Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

علامہ سیوطی کی کتاب لباب النقول فی اسباب النزول کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید:

اسلام دین فطرت اور مکمل ضابطہ حیات ہے تعلیمات اسلامی کی مآخذ میں سے قرآن کریم پہلا اور بنیادی ماخذ ہے۔ قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے جن علوم کی ہمیں ضرورت ہے ان کو ’’علوم القرآن ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔علوم القرآن کی سینکڑوں انواع ہیں جن میں سے ’’سبب نزول‘‘ نہایت اہمیت کی حامل نوع ہے۔ ماہرین ِعلوم القرآن نے اس فن پر کتب تحریر کرتے ہوئے’’ اسباب نزول ‘‘ کی نوع کو لازمی طور پر اپنی کتب کا حصہ بنایا ہے ۔ علوم القرآن کی اس نوع کی اہمیت کا اندازہ اس بات س بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس پر علماء کرام ومفسرین عظام نے باقاعدہ الگ سے کتب تحریر فرمائی ہیں ۔ علامہ واحدی کے بعد اس نوع پر باقاعدہ طور پر علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے’’ لباب النقول فی اسباب النزول‘‘ کے نام سے قابل قدر کتاب تالیف فرمائی ہے۔اس مقالہ میں علامہ جلال الدین سیوطی ؒکے مختصر تعارف کے بعد ان کی اس جلیل القدر کتاب کا تعارف ، اس میں امام موصوف کا منہج واسلوب ، کتاب کی خصوصیات، کتاب پر ہونے والا کام اور اس کتاب کے اثرات کو بیان کیا جائے گا۔

 

علامہ جلال الدین سیوطیؒ کا تعارف:

ابوالفضل عبدالرحمٰن بن ابی بکرجلال الدین سیوطیؒ رجب 849ھ کو مصر میں پیدا ہوئے اور 19 جمادی الاول 911ھ میں وفات پائی۔امام جلال الدین سیوطی ؒ نے یتیمی میں پرورش پائی۔ آپ نے آٹھ سال کی عمر سے قبل ہی قرآن کریم حفظ کر لیا۔ ابتداءً امام نوویؒ کی عمدۃ الاحکام اور المنہاج اسی طرح الفیہ ابن مالکؒ اور المنہاج للبیضاویؒ حفظ کیں۔ مزید آپ نے جن عظیم ہستیوں سے کسب علم وفیض کیا ان میں سے سراج الدین البلقینی ، حافظ مناوی ، تقی الدین الشبلی ، محی الدین الکافیجی،الشمنی ،الشارمساحی اور سیف الدین الحنفی رحمھم اللہ زیادہ نمایاں ہیں۔ کتب تراجم میں 42 کے قریب خواتین کے اسماء کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جن سے علامہ سیوطی نے علم حاصل کیا۔امام سیوطی کے طلب علم کے شوق کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ 869ھ کو حج کرنے گئے تو زم زم پیتے وقت آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ : اے اللہ مجھے فقہ میں سراج الدین البلقینی اور حدیث میں ابن حجر جیسا رتبہ عطا فرما۔[1]

 

امام سیوطی عالم باعمل اور زہد وتقویٰ جیسی صفات عالیہ سے متصف محقق اور مصنف تھے ،آپ کا زمانہ بادشاہوں کا زمانہ تھا لیکن امام سیوطی نے کبھی بھی بادشاہوں کے دربا ر میں حاضری نہ دی اور نہ ان کے عطیات و تحائف وصول کئے، آپ اپنی ضروریات کیلئے لوگوں سے بھی کسی قسم کا سوال نہیں کرتے تھے۔ان کے شاگرد شازلی بیان کرتے ہیں:وکان اذا احتاج الی شیء من النفقة باع من کتبه واکل من ثمنھا وبعت لہ کتبا کثیرۃ علی یدی ولم یسال مخلوقا فی شیء من امر الدنیا ولم یُعلم بحالہ احدا۔[2]

 

اللہ تعالیٰ نے آپ کو تفسیر ، حدیث ،فقہ ، نحو، معانی اور بدیع جیسے عظیم علوم میں ایک خاص ملکہ عطا کیا ۔آپ کو اس امت کے مجدددین میں سے ایک مجدد مانا جاتا ہے۔ امام سیوطی نے دین اسلام کی تعلیمات کے ہر گوشہ کے بارے قلم اٹھایا۔ آپ کی تالیفات کے متعلق مختلف لوگوں نے مختلف تعداد ذکر کی ہے اور کئی کتب تراجم میں آپ کی کتب کے اسماء کی فہرست ذکر کرنے کا اہتمام بھی کیا گیاہے۔امام سیوطی کے شاگردعبدالقادر الشاذلی نے ’’ بهجة العابدین بترجمة حافظ العصر جلال الدین‘‘ کے تیسرے باب میں امام سیوطی کی 524 کتب کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ وہ کتب ہیں جن کو امام سیوطی نے اختیار کیا اور اپنی وفات تک ان کو اپنی کتب میں شامل رکھا[3]۔ بروکلمان نے 415 اور الاستاذ جمیل بک العظم نے 576 کتب کا تذکرہ کیا ہے[4]۔عبدالقادر العیدروس ؒ نے النور السافرمیں کہا کہ امام سیوطی کی کتب کی تعداد 600 ہے اور جو کتب انہوں نے دھو ڈالی تھیں وہ ان کے علاوہ ہیں[5]۔ایاد خالد الطباع نے اپنی کتاب میں امام سیوطی کی کتب کی تعداد1194 لکھی اور ساتھ انہوں نے تمام کتب کے اسماء کی فہرست بھی ذکر کی ہے اور امام سیوطی کی کتب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے : 1:مطبوع2:مخطوط 3:مفقود۔[6]

 

الاتقان فی علوم القرآن، الدر المنثور فی التفسیر بالماثو،لباب النقول فی اسباب النزول، تفسیر الجلالین،

 

تدریب الراوی،الأشباہ والنظائر فی الفقہ،الاشباہ والنظائر فی النحو،جمع الجوامع،طبقات المفسرین،اسعاف المبطاء فی رجال الموطاء اور حسن المحاضرۃ جیسی کتب امام جلال الدین سیوطی کی مشہور کتب ہیں۔امام سیوطی اور ان کے معاصرین کے مابین تصنیف وتالیف کے سلسلے میں شدید قسم کے ’’تنافس‘‘ کی فضاء بن چکی تھی جو حسد اور اتہام تک چا پہنچی تھی اسی وجہ سے آپ پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ آپ معاصرین اور متقدمیں کی کتب چوری کرکے ان میں کچھ رد وبدل کرکے ان کو اپنی طرف منسوب کر لیتے ہیں اور ان کی اکثر کتب وہ جو انہوں نے مکتبہ محمودیہ سے لیں ان میں کچھ تغیر وتبدل کر کے اپنی طرف منسوب کر لیالیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ صرف معاصرانہ چشمک کی وجہ سے تھا ، امام سیوطی جب بھی کسی سے کچھ نقل کرتے ہیں تو ساتھ اس کا حوالہ اور نام ذکر کرتے ہیں جو سرقہ نہیں کہلا سکتا۔

 

لباب النقول فی اسباب النزول کے مآخذ ومصادر:

علامہ جلال الدین سیوطی نے علوم القرآن میں خاص ایک نوع ’’اسباب النزول‘‘ پر ایک مناسب حجم والی کتاب تالیف فرمائی ہے جس میں انہوں نے قرآن کریم کی آیات کے سبب نزول کو بیان کرنے میں احادیث وآثار کو بنیاد بنایا ہے۔اس سلسلہ میں انہوں نے علوم اسلامیہ اور بالخصوص علوم القرآن والتفسیر کے بنیادی مآخذ سے استفادہ کیا ، امام موصوف نے کتاب ہذا کے مقدمہ میں کتاب تالیف کرنے کے لئے مآخذ ومصادر کا خود تذکرہ فرمایا ہے اور کچھ مآخذ ایسے بھی ہیں جن کے بارے اطلاع کتاب کے مطالعہ سے ملتی ہے۔ ذیل میں ان ماخذ ومصادر کا اجمالی تذکرہ کیا جارہاہے جن کے حوالے ’’لباب النقول فی اسباب النزول‘‘میں موجود ہیں :

 

٭ الجامع الصحیح المسند المختصر من أمور رسول اللہ وسننہ وأیامہ،ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری(256ھ)

 

٭الجامع الصحیح،مسلم بن حجاج القشیری (261ھ) ٭جامع ترمذی،ابوعیسٰی محمدبن عیسیٰ الترمذی(279ھ)

 

٭سنن نسائی،ابو عبدالرحمٰن احمد بن علی بن شعیب النسائی(303ھ)

 

٭سنن ابی داود،ابو داود سلیمان بن اشعث سجستانی (275ھ)

 

٭سنن ابن ماجہ، ابو عبداللہ محمد بن یزید ابن ماجہ القزوینی (273ھ)

 

٭سنن سعید بن منصور،ابو عثمان سعيد بن منصور بن شعبہ الخراسانی (227ھ)

 

٭مستدرک حاکم،ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ بن محمد الضبی الطہمانی النیشابوری المعروف بالحاکم ابوعبداللہ بن البیع(405ھ)٭صحیح ابن حبان،أبو حاتم محمد بن حبان (354ھ)

 

٭سنن البیھقی،ابوبکرأحمدبن الحسين بن علي البیھقی (458ھ) ٭مسنداحمد،احمدبن محمدبن حنبل(241ھ)

 

٭سنن دارقطنی،ابوالحسن علی بن احمد الدارقطنی البغدادی (385ھ)

 

٭مسند بزار(البحر الزخار فی زوائد مسند البزار)،ابو بكراحمد بن عمرو بن عبد الخالق البزار (292ھ )

 

٭مسند ابی یعلیٰ، شیخ الاسلام ابو يعلى احمد بن علی بن المثنى بن يحيی بن عيسىٰ بن ہلال التميمی الموصلی(307ھ)

 

٭الدلائل لابی نعیم،ابو نعیم احمد بن عبد اللہ بن احمد بن اسحاق بن موسى بن مہران الاصفہانی (336ھ)

 

٭الدلائل للبیھقی،ابوبکر أحمد بن الحسين بن علي البیھقی (458ھ)

 

٭مسند لمسدد،مسدد بن مسرهد بن مسربل بن مغربل بن مرعبل البصري أبي الحسن(228ھ)

 

٭مسند حارث بن اسامہ،حارث بن محمد بن ابی اسامہ (282ھ)

 

٭مسند الطیالسی،أبو داود سليمان بن داود بن الجارود الطيالسي البصرى (204ھ)

 

٭مسند اسحاق بن راھویہ،ابو یعقوب اسحاق بن ابراھیم بن مخلد الحنظلی المروزی (238ھ)

 

٭المعجم الکبیر،ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب اللخمی الطبرانی (360ھ)

 

٭المعجم الاوسط،ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب اللخمی الطبرانی (360ھ)

 

٭مصنف ابن ابی شیبہ،امام حافظ ابوبکر عبداللہ بن محمدبن ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ العبسی الکوفی(235ھ)

 

٭مصنف عبدالرزاق،أبو بكر عبد الرزاق بن همام بن نافع الحميري اليماني الصنعاني(211ھ)

 

٭جامع البیان عن تاویل آی القرآن،ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری(310ھ)

 

٭تفسیر ابن ابی حاتم،ابو محمد عبدالرحمٰن بن محمد بن ادریس الحنظلی التیمی الرازی (327ھ)

 

٭الکشف والبیان عن تفسیر القرآن،ابو اسحاق احمد بن محمد بن ابراہیم الثعلبی (427ھ)

 

٭تفسیر ابو الشیخ،ابو محمد عبداللہ بن محمد بن جعفر بن حیان الاصبھانی (369ھ)

 

٭تفسیر ابن حبان،أبوحاتم محمد بن حبان (354ھ)

 

٭فضائل القرآن (تفیسر الفریابی)،ابوبکر جعفر بن محمد بن الحسن بن المستفاض الفریابی (301ھ)

 

٭تفسیر عبدالرزاق،الامام المحدث عبدالرزاق بن ھمام الصنعانی (211ھ)

 

٭کتاب تفسیر القرآن (تفیسر ابن المنذر)،امام ابوبکر محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری (318ھ)

 

٭تفسیر اسحاق بن راھویہ،ابو یعقوب اسحاق بن ابراھیم بن مخلد الحنظلی المروزی (238ھ)

 

٭طبقات ابن سعد،ابوعبد اللہ محمد بن سعدبن منیع البصری الزہری الہاشمی(230ھ)

 

٭تاریخ دمشق لابن عساکر،حافظ ابوالقاسم علی بن ابی محمد الحسن بن ہبتہ اللہ (571ھ)

 

٭التاریخ الکبیر،محمد بن اسماعیل البخاری(256ھ)

 

٭اسباب نزول القرآن،ابو الحسن علی بن احمد بن محمد بن علی الواحدی (468ھ)

 

٭فتح الباری،احمد بن على بن محمد بن علی بن احمد ،ابن حجر العسقلانی(852ھ)

 

٭کتاب صفوۃ الصفوۃ،ابوالفرج عبدالرحمٰن بن ابوالحسن علی بن محمدبن علی بن عبید اللہ قرشی تیمی بکری حنبلی,ابن جوزی (597ھ)٭کتاب ھواتف الجان،خرائطی٭اخرج الباوردی (ص43)

 

٭اخرج عبد فی تفسیرہ (ص69(٭اخرج مقاتل فی تفسیرہ (ص269)

 

٭اخرج الضیاء فی المختارۃ (ص270(٭ذکرھبۃ اللہ بن سلامۃ فی الناسخ(ص45)

 

٭قال الزرکشی فی البرھان (ص 8مقدمۃ اللباب)٭قال ابن دقیق العید (ص7مقدمۃ اللباب)

 

٭قال ابن تیمیہ (ص 7مقدمۃ اللباب)٭قال محمد بن سیرین (ص7مقدمۃ اللباب)

 

٭قال الحاکم فی علوم الحدیث (ص7مقدمۃ اللباب)٭ومشی علی ھذا ابن الصلاح (ص7مقدمۃ اللباب)

 

لباب النقول میں امام سیوطی ؒ کا منہج و اسلوب:

٠لباب النقول میں امام سیوطی نے تالیف وجمع آوری کا منہج اختیار کیا ہے۔

 

٠اس کتاب میں امام سیوطی کا منہج بیانیہ اور کچھ مقامات پر تجزیاتی ہے۔

 

٠امام سیوطی نے تحقیقی اسلوب اختیار کیا ہے اور آغاز سے لے کراختتام تک کتاب کا اسلوب تقریبا ایک جیسا ہی ہے۔

 

٠امام سیوطی نے سادہ اور عام فہم عربی زبان میں یہ کتاب قلم بند فرمائی ہے۔

 

٠کتاب مقدمہ کے بعد 102 عنوانات پر مشتمل ہے ۔

 

٠امام سیوطی نے 102 سورتوں کی منتخب آیات کا سبب نزول بیان کیا ہے۔

 

٠12 سورتوں الفاتحۃ،النمل،الملک،نوح،الانشقاق،البروج،البلد،الشمس،البینۃ،القارعۃ،العصراور الفیل کا امام سیوطی نے لباب النقول میں تذکرہ نہیں کیا۔یوں کتاب کا پہلا عنوان/باب سورۃ البقرۃ ہے اور آخری عنوان سورۃ المعوذتین ہے۔

 

٠ابواب کی ترتیب سورتوں کی اسی ترتیب کے مطابق ہے جو ترتیب قرآنی مصاحف میں ہے۔

 

٠امام سیوطی سورۃ کے نام سے باب قائم کرتے ہیں اور اس کے بعد مزید تقسیم ’’قولہ تعالی‘‘کے ساتھ کرتے ہیں یعنی ایک آیت کا سبب نزول ذکر کرنے کے بعد جب اگلی آیت کا تذکرہ کرنا ہو تو الفاظ ’’قولہ تعالیٰ‘‘ درج فرماتے ہیں۔

 

٠آپ جس آیت کا سبب نزول بیان کرنا مقصود ہو اس پوری آیت کو تحریر کرنے کی بجائے اس آیت کے ابتدائی چند الفاظ ذکر کرکے’’الآیۃ ‘‘ لکھتے ہیں۔

 

٠ایک باب (یعنی سورۃ ) کے تحت متعدد آیات کا سبب نزول ذکر کرتے وقت آیات کو قرآنی ترتیب کے مطابق ہی لاتے ہیں۔

 

٠آیات کےسبب نزول کےمتعلق احادیث ذکر کرتےوقت اس کےمصدرکا لازمی ذکر کرتے ہیں۔

 

٠حدیث میں بسا اوقات مکمل سند بھی ذکر کرتے ہیں اور بسا اوقات صرف کتاب کا نام ذکر کرتے ہیں،سند پوری ذکر نہیں کرتے۔جیسے : روی البخاری وغیرہ عن عمر قال: وافقت ربی فی ثلاث ، ۔۔۔۔۔[7]

 

٠کچھ روایات و آثار جن کی سند کے صحیح نہ ہونے کا امام سیوطی کو علم بھی تھا ان کو بھی امام سیوطی نے متعلقہ آیات کے سبب نزول میں ذکر کیا ہے جیسے: ۔۔۔۔۔اخرج الحاکم فی المستدرک والبیھقی فی الدلائل بسند ضعیف ۔۔۔[8]

 

٠بعض اوقات مولف اور کتاب دونوں کا نام ذکر کرتے ہیں جیسے : قال شیخ الاسلام ابن حجر فی فتح الباری ۔۔۔[9]

 

٠ بعض اوقات صرف مولف /مفسر کا نام ہی ذکر کرتے ہیں کتاب کا نام ذکر نہیں کرتے۔ جیسے : اخرج ابن جریر عن ابی العالیہ قال : قالت الیھود ۔۔۔۔[10]

 

٠سبب نزول کے متعلق متعدد اقوال ہوں تو ان کو الگ الگ ذکر کرنے کا اہتمام کرتے ہیں ۔[11]

 

٠بعض مقامات پر متعدد اقوال میں سے راجح اور اصح قول کی نشاندہی بھی فرماتے ہیں،جیسے: ۔۔۔۔قلت: القول الاول اصح اسنادا و انسب بما تقدم اول السورۃ ۔[12]

 

٠کئی مقامات پر متعدد اقوال کو ذکر کر کے بغیر کوئی تبصرہ کئے گزر جاتے ہیں اور اصح /راجح کی نشاندہی نہیں فرماتے۔[13]

 

٠حدیث ذکر کرنے کے بعد اس کی سند پر کلام بھی فرماتے ہیں جیسے : ۔۔۔۔۔۔ ھذاالاسناد واہ جد،فان السدی الصغیر کذاب و کذا الکلبی ، وابو صالح ضعیف [14]۔جیسے : ۔۔۔۔۔۔ عبد الغنی واہ جدا ۔[15]

 

٠ایک آیت کے سبب نزول میں ذکر کردہ حدیث کی سند اور متصل اگلی آیت کے سبب نزول کی حدیث کی سند اگر ایک ہی ہوتو دوبارہ مکمل سند ذکر کرنے کی بجائے ’’من الطریق المذکور‘‘کے الفاظ استعمال فرماتے ہیں۔ جیسے: اخرج ابن ابی حاتم من الطریق المذکور ۔۔۔۔[16]

 

٠ ایک صحابی کی حدیث اگر حدیث کی متعدد کتب میں ہوتو سب کا تذکرہ فرماتے ہیں جیسے: اخرج مسلم والترمذی والنسائی عن ابن عمر قال: کان النبی ﷺ یصلی علی[17] ۔جیسے: اخرج الأئمة الستة وغیرھم عن زید بن ارقم قال: کنا نتکلم علی عھد رسول اللہﷺ فی الصلاۃ ۔۔۔[18]

 

لباب النقول کی امتیازی خصوصیات:

٠امام سیوطی کی یہ کتاب درمیانے حجم کی اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔

 

٠اس کتاب میں امام سیوطی نے قرآن کریم کی 102 سورتوں کی متعدد آیات کے اسباب نزول کو احادیث و آثار کی روشنی میں بیان کیا ہے۔

 

٠ اس کتاب میں امام سیوطی نے بنیادی مآخذ ومصادر (کتب حدیث وتفسیر )سے براہ راست استفادہ کیا ہے ۔

 

٠کتا ب کی ترتیب بہت عمدہ ہے اور مولف نے سورتوں اور آیات کو مصحف قرآنی کی ترتیب سے کتاب میں جمع کیا ہے۔

 

٠امام سیوطی کی دیگر کتب کی طرح یہ کتاب بھی اپنے میدان میں ایک موسوعہ کی حیثیت کی حامل ہے جس میں امام سیوطی نے آیات کے اسباب نزول بارے خاطر خواہ تعداد میں اقوال وآراء کو جمع کر دیا ہے۔

 

٠اس میں امام سیوطی نے جو احادیث بیان کی ہیں وہ باحوالہ ہیں یعنی اس کو بیان کرنے والے محدث /کتاب کا باقاعدہ تذکرہ کیا گیاہے ۔

 

٠اس کتاب میں امام سیوطی نے صحیح وضعیف اور مقبول ومردود روایات کی نشاندہی بھی فرمائی ہے۔

 

٠اس کتاب کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ امام موصوف نے وہی روایات ذکر کیں ہیں جن کا تعلق اسباب نزول سے ہے ، غیر متعلقہ روایات جمع نہیں کیں۔

 

جدت طرازی:

کتاب کے مقدمہ میں اسباب نزول سے آگاہی ضروری ہے یا نہیں اس بحث کے بعد امام سیوطی نے امام واحدی کی کتاب کاتذکرہ کیا ہےکہ یہ کتاب اس فن (اسباب نزول) میں مشہور کتاب ہے مگر میری کتاب کچھ باتوں میں اس کتاب سے ممتاز ہے۔یہ کتاب علامہ واحدی کی کتاب سے مختصر ہے ، ہر حدیث کی اس کے بیان کرنے والے کی طرف نسبت کرنا، صحیح وغیر صحیح اور مقبول و مردود کی نشاندہی کرنا، متعارض روایات میں جمع کی صورت ، اور صرف اسباب نزول کی احادیث کو ذکر کرنا اور غیر متعلقہ کو ذکر نہ کرنا اس کتاب کے امتیازات ہیں[19]۔(امام سیوطی نے یہ بات اس لیے ذکر کی کیونکہ امام واحدی نے کچھ ایسی احادیث و آثار کا تذکرہ بھی کیا ہے جن کا اسباب نزول سے تعلق نہیں ہے )

 

کتاب پر ہونےوالا کام:

1:امام سیوطی کی کتاب لباب النقول فی اسباب النزول کو موسسۃ الکتب الثقافیۃ بیروت لبنان نے 2002ء میں شائع کیا ہے لیکن اس کی تحقیق معیاری نہیں ہے اور محقق کا نام بھی کتاب پر درج نہ ہےتاہم کتاب کے آخر میں محقق نے فہرست اطراف الحدیث،فھرست الاعلام،فہرست القبائل،فہرست المدن والأماکن والبلدان اور فہرست الغزوات کے عناوین کے تحت فہارس بڑی محنت سے تیار کی ہیں۔

 

2:’’ اسباب نزول آیات قرآن کریم‘‘ کے نام سے596 صفحات پر مشتمل لباب النقول فی اسباب النزول کا فارسی میں ترجمہ وتحقیق www.aqeedeh.com نامی ویب سائیٹ نے شائع کیا ہے۔نا م مترجم عبدالکریم ارشد،نام محقق عبدالرزاق المہدی اور یہ کتاب www.islamhouse.com پر بھی دستیاب ہے۔

 

3: لباب النقول کو الاستاذ احمد عبدالشافعی کی تحقیق کے ساتھ دالکتب العلمیہ ،بیروت لبنان نے شائع کیا ہے۔

 

4: یونیورسٹی آف ساؤتھ افریقہ میں لباب النقول پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا ہے ۔ مقالہ نگار محمد حسن محمد الخولی نے پروفیسر یوسف دادو کے زیر اشراف 508 صفحات پر مشتمل مقالہ ’’شرح لباب النقول فی اسباب النزول‘‘کے نام سے تحریر کیا جو مئی 2014ء میں مکمل ہوا ۔عربی زبان میں لکھے گئے اس مقالہ میں مقالہ نگار نے ایک مخطوط نسخے پر کام کیا ہے اور کتاب میں مذکورہ احادیث و آثار کی تخریج اور ان کی صحت وضعف کے حکم کو واضح کیا ہے ،اسباب نزول کیلئے امام سیوطی نے جن آیات کو کتاب میں نقل کیا ہے ان کے اسباب نزول کے متعلق جو باتیں امام سیوطی نے ذکر نہیں کیں ان کا استدراک کیا ہے اور پھر کتاب میں مذکورہ آیات کی مختصر تفسیر ذکر کی ہے اور ساتھ کتاب میں وارد غریب الفاظ کی وضاحت بھی کی ہےیہ مقالہ www.media.tafsir.net پر دستیاب ہے۔

 

5: لباب النقول کو دارالکتاب العربی ،بیروت لبنان نے 2006ء میں عبدالرزاق المہدی کی تخریج وتعلیق کیساتھ شائع کیا ۔

 

لباب النقول کے اثرات:

امام سیوطی کی دیگر کتب کی طرح یہ کتاب بھی مابعد کتب کیلئے مصدر ومرجع کی حیثیت رکھتی ہے،امام سیوطی کے بعد آنے والے مؤلفین ومصنفین میں سے جس نے بھی اسباب النزول پر قلم اٹھایا اس نے لازمی طور امام سیوطی کی اس کتاب کو اپنے مصادر ومراجع میں شامل کیا۔

 

1: الشیخ عطیہ بن عطیہ الاجہوری(1190ھ)نے اپنی کتاب ’’ارشاد الرحمٰن لاسباب النزول والناسخ والمنسوخ والمتشابہ وتجوید القرآن‘‘میں لباب النقول سے استفادہ کیا۔

 

2: ابو عبداللہ عثمان السالمی العتمی اپنی کتاب غایۃ المامول فی التعلیقات علی الصحیح المسند من اسباب النزول میں اکثر یہ لکھتے نظر آتے ہیں کہ : ’’وقال السیوطی فی لباب النقول۔۔۔۔۔۔‘‘

 

3: تین جلدوں پر مشتمل الاستیعاب فی بیان الاسباب میں مولفَین :سلیم بن عبد الہلالی اور محمد بن موسیٰ آل نصر امام سیوطی کی کتاب الدر المنثور اور لباب النقول سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں۔

 

4: الصحیح من اسباب النزول میں عصام بن عبدالمحسن الحمیدان نے لباب النقول کو اپنے مصادر مراجع میں شامل کیا

 

5: الصحیح المسند من اسباب النزول میں ابو عبدالرحمٰن مقبل بن ھادی الوادعی نے امام سیوطی کی کتاب الاتقان اور لباب النقول سے استفادہ کیا ہے ۔

 

خلاصہ یہ کہ ان اہم کتب کے علاوہ اردو و دیگر السنہ میں لکھی گئی کتب اور پی ایچ ڈی وایم فل وغیرہ کے لئے لکھے جانے والے مقالات میں جہاں اسباب النزول کی بات آتی ہے تو مصنفین ہر باب اور ہر فصل میں امام سیوطی کی لباب النقول کا تذکرہ کرتے نظر آتے

 

ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ امام سیوطی کی یہ کتاب باقاعدہ ایک موسوعہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

حوالہ جات

  1. العید روس،عبدالقادربن شیخ بن عبداللہ،الحسینی،الحضرمی،الیمنی الہندی،(1038ھ)،النورالسافرعن اخبارالقرن العاشر، دارصادر بیروت لبنان،الطبعة الاولی،2001ء،ص90،91
  2. بھدۃ العابدین للشاذلی،ق:34 بحوالہ:ایاد خالد الطباع، جلال الدین السیوطی معملة العلوم الاسلامیہ ،دارالقلم دمشق،الطبعة الاولیٰ،1996ء،ص 78
  3. ایاد خالد الطباع، جلال الدین السیوطی معملة العلوم الاسلامیہ ، دارالقلم دمشق، الطبعة الاولیٰ،1996ء، ص309
  4. مقدمة المحقق،الاتقان لسیوطی،مؤسسة الرسالة ، الطبعة الاولی، 2008
  5. النور السافر،ص91
  6. سیوطی، عبدالرحمٰن بن ابی بکر جلال الدین ، معملة العلوم الاسلامية، ص312تا 405
  7. سیوطی،عبدالرحمٰن بن ابی بکرجلال الدین،لباب النقول فی اسباب النزول،مؤسسة الکتب الثقافیہ،ط:اول،2002ء،ص 25
  8. ایضاً ، ص16
  9. ایضاً ، ص17
  10. ایضاً ، ص17
  11. ایضاً ، ص15
  12. ایضاً ، ص14
  13. ایضاً ، ص15
  14. ایضاً ، ص12
  15. ایضاً ، ص13
  16. ایضاً ، ص22
  17. ایضاً ، ص22
  18. ایضاً ، ص48
  19. ایضاً ، ص9-10
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...