Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

حضرت محمدﷺ کے معجزۂ معراج اور اسراء کے متعلق سرسید احمد خان کا تصور |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060029185_747

Pages

153-164

DOI

10.51411/rahat.2.1.2018.28

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/28/324

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/28

Subjects

Miracle Israa Mairaaj Dream Law of Nature Miracle Israa Mairaaj Dream Law of Nature

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف:

اسلام ایک ہمہ گیراورجامع دین ہے، جس میں کائنات کے ذرے ذرےکے متعلق ہدایات موجود ہیں۔کائنات کا یہ سارا نظام اللہ کی قدرت کےتابع ہوکرچل رہاہے، اس میں ہمیں بہت ساری چیزیں عادت ِعام کے موافق ہوتے ہوئے نظر آرہی ہیں، جبکہ بے شمار ایسی چیزیں بھی ہیں جن کا ظاہری سبب ومسبب اورعلت ومعلول کے قوانین سے کوئی تعلق ہوتاہوانظر نہیں آتا، وہ محض قدرت الٰہی کے کرشمے ہوتے ہیں، اگرچہ ان کے پیچھےاسباب غیبیہ، جوکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتے ہیں، کارفرماہوتے ہیں۔بحیثیت مسلمان ہمیں اللہ تعالٰی اوراُس کے رسول ﷺکےاحکامات وارشادات اوراُن کے بتائے ہوئے طریقوں کا پابند ہاناچاہیے، اسی میں ہمارے لئے دونوں جہانوں کی تمام کامیابیاںمضمرہیں۔جہاں تک عقل انسانی کاتعلق ہے تواس کی رسائی ناقص ہے، اس سے حاصل کردہ علم نامکمل ہوتاہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عقل ہی کے ذریعے انسان باقی تمام مخلوقات جاندا وغیرجاندار سے ممتاز اورافضل ومشرف ہے، لیکن قیامت تک آنے والی ساری انسانیت کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:

 

﴿وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾[1]’’اورتمہیں (ساری انسانیت کو) تھوڑا ہی علم دیاگیاہے‘‘۔

 

مذکورہ بالا موضوع کوزیربحث لانے کے اسباب ومحرکات مندرجہ ذیل ہیں۔

 

میری ذاتی دلچسپی اس جیسے موضوعات پرتحقیق کرنے کی ہے، کیونکہ تحقیق کے لئے جدت کاہونا ضروری ہوتاہے، یعنی ایسا موضوع ہوجس پرکام پہلے نہ ہوا ہو۔چونکہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں، جس میں سرسید احمد خان صاحب کے نام لیوا اور اس کے ساتھ فکری ہم آہنگی رکھنے والے لوگ خاصی تعداد میں ہیں۔اور اس کی عصری علوم کےحصول کے لئے انتھک جد وجہد اور دو قومی نظریے کو وجود میں لانے اور بالآخر اسی دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کی جد وجہدبےحدمتاثر ہیں۔اس لئے میرے خیال میں سرسید احمد خان صاحب کے معجزات أنبیاء علیہم السلام اورخصوصاًحضرت محمدﷺکےمعجزہ معراج اوراسراءجن کے وقوع پر قرآن واحادیث مبارکہ شاہد ہیں، کے متعلق تصورات اوردورازکارتأویلا ت کا جائزہ لینامناسب معلوم ہوتاہے۔

 

ایک دینی اور اخلاقی فرض سمجھتے ہوئے اس موضوع پر بحث شروع کیا، تاکہ اس کے بارے میں اپنے علم میں بھی اضافہ کرسکوں کہ ان قرآنی معجزات کی اصل حقیقت قرآن واحادیث کی روشنی میں کیا ہے اورسرسید احمدخان نے ان تصورات کو اپنے ذہن میں کیوں جگہ دی اورساتھ ہی کوقارئین حتی الوسع معجزہ معراج اوراسراءکے متعلق سرسید احمد خان کے تصورات سےآگاہ کیا جاسکے۔

 

عصر حاضر میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے نت نئی ایجادات واختراعات اور نئے افکار ونظریات کے مختلف دروازے کھول دئیے، جس سے نئی نسل بے حدمتأثر ہوئی اورسرسید احمدخان کے افکار ونظریات کی طرف زیادہ توجہ ہوئی اوراسلاف کے تسلسل سے پہنچے ہوئے اسلامی عقائد میں شکوک وشبہات پیدا ہونے لگے، اس لئے مناسب سمجھا کہ اس موضوع پر ایک تحقیقی تنقیدی کام کیا جائے۔

 

’’اسراء‘‘کےلغوی معنیٰ شب میں لے جانے کے ہیں، اوراصطلاح میں مسجدحرام سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک براق پر سوارہوکر حضرت محمدﷺکی سیر کو اسراء کہتے ہیں۔

 

’’معراج‘‘عروج سے مشتق ہے جس کے معنیٰ چڑھنے اور بلند ہونے کے ہیں، اسی لئے سیڑھی کو بھی معراج کہتے ہیں، رسول اکرمﷺنے چونکہ اس شب میں ملاء اعلیٰ کی منازلِ طے فرماتے ہوئے سبع سماوات، سدرۃ المنتہیٰ اور اس سے بھی بلند ہوکر آیات اللہ (اللہ کی نشانیوں) کا مشاہدہ فرمایااور ان واقعات کے ذکر میں آپﷺنے ’’عُرِجَ بِیْ‘‘کس جملہ استعمال فرمایاجس کےہیں معنیٰ ہے ’’مجھے چڑھایا گیا‘‘اس لئے اس واقعہ کو معراج سے تعبیر فرمایا۔[2]

 

قرآن کریم اور واقعۂ معراج:

قرآن عزیز میں اسراء یا معراج کا واقعہ دو سورتوں بنی اسرائیل اور النجم میں مذکور ہے، سورۂ بنی اسرائیل میں مکہ (مسجد حرام) سے بیت المقدس (مسجد اقصیٰ) تک آنحضرت ﷺکی سیرکا تذکرہ ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلیٰ الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ اٰیٰتِنَا إِنَّہُ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ﴾[3]

 

’’پاک ہے وہ جو اپنے بندہ کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔جسکے دور کو ہم نے برکت دی ہے تاکہ ہم اس کو اپنی نشانیوں میں سے دکھلاویں بے شک وہ سُننے والا ہے دیکھنے والا۔‘‘

 

عام طورپر یہ سمجھا جاتاہے کہ سورہ بنی اسرائیل کی صرف ابتدائی آیت میں یہ واقعہ مذکور ہے، مگر درحقیقت پوری سورۃ اسی عظیم الشان واقعے سے متعلق ہے۔اس دعوے کے لئے ایک صاف اور واضح دلیل خود اسی سورۃ کی وسط میں آیت موجود ہے۔ملاحظہ ہو!

 

﴿وَمَاجَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ﴾[4]

 

’’اور نہیں کیا ہم نے اس رویا کو جو تجھ کو دکھلایامگر آزمائش واسطے لوگوں کے۔‘‘

 

اورسورہ النجم میں ملاء اعلیٰ کی سیر کا بھی ذکر ہے:

 

وَالنَّجْمِ اِذَاھَوٰی*مَاضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَاغَوٰی* وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی* اِنْ ھُوَاِلَّاوَحْیٌ یُّوْحیٰ* عَلَّمَہُ شَدِیْدُالْقُوٰی*ذُوْمِرَّۃٍفَاسْتَوٰی* وَھُوَبِالْاُفُقِ الْاَعلْیٰ* ثُمَّ دَنَافَتَدَلّیٰ* فَکَانَ قَابَ قَوْسِیْنِ اَوْ اَدْنیٰ*فَاَوْحیٰ اِلیٰ عَبْدِہِ مَااَوْحیٰ*مَاکَذَبَ الْفُؤَادُمَارَاٰی*اَفَتُمَارُوْنَہُ عَلیٰ مَایَرٰی*وَلَقَدْرَاٰہُ نَزْلَةًاُخْرٰی*عِنْدَسِدْرَۃِالْمُنْتَہیٰ* عِنْدَھَا جَنَّةُ الْمَأْوٰی*اِذْیَغْشَی السِّدْرَۃَ مَایَغْشٰی* مَازَاغَ الْبَصَرُوَمَا طَغٰی* لَقَدْرَاٰی مِنْ اٰیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی﴿۱۸﴾[5]

 

’’شاہد ہے ستارہ جبکہ غروب ہو، تمہارا رفیق نہ گمراہ ہوا اور نہ بھٹکا، اور نہ ہی بولتااپنے نفس کی خواہش سے، یہ نہیں ہے مگر حکم جو اس کو بھیجاگیا ہے، اس کو بتلایاہے سخت قوتوں والے زورآور (فرشتہ) نے (کہ یہ خدا کی وحی ہے) جوسیدھا بیٹھا اور تھا وہ آسمان کے اونچے کنارے پر، پھر وہ قریب ہوا، پس جھک گیا، پھر رہ گیا (دونوں کےدرمیان) دوکمان بلکہ اس سے بھی نزدیک کا فرق، پس خدانے اپنے بندے (محمدﷺ) پر وحی نازل فرمائی جو بھی وحی بھیجی، اس (بندے) نے جو دیکھا (اس کے) دل نے جھوٹ نہیں کہا، تو کیا تم اس سے اس پر جھگڑتے ہو جو اس نے خود دیکھا ہے، اور اس کو اس نے دیکھاہے اُترتے ہوئے ایک بار اور بھی سدرۃ المنتہٰی کے پاس، اس کے پاس ہے بہشت آرام سے رہنے کی، جب چھارہاتھا اُس بیری پر جو کچھ چھارہاتھا، بہکی نہیں نگاہ اور نہ حد سے بڑھی، بےشک دیکھے آپ نے اپنے رب کے بڑے نمونے۔‘‘

 

احادیث اور واقعۂ معراج:

اکثر ومعتبر روایات کی رو سے یہ معراج کا واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔واقعہ معراج چونکہ انسانی عقل وفہم سے بالاتر ہے اس لئے اس باب میں صحیح اورمستند روایات کی پیروی ضروری ہے۔احادیث وسیرت کی کتابوں میں متعدداد صحابہ ؓ نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ علامہ ابن کثیرؒنے سورہ بنی اسرائیل کی تفسیر میں معراج سے متعلق اکثرروایات کویکجا کردیا ہے۔ان میں سے صحیح، مرفوع، قوی، ضعیف، موقوف، مرسل، منکر تمام قسم کی روایتیں ہیں۔مشہورمحدث علامہ زرقانی کہتے ہیں کہ واقعہ ٔمعراج پینتالیس45صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔اور پھر اُن کے نام بھی شمار کرائے ہیں۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مستقلاً یہ واقعہ مذکور ہے۔صحیحین میں واقعہ معراج کا مسلسل اور مفصل بیان حضرت ابوذرؓ، حضرت مالک بن صعصعہؓ اور حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے۔ان کے علاوہ دیگر جلیل القدر صحابہ کرامؓ سے بھی اس کے بعض اجزاء منقول ہیں۔طوالت کے خوف سے یہاں صرف صحیح بخاری کی ایک ہی روایت پر اکتفاکیا جاتاہے، جس میں معراج کی تقریباً پوری تفصیل اوراہم اہم جزئیات موجود ہیں۔ملاحظہ ہو:

 

عَنْ اَنَسِ ابْنِ مَالَکٍ عَنْ مَالِکِ ابْنِ صَعْصَعَةَ اَنَّ نَبِیَّ اللہِﷺحَدَّثَہُمْ عَنْ لَیْلَةٍ اُسْرِیَ بِہِ……الخ

 

’’حضرت انس بن مالکؓ حضرت مالک بن صعصعہؓ انصاری سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کےنبیﷺنے ان سے اس رات (جس میں آپ ﷺکو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جا یا گیا) کے بارے میں بیان کیاکہ: میں حطیم میں اور روایت میں ہے کہ حجر میں تھا کہ اچانک میرے پاس ایک آنے والا آیا۔اور (لمبائی میں) چیرا۔راوی کہتا ہے کہ میں نے سُنا کہ آپﷺفرمارہے ہیں کہ یہاں سے یہاں تک چیرا راوی کہتا ہے کہ میں نے جارود جومیرے پہلو میں تھا اس سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے تو اس نے کہا کہ گلے کے پاس سے لے کر ناف تک۔پھر میرے دل کو نکالا۔اس کے بعد سونے کا ایک طشت ایمان سے بھر لائے اور میرے دل کو اس سے دھویا گیا۔پھر بھر دیا۔اس کے بعد واپس اپنی جگہ پر لوٹادیا۔پھرایک (دابہ) چوپایہ لایاگیا جو سفیدگدھے سے اونچا اور خچر سے تھوڑاچھوٹا تھا۔جارود نے اس (حضرت انسؓ) سے کہا کہ وہ بُراق ہے۔پھر جارود نے کہا اے اباحمزہ ! (حضرت انس ؓکی کنیت ہے) حضرت انس ؓنے کہا جی!وہ بُراق ایک ایک قدم کو اتنی دوردور رکھتا تھا جتنی دور اس کی نگاہ پہنچے۔اس کے بعدحضرت جبرئیل علیہ السلام مجھے لےکر آسمان دنیا کی طرف پہنچے۔حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دروازہ کھلوانا چاہا، کہاگیا کون ہے؟کہاجبرئیل، پوچھا !ساتھ کون ہے؟انہوں نے جواب دیا: حضرت محمد ﷺ۔پوچھا: کیا اُن کی طرف کوئی بھیجا گیاہے؟کہا: ہاں !توکہا گیا خوش آمدید!بہترین آنے والا۔پھر ہمارے لئے دروازہ کھل گیا، جب میں وہاں پہنچ گیا، وہاں میں نے حضرت آدم ؑکو دیکھا۔جبرئیلؑ نے کہا: یہ تیرا باپ آدم ؑ ہے ان کو سلام کیجئے!پس میں نے اس پر سلام کیا اور اس نے سلام کا جواب دیااورمرحبا کہااورفرمایاآپ میرے پہت ہی پیارے بیٹے اور نیک نبی ہیں۔پھر مجھے دوسرے آسمان پر چڑھایا۔پھر دروازہ کھلوانا چاہا، کہاگیا کون ہے؟کہاجبرئیل، پوچھا !ساتھ کون ہے؟انہوں نے جواب دیا: حضرت محمد ﷺ۔ پوچھا: کیا اُن کی طرف کوئی بھیجا گیاہے؟کہا: ہاں ! توکہا گیا خوش آمدید!بہترین آنے والا۔پھر ہمارے لئے دروازہ کھل گیا، جب میں وہاں پہنچ گیا، وہاں میرے دوخالہ زاد بھائی حضرت عیسیٰؑ اور حضرت یحیٰؑ تھے ۔جبریل ؑ نے کہا کہ یہ حضرت عیسیٰؑ اور حضرت یحیٰؑ ہیں ان دونوں کوسلام کیجئے!میں نے سلام کیا دونوں نے جواب دیا۔دونوں نے کہامرحبا!نیک بھائی اور نیک نبی۔ پھر مجھےتیسرے آسمان پر چڑھایا۔پھر دروازہ کھلوانا چاہا، کہاگیا کون ہے؟کہاجبرئیل، پوچھا !ساتھ کون ہے؟انہوں نے جواب دیا: حضرت محمد ﷺ۔پوچھا: کیا اُن کی طرف کوئی بھیجا گیاہے؟کہا: ہاں ! توکہا گیا خوش آمدید!بہترین آنے والا۔پھر ہمارے لئے دروازہ کھل گیا، جب میں وہاں پہنچ گیا، وہاں حضرت یوسف ؑ تھے، حضرت جبرئیل ؑ نے کہا یہ یوسفؑ ہے ان کو سلام کیجئے!میں نے اس پر سلام کیا اس نے جواب دیا کہامرحبا!نیک بھائی اور نیک نبی۔پھر مجھےچوتھے آسمان پر چڑھایا۔پھر دروازہ کھلوانا چاہا، کہاگیا کون ہے؟کہاجبرئیل، پوچھا !ساتھ کون ہے؟انہوں نے جواب دیا: حضرت محمد ﷺ۔پوچھا: کیا اُن کی طرف کوئی بھیجا گیاہے؟کہا: ہاں! توکہا گیا خوش آمدید!بہترین آنے والا۔پھر ہمارے لئے دروازہ کھل گیا، جب میں وہاں پہنچ گیا، وہاں حضرت ادریسؑ تھے، حضرت جبرئیل ؑ نے کہا یہ ادریسؑ ہے ان کو سلام کیجئے !میں نے اس پر سلام کیا اس نے جواب دیا کہامرحبا!نیک بھائی اور نیک نبی۔پھر مجھےپانچویں آسمان پر چڑھایا۔پھر دروازہ کھلوانا چاہا، کہاگیا کون ہے؟کہاجبرئیل، پوچھا !ساتھ کون ہے؟انہوں نے جواب دیا: حضرت محمدﷺ۔پوچھا: کیا اُن کی طرف کوئی بھیجا گیاہے؟کہا: ہاں!توکہا گیا خوش آمدید!بہترین آنے والا۔پھر ہمارے لئے دروازہ کھل گیا، جب میں وہاں پہنچ گیا، وہاں حضرت ھارونؑ تھے، حضرت جبرئیل ؑ نے کہا یہ ھارونؑ ہے ان کو سلام کیجئے!میں نے اس پر سلام کیا اس نے جواب دیا کہامرحبا!نیک بھائی اور نیک نبی۔پھر مجھےچھٹے آسمان پر چڑھایا۔پھر دروازہ کھلوانا چاہا، کہاگیا کون ہے؟کہاجبرئیل، پوچھا !ساتھ کون ہے؟انہوں نے جواب دیا: حضرت محمد ﷺ۔ پوچھا: کیا اُن کی طرف کوئی بھیجا گیاہے؟کہا: ہاں! توکہا گیا خوش آمدید!بہترین آنے والا۔پھر ہمارے لئے دروازہ کھل گیا، جب میں وہاں پہنچ گیا، وہاں حضرت موسیٰؑ تھے، حضرت جبرئیل ؑ نے کہا یہ موسیٰؑ ہے ان کو سلام کیجئے!میں نے اس پر سلام کیا اس نے جواب دیا کہامرحبا!نیک بھائی اور نیک نبی۔پھرجب میں اس سے گذراتووہ رونے لگا۔اس سے کہا گیا کہ کس چیز نے آپ کو رُلایا؟فرمایاکہ ایک اللہ کا بندہ جو میرے بعد مبعوث ہوئے، میرے امتیوں سے زیادہ اپنے امتیوں کو جنت میں داخل کرے گا۔پھر مجھےساتویں آسمان پر چڑھایا۔پھر دروازہ کھلوانا چاہا، کہاگیا کون ہے؟کہاجبرئیل، پوچھا !ساتھ کون ہے؟انہوں نے جواب دیا: حضرت محمد ﷺ۔پوچھا: کیا اُن کی طرف کوئی بھیجا گیاہے؟کہا: ہاں! توکہا گیا خوش آمدید!بہترین آنے والا آیاہے۔پھرجب میں وہاں پہنچ گیا، وہاں حضرت ابراہیمؑ تھے، حضرت جبرئیل ؑ نے کہا یہ تیراباپ ابراہیمؑ ہے ان کو سلام کیجئے!میں نے اس پر سلام کیا اس نے جواب دیا کہامرحبا!نیک بھائی اور نیک نبی۔پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک اُٹھالےگئے، جس کے پھل ھجر کے مٹکوں جیسےاور جس کے پتےّ ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے۔ (جبرئیلؑ) نے کہا یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے۔اور وہاں پر چارنہریں تھیں، دوظاہری اور دوباطنی۔میں نے کہا اے جبرئیل! یہ کیا ہے؟ جبرئیل ؑ نے کہا: یہ جو دو باطن نہریں ہیں یہ جنّۃ میں ہیں۔اور یہ جو دوظاہری ہیں وہ نیل اور فرات ہیں۔پھر مجھے بیت المعمور تک اُٹھالے گئے۔پھر میرے پاس دو برتن ایک شراب کا اور ایک دودھ کا لائے گئے، میں نے دودھ کو پسند کر لیا۔جبرئیل ؑ نے کہا یہی فطرت ہے آپ اور آپ کی امۃ اسی (فطرت) پر ہیں۔اور مجھ پرایک رات اور دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں، پھر میں چھٹے آسمان پرواپس اُترا اور دوبارہ حضرت موسیٰؑ سے ملا۔انہوں نے نمازوں کی فرضیت کے بارے میں پوچھا۔میں نے کہا پچاس نمازیں ہردن ۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: آپ کی اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔موسیٰ ؑ نے فرمایاکہ اللہ کی قسم !میں نے آپ سے پہلے لوگوں پر تجربہ کیا ہے۔اور میں نے بنی اسرائیل پر بہت محنت کی ہے۔اپنے رب کے حضور جائیے اور اپنی امت کے لئےتخفیف کی درخواست کیجئے!تو میں حضور خداوندی میں واپس گیا۔تو دس نمازوں کی کمی منظور ہوگئی۔پھر میں حضرت موسیٰؑ کی طرف لوٹا، موسیٰؑ نے پھر پہلے کی طرح بات کی، میں پھر درگاہ کریمی میں گیا، پھر دس نمازوں کی کمی منظور ہوگئی، پھر میں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آیا۔حضرت موسیٰ نے پھر پہلے کی طرح سمجھایا، میں پھر اللہ کے حضور گیا، پھر دس نمازوں کی کمی ہوگئی، پھرمیں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آیا۔حضرت موسیٰ نے پھر پہلے کی طرح سمجھایا، میں پھر اللہ کے حضور گیا، تومجھے ہردن دس نمازوں حکم ہوگیا، پھرمیں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس لوٹ آیا۔حضرت موسیٰ ؑنے پھر پہلے کی طرح سمجھایا، میں پھر اللہ کے حضور گیا، تومجھے ہردن پانچ نمازوں کاحکم ہوگیا، پھرمیں حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آیا۔حضرت موسیٰ نے کہاکس چیز کے ساتھ امر کئے گئے ؟، میں نے کہا ہر دن پانچ نمازوں کا حکم کیا گیا۔حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: آپ کی اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔اور فرمایاکہ میں نے آپ سے پہلے لوگوں پر تجربہ کیا ہے۔اور میں نے بنی اسرائیل پر بہت محنت کی ہے۔اپنے رب کے حضور جائیے اور اپنی امت کے لئےتخفیف کی درخواست کیجئے!آپ ﷺنے فرمایاکہ میں اپنے رب سے سوال کرتے کرتے شرماگیا، اب میں راضی ہوں اور تسلیم کرلیتا ہوں، پھر جب میں وہاں سے گذراتو ایک آواز دینے والے نے آوازدی کہ میں نے اپنے فرض کو نافذ (مضبوط) کیااور اپنے بندوں سے تخفیف کردی۔‘‘[6]

 

معراج جسمانی تھی یا روحانی:

جمہور علماء، فقہاء، متکلمین اور محدثین کی رائے ہے کہ واقعہ معراج اول سے اخیر تک جسمانی اور حالت بیداری میں پیش آیاہے۔ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ معراج اول سے اخیر تک حالت خواب یعنی بالروح تھا۔سرسید احمد خان بھی اسی گروہ میں سے ایک ہیں۔حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ایک اور رائے قائم کی وہ یہ کہ معراج جسمانی ہوئی تھی اوربیداری میں مگر بجسد برزخی بین المثال والشہادۃ۔[7] اس اختلاف کو قاضی عیاضؒ نے اپنی کتاب ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفےٰ‘‘ میں اس طرح لکھا ہے:

 

’’پھر اگلے لوگوں اور عالموں کے اسراء کے روحانی یا جسمانی ہونے میں تین مختلف قول ہیں ۔ایک گروہ اسراء کا روحانی کے ساتھ اور خواب میں ہونے کا قائل ہے۔اور اس پر بھی متفق ہیں کہ پیغمبروں کا خواب وحی اور حق ہوتا ہے۔معاویہ کا مذہب بھی یہی ہے حسن بصری کو بھی اسی کا قائل بتاتے ہیں۔لیکن اس کا مشہور قول اس کے برخلاف ہے۔اور محمد بن اسحاق نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔اُن کی دلیل ہے خداکا یہ فرمانا﴿وَمَاجَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ﴾‘‘اورحضرت عائشہ کا یہ قول کہ نہیں کھویا ہم نے رسول اللہ ﷺکے جسم کویعنی آپﷺکا جسم مبارک معراج میں نہیں گیا تھااور آنحضرت ﷺکا یہ فرماناکہ اس حالت میں کہ میں سوتا تھااور انس کا یہ قول کہ آنحضرتﷺاُس وقت مسجد حرام میں سوتے تھے۔پھر معراج کا قصہ بیان کرکےآخر میں کہا کہ میں جاگااور اس وقت مسجد حرام میں تھابہت سے اگلے لوگ اور مسلمان اس بات کے قائل ہیں کہ اسراء جسم کے ساتھ اورجاگنے کی حالت میں ہوئی اور یہی بات حق ہے۔ابن عباس، جابر، انس، حذیفہ، عمر، ابی ھریرہ، مالک بن صعصعہ، ابوحبۃ البدری، ابن مسعود، ضحاک، سعید بن جبیر، قتادہ، ابن المسیب، ابن شہاب، ابن زید، حسن ابراہیم بن مسروق، مجاھد عکرمہ، اور ابن جریج سب کا یہی مذہب ہے۔اور حضرت عائشہ کے قول کی یہی دلیل ہے۔اور طبری، ابن حنبل اور مسلمانوں کے ایک بڑے گروہ کا یہی قول ہے۔متأخرین میں سے بہت سے فقیہ، محدث، متکلم اور مفسر اسی مذہب پر ہیں۔ایک گروہ بیت المقدس تک جسم کے ساتھ بیداری میں جانے اور آسمانوں پر روح کے ساتھ جانے کا قائل ہے۔اُن کی دلیل خدا کا یہ قول ہے: ﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلیٰ الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی﴾یہاں اسراء کی انتہاءمسجداقصےٰ بیان کی ہے۔پھر ایسی بڑی قدرت اور محمد ﷺکو بزرگی دینے اور اپنے پاس بلانے سے اُن کی بزرگی ظاہر کرنے پر تعریف کی اور تعجب کیاہے اور اگر مسجد اقصےٰ سے اور بھی جسم کے ساتھ جاتے تو اس کا ذکر کرناتعریف کے موقع پر زیادہ مناسب تھا۔[8]

 

واقعہ معراج اور سرسید احمد خان کا نقطۂ نگاہ:

سرسید احمد خان نےاپنی مشہورکتاب ’’الخطبات الاحمدیہ فی العرب والسیرۃ المحمدیہ‘‘اور اپنی ’’تفسیر القرآن ‘‘میں واقعۂ اسراء اور معراج کو خواب سے تعبیر کیاہے اور کہا ہے کہ یہ سارا واقعہ خواب میں پیش آیاہے۔جتنی تفصیل کے ساتھ سرسید احمدخان نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے، کسی اور بحث کو اتنا نہیں چھیڑاہے۔راقم کی سرسید کی رائے سے اختلاف کے باوجود یہ رائے ہےکہ ایک منصف محِقق کے لئے اُن کی رائےقابل مطالعہ، مفیداورعلمی بحث ہے اس کو دیکھنا فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔سرسید نے جمہور علماء، محدثین ومتکلمین کی آراء پردلائل کے ساتھ جگہ جگہ نقد وجرح کی ہے، پوری بحث کو بالتفصیل یہاں بیان کرنا نہایت مشکل کام ہے ۔ یہاں پرصرف ’’مشت نمونہ ازخروارے‘‘سے کام لیا جاتاہے۔سرسید لکھتے ہیں:

 

’’معراج کے مقدم واقعات جن پر توجہ کی جاسکتی ہےیہ ہیں۔آنحضرت ﷺکے سینہ مبارک کا شق کیا جانا، آپﷺ کا بُراق پر سوار ہوکر مکہ سے بیت المقدس کو جانااور وہاں سے آسمان پر تشریف لے جانا۔وہ واقعات اور مکالمات جو آسمانوں پر پیش آئے۔مگر مطلق ثابت نہیں ہےکہ آنحضرت ﷺنے ان باتوں کی درحقیقت واقع ہونے کا کبھی دعوےٰکیاہو۔قرآن مجید سے اور نیز ان روایتوں سے جو راویوں نے معراج کی نسبت بیان کی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا ﷺنے خواب میں دیکھا تھاکہ وہ مکہ سے بیت المقدس گئے ہیں اور اس روایت کو جس میں شق صدر کا بھی ذکر ہے صحیح ماناجائےتو یہ بھی آنحضرت ﷺنے خواب میں دیکھا تھاکہ اُن کا سینہ چاک کرکےاُن کا دل پانی سے دھویا گیا ہےاور اسی خواب میں آنحضرت ﷺنے اور بھی کچھ خداکی نشانیاں دیکھیں جس کی تفصیل قرآن مجید میں مذکور نہیں ‘‘۔[9]

 

سرسید احمد خان اپنے دعوے کہ معراج صرف ایک رؤیا (خواب) تھا، صحیح بخاری سے حوالہ کرتے ہیں۔صحیح بخاری میں ہے:

 

عَنِ ابْنِ عَبَاسٍؓ فِیْ قَوْلِہ تَعَالیٰ وَمَاجَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ اِلَّافِتْنَةًلِنَّاسِ قَالَ ھِیَ رُؤْیَاعَیْنٍ اُرِیْھَا رَسُوْلُ اللہِﷺ لَیْلَةَاُسْرِیَ بِہِ اِلٰی بَیْتِ الْمَقْدِسِ۔‘‘[10]

 

حضرت ابن عباسؓ نے قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیر میں ’’وَمَاجَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَةًلِلنَّاسِ‘‘کہا کہ یہ آنکھ کا رویا ہے جورسول خدا ﷺکواُس رات دکھا یا گیاتھا۔جب وہ بیت المقدس کو لے جائے گئےتھے۔

 

سرسیداحمد خان نے اوربھی روایات نقل کی ہیں:

 

قتادہؓ کی روایت میں ہے۔کہ معراج کی رات آنحضرت ﷺچت لیٹے ہوئے تھے۔حسنؓ کی روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایاکہ معراج کی رات کو میں مقام حجر میں سوتا تھا۔انسؓ کی روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺمسجد حرام میں سوتے تھے اور جب تمام قصہ معراج کا انس ؓبیان کرچکے ہیں، تو اس کی آخر میں رسول خداﷺکے یہ الفاظ بیان کئے ہیں کہ’’پھر میں جاگ اُٹھااور میں مسجد حرام میں تھا۔‘‘ام ہانی ؓکی روایت میں ہے کہ معراج کی رات کوآنحضرتﷺعشاءکی نماز پڑھ کر ہم میں سورہے اور فجر کے پہلے ہم نے اُن کو جگایا۔عبد ابن حمیدؓ کی روایت میں ہےکہ معراج کا حال بیان کرنے میں آنحضرتﷺنے فرمایاکہ’’میں سوتاتھا‘‘یا یہ کہا کہ ’’چت لیٹا ہوا تھا‘‘یا یہ کہا کہ’’سونے اور جاگنے کے بیچ میں تھا……یہ سب روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ معراج کے جو واقعات بیان ہوئے ہیں وہ خواب کے واقعات ہیں اوراگر ان روایتوں کی معتبری پر شبہ کیاجاوے تو اتنی بات توضروراس سے ثابت ہوتی ہےکہ اُس زمانہ کے لوگ جب کہ یہ روایتیں لکھی گئیں معراج کے واقعات کو رویا کے واقعات سمجھتے تھے۔‘‘[11]

 

سرسید احمد خان نےاپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئےجو روایات مختصراً ذکر کی ہیں وہ ساری ان کی’’ تفسیر القرآن‘‘میں تفصیلاً مذکور ہیں ۔وہ مزید دلائل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

==’’اول: ==دلالت النص یعنی خدا کا یہ فرماناکہ﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہِ لَیْلاً﴾یعنی رات کو خدااپنے بندہ کو لے گیا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خواب میں یہ امر واقع ہوئے تھے جو وقت عام طور پر انسانوں کے سونے کا ہےورنہ ’’لَیْلاً‘‘کی قید لگانے کی ضرورت نہ تھی……

 

==دوم: ==خود اسی سورۃ میں خدانے معراج کی نسبت فرمایاہے: ﴿وَمَاجَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ﴾یعنی ہم نے نہیں کیا اُس خواب کو جو تجھے دکھایامگر آزمائش واسطے لوگوں کے۔[سرسید کے نزدیک اس آیت میں رؤیا سے خواب ہی مراد ہے اور دلیل صحیح بخاری میں عبداللہ ابن عبا س ؓکی دوحدیثیں ہےجن میں رؤیا کا ذکر ہے۔اس کے نزدیک لفظ ’’عین‘‘جوعبداللہ ابن عباسؓ کی روایت میں ہے اس معنیٰ کو نہیں بدلتا۔پھر ان دونوں حدیثوں کو بھی ذکرکرکے مزید تصریح کی ہے۔]

 

==سوم: ==مالک بن صعصعہ اور انس بن مالکؓ کی حدیثیں جو بخاری اور مسلم میں مذکورہیں اُن سے پایاجاتاہے کہ معراج کے وقت آپ سوتے

 

تھے ۔[پھر ان حدیثوں کے الفاظ بھی لکھےہیں۔]

 

==چہارم: ==معاویہ، حسن، حذیفہ بن الیمان اور حضرت عائشہ ؓکا مذہب تھاکہ اسراء یا معراج خواب میں ہوئی ہے۔

 

==پنجم: ==اگرکسی حدیث میں ایسے امور بیان ہوں جو ایک طرح پر بداہت عقل کے برخلاف ہوں اور طرح پر نہیں اور اگلے علماء اور صحابہ کی رائیں مختلف ہوں کہ کوئی اس طرف گیاہو اور کوئی اُس طرف توبموجبِ اصول علم حدیث کے لازم ہے کہ اُس صورت کو اختیار کیاجاوے جو بداہت عقل کے مخالف نہیں ہے۔‘‘[12]

 

ایک اور جگہ سرسیداحمدخان اُن احادیث کے متعلق جوواقعہ معراج سے متعلق ہیں لکھتےہیں:

 

’’معراج کے متعلق جس قدرحدیثیں ہیں اُن میں آنحضرتﷺکا بجسدہ جبرئیل کا ہاتھ پکڑ کرخواہ بُراق پر سوار ہوکر یا پرند جانور کے گھونسلے میں بیٹھ کر جو درخت میں لٹکا ہوا تھا بیت المقدس تک جانااور وہاں سے بجسدہ آسمانوں پر تشریف لے جانایا بذریعہ ایک سیڑھی کے جو آسمانوں تک لگی ہوئی تھی چڑھ جاناخلاف قانون فطرت ہے۔اوراس لئے ممتنعات عقلی میں داخل ہے اگر ہم اُن کے راویوں کو ثقہ اور معتبر تصورکرلیں تو بھی یہ قرارپائیگا کہ اُن کو اصل مطلب کے سمجھنے اوربیان کرنے میں غلطی ہوئی مگر اس واقعہ کی صحت تسلیم نہیں ہوسکے گی اس لئے کہ ایساہونا ممتنعات عقلی میں سے ہے۔اوریہ کہہ دینا کہ خدامیں سب قدرت ہے اُس نے ایسا ہی کر دیا ہوگاجہال اورناسمجھ بلکہ مرفوع القلم لوگوں کا کام ہے نہ اُن کا جو دل سے اسلام پر یقین کرتے ہیں اوردوسروں کواُس مقام پر یقین دلانااوراعلائےکلمۃ اللہ چاہتے ہیں۔‘‘[13]سرسید’’الخطبات الاحمدیہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

 

’’معراج کی نسبت جس چیز پر کہ مسلمانوں کو ایمان لانافرض ہے وہ اس قدر ہے کہ پیغمبر خدا نے اپنامکہ سے بیت المقدس پہنچنا ایک خواب میں دیکھا اور اسی خواب میں اُنہوں نے درحقیقت اپنے پروردگار کی بڑی نشانیاں مشاہدہ کیں۔خواہ وہ شخص اُن نشایوں کو لامعلوم نشانیاں کہے خواہ اُن نشانیوں کے دیکھنے سے عمدہ ترین احکام وحی کا ہونامراد لے۔مگر اس بات پر یقین رکھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺنے جو خواب میں دیکھایا جو وحی ہوئی یا انکشاف ہوا وہ بالکل سچ اور برحق ہے۔[14]

 

جمہورکے دلائل:

مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ نے اپنی کتاب’’قصص القرآن‘‘میں جمہور علماء کی رائے کو درست سمجھتے ہوئے فہرست کی شکل میں دلائل سے ثابت کیا ہے کہ: قرآن عزیز اور احادیث صحیحہ بغیر کسی تأویل کے بصراحت یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسراء اور معراج کا واقعہ بجسد عنصری اور بحالت بیداری پیش آیا ہےمولاناسیوہاروی ؒ نے جن آیات کوبطوردلیل پیش کیا ہے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:

 

1: سورۂ بنی اسرائیل کی آیت’’اسری بعبدہ‘‘میں اسراء کے متبادر معنیٰ وہی ہے جو حضرت موسیٰؑ اورحضرت لوط ؑسے متعلق آیات میں ہیں یعنی بحالت بیداری اور بجسد عنصری رات میں لے چلنا۔وہ دو آیتیں یہ ہیں:

 

پہلی آیت: ﴿قَالُوْا یَالُوْطُ اِنَّارُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْا اِلَیْکَ فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطَعٍ مِّنَ الَّیْلِ﴾[15]

 

’’فرشتوں نے کہا: لوط! ہم تو تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے (فرشتے) ہیں۔یہ تجھ تک ہر گز نہیں پہنچ پائیں گے۔پس تو اپنے لوگوں کو کچھ رات گئے (یہاں سے) لے نکل۔‘‘

 

یہ آیت﴿فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطَعٍ مِّنَ الَّیْلِ﴾[16]میں بھی موجود ہے۔ٍ

 

دوسری آیت: ﴿وَلَقَدْ اَوْحَیْنَا اِلیٰ مُوْسیٰ اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ﴾[17]

 

’’اوربلاشبہ ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے جا‘‘

 

اور سورۂ شعراء میں ہے: ﴿وَاَوْحَیْنَا اِلیٰ مُوْسٰی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ اِنَّکُمْ مُتَّبَعُوْنَ﴾[18]

 

’’ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍاور ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے کر نکل جا۔تمہارا تعاقب ضرور کیا جائے گا۔‘‘

 

اور یہی آیت سورۂ دخان میں بھی موجود ہے۔

 

ان تمام آیت میں لفظ’’اسراء‘‘ٍکا جس طرح اطلاق کیا گیا ہےاس سے دو حقیقتوں پر روشنی پڑتی ہے ایک یہ کہ ’’ اسراء‘‘ اس سیر اور اس چلنے کو کہتے ہیں جو رات میں پیش آئے اس لئے دن یا شام کے چلنے پر ’’ اسراء ‘‘کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔

 

دوسری بات یہ ہے کہ ’’سری یا سراء‘‘کا ان تمام آیات میں روح مع جسد پر اطلاق ہواہے……یہ نہ خواب کی شکل میں تھا اور نہ روحانی طور پر اور نہ رؤیا کشفی کے طریقے پر بلکہ روح مع جسد کےتھا۔]‘‘

 

(2) آیت﴿وَمَاجَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ﴾میں ’’رؤیا‘‘بمعنیٰ عینی مشاہدہ ہے نہ کہ خواب یا روحانی رؤیت اور لغت عرب میں رؤیا کے یہ معنیٰ مجازی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔

 

(3) آیت﴿اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ﴾میں قرآن نے اس وقعے کو اقرار وانکار کی شکل میں ایمان وکفر کے لئے معیار قرار دیا ہے اور اگرچہ انبیاءؑکے روحانی مشاہدے یا خواب پر بھی مشرکین ومنکرین کا انکار وجحود ممکن اور ثابت ہے لیکن تبادر یہی ظاہر کرتاہے کہ واقعے کی عظمت وفخامت کے پیش نظرمنکرین کا انکار اس لئے شدید سے شدید ترہوا کہ رسول اکرم ﷺنے اس واقعے کو عینی مشاہدے کی طرح بیان فرمایاہے۔

 

(4) سورۂ النجم کی آیت﴿مَازَاغَ الْبَصَرُوَمَاطَغٰی﴾میں رؤیت جبرئیل نہیں بلکہ واقعۂ اسراء کا مشاہدۂ عینی مراد ہے۔اور اس میں یہ بتلا نا مقصود ہے کہ آنکھ نے جو کچھ دیکھا قلب نے ہو بہو اس کی تصدیق کی۔

 

(5) صحیح حدیث میں ہےکہ جب مشرکین نے اس واقعے کے انکار پر حجّت قائم کی کہ اگر یہ صحیح ہے تو رسول اکرمﷺبیت المقدس کی موجودہ جزئی تفصیلات بتائیں کیونکہ ہم کو یقین ہے کہ نہ انہوں نے بیت المقدس کو کبھی دیکھا ہے اور نہ بغیر دیکھے جزئی تفصیلات بتائی جاسکتی ہیں تب رسول اکرم ﷺکے سامنےسے بیت المقدس کے درمیانی حجابات من جانب اللہ اُٹھادیےگئے اور آپ ﷺنے ایک ایک چیز کامشاہدہ کرتے ہوئے مشرکین کے سوالات کےصحیح جوابات مرحمت فرمائےجن میں مسجد کی بعض تعمیری تفصیلات تک زیربحث آئیں، یہ دلیل ہے اس امر کی کہ مشرکین سمجھ رہے تھے کہ آپﷺاسراء کو بحالت بیداری اور بجسد عنصری ہونا بیان فرمارہےہیں اور رسول اکرم ﷺنےان کے خیال کی تردید نہیں فرمائی بلکہ اس کی تائید کے لئے معجزانہ تصدیق کا مظاہر فرماکر ان کو لاجواب بنادیا۔

 

(6) ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بسند صحیح منقول ہے کہ قرآن مجید میں مذکور ’’رؤیا‘‘سے مرادرؤیا عین ہے نہ کہ خواب یا روحانی مشاہدہ۔

 

(7) آیت: ﴿وَمَاجَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَۃَ الْمَلْعُوْنَةَ فِی الْقُرْآنِ﴾میں مذکور ہے کہ واقعۂ اسراء اور جہنم کے اندر سینڈھ کے درخت کا موجود ہونااور آگ میں نہ جلنایہ دونوں واقعے اقرار وانکار کی صورت میں ایمان وکفر کے لئے آزمائش ہیں پس جبکہ جہنمیوں کی غذاکے لئے ایک مادی خارداردرخت کا موجود ہونا، سرسبز شاداب رہنااور آگ سے نہ جلنا مشرکین کے انکار کا سبب ہوا، بلا شبہ اسراءکے واقعے میں بھی آزمائش کا پہلو یہی ہے کہ رسول اکرم ﷺنے کس طرح زمان ومکان کی قیود کو توڑکر بجسد عنصری وبحالت بیداری وہ سیر کرلی جس کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل اور والنجم میں اور صحیح احادیث میں ہےاور یقیناً مشرکین نے اس کا نکار کیاجس کے رد میں قرآن نے اس کو﴿اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ﴾کہہ کر اس قدر اہمیت دی ورنہ تو أنبیاء علیہم السلام کے روحانی مشاہدات اور خواب کے واقعات کا انکار توان کے لئے ایک عام بات تھی۔

 

(8) اسراء کا واقعہ جب پیش آیاتوصبح کو رسول اکرمﷺنےجن صحابہ کی محفل میں اس واقعہ کا تذکرہ کیاوہ سب باتفاق یہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ بجسد عنصری بحالت بیداری پیش آیامثلاًحضرت عمرؓ، حضرت انسؓ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ وغیرہ اور اس کے برعکس ذیل کے قائلین میں حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت عائشہ ؓ کے اسماءگرامی ہیں جن کا اسلام یا حرم نبوی سے تعلق اس واقعہ سے برسوں بعد مدینہ کی زندگی پاک سے وابستہ ہے اس لئے واقعہ کے ایام میں موجود اصحاب کا قول ہے۔

 

(9) حضرت عائشہ ؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کا جو مسلک جمہور کے خلاف منقول ہے وہ بلحاظ درجہ روایت وصحت سند نہ صرف مرجوح بلکہ مجروح ہے اس لئے اول تو ان بزرگوں کی جانب اس قول کا انتساب ہی درست نہیں اور بالفرض صحیح بھی ہو تو جمہور کے مسلک کے مقابلہ میں ہرحیثیت سے مرجوح ہے۔[19]

 

مولاناابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی معراج نبوی کو جسد عنصری کا سفرقراردیتے ہیں۔وہ اپنی تفسیر’’تفہیم القرآن‘‘میں واقعہ معراج کے بارے میں رقمطرازہیں کہ: ’’سُبْحٰنَ الَّذِیْ أَسْرٰیسے بیان کی ابتداکرنا خود بتا رہاہے کہ یہ کوئی بہت بڑاخارقِ عادت واقعہ تھاجو اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت سے رونماہوا۔ظاہر ہے کہ خواب میں کسی شخص کا اس طرح کی چیزیں دیکھ لینا، یا کشف کے طور پر دیکھنایہ اہمیت نہیں رکھتاکہ اسے بیان کرنے کے لئے اس تمہید کی ضرورت ہوکہ تمام کمزوریوں اور نقائص سےپاک ہے وہ ذات جس نےاپنے بندے کو یہ خواب دیکھایایا کشف میں یہ کچھ دکھایا۔پھر یہ الفاظ بھی کہ’’ایک رات اپنے بندے کو لے گیا‘‘جسمانی سفر پر صریحاًدلالت کرتے ہیں۔خواب کے سفر یا کشفی سفرکے لئے یہ الفاظ کسی طرح موزوں نہیں ہوسکتے۔‘‘[20]

حوالہ جات

  1. بنی اسرائیل85: 17
  2. سیُوہاروی، مولانا محمدحفظ الرحمٰن، قصص القرآن، لاہور، المیزان ناشران وتاجران، 2011ء، حصہ4، ص461
  3. بنی اسرائیل1: 17
  4. بنی اسرائیل60: 17
  5. النجم1: 53-18
  6. بخاری، ابو عبداللہ، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، ج1، ص548
  7. الدھلوی، شاہ ولی اللہ، حُجۃ اللہ البالغہ، کراچی، قدیمی کتب خانہ، سن ندارد، ج2، ص365
  8. قاضی عیاض، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، پشاور، مکتبہ شان اسلام، سن ندارد، ص126
  9. سرسید احمد خان، الخطبات الاحمدیہ فی العرب والسیرۃ المحمدیہ، ص402
  10. بخاری، ابو عبداللہ، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، ج2، ص550
  11. سرسید احمد خان، الخطبات الاحمدیہ فی العرب والسیرۃ المحمدیہ، ص402-403
  12. سرسید احمد خان، تفسیرالقرآن، ص1160-1165
  13. سرسید احمد خان، تفسیرالقرآن، ص1196
  14. سرسید احمد خان، الخطبات الاحمدیہ فی العرب والسیرۃ المحمدیہ، ص428
  15. ھود۱۱: ۸۱
  16. الدخان۴۴: ۲۳
  17. طہ۲۰: ۷۷
  18. الشعراء۲۶: ۵۲
  19. سیُوہاروی، مولانا محمدحفظ الرحمٰن، قصص القرآن، ج2، حصہ4، ص469-470
  20. مودودی، ابوالاعلیٰ، تفہیم القرآن، لاہور، ادارہ ترجمان القرآن، 1982ء، ج2، ص589
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...