Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

تکملہ فتح الملہم میں متون احادیث کی لغوی تحقیق و مباحث |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

دوسری صدی ہجری کے بعد حدیث کی باقاعدہ تدوین شروع ہوئی اور تیسری صدی ہجری میں ائمہ ستہ کی مشہور زمانہ تالیفات وجود میں آگئیں۔ احادیث کی جمع و ترتیب اور تہذیب کا یہ سلسلہ چلتا رہا اور مختلف انداز سے محدثین احادیث کو ترتیب دینے کی خدمات سرانجام دیتے رہے لیکن اس میں جو تلقی بالقبول صحیحین کو حاصل ہوا اور ان کی صحت پر امت مسلمہ کا جو اجماع ہوا ،یہ مقام عظیم کسی اور مجموعہ حدیث کو حاصل نہ ہو سکا۔ علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ صحیحین کی شروح میں سے ابن حجر عسقلانیؒ (852ھ) کی فتح الباری بدرالدین عینیؒ (855ھ) کی عمدۃ القاری علامہ ابو زکریا یحیی بن شرف النووی (642ھ )کی صحیح مسلم بشرح النووی، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ (1369ھ) کی فتح الملہم اور جسٹس تقی عثمانی کی تکملہ فتح الملہم کو اہم اور نمایاں مقام حاصل ہے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب کی شرح ہذا در اصل شبیر احمد عثمانی کی شرحفتح الملہم کا تکملہ ہے۔ یہ صحیح مسلم کی عظیم الشان شرح ہے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی نے چودہویں صدی ہجری کے وسط میں صحیح مسلم کی شرحفتح الملہم لکھنے کا آغاز کیا۔ آپ نے یہ شرح کتاب النکاح تک تحریر فرمائی تھی کہ مسلمانوں کے لیے پاکستان کی شکل میں ایک ایسے خطہ کے حصول کی کاوشیں شروع ہو گئیں، جہاں مسلمان انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے نکل کر آزادی کی زندگی گزار سکیں۔ انگریزوں کی قوت اور ہندوؤں کی اکثریت سے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ خطہ کا حصول ایک خواب کی حیثیت رکھتا تھا۔ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی اس خواب کی عملی تعبیر میں سرگرم ہوئے تو تصنیف و تالیف کا کام رک گیا اورکتاب النکاح سے آگے نہ بڑھ سکا۔ یہاں تک کہ1369ھ بمطابق 1949ء کو آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے اورفتح الملہم کا یہ کام تشنۂ تکمیل رہ گیا۔ تقریباً پچاس سال کا عرصہ اسی طرح گذر گیا، یہاں تک کہ شرح ہذا کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا محمد تقی عثمانی کو منتخب فرمایا۔ انہوں نے اپنے والد ماجد حضرت مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع کے حکم پر 25جمادی الاول1396ھ کو اس کام کا آغاز کیا اور تقریباً پونے انیس سال کی خاموش محنت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے 26صفر 1415ھ کو مولانا محمد تقی عثمانی کے ہاتھوں سےفتح الملہم کی تکمیل فرمادی۔ محمد تقی عثمانی صاحب موجودہ دور کے عظیم محقق، مدبر، مفسر، محدث اور مفکر ہیں۔ موصوف کی اس شرح میں یک جا اتنا محدثانہ اور محققانہ مواد مل جاتا ہے کہ صرف اسی ایک تصنیف کو متعلقہ مباحث میں ایک کتب خانہ کے قائم مقام قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ تصنیف اساتذۂ حدیث اور طالبان علوم نبوت کے لیے ایک گراں قدر علمی تحفہ، مباحث، معلومات، فوائد و نکات اور نادر تحقیقات و تنقیحات کا ایسا خزانہ بن گئی ہے جو انہیں سینکڑوں کتابوں کی ورق گردانی سے محفوظ کر دیتی ہے۔علاوہ ازیں مختلف تلفظات کی صورت میں معانی بیان کرنا بھی مفتی محمدتقی صاحب کا ایک منہج ہے۔ ان تمام اسالیب کی توضیح مع نظائر حسبِ ذیل ہے۔

 

واحد تلفظ 

اکثر مقامات پر مفتی تقی عثمانی صاحب نے متونِ احادیث کے الفاظ کا ایک ہی تلفظ بیان کیا ہے۔ بطورِ نمونہ چند امثلہ پیش کی جا رہی ہیں:

 

الحدثی: بضم الحاء المھملۃ وسکون الدال وفتح المثلثۃ[1]۔ حاء مہملہ کی پیش، دال کے سکون اور ثاء کی زبر کے ساتھ۔ 

 

حجفۃ: بتقدیم الحاء علی الجیم وفتحھما[2]۔حاء کی جیم پر تقدیم اور دونوں کی زبر کے ساتھ۔

 

الحمارۃ: بکسر الحاء وسکون المیم والراء[3]۔حاء کی زیر، میم اور راء کے سکون کے ساتھ

 

متعدد تلفظات

بعض مقامات پر صاحبِ تکملہ نے الفاظ حدیث کے متعدد تلفظات بیان کیے ہیں اور ان میں سے کسی تلفظ کے راجح، اولیٰ، صحیح یا غلط ہونے کی نشاندہی نہیں کی۔ اس منہج کے کچھ نظائر درج ذیل ہیں:

 

نعما: فیہ أربع لغات : الأول: کسر النون والعین، وتشدید المیم۔ والثانی: فتح النون، وکسر العین، وتشدید المیم۔ والثالث: کسر النون، واسکان العین و تخفیف المیم۔ والرابع: فتح النون، واسکان العین،وتخفیف المیم[4]۔

 

اس میں چار لغات ہیں: اول: نون اور عین کی زیر اور میم کی تشدید کے ساتھ۔ دوم: نون کی زبر، عین کی زیر اور میم کی تشدید کے ساتھ۔ سوم: نون کی زیر، عین کے سکون اور میم کی تخفیف کے ساتھ۔ چہارم: نون کی زبر، عین کے سکون اور میم کی تخفیف کے ساتھ۔

 

نمرقۃ: بضم النون والراء وسکون المیم، وقیل: بکسر النون والراء۔ وقیل: بضم النون وفتح الراء۔ ویقال: نمرق بلاھاء أیضاً۔[5]

 

نون اور راء کی پیش اور میم کے سکون کے ساتھ اور کہا گیا: نون اور راء کی زیر کے ساتھ اور کہا گیا: نون کی پیش اور راء کی زبر کے ساتھ اور کہا جاتا ہے کہ نمرق ھاء کے بغیر بھی ہے۔

 

الفجاء ۃ: ھو بضم الفاء وفتح الجیم والمد،یقال:فجأۃ بضم الفاء وسکون الجیم والقصر[6]۔

 

یہ فاء کی پیش، جیم کی زبر اور مد کے ساتھ ہے۔ کہا جاتا ہے: فجأۃ فاء کی پیش اور جیم کے سکون کے ساتھ ہے اور قصر بھی ہے۔

 

تشکیلِ حروف کی متعدد صحیح جہات:

بعض مقامات پر مفتی تقی عثمانی صاحب نے متونِ احادیث کے الفاظ کی متعدد جہات نقل

 

کی ہیں اور ان تمام جہات کا جواز بھی ذکر کیا ہے۔ بطورِ نمونہ چند امثلہ درج ذیل ہیں:

 

خدلا: ضبطہ النووی والأبی بفتح الخاء وسکون الدال، وضبطہ الحافظ بفتح الدال وتشدید اللام، وقیل: انہ بکسر الدال، والکل سائغ فی اللغۃ۔[7]

 

نووی اور ابی نے اس کو خاء کی زبر اور لام کی تشدید کے ساتھ نقل کیا ہے اور حافظ نے دال کی زبر اور لام کی تشدید کے ساتھ ضبط کیا ہے اور کہا گیا: یہ دال کی زیر کے ساتھ ہے اور لغت میں سب کی گنجائش ہے۔

 

الشنئی: نسبۃ الی شنوءۃ، وروی: شنوی بابدال الھمزۃ علی التخفیف، وروی: شنوئی والکل صحیح۔[8]

 

شنوءۃ کی طرف نسبت ہے اور ہمزہ کی جگہ واؤ کے ساتھ تخفیف پر بھی روایت کیا گیا ہے اور شنوئی بھی روایت کیا گیا ہے اور سب درست ہیں۔

 

الفری: والفری بفتح الفاء، ویجوز أن یکون بسکون الراء وتخفیف الیاء، بوزن الرمی، ویجوز أیضا أن یکون بکسر الراء وتشدید الیاء، بوزن الولیّ، وکلتاھما لغتان صحیحتان[9]۔

 

فاء کی زبر کے ساتھ اور الرمی کے وزن پر راء کا سکون اور یاء کی تخفیف بھی جائز ہے اور الولیّ کے وزن پر راء کی زیر اور یاء کی تشدید بھی جائز ہے اور دونوں لغات صحیح ہیں۔

 

مشہور، فصیح اور صحیح تلفظ کی تصریح

بعض مقامات پر مولانا تقی عثمانی صاحب نے متونِ احادیث کے الفاظ کے متعدد تلفظات ذکر کرتے ہوئے ان میں سے مشہور، فصیح اور صحیح تلفظ کی تصریح بھی کی ہے جیسا کہ درج ذیل تفصیل سے واضح ہو گا۔

 

مشہور تلفظ

 

مفتی تقی عثمانی صاحب نے جن الفاظِ حدیث کے مشہور تلفظ کا ذکر کیا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔

 

جزیعۃ: بضم الجیم، وفتح الزای۔۔۔ تصغیر جزعۃ۔۔۔ وضبطہ ابن فارس بفتح الجیم، وکسر الزای ۔۔۔ والمشہور فی روایۃ المحدثین ھو الأول۔[10]

 

جیم کی پیش اور زاء کی زبر کے ساتھ ہے۔۔۔ جزعۃ کی تصغیر ہے۔۔۔ ابن فارس نے اس کو جیم کی زبر اور زاء کی زیر کے ساتھ نقل کیا ہے۔۔۔ اور محدثین کی روایت میں پہلا تلفظ مشہور ہے۔

 

یطعن: بضم العین علی المشہور، ویجوز فتحھا لغۃ۔[11]

 

مشہور لغت کے مطابق عین کی پیش کے ساتھ ہے اور اس میں زبر بھی جائز ہے۔

 

الفرق: بفتح الفاء والراء، وقیل: بسکون الراء، والأول أشھر[12]۔

 

فاء اور راء کی زبر کے ساتھ اور کہا گیا: راء کے سکون کے ساتھ اور پہلا زیادہ مشہور ہے۔

 

فصیح لغت

بعض الفاظِ حدیث کی اعرابی حالت بیان کرتے ہوئے صاحبِ تکملہ نے فصیح لغات کا بھی ذکر کیا ہے۔ چند امثلہ بطور نمونہ پیش کی جا رہی ہیں۔

 

جزافا: ھو بکسر الجیم مصدر من جاز یجازف، وقیل: ھو بضم الجیم، وقیل بفتحھا ولکن الکسر أفصح وأقیس[13]۔

 

جیم کی زیر کے ساتھ جازف یجازف سے مصدر ہے اور کہا گیا: جیم کی پیش کے ساتھ ہے اور کہا گیا: جیم کی زبر کے ساتھ اور لیکن زیر زیادہ فصیح اور قیاس کے مطابق ہے۔

 

نطعا:یجوز فیہ کسر النون،وفتحھا،وسکون الطاء وفتحھا،والأفصح،علی

 

ما ذکر النووی رحمہ اللہ کسر النون وفتح الطاء۔ [14]

 

اس میں نون کی زیر اور زبر اور طاء کا سکون اور زبر جائز ہے اور امام نووی ؒ کے مطابق فصیح لغت نون کی زیر اور طاء کی زبر ہے۔

 

الامارۃ: بکسر الھمزۃ، وقیل: بفتحھا، والأول أفصح، وأنکر اللغویّون فتح الھمزۃ، وقالوا: ھو لا یعرف[15]۔

 

ہمزہ کی زیر کے ساتھ ہے اور کہا گیا: زبر کے ساتھ ہے اور پہلا تلفظ فصیح ہے، ماہرینِ لغت نے ہمزہ کی زبر کا انکار کیا ہے اور انہوں نے کہا: یہ معروف نہیں۔

 

صحیح، راجح، واضح اور اولی تلفظ کی تصریح

متونِ احادیث کے الفاظ کی لغوی تشریح کے تحت مولانا تقی عثمانی صاحب نے بعض مقامات پر الفاظِ حدیث کے صحیح، راجح، واضح اور اولی تلفظ کے ذکر کرنے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ اس منہج کی توثیق ذیل کی امثلہ سے کی جا سکتی ہے۔

 

نعی أبی سفیان:ضبطہ النووی بکسر العین وتشدید الیاء وسکون العین مع تخفیف الیاء، والوجہ الثانی أولی لخفتہ[16]۔

 

نووی نے اس کو عین کی زیر، یاء کی تشدید اور عین کے سکون اور یاء کی تخفیف کے ساتھ نقل کیا ہے اور وجہ ثانی اس کے ہلکا ہونے کی وجہ سے زیادہ اولی ہے۔

 

فاخذھم سلما: ضبطہ الخطابی وغیرہ بفتح السین واللام۔۔۔وضبطہ الحمیدی بکسرالسین وسکون اللام۔۔۔ورجح القاضی عیاض وابن الأثیرالوجہ الاول[17]

 

خطابی وغیرہ نے اس کو سین اور لام کی زبر کے ساتھ ضبط کیا ہے۔۔۔حمیدی نے اس کو سین کی زبر اور لام کے سکون کے ساتھ ضبط کیا ہے۔۔قاضی عیاض اور ابن اثیر نے اول کو ترجیح دی

 

المرحّل فھو بفتح الراء والحاء المھلمۃ علی ما ھو الصواب الذی رواہ الجمھور وضبطہ المتقنون۔۔۔وحکی القاضی ان بعضھم رواتہ مرجل بالجیم ۔۔۔۔ والصواب الاول۔[18]

 

راء اور حاء مہملہ کی زبر کے ساتھ یہی صحیح ہے جس کو جمہور نے روایت کیا اور پختہ لوگوں نے ضبط کیا۔۔۔۔۔قاضی عیاض نے حکایت کیا کہ بعض نے اس کو جیم کے ساتھ مرجل روایت کیا۔۔۔اور اول تلفظ صحیح ہے۔

 

ترحل: ضبطہ أکثر الشراح بفتح التاء وسکون الراء۔۔۔ وضبطہ البعض تُرَحَّل بضم التاء و تشدید الحاء، من باب التفعیل وھو أوضح ۔[19]

 

اکثر شراح نے اس کو تاء کی زبر اور راء کے سکون کے ساتھ ضبط کیا ہے۔۔۔ اور بعض نے اس کو تاء کی پیش اور حاء کی تشدید کے ساتھ باب تفعیل سے تُرَحَّل ضبط کیا ہے اور یہ زیادہ اوضح ہے۔

 

بلدغ: بضم الغین علی أکثر الروایات۔۔۔ ورواہ بعضھم بکسر الغین علی أنہ نھی، والاول اکثرو أصح۔[20]

 

اکثر روایات کے مطابق غین کی پیش ہے۔۔۔ بعض نے اس کو غین کی زبر کے ساتھ روایت کیا اور پہلا تلفظ اکثر اور صحیح ہے۔

 

اکثر محدثین ورُواۃ کا تلفظ

بعض مقامات پر مفتی تقی عثمانی صاحب نے الفاظِ احادیث کے مختلف تلفظات بیان کرنے کے بعد اکثر محدثین و رُواۃ کے ہاں مروی تلفظ کا ذکر بھی کیا ہے، بطورِ نمونہ چند امثلہ ملاحظہ فرمائیں:

 

منفعۃ: بفتح المیم والفاء، وسکون النون۔۔۔ وقد حکاہ بعضھم بضم المیم وفتح النون وکسر الفاء المشددۃ۔۔۔ ولکن روایۃ أکثر المحدثین علی الاول۔[21]

 

میم اور فاء کی زبر اور نون کے سکون کے ساتھ ۔۔۔ اور بعض نے اس کو میم کی پیش، نون کی زبر اور فاء مشددہ کی زیر کے ساتھ نقل کیا ہے ۔۔۔لیکن اکثر محدثین نے پہلی طرح روایت کیا ہے

 

حواری: ضبطہ جماعۃ بفتح الیاء المشددۃ، کمصرخیّ، وضبطہ أکثرھم بکسرھا مضافا الی یاء المتکلم[22]۔

 

ایک جماعت نے یاء مشددہ کی زبر کے ساتھ اس کو مصرخیّ کی طرح ضبط کیا ہے اور اکثر نے اس کو یاء کی زیر کے ساتھ یاء متکلم کی طرف نسبت کرتے ہوئے ضبط کیا ہے۔

 

مفرّدون: بفتح الفاء وکسر الراء المشددۃ من باب التفعیل فی روایۃ أکثر المشایخ، ورواہ بعضھم بسکون الفاء وتخفیف الراء من باب الافعال۔[23]

 

اکثر مشایخ کی روایت میں بابِ تفعیل سے فاء کی زبر اور راء مشددہ کی زیر کے ساتھ ہے، بعض نے اس کو بابِ افعال سے فاء کے سکون اور راء کی تخفیف کے ساتھ ضبط کیا ہے۔

 

غلط تلفظ کی نشاندہی

مولانا تقی عثمانی نے الفاظِ احادیث کے متعدد تلفظات نقل کرتے ہوئے غلط تلفظ کی نشاندہی بھی کی ہے۔ اس ضمن میں موصوف نے بعض مقامات پر ذاتی رائے سے کام لیا ہے اور بعض اوقات متقدمین شارحین کی تحقیقات سے استفادہ کیا ہے۔ ذاتی رائے پر مبنی چند امثلہ درج ذیل ہیں:

 

محجم: وھو بکسر المیم۔۔۔۔ وقد أخطا من ضبطہ بفتح المیم[24]۔

 

اور وہ میم کی زیر کے ساتھ ہے۔۔۔ اور جنہوں نے اس کو میم کی زبر کے ساتھ ضبط کیا، انہوں نے غلطی کی ہے۔

 

أجادب: ھو جمع الجدب، بفتح الجیم والدال۔۔۔۔ وضبطہ بعضھم بالذال المعجمۃ، وبعضہم أحادب وکلاھما خطأ[25]۔

 

وہ جدب کی جمع ہے، جیم اور دال کی زبر کے ساتھ۔۔۔ بعض نے اس کو ذال معجمہ کے ساتھ اور بعض نے أحادب لکھا اور یہ دونوں غلط ہیں۔

 

بعض مقامات پر صاحبِ تکملہ نے غلط تلفظ کی تصریح کے ضمن میں دیگر شارحین بالخصوص امام نووی اور قاضی عیاض کی تحقیقات نقل کی ہیں، جیسا کہ درج ذیل امثلہ سے واضح ہو گا۔

 

حبل الحبلۃ: بفتح الباء فیھما، وھو الصحیح عند المحققین، وغلط القاضی عیاض من أسکن الباء فی الأول۔[26]

 

دونوں میں باء کے اوپر زبر ہے اور یہی محققین کے نزدیک صحیح ہے، قاضی عیاض نے اس کو غلط قرار دیا، جس نے پہلی باء میں سکون قرار دیا۔

 

یوکی: ھو الصحیح من ضبطہ بالألف المقصورۃ، ومن ضبطہ یوکأ بالھمزۃ خطّاہ النووی۔[27]

 

الف مقصورہ کے ساتھ اس کا صحیح ضبط ہے اور جنہوں نے اس کو یوکأ ہمزہ کے ساتھ ضبط کیا، امام نووی نے ان کو غلط کہا۔

 

الارجوان: فالصواب أنہ بضم الھمزۃ والجیم وسکون الراء بینھما۔ وضبطہ بعضھم بفتح الھمزۃ وضم الجیم، ولکن غلّطہ النووی [28]۔

 

صحیح یہ ہے کہ وہ ہمزہ اور جیم کی پیش کے ساتھ ہے اور ان کے درمیان راء ساکن ہے۔ بعض نے اس کو ہمزہ کی زبر اور جیم کی پیش کے ساتھ ضبط کیا، لیکن امام نووی نے اسے غلط کہا۔

 

تلفظ میں متعدد وجوہ کا احتمال

متونِ احادیث کے الفاظ میں سے اگر کوئی لفظ متعدد وجوہ کا احتمال رکھتا ہو تو مفتی تقی عثمانی صاحب نے ان احتمالات کی تصریح بھی کی ہے۔ بطورِ نمونہ چند امثلہ کا تذکرہ افادہ سے خالی نہیں ہو گا۔

 

کبر الکبر: وأما الکبر فیحتمل وجھین: الأول ان یکون بکسر الباء بوزن عنب۔والاحتمال الثانی: أن یکون الکبر بضم الکاف وسکون الباء بمعنی الأکبر۔[29]

 

جہاں تک الکبر کا تعلق ہے تو اس میں دو وجہتوں کا احتمال ہے: اول : یہ باء کی زیر کے ساتھ عنب کے وزن پر ہو۔ اور دوسرا : یہ کاف کی پیش اور باء کے سکون کے ساتھ الأکبر کے معانی میں ہو۔

 

فتبرئکم یھود بخمسین یمینا: 

یحتمل ان یکون تبرئکم بتخفیف الراء من الابراء، ویحتمل أن یکون بتشدیدھا من التبرءۃ۔[30]

 

ممکن ہے کہ تبرئکم راء کی تخفیف کے ساتھ الابراء سے ہو اور ممکن ہے کہ یہ راء کی شد کے ساتھ التبرءۃ سے ہو۔

 

الفاظِ حدیث ولا یدعھا للشیطان کی شرح میں صاحبِ تکملہ رقمطراز ہیں: 

 

یمکن أن تکون اللام للتعلیل، بمعنی أنہ لا ینبغی لہ أن یترکھا من أجل اغواء الشیطان لأن ترکھا انما یکون کبرا واستھانۃ باللقمۃ۔ والذی یحملہ علی ذلک ھو الشیطان۔ ویحتمل أن تکون اللام للتملیک والانتفاع، بمعنی أنہ لا یدعھا یتملکھا أو ینتفع بھا الشیطان[31]۔

 

ممکن ہے کہ لام تعلیل کا ہو اس معانی میں، کہ اس کے لیے مناسب نہیں، کہ وہ شیطان کے اغواء کی وجہ سے اس کو چھوڑے، کیونکہ اس کا چھوڑنا تکبر اور لقمے کی حقارت کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس کو اس پر ابھارنے والا شیطان ہی ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ لام تملیک اور انتفاع کا ہو اس معانی

 

میں کہ اس کو نہ چھوڑے، کہ شیطان اس کا مالک بن جائے یا شیطان اس سے نفع اُٹھائے۔

 

متعدد تلفظات کی صورت میں معانی کا ذکر

بعض مقامات پر مفتی تقی عثمانی صاحب نے الفاظِ احادیث کے متعدد تلفظات نقل کرتے ہوئے ان کے مفاہیم بھی ذکر کیے ہیں جیسا کہ درج ذیل نظائر اس منہج پر دلالت کرتے ہیں۔

 

الجھد: بفتح الجیم: المشقۃ، وبالضم: الوسع والطاقۃ [32]۔

 

جیم کی زبر کے ساتھ جہد سے مراد مشقت اور ضمہ کے ساتھ اس سے مراد وسعت اور طاقت ہے۔

 

اللحن: أن للحن ستۃ معان: الخطأ فی الاعراب واللغۃ، والغناء، والفطنۃ والتعریض،والفحوی فاللحن الذی ھوالخطأ فی الاعراب بسکون الحاء، واللحن بمعنی اللغۃ بفتحھا، واللحن بمعنی الغناء بسکون الحاء، واللحن بمعنی الفطنۃ بسکون الحاء وفتحھا جمیعا، والفتح اشھر ۔۔۔ واما اللحن بمعنی التعریض فبسکون الحاء ۔۔۔ واما اللحن بمعنی الفحوی فھو ساکن الحاء ایضا۔[33]

 

اللحن کے چھ معانی ہیں: اعراب اور لغت میں غلطی کرنا، نغمہ میں غلطی کرنا، ذہانت، اشارہ کرنا اور کلام کا حاصل مقصود۔ پس وہ اللحن جو اعراب میں خطاء کے معانی میں ہے وہ حاء کے سکون سے ہے، لغت کے معانی میں اللحن حاء کی زبر کے ساتھ ہے۔۔۔ نغمہ میں غلطی کرنے کے معانی میں اللحن حاء کے سکون کے ساتھ ہے اور سمجھداری کے معانی میں حاء کے سکون اور زبر دونوں کے ساتھ ہے اور زبر زیادہ مشہور ہے۔۔ تعریض کے معانی میں اللحن حاء کے سکون کے ساتھ ہے۔۔۔ اور الفحوی کے معانی میں بھی اللحن حاء کے سکون کے ساتھ ہے۔

 

نعمۃ: النعمۃ بضم النون بمعنی المسرۃ،وبفتح النون بمعنی التنعّم، و بکسر النون بمعنی الانعام۔[34]

 

نون کی پیش کے ساتھ خوشی کے معانی میں، نون کی زبر کے ساتھ نعمت (عیش و عشرت) کے معانی میں اور نون کی زیر کے ساتھ انعام کے معانی میں۔

 

أدلجوا: بھمزۃ القطع المفتوحۃ، وسکون الدال۔ أی ساروا أول اللیل،أو ساروا اللیل کلّہ۔۔۔۔ وضبطہ بعضھم بھمزۃ الوصل وتشدید الدال: أدّلجوا ومعناہ: السیّر فی آخر اللیل۔[35]

 

مفتوحہ ہمزہ قطعی اور دال کے سکون کے ساتھ، یعنی وہ لوگ رات کی ابتداء میں چل پڑے یا ساری رات چلتے رہے۔۔۔ اور بعض نے اس کو ہمزہ وصل اور دال کی تشدید کے ساتھ أدّلجوا ضبط کیا اور اس کا معانی رات کے آخر میں چلنا ہے۔

 

الدّبیلۃ: بضم الدال، تصغیر للدبل، بفتح الدال بمعنی الطاعون[36]۔

 

دال کی پیش کیساتھ دبل کی تصغیر ہے اور دال کی زیر کے ساتھ طاعون کے معانی میں ہے۔

 

بعض مقامات پرمفتی تقی عثمانی نے متونِ احادیث کے تلفظات مع مفاہیم بیان کرنے کے بعد ذاتی رائے اور تحقیق بھی پیش کی جیسا کہ کتاب الطلاق باب طلاق الثلاث کی حدیثِ مبارکہ:

 

حدثنا اسحاق بن ابراہیم ومحمد بن رافع۔ واللفظ لابن رافع۔ قال اسحاق: أخبرنا، وقال ابن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن ابن طاوس عن أبیہ، عن ابن عباس قال: کان الطلاق علی عھد رسول اللہ وأبی بکر، و سنتین من خلافۃ عمر،طلاق الثلاث واحدۃ، فقال عمر بن الخطاب: ان الناس قد استعجلوا فی أمر قد کانت لھم فیہ أناۃ، فلو أمضیناہ علیہم! فأمضاہ علیہم[37]۔کے جزء کانت لھم فیہ أناۃ کے لفظ أناۃ کی شرح میں موصوف نے یہ منہج اختیار کیاہے:

 

الأناۃ بفتح الھمزۃ بمعنی المھلۃ، یعنی کانت لھم فیہ مھلۃ وبقیۃ استمتاع لانتظار المراجعۃ، وجعلھا فی مجمع البحار الأناء ۃ ممدودۃ وفرق بینھا وبین الأناۃ المقصورۃ بأن المقصورۃ فی معنی المھلۃ، والممدودۃ بمعنی التثبت وترک العجلۃ، ولم أجدھا ممدودۃ فی شیئی من الروایات الا فی مجمع البحار، فانہ ذکر الحدیث تحت لفظ الأناء ۃ دون الأناۃ۔ [38]

 

الأناۃ ہمزہ کی زبر کے ساتھ مہلت یا فرصت کے معانی میں ہے، یعنی ان کے لیے اس کے اندر مہلت تھی اور کچھ مراجعت کے انتظار کے لیے نفع حاصل کرنا تھا اور اس کو مجمع البحار میں الأناء ۃ ممدودہ ذکر کیا گیا ہے اور انہوں نے اس کے اور الأناء ۃ مقصورہ کے درمیان فرق کیا ہے کہ مقصورہ مہلت کے معانی میں ہے اور ممدودہ پختگی اور عجلت کو چھوڑنے کے معانی میں ہے اور میں نے اس کو مجمع البحار کے علاوہ کسی اور روایت میں ممدودہ نہیں پایا۔ انہوں نے حدیث کو الأناء ۃ کے لفظ کے تحت ذکر کیا، الأناء ۃ کے تحت نہیں۔

 

کتاب الوصیۃ باب الوصیۃ بالثلث کی حدیثِ مبارکہ:

 

حدثنا یحییٰ بن یحیی التمیمی، أخبرنا ابراھیم بن سعد، عن ابن شھاب، عن عامر بن سعد، عن أبیہ، قال: عادنی رسول اللہ فی حجۃ الوداع من وجع أشفیت منہ علی الموت، فقلت: یا رسول اللہ ! بلغنی ما تری من الوجع، وأنا ذومال ولا یرثنی الا ابنۃ لی واحدۃ أفأتصدق بثلثی مالی؟ قال: لا، قلت: فأ تصدق بشطرہ؟ قال: لا، الثلث، والثلث کثیر، انک أن تذر وورثتک أغنیاء خیر من أن تذرھم عالۃ یتکففون الناس، ولست تنفق نفقۃ تبتغی بھا وجہ اللہ الا أجر بھا، حتی اللقمۃ تجعلھا فی امرأتک قال: قلت: یا رسول اللہ! أخلف بعد أصحابی؟ قال: انک لن تخلف، فتعمل عملاً تبتغی بہ وجہ اللہ الا ازددت بہ درجۃ ورفعۃ، ولعلک تخلف، حتی ینفع بک أقوام، ویضربک آخرون۔ اللّھم أمض لأصحابہ ھجرتھم ولا تردھم علی أعقابھم، لکن البائس سعد ابن خولۃ قال: رثی لہ رسول اللہ من أن توفی بمکۃ۔[39] کے الفاظ ان توفی بمکۃکی شرح میں صاحبِ تکملہ نے بیان کیا:

 

بفتح الھمزۃ للتعلیل، وأغرب الداودی، فتردد ففیہ، فقال: ان کان بالفتح ففیہ دلالۃ علی أنہ أقام بمکۃ بعد الصدر من حجتہ، ثم مات، وان کان بالکسر ففیہ دلیل علی أنہ قیل لہ أنہ یرید التخلف بعد الصدر، فخشی علیہ أن یدرکہ أجلہ بمکۃ ذکرہ الحافظ فی مناقب الفتح ثم قال: والمضبوط المحفوظ بالفتح، لکن لیس فیہ دلالۃ علی أنہ أقام بعد حجہ، لأن السیاق یدل علی أنہ مات قبل الحج[40]۔

 

علت کے لیے ہمزہ پر زبر آئی ہے، داودی نے اس پر اعراب لگائے اور وہ اس میں تردد میں پڑ گیا، کہا: اگر یہ زبر کے ساتھ ہو تو اس میں اس بات پر دلالت ہے کہ وہ حج سے واپس آنے کے بعد مکہ میں ٹھہرے رہے، پھر وفات پا گئے اور اگر یہ زیر کے ساتھ ہو، تو اس میں اس بات پر دلالت ہے کہ ان سے کہا گیا: کہ وہ حج سے لوٹنے کے بعد وہاں رہنے کا ارادہ کرتے تھے، انہیں ڈر تھا ان کی موت کہیں مکہ میں نہ آجائے، ابن حجر نے فتح الباری میں اس کا ذکر کیا پھر فرمایا: مضبوط و محفوظ اعراب زبر کے ساتھ ہے، کیونکہ اس میں دلالت نہیں کہ وہ حج کے بعد بھی ٹھہرے رہے، کیونکہ سیاق اس بات

 

پر دلالت کرتا ہے کہ وہ حج سے پہلے فوت ہو گئے۔

 

مفتی تقی عثمانی صاحب نے یہ نقل کرنے کے بعد ذاتی رائے یوں بیان کی:

 

قلت: ولفظ مسلم فی الباب صریح فی الرد علی الداودی، فانہ لا یمکن فیہ کسر الھمزۃ[41]۔

 

میں کہتا ہوں: حدیثِ باب میں مسلم کا لفظ داودی کے رد میں صریح ہے، پس اس میں ہمزہ کی زیر ممکن ہی نہیں۔

 

معرب الفاظ کی تعیین اور ان کی اصل

مفتی تقی عثمانی صاحب نے احادیثِ مسلم میں وارد دیگر زبانوں کے الفاظ کی تصریح کی ہے اور بنیادی لغات کی روشنی میں ان الفاظ کی اصل بھی ذکر کی ہے جیسا کہ درج ذیل امثلہ سے معلوم ہو گا۔لفظ جزافا کی وضاحت کے تحت موصوف نے بیان کیا:

 

أصلہ معرب من لفظ الفارسیۃ گزاف[42]جزاف فارسی لفظ گزاف سے معرب ہے

 

لفظ الداناج کی شرح کرتے ہوئے جسٹس صاحب نے بیان کیا: 

 

الدناج معرب دانا وھو بالفارسیۃ[43]۔

 

الداناج دانا کا معرب ہے اور وہ فارسی زبان کا لفظ ہے۔

 

لفظ الماجشون کی وضاحت میں تقی صاحب نے واضح کیا ہے:

 

وھو معرب ماگون باللغۃ الفارسیۃ[44]۔ وہ فارسی زبان ماگون کا معرب ہے۔

 

لفظ النرد شیر کی شرح میں صاحبِ تکملہ رقمطراز ہیں:

 

بفتح النون وسکون الراء والدال وکسر الشین،کلمۃ فارسیۃ معربۃ[45]

 

نون کی زبر، راء اور دال کے سکون اور شین کی زیر کے ساتھ فارسی کلمہ ہے جو معرب ہے

 

تعیینِ ضمائر

مفتی تقی عثمانی صاحب نے متونِ احادیث کے الفاظ میں مذکور ضمائر کے مراجع کی تعیین کرتے ہوئے احادیثِ مبارکہ کی معنویت واضح کی ہے اور بعض مقامات پر ضمیر کے مرجع کے بارے میں شارحین کی مختلف آراء بھی ذکر کی ہیں۔ چند امثلہ بطورِ نمونہ درج ذیل ہیں:

 

۱۔ کتاب المساقاۃ والمزارعۃ باب الامربقتل الکلاب وبیان نسخہ کی حدیثِ مبارکہ:

 

عن ابن عمر، قال: قال رسول اللہ ﷺ: من اقتنی کلبا الا کلب ماشیۃ، أو ضار، نقص من عملہ کل یوم قیراطان[46]۔کے الفاظ نقص من عملہ کی شرح کے تحت موصوف نے بیان کیا:

 

ضمیر الفاعل حینئذ یرجع الی الکلب، أو الی الرجل المقتنی[47]۔

 

فاعل کی ضمیر اس وقت کتے یا ذخیرہ کرنے والے آدمی کی طرف لوٹے گی۔ 

 

۲۔ کتاب البر والصلۃ والآداب باب تحریم الکبر کی حدیثِ مبارکہ:

 

عن أبی سعید الخدری وأبی ھریرۃ قالا: قال رسول اللہ ﷺ: العزّ ازارہ، والکبریاء رداؤہ۔ فمن ینازعنی، عذبتہ[48]۔کے الفاظ العز ازارہ کی شرح میں مفتی تقی عثمانی نے ذکر کیا:

 

ضمیر الغائب ھنا للہ تعالیٰ[49]۔ غائب کی ضمیر یہاں اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ 

 

۳۔ کتاب الزھد والرقائق باب تشمیت العاطس،وکراھۃ التثاؤب کی حدیثِ مبارکہ: 

 

عن أنس بن مالک، قال: عطس عند النبی رجلان فشمّت أحدھما ولم یشمّت الآخر۔ فقال الذی لم یشمّتہ: عطس فلان فشمّتہ، وعطست أنا فلم تشمتنی۔ قال: ان ھذا حمد اللہ، وانک لم تحمد اللہ[50]۔کے الفاظ فشت احدھما

 

کی شرح میں جسٹس صاحب نے بیان کیا:

 

وضمیرالفاعل راجع الی النبی[51]فاعل کی ضمیرنبیکی طرف لوٹتی ہے۔

 

اگر کسی ضمیر کے مرجع کے بارے میں شارحین کی آراء مختلف ہوں تو مفتی تقی عثمانی صاحب نے ان اختلافی آراء کے نقل کرنے کا بھی اہتمام کیا ہے مثلاً:کتاب البر والصلۃ باب النھی عن ضرب الوجہ کی حدیثِ مبارکہ:

 

عن ابی ھریرۃ، قال: قال رسول اللہ ﷺ۔ وفی حدیث ابن حاتم عن النبی ﷺ قال: اذا قاتل أحدکم أخاہ، فلیجتنب الوجہ۔ فان اللہ خلق آدم علی صورتہ[52]۔کے خط کشیدہ الفاظ میں صورتہ کی ضمیر کے مرجع کے بارے میں شارحین کی متعدد آراء ہیں۔ اکثر کے ہاں یہ ضمیر مضروب پر لوٹتی ہے کیونکہ چہرہ محترم ہے، بعض نے حدیثِ مبارکہ: ان اللہ خلق آدم علی صورۃ الرحمن سے استدلال کرتے ہوئے ضمیر کو اللہ کی طرف لوٹایا ہے۔ بعض نے اسے آدم کی صفتِ علم کی طرف منسوب کیا ہے کیونکہ اسی صفت کی وجہ سے انسان کو حیوان پر فضیلت دی[53]۔

 

مفتی تقی عثمانی صاحب نے ان مختلف آراء کو نقل کرنے کے بعد بیان کیاہے کہ:

 

ویظھر لی وجہ آخرفی تفسیر ھذا الحدیث، واللہ اعلم، وھو أن الضمیر یعود علی اللہ سبحانہ وتعالی،ولکن الاضافۃ فی صورتہ اضافۃ الشیئی الی فاعلہ، فالمراد منھا لیس صورۃ اللہ التی تصور بھا (والعیاذ باللہ) وانما المراد والصورۃ التی صورتھا وخلقھا،والمقصود أن اللہ تعالیٰ خلق آدم علی صورتہ التی صورھا حسب مشیئتہ وحکمتہ فلا یجوز لانسان ان یشوھھا باللطم والضرب۔ وانما خصّ الوجہ بھذا الحکم،مع أن جمیع الاعضاء مصورۃ من اللہ سبحانہ،لأن الوجہ أبرز ما یمتاز بہ انسان من آخر، فکان معنی التصویر فیہ أبلغ وأظھر۔ وعلی ھذا لا یحتاج الحدیث الی تاویل أو توقف، والا فھو من المتشابھات التی الأسلم فی مثلھا السکوت والتوقف[54]۔

 

مجھے اس حدیث کی ایک اور تفسیر ظاہر ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ضمیر اللہ کی طرف لوٹتی ہے، لیکن صورتہ کے لفظ میں شے کی اضافت اسکے فاعل کی طرف ہے، اس سے مراد اللہ کی وہ تصویر نہیں جو اسکے بارے میں تصور کی جائے (نعوذ باللہ) اور وہ صورت مراد ہے جس کو اللہ نے بنایا ہے اور پیدا کیا ہے اور مقصود یہ ہے کہ اللہ نے آدم کو اس صورت پر پیدا فرمایا، جو اللہ نے ان کی صورت اپنی مشیئت اور حکمت کے مطابق بنائی، کسی انسان کے لیے جائز نہیں کہ اس کو تھپڑ مارے اور مارنے کے ساتھ بدشکل بنائے۔ چہرے کو اس حکم کے ساتھ خاص کیا گیا، باوجود کہ سارے اعضاء اللہ کے بنائے ہوئے ہیں، کیونکہ چہرہ سب سے واضح ہے، جس سے کوئی انسان دوسرے انسان سے ممتاز ہوتا ہے، تو اس میں تصویر والا معانی زیادہ بلیغ اور ظاہر ہو گا اور اس بناء پر حدیث کسی تاویل یا توقف کی محتاج نہ ہو گی، وگرنہ تو یہ متشابہات میں سے ہے، جن کے بارے میں سلامتی والا رستہ سکون اور توقف کا ہے۔

 

اخیر میں مولانا تقی عثمانی صاحب نے اپنی اس تفسیر کا امام بیہقی اور ابن فورک کی رائے کے موافق ہونا یوں ذکر کیا:

 

ثم رأیت فی کلام البیہقی رحمہ اللہ فی کتابہ الأسماء والصفات وفی مشکل الحدیث لابن فورک رحمہ اللہ أنھما ذکرا ھذا التفسیر، وثقہ البیہقی عن بعض أھل النظر، فللہ الحمد[55]۔

 

پھر میں نے امام بیہقیؒ کی کتاب الاسماء والصفات اور ابن فورکؒ کی مشکل الحدیث میں دیکھا کہ انہوں نے یہ تفسیر ذکر کی ہے اور بیہقی نے بعض اہل النظر سے اس کی توثیق کی ہے، پس تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔

 

خلاصہ یہ کہ حضرت مفتی محمدتقی عثمانی صاحب نے قارئین کی سہولت کے پیشِ نظر متونِ احادیث کے الفاظ کے تلفظات بیان کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ اس ضمن میں موصوف نے اکثر مقامات پر واحد تلفظ بیان کیا ہے، بعض مقامات پر متعدد تلفظات نقل کرنے پر اکتفا کیا اور بعض اوقات متعدد تلفظات کے تذکرہ کے بعد سبھی کی صحت بیان کی ہے، بعض مقامات پر مشہور، فصیح، صحیح، اولی اور غلط تلفظ کی تصریح بھی کی ہے۔صاحبِ تکملہ بسا اوقات تلفظ میں متعدد وجوہ کے احتمالات ذکر کرتے ہیں، علاوہ ازیں مختلف تلفظات کی صورت میں معانی بیان کرنا بھی مفتی محمدتقی عثمانی کا ایک منہج ہے۔ 

 

حوالہ جات

  1. تقی عثمانی، محمد، مفتی، تکملہ فتح الملہم، مکتبہ دار العلوم کراچی، 1432ھ، ج1،ص42 /ابن منظور، محمد بن مکرم بن علی، لسان العرب، دار صادر بیروت، الطبعۃ الثالثۃ، 1414ھ، ج2،ص133/ الزبیدی، محمد مرتضی، الحسینی، محب الدین، ابوالفیض، تاج العروس من جواہر القاموس، دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، 1414ھ، ج5،ص213
  2. تکملہ، ج2، ص395/ الجوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح تاج اللغۃ وصحاح العربیۃ، دار العلم للملایین، بیروت، الطبعۃ الرابعۃ، 1407ھ، ج4،ص 1341/ لسان العرب،9/39
  3. تکملہ،6/525،الأزھری، محمد بن احمد، ابومنصور،تھذیب اللغۃ،داراحیاء التراث العربی، بیروت، الطبعۃ الاولیٰ، 2001ء، ج8،ص127/دیگر نظائر دیکھیں، تکملہ، 1/180، 2/244، 295، 3/42، 487، 652، 4/58، 185، 5/268، 601، 6/62
  4. تکملہ، ج2،ص244/ الصحاح، ج5،ص2042/تاج العروس، ج33،ص514۔515
  5. تکملہ، ج4،ص172/ تھذیب اللغۃ، ج9،ص310/ لسان العرب، ج10،ص361
  6. تکملہ، 4/240/ تاج العروس،1/344؛ مزید امثلہ کیلئے دیکھیں، تکملہ،3/60، 4/ 365، 386 ،5/367، 549-۔550 ،6/153
  7. تکملہ،1/253، النووی، یحییٰ بن شرف، ابوزکریا، صحیح مسلم بشرح النووی، دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، 1401ھ، کتاب البیوع، باب: کراء الارض، 10/129۔130، الأبی، محمد بن حلیفہ، الوشتانی، صحیح مسلم مع شرحہ المسمی اکمال اکمال المعلم، تحقیق، محمد سالم ہاشم، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، الطبعۃ الاولیٰ 1415ھ،5/270،ابن حجر العسقلانی، احمد بن شہاب، ابوالفضل، فتح الباری، دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، الطبعۃ الرابعۃ، 1408ھ، 9/497
  8. تکملہ،ج1،ص544
  9. تکملہ،ج5،ص83، مزید امثلہ کے لیے دیکھیں، تکملہ،2/107، 4/17،5/161
  10. تکملہ،2/368، ابن فارس، احمد بن فارس بن زکریا، ابوالحسین، معجم مقاییس اللغۃ، داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، الطبعۃ الاولیٰ، 1422ھ، ص114، صحیح مسلم بشرح النووی، 11/171
  11. تکملہ،3/172، صحیح مسلم بشرح النووی،11/130،الفراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین،دار مکتبۃ الھلال، س۔ن، 2/15،4/135،ابن حجر العسقلانی، احمد بن شہاب، ابوالفضل، تھذیب التھذیب، تحقیق، مصطفیٰ عبدالقادر عطاء، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، الطبعۃ الاولیٰ،1415ھ،2/105
  12. تکملہ،5/618، تہذیب اللغۃ،9/99، الزمخشری، محمود بن عمر، الفائق فی غریب الحدیث، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، الطبعۃ الاولیٰ،1417ھ،3/104،مزید دیکھیں، تکملہ،1/417، 3/124،4/414،5/547۔548،6/391، 517
  13. تکملہ،ج1،ص355، تاج العروس،ج12،ص114
  14. تکملہ،2/632 تاج العروس،11/482۔483،صحیح مسلم بشرح النووی،12/34
  15. تکملہ،3/270، تہذیب اللغۃ،2/581۔582،مزید امثلہ کے لیے دیکھئے، تکملہ،1/624،3/167،4/442،5/25
  16. تکملہ،1/230، صحیح مسلم بشرح النووی،10/116
  17. تکملہ،3/246۔247،الخطابی، حمد بن محمد بن ابراہیم،الخطاب،البستی، ابوسلیمان، معالم السنن، شرح سنن ابی داؤد، المطبعۃ العلمیۃ، الحلب، الطبعۃ الاولیٰ، 1351ھ، 2/288،قاضی عیاض، عیاض بن موسی الیحصبی، ابو الفضل، شرح صحیح مسلم للقاضی عیاض المسمی اکمال المعلم بفوائدمسلم،دارالوفاء للطباعۃ والنشروالتوزیع،الطبعۃ اولیٰ، 1419ھ، 6/202،ابن اثیر، مبارک بن محمد بن اثیر، جامع الاصول فی أحادیث الرسول، محقق، ابوعبد اللہ عبد السلام محمد عمر، دار الفکر بیروت، لبنان، الطبعۃ الاولیٰ،1417ھ، 2/147
  18. تکملہ،4/117،اکمال المعلم بفوائد مسلم،6/594، لسان العرب،11/278
  19. تکملہ،6/308،تاج العروس،29/61،صحیح مسلم بشرح النووی،18/29۔30،اکمال المعلم بفوائد مسلم،8/442، شرح السنوسی،9/353
  20. تکملہ،6/493،لسان العرب،14/201،الفیروز آبادی، محمد بن یعقوب، مجد الدین، القاموس المحیط، دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، الطبعۃ الاولیٰ،1412ھ،1/153، مزید امثلہ کے لیے دیکھئے، تکملہ،3/71،6/384، 443۔444
  21. تکملہ،1/660، صحیح مسلم بشرح النووی،11/44، اکمال المعلم بفوائد مسلم،5/311، شرح الأبی والسنوسی،5/540
  22. تکملہ،5/125،صحیح مسلم بشرح النووی،15/188۔189، اکمال المعلم بفوائد مسلم،
    7/427۔427
  23. تکملہ،5/535،صحیح مسلم بشرح النووی،4/17، اکمال المعلم بفوائد مسلم،8/174، شرح الأبی والسنوسی،9/72،مزید امثلہ کے لیے دیکھیں، تکملہ،3/63۔64،4/223، 5/125
  24. تکملہ،ج4،ص335
  25. تکملہ،ج4،ص489
  26. تکملہ،ج1،ص321، اکمال المعلم بفوائد مسلم،ج5،ص133
  27. تکملہ،ج3،ص645، صحیح مسلم بشرح النووی،ج13،ص176
  28. تکملہ،ج4،ص102، صحیح مسلم بشرح النووی،ج14،ص42
  29. تکملہ،ج2،ص272
  30. تکملہ،ج2،ص273
  31. تکملہ،ج4،ص26، مزید امثلہ کے لیے دیکھیں، تکملہ،ج4،ص22، 392
  32. تکملہ،2/292، طاہر پٹنی، مجمع بحار الأنوار فی غرائب التنزیل ولطائف الأخبار، مکتبۃ دار الایمان المدینۃ المنورۃ، الطبعۃ الثالثۃ،1415ھ،1/411
  33. تکملہ،2/566،ملخص از لسان العرب،12/255۔257
  34. تکملہ،ج3،ص260، الفائق فی غریب الحدیث،ج3،ص313۔314
  35. تکملہ،ج4،ص491
  36. تکملہ،6/101، القاموس المحیط،3/547،مزید امثلہ کے لیے دیکھیں،تکملہ،3/567۔568، 4/219، 407، 5/74۔75، 168۔169، 6/294
  37. تکملہ،ج1،ص151
  38. تکملہ،ج1،ص151،مجمع بحار الأنوار،ج1،ص126
  39. تکملہ،ج2،ص98۔108
  40. تکملہ،ج2،ص108، فتح الباری،ج7،ص379
  41. تکملہ،ج2،ص108
  42. تکملہ،ج1،ص355۔356، تاج العروس،ج12،ص113
  43. تکملہ،2/497، احمد بن مصطفی اللبابیدی الدمشقی، اللطائف فی اللغۃ، دار الفیضلۃ، القاہرہ،1/143، الزمخشری، محمود بن عمرو بن احمد، أساس البلاغۃ، محقق، محمد باسل عیون السود، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، الطبعۃ الاولیٰ،1419ھ،1/300
  44. تکملہ،3/63، پٹنی، محمد طاہر بن علی الھندی، الشیخ، المغنی، ادارہ اسلامیات لاہور، س۔ن، ص309،317
  45. تکملہ،4/433،ابن سیدہ، علی بن اسماعیل، ابوالحسین، المحکم والمحیط الأعظم، محقق، عبدالحمید ھنداوی، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ الاولیٰ،1421ھ،9/301
  46. تکملہ،ج1،ص539
  47. ایضاً
  48. تکملہ،ج5،ص440۔441
  49. تکملہ،ج5،ص440
  50. تکملہ،ج6،ص485، مزید دیکھیں، تکملہ،2/382، 3/330۔331، 4/1۔2
  51. ایضاً
  52. تکملہ،ج5،ص429
  53. ماخوذ از تکملہ، ج5،ص429، فتح الباری، ج5،ص258
  54. تکملہ، ج5،ص430۔431
  55. تکملہ،5/430۔431،البیہقی، احمد بن حسین، کتاب الأسماء والصفات، محقق، الشیخ عماد الدین احمد حیدر، دار الکتاب العربی، بیروت، الطبعۃ الثانیۃ،1415ھ،1/16۔24، ابن فورک، محمد بن الحسن بن فورک، کتاب مشکل الحدیث وبیانہ،دائرۃ المعارف العثمانیۃ، حیدر آباد، الطبعۃ الاولیٰ،1362ھ،ص6۔13
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...