Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 1 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

تقریری حدیث: تعارف، اہمیت و حجیت |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060029185_688

Pages

35-51

DOI

10.51411/rahat.1.2.2017.13

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/13/309

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/13

Subjects

Hadith importance legal status Islam

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تقریری حدیث کے لغوی معنی :

"تقریر"عربی زبان کالفظ ہےجوتفعیل کےوزن پرہےاور"اقرار"سےماخوذجس کے معنی موافقت اور رضامندی کےہیں۔اللہ تعالی کافرمان ہے:( أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ)[1] کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نےعرض کیا : ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔لسان العرب میں ہےکہ:

الإِقرارُ الإِذعانُ للحق والاعترافُ به أَقَرَّ بالحق أَي اعترف به وقد قَرَّرَه عليه وقَرَّره بالحق غيرُه حتى أَقَرَّ[2] .

اصطلاحی معنی:

حدیث کی وہ قسم جس میں حضورﷺ کے سامنے صحابہ کرام میں سے کسی کا کوئی عمل یا فعل ہوا ہو اور آپﷺ نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی ہو یا اپنے ارشاد سے یا اشارے سے تائید فرمائی ہواورآپﷺنےاسکی ممانعت نہ فرمائی اور نہ ہی اسے ناجائز کہا ہو اسے تقریری حدیث کہتےہیں۔امام الشوکانی تقریری حدیث کی تعریف اسطرح کرتے ہیں کہ:

"وصورته أن يسكت النبي ﷺعن إنكار قول قيل بين يديه أو في عصره وعلم به. أو "يسكت" عن إنكار فعل فعل بين يديه أو في عصره وعلم به، فإن ذلك يدل على الجواز وذلك كأكل العنب بين يديه"[3]۔یعنی نبی کریمﷺ کی خاموشی و عدم ممانعت ہے کسی بات پر جو آپﷺکے سامنے کی گئی یا آپﷺکے زمانے میں کی گئی اور آپﷺ کو اس کا علم بھی ہو یا آپﷺ کی عدم ممانعت ہے کسی کام پر جو آپﷺکے سامنے ہوا یا آپﷺکے زمانے میں ہوا اور آپﷺکو اس کا علم بھی ہوتو یہ اس کے جواز کی دلیل ہے جیسے آپﷺکے سامنے انگوروں کا کھایا جانا۔

امامالزرکشی تقریری حدیث کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:وَصُورَتُهُ أَنْ يَسْكُتَ النبي عليه السَّلَامُ عن إنْكَارِ قَوْلٍ أو فِعْلٍ قِيلَ أوفُعِلَ بين يَدَيْهِ أو في عَصْرِهِ وَعَلِمَ بِهِ فَذَلِكَ مُنَزَّلٌ مَنْزِلَةَ فِعْلِهِ في كَوْنِهِ مُبَاحًا إذْ لَا يُقِرُّ على بَاطِلٍ[4]۔یعنی اس کی شکل یہ ہے کہ کوئی بات یا عمل جو نبی کریم ﷺکے سامنے ہوا یاآپﷺ کی زمانے میں ہوا ، اور آپﷺ کو اس کا علم ہو گیا توآپﷺنے اس کے منع کرنے سےرکے رہے تو ایسا کام گویا آپﷺہی کا کام ہے اور وہ مباح ہے کیونکہ آپﷺکسی غلط کام کو برقرار نہیں رکھ سکتے"۔

عبد اللہ بن یوسف الجدیع نے تقریری حدیث کی تعریف اس طرح کی ہےکہ:

سنة تقريرية المقصودُبها:سكوتُ النَّبيِّﷺوتركُهُ الإنكارَعلى قولٍ أوفعلٍ وقعَ بحضْرتِهِ،أوفي غيبتِهِ وبلغَه،أوتأكيدُهُ الرِّضابإظهارِالاستِبشَارِبهِ أو استِحسَانِهِ[5]۔ یعنی کوئی بات یاعمل جو نبی کریم ﷺ کے سامنے ہوا یاآپﷺکی عدم موجودگی میں ہوا،مگر آپﷺکو اس کاعلم ہوگیاتوآپﷺنے اس پر خاموشی اختیار فرمائی ہو یاآپﷺ کا کسی قول وفعل پر اظہار مسرت فرمانا اور تاکیدی رضامندی و اطمینان کا اظہار فرمانا۔

تقریری حدیث کے ارکان:

تقریری حدیث کے تین ارکان ہیں:

اول: وہ کسی صحابی کاقول یا فعل ہو۔

دوم:یہ قول یا فعل نبی کریمﷺکے علم میں ہو۔

سوم: نبی کریم ﷺنے اس قول یا فعل پر اپنے ارشاد سے ،یا خاموش رہ کر ،یا اظہار مسرت کے ساتھ موافقت فرمائی ہو۔

امام الزرکشی نے ابن السمعانی کا یہ قول نقل کیا ہےکہ:

إذَا قال الصَّحَابِيُّ كَانُوا يَفْعَلُونَ كَذَا وَأَضَافَهُ إلَى عَصْرِ النبي ﷺ وكان

مِمَّا لَا يَخْفَى مِثْلُهُ حُمِلَ على الْإِقْرَارِ وَيَكُونُ شَرْعًا لنا[6]۔یعنی جب صحابی یہ کہے کہ وہ ایسا کیا

کرتے تھے اور نبی کریم ﷺکے دور کی طرف نسبت کرے اور وہ عمل پوشیدہ بھی نہ ہو تو اس پرآپﷺ کی رضامندی کا اطلاق ہو گا اور ہمارے لئے تشریعی حیثیت کا حامل ہو گا۔

==تقریری حدیث کی مختلف اقسام:==# قول کے ذریعے تائید فرمانا:

 

صحیح بخاری میں حدیث ہےکہ سلمان ﷛نے ابودرداء﷛سے کہا تیرے رب کا تجھ پر حق

ہے اور تیری جان کا تجھ پر حق ہے اور تیرے بچوں کا تجھ پر حق ہے اس لئے ہر مستحق کا حق ادا کر۔ پھر نبی اکرم ﷺکے پاس آئے اور آپ ﷺسے یہ بیان کیا تو نبی اکرم ﷺنے فرمایا سلمان ﷛نےسچ کہا[7]۔

(2) عمل کے ذریعے تائید فرمانا:

اس کی ایک مثال نبی اکرمﷺکا مچھلی کا گوشت تناول فرمانا ہے۔ جابر ﷛کہتے ہیں: ہمیں نبی اکرمﷺنے ابو عبیدہ ﷛کے ساتھ ایک سریے (فوجی مہم) میں بھیجا، ہمارا زاد سفر ختم ہو گیا، ہمارا گزر ایک مچھلی سے ہوا جسے سمندر نے باہر نکال پھینکا تھا۔ ہم نے چاہا کہ اس میں سے کچھ کھائیں تو ابو عبیدہ ﷛نے ہمیں اس سے روکا، پھر کہا: ہم نبی اکرمﷺکے نمائندے ہیں اور اللہ کے راستے میں نکلے ہیں، تم لوگ کھاؤ، چنانچہ ہم نے کچھ دنوں تک اس میں سے کھایا، پھر جب ہم نبی اکرمﷺ کےپاس آئےتو ہم نےآپ کو اس کی خبر دی،آپ نےفرمایا:اگرتمہارے ساتھ (اس میں سے)کچھ باقی ہوتواسےہمارےپاس بھیجو[8] صحیح بخاری میں یہ الفاظ ہیں(فَأَتَاهُ بَعْضُهُمْ فَأَكَلَهُ) رسولِ کریم ﷺ کو اس گوشت میں سے کچھ دیا گیا تو آپ ﷺنے اسے تناول فرمایا [9]۔

(3) خاموش رہ کر تائید فرمانا:

سیدنا قیس بن عمرو ﷛کہتے ہیں کہ: رَأَى رَسُولُ اللَّهِﷺ ؤ رَجُلًا يُصَلِّي بَعْدَ

رَكْعَتَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «صَلَاةُ الصُّبْحِ رَكْعَتَانِ»،فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنِّي لَمْ أَكُنْ صَلَّيْتُ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا فَصَلَّيْتُهُمَا الْآنَ،فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِﷺ[10]یعنی نبی اکرمﷺنے ایک آدمی کو صبح کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے دیکھا تو فرمایا : ”صبح کی نماز تو دو رکعت ہے“اس آدمی نے جواب دیا میں نے فرض نماز سے پہلے کی دو رکعتیں نہیں پڑھی تھیں ، لہذا اب پڑھی ہیں۔ نبی اکرمﷺیہ جواب سن کر خاموش ہو گئے۔

(4) مسکرا کر تائید فرمانا:

سیدنا عمرو بن العاص ﷛بیان کرتے ہیں کہ غزوہ ذات سلاسل میں مجھے ایک ٹھنڈی رات احتلام ہو گیا ، مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا تو ہلاک ہو جاؤں گا ، چنانچہ میں نے تیمم کر لیا اور اپنے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھائی ، انہوں نے یہ واقعہ نبی اکرمﷺکی خدمت میں ذکر یا تو آپؐ نے پوچھا ”اے عمرو ، کیا تو نے جنبی ہوتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی جماعت کرائی تھی ؟ “ میں نے بتایا کہ کس وجہ سے میں نے غسل نہیں کیا تھا اور میں نے یہ بھی کہا کہ میں نے اللہ کا فرمان سنا ہے «ولاتقتلوا أنفسكم إن الله كان بكم رحيما»”اپنے آپ کو قتل نہ کرو ، اللہ تم پر بہت ہی مہربان ہے “ تو نبی اکرمﷺ ہنس پڑے اور کچھ نہ کہا[11]۔

(5) کسی صحابی کا یہ کہنا کہ ہم نبی اکرمﷺکے زمانے میں ایسا کیا کرتے تھے: حضرت جابر ﷛کی حدیث جو صحیح بخاری و مسلم میں مروی ہے، کہتے ہیں کہ:«كُنَّا نَعْزِلُ وَالقُرْآنُ يَنْزِلُ» "ہم عزل کیا کرتے تھے جبکہ قرآن نازل ہو رہا تھا[12]۔

تقریری حدیث کی اہمیت:

اللہ تعالی کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا نبی کریم ﷺ کی سب سے اہم ذمہ داری تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہےکہ:(يَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ)[13]آپ نےیہ کامامربالمعروف اورنہی عن المنکر کےذریعےسرانجام دیا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے (الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ)[14] امر بالمعروف اور نہی وعن المنکر کےفریضے کو اللہ تعالی نے امت پر بھی واجب کیا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: كُنْتُمْ خَيْرَأُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر[15] اور جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ تم میں سے جوشخص برائی کو دیکھے تو چاہیےکہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے روک دے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہوتو پھر اپنی زبان سے روکے ، اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہوتو وہ دل میں برا جانے ، یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے[16] ۔تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جو چیز امت پر واجب ہو نبی کریم ﷺاسے سر انجام نہ دیں۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ آپ کے سامنے کوئی غلط کام ہوا ہو اور آپ ﷺنے اس سے منع نہ کیا ہو اور اس پر خاموش رہے ہوں۔ چنانچہ آپ ﷺ کی بعثت کے وقت عربوں میں بہت سی عادات اور طور و طریقے مروج تھے ، ان طور طریقوں میں سے جس چیز کو آپ ﷺنے خلاف شریعت پایا اسکی ممانعت فرمادی اور جس طریقے کے کسی جزو میں کسی اصلاح کی گنجائش ہوئی تو نبی کریمﷺنے اس جزو کی اصلاح فرمادی اور باقی امور جن میں کسی اصلاح کی گنجائش نہ تھی ان کو ویسے ہی رہنے دیا اور صحابہ کرام ان امور کو نبی کریم ﷺکے سامنے کرتے رہے ان سب امور کو حدیث تقریری کہتے ہیں۔

تقریری حدیث کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے امام ابن القیم ؒ فرماتے ہیں:

فكنقلهم إقراره لهم على تلقيح النخل وعلى تجاراتهم التي كانوا يتجرونها وهي على ثلاثة أنواع تجارة الضرب في الأرض وتجارة الإدارة وتجارة السلم فلم ينكر عليهم منها تجارة واحدة وإنما حرم عليهم فيها الربا الصريح ووسائله المفضية إليه أو التوسل بتلك المتاجر إلى الحرام كبيع السلاح لمن يقاتل به المسلم وبيع العصير لمن يعصره خمراوبيع الحريرلمن يلبسه من الرجال ونحوذلك مما هو معاونة على الإثم والعدوان وكإ قرارهم على صنائعهم المختلفة من تجارة وخياطة وصياغة وفلاحة وإنماحرم عليهم فيهاالغش والتوسل بهاإلى المحرمات و كإقرارهم على إنشاد الأشعار المباحة وذكر أيام الجاهلية والمسابقة على الأقدام[17]یعنی(حضورؐ) نے کھجور کا پیوند لگانا برقرار رکھا، تینوں قسم کی تجارتیں برقرار رکھیں، زمین میں چل پھر کر تجارت، ادارہ کی تجارت، ادھار کی تجارت، ان میں سے کسی تجارت پر آپ ﷺنے انکار نہیں فرمایا، ہاں سود کو منع فرمایا ، جو وسائل سودی ہوں ،جو چیزیں سود تک پہنچانے والی ہوں ، ان سب سے روک دیا جو تجارت کسی حرام کام کا ذریعہ بنتی ہو اس سے روک دیا مثلا اس کے ہاتھ ہتھیار بیچنا جو مسلمانوں سے برسر پیکار ہو ، شیرہ اس کے ہاتھ بیچنا جو اس سے شراب بنائے ،ریشم ان مسلمان مردوں کے ہاتھ بیچنا جو اسے اپنے پہننے کے لئے لے رہے ۔غرض گناہ اور زیادتی کے کاموں پر کسی کی مدد جس تجارت سے ہوتی ہو اس سے آپﷺنے منع فرما دیا لوگوں کی مختلف قسم کی صنعتوں کاروبار،سلائی کڑھائی دستکاری، کاشتکاری وغیرہ کو بھی آپ ﷺنے برقرار رکھا اور ان کے لئے ملاوٹ اور اور ان چیزوں کو جو حرام کی طرف جانے کا ذ ریعہ بنیں انہیں حرام ٹھہرایا اسی طرح مباح اشعار کہنا ، زمانہ جاہلیت کے قصوں کا ذکر، اور مقابلہ دوڑ جیسے کاموں کو برقرار رکھا گیا ۔

تقریری حدیث کی حجیت:

تمام علماء تقریری حدیث کی حجیت کے قائل ہیں اور انھوں نے اسے حدیث کی ایک مستقل قسم شمار کیا ہے۔اور امام بخاری نے اپنی کتاب میں باقاعدہ یہ عنوان دیا ہے باب من رأى ترك النكيرمن النبيﷺحجة،لامن غيرالرسول[18].کیونکہ جو کام بھی آپ ﷺکے روبر ہوا یا آپ ﷺاس سے مطلع ہوئے اور ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا، یا کوئی خبر جو آپ ﷺ تک پہنچی اور آپ ﷺنے اس پر خاموشی اختیار کی تویہ اس کام کے مباح ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ گناہ اور باطل کام کو دیکھ کر خاموش رہنا عصمت نبوت کے خلاف ہے ۔ آپ ﷺکے دور میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے برائی یا حرام کام کا ارتکاب کیا ہو اور پھر اس کے متعلق وحی کے ذریعے آپ ﷺکو مطلع نہ کیا گیا ہو۔ ابن الصلاح کہتے ہیں کہ : قولُ الصَّحابيِّ: ((كُنَّا نَفْعَلُ كذا أو كنَّا نقولُ كذا)) إنْ لَمْ يُضِفْهُ إلى زمانِ رسولِ اللهِﷺ-فهوَ مِنْ قبيلِ الموقوفِ، وإنْ أضافَهُ إلى زمانِ رسولِ اللهِ ﷺ-، فالذي قَطَعَ بهِ أبو عبدِ اللهِ بنُ البَيِّعِ الحافظُ وغيرُهُ مِنْ أهلِ الحديثِ وغيرِهِم أنَّ ذلكَ مِنْ قبيلِ المرفوعِ ...... ومِنْ هذا القبيلِ قولُ الصحابيِّ:((كُنَّا لا نرى بأساً بكذا ورسولُ اللهِﷺفِيْنا،أو كانَ يقالُ كذا وكذا على عهدِهِ، أو كانُوا يفعلونَ: كذا وكذا في حياتِهِﷺ-)). فكلُّ ذلكَ وشبهُهُ مرفوعٌ مُسْنَدٌ مُخَرَّجٌ في كتبِ المساندِ.[19] یعنی کسی صحابی کا زمانہ نبوی کی طرف منسوب کئے بغیر یہ فرمانا کہ ہم ایسا کیا کرتے تھے یا کہا کرتے تھے تو ایسی حدیث موقوف ہو گی ،جبکہ صحابی کا یہ فرمانا کہ ہم نبی کریمﷺکے زمانے میں ایسا کیا کرتے تھے یا کہا کرتے تھے تو اس کا حکم ابو عبد اللہ بن البیع الحافظ اور دوسرے محدثین کے ہاں مرفوع کا ہے ۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ نبی اکرمﷺکو اس کی اطلاع تھی اورآپﷺنےاسےبرقرار رکھا،اورآپؐ کی رضامند ی سنن مرفوعہ کی ایک شکل ہے کیونکہ حدیث میں جہاں آپؐ کے اقوال و افعال شامل ہیں وہیں آپؐ کی رضامند ی اور کسی بات کا علم ہونے کے باوجود عدم ممانعت بھی حدیث میں شامل ہے۔ اور اسی طرح کسی صحابی کا یہ فرمانا کہ ہم اسے کچھ معیوب نہ سمجھتے تھے جبکہ نبی کریم ﷺہم میں موجود تھے، یا یہ کہنا کہ آپؐ کے زمانے میں فلاں فلاں بات کہی جاتی تھی، یا لوگ آپؐ کی حیات مبارکہ میں فلاں فلاں کام کیا کرتے تھےتو ان سب کا حکم مرفوع مسند کا ہے۔

امام الزرکشی فرماتے ہیں کہ:أَمَّا سُكُوتُ النبيﷺعن الشَّيْءِ يُفْعَلُ بِحَضْرَتِهِ وَ لَايُنْكِرُهُ فَدَلِيلُ الْجَوَازِ[20]۔یعنی نبی کریمﷺکا کسی چیز پرجو آپﷺکے سامنے پیش آئی ہو، خاموش رہنا اور منع نہ فرمانا اس کے جائز ہونے کی دلیل ہے"۔امام الحرمین جوینی ؒ فرماتے ہیں کہ:وإقرار صاحب الشريعةﷺ على القول من أحد هو قول صاحب الشريعة أي كقوله - ﷺ،وإقراره على الفعل من أحدكفعله،لأنه معصوم عن أن يقرأحداًعلى منكر[21] یعنی صاحب شریعتﷺکا کسی کی بات پر رضا مندی کا اظہار فرمانا گویا وہ آپﷺہی کی بات ہے، اور آپﷺکا کسی کے فعل پر سکوت فرمانا گویا وہ آپﷺہی کا فعل ہے کیونکہ آپ ﷺاس بات سے پاک ہیں کہ آپﷺکسی غلط کام کو برقرار رکھیں۔

تقریری حدیث کی حجیت کے متعلق امام ابن حزم فرماتے ہیں :

وأما الشيء يراه عليه السلام أو يبلغه أو يسمعه فلا ينكره ولا يأمر به فمباح لأن الله عز و جل وصفه عليه السلام فقال{الذين يتبعون لرسول لنبي لأمي لذي يجدونه مكتوبا عندهم في لتوراة ولإنجيل يأمرهم بلمعروف وينهاهم عن لمنكر ويحل لهم لطيبات ويحرم عليهم لخبآئث ويضع عنهم إصرهم ولأغلال لتي كانت عليهم فلذين آمنوابه وعزروه ونصروه وتبعوالنورلذي أنزل معه أولئك هم لمفلحون[22]} فلو كان ذلك الشيء منكرا لنهى عنه عليه السلام بلا شك فلمالم ينه عنه لم يكن منكرافهو مباح المباح معروف وما عرفه عليه السلام فهو معروف ولا معروف إلا ما عرف ولا منكر إلا ما أنكر[23]۔ "یعنی آپﷺکسی چیز کو دیکھیں ،یا آپ ﷺ کو اس کی خبر ملے ، یا آپﷺاسے سنیں اور پھر نہ تو اسے برا جانیں ،نہ اس کے متعلق کوئی حکم ارشاد فرمائیں تو اس چیز کا حکم جائز کا ہے ، کیونکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے : جو لوگ ایسے رسول نبی امیﷺکا اتباع کرتے ہیں جن کو وه لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وه ان کو نیک باتوں کا حکم فرماتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں۔پس اگر یہ چیز بری ہوتی تو بلا شبہ آپؐ اس سے ضرور روکتے، اور اگر نہیں روکا تو یہ چیز بری نہیں ہے بلکہ مباح ہے اور مباح معروف (نیکی) ہے، اور جس شے کو آپؐ نےاچھائی سمجھا دراصل وہی اچھائی ہے اس کے سوا کوئی اور اچھائی ہو ہی نہیں سکتی ، اور برائی بھی صرف وہی ہے جس کو آپؐ نے برا جانا "۔

تقریری حدیث کی چند مثالیں:

جابر ﷛فرماتے ہیں کہ ہم لوگ عزل کرتے تھے حالانکہ اس وقت قرآن شریف نازل

ہورہا تھا [24]ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں فبلغ ذلك النبيﷺ فلم ينهنا نبی کریم ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپﷺنے ہمیں اس سے منع نہیں کیا[25]صحابہ کرام ﷡عزل کرنے کو مباح خیال کرتے تھے کیونکہ اللہ کے رسولﷺکو اس کا علم تھا لیکن آپﷺنے صحابہ کو اس سے منع نہیں فرمایا،صحابہ کرام﷡ کیلئے حضور ﷺکی خاموشی کسی بھی کام کے جوازکے لیے حجت تھی اور وہ اسے آپ کی رضامندی سمجھتے تھے۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:کہ جو بات میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ جس نے یہ حکم(عزل کے جواز کا) مستنبط کیا ہے اس نے نزول قرآن سے مراد وحی متلو اورغیرمتلودونوں لیےہیں،گویا وہ یہ کہتاہےکہ:فعلناه في زمن التشريع ولو كان حراما لم نقرعليهہم نے یہ کام ایام نبوت میں کیا اور اگر یہ حرام ہوتا تو ہم کبھی اس پر کاربند نہ رہتے[26]۔

صاحب تحفۃ الاحوذی مبارکپوری فرماتے ہیں:"حديث كنا نعزل والقرآن ينـزل فيه جواز الاستدلال بالتقرير من الله ورسوله على حكم من الأحكام ؛ لأنه لو كان ذلك الشرع حراماً لم يقررا عليه، ولكن بشرط أن يعلمه النبيﷺ قال : لأن الظاهر أن النبي صلى الله عليه وسلم اطلع على ذلك وأقره لتوفر دواعيهم على سؤالهم إياه عن الأحكام[27]. اس حدیث کہ "ہم نزول قرآن کے دور میں عزل کیا کرتے تھے" میں اس جواز کی دلیل ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی شرعی احکام میں سے کسی حکم پرخاموشی اسے برقرار رکھنا ہے کیونکہ اگر یہ شرعی طور پرحرام ہوتا تواللہ اور اس کے رسولﷺ کبھی بھی اسے برقرار نہ رکھتے،لیکن شرط یہ ہے کہ رسولﷺ کو اس کا علم ہو۔ جبکہ کئی اسباب اور صحابہ کرام کے ان مسائل کی بابت استفسارات سے یہ بات واضح ہے کہ آپ ﷺ کو اس بات کا علم تھا اور آپ ﷺ نے اسے برقرار رکھا۔

اسی طرح مسند احمد میں سیدنا ابی بن کعب ﷛سے مروی ہے کہ "ایک کپڑے میں نماز سنت ہے ہم رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ایسا کیا کرتے تھے اور آپ ﷺنے ہمیں اس پرٹوکا نہیں[28]"۔ اس حدیث میں سیدنا ابی بن کعب ﷛ایک ایسے عمل کو سنت قرار دے رہے ہیں جسے صحابہ کرام نبی کریمﷺکے سامنے کیا کرتے تھے اور آپ ﷺ نے انہیں منع نہیں کیا۔ چنانچہ آپﷺکی تقریری حدیث کوصحابہ حجت سمجھتےتھےاس حدیث کی شرح میں ملاعلی قاری فرماتے ہیں:"ولايعاب عليناأي ومانهانا،فيكون تقريراًنبوياًفثبت جوازه بالسنةإذعدم الإنكار دليل الجواز لادليل الندب"آپؐ نے ہمیں برا خیال نہیں کیا سے مراد ہے کہ آپؐ نے منع نہیں فرمایا پس نبی کریمﷺکی تقریری سنت کی رو سے اس کا جواز ثابت ہوا اس طرح آپؐ کا کسی بات سے منع نہ کرنا اس کے جواز کی دلیل ہے نہ کہ محض اس کا مندوب ہونے کی[29]۔

امام بخاری نے مشہور تابعی محمد بن المنکدرکے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک ﷛سے جب وہ دونوں منی سے عرفات کی طرف آ رہے تھے پوچھا کہ جب آپ لوگ نبی کریم ﷺکے ساتھ ہوتے تھے تو اس دن کیا کیا کرتے تھے؟ تو حضرت انس ﷛ جواب دیا کہ : «كَانَ يُهِلُّ مِنَّا المُهِلُّ فَلاَ يُنْكِرُ عَلَيْهِ، وَيُكَبِّرُ مِنَّا المُكَبِّرُ فَلاَ يُنْكِرُ عَلَيْهِ»[30] حضرت انس ﷛کے اس جواب سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ ﷡نبی کریم ﷺ کی خاموشی اور عدم ممانعت کو منی سے عرفات کی طرف آتے ہوئے تکبیر و تحلیل کے جواز پر محمول کرتے تھے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ کی تقریری حدیث احکام میں حجت ہے۔مبارکپوری ﷫فرماتے ہیں:أي لاينكرعليه أحد فیفیدالتقريرمنهکہ آپﷺ کا منع نہ فرمانا آپ ﷺ کا اس عمل کو برقرار رکھنا ہے[31]۔

حضرت ابن عباس ﷛فرماتے ہیں کہ میں ایک گدھی پر سوار ہوکرآیا اور میں اس وقت

قریب البلوغ تھا،رسول اللہ ﷺاس وقت دیوار کے سوا کسی اور چیز کا سترہ کرکے لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے،صف کے کچھ حصے سے گزر کر میں اپنی سواری سے اترا اور گدھی کو چرنے کے لئے چھوڑ دیا اور خودصف میں شامل ہوکرشریک نماز ہوگیا۔ کسی نے اس وجہ سے مجھ پر اعتراض نہیں کیا[32]۔حافظ ابن حجرؒ نےابن دقیق العیدؒ کا قول ذکر کیا ہے:"کہ ابن عباس ﷛نے عدم ممانعت سے جواز کا استدلال کیا ہے ، اور آپ نے اس سے نماز دہرانے کا استدلال نہیں کیا کیونکہ عدم ممانعت کا فائدہ زیادہ ہے" حافظ ابن حجرؒ ابن دقیق العیدؒ کا قول ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: "ان کی توجیہ یہ ہے کہ نماز کا دوبارہ ادا نہ کرنا صرف اس نماز کے صحیح ہونے پر دلالت کرتا ہے نہ کہ نمازیوں کے آگے سے گزرنے کے جواز پر،جبکہ عدم ممانعت نمازیوں کے آگے سے گزرنے کے جواز پر اور نماز کے صحیح ہونے دونوں پر دلالت کرتا ہے ،حاصل کلام یہ ہے کہ عدم ممانعت جواز کے لیے حجت ہے بشرطیکہ عدم ممانعت کا سبب کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ ہو اور یہ بات بھی ثابت ہو کہ اس کام کی اطلاع آپ ﷺ کو ہے"[33]۔

حضرت قیس ﷛سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ نماز فجر کے بعد دو رکعت نماز پڑھ رہا تھا نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ صبح کی نماز دو رکعت ہے تو اس شخص نے عرض کیا کہ میں نے دو رکعت سنت فجر نہیں پڑھی تھیں۔ سو اس وقت میں نے ان دونوں رکعتوں کو پڑھا ہے اس پر آپ ﷺ چپ رہے[34]۔ نبی کریم ﷺ کا خاموش ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جس شخص کی سنت فجر رہ گئی ہوں وہ بعد نماز فرض کے سنت فجر پڑھ لے اور سنت فجر کی قضاء بعد طلوع آفتاب کے بھی جائز ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر﷞سےروایت ہےکہ حضورﷺنے جنگ خندق میں (جب جنگ ہوچکی) یوں فرمایا: «لاَ يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ العَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ» فَأَدْرَكَ بَعْضَهُمُ العَصْرُ فِي الطَّرِيقِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ:لاَ نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا،وَقَالَ بَعْضُهُمْ:بَلْ نُصَلِّي، لَمْ يُرَدْ مِنَّا ذَلِكَ، فَذُكِرَ لِلنَّبِيِّﷺ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ[35].یعنی تم میں سے ہر شخص عصر کی نماز بنی قریظہ کے پاس پہنچ کر پڑھے۔ نماز کا وقت راستے میں آپہنچا تو بعض نے کہا: ہم جب تک بنی قریظہ کے پاس نہ پہنچیں،عصرکی نمازنہیں پڑھیں گےاوربعض نےکہا:ہم نمازپڑھ لیتے ہیں،کیونکہ آنحضرتؐ کےارشادکایہ مطلب نہ تھا کہ ہم نمازقضاکریں، پھر بارگاہ رسالت میں اس واقعہ کا ذکر آیا،آپؐ نے کسی پر خفگی نہیں کی،گویا آپؐ کا کسی پر سرزنش نہ کرنا ہر ایک کے عمل کو درست قرار دینا ہے۔

صحیح بخاری میں سعید بن جبیر کا بیان ہےکہ میں نے حضرت ابن عباس ﷛کو یہ کہتے ہوئےسنا کہ : «أَهْدَتْ أُمُّ حُفَيْدٍ خَالَةُ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى النَّبِيِّﷺ أَقِطًا وَسَمْنًا وَأَضُبًّا، فَأَكَلَ النَّبِيُّﷺ مِنَ الأَقِطِ وَالسَّمْنِ، وَتَرَكَ الضَّبَّ تَقَذُّرًا»،قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «فَأُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،وَلَوْ كَانَ حَرَامًا مَا أُكِلَ عَلَى مَائِدَةِ رَسُولِ اللَّهِﷺ»[36] یعنی میری خالہ ام حفید ﷞نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں گھی پنیر اور سانڈے ہدیہ کیے۔آپؐ نے گھی اور پنیر میں سے تناول فر مایا اور سانڈے کو کراہت محسوس کرتے ہو ئے چھوڑدیا۔ عبد الله بن عباس ﷛فرماتے ہیں: یہ(سانڈ ا) رسول کریمﷺکے دسترخوان پر کھا یا گیا ۔ اگر یہ حرام ہو تا تو رسول کریم ﷺ کے دسترخوان پر نہ کھا یا جا تا۔

حضرت انس ﷛کہتے ہیں کہ: «كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ ﷺ، فَيَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّةِ الحَرِّ فِي مَكَانِ السُّجُودِ»[37] یعنی ہم رسول کریمﷺکے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم میں سے ہر آدمی گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑے کے دامن پر سجدہ کرتا۔حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:وفي الحديث جواز استعمال الثياب وكذا غيرها في الحيلولة بين المصلي وبين الأرض لاتقاء حرها وكذا بردها وفيه إشارة إلى أن مباشرة الأرض عندالسجودهوالأصل لأنه علق بسط الثوب بعدم الاستطاعة واستدل به على إجازة السجود على الثوب المتصل بالمصلى[38]۔یعنی اس حدیث کے مطابق زمین کی گرمی اور سردی سے بچنے کے لیے کپڑے اور اسی طرح کسی اور چیز پر سجدہ کرنا جائز ہے، تاہم اس حدیث میں یہ بھی اشارہ ہے کہ سجدے کا اصل حکم یہ ہے کہ بلا کسی حائل کے زمین کی دھوڑی پر سجدہ کیا جائے ورنہ جملہ من شدۃ الحر کا کوئی مفاد نہیں رہتا۔

نتائج:

اس مقالے سے درج ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں:

1- تقریری حدیث ، جس میں رسول کریمﷺکے سامنے صحابہ کرام ﷡میں سے کسی کا کوئی عمل یا فعل ہوا ہو یا آپﷺ کو اسکی اطلاع ملی ہو اورآپﷺنے اس پر خاموشی اختیار فرمائی ہو۔

2- تقریری حدیث ،حدیث کی ایک مستقل قسم ہے ۔

3- نبی اکرمﷺکا کسی کی بات یا عمل پر خاموشی اختیار فرمانا اس چیز کے جائز اور مباح ہونے کی دلیل ہے۔

4- تمام صحابہ ﷡تقریری حدیث کو وہی مقام دیتے تھے جو وہ نبی اکرمﷺکے اقوال و افعال کو دیتے تھے۔

5- تمام علماء محدثین ،اصولیین و فقہاء تقریری حدیث کی حجیت کے قائل ہیں۔

حوالہ جات

  1. - سورۃ آل عمران، 3 : 81
  2. - ابن منظور، محمد بن مكرم الأفريقي المصري، لسان العرب ،الناشر : دار صادر – بيروت، الطبعة الأولى ،ج5،ص82
  3. - الشوكاني، محمد بن علي بن محمد إرشاد الفحول إلي تحقيق الحق من علم الأصول ،المحقق : الشيخ أحمد عزو عناية، الناشر : دار الكتاب العربي،بیروت،ج1،ص117
  4. - الزركشي، بدر الدين محمد بن بهادر بن عبد الله ،البحر المحيط في أصول الفقه تحقيق :د. محمد محمد تامر،ناشر دار الكتب العلمية ، بيروت،1421هـ - 2000م،ج3،ص270
  5. -الجديع، عبدالله بن يوسف، تيسيرُعلم أصول الفقه، مؤسسةالريان، بيروت، ط:الرابعة 1427ھ،ص 135
  6. - البحر المحيط ،ج3،ص272
  7. - بخاری ، ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل صحیح بخاری، کتاب الصوم، حديث 1968، الناشر: دار طوق النجاة ،الطبعة: الأولى، 1422ھ،ج3،ص38
  8. -النسائي،أحمدبن شعيب أبوعبدالرحمن،سنن نسائی،مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل ،باب: مردہ سمندری جانوروں کی حلت کا بیان ، حدیث 4353
  9. - صحیح بخاری ، کتاب المغازی باب غزوۃ سیف البحر کا بیان ،​ج2،ص510
  10. السجستانی،أبوداودسليمان بن الأشعث،سنن ابوداؤد،المكتبة العصرية،بيروت،ج2،ص22
  11. - سنن ابو داؤد ،حدیث334 ،ج1،ص92
  12. - صحیح بخاری،کتاب النکاح،باب العزل،حدیث:5208،وصحیح مسلم،کتاب النکاح،باب حکم العزل،حدیث:1440وسنن الترمذی،کتاب النکاح،باب العزل،حدیث:1137
  13. - سورۃالمائدة67:5
  14. سورۃالأعراف157:7
  15. - سورۃآل عمران 110:3
  16. مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري ،صحيح مسلم،دار إحياء التراث العربي – بيروت، کتاب الایمان،باب بيان كون النهي عن المنكر من الإيمان ، ج1،ص69
  17. - ابن القيم الجوزي، إعلام الموقعين عن رب العالمين، تحقيق : طہ عبد الرءوف سعد الناشر : دار الجيل - بيروت ، 1973 ،ج 2،ص386
  18. - صحیح بخاری 9/109
  19. - ابن الصلاح أبو عمرو عثمان بن عبد الرحمن الشهرزوري علوم الحديث، الناشر : دار الكتب العلمية الطبعة: الأولى 1423 هـ / 2002 م ، ص120
  20. - البحر المحيط ج1،ص132
  21. - المحلي، جلال الدين محمد بن أحمد بن محمد بن إبراهيم الشافعي شرح الورقات في أصول الفقه ،تحقيق: الدكتور حسام الدين بن موسى عفانۃ ، حذيفة بن حسام الدين عفانة،الناشر: جامعة القدس، فلسطين ،الطبعة: الأولى، 1420 هـ - 1999 م، ج1،ص154
  22. -سورۃالاعراف157:7
  23. -ابن حزم ،الاما م علي بن احمد بن سعيد الاندلسي، الاحكام في اصول الاحكام ، دارالحديث ، القاهرة الطبعة الاولى 1424ھ ،ج4،ص460)
  24. -صحیح بخاری ، كتاب النكاح، باب العزل، ص7،ص33
  25. - مسند أبي عوانة الناشر دار المعرفة ح4357 ،ج3،ص100
  26. -ابن حجرأبوالفضل أحمدبن علي العسقلاني، فتح الباري ،دار المعرفة ,بيروت،ج9،ص 306
  27. - المباركفوري، محمد عبد الرحمن بن عبد الرحيم أبو العلا، تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي ، دار الكتب العلمية ، بيروت. ج4،ص242
  28. - أحمد بن حنبل، مسند ،المحقق : شعيب الأرنؤوط وآخرون ،الناشر : مؤسسة الرسالة، الطبعة:الثانية 1420ه ، 1999م.، 5/141 رقم 21313 ، قال شعيب الأرناؤوط تعليقاً على مسند الإمام أحمد : صحيح، وهذا إسناد رجاله ثقات رجال الصحيح
  29. - ملا علی قاری ،مرقاة المفاتيح ج2،ص443
  30. - صحيح البخاري،كتاب الحج،بـاب التلبية والتكبير إذغدامن منى إلى عرفة ، ج2،ص161
  31. - المباركفوري،أبوالحسن عبيدالله بن محمدعبدالسلام بن خان محمدبن أمان الله،مرعاة المفاتيح،إدارة البحوث العلمية والدعوة والإفتاء - الجامعة السلفية - بنارس الهند،ج9،ص133
  32. - صحيح البخاري، كتاب الصلاة، باب سترة الإمام سترة من خلفه،ج1،ص105
  33. - فتح الباري،ج1،ص572
  34. -السجستاني،أبوداودسليمان بن الأشعث،سنن ابوداود،المكتبة العصرية ، بيروت2/22
  35. - صحيح البخاري باب صلاة الطالب والمطلوب راكبا وإيماء ، ج2،ص15
  36. -صحيح البخاري،كتاب الهبة وفضلهاوالتحريض عليها،باب قبول الهديّة، ج3،ص155
  37. - صحيح البخاري، كتاب الصلاة، باب السجود على الثوب في شدة الحرّ ،ج1،ص86
  38. - فتح الباري1/493
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...