Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

توضیح اصطلاحات فقہیہ: بذل المجہود کا مطالعہ و تجزیہ |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف:

کتب احادیث میں بہت سارے الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے لغوی معنی تو کچھ اور ہوتے ہیں لیکن عرف میں ان کا استعما ل کسی اور معنی میں مشہور ہو جاتا ہے،اور بسااوقات یہ شہرت اس حد تک ہوجاتی ہےکہ لوگ اس لفظ کا وضعی اور لغوی معنی ہی بھول جاتے ہیں،کہ واضع نے اس لفظ کو کس معنی کے لیے کیا تھا۔اس قسم کے الفاظ کو مناطقہ کی اصطلاح میں منقول کہاجاتا ہے۔ پھر ان الفاظ میں بہت سارے الفاظ ایسے ہیں جنہیں فقہا اپنی اصطلاحا ت میں استعما ل کرتے ہیں ۔ شارحین ِ حدیث کتب احادیث کی تشریح کرتے وقت ایسے الفاظ کی توضیح اس انداز سے کرتے ہیں کہ قاری کو اس کے مفاہیم کا ضروری تعارف حاصل ہو جائے۔اس توضیح میں وہ مختلف اور متنوع مناہج کو کام میں لاتے ہیں ۔مولانا خلیل احمد سہارنپوری نے سنن ابی داؤد کی مبسوط عربی شرح بذل المجہود میں اس ضمن میں نمایاں کام کیا ہے۔ زیر نظر سطور میں مولانا سہارنپوری کے اس کام کو منظر عام پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

 

طہارۃ:

لفظ طہارۃ کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا سہارنپوری نےالقاموس کے حوالے سے اس کا لغوی معنی بیان کیا ہے، لکھتے ہیں:

 

قال فی القاموس:الطھر بالضم : نقیض النجاسۃ،طھر کنصر وکرم فھو طاھر،وھکذا فی لسان العرب وغیر ہ من کتب اللغۃ،ولم یقل احد منھم ان طھر من باب ضرب،فقول صاحب غایۃ المقصود:طھرمن بابی قتل وضرب، صوابہ من بابی قتل وکرم[1]’’القاموس میں ہے کہ لفظ’’طھر‘‘کو ’’طا‘‘کے ضمہ یعنی پیش کے ساتھ پڑھا جائے گا ،جس کے معنی پاکی کے آتے ہیں،جو کہ نجاست کی ضد ہے،یہ عام طور پر دو ابواب سے آتا ہے نصر اور کرم،اور یہی تفصیل لسان العرب اور لغت کی دیگر کتب میں ملتی ہے،ائمہ لغت میں سے کسی کے ہاں بھی لفظ ’’طھر‘‘باب ضرب سے نہیں آتا۔لہذا اس مقام پر صاحب غایۃ المقصود سے تسامح ہوا ہے کہ انہوں نے کہہ دیا کہ لفظ ’’طھر‘‘دو ابواب سے آتا ہے: قتل یعنی نصر سے اور ضرب سے ،حالانکہ ضرب سے نہیں آتا ،بلکہ صواب اور درست بات یہ ہے کہ دو ابواب سے ہےایک قتل یعنی نصر اور دوسرا کرم ۔‘‘[2]

 

مولانا سہارنپوری کی بیان کردہ لفظ طہارۃ کی مذکورہ توضیح سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ موصوف نے طہر کا لغوی معنی بیان کرتے ہوئے اپنے پیش رو شارحین میں سےایک شارح کی طرف سے واقع ہونے والے تسامح کی بھی اصلاح کردی ہے ،اسی طرح لفظ کو ضبط کرکے اس کی اعرابی حالت کی بھی وضاحت کردی ،تاکہ پڑھنے والا اس لفظ کو صحیح پڑھ سکے،مزید برآں لغت کی مایہ ناز کتب میں سے چند ایک کے حوالے بھی ذکر کردیے ، جس سے ان کی بات میں اور وزن پید ا گیا،لیکن ایک بات جس کی تشنگی محسوس کی گئی وہ یہ کہ طہارت کا اصطلاحی معنی نہیں بیان کیا ،کہ فقہا کی اصطلاح میں طہارت کسے کہتے ہیں؟ اگر طہارت کی اصطلاحی تعریف بھی پیش کردی جاتی تو قارئین اور حدیث کے طلبہ کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتا۔[3]

 

تیمم :

مولانا سہارنپوری تیمم کا معنی ومفہوم ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:مصدر من باب التفعل،واصلہ من الام[4] وھو القصد، فالتیمم فی اللغۃ : مطلق القصد ،وفی الشرع : قصد الصعید الطاھر واستعمالہ بصفۃ مخصوصۃ لاستباحۃ الصلاۃ وامتثال الامر[5]’’تیمم باب تفعل کا مصدر ہے اور اس کی اصل’’ام‘‘ہے،لغت میں اس کے معنی قصد کرنے کے آتے ہیں،اور اصطلاح شرع میں پاک مٹی سے مخصوص طریقے سے پاکی کا ارادہ کرناتاکہ اس سے نماز پڑھی جاسکے‘‘۔

 

یہاں مولانا سہارنپوری نے تیمم کا لغوی اور شرعی معنی تو بیان کردیا لیکن اس جگہ وہ منہج نہیں اپنایاجو وہ عام طور پر ان جیسے الفاظ کی توضیح میں اپناتے ہیں،وہ یہ کہ لغوی معنی کے بیان میں لغت کی مایہ ناز کتب میں سے چند ایک کا حوالہ بھی دیتے ہیں،ماہرینِ لغت ِغریب کی آراء بھی پیش کردیتے ہیں،قرآن وحدیث سے اپنے بیان کردہ معنی کی تائید پیش کرتے ہیں۔مزید برآں یہاں تیمم کا شرعی معنی ہی بیان کرکےبات کوختم کردیا ہے،اگرتیمم کاطریقہ بھی ذکرکردیتےجیسا کہ عام طور پرفقہ کتابوں میں ملتاہےتوزیادہ بہترہوتا۔ مزیدبرآں تیمم کالغوی معنی القصد بیان کیاہےاورحج کامعنی بھی القصدہے،کیاان دونوں مقاصدمیں فرق بھی ہے یانہیں؟اسکی وضاحت کی دی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا،جیسا کہ صاحب بحرا لرائق علامہ ابن نجیم نےذکر کیاہے: وَالتَّيَمُّمُ لُغَةً مُطْلَقُ الْقَصْدِ بِخِلَافِ الْحَجِّ، فَإِنَّهُ الْقَصْدُ إلَى مُعَظَّمٍ وَشَوَاهِدُهُمَا كَثِيرَةٌ[6]" تیمم کے لغوی معنی مطلق قصد کرنے کے آتے ہیں، بخلاف حج کے، کہ اس کے معنی بھی قصد کے آتے ہیں لیکن مطلق قصد کےنہیں ،بلکہ بیت اللہ کی تعظیم کے قصد کے آتے ہیں‘‘۔

 

صلاۃ:

لفظ صلاۃ کی توضیح میں قرآن و حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے: ثم معنی الصلاۃ فی اللغۃ الغالبۃ الدعاء ،قال تعالی ٰ: وصل علیھم وفی الحدیث : وان کان صائما فلیصل،ای فلیدع لھم بالخیر والبرکۃ،[7]" لفظ صلاۃ لغت میں دعا ء کے معنی میں آتا ہے ،جیسا کہ قرآن کریم، میں ہے : وصل علیھم ’’آپ ان کے لیے دعا فرمادیجئے‘‘،اسی طرح اس معنی کی تائیداس حدیث سے بھی ہوتی ہے،جس میں ہے : وان کان صائمافلیصل یعنی اگر وہ روزے سے ہےتو اسے چاہئے کہ ان کے لیے خیر وبرکت کی دعا کرے۔"معلوم ہوا کہ لفظ صلاۃ کا اصلی اور وضعی معنی دعاہے جس کی تائید قرآن وحدیث سے پیش کردی گئی ہے ۔یہاں مولانا سہارنپوری نےلفظ صلاۃ کے ماخذ اشتقاق کو بھی ذکر کیا ہےاور یہاں منہج قیل والا ہے ،یعنی قیل کے ساتھ مختلف مآخذ کی طرف اشارہ کریں گے،چنانچہ لکھتے ہیں: قیل:مشتقۃ من صلیت العودعلی الناراذاقومتہ[8] ’’کہا گیا ہے کہ لفظ ’’صلاۃ‘‘ صلیت العود علی النار اذاقومتہ ( میں نے آگ پر رکھی ہوئی اس لکڑی پر نماز پڑھی جسے تونے درست کیا تھا)سے مشتق ہے۔یعنی لفظ صلاۃ کا مادہ ص ل ی ہے ۔ مولانا سہارنپوری نے مذکورہ بالا ماخذ اشتقاق پر وارد ہونے والے اس اشکال کا ذکر کیا ہے،جو امام نووی کی طرف سے کیا گیا ہے اور پھر اپنی طرف سے اس کا جواب بھی پیش کیا ہے، لکھتے ہیں:قال النووی:ھذا باطل ،لان لام الکلمۃ فی الصلاۃ واو بدلیل الصلوات، وفی صلیت یاء ،فکیف یصح الاشتقاق مع اختلاف الحروف الاصلیۃ[9]" امام نووی نے اس بیان پر کہ لفظ صلاۃ کا ماخذ اشتقاق ص ل ی ہے ،پر ایک جامع اشکال کیا ہے فرماتے ہیں کہ لفظ صلاۃ کا مادہ ص ل ی قرار دینا باطل ہے اس لیے کہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کا لام کلمہ واو آتا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے لفظ صلاۃ کی جمع صلوات آتی ہے ۔(اور قاعدہ ہے کسی لفظ کی اصل معلوم کرنا ہو تو اس کے دو طریقےہیں، اول یہ کہ اس کی تصغیر نکالی جائے،اور دوم یہ کہ اس کی جمع دیکھی جائے )یہاں جمع میں لام کلمہ واو آرہا ہے اس لیے حروف اصلیہ کے اختلاف کے ساتھ ماخذ اشتقاق کیونکر درست ہوسکتاہے؟اس اشکا ل کا جواب دیتے ہوئے مولانا سہارنپوری لکھتے ہیں:قلت:دعواہ بالبطلان غیر صحیحۃ،لان اشتراط اتفاق الحروف الاصلیۃ فی الاشتقاق الصغیر دون الکبیر والاکبر[10] " میں یہ کہتا ہوں کہ لفظ صلاۃ کے پیش کیے گئے ماخذ اشتقاق کو غیر صحیح قرار دینا درست نہیں،اس لئے کہ ،ماخذ اشتقاق کا حروف اصلیہ کے ساتھ متفق ہونا اشتقاق ِ صغیر میں تو ضروری ہے اشتقاق ِ کبیر میں نہیں۔لہذا یہ اشکال ہی درست نہیں۔"

 

اس کے بعد ایک اور ماخذ اشتقاق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وقیل:الصلاۃ مشتقۃ من الصلوین تثنیۃ الصلا، وھوما عن یمین الذنب وشمالہ ،وذلک لان المصلی یحرک صلویہ فی الرکوع والسجود[11]"اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ لفظ صلاۃ صلوین سے مشتق ہے اور صلوین تثنیہ ہے ’’صلا ‘‘ کا ،اور ’’صلا‘‘لغت میں دُم کے دائیں اور بائیں جانب کو کہا جاتا ہے،لفظ صلاۃ کو بھی صلاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ نمازی جب نماز پڑھتا ہے تو رکوع اورسجود میں اپنی اطراف کو حرکت دیتا ہے ۔"ایک اور ماخذ اشتقاق کو بیا ن کرتے ہوئے لکھتے ہیں:وقیل مشتقۃ من المصلی وھو الفرس الثانی من خیل السباق،لان راسہ تلی صلوی السابق[12] "اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ لفظ صلاۃ مصلی سے مشتق ہے اور ’’مصلی ‘‘لغت عرب میں اس گھوڑے کا کہا جاتا ہے جو گھوڑ دوڑ میں دوسرے نمبر پر آئے، کیونکہ اس کا سر پہلے نمبر پر آنے والے گھوڑے کی دُم کے دائیں یابائیں جانب ہوتا ہے۔"

 

مقالہ نگار کی رائے:

مولانا سہارنپوری نے اس جگہ لفظ صلاۃ کا جہاں لغوی معنی بیان کیا تو ساتھ میں ماخذ اشتقاق کو بھی ذکر کردیا،لیکن وجہ تسمیہ کا ذکر نہیں کیا ،حالانکہ مقام کے مناسب یہ تھا کہ یہاں وجہ تسمیہ کا ذکر بھی آجا تا ،جیسا کہ اسی مقام پر صاحب معارف السنن مولانا محمد یوسف بنوری نےاسے ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتےہیں:وقیل مشتقۃ من’’المصلی‘‘وھو الفرس الثانی فی خیل الحلبۃ،والاول المجلی وھو السابق،ثم المصلی،ثم المسلی،ثم التالی،ثم العاطف الخ۔وسمیت بذلک العبادۃ المخصوصۃ لانھا ثانیۃ لشھادۃ التوحید کالمصلی یکون تابعا للمجلی ویکون راسہ عند صلوی السابق،وقال شیخنا:لان المقتدی فیھا یکون تابعاللامام،وھذا الوجہ یختص بالمقتدی،وبصلاۃ الجماعۃ،اللھم الاان یقال بالتعمیم بعد اصل الوضع،وقیل لان المصلی تال وتابع فعل النبیﷺ،وقیل:من الصلوین عرقان عن یمین الذنب وشمالہ ۔۔۔فالمصلی یحرک صلویہ فی الرکوع والسجود،وقیل:ھی التعظیم،وقیل:ھی الرحمۃ،وقیل:ھی الاقبال علی الشیء،والوجہ فی الکل ظاہر،والاول اولی[13] "کہا گیا ہے کہ لفظ صلاۃ مصلی سے مشتق ہے،اور مصلی اس گھوڑے کو کہا جاتا ہے جو گھوڑ دوڑ میں دوسرے نمبر پر آئے،پہلے نمبر پر آنے والے گھوڑے کو مجلی،دوسرے کو مصلی ،تیسرے کو مسلی چوتھے کو تالی اور پانچویں نمبر پر آنے والے کو عاطف کہتے ہیں۔صلاۃ کو بھی صلاۃ اس لئے کہا جاتا کہ ارکان ِ اسلام میں اس کا دوسرا نمبر ہے ،جیسا کہ مصلی اس گھوڑے کو کہا جاتا ہے جو دوسرے نمبر پر آئے،اور اس کا سر اپنے سامنے والے گھوڑے کے پیٹھ پر ہوتا ہے۔ہمارے شیخ نے فرمایا: چونکہ مقتدی امام کا تابع ہوتا ہےاس لیے بھی صلاۃ کہا جاتا ہے ،اس صورت میں یہ خاص ہوگا جماعت کی نماز کے ساتھ،البتہ اگر اصل وضع پر غور کیا جائے تو عموم کا بھی احتمال رکھتا ہے۔یا اس لیے کہ نماز پڑھنے والا نبی علیہ السلام کی اتباع کررہا ہوتا ہے ،اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ پیٹھ کے اوپر دو رگیں ہوتی ہیں ایک دائیں جانب اور ایک بائیں جانب،جب نمازی نماز پڑھتا ہے تو ان کو حرکت دیتا ہے اس لیے اس عبادت کو صلاۃ کہتے ہیں۔ایک قول یہ بھی ہے کہ صلاۃ تعظیم کا نام ہے چونکہ نماز میں انسان رب تعالیٰ کی تعظیم بجا لاتا ہے اس لیے اسے صلاۃ کہتے ہیں ،یہ بھی کہا گیا ہے کہ صلاۃ کا معنی رحمت ہے ،اسی طرح ایک معنی اقبال علی الشیء کسی چیز پر متوجہ ہو نا بھی بیا ن کیا گیا ہے،اور سارے معانی لفظ صلاۃ میں پائے جاتے ہیں،لیکن میرے نزدیک پہلی وجہ زیادہ مناسب ہے"۔لغوی معنی کے بعد مولانا سہارنپوری نے صلاۃ کا شرعی معنی بھی بیان کیا ہے،لکھتے ہیں :واما معناہ الشرعی فھی عبارۃ عن الارکان المعھودۃ والافعال المخصوصۃ[14]" اصطلاح شرع میں ارکان ِ معہودہ اور افعال مخصوصہ کو صلاۃ کہا جاتا ہے ۔" اس کے بعد بطور حوالہ کے آخر میں لکھتے ہیں: ھذا خلاصۃ ما قالہ العینی فی شرح البخاری[15] " لفظ صلاۃ کی مذکورہ بالا تفصیل کو شارح بخاری علامہ عینی نے اپنی کتاب عمدۃ القاری میں ذکر کیا ہے ،میں نے اس خلاصہ یہاں ذکر کیا ہے۔"

 

یہ نہایت خوبصورت اور موثر اسلوب ہے کہ اپنے پیش رو شارحین ِحدیث میں سے کسی کی بات کو ملخص کرکے پیش کردیا جائے۔لیکن یہاں ایک بات کی تشنگی محسوس کی گئی کہ مولانا کی اپنی اس کتاب میں اکثر مواقع پر عادت یہ رہی ہے کہ جب اس طر ح کا کوئی مقام آتا ہے جس میں مختلف اقوال آئیں تو آخر میں’’قلتُ‘‘کہہ کر اپنی رائے کا بھی اظہار کر دیتے ہیں ،یا کم از کم ان اقوال میں سے کسی ایک کو راجح قرار دیتے ہیں،یا ان اقوال میں سے کسی ایک کی طرف اپنا ذاتی رجحان پیش کردیتے ہیں،مقام مذکور میں ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی ذکر نہیں کی گئی،اگر لفظ صلاۃ کے معانی میں سے کسی ایک کے راجح یا مرجوح ہونے کی طرف اشارہ کردیا جاتاتو بات مزید پختہ ہوجاتی۔البتہ غور کرنے سے یوں محسوس ہوتاہے کہ ان کاذاتی رجحان صلاۃ کے پہلے ماخذ اشتقاق کی طرف ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس معنی پر وارد ہونے والے اشکال کو بھی ذکر کیا اور پھر اپنی طرف سے جوا ب مرحمت فرمایا، واللہ اعلم ۔

 

زکوۃ :

بذل المجہودمیں زکوۃ کا معنی بیان کرتے ہوئے شارح نے لکھا ہے:قال الحافظ :الزکاۃ فی اللغۃ النماء،یقال:زکا الزرع اذا نما،وترد ایضا فی المال،وترد ایضا بمعنی التطھیر،وشرعا بالاعتبارین معاً،اما الاول فلان اخراجھا سبب للنماء فی المال ،او بمعنی ان الاجر بسببھا یکثر،او بمعنی ان متعلقھا الاموال ذات النما ء کالتجارۃ والزراعۃ،ودلیل الاول : ما نقص مال من صدقۃ ،ولانھا یضاعف ثوابھا کما جا: ان اللہ یربی الصدقۃ ،واما بالثانی فلانھا طھرۃ للنفس من رذیلۃ البخل تطھیر من الذنوب[16]" حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: لغت میں زکاۃ کے معنی نماء یعنی کسی چیز کے بڑھنے کے آتے ہیں،جیسا کہ کہا جاتا ہے : زکا الزرع اذا نما’’ اس نے پیداوار کی زکاۃ ادا کی جب وہ بڑھ گئی‘‘یہ لفظ مال میں اضافے کیلئے بھی بولا جاتا ہے ،اسی طرح پاکی کے معنی میں بھی آتا ہے۔شرعی اعتبار سے دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس میں دونوں معانی پائے جاتے ہیں ۔پہلا معنی اس طرح کہ جب کوئی شخص اپنے مال کی زکوۃ ادا کرتا ہے تواس کی برکت سے اس کا مال بڑھ جاتاہے،یازکوۃ کی ادائیگی کی وجہ سے اس کا اجر بڑھ جاتا ہے،یا اس طرح کہ زکوۃ ان اموال کے اندر واجب ہوتی ہےجو بڑھنے والے ہوتے ہیں،جیسا کہ مال تجارت اور زراعت وغیرہ،پہلی بات کی دلیل ایک حدیث ہے جس میں ہے کہ صدقہ کی وجہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی،اسی طرح اس کی ایک توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جب کوئی شخص زکوۃ ادا کرتا ہے تو اس کے اجر میں اضافہ کردیا جاتا ہے،اس کی دلیل بھی ایک حدیث پاک ہے جس میں ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ صدقہ کو بڑھاتے رہتے ہیں۔اور رہادوسرا معنی،تو وہ اس طرح کہ زکوۃ نفس کو بخل سے پاک کرتی ہے،اور گناہوں سے پاکی کا سبب بنتی ہے۔"اس کےبعدلکھتے ہیں :وقال ابن العربی:تطلق الزکاۃ علی الصدقۃ الواجبۃ،والمندوبۃ، والنفقۃ،والحق،والعفو[17] "علامہ ابن العربی فرماتے ہیں کہ لفظ زکوۃ کا اطلاق صدقات ِ واجبہ اور مستحبہ پر ہوتا ہے اسی طرح نفقہ ،عفو اور کسی حق پر بھی ہوتا ہے۔"

 

زکوۃ کا شرعی معنی بیان کرتے ہوئے صاحب بذل المجہود نے لکھا ہے : وتعریفھا فی الشرع: اعطاء جزء من النصاب الحولی الی فقیر ونحو غیر ھاشمی ولا مطلبی[18]" اصطلاح شرع میں زکوۃ کا معنی یہ ہے کہ نصاب حولی یعنی وہ نصاب جس پر ایک سال بھی گزر چکا ہو اس میں سے ایک جز کسی فقیروغیر ہ کو دے دینا جو نہ تو ہاشمی ہو اور نہ ہی مطلبی۔"

 

اس جگہ صاحب ِ بذل المجہود نے صرف حافظ ابن حجر کے حوالے سے ساری تفصیلات ذکر کی ہیں،لغوی معنی کو بیان کرتے ہوئے اس کی تائیداحادیث سے بھی پیش کی ہے،لیکن اس مقام پر اگر لغت کی دیگر کتب سے بھی استفادہ کرلیاجاتا، جیساکہ اکثر مقامات پر مولانا کی عادت رہی ہے،تو زیادہ بہتر ہوتا،[19]مزید برآں زکوۃ کی شرعی تعریف بھی حافظ ابن حجر کی ہی نقل کی گئی ہے حالانکہ وہ فقہ میں امام شافعی کے پیروکار ہیں جب کہ مولانا سہارنپوری فقہ حنفی سے تعلق رکھتے ہیں،اس لیے مناسب یہ تھا کہ زکوۃ کی شرعی اور فقہی تعریف ذکر کرتے وقت ائمہ احناف کی طرف سے پیش کی گئی تعریف کی جاتی۔

 

صوم :

صوم کے معنی سے متعلق بذل المجہود میں لکھا ہے: بکسر الصاد والیاء بدل من الواو ،والصوم والصیام مصدر ان لصام،وھو فی اللغۃ : الامساک ،وفی الشرع : امساک مخصوص فی زمن مخصوص عن شی ء مخصوص ،بشرائط مخصوصۃ[20] "صیام صاد کے کسرہ اور یا ء کے ساتھ پڑھا جاتا ہے جو کہ واو کے بدل کے طور پر آئی ہے،صوم اور صیام دونوں ہی صام یصوم کے مصدر ہیں۔لفظ صوم کے لغوی معنی امسا ک یعنی کسی چیز سے روکنے کے آتے ہیں،اور اصطلاح شرع میں صوم کی تعریف یہ ہے : مخصوص زمانے میں مخصوص اشیاء سے شرائط ِ مخصوصہ کے ساتھ رکنے اور بچنے کا نام صوم ہے جسے ہمارے عرف میں روزہ کہا جاتا ہے۔"

 

مولانا سہارنپوری نے یہاں اپنی عادت سے ہٹ کر ایک نیامنہج اپنایا ہے کہ پہلے اپنی طرف سے لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کر دیا بعد میں ماہرین لغت کے اقوال کو پیش کرکے اپنے بیان کردہ معنی کی تائید کردی،چنانچہ لکھتے ہیں:وقال الراغب:الصوم فی الاصل:الامساک عن الفعل،ولذلک قیل للفرس الممسک عن السیر: صائم،وفی الشرع:امساک المکلف بالنیۃ عن تناول المطعم والمشرب والاستمناءوالاستقاءمن الفجر الی المغرب[21] " لغت کے ماہر امام ،امام راغب اصفہانی (م۵۰۵ھ)لکھتے ہیں کہ لفظ صوم لغت میں کسی چیزسے روک دینے کے معنی میں آتا ہے،یہی وجہ ہے کہ جس گھوڑے کو چلنے پھرنے اور سیر سے روک دیا جائے اسے اہل عرب صائم کہتے ہیں،اور اصطلاح شریعت میں صوم کی تعریف یہ ہے : کسی مکلف انسان کا کھانے پینے اور اپنی جائز نفسانی خواہشا ت کو طلوع فجر سے غروب آفتاب تک پوراکرنے سے روکنے کانام صوم ہے ۔"اس کے بعد علامہ زرقانی کے حوالے سے لکھتے ہیں:وقال الزرقانی:وھو لغۃ ًالامساک عن شیء قولاً ،کقولہ:انی نذرت للرحمن صوماً،ای:امساکا وسکوتا اوفعلا،کقول النابغۃ:خیل صیام وخیل غیر صائمۃ -تحت العجاج واخری تعلک اللجماای:ممکسۃ عن الحرکۃ، وشرعا:امساک عن المفطر علی وجہ مخصوص[22] "علامہ زرقانی نے صوم کا لغوی معنی بیان کرنے کے بعد اسے جاہلی شاعر کے شعر سے بھی ثابت کیا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ صوم لغت میں کسی چیز سے روکنے کانام ہے،چاہے وہ قولا ہو جیسے قرآن مجید میں ہے : میں نے رحمن یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے روزہ رکھنے کی نذر یعنی منت مان رکھی ہے،یا فعلا ہو ، جیسے نابغہ ذیبانی کا شعر ہے :

 

خیل صیام وخیل غیر صائمۃ تحت العجاج واخری تعلک اللجما۔

 

اس شعر میں بھی خیل صیام سے مراد وہ گھوڑے ہیں جنہیں چلنے پھرنے سے روک دیا گیا ہو اسی روکنے کی وجہ سے ان پر صیام لفظ بولا گیا۔ اور صوم کا شرعی معنی یہ ہے کہ روزہ رکھنے کے بعد اسے مخصوص چیزوں سے بچ کر برقرا ر رکھنا"۔مذکورہ طریق ومنہج باقی مناہج سے زیادہ قابل قدر ہے ،کیونکہ اس میں سب سے پہلے مولانا سہارنپوری نے اپنی طرف سے صوم کا لغوی اور شرعی معنی بیان کیا ہےاور پھر بعد میں اپنے بیان کرد ہ معانی کی تائید میں ماہرین لغت اور اپنی پیش رو محدثین وشارحین میں سے ایک کے قول کو بیان کیا ہے ۔

 

حج :

مولانا سہارنپوری نے حج کا معنی بیا ن کرتے ہوئے جہاں لغت کی کتاب لسان العرب سے استشہاد کیا ہے وہاں عربی شعر سےبھی تائید پیش کردی ہے،پھر اپنی عادت کے مطابق اس کو ضبط کرتے ہوئے مختلف لغات کا ذکر کیا ہے ،مولانا لکھتے ہیں: واصل الحج فی اللغۃ:القصد،قال فی لسان العرب:الحج:القصد،حج الینا فلان ای قدم ،وحجہ یحجہ حجا:قصدہ، وحججت فلانا ً واعتمدتہ ای قصدتہ،ورجل محجوج ای مقصود[23] "حج کا لغوی معنی القصد ارادہ کرنا ہے لسان العرب میں یہی معنی بیان کیا گیا ہے، رجل محجوج ایسےشخص کو کہا جاتا ہے جو مطلوب ہو،اسی طرح ’’حج یحج حجا‘‘کا معنی بھی ارادہ کرنے کے آتے ہیں،جب یہ کہا جائے: حججت فلاناً تو اس وقت بھی یہی معنی مراد ہوتا ہےکہ میں نے فلاں کا ارادہ کیا۔"پھرحج کے اسی لغوی معنی پر بطور استشہاد المخبل السعدی کا شعر پیش کیاہے ،لکھتے ہیں: واشھد من عوف حلولا کثیرۃ یحجون بیت الزبرقان المزعفرا[24]

 

اس شعر میں محل استشہاد لفظ یحجون ہے ،اس سے شاعر نے بھی ’’قصد کرنے‘‘کا معنی مراد لیاہے۔اس کے بعد ابن السکیت کی بات کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:ثم تعورف استعمالہ فی القصد الی مکۃ للنسک و الحج الی البیت خاصۃ[25] "اب جب بھی حج کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے بیت اللہ کی زیارت کا قصد کرنا حج کے مناسک ادا کرنے کیلئے،مراد ہوتا ہے۔" اس کے بعد اس کو ضبط کرکے مختلف لغات ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:وھو بفتح المھملۃ وبکسرھالغتان،نقل الطبری ان الکسر لغۃ اھل نجد،والفتح لغیرھم،ونقل عن حسین الجعفی ان الفتح الاسم ،والکسر المصدر،وعن غیرہ عکسہ[26] " لفظ حج کو حاء کے کسرہ یعنی زیر اور فتحہ یعنی زبر کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے،علامہ طبری سے منقول ہے کہ لفظ حج میں حاء پر کسرہ پڑھنا اہل نجد کی لغت ہے،اور فتحہ پڑھنا ا ن کے علاوہ کی ،جب کہ حسین الجعفی فرماتے ہیں کہ جب حاء پر فتحہ یعنی زبر پڑھی جائے تو اس وقت وہ اسم ہوتا ہے ،اور جب کسرہ پڑھاجائے تو اس وقت مصدر،اور ان کے علاوہ دیگر حضرات کے نزدیک اس کے برعکس ہوتاہے"۔یہاں مولانا سہارنپوری نے حج کا شرعی معنی ذکر نہیں کیا ،البتہ لغوی معنی بیان کرتے ہوئے ایک سیر حاصل بحث کی ہے،مناسب یہ تھا کہ شرعی معنی بھی بیا ن کردیا جاتا، جیسا کہ عمدۃ القاری میں علامہ عینی نے ذکر کیا ہے :وَأما شرعا: الْحَج قصد إِلَى زِيَارَة الْبَيْت الْحَرَام على وَجه التَّعْظِيم بِأَفْعَال مَخْصُوصَة،[27]" افعال مخصوصہ کے ساتھ بیت اللہ کی تعظیم کی خاطر زیارت کے قصدکو حج کہتے ہیں۔"[28]

 

نکاح :

نکاح کا معنی مفہوم پیش کرتے ہوئے مولانا سہارنپوری نے مختلف ائمہ کے اقوال ذکر کیے ہیں،اس ضمن میں جہاں لفظ نکاح کا معنی بیان کیا ہے وہاں اس لفظ کو ضبط کرکے ہر لغت کے اعتبار سے اس کا معنی بھی بیان کر دیا ہے ، مزیدبرآں یہ ساری تفصیلات لغت کے بڑے ائمہ کے اقوال سے پیش کی ہیں ۔ لکھتے ہیں: قال الحافظ:النکاح فی اللغۃ:الضم والتداخل،وقال الفراء: النکح۔ بضم ثم سکون۔اسم الفرج،ویجوز کسر اولہ،وکثر استعمالہ فی الوطء،وسمی بہ العقد لکونہ سببہ،قال ابو القاسم الزجاجی: ھوحقیقۃ فیھما،وقال الفارسی:اذا قالوا:نکح فلانۃ او بنت فلان،فالمراد العقد واذا قالوا:نکح زوجتہ فالمراد الوطء،وقال آخرون:اصلہ لزوم شیء لشیء مستعلیاعلیہ ویکون فی المحسوسات،وفی المعانی قالوا:نکح المطر الارض،ونکح النعاس عینہ،ونکحت القمح فی الارض اذا حرثتھا وبذرتہ فیھا، ونکحت الحصاۃ اخفاف الابل[29]"حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : لغت میں نکاح کے معنی الضم یعنی ملانے اور ایک شی کے دوسری میں داخل کرنے کے آتے ہیں،امام فراء فرماتے ہیں کہ النکح نون کے ضمہ اور کاف کے سکون کے ساتھ شرمگاہ کو کہا جاتا ہے،لفظ نکاح کے اول میں کسرہ بھی جائز ہے۔ اس کااستعمال زیادہ تر وطی کے معنی ہی میں ہوتا ہے،اسی وجہ سے عقد کو بھی نکاح کہہ دیاجاتاہےکیونکہ عقدہی وطی کا سبب بنتا ہے،ابوالقاسم الزجاجی فرماتے ہیں: لفظ نکاح دونوں معنوں یعنی ’’الضم ‘‘وطی کرنا اور’’عقد‘‘میں حقیقی ہی ہے،علامہ فارسی فرماتے ہیں: جب یہ کہا جائے کہ نکح فلانۃ یعنی کسی نے فلاں عورت سے نکاح کیا یا فلاں کی بیٹی سے نکاح کیا تو اس وقت اس سےمراد عقد نکاح ہوتا ہے،اور جب یہ کہا جائے نکح زوجتہ تو اس سےوطی مراد ہوتی ہے،بعض دوسرے حضرات کا کہنا ہے کہ اصل میں نکاح کے معنی کسی شیء کا کسی دوسری شی ء کے ساتھ لازم ہوجاناہے جب کہ وہ شی اس پر غالب ہو،اور عام طور پر اس کا تعلق محسوسات سے ہوتا ہے،جب کہ معانی میں لکھا ہے : لوگ کہتے ہیں بارش نے زمین سے نکاح کیا یعنی بارش کا پانی زمین کو لازم ہوگیااور اس کے ساتھ مل گیا،اسی طرح کہا جاتا ہے :نکح النعاس عینہ یعنی نکاح کیا اونگھ نے اس کی آنکھوں سے ،یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب نیند کا آنکھوں پر غلبہ ہو جائے،اسی طرح:نکحت القمح فی الارض اس وقت کہا جاتا ہے جب کاشتکار زمین میں ہل چلاکر بیج ڈال دے،اسی طرح :نکحت الحصاۃ اخفاف الابل اس وقت کہا جاتا ہے جب کنکریاں اونٹوں کے کھروں سےٹکرا جائیں۔"

 

اس کے بعد نکاح کا شرعی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:وفی الشرع:حقیقۃ فی العقد،مجازفی الوطء علی الصحیح، والحجۃ فی ذلک کثرۃ ورودہ فی الکتاب والسنۃ للعقد حتی قیل:انہ لم یرد فی القرآن الا للعقد[30] "اصطلاحِ شرع میں صحیح قول کے مطابق لفظ نکاح کا حقیقی معنی ’’عقد‘‘ہے،جب کہ مجازی معنی ’’وطی ‘‘ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ قرآن وسنت میں جہاں کہیں بھی یہ لفظ آیا ہے اس سے یہی ’’عقد‘‘والا معنی ہی مراد ہوتا ہے۔مولانا سہارنپوری نے لفظ نکاح کے شرعی معنی کو بیان کرنے کے بعد اس پر واردہونے والے اشکال کو پیش کرکے خود جواب دیا ہے ،لکھتے ہیں:ولایردمثل قولہ:حتی تنکح زوجاغیرہ لان شرط الوطء فی التحلیل انما ثبت بالسنۃ،والا فالعقد لابد منہ لان قولہ حتی تنکح معناہ حتی تتزوج ای یعقد علیھا، ومفہومہ ان ذلک کاف بمجردہ ،لکن بینت السنۃ ان لا عبرۃ بمفہوم الغایۃ ،بل لابد بعد العقد من ذوق العسیلۃ، کما انہ لا بد بعد ذلک من التطلیق ،ثم العدۃنعم افاد ابو الحسن ابن الفارس:ان النکاح لم یرد فی القرآن الاالتزویج الا فی قولہ تعالیٗ وابتلوا الیتامیٰ حتی اذابلغوا النکاح،فالمراد بہ:الحلم[31] " ہم نے جو نکاح کا معنی بیان کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ قرآن وسنت میں نکاح کا لفظ جہاں بھی استعمال ہوا ہے اس سے مراد عقد ہی ہے اس پر اشکال نہ کیا جائےکہ قرآن کریم میں ہے: حتی تنکح زوجا غیرہ ،آپ حضرات تو یہاں عقدِ نکاح مراد نہیں لیتے بلکہ نکاح کا دوسرا معنی وطی مراد لیتے ہیں تو آپ کی بات اس آیت سے ٹوٹ رہی ہے،مولانا سہارنپوری اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہم اس آیت میں واقعی نکاح سے وطی مراد لیتے ہیں ،عقد نکاح نہیں۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ ہم نے جو آیت مذکورہ میں نکاح سے وطی والا معنی مراد لیا ہے وہ حدیث کی وجہ سے لیا ہے ،کیونکہ حدیث میں ہے کہ حلالہ کیلئے صرف عقد نکاح ہی کافی نہیں بلکہ خاوند کا اپنی بیوی سے وطی کرنا بھی شرط ہے،(اور یہ آیت حلالہ کے بارے میں اتری ہے)جس طرح اپنے پہلے خاوند کے پاس آنے کیلئے دوسرے خاوند کا طلاق دینا اور اس کی عدت کا گزارنا شرط ہے۔البتہ ابو الحسن ابن الفارس کی بات درست معلوم ہوتی ہے جو انہوں نے کہی کہ لفظ نکاح قرآن مجید میں نکاح کروانے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے،اور دلیل کےطور پر یہ آیت پیش کی ہے: وابتلوا الیتامیٰ حتی اذابلغوا النکاح" تم ان یتیموں کانکاح کروادو جب وہ نکاح کی عمر کوپہنچیں۔"

 

اس کے بعد نکاح کی شرعی تعریف میں اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :وفی وجہ للشافعیۃ کقول الحنابلۃ انہ حقیقۃ فی الوطء مجاز فی العقد[32] " ماقبل کی تفصیل تو احناف کے نزدیک تھی لیکن امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک نکاح کا حقیقی معنی وطی اور مجازی معنی عقد نکاح یعنی خطبہ پڑھنا ہے۔"اس کے بعد’’قیل‘‘کے ساتھ اور معنی بیا ن کرکے اسی کی طرف اپنا ذاتی میلان ظاہر کیا ہے ،لکھتے ہیں: وقیل:مقول بالاشتراک علی کل منھما ،وبہ جزم الزجاجی،وھذا الذی یترجح فی نظری،وان کان اکثر ما یستعمل فی العقد ،ورجح بعضھم الاول بان اسما ء الجماع کلھا کنایات لاستقباح ذکرہ ،فیبعدان یستعیر من لایقصد فحشا اسم ما یستفظعہ لما لا یستفظعہ،فدل علی انہ فی الاصل للعقد ،وھذ ا یتوقف علی تسلیم المدعی انھا کلھا کنایات،وقد جمع اسم النکاح ابن القطاع فزادت علی الالف[33] "اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ لفظ نکاح ان دونوں معانی یعنی عقد نکاح اور وطی میں مشترک ہے، اسی کو علامہ زجاجی نے صحیح قرار دیا ہے ،اوریہی بات میری نظر میں بھی راجح معلوم ہوتی ہے،اگرچہ یہ بات بھی واضح ہے کہ لفظ نکاح اکثر مقامات پر عقدِ نکاح یعنی خطبہ کے معنی میں ہی وارد ہوا ہے۔جب کہ بعض حضرات نےاس کے پہلے معنی یعنی عقد نکاح کو راجح قرار دیا ہے،اس لئے کہ یہ سب جماع کے نام ہیں اور اس سےکنایہ ہیں،لفظ جماع کی قباحت کی وجہ سے اسے ذکر نہیں کیا جاتا،لہذا ایسا لفظ بطور استعارہ کے لیاجس میں کسی قسم کا فحش معنی ظاہرنہیں ہوتا۔اس ساری تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ لفظ نکاح کا اصلی معنی عقد نکاح ہی ہے،اور یہ اس وقت ہے جب اصل مدعی کو تسلیم کر لیا جائےکہ یہ سب نام کنایات میں سے ہیں۔ علامہ ابن القطاع نے نکاح کے ناموں کو جمع کیا ہے ،جن کی تعداد ہزار سے بڑ ھ گئی ہے۔"

 

مقالہ نگار کی رائے

یہاں مولانا سہارنپوری نےلفظ نکاح کا معنی بیان کرنےکےساتھ ساتھ فقہی اختلاف کی نشاندہی بھی کی ہے، مزید برآں بیان شدہ معانی میں سے کسی ایک معنی کی طر ف اپنا ذاتی رجحان بھی ذکر کیا ہے ۔

 

== طلاق :== لفظ طلاق کا لغوی معنی بیان کرتے ہوئے مولانا سہارنپوری لکھتےہیں:والطلاق اسم بمعنی المصدر الذی ھو التطلیق، کالسلام والسراح بمعنی التسلیم،والتسریح،ومنہ قولہ تعالیٰ الطلاق مرتان،ای التطلیق ،والطلاق فی اللغۃ: حل الوثاق،مشتق من الاطلاق،وھو الارسال والترک،وفلان طلق الید بالخیر،ای کثیر البذل[34] " لفظ طلاق اسم ہے لیکن یہ مصدر کے معنی میں ہے،اور مصدر ہے تطلیق جیسا کہ سلام اور سراح ،مصدر تسلیم اور تسریح کے معنی میں ہوتے ہیں،اسی سے اللہ تعالیٰ کا قول: الطلاق مرتان ہے،لغت میں طلاق کا معنی کسی چیز کے کھولنے اور چھوڑ دینے اورترک کرنے کے آتے ہیں،جیسا کہ کہاجاتا ہے: ’’فلان طلق الید‘‘ یہ اس وقت کہاجاتا جب کوئی شخص بہت زیادہ خرچ کرنے والا ہو۔"

 

طلاق کا شرعی معنی بیان کرتےہوئے لکھا ہے: وفی الشرع:حل عقدۃ التزویج فقط،وھو موافق لبعض افرادہ اللغوی[35]اصطلاح شرع میں طلاق عقد نکاح کو ختم کرنے کے معنی میں آتا ہے،چونکہ شرعی معنی میں بھی ترک کرنے اور چھوڑنے کے معنی پائے جارہے ہیں اس لیے مولانا نے کہہ دیاکہ یہ معنی لغوی معنی کے بھی موافق ہے۔[36] اس کے بعد اس لفظ کو ضبط کرتے ہوئے لکھتے ہیں:قال امام الحرمین: ھو لفظ جاھلی،ورد الشرع بتقدیرہ ،وطلقت المراۃ بفتح الطاء ،وضم اللام وبفتحھا ایضا، وھو افصح،وطلقت ایضابضم اولہ وکسراللام الثقیلۃ،فان خففت فھو خاص بالولادۃ،والمضارع فیھما بضم اللام، المصدر فیھما طلقا،ساکنۃ اللا م،فھی طالق فیھما[37] "امام الحرمین فرماتے ہیں: لفظ طلاق جاہلی لفظ ہے ،شریعت نے اسے ہُوبہو اسی طرح قبول کیا ہے جس طرح یہ زمانہ جاہلیت میں بولا جاتاتھا،طلقت المراۃ میں لفظ طلقت طاء کے فتحہ یعنی ز بر اور لام کے ضمہ یعنی پیش ، یا لام کے بھی فتحہ کے ساتھ جو کہ زیادہ فصیح ہے پڑھا جاتا ہے،اسی طرح یہ لفظ طاء کے ضمہ یعنی پیش اور لام مشدد کے کسرہ کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے،لیکن اگر لام مشدد نہ ہو بلکہ مخفف یعنی ساکن ہو تو اس وقت وہ ولادت کے معنی میں آتا ہے،البتہ مضارع کا صیغہ مذکورہ دنوں صورتوں میں لام کے ضمہ یعنی پیش کے ساتھ آتا ہے،اسی طرح ان دونوں صورتوں میں مصدر بھی طلقا لام کے سکون کے ساتھ آتا ہے،جس کے معنی طلاق دینے کے آتے ہیں۔"

جنائز کا معنی و مفہوم:

جنائز کا مفہوم بیان کرتےہوئے مولانا لکھتے ہیں:الجنائز:جمع جنازۃ ،والجنازۃ بفتح الجیم اسم للمیت المحمول، وبکسرھا اسم للنعش الذی یحمل علیہ المیت ،ویقال عکس ذلک ،حکاہ صاحب المطالع ،واشتقاقہ من جنز اذا ستر ،ذکرہ ابن الفارس وغیرہ،ومضارعہ یجنز بکسر النون،وقال الجوھری:الجنازۃ واحد الجنائز،والعامۃ تقول الجنازۃ بالفتح، والمعنی للمیت علی السریر،فاذا لم یکن علیہ المیت فھو سریر ونعش،والجنائز بفتح الجیم لا غیر،قالہ النووی والحافظ وغیرھماسہارنپوری،بذل المجہود، ج10،ص340

 

’’جنائز جنازہ کی جمع ہے،اور جنازہ جیم کے فتحہ کے ساتھ میت کادوسرانام ہے،اور اگر جیم کے کسرہ کے ساتھ پڑھا جائے تو اس چارپائی کو کہاجاتا ہے جس پرمیت کورکھا جاتا ہے،اور اس کے برعکس بھی کہا گیا ہے،اس بحث کو صاحب مطالع نے ذکر کیا ہے،اس کا ماخذ اشتقاق جنز ہے ،ابن فارس وغیر ہ نے اسے اسی طرح ذکر کیا ہے،اس کا مضارع یجنز آتا ہے نون کے کسرہ کے ساتھ،اور علامہ جوہری نے لکھا ہے کہ جنازہ جنائز کی جمع ہےاور عامۃ الناس اسے جنازہ یعنی جیم کے فتحہ کے ساتھ پڑھتے ہیں،جس کے معنی اس چارپائی کے ہیں جس پر میت کو رکھا جاتا ہے،جب اس پر میت کو نہ رکھا گیا ہو تو اسے سریراورنعش کہا جاتا ہے،جنازہ جیم کے فتحہ کے ساتھ پڑھاجائے تو اس کا معنی اس کےعلاوہ نہیں آتا،امام نووی ،حافظ ابن حجر اور دیگر محدثین نے ’’جنائز ‘‘ کی اسی طرح ہی وضاحت کی ہے‘‘۔

 

نتیجہ بحث:

شارحینِ حدیث احادیث کی تشریح کے دوران جب فقہی مباحث کو ذکر کرتے ہیں تو اس دوران ان اصطلاحات کی تشریح بھی خاص طور پر پیش کرتے ہیں جنہیں فقہاء اپنی کتابوں میں کبھی بسط و تفصیل سے اور کبھی اجمال سے ذکر کرتے ہیں،مولانا سہارنپوری نے بھی اپنے پیش رو شارحین ِحدیث کی طرح ان مقامات پر آنے والی اصطلاحات کی ان تما م مناہج کے ساتھ تشریح کی ہے جو عام طور ماہرین علم لغت اور ماہرین علم غریب الحدیث استعما ل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،الفاظ کو ضبط کرنا،واحد کی جمع ،اورجمع کی واحد ذکرکرنا،ماہرین علم غریب الحدیث کے اقوال پیش کرنا ،قیل کے ساتھ تشریح ،کبھی اپنی طرف سے پیش کرد ہ معانی پر ائمہ کے اقوال کوبطور تائید کے پیش کرناوغیر ہ یہ وہ تما م مناہج ہیں جو حدیث کی کتابوں میں شارحین حدیث مدنظر رکھتے ہیں،مزید برآں مولانا سہارنپوری نے اصطلاحات فقہیہ کی توضیح میں حافظ ابن حجر ،ملاعلی قاری اور امام نووی کی پیش کردہ عبارات پر زیادہ انحصار کیا ہے،البتہ ایک چیز جس کی تشنگی محسوس کی گئی کہ مولانا سہارنپوری نے بہت سارے مقامات پر صرف نقل عبارت سے کام لیا ہے،اپنے ذاتی رجحان اور میلان کی طرف اشارہ بہت کم کیا ہے ،جب کہ غور کیا جائے تو اسی کتا ب کے دیگر مقامات پرعام طورپران کا منہج یہ ہوتا ہے کہ اس بحث کے آخر پر اپنی طرف سے تبصرہ بھی پیش کردیتے ہیں،جس میں کسی قول کی طرف اپنا ذاتی رجحان ظاہر کرتے ہیں،یا کسی ایک قول کو راجح قرار دیتے ہیں،یا ایسی کلام کرتے ہیں جو ماقبل کی ساری گفتگو کا نچوڑ ،خلاصہ اور لب لباب ہوتا ہے۔

حوالہ جات

  1. سہارنپوری،بذل المجہود فی حل سنن ابی داؤد،ج 1،ص163-164
  2. اس بات کی تائید لسان العرب کے علاوہ لغت کی دیگرمعروف کتب سے بھی ہوتی ہے جیسا کہ المصباح المنیر میں ہے:(ط هـ ر):طَهُرَ الشَّيْءُ مِنْ بَابَيْ قَتَلَ وَقَرُبَ طَهَارَةً وَالِاسْمُ الطُّهْرُ وَهُوَ النَّقَاءُ مِنْ الدَّنَسِ وَالنَّجَسِ وَهُوَ طَاهِرُ الْعِرْضِ أَيْ بَرِئَ مِنْ الْعَيْبِ وَمِنْهُ قِيلَ لِلْحَالَةِ الْمُنَاقِضَةِ لِلْحَيْضِ طُهْرٌ وَالْجَمْعُ أَطْهَارٌ مِثْلُ قُفْلٍ وَأَقْفَالٍ وَامْرَأَةٌ طَاهِرَةٌ مِنْ الْأَدْنَاسِ وَطَاهِرٌ مِنْ الْحَيْضِ بِغَيْرِ هَاءٍ وَقَدْ طَهُرَتْ مِنْ الْحَيْضِ مِنْ بَابِ قَتَلَ’’لفظ طھر باب قتل یعنی نصر،اور قرب یعنی کرم سے آتا ہے،اس کا مصدر طہارۃ آتا ہےجس کے معنی میل اور نجاست سے پاک ہونے کے آتے ہیں،اور اس کی جمع اطہار آتی ہے جس طرح قفل کی جمع اقفال آتی ہے،اسی طرح جب یہ کہا جائے : امراۃ طاہرۃ تو معنی ہوتا ہے کہ وہ عورت میل سے پاک ہے،اور جب یہ کہا جائے:امراۃ طاہر تو معنی ہوتا ہےوہ عورت حیض سے پاک ہوگئی ‘‘ملاحظہ ہو: المصباح المنیرفی غریب الشرح الکبیر،مادہ ط ہ ر، ج2،ص379 ؛اسی طرح القاموس المحیط میں ہے:الطُّهْرُ،بالضم:نَقِيضُ النَّجاسةِ، كالطَّهارَةِ، طَهَرَ، كنَصَرَوكرُمَ، فهو طاهِرٌ وطَهِرٌ وطَهِيرٌ ج:أطْهارٌ وطَهارَى و طَهِرُونَ. والأَطْهارُ: أيامُ طُهْرِ المرأة’’طہر طا کے ضمہ کے ساتھ نجاست کی نقیض یعنی پاکی کو کہا جاتا ہے،’’طہر ‘‘دو ابواب سے آتا ہے ،نصر اور کرم،اس کی جمع اطہار آتی ہے ،نجاست کی ‘‘۔ملاحظہ ہو:القاموس المحیط،فصل الظاء،ج1،ص432۔اسی طرح تاج العروس من جواہر القاموس میں بھی اسی طرح مذکور ہے:طهر:(الطُّهْرُ، بالضّمِّ: نَقِيضُ النَّجَاسَةِ، كالطَّهَارَةِ)،بالفَتْح.(طَهَرَ، كنَصَرَ وكَرُمَ) طُهْراً وطَهَارَةً، المصدَرَانِ عَن سِيبَوَيْه.’’طہر طا کے ضمہ کے ساتھ ،نجاست کی نقیض یعنی پاکی کو کہا جاتا ہے،لفظ طہردو ابواب سے آتا ہے نصراور کرم اور یہ دو مصادر طہر اور طہارۃ سے آتا ہے، یہ بات امام سیبویہ سے منقول ہے۔‘‘ملاحظہ ہو: تاج العروس من جواہر القاموس،فصل طہر ،ج12،ص442
  3. اس لفظ کی شرعی و اصطلاحی تعریف مختلف کتب فقہ میں موجود ہے۔مثلاً البحر الرائق میں ہے:وَالطَّهَارَةُ بِفَتْحِ الطَّاءِ الْفِعْلُ لُغَةً، وَهِيَ النَّظَافَةُ وَبِكَسْرِهَا الْآلَةُ وَبِضَمِّهَا فَضْلُ مَا يُتَطَهَّرُ بِهِوَاصْطِلَاحًا زَوَالُ الْحَدَثِ أَوْ الْخَبَثِ وَالْحَدَثُ مَانِعِيَّةٌ شَرْعِيَّةٌ قَائِمَةٌ بِالْأَعْضَاءِ إلَى غَايَةِ اسْتِعْمَالِ الْمُزِيلِ وَهُوَ طَبْعِيٌّ كَالْمَاءِ وَشَرْعِيٌّ كَالتُّرَابِ وَالْخَبَثُ عَيْنٌ مُسْتَقْذَرَةٌ شَرْعًا’’ لفظ طہارۃ اگر طا ء کے فتحہ یعنی زبر کے ساتھ پڑھا جائے تو معنی ہوتا ہے فعل طہارت،یعنی پاکی حاصل کرنا،اور طاء کے کسرہ کے ساتھ ہو تو معنی ہوتا ہےآلہ طہارۃ،جب کہ طاء کے ضمہ کے ساتھ ہو تو معنی ہوتا ہےوضو سے بچا ہوا،اور طہارۃ کا اصطلاحی معنی حدث یا خبث کا زائل کرنے کے آتے ہیں،اور حدث ایسے شرعی مانع کو کہتے ہیں جو بدن پر لگی ہوئی ہو،جب تک اسے زائل نہ کردیا جائے اس وقت تک پاکی حاصل نہ ہو سکے ،یہ مزیل نجاست دورطرح کی ہوسکتی ہیں،اول پانی جسے مزیل طبعی کہا جاتا ہے ۔دوم مٹی ،جسے مزیل شرعی کہتے ہیں۔اور خبث نجاست حقیقیہ یعنی ایسی نجاست کو کہتے ہیں جس کا ظاہری وجود ہو۔‘‘ ملاحظہ ہو:البحرالرائق شرح کنزالدقائق،کتاب الطہارۃ،ج۱ص۸؛بدائع الصنائع میں ہے:فَالطَّهَارَةُ فِي الْأَصْلِ نَوْعَانِ: طَهَارَةٌ عَنْ الْحَدَثِ، وَتُسَمَّى طَهَارَةً حُكْمِيَّةً، وَطَهَارَةٌ عَنْ الْخَبَثِ، وَتُسَمَّى طَهَارَةً حَقِيقِيَّةً أَمَّا الطَّهَارَةُ عَنْ الْحَدَثِ فَثَلَاثَةُ أَنْوَاعٍ: الْوُضُوءُ، وَالْغُسْلُ، وَالتَّيَمُّمُ’’ طہار ۃ کی حقیقت میں دو اقسام ہیں،طہارۃ عن الحدث ،ایسی طہار ۃ کو طہارۃ حکمیہ کہتے ہیں،اور طہارۃ عن الخبث،اس طہارۃ کو طہارۃ حقیقیہ کہتے ہیں۔طہارۃ عن الحدث کی آگے تین انواع ہیں:وضو،غسل اور تیمم‘‘۔ملاحظہ ہو:بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،بیان ارکان الوضوء ج۱ص۳؛الدرالمختار میں ہے:وَالطَّهَارَةُ مَصْدَرُ طَهُرَ بِالْفَتْحِ وَيُضَمُّ: بِمَعْنَى النَّظَافَةِ لُغَةً، وَلِذَا أَفْرَدَهَا. وَشَرْعًا النَّظَافَةُ عَنْ حَدَثٍ أَوْ خُبْثٍ’’ لفظ طہارۃ کو طاء کے فتحہ اور ضمہ دونوں کے ساتھ پڑھا جاتا ہے،لغت میں معنی پاکی کے آتے ہیں،اور شرعا حدث اور خبث سے پاکی کا نام ہے‘‘۔ملاحظہ ہو:الدرالمختار ،کتاب الطہارۃ،ج1،ص83
  4. اس بات کی تائید لغت کی معروف کتب سے ہوتی ہے ،چنانچہ تاج العروس من جواہر القاموس میں ہے:والتَّيَمُّمُ:التَّوْخِّي،والتَّعَمُّدُ،اليَاءُ:بَدَلٌ من الهَمْزَةِ) ، يُقالُ: تَيَمَّمْتُهُ، وتَأمَّمْتُهُ. ويَمَّمَهُ بِرُمْحِهِ تَيْمِيماً وَأَمَّمَهُ: (قَصَدَه)۔۔۔۔۔وقالَ ابنُ السِّكِّيتِ: قولُهُ تَعَالى: فَتَيَمَّمُوا صَعِيدا طيبا أيْ:اقْصِدُوا لِصَعِيدٍ طَيِّبٍ’’ تیمم کامعنی قصد اور ارادہ کرنے کے آتے ہیں،لفظ تیمم کی یا ء اصل میں الف تھی ،اس الف کو یا ء سے تبدیل کردیا گیا،جیسے کہا جاتا ہے :تیممتہ یعنی اممتہ مراد یہ ہے کہ میں نے فلاں کام یا فلاں شخص کا ارادہ کیا،ابن السکیت فرماتے ہیں قرآن پاک کی آیت میں فتیمموا صعیدا میں بھی تیمم کا یہی معنی مراد ہے یعنی تم پاک مٹی سے پاکی کا ارادہ کرو‘‘۔ملاحظہ ہو:الزبیدی،محمّدبن محمّدبن عبدالرزّاق الحسين،أبوالفيض،تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت،دار الھدایہ،س۔ن،ج12،ص23 ،اس کے علاوہ لسان العرب میں لغوی معنی کی تائید میں حدیث بھی پیش کی گئی ہے:وَمِنْهُ حَدِيثُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ: وانْطَلَقْت أَتَأَمَّمُ رَسُولَ اللَّهِ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي حَدِيثِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ: فتَيمَّمت بِهَا التَّنُّورأَي قَصَدت’’تیمم کا لغوی معنی ارادہ کرنا ہے جس کی تائید حدیث پا ک سے ہوتی ہے : حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس ارادے سے نکلا کہ رسول اللہ ﷺ کی زیارت کروں۔اسی طرح اسی حدیث کے ایک اور حصے میں یوں فرمایا:فتَيمَّمت بِهَا التَّنُّورأَي قَصَدت’’جب مجھے (غسانی بادشاہ کا خط ملا)تو میں نے اس کے ساتھ تنور کا ارادہ کیا یعنی اسے تنور میں پھینک دیا‘‘۔ملاحظہ ہو: لسان العرب ،ج12،ص23
  5. سہارنپوری،بذل المجہود فی حل سنن ابی داؤد،ج2،ص456
  6. ابن نجیم ،زین الدین بن ابراہیم بن محمد،البحرالرائق شرح کنز الدقائق،بیروت،دار الکتب الاسلامی،ط2،س ۔ن،ج1،ص146
  7. سہارنپوری،بذل المجہود فی حل سن ابی داؤد،ج3،ص5
  8. ایضاً
  9. ایضاً
  10. ایضاً
  11. ایضاً
  12. ایضاً
  13. بنوری،مولانا محمد یوسف ،معارف السنن شرح سنن الترمذی،کراچی،ایچ ۔ایم ۔سعید،ط 4،ج2،ص2
  14. ایضاً
  15. ایضاً
  16. سہارنپوری،بذل المجہود فی حل سنن ابی داؤد،ج6،ص295
  17. ایضاً
  18. ایضاً
  19. دیگر کتب میں اس ضمن میں مفید مباحث عام ملتے ہیں ۔مثلاًعلامہ ابن الاثیر(م۶۰۶ھ) اپنی کتاب النھایۃ فی غریب الحدیث والاثر میں لکھا ہے :(زَكَا)(هـ) قَدْ تَكَرَّرَ فِي الْحَدِيثِ ذكْر «الزَّكَاة والتَّزْكِيَة» وَأَصْلُ الزَّكَاةِ فِي اللُّغة الطَّهارةُ والنَّماءُ والبركَةُ والمدحُ، وكُلُّ ذَلِكَ قَدِ اسُتْعمل فِي القُرآن وَالْحَدِيثِ، وَوَزْنُهَا فَعَلَة كالصَّدقَة، فَلَمَّا تحرَّكت الْوَاوُ وانْفتَح مَا قَبْلَهَا انقلبَتَ ألِفاً، فُتطلَق عَلَى العَين، وَهِيَ الطَّائفَة مِنَ الْمَالِ الْمُزَكَّى بِهَا، وَعَلَى المَعنى، وهو التَّزْكِيَةُ.’’احادیث میں زکاۃ اور تزکیہ کے الفاظ اکثر استعمال ہوئے ہیں،لغت میں زکاۃ کےمعنی پاک کرنے ،کسی چیز کے بڑھنے،برکت اور مدح کے آتے ہیں،اور یہ سب معانی قرآن وحدیث میں استعما ل کیے گئے ہیں،اس کا وزن فعلۃ آتا ہے جیسا کہ صدقۃ ،صرف کے قاعدہ کے رو سے واو کو الف سے تبدیل کر دیا ،اس کا اطلاق عین چیزپر ہوتا ہے،اور عین سے مراد مال کا وہ مجموعہ جس کی زکاۃ دی جائے ‘‘۔ملاحظہ ہو: النھایہ فی غریب الحدیث والاثرج2،ص307؛علامہ فیروزآبادی لکھتے ہیں:زَكَا يَزْكُو زَكاءً وزَكْواً: (نَمَا،كأَزْكَى،وزَكَّاهُ الله تعالى،’’ لفظ زکاۃ کے لغوی معنی بڑھنے اور پاک کرنے کے آتےہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے:زکا ہ اللہ تعالیٰ یعنی اللہ تعالی ٰ نے اسے پاک کردیا‘‘۔الفیروز آبادی،مجد الدین ابو طاہر محمد بن یعقوب ، القاموس المحیط ، بیروت،مؤسسۃ الرسالۃ للطباعۃ والتوزیع ،ط8، 1426ھ،ت: محمد نعیم العرقسوسی،(فصل : ز ک ی)ص1292۔تاج العروس میں بھی اسی طرح کے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ زکوۃ کے معانی بیان کیے گئے ہیں ،ملاحظہ ہو: تاج العروس من جواہر القاموس،مادہ:زکو، ج38 ص223؛ امام سرخسی (م۴۸۳ھ) لکھتے ہیں:الزَّكَاةُ فِي اللُّغَةِ عِبَارَةٌ عَنْ النَّمَاءِ وَالزِّيَادَةِ وَمِنْهُ يُقَالُ زَكَا الزَّرْعُ إذَا نَمَا فَسُمِّيَتْ الزَّكَاةُ زَكَاةً لِأَنَّهَا سَبَبُ زِيَادَةِ الْمَالِ بِالْخَلَفِ فِي الدُّنْيَا وَالثَّوَابِ فِي الْآخِرَةِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَقِيلَ أَيْضًا إنَّهَا عِبَارَةٌ عَنْ الطُّهْرِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى أَيْ تَطَهَّرَ وَإِنَّمَا سُمِّيَ الْوَاجِبُ زَكَاةً؛ لِأَنَّهَا تُطَهِّرُ صَاحِبَهَا عَنْ الْآثَامِ،’’ لغت میں زکاۃ کے معنی نماء یعنی بڑھنے کے آتے ہیں،جیسے کہا جاتا ہے زکا الزرع اذا نما یعنی فلاں شخص نے اپنی کھیتی کی زکاۃ ادا کی جب وہ بڑھ گئی،سو زکاۃ کو بھی زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے ذریعے مال میں اضافہ اور زیادتی ہے اور آخرت میں ثواب کا ذخیرہ اکٹھا ہوتا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود ارشادفرماتے ہیں: جو تم خرچ کرتے ہو وہ تمہیں اس کا بدل عطاکرے گا،اسی طرح ایک معنی پاک کرنے کے بھی آتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری ہے تحقیق کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا،اس معنی کے اعتبار سے زکاۃ کا مطلب یہ ہوگا کہ زکاۃ ادا کرنے سے انسان گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے اس لیے اسے زکوۃ کہتے ہیں‘‘۔ ملاحظہ ہو: مبسوط للسرخسی ، کتاب الزکاۃ،ج2،ص149۔
  20. سہارنپوری،بذل المجہود فی حل سنن ابی داؤد،ج8،ص421
  21. ایضاً
  22. ایضاً
  23. سہارنپوری،بذل المجہود فی حل سنن ابی داؤد ،ج7،ص6
  24. ایضاً
  25. ایضاً
  26. سہارنپوری،بذل المجہود فی حل سنن ابی داؤد ،ج7،ص7
  27. عینی ،بدر الدین ،ابو محمد محمود بن احمد بن موسی بن احمد بن حسین ،عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری،بیروت،داراحیاء التراث العربی،ج9،ص121
  28. امام سرخسی نے مبسوط میں مذکورہ بالا تعریف سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ تعریف کی ہے: وَفِي الشَّرِيعَةِ: عِبَارَةٌ عَنْ زِيَارَةِ الْبَيْتِ عَلَى وَجْهِ التَّعْظِيمِ لِأَدَاءِ رُكْنٍ مِنْ أَرْكَانِ الدِّينِ عَظِيمٍ، وَلَا يُتَوَصَّلُ إلَى ذَلِكَ إلَّا بِقَصْدٍ، وَعَزِيمَةٍ، وَقَطْعِ مَسَافَةٍ بَعِيدَةٍ. فَالِاسْمُ شَرْعِيٌّ فِيهِ مَعْنَى اللُّغَةِ’’ دین عظیم کے ارکان میں سے ایک اہم رکن کی ادائیگی کے لیے بیت اللہ کی تعظیم کا ارادہ کرنے کے لیے جو سفر کیا جائے اسے حج کہا جاتا ہے،پھر چونکہ ان تمام ارکان کی ادائیگی میں قصد ونیت کو بہت دخل ہوتا ہے اس لیےشرعی معنی میں لغوی معنی بھی داخل ہوگیا۔‘‘ ملاحظہ ہو: مبسوط ،سرخسی،محمد بن احمد بن ابی سہل،بیروت،دار المعرفہ،ط 1، 1414ھ ،ج4،ص2
  29. سہارنپوری،بذل المجہود فی حل سنن ابی داؤد،ج7،ص574
  30. ایضاً
  31. ایضاً
  32. ایضاً
  33. ایضاً
  34. سہارنپوری،بذل المجہود فی حل سنن ابی داؤد،ج8،ص130
  35. ایضاً
  36. طلاق کا لغوی اور شرعی معنی امام سرخسی نے مبسوط میں یوں ذکر کیا ہے:الطَّلَاقِ فِي اللُّغَةِ عِبَارَةٌ عَنْ إزَالَةِ الْقَيْدِ، وَهُوَ مَأْخُوذٌ مِنْ الْإِطْلَاقِ يَقُولُ الرَّجُلُ أَطْلَقْت إبِلِي وَأَطْلَقْت أَسِيرِي وَطَلَّقْت امْرَأَتِي فَالْكُلُّ مِنْ الْإِطْلَاقِ۔۔۔۔۔۔۔۔وَمُوجِبُ الطَّلَاقِ فِي الشَّرِيعَةِ رَفْعُ الْحِلِّ الَّذِي بِهِ صَارَتْ الْمَرْأَةُ مَحِلًّا لِلنِّكَاحِ إذَا تَمَّ الْعَدَدُ ثَلَاثًا كَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى {فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ " لغت میں طلاق کا معنی قید سے آزاد کرنے کے آتے ہیں،اور طلاق ماخوذ ہے اطلاق سے (آزاد کردینا،چھوڑدیناوغیرہ)جب آدمی یہ کہے کہ اطلقت ابلی میں نے اپنے اونٹ کو آزاد کردیا یا کہے اطلقت اسیری میں نے اپنے قیدی کو آزاد کردیا یا طلقت امراتی میں نے اپنی بیوی کو نکاح والی غلامی سے آزاد کردیا ،تو تمام کےتمام الفاظ میں اطلاق یعنی آزادی والا معنی پایا جارہا ہے ،اور شریعت میں طلاق کا موجب اس حلت کو ختم کرنا ہے جو نکاح کے ذریعے سے حاصل ہوئی تھی جب کہ تین مرتبہ طلاق دے دےجیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے: تین طلاق کے بعد وہ عور ت اپنے خاوند پر حلال نہیں ہوسکتی جب تک کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے۔‘‘(مبسوط للسرخسی،کتاب الطلاق،ج3،ص6)لسان العرب میں بھی مذکورہ بالا الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ کےساتھ وضاحت کی گئی ہے ۔ملاحظہ ہو:لسان العرب،فصل:الطاء المھملۃ، ج10،ص226،اسی طرح النھایہ میں بھی یہی معانی بیان کیےگئےہیں:النھایہ فی غریب الحدیث والاثرج3،ص134-135، اسی طرح تاج العروس کو ملاحظہ فرمائیں: مادہ :ط ل ق ،ج26،ص89
  37. حوالہ بالا
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...