Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

حقِ انتفاع و انتفاعی ملکیت: ایک فقہی تحقیقی جائزہ |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف:

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ بنی نوعِ انسان کے فائدےکیلئےپیدا کیا ہے۔ لہذا انسان جس چیز کا مالک ہوتا ہے، انسان کو اس سے جائز فائدہ حاصل کرنے کا پورا پورا حق ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ وہ اپنی مملوکہ چیز سے فائدہ حاصل کرنے کا حق کسی دوسرے کوبھی حوالہ کرسکتا ہے۔ اپنی مملوکہ چیز یا کسی دوسری کی مملوکہ چیز سے فائدہ حاصل کرنے کو ’’انتفاع‘‘اور اس فائدہ حاصل کرنے کے حق کو فقہی اصطلاح میں’’حقِ انتفاع‘‘ کہا جاتا ہے۔حق انتفاع معیشت وتجارت کیلئے ہر زمانےمیں کافی اہمیت کا حامل رہاہے،بلکہ اگر یوں کہاجائے توبےجانہیں ہوگا کہ حقِ انتفاع پر مبنی معاملات انسانی معاشرے کیلئے ایک ضروری اور لازمی عنصر کا درجہ رکھتےہیں۔اس کی فقہی ماہیت کی تعیین ، اس کے احکام اور اس کےحاصل کرنےکے اسباب قابلِ غور اورقابلِ تحقیق موضوع تھا۔بالخصوص اس تناظرمیں کہ مغربی قانون میں ایک انگریزی اصطلاح(Beneficial Ownership) (انتفاعی ملکیت یا ملکیتِ انتفاعی)متعارف ہوئی ہے جس کومتعدد لوگوں نےغلط فہمی کی بناء پرحقِ انتفاع کا مترادف سمجھاہے۔ حالانکہ ان دونوں میں واضح فرق موجود ہے۔مقالہ میں ان دونوں اصطلاحات کی وضاحت اور ان دونوں کے متعلق فقہی تفصیلات ذکر کی گئی ہیں۔

 

حقِ انتفاع کی لغوی تعریف:

عربی زبان میں’’حق‘‘ کامعنی ہے ثابت شدہ چیز[1]جبکہ’’انتفاع‘‘بھی اصل میں عربی کالفظ ہےاور یہ باب’’افتعال‘‘کا

 

مصدر ہے جس کے معنیٰ ہیں: فائدہ اٹھانا۔[2] لہذا ان دونوں لفظوں کو جب ہم اضافت والی ترکیب میں جوڑ کر ’’حق انتفاع‘‘کہتے ہیں تو عربی زبان کے مطابق اس کا مطلب ہوگا : فائدہ اٹھانے کا حق۔

 

حق انتفاع کی اصطلاحی تعریف:

حق انتفاع کی اصطلاحی تعریف اور اسکی ماہیت کی تعیین کےحوالےسےفقہی مذاہبِ اربعہ میں بنیادی طور پر دو نقطہ نظر ہیں:

 

(الف ) ائمہ ثلاثہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ حق انتفاع میں کسی شخص کو اس بات کی اجازت دی جاتی ہے کہ وہ کسی چیز سے صرف بذاتِ خود فائدہ حاصل کرے ۔ جیسا کہ علامہ قرافیؒ فرماتے ہیں:

 

تمليك الانتفاع عبارة عن الإذن للشخص في أن يباشر هو بنفسه فقط كالإذن في سكنى المدارس والربط والمجالس في الجوامع والمساجد والأسواق ومواضع النسك كالمطاف والمسعى ونحو ذلك.[3]

 

ترجمہ: تملیک انتفاع کامطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ وہ صرف بذات خود اس چیز سے فائدہ اٹھائے، جیسے مدارس اور مسافرخانوں میں رہائش، اور مساجد، جامعات اور بازار میں بیٹھنے کی اجازت، اور طواف اور سعی کی جگہوں میں متعلقہ مناسک کی ادائیگی اجازت۔

 

(ب) احناف کےنقطہ نظر کےمطابق حقِ انتفاع یہ ہے کہ انسان کو کسی چیز سےفائدہ حاصل کرنےکاحق حاصل ہو جائے خواہ یہ فائدہ بذات خود استعمال کرنے کی صورت میں حاصل کیا جائے یا وہ چیز آگے کسی اور کو حوالہ کرکے اس کے ذریعہ سے آمدنی حاصل کی جائے۔ علامہ قدری پاشاؒ فرماتے ہیں:أن الانتفاع الجائز هو حق المنتفع في استعمال العين واستغلالها ما دامت قائمة على حالها وإن لم تكن رقبتها مملوكة.[4]

 

یعنی جائز انتفاع یہ ہے کہ فائدہ حاصل کرنے والے کو چیز کے استعمال کرنے اور اس سے آمدنی حاصل کرنے کا حق حاصل ہو، (اگر چہ اس کو اس چیز کی ذات کی ملکیت حاصل نہ ہو) جب تک وہ چیز اپنی حالت پر رہتی ہے۔

 

معاصر اہل علم کے نزدیک حق انتفاع کی تعریف:

 

قدیم فقہاء کے اختلاف کی وجہ سے اس بارے میں معاصر اہلِ علم کے بھی دو نقطہ نظر وجود میں آئے ہیں:

 

1: بعض حضرات نے ائمہ ثلاثہ کے مطابق اس کی تعریف کرکے اسے صرف شخصی استعمال کی اجازت تک محدود کردیا ہے۔ مثلا ڈاکٹر حماد نزیہ [5]، اور شیخ ابو زہرہؒ نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے[6] ۔جبکہ ا لموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں اس مکتب فکر کی نمائندگی ان الفاظ میں کی ہے:

 

فحق الانتفاع المجرد من قبيل الترخيص بالانتفاع الشخصي دون الامتلاك.[7]

 

ترجمہ: مجرد انتفاع کے حق کا تعلق ملکیت کے بغیر شخصی استعمال کی اجازت دینے سے ہے۔

 

2: جبکہ اکثر حضرات نے اسے ملکیت ِ منفعت کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس کی تعریف کو عام رکھا ہے جس میں ملکیت منفعت والی صورتیں بھی داخل ہوجاتی ہیں اور محض اباحت والی صورتیں بھی۔ اس نقطہ نظر کو معاصر علماء میں سے درج ذیل حضرات نے اختیار کیا ہے:1:الشيخ مصطفى الزرقاء[8]۔2:الشیخ علی الخفیفؒ [9]۔3:مفتی محمد تقی عثمانی[10]۔4: رواس قلعہ جی۔ [11]

 

تعریف میں اختلاف کی وجہ:

تعریف میں فقہاء کرامؒ کے اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک حق انتفاع کی اصل ماہیت اور حقیقت کے بارے میں اختلاف ہوا ہے کہ آیا وہ منفعت کی ملکیت ہے یا محض منفعت کی اباحت اور شخصی استعمال کی اجازت ہے۔ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک حقِ انتفاع محض شخصی استعمال کی اجازت ہے جبکہ احناف کے نزدیک وہ ملکیت کی منفعت ہے۔ اس لئے ذیل میں حق انتفاع اور ملکیت منفعت سے متعلق ائمہ کرامؒ کے اختلاف کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں تاکہ ہمارے لئے دونوں موقف کے مطابق حق انتفاع کی اصل ماہیت اور حقیقت سمجھنے میں آسانی ہو۔

 

ملکیت منفعت اور حقِ انتفاع میں فرق:

 

اس مسئلے میں احنا ف اور دیگر تین فقہی مکاتب فکر (مالکی، شافعی، حنبلی) کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ ذیل میں اس کی تفصیل ذکر کی جاتی ہے:

 

احناف کا مذہب:

احناف کے نزدیک تعریف، سبب وجود اور اثر کے اعتبار سے منفعت کی ملکیت اور حقِ انتفاع میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بلکہ دونوں کے احکام ایک جیسے ہیں، جن میں سب سے اہم حکم یہ ہے کہ جس طرح ملکیتِ منفعت حاصل ہوجانے کے بعد انسان اس میں بذاتِ خود بھی تصرف کرسکتا ہے، اور وہ استعمال کے لئے کسی اور کے حوالہ بھی کرسکتا ہے، ایسا ہی ملکیت انتفاع حاصل ہوجانے کے بعد بھی اس کو ان دونوں باتوں کا اختیار ہے[12]۔ البتہ اس کلیہ سے چند صورتیں مستثنٰی ہیں اور چند صورتوں میں تفصیل ہے۔ جو کہ ذیل میں نکات کی صورت میں بیان کی جاتی ہے:

 

منفعت کا مالک اس چیز میں یا اسکی منفعت میں ایسا تصرف نہیں کرسکتا ہے جس سے چیز کے اصل مالک کونقصان یا ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو۔[13]

 

اگر چیز ایسی ہو جس کے استعمال کرنے والے کے بدل جانے سے فرق آتا ہو ، تو اس چیز میں اس کوصرف بذات خود استعمال کرنے کی اجازت ہے، کسی اور کو استعمال کے لئے دینے کی اجازت نہیں ہے۔[14]

 

البتہ اگر چیز ایسی ہو جس کو لوگ ایک ہی طرح سے استعمال کرتے ہوں، اس کے استعمال میں تفاوت نہ ہوتا ہو تو اجارہ کی صورت میں وہ چیز آگے اجارہ پر بھی دے سکتا ہے، اور عاریۃ بھی دے سکتا ہے۔[15]

 

جبکہ اجارہ کے علاوہ دیگر تین معاملات (عاریت، وقف اور وصیت) کی صورت میں وہ آگے صرف عاریۃ یعنی بلاعوض استعمال کے لئے دے سکتا ہے، کرایہ پر نہیں دے سکتا ہے۔[16]

 

اگر وہ چیز ایسی ہے جس کو لوگ ایک ہی طرح سے استعمال کرتے ہیں او ر پھر اصل مالک اس کو اس بات کا پابند کرے کہ اس نے چیز کو صرف بذات خود استعمال کرنا ہے، تو عاریت اور اجارہ کے بارے میں یہ پابندی لغو تصور کی جائیگی، اور اس پابندی کے باوجود کرایہ پر لینے والے اور مستعار لینے والے شخص کو اختیار ہوگا کہ وہ چیز استعمال کے لئے کسی اور کو دے۔[17]

 

وقف اور وصیت کی صورت میں راقم کو اس بات کا صریح جزئیہ نہیں ملا ہے، البتہ وقف اور وصیت کے بارے میں عمومی شرعی قواعد (مثلا: شرط الواقف كنص الشارع)کے پیش راقم کا رجحان یہ ہے کہ اس پابندی کا اعتبار ہونا چاہئے، اور موصیٰ لہ (جس شخص کی حق میں منفعت کی وصیت کی گئی ہو) اور موقوف لہ (جس پر وقف کیا گیا ہو ) کو چیز سے فائدہ حاصل کرنے میں ان تمام شرائط کا خیال رکھنا چاہئے جو وصیت اور وقف کرنے والے نے لگائی ہیں۔

 

اس کے علاوہ مفادِ عامہ کے استعمال کی جو چیزیں ہیں ، جیسے پارک، سڑک، سرکاری ہسپتال وغیرہ ، تو اس میں متعلقہ اشخاص کو صرف بذات خود مستفید ہونے کا حق ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کی منفعت کسی ایک شخص کی ملکیت نہیں ہے، بلکہ طے شدہ اصول وضوابط کے مطابق اس سے استفادہ ہر شخص کا حق ہے۔ لہذا کوئی شخص یا اشخاص اس میں اپنا شخصی تصرف نہیں کرسکتے ہیں۔[18]

 

ائمہ ثلاثہ کا موقف :

 

مذکورہ بالا ساری تفصیل احناف کے مذہب کے مطابق تھی، جو حقِ انتفاع اور ملکیت منفعت کو ایک تصور کرتے ہیں۔ اس کے برعکس دیگر تین فقہی مکاتبِ فکر (مالکی، شافعی، حنبلی) میں حقِ انتفاع اور ملکیتِ منفعت کو ایک قرار نہیں دیا جاتا ہے[19] بلکہ ان دونوں اصطلاحات کے درمیان مختلف طرح سے فرق بیان کیا جاتا ہے۔جن میں سے کچھ درج ذیل ہے:

 

1: پہلے فرق کا خلاصہ یہ ہے کہ حقِ انتفاع ایک ضعیف حق ہے، جس میں صرف اس حق والے کو بذاتِ خود فائدہ اٹھانے کا حق ہوتا ہے، وہ یہ حق کسی دوسرے کو نہیں دے سکتا ہے۔ جبکہ ملکیتِ منفعت اس کے برعکس ہے، یعنی اس میں منفعت کے مالک کو اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو وہ اس سے بذاتِ خود فائدہ حاصل کرے، اور چاہے تو وہ منفعت کسی اور کے حوالہ کرے۔ جيسا كہ علامہ سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ:وكل من ملك المنفعة،فله الإجارة،والإعارة.ومن ملك الانتفاع،فليس له الإجارة قطعا،ولا الإعارة في الأصح.[20]

 

ترجمہ: جو بھی شخص منفعت کا مالک ہو ا ہو اس کو اختیار ہے کہ آگے اجارہ یا عاریۃ پر دیدے۔ لیکن جو انتفاع کا مالک ہو تو اس کو اجارہ کا حق تو بالکل بھی نہیں ہے، اور صحیح ترین قول کے مطابق عاریت کا حق بھی نہیں ہے۔

 

نیز حنبلیؒ مذہب کےجلیل القدر عالم علامہ ابن القیمؒ فرماتے ہیں کہ:تمليك المنفعة وتمليك الانتفاع شيء آخر فالأول

 

يملك به الانتفاع والمعاوضة والثاني يملك به الانتفاع دون المعاوضة[21]

 

ترجمہ:تملیک منفعت اور تملیک انتفاع الگ الگ چیزیں ہیں۔ پہلے والے میں فائدہ اٹھانے کا بھی مالک ہے اور اس کا معاوضۃ بھی حاصل کرسکتا ہے، جبکہ دوسرے والے میں صرف انتفاع کا حق ہے، معاوضے کا نہیں۔

 

2: دوسرے فرق کا تعلق ان دونوں کے ثابت ہونے کے اسباب سے متعلق ہیں، وہ اس طرح کہ ملکیت منفعت تو بعض مخصوص معاملات کے ذریعہ انسان کو حاصل ہوتی ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں حقِ انتفاع کے ثابت ہونے کے متعدد اسباب ہیں۔ اس فرق کے بارے میںالموسوعة الفقهية الکویتیة میں ہےکہ :’’حق انتفاع کا سبب ملکیتِ منفعت کے سبب سے زیادہ عام ہے، کیونکہ حقِ انتفاع بعض مالی معاملات( جیسے اجارہ اور عاریۃ) کے نتیجے میں بھی ثابت ہوتا ہے اور اباحتِ اصلی کی بنیاد پربھی، جیسے عام راستے ، مساجد ، مناسکِ حج کی جگہیں وغیرہ ہیں، اس کے علاوہ اس کے ثبوت کا ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شخصی طور پر کسی خاص چیز کا مالک اس کو اجازت دے۔ مثلا کوئی شخص کسی کو اپنی مملوکہ چیز کھانے کی اجازت دے یا اپنی کوئی مملوکہ چیز استعمال کرنے کی اجازت دے۔ جبکہ ملکیت منفعت صرف خاص اسباب (اجارہ، عاریت، وقف، وصیت) کے ذریعہ ہی ثابت ہوتی ہے۔‘ ‘[22]

 

3:حقِ انتفاع قید اور شرط کو قبول کرتا ہے، یعنی اگر چیز کا مالک اس چیز سے منفعت حاصل کرنے کے لئے کوئی قید لگائے یا اس میں کوئی شرط لگائے تو فائدہ حاصل کرنے والے کو انہی قیود اور شرائط کے مطابق اس چیز سے فائدہ حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔ جبکہ اس کے مقابلے میں ملکیت منفعت میں اصل یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی قیود اور شرائط سے آزاد ہو، البتہ اگر کوئی ایسا تصرف ہو جس سے چیز کے مالک کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو یا عرف میں اس قسم کے تصرفات کی اجازت نہ دی جاتی ہو تو ایسی صورت میں اس کو بھی مختلف قیود اور شرائط کا پابند کیا جاسکتا ہے۔[23]

 

4: چونکہ حق ِانتفاع ایک حقِ عینی ہے، یعنی ایک متعین چیز کے ساتھ اس کا تعلق ہے، لہذا یہ سارے لوگوں پر حجت سمجھاجائے گا، جبکہ اس کے مقابلے میں چونکہ حقِ منفعت (بصورت اجارہ وعاریۃ) ایک حقِ شخصی ہے، یعنی خاص اس شخص کےذمہ لازم ہے جس سے اس نے کرایہ پر چیز مکان وغیرہ لیا ہے، لہذا یہ صرف اسی کرایہ پر دینے والے کے حق میں حجت سمجھا جائے گا۔[24]

 

5:حقِ انتفاع کا تعلق جائیداد سے بھی ہوتا ہے اور کسی قابلِ انتقال چیز سے بھی، لہذا جب اس کا تعلق جائیداد زمین مکان وغیرہ سے ہو تو ایسی صورت میں اس کو بطورِ رہن رکھوایاجاسکتا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اجارہ کے ذریعہ حاصل شدہ منفعت کے حق کو بطور رہن نہیں رکھوایا جاسکتا ہے، کیونکہ وہ ایک شخصی حق ہے جس کو جائیداد کے زمرے میں شامل نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ اسے منقولہ اموال کے قبیل سے سمجھا جاتا ہے۔[25]

 

ملحوظہ: حق انتفاع اور ملکیت منفعت کے مابین جو ہم نے احناف اور دیگر تین ائمہ کا اختلاف تفصیل سے ذکر کیا ہے اس کے بارے میں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ یہ محض ایک لفظی اور تعبیر کے فرق کا اختلاف ہے۔ اس کی بنیاد پر دونوں معاملات کی حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ یہ نظریہ شیخ عثمان شبیراوربعض دیگرحضرات نے پیش کیا ہے۔ان کے کہنے کا خلاصہ یہ ہے کہ: حق انتفاع اور ملکیت منفعت در حقیقت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ ان کے وجود میں آنے کے اسباب اور ان پر مرتب ہونے والے نتائج میں کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ بات یہ ہے کہ حق انتفاع کی پھر دو قسمیں ہیں: حقِ انتفاع مجرد، اور حقِ انتفاع غیر مجرد۔[26]

 

مزید وضاحت کے ساتھ اس کو شیخ شبیر نے یوں بیان کیا ہے کہ حقِ انتفاع اور منفعت میں فی نفسہ کوئی فرق نہیں ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ کسی چیز سے منفعت حاصل کرنے کے حق کو آگے منتقل کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ تو ا س دار ومدار خود اس چیز کی نوعیت پر ہے، اگر وہ ایسی چیز ہو جو انتقال اور معاوضہ لینے کو قبول کرتی ہو تو پھر اس کو آگے منتقل کرکے اس کے بدلے عوض لیا جاسکتا ہے، اور اگر وہ چیز معاوضہ اور انتقال کو قبول نہ کرتی ہو تو پھر اس چیز سے استفادے کا حق کسی دوسرے کو بھی نہیں دیا جاسکتا ہے۔[27]

 

خلاصہ کلام اور حق انتفاع كی راجح تعريف:

حق انتفاع در اصل ملکیت ناقصہ کی ایک قسم ہے جس میں انسان کو صرف کسی چیز کی منفعت سے استفادہ حاصل کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اب خواہ یہ استفادہ اس چیز کو بذات خود استعمال کرکے حاصل کیا جائے یا اس چیز کی منفعت کسی عوض کےبدلے دوسرے شخص کو حوالہ کرکے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کی صورت میں حاصل کیا جائے۔اکثر معاصر اہلِ علم کی تعریفات کا یہی حاصل نکلتا ہے۔البتہ اس سلسلے میں فقہی مکاتب ِ فکر میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ حقِ انتفاع اور ملکیت منفعت ایک ہی ہیں یا ان میں کوئی فرق ہے؟ تو اس سلسلے میں ائمہ ثلاثہ بالخصوص امام مالکؒ کا مذہب یہ ہے کہ ان دونوں میں فرق ہے۔ ان کے نزدیک حقِ انتفاع کا تعلق صرف ان چیزوں کے ساتھ ہے جن میں انسان کو محض بذات خود فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہو، انسان کو اس چیز کی ذات یا اس کی منفعت پر ملکیت حاصل نہ ہو، اس کو یہ اختیار نہ ہو کہ وہ اسی چیز کو آگے کسی اور شخص کے حوالہ کرے۔ اس کی مثالیں انہوں نے شاہرا ہ عام، راستے، مساجد اور بازاروں میں بیٹھنے کی جگہیں وغیرہ سے دی ہیں۔البتہ امام ابو حنیفہؒ اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرتے ہیں، بلکہ عمومی طور پر ان کے مذہب میں حق انتفاع اور ملکیت منفعت میں کوئی خاص فرق نہیں کیا گیا ہے۔(اس سلسلے میں مزید تفصیلات آگے فصل دوم میں آرہی ہیں)۔ اکثر معاصر اہل علم نے حق انتفاع کے سلسلے میں امام ابو حنیفہ ؒ کے نقطہ نظر کو اپنایا ہے ۔جیسا کہ ما قبل میں ذکر کی ہوئی تعریفات سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے۔ مقالہ نگار کی رائے میں بھی حق انتفاع کی یہی تعریف راجح ہے۔ اس لئے مقالہ ہذا میں جب ہم حقِ انتفاع استعمال کریں گے تو وہ اسی معنیٰ اور اسی تعریف کے مطابق ہوگا۔

 

حقِ انتفاع کے حاصل ہونے کے اسباب:

جیسا کہ ماقبل میں ہم نے تفصیل سے ذکر کیا تھا کہ احناف کے نزدیک حق انتفاع اور ملکیت منفعت عام طور پر ایک ہی چیز ہیں، احکام کے لحاظ سے ان میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اس لئے پہلے ذیل میں احناف کے مذہب کے مطابق حق انتفاع یا ملکیت منفعت کے حاصل ہونے کے اسباب درج کئے جاتے ہیں۔ جن کی تفصیل یہ ہے کہ فقہاء کرام کے کلام میں تلاش اور جستجو کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا

 

ہے کہ شریعتِ مطہرہ میں حقِ انتفاع یا ملکیت منفعت کے حاصل ہونے کے کل چار اسباب ہیں:

 

1: اجارہ: یعنی کرایہ داری کا معاملہ ، اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے:

 

بيع المنفعة المعلومة في مقابلة عوض معلوم[28]۔یعنی معلوم منفعت کسی معلوم عوض کے بدلے بیچنا۔کرایہ داری کے معاملے کے متعلق تفصیلی مباحث فقہی کتابوں میں ’’کتاب الإجارة‘‘ کے عنوان سے درج کئے جاتے ہیں۔ ان میں اہم مسئلہ یہ ہے کہ اجارہ کا معاملہ مکمل ہوجانے کے بعد کرایہ پر لینے والے شخص کو اختیار ہے کہ کرایہ پر لی ہوئی چیز کی منفعت خود استعمال کرے۔ اور اگر ایسی چیز کرایہ پر لی ہو جس کے استعمال کرنے والے سے فرق نہ پڑتا ہو، مثلا گھر وغیرہ، تو اس میں خود بھی رہ سکتا ہے اور اگر کوئی دوسرا مانع نہ ہو تو دوسرے کو بھی رہنے کے لئے دے سکتا ہے۔ لیکن اگر چیز ایسی ہو کہ اس کے استعمال کرنے والے اسے مختلف طرح سے استعمال کرتے ہوں، جیسے گاڑی چلانا وغیرہ، تو پھر اپنے لئے کرایہ پر لی ہوئی چیز کسی دوسرے کو استعمال کے لئے نہیں دے سکتا ہے۔ [29]

 

2: عاریت: یعنی بلاعوض کوئی چیز کسی کو استعمال کے لئے دینا۔ اس صورت میں بھی چیز اصل مالک کی ملکیت میں رہتی ہے، لیکن اس کی منفعت کسی کو دوسرے کو حاصل ہوتی ہے۔ اس عقد کی حقیقت میں ائمہ اربعہ کے درمیان اختلاف واقع ہوا ہے۔ اس طرح کہ امام ابو حنیفہؒ اور امام مالک ؒ کے نزدیک عاریت کی تعریف یوں کی جاتی ہے:تمليك المنفعة بغير عوض.[30]

 

کسی کو منفعت کا بغیر عوض کے مالک بنانا۔ یعنی ایک آدمی اپنے مملوکہ چیز مکان وغیرہ کی منفعت کا کسی اور کو مالک بنائے۔ منفعت كے مالك بنانے كا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدمی خود اس منفعت سے بھی فائدہ اٹھاسکتا ہے اور وہ کسی دوسرے کو بھی استعمال کے لئے دے سکتا ہے(بشرطیکہ وہ چیز ایسی ہو کہ اس کے استعمال میں تفاوت نہ ہوتا ہو)[31] ۔ البتہ وہ اس چیز کو آگے کرایہ پر نہیں دے سکتا ہے، کیونکہ عاریت پر لی ہوئی چیز کا معاملہ عقدِ لازم نہیں ہے، یعنی مالک اپنی چیز جب چاہے واپس لے سکتا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اجارہ عقدِ لازم ہے، اب اگر استعمال کے لئے چیز لینے والا شخص اسی چیز کو آگے کرایہ پر دیدے، اور اسی دوران اصل مالک اس چیز کو واپس لینا چاہے تو اسکی وجہ سے عقدِ اجارہ کو ختم کرنا پڑے گا، جس سے اس کی لازمی حیثیت باقی نہیں رہے گی۔ اس لئے اصول یہ ہے کہ عاریت پر لی ہوئی چیز آگے کرایہ پر نہیں دی جاسکتی۔ جیسا کہ تحفۃ الفقہاء میں ہے:

 

إلا أنه لا يملك الإجارة لأنه عقد لازم والعارية تبرع فكيف يملك به ما هو لازم فيؤدي إلى تغيير المشروع.[32]

 

ترجمہ: لیکن اس کو کرایہ پر دینے کا اختیار نہیں ہے، کیونکہ اجارہ عقدِ لازم ہے جبکہ عاریت ایک تبرع والا معاملہ ہے، تو اس کے ذریعے سے اس کو لازم عقد کا اختیار کیسے حاصل ہوگا، ورنہ تو اس سے ایک مشروع عقد کی حیثیت میں تبدیلی لازم آئیگی۔

 

جبکہ اس کے برعکس امام شافعی اور امام احمد بن حنبلؒ کا موقف یہ ہے کہ عاریت دی ہوئی چیز میں کسی کو منفعت کا مالک نہیں بنایا جاتا ہے، بلکہ محض اسے استعمال کے لئے دیا جاتا ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عاریت کے معاملہ میں صرف اسی شخص کو منفعت کا حق حاصل ہوگا جس کو عاریت پر چیز دی گئی ہے۔ اس کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی اور کو وہ چیز استعمال کے لئے دے۔ کیونکہ اس کو چیز کی منفعت کا مالک نہیں بنایا گیا ہے کہ وہ اس میں مالکانہ تصرف کرکے کسی اور کو استعمال کے لئے دے، بلکہ اس کو صرف اس حد تک اجازت دی گئی ہے کہ وہ اس چیز کی منفعت سے خود فائدہ حاصل کرے۔[33]

 

خلاصہ کلام : عاریۃ کا معاملہ حنفی اور مالکی مکتب فکر میں کسی چیز کے منافع کا مالک بنانے کا معاملہ ہوتا ہے، جس میں عاریت پر لینے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ چاہے تو کسی دوسرے کو بھی وہ چیز عاریت پر دے سکتا ہے، بشر طیکہ وہ چیز ایسی ہو کہ وہ اس کے استعمال کرنے میں لوگوں کا تفاوت نہ ہوتا ہو، یعنی ہر کوئی اس کو ایک ہی طرح سے استعمال کرتے ہوں، جبکہ شافعی اور حنبلی مکتبِ فکرمیں اس کو کسی بھی صورت میں عاریۃ پر لی ہوئی چیز آگے کسی اور کو عاریت پر دینے کا اختیار نہیں ہوتا ہے، کیونکہ وہ منافع کی ملکیت کا مالک نہیں بنا ہے، اس کو صرف اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اگر وہ چاہے تو بذاتِ خود اس سے فائدہ حاصل کرے۔ اس کی مثال یوں دی گئ ہے کہ جیسا دعوت کا کھانا ، جب کسی انسان کے سامنے رکھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس شخص کو اس جگہ اس کھانے کی اجازت دی گئی ہے، اس کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ کھانا کسی اور کو دے یا کھانا گھر لے جائے۔

 

3: وقف: اس میں بھی انسان کو چیز کی ذات کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی ہے، بلکہ صرف اس کی منفعت حاصل ہوتی ہے۔ وقف کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ:حبس العين على ملك الواقف والتصدق بالمنفعة[34]۔ یعنی چیز کو اس طرح روکے رکھنا کہ اس پر ملکیت تو وقف کرنے والے کی رہے، البتہ اس کی منفعت کا صدقہ کیا جائے۔یہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ہے۔ صاحبین (یعنی امام ابویوسف اور امام محمدؒ) فرماتے ہیں کہ چیز اصل مالک کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجائےگی، البتہ اس سے منفعت حاصل کرنے کا حق موقوف علیہم (جن پر وقف کیا گیا ہے)ان لوگوں کو حاصل ہوگا[35]۔لہذا جن لوگوں کیلئے مکان جگہ وغیرہ وقف کی گئی ہو تو ان لوگوں کو اس وقف شدہ کی منفعت حاصل کرنے کا اختیار ہوگا، اگر چہ اصل چیز پر ان کی ملکیت نہیں ہوگی، بلکہ اس کی ملکیت اللہ تعالیٰ کی ملکیت کی طرف منتقل ہوجائیگی کیونکہ وقف کا معاملہ مکمل ہوجانے کے بعد اصل مالک کی ملکیت اس وقف شدہ مکان زمین وغیرہ سے ساقط ہوجاتی ہے اور بندوں میں بھی کسی کی ملکیت میں داخل نہیں ہوتی۔ [36]

 

4: منفعت کی وصیت: یعنی کسی شخص نے اپنے مرنے کےبعد اپنی مملوکہ کسی چیز کی صرف منفعت کی وصیت کسی شخص کے بارے میں کی ہو، تو ایسی صورت میں اس چیز کے اصل مالک تو اس کے وارث ہوں گے البتہ اس چیز کی منفعت اس شخص کو حاصل ہوگی جس کے حق میں مرنے والے نے منفعت کی وصیت کی ہو۔ (جیسا کہ ماقبل میں ہم نے اس کی دو مثالیں تفصیل سے ذکر کی تھیں) ۔

 

حقِ انتفاع کے اکتساب کا ایک اور سبب عقد

سویسی نے یہ سبب ذکر کیا ہے کہ بعض اوقات حقِ انتفاع مذکورہ بالا چار اسباب کے علاوہ کسی عقد کے نتیجے میں بھی حاصل ہوتا

 

ہے۔ مثلا ایک آدمی اپنا حقِ انتفاع دائمی طور پر کسی کو فروخت کرتا ہے، یا اپنے حقِ انتفاع سے( کسی عوض کے بدلے یا بغیر عوض کے) کسی دوسرے شخص کے حق میں دستبردار ہوجاتا ہے۔ تو اس دوسرے شخص کو حقِ انتفاع حاصل ہوجائے گا۔ ان ساری صورتوں میں اس شخص کیلئے حقِ انتفاع حاصل ہونے کے مذکورہ بالاچار اسباب میں سے کوئی سبب نہیں پایا جارہا ہے۔ البتہ دو اشخاص کے درمیان عقد (contract) وجود میں آیا، جسکی بناء پر چیز سے فائدہ حاصل کرنے کا حق ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل ہوگیا۔ اس لئے ان کے بقول عقد بھی حقِ انتفاع کے اکتساب کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے[37]۔ راقم کی نظر میں بھی یہ بات معقول اور مناسب ہے۔

 

ائمہ ثلاثہ کی تعریف کے مطابق حقِ انتفا ع کے حاصل ہونے کے اسباب:

شیخ ابو زہرہ کے نزدیک ائمہ ثلاثہ ؒ کے نقطہ نظر کے مطابق حقِ انتفاع کے حاصل ہونے کے کل دو سبب ہیں:

 

1:یہ کہ انتفاع کی اشیاء عمومی طور پر سب کی منفعت کیلئے مختص ہوں۔ کسی ایک شخص کی ملکیت میں نہ ہو۔ جیسا کہ نہریں اور مفادِ عامہ (Public Interest) کی دیگر اشیاء مثلا سڑک ،پارک،سرکاری ہسپتال اور سکول وغیرہ کو استعمال کرنے کی عام اجازت اسی طرح وہ چیزیں جو ریاست نے مخصوص شرائط کےحامل لوگوں کیلئے خاص کی ہوں، جیسے یونیورسٹیوں میں داخلہ اور رہائش۔ ان دونوں میں آدمی کسی چیز کی ذات کا مالک نہیں بنتا ہےلیکن اس کو اس چیز سے فائدہ حاصل کرنے کی اجازت ہوتی ہے کیونکہ سڑک، عوامی پارک اورسرکاری ہسپتال وغیرہ کا کوئی شخص مالک نہیں ہوتا ہے۔ البتہ ان چیزوں کے منافع سے استفادہ کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔[38]

 

2: اباحت: اس کا معنی ہے اجازت دینا، یعنی کسی چیز کو صرف کرنے یا استعمال کرنے کی اجازت، علامہ زرکشیؒ فرماتے ہیں:

 

وهي تسليط من المالك على استهلاك عين أو منفعة ولا تمليك فيها[39]

 

یعنی اباحت مالک کی طرف سے کسی چیز یا منفعت کو صرف کرنے کی اجازت کانام ہے، اور اس میں مالک بنانا نہیں ہوتا ہے۔ جیسے جب مہمان کے سامنے کھانا رکھا جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس مہمان کو وہیں پر اس کھانے کو صرف کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اباحت کے بارے میں جمہور ائمہ کا موقف یہی ہے کہ صرف وہی شخص اس سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے جس شخص کو اجازت دی گئی ہے۔ اس شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ شخص اس چیز کو یا اس کی منفعت کسی دوسرے شخص کے حوالہ کرے۔[40]

 

انتفاعی ملکیت (Beneficial Ownership)

در حقیقت یہ قانون میں متعارف ہونے والی ایک انگریزی اصطلاح ہے جس کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں۔ ذیل میں اس کی اور اس کےمالک (Owner) کی کچھ تعریفات درج کی جاتی ہیں۔ اسکی ایک تعریف یوں کی گئی ہے کہ:

 

Beneficial ownership is enjoyed by anyone who has the benefits of ownership of a Security (finance) or property, and yet does not nominally own the asset itself.[41]

 

یعنی: انتفاعی ملکیت سے فائدہ وہ شخص حاصل کرتا ہے جو کسی ضمانت (مالیاتی دستاویز) یا کسی جائیداد کی ملکیت کے فوائد (حاصل

 

کرنے کا استحقاق) رکھتا ہو ، جبکہ ابھی تک وہ اثاثہ ملکیت میں اس کے نام پر نہ آیا ہو۔جبکہ ('Beneficial Owner')کی تعریف درجِ ذیل الفاظ میں کی جاتی ہے:

 

Person who enjoys the benefits of ownership even though title is in another name.[42]

 

یعنی: وہ شخص جو ملکیت کے فوائد سے لطف اندوز ہور ہا ہو، اگر چہ اس چیز کی ملکیت کاغذات میں کسی اور کے نام ہو۔

 

مزید وضاحت کے ساتھ کورنیل یونیورسٹی نے اس کی تعریف یوں کی ہے:

 

“Someone recognized in equity as the owner of property even though legal title may belong to someone else. The use and enjoyment of the property belong to the beneficial owner. In securities law, the term refers to someone who is a shareholder even though a broker may hold legal title to the shares.”[43]

 

یعنی: وہ شخص جس کو ایکویٹی (شیئرز وغیرہ) میں اثاثے کا مالک تسلیم کیا جاتا ہو، اگر چہ ملکیت کا قانونی عنوان کسی اور سے تعلق رکھتا ہو۔ اثاثے کا استعمال اور اس سے استفادہ کا تعلق انتفاعی ملکیت کے حامل سے ہوتا ہے۔ مالیاتی دستاویزات کے قانون میں اس اصطلاح کا حوالہ اس شخص کے بارے میں جاتا ہے جو کہ حاملِ حصص (شئیر ہولڈر) ہوتا ہے، اگر چہ ان شئیرز کی قانونی ملکیت ابھی تک دلّال (بروکر/ایجنٹ) کے نام ہو۔

 

ملکیت کی اس قسم کی ضد ٹرسٹ ملکیت (Trust-Ownership)ہے، دونوں کی وضاحت سالمنڈنے یوں کی ہے:

 

Trust property is that which is owned by two persons at the same time, the relation between the two owners being such that one of them is under an obligation to use his ownership for the benefit of the other. The former is called the trustee, and his ownership is trust-ownership; the latter is called the beneficiary, and his is beneficial ownership.’’[44]

 

ترجمہ: ٹرسٹ ملکیت اس کو کہا جاتا ہے جو بیک وقت دو اشخاص کی مملوکہ ہو، دو مالکوں کے درمیان تعلق یوں ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ملکیت کو دوسرے کے فائدے کے لئے استعمال کرے۔ پہلے والے شخص کو ’’ٹرسٹی‘‘ اور اس کی ملکیت کو ’’ٹرسٹ ملکیت‘‘ کہا جاتا ہے، جبکہ دوسرے شخص کو ’’بینیفیشری‘‘ (فائدہ حاصل کرنے والا) اور اس کی ملکیت کو ’’بینیفیشل ملکیت‘‘ (انتفاعی ملکیت) کہا جاتا ہے۔

 

مذکورہ بالا تعریفات کی روشنی میں حتمی رائے وہی بنتی ہے جو ڈاکٹر انگو ربیعہ نے درج ذیل الفاظ میں لکھی ہے:

 

“It is clear that in law, a beneficial owner is regarded effectively as the real or actual owner who is entitled to enjoy the benefits of the asset, although he/she does not have the legal title to the asset.”[45]

 

ترجمہ: یہ بات واضح ہے کہ قانون میں حق انتفاع کے حامل کو ہی اصلی اور حقیقی مالک شمار کیا جاتا ہے جو اثاثے کے فوائد حاصل کرنے کا حقدار ہوتا ہے۔ اگر چہ وہ اس اثاثے کی قانونی ملکیت نہ رکھتا/رکھتی ہو۔

 

لہذا آسان لفظوں میں ’’انتفاعی ملکیت‘‘ کی تعریف یہ بنی کہ جب کوئی اثاثہ (جائیداد/مالیاتی دستاویزات وغیرہ) قانونی اعتبار سے کسی ایک شخص کے نام پر رجسٹرڈ ہو، لیکن اس سے فائدہ (استعمال/آمدنی یا کسی بھی صورت میں)کوئی دوسرا شخص حاصل کر رہا ہو۔ تو ایسی صورت میں اس فائدہ حاصل کرنےوالے کی ملکیت کو ’’انتفاعی ملکیت‘‘(Beneficial Ownership )کہا جاتا ہے۔ اور ایسی صورت میں قانون اس کو ہی حقیقی اور اصلی ملکیت شمار کرتا ہے۔ چونکہ اس میں اثاثے کے اصل فوائد اسی مالک کو ملتے ہیں اس وجہ سے اس ملکیت کو (Beneficial Ownership) کہا جاتا ہے، جس کا اردو ترجمہ ’’انتفاعی ملکیت ‘‘ کیا گیا ہے، یعنی ایسی ملکیت جو فائدہ پہنچانے والی ہو اور جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہو۔کیونکہ اسی ملکیت کے حامل مالک کو ہی اس اثاثے سے ہر قسم کی منفعت حاصل کرنے کا حق ہوتا ہے، البتہ وہ قانونی مالک کی موافقت کے بغیر اس چیز کی ملکیت آگے کسی اورکو منتقل کرنے کا تصرف نہیں کرسکتا ہے۔ [46]

 

ایک غلط فہمی کا ازالہ:

بعض نے(Beneficial Ownership)کا ترجمہ’’حقِ انتفاع ‘‘سےکیاہے۔حالانکہ سابقہ ذکرکردہ تفصیلات کی روشنی میں یہ ترجمہ صحیح معلوم نہیں ہورہا ہے، کیونکہ ’’حقِ انتفاع ‘‘ کی راجح تعریف ہم نے یہ کی تھی کہ اجارہ وغیرہ کی بنیاد پر ایسا معاملہ وجود میں آنا جس میں کسی چیز سے صرف فائدہ حاصل کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے، جبکہ اس چیز کی اصلی اور حقیقی ملکیت اصل مالک کے پاس ہی ہوتی ہے۔مثلا زید کا ایک مکان ہے، زید ہی اس کا مالک ہے۔ اب زید اپنا مکان کرایہ پر خالد کو دیتا ہے۔ خالد اس مکان سے رہائش کی صورت میں فائدہ حاصل کرکے اس کے عوض زید کو کرایہ کی مد میں رقم ادا کرتا ہے۔ یہ ’’حقِ انتفاع‘‘ کی صورت ہے۔ یہ صورتحال (Beneficial Ownership)کی صورتحال سےیکسرمختلف ہےکیونکہ(Beneficial Ownership) میں اصل ملکیت ہی اس (Beneficial Owner) کے پاس آجاتی ہے۔ دوسرے شخص کے نام پر محض کا غذات میں درج ہوتا ہے۔ پھر اس اثاثے سے استفادہ کرنے، اس سے منافع حاصل کرنے کے سارے اختیارات (Beneficial Owner ) کو حاصل ہوجاتے ہیں۔حقِ انتفاع سے جو منفعت حاصل ہوتی ہے اس کو انگریزی میں (usufruct) کہاجاتا ہے، لہذا اس کی بنیاد پر حاصل ہونے والی منفعت کو(usufructuary ownership)کہنا چاہئے۔

 

شرعی نقطہ نظر سے انتفاعی ملکیت کی حیثیت:

انتفاعی ملکیت کی حقیقت ماقبل میں ذکرکردہ تفصیلات سے ہمارے سامنے واضح ہوگئی کہ جس میں ایک شخص کو کسی اثاثے وغیرہ کی اصلی اور حقیقی ملکیت حاصل ہوتی ہے، البتہ مالک کسی مصلحت کی خاطر قانونی دستاویزات اور ملکیت کے کاغذات وغیرہ میں اس اثاثے کی ملکیت میں کسی اور شخص کانام ظاہر کرتا ہے۔ اس میں شرعی حوالے سے ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ کیا شریعت اور اسلامی فقہ میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں کسی چیز کے دو مالک(حقیقی اور ظاہری ) مالک ہوں؟ جب ہم اسلامی فقہی ذخیرے میں اس بات کی مثالیں ڈھونڈتے ہیں تو ہمیں اس سے ملتی جلتی متعدد مثالیں ملتی ہیں جن میں ظاہری تو پر ملکیت کسی ایک شخص کی ہوتی ہے لیکن حقیقت میں اس چیز کی ملکیت کسی اور شخص کی تسلیم کی جاتی ہے۔ ذیل میں اس کی ایک مشہور مثال درج کی جاتی ہے:

 

بیع التلجئة: یہ خرید وفروخت کی ایک قسم ہے، عربی زبان میں اس لفظ کا معنیٰ ہے: مجبور کرنا۔[47] فقہاء کی اصطلاح میں اس کی تعریف

 

یوں کی جاتی ہے:

 

"هو أن يظهرا عقدا وهما لا يريدانه يلجئ إليه خوف عدوه وهو ليس ببيع في الحقيقة."[48]

 

ترجمہ: بیع تلجئۃ یہ ہے کہ دو شخص آپس میں کوئی سودا کریں،لیکن ان کا اس سودا کے کرنے کا ارادہ نہ ہو۔ محض دشمن کے ڈر یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے اس کو یہ کرنا پڑرہا ہو۔ حقیقت میں یہ بیع نہیں ہوتی ہے۔

 

علامہ ابن نجیمؒ نے اس کی تعریف یوں کی ہے کہ ترجمہ: خرید وفروخت میں تلجئۃ کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے کہ میں نے اپنا گھر آپ کو اتنی رقم میں فروخت کردی، حقیقت میں یہ فروخت کرنا مقصود نہیں ہوتا، بلکہ محض مجبوری کی وجہ سے ایسا کرنا پڑتا ہو۔ اس کے اوپر گواہ بھی بناتا ہے (کہ ہم یہ معاملہ حقیقت میں نہیں کررہے ہیں) پھر سامنے اس کو بغیر کسی شرط کے بیچ دیتا ہے۔ تو یہ بیع باطل ہے اور یہ ایسا ہے جیسا کہ گویا یہ مذاق کررہے ہو۔[49]

 

ان دونوں تعریفوں کےبعداس بیع کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ جب کسی آدمی کو حقیقت میں اپنی کوئی چیز بیچنا مقصود نہ ، لیکن اس کو کسی مجبوری کی وجہ سے یہ دکھانا پڑ رہا ہو کہ اس نے مذکورہ چیز بیچ دی۔ مثلا اس کا کوئی دشمن ہے جو اس سے وہ چیز چھیننا چاہتا ہے۔ تو وہ کسی دوسرے شخص سے خفیہ طور پر یہ مفاہمت کرتا ہے کہ ہم محض لوگوں کو دکھانے کیلئے اس چیز کی خرید وفروخت کا ایک ظاہر ی معاہدہ تو کریں گے، لیکن حقیقت میں ہمارے درمیان خرید وفروخت کا کوئی معاہدہ نہیں ہوگا۔ اس بات اور اس مفاہمت پر وہ گواہ بھی بناتے ہیں۔ پھر لوگوں کے سامنے ظاہری طور پر وہ خرید وفروخت کا صحیح معاملہ کرتے ہیں۔ تو فقہاء نے اس کا حکم یہ لکھا ہے کہ ان کے درمیان حقیقت میں معاہدہ نہیں ہوا ہے، لہذا وہ چیز بدستور اپنے اصل مالک کی ملکیت ہوگی۔اس مسئلے سےہم زیرِ بحث موضوع پر یوں استدلال کرسکتے ہیں کہ یہاں پر بھی اس چیز کے دو مالک ہیں: ایک اس کا اصلی اور حقیقی مالک، جس نے حقیقت میں چیز نہیں بیچی ہے ، لیکن محض مجبوری کی وجہ سے لوگوں کو یہ دکھایا ہے کہ یہ چیز اس نے فروخت کردی ہے۔ دوسرا وہ شخص جس نے ظاہری طور پر وہ چیز اس کے مالک سے خریدنے کا معاملہ کیا ہے۔ لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز اب اسکی ملکیت میں آگئی ہے، لیکن حقیقت میں چونکہ پہلے والے شخص نے اس کو بیچا نہیں ہے اس لئے شریعت کی نظر میں اس کا اصلی اور حقیقی مالک وہی شخص ہے۔ یہ تقریبا بعینہ وہی صورتحال بنتی ہے جو ماقبل میں ہم نے انتفاعی ملکیت (Beneficial ownership) کی تشریح میں ذکر کی تھی۔ لہذا اس کو بھی فقہ اسلامی میں حقیقی ملکیت اور قانونی ملکیت (دوسرے الفاظ میں : ظاہری اور خفیہ ملکیت) میں تمیز اور تفاوت کی مثال قرار دے سکتے ہیں۔

 

عرب علماء کا موقف:

اس حوالے سے جب ہم عرب علماء کی آراء تلاش کرتے ہیں تو ہمیں ان میں سے اکثریت کی رائے یہی ملتی ہے کہ وہ انتفاعی ملکیت (Beneficial Ownership) کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کو شریعت کے منافی نہیں سمجھتے ہیں۔ ذیل میں ان میں سے چند حضرات کا حوالہ درج کیا جاتا ہے۔

 

1: سعودی عرب کے مشہور بینک’’بنک الراجحی‘‘ (Rajhi Bank)کے شریعہ بورڈ کے سامنے اس نوعیت کا سوال رکھا گیا جس میں ٹیکس کی مد میں مراعات حاصل کرنے کے لئے جائیداد اصل خرید کنندہ کے نام کے بجائے کسی اور کے نام پر ہو، تو شریعہ بورڈ نے دو شرطوں کے ساتھ اس معاملے کی اجازت دی ہے:

 

الف: جس ملک میں یہ معاملہ کیا جارہا ہو اس ملک میں یہ معاملہ دھوکہ دہی کے زمرے میں نہ آتا ہو۔

 

ب: اس طریقے کو متعلقہ اشخاص کیلئے فوائد حاصل کرنے کا ایک قانونی راستہ(legal solution) سمجھا جاتا ہو۔[50]

 

2:اسلامی بینکاری کیلئےمعاییر (standards)تیار کرنےوالےمشہور عالمی ادارہ AAIAFI (Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions))نے بھی اس قسم کی ملکیت کو تسلیم کیا ہے۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ ’’مرابحہ‘‘سے متعلق معیار کی دفعہ (5/4) میں لکھا ہے کہ:

 

“However, it is permissible to postpone the registration of the asset in the customer’s name as a guarantee of the full payment of the selling price…in which case the Institution should issue a counter deed to the customer to establish the latter’s right to ownership.”[51]

 

یعنی: قیمت کی ادائیگی کو یقینی بنانے کی غرض سے یہ کیا جاسکتا ہے کہ خریدار کلائنٹ کے نام اثاثے کی رجسٹریشن کو مؤخر کیا جاسکتا ہے۔ ۔۔ البتہ ایسی صورتحال میں ادارہ (بینک وغیرہ) خریدار کی ملکیت کو ثابت کرنے کے لئے اس کے حق میں ایک جوابی دستاویز جاری کرے تاکہ اس کی ملکیت کے لئے وہ سند رہے۔

 

یہ مرابحہ سے متعلق شرعی معیار کی ایک بند کا ترجمہ ہے، جس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ بینک خریدار کو اثاثہ بیچنے کے بعد اس کے نام منتقل کرنے میں تاخیر کرسکتا ہے، جس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس معیار کو جاری کرنے والے علماء کے ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ چیز کا اصل مالک خریدار ہو لیکن قانونی طور پر وہ اثاثہ بینک کے نام رجسٹرڈ ہو۔ اس دفعہ بھی مقالہ نگار کی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اکثر معاصر عرب اہلِ علم حقیقی ملکیت اور قانونی ملکیت میں انفصال اور تغایر کے قائل ہیں۔البتہ یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ شریعت اس نوعیت کےعمل کو کس نظر سے دیکھتی ہے؟ یعنی قانونی دستاویزات میں حقیقی مالک کانام چھپا کر کسی چیز کو کسی دوسرے شخص کے نام پر ظاہر کرنا شریعت میں جائز ہے یا ناجائز؟ تو اس سوال کا جواب ہمیں اس کے مقاصد کے تناظر میں دیکھنا ہے کہ کن مقاصد کے تحت یہ کیا جاتا ہے۔ اس کو ہم بنیادی طور پر دو قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

 

پہلی قسم : جائز مقاصد :

جائز مقاصد میں سب سے پہلے بنیادی طور پر وہ چار مقاصد ہیں جنہیں مشہور مغربی قانون دان سالمنڈ (JOHN W. SALMOND) نے درج ذیل عبارت میں لکھی ہیں:

 

“The chief classes of persons in whose behalf the protection of trusteeship is called for are four in number. In the first place, property may belong to persons who are not yet born; and in order that it may be adequately safeguarded and administered, it is commonly vested in the meantime in trustees, who hold and deal with it on account of its unborn owners. In the second place, similar protection is required for the property of those who lie under some incapacity in respect of the administration of it, such as infancy, lunacy, or absence. Thirdly', it is expedient that property in which large numbers of persons are interested in common should be vested in trustees. The complexities and difficulties which arise from co-ownership become so great, so soon as the number of co co-owners ceases to be small, that it is essential to avoid them; and one of the most effective devices for this purpose is that scheme of duplicate ownership which we term a trust. Fourthly, when persons have conflicting interests in the same property (for example, an owner and an encumbrance, or different kinds of encumbrances) it is often advisable that the property should be vested in trustees, whose power and duty it is to safeguard the interests of each of those persons against the conflicting claims of the others.”

 

یعنی:جن لوگوں کیلئے متولی اور امین مقرر کیا جاتا ہے ان کے بنیاری مراتب چار ہیں: نمبر ایک: ملکیت کا تعلق ان اشخاص سے ہوسکتا ہے جو ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں،مناسب طریقے سے اس کی حفاظت کرنے اور اس کا انتظام وانصرام چلانےکیلئےعام طور پر ان لوگوں کی مملوکہ اشیاء ٹرسٹی ملکیت کے حوالے کئے جاتے ہیں جو ان غیر پیدا شدہ مالکان کی خاطر ان اشیاء کو چلائیں گے۔ دوسرے نمبر پراسی طرح وہ لوگ آتے ہیں جو اپنی مملوکہ اشیاء کی حفاظت وغیرہ کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں، جیسے نابالغ ہونا، دیوانہ ہونا، غیر موجود ہونا۔ تیسے نمبر پر یہ ہے کہ جس جائیداد وغیرہ میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد دلچسپی رکھتی ہو تو عمومی طور پر اس کیلئے موزوں یہ ہے کہ وہ اسے ٹرسٹی ملکیت میں رکھی جائے۔ کیونکہ شرکاء کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی اس میں پیچیدگیاں اور مشکلات اتنی ہی زیادہ ہوں گی، جس کا حل یہ ہے کہ شرکاء کی تعداد کم کردی جائے۔اس مقصد کیلئے ایک بہترین صورت نقلی ملکیت کی ہے جسے ہم ٹرسٹی ملکیت کانام دیتے ہیں۔ چوتھے نمبر پر اگر کسی جائیداد میں متضاد دلچسپی ہو، مثلا ایک شخص مالک ہو اور دوسرا اس پر دعویٰ کرتا ہو، یا کئی لوگ اس پر دعویٰ کرنے والے ہوں، تو ایسی صورت میں مناسب یہی ہے کہ اس جائیداد کو کسی ٹرسٹی ملکیت میں دی جائے جو اس کے بارے میں مختلف دعویٰ رکھنے والوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔

 

اگر ہم ٹرسٹی ملکیت سے متعلق ان چار مقاصد کا بنظر غائر جائزہ لیں تو ان میں کوئی ایسا مقصد نظر نہیں آتا ہے جو شریعت کے خلاف یا شرعی تقاضوں کے منافی ہو۔ اس لئے ان چارں مقاصد میں سے کسی ایک پر مبنی انتفاعی ملکیت کو شرعی نقطہ نظر سے بھی جائز اور مقبول تصور کیا جائے گا۔اس کے علاوہ بعض اوقات ملکیت کی اس قسم کو ایسے مقصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جس کی شریعت اور قانون میں گنجائش ہوتی ہے تو اس وقت اس کو بھی جائز سمجھا جائے گا۔ اس کی ایک مشہور مثال وہ ہے جو ماقبل میں ہم نے عرب علماء کی رائے کے سلسلے میں ’’المعاییر الشرعیۃ‘‘ کے حوالے سے ذکر کی تھی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ مرابحہ کا معاملہ مکمل ہوجانے کے بعد اثاثہ اگر چہ شرعی نقطہ نظر سے کلائنٹ کی ملکیت میں داخل ہوجاتا ہے، لیکن اس کے باوجود بینک یہ کرسکتا ہے کہ اثاثہ اس کے نام منتقل کرنے میں تاخیر کرسکتا ہے، تا کہ کلائنٹ سے بینک کی واجب الاداء رقوم کی وصولی اطمینان بخش طریقے سے ممکن ہوسکے۔ اب یہاں بینک کا مقصد یہ ہے کہ کلائنٹ کے ذمہ اس کی واجب الاداء رقوم اسے حاصل ہوسکے، اس مقصد کیلئے وہ انتفاعی ملکیت کا سہارا لیتا ہے، یعنی اثاثے کی قانونی ملکیت اپنے نام رکھتا ہے اگر چہ اس اثاثے سے استفادہ کرنے کا حق کلائنٹ کو حاصل ہوچکا ہوتا ہے۔ بعض اوقات کسی ملک میں قانونی طور پر جائیداد کسی غیر ملکی شخص کو بیچنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے، تو وہاں پر صکوک کے اور شیئرزکےمعاملےمیں غیرملکی سرمایہ کاروں کومتوجہ کرنےکیلئےاس پراپرٹی کی ملکیت کےسلسلے میں انتفاعی ملکیت (Beneficial Ownership) کا سہارا لیا جاتا ہے کہ اس چیز کی ملکیت تو اس ملک کے کسی شہری کے نام پر ہوتی ہے، البتہ اس کی آمدنی وغیرہ سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکیوں کو ملتی ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی ایسا مقصد نہیں ہے جو شریعت یا قانون کے خلاف ہو، اس لئے شریعت کی نگاہ میں اس کے مطابق عمل کرنا جائز ہوگا۔[52]

 

اس کے علاوہ اگر کوئی شخص ٹیکس کی مد میں مراعات حاصل کرنے کیلئے انتفاعی ملکیت کو کسی ایسے طریقے اور حیلے کے طور پر استعمال کرے جس کی قانونی طور پر گنجائش ہو تو پھر اس کو ناجائز نہیں کہیں گے۔ جیسا کہ ماقبل میں ہم نے سعودی عرب کے مشہور بینک ’’بنک الراجحی‘‘کے شریعہ بورڈ کے حوالے سے ذکر کیا تھا کہ اس شرط کے ساتھ بورڈ نے اس کی اجازت دی ہے کہ اس طریقہ کار کو متعلقہ ملک میں ایک قانونی مخرج (legal solution) کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا ہو۔[53]

 

ناجائز مقاصد کے لئے استعمال :

البتہ بعض اوقات انتفاعی ملکیت (Beneficial Ownership) کوغیرقانونی سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، جن میں سر فہرست مالی خردبرد (corruption)، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری وغیرہ سرفہرست اور نمایاں ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی غیر قانونی سرگرمیوں پر مبنی معاملات کو شریعت کی نظر میں بھی جائز نہیں کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ان میں چوری اور بد عنوانی یا کم ازکم حکومت وقت کے جائز قوانین کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے جسکی شریعت بھی اجازت نہیں دیتی ہے۔

 

خلاصہ :

حق انتفاع در اصل ملکیت ناقصہ کی ایک قسم ہے، جس میں کسی چیز کی اصل ذات کا مالک کوئی اور شخص ہولیکن وہ اس چیز سے فائدہ حاصل کرنے کاحق کسی دوسرے شخص کے حوالہ کرےراجح قول کے مطابق عام طور پر حقِ انتفاع اور ملکیت منفعت میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ دونوں صورتوں میں منفعت کا مالک اپنی منفعت کسی اورشخص کےحوالہ بھی کرسکتا ہےالبتہ اس کلیہ سے چند صورتیں مستثنیٰ ہیں جنکی تفصیل ماقبل میں بیان کردی گئی ہیں۔ حقِ انتفاع کے حاصل ہونے کے بنیادی طور پر پانچ اسباب (اجارہ، عاریۃ، وقف، منفعت کی وصیت، عقد) ہیں۔ جبکہ انتفاعی ملکیت (Beneficial Ownership)کا حاصل یہ بیان کیا گیا کہ قانونی دستاویزات میں کسی اثاثے کی ملکیت اس کے اصل مالک کے بجائے کسی اورشخص کےنام پر درج ہو۔ قدیم فقہی ذخیرہ سے حقیقی اور ظاہری ملکیت میں تغایر کیلئے "بیع التلجئة" کو بطور مثال پیش کیا گیا، جبکہ معاصر علماء کے حوالے سے اس کی فی الجملہ گنجائش کا قول ذکر کرکے اس کے جواز وعدم جواز کا دار ومدار اس کے مقاصد پر رکھا گیا کہ اگر صحیح مقاصدکیلئے استعمال کیا جائے تو شرعا جائز ہوگا ، ورنہ ناجائز ہوگا۔

حوالہ جات

  1. الرازي،زين الدين محمد بن أبي بكر،مختار الصحاح،المكتبة العصرية،الدار النموذجية،بيروت،1420ھ،ج1،ص77
  2. کیرانوی، وحید الزمان قاسمی، القاموس الوحید، ادارہ اسلامیات،لاہور،ص1687
  3. القرافي،أحمد بن إدريس،الفروق للقرافي،أنوار البروق في أنواء الفروق،الناشر عالم الكتب،ج1،ص193
  4. پاشا،محمد قدري،مرشد الحيران إلى معرفة أحوال الإنسان،المطبعة الكبرى الأميرية بولاق،مصر، 1891ء،ص5،مادہ13
  5. دكتور نزيه حماد، معجم المصطلحات الاقتصادية في لغة الفقهاء، دار القلم، 2008ء،ص84
  6. أبو زهرة، الشيخ محمد، الملكية ونظرية العقد في الشريعة الإسلامية،دار الكتب العربي،بدون طبعة وتاريخ ،ص 77
  7. وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية،الموسوعة الفقهية،ط الثانية، دارالسلاسل،الكويت،1404ھ،ج1،ص134
  8. الزرقاء، العلامة مصطفى، المدخل إلى نظرية الالتزام العامة،دارالقلم ،دمشق،1999ء، ص45
  9. الخفيف،الشيخ علي،الحق والذمة وتأثير الموت فيهما وبحوث أخرى، دار الفكر العربي، 2010ء،ص85
  10. العثماني، المفتي محمد تقي،بحوث في قضايا فقهية معاصرة ،دارالقلم،دمشق،2003ء،ج1،ص84
  11. قلعه جي، رواس، معجم لغة الفقهاء، عربي- إنكليزي، دارالنفائس بيروت،الطبعة الثانية 1988، مادة الانتفاع، ص 68
  12. الحموي،أحمد بن محمدمكي،غمزعيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر،دارالكتب العلمية،1405هـ،ج3،ص478
  13. كاساني،علاء الدين أبوبكر بن مسعود،بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ،دار الكتب العلمية،1986ء،ج6،ص215
  14. علامه موصلي، عبد الله بن محمود، الاختيار لتعليل المختار،مطبعة الحلبي،القاهرة، 1937 ء،ج2،ص52
  15. السمرقندي،علاء الدين محمد،تحفة الفقهاء،دار الكتب العلمية،بيروت ، 1414 ھ،ج2،ص349
  16. علامه موصلي، عبد الله بن محمود، الاختيار لتعليل المختار ، مطبعة الحلبي، القاهرة، 1937 ء،ج2،ص52
  17. زيلعي، فخر الدين عثمان، تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي ،مطبعة بولاق القاهرة، 1313ھ،ج5،ص116
  18. الزرقاء، الشيخ مصفطى، المدخل الفقهي العام، دار القلم دمشق، الطبعة الأولى، 1998ء،ص375
  19. المصلح، عبد الله بن عبد العزيز،قيود الملكية الخاصة،مؤسسة الرسالة بيروت، الطبعة الأولى،1988ء،ص96
  20. السيوطي، عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين ،الأشباه والنظائر للسيوطي، دار الكتب العلمية ، 1411ھ،ج1،ص326
  21. ابن القیم، محمد بن أبي بكر ،بدائع الفوائد، دار الكتاب العربي، بيروت، لبنان، بدون طبعة وتاريخ،ج1،ص3
  22. وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية،الموسوعة الفقهية الكويتية ،ج6،ص299
  23. أبو غدة، الشيخ عبد الستار، حق الانتفاع العقاري، بحث قدم في المؤتمر الفقهي الرابع للمؤسسات المالية الإسلامية، كويت 21-22 ديسمبر 2011.نشر في كتاب المؤتمر ،ص200
  24. النشمي، عجيل جاسم، بيع الاسم التجاري، مجلة مجمع الفقه الإسلامي،ج5،ص1862بحواله محاضرات في الحقوق العينية الأصلية، للدكتور سعيد عبد الكريم مبارك، طبع دار الطباعة الحديثة،البصرۃ، 1969ء-1970ء،ص270
  25. النشمي، عجيل جاسم، بيع الاسم التجاري، مجلة مجمع الفقه الإسلامي،ج5،ص 1862، بحواله محاضرات في الحقوق العينية الأصلية، للدكتور سعيد عبد الكريم مبارك، طبع دار الطباعة الحديثة،البصرۃ، 1969ء-1970ء،ص270
  26. شبير، الشيخ محمد عثمان، الاعتياض عن حق الانتفاع وتطبيقاته المعاصرة في الفقه الإسلامي والقانون الوضعي، المؤتمر الفقهي الثاني للمؤسسات المالية الإسلامية، الكويت،ص 9
  27. الشبلي،د.يوسف بن عبد الله،حق الانتفاع العقاري،المؤتمر الفقهي الرابع للمؤسسات المالية الإسلامية،الكويت،ديسمبر 2011ء
  28. لجنۃ من العلماء،مجلة الأحكام العدلية ،نورمحمدکارخانہ کتب،کراچی،ج1،ص79،المادة 405
  29. اجارہ کے ضروری مسائل کے لئے ملاحظہ فرمائیں: المرغیناني، أبو الحسن برهان الدين علي بن أبي بكر، الهداية في شرح بداية المبتدي ، دار احياء التراث العربي ،بيروت ،ج3،ص233
  30. المبسوط للسرخسي ،ج11،ص133،الدسوقی، محمد بن أحمد بن عرفة،الشرح الكبير للشيخ الدردير وحاشية الدسوقي ، دار الفكر،بدون طبعة وتاريخ،ج3،ص435
  31. ابن مازة،أبو المعالي برهان الدين ،المحيط البرهاني في الفقه النعماني،دار الكتب العلمية، بيروت ، 2004ء،ج5،ص465
  32. السمرقندي،علاء الدين ، محمد بن أحمد،تحفة الفقهاء ، دار الكتب العلمية،بيروت ، 1414 ھ،ج3،ص177
  33. النووي،محيي الدين يحيى بن شرف،المجموع شرح المهذب،دار الفكر،بدون طبعة وتاريخ،ج14،ص209 ،و ابن قدامة المقدسي،ابو الفرج عبد الرحمن بن محمد،الشرح الكبير على متن المقنع،دار الكتاب العربي للنشر والتوزيع ،س ن،ج5، ص368
  34. المرغيناني، الهداية في شرح بداية المبتدي ،ج3،ص15
  35. اایضاً
  36. الزَّبِيدِيّ اليمني الحنفي،أبوبكربن علي بن محمدالحدادي العبادي،الجوهرة النيرة على مختصرالقدوري،المطبعة الخيرية، الطبعة الأولى، 1322ھ،ج1،ص333
  37. سويسي، سميحة،حق الانتفاع بين الفقه الإسلامي والقانون المدني الجزائري،أطروحة الماجستير، جامعة قاصدي مرباح ورقلة،الجزائر، 2015، ص16
  38. ابو زهره، الشيخ محمد، الملكية ونظرية العقد في الشريعة، دار الكتب العربي،بدون طبعة وتاريخ،ص 78
  39. الزرکشي، أبو عبد الله بدر الدين محمد بن عبد الله ،المنثور في القواعد الفقهية ، وزارة الأوقاف الكويتية، الطبعة الثانية، 1985ء،ج1،ص73
  40. الزحيلي،الشيخ الدكتور وهبة،الفقه الإسلامي وأدلته،دار الفكر،الطبعة الثانية،1985ء،ج4،ص61
  41. Marriam-Webster’s Dictionary of Law, Marriam-Webster’s Inc. 1996
  42. ttp://www.investopedia.com/terms/b/beneficialowner.asp
  43. Cornell University Law School (n.d.). Retrieved March 6, 2015 from http://www.law.cornell.edu/wex/without_recourse. Taken from Dr Engo Rabia.
  44. JOHN W. SALMOND, JURISPRUDENCE, fourth Edition, London, Stevens and Hayness, 1923.
  45. Engku Rabiah Adawiah and others ,Research paper:APPLICATION OF THE CONCEPT OF BENEFICIAL WNERSHIP IN ṢUKŪK STRUCTURES: AN ISLAMIC LEGAL ANALYSIS., ISRA International Journal of Islamic Finance،Vol. 7۔ Issue 2،2015, P109
  46. الأرو، عبد الرزاق عبد المجيد، تطبيق الملكية القانونية والملكية النفعية في التمويل الإسلامي، مجلة جامعة الشارقة للعلوم الشرعية والقانونية، المجلد 13، العد 1، 2016، ص 306
  47. کیرونوی،وحیدالزمان،القاموس الوحيد، 1453
  48. ابن عابدین شامي،الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)،دار الفكر،بيروت،الطبعة الثانية،1992ء،ج6،ص244
  49. ابن نجيم،زين الدين بن إبراهيم،البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري،بدون تاریخ،ج6،ص99
  50. رپورٹ شریعہ بورڈ، بینک الراجحی، دار كنوز إشبيليه،ریاض سعودي عرب،بحواله:انكو ربيعة، 2010، ص 68
  51. AAIAFI, Acounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions SHAR’IA STANDARD, clause(9/5/4) page:213, December 2015
  52. الأرو، عبد الرزاق عبد المجيد، تطبيق الملكية القانونية والملكية النفعية في التمويل الإسلامي، مجلة جامعة الشارقة للعلوم الشرعية والقانونية، المجلد 13، العد 1، 2016، ص206
  53. رپورٹ شریعہ بورڈ، بینک الراجحی، دار كنوز إشبيليه، سعودي عرب، 2010، ص 68
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...