Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

انسانی دودھ کے بینک: تعارفی و فقہی جائزہ |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060029185_590

Pages

02-32

DOI

10.51411/rahat.2.2.2018.34

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/34/331

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/34

Subjects

Human Milk Bank Breastfeeding Islamic law Human Milk Bank Breastfeeding Islamic law

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف:

پیدائش کے فورا بعد بچے کی زندگی کی نگہداشت اور افزائش دودھ کے علاوہ کسی اور غذا سے ناممکن ہے، اسی لیے فطری اور قدرتی طور پر ایسے وقت میں ماں کی چھاتیوں میں دودھ پیدا ہوجاتا ہے۔ہم صدیوں سے سنتے آئے ہیں، بلکہ تجربہ اور مشاہدہ بھی یہی ہے کہ بچوں کی غذائیت اور بہتر صحت ونشونما کے لیے ماں کا دودھ صرف بہتر ہی نہیں، ضروری ہے۔لیکن بسا اوقات عورت میں کسی بیماری کی وجہ سے، یا غذائی کمی اور کمزوری کی وجہ سے دودھ کی کمی ہوجاتی ہے اور وہ اپنے بچے کو دودھ پلانے پر قادر نہیں رہتی، بلکہ آج کے زمانے میں جب مرد وعورت کی مساوات کے نعرے بلند ہوگئے اورعورت بھی مرد کی طرح میدانِ عمل اور روزگارمیں مصروف ہوگئی تو ایک نیا عذر بھی وجود میں آگیا کہ ایسی عورتوں کو اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پلائے۔این ڈی ٹی وی کے مطابق عالمی ادارہ صحت (WHO) اور یونیسف کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں برسرِروزگار خواتین میں سے صرف بیس فیصد خواتین ہی اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے قابل ہیں[1]۔

 

ماں کے دودھ سے محروم ایسے بچوں کے لیے زمانہ قدیم میں یہ صورت رائج تھی کہ اُسے دودھ پلانے کے لیے کسی دوسری عورت کے سپرد کردیا جاتا تھا، لیکن ماضی قریب میں ایسے بچوں کے لیے ماں کے دودھ کا متبادل مصنوعی دودھ تیار ہونے لگا، جس کی ابتداء سن 1943 میں برطانیہ میں ہوئی تھی اور اس کے بعد پوری دنیا میں مصنوعی دودھ تیار اور استعمال ہونے لگا[2]۔

 

مصنوعی دودھ نے جتنی تیزی سے ترقی کرلی، اتنی ہی جلدی اس کے نقصانات کا لوگوں نے مشاہدہ کیا، دوسری طرف انسانی دودھ کی اہمیت اور بچے کے لیے غیر مضر اور مفید ہونا بھی ثابت تھا۔جہاں کچھ عورتیں مختلف اسباب کی بناء پر اپنے بچوں کو دودھ پلانے پر قادر نہ تھیں، وہاں کئی عورتیں ایسی تھیں جن کا دودھ ان کے بچوں کی ضرورت سے زیادہ تھا۔یہیں سے لوگوں میں یہ سوچ پیدا ہوگئی کہ کیوں نہ جن عورتوں کا دودھ ضرورت سے زیادہ ہے، ان سے دودھ لیکر جمع کیا جائے اور ان بچوں کو فراہم کیا جائے جو اپنی ماں کے دودھ سے محروم ہیں۔ اس طرح انسانی دودھ کے باقاعدہ ادارے قائم ہوگئے، جنہیں عربی میں ”بنوک الحلیب“اور انگریزی میں ”Human Milk Bank“کہاں جاتا ہے۔

 

ملک بینک کی ابتداء کے بارے میں کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ یہ پہلی جنگ عظیم کے تقریبا پچاس سال بعد وجود میں آگئے تھے، جبکہ اکثر مؤلفین کی رائے یہ ہے کہ یہ بیسویں صدی کے ساتوی دہائی یعنی 1960ءسے 1970 ءکے درمیان وجود میں آئے ہیں[3]۔

 

مغربی ممالک میں ملک بینک بڑی تیزی سےترقی کی راہ پر گامزن اور ارتقائی مراحل طے کررہا ہے، لیکن مِلک بینک سے متعلق امتِ مسلمہ کے ذہنوں میں ایک قسم کا خلفشار پیدا ہوا کہ کیا ملک بینک کا تصوراسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے اور اس کی گنجائش ہے؟اس میں کسی قسم کی شرعی خرابی پائی جاتی ہے یا نہیں؟اگر شرعی خرابی پائی جاتی ہے تو اُس کو دور کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟اور اس قسم کے دوسرے سوالات ۔ ان کے حل تلاش کرنے کے لیے فقہ اسلامی کے ماہرین نے اس موضوع پر کچھ مقالات اور ابحاث بھی تحریر کیے ہیں، لیکن زیادہ تر مقالات عربی زبان میں ہیں، اُردو میں اس موضوع پر بہت کم مواد ملتا ہے۔زیرِ نظر مختصر مقالے میں مِلک بینک کے موضوع کے اکثر جوانب اور پہلؤوں کے احاطہ کرنے کی سعی کی گئی ہے، مختصر تعارف کے بعد ملک بینک سے متعلقہ شرعی مسائل بیان کیے گئے ہیں، تاہم شرعی نقطہ نظر سے پہلے چند اہم نکات، جیسے مِلک بینک کے قیام کی وجوہات، طبعی رضاعت کے فوائد اور مِلک بینک کے قیام کے نقصانات کا بھی مختصرا ذکر کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے، اس لیے پہلے ان نکات کو بیان کیا جائےگا، اس کے بعد مِلک بینک سے متعلق شرعی احکام کا تذکرہ کیا جائےگا۔

 

مِلک بینک کےقیام کی وجوہات:

ملک بینک کے قیام کی وجوہات دو قسم کی ہیں:

 

1: ایک بنیادی وجہ وہ بچے ہیں جو کسی وجہ سے اپنی ماں کے دودھ سے محروم تھے، ان کو انسانی دودھ فراہم کرنے کی غرض سے ملک بینک قائم کیے گئے، مثلا: وہ بچے (Premature Babies) جو بذریعہ آپریشن یا خود ہی طبعی مدتِ حمل سے پہلے پیدا ہوجائے، ان کو ماں دودھ نہیں پلاسکتی۔اسی طرح کچھ بچے وقت پر پیدا ہوجانے کے باوجود جسمانی کمزوری اور وزن کی کمی کی وجہ سے یا کسی بیماری اور انفیکشن (Infection) کے لاحق ہوجانے کی وجہ سے انسانی دودھ کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں اور مصنوعی دودھ ان کے لیے مضر ہوتا ہے۔

 

2: ٍملک بینک کے قیام کی دوسری بنیادی وجہ مصنوعی دودھ کا مضرِ صحت ہونا اور عورتوں کا دودھ پلانے پر قادر نہ ہونا یا باوجود قدرت کے بچوں کو دودھ نہ پلانا ہے، مثلا یا تو عورت بیماری اور دودھ کی کمی کی وجہ سے بچے کو دودھ نہیں پلاسکتی یا عورت ایسی ادویات استعمال کرتی ہے یا حاملہ ہے جس کی وجہ سے ایسی حالت میں بچے کو دودھ پلانا مضر ہوسکتا ہے، یاکسی روزگار میں مشغول ہوجانے کی وجہ سے اُسے دودھ پلانے کیلئےوقت نہیں ملتا، بلکہ بعض عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ بچے کو دودھ پلانے سےجسم کے حسن اور خوبصورتی میں نقص آسکتا ہے، اس لیے وہ دودھ پلانے سے کتراتی ہیں[4]

 

دودھ کے جمع کرنے اور حفاظت کا طریقہ کار:

انسانی دودھ جمع کرنے والے ادارے پہلے اچھی طرح اس بات کا اطمینان کرلیتے ہیں کہ جس عورت کا دودھ لیا جارہا ہے وہ ٹی بی، ایچ آئی وی یا ہیپاٹائٹس جیسے متعدی امراض کا شکار تو نہیں ہے۔بعض ادارے یہ شرط بھی عائد کرتے ہیں کہ عورت سگریٹ نوشی کرنے والی اور ایسی ادویات استعمال کرنے والی بھی نہ ہو جس سے دودھ کے مضرِ صحت ہونے کا اندیشہ ہو۔

 

بعض ادارے یہ ضروری خیال کرتے ہیں کہ عورت نے قریبی عرصہ میں کسی کو خون نہ دیا ہو، نہ عورت کو کسی کا خون دیا گیا ہونہ اعضاء کی منتقلی (Transplantation) ہوئی ہو، البتہ اگر اس کے بعد بارہ ماہ گزرچکے ہیں تو دودھ لیا جاسکتاہے۔اس کے بعد ادارے کا تربیت یافتہ عملہ عورت کی چھاتی سے دودھ جمع کرتا ہے، ایسا دودھ یا تو ہاتھوں سے نکالا جاتا ہے یا بریسٹ پمپ (Breast Pump) کے ذریعے۔دودھ لیتے وقت ہاتھ اور بریسٹ پمپ کا صاف وشفاف ہونے کا ضرور خیال رکھا جاتا ہے اور ایسا دودھ باقاعدہ لیبل شدہ اور جراثیم سے پاک کنٹینرز (Containers) میں نکالا جاتا ہےاور کولڈ اسٹوریج کے ذرائع سے ہی بینکوں کو پہنچایا جاتا ہے۔

 

جب دودھ ملک بینک کے پاس آجاتا ہے تو شروع شروع میں اُسے خشک کرکے سفوف اور پاوڈر بنالیا جاتا تھا، جس میں مصنوعی دودھ کی طرح پانی ملاکر دودھ تیار کرلیا جاتا تھا، لیکن بعد میں اس طریقہ کار کو اس لیے ترک کردیا گیا کہ ا س سے ایک خاص قسم کے جراثیم (جنہیں عربی میں ”مضادات الاجسام“ اور انگریزی میں Antibodiesکہتے ہیں) مفقود ہوجاتے تھے، جن کا انسانی دودھ میں ہونا ضروری ہے۔اسی طرح ابتداء میں دودھ کو خاص کنٹینرز میں رکھ کران کنٹینرز کوٹھنڈی جگہ پر تقریبا تین مہینے کے لیے رکھا جاتا تھا، لیکن آج کل ایسے دودھ کے حرارتی تطہیر (Pasteurize) سے پہلےفریج اور فریزر میں دودھ کو تقریبا 4سینٹی گریٹ درجہ حرارت میں 48 سے لیکر 72گھنٹوں کے لیے رکھا جاتا ہے، تاہم یہ ہدایت اور کوشش کی جاتی ہے کہ جتنا جلدی ہوسکے، دودھ کوحرارتی تطہیر کرکے اس کے جراثیم ختم کردیے جائیں۔

 

دودھ کا باقاعدہ بیکٹریل (Bacterial) ٹیسٹ کیا جاتا ہے، اگر دودھ میں جراثیم پائے جائیں تو اُنہیں ختم کرنے کے لیے دودھ کوحرارتی تطہیر (Pasteurize) کیا جاتا ہے، جس کیلئے مختلف طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، تاہم سب میں یہ مشترک ہے کہ خاص ٹمپریچر میں کچھ متعین وقت کیلئے دودھ کو ایک خاص مقدار کی درجہ حرارت خاص طریقے سےپہنچاکرجراثیم ختم کیے جاتے ہیں۔یہ ہدایت بھی ملتی ہے کہ دودھ نکالنے کے بعد فریزر وغیرہ میں 20°C- میں زیادہ سے زیادہ چھ مہینے کے لیے دودھ رکھا جاسکتا ہے، چھ مہینے کے اندر اندر اس کا استعمال کیا جائے۔جب بچے کو ایسا دودھ پلانا شروع کیا جائے تو استعمال شدہ دودھ زیادہ سے زیادہ تین مہینے کے اندر استعمال کیا جائے۔

 

منجمد دودھ کو پگلانے کے لیے اُسے آہستہ آہستہ گرم کیا جائے یا گرم پانی سے کنٹینر کو دھویا جائے، لیکن پانی (°C 37) سے زیادہ گرم نہ ہو۔مائیکرو ویو (Microwave) میں ایسا دودھ پگلانے کیلئے گرم نہ کیا جائے اور جس دودھ کو ایک مرتبہ پگلادیا جائے، اُسے دوبارہ منجمد نہ کیا جائے[5]

 

طبعی رضاعت کے فوائد:

نومولود کے لیے ماں کادودھ قدرت کابہترین تحفہ ہے ۔جدید تحقیق سے یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ ماں کا دودھ بچے کیلئےایک مکمل اور بھرپور غذاہے، مصنوعی دودھ اس کا متبادل نہیں ہوسکتا، بلکہ اطباء کی تحقیق کے مطابق براہِ راست ماں کی چھاتی سے دودھ پینےمیں وہ فوائد ہیں جو نہ مصنوعی دودھ میں پائےجاتےہیں اور نہ ہی کسی عورت کا دودھ نکالنےکےبعدبچے کو پلانے سے وہ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں، ماں کے دودھ سےحاصل ہونےوالےچندفوائد درج ذیل ہیں:

 

1: ماں کا دودھ آسانی سے ہضم ہوجاتاہے، بلکہ ماں کے دودھ میں موجود پروٹین بھی زود ہضم ہوتے ہیں اور ان سے الرجی کا امکان کم ہوتاہے اور زیادہ گرم یا ٹھنڈا نہیں ہوتا، بلکہ قدرتی طور پر اس کی حرارت بچے کے لیے مناسب اور مفید ہوتی ہے۔

 

2: ماں کا دودھ پینے سے بچہ ماں سے قربت، انسیت اور گہراتعلق محسوس کرتاہے۔

 

3: ماں کا دودھ غذائیت سے بھرپور ہوتاہےجس سے بچے کے جسم کو بہتر طریقے سے نشونما ملتی ہے، بلکہ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ اس میں وٹامن اے وافر مقدار میں ہوتاہےجو بچے

 

کو طاقتور اور صحت مند بناتا ہے۔

 

4: ماں کے دودھ میں بڑی مقدار میں ایک خاص قسم کا ایسڈ (Essential feed acid) ہوتا ہے جو بچوں کے دماغ، خون کی نالیوں اور اعصابی نظام کی نشو نما کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔اس کے علاوہ ماں کے دودھ میں ایک فیگو سائٹ خلیہ (Macrophages) ہوتا ہے جو جراثیم اور مضر اجزاء کو ختم کرتاہے۔

 

5: ماں کے دودھ میں ویہے پروٹین کی مقدار زیادہ ہوتی ہے یہ پروٹین انفیکشن کو کنٹرول میں رکھنے والے ہوتے ہیں جو بچے کو دست، سانس کی بیماریوں اور کان کے انفیکشن کے علاوہ دماغ کی جھلی کی سوجن اور پیشاب کی نالی کے انفیکشن سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

 

6: ماں کے دودھ سے بچے کے دانت آسانی سے نکلتے ہیں اور جبڑے اورآنتوں کو مضبوط کرنے میں مددگار ہوتاہے۔

 

7: ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماں کا دودھ پینے والے بچےکم بیمار پڑتےہیں ایک تو اس وجہ سےاوردوسرے ماں کے ساتھ زیادہ نزدیک رہنے کے سبب ایسے بچوں کے رویے میں مثبت اثرات پائے جاتے ہیں۔

 

8: خود ماں بچے کو دودھ پلانے کے باعث کئی بیماریوں سے محفوظ رہتی ہے، مثلاً چھاتی کاسرطان، اور ہڈیوں کا بھربھراپن وغیرہ، اسی طرح ولادت کی وجہ سے عورت کےرحم کو جو ناہمواری پیش آتی ہے، بچے کو دودھ پلانے سے وہ ختم ہوجاتی ہے اور رحم اپنی اصلی اور طبعی حالت کی طرف آسانی سے لوٹ آتا ہے۔

 

9: ماں کا دودھ قدرتی طور پر نہایت صاف ستھرا ہوتا ہےاور اس کا درجہ حرارت ہمیشہ مناسب ہوتاہے۔

 

10: بعض تحقیقی رپورٹز میں ان کے علاوہ فوائد کا تذکرہ بھی ملتا ہے، مثلا ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں بلڈپریشر اور اس سے متعلقہ امراض بہت کم پائے جاتے ہیں، شوگر، موٹاپےاور خون کے سرطان سے محفوظ رہتے ہیں، ایسے بچوں میں منفی رویے جیسے غصہ اور رونا وغیرہ، نہیں ہوتے، جو ماں اپنے بچے کو دودھ پلائے اس کا رحم انفیکشن وغیرہ سے محفوظ رہتا ہےوغیرہ[6]۔

 

مِلک بینک کے نقصانات:

جہاں تک مِلک بینک کے قیام اور اس کے دودھ کے استعمال کی شرعی خرابیوں کا ذکر ہے تو وہ ”شرعی احکام“کے عنوان کے تحت آجائےگا، یہاں صرف مِلک بینک کی دنیوی خرابیوں اور نقصانات کا تذکرہ کیا جائےگا، جن کا خلاصہ یہ ہے:

 

1: انسانی دودھ کے بینک میں دودھ پرچھاتی سے نکالنے سے لیکر بچے کو پلانے تک کئی مراحل آتے ہیں، ایسے مراحل میں دودھ میں کسی وائرس کا آجانا کوئی بعید نہیں ہے، جیسے مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسے دودھ میں ایچ آئی وی وائرس (Human immunodeficiency virus) آجاتا ہے جو ایڈز (AIDS) کا سبب بنتا ہے۔اسی طرح اس میں ہیپاٹائٹس بی وائرس (Hepatitis B virus) بھی پایا گیا ہے جو جگر کے کینسر کا سبب بنتا ہے۔

 

2: مختلف مراحل سے گزارنے اور کیمیکل یا دوسرے اجزاء ملانے کی وجہ سے ایسے دودھ میں وہ خصوصیات مکمل طور پر نہیں پائی جاتیں جو ایک ماں کے دودھ میں پائی جاتی ہیں۔

 

3: بچے کو براہِ راست اپنا دودھ پلانے کے بجائے مِلک بینک کےدودھ کے استعمال سے نہ تو بچے کو وہ فوائد حاصل ہوتے ہیں جو براہِ راست چھاتی سے دودھ پینے میں ہوتے ہیں، جیسے دانتوں کا آسانی سے نکل آنا، جبڑوں کی مضبوطی وغیرہ اور نہ ہی ماں کو وہ فوائد حاصل ہوتے ہیں جو دودھ پلانے میں عورت کو ملتے ہیں، مثلا بچے كو دودھ پلانے سے ماں كے جسم سےاکسیرتوسین (Oxyrtocin) کا مادہ خارج ہوجاتاہے، جس سےرحم دوبارہ اپنی طبعی حالت کی طرف لوٹ آتاہے، اس سےعورت چھاتیوں کے کینسر سے محفوظ رہتی ہے اور دودھ نہ پلانے کی وجہ سے ماں اور بچے درمیان انسیت وقربت کی بھی کمی پائی جاتی ہے۔

 

4: ایسے دودھ کا حصول نہایت مہنگا ہوتا ہے، کیونکہ ایک تو عموما عورت اپنا دودھ مفت میں نہیں دیتی، دوسرے اس کی حفاظت کے لیے تربیت یافتہ عملہ، مشینری اور بہت سارا وقت چاہیے ہوتا ہے، ان سب کے اخراجات ملاکر جب مِلک بینک دودھ بیچے گا تو اس کا خریدنا آسان نہیں ہوگا۔اس سے استفادہ کرنے والے صاحبِ ثروت ہوں گے اور اپنا دودھ بیچنے والی عورتیں غرباء ومساکین ہوں گی جو اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے اپنے جسم کا ایک جزء بیچنے پر مجبور ہوں گی۔

 

5: مدتِ رضاعت میں بچے کو جو دودھ فراہم کیا جاتا ہے، اس سے بچے کی طبیعت اور اخلاق پر بڑا اثر پڑتا ہے، یہ بات طبی تحقیق سے بھی ثابت ہوچکی ہے۔ مِلک بینک میں موجود مخلوط دودھ مختلف اخلاق وعادات والی عورتوں کا ہوسکتا ہے، لہذا ایسے دودھ کا استعمال بچے کے رویے اور اخلاق وخصائل کے لیے مضر ہوسکتا ہے[7]۔

 

==شرعی احکام: ==

 

مِلک بینک سے کئی شرعی مسائل متعلق ہیں، جن کو ہم چارعنوانات سے بیان کرسکتے ہیں: # رضاعت کے ثبوت کی کیفیت

  1. مخلوط دودھ سے رضاعت کا ثبوت
  1. انسانی دودھ کی خرید وفروخت
  1. ملک بینک کےقیام کا شرعی حکم

 

 

 

1۔رضاعت کے ثبوت کی کیفیت:

رضاعت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی عورت کا دودھ چھوٹے بچے کو پلادیا جائے۔تاہم اس سے حرمتِ رضاعت کب ثابت ہوتی ہے؟اس سلسلے میں فقہاء کے ہاں کئی اختلافات پائے جاتے ہیں، مثلا مدتِ رضاعت کتنی ہے؟کتنی مقدار دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوگی؟دودھ پینے کی کیفیت کیسی ہو؟وغیرہ۔انسانی دودھ کے بینکوں میں اہم مسئلہ رضاعت کے ثبوت کی کیفیت ہے، اس لیے یہاں اسکی تفصیل بیان کی جاتی ہے۔پہلا اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ رضاعت کے ثبوت کیلئے براہ راست عورت کے پستانوں سے دودھ پینا ضروری ہے یا نہیں؟اس سلسلے میں فقہاء کرام کی دو آراء سامنے آئی ہیں:

 

جمہور فقہاء کرام جن میں حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنابلہ شامل ہیں، کی رائے یہ ہے کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے براہ راست عورت کے پستانوں سے دودھ پینا ضروری نہیں ہے، بلکہ اگر عورت کا دودھ نکال کر کسی برتن وغیرہ میں ڈال کر بچے کو مدتِ رضاعت میں پلادیا جائے تو رضاعت ثابت ہوجائیگی۔اس کی مثالیں دیتے ہوئے فقہاء نے ” وُجُور“اور ” سُعُوط “کی صورتیں بیان کی ہیں۔وُجُور کا مطلب ہے کہ عورت کا دودھ نکال کرکسی برتن وغیرہ میں ڈال کر کسی بچے کے حلق میں ڈال دیا جائے اور سُعُوطکا مطلب یہ ہے کہ دودھ نکال کر بچے کی ناک میں ڈال دیا جائے، دونوں صورتوں میں اگر دودھ حلق سے اترگیا تو رضاعت ثابت ہوجائیگی۔

 

علامہ ابن قدامہ اس مسئلہ کی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں:

 

==معنى السعوط أن يصب اللبن في أنفه من إناء أو غيره والوجور أن يصب في حلقه صبا من غير الثدي، واختلفت الرواية في التحريم بهما فأصح الروايتين أن التحريم يثبت بذلك كما يثبت بالرضاع وهو قول الشعبي و الثوري و أصحاب الرأي وبه قال مالك في الوجور، والثانية: لا يثبت بهما التحريم وهو اختيار ابي بكر ومذهب داود وقول عطاء الخراساني في السعوط لأن هذا ليس برضاع وإنما حرم الله تعالى ورسوله بالرضاع ولأنه حصل من غير ارتضاع فأشبه ما لو دخل من جرح في بدنه، ولنا ما روى ابن مسعود عن النبي ﷺ: [ لا رضاع إلا ما أنشز العظم وأنبت اللحم ] رواه أبو داود ولأن هذا يصل به اللبن إلى حيث يصل بالارتضاع ويحصل به من إنبات اللحم وإنشاز العظم ما يحصل من الارتضاع فيجب أن يساويه في التحريم۔Cite error: Invalid tag; invalid names, e.g. too many

 

دوسری رائے ظاہریہ کی ہے۔علامہ ابن حزمؒ کی رائے یہ ہے کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے براہ راست عورت کے پستانوں سے دودھ پینا ضروری ہے، اگر دودھ کو نکال کر کسی برتن وغیرہ میں ڈال دیا اور پھر بچے کے پلادیا تو اس سے حرمتِ رضاعت ثابت نہ ہوگی[8]۔امام احمدؒ کی ایک روایت بھی اسی طرح ہے، لیکن حنابلہ کا راجح قول جمہور کی طرح ہے جس کی طرف علامہ ابن قدامہؒ نے اشارہ کیا ہے۔

 

علامہ ابن حزمؒ نے رضاعت کے مقصد اور اصطلاحی مفہوم کو چھوڑ کر محض رضاعت کے لغوی معنی کو ملحوظ رکھا ہے، لیکن اس سلسلے میں جمہور فقہاء کا قول ہی راجح ہے، کیونکہ کئی احادیث ایسی ملتی ہیں جن میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ: "لارضاع إلا ما شد العظم وأنبت اللحم" اور "لا يحرم من الرضاعة إلا ما فتق الأمعاء "[9]۔یعنی جس رضاعت سے بچے کے گوشت کو بڑھوتری اور ہڈیوں کو مضبوطی حاصل ہوجائے اور جس دودھ سے اس کی آنتیں کھل جائیں اس سے رضاعت ثابت ہوتی ہے۔یہ بات اس صورت میں بھی پائی جاتی ہے جس میں عورت کا دودھ نکال کر کسی برتن میں ڈالنے کے بعد بچے کو پلایاجائے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے مدتِ رضاعت مقرر کرنے میں جہاں قرآن وحدیث کی نصوص سے استنباط کیا ہے وہیں وقت کی تحدید کی یہ توجیہ بھی بیان کی ہے کہ ایسے وقت کے بعددودھ سے بچے کے گوشت کو بڑھوتری اور ہڈیوں کی مضبوطی حاصل نہیں ہوتی[10]۔ لہذا ملک بینک میں موجود عورتوں کے دودھ سے بھی رضاعت ثابت ہوجائیگی ۔

 

2۔مخلوط دودھ سے رضاعت کا ثبوت:

دوسرا اہم مسئلہ جسے یہاں بیان کرنا ضروری ہے یہ ہے کہ جب عورت کے دودھ میں کوئی دوسری چیز مل جائے تو ایسے دودھ کے پینے سے رضاعت ثابت ہوگی یا نہیں؟اس مسئلہ کی جو تفصیل یہاں مقصود ہے اُسے تین نکات میں بیان کیا جائےگا، کیونکہ ملک بینک میں عموما عورت کے دودھ

 

کے ساتھ تین قسم کی اشیاء ملائی جاتی ہیں:

 

الف۔پانیب۔دواء یا کیمیکلج۔دوسری عورت کا دودھ

 

الف/ب۔جس دودھ میں پانی یا دواء ملائی گئی ہو، اس کا حکم:

جس دودھ میں پانی یا دواء ملائی گئی ہو اور وہ کسی بچے کو پلایا جائے تو اس سے حرمتِ رضاعت ثابت ہونے یا نہ ہونےمیں یہ تفصیل ہے کہ اگر عورت کا دودھ غالب ہو اور پانی یا دواء مغلوب اور کم ہو تو ائمہ ثلاثہ (امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمدؒ) اور امام ابویوسف وامام محمدؒ کی رائے یہ ہے کہ ایسے دودھ سے حرمتِ رضاعت ثابت ہوجاتی ہے، کیونکہ اصل اعتبار غالب چیز کا ہوتا ہے اور مغلوب چیز معدوم کے درجے میں ہوتی ہے، اس کا اعتبار نہیں ہوتا۔جبکہ امام ابوحنیفہؒ کی رائے کے مطابق اگر دودھ کسی پانی یا دواء وغیرہ سے مل جائے تو اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی، خواہ دودھ غالب ہو یا مغلوب۔اگرچہ حنابلہ کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس صورت میں حرمتِ رضات ثابت نہ ہوگی، لیکن ان کے ہاں راجح اور اصح قول حرمت کے ثبوت کا ہی ہے۔اگر دودھ مغلوب اور کم ہو، جبکہ پانی یا دواء غالب اور زیادہ ہو تو ایسی صورت میں حنفیہ، مالکیہ، حنابلہ اور ایک روایت کے مطابق شافعیہ کا مسلک یہ ہے کہ حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوگی، جبکہ شافعیہ کا اصل مسلک اور حنابلہ کی ایک روایت کے مطابق اس صورت میں بھی حرمت ثابت ہوجائیگی۔

 

واضح رہے کہ حنفیہ کے ہاں اگر دودھ میں کوئی دوسری چیز ملاکر اُسے اس طرح پکایا جائے کہ وہ دودھ نہ رہے، بلکہ کسی کھانے کی چیز کی شکل اختیار کرلے تو اس چیز کے کھانے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی، لیکن ظاہر ہے کہ مِلک بینک میں دودھ سے کوئی اور چیز نہیں بنائی جاتی، ورنہ اس طرح کے بینکوں کا اصل مقصد ہی ختم ہوجائےگا، اس لیے حنفیہ کی یہ رائے مِلک بینک پر لاگو نہیں ہوسکتی ہے[11]۔

 

مِلک بینک میں دودھ غالب ہی ہوتا ہے، پانی یا دواء قلیل مقدار میں ہوتی ہے جن کو دودھ پگلانے یا اس کی حفاظت کے لیے یا کسی اور مقصد کے لیے اضافی طور پر (Additives) ملایا جاتا ہے، اس لیے ایسے دودھ سے جمہور علماء کرام کی رائے کے مطابق حرمتِ رضاعت ثابت ہوجائیگی، حنفیہ کے ہاں بھی صاحبینؒ کے قول پر فتوی دیا گیا ہے[12]۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تواس صورت میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے کے مطابق بھی حرمتِ رضاعت ثابت ہوجائیگی، کیونکہ علامہ شامیؒ کی تحقیق یہ ہے کہ دودھ میں جو چیز ملائی جاتی ہے اگر وہ ثخین اور موٹی چیز ہو، جس کو باقاعدہ لقمہ بناکر کھایا جاتا ہو تو اس صورت میں امام صاحب کی رائے حرمت کےعدمِ ثبوت کی ہے، لیکن اگر دودھ میں کوئی مائع چیز جیسے پانی ملادیا جائے جس کو لقمہ بناکر نہ کھایا جاتا ہو، بلکہ اُسے پیا جاتا ہو تو اس صورت میں امام صاحب کی رائے یہ ہے کہ حرمتِ رضاعت ثابت ہوجائیگی۔آپؒ لکھتے ہیں:

 

"وَكَلَامُنَا فِيمَا إذَا كَانَ الطَّعَامُ رَقِيقًا يُشْرَبُ حَسْوًا، وَهَذَا تَثْبُتُ بِهِ الْحُرْمَةُ كَمَا سَمِعْته، وَلَمْ أَرَ مَنْ صَحَّحَ خِلَافَهُ؛ وَلَا يُقَالُ: يَلْزَمُ مِنْ تَقَاطُرِ اللَّبَنِ عِنْدَ رَفْعِ اللُّقْمَةِ أَنْ يَكُونَ الطَّعَامُ رَقِيقًا يُشْرَبُ لِأَنَّهُ لَوْ كَانَ كَذَلِكَ لَمْ يَكُنْ التَّقَاطُرُ مِنْ اللَّبَنِ وَحْدَهُ بَلْ يَكُونُ مِنْهُمَا مَعًا، فَعُلِمَ أَنَّ الْمُرَادَ كَوْنُ الطَّعَامِ ثَخِينًا لَا يُشْرَبُ، وَلَفْظُ اللُّقْمَةِ مُشْعِرٌ بِذَلِكَ أَيْضًا فَافْهَمْ"[13]۔

 

ترجمہ: ہماری بحث اس صورت سے متعلق ہے جس میں کھانا اتنا باریک ہو کہ اُسے گھونٹ گھونٹ پیا جاسکے، جہاں تک میں نے سنا ہے، اس سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے اور مجھے کوئی بھی فقیہ ایسا نظر نہیں آیا جس نے اس کے خلاف رائے دی ہو۔یہ نہ کہا جائےکہ لقمہ اٹھاتے وقت دودھ ٹپکنے سے یہ لازم آئےگا کہ کھانا باریک ہو، جسے پیا جاسکے، کیونکہ اگر یہی صورت ہو تو ٹپکنے والے قطرے صرف دودھ کے نہیں، بلکہ دودھ اور کھانا دونوں کے ہوں گےلہذا معلوم ہوا کہ (حرمت ثابت نہ

 

ہونے کیلئے ضروری ہے کہ) کھانا گاڑا ہو جسے پیا نہ جاسکے اور لفظِ”لقمہ“سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔

 

علامہ ابن ہمامؒ نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے، آپؒ لکھتے ہیں:

 

" أَمَّا عِنْدَ رَفْعِ اللُّقْمَةِ إلَى فِيهِ فَأَكْثَرُ الْوَاصِلِ إلَى جَوْفِهِ الطَّعَامُ حَتَّى لَوْ كَانَ ذَلِكَ الطَّعَامُ رَقِيقًا يُشْرَبُ اعْتَبَرْنَا غَلَبَةَ اللَّبَنِ إنْ غَلَبَ وَأَثْبَتْنَا الْحُرْمَةَ"[14]۔

 

ج۔مختلف عورتوں کی مخلوط دودھ کا حکم:

مِلک بینک میں ہر عورت کا دودھ الگ نہیں رکھا جاتا، بلکہ کئی عورتوں کا دودھ مخلوط ہوتا ہے، ایسی صورت میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب کئی عورتوں کا دودھ ایک دوسرے کے ساتھ مل جائے تو کیا ایسا مخلوط دودھ بچے کو پلانے سے حرمتِ رضاعت ثابت ہوگی یا نہیں اور اگر حرمت ثابت ہوتی ہے تو کیا یہ حرمت ہر اس عورت کے ساتھ متعلق ہوگی جس کا دودھ ملک بینک میں ہے یا بعض عورتوں یا کسی خاص عورت کے ساتھ اس حرمت کا تعلق ہوگا؟

 

ائمہ اربعہ کی آراء میں غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں جتنی بھی عورتوں کا دودھ ملا ہوا اور مخلوط ہو اُن سب عورتوں کے ساتھ مخلوط دودھ پینے والے بچے کارضاعت کا رشتہ ثابت ہوجائےگا، خواہ تمام عورتوں کا دودھ مساوی اور برابر ہویاکسی کا غالب اور زیادہ ہو اور کسی کا کم ومغلوب، بہر صورت یہی حکم ہے۔یہ رائے اتفاقی ہے ۔

 

البتہ فقہاء حنفیہ اور شافعیہ کا ایک قول یہ ہے کہ اگر کسی عورت کا دودھ غالب ہو تو رضاعت کا رشتہ صرف اُسی سے متعلق ہوگا، بقیہ عورتوں سے نہیں ہوگا، لیکن یہ قول ان کے ہاں بھی کوئی راجح یا اصح نہیں ہے۔لہذا جس وقت مِلک بینک سے دودھ حاصل کیا جائےگا، اُس وقت تک جتنی بھی عورتوں نے مِلک بینک میں اپنا دودھ جمع کرایا ہو، ہر اُس عورت کے ساتھ ایسے دودھ پینے والے بچےکا رضاعی رشتہ ثابت ہوجائےگا، جو ایک دو نہیں بلکہ کئی ہوسکتی ہیں [15]۔

 

3۔انسانی دودھ کی خرید وفروخت:

مِلک بینک سے متعلق آخری مسئلہ انسانی دودھ کی خریدوفروخت کا ہے، کیونکہ مِلک بینک کو مفت میں دودھ فراہم کرنے والی خواتین نہ ہونے کے برابر ہیں، عموما خواتین اپنا دودھ مِلک بینک کو فروخت ہی کرتی ہیں اور مِلک بینک اس کو آگے فروخت کرتا ہے۔

 

آزاد عورت کا دودھ نکال کر بیچنے کے حکم میں فقہاء کرام کا اختلاف ہے۔فقہاء حنفیہ اور مالکیہ کے ہاں انسانی دودھ کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے، امام احمد بن حنبلؒ اور امام شافعیؒ کی ایک روایت بھی یہی ہے[16]، ان کی ایک دلیل یہ ہےکہ انسان کے تمام اجزاء محترم ومکرم ہے[17]، اس کا کوئی جزء مال نہیں ہے کہ جس کی بیع کو جائز قراردیا جائے۔دوسرے اس لیے کہ احادیث میں آزاد آدمی کی بیع کو منع کیا گیا ہے، بلکہ علامہ ابن حجرؒ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے[18]، لہذا جب کُل کی بیع جائز نہیں ہے تو اس کے جزء یعنی دودھ کی بیع کیسے جائز ہوسکتی ہے؟تیسرے اس لیے بھی کہ باری تعالیٰ نے انسان کو اشیاء کا مالک بناکر پیدا کیا ہے، اس کے کسی جزء کو مال قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مملوک ہے، حالانکہ مالک اور مملوک میں تناقض اور منافات ہے۔

 

امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒکا اصل مسلک یہ ہے کہ انسانی دودھ کو نکالنے کے بعد خریدنا یا بیچنا جائز ہے، اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ انسانی دودھ پاک اور ایک قابلِ انتفاع چیز ہے، لہذا اس کی بیع جائز ہونی چاہیے۔علامہ ابن قدامہؒ ائمہ اربعہ کی آراء اور ان کی وجوہات کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

 

فأما في بيع لبن الآدميات فقال أحمد: أكرهه واختلف أصحابنا في جوازه فظاهر كلام الخرقي جوازه لقوله وكل ما فيه المنفعة وهذا قول ابن حامد ومذهب الشافعي وذهب جماعة من أصحابنا إلى تحريم بيعه وهو مذهب أبو حنيفة و مالك ولأنه مائع خارج من آدمية فلم يجز بيعه كالعرق ولأنه من آدمي فأشبه سائر أجزائه والأول أصح لأنه

 

لبن طاهر منتفع به فجاز بيعه كلبن الشاة۔[19]

 

ترجمہ: انسانی دودھ کی بیع کے بارے امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ میں اس کو مکروہ سمجھتا ہوں۔ہمارے اصحاب کا اس سلسلے میں اختلاف ہے۔امام خرقی کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قابلِ منفعت ہونے کی وجہ سے اس کو جائز قرار دیتے ہیں، یہ ابن حامد اور شافعی کی رائے ہے۔ہمارے اصحاب کی ایک جماعت نے یہ رائے اختیار کی ہے کہ اس کی بیع جائز نہیں ہے۔امام ابوحنیفہ اور امام مالک نے یہی قول اختیار کیا ہے، کیونکہ یہ انسانی بدن سے نکلنے والی مائع چیز ہے، لہذا پسینے کی طرح اس کی بیع بھی جائز نہیں ہے۔اور چونکہ یہ انسان کا جزء ہے، اس لیے دوسرے اجزاء کی طرح اس کی بیع بھی جائز نہیں ہے۔پہلا قول زیادہ صحیح ہے، کیونکہ دودھ پاک اور قابلِ انتفاع چیز ہے، لہذا بکری کے دودھ کی طرح انسانی دودھ کی بیع بھی جائز ہے۔

 

فقہاء حنفیہ اور مالکیہ کے دلائل کے قوی ہونے کے باوجودیہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ مِلک بینک میں محض انسانی دودھ کی خرید وفروخت کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس میں دیگر دنیوی اور دینی خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں، جن کا تذکرہ آگے آرہا ہے، اس لیے محض شافعیہ اور حنابلہ کی رائے کی بنیاد ہر مِلک بینک کو جواز کی سند فراہم کرنا عجلت پسندی یا سطح بینی ہی سمجھی جائیگی۔

 

4۔ ملک بینک کےقیام کا شرعی حکم:

سابقہ تفصیلات کے بعد اب ہم اصل مسئلہ بیان کرسکتے ہیں کہ مِلک بینک کا قیام شرعی نقطہ نظر سے کیسا ہے؟اس سلسلے میں معاصر علماء کی تین آراء سامنے آئی ہیں:

 

پہلی رائے:

بعض معاصر علماء مِلک بینک کے قیام کی اجازت دیتے ہیں۔ان میں سے سرِ فہرست شیخ یوسف قرضاوی ہے۔چنانچہ آپ لکھتے ہیں:

 

"أننا لا نجد هنا ما يمنع من إقامة هذا النوع من "بنوك الحليب"، مادام يحقق مصلحة شرعية معتبرة، ويدفع حاجة يجب دفعها، آخذين بقول من ذكرنا من الفقهاء، مؤيدًا بما ذكرنا من أدلة وترجيحات"[20]۔

 

ان کے علاوہ دیگر کئی علماء عرب، جیسے ڈاکٹرعبد التواب مصطفی، ڈاکٹر علی قرہ داغی، شیخ عطیہ صقر اور ڈاکٹر محمد رافت عثمان وغیرہ، نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے۔ان حضرات کے دلائل کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:

 

1: ایک دلیل یہ ہے کہ مِلک بینک کے دودھ کے استعمال سے حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ حرمتِ رضاعت کے ثبوت کے لیے براہ راست چھاتی سے دودھ پینا ضروری ہے، دوسرے اس لیے بھی کہ جب ایک عورت کا دودھ دوسری عورت کے دودھ سے مل جائے توبعض فقہاء کے ہاں اس سے حرمتِ رضاعت ثابت نہیں ہوتی، لہذا جب مِلک بینک میں یہ خرابی (حرمت کا ثبوت) موجود نہیں ہے تو اس کا قیام ممنوع نہیں ہے۔ (حوالہ کے لیے حاشیہ نمبر24 ملاحظہ فرمائیں)

 

2: مِلک بین میں موجود دودھ پر کئی مراحل گزرتے اور اس میں کئی تغیرات پائے جاتے ہیں، مثلا کیمیکل وادویات کی ملاوٹ، پانی اور دوسری عورتوں کے دودھ کا ملانا اور آگ کے استعمال کے ساتھ ساتھ تجفیف اور دودھ خشک کرنےکا عمل وغیرہ۔ان تغیرات کے بعد ایسے دودھ سے حرمت ِ رضاعت ثابت نہیں ہونی چاہیے۔

 

3: ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ جب رضاعت میں شک واقع ہوجائے کہ بچے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہے یا نہیں تو اس صورت میں بھی حرمت ثابت نہیں ہوتی ۔مِلک بینک میں جتنی عورتوں کا دودھ موجود ہوتا ہے، ان کے بارے مکمل معلومات نہیں ہوتی اور نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ بینک میں کس عورت کا دودھ موجود ہے، اس لیےشک کی وجہ سے حرمت ثابت نہیں ہوگی۔

 

4: ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ کئی فقہی قواعد ایسے ہیں جن میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ لوگوں کی مصالح کی رعایت اور ان سے ضرر کو دور کرنے کی مکمل کوشش کی جائے، جیسا کہ ایک مشہور قاعدہ ہے: ”الضرر یُزال“[21]۔مِلک بینک میں بھی اُن بچوں کے لیے مصلحت ہے اور ان سے ضرر دور کیا جاتا ہےجن کی مائیں ان کو دودھ پلانے سے قاصر رہتی ہیں۔

 

5: ایک دلیل یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ آج کے دور میں ایسے بنکوں کی شدید ضرورت و حاجت ہے اور ضرورت کے موقع پرحکم میں آسانی پیدا ہوتی ہے، بلکہ آسانی اور تخفیف کا ایک سبب ”عمومِ بلوی“بھی ہے جویہاں پایا جاتا ہے کہ بچوں کو اپنی ماں کا دودھ نہ ملنا ایک اجتماعی وعمومی مسئلہ بن گیا ہے[22]۔

پہلی رائے کی نسبت دوسری رائے کے دلائل زیادہ قوی اور شرعی وفقہی اصولوں کے موافق ہے۔مِلک بینک میں موجود اختلاطِ نسب، دودھ کی بیع اور اس جیسی دیگر خرابیاں پائی جاتی ہیں، اس لیے مِلک بینک کی عام اجازت دینا درست نہیں ہے، کیونکہ اس کی عمومی ضرورت پیش نہیں آئی، لیکن اس بات سے صرفِ نظرنہیں کیا جاسکتا کہ ضرورت کے وقت حرام اور ناجائز امر جائز ہوجاتا ہے[23]۔اس لیےغور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی مِلک بینک یا دودھ کی اسٹوریج کی کہیں بھی حقیقی ضرورت نہیں پائی جاتی۔ممکن ہے کسی خاص جگہ یا خاص افراد کو انسانی دودھ کی اسٹوریج کی ضرورت ہو، اس لیے ایسی تحقیق کے بغیر بیک جنبش مِلک بینک کو ناجائز قراردینا ہماری نظر میں درست معلوم نہیں ہوتا، بلکہ جہاں سخت ضرورت ہو، وہاں مخصوص اجازت دینے کی گنجائش ہے۔

 

تیسری رائے:

بعض معاصر علماء نے درج بالا دونوں آراء کے درمیان ایک تطبیقی منہج اور درمیانہ راستہ

 

اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مِلک بینک کے قیام کو یکسر ناجائز اور حرام قراردینے میں ایک بڑا حرج لازم آتا ہے، لیکن اس کو مباح قراردیکر عمومی اجازت دینے میں بھی بہت سے مفاسد اور خرابیاں جنم لینے کا قوی اندیشہ ہے، لہذا دونوں آراء کو اس طرح جمع کیا جائےکہ عالمِ اسلام میں عام حالات کے اندرمِلک بینک کے قیام کو ممنوع قراردیا جائے، تاہم درج ذیل امور وتدابیر اختیار کرنے کے بعدکسی خاص مِلک بینک کے قیام کی اجازت دینے کی گنجائش ہے: # دودھ میں دوسری اشیاء ملاکر اُسے باقاعدہ پکایا جائے، تاکہ اس کی اصلی ہیئت اور شکل برقرار نہ رہے اور اس کی صفات میں تغیر آجائے۔

  1. دودھ کی بیع نہ کی جائے، بلکہ تبرع کی بنیاد پر بینک قائم کیا جائے۔
  1. شرعی خرابیوں، مثلا بےستری، سے اجتناب کیا جائے۔
  1. ایسی عورت کا دودھ لیا جائے جو سلیم الفطرت ہو، کافرہ اور فاسقہ نہ ہو۔
  1. مِلک بینک کے دودھ کو طبعی رضاعت کاقائم مقام و متبادل نہ سمجھا جائے۔
  1. دودھ دینے والی عورت اور دودھ پینے والے بچے کے اہل خانہ کے درمیان تعارف وشناخت پیدا کی جائے، تاکہ اختلاط نسب سے بچا جاسکے[24]۔

 

ترجیح:

سابقہ آراء اور دلائل سے یہ مسئلہ تقریبا واضح ہوگیا کہ مِلک بینک کے قیام میں دنیوی خرابیوں اور نقصانات کے ساتھ ساتھ کئی شرعی خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں اور ان آراء میں تیسری رائے کسی حد تک ایک متوسط اور معتدل قراردی جاسکتی ہے، تاہم ہماری نظر میں اس رائے میں تھوڑا تغیر اور اضافہ ضروری ہے۔وہ اس طرح کہ عام حالات میں اور ہر کسی کے لیے ایسے بینکوں کا قیام شرعی نقطہ نظر سے ناجائز قراردیا جائے، لیکن دوسری طرف اس پہلو کو بیک جنبش پسِ پشت ڈال دینا اور یہ کہہ دینا بھی درست نہیں ہے کہ انسانی دودھ کی اسٹورنگ کی ضرورت کسی بھی جگہ کسی بھی بچےکے لیے نہیں ہے، کیونکہ آج کل بعض بچے ماں کے پیٹ میں سات مہینے گزارنے سے قبل پیدا ہو جاتے ہیں، ان کا وزن بہت کم ہوتا ہے ۔ ایسے بچوں کو LBW (Low Birth Weight) اور Prematureکہاجاتاہے۔ان میں براہ راست دودھ چوسنےاورنگلنےکی صلاحیت Coordination نہیں ہوتی ۔دوسری طرف مصنوعی دودھ یا جانوروں کا دودھ ان کے لیے مضر ہوتا ہے، بلکہ ایسے دودھ سے آنتیں پھٹ جانے اور موت واقع ہوجانے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے۔اب ایک راستہ تو یہ ہے کہ ایسے بچوں کے لیے ان کی اپنی ماں کا دودھ نکال کر اسٹور کیا جائے، لیکن بسا اوقات ایسے بچوں کی اپنی ماں کا دودھ نہیں ہوتا، یا مختلف قسم کی ادویات کے استعمال کی وجہ سے اپنی ماں کا دودھ ان کے لیے مضر ہوتا ہے۔ایسی صورتحال میں اگر ایسے بچوں کی جان بچانے کی خاطرکسی ہسپتال میں اجنبی عورتوں کا دودھ لیکر اسٹور کیا جائے تو اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، کیونکہ یہ حقیقی ضرورت ہے، لیکن اس کیلئے درج ذیل شرائط و تدابیر کو مدنظر رکھنا ضروری ہے:

 

1: پہلی شرط یہ ہے کہ عورتوں سے دودھ لینا اور آگے بچوں کو مہیا کرنا مفت اور بطورِ عطیہ کے ہو، دودھ کی خریدوفروخت سے اجتناب کیا جائے، البتہ اگر کسی بچے کی جان بچانے کی خاطر مفت دودھ نہ ملے تو خریدنے کی بھی گنجائش ہے، لیکن بیچنے والے کے لیے قیمت لینا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، جیسا کہ ہمارے فقہاء نے خون کے بارے یہی رائے اختیار کی ہے[25]۔

 

2: ایسا دودھ صرف ان بچوں کو مہیا کیا جائے جن میں دودھ چوسنے کی صلاحیت نہ ہو اور مصنوعی دودھ یا جانور کا دودھ ان کے لیے مضر ہو، ہر بچے کو نہ پلایا جائے۔

 

3: دودھ کی ایسی اسٹورنگ محض ضرورت کے درجے میں نجی طور پرجائز ہے، اسے باقاعدہ کاروبار بنانااور عام لوگوں سے دودھ کا لین دین درست نہیں ہے۔

 

4: غیرمسلم عورتوں کے دودھ سے اجتناب کرنا بہتر ہے، کیونکہ اس کے منفی اثرات بچے کے اخلاق وعادات پر پڑسکتے ہیں۔

 

5: جن عورتوں سے بطورِ عطیہ دودھ لیا جائے ان کا مکمل بائیوڈیٹا، ان کے نام، ولدیت، پتہ، فون نمبرز وغیرہ لکھ لیا جائے اوریہ ڈیٹا ہسپتال یا ادارے میں محفوظ کرلیا جائے اور اس کی ایک کاپی بچے کے والدین کو دیدی جائے، تاکہ ان کو مکمل علم حاصل ہو کہ ہمارے بچے نے کس کس عورت کا دودھ پیا ہے۔

 

6: کسی مستند عالم ومفتی کے زیرِ نگرانی ایک تحریر تیار کی جائے جس میں رضاعت سے متعلق اہم احکام مختصر طور پر مذکور ہوں اور نمبر5 میں مذکورہ ڈیٹا کے ساتھ اس تحریر کو منسلک کرکے بچے کے والدین کو فراہم کیا جائے، تاکہ اُنہیں رضاعت سے متعلق مکمل آگاہی حاصل ہو اور مستقبل میں اختلاط نسب کا کوئی اندیشہ نہ رہے۔

 

حوالہ جات

  1. [http: //taakbs. blogspot. com/2013/06/milk-bank. html http: //taakbs. blogspot. com/2013/06/milk-bank. html]
  2. کحلاوی، ڈاکٹرعبلہ، بنوك اللبن، الدارالمصرية اللبنانية، مصر، ص11
  3. مرحبا، ڈاکٹراسماعيل، البنوک الطبيةالبشرية، واحكامهاالفقهية، دارابن الجوزية، ص324
  4. کنعان، ڈاکٹر احمدمحمد، موسوعة الطبية الفقهية، دارالنفائس، عمان، ط اولیٰ، ص487
  5. یہ تفصیل درج ذیل ویب سائٹس سے لی گئی ہے: https: //www. ncbi. nlm. nih. gov/pubmed/27336107 www. westerncape. gov. za/. . . /health/donorbank
  6. یہ تفصیل مندرجہ ذیل ویب سائٹس سے لی گئی ہے: [http: //www. shefa-online. net/news/displayArticle. asp?aid=380&x http: //www. shefa-online. net/news/displayArticle. asp?aid=380&x]= [http: //www. aljazeera. net/health/2002/4/4-1-1. htm http: //www. aljazeera. net/health/2002/4/4-1-1. htm]
  7. مجلة مجمع الفقه الإسلامي، برابطة العالم الاسلامي، المکتبۃ الشاملہ الکترونیۃ، ج 2، ص264/مرحبا، ڈاکٹر اسماعيل، البنوك الطبيه البشريةواحكامها الفقهية، ص327
  8. ظاہری، علامہ ابن حزم، المحلی، دار الفكر -، بيروت، ج 10، ص 7
  9. بخاری، محمد بن اسماعيل، صحيح البخاري-، دار إحياء التراث العربي -، بیروت، ص378، حدیث نمبر2647 /ترمذی، محمدبن عیسی، سنن الترمذي-، دار إحياء التراث العربي -، بیروت، ج 3، ص458، حدیث نمبر 1152/ سجستانی، سلیمان بن اشعث، سنن أبى داود، دار الكتاب العربي، بيروت، ج2، ص 180، حدیث نمبر: 2061
  10. کاسانی، علاء الدین، بدائع الصنائع، دار الكتب العلمية، بیروت، الطبعۃ الثانیۃ، ج 4، ص6
  11. سرخسی، محمدبن احمد، المبسوط للسرخسي، دار المعرفة، بيروت، ج 5، ص 140/جزیری، عبدالرحمن، الفقه على المذاهب الأربعة، ج4، ص 128/ شربینی، محمد الخطيب، مغني المحتاج دارالفكر، بيروت، ج3، ص415/مرداوی، علاءالدین، الإنصاف، دارالفكر، بيروت، ج 9، ص248
  12. حصکفی، محمد بن علی، الدر المختار، دار الفكر -، بيروت، ج3، ص218
  13. ابن عابدين، محمدامین بن عمر، رد المحتار، دار الفكر -، بيروت، الطبعۃ الثانیہ، ج3، ص219
  14. ابن ہمام، کمال الدین، محمدبن عبدالواحد، فتح القدير، دار الفكر -، بيروت، ج7، ص 416
  15. ابن عابدين، محمدامین بن عمر، رد المحتار، المكتبة الشاملة، ج 3، ص 218/دردیر، احمد بن محمد، الشرح الكبير، ج2، ص503/ ابن قدامہ، عبد الله بن احمد، المغنی، دارالفکر، بیروت، الطبعۃ الاولی، ج 9، ص 197/ شربینی، محمد الخطيب، مغني المحتاج، دارالفکر، ج3، ص 415
  16. نووی، یحیٰ بن شرف، المجموع شرح المهذب، المكتبة الشاملة، ج 9، ص 254/ابن قدامہ، عبد الله بن احمد، المغنی، ج4، ص329
  17. الاسراء: 70
  18. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری، دار المعرفة - بيروت، ج4، ص324
  19. ابن قدامہ، عبد الله بن احمد، المغني، ج4، ص329
  20. مجلة مجمع الفقه الإسلامي، ج2، ص260
  21. مجلة الأحكام العدلية، الْمَادَّةُ 20، كارخانہ تجارتِ كتب، آرام باغ، كراچی، ص 18
  22. پہلی رائے کے دلائل وفتاوی کے لیے دیکھیں: قرضاوي، يوسف، بنوك الحليب، مجلۃ المجمع الفقه الاسلامي، برابطة العالم الاسلامي المکتبۃ الشاملہ، الکترونیۃ، ج2، ص 260/محمدبن فنخور، تنبيه اللبيب حول بنوك الحليب، ص38 (http: //www. qoranona. com) / احمد مصطفى القضاة، بنوك الحليب البشري من منظور شرعي، دارالنفائس، عمان، ص190/ المفتي أحمد هريدى، فتاوى دار الإفتاء المصرية ج2، ص146 (http: //www. islamic-council. com) /المفتي عطية صقر، فتاوى الأزهر، وزارة الأوقاف المصرية، مصر، 9/431 / عبدالتواب مصطفى خالد معوض، بنوك الحلِيب في ضوءالشريعةالإسلامية-دراسة فقهية مقارنة http: //www. alukah. net/sharia/3724/0
  23. ابن نجیم، زین الدین بن ابراہیم، الأشباه والنظائر، دار الكتب العلمية، بيروت، ص 107
  24. احمد مصطفى القضاة، بنوك الحليب البشري من منظور شرعي، دارالنفائس، عمان، ص197
  25. عثمانی، مفتی محمدشفیع، جواہر الفقہ، مکتبہ دارالعلوم، کراچی، ج7، ص45
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...