Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

اسلامی معاشیات میں امداد باہمی کا تصور |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060029185_587

Pages

83-103

DOI

10.51411/rahat.2.2.2018.37

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/37/334

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/37

Subjects

Islamic finance mutual cooperation Faith Shared risk joint profit Islamic finance mutual cooperation Faith Shared risk joint profit

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

اسلام میں نجات کا مدار دو چیزوں پر ہے ۔ایک ایمان اور دوسرا عمل صالح، ایمان چند امور پر اعتقاد اور یقین کانام ہے، اللہ تعالیٰ پر ایمان، اللہ کے پیغمبروں پر ایمان، اللہ کی نازل کی گئی کتابوں پر، فرشتوں پر، اچھی بری تقدیر پر، روزجزا پر، بعث بعد موت پر، ان باتوں پر یقین رکھنا ایمان کہلاتا ہے اور اسی یقین اور ایمان پر انسانی عمل کی بنیاد قائم ہے اور یہی وہ دوسری چیز ہے جس پر نجات کا مدار قائم ہے، اب یہ عمل آگے تین حصوں میں مزید تقسیم ہوتا ہے۔ پہلا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض کیا گیاحصہ، یعنی عبادات، یہ وہ حصہ ہے جس کے ذریعے انسان اللہ کی بڑائی اور اپنی بندگی کا اظہار کرتا ہے دوسر ا حصہ معاملات ہے یعنی جو انسان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ لین دین، کاروبار کرتا ہے اور تیسرااخلاق والا حصہ ہے ۔کہ وہ حقوق جو ایک دوسرے پر روح کی تکمیل اور معاشرت کی ترقی کیلئے ضروری ہے۔گویا ایمان، عبادات، معاملات اور اخلاق کے درست ہونے پر انسانی نجات اور کامیابی قائم ہے ۔

 

اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطری ساخت اس طرح بنائی ہے کہ یہ انسان اپنی زندگی میں باہمی تعاون اور کاروباری لین دین کی طرف ضرورت مند ہے، اور معاشرہ کا ہر فرد اور طبقہ معاملاتی بنیادوں پر دوسرے سے منسلک ہے ایک عام سے آدمی کو چاہیے وہ مزدور ہو یا کاشت کار یا معاشرے کا امیر آدمی ہو سب کو ضرورت ہے ایسے آدمی کی جو انسانی لباس کی ضروریات کو پورا کرسکے لوگو ں کیلئے کپڑا بنا سکے ۔اس کپڑے والے کو درزی کی ضرورت ہے جو اس کپڑے کو تیار کر کے خوبصورت لباس مہیا کر سکے اسی طرح اس معاشرے میں صفائی ستھرائی کی ضرورت ہے اور ہر شخص اس کو نہیں کر سکتا جیسے کہ اس شعبے کے افرادیہ کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں ۔اسی طرح مکانات بنانے کیلئے مزدوروں کی ضرورت، صنعت کو چلانے کیلئے صنعت کاروں کی ضرورت، زمین کیلئے کاشتکاروں کی ضرورت، ضروریات زندگی مہیا کرنے کیلیے دکانداروں کی ضرورت، غرض پورا انسانی معاشرہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔پھر ان معاملات میں کبھی کبھار تنازعات کا پیدا ہونا بھی نا گزیر ہے ۔جس کے حل کیلئے عدل وانصاف کے نظام اور دستور و قانون کی ضرورت ہے ۔

 

گویامعاشی معاملات کے بنیاد تین چیزوں پر قائم ہے ۔

 

1۔ امداد باہمی ، 2۔ عدل وانصاف، 3۔ سچائی و دیانت

 

شریعت مقدسہ کا یہ خاصہ ہے کہ ہماری شریعت میں تمام طبقات و شعبات کیلئے صاف اور واضح احکامات اور ہدایات موجود ہیںیہ ہدایات اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا بہترین اور کامل ذریعہ ہے ۔اب چاہیے یہ ہدایات عبادات سے تعلق رکھتے ہو یا معاملات و معاشرت سے تعلق رکھتے ہو، ان احکامات کی بجا آوری سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود و منظور ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اس فرمانبردار انسان کیلئے مدداور نصرت کا سبب وذریعہ ہے ۔اور یقیناانسان اللہ کی مدد اور نصرت ہی کی بنیاد پر کامیاب اور خوشگوار زندگی بسر کرسکتا ہے اور اسی مدد ونصرت کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی حاصل کرسکتا ہے اگر انسان اللہ کا نا فرمان بن جائے تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا حقدار بن جاتا ہے ۔ جب امت کا ایک خاص طبقہ پورے دین پر چلنے کیلیے تیار نہیں ہوتا تو وہ طبقہ خاص طور سے باقی طبقات کیلیے دین پر آنے میں رکاوٹ بنے گا چنانچہ اگر تجارت سے وابستہ افراد دین پر آنے کیلیے تیار نہیں تو جو افراد ان تاجروں سے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں ۔ ان کاتو دین پر قائم رہنے میں قدم بہ قدم رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ جب تاجر دین پر نہیں چل رہا تو آدمی کو ان بے دین تاجروں سے معاملات کے وقت دین پر چلنا مشکل ہوگا ۔

 

امداد باہمی میں تجارت کا مقام 

اوپر والی مثال سے ایک خاص امر کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اسلامی معاشیات میں امداد باہمی میں تجارت کا مقام انتہائی اعلیٰ تصور ہوتا ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے بنیادی وسائل معاش چارر کھے ہے۔تجارت، زراعت، صناعت، اور اجارت، لیکن ان چاروں میں تجارت کی روزی میں برکت زیادہ رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت تجارت سے وابستہ ہے بلکہ اقتصادی نظام کی ترقی اوربرتری سب سے بڑھ کر تجارت میں ہی منحصر ہے۔ جو قوم یا ملت جس قدر اس میں دلچسپی لیتی ہے اسی قدر اپنے اقتصادی بہبود کی کفیل بنتی ہے، معاش کے دیگر تین ذرائع بھی کسی نہ کسی مشکل میں تجارت سے منسلک ہوتے ہیں۔ ایک عام سے عام آدمی کو بھی اشیاء ضرورت کی خرید میں تجارت سے واسطہ پڑتا ہے۔لہٰذا انسانی زندگی کے شعبوں میں سے اگر تجارت میں اسلامی اقدار کا فروغ، دینی احکام زندہ ہوجائیں تو دیگر شعبوں پر بھی اس کے اثرات لابدی ہیں۔ 

 

امداد باہمی:  

اسلامی معاشیات میں امداد باہمی کے تصور کو بیان کرنے سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام میں نفس امداد باہمی کو بیان کیا جائے کیونکہ اسلام سلامتی کا دین ہے اور اسلامی نظام محدود نہیں بلکہ عملاً مکمل و وسیع نظام کی حیثیت رکھتا ہے، ایک بہترین اسلامی ماحول میں معاشرہ اور قوم کے افراد کیلئے محفوظ اور کامیابی عطا کرنے کیلئےاسلام امداد باہمی کا تصور دیتا ہے، ارشاد نبوی ہے:

 

خیر الناس انفعھم للناس[1]

 

ترجمہ: لوگوں میں بہترین وہ ہے جو ان میں سےلوگوں کے لئے زیادہ نفع بخش ہو۔ 

 

اللہ تعالیٰ کی مخلوق ایک دوسرے سے زندگی کے ہر معاملے میں جڑی ہوئی ہے اور امداد باہمی کے بغیر معاشی و معاشرتی زوال کا خطرہ ہوتا ہے، لہٰذا اسلام نے اسلامی فلاحی ماحول کے لئے امداد باہمی کا تصور پیش کیا اور اس امداد باہمی والے ماحول کو فروغ دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک بہترین اور جامع قانون بیان کیا ہے جیسا کہ ارشاد الہی ہے:

 

وَ تَعَاوَنُوْا عَلٰی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلیٰ الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَان[2]

 

ترجمہ: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ 

 

یہ آیت مبارکہ انسانی زندگی میں اخلاقی، معاشرتی اور معاشی تمام حصوں کو محیط ہے، اور

 

آیت مبارکہ کے جملہ تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ بِر اور تقویٰ میں باہمی تعاون، زندگی کے ہر دائرے تک پھیلا ہوا ہے جس سے یہ امداد باہمی دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے:  

 

(۱) باہمی معاشرتی تعاون  (۲) باہمی معاشی تعاون  

 

باہمی معاشرتی تعاون:

شریعت مقدسہ میں باہمی معاشرتی تعاون کو مختلف نصوص سے واضح کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  

 

اِنَّمَا اْلمُؤمِنُونَ اِخْوَۃ[3]

 

ترجمہ: بے شک اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ 

 

اور حضورﷺ نے اس بھائی چارے کو اس طرح بیان فرمایا ہے:  

 

تری المؤمنین فی تراحمہم و توادہم و تعاطفہم کمثل الجسد اذا اشتکی عضوا تداعی لہ سائر جسدہ بالسہر و الحمی۔ [4]

 

ترجمہ: تم مؤمنین کو آپس میں مہربانی، شفقت اور لطف کرم میں ایسے دیکھوگے جیسے کوئی جسم، کہ جب اس میں کسی ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار کو دعوت دیتا ہے۔ 

 

دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:  

 

المؤمن للمؤمن کالبنیان یشد بعضہ بعضا و شبک اصابعہ۔ [5]

 

ترجمہ: ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے لئے ایسے ہے کہ جیسے عمارت جس کا ایک حصہ دوسرے کو طاقت دیتا ہے اور آپﷺنے اپنی انگلیاں آپس میں گتھ لیں۔ 

 

غرض اللہ تعالیٰ اور نبی کریمﷺ نے بارہا اس کی تعلیم دی ہے، اور اس باہمی امداد کو

 

معاشرتی طور سے مختلف حصوں میں تقسیم کیا ہے، جیسے اخلاقی، عملی، دفاعی اور سیاسی یعنی امداد باہمی کے ذریعے ایک مضبوط، فلاحی اور بہترین معاشرے کو تشکیل دی گئی۔ 

 

باہمی معاشی تعاون:  

شریعت مقدسہ نے جس طرح انسان کی خیر خواہی کی ہے وہ دنیا کے کسی مذہب سے ثابت نہیں، یہاں تک کہ انسانوں کے مال و دولت کی حفاظت کے لئے بھی شریعت مقدسہ میں احکام دیئے گئے ہیں، حلال روزی کمانے کی ترغیب ہے کہ انسان حرام کے نقصانات سے بچ سکے، فضول خرچی سے بچنے کے احکامات دیئے کہ انسان محتاجی اور مجبوری میں مبتلاء ہونے سے بچ سکے۔ ارتکازِ دولت کی حوصلہ شکنی کی گئی کہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و امداد کی ترغیب دی کہ معاشرہ میں توازن برقرار رہے چنانچہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ 

 

ان الاشعرین اذا ارملوافی الغزو او قلّ طعام عیالہم بالمدینۃ جمعوا ما کان عندہم فی ثوب واحد ثم اقتسموہ بینہم فی اناء واحد بالسویۃ فہم منی و انا منہم۔[6]

 

ترجمہ: جب جنگ کے دوران اشعریوں کا کھانا ختم ہوگیا یا مدینہ میں قیام کے دوران ان کے اہل و عیال کے لئے کھانا کم پڑگیا تو انہوں نے جو کچھ ان کے پاس تھا اسے ایک کپڑے میں جمع کیا پھر اسے ایک برتن سے برابر برابر آپس میں تقسیم کردیا، (اسی لئے) وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں۔ 

 

اب ان اشعریوں کا عمل آپﷺ کو اتنا پسند آیا کہ آپﷺ نے اپنے کو ان میں سے شمار کیا اور ان کو آپﷺ نے اپنے ساتھ شامل کیا اوریہ ترغیب صرف ایک موقع پر نہیں دی گئی بلکہ بارہا آپﷺنے آپس میں ایک دوسرے کو کھانے میں شریک کرنے کی ترغیب دی جیسےاحادیث

 

کے مجموعے سے ثابت ہے مثلاً اصحاب صفہ کو کھانا کھلانے کے متعلق فرماتے:

 

(۱) من کان عندہم طعام اثنین فلیذہب بثالث ومن کان عندہم طعام اربعۃ فلیذہب بخامس او سادس۔ [7]

 

ترجمہ: جس کے پاس دو افراد کا کھانا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اس میں تیسرے کو بھی شامل کرے اور اگر چار کا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اس میں پانچویں یا چھٹے بندے کو بھی شامل کرے۔ 

 

(۲) طعام الواحد یکفی الاثنین، و طعام الاثنین یکفی الاربعۃ، و طعام الاربعۃ یکفی الثمانیۃ۔[8]

 

ترجمہ: ایک شخص کا کھانا دو کے لئے کافی ہوتا ہے، دو کا کھانا چار کے لئے کافی ہوتا ہے، اور چار کا کھانا آٹھ کے لئے کافی ہوتا ہے۔ 

 

(۳) لیس بالمؤمن الذی یبیت شبعانا و جارہ جائع الی جنبہ۔ [9]

 

ترجمہ: وہ مؤمن نہیں جس نے خود تو پیٹ بھر کررات گزاری اور اس کا ہمسایہ بھوکا رہا۔ 

 

غرض یہ کہ مختلف مواقع پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و امداد کی ترغیب دی گئی اور صرف ترغیب ہی نہیں دی گئی بلکہ عملی طور سے خود بھی عمل کرکے دکھایا اور اپنے صحابہؓ سے بھی کر کے دکھایا، تاکہ امت کے لئے حجت قائم رہے، جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ آپﷺکے صحابہ کرامؓ چاہے جس مقام و مسند پر تھے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے، امیر المؤمنین حضرت عمرؓ نے جب قادسیہ کی فتح کی خوشخبری سنائی تو اس خطبہ میں ارشاد فرمایا:  

 

انی حریص علی ان لا اری حاجۃ الا سددتہا ما اتسع بعضنا لبعض فاذا عجز ذٰلک عنا تأسینا فی عیشنا حتی نستوی فی الکفاف و لو ددت انکم علمتم من نفسی مثل الذی وقع فیہا لکم و لست معلمکم الا بالعمل انی و اللہ لست بملک فاستعبدکم و لکنی عبد اللہ عرض علیّ الامانۃ فان ابیتہا و رددتہا علیکم و اتبعتکم حتی تشبعوا فی بیوتکم و تردوا سعدت لکم و ان انا حملتہا و استتبعتکم الی بیتی شقیت بکم ففرحت قلیلاو حزنت طویلا فبقیت اقول و لا ارد فاستعتب۔ [10]

 

ترجمہ: مجھے اس بات کی بڑی فکر رہتی ہے کہ جہاں بھی تمہاری کوئی ضرورت دیکھوں اسے پورا کروں جب تک ہم سب مل کر اسے پورا کرنے کی گنجائش رکھتے ہوں، جب ہمارے اندر اتنی گنجائش نہ رہ جائے تو ہم باہمی امداد کے ذریعے گزر اوقات کریں گے۔ یہاں تک کہ سب کا معیار زندگی ایک سا ہوجائے کاش تم جان سکتے کہ میرے دل میں تمھارا کتنا خیال ہے، لیکن میں یہ بات تمہیں عمل کے ذریعے ہی سمجھا سکتا ہوں خدا کی قسم میں بادشاہ نہیں ہوں کہ تم کو اپنا غلام بناکر رکھوں بلکہ خدا کا بندہ ہوں امانت میرے سپرد کردی گئی ہے، اب اگر میں اس کو اپنی ذاتی ملکیت نہ سمجھوں بلکہ تمھاری طرف واپس کردوں اور تمھارے پیچھے پیچھے چلوں یہاں تک کہ تم اپنے گھروں میں پیٹ بھر کر کھاپی سکو تو میں تمھارے ذریعے کامیاب ہونگا اور اگر میں اسے اپنا بنالوں اور تمہیں اپنے پیچھے پیچھے چلنے اور اپنے گھر آنے پر مجبور کردوں تو تمھارے سبب میرا انجام خراب ہوگا کچھ عرصے خوشی منالوں گا مگر عرصہ دراز تک غمگین رہوں گا اور میرا خیال یہ ہوگا کہ نہ کوئی مجھے کچھ کہنے والا ہوگا اور نہ کوئی میری بات کا جواب دے گا کہ میں اپنا عذر بیان کرکے معافی حاصل کرسکوں۔ 

 

شریعت مقدسہ نے انسان کو معاشی یا معاشرتی بنیاد پر امداد باہمی کی ترغیب ویسے ہی نہیں دی بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا ہی ایسا ہے چونکہ انسان کی ضروریات وحاجات زندگی کا دائرہ نہایت وسیع ہے، اسی وجہ سے فلاسفہ، متکلمین، محدثین، مفسرین، علماء اور دانشور وغیرہ کہتے ہیں کہ انسان مدنی الطبع ہے۔ مدنی الطبع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو خوشحال بنانے کے لئے نوع انسانی کے دیگر افراد کی معاونت کا محتاج ہے، اور اس کی یہ احتیاج طبعی و فطرتی ہے، اسی وجہ سے انسان اپنی نوع کے دیگر افراد کے ساتھ مل جل کر زندگی گزارنے کا شدید محتاج ہے، یہی وجہ ہے کہ کوئی انسان اکیلا اور تنہا جنگل میں رہائش اختیار نہیں کرسکتا اور اگرایسی رہائش اختیار کر بھی لے تو وہ خوشحال زندگی نہیں گزار سکتا۔ 

 

مختلف کتب کے مطالعہ اور علمائے کرام کی آراء کے تناظر میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسان تین وجہوں کی بناء پر تنہا اور انفرادی بغیر کسی کے امداد کے زندگی نہیں گزار سکتا۔ 

 

اولاً تو اس لئے کہ تنہا و انفرادی زندگی انسان کی طبیعت و فطرت کے خلاف ہے جیساکہ پہلے ذکر ہوا انسان فطرۃً مدنی الطبع ہے، اور فطرت کے خلاف طرز زندگی اختیار کرنا بہت بڑی غلطی اور حماقت ہے۔ 

 

ثانیاً اس لئے کہ تنہا رہائش اور انفرادی زندگی اختیار کرنے کی صورت میں انسان نہ تو آرام و راحت والی زندگی گزار سکے گا اور نہ وہ اپنی ضروریات زندگی حاصل کرسکے گا۔ 

 

ثالثاً اس لئے کہ وہ انسانیت والی شرافت و عظمت برقرار نہیں رکھ سکے گا بلکہ انفرادی زندگی اختیار کرنے کی صورت میں انسان نرا جنگلی حیوان بن جائے گا۔ 

 

الغرض انسان اپنی نوع کے دیگر افراد کے ساتھ رہ کر اجتماعی زندگی گزارنے کا محتاج ہے پھر ان مجتمع افراد کے متفرق پیشوں اور مختلف فرصتوں سے اجتماعی زندگی حسین، راحت دہ اور مستحکم رہتی ہے، ایک شخص تن تنہا صرف دو یا تین پیشے ہی اختیار کرسکتا ہے لیکن دو یا تین حرفتوں سے کوئی انسان اپنی ضروریات زندگی پوری نہیں کرسکتا کیونکہ انسان مختلف چیزوں کی طرف احتیاج رکھتا ہے ۔مثلاً جو تے کا محتاج ہے، قلم، سیاہی، کاغذ کا محتاج ہے، کپڑے کا، کپڑے سے لبا س وغیرہ اسی طرح لوہار، نائی، پلاسٹک، ہیٹر، پنکھا یعنی اجتماعی طور سے مختلف شعبوں کے ساتھ منسلک اور محتاج ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ یہ تمام امور ایک یا چند افراد سر انجام نہیں دے سکتے، البتہ مل جل کر اجتماعی زندگی میں یہ تمام امور اور جملہ ضروریات حاصل ہو سکتی ہیں ۔انسا ن کی حاجات و ضروریات تین قسم پر ہیں:

 

۱۔ حاجات لازمہ ، ۲۔ حاجات میّسرات ، ۳۔ حاجات تحسین 

 

۱: حاجات لازمہ:

یہ وہ حاجات ہیں جن کے بغیر انسان زندگی کی بقاء مشکل ہو جیسے بقدر ضرورت روٹی، پانی، لباس اور گھر و مکان جو اسے سردی اور گرمی سے بچا سکے ۔ 

 

۲: حاجات میّسرات:

یہ وہ حاجات ہیں جن کا حصول واجب و ضروری تو نہیں لیکن وہ مسہلات و میّسرات میں سے ہیں، یعنی ان کے وجود سے زندگی آرام دہ بن جاتی ہے جس سے انسان کو سہولت و آسائش حاصل ہو تی ہے۔ 

 

اس قسم میں حاجات مثلاً زائد لباس، بڑاگھر، لذیذ کھانے، بہترین بستر، حسب موقعہ گرم یا ٹھنڈا پانی ائیر کنڈیشنر، گاڑی وغیرہ، پس نفس پانی قسم اول میں داخل ہے جبکہ حسب موقعہ گر م، ٹھنڈا پانی دستیاب ہونا میسرات میں سے ہے باقی مثالیں بھی علی ھذالقیاس

 

۳: حاجات تحسین:

انسانی حاجات کی تیسری قسم جو کہ از قبیل تزہین و تحسین ہیں اور اس قسم پر عموماً زندگی کی تسہیل موقوف نہیں ہے اس قسم سے محض زیب و زینت، نمائش اور تفاخرمطلوب ہوتا ہے۔غرض جوبھی حاجات ہو انسان تنہا پو را نہیں کر سکتا، اب یہ بات ثابت ہونے پر باہمی تجارت کا بنیادی اصول قرار پایا چنانچہ مولانا حفظ ا لرحمن سیوہاری اپنی کتا ب ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ میں فرماتے ہیں:

 

’’تجارت کا جواز چونکہ باہمی تعاون پر قائم ہے اس لیے تمام معاملات سے تجارت میں

 

جانبین سے تعاون کا وجود ضروری ہے یعنی یہ نہ ہونا چاہیے کہ متعاقدین (Contractors) (دو معاملہ داروں) میں سے ایک کا زیادہ سے زیادہ نقصان پر موقوف ہو۔ 

 

وَتَعَاوَنُوْا عَلیَ الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلیَ اْلِاثْمِ وَ الْعُدْوَانِ[11]

 

ترجمہ: بھلائی اور پرہیز گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور ظلم پر ہرگز کسی کے ساتھ تعاون نہ کرو۔[12]

 

اب تک بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امداد باہمی اجتماعی زندگی کا اہم ترین فریضہ ہے اور اسلام اس کی ترغیب بھی دیتا ہے، اس لیے ترغیب کے ساتھ ساتھ مذہب امداد باہمی کے طریقے بھی بیان کرتا ہے مثلاً معاشیات میں تجارتی حوالے سے مضاربہ، شرکت، عنان، شرکت صنائع وغیرہ ۔

 

مضاربت:

تجارتی امور میں امداد باہمی کی بہترین ترتیب و طریق تجارت مضاربت کا ہے، اپنے سرمایہ کو نفع آور کاروبار اور تجارت میں لگا نے کی بہترین شکل مضاربت کی ہے، مضاربت کے لیے دوسری اصطلاح’’قراض‘‘اور’’مقارضہ‘‘استعمال ہوتی ہےجوقراضہ سےماخوذہے، جسکےمعنی’’کاٹناہے‘‘ احادیث میں دونوں لفظ’’مضاربہ‘‘ اور ’’مقارضہ‘‘ دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ 

 

جیسے مولانا ظفر احمدعثمانی نے اپنی کتاب ’’اعلاء السنن ‘‘میں بحوالہ التلخیص الجبیرکی روایت لفظ’’مضاربہ ‘‘ کے حوالے سے نقل کی ہے:  

 

ان عمر دفع الیہ مال یتیم مضاربہ[13]

 

ترجمہ: کہ عمرؓ نے یتیم کا مال (ان کے والد کو) بطور مضاربت دیا۔ 

 

فقہ حنفی اور فقہ حنبلی میں اس کے لیے مضاربت کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جب کہ

 

فقہ شافعی اورفقہ مالکی میں’’ قراض‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔ 

 

==تعریف: == مالک اپنے سرمایہ کو کسی کاروباری شخص کے سپردکردے اور وہ اس پر محنت کرکے نفع اپس میں تقسیم کردے یعنی سادہ ترتیب یہ ہے کہ رب المال سرمایہ دے اور دوسرا فریق صرف کاروباری جدوجہد کریں۔

 

اب کا روبارکے اس طریقہ سے اگر کاروبار میں نفع ہوگا تو دونوں فریق اس نفع میں طے شدہ نسبتوں کے مطابق حصہ دار ہونگے ا ور اگر کاروبار میں نقصان ہو گا تو اس مالی نقصان کو سرمایہ لگانے والا برداشت کرے گا اور کاروباری فریق کو یہ نقصان ہو گا کہ اس کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ 

 

شرعی حیثیت:  

احادیث مبارکہ میں مضاربت کو پسند کیا گیا ہے۔ مضاربت کا شرعی جواز سورۃ المزمل کی آیت نمبر 20سے بھی نکالتے ہیں۔مولانا حفظ سیوہاروی اس کو سعید یات سے نقل کرکے سمجھاتے ہیں ۔آپ ﷺنے اس کو بہتر سمجھ کر جاری رکھا اور صحابہ کرامؓ نے اس پر عمل کیا اور حضرت عباسؓ کی شرائط مضاربت کو آپؐ نے پسند فرمایا قرآن عزیز میں بھی اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد موجود ہے۔ 

 

وَاٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ یَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ[14]

 

ترجمہ: او ر ایک جماعت ہے جو زمین میں چل پھر کر اللہ کے رزق کو تلاش کرتی ہے یعنی صاحب مال، مال کو لگاتے ہیں اورمحنت والے اس کے ذریعے سے ملکوں اور شہروں میں جا کر تجارت کرتے ہیں۔[15]

 

مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ نے اپنی مشہور کتاب ’’اعلاء ا لسنن ‘‘ میں باب قائم کر کے ان تمام احادیث مبارکہ کو جمع کیا جن میں مضاربت کا بیان ہے اور اصحابہ کرامؓ نے عملاً اس کو قائم کیا ہے. مضاربت کےضمن میں متعلقہ مسائل رب المال، مضاربت اورسرمایہ وغیرہ کتب فقہ میں فقہا کرام ؒ

 

تفصیل سے بیان فرماتے ہیں، ان میں درج ذیل اہم ہیں:

 

۱۔ امام مالک، موطا، کتاب القراض ۔

 

۲۔ امام سرخی، المسوط، جلد 22، کتاب المضاربہ 

 

۳۔ امام کاسانی، بدائع الصنائع جلد6، کتاب المضاربہ 

 

۴۔ مرغینانی، الھدایۃ، جلد3، کتاب المضاربہ 

 

۵۔ ابن رشد، بدایۃ المجتھد، جلد2، کتاب القراض

 

==شرکت:   ==امداد باہمی کے مقاصد کو پور ا کرنے کے لیے دوسری ترتیب شرکت کی ہے ۔

 

تعریف:

محمد بن ابراہیم اس کی تعریف اس طرح سے کرتے ہیں:  

 

الشرکۃ: تقرر مستمول بین المالکین فأ کثر ملکا فقط[16]

 

ترجمہ: دو یا زیادہ مالکان کے درمیان کسی متقوم چیز کی ملکیت کا مقرر ہو جانا شرکت کہلاتا ہے۔ 

 

اردو میں اس تعریف کو قدرِ تفصیل اس طر ح بیان کی جائے گی ۔ 

 

’’ دو یا دو سے زیادہ افراد کا کسی کاروبار میں متعین سرمایوں کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنا کہ سب مل کر کار وبار کریں گے اور کاروبار کے نفع و نقصان میں معین نسبتوں کے ساتھ شریک ہونگے۔ ‘‘

 

شرعی حیثیت:  

حضورﷺکی بعثت سے پہلے متمدن عربوں میں شرکت کا طریقہ جاری تھا اس کے ثمرات کو سامنے رکھتے ہوئے آپﷺ نے شرکت کو پسند فرمایا جسے صاحب الہدایہ نے اس طرح

 

نقل کیا ہے:  

 

الشرکۃ جائزۃ لانہﷺبعث و الناس کانوا یتعاملون بہا فقررہم علیہا۔[17]

 

شرکت جائز ہے کیونکہ آپﷺ مبعوث ہوئے تو لوگ اس طریقہ سے کاروبار کرتے تھے اور آپﷺ نے لوگوں کو اس پر برقرار رکھا۔ 

 

اور علماء و فقہائے کرام قرآن کریم سے بھی شرکت کے جواز کے لئے آیات مبارکہ کو بیان کرتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  

 

وَ اِنْ تُخَالِطُوْہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ۔[18]

 

ترجمہ: اور اگر انہیں (نفقہ اور کاروبار میں) اپنے ساتھ ملا لو تو وہ بھی تمہارے بھائی ہے۔ 

 

دوسری کا جگہ ارشاد ہے:  

 

فاِنْ کَانُوا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَہُمْ شُرَکَاءُ فِی الثُّلُثِ۔ [19]

 

ترجمہ: اور اگر وہ بھائی بہن ایک سے زائد ہو تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔ 

 

اسی طرح شرکت کے جواز پر دلالت کرنے والی کئی اور آیات مبارکہ بھی موجود ہے جیسے سورۃ ص کی آیت 24، سورۃ الزمر کی آیت 29، سورۃ الکہف کی آیت 19، سورۃ طٰحہ کی آیت 32 اور سورۃ الانفال کی آیت 41، جن میں اللہ تعالیٰ نے شرکت کے جواز پر دلالت کرنے والے احکامات بیان کیے ہیں۔ اور یہ نہیں بلکہ احادیث قدسی میں بھی حضورﷺ نے شرکت کے متعلق بیان فرمایا حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے جس کو امام ابوداؤدؒ نے اپنی ’’السنن‘‘ میں (نیزحاکمؒ نے اپنی کتاب ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘ میں اور بیہقیؒ نے اس کو اپنی ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں بھی) بیان فرمایا:  

 

عن ابی ہریرۃؓ قال: ان اللّٰہ عز وجل یقول: وأنا ثالث الشریکین ما لم یخن احدہما صاحبہ فاذا خان خرجتُ من بینہما۔ [20]

 

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہؓ سے مرفوعاً منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے میں دو شریکوں میں تیسرا ہوں جب تک کہ ایک دوسرے سے خیانت نہیں کرتا، جب ایک دوسرے سے خیانت کرتا ہے تو میں درمیان سے نکل جاتا ہوں۔ 

 

اس حدیث کو چند الفاظ کے اختلاف کے ساتھ دار قطنی نے ’’السنن‘‘ میں اور منذری نے ’’الترغیب و الترہیب‘‘ میں نقل کی ہے۔ 

 

بلکہ امام ابو داؤدؒ اور امام ابن ماجہؒ دونوں حضرات نے اپنی ااپنی السنن میں حضورﷺ کی خود بیعِ شرکت کرنا بیان کیا ہے، چنانچہ سائبؓ سےمنقول ہے:

 

عن السائب قال: اتیت النبیﷺ فجعلوا یثنون علیّ و یذکرونی فقال: رسول اللّٰہ: انا اعملکم یعنی بہ قلت: صدقت بابی انت و امی کنت شریکی فنعم الشریک کنت لا تداری و لا تماری۔ [21]

 

ترجمہ: حضرت سائبؓ کہتے ہیں کہ میں حضورﷺ کی مجلس میں حاضر ہوا تو لوگ میری تعریف کررہے تھے اور مجھے فکر ہورہا تھا اور حضورﷺ نے فرمایا کہ میں انہیں تم سے زیادہ جانتا ہوں میں نے عرض کیا آپﷺ نے سچ کہا، آپﷺ میرے شریک تھے اور بہترین شریک تھے آپﷺ نے کبھی لڑائی جھگڑا نہیں کیا تھا۔ 

 

غرض مختلف احادیث اور قرآنی آیا ت مبارکہ سے نہ صرف شرکت کا جواز ملتا ہے بلکہ اس کی ترغیب، فضیلت اور اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ 

 

==شرکت کی اقسام: ==شرکت کی دو اقسام ہیں: ۱۔ شرکت املاک۲۔ شرکت عقود 

 

شرکت املاک:

صاحب الھدایۃ شرکت املاک کی تعریف یوں کرتے ہیں:  

 

شرکت املاک: العین یرثھا رجلان او یشتریانھا۔[22]

 

ترجمہ: شرکت املاک ایسے مال عین میں ہے جس کے دو شخص وارث ہوں یا دونوں اسے خریدیں۔ 

 

مذکورہ تعریف کی تشریح امام غزالی ؒ ’’ الو جیز‘‘ میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ یہ مذکورہ چیز ان دونوں کو بذریعہ خریداری، ہبہ، وصیت یا وراثت کے طور ایسے ملے کہ وہ مخلوط ہو جائے اور یہ خلط امتیاز و تفریق کو قبول نہ کر سکے۔ 

 

==شرکت عقود: ==امام عسقلانی ؒ شرکت عقد کی تعریف اسطر ح کرتے ہیں:

 

شرکت العقد: مایحدث بالاختیاربین اثنین فصاعدًامن الاختلاط لتحصیل الربح۔ [23]

 

ترجمہ: شرکت عقد یہ ہے کہ دو یا دو سے زیادہ افراد کا اپنے اختیار سے منافع حاصل کرنے کے لیے کوئی اختلاط وجود میں لانا۔ 

 

شرکت عقد کی مختلف آئمہ کرام نے مختلف انداز میں تعریف کی ہے جن میں قابل ذکر ابن قدامۃ، ابن عابدین اور احمد بن دردیر ی شامل ہیں۔

 

شرکت عقد کو فقہاء کرام نے چار اقسام میں تقسیم فرمایا جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

 

1) شرکت مفاوضہ، 2) شرکت عنان، 3) شرکت صنائع ، 4) شرکت وجوہ

 

بعض فقہاء شرکت عقود کی تین قسمیں بیان کرتے ہیں:

 

1) شرکت الاموال، 2) شرکت بالاعمال، 3) شرکت فی الوجوہ

 

اب ذیلی طور پر ہر ایک کی دو اقسام بیان کرتے ہیں: 1) مفاوضہ، 2) عنان

 

اس طرح کل چھ اقسام ہوئی ۔

 

شرکت مفاوضہ:  

==لغوی معنی: ==علامہ کاسانی مفاوضہ کے لغوی معنی اس طرح بیان کرتے ہیں:

 

انھا المساواۃ اللغۃ۔[24]

 

ترجمہ: لغت میں مساوات کو کہتے ہیں۔

 

==اصطلاحی تعریف: ==مرغینانیؒ نے شرکت مفاوضہ کی اصطلاحی تعریف اس طرح بیان کی ہے:

 

فھی ان یشترک الرجلان متساویا فی مالھما وتصرھما و دینھما۔[25]

 

ترجمہ: دو شخص آپس میں شرکت کریں اور وہ دونوں اپنے مال، تصرف اور دین میں برابر ہو۔

 

==شرکت عنان: ==عنان سے مراد ہے:

 

عنان: اِنہ مأخوذ من العن و ہو الاعراض۔[26]

 

ترجمہ: ’’عنان‘‘، ’’عن‘‘ سے مشتق ہے جس کا معنی ظاہر ہونا پیش کرنا۔

 

==اصطلاحی تعریف: ==لسان العرب میں شرکت عنان کی اصطلاحی تعریف اس طرح کی ہے:

 

شرکۃ العنان فھو أن یخرج کل واحد من الشریکین دنانیر أو دراھم مثل ما یخرج صاحبہ و یخلطاھا، ویأذن کل واحد منھما لصاحبہ بأن یتجر فیہ۔[27]

 

ترجمہ: شرکت عنان یہ ہے کہ دونوں شرکاء میں سے ہر ایک اتنے ہی دینار یا درہم الگ نکالے جتنے کہ اس کا دوسرا ساتھی نکالتا ہے اور وہ ان دونوں کو مخلوط کردیں اور ان دونوں میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کو اس میں تجارت کرنے کی اجازت دے۔ 

 

مذکورہ بالا تعریف سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذکورہ شراکت میں ہر ایک شریک دوسرے کا وکیل تو ہے لیکن کفیل اور ضامن نہیں ہے یعنی ہر ایک دوسرے کے لیے کاروبار تو کرے گا لیکن کاروباری تصرفات یعنی قرضہ وغیرہ کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔

 

۳) شرکت الصنائع:

شرکت عقد کی ایک قسم شرکت صنائع ہے، اس شرکت کا دوسرا نام شرکت ابدان، شرکت اعمال اور تقبل بھی ہے، شرکت صنائع کے بارے  میں صاحب الھدایہ فرماتے ہیں:  

 

ان تقبلا الاعمال و یکون الکسب بینھما۔[28]

 

ترجمہ: یہ کہ دونوں کام قبول کرئے اور کمائی دونوں کے درمیان میں ہے۔

 

یعنی دونوں شریک ہر ایسا کام قبول کریں جو ممکن الاستحقاق ہو اور اس سے حاصل شدہ کمائی میں دونوں کی شرکت ہو اب دونوں میں سے جس نے بھی کام لیا وہ کام دونوں پر پورا کرنا لازم ہوگا اور دونوں میں سے جو شخص بھی اجرت لے وہ اسی شرط پر ہوگی کہ دونوں کے درمیان تقسیم ہونگی، چائیے دوسرے شریک نے وہ کام انجام دیا ہو یا نہ ہو۔

 

۴) شرکت الوجوہ:

شرکت عقد کی اقسام میں سے ایک قسم شرکت الوجوہ کی ہے جس کی تعریف صاحب الھدایہ ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔

 

اما شرکۃ الوجوہ فالرجلان یشترکان و لا مال لھما علی ان یشتریا بوجوھما و یبعیا فتصح الشرکۃ  علی ھذا۔[29]

 

ترجمہ: شرکت وجوہ اسے کہتے ہیں کہ دو ایسے آدمیوں کا باہم اشتراک ہو جن کے پاس مال نہ ہو اس شرط کیساتھ کہ وہ اپنے اپنے اعتبار پرخریداری کرینگے اور بیچیں گے، تو اس طریق سے یہ اشراک درست ہے ۔

 

شرکت وجوہ کو’’ وجوہ ‘‘اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ اس میں چیز صرف ادھار سے نہیں خریدی جاتی بلکہ خریدار کے معرفت اور وجاہت کی بنیاد پر خریداری ہوتی ہے۔

 

مذکورہ بالا بحث صرف ایک نمونہ ہے جس کی تفصیل ایک مضمون میں نہیں سما سکتی لیکن یہ بات ثابت ہے کہ آج بھی اگر اسلامی تعلیمات کو اپنالیا جائے تو بے شمار ترقیات حاصل ہونگی، اب صرف اس شرکت کو ہی لیا جائے کہ اس کے کتنے فوائد ہے، خاص طور سے، اس کے ذریعہ ’’امداد باہمی‘‘ کو تقویت ملتی ہے جس کا اثر مذہب، معاشرت، اقتصاد اور زندگی کے دیگر شعبہ جات پر پڑتا ہے ۔اسی لیے عالمی طور سے یہ امر ثابت ہے کہ شرکت سے کاروبار میں وسعت پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے ملکی اور بین الاقوامی معاشیات مستحکم ہوتی ہے، جس سے معاشی سے پسماندہ اقوام بھی ترقی سے ہمکنار ہوتی ہے جس کا لازمی اور مثبت اثر یہ ہوگا کہ ملک سے بیروزگاری، عام افلاس اور معاشی بدحالی بڑی حد تک دور ہو سکتی ہے، اور خاص طور سے سود اور سودی کاروبار سے نجات مل سکتی ہے۔

 

حوالہ جات

  1. قضاعی، ابو عبداللّٰہ محمد بن سلامہ، المسند، بیروت، مؤسسۃ الرسالہ، ج1، ص108، رقم 120
  2. المائدۃ2: 5
  3. الحجرات10: 49
  4. بخاری، ابو عبدللّٰہ محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، بیروت، دارالقلم، کتاب الادب، باب رحمۃ الناس و البہائم، 5: 2238، رقم 5665
  5. ترمذی، ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ، السنن، بیروت، دار الغرب الاسلامی، کتاب البر و الصلۃ، باب ما جاء فی شفقۃ المسلم علی المسلم، ج4، ص325، رقم 1928
  6. بخاری، ابو عبدللّٰہ محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، کتاب الشرکۃ، باب الشرکۃ فی الطعام والنھد و العروض، ج2، ص800، رقم2354
  7. ایضاً، کتاب المناقب، علامات االنبوۃ فی الاسلام، ج3، ص1312، رقم 3388
  8. مسلم، ابو الحسین ابن الحجاج بن مسلم نیشاپوری، الجامع الصحیح، بیروت، داراحیاء التراث العربی، کتاب الاشربۃ، باب فضلۃ المؤساۃ فی الطعام القلیل و ان الطعام الاثنین یکفی الثلاثۃ و نحو ذٰلک، ج3، ص163، رقم 2059
  9. حاکم، ابو عبداللّٰہ محمد بن عبداللّٰہ، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ج2، ص15، رقم2166
  10. ابن کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دار الفکر، ج7، ص46
  11. المائدۃ2: 5
  12. سیوہاروی، حفظ الرحمن، اسلام کااقتصادی نظام، کراچی، شیخ الہند اکیڈمی، ص448
  13. عثمانی، ظفراحمد، اعلاء السنن، کراچی، ادارۃالقرآن و العلوم الاسلامیہ، ج1، ص34
  14. المزمل20: 73
  15. سیوہاری، حفظ الرحمٰن، اسلام کا اقتصادی نظام، ص541
  16. موسیٰ، محمد بن ابراہیم، شرکۃ الاشخاص بین شریعۃ والقانون، ریاض، جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ، ص24
  17. مرغینانی، برہان الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر، الہدایۃ فی شرح البدایۃالمبتدی، مصر، شرکۃ مکتبۃ مصطفیٰ البابی الحلبی، 1409ھ، ج2، ص599
  18. البقرۃ 220: 2
  19. النساء 12: 4
  20. ابو داؤد، سلیمان بن اشعث، السنن، بیروت، دارالفکر، کتاب البیوع، باب فی الشرکۃ، ج3، ص2، ص256 رقم 3383 / حاکم، ابو عبداللّٰہ محمدبن عبداللّٰہ، المستدرک علی الصحیحین، ج2، ص60، رقم2322 / بیہقی، ابو بکراحمد بن حسین بن علی، السنن الکبریٰ، مکہ مکرمہ، مکتبہ دار الباز، ج6، ص78، رقم11206 / چند الفاظ کے اختلاف کیساتھ: دار قطنی، ابو الحسن علی بن عمر، السنن، بیروت، دارالمعرفہ، ج3، ص35، رقم140 / منذری، ابومحمد عبدالعظیم بن عبد القوی، الترغیب والترھیب، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ج2، ص369، رقم2762
  21. ابو داؤد، سلیمان بن اشعث، السنن، کتاب الادب، باب فی کراہیۃ المراء، ج4، ص360، رقم: 4836
  22. غزالی، حجۃ الاسلام امام ابو حامد محمد، الوجیز، بیروت، دار المعرفہ، ج1، ص146
  23. عسقلانی، احمد بن علی بن محمد، فتح الباری، لاہور، دار نشر الکتب اسلامیہ، ج5، ص 129 / ابن قدامہ، ابو محمد عبداللّٰہ بن احمد، المغنی فی فقہ الامام أحمد بن حبل الشیبانی، بیروت، دار الفکر، ج3، ص5 / ابن عابدین، محمد بن محمد امین بن عمر، ردالمحتار علی درالمختار، کوئٹہ، مکتبہ ماجدیہ، ج3، ص363 / دردیری، احمد بن محمد، الشرح الصغیر علی أقرب المسالک، مصر، شرکۃ مکتبۃ مصطفی البابی الحلبی، ج3، ص455
  24. کاسانی، علاء الدین ابوبکر، بدائع الصنائع، بیروت، دار الکتاب العربی، ج6، ص58
  25. مرغینانی، برہان الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر، الہدایۃ فی شرح البدایۃ، ج2، ص600
  26. کاسانی، علاء الدین ابوبکر، بدائع الصنائع، ج6، ص57
  27. ابن منظور افریقی، محمد بن مکرم بن علی بن احمد، لسان العرب، بیروت، دار صادر، ج13، ص292
  28. مرغینانی، برہان الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر، الہدایۃ فی شرح البدایۃ، ج2، ص608
  29. ایضاً، ج2، ص609
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...