Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

بچے کی تعلیم و تربیت میں کردارِ ولی کے عصری تقاضے |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060029185_616

Pages

56-67

DOI

10.51411/rahat.3.1.2019.55

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/55/352

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/55

Subjects

Guardian children behavior education Islamic thoughts guardian children behavior education Islamic thoughts

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلام ولی کی زیرنگرانی افراد کی پرورش کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کے بھی اصول و ضوابط وضع کرتا ہے جن کے تحت نہ صرف بچوں کی پرورش بلکہ ان کے اخلاق و عادات کو بھی اعلی اوصاف سے مزین کرنے کا اہتمام کیاگیا ہے۔ان اعلی اوصاف میں ان کی تعلیم و تربیت حضانت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اہم مقصد قرار دیا گیا ہے لہذا ذیل میں تفصیل کے ساتھ زیر حضانت افراد کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ولی(Guardian)کے کردار کا ذکر کیاجاتا ہے۔

 

زیر حضانت افراد کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے درج ذیل اعتبارات سے بطور خاص بحث کی جا سکتی ہے:

 

1۔آداب کی تعلیم

 

2۔مذہبی تعلیمات پر عمل کی ترغیب

 

3۔ لکھائی پڑھائی کی تربیت

 

4۔عمومی اور فنی تعلیم کا انتظام

 

والدین میں سے ایک کے پاس حضانت ہو تو پھر دوسرے کو اس بچے سے ملاقات وزیارت کی اجازت اور سہولت دی جاتی ہے تاکہ والدین مل کر ان کی تربیت کر سکیں۔والدین کی براہ راست نگرانی متوازی اور بھرپور پرورش کیلئے ضروری ہے۔یہ صورت مطلقہ خواتین کی اولاد کی ہے جبکہ یتیم بچوں کی حضانت میں ولی اس خلاء کو پُر کرنے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔سو زیر حضانت بچوں کی تعلیم و تربیت چونکہ ولایت کے بنیادی فرائض میں سے ہے لہذااس حوالے سے کتاب وسنت اور فقہی مذاہب کی روشنی میں بحث کی جائے گی۔

 

کتاب و سنت:

کتاب و سنت میں زیر حضانت بچوں کی تعلیم و تربیت کے باب میں اہم ضوابط کا ذکر حسب ذیل ہے:

 

1۔قرآن حکیم میں اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچانے کا حکم یوں دیا گیا ہے:

 

یٰٓاَیَّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا[1]

 

ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ۔

 

امام جصاص اور امام ابن العربی کے نزدیک اس سے مراد اہل وعیال کی تعلیم وتربیت کرناہے تا کہ وہ جہنم کی آگ سے محفوظ رہ سکیں[2]۔امام جصاص کے الفاظ حسب ذیل ہیں:

 

ھذا یدل علی أن علینا تعلیم أولادنا وأھیلنا الدین والخیر و مالا یستغنی عنہ من الادب[3]

 

ترجمہ:یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہمارے اوپر اپنی اولاد اور گھر والوں کی تعلیم،دین،بھلائی اور ضروری آداب سکھانا لازم ہے۔

 

2۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی حدیث کے مطابق مرد وعورت اپنی اولاد کے نگران ہیں۔رسول اللہ ﷺ کے الفاظ ہیں:

 

والرجل راعٍ علی اہل بیتہ وھومسؤل عنھم والمراۃ راعیۃ علی بیت بعلھا وولدہ وھی مسؤلۃ عھنم[4]

 

ترجمہ:اور مرد اپنے گھر والوں پر نگران ہے اور وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اسکی اولادپر نگران ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔

 

سو جس طرح مرد وعورت اپنی رعایا کی بہت سے امورمیں نگرا نی کرتے ہیں اسی طرح ان کی تعلیم وتربیت بھی ان کے ذمے ہے۔امام جصاص اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:

 

فکذلک علیہ تأدیبہ و تعلیمہ[5]

 

ترجمہ:سو اسی طرح اس پر اس کی تعلیم وتربیت لازم ہے۔

 

3۔رسول اللہ ﷺ نے سات سال کی عمر میں بچے کو نمازپڑھنے کا حکم دیا۔ امام ابو داؤد کے الفاظ حسب ذیل ہیں:

 

مرواالصبی بالصلوۃ إذابلغ سبع سنین وإذا بلغ عشر سنین فاضربوہ علیھا[6]

 

ترجمہ:بچے کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور جب وہ دس سال کا ہو تو نماز کی ادائیگی کیلئے اسے مارو۔

 

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کی روایت کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں:

 

وفرقوابینھم فی المضاجع[7]

 

ترجمہ:اور(دس سال کی عمر میں)ان کو بستروں سے جدا کردو۔

 

یہ حکم بھی ان کو آداب سکھانے کیلئے دیا گیا ہے۔امام جصاص بچے کو نماز کے حکم پر مشتمل حدیث کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں:

 

فمن کان سنہ‘ سبعاً فھومأمور بالصلاۃ علی وجہ التعلیم والتأدیب[8]

 

ترجمہ:سو جس کی عمر سات سال ہو اس کو تعلیم وتادیب کے طور پر نمازپڑھانے کا حکم دیا گیا ہے۔

 

4۔حضرت جابر بن سمرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

لأن یؤدب الرجل ولدہ خیر من یتصدق بصاع[9]

 

ترجمہ:یہ کہ باپ کا اپنے بیٹے کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔

 

اس راویت کے مطابق اپنی اولاد کی اچھی تعلیم وتربیت صدقہ وخیرات سے بہتر قراردی گئی ہے۔

 

5۔امام ترمذی ایک اور حدیث بیان کرتے ہیں جس میں والد کی طرف سے اولاد کیلئے بہترین تحفہ حسن ادب قرار دیا گیا ہے۔

 

مانحل والد ولدًا من نحل افضل من ادب حسن[10]

 

ترجمہ:کوئی والد اپنی اولاد کو اچھے ادب سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں دے سکتا۔

 

اس سے معلوم ہوا کہ کتاب وسنت کے مطابق اپنی اولاد کو تعلیم دلوانا،دین سکھانا،بھلائی کی باتیں اور ضروری آداب سکھانا والدین کی ذمہ داری ہے۔ اس تعلیم وتربیت کو والدین کی طرف سے اولاد کے حق میں بہترین تحفہ اور صدقہ و خیرات سے بہترعمل قرار دیا گیا ہے۔

 

فقہی مذاہب:

آئندہ صفحات میں زیر حضانت افراد کی تعلیم و تربیت کو فقہی مذاہب کی روشنی میں بیان کیا جائے گا:

 

احناف:

احناف کے نزدیک زیر حضانت افراد کی تعلیم و تربیت کے باب میں ولی کے کردار کے ضوابط حسب ذیل ہیں:

 

1۔خواتین ابتدائی عمر میں بچوں کی تربیت کیلئے زیادہ موزوں اور مناسب ہیں۔امام کاسانی کے الفاظ حسب ذیل ہیں:

 

والأصل فیھا النساء لأنھن اشفق وارفق واھدی إلی تربیۃ الصغار[11]

 

ترجمہ:اور حضانت میں اصل حق خواتین کا ہے کیونکہ وہ زیادہ شفیق،رحم دل اور بچوں کی تربیت کیلئے ہدایت یافتہ ہے۔

 

اس سے معلوم ہوا کہ بچوں کو ابتدائی عمر میں خواتین کی تربیت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے ان کو حضانت کا زیادہ حقدار قرار دیا گیا ہے۔

 

2۔بچی بلوغت تک ماں کی حضانت میں رہے گی تاکہ خواتین کے آداب واخلاق اور گھر کی خدمت کی تعلیم دی جا سکے۔امام کاسانی کے الفاظ یہ ہیں:

 

وھذا المعنیٰ لایو جد فی الجار یۃ تترک فی ید الام بل تمس الحاجۃ الی الترک فی یدھاإلی وقت البلوغ لحاجتھا إلی تعلیم آداب النساء والتخلق بأخلاقھن وخدمۃ البیت[12]

 

ترجمہ:اور یہ معنی بچی میں نہیں پایا جاتا سو اس کو ماں کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا بلکہ اسے خواتین کے آداب،ان کے اخلاق اپنانے اور گھر کی خدمت کی تعلیم کی حاجت کے سبب بلوغت تک ماں کے پاس چھوڑنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

 

سو بچیوں کو خواتین کے آداب و اخلاق اور گھر کی خدمت سکھانا ان کی تربیت کا لازمی حصہ ہے اور یہ تربیت خواتین ہی بہتر انجام دے سکتی ہیں۔

 

3۔جب بچہ خود کھانے پینے کی عمر(سات سال)کو پہنچ جائے تو اسے آدمیوں کے اخلاق و آداب سیکھنے اور علم حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔امام مرغینانی اور امام کاسانی نے اس کو بیان کیا ہے[13]۔امام کاسانی کے الفاظ یہ ہیں:

 

لأن الغلام إذا إستغنی یحتاج إلی التادیب والتخلق بأخلاق الرجال وتحصیل أنواع الفضائل وإکتساب أسباب العلوم والأب علی ذلک أقوم وأقدر[14]

 

ترجمہ:کیونکہ بچہ جب(کھانے، پینے اور پہننے سے)مستغنی ہو جائے تو وہ ادب سکھانے،آدمیوں کے اخلاق،مختلف اقسام کے فضائل اخلاق کے حاصل کرنے اور علوم کے اسباب کے حصول کی محتاجی ہوتی ہے اور باپ اس پر زیادہ قادر ہے۔

 

اس سے ثابت ہوا کہ سات سال کے بعد بچے کو آدمیوں کے اخلاق اور علوم کے اسباب(تعلیم کے بنیادی امور)سکھانا باپ کی ذمہ داری ہے۔

 

4۔باپ زیر حضانت بچوں کو تجارتی،صنعتی اور فنی علوم سکھانے کیلئے ان سے اجارہ کروا سکتے ہیں۔امام جصاص فرماتےہیں کہ:

 

وأن یواجرہ ممن یعلمہ الصناعات والتجارات ونحوھا لأن جمیع ذلک قدیقع علی وجہ الاصلاح[15]

 

ترجمہ:اور یہ کہ وہ اس(زیر حضانت بچے)سے ایسا اجارہ کروائے جس سے وہ صنعت اور تجارت وغیرہ کو جان سکے کیونکہ یہ تمام امور اصلاح کیلئے ہوتے ہیں۔

 

امام کاسانی بچے کو ہنر سکھانے کے حوالے سے فرماتے ہیں:

 

إن فی إیجارہ فی الصنائع من باب التہذیب والتادیب والریاضۃ[16]

 

ترجمہ:بلاشبہ فن اور کاریگری کے کام میں بچے کو اجارہ کروانا اسے مہذب بنانے،اس کی تربیت کرنے اور جسمانی ورزش کے باب میں سے ہے۔

 

لہذا عصری تقاضوں کے مطابق بچے کی ذات کا اجارہ مختلف انواع کی ٹیکنیکل اور فنی مہارت کے حصول کیلئے ضروری ہے۔

 

شوافع:

شوافع کے نزدیک زیر حضانت افراد کی تعلیم وتربیت کے باب میں ولی کے کردار کے ضابطے حسب ذیل ہیں:

 

1۔بچہ ماں کو اختیار کرے تو ماں، باپ کو اس کی تادیب سے نہیں روک سکتی۔امام شافعی کے الفاظ یہ ہیں:

 

فإن إختار أمہ فعلی أبیہ نفقتہ ولا تمنع من تادیبہ[17]

 

ترجمہ:سو اگر وہ اپنی ماں کو اختیارکرے تو اس کے باپ پر نفقہ لازم ہے اور وہ اس کے باپ کو اس کی تادیب سے منع نہیں کرے گی۔

 

امام شافعی اس کی مزید وضاحت یوں کرتے ہیں:

 

ویخرج الغلام إلی الکتاب والصناعۃإِن کان من أہلھا ویاوی عندامہ[18]

 

ترجمہ:اور وہ (باپ) بچے کو کتابت اور کاریگری سکھانے کیلئے لے کر جائے گا،اگر وہ اس کا اہل ہو، اور وہ اپنی ماں کے پاس رہے گا۔

 

امام نووی ولی پر زیر حضانت بچے کی تعلیم وتادیب کو واجب قرار دیتے ہیں۔ان کے الفاظ یہ ہیں:

 

تادیبہ وتعلیمہ واجب علی ولیہ اباً کان أوجدًا أو وصیاً أوقیماً[19]

 

ترجمہ:اس کی تادیب اور تعلیم اس کے ولی پر واجب ہے خواہ وہ باپ ہو یا دادا یا وصی یا منتظم۔

 

سو مختصراً یہ کہ بچے کے ماں کو اختیار کرنے کی صورت میں بھی باپ پر بچے کی تعلیم وتربیت لازم ہے۔

 

2۔اگر بچہ اپنے باپ کو اختیار کرے تو باپ اسے اس کی ماں کی زیارت سے منع نہیں کر سکتا۔امام شافعی کے الفاظ یہ ہیں:

 

وإِن أختار أباہ لم یکن لأبیہ منعہ من أن یاتی أمہ وتاتیہ فی الایام[20]

 

ترجمہ:اور اگر بچہ اپنے باپ کو اختیار کرے تو اس کے باپ کیلئے اس کو اپنی ماں کے پاس آ نے سے منع کرنا جائز نہیں اور اس کی ماں اس کے پاس دِن کے اوقات میں آئے گی۔

 

امام شیرازی اس کی وجہ کو یوں بیان کرتے ہیں:

 

لأن المنع من ذلک إغراء بالعقوق وقطع الرحم فإن مرض کانت الأم أحق بتمریضہ[21]

 

ترجمہ:کیونکہ اس سے منع کرنا نافرمانی اور رشتہ داری کو ختم کرنے پر ابھارنا ہے سو اگر وہ بیمار ہو جائے تو ماں اس کی عیادت کرنے کی زیادہ حقدار ہے۔

 

اس سے معلوم ہوا کہ بچہ ماں سے ملاقات کر سکتا ہے اور ماں اس سے ملاقات کر سکتی ہے تا کہ ماں کی شفقت بھی میسر آ سکے۔

 

3۔اگر بچی ہو تو اس کی ماں کو اس کے پاس آنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔اور اگر ماں بیمار ہو تو بچی عیاد ت کیلئے جائے گی۔امام شافعی فرماتے ہیں:

 

وإن کانت جاریۃ لم تمنع أمھا من أن تاتیھا ولا أعلم علی أبیھا إخراجھا ملیھا إلا مِن مرض فیؤ مربإخراجھا عائدۃ[22]

 

ترجمہ:اور اگر بچی ہو تو اس کی ماں کو اس کے پاس آنے سے منع نہ کیا جائے اور میں اس کے باپ پر بچی کو اس کی ماں کے پاس لے جانے کا علم نہیں رکھتا سوائے بیماری کے کہ ماں کی عیادت کیلئے اسے وہاں لے جانے کا حکم دیا جائے گا۔

 

4۔امام ماوردی کے مطابق اگر بچی اپنی ماں کو اختیار کرے تو رات دِن بچی کی حقدار ہے کیونکہ بچی حیا دار ہوتی ہے۔سو اس کا باہر نکلنا منع ہے تا کہ اس کی حفاظت ہو سکے اور اس کے باپ کیلئے اس کی زیارت جائز ہے تا کہ آپس میں الفت و محبت قائم ہو۔ملاقات کے وقت زیادہ دیر نہیں ٹھہرے گا مگر زیارت کے وقت محرم مرد یا ثقہ خواتین ہوں تا کہ طلاق ہونے کے بعد خلوت کے شک کی نفی ہو سکے[23]۔بچی کیلئے دونوں صورتوں میں والدین کی ملاقات کی اجازت سے ان کی بہتر تربیت ممکن ہے۔

 

حنابلہ:

حنابلہ کے نزدیک زیر حضانت افراد کیلئے تعلیم وتربیت کے باب میں ولایت کے کردار کے ضوابط حسب ذیل ہیں:

 

1۔بچی کو کاتنے اور پکانے کی گھر میں تعلیم کا اہتمام کیا جائے گا۔امام ابن قدامہ کے الفاظ یہ ہیں:

 

إذا کانت الجاریۃ عند الأم أوعند الأب فإنھا تکون عندہ لیلاً ونھارًا لأن تادیبھا وتخریجھا فی جوف البیت من تعلیمھا الغزل والطبخ وغیرھا ولاحاجۃ بھا الی الاخراج منہ[24]

 

جب بچی ماں یا باپ کے پاس ہو تو وہ اس کے پاس دِن رات رہے گی کیونکہ اس کو ادب سکھانا اور ٹریننگ دینا گھر کے اندر ہوتا ہے جیسے کاتنا،پکانا وغیرہ اور اس کیلئے اسے گھر سے باہر لے جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

 

اس سے معلوم ہوا کہ بچی گھر کے امور میں مہارت حاصل کرے گی۔اس ضمن میں وہ بطور خاص سلائی (Tailoring) اور پکائی(Cooking)کے متعلقہ علوم حاصل کرے تا کہ وہ عملی زندگی میں کامیاب ہو سکے۔

 

2۔والدین میں سے کسی ایک کے پاس بچی ہو تو دوسرے کو زیارت سے منع نہیں کیا جائے گا۔امام ابن قدامہ کے الفاظ یہ ہیں:

 

ولایمنع أحد ھما من زیارتھا عند الاخر من غیر أن یخلو الزوج بامھا ولا یطیل[25]

 

ترجمہ:اور ان دونوں میں سے ایک دوسرے کو اس بچی کی زیارت سے منع نہیں کرے گی بغیر اس کے کہ خاوند اس کی ماں کے ساتھ خلوت(علیحدگی اور تنہائی) میں نہ رہے اور نہ وہ زیادہ دیر قیام کرے۔

 

اس کے بعد مزید فرماتے ہیں:

 

وإِن مرضت فالام أحق بتمر یضھا فی بیتھا[26]

 

ترجمہ:اور اگر وہ بیمارہو جائے تو ماں اس کے گھر میں اس کی تیمارداری کی زیادہ حقدار ہے۔

 

ان عبارات سے حسب ذیل ضابطے ثابت ہوئے:

 

1۔والدین میں سے ایک کو دوسرے کیلئے بچی کی زیارت کی اجازت۔

 

2۔خاوند کا اپنی مطلقہ بیوی کے ساتھ تنہائی سے اجتناب۔

 

3۔خاوند کیلئے اس کے ہاں طویل قیام کی ممانعت۔

 

4۔بچی بیمار ہو تو ماں تیمارداری کی زیادہ حقدار۔

 

3۔بچہ سات سال کے بعد اپنے اختیار کے ساتھ ماں کے پاس ہو تو ماں کے پاس رات کے وقت ہو گا اور دِن کے وقت باپ مدرسے یا انڈسٹری میں لے جائے گا۔امام ابن قدامہ کے الفاظ یہ ہیں:

 

کان عندھا لیلاً وےأخذہ الأب نھارًا لیسلمہ في مکتب أوفي صناعۃ[27]

 

ترجمہ:وہ بچہ اس(ماں)کے پاس رات کو ہو گا اور باپ دِن کے وقت اسے لے گا تاکہ اسے مدرسے یا انڈسٹری میں چھوڑ سکے۔

 

اس سے معلوم ہوا کہ بچہ ماں کے پاس ہو تو باپ اس کی عمومی تعلیم یا فنی تعلیم کا انتظام کرے گا۔

 

4۔اگر بچہ سات سال کے بعد باپ کے پاس ہو تو دِن رات اس کے پاس رہے گا مگر اسے ماں کی زیارت سے نہیں روکے گا۔المغنی میں ہے:

 

ولایمنع من زیارۃ أمہ لأن منعہ من ذلک إغراء بالعقوق وقطعےۃ الرحم وإن مرض کانت الأم أحق بتمریضہ فی بیتھا[28]

 

ترجمہ:اور وہ(باپ)اس کو اپنی ماں کی زیارت سے نہیں روکے گا کیونکہ اسکا منع کرنا نافرمانی اور رشتہ داری ختم کرنے پر ابھارنا ہے اور اگر بیمار ہو تو ماں اپنے گھر میں اس کی تیمارداری کی زیادہ حقدار ہے۔

 

5۔والدین میں سے کسی ایک کے بیمار ہونے یا وفات پانے پر آنے سے بچی اور بچے کو منع نہیں کیا جائے گا۔المغنی میں ہے:

 

وإِن مرض أحد الأبوین عند الاخر لم یمنع من عیاد تہ وحضورہ عند موتہ سواء کان ذکرًا أوانثی[29]

 

ترجمہ:اور اگر والدین میں سے کوئی بیمار ہو جائے اور بچہ دوسرے کے پاس ہو تو اس کو عیادت سے منع نہیں کیا جائے گا اور اس کی موت کے وقت حاضر ہونے سے بھی منع نہیں کیا جائے گا خواہ وہ مذکر ہو یا مؤنث۔

 

ان عبارات سے درج ذیل امور ثابت ہوئے:

 

1۔عصری تقاضوں کے مطابق اولیاء کیلئے بچے اور بچی کی تعلیم اور فنی مہارت کا اہتمام۔

 

2۔والدین کے ساتھ ملاقات وزیارت کا انتظام۔

 

مالکیہ:

مالکیہ کے نزدیک زیر حضانت بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے ولی کا کردار حسب ذیل ہے:

 

1۔بچہ ماں کی حضانت میں ہو تو باپ دِن کے وقت تادیب وتعلیم کا انتظام کرے گا۔امام سحنون فرماتے ہیں:

 

قال مالک یؤدبہ بالنھار ویبعثہ إلی الکتاب وینقلب إلی أمہ بالیل فی حضانتھا ویؤدبہ عندامہ[30]

 

ترجمہ:امام مالک نے فرمایا وہ دِن کے وقت اس کو ادب سکھائے اور اس کو کاتبوں کے پاس بھیجے اور وہ رات کو ماں کی حضانت میں چلا جائے اور وہ اس کو اس کی ماں کے پاس ادب سکھائے۔

 

اس سے معلوم ہوا کہ بچہ ماں کی حضانت میں ہو تو باپ دِن کے وقت ادب سکھائے اور لکھائی کا فن بھی سکھانے کا انتظام کرے گااورزیر ولایت افراد کی تعلیم وتربیت اور پرورش کے اخراجات ان کے مال سے ادا ہوں گے۔اگر ان کے پاس مال نہ ہو تو جن کے ذمے اس کا نفقہ ہے ان پر حضانت کے اخراجات لازم ہوتے ہیں،جیسے کہ سابقہ اوراق میں اس کا جائزہ فقہی آراء کی روشنی میں لیا گیا۔

 

بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے اس تمام بحث کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

 

1۔کتاب وسنت میں بچوں کی تعلیم وتربیت کو والدین پر لازم قرار دیا گیا ہے۔

 

2۔مذاہب اربعہ کے مطابق بچوں کی تربیت،مردوں کے آداب کی تعلیم، کتابت کی ٹریننگ نیز تجارت(Commerce) اور صنعت(Industry)جیسی فنی تعلیم(Technical education)زیر ولایت افراد کو دلوانا اولیاء کے فرائض میں سے ہے۔

 

3۔بچیوں کی تربیت،خواتین کے آداب نیز ان کو گھریلو امور جیسے کاتنے اور پکانے کی مہارت سکھانا بھی اولیاء پر لازم ہے۔

 

4۔والدین میں سے کسی ایک پاس بچہ یا بچی ہو تو دوسرے کو اس سے ملاقات کی اجازت ہو گی تاکہ ممکنہ حد تک بچے کی بہتر تربیت ممکن ہو سکے۔

 

مروجہ قوانین:

زیر حضانت بچوں کی تعلیم و تربیت کا گارڈینز اینڈ وارڈز ایکٹ میں یوں ذکر ہے:

 

And must look to his support, health and education.[31]

 

ترجمہ:اور ولی(اپنے زیر حضانت بچے کی)مدد،صحت اور تعلیم کا ضرور خیال رکھے۔

 

عدالتی فیصلہ جات:

عدالتی فیصلہ جات میں بھی حضانت کے حق کا فیصلہ بچوں کی بہبود کے حوالے سے ہوتا ہے اور ان کی بہبود میں بنیادی اہمیت ان کی تعلیم وتربیت کو حاصل ہوتی ہے۔اس حوالے سے بعض فیصلہ جات حسب ذیل ہیں:

 

1۔مسز روبیہ گیلانی بنام ظہور اختر راجہ کیس سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس اجمل میاں،جسٹس منور احمد مرزا اور جسٹس چوہدری محمد عارف کی عدالت میں پیش ہوا۔ان کے تینوں بچے(عمر،حارث،خالد)نو سال سے زائد عمر کے تھے اور باپ کی حضانت میں تھے مگر لارنس کالج مری میں بچوں کی تعلیم کے سبب اپنی والدہ سے دور تھے۔اس لیے ماں سے ملاقات ممکن نہ تھی لہذا ماں کیلئے حضانت کا مطالبہ کیا گیا مگر فاضل عدالت نے اچھی تعلیمی سہولیات کے سبب باپ کے حق میں حضانت کا فیصلہ کیا۔اس کا ذکر فیصلے میں یوں کیاگیاہے:

 

Thus, considering the broad details of the present case and background of circumstances we have no doubt that respondent by educating the children at Lawrence College Murree is providing them proper educational facilities, therefore, it would not be fair to disturb the right of respondent regarding their custody.[32]

 

ترجمہ:یوں موجودہ کیس اور حالات کے پس منظر کی مکمل تفصیلات پر غور کرتے ہوئے ہمیں کوئی شک نہیں ہے کہ مدعا علیہ کے ذریعے بچوں کو لارنس کالج مری میں تعلیم دلوانا مناسب تعلیمی سہولیات مہیا کرنا ہے۔اس لیے مدعا علیہ کے حق میں حضانت کے اعتبارسے خلل ڈالنا مناسب نہیں ہے۔ٍٍاس فیصلے میں بنیاد ان بچوں کی بہتر تعلیم کو قرار دیا گیا ہے۔اس فیصلے میں مزید بچے کے کردار کی تکمیل کا ذکر یوں کیا:

 

However, we simultaneously feel that character of the child is not fully developed in the absence of maternal affection.[33]

 

ترجمہ: تاہم بیک وقت محسوس کرتے ہیں کہ ماں کی محبت وشفقت کے بغیر بچے کے کردار کو مکمل طور پرپروان نہیں چڑھایا جاسکتا۔

 

اس لیے عدالت نے ان بچوں سے ماں کی ملاقات کا حسب ذیل شیڈول وضع کیا۔

 

1۔بچے موسم گرما اور سرما کی تعطیلات کے دوران لاہور میں اپنی والدہ کے ساتھ رہیں گے۔

 

2۔ماں کالج کے پرنسپل سے اجازت لے کر مہنیے میں ایک بار کالج میں بچوں سے ملاقات کر سکے گی۔

 

2۔مسز اسلم خاتون بنام محمد منیر کیس لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس سید نجم الحسن کاظمی کی عدالت میں پیش ہوا۔اس میں نو سالہ بچے اور آٹھ سالہ بچی کی حضانت کا معاملہ تھا۔دونوں بچے لاثانی کیڈٹ پبلک سکول میں پڑھ رہے تھے۔مناسب تعلیم اور اچھی صحت کے سبب ماں کو حضانت کا حق دیا گیا۔اور باپ کیلئے ہر مہینے کے پہلے اور آخری سوموار عدالتی حدود اور عدالتی اوقات کے دوران بچوں سے ملاقات کی اجازت ہو گی[34]۔

 

3۔مسز نسیم کوثر بنام سلیم وغیرہ کیس لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس عبد الشکور پراچہ کی عدالت میں پیش ہوا۔یہ محمد عاقب سلیم کی حضانت کا کیس تھا،اس فیصلے میں ماں کو حضانت کا حقدار قرار دیا گیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ باپ کی نسبت ماں زیادہ بچے کی بہبودکی دیکھ بھال کر سکتی ہے کیونکہ باپ سپیئر پارٹس کی دوکان پر زیادہ وقت صرف کرنے کے سبب اسے زیادہ وقت نہیں دے سکے گا۔یوں بچے کو تمام وقت سوتیلی ماں کے پاس گزارنا پڑے گا۔عدالت نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ گارڈین جج باپ کی اپنے بچے کے ساتھ ملاقات کا پندرہ روزہ شیڈول بنائے گا اور اسکے علاوہ عید کی تعطیلات،موسم گرما اور موسم سرما کی تعطیلات کے دوران بھی ملاقات کا انتظام کرے گا[35]۔

 

ان عدالتی فیصلہ جات سے درج ذیل امور ثابت ہوئے:

 

1۔حقِ حضانت کیلئے بہتر تعلیم وتربیت کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور عام طور پر اسی بنا پر حضانت کا فیصلہ ہوتا ہے کیونکہ یہ حضانت کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔

 

2۔والدین میں سے کسی ایک کے پاس حضانت ہو تو دوسرے کو اس بچے سے ملاقات کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ بچے کو ماں باپ کی محبت و شفقت کے ساتھ ساتھ تحفظ کا احساس بھی حاصل ہو اور یوں ان کے کردار کی ممکنہ حد تک تکمیل ہو سکے۔

 

اس بحث سے معلوم ہوا کہ کتاب وسنت،مذاہب اربعہ اور مروجہ قوانین کے مطابق زیر ولایت افراد کی بہتر تعلیم وتربیت اولیاء پر لازم ہے۔عدالتی فیصلہ جات میں بھی بچوں کی بہتر تعلیم وتربیت کو حضانت کے استحقاق کیلئے اہم حیثیت حاصل ہوتی ہے نیز عدالتی فیصلہ جات میں والدین میں سے کسی ایک کے پاس حضانت کی صورت میں دوسرے کے لیے ملاقات کے باقاعدہ شیڈول کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

 

نتائجِ بحث:

1۔کتاب وسنت کے مطابق بچوں کی تعلیم وتربیت والدین پر لازم ہے۔مذاہب اربعہ اور عصری تقاضوں کے مطابق بچوں کی تربیت،مردوں کےآداب،کتابت کی ٹرنینگ نیزتجارت(Commerce)،صنعت(Industry)جیسی فنی تعلیم (Technical Education) اولیاء پر لازم ہے۔

 

2۔عصری تقاضوں کے مطابق بچیوں کی تربیت،خواتین کےآداب،گھریلوصنعت ودیگرامورجیسےبنائی(Knitting)،سلائی (Tailoring)اورپکانےکی مہارت سکھانا بھی اولیاء پر لازم ہے۔

 

3۔والدین میں سے کسی ایک کے پاس بچہ یا بچی ہو تو دوسرے کو اس سے ملاقات کی اجازت ہو گی تاکہ ممکنہ حد تک بچے کی بہتر تربیت ممکن ہو سکے۔

 

4۔ مروجہ قوانین میں بھی زیر حضانت افراد کی تعلیم اولیاء کے فرائض میں سے ہے نیز عدالتی فیصلوں میں بھی بچوں کی تعلیم وتربیت کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔علاوہ ازیں والدین میں سے کسی ایک کے پاس حضانت ہو تو دوسرے کو بچوں سے ملاقات کے باقاعدہ شیڈول کا اہتمام کیا جاتا ہے تا کہ ان کی تربیت کی تکمیل ہوسکے۔

حوالہ جات

  1. التحریم66 :6
  2. جصاص، ابو بکر احمد بن علی رازی،احکام القرآن،قدیمی کتب خانہ،کراچی،ج3،ص697 ؛ابن العربی،ابوبکرمحمد بن عبداللہ ، احکام القرآن،دار احیاء التراث العربی،بیروت،لبنان،ج4،ص275
  3. جصاص،احکام القرآن،ج3،ص697
  4. مسلم بن حجاج قشیری،الجامع الصحیح،کتاب الامارۃ،باب فضیلۃ الامیر العادل وعقوبۃ الجائر والحث علی المرفق بالرعیۃ، قدیمی کتب خانہ کراچی،طبع دوم، 1375ھ، رقم الحدیث1829، ج2،ص122
  5. جصاص،احکام القرآن،ج3،ص697
  6. ابو داؤد،سلیمان بن اشعث،السنن،کتاب الصلوٰۃ،باب متی یؤمر الغلام بالصلوۃ،مکتبہ امدادیہ،ملتان،رقم الحدیث494 ،ج1،ص77
  7. ایضاً،رقم الحدیث495، ج1،ص77
  8. جصاص،احکام القرآن،ج1،ص552
  9. ترمذی،ابوعیسیٰ محمدبن عیسیٰ،ا لجامع،ابواب البروالصلۃ،باب ما جاء فی ادب الولد،اسلامی کتب خانہ،دیوبند،بھارت،1985ء،رقم الحدیث1951، ج2،ص16
  10. ایضاً،رقم الحدیث1952، ج2،ص16
  11. کاسانی،علاء الدین ابو بکر بن مسعود،بدائع الصنائع،مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ،ج3،ص456
  12. ایضاً،ج3،ص459
  13. مرغینانی،علی بن ابی بکر،الھدایۃ،مکتبہ رحمانیہ،لاہور،2/440 ؛کاسانی،بدائع الصنائع،ج3،ص459
  14. کاسانی،بدائع الصنائع،ج3،ص459
  15. جصاص،احکام القرآن،ج2،ص452
  16. کاسانی،بدائع الصنائع،ج4،ص21
  17. شافعی،محمد بن ادریس،الام،داراحیاء التراث العربی،بیروت،لبنان،1422ھ/2001ء،ج6،ص301
  18. ایضاً، ج6،ص304
  19. نووی،ابو زکریا یحییٰ بن شرف،روضۃ الطالبین،دارالکتب العلمیہ،بیروت،لبنان،1421ھ/2000ء،ج6،ص511
  20. شافعی،کتاب الام،ج6،ص304
  21. شیرازی،ابو ااسحاق ابراہیم بن علی بن یوسف،المھذب،تحقیق:دکتور محمد الزحیلی،الدار الشامیۃ،بیروت،لبنان،الطبعۃ الاولی،1417ھ،ج4،ص650
  22. شافعی،کتاب الام،ج6،ص304
  23. ماوردی،ابو الحسن علی بن محمد بن حبیب بصری،کتاب النفقات،دار ابن حزم،ص270
  24. ابن قدامہ،عبداللہ بن احمد بن محمد بن قدامہ،ا لمغنی،دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1414ھ/1994ء،ج7،ص413
  25. ایضاً
  26. ایضاً
  27. ایضاً
  28. ایضاً
  29. ایضاً
  30. سحنون،عبدالسلام بن حبیب تنوخی،المدونۃالکبریٰ، دارالفکر، بیروت، لبنان،1419ھ /1998ء،
  31. Saghir Ahmad, Guradians and wards Act, 1890, Mansoor Book House, Lahore / 9532
  32. Abdul Halim, Sheikh, The Supreme Court Monthly Review(S.C.M.R.), Church Road, Lahore. Edi.1999.p:1836
  33. S.C.M.R., 1836،1999
  34. Malik Muhammad Saeed, The Monthly Law Digest (M.L.D.), 35-Nabha Road, Lahore, Edi.2000,p:1216
  35. M.A Zafar, Shariat Law Reports(S.L.R.), Justice Jameel Hussain Rizvi Road, Lahore, Edi.2004,p:40
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...