Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 1 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

امثال القرآن کی ضرورت واہمیت |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060029185_589

Pages

91-105

DOI

10.51411/rahat.1.1.2017.7

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/7/303

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/7

Subjects

Mportance Similitude Qur’an source guide particular utility

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

امثال مثل کی جمع ہے،اس کومَثَلَ،مَثِلَ اورمَثِیل تینوں طرح پڑھا جاسکتاہے،یہ لفظی اورمعنوی دونوں لحاظ سےشبہ،شِبہ اورتشبیہ کی طرح ہے۔ادب میں مثل اس قول کوکہاجاتاہےجوعمومی طور پر بیان کیاجاتا ہو،اس میں اسی حالت کوجس کےبارےمیں وہ امثال بیان کی گئی ہوں اس حالت سےتشبیہ دی جاتی ہےجس کےلئے وہ امثال کہی گئی تھیں[1]۔

مَثَل،مِثل اورمَثِیل،تینوں کامعنی ایک ہےلیکن اس کاعام استعمال ضرب المثل اردوکے معنی میں ہوتاہےاور بطور استعارہ کسی حالت کےبیان کوبھی کہتے ہیں[2]۔

حضرت ابوھریرہ ؓسےمروی ہےکہ حضورﷺنےارشادفرمایاکہ:

فان القرآن نزل علیٰ خمسة اوجہ حلال وّحرام وّمحکم وّمتشابہ وامثال، فاعملوا بالحلال وجتنبوا الحرام واتّبعوا المحکم واٰمنوا بالمتشابہ واعتبروا بالامثال[3]۔

”بےشک قرآن کریم پانچ وجوہ کی بناءپرنازل ہواہے۔حلال،حرام،محکم،متشابہ اور امثال،پس تم لوگ حلال پرعمل کرو اورحرام سےاجتناب کرو،محکم کی اتباع اور پیروی کرو،متشابہ پر ایمان لاؤ اور امثال سےعبرت ونصیحت حاصل کرو“۔

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی جانب سےانسانوں کی رشدوہدایت کےلئےنازل ہونے والی آخری تحفہ اور دنیا کی سب سےبہترین کتاب ہے۔اس میں اللہ تعالیٰ نےکئی قسم کی مثالیں ارشاد فرمائی ہیں تاکہ انسانی ذہن بات کی تہہ تک پہنچنےمیں دقت محسوس نہ کرے اورحکم الہٰی کو بہتر انداز میں سمجھ سکے،کیونکہ جو بات مثالوں سے ذہن نشین ہوتی ہے وہ دلائل سےکم وبیش سمجھ آتی ہےقرآن مجید کی مثالوں کی اہمیت اس طرح سےلگائی جاسکتی ہےکہ اگرممثل جتناعظیم ہوگاتو امثال بھی اس کےمثل ہوں گے۔

قرآن مجیدمیں جوامثال بیان کئےگئےہیں وہ بات کی وضاحت،عبرت اورنصیحت کے لئے بیان ہوتےہیں۔ ایسی مثالوں سےانسان کاامتحان ہوتاہے۔ اصحاب فکرونظر کےلئےیہ مثالیں ہدایت کاسامان پیداکرتی ہیں اوربےپرواہی وبےاعتنائی برتنےوالوں کےلئےاور زیادہ گمراہی کاسبب بنتی ہےاور ایسی مثالوں سےصرف ایسےسرکش لوگ ہی گمراہ ہوتےہیں جو فاسق یعنی اطاعت خداوندی سےنکل جانے والےہیں جبکہ جن لوگوں میں ذرابھی خداخوفی ہوتاہےوہ توہدایت ہی حاصل کرلیتےہیں۔

افادیت:

امثال القرآن اپنی جگہ ایک خاص افادیت کے حامل ہیں،ہر مثال میں انسانوں کےلئے علم کاذخیرہ چھپاہواہے۔ قرآن پاک مکمل سر چشمہ ہدایت ہے،قرآن وحدیث کی تمثیلات سےاصل غرض عبرت کاحاصل کرناہے،تاکہ انسان اس میں غوروفکرکرکےدنیا کی حقیقت،اس کی ناپائیداری اورزوال وفناکوسمجھتےہوئے اللہ وحدہ لاشریک پرایمان لائےاور اس کےساتھ کسی چیز کوشریک بنانےسےاحترازکرے۔قرآن حکیم کےضرب الامثال سے وعظ وتذکیر،زجر،عبرت،تقریر وتاکید،مرادکوفہم مخاطب کےقریب کرنا اورمرادکومحسوس صورت میں پیش کرنا، یہ اسلئے کہ امثال معانی کو اشخاص کی صورت میں نمایاں کرتی ہیں، کیونکہ اسمیں مخاطب کےذہن کوحواس ظاہری کی امداد ملتی ہےاورذہن میں بخوبی نقش ہو جاتی ہے۔امثال کاطرز اختیار کرنےسےمعانی منکشف ہو جاتے ہیں۔

امثال اس بات کی بیان کی جاتی ہےجس میں انوکھاپن ہواسی لئےاسکی حفاظت کی جاتی ہے پس وہ بدلتی نہیں۔کبھی استعارہ کے طورپرمثل کوحال یا صفت یا قصہ کے معنی میں استعمال کرتے ہیں جبکہ اس کی کوئی حالت اور انوکھی بات ہو،جیسے:

مثل الجنةالتی وعد المتقون[4]۔ 

ترجمہ:مثال (احوال) اس جنت کا جس کا وعدہ ہے پرہیزگاروں کے لئے۔

یعنی جوعجائب ہم نےبیان کئےان میں جنت کاعجیب حالت والا واقعہ ہے۔پھر اس کےعجائبات بیان فرمائے۔ دوسری جگہ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ:

وَلِلّٰہِ المَثل الاَعلیٰ[5] ۔"اور اللہ کی مثال(شان)سب سے بلند ہے"۔

یعنی اللہ کےلئے ایسی صفات ہیں جن کا عظمت وجلال میں بڑامقام ہے۔

امثال القرآن کی اقسام:

قرآنی مثالوں کے تین اقسام ہیں:

(1):واضح مثالیں(2)پوشیدہ مثالیں(3)روزِمرہ کی مثالیں

(1)واضح مثالیں:

واضح مثالیں وہ ہےکہ جس میں لفظ کےمثل کےساتھ وضاحت کی گئی ہویا جوتشبیہ پردلالت کرے،اس قسم کی مثالیں قرآن کریم میں بہت ہیں جیسےحق اورباطل کےبارے میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہےکہ:

اَنزَلَ مِنَ السَّمَآء مَآء فَسَالَت اَودِیَة’‘بِقَدَرِھَا فَاحتَمَلَ السَّیلُ زَبَدًا رَّابِیًا وَمِمَّایُوقِدُونَ عَلَیہِ فِی النَّارِ ابتِغَآء حِلیَةٍ اَومَتَاعٍ زَبَد’‘ مِّثلُہ کَذٰلِکَ یَضرِبُ اللّٰہُ الحَقَّ وَالبَاطِل فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذھَبُ جُفَآء وَاَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمکُثُ فِی الاَرض کَذٰلِکَ یَضرِبُ اللّٰہُ الاَمثَالَََ [6]۔

ترجمہ:اللہ تعالیٰ نےآسمان سےپانی نازل فرمایاپھر نالےاپنی مقدارکےموافق چلنے لگے۔ پھر وہ سیلاب خس وخاشاک بہا لایا جو اس کے اوپر ہے اور جن چیزوں کوآگ کے اندر زیور یا اور اسباب بنانےکی غرض سے تپاتے ہیں اسمیں بھی ایساہی میل کچیل ہے ۔ اللہ تعالیٰ حق اور باطل کی اسی طرح مثال بیان کررہاہے۔سوجومیل کچیل تھاوہ توپھینک دیاجاتاہےاورجوچیز لوگوں کےکارآمد ہےوہ دنیامیں رہتی ہے۔اللہ تعالیٰ اسی طرح مثالیں بیان کیا کرتےہیں۔

اللہ تعالیٰ نےاس وحی کوجوآسمان سےدلوں کی زندگی کےلئےنازل فرمائی ہےاس پانی سےتشبیہ دی ہےجو نباتات کےذریعے زمین کی زندگی کےلئےآسمان سےبرساتاہے،اوردلوں کی وادیوں سےتشبیہ دی ہے۔اورسیلاب وتیزپانی جب وہ وادیوں میں بہتاہےتواس پرجھاگ اورکوڑا کرکٹ ابھرآتاہے،اس طرح علم وہدایت جب دلوں میں سرایت کرجاتے ہیں توخواہشات اوپربھر آتی ہیں تاکہ ان کا خاتمہ ہوجائے۔اسی طرح ان مثالوں کاحاصل یہ بھی ہےکہ جیسےان مثالوں میں میل کچیل برائے چندےاصلی چیزکےاوپرنظرآتاہے لیکن انجام کاروہ پھینک دیاجاتا ہےاوراصلی چیزرہ جاتی ہے،اسی طرح باطل گو برائے چندے حق کےاوپر غالب نظرآوےلیکن آخرکار باطل محواورمغلوب ہوجاتاہےاورحق باقی اورثابت رہتاہے۔

(2)پوشیدہ مثالیں:

یہ وہ مثالیں ہیں جن میں مثل کے لفظ کو واضح طورپرنہ بولاگیاہو لیکن وہ مختصرطورپر بہترین مفہوم کو واضح کرتی ہے اور جب انھیں ان کے مشابہ امورکی طرف منتقل کیاجاتاہے تووہ خوب اثر اندازہوتی ہے۔

(1)گائے کے ذکرمیں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

لَافَارِض وَلَابِکر عَوَان بَینَ ذٰلِکَ[7] ۔

ترجمہ:نہ بوڑھی اور نہ ادسر بلکہ ان دونوں کے بیچ میں۔

(2)فضول خرچی سے بچنے والوں کےلئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَالَّذِینَ اِذاَ اَنفَقوا لَم یسرِفوا وَلَم یقتروا وَکاَنَ بَینَ ذٰلِکَ قَوَاماً [8]۔

ترجمہ:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر ہیں۔

(3)نمازکے بار ے میں اللہ تعالیٰ کاقول ہے:

وَلاَتَجھَر بِصَلاتِکَ وَلاَ تخاَفِت بِھاَ وابتَغِ بَینَ ذٰلَکَ سَبِیلاً [9]۔

ترجمہ:اور اپنی نماز نہ بہت بلند ٓواز سے پڑھو اور نہ بالکل آہستہ، اور ان دونوں کے بیچ کا راستہ اختیار کرو۔

(4)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے:

لاَیلدَغ المؤمِن مِن جحرٍ مَّرّرتَین[10]۔ِ

"مؤمن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈساجاتا"۔

اس حدیث میں بھی پوشیدہ طورپر مثال دی گئی ہے،سوراخ میں ڈساجانا اور دھوکہ دینا ایک جیسا ہے۔

(3)روزِ مرہ کی مثالیں:

یہ ایسے جملے ہیں جن کو تشبیہ کے لفظ کے بغیر عمومی طورپر بیان کیاگیاہے،یعنی یہ آیات امثال کے قائم مقام ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے کہ:

لَیسَ لَھاَ مِن دونِ اللّٰہِ کاَشِفَہ [11]۔

ترجمہ:اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس کو کھولنے والا کوئی نہیں۔

اَلَیسَ الصبح بِقَرِیبٍ [12]۔

ترجمہ:کیاصبح قریب نہیں ہے

ھَل جَزاَئ الاِحساِنِ اِلاَّالاِحساَن[13]۔ "نیکی کا بدلہ نیکی ہے"۔

ضَعفَ الطاَّلِب وَالمَطلوب[14]۔ "طالب اور مطلوب کمزورہیں"۔

لِمِثلِ ھٰذَا فَلیَعمَلِ العٰمِلونَ[15]۔

"عمل کرنے والوں کو اس طرح عمل کرناچاہئے"۔

آیات کی یہ قسم جس کانام مفسرین نے امثالِ مرسلہ رکھاہے یعنی چلتی پھرتی مثالیں،ان کے بارے میں ان کا اختلاف ہے کہ ان کو بطورِمثال استعمال کرنےکاکیاحکم ہے؟ بعض اہلِ علم کے نزدیک اس کے استعمال سے قرآن کا ادب ملحوظ نہیں رہتا،یاپھراس سے کوئی فاسد مذہب والاگفتگوکرتاہے اوروہ پوری کوشش کرتاہے کہ اسے اپنے باطل نظریات کی طرف مائل کرے تووہ دوسراانسان کہتاہے لَکم دِینکم وَلِیَ دِین[16]۔لیکن اگر کوئی شخص اپنی عبارت کوظاہر کرنا چاہتاہے اوروہ قرآن کریم کو بطورِمثال بیان کرتاہے توایساکرنا بہت بڑا گناہ ہے ،حتی کہ مذاق اور فضول گفتگومیں قرآن کریم کو بطورِ مثال بیان کرنا بھی گناہ ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں جگہ جگہ امثال بیان فرماتے ہیں ،یہ امثال اپنے اندربے پناہ حکمت رکھتے ہیں،اسی لئے قرآن مجید میں جس قدر غوروفکرکی جائے حکمت کے اسی قدر موتی ہاتھ لگتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:

وَتِلکَ الاَمثَال نَضرِبھاَ لِلنَّاسِ لَعَلَّھم یَتَفَکَّرون[17]۔

ترجمہ:یہ مثالیں ہیں جنہیں ہم لوگوں کیلئے بیان کرتے ہیں شایدوہ غوروفکرکریں۔

دوسری جگہ فرماتے ہیں :

وَتِلکَ الاَمثَال نَضرِبھاَلِلنَّاسِ وَمَایَعقِلھا الاّالعالِمونَ [18]۔

ترجمہ:یہ مثالیں ہیں جنہیں ہم لوگوں کےلئے بیان کرتے ہیں مگر انہیں اہل علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھتا۔

ضرورت واہمیت:

امثال القرآن اپنی جگہ ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں،ہرمثال میں لوگوں کےلئے علم کا ذخیرہ چھپاہواہوتاہے، قرآن پاک مکمل سرچشمہ ہدایت ہے،قرآن وحدیث کی تمثیلات سے اصل غرض عبرت حاصل کرنا ہے ،تاکہ انسان اس مین غور وفکرکرکے دنیاکی حقیقت،اس کی ناپائیداری اور زوال وفناکو سمجھتے ہوئے اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لائے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک بنانے سے احتراز کرے۔قرآن حکیم کے ضرب الامثال سے وعظ وتذکیر،زجر،عبرت، تقریروتاکید،مراد کو فہمِ مخاطب کے قریب کرنا اور مراد کو محسوس صورت میں پیش کرنا۔ یہ اس لئے کہ امثال معانی کواشخاص کی صورت میں نمایاں کرتی ہےکیونکہ اس میں مخاطب کے ذہن کو حواس ظاہری کی امداد ملتی ہے اور ذہن میں بخوبی نقش ہوجاتی ہے۔امثال کا طرزاختیار کرنے سے معانی منکشف ہوجاتے ہیں۔خداوندکریم نے قرآن پاک میں امثال بیان کئے تاکہ وہ بندوں کو یاددہانی اور نصیحت کا فائدہ دیں۔ بات کو واضح کرنے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امثال معانی کواشخاص کی صورت میں نمایاں اور شکل پذیر کردے تو بندے کے لئے ایک غیر موجود چیز موجود کی مشابہ ہوجاتی ہے،اس طرح انسان بات کی تہہ تک پہنچ جاتاہے،یہاں سمجھ اتنے منازل طے کرتاہے کہ دلائل بہت پیچھے رہ ج اتی ہیں،یقین کا دروازہ کھل جاتاہے۔اللہ پاک نے قرآن پاک میں دنیاکی چیزوں کو لیکر آخرت کی مثالیں بیان کردی ہیں۔

ہمارے نیک اعمال اور اعمال بد کس طرح ہمارے لئے فائدہ اور نقصان کا سبب بنتے ہیں ان کو سمجھانے کےلئے ان چیزوں کی مثال دی جو ہماری آنکھوں کے سامنے موجودہیں،قرآن پاک میں ہے: حُنَفَآء لِلّٰہِ غَیرَ مُشرِکِینَ بِہ وَمَن یُّشرِک بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَاخَرَّمِنَ السَّمَآء فَتَخطَفُہُ الطَّیرُ اَوتَھوِی بِہِ الرِّیحُ فِی مَکَانٍ سَحِیقٍ[19]۔

ترجمہ: اللہ کےلئے دین کو خالص رکھنے والے،شریک بنانے والے نہ ہوں اس کے ساتھ۔اور جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتاہے توگویا وہ آسمان سے گرپڑتاہے پھر پرندے اس کی بوٹیاں نوچ لیتے ہیں، یاطوفان اس کو دور جگہ لے جاکر پھینک دیتاہے۔

اب انسانی آنکھ آسمان کی وسعتوں کو دیکھ سکتاہے اندازہ ہوتاہے ،ایمان اگر ہمیں آسمان کی وسعتوں تک پہنچاتاہے توکفر ہمیں پامال کرسکتاہے۔ قرآن پاک کے بڑے علموں میں سے امثال کا علم ہے،جتنا مثال دینے والا عظیم ہوتاہے اتنی ہی مثال عظیم ہوتی ہے۔شیخ عزالدین ؒ کاقول ہے:

انماضرب اللّٰہ الامثال فی القرآن تذکیرا ووعظا فمااشتمل منھاعلیٰ تفاوت فی ثواب اوعلیٰ احباط عمل اوعلیٰ مدح اوذم اونحوہ فانہ یدل علی الاحکام[20]۔

ترجمہ:خداتعالیٰ نے قرآن میں امثال اس لئے وارد کی ہیں تاکہ وہ بندوں کو یاددہانی اور نصیحت کا فائدہ دیں،چنانچہ منجملہ امثال کے جو باتیں ثوب میں تفاوت رکھتے یاکسی عمل کے ضائع کئے جانے یا کسی مدح یاذم وغیرہ امورپر شامل ہیں وہ احکام پر دلالت کرتی ہیں۔

علامہ جلال الدین سیوطیؒ، الاتقان میں امام اصفہانیؒ کا قول بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں

لضرب العرب الامثال واستحضار العلماءالنظائر شان لیس بالخفی فی ابراز خفیات الدقائق ورفع الاستار عن الحقائق تریک المتخیل فی صورة المتحقق والمتوھم فی معرض المتیقن والغائب کانہ مشاھد[21]۔

ترجمہ:اہلِ عرب کی ضرب الامثال اور علماءکے نظائرپیش کرنے کی ایک خاص شان ہے جو مخفی نہیں رہ سکتی،اس لئے کہ یہ باتیں مخفی باریکیوں کو ظاہراور حقیقتوں کے چہرہ سے نقاب دور کرنے میں بہت بڑااثر رکھتی ہیں،اور خیالی امورکو تحقیقی باتوں کی صورت میں عیاں کرنا اور وہم کو یقین کا درجہ دینا اور غائب کو مشاہد کے درجہ میں فائز کردیتاہے۔

ضرب الامثال ایسی چیز ہیں جوکہ سخت جھگڑالو اور مخالف بندہ کو ساکت کردیتی ہیں، شریرکے شر کا قلع قمع کرڈالتی ہیں، کیونکہ یہ ذات پر اس طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں،انسانی ضمیر ہدایت کی طرف دوڑنے لگتاہے ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم اور اپنی تمام کتبِ منزلہ میں ضرب الامثال کو بکثرت نازل کیا ،انجیل کی سورتوں میں ایک سورت کانام سورة الامثال ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاءکرام علیہم السلام اور حکماءکے کلام میں اس کی کثرت پائی جاتی ہے،اعلیٰ قسم کے حقائق اپنے معانی اور اہداف کے لحاظ سے اس وقت بہت ہی عمدہ صورت اختیار کرلیتے ہیں ،جب انھیں کسی خوبصورت سانچے میں ڈھالا جائے جس سے وہ یقینی معلوم اشیاءکے معیار کے مطابق عقل وشعورکے بہت قریب ہوجاتے ہیں ،اور تمثیل وہ سانچہ ہے کہ جس سے معانی ومفاہیم ایک زندہ صورت کی شکل میں ظاہر ہوجاتے ہیں،اور ذہن میں نقش ہوجاتے ہیں،اس میں غائب چیز کو حاضراورموجود چیز سےتشبیہ دی جاتی ہے،عقل میں آنے والی چیز کو محسوس بنادیاجاتا ہے، بہت سارےخوبصورت معانی کومثال نےبہت ہی خوبصورت اور دل میں جگہ کرنےوالے بنادیاہے، یہاں تک کہ نفس اس کوقبول کئےبغیر نہ رہ سکا،اور عقل نے اس پر قناعت کرلی۔ یہ مثالیں قرآن کریم کے طرز بیان کا نہ صرف ایک انداز ہیں بلکہ قرآن کریم کا ایک معجزہ ہیں۔

انسان کو نصیحت کی ہر وقت ضرورت ہوتی ہے، یہ امثال نصیحت کے ایسے انداز ہیں کہ ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بعض امثال احکامات سے تعلق رکھتے ہیں ،قرآن پاک کے مضامین میں جو حلال وحرام محکم متشابہ، اور امثال پر مشتمل ہے، حرام سے بچنے کا حکم حلال پر عمل کرنے کا محکم کی اتباع متشابہ پر ایمان ، اور امثال سے عبرت ونصیحت حاصل کرنے کا فرمان ہوا ہے۔ امثال القرآن کا اگر تجزیہ کیاجائے توہرمثال اپنے اندروسعتیں رکھتاہے،ان امثال کو عقل بہت جلد قبول کرلیتی ہے، واضح معنی ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ مثال کے طورپر اللہ تعالیٰ نمود ونمائش کے لئےخرچ کرنے والے کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

فَمَثَلہ کمَثَلِ صَفوَانٍ عَلیہ ِ ترَاب فاَصَابَہ وَابِل فَتَرَکہ صَلدًا لایَقدِرونَ عَلَٰی شَیءمِمَّا کَسَبوا[22]۔

ترجمہ:اس کی مثال ایسے پتھرکی ہے جس پر گردوغبار پڑاہواہو اس پر بارش برسی جس سے وہ بالکل صاف ہوگیا،جو کچھ وہ کماتے ہیں اسی طرح ان کو اس سے کچھ ثواب حاصل کرنے کی قدرت نہیں ہوتی۔

امثال حقائق بیان کرتی ہے،اور غائب کو حاضر کی طرح پیش کرتی ہیں،جیسے اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

الَّذِینَ َیاکلونَ الرِّبَالَایَقومونَ اِلَّاکَمَایَقوم الَّتی یَتَخَبَّطہالشَّیطَان مِنَ المَسِّ[23]

ترجمہ:جولوگ سود کھاتے ہیں ان کاقیام اس شخص کے قیام کے علاوہ کچھ نہیں ہے جسے شیطان نے چھوکر مخبوط الحواس بنادیاہو۔

مذکورہ مثال میں سود خوروں کاحال بیان ہوا،اصل میں حلال غذا جسم کا جزو بن کر بندہ میں ایمان اور اطاعت کا مادہ پیدا کرتاہے، حلال غذاسے ہی خداوندِکریم عبادات کی توفیق دیتاہے،جس کی غذا حرام ہووہ ظاہرہ طور بے شک کھڑاہو چلتا پھرتاہو لیکن وہ باطن میں ایسا ہے جیسے ایک مخبوط الحواس شخص، جسے کھڑے ہونے کی گنجائش نہ ہو۔ مثال بیان کرکے اس چیز کی ترغیب دلائی جاتی ہے جس کی مثال بیان کی گئی ہو، کیونکہ وہ ایسی چیز ہوتی ہے جس طرف لوگوں کی رغبت ہوتی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے راستے میں خرچ کرنے والے کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس کے خرچ کرنے سے بہت زیادہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:

مَثَل الذینَ ینفِقونَ اَموَالَھم فِی سَبیلِ اللَّہِ کَمَثَلِ حَبةا َنبَتَت سَبعَ سَنَابِلَ

فِی کلِّ سنبلَةٍ مِائَة حَبَّةٍ وَاللَّہ یضَاعِف لِمَن یَشَاء وَاللَّہ وَاسِع عَلِیم[24]۔

ترجمہ:ان لوگوں کی مثال جو اللہ کے راستے میں اپنامال خرچ کرتے ہیں اس دانے کی طرح ہے کہ جس نے سات بالیاں اگائیں ہر بالی میں ایک سو دانہ ہو اللہ تعالیٰ جس کےلئے چاہتاہے اسے دگنا کرتاہے، اور اللہ تعالیٰ خوب وسعت والا ہے۔

بعض مثالوں میں کسی چیز سے نفرت دلانا مقصود ہوتاہے،مثال بیان کرکے ایک قبیح چیزکو چھوڑنے کی ترغیب دی جاتی ہے،جیسا کہ آیت مبارکہ میں ہے:

وَلَایَغتَب بَعضکم بَعضًاایحِبّ اَحَدکم اَن یاکلَ لَحمَ اَخِیہِ مَیتًافَکَرِھتموہ[25]

ترجمہ:اور تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت نہ کرے،کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتاہےکہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تم اسے ناپسند کرتے ہو۔

اس مثال کے ذریعہ پہلے غیبت سے منع کیاگیا اور پھر مردہ بھائی کا گوشت بیان کرکے غیبت سے نفرت دلائی گئی۔اصل میں مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور موجود نہ ہو اس کی مثال مردہ کی سی ہے، اپنے بارے میں کوئی مدافعت نہیں کرسکتا،کیا خوب اللہ تعالیٰ نے مثال بیان فرمائی۔

امثال دلوں پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں وعظ کے لحاظ سے دوسرے تک بات پہنچانے کےلئے زیادہ کاآمد ہوتی ہیں اور دوسروں کو مطمئن کرنے کےلئے زیادہ بہتر ثابت ہوتی ہیں،آیتِ مبارکہ میں ہے:

وَلَقَد ضَرَبنَا لِلنَّاسِ فِی ھَذَا القرآنِ مِن کلِّ مَثَلٍ لَعَلّھم یَتَذَکَّرونَ[26]۔

ترجمہ:ہم نے قرآن کریم تمام مثالیں لوگوں کے لئے بیان فرمائی ہیں،شاید وہ نصیحت حاصل کریں۔

یہ امثال القرآن تربیتی وسائل کا درجہ رکھتی ہیں،کسی روحانی تربیت میں بہت اثر انگیزی ہوتی ہے،وضاحتی اور شوق پیدا کرنے والے وسائل ہیں۔اللہ پاک نے انسانی تربیت اور ترغیب کےلئے یہ خوبصورت امثال بیان فرمائے،جوشخص بھی ان میں غوروفکر کرے،جستجو کرے وہ نصیحت حاصل کئے بغیرنہیں رہ سکتا۔

قرآن کریم دنیاکی تمام کتابوں میں ایک منفرد کتاب ہے،یہ بہ یک وقت آسان اور فہم کے مطابق بھی ہے اور مشکل بھی، سہل فہم ہونے کی وجہ سے صحابہ کے قلوب میں داخل ہوکر ان کی سیرت وکردار میں بے مثال انقلاب پیدا کرنے کی وجہ بن گئی، مشکل ہونے کی بناپر عربوں جیسی فصیح اللسان قوم کو اس کے بعض اشاروں اور کنایوں کے فہم میں دشواری پیدا کرنے کا موجب بنی، جیسے الخیط الابیض، الخیط الاسود[27] اور حکم تیمم[28]۔

خلاصہ بحث:

قرآن حکیم قصص وامثال اور حکایات ونصائح کا مجموعہ ہے،اس میں سعادت دارین کے بے مثال اصول امثال کی صورت میں بیان کئے گئے ہیں۔ یہ امثال قرآن پاک کے مضامین میں سے ہیں،جس طرح اس کلام کے باقی مضامین کی ضرورت اور اہمیت نظرانداز نہیں کی جاسکتی جوکہ ایک مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں اسی طرح یہ امثال بھی اپنے اندر ایک ضابطہ حیات کا درجہ رکھتے ہیں۔اگرچہ ساری کتب سماویہ نور ہیں مگرقرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے نور کہہ کر پکارا کہ بڑی واضح روشنی ہے جس کے سامنے کفر و شرک کے تمام اندھیرے چھٹ جاتے ہیں اور ایمان کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ بہرحال یہ کلام پاک اس قدر باحکمت ہے کہ اس کی حکمتوں کا احاطہ کوئی انسانی قلم یا زبان نہیں کرسکتا۔

قرآن پاک علم وحکمت کا ایک ایسا ذخیرہ اپنے اندر رکھتاہے کہ جس قدر اس میں غوروخوض اور تدبرکیاجائے اس قدر علم اور حکمت کی موتی ہاتھ آسکتی ہیں۔ اس پر عمل کرنے اور اپنی زندگی کے تمام معاملات میں اس کو بطورِ راہنماشامل رکھنے کی صدائے عام ہے۔قرآن پاک میں تدبر کے فقدان کی وجہ سے آج مسلمانوں کی حالت قابل رحم ہے،اور تدبر کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ کم از کم اس کا ترجمہ ہی سیکھنے کی ہمت کی جائے، ہم نے اب تک اس کے ظاہری مفہوم ومطلب سیکھنے کی بھی کوشش نہیں کی ہے،چہ جائے کہ اس عظیم کتاب کے علوم ومعارف اور اسرار وحکم تک ہماری رسائی ہو۔اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق کاملہ عطاء فرمائیں۔

حوالہ جات

  1. سرور،مولاناعبداللہ،”علوم القرآن“،لاہور،مکتبہ محمدیہ،طبع سوم، 2011ء،ص363
  2. نسفی،ابوالبرکات،عبداللہ بن احمد بن محمد،مولانا شمس الدین(مترجم)، ”مدارک التنزیل حقائق التاویل“، لاہور، مکتبة العلم، ص75
  3. البیہقی ،ابوبکر احمد بن حسین ،”شعب الایمان للبیہقی“، بیروت، دارالکتب العلمیہ، باب الحادی عشرمن شعب الایمان وھو باب فی الخوف من اللہ تعالیٰ، ج2، ص727
  4. الرعد35:13
  5. النحل 60:16
  6. الرعد17:13
  7. البقرہ68:2
  8. الفرقان67:25
  9. الاسراء110:17
  10. القشیری، ابوالحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم، ”صحیح مسلم“، کراچی،قدیمی کتب خانہ، کتاب الزھد،باب فی الاحادیث المتفرقة،ج2،ص413
  11. النجم58:53
  12. ھود81:11
  13. الرحمٰن60:55
  14. الحج73:22
  15. الصافات61:37
  16. الکافرون109:6
  17. الحشر59:21
  18. العنکبوت43:29
  19. الحج31:22
  20. السیوطی،علامہ جلال الدین،”الاتقان فی علوم القرآن“،لاہور،مکتبة العلم،ج2،ص303
  21. ایضا،ص204
  22. البقرہ264:2
  23. البقرہ275:2
  24. البقرہ 261:2
  25. الحجرات12:49
  26. الزمر27:39
  27. البقرہ 187:2
  28. المائدہ 6:5
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...