Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

دعوت کے میدان میں تبلیغی جماعت کے مساعی و مشکلات کا تحقیقی جائزہ |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060029185_800

Pages

180-196

DOI

10.51411/rahat.3.1.2019.65

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/65/362

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/65

Subjects

Prophet preaching patience problems tableghi jammat Prophet preaching patience problems tableghi jammat

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

حضورﷺکا دین اسلام ایک دعوتی دین ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب قدیم ہو ں یا جدیدہوں یا تو غیر دعوتی ہیں یا پھر ان کی دعوت نسلی ،لسانی یا جغرافیائی حدود میں مقید ہے۔ صرف اسلام ہے جو عالمی و دائمی پیغام کا حامل ہے ۔ اسی لئے اس کے لانے والے حضرت محمدﷺکو رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا گیا ۔ اور انہیں بعثت کے بعد جو پہلا حکم دیا گیا وہ دعوت و تبلیغ کا تھا،کہ اٹھو اور آپ کے گرد و پیش خدا کے جو بندے خواب غفلت میں پڑے ہو ئے ہیں ان کو ڈرا دو۔انہیں خبردار کرو کہ وہ کسی اندھیر نگری میں نہیں رہتے ہیں جس میں وہ اپنی مرضی سے جو کچھ چاہے کرتے رہیں۔اور ان کے کسی عمل کی کوئی بازپرس نہ ہو۔اس زمانے میں آپ ﷺخفیہ تبلیغ کرتے تھے۔اس کے بعد آپﷺکواپنے قریبی رشتہ داروں کو تبلیغ کرنے کا حکم دیااس حکم کے نزول کے بعد آپﷺنے اپنے قریبی رشتہ داروں کو کھانےپرمدعوکیااورایک اللہ کی عبادت کرنے کاحکم دیا۔اسکےبعدآپﷺکواللہ تعالیٰ نےاعلانیہ تبلیغ کاحکم دیا۔ آپﷺ نے قریش مکہ کو کوہ صفا پر بلایا۔آپﷺکو تبلیغ کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔خصوصاًمکی زندگی میں مشرکین مکہ نے آپ ﷺکو بہت تنگ کیا۔رسول اللہﷺنے اللہ کے حکم کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔اپنی پوری زندگی دعوت و تبلیغ میں صرف کر دی۔قرآن کے بتائے ہو ئے طریقوں کے مطابق تبلیغ کرتے رہے ۔چونکہ آغاز اسلام میں تبلیغ کیلئےماحول نا سازگارتھا ،مکہ میں مسلمان کمزور اور افرادی قوت میں کم تھے۔ مکہ والوں نے آپ ﷺکو اتنا تنگ کیا کہ آپﷺیہاں سے مدینہ ہجرت کرگئے۔ آپ ﷺکو مدینہ میں دعوت و تبلیغ کا اچھا مو قع مل گیا یہاں تک کہ آپﷺکی طرف لوگ خود اسلام قبول کرنے آنے لگے۔ صحابہ کرامؓ کو مختلف علاقوں میں بھیجا۔خطوط کے ذریعے بھی آپ ﷺنے دعوت دی ۔ آپﷺکے اچھے انداز تبلیغ ہی کی توسط سے اسلام پھیل گیا ۔آپﷺنے تبلیغ کا فریضہ خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی امت وسطیٰ پر ڈالا۔چونکہ آپﷺکے بعد اب کسی اور نبی کی بعثت ہو نے والی نہیں تھی۔ اس لئے مخلوق کی رہنمائی اور اتمام حجت کی پوری ذمہ داری ہمیشہ کے کیلئے آپﷺکی امت پر ڈال دی گئی ہے۔

 

تبلیغی جماعت کا مختصر تعارف:

مولا نا محمد الیاس تبلیغی جماعت کے بانی تھے ۔وہ ایک بڑے عالم مولانا محمد اسماعیل کے بیٹے تھے ۔ جن کا بچپن اپنے نانہال کاندھلہ اور اپنے والد مرحوم کے پاس نظام الدین میں گزرا ۔مولانا نے گنگوہ میں مولانا رشید احمد صاحب سے تعلیم حاصل کیا ۔اس کے بعد مظاہر العلوم میں تعلیم حاصل کیا ۔مظاہر العلوم سے آپ بستی نظام الدین گئے ۔یہا ں سے مولانا نے تبلیغ کاکام شروع کیا ،کیوں کہ خراب حالات کی وجہ سے میواتیوں میں ارتداد پھیل گیا ۔پہلے مکاتب قائم کئے گئے ،مولانا الیاس کے خیال کے مطابق مکاتب سے اتنا کام نہیں چلتا۔ ان کے خیال کے مطابق گشت کی ابتدا ء ہو گئی ۔مبلغوں نے گھر گھر جانا اور ان کو کلمہ و نماز سکھانا شروع کیا ۔ چنانچہ چند آدمیوں کی پہلی جماعت کاندھلہ کے سفر کیلئے تیار ہو گئی اس کے بعد رائے پور جماعت کے جانے کی تحریک کی ۔ اس کے علاوہ میوات کے اندر باہر دورہ کرنے کیلئے جماعتیں بننے لگیں۔ اس کام کیلئے مناسب مقامات میں جلسے اور اجتماعات بھی کئے جاتے تھے ۔تھوڑی مدت میں اس وسیع علاقہ میں دین اور دینداری کی ایسی عام اشاعت ہو ئی اور اس تاریک خطے میں جو صدیوں سے تاریک چلا آرہا تھا ،ایسی روشنی پھیلی جس کی نظیر دور دور نہیں مل سکتی۔چنانچہ مولانا کی کوششوں سے دین پھیلانے کیلئے جماعتیں سندھ ،کراچی اور پشاور وغیرہ تک گئیں ۔ مولانا نے دعوت دین پھیلانے کیلئے نہ صرف جماعتیں نکالیں بلکہ آپ نے بہت سی تقاریر کیں اور مکتوبات کے ذریعے بھی دعوت و تبلیغ کیا۔مولانا کے بعد یہ کام ان کے بیٹے مولانا یوسف کاندھلویؒ نے سنبھالا۔

 

مولانا یوسف کاندھلویؒ کے بعد مولانا انعام الحسنؒ تبلیغی جماعت کے تیسرے امیر قرار پا ئے ۔ابتدائی 17/18سال مولانا الیاسؒ نے امارت کے فرائض انجام دیئے۔21سال یہ ذمہ داری مولانایوسفؒ کے پاس رہی اس کے بعد 1965ء تا 1995ء تیس سال کا عرصہ مولانا انعام الحسنؒ کا دور امارت تھا۔آپ کی وفات کے بعد تبلیغی جماعت میں شورائی نظام کی ابتداء ہوئی ۔لہذاجولائی 1995ءسے اب تک شوریٰ مرکزی کام اور منصوبوں کی ذمہ دار ہے۔ تبلیغی جماعت کی شوریٰ کے اراکین پاکستان کے تمام صوبوں سے لئے جاتے ہیں اور یہ شوریٰ بدلتی رہتی ہے ،کبھی دو ماہ بعد کبھی چار ماہ بعد لیکن اس شوریٰ کے دو ارکین مولانا عبدا لوہابؒ اور مولانا احسان صاحب مستقل ہیں۔غیر مستقل اراکین کے بارے میں مولوی فخر الدین صاحب نے کہاکہ:’’دو مستقل اراکین کے علاوہ چار غیر مستقل ہیں مولانا احمد بٹلا صاحب ، مولانا عبدا لرحمن صاحب ،ڈاکٹر روح اللہ اور چوہدری شوکت صاحب ‘‘۔ [1]

 

تبلیغ کے میدان میں آنحضور ﷺکی مشکلات کا جائزہ:

خفیہ تبلیغ :

 

دعوت کا آغاز مکہ سے ہوا جو کہ دین عرب کا مرکز تھا۔ یہاں کعبہ کے پاسبان بھی تھے اور ان بتوں کے نگہبان بھی جنہیں پو را عرب تقدیس کی نظر سے دیکھتا تھا اس لئے کسی دور علاقے کی نسبت مکہ میں مقصد اصلاح زیادہ دشوار تھی ۔ مشرکین کا غلبہ تھا برائیاں بہت زیادہ اور عام تھیں ۔ اس کیفیت کے پیش نظر حکمت کا تقاضا تھا کہ پہلے پہل دعوت و تبلیغ کاکام خفیہ اور پس پردہ انجام دیا جائے، تاکہ ابتدائی مرحلے میں ہی مشکلات درپیش نہ ہوں ۔اس لئے رسول اللہﷺ نے تین سال تک خفیہ تبلیغ کی ۔تین سال تک آپ ﷺجان پہچان لوگوں کو پہاڑ کی گھاٹیوں میں دعوت دیتے تھے اور نماز پڑھتے تھے، جیسے حضرت علیؓ رسول اللہ ﷺکے ساتھ مکہ کی گھاٹیوں کی جانب نماز پڑھنے کیلئے اپنے والد ،چچاؤں اور اپنی قوم سے چھپ کر نکل جاتے۔اور وہیں آپ دونوں نماز پڑھتے جب شام ہو جاتی تو دونوں واپس آجاتے ۔ایک دن جب دونوں نماز پڑھ رہے تھےابو طالب نے ان کو نماز پڑھتے ہو ئے دیکھا اور رسول اللہﷺسے کہا :اے میرے بھتیجے !یہ کونسا دین ہے جس کو تم نے اختیار کیا ہے؟توآپ ﷺنے فرمایا:’’اے چچا جان یہ اللہ ،اس کے فرشتوں ، اس کے رسولوں اور ہمارے باپ ابراہیم کا دین ہے ۔یا ان الفاظ میں آپ ﷺنے فرمایا :اللہ نے مجھے اس دین کا رسول بنا کر لوگوں کی جانب بھیجا ہے ۔ چچاجان جن لوگوں کی میں نے خیر خواہی کی ہے اور جن کو سیدھی راہ کی جانب دعوت دی ہے ان سب میں آپ زیادہ حقدار ہیں اور اس دعوت کو قبول کرنے اور اس پر میری مدد کرنے کے آپ زیادہ مستحق ہے ‘‘[2]۔ابو طالب نے جواب دیتے ہو ئے کہا کہ میں اپنے آباؤ اجدادکے دین کو چھوڑ نہیں سکتا اور اپنی زندگی تک رسول اللہ ﷺپر کوئی بات نہ آنے کا تذکرہ کیا۔

 

آنحضورﷺکا اعلانیہ تبلیغ اور قریش کی رکاوٹیں:

 

رسول اللہﷺ ابتداء میں پوشیدہ طریقے سے دعوت حق پیش کر تے رہے ۔جب بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا اور ان کا ایمان لانا مشہور ہو گیا ، اسی دوران اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ علی الاعلان دعوت کا فریضہ سرانجام دیں اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائیں۔ ابن ہشام فرماتے ہیں:’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم پر اسلام کا اظہار کیا اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیاتھا اس کا اظہار مفصل اور اعلانیہ فرمایا۔آپ ﷺکی قوم نے آپ سے نہ دوری اختیار کی نہ آپ کا ر د کیا ۔ یہاں تک کہ آ پ ﷺنے ان کے بتوں کی حالت بیان فرمائی اور ان کی برائیاں بتائیں ۔جب آپ نے ایسا کیا تو انہوں نے اس معاملے کو اہمیت دی اور آپ سے اجنبیت برتنے لگے اور آپﷺ کی مخالفت اور دشمنی میں ایک دل ہو گئے بجز ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ نے ان میں سے اسلام کے لئے محفوظ کر لیا تھا اور ایسے لو گ تھوڑے اور چھپے ہو ئے تھے ‘‘ ۔[3]

 

قریش کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ وہ کعبہ کے مجاور اور کلید بردارتھے ۔ اور مکہ کی عزت کعبہ ہی کی وجہ سے تھی ۔اس وجہ سے قریش کا کاروبار زیادہ پھیلتا گیا۔ یہاں تک کہ متعدد محکمے اور بڑے بڑے مناصب قائم کئے گئے ۔ قریش اپنے آپ کو بہت بڑے سمجھتے

 

تھے ۔اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کیا اور آپﷺکے دشمن بن گئے ۔ 

 

خاندان کی رکاوٹیں :

 

جب اظہار دعوت کا حکم ہو ا تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نازل ہوا۔

 

’’و انذر عشیرتک الاقربین ‘‘ ۔[4]

 

ترجمہ:آپ ﷺ اپنے نزدیک ترین قرابت داروں کو ( عذاب الٰہی ) سے ڈرائے۔

 

اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺنے پہلا کام یہ کیا کہ بنی ہاشم کو جمع کیا اور ان کے ساتھ بنی عبدا لمطلب بن عبد مناف کی بھی ایک جماعت تھی ۔یہ لوگ تقریباً 40-45 تھے ۔اس مجلس میں آپ ﷺکے چچا ابو طالب ، حمزہ ، عباس اور ابو لہب بھی شامل تھے۔ آپ ﷺنے حضرت علیؓ کو کھاناتیار کرنے کا فرمایا حضرت علیؓ نے کھانا تیار کیا اور سب کو بلایا ۔کھانا کم تھا آپ ﷺ نے گوشت کا ٹکڑا لے کر اپنے دندان مبارک سے چیرا اور پھر پیالے میں رکھ دیا اور فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر کھاؤ ۔ اسی ایک پیالہ گوشت سے سب سیر ہو گئے اور کچھ بچ بھی گیا حالانکہ وہ کھانا صرف اتنا تھا کہ ایک شخص کیلئے کافی ہو سکتا تھا اور اس کے بعد دودھ کا پیالہ پلایا۔ اس سے سب سیراب ہو گئے ۔جب کھانے سے فارغ ہو ئے تو آپ ﷺنے کچھ فرمانے کا ارادہ کیا تو ابو لہب نے کہا کہ اے لوگواٹھو محمد ﷺنے تو آج تمہارے کھانے پر جادو کر دیا ہے ایسا جادو تو کبھی دیکھا نہیں ۔یہ کہتے ہی لوگ متفرق ہو گئے اور آپ ﷺ کو کچھ فرمانے کی نوبت نہ آئی دوسرے روز آپ ﷺنے پھر حضرت علیؓ کو اسی طرح کھانا تیار کرنے کا حکم دیا ۔اسی طرح دوسرے روز سب جمع ہو ئے جب کھانے سے فارغ ہو گئے تو آپ ﷺنے سب سے پہلے اللہ کی حمد و ثناء بیان کی ،اچھا اور برا راستہ بتا یا ۔موت اور جہنم سے ڈرایا۔ اسی طرح سیدھا راستہ اختیار کرنے والوں کے متعلق جنت کے آسائشات کے بارے میں بتا یا ۔حضورﷺ کے اس دعوتی خطاب کے جواب میں جنا ب ابو طالب نے آپ ﷺکی مدداور حفاظت کرنے کا وعدہ کیا۔ [5]

 

جب آپﷺکو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ فاصدع بما تومراسی طرح جب رسول اللہﷺنے اچھی طرح اطمینان کر لیا کہ اللہ کے دین کی تبلیغ کے دوران ابو طالب ان کی حمایت کریں گے تو ایک روز آپ ﷺنے کوہ صفا پر چڑھ کر یہ آواز لگائی۔(یا صباحاہ) ہائے صبح کا خطرہ ۔ یہ پکار سن کر قریش کے قبائل آپ ﷺکے پاس جمع ہو گئے ۔ اگر کو ئی آدمی خود نہ جا سکا تو اپنا قاصد بھیج دیتا کہ دیکھے کہ معاملہ کیا ہے ۔ غرض قریش آگئے ابو لہب بھی آگیا ۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :

 

’َرَاَیتمْ اَنْ اَخْبَرْتُکُمْ اَنَّ خَیلاً تَخْرُجُ مِنْ صَفْحِ ھٰذٰ ا الْجَبَلِ اَ کُنْتُمْ امُّصَدِّقِیَّ قَالُوْ ا مَاجَرَّبْنَا عَلَیکَ کَذِباً فَقَا لَ اِنِّیْ نَذِیرٌ لَّکُمْ بَیْنَ یدَیْ عَذَابٍ شَدِیدٍ۔ [6]

 

ترجمہ:لوگو! اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ دشمن کے سوار اس پہاڑ سے تمہاری طرف آرہے ہیں تو تم یقین کرو گے ؟ انہوں نے کہا (بے شک )کیوں کہ ہم نے آج تک آپ کو جھوٹ بو لنے نہیں سنا ۔آپ نے فرمایا (میری بات سنو ) میں تمہیں ( موت

 

کے بعد ) آنے والے سخت عذاب سے ڈراتا ہوں ۔

 

اس اجتماع میں ابو لہب بھی جو سخت برہم ہو گئے تھے اور آپ کو برا کہا ۔تو اللہ تعالیٰ نے ابو لہب کے بارے میں سورۃ لہب نازل کی جس میں ابو لہب کی مذمت کی گئی ۔ فرمایا گیا ’’ٹوٹ گئے ابو لہب کے ہاتھ ‘‘ اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی بیوی ام جمیل کے بارے میں حمالۃ الحطب (لکڑیاں ڈھونے والی ،یا لگائی بجھائی کرنے والی ) کہا گیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺم کے ساتھ عداوت میں یہ اپنے شو ہر سے کسی طرح کم نہ تھی ۔جب سورۃ لہب نازل ہوئی اور ام جمیل نے ا س کو سنا تووہ بہت غصے میں رسول اللہﷺکی تلاش میں نکلی ۔ اس کے ہاتھ میں مٹھی بھر پتھر تھے۔تاکہ ان سے آپ ﷺ کو مارے اور وہ آپ کی ہجو میں اپنے ہی کچھ اشعار پڑھتی جاتی تھی ۔ حرم میں پہنچی تو وہاں حضرت ابو بکرؓ کے ساتھ حضور ﷺتشریف فرماتھے ۔ حضرت ابو بکرؓ نے عر ض کیا یا رسول اللہ ﷺ،یہ آرہی ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کو دیکھ کریہ کوئی بیہودگی کرے گی۔ حضورﷺنے فرمایا یہ مجھ کو نہیں دیکھ سکے گی ۔چنانچہ ایسا ہی ہو اکہ آپﷺ کے مو جود ہو نے کے باوجود وہ آپ ﷺکو نہ دیکھ سکی ۔ اور اس نے حضرت ابو بکرؓ سے کہا کہ میں نے سنا ہے تمہارے صاحب نے میری ہجو کی ہے ۔ حضرت ابو بکرؓ نے کہا اس گھر کے خدا کی قسم انہوں نے تو تمہاری کو ئی ہجو نہیں کی ۔اس پر وہ واپس چلی گئی ۔ 

 

قریش کے مطالبے:

 

قریش نے آنحضرت ﷺ کا راستہ روکنے کیلئے مختلف کو ششیں کیں اور مختلف اقدام سوچے ۔لیکن دوسری طرف وہ ایک ایسے شخص کے مخالف تھے جو صادق اور امین تھے اور ایک طویل عرصے سے انہوں نے اپنے آباؤاجداد کی تاریخ میں اس کی نظیر نہ دیکھی تھی اور نہ سنی۔ وہ ان کے معبودوں کی عیب جوئی سے باز نہیں آتے اور دوسری طرف آپﷺکے چچا ابو طالب آپ پر مہربان اور آپﷺکیلئے سینہ سپر تھے اور آپﷺکو ان کےحوالےنہیں کرتے ۔کافی غور وخوض کےبعد ایک مطالبہ سوچ کے قریش کے بڑےبڑےسردار ابو طالب کےپاس گئے جن میں یہ لوگ بھی تھے:عتبہ اور شیبہ ربیعہ بن عبد شمس کے دونوں بیٹے ، ابو سفیان بن حرب، ابو البختری ، اسود بن المطلب ، ابو جہل بن ہشام ، نبیہ اور منبہ ، حجاج بن عامر کے دونوں بیٹے اور عاص بن وائل وغیرہ۔ ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ انہوں نے ابو طالب سے کہا:’’اے ابو طالب ! آپ کےبھتیجے نے ہمارے معبودوں کو گالیاں دیں اور ہمارے دین میں عیب نکالے اور ہمارےعقل مندوں کو بے وقوف بتا یا اور ہمارے بزرگوں کو گمراہ بتا یا لہٰذا اب یا تو اس کو ہم سے روک دیجئے یا ہمار ے اور اسکے درمیان دخل نہ دیجئے کیونکہ آپ بھی اسکے خلاف اسی ( دین ) پر ہیں جس پر ہم ہیں ۔ ہم آپ کی جانب سے بھی اس کا بندو بست کر لیں گے تو ابو طالب نے ان سے نرمی سے باتیں کیں اور انہیں حسن تدبیر سے واپس کر دیا تو وہ ان کے پاس سے لوٹ گئے ‘‘ ۔[7]

 

رسول اللہﷺ اپنی اسی حالت پر قائم اور اللہ کے دین کی اشاعت اور اس کی جانب دعوت دیتے رہے ۔ اس کے بعد بعض معاملات کے سبب سے آپ کے اور کافروں کے درمیانی تعلقات اور زیادہ سخت ہو گئے یہاں تک کہ ایک دوسرے سے الگ الگ رہنے لگے اور ایک دوسرے سے کینہ رکھنے لگے اور قریش کے درمیان رسول اللہﷺکے تذکرے عام طور پر رہنے لگے وہ آپ کے متعلق ایک کو دوسرے پر ملامت کرتے اور آپ کے خلاف ایک دوسرے کو ابھارتے ۔ اور آپ ﷺ اپنے مشن سے باز نہیں آتے تھے تو وہ سب مل کر ابو طالب کے پاس دوبارہ گئے اور ان سے کہاکہ:’’اے ابو طالب ! آپ ہم میں بلحاظ عمر و نسب و رتبہ ایک خاص درجہ رکھتے ہیں اور ہم نے آپ سے استدعا کی تھی کہ آپ اپنے بھتیجے کو ہم سے روکے رکھیں لیکن آپ نے انہیں ہم سے نہیں روکا اور واللہ ہم اس حالت پر صبر نہیں کر سکتے کہ ہمارے بزرگوں کو گالیاں دی جائیں او رہمارے عقل مندوں کو بے وقوف بتا یا جائے اور ہمارے معبودوں میں عیب نکالے جائیں یا تو ہم اسے اپنے متعلق ایسی باتیں کرنے سے روک دیں گے یا پھر اس سے مقابلے ٹھہرائیں گے اور پھر آپ اس میں دخل نہ دینایہاں تک کہ دونوں گروہوں میں سےکوئی ایک بربادہوجائے‘‘ ۔[8]

 

اس کے بعد وہ تو لوٹ گئے لیکن ابو طالب کو اپنی قوم سے جدا ئی اور ان سے دشمنی بہت مشکل تھی اور رسول اللہ ﷺکو ان کے حوالے کرنے اور آپ کو بے یار ومددگار چھوڑنے کو بھی دل گوارا نہ تھا ۔اس کے بعد ابو طالب نے آپ ﷺکو اپنے پاس بلایا اور کہا اے میرے بھتیجے ! تمہاری قوم میرے پاس آئی تھی اور انہوں نے مجھ سے اس طرح کی باتیں کیں اور وہ باتیں بیان کیں جو ا نہوں نے ان سے کہی تھیں پس مجھ پر بھی رحم کرو اور خود اپنی جان پر بھی رحم کرو اور مجھ پر ایسا بار نہ ڈالو جس کو میں برداشت نہ کر سکوں ۔ رسول اللہ ﷺنے خیال فرمایا کہ آپ ﷺ کے چچاکی کچھ ایسی رائے ہو گئی ہیں کہ وہ آپﷺ کی امداد ترک کر دیں گے اور آپ ﷺکو ان کے حوالے کر دیں گے اور اب وہ آپ ﷺکی امداد اور حمایت سے عاجز ہو چکے ہیں۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

 

یا عَمِّ!وَاللّٰہ لَوْ وَضَعُواالشَّمْسَ فِی یمینی وَالْقَمَرَ فِی یساَرِیْ عَلیٰ اَنْ اَتْرُکَ ھٰذَاالْاَمْرَ حَتّٰی یظْھِرَہُ اللّٰہُ اَوْ اَھْلِکَ فِیہِ مَا تَرَکْتُہُ۔ [9]

 

ترجمہ:چچا جان ! واللہ اگر میری دائیں جانب سورج اور بائیں جانب چاند رکھ دیں کہ میں اس معاملے کو چھوڑ دوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ خود اس کو غلبہ دے دیں یا میں مر جاؤ ں تو بھی اسے نہ چھو ڑوں گا ۔

 

یہ کہنے کے بعد رسول اللہ ﷺکی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور آپﷺ آ بدیدہ ہو ئے پھر آپ ﷺوہاں سے کھڑے ہوکر واپس ہو گئے تو ابو طالب نے آپﷺ کو پکار ااور کہا ۔اے میر ے بھتیجے ! ادھر آؤ جاؤ اور جو چاہو کہو ۔ اللہ کی قسم کسی صورت میں تمہیں ان کےحوالے نہیں کروں گا۔جب قریش نے یہ سمجھ لیا کہ ابو طالب نے رسول اللہ ﷺ کی امداد نہ دینے سے بھی انکار کر دیا اور آپ کو ان کے حوالہ کرنے سے بھی اور اس معاملے میں ان سب سے الگ ہو جانے اور ان سب کی مخالفت پر ان کا عزم مصمم دیکھا تو عمارہ بن ولید بن مغیرہ کو لے کر ان کے پاس گئے اور ان سے کہاکہ اے ابو طالب !یہ قریش کا سب سے بانکا اور خوبصورت نوجوان ہے ۔آپ اسے لے لیں ، اس کی دیت اور نصرت کے آپ حق دار ہوں گے ،آپ اسے اپنا لڑکا بنا لیں ، یہ آپ کا ہو گا اور آپ اپنے اس بھتیجے کو ہمارے حوالے کر دیں جس نے آپ کے آباؤاجداد کے دین کی مخالفت کی ہے ،آپ کی قوم کا شیرازہ منتشر کر رکھا ہے اور ان کی عقلوں کو حماقت سے دوچار بتلایا ہے ۔ہم اسے قتل کریں گے۔بس یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے۔ابو طالب نے کہا واللہ ! تم کتنا برا معاملہ میرے ساتھ کر رہے ہو کیا تم مجھے اپنا لڑکا اس لئے دے رہے ہو کہ میں اسے تمہاری خاطر کھلاؤں پلاؤں اور تمہیں اپنا لڑکا دے دوں کہ تم اسے قتل کر ڈالو ۔واللہ یہ تو ایسی بات ہے کہ کبھی بھی نہیں ہو سکتی ۔[10]

 

قریش کا ظلم و جور:

 

ابو طالب نے جب قریش کا ساتھ نہیں دیا ،تو اس کے بعد معاملے نے شدت اختیار کر لی۔اور رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے ان افراد کے خلاف جنہوں نے آپ کے ساتھ اسلام اختیارکر لیاتھا اور قریش کے قبیلوں میں رہا کرتے تھے قریش نے ایک دوسرے کو ابھارا تو ہر ایک قبیلہ اپنے مسلمانوں پر پل پڑ ااور وہ انہیں ایذائیں دینے لگے اور ان کو ان کے دین سے برگشتہ کرنے کی تدبیریں کرنے لگے لیکن اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو آپ کے چچا ابو طالب کی سبب سے محفوظ رکھا۔قریش نے جب دیکھا کہ مذکورہ کاروائیاں اسلامی دعوت کی راہ روکنے میں مؤ ثر ثابت نہیں ہو رہی ہیں توایک بار پھر جمع ہو ئے ۔’’ قریش مکہ نے ،نبی ﷺ اور مسلمانوں پر جو جور وستم کئے تھے ،اسے ہنو زناکافی سمجھا ،اس لئے بجائے متفرق کو ششوں کے باقاعدہ کمیٹیاں بنائی گئیں ۔ایک کمیٹی بنائی گئی جس کا امیر مجلس ابو لہب تھا اور مکہ کے ۲۵ سردارا س کے ممبر تھے ‘‘۔[11]

 

قریش کی اس کمیٹی نے باہمی مشورے اور غور وخوض کےبعد رسول اللہﷺ اور صحابہ کرامؓ کے خلاف ایک فیصلہ کن قرار داد منظور کی ۔ یعنی یہ طے کیا کہ اسلام کی مخالفت ،پیغمبر اسلام کی ایذا رسانی اور اسلام لانے والوں کو طرح طرح کے جور وستم اور ظلم وتشدد کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔مشرکین نے یہ قرار داد طے کرکے اسےعملی جامہ پہنانے کا مصمم ارادہ کرلیا ۔ مشرکین نے ابو لہب کی سربراہی میں نبی ﷺاور مسلمانوں پر ظلم و جور کا آغاز کر دیا ۔ بعثت سے پہلے ابو لہب نے اپنے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کی شادی نبیﷺکی دو صاحبزادیوں رقیہؓ اور کلثومؓ سے کی تھی لیکن بعثت کےبعد اس نے نہایت سختی سے اور درشتی سے ان دونوں کو طلاق دلوا دی ۔ اسی طرح آپ ﷺکے بیٹے عبد اللہ کے انتقال پر ابو لہب بہت خوش ہو گئے ۔ ابو لہب کے علاوہ حکم بن العاص بن امیہ ، عقبہ بن ابی معیط ،عدی بن حمراء ثقفی ، ابن الاصداء ھذلی وغیرہ آپ ﷺکے پڑوسی تھے اور ان میں سے حکم بن العاص کے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہ ہو ا۔ ان کے ستانے کا طریقہ یہ تھا کہ جب آپ ﷺ نماز پڑھتے تو کوئی شخص بکری کی بچہ دانی اس طرح ٹکا کر پھینکتا کہ وہ ٹھیک آپ ﷺ کے اوپر گرتی ۔چولھے پر ہانڈی چڑھائی جاتی تو بچہ دانی اس طرح پھینکتے کہ سیدھے ہانڈی میں جا گرتی ۔ آپ ﷺاس گندگی کو لکڑی پر اٹھاکر باہر ڈالتے تھے ۔آپ ﷺنے مجبور ہو کر ایک گھروندا بنا لیا تاکہ نماز پڑھتے ہوئے ان سے بچ سکیں ۔ عقبہ بن ابی معیط اپنی بد بختی اور خباثت میں اور بڑھا ہو اتھا۔مسند اما م احمد بن حنبل میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سےمروی ہےکہ: ’’ایک مرتبہ نبیﷺ سجدے میں تھے ، دائیں بائیں قریش کے کچھ لوگ موجود تھے ،اتنی دیر میں عقبہ بن ابی معیط اونٹ کی اوجھڑی لے آیا اور اسے نبی ﷺ کی پشت پر ڈال دیا ،جسکی وجہ سے نبی ﷺ اپنا سر نہ اٹھا سکے حضرت فاطمہؓ کو پتہ چلا تو وہ جلدی سے آئیں اور اسے نبی ﷺ کی پشت سے اتار کر دور پھینکا اور یہ گندی حرکت کرنے والے کو بد دعائیں دینے لگیں ،نبیﷺنے نماز سے فارغ ہو نے کے بعد فرمایا اے اللہ ! قریش کے ان سرداروں کی پکڑ فرما ۔ ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان سب کو دیکھا کہ یہ غزوہ بدر کےموقع پر مارے گئے اور انہیں گھسیٹ کر ایک کنوئیں میں ڈال دیا گیا ، سوائے امیہ کے جس کے اعضاء کٹ چکے تھے، اسے کنوئیں میں نہیں ڈالا گیا ‘‘۔ [12]امیہ بن خلف کا وتیرہ تھا کہ وہ جب رسول اللہﷺ کو دیکھتا تو لعن طعن کرتا ۔ اسی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی :

 

وَیلٌ لِّکُلِ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃٍ ۔[13]

 

ترجمہ:ہر لعن طعن اور برائیاں کرنے والے کے لئے تباہی ہے۔

 

آپ ﷺکو ابو طالب کی حمایت و طاقت حاصل تھی اس کے باوجود بھی آپ ﷺکے ساتھ یہ کاروائیاں ہو رہی تھی۔ رہی وہ کاروائیاں جو مسلمانوں اور خصوصاً ان میں سے بھی کمزور افراد کی ایذا رسانی کیلئے کی جارہی تھیں تو وہ کچھ زیادہ ہی سنگین اور تلخ تھیں ۔

 

سفر طائف:

 

حضورﷺتبلیغ کیلئے طائف گئے لیکن وہاں آپﷺ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ حضورﷺکے چچا ابو طالب کے انتقال کے بعد قریش مکہ کو آپ ﷺپر طرح طرح کے ظلم کرنے کا موقع ملا ۔ اس لئے آپ ﷺنے قریش کی چیرہ دستیو ں سے مجبور ہو کر اخیر شوال 10نبوی میں زیدؓ بن حارثہ کے ساتھ طائف کا قصد فرمایا کہ شاید یہ لوگ اللہ کی ہدایت کو قبول کریں اور اسکے دین کے حامی اور مدد گار بن جائیں ۔ جب حضورﷺطائف پہنچے تو بنی ثقیف کے ان لوگوں کے پاس تشریف لے گئے جو ان دنوں بنی ثقیف کے سردار اور ان میں سر بر آور دہ آدمی تھے اور وہ تین بھائی تھے ۔عبد یالیل بن عمرو بن عمیر ،مسعود بن عمرو بن عمیر او ر حبیب بن عمرو بن عمیر کے پاس تشریف لے گئے کہ ان لوگوں کا رویہ نہایت نامناسب اور معاندانہ تھا۔ ابن اسحاق محمد بن کعب قرظی سے روایت کرتے ہیں کہ:’’ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ کعبۃ اللہ کا غلاف ٹکڑےٹکڑےکر دے گااگر اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور دوسرے نے کہا کہ رسول بنا کر بھیجنے کیلئے اللہ کو تمہارے سوا کوئی اور نہیں ملا ؟ اور تیسرے نے کہا کہ واللہ ! میں تجھ سے کبھی گفتگو نہیں کروں گا، اگر جیسا کہ تو کہتا ہے حقیقت میں تو اللہ کی طرف سے تو اس لحاظ سے بڑا خطر ناک شخص ہے کہ تجھ سے بات کرنے اور تیرا جواب دینے میں خطرہ ہے اور اگر تو اللہ پر افترا کر رہا ہے تو بھی مجھے لاز م ہے کہ تجھ سے بات نہ کروں ۔تو رسول اللہﷺنے فرمایا:اذْفَعَلْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ فَاکْتُمُوْاعَنِّیجبکہ تم نے (ایسا جواب ادا کیا ) جو کیا ( جو تمہیں زیبا نہ تھا توخیر ) مجھ سے ( جو کچھ سنا ہے اس کو ) راز میں رکھو‘‘ [14]

 

رسول اللہﷺ ان کے پاس سے اٹھ کھڑے ہو ئے اور بنی ثقیف کی بھلائی سے مایوس ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ نے یہ بات ناپسند فرمائی کہ آپ کے متعلق آپ کی قوم کو ایسی خبریں پہنچیں کہ جن سے ان لوگوں میں نفرت و بر گشتگی پیداہو ۔ ان تینوں نے اس گفتگو کور از میں نہیں رکھا بلکہ دس دن بعد جب آپﷺنے واپسی کا قصد کیا تو انہوں نے اپنے بے وقوفوں اور غلاموں کو ابھارا۔ اوباش گالیاں دیتے ،تالیاں پیٹتے اور شور مچاتے آپﷺکے پیچھے لگ گئے ،اور دیکھتے دیکھتے اتنی بھیڑ جمع ہو گئی کہ آپ ﷺ راستے کے دونوں جانب لائن لگ گئی ۔ گالیوں اور بد زبانیوں کے ساتھ ساتھ ظالموں نے اس قدر پتھر برسائے کہ آپﷺکے ایڑی پر اتنے زخم آئے کہ دونوں جوتے خون میں تر بتر ہو گئے ۔ جب آپ ﷺزخموں کی تکلیف سے بیٹھ جاتے تو یہ بد نصیب آپ کے بازو پکڑ کر دوبارہ پتھر برسانے کے لئے کھڑ اکر دیتے اور ہنستے۔ آپﷺکے ہمراہ حضرت زیدؓ بن حارثہ ڈھال بن کر چلتے ہو ئے پتھروں کو روک رہے تھے جس سے ان کے سر میں کئی جگہ چوٹ آئی ۔ بدمعاشوں نے یہ سلسلہ برابر جاری رکھا یہاں تک کہ آپﷺ عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ کے ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ۔ یہ باغ طائف سے تین میل کے فاصلے پر واقع تھا ۔ جب آپﷺنے یہاں پر پناہ لی تو لوگوں کی یہ بھیڑ واپس چلی گئی ۔ آپﷺ باغ کے ایک درخت کے سائے میں دم لینے کیلئے بیٹھ گئے اور یہ دعا مانگی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہے :

 

’’اَ للّٰھُمَّ اِلَیکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیلَتِیْ وَھَوَ انِی عَلَی النَّاسِ یآ اَرْ حَمَ الرَّاحِمِینَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّیْ اِلیٰ مَنْ تَکِلُنِی ؟ اِلیٰ بَعِیدٍ یتَجَھَّمُنِی ؟ اَمْ اِلیٰ عَدُوٍّ مَلَّکْتَہُ اَمْرِی ؟ اِنْ لَمْ یکُنْ بِکَ عَلَیَّ غَضَبٌ فَلاَ اُبَالِیْ وَلٰکِنَّ عَافِیتِکَ ھِیَ اَوْسَعُ لِیْ اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتِ وَصَلَحَ عَلَیْہِ اَمْرُ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ مِنْ اَنْ تُنْزِلَ بِی غَضَبَکَ اَوْیحِلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ لَکَ العُتْبیٰ حَتّٰی تَرْضیٰ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِکَ‘‘۔[15]

 

ترجمہ: یااللہ ! میں اپنی کمزوری ، بے تدبیری اور لوگوں میں اپنی ذلت کی شکایت تجھ ہی سے کرتا ہوں ۔ اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے ! تو کمزوروں کو ترقی پر پہنچانے والا ہے اور تو میری بھی پرورش کرنے والاہے تو مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے ؟ (کیا ) ایسے دور والے کے جو میرے ساتھ ترش روئی سے پیش آتا ہے ؟یا ایسے دشمن کے جس کو میرے معاملے کا مالک بنا دیا ہے ؟ اگر مجھ پر تیرا غصہ نہیں ہے تو پھر میں کوئی پرواہ نہیں کرتا مگر تیرا احسان میرے لئے بہت وسیع ہے ۔میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ لیتا ہوں جس سے دنیا و آخرت کا معاملہ درست ہو گیا ، اس بات سے کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو یا مجھ پر تیری خفگی ہو (مجھے ) تیری ہی رضامندی کی طلب ہے حتیٰ کہ تو راضی ہو جائے اور تیرے سوا کسی میں نہ کوئی ضرر دور کرنے کی قوت ہے اور نہ نفع حاصل کرنے کی ۔

 

اس دعا کے ایک ایک فقرے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ طائف میں اس بد سلوکی سے دو چار ہو نے کے بعد اور کسی ایک شخص کے بھی ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپ ﷺکس قدر دل فگار اور غمگین تھے ۔ اور آپﷺ کے احساسات پر حزن والم اور غم و افسوس کا کس قدر غلبہ تھا ۔ اتنے ظلم کے باوجود آپ نے ان کیلئے بدعا نہیں کی۔حالانکہ مظلوم اور مسافر کی دعا اللہ تعالیٰ ضرور قبول کر تا ہے لیکن آپ ﷺنبی ہو نے کے ساتھ ساتھ مظلوم بھی تھے ،مسافر بھی تھے ،غریب بھی تھے ۔

 

موسم حج میں قریش کا آنحضور ﷺ کے لئے مشکلات پیدا کرنا :

 

آپ ﷺ نے موسم حج میں موقع پاکر مختلف قبائل کو دعوت اسلام دی ۔ قریش کو معلوم تھاکہ اب عرب کے قبائل اور وفو د کی آمد شروع ہو گی اس لئے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ رسول اللہﷺ کے بارے میں کو ئی ایسی بات کہیں کہ اہل عرب کے دلوں پر آپ ﷺکی دعوت کا اثر نہ ہو سکے ۔ولید بن مغیرہ کے پاس قریش کے چندلوگ جمع ہو ئے کسی نے شاعر ،کسی نے دیوانہ ،کسی نے کاہن ، کسی نے جنون اور کسی نے جادو گر کہا یہ ساری باتیں ولید نے منسوخ کر کے کہا :’’واللہ اس کی بات میں ایک قسم کی شیرینی ہے اور اسکی جڑیں بہت شاخوں والی یا زیادہ پانی والی ہیں یا زمین سے چمٹی ہوئی مستحکم ہیں اور اسکی شاخیں پھلوں والی ہیں ۔تم ان تمام باتوں میں سے جو کہو گے اسکا جھوٹ ہو نا ظاہر ہو جائے گا ۔ ہاں اسکے متعلق صحت سے قریب تر بات یہ ہے کہ تم ا سکے متعلق کہو کہ وہ جادو گر ہے وہ اپنا ایک جادو بھر ا کلام لیکر آیا ہے جسکے ذریعے باپ بیٹے بھائی بھائی میاں بیوی اور فرد خاندان اور خاندان کے درمیان جدائی ڈالتا ہے‘‘ ۔[16]

 

اس کے بعد سب کے سب اسی بات پر متفق ہو کر ادھر ادھر چلے گئے ۔جب حج کے زمانے میں لوگ آنے لگے تو یہ لوگ ان لوگوں کے راستوں میں بیٹھ جاتے اور جو شخص ان کے پاس سے گزرتا تو وہ اس کو آپ ﷺکے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے آپ ﷺکے متعلق تفصیلات بتانے لگے۔قریش کی مخالفت اور کو شش کا نتیجہ یہ ہو ا کہ لوگ اس حج سے اپنے گھروں کو واپس ہو ئے تو ان کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ آپ ﷺنے دعویٰ نبوت کیا ہے اور یوں پورے دیارعرب میں آپ ﷺ کا چرچا پھیل گیا ۔اس طرح دعوت اسلام کی زبردست تشہیر ہو گئی۔ اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں نے اسلام کو جان لیا ، جن کو بتانا اس وقت رسول اللہ ﷺ کے لئے ممکن نہ تھا۔ مکہ کے سردار اگرچہ دعوت اسلام کی مخالفت میں بولتے تھے ،مگر انسان کی یہ نفسیات ہیں کہ جس چیز کی مخالفت کی جائے اس کے بارے میں تجسس پید اہو تاہے ۔چنانچہ اسلام کو جاننے کے لئے ان کے اندر مزید اشتیاق بڑھ گیا۔ 

 

ہجرت مدینہ :

 

دعوت و تبلیغ کی وجہ سے قریش مکہ آپ ﷺکے جانی دشمن بن گئے ۔ آخر وہ دارالندوہ میں اکھٹے ہوئے اور آپ ﷺ کے قتل ( نعوذ با اللہ )کا فیصلہ کیا ۔ اسی رات آپ ﷺ کو ہجرت کا اذن ملا ۔ آپ ﷺ اپنے دوست حضرت ابو بکر صدیقؓ کے گھر آئے اور اللہ کا حکم بتا یا۔ آپ ﷺاور حضرت ابو بکر صدیقؓ مکہ سے روانہ ہوکر غار ثور گئے [17]۔ظالموں نے یہ اعلان کیا کہ جس نے بھی آپ ﷺکو پایا اس شخص کے لئے سو اونٹ انعام میں دئیے جائیں گے۔

 

کفارنے انعام کے حصول کے لئے ہر جگہ آپ ﷺکو ڈھونڈنا شروع کیا ،یہاں تک کہ وہ غار ثور کے منہ تک بھی پہنچ گئے ۔اللہ کی مدد ساتھ تھی ، اللہ نے ظالموں سے دونوں کی حفاظت فرمائی۔تین دن بعد آپ ﷺ ،حضرت ابو بکرؓ اور ان کا غلام ، اور راہبر عبد اللہ بن اریقط نے مدینہ کی طرف سفر شروع کیا۔یہ سفر ہجرت بہت مشکل تھا کیوں کہ کفار مکہ آپ ﷺ کی تلاش میں نکلے ہو ئے تھے ۔ سراقہ بن مالک بن جعشم،جس نے انعام کی لالچ میں آپ ﷺ کا تعاقب کیا تھا۔جب سراقہ نے ایک شخص سے یہ بات سنی کہ فلاں طرف صبح ایک چھوٹا قافلہ جا رہا تھا ۔تو سراقہ نے انعام کی لالچ میں ان کا پیچھا کیا ۔راستے میں سراقہ کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ گر پڑا۔ اس نے فال دیکھی لیکن اس میں نقصان تھا ۔لیکن لالچ کی وجہ سے پھر روانہ ہو گیا ۔پھر گر گیا تین دفعہ گرا اور فال دیکھتا رہا ،ہر بار فال ٹھیک نہیں ہوتی تھی۔ آخر کار معافی کاخواستگار ہوا۔ آنحضور اکرم ﷺنے اسے امان نامہ لکھ کر کے دے دیا ۔ آنحضور ﷺ کے حسن سلوک کی وجہ سے اس کا رجحان اسلام کی طرف ہو گیا ۔ اس کے دل میں آپ ﷺ کی عظمت پیدا ہو گئی [18]۔حنین و طائف کے جنگوں کے موقع پر مقام جعرانہ میں سراقہ آپ ﷺسے ملے اور اسلام قبول کیا ۔ 

 

مدنی مہمات:

 

مدینہ میں آپ ﷺکو دعوت و تبلیغ کا اچھا موقع مل گیا ۔مدنی زندگی میں آپ ﷺ نے دعوتی مہمات بھی دوسرے علاقوں میں روانہ کیں۔ آپ ﷺنے دس برسوں میں کم و بیش اسی مہمات ترتیب دیں۔ ان میں سے کچھ خالصتاً تبلیغی نوعیت کی تھیں جیسے بئر معونہ ، رجیع اور یمن وغیرہ کی مہمات ۔کچھ خالص دفاعی تھیں جیسے بدر ، احد اور احزاب وغیرہ۔دفاعی جنگوں میں رسول اللہ ﷺ نے خود بنفس نفیس حصہ لیا تھا ۔ان جنگوں میں خصوصاً جنگ احد میں رسول خدا نے بہت سی تکالیف اٹھائی۔ آپ ﷺ کی انگلی اور دانت مبارک شہید ہوگئیں ۔آپ ﷺشدید زخمی ہوگئے ۔

 

یہود اور منافقین کی رکاوٹیں :

 

مکہ کی بنسبت مدینہ میں آنحضورﷺکو دعوت و تبلیغ کرنے کا اچھا موقع ملا لیکن دشمن اسلام ہر جگہ موجود ہیں ۔مدینہ میں یہود اور منافقین کی سازشیں شروع ہو گئیں تھی ۔یہود آپ ﷺکے سخت دشمن تھےباوجود یہ کہ یہود میثاق مدینہ میں شامل تھے۔ لیکن اندرون خانہ وہ آنحضورﷺ اور اسلام کے مخالف تھے ۔توراۃ میں آخری نبی کی آمد کے بارے میں ذکر موجود تھا ۔ وہ اس وجہ سے آپ ﷺکے ساتھ بغض و عداوت کرنے لگے کہ آخری نبی بنی اسرائیل میں کیوں مبعوث نہیں ہوئے ؟اس لئے بہت سی جنگیں ان کے ساتھ لڑی گئی ۔جیسے غزوہ بنو نضیر، غزوہ بنو قینقاع اور غزوہ بنو قریظہ ۔منافقین نے بھی یہود کے ساتھ مل کے رسول اللہ ﷺ کیلئے بہت سی مشکلات پیدا کی ۔جیسے مسجد ضرار مسلمانوں کی ناکامی اور اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے بنائی گئی ۔تاکہ وہ یہود کے ساتھ مل کے مسلمانوں کیلئے سازشیں بنائیں۔لیکن اللہ نے ان کواپنےمشن میں ناکام کیا۔

 

تبلیغ کے میدان میں تبلیغی جماعت کی مشکلات کا جائزہ:

1857ءکی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی۔پہلی عالمی جنگ کےبعدمسلمانوں پر انگریزوں کا غلبہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا۔ تحریک خلافت کے بعد مسلمان انگریزوں سے مزیدمایوس ہو گئے ۔ ہندوؤں نے ان حالات سے فائدہ اٹھا کر شدھی تحریک شروع کر دی ۔اس تحریک کے اہداف میں وہ قومیں اور علاقے زیادہ اہم تھے جن کے افراد دین اور دینی تعلیم سے نا واقف تھے ۔ اس لئے میوات [19]اور میو قوم میں ارتداد کا خطرہ زیادہ تھا ۔’’1921ء کی بات ہے کہ ہندوستان میں آریوں کی کوشش سے جاہل نو مسلم دیہاتی علاقوں میں ارتداد کی آگ پھیلی ،اس آگ کے بجھانے کے لئے ہر چار طرف مسلمان کھڑے ہو ئے، بہت سی تبلیغی انجمنیں بنیں ،ہزاروں روپے کے چندے ہو ئے ،مبلغین نوکر رکھے گئے،جگہ جگہ پھیلائے گئے ۔‘‘ ۔[20]

 

مولانا محمد الیاس1344ھ یعنی 1921ءمیں دوسری بار حج کے لئے گئے ،جب مدینہ سے واپسی کا وقت آیا تو مولانا پر ایک

 

عجیب کیفیت طاری تھی ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں دعوت و اصلاح کا وہ طریقہ ڈالا جو آج تبلیغی تحریک کے نام سے معروف ہے، مولانا کو خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ ہم تم سے کام لیں گے ،تمہیں ہندوستان واپس جاناچاہیے۔29 ذی قعدہ 1348ھ کو جامع مسجد سہارنپور میں مولانا نے اس کام کا پہلا خطاب فرمایا ،دعوت و تبلیغ کے کام کیلئے افراد کی تشکیل کی ۔ [21]

 

مولانا صاحبؒ نے مسلمانوں کو غیر مسلموں کے فتنوں سے بچنے کی بہت کوششیں کیں ۔ حضرت مولانا محمد الیاسؒ کو میواتیوں کی فکر ہوئی ،کیوں کہ میواتی دینی لحاظ سے کمزور تھے ۔ مولانا محمد الیاسؒ نے میواتیوں کی انفرادی اصلاح شروع کی ۔ مولانا نے تبلیغ کاسلسلہ میوات سے شروع کیا۔جمیعۃ علماء ہندنے اس فتنہ ارتداد کو ختم کرنے کیلئے کئی علاقوں میں وفود روانہ کئےاور اس کو آئند ہ ختم کرنے کیلئے 152 مدارس قائم کئے ،تاکہ آنے والی نسلیں اس فتنے سے بچ سکیں ۔ لیکن مولانا کا خیال تھا کہ وفود اور مدارس اس فتنے کے خاتمے کیلئے کافی نہیں ہے کوئی اور لائحہ عمل بھی اختیار کیا جائے ۔ جب فیروز پو ر [22]کے کچھ لوگوں نے مولانا کو بتا یا کہ وہ لوگوں کوجمع نہیں کرتے بلکہ اہل محلہ میں سے کچھ لو گ گھر گھر جا کر لوگوں سے ملتے ہیں اور انہیں نماز کیلئے لاتے ہیں یعنی گشت کرتے ہیں مولانا کو یہ طریقہ پسند آیا اور خود لوگوں کو دعوت دینے کیلئے گشت شروع کیا۔نہ صرف میوات میں آپ نے تبلیغی کام کیا بلکہ ہندوستان کے اور علاقوں میں بھی جماعتیں بھیجیں ،تاکہ گشت کریں۔میوات کی جماعتیں یوپی کے شہروں اور قصبات میں پھرنے لگیں۔میوات کی طرح دہلی میں بھی خالص تحریص و ترغیب کا سلسلہ شروع ہو ا،محلوں میں جماعتیں بنیں،اور ہفتہ وار گشت کی ابتداء ہو ئی ۔ مولانا محمد الیاسؒ کی کوششوں سے تبلیغ کا سلسلہ فیروز پور نمک تک پھیلا۔ ’’مولانا کی ترغیب اور اصرار پر وہ پہلی جماعت جو فیروز پور نمک سے باہر نکلی اس میں چھ افراد تھے ۔ 1:حافظ محمد اسحاق بن نور بخش،2:نمبردار محراب خان،3:چوہدری نماز خان اور تین بچے جن کی عمریں بارہ تیرہ سال تھیں ۔اس جماعت نے قریبی علاقوں گھاسیڑہ،سہنہ،اور تاوڑد میں گشت کیے‘‘[23]۔ اس طرح ایک بستی کے چند افراد کے اس کام نے تنظیم اور وسعت اختیار کی ۔1933ء کے اواخر میں آپ نے پورے میوات کے دو تفصیلی دورے کیے ان میں ہر وقت کم از کم سو افراد ساتھ ہوتے تھے ۔دونوں دورے تقریباًایک ایک ماہ کے تھے ۔ان دوروں کے درمیان میں ہمراہیوں میں سے جماعتیں بنا بنا کر مختلف گاؤں میں انہیں گشت کے لئے بھیجا جاتا تھا۔ان تفصیلی دوروں کے نتیجے میں پورے میوات میں گھر گھر اس دعوت کا پیغام دینے کے بعد مولانا الیاسؒ نے ایک پنچائیت بلائی جس میں 107چیدہ چیدہ افراد شریک ہو ئے ۔اس اجلاس کو تبلیغی جماعت کا تاسیسی اجلاس کہا جاسکتا ہے۔تفصیلی دوروں اور پنچائیت کے بعد میوات میں تبلیغی کام کی ایک تحریک پیدا ہو گئی۔کچھ لوگوں کا انفرادی دینی عمل علاقے کا اجتماعی کام بن گیا۔مولانا نے اس کے بعد ان لوگوں کو کچھ وقت نکالنے اور تھوڑا سا علم دین حاصل کرنے کے درجہ سے آگے بڑھانا شروع کیا تاکہ انہیں علمی ماحول اور دینی فضا ء سے روشناس کرایا جائے ۔ ’’تبلیغی تحریک کی ابتداء ‘‘کےمصنف لکھتے ہیں کہ:

 

’’مولانا محمد الیاسؒ کی ان دینی کاوشوں نے بعض علماء کو حیران کر دیا انہوں نے تذکرے شروع کئے کہ مولانا نے یہ کیا شروع کر دیا۔حضرت اشرف علی تھانویؒ کو جب پتہ چلا تو وہ گھبرا گئے اور فرمایا کہ لو گ تو علماء کی بات بھی قبول کرنے کو آمادہ نہیں ۔یہ میوات

 

کے ان پڑھ لوگ کیا تبلیغ کریں گے۔یہ تبلیغ نہیں بلکہ دین میں ایک نیا فتنہ ہے یا امت میں ایک نیا فتنہ ہے ‘‘ ۔[24]

 

مولانا الیاس ؒنے اپنے نزدیک اس کا فیصلہ کر لیا تھا کہ جب تک اہل حق اور اہل علم اس کام کی طرف متوجہ نہ ہو ں گے اور اس کی سرپرستی نہ کریں گے اس وقت اس اجنبی دعوت اور اس نازک اور اس لطیف کام کی طرف (جس میں بڑی دقیق رعایتیں اور نزاکتیں ملحوظ ہیں ) اطمینان نہیں کیا جا سکتا آپ کو اس کی بڑی آرزو تھی کہ اہل اشخاص اس کام کی طرف توجہ کریں اور اپنی قابلیتوں اور خداداد صلاحیتوں کو اس کام کے فروغ میں لگائیں جس سے اسلام کی درخت کی جڑ شاداب ہو گی، پھر اس سے اس کی تمام شاخیں اور پتیاں سرسبز ہو جائیں گی۔ اس سلسلہ میں آپ علماء سے صرف وعظ تقریر ہی کے ذریعہ اعانت نہیں چاہتے تھے ،بلکہ آپ کی خواہش اور آپ کا مطالبہ علماء عصر سے سلف اول کے طرز پر اشاعت دین کے لئے علمی جدو جہد اور در بدر پھرنے کا تھا ۔ [25]

 

مولانا الیاسؒ نے علماء کی تشویش رفع کرنے کی کوششیں تو کیں لیکن ان کی تشویش کے باوجود اس کام میں کو ئی کمی نہیں آنے دی ۔مولانا اشرف علی تھانویؒ ہندوستان کے بڑے علماء میں سے ایک تھے ان کی توجہ اور حمایت حاصل کرنے کی خصوصی کوششیں کیں آپ نے میواتیوں کو دیوبند ،سہارنپور اورتھانہ بھون کی طرف بھیجنا شروع کیا ۔ جماعتیں تھانہ بھون کے ماحول اور آس پاس کام کرتی رہیں ،اطرا ف و اکناف سے آنے والے مولانا اشرف علی تھانوی صاحب سے جماعتوں کی کارگزاری ، ان کے طرز و اصول اور ان برکات کا ذکر کرتے جو ان کے گشت و قیام سے ان مقامات میں نظر آنے لگے تھے ۔ مولانا کو پہلے بڑا شبہ اس میں تھا کہ جب ان علماء کو جنہوں نے آٹھ آٹھ دس دس برس مدرسوں میں تعلیم پائی تھی تبلیغ دین میں پوری کامیابی نہیں ہوتی بلکہ صدہا اور نئے فتنے کھڑے ہو جاتے ہیں تو یہ کاہل میواتی بغیر علم و تربیت کے اتنا نازک کام کیسے کریں گے ۔ لیکن ان میواتیوں کے عملی کام اور قرب و جوار کی متواتر خبروں اور تصدیقوں سے اور پھر ان کی آمد کی برکات کو خود ملاحظہ کرنے سے آپ کو اس کا اطمینان ہو ا۔ چنانچہ ایک موقع پر جب مولانامحمد الیاس صاحب نے اس طرز کے متعلق کچھ گفتگو کرنی چاہی تو مولانا نے فرمایا کہ دلائل کی ضرورت نہیں ،دلائل تو کسی چیز کے ثبوت اور صداقت کے لئے پیش کئے جاتے ہیں ، میرا تو اطمینان عمل سے ہو چکا ہے ۔اب کسی دلیل کی ضرورت نہیں ،آپ نے تو ماشا ء اللہ یاس کو آس سے بدل دیا۔ [26]

 

دیگر علماء کو زبانی ،تحریری ہر طرح سے اس کام پر آمادہ کرتے اور عملاً شرکت کے لئے ابھارتے رہے ۔ آپ ہر فرد کو اس کام میں لگانے کے لئے بے قرار رہتے تھے ۔جب بھی کو ئی اس کام میں شامل ہو تاتو اس کی شمولیت پر خوشی کا اظہار کرتے ۔کیوں کہ آپ کا اصل مقصد یہی تھا کہ لوگ اسلام سیکھیں اور سکھائیں ۔مولانا منظور نعمانی مولاناالیاس کی زبانی لکھتے ہیں:

 

’’ہماری اس تحریک کا اصل مقصد ہے مسلمانوں کو ’’جمیع مَا جَآءَ بِہِ النَّبِیُّؐ‘‘ سکھانا(یعنی اسلام کے پورے علمی و عملی نظام سے امت کو وابستہ کر دینا ) یہ تو ہے ہمارا اصل مقصد ۔رہی قافلوں کی یہ چلت پھرت اور تبلیغی گشت، سو یہ اس مقصد کے لئے ابتدائی ذریعہ ہے ۔اور کلمہ و نماز کی تلقین و تعلیم گو یا ہمارے پورے نصاب کی ’’الف ’بے‘ تے‘‘ ہے‘‘ ۔[27]

 

1940ء کے شروع میں میوات کے علاقے میں کام کافی مستحکم ہو چکا تھا ۔باہر سے بھی لوگ بستی نظام الدین آکر فیض حاصل کرنے لگے تھے ۔ اب ضرورت اس بات کی تھی کہ میوات سے باہر بھی جماعتیں بھیجی جائیں لیکن اس سے پہلے ایک بڑا جلسہ عام کیا گیا ۔ ’’10،9،8ذیقعدہ 1360ھ مطابق 30،29،28 نومبر 1941ء کو نوح (ضلع گوڑگاؤں)میں ایک عظیم الشان جلسہ ہوا، میوات کی سرزمین نے انسانوں کا اتنا بڑا اجتماع کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ شرکاء جلسہ کی تعداد کا تحقیقی اندازہ 20-25ہزار کیا جاتا تھا ۔ان شرکاء میں بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی تھی جو 30،30۔۔40،40 کوس پیدل چل کر اپنا سامان کندھے پر لاد کر آئے تھے۔مفتی کفایت اللہ نے اس جلسہ کے متعلق فرمایا :کہ میں 35 سال سے ہر قسم کے مذہبی اور سیاسی جلسوں میں شریک ہو رہاہوں،لیکن میں نے اس شان کا ایسا بابرکت اجتماع آج تک نہیں دیکھا ‘‘ ۔[28]

 

نوح کے مدرسہ میں تو سالانہ جلسے ہو تے رہتے تھے ۔لیکن یہ جلسہ تبلیغی جماعت کا پہلا عام جلسہ کہا جاتا ہے ۔ 1943ء میں جماعتیں کراچی بھیجیں گئیں۔اس طرح مولانا الیاسؒ کی زندگی میں میوات کے اضلاع میں کام مستحکم ہو گیا،سہارنپور ،رائے پور ، دہلی اور لکھنو کے علاوہ کراچی تک بھی جماعتیں جانا شروع ہو گئیں ۔دیارعرب میں کام کی کوششیں ہو ئیں اور دعوت کا کچھ نہ کچھ تذکرہ وہاں بھی شروع ہو گیا ۔ 13جو لائی 1944 ءکو مولانا کا انتقال ہو ا اور ان کے صاحبزادے مولانا محمد یوسف ان کے جانشین بنے ۔ محمد شاہد عادل مولاناطارق جمیل کی زبانی مولانا الیاسؒ کی تبلیغی محنت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

 

’’مولانا الیاس ؒ نے جب میواتیوں میں درس شروع کیا اور وہ مارتے تھے گالیاں دیتے تھے علماء نے کہا کہ مولوی الیاسؒ نے علم کو ذلیل کر دیا چونکہ کام وجود میں نہیں تھا کسی کو پتہ نہیں تھا علماء کہیں کہ یہ علم کی ذلت ہے مولانا الیاس نے کہا ’’ہائے میرے حبیب ﷺ توابوجہل سے مار کھا تا تھا میں مسلمان کی منت کر کے کیسے ذلیل ہو سکتاہوں میں تو اللہ کے کلمہ کے لئے ذلیل ہو کر عزت حاصل کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ کے کلمے کے لئے ذلت بھی عزت ہے یہ ذلیل ہو نا نہیں ہے یہ عزت والا ہو نا ہے ‘‘ ۔[29]

 

تبلیغ کے میدان میں مشکلات کا سامنا ضرور ہو گا ۔ مولانا سعید احمد خان بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس ؒکے بارے لکھتے ہیں کہ:’’اسی طرح سے ہم نے مولانا الیاس صاحب کازمانہ کچھ سنا ،کچھ دیکھا وہ بھی کسی قدر ابتلاء و امتحانات کا معلوم ہو تا تھا ۔لوگوں ک اعام استقبال نہ تھا اور شاہد ہی تین دن کے لئے کوئی نکلتا تھا ۔تعریف کرنے والے خال خال ،بد ظنی کرنے والے اکثر ۔یہاں تک کہ علموء بھی مایوسی دلاتے تھے یا اس کام پر اشکالات کرتے تھے اور بہت سے اعتراضات کرتے تھے ۔جماعتوں کا نہ تو استقبال تھا نہ کھانے کی دعوت ،بلکہ اپنی مسجدوں میں ان کا ٹھہرنا بھی ناگوار سمجھتے تھے ‘‘ ۔[30]

 

تبلیغی جماعت کے دوسرے امیر مولانا محمد یوسفؒ منتخب کئے گئے اس وقت حالات بہت خراب تھے مگر مولانا یوسؒف نے کام کو وسعت دینے کی منظم اور بھر پور کوششیں کیں، یہ سوچاگیا کہ دوسرے ملکوں میں داعی بن کر جانے کی صلاحیت یو ۔پی کے مسلمانوں میں ہے،یو۔پی کے مسلمانوں میں کام کے فروغ کی دو صورتیں تھیں ایک یہ کہ علماء کو اس کام میں شریک کیا جائے اور دوسرے انگریزی تعلیم یافتہ حضرات کو کام میں لگایا جائے ۔علماء کو شریک کرنےکیلئےمظاہر العلوم سہارنپور اور دارالعلوم دیوبند سےتعاون حاصل کیا جائے۔مولانا حسین احمد مدنی ؒ،حضرت عبد القادر رائے پوریؒ اور مولانا زکریا ؒنے سرپرستی کی تو ان کےشاگرد اور معتقدین اس طرف متوجہ ہو ئے اور کام آگےبڑھا ۔ انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ میں نفوذ کیلئے یہ طے کیاگیا کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کو ہدف بنا کر کام کیاجائے۔ علی گڑھ میں مولویوں کی بات کون سنے گا؟ اس پر غور اور مشورہ کے بعد طے کیا گیا کہ ضلع بلند شہر کے پٹھانوں کو اس کام میں شریک کیا جائے ۔ان لوگوں کی شرکت سے یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ اس کام میں شریک ہو گئے ۔ اس طرح تبلیغی کام میں بڑی تیزی کے ساتھ ترقی ہو ئی۔مولانا یوسفؒ نے سرزمین حجاز میں تبلیغ کے کام کو تیز کر دیا ۔اسی طرح لندن اوردیگربرطانوی شہروں مانچسٹر،بریڈ فورڈ، گلاسکو، برمنگھم وغیرہ میں جماعتیں نکلنی شروع ہو گئیں ۔ جاپان اور امریکہ کے بہت سے مقامات پر کام باقاعدہ طور پر ہو نے لگا ۔

 

مولانا یوسفؒ کی امارت کے ابتدائی حصے میں تقسیم ہند کے فسادات کے نتیجے میں بہت سے لوگ مرتد ہو نے لگے ۔ آپ نے ان کو دوبارہ اسلام میں لانے کی غرض سے جماعتیں روانہ کیں ۔کام کو منظم اور وسیع کرنے کی کوششوں ہی کے سلسلے میں آپ نے یہ طریقہ بھی اختیار کیا کہ پاکستان کے تبلیغی مرکز رائے ونڈ کے اردگرد میواتیوں کو آباد کیا ۔اس وقت بھی بہت سے گاؤں میں بڑی تعداد میں میواتی موجود ہیں ۔ان تمام اقدامات سے آپ کی دور بینی اور بالغ نظری ظاہر ہو تی ہے۔ان اقدامات کی بنا ء پر آپ کے دور میں تبلیغی جماعت ایک منظم عالمگیر تحریک بن گئی۔ 

 

دین کاکام مشکلات کے بغیر نہیں ہو تا ہے اگر مشکلات نہیں جھیلنی ہے تو کامیابی حاصل نہیں ہو تی ہیں ۔جس طرح رسول خدا ﷺنے تبلیغ کے آغاز سے لے کر اپنی وفات تک تبلیغ کے میدان میں تکالیف اور مشکلات کا سامنا کیا، اسی طرح تبلیغی جماعت کو بھی جماعت کے قیام سے اب تک مشکلات کا سامنا ہوا۔ جیسے آج کل پاکستان کے پنجاب حکومت نے صوبے بھر کے تعلیمی اداروں میں تبلیغی جماعت کے تبلیغ اور قیام پر پابندی عائد کر دی ہے ۔تفصیلات کے مطابق سانحہ باچاخان یو نیورسٹی کے بعد پنجاب حکومت کی جانب سے صوبے بھر کے تعلیمی اداروں کیلئے سیکورٹی پلان تشکیل دینے کا عمل کیا ۔ اس حوالے سے پنجاب حکومت نے تعلیمی اداروں کی حدود میں مساجد میں خطبات انتطامیہ کی منظوری سے دینے کی پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ تبلیغی جماعت پر یونیورسٹیز کی حدود میں تبلیغ کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے ۔ 

 

اس حوالے سے کالم نگار خورشید ندیم لکھتے ہیں کہ :’’چوہدری شجاعت حسین تبلیغی جماعت کے دفاع میں دور کی کوڑی لائے۔ فرمایا ،یہ اسلام کے خلاف بین الاقوامی سازش ہے ۔یہ غیر مسلم قوتوں کا کیا دھرا ہے ۔معلوم ہوتا ہے چوہدری صاحب دو عشروں سے داخلی سیاست میں کچھ اس طرح مصروف رہے ہیں کہ انہیں خارج کی خبر نہیں رہی ۔تبلیغی جماعت پر تو ناین الیون کے بعد بھی امریکہ میں پابندی نہیں لگی ۔امریکہ کی اکسی غیر مسم ملک میں بھی نہیں ۔یہ اعزاز صرف مسلم ممالک کو حاصل ہو ا کہ انہوں نے تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کی ہے ۔2007ء میں میرا امریکہ جانا ہو ا۔اس سفر میں ، میں یوٹا ریاست کے شہر سالٹ لیک سٹی میں بھی گیا ۔جمعہ کادن آیا تومجھے مسجد کی تلاش ہوئی ۔معلوم ہو ا یہاں ایک ’’مسجد خدیجہ ‘‘ہے۔ میں نماز کے وقت سے پہلے وہاں پہنچ گیا ۔ مسجد میں ادھر ادھر گھومتے پھرتے ایک الماری دیکھی جس میں قرآن مجید کے ساتھ تبلیغی نصاب بھی موجود تھا ،ایک رجسٹر بھی رکھا تھا ۔کھول کے دیکھا تو اس میں اردو انگریزی میں ان لوگوں کے نام لکھے تھے جنہوں نے گشت پر نکلنے کا ارادہ کیا تھا ۔اس مسجد میں دنیا کے ہر خطے کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں جو اس شہر یا قرب و جوار میں آباد ہیں ‘‘ ۔[31]

 

نتائج:

اللہ کے کاموں اور رضامندی کیلئے جتنی مشکلات کا سامنا ہو، ان پر صبر کیا جائے ،یہاں تک کہ کسی سے اس کا شکوہ بھی نہیں کرنا چاہیے،جیسے سرور کونین ﷺنے کفار مکہ کی زیادتیوں اور تعذیب کو صبر کے ساتھ برداشت کیا ۔ اللہ نے اُن کی مدد کی اور وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیا ب ہوئے۔ مبلغ کو چاہے کہ دعوت کے کام میں کتنی مشکلات کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے اسے اپنا مقصد نہیں چھوڑنا چاہیے ۔کفار مکہ نےحضورﷺ کو طرح طرح ستایااور تکالیف پہنچائیں تاکہ وہ اپنے مشن سے باز آجائیں،لیکن رسول خداﷺنےاپنامشن نہیں چھوڑا۔یہ بات سامنے آئی کہ تبلیغی جماعت والوں پر آپﷺکی طرح مشکلات تو نہیں آئیں لیکن تبلیغ اسلام کے معاملے میں مشکلات کا سامنا ضرور ہو ا ۔ تبلیغی جماعت والوں کو بھی جو مشکلات درپیش آتی ہیں، انہیں صبر کے ساتھ برداشت کرتے ہیں۔ مخالفین کی طرف سے دی گئی تکالیف کو بھی صبر سے برداشت کرتے ہیں ،سفر اور مالی مشکلات بھی برداشت کرتے ہیں ۔ بعض مبلغین ایسے ہیں جن کے پاس پیسے نہیں ہوتے ہیں یاہوتے ہیں مگر کم ہوتے ہیں۔ تو وہ انہی پیسوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور بھوک پیاس برداشت کرتے ہیں ۔ سفر کی مشکلات برداشت کرتے ہیں کبھی پید ل بھی چلتے ہیں ۔اسی طرح مخالفین کے اعتراضات کو نہ صرف برداشت کرتےہیں،بلکہ صبروتحمل کےساتھ ان کےاعتراضات کاجواب دیتےہیں۔

حوالہ جات

  1. انٹریو،فخرالدین ،مولانا،ٹیلیفونک ،کوئٹہ، صبح ۱۱ بجے ،12 اکتوبر2015ء
  2. محمد بن اسحاق بن یسار ، عبد الملک بن ہشام، سیرۃ النبی ابن ہشام ، المیزان، لاہور ،، 2010ء ،ج1 ، ص 223
  3. ایضاً ،ص229
  4. الشعراء214:26
  5. محمد بن سعد ،علامہ،طبقات ابن سعد، نفیس اکیڈمی،کراچی،سن ندارد،ج 1، ص 402
  6. بخاری ، ابوعبداللہ،محمد بن اسماعیل ،صحیح بخاری ،کتاب التفسیر ،باب تفسیر تبت یدا ابی لہب ،ج 4، ح 4619
  7. محمد بن اسحاق بن یسار ، عبد الملک بن ہشام، سیرۃ النبی ابن ہشام ، المیزان،لاہور ، 2010ء ،ج1، 230
  8. ایضاً ، ج 1،ص231
  9. ایضاً
  10. مبارکپوری،صفی الرحمن ،مولانا،الرحیق المختوم ، المکتبہ السلفیہ،لاہور ، 1995ء، ص140
  11. منصور پوری ، محمد سلیمان سلمان،قاضی،رحمۃ للعالمین ، مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،سن ندارد،ج1،ص43
  12. احمد بن حنبل ، امام ،مسند اما م احمد بن حنبل، مکتبہ رحمانیہ،لاہور ، سن ندارد ، ج 2،ح 3722 
  13. الھُمَزَۃ1:104
  14. محمد بن اسحاق بن یسار ، عبد الملک بن ہشام، سیرۃ النبی ابن ہشام ، المیزان،لاہور ، 2010ء، ج 1 ،ص 374 
  15. ایضاً، ص 375 
  16. ایضاً، ص235
  17. یہ غار پہاڑ کی بلندی پر ایک بھاری مجوف چٹان ہے جس میں داخل ہونے کا صرف ایک راستہ تھا وہ بھی ایسا تنگ کہ انسان کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر اس میں گھس نہیں سکتا ۔ صرف لیٹ کر داخل ہو نا ممکن تھا ۔مولانا عبدا لقیوم ، گلدستہ تفاسیر ،ج 3،ص143
  18. نبی کریم ؐ کا یہ معجزہ حضرت موسیٰ ؑ کے معجزہ کے مشابہ ہے ۔ جس طرح قارون موسیٰ ؑ کی دعا سے زمین میں دھنسا اسی طرح آنحضرت کی دعا سے سراقہ کا گھوڑا زمین میں دھنسا ۔ راستے میں ڈھونڈنے والوں کو دیکھتا تو کہتا کہ اس جانب کچھ بھی نہیں ہے میں دیکھ آیا ۔
  19. دہلی کے جنوب کا وہ علاقہ جس میں میو قوم آباد ہے،میوات کہلاتا ہے ۔ ایضاً، ص 59
  20. ندوی،سلیمان ،سید ،انبیاء علیہم السلام کے اصول دعوت و منہج دعوت اور مزاج نبوت صلی علیہ وسلم، مکتبہ محمودیہ،لاہور ،سن ندارد، ص 12
  21. رحمانی،خالد سیف اللہ ،مولانا ،راہ عمل ، زمزم پبلشر ز،کراچی، 2009ء، ج1،ص 340
  22. فیروز پوربھار ت کی ریاست پنجاب میں دریائے ستلج کے کنارے ضلع فیروز پور میں ایک شہر ہے۔
  23. میانجی، محمد عیسیٰ،تبلیغی تحریک کی ابتداء اور اس کے بنیادی اصول ، عمران اکیڈمی،لاہور، سن ندارد،ص 28-30
  24. ایضاً ، ص39
  25. ندوی،ابو الحسن علی ،مولانا،مولانا محمد الیاس اور ان کی دینی دعوت ، ادارہ اشاعت دینیات،نیودہلی ،2002ء،ص 91
  26. ایضاً ، ص 93
  27. نعمانی،محمدمنظور ،مولانا: ملفوظات حضرت مولانا محمد الیاس ،مدنی کتب خانہ ،کراچی، سن ندارد،ص 31
  28. ندوی،ابو الحسن علی ،مولانا:مولانا محمد الیاس اور ان کی دینی دعوت ، ادارہ اشاعت دینیات ،نیودہلی،2002ء،ص 104-105
  29. محمد شاہد عادل ،اکابرین دعوت و تبلیغ کے ملفوظات ، المیزان،لاہور،2013ء، ص20
  30. سعید احمد خان ،مولانا،تبلیغی کام کے اہم اصول ، ص 30
  31. خورشید ندیم ،تبلیغی جماعت پر پابندی ،مشمولہ ،دنیا ،روزنامہ، 3 فروری 2016ء
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...