Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 1 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

توہین مذہب و رسالت اور سماجی رویے: اسلامی تناظر میں |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060029185_691

Pages

02-11

DOI

10.51411/rahat.1.1.2017.4

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/4/300

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/4

Subjects

Extremism blasphemy Islam responsibilities Social attitude

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

موجودہ انتشار ،افتراق اور لاقانونیت کی فضا اصحاب علم و دانش اور درد مند دل رکھنے والوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ پروپیگنڈےاور افواہوں کی گرم بازاری عام ہے ۔ہمارے انفرادی اوراجتماعی رویوں میں متشدد انہ رجحانات کا اضافہ روز بروز بڑھتا چلا جارہاہے ۔قومی اور بین الاقوامی سطح کی پالیسیاں اور اقدامات بھی اسی صورت حال کی آئینہ دار ہیں۔انتہاء پسندی کی جڑیں چاہے مذہب بیزاری کی شکل میں ہوں یا مذہب پرستی[1] کی صورت میں نہ صرف بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہیں بلکہ مضبوط اور مستحکم ہو رہی ہیں ۔نسلی، لسانی ،مذہبی ،مسلکی اور گروہی اختلافات نےقومی وحدت اوریکجہتی کو بری طرح سےمجروح کر رکھاہے ۔ پروپیگنڈے اور افواہوں کی گرم بازاری عام ہے ۔قانون کا عدم احترام اور اس کی بالا دستی مفقود نظرآتی ہے انتہاء پسندی اور جذباتیت پر مبنی رویے کسی ایک جماعت یا طبقے کے ساتھ مخصوص نہیں،نہ یہ کسی ایک قوم یا مذہب کا مسئلہ ہے ،انہیں اخلاقی تعلیمات ہی کے ذریعے متواز ن بنایا جا سکتاہے ۔مغربی مفکرین کہتے ہیں کہ ہمارے مسائل کا حل سائنسی تجربہ گاہوں میں نہیں مل سکتا ۔ہمارےمسائل اخلاقی ہیں اورسائنس اخلاق کےدائرےمیں کوئی دخل نہیں رکھتی ۔ان معاشرتی بیماریوں کو خدا کے بغیر حل کرنے کے نتائج ہمارے سامنےآچکے ہیں۔مذہب کی ان تعلیمات ہی کے ذریعے بہتر معاشرہ کی تشکیل اورمتوازن اورمعتدل شخصیت کی تعمیرممکن ہےجوآج کابہت بڑا چیلنج ہے۔قرآن وسنت اوراسوہ نبوی ﷺ کی روشنی میں مذکورہ ہدف کو بخوبی حاصل کیا جاسکتاہے اورانفرادی اور اجتماعی رویوں میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے ،جنہیں درج ذیل نکات میں پیش کیاجا رہا ہے۔

اسلام آزادی رائے (Freedom of Expression) کا علمبردار ہے وہ اختلاف اور تنقید کی حوصلہ افزائی کرتاہے کیونکہ حقیقت تک رسائی اس کے بغیرممکن نہیں مگرکسی کی بھی توہین وتذلیل اور استہزاء کی اجازت نہیں دیتا،حتی ٰ کہ اسلام کے بنیادی عقیدہ توحید کو ثابت کرنے کے لیے بتوں اور معبودان باطلہ کو بھی برا بھلا کہنے سے منع کرتاہے ۔قرآن حکیم میں ہے کہ:

وَلَا تَسُبُّوا ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ فَيَسُبُّوا ٱللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ‌ عِلْمٍ۔[2]

ترجمہ:اور انہیں گالیاں نہ دو جنہیں یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں کہیں یہ لوگ حد سے تجاوز کرکے اپنی جہالت کی بناء پر اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں ۔

گالیوں پر وہ اترتاہے جن کے پاس دلیل نہ ہو اور سچائی پر مبنی مذہب کے پاس ٹھوس دلائل کی کوئی کمی نہیں ۔اسلامی تعلیمات ،قرآن حکیم اور فرامین نبویﷺ پر ہر دور میں اعتراضات ہوتے رہے مگر مسلمانوں نے ان کی باتوں پر جذباتی ہونے کے بجائے دلیل ومنطق سے جواب دیا۔آزادی اظہار رائے کی آڑمیں توہین رسالت اور توہین مذہب انتہائی سنگین جرم ہے جس کے سد باب کے لیے نہ صرف عالمی سطح پر قانون سازی ضروری ہے بلکہ ملکی سطح پر بھی ثبوت جرم کے بعد قوانین کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قانون ہاتھ میں لینے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔توہین رسالت ومذہب کےمجرموں کا تحفظ ،مغربی دنیا میں سیاسی پناہ اورخصوصی پروٹوکول عوامی جذبات میں اشتعال پیداکرنے کا ایک اہم سبب ہے جس کی طرف حکومتوں کو مناسب توجہ دینی چاہیئے جوکہ پوری دنیا میں پرامن بقائےباہمی(Peaceful Coexistence)کے لیے ضروری ہے ۔

توہین رسالت کےحوالے سے مغربی رویے نہ صرف باہمی منافرت اور تعصب میں اضافہ کر رہے ہیں بلکہ یہ زہر ہمیں تہذیبوں کے تصادم کی طرف بھی لے جا رہاہے ۔ایک طرف ڈائیلاگ اور مکالمہ کی با ت اور دوسری طرف آزادی اظہار کے عنوان سے توہین کی کھلی اجازت اور ایسے اشخاص کی حوصلہ افزائی دراصل وہ منافقانہ رویہ ہے جو اصلاح طلب ہے۔ اسلامی تعلیمات تمام مذاہب اور مقدسات کے احترام کی تعلیم دیتی ہیں اس حوالے سے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر ضروری قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے Basic charter کا بھی تقاضہ ہے کہ تمام مذاہب اور انبیاء کی حرمت کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی قوانین بنائےجائیں اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔

مختلف مذہبی حلقوں کی طرف سے توہین آمیز مواد کا بار بار تذکرہ اور سوشل میڈیا پر بار بار توہین آمیز موادکی نشاندہی اوراشاعت بھی کسی حدتک توہین رسالت کا باعث بنتی ہے جس سے اجتناب انتہائی ضروری ہے ، (البتہ اس کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے ثبوت کے لیے بطور ریکارڈ رکھاجا سکتا ہے) اس قسم کےمواد پر غیر محتاطComment سے گریز کرنا چاہئے جس سے Confusionپیداہو جو فتنہ وفسادکا باعث بنےیا جس سےخوداپنی ذات یادوسروں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ 

اسلام میں توہین رسالت ناقابل معافی جرم ہے اور اس کےمرتکبین کو دنیا اور آخرت میں ملعون قرار دیا گیا ہے اور عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ ملکی قوانین میں توہین رسالت کی سزا موت ہے۔ مختلف اہل علم کی رائے کے مطابق یہ سزا دراصل ایک تعزیری سزا ہے جس میں جرم کی نوعیت ، اس کے اثرات،مجرم کی حیثیت اور سزا کے ممکنہ سیاسی سماجی اثرات کے لحاظ سے اس میں کمی بیشی کی گنجائش ہو سکتی ہے اور اس حوالے سے یہ تجویز بھی بہت اہم ہے کہ الزام غلط ثابت ہونے کی صورت میں الزام لگانے والا بھی مستوجب سزا ہونا چاہئے جس کے لیے مناسب قانون سازی کی جا سکتی ہے۔تاکہ نہ صرف بے گناہ سزا کی بھینٹ چڑھنے سے بچ سکیں بلکہ غلط الزام لگانے والوں کی بھی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں توہین رسالت کےقانون کے تحت مقدمات میں نصف سے زیادہ مقدمات میں ملزم مسلمان ہیں ان میں سے بعض کیسز ایسے ہیں جو مسلکی اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف درج کروائے گئے ہیں۔ اس قسم کے الزامات چاہے وہ مسلمانوں کے خلاف ہوں یا غیر مسلموں کے خلاف ان کی منصفانہ تحقیق ہر قسم کے مذہبی اور مسلکی تعصبات سے بالا ترہو کر کرنا ضروری ہے۔بدقسمتی سے توہین رسالت پر سزا کا مسئلہ اس وقت مغرب اور اس سے متاثرہ افراد و طبقات کےلیے قابل قبول نہیں مگر وہ اس کی مخالفت میں قانون کے غلط اور جانبدارانہ استعمال کا حوالہ دیتے ہیں۔ جب کہ ہمارے مذہبی اور معاشرتی رویے بالعموم ان کے موقف کو جوازفراہم کر رہے ہیں جن کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ 

بغیر ثبوت اور تحقیق کے کسی کے خلاف فتویٰ چاہے کفر کا ہو یا ارتداد کا، توہین مذہب کا ہو یا توہین رسالت کا ناجائز ہے اور ایسا اقدام سنگین جرم ہے۔تکفیر کا معاملہ انتہائی نازک اور حساس ہے کیونکہ کسی مسلمان کی تکفیر کا نتیجہ اسے مباح الدم سمجھ کر واجب القتل ہونے تک پہنچا دیتا ہے۔ آدمی کو گالی دینے سے اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنا مذہب سے اخراج پر ،حدیث میں ہے کہ:

الا ان ترو کفراً بواحاً عندکم من اللہ فیہ برھان۔[3]

ترجمہ: مگر یہ کہ تم صریح کفر دیکھواورتمہارے پاس اللہ تعالی کی جانب سے دلیل ہو۔

یعنی کہ جب تک کفر صریح اور واضح نہ ہو بڑے سے بڑا گناہ بھی کسی کو اسلام سے خارج نہیں کرتا۔اسی طرح ایک دوسرےحدیث میں ہےکہ:

اذا کفر الرجل اخاہ فقد باء بہا احدھما۔[4]

ترجمہ:جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو وہ کفر دونوں میں سے کسی ایک کی طرف ضرور پلٹتا ہے۔

ایک صحابی نے مشرکین سے لڑتے ہوئے ایک شخص پر تلوار چلائی اس نے فوراََ کلمہ پڑھ لیا مگر اسنے پرواہ نہ کی اور قتل کر دیا حضورﷺنے اس پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا انہوں نے یہ عذر پیش کیا کہ اسنے تو ڈر سے کلمہ پڑھا تھا آپ ﷺبار بار افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے جاتے تھے کہ کیا تم نے اسے لاالٰہ الااللہ پڑھنے کے باوجود قتل کردیا ۔

عن اسامۃ ابن زیدؓ قال بعثنارسول اللہ ﷺ سریۃ الی الحرکات فنذروا بنا فھربوا فادرکنارجلاًفلماغشیناہ قال لاالہ الااللہ فضربناہ حتی قتلناہ فذکرتہ للنبیﷺ فقال من لک بلا الہ الااللہ یوم القیامہ فقلت یارسول اللہﷺ انما قالھا مخافۃ السلاح قال افلاشققت عن قلبہ حتی تعلم من اجل ذالک قالھاام لا۔[5]

ترجمہ:حضرت اسامہ ابن زیدؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺنے ہمیں ایک سریہ میں حرکات کی ترف بھیجا،انہوں نے ہمارا پیچھا کرلیاپھر وہ بھاگ گئے،توہم نے ان میں سے ایک آدمی کو پایاجب ہم نے اس کو قابو کرلیااس نے کلمہ پڑھاتو ہم نے اسے مارایہاں تک کہ اسے قتل کردیا۔ ہم نے اس کا تذکرہ حضورﷺسے کیاتو آپﷺنے فرمایاقیامت کے دن کلمہ کے مقابلے میں تمہارا کون ہوگاتو میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺاس نے تو اسلحے کے خوف سے کلمہ پڑھا۔تو آپﷺ نے فرمایا تو نے اس کے دل کو چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا؟کہ اس نے اسی وجہ سے کلمہ پڑھا ہے یا نہیں؟ (یعنی کہ وہ مسلمان ہے یانہیں یعنی ظاہر پر فیصلہ کرناچاہیے تھا دلوں کا حال اللہ جانتاہے)۔

محض شک کی بناء پر کسی مسلمان کو کافر کہنے یا اس کے خلاف اقدام کی اسلام میں اجازت نہیں۔قرآن حکیم کے مطابق جہاد کے دوران اگر دشمن بھی سلام کہہ دے تب بھی اس پر ہاتھ نہ اٹھاؤ یہ کہتے ہوئے کہ تم مومن نہیں ہو۔ ارشادہے کہ: یاایھاالذین آمنوا اذا ضربتم فی سبیل اللہ فتبینوا ولا تقولوا لمن القیٰ الیکم السلام لست مؤمنا۔[6]

 سلام اسلام کی ادنیٰ نشانی ہے اگر کوئی شخص اپنے ایمان کے اظہار کے لیے سلام کرلے

یاکلمہ پڑھ لے قرآن کے مطابق اس کا قتل جنگ کے ہنگامی حالات میں بھی جائز نہیں اس دوران کسی کے اسلام کی تحقیق نہایت مشکل ہے اندیشہ ہے کہ اس سے دشمن فائدہ اٹھائے مگر اسلام یہاں بھی اسے شک کا فائدہ دیتے ہوئے ظاہر پر عمل کی تلقین کرتاہے ،یہ انسانی جان کے احترام کی آخری حد ہے ۔بلا تحقیق محض شبہ کی بناء پر کسی کو کسی قسم کا نقصان پہنچانا درست نہیں ۔مجرم کے بچ جانے سے زیادہ بری بات یہ ہے کہ کوئی بے قصور سزا پائے یہ بات خود رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمائی ہے۔اور نہ صرف اسلام بلکہ دنیا بھر کے مہذب قوانین میں جرم وسزا کےاس اصول کو تسلیم کیا گیاہے۔ 

خبر کی صحت اور تصدیق کے بغیر محض افواہوں کو پھیلانے سے بھی فتنہ اور انتشار پیدا ہوتا ہے ۔حدیث میں ہےکہ:

کفیٰ باالمرءاثماًان یحدّث بکل ماسمع۔[7]

ترجمہ:انسان کےجھوٹا ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ وہ ہر بات دوسروں کو سنانے لگے جو اس نے کہیں سے بھی سن لی ہو ۔

قرآن کے مطابق انسان جو بات بھی اپنی زبان سے نکالتاہے تو ایک مستعد نگران (فرشتہ)اسے محفوظ کرلیتاہے۔حدیث میں جلد بازی کو شیطانی کام قرار دیاہے۔جس میں فورا کسی بات پر یقین کرنا،فوری ردعمل ظاہر کرنا،فوری کاروائی ،سوچ و بچار اور نتائج پر غور وفکر کے بجائے فوری جذباتی رد عمل بڑا خطرناک ثابت ہوتاہے۔سورۃ حجرات میں بغیر تحقیق کے محض سنی سنائی بات پر فوری ایکشن والے رویے کی مذمت اور اصلاح کی تلقین کی گئی ہے۔

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ۔[8]

ترجمہ: اے اہل ِایمان ! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شخص کوئی بڑی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کرلیا کرو مبادا کہ تم جا پڑو کسی قوم پر نادانی میں اور پھر تمہیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔

اسلامی تعلیمات کسی بھی ذیادتی اور قانون شکنی کی صورت میں خود قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتیں کیونکہ ایسا عمل خود خلاف قانون ہے ۔اگر ہر شخص خود فیصلہ کرنے اور سزائیں دینے لگے تو معاشرتی امن تہ و بالا ہوجائے گا اور کئی بے گناہ اس کی بھینٹ چڑھ جائیں گے ۔ قرآن مجید نے مقتول کے اولیاء کو یہ حق تودیاہے کہ وہ قاتل کے خلاف مقدمہ کا فریق بنے لیکن اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بطور خود قصاص کی کاروائی کرے۔قصاص کی سزا بہر حال عدالت ہی کے ذریعہ نافذ ہوگی۔

 اسلامی تعلیمات اس کی قطعا اجازت نہیں دیتیں کہ کوئی شخص شریعت کے خلاف ہو نے والے کسی عمل پر خود فیصلہ کرنے بیٹھ جائے اور ہتھیار اٹھا کر لوگوں کو قتل کرنا شروع کردے ۔ بخاری کی روایت میں ہےکہ نبی کریمﷺسےایک شخص نے دریافت کیاکہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو عین بدکاری کی حالت میں دیکھے تو کیا وہ اسے قتل نہیں کرے گا؟ آنحضرتﷺنے اسے ایسی اجازت دینے سے انکار کردیا اور قانون کا راستہ اختیار کرنےکی تلقین فرمائی،جیسا کہ ارشاد ہے:

عن ابی ھریرۃ ؓ ان سعد ابن عبادہ ؓ قال لرسول اللہ ارایت لو وجدت مع امراتی رجلا ا مھلہ حتیٰ اتیٰ باربعة شھداء؟فقال نعم۔[9]

ترجمہ: حضرت ابوھریرہ ؓ سے روایت ہےکہ سعدابن عبادہ ؓنےکہاکہ یارسول اللہﷺ کیاآپ سمجھتےہیں کہ اگرمیں اپنی بیوی کےساتھ کسی کودیکھوں تومیں چارگواہ لانےتک انہیں مہلت دوں؟توحضورﷺنےفرمایاہاں۔

غصے اور اشتعال کی فضامیں کئے گئے اقدامات بالعموم متوازن اور درست نہیں ہوتے کیونکہ اس موقع پر آدمی کی قوت فیصلہ کم یاختم ہوجاتی ہے ۔اسی لیے حدیث میں قاضی کو غصہ میں بھی فیصلہ کرنے سے منع کیاگیا ہے ۔

اورقرآن حکیم کی سابقہ ذکر کردہ آیت میں ایسی بری باتوں سے بھی گریز کا حکم دیاہے جو

مخالف کو مشتعل کر دیں۔اشتعال انگیز ی اور جذباتی نعرے اکثر بد امنی انتشار اور نقصان کا باعث بنتے ہیں اسی لیے رسول اللہﷺنے فتح مکہ کے موقع پرمکہ میں داخل ہوتے وقت اس صحابی سے جھنڈا لے لیا جنہوں نے یہ نعرہ لگایاتھاکہ:

الیوم یوم الملحمۃ الیوم تستحل الکعبۃ ۔۔۔۔۔ولکن ھذا یوم یعظم اللہ فیہ الکعبۃ ویوم تکسی فیہ الکعبۃ۔[10]

ترجمہ: آج توجنگ کادن ہےآج توکعبہ کی حرمت کاحکم بھی ختم ہوگیا ۔توآپﷺ نے فرمایا آج تو رحمت کا دن ہے۔یہ ایک ایسا دن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں کعبے کو عظمت دی اور ایسا دن ہے کہ اس میں کعبہ کو کپڑا پہنایا جائے گا۔

اس اخلاقی کردار کے سامنے اور عام معافی کے اعلان سے پتھر دل موم اور خون کے پیاسے آپﷺ کے دیوانے بن گئے ۔

بعض اوقات مذہبی جذبات ،ذاتی مفادات اور نفسانی خواہشات کے زیر اثر ہوتے ہیں اوربعض دفعہ انہیں مذہب کانام بھی دے دیا جاتاہےحالانکہ جنگ وجہاد میں بھی اسلام مذہبی جذبات کو اعتدال میں رکھنے کی ہدایت کرتاہےاور مجاہد کو بھی غیظ وغضب سے مغلوب نہ ہونے کی تلقین کرتاہے اور جنگ کو بھی اخلاقی ضابطوں کا پابند بناتے ہوئے بچوں ،بوڑھوں ،مذہبی پیشواؤں اورجنگ سے گریز کرنے والوں کونقصان پہنچانے سے منع کرتاہے ۔یہ اسی تربیت کانتیجہ ہے کہ حضرت علیؓ کافر کو بچھاڑنے کے بعد محض اس کےتھوکنے پر اسے قتل کرنے سے گریز کرتے ہیں تاکہ قتل کرنے میں نفس کی خواہش شامل نہ ہوجائے اوریہی اخلاقی کردار اسکے اسلام قبول کرنے کا باعث بنتاہے ضبط نفس Self-Controlکا یہ مقام حاصل ہو تو جہاد اور چمکتی ہوئی تلوار یں بھی میدان دعوت بن جاتی ہیں کیونکہ اسلام انتہاء پسندی کا جواب اعتدال وتوازن سے ،برائی کا اچھائی سے ،فرت کا محبت سے اور گالیوں کا دعاؤں سے، جوش وجذبات کا ہوش وخرداور حکمت سے دینے کی تعلیم دیتاہےاور جانی دشمن کے ساتھ بھی ناانصافی سے منع کرتاہے۔

10۔اس وقت نوجوان نسل کے ذہنی انتشار کا اصل سبب وہ تضادات ہیں جو ہماری سوسائٹی ، ہمارے نظام تعلیم اور میڈیا کے پیداکردہ ہیں۔جو متوازن اور متکامل شخصیت کے بجائے Split personality کی تشکیل کا باعث بن رہے ہیں ۔اور جب تک یہ تضاد سوسائٹی اور بالخصوص نظام سے ختم نہ ہوگا نوجوان نسل تضادات ،شکوک وشبہات ،ابہاماتConfusion کاشکار رہے گی۔ اس کیلئے ہمیں ایک ایسے نظام تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے جو دین ودنیا کی جدائی کے سیکولر مغربی تصورکےبجائےوحدت علم اورمحض عقل کےبجائے عقل ونقل (Revelation & Reason) کا جامع ہو،اخلاقی اقدارپر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں اورضروریات سے ہم آہنگ ہو۔اس کے ساتھ ساتھ ایسے علمی فورمز کی تشکیل کی ضرورت ہے جہاں مختلف سوچ رکھنے والوں کے درمیان ڈائیلاگ مکالمہ کی فضاخوشگوار ماحول میں ہو، جہاں تنقید کی حوصلہ افزائی اور تنقیص و توہین کی حوصلہ شکنی پر مبنی رویوں کو ترویج دیاجائے۔یہی وہ واحد حل ہے جس کے ذریعے فکری انتشار اورذہنی ارتداد( Intellectual apostasy ) کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کی معتدل اور متوازن تعلیمات کو ان کی حقیقی روح کے ساتھ سمجھنے اور عمل کرنےکی توفیق نصیب فرمائے۔اٰمین

حوالہ جات

  1. مذ ہب پرستی کی اصطلاح شعوری طور پر استعمال کی ہے یعنی ذاتی مذہبی فکر اور سوچ کو دین کادرجہ دینا جوکہ غلو فی الدین ہے. اسلام کی اصطلاح مذہب پرستی کی نہیں اتباع دین کی ہے۔
  2. الانعام6: 108
  3. القشیری، ابوالحسین مسلم ابن الحجاج ، الجامع الصحیح للمسلم/ المسند الصحیح المختصر من السنن بنقل العدل عن العدل عن رسول اللهَﷺ، دارالکتب العربی، بیروت، کتاب الامارہ، باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ و تحریمھا فی المعصیہ،ج3،ص1470
  4. ایضاً ،کتاب الایمان،باب بیان حال الایمان من قال لاخیہ المسلم یاکافر،ج1، ص79
  5. السجستانی،ابوداؤدسلیمان ابن اشعث،سنن ابوداؤد،دارالکتب العربی، بیروت، کتاب الجہاد،باب علی ما یقاتل المشرکون،ج2،ص348
  6. النساء94:4
  7. بحوالہ بالا،سنن ابوداؤد،کتاب الادب،باب تشدیدفی الکذب،ج2، ص339
  8. الحجرات 6:49
  9. بحوالہ بالا،سنن ابوداؤد،کتاب الدیات،باب فیمن وجد مع اہلہ رجلا ایقتلہ،ج4،ص305
  10. البخاری،ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح للبخاری/ الجامع المسندالمختصر من امور رسول اللهَ ﷺ وسننہ وایامہ ، قدیمی کتب خانہ،کراچی،کتاب المغازی، باب این رکذ النبی ﷺ الرای یوم الفتح،ج2،ص613
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...