Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

بائیو ٹیکنالوجی اور اس کے اثرات، دینی و اخلاقی پہلو |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف :

سائنسی علوم میں حیاتیاتی علوم (Biological Science)کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔اس شعبہ میں زندگی اور اس کی نشودو نما سے متعلق تمام علوم شامل ہیں۔ان علوم کے دائرہ کار میں تمام جاندار اشیا ء شامل ہیں۔انسانی اور حیوانی زندگی،حشرات الارض،سمندری مخلوقات اور نباتات وغیرہ ان علوم کےموضوعات ہیں ۔ علِم حیا تیات ،علِم جنین،علِم حیوانات،علم تشریح اعضاء،علم طِب، جراحت اور علِم نباتات وغیرہ اسی ذیل میں آتے ہیں۔بائیو ٹیکنالوجی درحقیقت بیالوجی اور بائیو کیمسٹری کے جدید مطالعے کا نام ہے جو ان علوم کے بنیادی نظریات کو جدیدٹیکنالوجی کے ذریعے جین ڈی این اےجنوم جنیٹک کواستعمال کرتے ہوئےذراعت،ادویات اور صنعت سے متعلق زیادہ مقداربہتر خواص اوربہتر استعداد کی حامل اشیاء کی پیداوار کا سبب بن رہی ہے۔تاریخی طور پر اس علم کی شاخیں نہایت پرانی ہیں۔مشہور یونانی فلسفی ارسطو کی تحقیق کا میدان حیاتیات یعنی بیالوجی تھا۔ارسطو نے ہزاروں قسم کے پودوں اور جانوروں کی گروہ بندی کی،ان کی جنس اور نوعیں مقرر کیں،ان کی پیدائش اور نشودونما کی تشریحات معلوم کیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر رحم میں حیوانات کےجنین کےبڑھنےاورپرورش پانےکےبارےمیں ایسی دریافتیں کیں جوبعدمیں حیرت انگیزطورپرصحیح ثابت ہوئیں۔ اس نے بے شمار جانوروں کی لاشوں کو چیرا پھاڑا اور ان کے اندرونی اعضاء کے متعلق صحیح معلومات فراہم کیں مگر اس نے انسانی لاش پر یہ عمل نہیں کیاکیونکہ ایسا کرنا اس دور میں خلاف مذہب اور خلاف انسانیت خیال کیا جاتا تھا۔ان تمام وجوہ کے باعث وہ دنیا کا پہلا سائنس دان ہے جس نے حیاتیات یعنی’’بیالوجی‘‘کی بنیاد رکھی اور آج کی سائنس کی ترقی کا سامان بہم پہنچایا۔اس نے جنین کے نشو ونما پانے کے متعلق یہ مشہور قاعدہ معلوم کیا کہ سب سےپہلےجنین میں اسکی خاص جینزکی علامات پیداہوتی ہیں،اس کےبعداس کی نوع(Creed) کی علامات ظہور میں آتی ہیں اور سب سے آخر میں اس کی ذاتی خصوصیات ظاہر ہوتی ہیں جس کے باعث اس کی نوع کی دیگر افراد سے اس کی تمیز ہوتی ہے۔اس قاعدے کی تصدیق انیسویں صدی میں مشہور جرمن ماہر حیاتیات بئر(Baer) نے کی۔لیکن ایسے وقت میں جب ارسطو کے پاس خوردبین تو کجا ایک سادہ عدسہ یعنی لینز(Lens) بھی نہ تھا،اس لئے بائیو ٹیکنالوجی کے متعلق بعض بنیادی قوانین کا کا صحیح طور پر استخراج کر لینا اس کوعظیم سائنس دانوں کی صف میں جگہ دینے کے لئے کافی ہے ۔ موجودہ دور میں بائیو ٹیکنالوجی کا اہم موضوع اس کی شاخ توارث (Heredity)ہے۔ایک خاص واقعے نے ارسطو کی توجہ اس موضوع کی طرف دلائی:اس زمانے میں یونان کی ایک سفید فام عورت نے ایک سیاہ فام حبشی کے ساتھ شادی کر لی،اس کے تین بچے پیدا ہوئے،ان تینوں کا رنگ سفید تھا۔ جب بچے جوان ہوئے تو انہوں نے سفید فام عورتوں سے شادیاں کیں۔ لیکن جب ان میں ایک جوڑے کے بچے پیدا ہوئے تو ان کاایک بچہ سیاہ فام تھا۔ارسطو نے اس واقعے کو بیان کر کے یہ سوال اٹھایاکہ جب دادا کا رنگ باپ میں منتقل نہیں ہوا،تو بیٹے میں کیونکر پہنچ گیا ؟ اس کا تسلی بخش جواب اس سے بن نہ پڑا،کیو نکہ اس سوال کو حل کرنے کیلئے دو ہزار سال درکار تھے1۔اندلس کےایک مسلمان عریب بن سعدنےبچوں اورخواتین کےامراض پرایک اساسی کتاب بھی تحری کی جس کا عنوان’’خلق الجنین وتدبیرالحبالی والمولدین‘‘ ہے جو کہ آج کی بائیوٹیکنالوجی کے ایک اہم شعبہ سے متعلق ہے2۔ابن مسکویہ 3نے حیاتِ انسانی سے بحث کی اور یورپ کے چارلس ڈارون کے نظریات زیادہ تر انہی کے مرہونِ منت ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ ابن مسکویہ نے صرف قرآنی تعلیمات کی روشنی میں بات کی تھی۔بابائے کیمیاء جابر بن حیان 4نے بے شمار کیمیائی مرکبات ایجاد کئے ۔زکریا رازی پہلے طبی انسائیکلو پیڈیا’’الحاوی‘‘ کے مصنف تھے، ابو القاسم الزہراوی پہلے سرجن تھے جنہوں نے پوسٹ مارٹم کو انسانی اعضاء کی تحقیق کیلئے ضروری خیال کیا۔الفارابی 5کی دو مشہور کتب’’کتابِ نباتات‘‘اور’’کتابِ حیوانات‘‘ آج کے دور کی ٹیکنالوجی کی کتب کی طرح ہیں۔عبدالمالک اصمعی نے علم الحیونات پر پانچ کتب تصنیف کی ہیں۔

بائیو ٹیکنالوجی کا مفہوم:

بائیوٹیکنالوجی کی بہت سی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں۔سادہ تعریف کے مطابق:

 

“Commercialization of cell and molecular Biology” (سیل اور مالیکولر بیالوجی کی سوداگری)3

 

یونائیٹد سٹیٹ نیشنل سائنس اکیڈمی کے مطابق:

 

“Controlled use of biological agent like cell and cellular component for beneficial use”

 

بیالوجیکل ایجنٹ کا محفوظ استعمال جیسے سیل یا سیل کے حصے کا کسی فائدے کے لئے استعمال کرنا۔اس کا اطلاق روائتی اور غیر روائتی یعنی جدید بائیو ٹیکنالوجیزپر ہوتا ہے۔4

 

بائیو ٹیکنالوجی ایسی ٹیکنیکس کو ترقی دینا جو صنعتوں اور ادویات کی تیاری کیلئے حیاتیاتی طریقوں پر مبنی ہو،مثلاً اینٹی بائیوٹیکس اورشراب کی تیاری کیلئے بیکٹیریا اورفنجائی کا استعمال،یاعلم الحیات کی مدد سے ٹیکنالوجی اور ٹیکنالوجی کی مدد سےعلم الحیات کاسائنسی مطالعہ اسے فضائیات یا حیاتی ٹیکنالوجی بھی کہا جاتا ہے۔بائیولوجی عمل(Biological process)کا استحصال کرتے ہوئے اسے صنعتی یا کسی اور ضرورت کے لئے استعمال کرنا'خصوصاََ اینٹی بائیوٹکس ادویات تیار کرنے کیلئے مائیکرو آرگنزم کے جین کا استعمال کرنا مثلاَ۔ دوغلی نسلcross breading)) جو کہ بنیادی طور پر پودوں اور جانوروں کی مخلوط بارآوری۔

 

بائیو ٹیکنالوجی کے روزمرہ استعمال:

بائیو ٹیکنالوجی آج کل جن روزمرہ اشیاء میں استعمال ہو رہی ہیں درج ذیل ہیں جس سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے جس نے معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ صنعتی ترقی میں بھی بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔انڈسٹریل بائیو ٹیکنالوجی پیداوار ایک مشکل عمل کے بعد حاصل کی جاتی ہیں اور ایسا کرنے میں خامروں،ماڈیول اوربگزکےساتھ تعلق لازمی جزہےمگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے گھروں میں روزمرہ استعمال کی اشیا ء بائیو ٹیکنالوجی ہی کے اصولوں پر تیار ہی کی ہوتی ہیں۔ بائیو ٹیکنالوجی کی صنعتوں میں عام طور پر خامرے اور مائکروآرگنزم اور ان کی متعلقہ بنیادی اشیا ء ضرورت پیدا کی جاتی ہیں جیسے اشیائے خورد و نوش ،دھونے اور صفائی کا سامان، کاغذ ،ٹیکسٹائل اور بائیو ایندھن۔دورِحاضر میں بائیو ٹیکنالوجی کو پیداوار کو انتہائی اہمیت دی جا رہی ہے۔اس کے استعمال سے عوام الناس کے بڑے بڑے مسائل حل کئے جا سکتے ہیں مثلاََ آبادی میں اضافہ اور غذائی قلت۔اور کمیاب قدرتی وسائل کا بہترین استعمال جیسے مسائل۔ جو کی شراب الکحل اور مشروبات جیسے مالٹ وغیرہ۔بائیو ڈیزل،گنا،مکئی ،گندم،سرسوں،پام کے پتے اور چقندر سے حاصل کیا جاتا ہے۔بائیو ڈیزل جو کہ معدنی ڈیزل کا عمدہ اور محفوظ نعم البدل ہے اسی ٹیکنالوجی کا مرہون منت ہے۔گھریلو اشیا ء جیسے ڈیٹرجینٹ،کھانے کی اشیا ء اور کاسمیٹک وغیرہ بھی اسی ٹیکنالوجی کےذریعہ حاصل کئےجاتے ہیں۔چینی کی روائتی پیداوارغلہ اناج کےپودوں سےحاصل کی جاتی ہے۔ مگر پرانے طریقہ کے استعمال سے ساری کی ساری چینی نہیں نکالی جا سکتی بلکہ بہت سی چینی ان کے اندر ہی رہ جاتی ہے، بچی ہوئی چینی کوبائیو طریقہ سے حاصل کیا جاتا ہے۔ جو بصورت دیگروہ ضائع شدہ چارے ،زرعی باقیات ،جنگلی باقیات اور انسانی ضروریات کے بعد کی باقیات میں موجود ہونے کی صورت میں ضائع ہو جاتی ہے۔بائیو پلاسٹک جو کہ بائیو پولیمر سے حاصل کی جاتی ہےاو ر غذائی ترسیل کے لئے استعمال کی جاتی ہے،موبائل فون کے کیس،عینکیں،پن اور ذاتی استعمال کی اشیاء جیسے شیمپو اور کنڈیشنر بائیو پلاسٹک ہی کی شکلیں ہیں۔

 

کپڑوں کا استعما ل صدیوں سے ہو رہا ہےانہیں رنگنے میں بائیوٹیکنالوجی کے اصولوں کا استعمال لازمی جز ہے۔پولیسٹر پیٹرولیم سے مصنوعی طور پرتیارکیاہواکپڑاہےجوقالین،کمبلوں اوردوسرےطرح کےکپڑوں میں استعمال ہوتاہے۔کپڑارنگنےمیں بہت سےبائیوکیمیکل، نائلون اور پولیسٹر دراصل بائیو پیداوار ہی ہیں۔سیلولوز فائبر جاذب اور ٹھوس بنانے والی اشیا کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے جیسے بچوں کی نیپی اور سینیٹری وغیرہ۔

 

حیاتیاتی نظام اور آرگنزم کو استعمال کر کے نئے نظام تخلیق کرنا یا اشیا ء پیدا کرنا یا ان کی نوعیت کو تبدیل کر کے کسی خا ص مقصد کیلئے استعمال کرنا۔ جسکی عملی صورتوں میں کیڑے مار ادویات،کپاس کے اعلیٰ بیجوں کی تیاری، آلو کی اعلیٰ نسل،باجرہ کے بیج،سویا بین کے بیج،جانوروں کی ریسرچ،سٹیم سیل،دیمک ختم کرنے والی ادویات،اضافی پیداوار،بانجھ پن(human infertility) کے خاتمے کی ادویات،جانوروں کی بیماریاں،جڑی بوٹیوں پر تحقیق،جین میں تبدیلی،ہڈیوں کا علاج،اعلی ٰتمباکو کی کاشت ،کلونگ وغیرہ۔

 

علمی اصطلاح میں اس کی تعریف یوں کی گئی ہے:

 

Bio Technology is a branch of s science, which deals with the study of chemistry of life. This branch of science is relatively a new branch. The biochemistry is synthetic discipline containing biological sciences and organic chemistry. 5

 

بائیو ٹیکنالوجی سائنس کی ایک شاخ ہے جو زندگی کی کیمسٹری کے مطالعہ سے بحث کرتی ہے،یہ علم نسبتاَ نیا ہے۔ جب کہ بائیو کیمسٹری بائیولیجیکل سا ئنس اورنامیاتی کیمسٹری کا احاطہ کرتے ہوئے مصنوعی اشیاء کی پیداوار کا علم ہے۔

 

راجیشوری ایس سیٹھی نے اس کی توضیح یوں کی ہے:سادہ الفاظ میں بائیو ٹیکنالوجی،بیالوجی کے نظریات ہی پر قائم ایک علم ہے۔حقیقت میں یہ مالیکول اور سیل کے عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے ایسی تیکنیک اور اشیاء کو پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی ہے جو ہمارے کرہ زمین پر رہنے والوں کی صحت اور زندگی کے معیار میں اضافے کا سبب بنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔حیاتیاتی عمل کے تحت جراثیم کا استعمال 6000سے بھی پرانا ہے جس کے ذریعہ مفید اشیاء خورد جیسے ڈبل روٹی،پنیر اور محفوظ شدہ ڈیری اشیاء۔ بائیوٹیکنالوجی دراصل انڈسٹری اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سیل اور بیکٹیریا جیسےزندہ اجسام کا استعمال ہے۔6

 

’’بائیو ٹیکنالوجی‘‘کی اصطلاح بیسویں صدی سےپہلے بھی روزمرہ کے عوامل میں مروج تھی،جیسے دہی،پنیر،ڈبل روٹی کی تیاری اور جو کی شراب کشیدگی کے عمل کو تو آج ہی کی طرح بروئے کار لایاجاتا تھامگر وہ آج کی جدید اصطلاح’’بائیو ٹیکنالوجی‘‘استعما ل نہیں کی جاتی تھی۔پسندیدہ نسل کشی،پودوں کی کلونگ،پیوند کاری کو بائیو ٹیکنالوجی کے تناظر میں سمجھنے کا فقدان تھا۔خمیر کے عمل سے الکحل،انگور اور جو کی شراب،ڈیری کی اشیاءاور کچھ اقسام کے آرگینک تیزاب(Organic Acids)جیسے،سرکہ،لیموں کا تیزاب، امینو ایسڈ(Amino Acid) اور وٹامن(Vitamin)بنانے کے صدیوں پرانے طریقوں کو’’پرانی بائیو ٹیکنالوجی ‘‘یا’’روائتی بائیو ٹیکنالوجی‘‘کہا جا سکتا ہے۔خمیر کے عمل سے زندہ خرد اجسام(Living Microorganism) جن میں خمیر یا بیکٹیریاکو استعمال کرتے ہوئے مفید مرکبات یا اشیا ء بنائی جاتی تھیں۔جدید بائیو ٹیکنالوجی بھی زندہ خرد اجسام کو استعمال کرنے کا عمل روائتی بائیو ٹیکنالوجی ہی کی طرح سر انجام دیتی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا کہ کون سی چیز پرانی ٹیکنالوجی کو نئی ٹیکنالوجی میں بدلتی ہے۔یہ زندہ اجسام کو استعمال کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کام کے لئے ’’ٹیکنیک ‘‘کو بروئے کار لانے کی وجہ سے جدید ہے۔نئی ٹیکنک یعنی طریقہ کار کی ایجاد کی وجہ سے پرانی ٹیکنالوجی کا چہرہ ہمیشہ کے لئے تبدیل ہوگیا ہے۔ان جدید ٹیکنیکس کو’’سیل‘‘اور’’مالیکول‘‘پر ہی استعمال کیاجاتا ہےمگر جدید ٹیکنالوجی اس کام کو انتہائی باریک بینی اور اور بعینہ درست طریقہ پر عمل میں لانے کی وجہ بنی ہے۔مثال کے طور پر جنیٹک انجینئرنگ کی توسط سے کسی ایک سیل کے خواص کو کسی دوسرے جسم میں داخل کیا جا سکتا ہے۔7

 

بائیو ٹیکنالوجی،ایسی ٹیکنیکس کو ترقی دینا جو صنعتوں اور ادویات کی تیاری کیلئےحیاتیاتی طریقوں پر مبنی ہو،مثلاً اینٹی بائیوٹیکس اور شراب کی تیاری کیلئے بیکٹیریا اور فنجائی کا استعمال۔یاعلم الحیات کی مدد سے ٹیکنالوجی اور ٹیکنالوجی کی مدد سے علم الحیات کا سائنسی مطالعہ۔اسے فضائیات یا حیاتی ٹیکنالوجی بھی کہا جاتا ہے۔بائیولوجی عمل(Biological process)کا استحصال کرتے ہوئے اسے صنعتی یا کسی اورضرورت کیلئےاستعمال کرناخصوصاََ اینٹی بائیوٹکس ادویات تیارکرنےکیلئےمائیکروآرگنزم کےجین کااستعمال کرنامثلاَ دوغلی نسلcross breading)) جو کہ بنیادی طور پر پودوں اور جانوروں کی مخلوط بارآوری۔

 

بائیوٹیکنالوجی کی ضرورت'اہمیت اور افادیت:

آج زندگی کا ایسا کوئی میدان نہیں ہے جہاں بائیو ٹیکنالوجی کی ضرورت نہ ہو۔ کچھ کا ذکر اختصار کے ساتھ پیش ہے۔

 

1:پودوں میں خود کار مدافعتی نطام قائم کرنا۔

 

2:وائرس کے خلاف مدافعتی نظام پیدا کرنا۔

 

3:ٹماٹروں کے جلد خراب ہونے کے خلاف ایسا نظام قائم کرنا کہ کہ ان کی فصل جلد نہ پکے اور لنمبے عرصہ تک خراب نہ ہونے دیں۔

 

4:جانوروں پر ایسے تجربات کہ ان سے اعضا کی تبدیلی (Transplantation)کی خاطراعضا جیسےدل،گردے اور تلی وغیرہ کا حصول ممکن ہو سکے۔

 

5:چوزے اور ترکی پر جنیٹک انجنیئرنگ کے ذریعےبیماری کے خلاف ادویات کا حصول تجربات کے آخری مراحل میں ہے۔

 

6:مچھلی اور گھونگوں میں اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ایسے ہارمونز پیدا کئے ہیں جو ان کی بڑہوتری کو انتہائی تیز کر دیتے ہیں۔

 

7:ایسے درخت پیدا کئے جا رہے ہیں جو غذا کے قائم مقام ہوں گے۔

 

8:اس ٹیکنالوجی کی مدد سے کپڑا بھی بنایا جائے گا۔

 

9:ایسے کیڑے مکوڑےپیدا کئے جائیں گےجو فصل پر حملہ کرنے والے کیڑے مکوڑوں کو ختم کر دیں گے۔8

 

10:ایسے مائکرو آرگنزم پیدا کئے جائیں گے جو زرعی ادویات کا بہترین نعم البدل ہو گے۔9

 

مختلف شعبوں میں بائیو ٹیکنالوجی کی ضرورت کی اہمیت کے تحت اسے کئی اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔

 

بائیوٹیکنالوجی کی مزید اقسام

ریڈ بائیوٹیکنالوجی (Red biotechnology)

بائیو ٹیکنالوجی کی اس شاخ کا تعلق ادویات کی تیاری سے متعلق ہے۔جس میں آرگنزم کو اینٹی بائیوٹکس کی تیاری میں استعمال کرنا ہے۔

 

وائٹ بائیوٹیکنالوجی (White biotechnology)

اس گرے بائیوٹیکنالوجی بھی کہا جاتا ہے اور اس کا استعمال صنعتی عمل جس میں آرگنزم کو بائیو عمل سے گزار کر مفید ا شیا میں تبدیل کیا جاتا جب کہ بائیو عمل کے مقابلہ میں روائتی طریقہ زیا دہ مہنگا پڑتا ہے۔

 

گرین بائیوٹیکنالوجی :(Green biotechnology)

با ئیو ٹیکنالوجی کی اس شاخ کا استعمال زرعی عمل میں لا یا جاتا ہے ۔اس کی مثال آرگنزم کو مخصوص حالات کے تحت اگایا جاتا ہےجس کی مدد سے ماحول دوست پیداواری فصلوں کا اگانا ممکن ہوا۔اس کا ایک فائدہ روائتی جراثیم کش ادویات کے استعمال میں کمی کی صورت میں ہوا ۔اب سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ آیا بائیو ٹیکنالوجی کے متوقع استعمال سے ماحول کو زیادہ بہتر بنایا جاسکتا ہے؟ ۔

 

بلیوبائیوٹیکنالوجیBlue biotechnology))

اس ٹیکنالوجی کے زیر ِ اثر پانی او ر آبی حیات سے متعلق معاملات کی جدید خطوط پر تحقیق شا مل ہے۔تاہم اس میدان میں ٹیکنالوجی کا استعمال تا حال زیادہ نہیں ہو سکا۔

 

امریکا کی ایک بایئوٹیکنالوجی کمپنی نے کینسر کی تشخیص کرنے والی چیونگم ایجاد کرلی ہے جو مستقبل میں اس مقصد کیلئے طویل، پیچیدہ اور مہنگے ٹیسٹ کی ضرورت ختم کر دے گی۔الاباما (Alabama)کی بائیوٹیکنالوجی اسٹارٹ اپ نامی کمپنی نے ایسے مادّے تیار کیے ہیں جو بالکل چیونگم جیسے ہیں اور ان کی مدد سے فی الحال لبلبے، پھیپھڑے اور چھاتی کے سرطان کی تشخیص کی جاسکتی ہے۔

 

اخلاقیات اور دینی فکر پر اثرات:

1۔بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے پیدا کردہ فصلوں جن کو جنیٹیکلی ماڈیفائد فصلیں (Genetically Modified Crops)یا جی ایم

 

فوڈز بھی کہا جاتا ہے،میں موجود خصوصی اجزا ء جو صحت پر ممکنہ طور پر مفید اور کبھی کبھار نقصان دہ اثرات بھی مرتب کرتے ہیں۔مثال کےطور پر اگر آئرن کےاضافی اجزا کی موجودگی ان لوگوں کوجن میں آئرن کی کمی کا شکار ہیں فائدہ مند مگر اس کےبر عکس اگرحساسیت کے حامل جین کسی دوسری نوع میں سرایت کر گئے تو وہ حساسیت کے اثرات مرتب کریں گےلہذاایسے اثرات کا مصنوعات کو متعارف کرنے سے پہلے تجزیاتی چھان بین لازمی ہے۔ایسی پیداوار پر مخصوص خواص کی موجودگی ظاہر کرنے کیلئے اس پر تحریر شدہ پرچیاں چسپاں کرنی چائیں ۔آشیا ء پر مارکہ لگانا مذہبی اور ثقافتی نقطہ نظر سے بھی ضروری ہے کیو نکہ صارفین یہ جاننا ضروری سمجھتے ہیں کہ خوراک میں کیا کیا اجزا ء شامل کئے گئے ہیں اور کس طریقہ پر پیداوار حاصل کی گئی ہے۔تا کہ صحت کے مسائل سے بالا ترمیسر کی گئی اطلاعات کے مطابق اشیاءِ صرف کا انتخاب ممکن ہو سکے۔ 10

 

2۔آج کرہِ ارض کا درجہ حرارت انتہائی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔جس کے نتیجہ میں گلیشئر کا بے وقت پگھل کر پانے کے ضیاع کا باعث بنتا ہے۔صنعتوں کی وجہ سے فضا میں مضرِصحت گیسوں کا اخراج بے شمار بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔بائیو ٹیکنالوجی کے طریقوں کو اپنا کر ماحول کو انسان دوست بنایا جا سکتا ہے۔آلودگی سے پاک ماحول زندگی کے لئے اشد ضروری ہے۔

 

3۔انفرادی،قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئی گروہوں نےزینو ٹرانسپلانٹ Xenotransplantation کے بارے میں استفسار کیا ہے۔ زینو ٹرانسپلانٹ کے تحت سیل یا عضو کو مثلاَ لبلبہ،دل یا گردے کو کسی ایک نسل کے جاندار سے لے کر دوسری نسل کے جاندار میں استعمال کئے جاتے ہیں۔انسانی اعضاء کی کمیابی ایسے آپریشن جن میں اعضاء کی تبدیلی لازمی ہو بہت بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی تھی۔11

 

زینو ٹرانسپلانٹ اس مسئلے کے حل کے طور پر توسامنے آیا مگراس طریقہ کار میں سؤر کے اعضاء کا استعمال ہونے کی وجہ سے صحت کے بارے میں ایک مسئلہ سامنے آیا کہ سؤر کے جسم میں ایک بیماری کاحامل وائرس ہے جواس کے جسم سے انسانی جسم میں داخل ہو کر خطرناک بیماریوں کا سبب بنتا ہے-اس بات کاخطرہ ہے کہ یہ طریقہ علاج انسانوں میں ایسی بیماریاں پھیلانے کا موجب ہو سکتا ہے جو اس سے پہلے کبھی ظاہر نہیں ہوئیں۔ علاوہ اذیں مسلمان اور یہودی اس جانور کو نجس اور حرام سمجھتے۔12

 

4۔پوری دنیا میں لوگ بائیوٹیکنالوجی کےذریعےتیارکی گئی خوراک کھاناشروع کرچکےہیں جن میں دودھ،مکھن،پنیر،ٹافی بسکٹ، شراب،کولڈ ڈرنک،انڈے،گوشت،فروٹ،سبزیاںاور کئی دوسری اشیاء ِخورد ونوش شامل ہیں۔ان بائیو اشیا ء کے اثرات لوگوں پر فراوانیِ خوراک کی بناء پر صحت پر اچھے اور برے اثرات نتائج کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ان کے کھانے والے موٹاپے کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔13

 

5۔کلونگ میں صحت کے بہت بڑے مسائل کے پیش ِنظر انسانوں کے ساتھ یہ معاملہ کہ ماں اور بچے کی نشودونما میں پیچیدہ مسائل پیدا کر سکتا ہے۔اور اس کے ناکام ہونے کا بھی امکان موجود رہتا ہے۔صحت کے تخفظ کے علاوہ کلونگ سے کئی قسم کے معاشرتی مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں۔اس میں نفسیاتی کشمکش جب کہ بچے ما ں یا باپ کے ہم شکل ہوں گے۔جنیٹک انجنئرنگ کا تخریبی مقاصد کیلئے متوقع

 

استعمال خوف کی فضا پیدا کر سکتا ہے۔14

 

6۔ جنیٹک انجنئرنگ کے تحت انسانی جسم میں زندہ جراثیم کو داخل کیا جاتا ہے۔ جبکہ پرکشن (Percussion)یعنی خارج سےداخل کئے گئے جراثیم د اخلی جراثیم سے مل کر کیا حقیقی نتائج برآمد کریں گےکے بارے میں معلومات حاصل نہیں کی جا سکتیں۔اور اس کا پتہ بھی نہیں لگایا جا سکتا کہ جین کو کس مقام پر بھیجنا مقصود ہے۔اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ وہ ضروری جراثیم کو ختم ہی نہ کر دیں جس کی وجہ سے انسانی صحت میں مزید پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔جب صحت مند جین کو بیمار جین کے ساتھ تبدیل کیا جاتا ہے تو اس بات کا امکان بھی موجود ہےکہ اس سے کیس زیادہ نقصان کا باعث بن جائے۔15

 

7۔جنیٹک انجینئرنگ کی مصنوعات منفی اثرات بھی پیدا کر سکتی ہیں۔کچھ انسانوں اور پودوں میں حساسیت کے مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں،جن کی نشان دہی بھی ناممکن ہو سکتی ہے۔انسانوں اور دوسرے اجسام میں زہریلے اثرات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔یہ اثرات غیر متوقع انداز میں ظہور پذیر ہو سکتے ہیں۔16

 

8۔جراثیم کش ادویات کیلئے جنیٹک انجنیئرنگ جین کا استعمال بطور’’نشان لگانے والا‘‘(Selectable Marker)کے کرتی ہے۔ مگر یہ جین جسم کے اند بلا ضرورت بھی ٹھہرے رہتے ہیں۔یہاں تک کہ خوراک میں بھی شامل ہو کر صحت کے مسائل پیدا کرتے ہیں۔جراثیم کش ادویات کی جسم میں پہلے سے موجودگی بعد میں لی جانے والی دوا کو کم اثر بنا سکتی ہے۔17

 

9۔سٹیم کلچر کےتحقیق کے نتیجہ میں انسان کے نقص شدہ اعضا دوبارہ پیدا اور تبدیل(Transplant)کئے جا سکتے۔بلڈ میچنگ کی طرح ٹشو میچنگ بھی اس کیلئے لازمی امر ہےاور عام طور پر اعضا ء دوسرے جسم کو قبول نہیں کرتے لہذا بہتر ہے کہ جسم کے اعضاء اسی جسم میں نسب کئے جائے جس سے وہ حاصل کئے گئے ہیں۔بصورتِ دیگر صحت کے شدید مسائل پیدا ہو سکتے۔18

 

10۔اسلامی نقطہ نظر حلال اور طیب خوراک کا حکم دیتا ہے اور یہ کہ ضرر سے خود بھی بچا جائے اور دوسروں کو بھی بچایا جائے۔ ایسی غذائیں مسلم معاشروں میں عدم آگائی کی وجوہ پر استعمال کی جاتی ہیں اور صحت پر برے اثرات کی موجب ہوتی ہیں۔بائیو غذاؤں کے بارے میں حرام کا شبہ موجود رہتا ہے اور اخلاقی اقدار کی روگردانی کا ذریعہ بنتا ہے۔

 

11۔جنیٹک پیداوار کے عمل کے دوران اینٹی بائیوٹک بیکٹیریا کی کوڈنگ میں معمولی غلطی کی وجہ سے خوراک کے ذریعےجانداروں جسم میں ایسا بیکٹیریا داخل ہو سکتا ہے جو انسانی جسم کے مدافعتی بیکٹیریا کو ختم کر کے صحت کے انتہائی پیچیدہ مسائل پیدا کر سکتا ہے۔19

 

12۔صحت سے متعلق ادروں سے اپیل کی جاتی کہ جینیاتی یونٹوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ ماہر ڈاکٹر دستیاب ہو سکیں اور جینیاتی راہنمائی کے حوالے درست معلومات فراہم کر سکیں اور نئی نسل کی صحت بہتر ہو سکے۔

 

13۔اس انجینئرنگ کےتحت جانوروں کا بغیر چربی گوشت کا حصول ممکن ہے۔اس سلسلہ میں سؤر پر تجربات کر کے بغیر چربی کے گوشت حاصل کیا گیامگر اس گوشت کے کھانے سے جوبرے اثرات(Side effects)جیسے جنسی طاقت کا خاتمہ،جوڑوں کے درد،

 

مدافعتی نظام میں خرابی کی وجہ سے یہ لوگوں میں مقبول نہ ہو سکا۔تاہم اس ٹیکنالوجی پر مزید کام جاری ہے۔

 

14۔ مختلف قسم کی مصنوعات جیسے جیلی،ٹا فیاں،کیک اور طرح طرح کی کھانے کی اشیا ء تیار کی جاتی ہیں۔چونکہ سؤر کے گوشت میں

 

کولیجن زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے لہذا عام طور پر جلیٹن کے بنانے میں اسی کی اعضا استعمال ہوتے ہیں۔ترقی پذیر ممالک میں بھی جلیٹن بنایا جاتا ہے جس میں حرام اور مردار جانوروں کی ہڈیا ں بھی استعمال کی جاتی ہیں اور اسکی تیاری میں حفظانِ صحت کے اصولوں کو بھی مدِ نظر نہیں رکھا جاتا جو کہ مضرِ صحت بھی ہو سکتا ہے۔

 

15۔جی ایم فوڈ کے معاملے میں انسانی صحت کےبارے میں شدید خطرات کا شبہ بہر حا ل موجود ہے۔جی ایم فوڈ کے سامنےآنے سے دو باتیں بطور خاص سامنے آئی ہیں کہ یہ صحت کیلئے کس قدر مضر اور ماحول کیلئےکتنے نقصان دہ ہیں۔جیسےیورپ میں جی ایم فصلوں اور کھانے کو آہستہ آہستہ متعارف کیاجا رہا ہے اسی طرح یورپی عوام اس ٹیکنالوجی کے اپنی صحت پر پڑنے واے اثرات کے مضمرات کو جاننے کیلئے اپنے تحفظات کو بھی سامنے لاتے رہتے ہیں۔

 

16۔انسانی جسم کیلئےمطلوبہ غذائی ضرورت کا حصول انتہائی اہم معاملہ ہے۔صحت مند افراد فعال قوم یامعاشرے کو جنم دیتے ہیں۔ مغربی یا ترقی یافتہ اقوام کا ضروری غذائی پروٹین تک رسائی کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے جب کہ ترقی پذیر ممالک میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ لہذا غذائیت کی یہ کمی بائیو طریقو ں سے پوری کی جا سکتی ہے۔

 

اس ٹیکنالوجی کو تسلیم کرنے کی راہ میں اور بھی کئی اعتراضات موجود ہیں۔ان اعتراضات میں اس ٹیکنالوجی کا اخلاق سے بے راہ روی کا مرتکب ہونے کے علاوہ اس بات سے عدم واقفیت کہ دراصل بائیو ٹیکنالوجی حقیقت میں کیا کر سکتی ہے۔ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ایک دفعہ جس جین کو تبدیل کر دیا جائے تو پھر وہ اپنی سابقہ حالت میں واپس نہیں لایا نہیں جا سکتا۔آر ڈی این اے(rDNA) پر عوامی ردِ عمل بھی دوسرے معاملات کے ساتھ خلط ملط ہو گیا ہے۔جین کی تبدیلی کے ذریعے ادویات کی پیداوار کو سراہا گیا ہے مگر ساتھ ہی یہ شک بھی ابھرتا ہے ہے کہ ان کی وجہ سے پھیلی ہوئی انفکشن پوری دنیا کیلئے وبال بن سکتی ہے۔جیسا کہ انسانی جین کو غیر انسانی جین کے ساتھ ملانے کے نتیجہ میں جو پیداوار وجود میں آئے گی وہ جزوی طور پر انسان مانی جائے گی۔یہاں ایک اخلاقی نوعیت کا سوال بھی پیدا ہوتا ہےمثال کے طور پر کہ کتنے فیصد انسانی جین کسی جسم میں شامل ہونا ضروری ہیں؟ اور کتنی مقدار میں شامل ہوں کہ انہیں بغیر متلی کے کھایا جا سکے۔انسانی جین ٹماٹروں اور مرچوں کی بہتر افزائش کیلئے استعمال ہو رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ بہ یک وقت ایک آدمی سبزی اور گوشت خور ہو سکتا ہے۔اسی طرح ایک گوشت خور،سؤر اور انسانی گوشت کو ایک ساتھ کھائے گا۔ اور ان انسانی سپرم کا کیا کیا جائے گا جو چوہوں سے جنیٹک انجنیئرنگ کے ذریعے حاصل کئے جاتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی نسل کی نفسیاتی کیفیت کیا ہو گی۔جنیٹک طریقے سے پیدا کردہ’’بووین سوماٹو ٹروپن‘‘(Bovine Somatotropin)جو دودھ دینے والے جانوروں کو دودھ میں اضافے کےمقصد کیلئے انجکشن کے ذریعے اس کے جسم میں داخل کیا جاتا ہے اور پھر و ہی دودھ انسان پیتے ہیں ،کیا اثرات مرتب کرے گا۔اور غالب امکان ہے کہ اس دوا کے استعمال سے گائیوں کے تھنوں میں ورم،انفکشن،لنگڑا پن اورشرح پیدائش میں کمی کے وسیع امکانات ہو سکتے ہیں۔ٹرانسجینک پودے بھی الرجی کو دوسرے پودوں میں منتقل کرنے کا باعث ہو سکتے ہیں۔ایک اور بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ حاملہ عورتیں جب ٹرانسجینک غذا کھاتی ہیں تو پیدا ہونے والے بچے کے تکمیلی مراحل میں پیچیدگیاں اور اس کے قدرتی جین از خود تبدیلی پیدا کرنے کا باعث ہو سکتے ہیں۔2002میں نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی ایک رپورٹ میں انسانی کلونگ کی بندش کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ جانوروں کی کلونگ میں صحت کے بہت بڑے مسائل کے پیش ِنظر انسانوں کے ساتھ یہ معاملہ ماں اور بچے کی نشودونما میں مسائل پیدا کر سکتا ہے۔

 

آب وہوا پر اثرات کے اخلاقی پہلو:

آج کرہِ ارض کا درجہ حرارت انتہائی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔جس کے نتیجہ میں گلیشئر کا بے وقت پگھل کر پانی کے ضیاع کا باعث بنتا ہے۔صنعتوں کی وجہ سے فضا میں مضرِصحت گیسوں کا اخراج بے شمار بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔بائیو ٹیکنالوجی کے طریقوں کو اپنا کر ماحول کو انسان دوست بنایا جا سکتا ہے۔آلودگی سے پاک ماحول زندگی کیلئے اشد ضروری ہےجس کیلئے کوشش کرنا اخلاقی قدروں میں سے ایک ہے۔

 

نجی معلومات اور پوشیدہ رازوں تک رسائی:

ڈی این اے کے بارے میں یہ تخفظات بھی ہیں کہ ڈی این اے کے بارےمعلومات حاصل کرنے کے بعد آجر،انشورنس کمپنیاں اور حکومتی ادارے لوگوں کو بلیک میل کرنا شروع کردیں اور یوں معاشرے میں بد اخلاقی کا ایک نیا راستہ کھل جائے گا۔

 

بائیو ذراعت کے اسلامی افکار پر اثرات:

بائیو ذراعت اور بائیو کھانوں کے معاملے میں مذہبی طبقات خصوصاََ مسلمان اور رومن کیتھولک چرچ نے اپنا نقطہ نظر پرزور طریقہ پر پیش کیا ہے۔مسلمان سکالر سائنس اور مذہب کو لازم ملزوم سمجھتے ہیں،اسلام معاشرے کے مفید اور جائز سائنسی ایجادات کو تسلیم کرتا ہے۔جہاں شک کا عنصر پایا جاتا ہو وہاں فقہی اصول و ضوابط سے شرعی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔بائیو ذراعت او ربائیو کے وہ کھانے جو اسلام کی حلال اور حرام کی کسوٹی اور شرعی حلال و طیب کے قوانین پر پورے اترتے ہوں انہیں کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ملائشیا کے علماء نے باقاعدہ ایک فتویٰ جاری کیا ہے کہ جی ایم اوز کھانے جن میں سؤر کا ڈی این اے شامل کر کے تیار کیا گیا ہے مسلمانوں کے لئے مطلقاََ حرام ہیں۔20

 

بائیو خوراک کے اسلامی افکار پر اثرات:

جڑی بوٹیوں اور پھپو ندی کے خاتمہ کیلئے فصلوں پر ایک دوا چھڑکی جاتی ہے جس کو بنانے میں کاپر دھات کا استعمال ہوتا ہےجو چھڑ کاؤ کے وقت پانی اور مٹی میں جذب ہو جاتی ہے،لیکن اس کے باقیات کا اثر اجناس میں بھی سرایت کر جاتا ہے جو لوگوں اور مائیکروب کے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ایسی ہی ایک روٹینان (Rotenone)نامی دواء کے انسانوں'جانوروں اور مچھلی پر خطرناک اثرا ت کا ذکر کیا گیا۔ادویات کے ایسے خطرناک اثرات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے امریکہ نے روٹینان دوا کے استعمال پر پابندی عائد کر دی۔ اسلامی نقطہ نظر حلال اور طیب خوراک کا حکم دیتا ہے اور یہ کہ ضرر سے خود بھی بچا جائے اور دوسروں کو بھی بچایا جائے۔ ایسی غذائیں مسلم معاشروں میں عدم آگائی کی وجوہ پر استعمال کی جاتی ہیں اور صحت پر برے اثرات کی موجب ہوتی ہیں اور یوں مسلم معاشرے کسمپرسی کا شکار رہتے ہیں۔21

 

بائیو ادویات کے اسلامی افکار پر اثرات:

حیاتی تنوع مندی اور اور حیاتی نظام(Impact on Biodiversity and the Ecosystem) 22

 

کوئی بھی نئی ٹیکنالوجی دینی افکار کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتی'زندگی میں تغیرات ایک فطرتی عمل ہے۔بائیو ٹیکنالوجی آج کے تغیرات میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔اس کے نفس مضمون سے عیاں ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ادویات کی صنعت میں بیکٹیریا کو جانوروں کے جسم میں داخل کر کے پودوں پر بائیو تحقیق کے طویل مدتی اثرات کا اندازہ فی الحال نہیں لگایا جا سکتا،یوں تبدیل شدہ جنیٹک اجسام،مائیکروآرگنزم کے قدرتی ماحولیاتی نظام میں داخل ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں،جس کے نتیجہ میں ماحولیاتی نظام درہم برہم ہو کر خشکی اور تری پر فساد برپا کر سکتا ہےاور حیاتی تنوع مندی کا خاتمہ ہو سکتا ہے،جس کا نتیجہ جنگ سے بھی بھیانک ہو سکتا ہے۔قرآن کریم حیاتی نظام کے لئے ایک مقام پر ’’بحر و بر ‘‘کا ذکر موجود ہے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

 

ظہرالفساد فی البر والبحر23

 

ترجمہ: خشکی اور تری پر فساد برپا ہو گیا۔

 

اندیشہ ہے کہ کہیں یہ ٹیکنالوجی جس کی بعض ایجادات جو مذہبی اور اخلاقی حدود و قیود کی پابند نہیں دنیا میں فساد کا سبب نہ بن جائیں۔زمین کی اصلاح اللہ تعالی ٰ کی اطاعت میں مضمر ہےاور پھلوں اور اناج کا نقصان دراصل انسان کے گناہوں کی وجہ سے ہے ۔ اللہ کے نافرمان زمین کو پھاڑنے والے ہیں۔24

 

بائیو تشخیص کے آلات اور ٹیسٹ کے طریقہ کار کےاسلامی افکار پر اثرات:

ڈی این اے کی ایجاد کے سبب کئی ایسی بیماروں کا علاج اور بیماریوں کے ایسے آلات اور طریقہ کارایجاد ہوئے جن کا پہلے سرے سے وجود ہی نہ تھا ۔ ان کے کئی جزیات اسلامی افکار سے ٹکراؤ کی کیفیت پیدا کرتے دکھائی دیتےجن کو علماء عرب اور علماء ہند نے زیرِ غور لایا اور اپنی قیمتی آراء کا فقہی نقطہ نظر سے مباحث کو پیش کیا۔مثلاَ ٹیسٹ کے ذریعہ نسب کا تعین و اثبات، قاتل کی شناخت،زنا کا اثبات،شادی سے قبل موروثی بیماریوں کی نشان دہی،جنین میں جسمانی اور ذہنی نقائص،آئندہ نسل میں پیدائشی نقائص کے امکانات کا تعین ۔سٹیم سیل سے اعضاء کی تیاری اور علاج،انسانی سٹیم سیل اورحیوانی جسم میں مطلوبہ اعضاء کی پیوند کاری اور ا نسانی جسم میں پیوند

 

کاری اورکلچر کی مدد سے ادویات کا حصول وغیرہ۔

 

اسلام کے پختہ اورمحفوظ قوانین جو کہ ماکولات و مشروبات یا علاج معالجے سے متعلق ہیں،ان کو نظر انداز کر کےٹیکنالوجی

 

سےاخذ کرنا درست نہ ہو گا۔اسلام چونکہ ایک متحرک دین ہے اور کئی دوسرے ادیان کی طرح جامد نہیں ہے۔بدلتے حالات اور واقعات کا ایک جائز راستہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ان تمام مسائل کےحل کےفقہی اصول و قواعد و ضوبط اور اجتہاد کا راستہ ہمیشہ رہنمائی کی اہلیت لئے ہوئے ہے۔اسلام حاجت اور ضرورت کے تحت جدت اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہےاسی بناء پر اہلِ علم نے ان موضوعات پر اپنی تحقیقات کے ذریعے انسانیت کی بالعموم اور امتِ مسلمہ کی با لخصوص حقیقی رہنمائی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

 

حوالہ جات
1 حمید عسکری،نامور مسلم سائنسدان،مجلس ترقی ادب،لاہور،1922ء،ص37-39

 

2 عریب بن سعد،خلق الجنین و تدبیر الحبالی والمولدین الجزائر منشورات کلیۃ الطب والصیدلیۃ با لجزائر،1965

 

3ابن مسکویہ(942-1030ء) ابو علی احمدبن محمد بن یعقوب،ماہرِِ حیاتیات اور طب،اخلاقیات اور روحانیات کا محقق اور مفکر سمجھا جاتا تھا۔

 

4جابر بن حیان(721-815)'بابائے کیمسٹری،جائے پیدائش ایران اور متوفی کوفہ،ماہر ادویات اور پہلا عملی کیمسٹ کہلایا۔

 

5الفارابی(872-951)اصل نام ابو نصر محمد الفارابی،ماہرِ طب،طبیعات،اسلامی فلسفہ کے میدان میں ارسطو کے بعد دوسرا بڑا معلم سمجھا جاتا ہے۔

 

6Sally Smith Hughes, Making Dollars out of DNA: The First Major Patent in Bio-technology and the Commercialization of Molecular Biology, 1974-1980, Isis-92, No-3, USA, sep2001.

 

7A.J.Nair, Principles of Biotechnology, Laxmi publication, New Delhi, 2007, p-61

 

8Firdos Alam Khan, Biotechnology Fundamentals, 2nd ed,CRC Press,India,2017,P-xii

 

9Rajeshwary S.Sethi, Biotechnology, Newage International Publications, New Dehli, 2003, P-3

 

10A.J.Nair, Introduction to Biotechnology and G.Engg,Infinity Press,N,Dehli,2008,p-3

 

11Muhammad Abubakr, The roll of Biotechnology in improvement of livestock, p-23, Springe

 

12Reinhard Renneberg, Biotechnology for beginners, Elsevier, Academic press, 2007, P-xii

 

13Woorld Health organization,Modren Food Technology, WHO, Publication, Geneva, 2005, P-11-24

 

14Joachim Denner, Xenotransplantation-Progress and problems: A review, Journal of

 

Transplantation Technology and Research, 2014, Vol -4 Issue -2, P-1

 

15Joachim Denner, Xenotransplantation-Progress and problems: review, Journal of

 

Transplantation Technology and Research, 2014, Vol -4 Issue -2, P-1

 

16Safety of Genetically Engineered Food, National Research Council and Institute of

 

Medicine of the National Acadimies, USA, 2004

 

17Leon Kass ,the Ethic of Human cloning, Aei Printing, USA, June 1998

 

18Joachim Denner, Xenotransplantation-Progress and problems: A review, Journal of

 

Transplantation Technology anf Research, 2014, Vol -4 Issue -2, P-1

 

19Safety of Genetically Engineered Food, Executive summary, The National Academies, Press, USA. 2004, p1-3

 

20Anita Bakshi article, Potential Adverse Health Effects of Genetically Modified Crops, 2011

 

21Satyajit Patra, Araromi Adewale Andrew, Human, Social, and Environmental Impacts of Human Genetic Engineering, journal of bio medic science, Vol.3, No.1:5, 2015.

 

22Anita Bakshi article, Potential Adverse Health Effects of Genetically Modified Crops, 2011

 

23Proceedings: International Workshop for Islamic Scholars on agribiotechnology, Sharia compliance. Georgetown, Penang, Malaysia Biotechnology Centre (MABIC) 2010.And Malaysia International Service for Acquisition Service of Agri-Biotech Applications (ISAAA), Laguna Philippine.

 

24Vajalaxmi Kinhal Article, Negative Effects of Organic Farming

 

25بائیو تنو ع مندی یا بائیو ڈائیورسٹی:جانوروں اور پودوں کی مختلف قسمیں جو دنیا یامختلف علاقوں میں پائی جاتی ہیں،جن کی موجودگی اس علاقہ میں لازمی سمجھی جاتی ہیں اور جو اس بات کی ضمانت ہیں انہی کی وجہ سے انسانی زندگی کی بقاء ہے۔جغرافیائی اثرات بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ایکوسسٹم:حیاتی اور غیر حیاتی عناصر کے مابین برادری یاتعلق کو کہا جاتا ہےجیسے ہوا،پانی،معدنی زمین اور انسان کا ایک پیچیدہ اور باہمی جڑا ہوا نظام ہے۔

 

26الروم 41:30

 

27 تفسیر ابنِ کثیر،پارہ 21،سورۃ الروم،ص608

حوالہ جات

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...