفہوم:

قیادت عربی زبان کا لفظ ہے جو قود  سے لیا گیا ہے یعنی کسی کے آگے چلنا، رہبری  اور راہنمائی کرنا وغیرہ، جیسے کہا جاتاہے۔

 

’’قيادة الْجَيْش‘‘[2]

 

’’یعنی لشکر کی کمانڈاوررہبری کرنا ‘‘۔

 

قیادت: ’’رہنمائی، رہبری کرنے کا عمل، سربراہی‘‘۔[3]

 

==قائد: ==’’فوج کا سردار، حاکم، وہ شخص جو اندھے کا لاٹھی ہاتھ میں پکڑ کر اس کو راستے پر لے جائے‘‘۔[4]

 

’’آگے کی طرف کھینچنے والا، قیادت کرنے والا، افسر اعلی‘‘۔[5]

 

یعنی قیادت سے مرادحکمرانی  اوررہبری ہے ۔حکمران اوررہبر ایک قسم کا قائد ہے جو پوری قوم کی کشتی کو سعادت اورخوش بختی کے ساحل پر بھی لاسکتا ہے اور قوم کی بدبختی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

 

’’قَادَ الرَّجُلُ الْفَرَسَ قَوْدًایعنی آدمی گھوڑے کو لے کرچلا تاکہ قیادت کرے== ۔ ==وَيُسْتَعْمَلُ بِمَعْنَى الطَّاعَةِ وَالْإِذْعَانِ وَانْقَادَ فُلَانٌ لِلْأَمْرِ وَأَعْطَى الْقِيَادَ إذَا أَذْعَنَ طَوْعًا أَوْ كَرْهًا۔قیادت اطاعت ماننے اور کسی کے ذمہ کوئی کام کرنے کےمعنی میں استعمال ہوتاہے اسی سے اسے قیادت دی گئی اس کی خوشی یا مجبوری سے ۔وَقَادَ الْأَمِيرُ الْجَيْشَ قِيَادَةً فَهُوَ قَائِدٌ وَجَمْعُهُ قَادَةٌ وَقُوَّادٌ وَانْقَادَ انْقِيَادًا ۔[6]امیر نے لشکر کی قیادت کی اور وہ قائد کی طرح تھےاور اس کی جمع قادۃ اور قوداد وغیرہ‘‘۔

 

ایسے الفاظ جو قیادت کے لیے بولے اور استعمال کیے جاتے ہیں جن کا قرآن مجید میں تذکرہ کیا گیا ہے۔

 

الخلافة: ’’قال ابن منظور: مصدر من الفعل خلف يخلف خلافة، إذا صار في مكان ولم يصير فيه غيره. وتكون الخلافة في الخير والشر، يقال: أوصى له بالخلافة، وأحسن الولد الخلافة في إلأهل والولد، وقال: جاز أن يقال للأئمة خلفاء الله في‘‘[7]

 

ابن منظور کہتے ہیں کہ یہ مصدر ہے فعل خلف سے اس کا تعلق جگہ سے ہے اور اس کے بغیر یہ کچھ بھی نہیں۔خلافت (جانشینی) خیراور شر دونوں کے لیے ہے اسی سے اس کو خلافت کی نصحیت کی، اپنی نیابت کے لیے اچھا بچہ گھر والوں کے لیے چھوڑا، فرماتے ہیں کہ یہ کہنا جائز ہوگا کہ علماء اللہ کے زمین میں نائب ہیں۔

 

﴿ يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ﴾[8]

 

’’ (ہم نے ان سے کہا) اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں نائب بنایا ہے لہذا لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کرنا اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرنا ورنہ یہ بات تمہیں اللہ کی راہ سے بہکا دے گی۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بہک جاتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے کیونکہ وہ روز حساب کو بھول گئے‘‘۔

 

2: الملك: ’’قال ابن منظور: مصدر الفعل ملك يملك ملكا، وهو لفظ يطلق على المذكروالمؤنث كالسلطان يقال: هذا ملك الله أي عزه وسلطانه، وملكوته: سلطانه وعظمته، والملكوت من الملك، كالرهبوت من الرهبة. والفاعل منه: ملك، وجمع ملك أملاك وملوك. ويقال: ملك القوم فلاناً على أنفسهم، أي صيروه ملكاً وسيدا عليهم‘‘[9]

 

مصدر ہے فعل ملک یملک اس لفظ کا اطلاق مذکر و مؤنث دونوں پر ہوتا ہے۔كہا جاتا ہےاللہ نے اس کو عزت اور حکومت دی ہےاور ملكوت ملك س ہےاور اس كا فاعل ملك ہے اور اس كى جمع ملوك اور املا ك استعمال ہوتى ہے فلاں شخص كو انہوں نے اپنا سلطان مقرر كر ليا يعنى وه سردار اور ملك بن گیاان كے لیے۔

 

3: الإمارة: قال ابن منظور: ’’مصدر من الفعل أمر يأمر إمارة وإمرة بالكسر، وهي السيادة والرئاسة، يقال أمر الرجل إذا صار سيداً على القوم وصار ملكاً عليهم والإمارة تبدأ من إمارة أفراد ثلاثة إلى إمارة الدولة أو الإقليم أو ما يماثله في ذلك، والأمير شخصية مختارة من قبل أفراد يرون فيه انه الأنسب والأجدر لقيادتهم‘‘[10]

 

یہ فعل امر سے مصدر ہے أمر يأمر إمارة يعنى سردار اور رئيس، يہ اس وقت بولا جاتا ہے جب كوئى كسى قوم پرسردار اور ملك مقرر كرديا گیا ہويہ امارت تين افراد س شروع ہوتى ہےاور صوبہ يا ملك كےليےيا جو اس كےمثل ہوبهى بولى جاتى ہے- امير وه شخص ہوتا ہے جس كے بار ےميں لوگوں کا خيال ہوتا ہے كہ يہ ان ميں سب سے زياده قيادت او رسردارى كا حقدار ہے ۔

 

4: السلطان: قال ابن منظور’’: السلطان الحجة والبرهان‘‘، سلطان حجت اور دليل كو كها جاتاہے جيسا كہ قران ميں ارشاد ہے کہ:

 

﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَى بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِينٍ﴾[11]

 

’’اور ہم نے موسیٰ کو اپنے معجزے اور صریح سند (نبوت) دے کر فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا‘‘۔

 

’’مجرى المصدر. وهو في القرآن الحجة‘‘[12]

 

’’يہ مصدر ہے اورقرآن مجيد نے اس كے معنى حجت بيان كيے ہیں ۔

 

﴿ يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ﴾[13]

 

’’اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل (کر بھاگ) سکتے ہو تو بھاگ دیکھو! تم انتہائی زور کے بغیر نکل نہیں سکو گے‘‘۔

 

’’ولذلك يقال للأمراء سلاطين لأنهم الذين تقام بهم الحجة والحقوق‘‘

 

’’اسی لیےامراء اور سلاطين كو كہا جاتا ہے كيونكہ وه حجت اور دليل مانے جاتے ہیں‘‘۔

 

5: - النقيب: - ’’قال ابن منظور: النقيب عريف القوم، والجمع نقباء، والنقيب العريف وهو شاهد القوم وضمينهم‘‘[14]

 

’’ابن منظور بيان كرتے ہیں عريف نگران كو کہتے ہیں اور اس کی جمع نقبا ءہے، اور اسى سے نقيب قوم كا گواه اور ضامن ہوتاہے‘‘۔

 

﴿وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ﴾ [15]

 

’’اور اللہ نے بنی اسرائیل سے بھی پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ سردار مقرر کئے‘‘۔

 

’’والنقيب في اللغة كالأمين والكفيل، وكان النبي قد جعل ليلة العقبة كل واحد من. (الذين بايعوه نقيباً على قومه وجماعته. والنقيب هو الرئيس الأكبر‘‘۔

 

’’لغت میں نقیب امین اور کفیل کو کہتے ہیں، عقبہ کی رات ہر ایک کو نقیب مقرر کیا جنہوں نے آپ سے بیعت لی وہ اپنی قوم کے نقیب مقرر ہوئے۔ نقیب بڑے سردار کو کہتے ہیں‘‘۔

 

6: الإمامة: -قال ابن منظور: وأم القوم وأم بهم تقدمهم، وهيالإمامة والإمام، كل من ائتم به قوم كانوا على الصراط المستقيم أو كانوا ضالين، إمام أمته، وعليهم جميعا الائتمام بسنته التي مضى عليها وقال منه سيدنا محمد ورئيس القوم، امامهم، والجمع أئمة[16]

 

’’قوم كى امامت يعنى ان كى قيادت كرنايا ان س آ گےچلنا، امام كے لے امامت مہيا كى گئی، جس كسى كو كسى قوم كى امامت دى، وه سيدهى راہ پر ہو يا گمراہى پر، امت كى امامت كرنااورتمام كا اس طريق پرجمع ہوناجو گزرى ہو، اسی سے رسولﷺکے لیے قوم کے سردار ا، رئيس اور امام بولا جاتاہے اس کی جمع ائمه ہے‘‘۔

 

اسلام كا تصور قيادت:

نبی کریمؐ کی بعثت سے قبل دنیائے انسانیت دم توڑ رہی تھی۔ ہر طرف ظلم وستم کا بازار گرم تھا، رقص وسرور میں ڈوبے عیش پسند ناعاقبت اندیش رہ نماؤں اور بادشاہوں کو عوام کی ذرہ برابر بھی فکر نہ تھی بلکہ وہ وقتا فوقتا انھیں اپنے عتاب کاشکار بناتے رہتے تھے۔مگر یہ بادل چھٹا اور آفتاب کی شکل میں ایک عظیم رہ نمانمودار ہوا جس نے لوگوں کو معرفت خداوندی کے ساتھ قیادت وسیادت کے اصول سمجھائے۔ لوگوں کے دکھ درد بانٹ کر انھیں حقیقی زندگی جینا سکھایا اور بتایا کہ بہترین انسان ہی بہتر قائدانہ کردار پیش کرسکتا ہے۔حقیقی قائد وہ ہے جو امانت دار، امن وامان کا خواہاں اور انسانوں کی ضروریات پوری کرنے والا ہو نہ کہ عیش و عشرت کا خواہاں ہو۔ یہ بہترقیادت عملی طور پر کیسے ممکن ہے۔ آپؐ نے اپنی پوری زندگی سے اس سوال کا جواب فراہم کیا ہے۔ آپ ﷺکا ارشاد ہے:

 

’’كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ‘‘[17]

 

’’تم میں کا ہرشخص ذمہ دار ہے، ہرایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں میں باز پرس ہوگی ‘‘۔

 

احساس جوابدہی کا یہی وہ محرک تھا جس نے صحابہ کرامؓ کو ذمہ دارشخصیت بنادیا، جو دنیاوالوں کے لیے نمونہ بنے۔ قوم کا سربراہ اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کی خیر خواہی کرنا، ہر طرح کی ضرویات کا خیال رکھنا اور اس کی بہتری کی فکر کرنا، اس کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ عین فرض منصبی ہے۔ اسے اس کا احساس ضروری ہے۔قوم کے رہبر و رہ نما کی حیثیت ایک خادم کی سی ہوتی ہے۔ وہ اپنے اس فرض منصبی کو صحیح طریقہ سے انجام دے تو رعایا اور اس کے ماتحت افراد خوشحال ہوں گے، جذبہ جانثاری کے ساتھ اپنا ہر طرح کا تعاون پیش کریں گے۔ یہ قیادت بھی ایک امانت ہے، جو اس کے اہل تک پہچانا ضروری ہے، قرآن کا اعلان ہے:

 

﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا﴾[18] 

 

ترجمہ: ’’مسلمانوں اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو، اللہ تم کو نہایت ہی عمدہ نصیحت کرتا ہے اوریقیناًاللہ سب کچھ دیکھتاہے‘‘۔

 

پھر ذمہ داروں میں اہل شخص اپنی امانت داری اور صلاحیتوں کے ذریعے اعلیٰ اصولوں کی بھر پور نمائندگی کرتا ہے ۔ عوام کی توقع کے مطابق اپنی خدمات انجام دیتا ہے، اس کے پیش نظر جہاں احساس ذمہ داری ہے وہیں ایمان کے تقاضے بھی ہیں، آپ ؐ کا ارشاد ہے:

 

’’لا ایمان لمن لا امانۃ لہ، ولا دین لمن لا عہد لہ ‘‘[19]

 

ترجمہ: ’’اس شخص میں ایمان نہیں جس میں امانت داری نہ ہو اور اس شخص میں دین کا پاس ولحاظ نہیں جس کے اندر عہد کی پاس داری نہ ہو‘‘۔

 

مولانا ابوالاعلیٰ موددی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں: ’’یعنی تم ان برائیوں سے بچے رہنا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے ہیں۔ بنی اسرائیل کی بنیادی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے اپنے انحطاط کے زمانہ میں امانتیں، یعنی ذمہ داری کے منصب اور مذہبی پیشوائی اور قومی سرداری کے مرتبے (Positions of Trust) ایسے لوگوں کو دینے شروع کر دئیے جو ناہل، کم ظرف، بداخلاق، بددیانت اور بدکار تھے نتیجہ یہ ہوا کہ برے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہوتی چلی گئی۔ مسلمانوں کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا بلکہ امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرنا جو ان کے اہل ہوں، یعنی جن میں بارِ امانت اٹھانے کی صلاحیت ہو‘‘[20]

 

لیکن اگر اس کے برعکس سربراہ خود کو قوم کا خادم تصور کرنے اور اس کی فلاح وبہبود کا خیال رکھنے کے بجائے مخدوم سمجھ بیٹھے اور آرائش و آسائش کی زندگی کو مقصد بنا لے تو ایسے حالات میں رعایا بے چینی کی کیفیت سے دوچار ہوگی اور بسا اوقات اس سربراہ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے پر آمادہ ہوجائے گی۔  قرآن مجید کی اس آیت کریمہ سے تین باتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں:

 

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ﴾[21]

 

ترجمہ: ’’اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اور اپنے اولوالامر کی‘‘۔اس اصول پر، کسی ریاست کا قیام ہی وہ امتیازی خصوصیت ہے، جو ایک عام ریاست کو اسلامی ریاست بنا دیتی ہے، اور اس اصول کی رو سے یہ ضروری ہو جاتاہے کہ ایک اسلامی ریاست میں، معاملہ قانون کی تدوین کا ہو یانظام کی تشکیل کا، قرآن و سنت سے کبھی انحراف نہ کیا جائے۔ چنانچہ قرآن مجید نے بڑی صراحت کے ساتھ، اس نوع کے انحراف کو کفر قرار دیا ہے۔ سورہ مائدہ میں ہے:

 

﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾[22]

 

ترجمہ: ’’اور جو اس قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، جسے اللہ نے نازل کیا ہے، وہی کافر ہیں‘‘۔

 

قرآن مجید کی اس تصریح کے بعد، اس معاملے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا کہ مسلمانوں سے اجتماعی سطح پر کیا روش مطلوب ہے اور وہ کیا چیز ہے، جسے، اگر وہ نظر انداز کردیں تو نعمت ایمان سے بھی محروم ہو سکتے ہیں۔

 

شورائی نظام قانون:

اسلام کے سیاسی قوانین کے مطابق صرف وہی قائد باضابطہ ہے جو ریاست کے مسلمان شہریوں کے مشورے سے قائم ہواہو۔قرآن مجید نے اسلامی نظام ریاست کے اس بنیادی اصول کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے، سورہ شوریٰ میں ہے:

 

﴿وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ﴾[23]

 

ترجمہ: ’’ (مسلمانوں) کا نظام ان کے باہمی مشورے کی بنیاد سے چلتا ہے‘‘۔

 

مشورے کے اصول کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو بھی اسی کو اختیار کرنے کی ہدایت کی۔ سورہ آل عمران میں ہے:

 

﴿فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ﴾[24]

 

ترجمہ: ’’تو ان سے درگزر کرو، ان کے لیے مغفرت چاہو اور ان سے معاملات میں مشورہ لیتے رہو‘‘۔

 

یہ اصول نہ صرف سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پوری طرح کار فرما نظر آتا ہے، بلکہ خلفاے راشدین نے بھی اس روایت کو قائم رکھا۔ چنانچہ آج بھی ہم تاریخ میں اس دور کی مجالس مشورہ اور ان میں کیے گئے اختلاف و اتفاق کی روداد پڑھ سکتے ہیں۔

 

دور رسالت میں شورائی نظام قانون سازی کی تاسیس:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اگرچہ براہ راست وحی الٰہی کی رہنمائی حاصل تھی اور آپ کسی معاملے میں دوسروں سے مشورہ لینے کے محتاج نہیں تھے لیکن شورائی نظام قانون سازی اور تدبیر مملکت کے نقطہ نظر سے چونکہ ضروری تھا اس وجہ سے حکمت الٰہی مقتضی ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے طرز عمل سے اس کی بنیاد رکھیں اس وجہ سے آپ کو قرآن میں یہ حکم دیا گیا، صحابہؓ سے مشورہ لیتے رہنے کی مذکورہ بالا قرآنی ہدایت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اہتمام کے ساتھ عمل فرمایا اس کے متعلق ایک ایسے صحابی کی شہادت ملاحظہ ہو جو اپنے وقت کا بیشتر حصہ آپؐ کی صحبت میں بسر فرماتے تھے۔حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہيں:

 

’’ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا قَطُّ كَانَ أَكْثَرَ مَشُورَةً لِأَصْحَابِهِ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘[25]

 

ترجمہ: ’’کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ لیتے رہنے والا کبھی کسی شخص کو نہیں پایا‘‘۔

 

شوریٰ صحابہؓ اور خلفائے راشدینؓ کے دور میں:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب صحابہؓ کا دور آیا تو ان کے سامنے ایک طرف تو آپ کا مذکورہ بالا اسوۂ حسنہ تھا اور دوسری طرف قرآن و حدیث دونوں میں نہایت واضح ہدایت خود صحابہ کو دی گئی تھی کہ وہ کس اساس پر اپنا سیاسی نظام قائم کریں اور اس میں قانون سازی کا طریقہ کیا ہو۔ پہلے قرآنی ہدایت، اس کے بعد احادیث اور خلفائے راشدین کے طرز عمل سے اس کی وضاحت كا حكم ديا گياہے ۔اس اصولی ہدایت کی وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی:

 

’’أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْأَمْرِ يَحْدُثُ لَيْسَ فِي كِتَابٍ وَلَا سُنَّةٍ قَالَ: يَنْظُرُ فِيهِ الْعَابِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ‘‘[26]

 

ترجمہ: ’’ابوسلمہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی ایسا معاملہ پیش آن پڑے جس کا ذکر نہ تو کہیں قرآن میں ہو اور نہ سنت میں تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا کہ اس معاملے میں مسلمانوں کے صالح لوگ غور کر کے اس کا فیصلہ کریں‘‘۔

 

چنانچہ اسی اصول پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہؓ نے نظام خلافت کی بنیاد رکھی جس میں خلیفہ کے انتخاب میں بھی جمہور مسلمین کے مشورہ کی شرط لازم ٹھہرائی اور خلافت کے فرائض کی انجام دہی میں بھی شوریٰ کو ضروری قرار دیا گیا۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ جو اسلام میں پہلے خلیفہ ہیں، مسلمانوں کے مشورہ عام سے خلیفہ بنے اور خلیفہ بننے کے بعد انھوں نے تمام معاملات کا فیصلہ، جن کے بارے میں ان کو کتاب و سنت میں کوئی ہدایت نہیں ملی، ان لوگوں کے مشورے سے کیا جو جمہور مسلمین کے معتمد لیڈر تھے اور علم و دیانت کے لحاظ سے لوگوں میں بہتر خیال کیے جاتے تھے۔

 

دنیا نے آپ ﷺکے تربیت یافتہ خلفائے راشدین کا دور بھی دیکھا کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓامیرالمومنین ہیں، بیت المال کے موجود ہوتے ہوئے بھی زندگی کس مپرسی میں گزری ۔مگر رعایا کے سرمایہ کو اپنے ذاتی مصرف میں نہیں لائے اور غیر ضروری خرچ سے گریز کرتے رہے۔ انھوں نے پوری دور اندیشی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیا۔ قیصر وکسری کو فتح کرنے والے اوروسیع وعریض دنیا میں اسلام کا پرچم لہرادینے والے خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کھجور کی چٹائی پر سوتے ہیں، جسم پر اس کے نشانات ابھر آتے ہیں۔ ان کی سادگی پر لوگوں کو معلوم کرنا پڑتا تھا کہ امیر المومنین کون ہیں؟ ان کے احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ وہ رعایا کے احوال سے نہ صرف باخبر رہتے تھے بلکہ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خود پیٹھ پر غلوں کا بوجھ اٹھالیتے تھے۔ کیوں کہ انھوں نے اپنے قائد سرور عالم کو بدست خودخندق کھودتے دیکھا تھا۔

 

تاریخ کے اوراق کو مزید پلٹ کر دیکھیں تو تابعین میں عمر ثانی عمربن عبدالعزیز کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔ انھوں نے اپنے دورخلافت میں عدل و انصاف کا وہ گراں قدر کارنامہ انجام دیا کہ سنگ والی بکری بھی بغیر سنگ کی بکری کو مارنے سے کتراتی تھی۔ جب کہ ان کی جوانی کا وہ دور (جب آپ خلیفہ مقرر نہیں ہوئے تھے) بڑے ہی ٹھاٹ باٹ اور شان وشوکت میں گزر اتھا۔ خوبصورت لباس، عمدہ خوشبو جسے دیکھ کر لوگ ٹھہر جاتے تھے اور گلی معطر ہوجاتی تھی۔مگر بہ حیثیت خلیفہ خود کو خادم کی حیثیت سے پیش کیا کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

 

عدل كا قيام:

عدل کا جو پیمانہ اسلام نے دیا ہے، دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ رسول اکرم ﷺ نے اپنے قول اور فعل سے مساوات کی بہترین مثالیں قائم فرمائیں۔ اسلام میں امیر و غریب، شاہ و گدا، اعلیٰ و ادنیٰ، آقا و غلام اور حاکم و محکوم میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا بلکہ اسلام تمام انسانوں کو برابر حقوق دینے کی تعلیم دیتا ہے۔

 

سیاسی عدل وانصاف جس کا مطلب یہ ہے کہ امورِ مملکت میں توازن و اعتدال قائم کیا جائے۔ معاشرے کے مختلف عناصر، طبقات، قبائل اور گروہوں کے ساتھ انصاف کرنا، ان کے حقوق ادا کرنا، انہیں فرائض کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا اور ایسی فضا قائم کرنا جس میں ہر شخص یہ محسوس کرے کہ واقعی انصاف کیا جارہا ہے، سیاسی عدل وانصاف کہلاتا ہے۔اس سلسلے میں انفرادی یا اجتماعی اختلاف اور دشمنی کو ختم کرنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکم دیا:

 

﴿وَلَا يَجْرِ‌مَنَّكُمْ شَنَـَٔانُ قَوْمٍ عَلَىٰٓ أَلَّا تَعْدِلُوا ٱعْدِلُوا هُوَ أَقْرَ‌بُ لِلتَّقْوَىٰ﴾[27]

 

’’اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث عدل کو ہرگز نہ چھوڑو، عدل کرو یہی تقویٰ کے بہت زیادہ قریب ہے‘‘۔

 

اسی عدل وانصاف اور احسان کا مظاہرہ جب حضور اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر کیا تو جانی دشمن بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔

 

اہل لغت نے اگرچہ العَدل اور العِدل کے معنی الگ الگ لیے ہیں، لیکن اس سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں الفاظ قریب ُالمعنی ہیں ۔ عَدل معنوی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور عِدل ان چیزوں کے لیے بولا جاتا ہے جن کا اِدراک حواسِ ظاہرہ سے ہوتا ہے[28]۔

 

عدل اصل میں عربی لفظ ہے۔ اُردو میں اس کا ہم معنی 'انصاف' انگریزی میں "Justice" اور عبرانی میں صداقاة اور مشپـاط ہے۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 

’’سیاست ِ شرعیہ کی عمارت دوستونوں پر قائم ہے۔ ایک ہے مناصب اور عہدے اہل تر لوگوں کو دینا اور دوسرا ہے عدل وانصاف کے ساتھ فیصلے کرنا۔ انصاف ہی پر دنیا ودین کی فلاح کا دارومدار ہے اور بغیر عدل کے فلاحِ دارین کا حصول ناممکن ہے۔[29]‘‘

 

امام فخر الدین رازی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں:

 

’’العدل فھو عبارة عن الأمر المتوسط بین طرفي الإفراط والتفریط، وذلك أمر واجب الرعایة في جمیع الأشیاء‘‘[30]

 

مندرجہ بالا تعریفات کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ عدل کا مفہوم مختلف مناسبتوں سے مختلف ہوتا ہے۔ عدل کا ایک مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور اپنے ربّ کے درمیان عدل کرے، یعنی اللہ کے حق کو اپنی خواہش پر مقدم رکھے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اپنی ذات کے ساتھ عدل کرے، یعنی اپنے نفس کو ایسی تمام باتوں اور چیزوں سے بچائے رکھے جن سے جسمانی و روحانی ہلاکت واذیت کا خطرہ ہو اور تیسرا مفہوم یہ ہے کہ اپنی ذات اور مخلوق کے درمیان عدل کرے یعنی تمام مخلوقات سے ہمدردی وخیرخواہی کا برتاؤ کرے۔ ہمارے ہاں عدل کو عدالت کے ساتھ منسلک کردیا گیاہے۔

 

معاشرے میں استحکام پیدا کرنے کے لیے عدل وانصا ف اور سزا نہایت ضروری ہیں ۔ اس کے بغیر معاشرہ جرائم اور منکرات سے پاک نہیں ہوسکتا۔ معاشرے کو برائیوں سے مبرا رکھنے کے لیے قانون وعدل نہایت ضروری ہیں ۔ عدل کے بغیر، جس کی بنیاد قانون پر ہوتی ہے، امن وامان قائم نہیں رہ سکتا، اس لیے اسلام نے ایسے جرائم میں حدمقرر کی جس کا اثر دوسروں پرپڑتاہے جیسے چوری، زنا، قتل وغارت گری، لوٹ مار اور شراب نوشی وغیرہ اور انصاف اور سزا کا اختیار صرف ان لوگوں کو دیا جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہو۔ قانون کے نفاذ سے جرائم کا انسداد ضروری ہوجاتا ہے اور معاشرہ کسی حد تک جرائم سے پاک بھی ہوجاتا ہے۔

 

قائد كے لیے لازم ہے کہ فوجداری جرائم کی سزائیں ایسی صورت حال میں نافذ کرنی چاہئیں، جب معاشرہ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا خاطر خواہ اہتمام موجود ہو اور حالات معمول پر ہوں ۔ جب تک معاشرہ میں نفاذِ اسلام کے لیے سازگار حالات پیدا نہ کردئیے جائیں یا یہ کہ حالات ایسے غیر معمولی ہوں جن میں ارتکابِ جرم کے محرکات ترقی پذیر ہوں تو سزاؤں کی کے نفاذ سے پہلے جرم کی روک تھام پر توجہ دینا ضروری ہے۔چنانچہ خاص جنگی یا غیر معمولی حالات میں سزائوں کے وقتی التوا کی گنجائش بھی موجود ہے جیسا کہ قحط کے زمانے میں خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ نے وقتی طور پر چوری کے لیے قطع ید کی سزا اِلتوا میں ڈال دی تھی۔

 

شریعت ِالٰہی کے مطابق فیصلہ: قائد پر لازم ہے کہ وہ صرف قانونِ الٰہی یعنی قرآن اور سنت کے مطابق فیصلہ کرے اور عدل و انصاف سے کام لے۔ عدل وانصاف سے فیصلہ کرنے کا حکم کسی کی خواہشات پر چلنے کی کلی نفی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت اس آیت میں فرمادی:

 

﴿وَلَا تَأْكُلُوٓاأَمْوَ‌ٰلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَـٰطِلِ وَتُدْلُوا بِهَآ إِلَى ٱلْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِ‌يقًا مِّنْ أَمْوَ‌ٰلِ ٱلنَّاسِ بِٱلْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴾[31]

 

’’اور اپنے آپس میں اپنے مالوں کو ناحق نہ کھاؤ، اور ان کو حکام کی طرف ڈالو، تاکہ تم گناہ کے ساتھ لوگوں کے مال کا ایک حصہ کھا جاؤ اور تم تو جانتے ہو‘‘۔

 

عدل میں حرص یا خواہشات کا خواہ وہ اپنی ہو یا کسی اور کی، کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے اورحاکم کو شہادتوں کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔تاریخ کے مطالعے سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ نظامِ عدل کا قیام حکومتوں اور سلطنتوں کی مضبوط مستحکم قوت کی بنا پر معرضِ وجود میں آیا۔ نظامِ معدلت کو قائم کرنے کے لیے ایک مضبوط اور پائیدار حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ تمام اربابِ خیرفطری طور پر اپنے معاملات ایسے رہبر کے سپرد کردینا چاہتے ہیں جو اُنہیں ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے روکے اور مخاصمت باہمی میں ان کے درمیان فیصلہ کرے۔ اگر ذی اقتدار اَفراد نہ ہوں تو عالم میں شخصی انار کی پھیل جائے اور تہذیب ِ اجتماع کا شیرازہ بکھر جائے۔[32]

 

اسی رہبر اور حاکم کی طرف قرآنِ مجید میں اشارہ فرمایا گیا:

 

﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا أَطِيعُواٱللَّهَ وَأَطِيعُوا ٱلرَّ‌سُولَ وَأُولِى ٱلْأَمْرِ‌ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَـٰزَعْتُمْ فِى شَىْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّ‌سُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْاخِرِ‌﴾[33]

 

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اپنے حکمرانوں کی۔ پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اُٹھے تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور رجوع کرو، اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو‘‘ ۔

 

مسلم قائد كى خصوصيات:

قیادت کے لئے کسی قائدکا تقرر ایسا عمل ہے جو عقل کے عین مطابق ہے ۔کیونکہ جو محنتیں صاحب منصب شخص کرتا ہے، اور جو ذمہ داری اس کے سپردہوتی ہے کہ عوام کو محفوظ رکھے اور ان کی ترقی و کمال کے لئے جدوجہد کرے، تو ایسے افراد کی کچھ شرائط ہونا چاہئیں تا کہ رسول اللہ ﷺکی مسند پر بیٹھ کر قیادت کرسکیں، اور اگر ان میں ایسی شرائط نہ پائی جاتی ہوں تو وہ لائق قیادت نہیں ۔ہر معاملے میں صرف وہی شرط اختیار کی جا سکتی ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺکی طرف سے پیش کی گئی ہو، اس بنا پر کسی شخص کے قائد قرار پانے کی بناء بھی اللہ کی مقرر کردہ شرائط ہوں گی نہ کہ انسانوں کی پیش کردہ شرائط۔کسی شخص کےقائد قرار پانے کے لئے کتاب وسنت سے درج ذیل شرائط ہمارے سامنے آتی ہیں۔

 

عقل:

قائد کے لئے جو سب سے اہم صفت ہے وہ ہے ’’عقل‘‘ اس سے پہلے کہ قائد کے لئے عقل کی اہمیت کو بیان کیا جائے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ شریعت میں عقل کسے کہتے ہیں۔

 

قائد کے لئے صفت عقل بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ایک عام انسان کی بنسبت امیر کے لئے زیادہ عقلمند ہونا اس لئے ضروری ہے تاکہ وہ اپنے منصب کی وجہ سے عوام کی رعایت کر سکے تاکہ عوام کا دنیا اور آخرت میں فائدہ ہو ۔ اورقائد کے لئے عقل اس وجہ سے اہمیت کی حامل ہے کہ اسی عقل کی وجہ سے امیر میں تجربہ، فکر اور تدبیر کی صفت کا ملکہ پیدا ہوسکتا ہے جس سے وہ تاریخ کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کر سکتا ہے اور تجربہ لوگوں کی رائے کو تلاش کر سکتا ہے اور اہل رائے سے زیادہ سے زیادہ مشورہ کر سکتا ہے ۔اسی لئے عاقل اور مجنون میں فرق یہ ہے کہ مجنون کے دل میں جو بات آتی ہے وہ کہہ دیتا ہے جبکہ عقلمند بہت احتیاط اور حفاظت سے گفتگو کرتا ہے اگر حکمت کو دیکھا جائے تو حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس میں کلام ہو اور حکمت مظاہر عقل میں سے ایک عظیم مظہر ہے اللہ تبارک وتعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:

 

﴿ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًاوَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ﴾[34]

 

’’اور جسے دانائی عطا کی جائے تو بلاشبہ اسے بہت زیادہ بھلائی دی گئی اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر جو عقلوں والے ہیں ‘‘۔

 

حکمت کی دو قسمیں ہیں: حکمت نظری اور حکمت عملی، حکمت نظری کی یہ تعریف ہے کہ بشری طاقت کے مطابق حقائق اشیاء کا اس طرح علم ہو جس طرح وہ اشیاء واقع میں ہیں، اور حکمت عملی یہ ہے کہ انسان برے اخلاق کو ترک کرے اور اچھے اخلاق کو اپنائے، اور ایک تعریف یہ ہے کہ بشری طاقت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے اخلاق سے متخلق ہونا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام احکام پر عمل کرنا اور آپ کے تمام افعال کی اتباع کرنا حکمت عملی کی تین قسمیں ہیں، اگر اس کا تعلق ایک فرد کی اصلاح کے ساتھ ہو تو اس کو تہذیب اخلاق کہتے ہیں اور اگر اس کا تعلق ایک خاندان کی اصلاح کے ساتھ ہو تو اسے تدبیر منزل کہتے ہیں اور اگر اس کا تعلق ایک شہر یا ملک کی اصلاح کے ساتھ ہو تو اس کو سیاست مدینہ کہتے ہیں ۔[35]

 

حکم کی تفسیر میں متعدد اقوال ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہم نے ان کو حکم اور علم عطا فرمایا، مجاہد نے کہا یعنی نبوت سے پہلے عقل اور علم عطا فرمایا[36] ۔

 

﴿ وَشَدَدْنَا مُلْكَهُ وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ﴾[37]

 

’’اور ہم نے اس کی سلطنت مضبوط کر دی اور اسے حکمت اور فیصلہ کن گفتگو عطا فرمائی‘‘۔

 

’’الْحِكْمَةَ ‘‘کے مفہوم میں نبوت، کتاب اللہ کا علم اور معاملات کی فہم و فراست، سب چیزیں شامل ہیں اور’’وَفَصْلَ الْخِطَابِ‘‘ سے مراد ہے مقدمہ سن کر صحیح، واضح اور دو ٹوک فیصلہ کرنا۔ ’’ وَفَصْلَ الْخِطَابِ ‘‘ میں یہ بھی شامل ہے کہ لمبی بات کو مختصر الفاظ میں ایسے طریقے سے بیان کیا جائے کہ ہر شخص کو پوری طرح سمجھ میں آ جائے۔ ان دونوں چیزوں کے لیے اعلیٰ درجے کی عقل اور فہم و فراست کے ساتھ قادر الکلام ہونا بھی ضروری ہے[38]۔

 

ابو الاعلى مودودى بيان كرتے ہیں: ’’حکم“ کے معنی قوت فیصلہ کے بھی ہیں اور اقتدار کے بھی۔ پس اللہ کی طرف سے کسی بندے کو حکم عطا کیے جانے کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے انسانی زندگی کے معاملات میں فیصلہ کرنے کی اہلیت بھی عطا کی اور اختیارات بھی تفویض فرمائے‘‘[39]۔

 

حضرت يوسف كو ہلاکت سے نجات دلا کر حکومت وعزت تک پہونچانا، اس كى بعد علم وحكمت كى بات كرنا اس امر كي واضح دليل هےكه حاكم وقت ميں عقل وشعور اور دانش كا ہونا لازمى جز ہے۔

 

علم:

قائد کی صفات میں سے ایک صفت علم ہے اور یہ صفت بھی بہت اہمیت کی حامل ہے اور یہاں علم سے مراد وہ علم ہے جو کسی کو اجتہاد کا اہل بنا دیتا ہے ۔ امام ماوردی امامت کی شروط بیان کرتے ہو لکھتےہیں کہ

 

’’والثانی العلم المؤدی إلی الاجتھاد فی النوازل والاحکام [40]‘‘

 

’’اور دوسرا وہ علم ہے جو نوازل اور احکام میں اجتہاد کی طرف پہنچا دیتا ہے ‘‘۔

 

مزید آگے لکھتے ہیں:

 

’’وإذا کان ھذا فی منصب الامامۃ العظمی شرطا فإنہ کمال فی حق کل انسان فضلا عمن یکون امیرا[41]‘‘

 

’’اولوالامر کے لیے صفت علم میں اجتہاد کی شرط اس لیے لگائی گئی ہے تاکہ وہ روز مرہ کے جدید معاملات اور سیاست کو پہچان سکے جن کا ایک مجتہد محتاج ہوتا ہے تاکہ وہ دین و دنیا کے معاملات کو حکمت کے مطابق چلا سکے‘‘ ۔

 

پھر مجتہد کے لئے بھی بہت سے امور ضروری ہیں جن کو امام غزالی اپنی کتاب ’’المستصفی ‘‘میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

 

’’ولہ أی المجتھد شرطان أ حدھما أن یکون محیطا بمدارک الشرع من استشارۃ الظن بالنظر

 

فیھا وتقدیم ما یجب تقدیمہ وتاخیر ما یجب تاخیرہ، والشرط الثانی أن یکون عدلا مجتنبا للمعاصی القادحۃ فی العدالۃ ‘‘

 

اسی طرح ابن الأرزق بادشاہ وقت کےلئے صفت علم کی دو وجوہ لکھتےہیں:

 

’’ أحدھما أن افتقارہ إلیہ فی الاحکام تحوجہ إلی معرفتہ بھا لیکون علی بصیرۃ فی تنفیذ الفصل فیھا وإلزام الوقوف عند حدودھا، والثانی أن تحلیتہ بالعلم من اعظم ما یتحبب بہ إلی الرعیۃ لما رسخ فی النفس علی الجملۃ من فضیلۃ العلم ومحبۃ من انتسب إلیہ وإذا عری منہ فرط فی العمل بمقتفی السؤال عنہ ‘‘﴿وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗٓ اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا﴾[42]

 

اور جب وہ پختگی کی عمر کو پہنچے تو ہم نے ان کو فیصلہ کی قوت اور علم عطا کیا اور ہم اسی طرح نیکوکاروں کو جزا دیتے ہیں۔

 

امام عبدالرحمن بن علی بن محمد جوزی حنبلی متوفی 597 ھ لکھتے ہیں ہیں: حکم کی تفسیر میں چار قول ہیں: (1) مجاہد نے کہا حکم سے مراد فقہ اور عقل ہے ۔ (2) ابن السائب نے کہا حکم سے مراد نبوت ہے (3) زجاج نے کہا اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کو حکیم بنا دیا گیا اور زجاج نے کہا ہر عالم حکیم نہیں ہوتا حکیم وہ عالم ہوتا ہے جو اپنے علم کو استعمال کرے اور اس سے جہل کا استعمال کرنا ممتنع ہو ۔ (4) ثعلبی نے کہا حکم سے مراد ہے صحیح اور درست بات کہنا ارباب لغت نے کہا عرب کے نزدیک حکم وہ قول ہے جس میں جہل اور خطاء نہ ہو اور نفس جس چیز کی خواہش کرے اور اس میں ضرر ہو تو وہ اس خواہش کو رد کر دے اور اسی وجہ سے حاکم کو حاکم کہتے ہیں کیونکہ وہ ظلم اور کج روی سے روکتا ہے ۔ اور علم کی تفسیر میں دو قول ہیں: (1) فقہ (2) خواب کی تعبیر کا علم [43]۔

 

علامہ قرطبی نے کہا اگر ان کو بچپن میں نبوت دی گئی تھی تو اس سے مراد ہے ان کے علم اور فہم میں زیادتی فرمائی [44]۔

 

شجاعت:

قائد کی صفات میں سے ایک صفت شجاعت ہے ۔ اگر نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ سب سے زیادہ بہادر تھے ۔صحیحین میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں:

 

’’کان رسول اللہ ﷺ أحسن الناس وأشجع الناس[45] ‘‘

 

’’نبی کریم ﷺ لوگوں میں سے سب سے زیادہ حسین اور سب سے زیادہ بہادر تھے‘‘ ۔

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 

’’کنا إذا حمی الوطیس واشتدت الحرب واحمرت الحدق نتقی برسول اللہ ﷺ ولیس رجل اقرب إلی العدو منہ [46]‘‘

 

صفت شجاعت قائد کے لئے کیوں ضروری ہے اس کی توجیہ بیان کرتے ہوئے ابن الارزق لکھتے ہیں:

 

’’من صفات الامامۃ النجدۃ لئلا یضعف عن إقامۃ الحدود، وإقتحام الحروب فمتی کان الاما م جبانا تحقر لضعفہ ونشأ عنہ مفاسد جمۃ، وإذا ذاک فلا بد من ترفع مقامہ عن الاتصاف بھذا الخلق الذمیم وتحلیۃ بضدہ اللائق بشریف منصبہ ومکین رتبتہ‘‘۔

 

قائد کے لئے صفت شجاعت کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کے بغیر إمارۃ اور سیاست کی مصلحت مکمل نہیں ہوتی ۔ابن تیمیہ کے قول سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے

 

ابن تيميه لکھتے ہیں:

 

’’ لا تتم رعایۃ الخلق وسیاستھم إلا بالجود الذی ھو العطاء والنجدۃ التی ھی الشجاعۃ بل لا یصلح الدین والدنیا إلا بذلک ولھذا کان لایقوم بھما سلبہ الأمر ونقلہ إلی غیرہ[47]‘‘۔

 

اسی طرح ابن قیم لکھتے ہیں:

 

’’والجبن خلق مذموم عند جمیع الخلق وأھل الجبن ھم أھل سو ء الظن باللہ وأھل الشجاعۃ والجود ھم أھل حسن الظن باللہ[48]‘‘

 

’’اور بزدلی تمام مخلوق کے نزدیک برا وصف ہے اور بزدل لوگ اللہ کے ہاں برے گمان والے ہوتے ہیں اور بہادر اور سخی لوگ اللہ کے ہاں اچھے گمان والے ہوتےہیں ۔

 

اسی طرح ’’ زاد المعاد ‘‘میں ابن قیم لکھتے ہیں

 

’’ فإن الشجاع منشرح الصدر، واسع البطان متسع القلب، والجبان أضیق الناس صدرا وأحصر ھم قلبا لا فرحۃ ولا سرورا ‘‘[49]

 

اور ذھبی لکھتے ہیں:

 

’’الشجاعۃ والسخاء أخوان، فمن لم یجد بمالہ فلن یجود بنفسہ ‘‘[50]

 

سخاوت:

قائد کی صفات میں سے ایک صفت سخاوت بھی ہے سخاوت کی اہمیت کے بارے مین علماء وصلحاء کے مختلف اقوال ہیں جس سے اھل السخاء کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ قائد کے لئے صفت سخاوت کتنی اہمیت کی حامل ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتےہیں:

 

’’ الجود حارس الاعراض ‘‘[51]

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

 

’’ السخاء ما کان ابتداء فاما ما کان عن مسئلۃ فحیاء وتذمم ‘‘[52]

 

علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں

 

’’وقیل لحکیم أی فعل للبشر أشبہ بفعل اللہ تعالی فقال الجود ‘‘[53]

 

’’اور حکیم سے کہا گیا کہ انسان کا کون سا فعل اللہ کے فعل کے مشابہ ہے تو انہوں نے کہا کہ ‘‘سخاوت ‘‘ ہے ۔

 

خرائطی لکھتے ہیں

 

’’ینبغی أن یکون المؤمن من السخاء ھکذا وحثا بیدیہ[54]‘‘

 

سید عفانی لکھتے ہیں

 

’’ السخی من کان مسرورا ببذلہ متبرعا بعطائہ لایلتمس عرض دنیاہ فیحبط عملہ ولا طلب مکافاۃ فیسقط شکرہ ولا یکون مثلہ فیما أعطی مثل الصائد الذی یلقی الحب للطائر ولا یرید نفعھا ولکن نفع نفسہ‘‘[55]

 

جب یہ بات واضح ہوگئی کہ سخاوت کی کتنی اہمیت ہے تو اس سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ قائد کے لئے صفت سخاوت کتنی اہم ہے اور جب سلطان بخیل ہوگا تو وہ کسی کو بھی نصیحت نہیں کر سکے گا کہ تم بھی سخاوت کرو تو وہ سلطان ولایت کے نہیں بلکہ نڈیحت کا لائق ہوگا اس لئے اولوا لامر کے لئے ضروری ہے کہ وہ صفت سخاوت کے حامل ہوں ۔

 

حلم:

قائد کی صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ امیر کے اندر حوصلہ، حلم اور بردباری ہونی چاہیئے کیونکہ سیاست کے لئے ہر وقت تین چیزیں ضروری ہوتی ہیں 1: کاموں میں نرمی اختیار کرنا 2: ہر چیز میں صبر کرنا 3: خاموشی اختیار کرنا ۔حلم کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 

’’لیس الخیر أن یکثر مالک وولدک ولکن الخیر أن یکثر علمک ویعظم حلمک‘‘[56]

 

’’بھلائی اس میں نہیں ہے کہ تیرا مال اور اولاد زیادہ ہو بلکہ بھلائی اس میں ہے کہ تیرا علم زیادہ ہو اور تیرا حوصلہ بلند ہو‘‘۔

 

اسی طرح امام طبری لکھتے ہیں:

 

’’ بلغ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ أن جماعۃ من رعیتہ اشتکو من عمالہ فأمرھم أن یوافوہ، فلما أتوہ قام فحمد اللہ واثنی علیہ ثم قال أیھا الناس أیتھا الرعیۃ إن لنا علیکم حقا النصیحۃ بالغیب والمعاونۃ علی الخیر أیتھا الرعاۃ إن للرعیۃ علیکم حقا فاعلموا انہ لاشئ أحب إلی اللہ ولا أعز من حلم امام ورفقۃ‘‘[57]

 

اسی طرح حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

 

’’ لایبلغ العبد مبلغ الرائ حتی یغلب حلمہ جھلہ، و صبرہ شھوتہ ولا یبلغ ذلک إلا بقوۃ الحلم‘‘[58]

 

’’کوئی شخص رائے تک نہیں پہنچتا حتی کہ اس حلم اس کے جہل پر غالب آ جاتا ہے، اور اس کا صبر اس کی شہوت پر غالب آ جاتا ہے اور اور یہاں تک انسان صرف حلم کی قوت سے ہی پہنچتا ہے ‘‘۔

 

آدمی رائے تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک اس کا حلم اس کے جحل پر غالب نہ آئے اور اس کا صبر اس کی شہوت پر غالب نہ آئے اور اس مقام پر وہ صرف حلم کے ذریعے ہی پہنچ سکتا ہے ۔

 

عفو در گذر:

قائد میں عفو در گذر ایک ایسی صفت ہے جسے اس کے جمال اور رتبے کی عظمت کے لئے بیان کیا گیا ہے اور حاکم وقت کے لئے اس صفت سے بڑھ کر کوئی اور صفت مضبوط نہیں کیونکہ حاکم وقت سے عوام اور رعیت اس وقت ہی اچھا اور بہتر تعلق رکھتی ہے جب اس میں عفو و در گذر کی صفت ہو ۔قرآن کریم میں عفو ودرگذر کو اس طرح بیان کیا گیا ہے

 

’’ والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسنین‘‘[59]

 

’’اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے در گذر کرنے والے، اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ‘‘۔

 

ایک اور مقام پر ہے

 

’’ ولیعفوا ولیصفحو ا ألا تحبون أن یغفراللہ لھم ‘‘[60]

 

’’اور جب کوئی کسی کی غلطی کو معاف کر دیتا ہے تو اس کا اجر اللہ تبارک وتعالی کے پاس ہوتا ہے‘‘ ۔قرآن پاک میں ارشاد ہے

 

’’ فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ "[61]

 

’’جس نے در گذر کیا اور معاف کیا تو اس کا اجر اللہ کے پاس ہے‘‘ ۔

 

نبی کریم ﷺ نے بھی عفو در گذر پر بر انگیختہ کیا ہے آپ ﷺ کی بہت سی احادیث ہیں جو کہ عفو درگذر پر مبنی ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

 

’’جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، كم أعفو عن الخادم؟ فصمت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال: يا رسول الله، كم أعفو عن الخادم؟ فقال: «كل يوم سبعين مرة»[62]‘‘

 

’’ایک شخص نبی کریم ﷺ کی بارگاہ آیا اور اور عرض کی یا رسو ل اللہ ﷺ ہم خادم سے کتنا در گذر کریں آپ ﷺ خاموش رہے پھر اس نے دوبارہ وہی بات کی آپﷺ خاموش رہے جب اس نے تیسری مرتبہ یہی سوال کیا تو آپﷺ نے فرمایا ہر روز ستر مرتبہ اسے معاف کرو‘‘۔

 

اسی طرح حضر ت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

 

’’ قال مانقصت صدقۃ من مال وما زاد اللہ عبدا بعفو إلا عزا وما تواضع أحد إلا رفعہ اللہ[63] ‘‘

 

’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ معافی کے ذریعے کسی بندے میں نہیں بڑھاتا مگر عزت کو، اور کوئی شخص اللہ کے لئے عاجزی نہیں کرتا مگر اللہ اس کے رتبے کو بڑھا دیتا ہے‘‘ ۔

 

ان سب قرآنی آیات اور احادیث سے عفو و درگذر کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے اور اگر امیر اور حاکم وقت میں صفت ہو تو اس کے بھی بہت سے فائدے ہیں مثلا اگر امیر کے اندر عفو و در گذر کی صفت ہو تو لوگ اس کی وجہ سے اس سے محبت کریں گے اور اگر امیر سے عوام کو محبت ہو تو اس سے ملک ترقی کرتےہیں ۔

 

﴿وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ﴾[64]

 

’’اگر تو بد خلق، سخت دل ہوتا تو یقینا وہ تیرے گرد سے منتشر ہو جاتے، سو ان سے در گزر کر اور ان کیلئے بخشش کی دعا کر‘‘

 

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خلق عظیم کے پیکر تھے، اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر ایک احسان عظیم فرما رہے ہیں کہ آپ کے اندر جو نرمی اور ملائمت ہے یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی کا نتیجہ ہے اور نہ نرمی، حاكم کے لیے نہایت ضروری ہے اگر آپ کے اندر یہ وصف نہ ہوتا بلکہ اس کے برعکس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تندخو، سخت دل، تلخ سخن ہوتے تو لوگ آپ کے قریب ہونے کے بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور بھاگتے۔ اس لیے آپ عفو و درگذر سے کام لیتے رہیے۔

 

اس سورۃ مبارکہ کی یہ آیت بھی بڑی اہم ہے۔ جماعتی زندگی میں جو بھی امیر ہو، صاحب امر ہو ‘ جس کے پاس ذمہ داریاں ہوں، جس کے گرد اس کے ساتھی جمع ہوں ‘ اسے یہ خیال رہنا چاہیے کہ آخر وہ بھی انسان ہیں، ان کے بھی کوئی جذبات اور احساسات ہیں، ان کی عزت نفس بھی ہے، لہٰذا ان کے ساتھ نرمی کی جانی چاہیے، سختی نہیں۔ وہ کوئی ملازم نہیں ہیں، بلکہ رضاکار (volunteers) ہیں۔ آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جو لوگ تھے وہ کوئی تنخواہ یافتہ سپاہی تو نہیں تھے۔ یہ لوگ ایمان کی بنیاد پر جمع ہوئے تھے۔ اب بھی کوئی دینی جماعت وجود میں آتی ہے تو جو لوگ اس میں کام کر رہے ہیں وہ دینی جذبے کے تحت جڑے ہوئے ہیں ‘ لہٰذا ان کے امراء کو ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ یہ اللہ کی رحمت کا مظہر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے حق میں بہت نرم ہیں۔[65]

 

رفق:

نرمی اور رفق ایک ایسی صفت ہے جو کہ امراء کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ اگر امیر کے دل میں نرمی نہیں ہوگی تو لوگوں کے دل میں اس کے لئے محبت نہیں ہوگی جس کی وجہ سے ملک میں فساد اٹھ کھڑے ہوں گے ۔رفق کی اہمیت بیان کرتے ہوئے امام بخاری نے حدیث مبارکہ نقل کی ہے:

 

’’عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت سمعت رسول اللہ ﷺ یقول اللھم من ولی من أمر امتی شیئا فشق علیھم فاشقق علیہ، ومن ولی من امرامتی شیئا فرفق بھم فارفق بہ[66] ‘‘

 

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یا اللہ جو کوئی بھی میری امت کے کسی معاملے کا ولی بنا اور اس نے ان پر سختی کی تو تو بھی اس پر سختی فرما اور جو کوئی بھی میری امت کے کسی امر کا ولی بنا اوراس نے نرمی کی تو تو بھی اس پر نرمی فرما ۔

 

اسی طرح صحیحین میں ہے کہ:

 

’’عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت قال رسول اللہ ﷺ إن رفیق یحب الرفق[67]‘‘

 

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بے شک اللہ تعالی نرمی فرمانے والا ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے‘‘ ۔

 

اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

 

’’أن النبی ﷺ قال إن اللہ عز وجل یعطی علی الرفق ما لا یعطی علی الخرق وإذا احب اللہ عبدا أعطاہ الرفق وما من اھل بیت یحرمون الرفق إلا حرموا الرزق‘‘۔

 

مذکورہ بالا تمام احادیث سے رفق کی اہمیت احسن طریقے سے واضح ہوگئی ۔ جس سے یہ پتہ چلا کہ اولوالامر کے صفت رفق کا ہونا کتنا ضروری ہے ۔

 

وعدہ پورا کرنا:

وعدہ پورا کرنا ایمان کے اخلاق میں سے ایک اہم خلق ہے اور امراء کی صفات میں سے بہت عظیم صفت ہے اور حاکم وقت اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ وہ وعدے کو پورا کرے کیونکہ اس طرحکرنے سے اسکے منصب کے لئے جو رذائل چیزیں مخل ہیں وہ دور ہو جائیں گی ۔

 

حاکم وقت کے مقام کو وعدہ خلافی سے دور کرنا ان امور میں سے ہے جن کا ضرور مطالبہ کیا جائے گا اور جن کے بارے میں تاکید کی گئی ہے ۔قرآن کریم میں وعدہ پورا کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہے کہ:

 

’’وأوفوا بعھدی أوف بعھدکم ‘‘[68]

 

’’اور تم میرے وعدے کو پورا کرو میں تمہارے وعدے کو پورا کروں گا ‘‘۔

 

ایک اور مقام پر ارشاد ہے

 

’’یأیھا الذین امنوا أوفوا بالعقود‘‘[69]

 

’’اے ایمان والو وعدوں کو پورا کیا کرو‘‘۔

 

اس کے علاوہ قائد کے لئے جو صفات ضروری ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ وہ صاحب بصیرت ہوں اور ان میں فیصلہ کرنے کی قوت ہو۔ قرآن کریم میں ہے

 

﴿وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ ﴾[70]

 

’’اور ہم نے اسے حکمت اور فیصلہ کن بات کرنے کی صلاحیت دی ۔

 

اسی طرح امام بخاری نے کتاب الاحکام میں ایک باب یہ بھی لکھا ہے جس میں انہوں حضرت حسن بصری کے حوالے سے امیر کے اوصاف درج کئے ہیں اور لکھتےہیں

 

’’وقال الحسن اخذ اللہ علی الحکام أن لا یتبع الھوی ولا یخشواالناس ولا یشتروا بایتی ثمنا قلیلا [71]‘‘

 

’’اور امام حسن بصری نےیہ کہا کہ اللہ تعالی نے حکام سے یہ عھد لیا کہ خواہش نفس کی پیروی نہ کریں اور لوگوں سے نہ ڈریں اور اللہ کے احکام کے بدلے تھوڑی قیمت نہ لیں ‘‘۔

 

اور حضرت عمر بن عبد العزیز کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے نزدیک امیر کی کیا صفات ہیں:

 

’’وقال مزاحم بن زفر قال لنا عمر بن عبد العزیزخمس إذا أخطأ القاضی منھن خصلۃ کانت فیہ وصمۃ أن یکون فہیما حلیما عفیفا صلیبا عالما سؤالاعن العلم [72]‘‘

 

’’اور مزاحم بن زفر نے کہا کہ ہمیں حضرت عمر بن عبد العزیز نے کہا کہ خلیفہ کے لئے پانچ باتیں ضروری ہیں ان میں ایک بھی نہ ہوتو وہ عیب دار ہے وہ یہ ہیں کہ سمجھ والا ہو بردبار ہو بدکاری سے بچنے والا ہو حق و انصاف پر پختہ ہوعالم اور اہل علم سے بھی باتیں پوچھتاہو‘‘ ۔

 

یہ مفہوم کے اعتبار سے جس قدرعام ہے اپنی عملی ضرورت کے پہلو سے اسی قدر اہم اور خاص بھی ہے۔ اس کا عام معنی تو واقعی انصاف ہے جبکہ عدل دراصل اس وصف کا نام ہے جس کا اظہار زندگی کے ہر پہلو میں ہونا چاہئے۔ شب و روز کے معمولات، نشست و برخاست، کلام و سکوت، معاشرتی و معاشی مصروفیات، انفرادی و اجتماعی معاملات، عائلی و سیاسی حالات و واقعات، اعتدال کی لڑی میں پروئے ہوئے ہوں تاکہ کسی جگہ عدم توازن کی شکایت نہ ہو، زندگی کے ہر حصے کو اس کا پورا پورا حق مل رہا ہو تو وہ انصاف لائق تحسین اور ہر کسی کے لئے قابل تسلیم ہوتا ہے۔الله تعالى كا ارشاد ہے:

 

﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْل﴾[73]

 

’’اللہ تمہیں حکم کرتا ہے کہ امانتیں اہل کے سپرد کردو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔

 

’’قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺإِنَّ اللَّهَ مَعَ الْقَاضِي مَا لَمْ يَجُرْ فَإِذَا جَارَ تَخَلَّی عَنْهُ وَلَزِمَهُ الشَّيْطَانُ‘‘[74]

 

’’رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ قاضی کے ساتھ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے جب وہ ظلم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور شیطان اس سے چمٹ جاتا ہے‘‘۔

 

اللہ کافرمان ہے:

 

﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ﴾[75]

 

’’ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف کتاب نازل کی ہے حق کے ساتھ جو تصدیق کرنے والی ہے اپنے سے پہلی کتابوں کی ان پر نگران ہے ان کے درمیان فیصلہ کریں اس کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں ‘‘۔

 

قانون کی اس حکمرانی کی جھلک سرکار دو عالم، احمد مختار اور عرب و عجم کے تاجدارحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ عرب کے ایک معزز خاندان کی ایک بااثر خاتون نے چوری کی۔ مقدمہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ انصاف میں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم جاری فرمادیا۔ اہل قبیلہ نے ذلت و رسوائی سے بچنے کے لئے سفارش کروائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 

إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ، أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الحَدَّ، وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا[76]

 

ترجمہ: ’’پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوگئیں کہ جب کوئی بڑا غلطی کا ارتکاب کرتا تو مختلف حیلوں، بہانوں سے سزا سے بچ جاتا اور جب کوئی عام انسان کسی فعل شنیع کا مرتکب ہوتا تو سزا پاتا، آپ نے فرمایا: اگر فاطمہ بنت محمدﷺبھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔

 

اس واقعہ میں معمولی تفکر سے بھی ایک اہم نکتہ سمجھ میں آتا ہے کہ باپ بیٹی پر بہت ہی شفیق و مہربان ہوتا ہے اس کو جگر گوشہ اور جسم کا حصہ قرار دیتا ہے مگر جہاں اصولوں کی پاسداری کی بات آتی ہے تو وہاں تعلقات اور قرابت داری کو ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے اور حدود کے نفاذ میں کوئی پس و پیش نہیں کی جاتی۔ جب قائد اس قدر انصاف پسندی کا ثبوت دے گا تو وہ تنظیم، معاشرہ یا ملک امن و امان کا گہوارہ بن جائے گا۔امام ماوردی بیان کرتے ہیں:   دین کا تحفظ اس کے مستقل اصولوں اور سلف کے اجماع کے مطابق کرنا۔اگر کوئی بدعتی یا شبہ میں مبتلا شخص اس سے روگردانی کرتا ہے تو اس کے سامنے دلائل واضح کرتا ہے اس کے حقوق و حدود کے مطابق اس کے ساتھ برتاؤ کرتا ہے تاکہ دین ہر قسم کے خلل سے اورامت سے گمراہی سے محفوظ رہے ۔امیر کا کام یہ بھی ہے کہ اختلاف کرنے والوں میں احکام نافذ کرے اور تنازعات کے فیصلے نمٹائے، تاکہ انصاف کا بول بالا ہو ظلم نہ ہو اور مظلوم کمزور نہ سمجھا جائے ۔حدود نافذ کرے تاکہ اللہ کے محارم کی حفاظت کی حفاظت ہو اور بندوں کے حقوق ضائع ہونے سے محفوظ رہ سکیں [77]۔

 

عوامی رابطہ:

ایک اہم ذمہ داری جو قائد پر آتی ہےوہ یہ کہ عوام الناس کے ساتھ حسن سلوک ہے۔ مثلا ان پر ظلم نہ ہونے دینا، ان سے رابطہ رکھنا اورنگہبانو ں کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی نہ کرنا، عوام سے زیادہ دنوں تک پوشیدہ نہ رہنا، ان سے ٹیکس لیتے وقت ان کے حالات کو دیکھنا، ان کی مشکلات کو حل کرنے کے بارے میں سوچنا، اگر غلطی ہوجائے تو عوام سے معافی مانگنا وغیرہ ۔

 

حضور کریمﷺکےاخلاق اس قدربلندتھےکہ دوست تودوست بد تردشمن بھی ان سےمتاثرہوئےبغیرنہیں رہ سکتے جانی دشمنوں کومعاف کردینا، غلاموں اورکنیزوں سے اچھا سلوک کرنا، بیماروں کی عیادت کرنا، کمزوروں اورضعیفوں کوسہارا دینا اوراپنے پرائےسبھی کےساتھ شفقت اورنرمی کابرتاؤکرنے کی بے شمار مثالیں آپﷺ کی زندگی میں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پراپنوں سے حسن سلوک کی مثالیں تو بہت ملتی ہیں لیکن جانی دشمنوں کے ساتھ عفو و درگزر اورحسن سلوک کی جو مثال نبی اکرمﷺنےفتح مکہ کےموقع پر قائم فرمائی اور فاتحین کی پوری تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔حضورﷺکی قیادت میں اسلامی لشکرابھی مکے میں داخل نہیں ہوا تھا کہ ایک صحابی نے ابوسفیان کو پکڑکر حضورﷺکے پاس لےآئے۔یہ ابوسفیا ن وہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ باقاعدہ جنگ کی تھی اورحضورﷺکےبد ترین دشمن رہے تھے۔حضرت عمرنے ابوسفیان کودیکھ کرحضورﷺ سے اجازت طلب کی کہ اس دشمن اسلام کا سر اڑا دے لیکن رحمت عالم ﷺ نے انھیں سختی سے منع فرمایا ۔ ابوسفیا ن نے معافی طلب کی تو حضورﷺ نے نا صرف ان کے سارے جرم معاف فرما دیے بلکہ یہ اعلان بھی فرما دیاکہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا اسے بھی معاف کر دیا جائے گا ۔حضور ﷺ کا حسن سلوک دیکھ کر ابوسفیان مسلمان ہو گئے۔

 

’’قَالَ عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ لِمُعَاوِيَةَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَا مِنْ إِمَامٍ يُغْلِقُ بَابَهُ دُونَ ذَوِي الْحَاجَةِ وَالْخَلَّةِ وَالْمَسْکَنَةِ إِلَّا أَغْلَقَ اللَّهُ أَبْوَابَ السَّمَائِ دُونَ خَلَّتِهِ وَحَاجَتِهِ وَمَسْکَنَتِهِ فَجَعَلَ مُعَاوِيَةُ

 

رَجُلًا عَلَی حَوَائِجِ النَّاسِ‘‘[78]

 

’’عمرو بن مرہ رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا ہے جو بھی امام، حکمران ضرورت مندوں اور غریبوں کے لیے بند رکھتا ہے اللہ اس کے لیے آسمانوں کے دروازے بند کردیتا ہے معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضروریات اور حاجات کے لیے آدمی مقرر کردیا‘‘۔

 

’’قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ تَبْکِي عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ اتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي قَالَتْ إِلَيْکَ عَنِّي فَإِنَّکَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِيبَتِي وَلَمْ تَعْرِفْهُ فَقِيلَ لَهَا إِنَّهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَتْ بَابَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَهُ بَوَّابِينَ فَقَالَتْ لَمْ أَعْرِفْکَ فَقَالَ إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَی‘‘[79]

 

’’ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی ﷺایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر پر بیٹھی رورہی تھی آپﷺنے فرمایا: اللہ سے ڈرو صبر کرو۔اس نے کہا آپ پر وہ مصیبت نہیں آئی جو مجھ پر آئی ہے اس لیے کہہ رہے ہیں اس عورت نے آپ ﷺکو پہچانا نہیں تھا کسی نے اس سے کہا کہ یہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں وہ آپ کے دروازے پر آئی تو وہاں کوئی دربان وچوکیدار نہیں پایا اس نے کہا میں نے آپ ﷺکو پہچانا نہیں تھا ۔آپ ﷺنے فرمایا: صبر وہ ہے جوصدمہ پہنچتے ہی کیا جائے ‘‘۔

 

عوام کے مسائل حل کرنا:

حكمران کےليے لازم ہےکہ عوام کے حالات سے واقفيت، ان کےفائدے ميں امور سرانجام دے، ان پر نرمی وشفقت کرے، ان کی غلطیوں سے درگزرکرے، جوجس قسم کے فیصلے کا مستحق ہے عدل کے ساتھ وہ فیصلہ کرے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سلیمان علیہ السلام سے متعلق ذکر کیا ہے:

 

’’وَ تَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیْ لَآ اَرَی الْہُدْہُدَ اَمْ کَانَ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ‘‘[80]

 

’’انہوں نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا کہ کیا ہوگیا مجھے ہدہد نظر نہیں آرہا وہ غائب ہے؟‘‘

 

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ امیر کو اپنے عوام کی حالت سے باخبر رہنا چاہیے جب سلیمان علیہ السلام کی نظروں سے ہدہد کا مسئلہ اوجھل نہیں تھا تو بڑے معاملات کیسے اوجھل ہوسکتے تھے؟[81]

 

’’عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ: سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ»، قَالَ: فَسَمِعْتُ هَؤُلاَءِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَحْسِبُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «وَالرَّجُلُ فِي مَالِ أَبِيهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ»[82]‘‘

 

’’ ابن عمررضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اپنی ذمہ داری کے لیے جوابدہ ہے ۔امام اپنے عوام کے لیے، آدمی اپنے گھر کے لیے، نوکر مالک کے مال کے لیے جوابدہ ہے میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاتھا کہ آدمی اپنے باپ کے مال کا ذمہ دار ہے اوراس کے لیے جوابدہ ہے ‘‘۔

 

یہی وجہ تعلیمات ہیں جن کی بنا پرحضرت عمر فاروق رعایا کی خبر گیری کے معاملے میں اتنے حساس نظر آتے ہیں کہ داؤد بن علی کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا:

 

’’لو ماتت شاة على شط الفرات ضائعة لظننت أن الله تعالى سائلي عنها يوم القيامة ‘‘[83]

 

ترجمہ: ’’اگر فرات کے کنارےبھیڑ کا بچہ (بھوک کی وجہ) بھی مرگیا تومجھے ڈر ہے کہ اللہ مجھ سے اس کے متعلق سوال کرے گا ۔

 

علامہ شبلی نعمانیؒ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی سوانح عمری ’’الفاروقؓ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ! تمام دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا حکمران دکھا سکتے ہو؟ جس کی معاشرت یہ ہو کہ قمیص میں دس دس پیوند لگے ہوں۔

 

کاندھے پر مشک رکھ کر غریب عورتوں کے ہاں پانی بھر آتا ہو، فرش خاک پر سو جاتا ہو، بازاروں میں پھرتا ہو، جہاں جاتا ہو جریدہ و تنہا جاتا ہو، اونٹوں کے بدن پر اپنے ہاتھ سے تیل ملتا ہو، دور دربار، نقیب و چاؤش، حشم وخدم کے نام سے آشنا نہ ہو، اور پھر یہ رعب و ادب ہو کہ عرب و عجم اس کے نام سے لرزتے ہوں اور جس طرف رخ کرتا ہو زمین دہل جاتی ہو، سکندر و تیمور تیس تیس ہزار فوج رکاب میں لے کر نکلتے تھے جب ان کا رعب قائم ہوتا تھا، عمر فاروقؓ کے ’’سفر شام‘‘ میں سواری کے اونٹ کے سوا اور کچھ نہ تھا، چاروں طرف غُل پڑا تھا کہ ’’مرکز عالم‘‘ جنبش میں آگیا ہے۔

 

ملک کی حفاظت:

اللہ کافرمان ہے:

 

’’وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ‘‘[84]’’مشرکین سے قتال کرو سب کے ساتھ کہ جب تک وہ تم سے لڑتے رہیں‘‘ ۔الله تعالى كا ارشادہے:

 

’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً ‘‘[85]

 

’’ایمان والوجو کفار تمہارے ساتھ لڑتے ہیں ان سے لڑو اور تم میں ان کے لیے سختی ہونی چاہیے‘‘ ۔

 

اللہ نے متعدد آیات میں کفا ر سے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے اس کامدار وبنیاد امام پر ہے اس لیے کہ امام ہی فوجیں تیار کرتا ہے وہی دستے روانہ کرتا ہے ۔غنیمت وفیٔ تقسیم کرتا ہے معاہدے کرتا ہے اسی لیے علماء نے کہاہے جہاد کا دارومدار امام پر ہے اگر امام نہ ہو اور

 

مصلحت کا تقاضا ہو تو جہاد کو مؤخر نہیں کیا جاسکتا ۔جو بہتر آدمی ہو وہ لوگوں کو اس مہم پر روانہ کرسکتا ہے[86]۔

 

’’قَالَ رَجُلٌ لِلْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺيَوْمَ حُنَيْنٍ؟ قَالَ: لَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺلَمْ يَفِرَّ، إِنَّ هَوَازِنَ كَانُوا قَوْمًا رُمَاةً، وَإِنَّا لَمَّا لَقِينَاهُمْ حَمَلْنَا عَلَيْهِمْ، فَانْهَزَمُوا فَأَقْبَلَ المُسْلِمُونَ عَلَى الغَنَائِمِ، وَاسْتَقْبَلُونَا بِالسِّهَامِ، فَأَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَفِرَّ، فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ وَإِنَّهُ لَعَلَى بَغْلَتِهِ البَيْضَاءِ، وَإِنَّ أَبَا سُفْيَانَ آخِذٌ بِلِجَامِهَا، وَالنَّبِيُّ ﷺيَقُولُ: «أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ المُطَّلِبْ»‘‘[87]

 

’’براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے پوچھا تم لوگ حنین والے دن بھاگ گئے تھے ؟براء نے کہا اللہ کی قسم رسول ﷺنہیں بھاگے بلکہ جلد باز قسم کے لوگ بھاگے تھے اور قبیلہ بنوہوازن نے ان پر تیر برسائے تھے جبکہ اللہ کے رسوﷺاپنے خچر پر تھے ۔سفید خچرنی پر تھے اور ابوسفیان بن الحارث رضی اللہ عنہ نے خچرنی کی لگام پکڑرکھی تھی نبی ﷺفرمارہے تھے میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ہوں میں عبدالمطلب کی اولاد ہوں‘‘۔

 

’’سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «انْتَدَبَ اللَّهُ لِمَنْ خَرَجَ فِي سَبِيلِهِ، لاَ يُخْرِجُهُ إِلَّا إِيمَانٌ بِي وَتَصْدِيقٌ بِرُسُلِي، أَنْ أُرْجِعَهُ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِيمَةٍ، أَوْ أُدْخِلَهُ الجَنَّةَ، وَلَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِيَّةٍ، وَلَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ»‘‘[88]

 

’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی ﷺنے فرمایا: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میرے پیچھے رہنے والوں کو میرے ساتھ نہ جانے کا دکھ ہوگااور میرے پاس اتنی جنگی سواریاں ہیں نہیں کہ سب کو دیدوں تومیں کسی غزوہ سے کبھی پیچھے نہ رہتا اللہ کی قسم میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتال کروں اور شہید ہوجاؤں پھر زندہ ہوجاؤں پھر شہید ہوجاؤں پھر زندہ ہوجاؤ پھر شہید ہوجاؤں‘‘۔

 

جہادکے لیے دستے اور لشکر روانہ کرنا امیر کا کام ہے ۔امراء وعمال مقرر کرنا بھی امام کی ذمہ داری ہے –ماوردی رحمہ اللہ کہتے ہیں: امام کی ذمہ داری ہے سرحدوں کا تحفظ کہ دشمن کو اس طرح غلبہ حاصل نہ ہو کہ وہ عزتیں پامال کرے یا کسی مسلمان کاخون بہائے امام پر اسلام دشمنوں سے جہاد کرنا واجب ہے تاکہ اللہ کا دین تمام ادیان (باطلہ) پر غالب آجائے ۔[89]

 

نتا ئج:

آج کا انسان اپنے اس احساس ذمہ ادری سے عاری ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے قیادت و سیادت کا مفہوم بالکل الٹ گیا ہے۔ اب قوم کا رہبر اس کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ اس سے خدمت وصول کرنے کے لیے اپنی عیاری اور مکاری سے کام لینا ہے۔ ٹھاٹ باٹ کے لیے بیت المال میں جمع قوم کا سرمایہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں انسانیت سوز واقعات سامنے آتے ہیں۔ اقتدار کی ہوس اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ذہن میں سوال آتا ہے کہ اقتدار بھی کیا چیز ہے، جس کے لیے لوگ اپنے ضمیر کے خزانے لٹادیتے ہیں۔

 

اب یہ بات رعایا کے ذمہ ہے کہ وہ اپنا ذمہ دار کسے چنتے ہیں اور اتنی بڑی ذمہ داری کس کے سپرد کرتے ہیں ۔

 

  دور حاضر میں قائدین کے طرز زندگی کا جائزہ لیں تو بلادریغ کہا جاسکتا ہے کہ قوم کے مال کا بڑا حصہ غیر ضروری اخراجات اور جھوٹی شان و شوکت میں صرف ہو رہا ہے۔

 

آج اقتدار کی خاطر جنگ ہوتی ہے، جس کے حصول پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور عام انسانوں کے جذبات سے کھیلا جاتا ہے ۔ بڑے بڑے فسادات بھی کروائے جاتے ہیں، جن میں ہزاروں لوگوں کے ارمان لٹ جاتے ہیں، جانیں تلف ہوجاتی ہیں اور مکان خاکستر کردیے جاتے ہیں۔

 

  جبکہ پہلے لوگ قیادت کی باگ ڈور کو تھامنے سے ڈرتے تھے خود کو کمزور سمجھ کر ذمہ داری کا بار اٹھانے سے کتراتے تھے۔ کوئی اس کے لیے تیار نہیں ہوتا ۔ حتی کہ ذمہ داری ٹھکرانے کی پاداش میں بادشاہوں کے عتاب کا شکار بھی ہونا پڑتا تھا۔ 

 

  ذرا غور کریں کہ اگر قیادت و سربراہی کا وہی مفہوم آج بھی لیاجاتا جوپہلے سمجھا جاتا تھا اور جواب دہی کا تصور نگاہوں کے سامنے ہوتا تو لازما قیادت کی جنگ کبھی نہ ہوتی اور ہم وہی دور دیکھتے جو خلافت راشدہ اور عمربن عبدالعزیز کا تھا۔ کاش ملت کے قائدین اس احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنا فریضہ انجام دیتے ۔تو ہم ہر گز یہ نہ کہتے

 

؂مجھے رہ زنوں سے گلا نہیں تیری رہبری کا سوال ہے

 

درحقیقت قائدکے لیے قیادت بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔ بہت بڑی زمہ داری بھی اور بہت نیکی کا زریعہ بھی ۔ قائد کی ایک اچھے کام سے پورے رعایا کی بھلائی ہوتی ہے تو پورے رعایا کی ثواب ملتاہے ۔ مگر قائدکی ایک غلطی بھی اسی طرح بہت گناہ و جواب دہ کا حامل ہوتا ہے۔ 

 

اسی بنا پررسول اللہ ﷺنے صحابہ کرام کی تربیت ان اصولوں پر فرمائی، جن پر عمل کر دنیا کےاس مقدس جماعت نے نبی کریم ﷺکے طور طریق بطور اسوہ اپناکر ہر میدان میں فتح مندی کا وہ پرچم لہرایا دنیا جس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔آیئے! ان اصولوں پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی ان اصولوں پر چلنے کی دعوت دیں۔

 

حوالہ جات

  1. النساء 59: 4
  2. د/ أحمد مختار عبد الحميد عمر، معجم اللغۃ العربيۃ المعاصرة، عالم الكتب، الطبعۃ الأولى، 1429 ھ، 2008 ء، ج4، ص464
  3. اردو لغت (تاریخی اصول پر) ، اردو لغت بورڈ، کراچی، جنوری1996ء، ج14، ص386
  4. نور الحسن، مولوی، نور اللغات، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، 2006ء، ج2، ص831
  5. اردو لغت (تاریخی اصول پر) ، اردو لغت بورڈ، ج14، ص123-124
  6. أحمد بن محمد بن علی الفيومی، المصباح المنير في غريب الشرح الكبير، المكتبۃالعلميۃ، بيروت، ج2، ص518
  7. ابن منظور، محمد بن مكرم، لسان العرب، دار صادر بيروت، 1414ه، ج4، ص184، ماده خلف
  8. سورة ص: 26
  9. لسان العرب، 2\206
  10. لسان العرب، 5\252
  11. هود: 96
  12. لسان العرب، 6\327
  13. الرحمن: 33
  14. لسان العرب، 14\252
  15. المائدة 12: 5
  16. لسان العرب، 1\212
  17. البخارى، محمد بن اسماعيل، صحيح بخارى، باب العبد راع عن مال سيده، دار طوق النجاة، الطبعة الاولى: 1422، رقم الحديث: 2558، ج3، ص150
  18. النساء 58: 4
  19. أحمد بن حنبل، مسند أحمد بن حنبل، تحقيق شعيب الأرنؤوط، الناشر: مؤسسة الرسالةالطبعة: الأولى، 2001 م، رقم الحديث: 12383، ج19، ص376
  20. تفهيم القرآن، مودودى، ترجمان القرآن، 1\189
  21. النساء: 59: 4
  22. المائده 44: 5
  23. الشورى 38: 42
  24. ال عمران 159: 3
  25. مسند أحمد بن حنبل، رقم الحديث: 18928، 31\244
  26. الدارمى، ابو محمدعبدالله بن عبدالرحمن، سنن الدارمى، باب التورع عن الجواب فیما لیس فی کتاب ولاسنۃ==، ==تحقيق: حسين سليم أسد الداراني، الناشر: دار المغني للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية، الطبعة: الأولى، 2000 م، رقم الحديث: 119، 1\239
  27. المائده 8: 5
  28. مفردات القرآن، راغب اصفہانی، (مکتبة مرتضویة لإحیاء الآثارالجعفریة) 325
  29. االسیاسة الشرعیة ص7
  30. مفاتیح الغیب، فخرالدین رازی، 10520
  31. البقرة 188: 2
  32. الأحکام السلطانیة الماوردی: (ترجمہ سید محمد ابراہیم مطبع جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد دکن، اشاعت 1931ء) ص: 11
  33. النساء 59: 4
  34. البقرة 269: 2
  35. تفسير تبيان القرآن، غلام رسول سعيدى، فرید بک سٹال، ج1، ص342
  36. جامع البیان جز 12، ص 231-232، مطبوعہ دارالفکر بیروت 1415 ھ
  37. ص: 20
  38. تفسير القرآن الكريم، عبدالسلام بهتوى، دار الاندلس، ج1، ص342
  39. تفهيم القرآن، مودودى، ترجمان القرآن، ج1، ص189
  40. الماوردى، على بن محمد بن محمد، الأحكام السلطانيه، دار الحديث قاهر ه، ص 19
  41. ايضا ص 19
  42. سورة يوسف: 22
  43. زاد المسیرج 4، ص 201، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، 1407 ھ
  44. الجامع لاحکام القرآن، ج1، ص142
  45. صحيح بخارى، باب الشجاعة فى الحرب، حديث: 2820، ج4، ص22
  46. مسلم، مسلم بن حجاج، صحيح مسلم، باب فى غزوة حنين، حديث 76، ج3، ص1398
  47. ابن تیمیہ، مجموع الفتاوی، 180/28
  48. الجوزی ۔ ابن القیم، الروسیۃ ص 491
  49. الجوزی، ابن القیم، زاد المعاد، 22/2
  50. ذھبی، سیر أعلام النبلاء، 235/19
  51. الزمخشری، محمود بن عمر، ربیع الابرار ونصوص الاخیار، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات بیروت، ج4، ص357
  52. ایضا، 4/480
  53. راغب اصفہانی، حسن بن محمد، ص 287
  54. الخرائطی، محمد بن جعفربن محمد، مکارم الاخلاق ومعالیھا ومحمود طرائقھا، مکتبۃ الرشد، 1427-2006، ص 179
  55. العفانی، سید حسین، صلاح الامۃ فی علو الھمۃ مؤسسۃ الرسالۃ – دار العفانی1417-1997، ج2، ص616-617
  56. البیھقی، احمد بن حسین بن علی بن موسی، الزھد الکبیر، دار الجنان مؤسسۃ الکتب الثقافیہ، ص276
  57. الطبری، ابو جعفر، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، دار المعارف بمصر، ج4، ص224
  58. ابن ابی الدنیا، عبد اللہ بن محمد بن عبید، الحلم، مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، 1413ھ، ص25-26
  59. ال عمران 134: 3
  60. النور، 22
  61. الشوری، 40
  62. سنن الترمذى، باب ما جاء في العفو عن الخادم، حديث 1949، ج4، ص336
  63. سنن الترمذى، باب ماجاء فى التواضع، حديث 2029، ج4، ص376
  64. ال عمران 159: 3
  65. تفسير بيان القرآن، اسرار احمد
  66. صحيح مسلم، باب فضيلة الامام العادل، حديث: 1828، ج3، ص1458
  67. -صحيح مسلم، باب فضل الرفق، حديث: 2593، ج4، ص2003
  68. البقرہ 40: 2
  69. المائدہ 1: 5
  70. ص، 20
  71. صحيح بخارى، باب متى يستوجب الرجل القضاء، ج9، ص67
  72. ايضا
  73. النساء 58: 4
  74. الترمذى، محمد بن عيسى، سنن الترمذى، باب ماجاء فى الامام العادل، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصرالطبعة: الثانية، 1395 هـ - 1975 م، حديث نمبر 1330، 3\610
  75. سورة المائده، 48
  76. صحيح بخارى، ج4، ص175
  77. الماوردى، احكام السلطانيه، 15-16
  78. - سنن الترمذى، باب ما جاء فى امام الرعية، ج3، ص311
  79. -صحيح بخارى، باب زيارة القبور، ج2، ص79
  80. النمل 20: 27
  81. تفسیرالقرطبی، ج13، ص188
  82. صحيح بخارى، باب العبد راع في مال سيده، ولا يعمل إلا بإذنه، ج3، ص120
  83. حلية الأولياء، أبو نعيم أحمد بن عبد الله الأصبهاني، دار الكتاب العربي، بيروت، الطبعة الرابعة، 1405، ج1، ص53
  84. التوبة 36: 9
  85. ==التوبة 123: 9==
  86. المغنی، ج8، ص152-153
  87. صحيح بخارى، باب من قاد دابة غيره في الحرب، ج4، ص30
  88. صحيح بخارى، باب الجهاد من الايمان، ج1، ص16
  89. الاحکام السلطانیہ، 16
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...