Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

ریاست قلات میں نظام قضاء کا تحقیقی جائزہ |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

قضاء کی لغوی معنی

لغت میں قضاء کامعنی حکم اورفیصلہ کے ہیں اوریہ باب قضٰی یقضی(ضرب یضرب)فیصلہ کرنا اور قضٰی یقضی (تفعیل)قاضی بنانا کےمعنی میں آتا ہے ۔ قاضی شرعی حاکم کو کہتے ہیں اور اس کی جمع قضاۃ ہے۔ قضیتہ کا معنی معاملہ ہے اور اس کی جمع قضا یا آتی ہے۔[1]

اس کے علاوہ عربی زبان میں لفظ ’’قضاء‘‘ کئی معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ان سب میں جو مفہوم مشترک ہے وہ کسی چیز کے مکمل طور پر طے کر دینے یا ختم کردینے کے ہیں.چنانچہ اس کے ایک معنی ’’ حکم ‘‘ دینے کے ہیں جیسے وَ قَضٰی رَبُّکَ [2]’’اور تمہارے رب نے حکم دیا ہے‘‘ ۔ اس کےمعنی ادا کردینے کے بھی ہیں۔جیسےقرآن مجید میں ہےکہ: فَاِذَاقُضِیَتِ الصَّلٰوۃ[3]’’جب نماز ادا کردی جائے‘‘۔لغت کی کتابوں میں لفظ قضاء کے متعدد معنی آئے ہیں۔ ’’لیکن فریقین کے درمیان فیصلہ کرنا ‘‘اس کاکثیرالاستعمال مفہوم ہے۔اس کے علاوہ فقہا ء نے قضاءکی قانونی اوراصطلاحی تعریف مختلف الفاظ میں کی ہے۔علامہ کا سانی نے قضاء کی تعریف یوں کی ہے:

القضاء ھو الحکم بین الناس بالحق والحکم بما انزل اللہ عزوجل۔[4]

ترجمہ:   ’’قضاء کا معنی ہے لوگوں کے درمیان حق کے مطابق فیصلہ کرنا اور اس قانون کے مطابق فیصلہ کرنا جو اللہ نے

نازل کیا ہے۔‘‘

ارشاد بانی ہے:

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعبُدُوا اِلَّاۤ اِیَّاہ ۔[5]

ترجمہ:   ’’اور حکم دیا ہے تیرے رب نے کہ اس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو‘‘۔

علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں کہ:’’اہل حجاز نے کہا لغت میں قاضی اس شخص کو کہتے ہیں جو معا ملات میں فیصلہ کرنے والا اور حکم نافذ کرنے والا ہو صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ ؐ نے فر مایا ھذا قضی علیہ محمد ’’یہ وہ ہے جس کا محمدؐنے فیصلہ فرمایا [6]‘‘

قر آن مجید کی روشنی میں قضاء کی اہمیت

اسلام میں عدل کا مرکزی اور اولین ماخذ قر آن مجید ہے۔ قرآن مجید نے جو نظام عدل پیش کیا ہے اس نے انسانوں کی زندگی میں میانہ روی اور اعتدال پر رہنے کی تلفین ہے۔قرآن مجید نے ہمیں نظام عدل قائم کرنے اور ہر زاویہ زندگی میں عدل و انصاف کو اپنانے کی ہدایت فرمائی۔القضاء با لعدل اور القیام بالقسط ’’یعنی عدل و انصاف اور قانونی مساوات‘‘۔قر آن مجید میں اس اصول کا ذکر لفظ ’’عدل ‘‘ کے ساتھ آیا ہے اور اس کا تذکرہ کئی آیات میں واضح طور پر ہوا ہے۔اور قسط بمعنی انصاف اس کا تذکرہ بھی کئی آیات میں آیا ہے۔ احادیث رسولﷺاور اقوال صحابہ ؓ و تابعین میں عدل اور عادل کی مدح اور ظلم اور ظالم کی مذمت سینکڑوں مرتبہ کی گئی ہے۔اب ان آیات میں سے چند کا ذکر ہوگا جن میں عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔

یٰادَاوٗدُ  اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ بِالۡحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الۡہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَضِلُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ  لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌۢ بِمَا نَسُوۡا یَوۡمَ الۡحِسَابِ [7]

ترجمہ:   ’’اے داؤدؑ! ہم نے تم کو زمین پر خلیفہ(نائب اور حاکم)بنایا ہے ۔ پس لوگوں میں حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتےرہنا۔ اور آئندہ بھی نفسانی خواہشات کی پیروی مت کرنا۔(اگر ایسا کرو گے)وہ خدا کے راستے سے تم کو بھٹکا دے گی۔ جو لوگ خدا کے راستے سے بھٹکتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہوگا اس وجہ سے وہ زور حساب کو بھولے رہے‘‘۔

اس آیت سے اسلام کے سیاسی و قانونی نظام میں عدل گستری کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو خلافت الٰہی اور نیابت خدا وندی کی ذمہ داریاں سپرد کرنے کے ساتھ ہی جو سب سے پہلا فریضہ ان پر عائد کیا وہ لوگوں کے مابین حق و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے کا حق تھا۔ اسی وجہ سے مفسرین نے لکھا ہے کہ اسلامی نظام عدل کا قیام اسلامی ریاست کے اولین فرائض میں سے ہے۔ اسلامی ریاست کے سربراہ کے لئے یہ چیز فرض عین کا درجہ رکھتی ہے ۔ کہ وہ اسلامی اصول کے مطابق ایک ایسی عدلیہ قائم کر یں جو لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کی ذمہ داریاں پوری کرے۔[8]

اِنَّمَا کَانَ  قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ  اِذَا دُعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ  لِیَحۡکُمَ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ

الۡمُفۡلِحُوۡنَ[9]

ترجمہ:   ’’مسلمانوں کا قول صرف یہی ہو سکتا ہے جب کہ ان کو( کسی مقدمہ میں)اللہ کی اور اس کے رسولﷺ کی طرف بلایا جا تا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں کہ وہ(خوشی خوشی)کہہ دیتے ہیں(ہم نے سن لیا اور مان لیا)اور ایسے ہی لوگ آخرت میں فلاح پائیں گے‘‘۔

فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ  لَا  یَجِدُوۡا فِیۡۤ  اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا  مِّمَّا قَضَیۡتَ  وَ یُسَلِّمُوۡا  تَسۡلِیۡمًا [10]

ترجمہ:   ’’پھرقسم ہے آپ کے رب کی، یہ لوگ ایمان والے نہیں ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہو اس میں یہ لوگ آپ کو فیصلہ کن حیثیت دیں(اور آپ سے تصیفہ کرائیں)پھر آپ کے اس فیصلہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور پورا پورا تسلیم کریں‘‘۔

قر آن مجید میں اللہ تعالیٰ نبی اکرمﷺ کو یہ اعلان کرنے کی ہدایت فرماتا ہے:

وَ اُمِرۡتُ  لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ [11]

ترجمہ:   ’’اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان عدل کروں‘‘۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ(م 1979 ھ)لکھتے ہیں کہ:’’ کہ میں ان ساری گروہ بندیوں سے الگ رہ کر بے لاک انصاف پسندی اختیار کرنے پر مامور ہوں۔ میرا کام یہ نہیں کی کسی گروہ کے حق میں اور کسی گروہ کے خلا ف تعصب برتوں۔میرا سب انسانوں سے یکساں تعلق ہے اور وہ ہے سر اسر عدل و انصاف کا تعلق‘‘۔[12]

مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اس آیت میں تفسیر میں یوں رقمطر از ہیں:’’اور مجھ پر حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان عدل کروں جو اختلاف تم نے ڈال رکھے ہیں ان کا منصفانہ فیصلہ کروں اور تمہارے معاملات میں عدل و مسا وات قائم کروں‘‘۔[13]

اس آیت کی تفسیر میں پیر محمد کرم شاہ الا زہریؒ یوں رقمطراز ہیں:’’مجھے یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ میں ہر قسم کے ظلم و ستم کا خاتمہ کروں۔ تمام باطل کا قلع قمع کردوں۔ زندگی کے ہر شعبے میں ایسا نظام رائج کردوں کہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ تبلیغ احکام میں ، تنفید احکام میں ، امیر، غریب ،شاہ، گدا، عربی، عجمی، میں کوئی امتیاز بر قرار نہ رکھوں ‘‘۔[14]

وَ اَنِ احۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ  بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ  [15]

ترجمہ:   ’’پس ان کے درمیان فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے۔‘‘

وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ [16]

ترجمہ:   ’’جولوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں‘‘۔

وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ [17]

ترجمہ:   ’’جولوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں‘‘۔

وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ  الۡفٰسِقُوۡنَ [18]

ترجمہ:   ’’جولوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں‘‘۔

حدیث کی روشنی میں قضاء کی اہمیت

منصب قضاء ایک مشکل اور وقت طلب کام ہے  اس لئے اس منصب کو عدل و انصاف اور قرآن و سنت کے مطابق خوش اسلوبی سے انجام دینے والے کیلئے بڑے فضائل ہیں۔رسول اللہﷺسے ایسی بے شمار احادیث منقول ہیں جس میں عدل و انصاف کی تاکید اور ظلم و ستم پر وعید وارد ہے۔

عن بریدۃ قال رسول اللہ ﷺالقضاء ثلثۃ واحد فی الجنۃ واثنان فی النار فاما الذی فی الجنۃ فرجل عرف الحق فقضی بہ ورجل عرف الحق فجار فی الحکم فھوفی النار و رجل فقضٰی فی الناس علی جھل فھو فی النار[19]

ترجمہ:   ’’حضرت بریدہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا، قاضی تین ہیں ایک جنت میں اور دو دوزخ میں ہیں جس شخص نے حق پہنچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا وہ جنتی ہے اور جو شخص نے حق کو جاننے کے باوجود فیصلہ میں ظلم کیا وہ دوزخی ہے اور جس شخص نے جہالت پر لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا وہ بھی دوزخی ہے‘‘۔

عن عبداللہ قال قال رسول اللہ ﷺلا حسد الافی اشنین رجل آتاہ اللہ مالا فسلطہ علی ھلکۃ فی الحق و آخر اتاہ اللہ حکمۃ فھو یقضٰی بھا و یعلمھا[20]

ترجمہ:   ’’حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا : صرف دو چیزیں ایسی ہیں جن میں حسد کیا جاسکتا ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال ودولت سے نوازا اور حق کے راستہ میں اس کو خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائی دوسرا وہ شخص جس کو اللہ نے حکمت ودانائی سے نوازا وہ اس کے مطابق فیصلے بھی کرتا ہو لوگوں کو اس کی تعلیم بھی دیتا ہو‘‘۔

عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ صلی علیہ وسلم قال من ولی القضاء فقد ذبح بغیر سکین[21]

ترجمہ:   ’’حضرت ابی ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس شخص کو منصب قضاء پر مقرر کیا گیا اس کو گویا بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا‘‘۔

اس حدیث سے منصب قضاء کی اہمیت اور نزاکت کی طرف اشارہ ہے ۔ اس منصب کی ذمہ داریاں اس قدر زبردست ہیں کہ ان کو پورے طور پر کماحقہ انجام دینا ایسا ہی مشقت اور تکلیف کاکام ہے جیسے بغیر چھری کے ذبح ہونا۔اسلام نے عدل و انصاف پر بہت زور دیا ہے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اسکی وضاحت کی گئی اور نبی کری ﷺنے بھی ہمیشہ عدل وانصاف کو روار کھا۔ پھر صحابہ کرامؓ سے لیکر آج تک مسلم معاشرے میں عدل و انصاف کو بہت اہمیت حاصل ہے۔اسلامی نظام عدلیہ کو تین بڑے ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ پہلا دور حضور ﷺکا یہ ابتدائی دورتھا ، اس دور میں خلفائے راشدین کا دور بھی شامل ہے۔ دوسرا دور عباسی خلفاء کا دور ہے اس کے بعد تیسرا دور جو دولت عثمانیہ میں جدید اصلاحات کے نفاذ کا دور ہے۔خلفائے راشدین کے دور کے بعد اموی اور عباسی عہد میں بھی نظام عدل کا سلسلہ چلتا رہا اُس کے بعد مسلم اسپین میں بھی مسلمانوں کی حکومت عروج پر تھی یہاں بھی سب سے مقدس اور بڑا عہدہ قضاۃ کا ہوتا تھا۔

جب بر صغیر پاک وہند میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو مسلمان حکمرانوں نے بے لاگ عدل کیا۔برصغیر میں مسلمانوں کی آمدوقتاً فوقتاً ہوتی رہی لیکن باقاعدہ آمد محمدبن قاسم کے سندھ فتح کرنے کے بعد اسلامی حکومت کے قیام سے ہوئی۔ ہندوستان میں جب مسلمان آئے تو یہاں بھی وہی اسلامی قانون ان کارہنما تھا۔فتح سندھ کے تقریباً تین صدیوں بعد غزنویوں کی حکومت پنجاب میں قائم ہوئی تو انھوں نے عرب حکومت کی طرز پر عدلیہ قائم کی۔ اور عدلیہ کا یہ سلسلہ چلتا رہا بلا آخر پاکستان میں کئی ریاستیں قائم ہوئیں ان میں سے ایک ریاست ’’ریاست قلات ‘‘تھی جن پر بلوچوں کی حکومت 1530ءمیں قائم ہوئی اور یہاں بھی عدلیہ کا نظام متعارف کرایا گیا جن کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

ریاست قلات میں نظام قضاء

تاریخ کی روسے بلوچوں کی حکومت ریاست قلات میں 1530ءمیں قائم ہوئی مگر بلوچوں کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگیوں کی وجہ سے ان کی حکومت اتنی مستحکم نہیں تھی کہ وہ کوئی اپنا باقاعدہ قانون تیار کرتے۔ اگر چہ بحیثیت مسلمان ان کے آپس کے معاملات شر یعت کے مطابق طے پاتے تھے مگر تاریخ میں اس سلسلے میں کسی منظم عدالتی کوشش کا سراغ نہیں ملتا ہے۔ بلوچ عوام کے معتبر و اہل علم پر مشتمل ایک جرگہ ہوتا تھا جو آپس کے معاملات کا فیصلہ کرتا۔

جہاں کوئی شرعی معاملہ پیش آتا تو وہاں کسی عالم دین سے مسئلہ کا حکم معلوم کر کے جر گہ اس کا فیصلہ کردیتا ۔[22]

سب سے پہلے جس شخص نے ریاست قلات میں محکمہ قضاء کی بنیاد رکھی وہ موجودہ خوانین قلات کے جدامجد’’میر احمد یار خان‘‘ (1666ء یا 1695 ء)تھے[23]۔ان کے دور میں تمام معاملات کا فیصلہ باقاعدہ عدالتی طریقہ کار کے مطابق شریعت کے احکام کی روشنی میں ہوا کرتا تھا۔ وہ خود ایک نیک سیرت اور پابند شریعت حاکم تھے۔ ان کے بعد خوانین کے دورمیں قضاء کا محکمہ بدستور نافذ رہا۔ حتیٰ کہ بلوچوں کے خان اعظم میر نصیر خان نوری کا زمانہ(1749ء)آیا۔[24]

خان اعظم میر نصیر خان نوری بلوچی دنیا کا فقید المثال بلوچی رہنما کہلاتا ہے۔ نہ صرف عظیم رہنما ، سپہ سالار اور اولوالعزم قومی حکمران تھا ۔ بلکہ ایک پاکیزہ شخصیت اور شریعت کے پابندونیک سیرت انسان تھے۔ بلوچی تاریخ میں ان کا نام آفتاب وماہتاب کی طرح جگمگاتارہے گا۔ وہ بلوچوں کے قومی اتحاد کے عظیم علمبردار تھے۔ وہ پہلا بلوچ حکمران تھا جس نے بین الاقوامی سطح پر دیگر اقوام سے تعلقات قائم کئے اور دور دور تک شہرت پائی۔ وہ ایک بزرگ حکمران کی حیثیت سے بلوچوں میں مشہور ہیں۔ اسی بزرگی کی وجہ سے انہیں نصیر خان ولی اور نصیر خان نوری کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے [25]۔انہوں نے اپنی دور حکمرانی میں شریعت کے نفاذ کے لئے باقاعدہ کمیٹی تشکیل دی اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں شرعی احکام کو نافذ فرمایا۔تمام قبائلی علاقوں میں مسجد یں بنوائیں۔ پابندی صوم صلوٰ ۃ اور ادائیگی زکوٰۃ وغیرہ کے متعلق باقاعدہ سرکاری طور پر احکامات جاری کئے۔ محتسب کا ادارہ قائم کیا۔ پردے کی پابندی کے لئے احکامات جاری کئے ۔ تمام غیر اسلامی اور غیر شرعی رسومات کو موقوف کیا۔ خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے شرعی احکام کے مطابق درّے لگانے اور دیگر شرعی سزاؤں کا اجر اء فرمایا۔

نصیر خان اعظم نے بلوچی دنیا میں غیر اسلامی رسوم جاری وساری تھیں ان کو بیک جنبش قلم نیست و نابود کر کے خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے شرعی سزائیں مقرر فرمائیں۔[26]

تاریخ خوانین بلوچ میں میر احمدیار خان لکھتے ہیں:’’خان اعظم نے ایک ایسا دستور حیات بلوچی دنیا میں نافذ کر دیا جو کہ بلوچی رسم و رواج اور شرع انور کا عجیب و غریب امتزاج تھا۔ تبلیغ دین متین کے لئے زور و شورسے کام جاری وساری تھا اور شرعی فیصلوں سے متعلق ملک بھر میں محکمہ قضاء قائم کیا ۔میر نصیر خان نے اجراء شرعی محمدیؐ اور باقاعدہ تبلیغ دین متین کے لئے ایک منظم تبلیغی و تحقیقی کمیٹی مرتب فرمائی تاکہ وہ لوگوں کو دین اسلام کے احکام وارکان سے باخبر اور آشنا کریں اور خان اعظم وقتاً فوقتاً دورہ کر کے یہ معلوم کرلے کہ احکام دین وارکان اسلام پر کہاں تک عمل در آمد ہورہا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں نوے درّے لگانے کا حکم فرمایا۔ اس شرعی کمیٹی کے لئے آخوند غلام محمد کا تقرر فرمایا‘‘۔[27]

شرعی احکامات کے نفاذ اور دین اسلام کی تبلیغ کے لئے خان اعظم میر نصیر خان نے سال1159ءمیں باقاعدہ ایک فرمان جاری فرمایا تھا جس میں دیگر شرعی احکامات کے علاوہ ’’حدقذف‘‘ کے نفاذ کا حکم موجود ہے اور سود کی ممانعت کا بھی۔ یہ شرعی احکامات اس وقت تک بلوچی حکومت میں نافذ رہے جب تک انگریزوں نے قلات پر قبضہ نہیں کیا۔ پھر جیسا کہ انہوں نے ہندوستان سے شرعی احکامات اور شرعی عدالتوں کو ایک ایک کرکے ختم کیا اور ان کی بجائے انگریزی عدالتوں اور قوانین کو نافذکیا۔[28]

اسی طرح قلات میں بھی انگریزوں نے شرعی احکامات کی بجائے جرگہ سسٹم جاری کیا جو انگریزوں کے نامزد سرداران پر مشتمل ہوتاتھا۔ یہ 1876ءکا واقعہ ہے۔ اس کے بعد انگریز بلوچستان کے طول و عرض کے مالک بنے۔ خان خدائیداد خان کو انہوں نے ہزنائی نس کا لقب دے کر مبلغ ڈیڑھ لاکھ روپے سالانہ کی رقم اس کے لئے بطور وظیفہ مقرر کر دی ۔ اور بالآخر سال1893ءمیں بلوچ سرداروں کی ایما پر اسے معزول کر کے اس کے بڑے بیٹے محمود خان کو خان قلات مقرر کیا اور اس کے والد خدائیداد خان کو چند سال کے بعد جیل میں مقید رکھا جو جیل ہی میں فوت ہوگئے۔

میر محمود خان سال 1931ءتک قلات کے خان رہے مگر حکومت میں انگریزوں کے قوانین چلتے رہے۔ان کی وفات کے

بعد ان کے چھوٹے بھائی میر اعظم خان کو خان مقرر کیا گیا ۔ ان کا دور صرف ایک سال نو ماہ رہا۔ انہوں نے اپنے دور میں سرداروں کے ساتھ کچھ تعلقات پیدا کر نے کی کوشش کی۔ یہ خان ایک سمجھ دار نیک سیرت انسان تھے۔ مگر انگریز ی عمل دخل کی وجہ سے اس کے دور میں بھی اسلامی قوانین کے بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی[29]۔1933ء میں ان کی وفات کے بعدان کے صاحبزادے ’’خان احمد یار خان‘‘ والی قلات بنے جو اپنے جد امجد میر نصیر خان نوری کی طرف نیک سیرت انسان اور پاکباز انسان تھے ۔ باوجود انگریزی حکومت کے عمل دخل کے انہوں نے آتے ہی بلوچی علاقوں کا دورہ کیا ۔ تمام بلوچ سرداروں سے اپنے روابط استوار کئے۔ اپنے دور حکومت میں تعمیری و سیاسی امور سر انجام دینا شروع کیے۔ اولین اقدام انہوں نے یہ اٹھا یا کہ اپنے جد امجد کے فرمان شریعت 1159ء کو انہوں نے دوبارہ سارے بلوچستان میں نافذ کیا جس کی رو سے تمام غیر اسلامی رسوم کی بندش اور اسلامی احکامات کے نفاذ کا حکم جاری فرمایا[30]۔

یہ فرمان فارسی زبان میں ہے اور حسب ذیل ہے:

’’حکم عالی شد آنکہ سرکر دگان و سائر مردمان ایلات براہوی جہلان و مردہ سکنائے رودین جو، سوراب، وگدر، مشکے ونال، وڈھ، وخضدار ، وزیدی وکرخ وچکووباغبانہ و زہری وہندران وغیرہ ۔ بتو جہات خاطر عالی بودہ بدانند کہ درین وقت ، فضلیت و بلاغت پناہ قاضی غلام محمد محتسب ورفعت نشان پنڈوخ چوبداررابرائے اجرائے امر معروف ونہی عن المنکر حکماو بدلات واستمالت اجراء می نمایند سعی باید کہ ہر احدے ایشان موجب ولدلت واسمالت محتسب مزبور‘‘۔[31]

1:       سرورطنبور،ونے، وچنگ، ودف وغیرہ سرودہاوبد عت خانہ ہائے فقیراں و شادی و عروسی و سنت و شور۔

2:       مردان وزنان درعروسی بازی ورقص نہ کنند۔

3:       بنج وچرس وغیرہ مسکرات نہ خورندوزراعت بنج ہم نہ کنند۔

4:       ضعیف ہا(زنان)روبر ہنہ درباز ار و کوچہ ہانہ گردند۔

5:       سیروصحبت کہ جوانان جمع شدہ درتکیہ ہا وغیرہ جا ء ہا گو سفند کشتہ جشن می کنند۔

6:       سودائے بریدہ کہ بیع سلم است بغیر ہفت شرط شریعت نہ کنند۔

7:       مردان وزنان مسلمان درماتم ہا سر بر ہنہ نہ کردہ روئے و جان نہ خراشیدہ و خون نکردہ نوحہ نمایند۔

8:       دردائرہ فقیران مسلمانان رانشستن نہ گزار ندومردہ مسلمانان زلف نہ گزارند۔

9:       نماز جمعہ رااستوار داشتہ در شہرہا ناغہ نہ کنند و ہر کس بہ مسجد ہانان پختہ ہر محلہ ملا ہائے مساجد خودرابد ہند و نماز ہادر اول وقت خواندہ بہ تنگ وقت نہ گزارند۔

10:     مردان وزنان راتہمت ناحق بر زنامی دہند ھشتا ددرہ بہ تہمت دہندہ زدہ بہ سخنش باورنہ کنند ۔ پسر ودختررابے گناہ ایذانہ

رسانند۔[32]

11:     شیخ ہاکہ بر سر بیمار بردن نہ گزارندوبہ گفتہ ایشان با ورنہ کنند۔

12:     گو سفند بر سر قبر ستان وسنگ آستا نہ و کشتہ وروئے خونی فرزند عروسی واسپ وغیرہ نہ کنند و گوشت آن حرام مطلق است۔

13:     ازمال زکوٰۃ چہل یک بد ہندوزمین ہاکسے خراج نمی دہند’’دہ یک ‘‘زکوٰۃ بد ہند۔

14:     مسلمانان وہند وان راسوگرفتن نہ گزارند۔

         تحریر فے التاریخ 25جمادی الثانی 1159ء ھجرئیہ النبویہؐ۔[33]

مذکورہ بالا فرمان کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:

حکم عالیٰ ہوا کہ سرداران اور تمام عوام الناس جھا لاوان کے براہوی جو سوراب، گدر ، مشکے نال، وڈھ ، خضدار ، زیدی کرخ، چکو باغبانہ ، زہری پندران کے رہنے والے توجھ سے جانیے کہ اس وقت فضیلت و فضائل محترم قاضی غلام محمد عرف ہندوخ جو بدار کوامر بالمعروف ونہی عن المنکر جاری کرنے کے واسطے آپ کی طرف روانہ کر دیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ ہر جگہ امربا لمعروف اور نہی عن المنکر حکماً اور دلالتا ًواستعمالاً جاری کرتے رہیں۔

اور احکامات کی تفصیل درج ذیل ہے:

1:       سرور، طبل، بین، باجہ ، دف اور دیگر آلات وموسیقی جو فقیروں کے بدعت خانے اور شادی کےموقع پر ان چیزوں کے استعمال سےگریز کیا جائے۔

2:       خواتین حضرات شادی کے موقع پر رقص کرنے سے اجتناب کریں۔

3:       بھنگ اور چرس ودیگر نشہ آور اشیاء نہ استعمال کریں اور بھنگ کی کاشت بھی نہ کی جائے۔

4:       بوڑھی عورتیں جو بازار اور گلیوں میں بے پردہ گھومتی ہیں۔ وہ نہ گھوما کریں ۔

5:       سیروتفریح کے وقت اور مقابر(مزارات)پر جو بکرا کاٹا جاتا ہے کوئی نہ کریں، یہ بدعت کی جڑ ہے۔[34]

6:       بیع السلم بغیر سات شرط پورے کئے ہوئے نہ کی جائے۔وہ سات شرائط یہ ہیں کہ:(1)عقد معلوم ہو۔(2)جنس معلوم ہو۔ (3)نوع معلوم ہو۔(4)صفت معلوم ہو۔(5)مقدار معلوم ہو۔(6)اجل معلوم ہو ۔(7)راس المال معلو م ہو۔[35]

7:       مسلمان مرد اور عورتیں ماتم میں سر ننگا نہ کریں اور سینہ کوبی نہ کریں۔

8:       فقیروں کے محفل میں مسلمانوں کو بیٹھنے کی اجازت نہ دی جائے اور سر پر چوٹی نہ چھوڑیں۔

9:       نماز جمعہ کوقائم کریں اور شہروں میں اس کا ناغہ نہ ہو۔ اور اپنے علمائ کرام کی نان و نفقہ کے ذریعے خدمت کریں اور نماز کو پہلے وقت میں پڑھا کریں اور تنگ وقت کا انتظار نہ کریں۔

10:     مردعورتوں پر ناجائز تہمت زنانہ لگائیں ، تہمت لگانے کی صورت میں(80)اسی درے لگائےجائیں اور اس کی بات بھی نہ مانی جائے۔

11:     مجاور لوگ جو سر پا بال رکھتے ہیں اور ان کو بیمار لوگوں لے جایا جاتا ہے اس قسم کے مجاور لوگوں کے سر کے بال مونڈھ دیئے جائیں اور ان کی کسی بات کا اعتبار نہ کیا جائے۔

12:     قبرستانوں اور مزارات پر جو بکرے ذبح کئے جاتے ہیں ان کا گوشت مطلق حرام ہے۔

13:     مال زکوٰۃ سے چالیسواں(40)حصہ اور وہ زمین جس پر خراج ادا نہیں کیا جا تا اس کا عشر دیں۔

14:     مسلمان اور ہندو سود کے لین دین کوبند کریں۔

         15:     علمائے کرام کا خیال رکھا جائے اس کو خیرات تک دی جائے نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جائے کوئی ایک بھی شریعت کے دائرے سے باہر قدم نہ رکھے۔[36]

اس فرمان کے بعد خان احمد یار خان نے 1937ءمیں ایک اور فرمان جاری کیا جس میں دیگر امور کے علاوہ ’’دیوانی مقدمات‘‘کے فیصلے کیلئے شریعت کو قانون مقرر فرماکر حکم صادر کیا۔اسی فرمان کے شمار نمبر 5 میں ’’قاضیوں‘‘کے تقرر کا بھی ذکر ہے کہ تمام علاقوں میں قاضی تقرر کئے جائیں ۔ چنانچہ اس کے بعد مختلف احکامات و مختلف شرعی قوانین کے نفاذ کے سلسلے میں دربار قلات سےفرمان جاری ہوتے ہیں،چنانچہ بلوچستان کے ہر علاقے کیلئے ’’مُبَلِّغ کی تقرری ،مدارس کا قیام اور قاضیوں کا تقرر‘‘عمل میں لایا گیا۔

قاضی لوگوں کے مقدمات کی سماعت سیدھے سادے اور اسلامی طریقے سے کر کے انتظامیہ سے ان فیصلوں کا نفاذ کرواتے اور قاضیوں کے فیصلے کے خلاف ’’وزارت معارف‘‘ قائم کی گئی۔[37]

1949ءکو ایک اور فرمان جاری کیا گیا:کہ دیوانی مقدمات کا فیصلہ ہر حال میں شریعت کے مطابق کیا جائے۔ امیر غریب سردار عوام کا فرق نہ کیا جائے۔ چنانچہ کئی مثالیں ہیں کہ جس میں ’’خان آف قلات ‘‘ خود بھی بحیثیت مدعی علیہ قاضی کے عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے خلاف فیصلہ سن کر فوراً عملدر آمد کا حکم دیا۔[38]

اس کے علاوہ فوجداری مقدمات کے سلسلے میں ’’محکمہ انصاف‘‘ قائم فرمایا اور ’’تعزیرات قلات‘‘ کے نام سے ایک پینل کو ڈتشکیل دیا گیا۔ملک بھر میں قتل و جرائم کے لئے جو ضابطہ محض خون بہا کی صورت میں موجود ہے ان کو منسوخ کر کے ان کی جگہ قصاص ودیت کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ اس کے علاوہ خان اعظم نے اپنے دور حکومت میں کئی محکمے قائم کئے جو مندرجہ ذیل ہیں۔

1:مذہبی معاملات

مذہبی معاملات سے متعلق ادارے کا قیام عمل میں لایا ۔ دیوانی مقدمات کے لئے ہر تحصیل میں قاضی کا تقرر ، مجلس شوریٰ کا قیام اور وزارت معارف قائم کیا گیا۔

2:شریعت کا نظام

شریعت کا نظام بحال کر دیا گیا ۔ اسلامی احکامات کی توضیح کے لئے مبلغین اوراعظین مقرر کئے گئے ۔ خان اعظم کے فرمان کو

دوبارہ نافذ العمل کرایا گیا۔

3:محکمہ انصاف

ایک پینل کو ڈ بنام’’ تعزیرات قلات‘‘ جاری کرکے بلا امتیاز سب کے لئے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا گیا۔ ظلم وجبرواستحصال کوروک دیا گیا۔

4:تعلیمی اصلاحات

طلباء کے لئے تعلیمی و ظائف جاری کئے گئے ۔ طالب علموں کو ہندوستان کی اہم در س گاہوں اور بیرون ملک یونیورسٹیوں میں بھیجا گیا ۔ ریاست میں تعلیمی اداروں کا جال بچھانے کے لئے تیزی سے اقدامات کئے گئے۔[39]

5:دستور العمل دیوانی قلات:

اس کے بعد قلات میں دیوانی مقدمات کے لئے دستور العمل دیوانی قلات کے نام سے ایک قانون بنایا گیا، جواب تک نافذ ہے جس کی رو سے علماء کرام کا ایک پینل ہر قسم کے دیوانی مقدمات کا فیصلہ شرع انور کے احکامات کی روشنی میں کرتا ہے ۔

نیز ایک قانون ’’قانون شہادت ریاست قلات ‘‘ کے نام جاری کیا گیا اور فوجداری مقدمات کے لئے ’’ضابطہ فوجداری ‘‘کا نفاذ بھی عمل میں لایا گیا۔[40]

بلوچستان میں نظام قضاء کی موجودہ حیثیت

اس وقت بلوچستان میں قضاء کا محکمہ دوقوانین کے ذریعے قائم ہے۔

1:       ایک قانون دستور العمل دیوانی قلات جو سابقہ ریاست ہائے متحد ہ بلوچستان میں نافذ ہے۔

         2:       دوسرا بلوچستان دیوانی تنازعات اطلاق شریعت ریگولیشن 1976ءہےجوبلوچستان کےقبائلی علاقوں میں سال1976ء سے نافذ ہے۔

سابقہ ریاست ہائے متحدہ بلوچستان سے مراد:سابقہ ریاست قلات بشمول کچھی،ریاست خاران،ریاست مکران و ریاست لسبیلہ  جو بلوچستان کے جنوبی علاقے ہیں۔

قبائلی علاقوں سےمراد:ڈیرہ بگٹی،کوہلو،مری،لورالائی ڈویژن(سوائےتحصیل دکی)،چاغی(سوائےتحصیل نوشکی)۔اور بلوچستان کے مشرقی ، شمالی اور مغربی علاقے ہیں اور وسطیٰ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں انگریز ی قانون نافذ ہے ۔ ان علاقوں میں نصیر آباد ڈویژن،اوستہ محمد سب ڈویژن،سبی ڈویژن ،ضلع زیارت،ضلع کچھی سے تحصیل مچھ، کوئٹہ اور چاغی سے نوشکی تحصیل شامل ہیں۔[41]

دستور العمل دیوانی اور ریگولیشن 1976ءمیں فرق

1:       دستور العمل دیوانی قلات کے تحت قائم قاضی عدالتوں کو وسیع اختیارات حاصل ہیں ۔ ابتدائی عدالت کی حیثیت سے لاکھوں

مالیت کی جائیداد کے دعویٰ کی سماعت اختیارا نہیں حاصل ہے۔ عدالت مجلس شوریٰ دستور العمل دیوانی قلات کی رو سے صرف عدالت اپیل ہوتی ہے ۔ اسے ابتدائی سماعت کے کسی مقدمے کا اختیار سماعت حاصل نہیں ہے۔جبکہ اس کے برعکس ریگولیشن کے تحت قائم قاضی عدالتوں کو ابتدائی سماعت کے مقدمات کا اختیار پچاس ہزار روپے مالیت تک حاصل ہے۔ پچاس ہزار سے زائد مالیت کے مقدمات کیلئے ابتدائی عدالت مجلس شوریٰ ہے۔

2:       دوسرا فرق دستور العمل دیوانی اور ریگولیشن میں یہ ہے کہ دستور العمل کی رو سے قاضی ہر ایک کے خلاف مقدمہ سماعت کر سکتا ہے ۔ خواہ حکومت کے خلاف ہو یا نیم سرکاری ادارے کے خلاف ہو۔جبکہ ریگولیشن کی رو سے قاضی حکومت یا نیم حکومتی اداروں کے خلاف مقدمات کی سماعت کا اختیار نہیں رکھتا۔

3:       تیسرا فرق ہے کہ دستور العمل دیوانی قلات کے علاقوں میں فیملی کورٹ ایکٹ ، رینٹ کنٹرول ایکٹ اور بلوچستان ٹینفنسی آرڈر نینس مجریہ1976ءنافذ ہیں ۔ جن کی رو سے قاضی فیملی کورٹ جج اور رینٹ کنٹرولر ہوتا ہے۔ فیملی کورٹ کی اپیلوں کا اختیار سماعت صدر مجلس شوریٰ کو حاصل ہے۔ اس میں ممبران مجلس شوریٰ نہیں بیٹھ سکتے۔جبکہ رینٹ کے مقدمات کی اپیل ہائی کورٹ میں دائر کی جاسکتی ہے اور بلوچستان ٹینفنسی آرڈر نینس کی رو سے مالک اور مزارع کا مابین مقدمات کا اختیار سماعت دیوانی عدالت کو نہیں بلکہ ریونیو عدالت کو حاصل ہوتا ہے۔اس کے برعکس ریگولیشن کے تحت مندرجہ بالا تمام قسم کے مقدمات کا اختیار سماعت قاضی کو حاصل ہوتا ہے۔ جہاں یہ قوانین نافذ نہیں ہوتے ہیں ۔

4:       چوتھا فرق دستور العمل اور ریگولیشن میں ہے کہ دستور العمل کی رو سے مجلس شوریٰ میں اپیل کی سماعت دو ممبران مجلس شوریٰ کر سکتے ہیں ۔ خواہ ان میں صدر مجلس شوریٰ ہو یا نہ ہو ۔جبکہ ریگولیشن کے تحت قائم کردہ عدالت مجلس شوریٰ میں اپیلوں کی سماعت اور ابتدائی مقدمات کے دوران ضروری ہے کہ دوممبران میں سے ایک چیئر مین ہو صرف دو ممبران سماعت نہیں کرسکتے ۔

5:       پانچواں فرق ہے کہ ستور العمل والی مجلس شوریٰ میں اختلاف رائے کی صورت میں صدر مجلس شوریٰ کی رائے معتبر ہوگی۔ جب سماعت صدر اور ایک ممبر کررہے ہوں ۔ تین ممبران کی صورت میں کثرت رائے کا اعتبار ہوگا۔

دو ممبران کے مابین اختلاف کی صورت میں اپیل تیسرے ممبر یا صدر مجلس شوریٰ کو پیش ہوگی اور کثرت رائے سے اپیل کا فیصلہ ہوگا۔ اس کے بر عکس ریگولیشن میں اگر اختلاف رائے ہوتو عدالت ماتحت کا فیصلہ عدالت مجلس شوریٰ کا فیصلہ قرار پائے گا۔[42]

خلاصہ کلام یہ ہے کہ خان قلات نے ریاست قلات میں جو نظام قضاء متعارف کرایا جو ایک بہترین نظام قضاء تھا اور اس کے ذریعے تمام کیسزز جلدی حل ہو جاتے تھے ۔ عوام کو آسانی سے انصاف مہیا ہوتا تھا اور اس وقت الحمد اللہ بلوچستان کے کافی اضلاع میں یہ

سلسلہ نافذ العمل ہے۔

حوالہ جات

[1] مولوی فیروزالدین ،فیروز اللغات ، فیروز سنز،کراچی۔ 1970ء،ص 180

[2] بنی اسرائیل: 23

[3] الجمعہ: 6

[4] کا سانی ،علامہ ابو بکر بن مسود حنفی ،بدائع الضائع فی ترتیب الشرائع ، دارا لفکر،بیروت،1980ء،ص 62

[5] بنی اسرائیل:23

[6] افریقی ،ابن منظور ابو الفضل محمد بن مکرم ،لسان العرب ،دارصادر،بیروت،1970ء،ص 180

[7] ص: 26

[8] عثمانی ،مفتی محمدتقی ،آسان ترجمہ قرآن ، ادارۃ المعارف،کراچی،2004ء،ج2،ص118

[9] النور: 51

[10] النسا: ۴

[11] الشوریٰ: 15

[12] مودودی ،سید ابو الاعلی ،تفہیم القرآن ،ادارہ معارف اسلامی،لاہور،1990ء،ج 2،ص190

[13] عثمانی ،علامہ شبیراحمد، تفسیر عثمانی ،ادارہ تالیفات اشرفیہ،ملتان،1990ء،ص 290

[14]الازہری،پیر کرم شاہ ، ضیاء القرآن ،ضیا القرآن فاؤنڈیشن، لاہور،1988ء،ص 371

[15] المائدہ : 49

[16] المائدہ : 44

[17] المائدہ : 45

[18] المائدہ : 47

[19] السجستانی،ابو داؤدسلیمان بن اشعث ،السنن ،کتاب الاحکام، باب فی طلب القضاء،مکتبہ امدایہ،ملتان،1980ء، حدیث3573

[20] البخاری ،ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل ،الجامع الصحیح،کتاب الاحکام،باب فی القاضی یخطئی،قدیمی کتب خانہ، کراچی، 1380ھ،حدیث3575

[21] السجستانی،ابو داؤدسلیمان بن اشعث ،السنن ، کتاب الاحکام، باب اجرمن قضی بالحکمۃ، حدیث7228

[22] قاضی محمد انور ، ذکری ریاست قلات کے حکمرانوں کے نظر میں، مکتبہ دارالعلوم،بھاگ ناڑی،بلوچستان،1994ء،ص 07

[23] ایضاً

[24] میراحمد یار خان ، تاریخ بلوچ قوم و خوانین بلوچ ، کتا ب گھر اردو بازار، لاہور،2004ء،ص30

[25] ایضاً

[26] فاروق بلوچ، خان اعظم میر نصیر خان نوری ،فکشن ہاوس،لاہور،2012ء،ص 30

[27] میرا حمد یار خان، تاریخ بلوچ قوم و خوانین بلوچ، ص33

[28] فاروق بلوچ،خان اعظم میر نصیر خان نوری،ص23

[29] گل خان نصیر، تاریخ خوانین قلات ،گوشہ ادب، کوئٹہ،2005ء،ص 65

[30] ایضاً

[31] قاضی محمد انور ، ذکری ریاست قلات کے حکمرانوں کے نظرمیں ،ص40

[32] ایضاً

[33] ایضاً،ص42

[34] ایضاً،ص45

[35] القدوری البغدادی ،احمد بن جعفر ،مختصر القدوری ، سعید کمپنی،کراچی، باب السلم، ص180

[36] میرا حمد یار خان،تاریخ بلوچ قوم و خوانین بلوچ،ص46

[37] ایضاً،ص71

[38] ایضاً

[39] گل خان نصیر،تاریخ قوانین قلات ،ص66

[40] ایضاً

[41] لیکچر رقاضی محمد انور ، دارالعلوم ،بھاگ ناڑی ،جون2007ء

[42] ایضاً

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...