Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

معاشرتی بدامنی کے معاشی اسباب: تعلیمات نبوی کی روشنی میں |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

Economic causes of social insecurity describes the risk of economic loss faced by workers and households as they encounter the unpredictable events of social life. This review suggests a nine-part framework for studying the distribution and trends in these economic risks. Empirical research in these areas reveals high levels of economic insecurity among low-income households and suggests an increase in economic insecurity with the growth in economic inequality in the Country. The solution of social insecurity because of Economic causes is also discussed in the light of Teachings of Holy Prophet.

تمہید:

اسلام ایک فطری دین ہے، اس نے انسان کے اجتماعی شعورکالحاظ رکھاہے اورانسان کے باہمی میل جول سے پیداہونے والی اجتماعیت کوتسلیم کیاہے، اسلام انسانوں کی اجتماعیت کوتقویت دینے یابالفاظ دیگرمعاشرتی نظام کی اصلاح کے لیے صالح بنیادفراہم کرتاہے اوران عوامل کابیخ کنی کرتاہے جس سے معاشرے میں فساد اوربدامنی پیداہوجائے ۔آج ہمارامعاشرتی نظام فساداوربدامنی کاشکارہے اوراس فساداوربدامنی کے اہم اسباب میں سے معاشی اسباب بھی شامل ہیں، مذکورہ مضمون میں معاشرتی بدامنی اورفساد کاسبب بننے والے اہم معاشرتی اسباب کاتذکرہ کیاجاتاہے ۔

 

اسلام میں خرید فروخت اورلین دین کے معاملات میں کوئی ایسا معاملہ جائز نہیں جس سے فاسد نظام معیشت بروئے کار آئے یااس کوکسی قسم کی بھی اعانت پہنچے، یااس کے نتیجہ میں معاشرے میں بدامنی پیداہوجائے، اسی لیے اسلام نے ربوا (سود) کے ہرقسم کے تجارتی کاروبار، قمار (جوا) کی تمام ظاہری وخفی اقسام واصناف، احتکار واکتناز کی تمام اشکال، اسی طرح کے عقود فاسد ہ کی دوسری تمام صورتوں کوناجائز اورمردود قراردیا اورمعاملات کے کسی شعبہ میں بھی ’’فاسد معاشیات‘‘کودخیل اور بروئے کارنہیں آنے دیا ۔ معاشرتی بدامنی کے سبب بننے والے چنداہم فاسدمعاشی معاملات درج ذیل ہیں ۔

 

1: اکتناز (Concentration) :

اکتناز کالفظ کنز سے نکلاہے، یعنی وہ مال ودولت جو خزانہ کیاجائے یاجمع کیاجائے اورجسے خدا اور بندوں کے حقوق بھی ادانہ کئے جائیں، تویہ اکتناز کی وہ شکل ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَایُنْفِقُوْنَہَافیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍoیَوْمَ یُّحْمیٰ عَلَیْہَا فِیْ نَارِجَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَجُنُوْبُہُمْ وَظُہُوْرُہُمْ ھٰذا مَاکَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا ماکُنْتُمْ تَکْنِزُوْن۔[1]

 

’’== ==اورجولوگ خزانہ بناکررکھتے ہیں سونے اورچاندی کواور اس کواللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، سوان کو دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو، اس روز (واقع ہوگا) جبکہ اس (سوناچاندی) کودوزخ کی آگ میں تپایاجائے گا، پھراس سے ان کی پیشانیاں اورپہلو اورپیٹھیں داغی جائیں گی (پس ان سے کہاجائے گا) یہی ہے وہ جسے تم اپنے واسطے جمع کرتے رہے تھے، سواب مزہ چکھو اپنے جمع کرنے کا‘‘۔

 

اس آیت کی تفسیرمیں حضرت مولاناعبدالماجد دریاآبادی لکھتے ہیں:

 

’’کنز کے لغوی معنی اس مال کے ہیں جوکسی ظرف میں محفوظ کرکے رکھا گیا ہو، یا زیرزمین دفن کردیاگیاہو، لیکن حدیث نبوی ؐ اوراصلاح شرعی میں کنز سے مراد وہ مال لیاگیاہے جس کی زکوٰۃ ادانہ کی جائے اورجس کی زکوٰۃ اداہوتی رہے، اس پراطلاق کنز کانہ ہوگا ۔محدث بیہقی نے نافع مولیٰ ابن عمرؓ صحابی سے روایت کی ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ ادا ہوچکی، وہ کنز نہیں ہے، چاہے زمین کے سات پردوں میں گڑاہو اورجس کی زکوٰۃ ادانہیں ہوئی، وہ کنز ہے، چاہے سطح زمین پر کھلاپڑاہو ۔یہ قیدخوب ذہن نشین رہے ۔وعید انہی لوگوں کے حق میں ہے جو غایت حرص کی بناپرمال کے حقوق واجب ادانہیں کرتے، اس سے ظاہر ہے کہ قرآن مجید نے جس مال کو مذموم قراردیاہے وہ مطلق جمع نہیں، بلکہ صرف وہ جمع ہے جس میں ضروری مصارف خیرکی گنجائش نہ رکھی جائے اوراس مفہوم پر بجزایک صحابیؓ ابوذرؓ اورچنداہل زہد کے باقی اکابر صحابہؓ اکابر تابعین اورجمہورعلماء کااتفاق ہے ۔اس آیت میں سونے اورچاندی کانام بطور مثال اورنمونہ کے لیے دیاگیا کہ عموماً مال وجائیداد کے بڑے ذریعہ یہی ہیں، یہ مراد نہیں کہ حصول دولت وجمع دولت کاحصر انہیں دو چیزوں میں ہے اوراکتناز کرنے والوں کے لیے اتنی صریح، شدید، مؤکد وعید عذاب سے ظاہرہے کہ بڑے بڑے کوٹھی وال مہاجنوں، بینکروں کی طرح سونے چاندی کے ڈھیر پرڈھیر جمع کرتے رہنے کی گنجائش اسلام میں نہیں ‘‘[2]

 

اسی طرح ایک اورآیت میں اللہ تعالیٰ کنز کرنے والوں اورمال خرچ نہ کرنے والوں کے بارے میں ارشادفرماتے ہیں:

 

وَلَایَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآاٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْرًا لَّہُمْ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ۔[3]

 

’’جولوگ اللہ کے دیے ہوئے فضل میں بخل کرتے ہیں، وہ یہ گمان نہ کریں کہ یہ فعل ان کے لیے اچھاہے، بلکہ درحقیقت یہ

 

ان کے لیے بُراہے ‘‘

 

ایک اورمقام پرارشادفرماتے ہیں:

 

وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ oاَلَّذِیْ جَمَعَ مَالاً وَّعَدَّدَہٗ oیَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗ اَخْلَدَہٗ ۔[4]

 

’’بڑی خرابی ہے ہرایسے شخص کی جوعیب ٹٹولنے والا، غیبت کرنے والا ہو ۔جومال جمع کرتاجائے اورگنتاجائے ۔وہ سمجھتاہے کہ اس کامال اس کے پاس سدا رہے گا‘‘

 

دولت کی محبت، لامحدود ملکیت کی خواہش اوربخل یہ تینوں چیزیں سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہیں، جبکہ اسلام کاان تینوں چیزوں سے دورکابھی واسطہ نہیں اوراسلام کی تعلیمات یہ ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہوجائے، بلکہ یہ دولت گردش میں رہے، ارشادخداوندی ہے:

 

کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ۔[5]

 

’’خبردار ایسانہ ہو کہ مال ودولت صرف تمہارے دولتمندوں میں ہی محدود ہوکررہ جائے ‘‘

 

اس آیت سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام بالعموم سرمایہ داری یاسرمایہ کے اجتماع ومرکزیت کے حق میں نہیں، بلکہ اسلام کی معاشی تعلیمات کامنشایہ ہے کہ دولت ہمیشہ گردش میں رہے، اپنی ضرورت سے زائد مال حاجتمندوں کی ضروریات پرخرچ کیاجائے، اکتناز ہی کو ختم کرنے کے لیے زائداز ضرورت فی سبیل اللہ خرچ کرنے کاحکم دیاگیاہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ کارشادہے:

 

وَفِیْ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّآءِلِ وَالْمَحْرُوْمِ۔[6]

 

’’اوران کے مالوں میں سائل اورنادارلوگوں کاحق ہے ‘‘

 

ان سب آیات سے یہی نتیجہ نکلتاہے کہ مال ودولت کو سمیٹ سمیٹ کر خزانہ بنالینا مقصد نہیں، بلکہ دولت کامقصد اجتماعی خوشحالی اورکفالت عامہ ہے، تاکہ نظام دنیا صالح بنیادوں پراستوارہو، حضرت مولانا سیوہاروی ان آیات کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

 

’’ان سب آیات کی روح یہ ہے کہ دولت وثروت جمع وذخیرہ کے لیے نہیں ہے، بلکہ صرَف وخرچ کے لیے ہے اوراس کامصرف ذاتی وانفرادی تعیش کی بجائے انفرادی واجتماعی ضروریات کی کفالت ہے، اسی لیے ان آیات کی تفسیرمیں جمہور کامسلک یہ ہے کہ جس مال سے زکوٰۃ اوردوسرے مالی فرائض ادانہ کئے گئے ہوں توہ مال احتکار واکتناز کی فہرست میں شامل اورکنز سے متعلق وعید کا مصداق ہے اوراسی قسم کی دولت وثروت کانام سرمایہ داری ہے اوریہ حرام اورباطل ہے اورتباہ کردینے کے قابل، اورا پنی ضروریات اوراہل وعیال کی حاجات اصلیہ اورمالی فرائض وواجبات کی ادا کے بعد بھی دولت باقی بچے، تواس کاپس انداز (جمع) کرنا اگرچہ جائز ہے، مگر خلاف اولیٰ ہے ۔کیونکہ اب اس مال پر اجتماعی حقوق عائد ہوچکے ہیں اور اب اس کواجتماعی حاجات میں صرف ہوناچاہیے اورجمہور کے

 

خلاف ابوذرغفاریؓ اوربعض علماء اسلام اس کو بھی جمع کرکے رکھنا حرام بتاتے ہیں ‘‘۔[7]

 

شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ لکھتے ہیں:

 

’’جملہ اشیاء علم بدلیل فرمان واجب الاذعان خَلَقَ لَکُمْ مَافِی الْاَرْضِ جَمِیْعاً (البقرۃ 29: 2) تمام بنی آدم کی مملوک معلوم ہوتی ہیں یعنی غرض خداوندی تمام اشیاء کی پیدائش سے رفع حوائج جملہ ناس (انسان) ہے اورکوئی شئ فی حدذاتہ کسی کی مملوک خاص نہیں بلکہ ہرشۂ فی حد ذاتہ کسی کی مملوک ہے اورمن وجہ سب کی مملوک ہے، ہاں بوجہ رفع نزاع وحصول انتفاع قبضہ کو علت ملک مقررکیاگیا اورجب تک کسی شئ پرایک شخص کاقبضہ تامہ مستقلہ باقی رہے، اس وقت تک کوئی اوراس میں دست درازی نہیں کرسکتا ۔ ہاں خود مالک وقابض کو چاہیے کہ اپنی حاجت سے زائد پرقبضہ نہ رکھے، بلکہ اس کو اوروں کے حوالے کردے، کیونکہ باعتبار اصل دونوں کے حقوق اس کے ساتھ متعلق ہورہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مال کثیر حاجت سے بالکل زائد جمع رکھنا بہتر نہ ہو ا، اگر زکوٰۃ بھی اداکردی جائے اورانبیاء وصلحاء اس سے بغایت مجتنب رہے، چنانچہ احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے، بلکہ بعض صحابہ وتابعین وغیرہ نے حاجت سے زائد رکھنے کو حرام ہی فرمایا ۔بہرکیف غیر مناسب وخلاف اولیٰ ہونے میں تو کسی کو کلام ہی نہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ زائد علی الحاجۃ سے تواس کی کوئی غرض متعلق نہیں اوراوروں کی ملک من وجہ اس میں موجود توگویا شخص مذکور من وجہ مال غیرپرقابض ومتصرف ہے‘‘[8]۔’’حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کامذہب یہ تھاکہ اہل وعیال کے نفقہ سے زیادہ روپیہ جمع کرنا قطعاً حرام ہے، وہ اسی کافتویٰ دیتے، اسی کی تبلیغ کرتے اوراسی کاسب کو حکم دیتے تھے ‘‘۔[9]

 

اس کی بنیاد وہ نبی کریم ﷺ کے ان ارشادات پررکھتے ہیں جن میں جوڑ جوڑ کررکھنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اوراللہ کریم کی رضاجوئی کے لیے محتاجوں پرخرچ کردینے کی تاکید اورستائش کی گئی ہے، ان بہت سی احادیث میں سے ایک حدیث درج ذیل ہے، جسے حضرت ابوذرؓ روایت کرتے ہیں:

 

’’میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ کے علاقہ حرہ میں چل رہاتھا، ہمارارخ احد کی طرف تھا، آپ ؐ نے فرمایا: ابوذرؓ! میں نے عرض کیا: حاضر ہوں، اے اللہ کریم کے رسول ﷺ ! آپؐ نے فرمایا: مجھے اس بات سے خوشی نہ ہوگی کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو، پھر اس پرتین روز گزرجائیں اورمیرے پاس اس میں سے ایک دینار بچ جائے، البتہ ادائیگی قرض کے لیے کچھ بچالوں تو اوربات ہے، ہاں میں اسے اللہ کریم کے بندوں میں ایسے اورایسے اورایسے بانٹوں اورآپؐ نے اپنے دائیں، بائیں اورپیچھے اشارہ کرکے دکھایا۔پھرآپؐ چل پڑے اورفرماتے جاتے تھے: یقیناً آج جو کثرت (مال) والے ہیں وہ قیامت کے دن قلیل (ثواب) والے ہوں گے ہاں البتہ جس نے ایسا کیا اورایسے کیا اورایسے کیا اورآپؐ نے اپنے دائیں، بائیں اورپیچھے ہاتھوں کو (گھماکر) دکھایا، مگرایسے (خوش نصیب) بہت کم ہوں گے ‘‘ ۔[10]

 

بہرحال اسلام کے اگرسارے نظام کاجائزہ لیاجائے تواس سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ اس کی تمام تعلیمات کاخلاصہ اکتناز ہی کی

 

ممانعت ہے، اسلام فرد اورجماعت کی خوشحالی چاہتاہے، محنت کو اولین حیثیت دیتاہے اورکسی بھی صورت میں افراد کوجماعت کے استحصال کی اجازت نہیں دیتا، جبکہ سرمایہ دار کی ساری تعلیمات کابنیادی نقطہ ہی مال ودولت کی ذخیرہ اندوزی ہے اوراسی بنیادپر اسلام اورسرمایہ داری کی راہیں الگ الگ ہوجاتی ہیں ۔

 

2: احتکار (Hoarding) :

زمیندار اور تاجر لوگ اپنی ہوس زر پوری کرنے کے لئے بسا اوقات زمین سے حاصل شدہ یا خرید کردہ جنس کی فروخت بند کر

 

دیتے ہیں، اس انتظار میں کہ جب بھاؤ گران سے گران تر ہو جائے تو اس وقت فروخت کر کے زیادہ سے زیادہ نفع کمائیں۔ اسی کا نام ذخیرہ اندوزی ہے، اور شرعی اصطلاح میں اسے ’’احتکار‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ حرام ہے۔

 

اگرچہ اسلام افراد کو بیع وشراء اور فطری مقابلہ کی آزادی دیتا ہے، لیکن اس بات سے اسے شدید انکار ہے کہ لوگ خود غرضی اور لالچ میں مبتلاء ہو کر اپنی دولت میں اضافہ کرتے چلے جائیں، خواہ غذائی اجناس اور قوم کی دیگر اشیائے ضرورت ہی کے ذریعے کیوں نہ دولت سمیٹی جا سکے۔اسی لئے نبی ﷺ نے ذخیرہ اندوزی کی سختی کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے:

 

عن عُمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ، قالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہ صلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنِ احتَکرَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ طَعَامًا ضَرَبَہُ اللّٰہُ بالجذامِ والافلاس۔[11]

 

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ ﷺ فرماتے تھے جس نے مسلمانوں پر احتکار کیا، کھانے کی چیزوں کا، تو اللہ تعالیٰ اس کو جذام اور افلاس میں مبتلا کرے گا۔‘‘

 

زیادہ نفع کمانے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ اپنے فروختنی مال کو جلد از جلد فروخت کرکے اسی رقم سے نیا مال خرید کر پھر فروخت کرتے جائیں، اور ایک سال کئی بار یہ چکر چلتا رہے، یہ صورت شرعی نقطہ نظر سے پسندیدہ اور ملکی معیشت کے لئے بھی بہت مفید ہے، دوسری صورت ذخیرہ اندوزی ہے، جو مذموم بھی ہے، اور ملکی معیشت پر تباہ کن اثرات کی حامل بھی۔ اسی لئے حضور ﷺ نے ذخیرہ اندوزی کی مذمت فرمائی ہے۔

 

عن معمر بن عبد اللّٰہ بن نضلَۃَ قالَ قَالَ رَسُوْل اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لاَ یحتکِرْ اِلاَّ خاطِیءٌ۔[12]

 

’’معمر بن عبد اللہ بن نضلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: احتکار نہیں کرتا مگر وہی جو خاطی (یعنی گنہگار) ہو۔‘‘

 

==ذخیرہ اندوزی کی صورتیں: == ذخیرہ اندوزی کی کئی صورتیں ہیں اور ہر ایک کا حکم جدا ہے۔

 

1۔ ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زمین کا غلہ روک رکھے اور فروخت نہ کرے، یہ جائز ہے، لیکن اس صورت میں گرانی اور قحط

 

کا انتظار کرنا گناہ ہے، اور اگر لوگ تنگی میں مبتلا ہو جائیں، تو اس کو اپنی ضرورت سے زائد غلہ کے فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔

 

2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص غلہ خرید کر ذخیرہ کر لیتا ہے اور جب لوگ قحط اور قلت کا شکار ہو جائیں، تب بازار میں لاتا ہے، یہ صورت حرام ہے۔

 

3۔ تیسری صورت یہ ہے کہ بازار میں اس جنس کی فراوانی ہے، اور لوگوں کو کسی طرح کی تنگی اور قلت کا سامنا نہیں، ایسی حالت میں ذخیرہ اندوزی جائز ہے، مگر گرانی کے انتظار میں غلہ کو روک رکھنا کراہت سے خالی نہیں۔

 

4۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ انسانوں یا چوپائیوں کی خوراک کی ذخیرہ اندوزی نہیں کرتا، اس کے علاوہ دیگر چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، جس سے لوگوں کو تنگی لاحق ہو جاتی ہے، یہ بھی ناجائز ہے۔[13]

 

ذخیرہ اندوزی کا دائرہ:

ویسے تو ہر چیز کی ذخیرہ اندوزی ہو سکتی ہے، لیکن احادیث میں احتکار کا اطلاق عمومًا طعام کے لئے آیا ہے، اور جو جنس بھی کھانے پینے کے استعمال میں آتی ہے (یعنی تمام اجناس خوردنی اور اشیائے خورد ونوش) یہ احکام درجہ بدرجہ لاگو ہوتے ہیں، سب سے پہلے گندم پھر چاول، چینی، نمک اور مصالحے دالیں وغیرہ۔

 

ذخیرہ اندوزی در اصل عوام کی معاشی ابتری اور اقتصادی بدحالی سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی غرض سے اجناس کا ذخیرہ کرنا ہے، آخر جب اشیاء خورد ونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں، اور عوام گرانی کے ہاتھوں فاقہ کشی پر مجبور ہوجاتے ہیں، تو وہ ان کی نازک حالت پر رحم کرنے کے بجائے ان کی مجبوری میں ان کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرتا ہے، اسی لئے احتکار بہت بڑا ظلم ہے۔

 

ذخیرہ اندوزی ملکی معیشت پریوں اثرانداز ہوتی ہے کہ بہت سی جنس بازار میں جانے سے رک جاتی ہے، جس کالازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جنس کابھاؤ تیزہوناشروع ہوجاتاہے، جس کابارغریب عوام پرپڑتاہے، جبکہ زمیندار اورتاجر اپنی اس محفوظ کردہ جنس کی بدولت بہت زیادہ فائدہ اٹھاجاتے ہیں ۔

 

3: اجارہ داری:

نظام سرمایہ داری کا ایک بڑانقص یہ ہے کہ اس میں مقابلہ و مسابقت کے باوجود بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات چند کاروباری حضرات یاکوئی ایک کاروباری فرد بازار کی قوتوں پرکنٹرول حاصل کرلیتاہے، خواہ یہ کنٹرول باہمی ملی بھگت یاکسی اوروجہ سے ہو، عام طورپر چندکاروباری حضرات مل کر آپس میں کچھ کاروبار تقسیم کرلیتے ہیں اورکوئی ایک دوسرے کے مقابلے میں نہیں آتا، جس کی وجہ سے کاروباری اپنی پیداوار کاواحداجارہ داربن جاتاہے، بعض اوقات مقابلہ کے ذریعے اپنے مقابل کاروباریوں کو شکست دے کر ان کوپیداوار بندکردینے پرمجبور کردیاجاتاہے اورآخرکار ملک کی اجتماعی معیشت چندبڑے بڑے اجارہ داروں کے ہاتھ میں کھلونابن جاتی ہے اوراس طرح یہ طرح طرح کے طریقوں سے عوام کا استحصال کرتے ہیں، اس طاقت کواشیاء کی ہنگامی، بے جانفع اندوزی، اشیاء کی کوالٹی (معیار) گرانے، مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیداکرنے کے لیے استعمال کیاجاہے، جن سے قیمتیں بڑھتی ہے اورعام افراد معاشی بدحالی کاشکارہوجاتے ہیں ۔

 

اسلام اس بات کو ہرگزپسندنہیں کرتا کہ چندلوگوں کے مفاد کااجتماعی مفادپربرتری حاصل ہو، سرمایہ دار خوشحال ہوں اورعام لوگ مفلوک الحال، اس سلسلے میں حکومت کو قانونی طورپریہ حق حاصل ہے کہ وہ مفادعامہ کے پیش نظر فوری کاروائی کرے، اس سلسلے میں امام نووی ؒ لکھتے ہیں:

 

انّ الشرع ینظرفی مثل ھذہ المسائل الی المصلحۃ النّاس والمصلحۃ تقتضی ان ینظر للجماعۃ علی الواحد۔[14]

 

’’شریعت ایسے مسائل میں عامۃ الناس کی مصلحت کوسامنے رکھ کر فیصلہ کرتی ہے اورمصلحت کاتقاضا یہ ہے کہ فرد واحد (کے مفاد) پرجماعت (کے مفاد) کوترجیح دی جائے ‘‘

 

  رسول اکرم ﷺ نے اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق کاروباری لوگوں پرپابندیاں عائدکردی تھی کہ وہ شہر سے باہر جاکر تجارتی قافلوں سے اشیاء نہ خریدیں، دستوریہ تھا کہ چند ہوشیار تاجر مدینہ سے باہر جاکر تجارتی قافلوں سے یادیہات سے آنے والے لوگوں سے مال تجارت سستے داموں خریدلیتے تھے، کیونکہ یہ دیہاتی لوگ یاتجارتی قافلے شہر کی قیمتوں سے ناواقف ہوتے تھے، اس لیے وہ ان تاجروں کو سستے داموں مال فروخت کردیتے اوربعدمیں یہی لوگ (تاجر) مہنگے داموں بازارمیں آکر مال فروخت کرتے، جس سے شہروالوں کوبھی مہنگے داموں مال ملتا اورباہر آنے والے بھی زیادہ نفع حاصل نہیں کرپاتے، اسی طرح گویامدینہ کے ان تاجروں کوایک قسم کی اجارہ داری حاصل ہوگئی تھی، جو اجتماعی مفاد کے لیے نقصان دہ تھی، اس لیے آنحضرت ﷺ نے اس پرپابندی عائدکردی، جیساکہ حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے:

 

اَنَّ رَسُولَ اللّٰہ ﷺ نھیٰ ان تتلقَّی السِّلع ۔[15]

 

’’نبی کریم ﷺ نے (بستی سے باہر) آگے جاکر اسباب تجارت سے ملنے کو منع کیا‘‘۔

 

دورحاضرمیں معدنیات یادوسری اشیاء پیداوار پرسرمایہ داروں کو بڑی حدتک اجارہ داری حاصل ہے، بڑی بڑی کمپنیاں ان اشیاء کوجس طرح چاہتی ہیں اورجس قیمت پرچاہتی ہیں، عوام تک پہنچاتی ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کارخانے میں مثلاً جس چیز کی لاگت پانچ روپے ہوتی ہے، وہ عام آدمی تک پہنچتے پہنچتے بیس روپے کی ہوجاتی ہے ۔

 

ان حالات میں بہرحال یہ حکومت وقت کافرض ہے کہ ایسی اجارہ دار کمپنیوں کاخاتمہ کرے، آڑھت اورکمیشن ایجنٹس پرپابندی عائد کرے اورجس چیز کی پیداوار قابل اصلاح نہ ہو، اس کی پیداوار پبلک سیکٹرمیں شروع کرے، لیکن یہ سب کچھ مفادعامہ کے پیش نظر ہوناچاہیے، جب اصلاح کی گنجائش نہ رہے، تاکہ عام لوگ خوشحال ہوں، ضروریات زندگی آسان طریقے سے اورمناسب داموں پرلوگوں تک پہنچیں اور عدل وانصاف کے تقاضے پورے ہوں ۔

 

4: سٹہ (Speculation)

آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق Speculationکا لغوی مفہوم ہے ’’ جوکچھ ہوچکاہے، یاہوسکتاہے، اس کے بارے میں تمام حقائق جانے بغیر رائے قائم کرنے کاعمل ‘‘۔[16]

 

معاشی اصطلاح کے مطابق اس کی تعریف یہ ہے:

 

’’بازاری قیمت میں تبدیلیوں سے نفع حاصل کرنے کی کوشش جس کے نتیجے میں سرمائے میں متوقع اضافہ کی خاطر موجودہ

 

آمدنی کو چھوڑدیاجائے ‘‘۔[17]

 

کاروبارسٹہ کامفہوم بیان کرتے ہوئے مولانا عبدالرحمن کیلانی لکھتے ہیں:

 

’’سٹہ باز جوعموماً بڑے بڑے تاجر ہوتے ہیں، اپنے دفتروں میں بیٹھ کر یہ کاروبارکرتے ہیں، کسی ایک جنس کے متعلق اندازہ کیاجاتاہے کہ اتنی مدت کے بعد اس چیز کابھاؤ اتناہوجائے گا، مثلاً آج کل چنے کابھاؤ چارہزارروپے فی من ہے، ایک صاحب اندازہ لگاتے ہیں کہ چھ مہینے کے بعد چنے کا بھاؤپانچ ہزاروپے ہونے کاامکان ہے اوردوسرے صاحب کے خیال میں بھی یہ نرخ پانچ ہزارروپے تک چلاجائے گا، ان میں سے ایک صاحب بائع بن جاتا ہے، دوسرامشتری ۔سودایہ طے پاتاہے کہ آج سے پورے چھ مہینے بعد چنے کی ایک ہزاربوری پانچ ہزارروپے من کے حساب سے فروخت کرتاہوں، دوسرے صاحب مشتری بن کر سودا پکاکرلیتے ہیں اورکچھ بیعانہ بھی دے دیتے ہیں، حالانکہ بائع کے پاس مال موجودنہیں ہوتا، چھ ماہ گذرنے کے بعد وہ نفع ونقصان کاحساب کرکے رقم کالین دین کرلیتے ہیں، نہ کوئی مال دیتاہے، نہ لیتاہے، تجارت کی اس قسم کو سٹہ کہتے ہیں ‘‘۔[18]

 

مولاناتقی عثمانی لکھتے ہیں:

 

’’مستقبل میں کیاہونے والاہے ؟ ظاہر سی بات ہے کہ کوئی شخص بھی اس کے بارے میں سوفیصد درست معلومات رکھنے کادعویٰ نہیں کرسکتا، زیادہ سے زیادہ اگرکوئی کچھ کرسکتاہے تویہی ہے کہ بہترسے بہتر طریقے استعمال کرکے اس کے متعلق اندازہ اورتخمینہ لگالے ۔اس اعتبارسے ہرسرمایہ کاری اور ہرتجارت میں ظن وتخمین کاعنصر ضرورہوتاہے، اس سے معلوم ہوا کہ ہرقسم کاظن وتخمین برانہیں ہوتا، لیکن جب اندازہ لگانے کے اس عمل کو کسی قید اورپابندی کے بغیر کام کرنے دیاجائے، تواس کے بداثرات جوئے خانے میں ہونے والی قماربازی سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں اورپھر یہ مطابہ ابھرتاہے کہ قوموں کی دولت کادارومدار اس پرہے کہ اس جنگلی درندے کو کیسے پنجرے میں لایاجائے؟۔

 

لہذاسوال یہ ہے کہ بے ضرر کاروباری اندازوں اوراس سٹے کے درمیان کیسے کوئی حد کھینچی جائے جوجواکھیلنے کے مترادف ہوتاہے ؟اگرظن وتخمین کااستعمال حقیقی تجارتی سودے کی حدتک محدود رہے تویہ کبھی معاشرے کے لیے کوئی مشکل کھڑی نہ کرے، آدم سمتھ نے جہاں سٹہ کے بارے میں گفتگوکی ہے، وہاں اس نے وہ سٹہ مرادلیاہے جوحقیقی تجارتی سرگرمیوں میں کیاجائے، اس نے سٹہ کرنے والے کاایک ایسے تاجر کی حیثیت میں تعارف کروایاہے جوکسی پہلے سے طے شدہ یاایک متعین تجارت کو اختیارنہیں کرتا، مثلاً اس سال وہ اناج کاتاجرہے تواگلے سال چائے کا، وہ ہرایسی تجارت میں داخل ہوجاتاہے جہاں اسے عام تجارتوں سے زیادہ نفع ہوتانظر آئے اورجب وہ دیکھتاہے کہ اس تجارت کانفع باقی تجارتوں کے نفع کی سطح پرآرہاہے تواسے ترک کردیتاہے، اس طرح کاسٹہ کرنے والا تاجر معاشی نظام کے لیے کوئی خطرہ پیدانہیں کرتا ۔اسلام نے بھی اس قسم کے کاروبار پرکوئی پابندی نہیں لگائی، جب تک وہ ناجائز ذخیرہ اندوزی کی حد تک نہ پہنچے، جسے اسلامی فقہ میں احتکار کہاگیاہے اور بشرطیکہ اس سے تجارت کے کسی اورحکم کی خلاف ورزی لازم نہ آئے ایساتاجر اگرکوئی غلط فیصلہ کربیٹھے توزیادہ سے زیادہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاسکتاہے، برخلاف موجودہ دورکے مالیاتی سٹہ کے کہ جس کی سرگرمیاں پورے نظام ہی کو خطرہ میں ڈال دیتی ہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سٹہ کرنے والے کسی حقیقی تجارتی سودے میں داخل نہیں ہوتے، بلکہ ان کے اکثر معاملات حقیقی تجارت ہی نہیں کہلاسکتے ۔

 

وہ مزیدلکھتے ہیں: ’’تجارتی اصول کے مطابق کوئی شخص جب تک کسی چیز کامالک نہ بن جائے، اسے فروخت نہیں کرسکتا، یہ نہ صرف درست بیع کی ایک عقلی ضرورت ہے، بلکہ اسلامی قانون کی روسے ایک دینی حکم بھی ہے اوراس کی بنیاد نبی کری ﷺ کے اس فرمان پرہے:

 

لاتبع مالیس عندک ۔[19]

 

’’جوچیز تمہارے پاس نہیں ہے، اس کومت بیچو‘‘ 

 

پھر صرف ملکیت حاصل کرناہی شرط نہیں، بلکہ نبی کریم ﷺ نے یہ ہدایت بھی دی ہے کہ کوئی چیز اس وقت تک نہ بیچو جب تک وہ تمہارے قبضے میں نہ آجائے اوراسی کے متعلق نبی کریم ﷺ نے ایک اوروسیع اصول مقررفرمایاکہ کسی کے لیے ایسی کوئی چیز فروخت کرکے نفع کمانا جائزنہیں ہے جس کی ذمہ داری اس نے نہ اٹھائی ہواوراس چیز سے وابسطہ خطرات اس کی طرف منتقل نہ ہوگئے ہوں، چونکہ جب تک خریدار خریدی ہوئی چیز کو حقیقی یامعنوی طور پر اپنے قبضے میں نہیں لے گا، اس وقت تک اس چیز سے وابسطہ خطرات اس کی طرف منتقل نہیں ہوں گے، اس لیے اس کواجازت نہیں ہے کہ وہ یہ چیز حقیقی یامعنوی قبضہ کے بغیر کسی تیسرے کو فروخت کرے ۔معنوی قبضہ کی مثلاً یہ صورت ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے کسی وکیل کے ذریعہ قبضے میں لے، یااس چیز سے متعلق ایسے کاغذات اپنی تحویل میں لے لے جو اسے خریدی ہوئی چیز پرپورا کنٹرول دیتے ہوں ۔

 

لیکن آج کے دورمیں سٹہ بازی کی بنیاد پرہونے والی خرید وفروخت اکثر وبیشتر بغیرملکیت حاصل کئے ہوئے انجام پارہی ہیں ۔ سٹہ کے بازارمیں Short Sale (بغیرملکیت حاصل کئے فروخت کرنا) اورBlank Sale (بغیر ملکیت حاصل کئے اوربروقت چیز کوحاصل کرنے کاکوئی پیشگی انتظام کئے بغیر فروخت کرنا) ہی غالب ہیں اوریہ ان وجوہات میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے یہ معاملات حقیقی تجارت کے زمرہ میں نہیں آتے ۔

 

تجارت کادوسراپہلویہ ہے کہ حقیقی خریدار واقعی یہ چاہتاہے کہ وہ خریدی ہوئی چیز کاقبضہ لے، یاتوخود اپنے استعمال کے لیے، یااسے آگے کسی کو فروخت کرنے کے لیے، لیکن سٹہ باز عام طورپر چیز کاقبضہ لینے کی نیت سے نہیں خرید تے، ان کی ساری دلچسپی قیمت کے اتارچڑھاؤ میں ہوتی ہے اورپے درپے چند سودے کرنے کے بعد ان کاکام صرف فرق اداکرنا یاوصول کرنا ہوتاہے، اس کی وجہ سے سارا نظام بجائے تجارتی کاروبار کے ’’جوا‘‘ بن کررہ جاتاہے ۔[20]

 

سٹہ کاحکم بیان کرتے ہوئے عبدالرحمن کیلانی لکھتے ہیں:

 

’’سٹہ کئی لحاظ سے ممنوع ہے: (1) جوچیزپاس موجودنہیں، اس کی بیع ناجائز ہے ۔ (2) جس مال پرقبضہ نہیں کیاگیا، اس کی بیع بھی ناجائز ہے ۔ (3) اسے ماپ تول کراپنی تسلی نہیں کی گئی ۔ (4) مال تجارت کالین دین سرے سے ہواہی نہیں، جب عوضین میں سے کچھ بھی حاضر نہیں، لہذا بیع النسئۃ بِالنّسئۃ کے تحت یہ بیع ممنوع ٹھہری‘‘۔[21]

 

5: قمار:

باطل طریقے سے مال کھانے کی متعدد شکلیں ہیں، ان میں ایک شکل وہ ہے جس میں لاکھوں اورکروڑوں کی دولت لوگوں کواس طرح مل جاتی ہے کہ ملک کے کسی باشندے کو اس کے معاوضہ میں کچھ نہیں ملتا، یعنی قمار اوراس کی مختلف شکلیں ۔قمارسے مراد صرف ’’جوئے‘‘ Gambling کی وہ عام شکل نہیں ہے جو نقد کے ذریعے کھیلاجاتاہے، بلکہ وہ تمام صورتیں اس میں شامل ہیں جو تجارت کے نام سے کی جاتی ہیں، لیکن حقیقت میں قمارہی کی قسمیں کہلاتی ہیں ۔قرآن حکیم میں قمارکے لیے ’’میسر‘‘ کالفظ استعمال ہواہے، لغت میں میسر کے معنی تقسیم کرنے کے ہیں، جاہلیت عرب میں مختلف قسم کے جوئے رائج تھے، جن میں ایک قسم یہ بھی تھی کہ اونٹ ذبح کرکے اس کے حصے تقسیم کرنے میں جوا کھیلا جاتاتھا، بعض کو ایک یازیادہ حصے ملتے، بعض محروم رہتے تھے، محروم رہنے والے کوپورے اونٹ کی قیمت اداکرنی پڑتی تھی، گوشت سب فقراء میں تقسیم کیاجاتا، خوداستعمال نہ کرتے تھے، تقسیم کی مناسبت سے قمارکو میسرکہاجاتاہے ۔تمام صحابہؓ وتابعین اس پرمتفق ہیں کہ میسر میں قمار یعنی جوئے کی تمام صورتیں داخل اورسب حرام ہیں ۔

 

میسریاقمار کی آسان الفاظ میں تعریف یہ ہے کہ جس معاملہ میں کسی مال کامالک بنانے کو ایسی شرط پرموقوف رکھاجائے جس کے وجود وعدم کی دونوں جانبین مساوی ہوں اور اسی بناپر نفع خالص یا تاوان خالص برداشت کرنے کی دونوں جانبین بھی برابرہوں، مثلاً یہ بھی احتمال ہے کہ زیدپرتاوان پڑجائے اوریہ بھی ہے کہ عمر پرپڑجائے، اس کی جتنی قسمیں اورصورتیں پہلے زمانے میں رائج تھیں، مثلاً بیع ملامسۃ، بیع منابذۃ اوربیع حصاۃ وغیرہ، یاآج رائج ہیں یاآئندہ پیداہوں، سب میسر اورقمار اور جواکہلائے گا، معمے حل کرنے کاچلتا ہواکاروبار، سٹہ، ریس اورتجارتی لاٹری کی عام صورتیں سب اس میں داخل ہیں ۔

 

اسلام ان کو’’میسر ‘‘قماراورجوا قراردیتاہے اوراس قسم کے تمام معاملات کو بااصول تجارت کے لیے تباہ کن سمجھتاہے اورمعاشرتی تباہی کاپیش خیمہ یقین کرتاہے اوران باتوں کے علاوہ سوسائٹی کے اخلاق اورکیریکٹر کے لیے باعث ذلت ورسوائی جانتاہے کیونکہ یہ معاملات اکثر جنگ وجدل کاباعث بنتے ہیں، مواساۃ، رواداری، ہمدردی اور مروت کوتباہ اوردوسرے کی تباہی میں اپنافائدہ سمجھنے کی ترغیب دے کر انسانی جوہر کوبرباد کرتے ہیں، اسی لیے شریعت اسلامیہ اوراسلام کے عادلانہ معاشی نظام نے ان تما م مضر اشکال کی نفی فرمائی ہے اوراپنے پیروکاروں کو ان سے بازرہنے کی تلقین فرمائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

یَسءَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ لِلنّاسِ وَاِثْمُہُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا۔[22]

 

’’لوگ آپؐ سے شراب اورجوے کامسئلہ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بہت بڑاگناہ ہے اورلوگوں کواس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتاہے، لیکن ان کاگناہ ان کے نفع سے بہت زیادہ ہے ‘‘

 

  مذکورہ آیت میں قرآن کریم نے وہی ارشادفرمایا ہے جوشراب کے متعلق آیاہے، کہ اس میں کچھ منافع بھی ہیں مگر نفع سے اس کانقصان وضرربڑھاہواہے، اس کے منافع کوتوہرشخص جانتاہے کہ جیت جائے توبیٹھے بیٹھے ایک فقیر بدحال آدمی ایک ہی دن میں مالدار وسرمایہ دار بن سکتاہے، مگراس کی معاشی، اجتماعی، سماجی اورروحانی خرابیاں اورمفاسد بہت کم لوگ جانتے ہیں، اس کااجمالی بیان یہ ہے کہ جوئے کاکھیل سارا اس پردائرہے کہ ایک شخص کانفع دوسرے کے ضررپر موقوف ہے، جیتنے والے کانفع ہی نفع، ہارنے والے کے نقصان ہی نقصان کانتیجہ ہوتاہے ۔کیونکہ اس کاروبار سے کوئی دولت بڑہتی نہیں، وہ اسی طرح منجمد حالت ہی میں رہتی ہے، اس کھیل کے ذریعے ایک کی دولت سلب ہوکر دوسرے کے پاس پہنچ جاتی ہے، اس لیے قمار مجموعی حیثیت سے قوم کی تباہی اورانسانی اخلاق کی موت ہے کہ جس انسان کونفع رسانی، حسن خُلق اورایثار وہمدردی کاپیکر ہوناچاہیے، وہ ایک خوانخوار درندہ کی خاصیت اختیار کرلے کہ دوسرے بھائی کی موت میں اپنی زندگی، اس کی مصیبت میں اپنی راحت، اس کے نقصان میں اپنانفع سمجھنے لگے اوراپنی پوری قابلیت اس خودغرضی پرصرف کرے، بخلاف تجارت اوربیع وشراء کی جائز صورتوں کے، ان میں طرفین کافائدہ ہوتاہے اوربذریعہ تجارت اموال کے تبادلہ سے دولت بڑہتی ہے اورخریدنے والا اوربیچنے والا دونوں اس کافائدہ محسوس کرتے ہیں ۔

 

ایک بھاری نقصان جوئے میں یہ ہے کہ اس کاعادی اصل کمائی اورکسب سے عادۃً محروم ہوجاتاہے، کیونکہ اس کی خواہش یہی رہتی ہے کہ بیٹھے بٹھائے ایک شرط لگاکردوسرے کامال چند منٹ میں حاصل کرے، جس میں نہ کوئی محنت ہے، نہ مشقت ۔جوئے کامعاملہ اگردوچار آدمیوں کے درمیان دائرہو تواس میں بھی مذکورہ مضرتیں بالکل نمایا نظرآتی ہیں، لیکن اس نئے دورمیں جس کوبعض سطحی نظر والے انسان عاقبت نااندیشی سے ترقی کادور کہتے ہیں، جیسے شراب کی نئی نئی قسمیں اورنئے نئے نام رکھ لیے گئے، سودکی نئی نئی قسمیں اورنئے نئے اجتماعی طریقے بنکنگ کے نام سے ایجاد کرلئے گئے ہیں، اسی طرح قمار اورجوئے کی بھی ہزاروں قسمیں چل گئیں، جن میں بہت سی قسمیں ایسی اجتماعی ہیں کہ قوم کاتھوڑا تھوڑا روپیہ جمع ہوتا ہے اورجو نقصان ہوتاہے، وہ ان سب پرتقسیم ہوکرنمایاں نہیں رہتا اورجس کویہ رقم ملتی ہے، اس کافائدہ نمایاں ہوتاہے، اس لیے بہت سے لوگ اس کے شخصی نفع کودیکھتے ہیں، لیکن قوم کے اجتماعی نقصان پردھیان نہیں دیتے، اس لیے ان کاخیال ان نئی قسموں کے جواز کی طرف چلاجاتاہے، حالانکہ اس میں وہ سب مضرتیں موجودہیں جو دوچار آدمیوں کے جوئے میں پائی جاتی ہیں اورایک حیثیت سے اس کاضرر اس قدیم قسم کے قمار سے بہت زیادہ اوراس کے خراب اثرات دوررس اورپوری قوم کی بربادی کاسامان ہیں، کیونکہ اس کالازمی اثریہ ہوگا کہ ملت کے عام افراد کی دولت گھٹتی جائیگی اورچندسرمایہ داروں کے سرمایہ میں مزید اضافہ ہوتارہے گا، اس کالازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ پوری قوم کی دولت سمٹ کر محدود افراد اور محدودخاندانوں میں مرتکز ہوجائے گی، جن کامشاہدہ سٹہ اورقمارکی دوسری قسموں میں روزمرہ ہوتارہتاہے اوراسلامی معاشیات کااہم

 

اصول یہ ہے کہ ہرایسے معاملے کو حرام قراردیا جس کے ذریعے دولت پوری ملت سے سمٹ کر چند سرمایہ داروں کے حوالے ہوسکے ۔

 

قمار یعنی جوئے کی خرابی یہ بھی ہے کہ شراب کی طرح قمار بھی آپس میں لڑائی جھگڑے اورفتنہ وفساد کاسبب ہوتاہے، ہارنے والے کو طبعی طورپر جیت جانے والے سے نفرت اورعداوت پیداہوتی ہے اوریہ تمدن ومعاشرت کے لیے سخت مہلک چیزہے، اسی لیے قرآن حکیم نے خاص طورپر اس مفسدہ کو ذکر فرمایا ہے:

 

یٰاَیُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْ ہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِع بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ۔[23]

 

’’اے ایمان والو: بات یہی ہے کہ شراب اورجوا اورتھان اورفال نکالنے کے پانسے کے تیر یہ سب گندی باتیں، شیطانی کام ہیں ۔ان سے الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو ۔شیطان تویہی چاہتاہے کہ شراب اورجوئے کے ذریعے تمہارے آپس میں عداوت اوربغض ونفرت پیداکردے اورتم کو اللہ کے ذکر اورنماز سے روک دے ‘‘۔

 

قمار کی ایک اصولی خرابی یہ ہے کہ یہ باطل طریقہ پردوسرے لوگوں کامال ہضم کرنے کاایک طریق ہے، کہ بغیر کسی معقول معاوضہ کے دوسرے بھائی کامال لے لیاجاتاہے، اسی کو قرآن حکیم نے ان الفاظ میں منع فرمایاہے:

 

وَلَاتَاکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ ۔[24]

 

’’اورآپس میں ایک دوسرے کامال ناحق مت کھاؤ‘‘۔

 

قمارمیں ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ دفعۃً بہت سے گھر برباد ہوجاتے ہیں، لکھ پتی آدمی فقیر بن جاتاہے، جس سے صرف یہی شخص متاثر نہیں ہوتا، جس نے جرم قمار کاارتکاب کیاہے، بلکہ اس کا پوراگھر انہ اورخاندان مصیبت میں پڑجاتاہے اوراگرغور کیاجائے توپوری قوم اس سے متاثر ہوتی ہے، کیونکہ جن لوگوں نے اس کی مالی ساکھ کودیکھ کر اس سے معاہدے اورمعاملات کئے ہوئے ہیں، یاقرض دئے ہوئے ہیں وہ اب دیوالیہ ہوجائے گا، توان سب پر اس کی بربادی کااثر پڑنالازمی ہے ۔

 

قمارمیں ایک مفسدہ یہ بھی ہے کہ اس سے انسان کی قوت عمل سست ہوکروہمی منافع پرلگ جاتی ہے اوروہ بجائے اس کے کہ

 

اپنے ہاتھ یادماغ کی محنت سے کوئی دولت بڑھاتارہے، اس کی فکر اس بات میں محصور ہوکر رہ جاتی ہے کہ کسی طرح دوسرے کی کمائی پراپناقبضہ جمائے ۔[25]

 

بہرحال اسلام کے اقتصادی نظام میں اس قسم کے تمام تجارتی کاروبار کے لیے مطلق کوئی جگہ نہیں ہے جو صریح ’’قمار‘‘ ہوں اوریاان کی تہہ میں مالی ترقی کاوہی جذبہ کارفرماہوجو ’’قمار‘‘ میں پایاجاتاہے اوراگر علم الاقتصاد اورعلم الاخلاق دونوں کے ماہرین سے اس بارہ میں دریافت کیاجائے توبغیر کسی اختلاف کے وہ بھی یہی رائے دیں گے، بلکہ رائے دے چکے ہیں کہ ’’قمار‘‘ کی قسم کے تمام معاملات اجتماعی زندگی اورسوسائٹی کے لیے تباہ کن ہیں ۔

 

6: سمگلنگ (Smuggling) :

شرعاً ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مملوک روپے سے اپنی ضروریات یا پسند کا جو سامان جہاں سے چاہے خرید سکتا ہے اور اپنا مال جہاں چاہے فروخت بھی کر سکتا ہے، شرعًا اس میں کوئی پابندی نہیں ہے، لہٰذا کسی بیرونی ملک سے مال خریدنا وہاں پہنچا کر مال بیچنا شرعًا جائز اور مباح ہے۔

 

لیکن مختلف ممالک اپنے ملک کے معاشی مصالح کے پیش نظر دوسرے ملکوں کی برآمدا ت پر پابندی عائد کر دیتے ہیں کہ ان کے آنے کی وجہ سے ملکی مصنوعات اور ان کی نکاسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے، لہٰذا ایک صحیح اسلامی حکومت اگر عام مسلمانوں کے مفاد کی خاطر اور معاشی مصالح کے پیش نظر کسی مباح چیز پر پابندی عائد کر دے، تو اس قسم کی پابندی کی گنجائش ہے، اور لوگوں پر اس کی پابندی کرنا شرعًا بھی لازم ہو جاتا ہے، اس لئے اس کی خلاف ورزی کرنا اور سمگلنگ کا کاروبار کرنا درست نہیں ہے۔

 

اس کی نظیر ’’تلقی جلب‘‘ ہے جس کو مکروہ قرار دیا گیا ہے، ’’تلقی جلب‘‘ سے مراد یہ ہے کہ باہر سے آنے والے تجارتی قافلہ کے شہروں میں آنے سے پہلے ہی کوئی شخص جا کر ان سے غلہ خرید لے اور شہر میں آکر اس سے زیادہ میں فروخت کر دے، رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔[26] کیونکہ اس کی وجہ سے گرانی بڑھتی ہے اور اس شہر کے باشندوں کو زک پہنچتی ہے، یہی مضرت اسمگلنگ سے بھی پیدا ہوتی ہے کہ غیر ملکی مصنوعات کی آمد کی وجہ سے اس ملک کی صنعت اور یہاں کا معاشی توازن بگڑتا اور متاثر ہوتا ہے۔نیز حکومت کے احکام کی خلاف ورزی میں چونکہ بہت سے منکرات لازم آتے ہیں، مثلاً اکثر جھوٹ بولنا پڑتا ہے، رشوت دینی پڑتی ہے، جان مال یا عزت وآبرو کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے، جس کی حفاظت کا شریعت میں بڑا خیال رکھا گیا ہے اور بسا اوقات جسمانی تکلیف اور قید وبند کی صعوبت برداشت کرنی پڑتی ہے، اس لئے حکومت کے قانون کی پابندی کرنی چاہئے اور ایسے کاروبار سے اجتناب کرنا چاہئے۔ تاہم اسمگل (Smuggle) ہو کر آنے والی حلال ومباح چیزوں کی خرید و فروخت جائز ہے، ان کو اپنے استعمال میں لانا درست ہے، اور آمدنی حلال ہے۔[27]

 

سمگلنگ کے شرعی حکم سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مولاناگوہررحمن لکھتے ہیں:

 

’’اگرچہ پاکستان کی حکومت اسلامی نہیں ہے، لیکن حکومت جیسی بھی ہو جب اس نے عوامی مفاد میں کوئی قاعدہ بنایاہو توشہریوں پراس کی پابندی ضروری ہوجاتی ہے، بشرطیکہ وہ شریعت کے احکام کے خلاف نہ ہو ۔شرعاً اگرچہ ایک صوبے کاتاجر اپنامال دوسرے صوبے میں اورایک ملک کاتاجر اپنامال تجارت دوسرے ملک میں فروخت کرسکتاہے، لیکن شرعاً چونکہ بیرون ملک یابیرون صوبہ اپنامال فروخت کرنافرض اورواجب نہیں ہے، بلکہ صرف مباح ہے، اس لیے قومی اورعوامی مفاد کی خاطر اورمصنوعی مہنگائی کے سدباب کے لیے حکومت بین الصوبائی اوربین الاقوامی سمگلنگ پرپابندی لگاسکتی ہے اور شہریوں پراس کی پابندی ضروری ہوجاتی ہے ۔ تجارت پیشہ لوگوں کامفاد توسمگلنگ کی اجازت دینے میں ہے، لیکن عام صارفین کامفاد اس کی ممانعت میں ہے اورشریعت کاقاعدہ یہ ہے کہ عوام کامفاد خواص کے مفاد پرمقدم ہے ۔ اس کے علاوہ آج کل سمگلنگ کاجو بین الصوبائی اوربین الاقوامی کاروبار ہورہاہے، یہ رشوت کے لین دین اورجھوٹ وفریب دہی کے بغیرچل ہی نہیں سکتا، شاید ہی کوئی ایک دوفیصد لوگ ایسے ہوں جویہ کاروبار کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کے بغیر جاری رکھ سکتے ہوں، اس لیے سمگلنگ کا کاروبار چھوڑ کوملکی قواعد وضوابط کے مطابق تجارت کرنی چاہیے، بشرطیکہ وہ قواعد وضوابط اسلام کے احکام کے خلاف نہ ہو ں ۔[28]

 

اسی طرح مفتی رشید احمد لدھیانوی لکھتے ہیں:

 

’’اسمگلنگ میں حکومت کے قانون کی خلاف ورزی، ملک کا نقصان اور عزت کا خطرہ ہے، اس لئے ناجائز ہے، ایسے مال کی خرید وفروخت اور اس میں تعاون کرنا بھی ناجائز ہے، مگر اس کے منافع حرام نہیں‘‘۔[29]

 

فقہاء کرام نے اگرچہ سمگلنگ کے کاروبار سے منع کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس امر پر بھی زور دیا ہے کہ بنیادی ضرورت کی اشیاء کو درآمد کرنے کے سلسلے میں حکومت کو بے جا اور ظالمانہ ٹیکس عائد کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے تاکہ لوگ اسمگلنگ پر مجبور نہ ہوں بلکہ وہ قانونی طریقے سے اشیاء در آمد کر سکیں جیساکہ فتاوٰی حقانیہ میں ہے:

 

’’جو اشیاء بیرون ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں ان پر حکومت تاجروں سے ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی وغیرہ کے نام سے کچھ رقم وصول کرتی ہے، بسا اوقات ان ٹیکسوں میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ کر دیا جاتا ہے، اگر یہ ٹیکس مناسب اور جائز انداز میں لیا جاتا ہو اور قومی خزانہ میں جمع ہو کر قومی مفاد میں استعمال کیا جاتا ہو تو پھر سامان تجارت چوری چھپے لانا مناسب نہیں کیونکہ حکومت وقت درآمد کردہ اشیاء پر ضروری ٹیکس لگانے کی مجاز ہے، البتہ اگر حکومت ان ٹیکسوں میں ناقابل برداشت اضافہ کر کے تاجروں کو تنگ کرتی ہو اور ٹیکس کے نام سے وصول کی گئی رقم قومی خزانے کے بجائے ذاتی خواہشات اور ضروریات میں صرف کی جاتی ہو تو ایسی صورت میں مال لانے والا ٹیکس سے بچنے کی مناسب تدابیر اختیار کرے، تو کوئی مضائقہ نہیں، البتہ دروغ گوئی، خیانت اور دھوکہ بازی سے بہر حال اجتناب ضروری ہے‘‘ ۔[30]

 

ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات حکومت اسمگلنگ کا مال ضبط کرکے انہیں نیلام کر دیتی ہے، تو اس کے بارے میں

 

شرعی حکم یہ ہے کہ شرعًا حکومت کو یہ اختیار تو ہے کہ وہ جائز قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر جو مناسب جسمانی سزا چاہے نافذ کر سکتی ہے، لیکن ان کا مال اور سامان ضبط کرنا اور نیلام کرنا شرعًا جائز نہیں، کیونکہ یہ مال ان کی ملکیت ہے اور جب تک وہ اسے بیچنے کی اجازت نہ دیں، حکومت یا کسی اور کو اس کی خرید وفروخت جائز نہیں، اور خرید کر اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں، فتاوٰی حقانیہ میں ہے:

 

’’چونکہ شرعی نقطہ نظر سے یہ سامان اصل مالک کی ملک سے نہیں نکلتا ہے، کیونکہ حکومت کے لئے رعایا کے اموال ضبط کرنا

 

مناسب نہیں، لہٰذا ایسا سامان اصل مالک کی ملک سے خارج نہ ہونے کی وجہ سے واجب الرّد ہے، اس بنا پر ضبط شدہ مال کی خرید وفروخت جائز نہیں اور حکومت کی اندرون ملک انتقال اشیاء پر پابندی لگانا جائز نہیں‘‘۔[31]

 

7: اسراف اورتبذیر:

اسلام نے جس طرح مال ودولت کمانے میں غیرمشروط آزادی نہیں دی، اسی طرح خرچ کرنے میں بھی مکمل آزادی نہیں دی اورنہ کھلی چھوٹ دی ہے کہ جہاں چاہے اورجیسے چاہے خرچ کرے، بلکہ شرائط عائدکی ہیں اورحدودمقررکردی ہیں ۔مال اوروسائل زندگی کاذریعہ ہیں، ان کو ضائع کرنا اوربے جاخرچ کرنا جرم ہے، اس لیے قرآن حکیم وحدیث نبوی ؐ میں مسلمانوں کواسراف اورتبذیر سے روکااورمنع کیاگیاہے ۔

 

اسراف کی لغوی تعریف بیان کرتے ہوئے امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں:

 

السرف تجاوز الحد فی کل فعل یفعلہ الانسان۔[32]

 

’’لغت میں ہرانسان کے کسی فعل میں حدسے تجاوز کرنے کواسراف کہتے ہیں ‘‘۔

 

اصلاحی تعریف کرتے ہوئے نجات اللہ صدیقی لکھتے ہیں:

 

’’اسراف قرآن کریم کی ایک جامع اصلاح ہے، اس کااطلاق ہرایسے طرزعمل پرہوتاہے جو صحیح انسانی اوراسلامی طرز عمل سے ہٹاہواہو، لیکن صَرف مال اوراستعمال ملکیت کے سلسلہ میں اس کے معنی کچھ محدود ہیں، جس غرض کی تکمیل مال واملاک کی ایک مخصوص مقدار صرف کرکے کی جاسکتی ہے، اس پر دانستہ اوربلامزید فائدہ کے زائد مقداریں صرف کرنا اسراف ہے ‘‘۔[33]

 

مال میں اسراف کی ممانعت کے متعلق قرآن مجید کی آیت ہے:

 

وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْاوَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ۔[34]

 

’’اورخوب کھاؤ اورپیواورحدسے مت نکلو‘‘۔

 

شرعی اعتبارسے انسان پر کھاناپینا فرض ولازم ہے، اگرکوئی شخص قدرت کے باوجود کھاناپینا چھوڑدے، یہاں تک کہ مرجائے یااتنا کمزورہوجائے کہ فرائض وواجبات بھی ادانہ کرسکے توایساشخص عنداللہ مجرم اورگناہگارہے، اس آیت میں کھانے پینے کی اجازت ہی نہیں بلکہ حکم ہے، مگر اس کے ساتھ ہی اسراف کی ممانعت ہے، اسراف کے معنی حدسے تجاوز کرنے کے ہیں اورحدسے تجاوز کی کئی صورتیں ہیں ۔

 

1۔ حلال سے تجاوز کرکے حرام تک پہنچ جانااور حرام چیز وں کوکھانے پینے لگ جانا ۔

 

2۔ اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کوکسی شرعی وجہ کے بغیر حرام سمجھ کر چھوڑدینا، جس طرح حرام چیزوں کااستعمال جرم وگناہ

 

ہے، اسی طرح حلال چیزوں کو حرام سمجھنا بھی سخت گناہ ہے ۔

 

3۔ بھوک اورضرورت سے زیادہ کھانا پینااسراف ہے ۔

 

4۔ ہروقت کھانے پینے کی فکرمیں رہنابھی اسراف ہے ۔

 

اسی طرح ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:

 

کُلُواوَاشْرَبُوا وَالْبَسُوْاوَتَصَدَّقُوْافی غیراسراف ولامخیلۃ ۔[35]

 

’’کھاؤاور پیواورپہنواورصدقہ کرو، لیکن بغیر فضول خرچی اوربغیرتکبر کے ‘‘۔

 

اورحضرت ابن عباسؓ کاقول ہے کہ:

 

کُلْ ماشئتَ وَالْبِسْ ماشئتَ مااخطا تِکَ اِثْنتان سرفٌ اوْمَخیْلۃٌ ۔[36]

 

’’ (شریعت کے احکام کی حدمیں) جوچاہوکھالو اورجوچاہوپہنو، بشرطیکہ دوچیزیں نہ ہوں، فضول خرچی اورتکبر‘‘۔

 

اسراف سے ملتی جلتی ایک چیز تبذیر ہے، تبذیر کی لغوی تعریف کرتے ہوئے امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں:

 

التبذیر: التفریق واصلہ القاء البذر وطرحہ فاستعیر لکلِّ مُضیّعٍ لمالہ فتبذیر البذر تضییعٌ فی الظّاہر لمن لم یعرف مآل مایلقیہ ۔[37]

 

’’التبذیرکے معنی پراگندہ کرنے اوربکھیردینے کے ہیں، اصل میں تبذیرکے معنی زمین میں بیج ڈالنے کے ہیں اورچونکہ زمین میں بیج ڈالنا ناعاقبت اندیش لوگوں کی نظرمیں بظاہرضائع کرنا ہوتاہے، اس لیے تبذیرکالفظ بطوراستعارہ مال ضائع کردینے کے لیے استعمال ہونے لگاہے ‘‘۔

 

اصطلاح میں امام شافعی سے منقول ہے:

 

والتبذیر انفاق المال فی غیرحقہ ولاتبذیر فی عمل الخیر۔[38]

 

’’تبذیر ناجائزکام میں خرچ کرنے کوکہتے ہیں، نیک کام میں تبذیرنہیں ہوتی‘‘۔

 

علامہ شبیراحمد عثمانی فوائد القرآن میں تبذیر کی تفسیر کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:

 

’’اورخداکادیاہوامال فضول بے موقع مت اڑاؤ، فضول خرچی یہ ہے کہ معاصی اورلغویات میں خرچ کیاجائے یامباحات میں

 

بے سوچے سمجھے اتناخرچ کردے جوآگے چل کر تفویت حقوق (حقوق کاپورانہ کرنا) اورارتکاب حرام کاسبب بنے ‘‘۔[39]

 

علامہ الماوردی اسراف اورتبذیر کے باہمی فرق پربحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 

’’کمیت یعنی مقدارخرچ میں حدسے تجاوز کرنااسرا ف ہے اوریہ ثبوت ہے ان عائد شدہ حقوق کی مقدار سے جہالت کاجواس

 

کے ذمہ ہیں اورکیفیت یعنی مواقع صرف وخرچ میں حدسے تجاوزکانام تبذیرہے اوریہ شہادت ہے ان مواقع صرف سے نادان بننے کی جوصحیح اورحق مواقع ہیں ‘‘ ۔[40]

 

مولانامحمدطاسین لکھتے ہیں:

 

’’گویا اسراف میں خرچ کامصرف توصحیح ہوتاہے، لیکن خرچ کی مقدار صحیح نہیں ہوتی، جبکہ اس کے برخلاف تبذیر میں خرچ کی مقدارتوصحیح ہوتی ہے لیکن مصرف صحیح نہیں ہوتا، دونوں کانتیجہ مال کے ضیاع کی شکل میں ظاہر اورنمودارہوتاہے جومالک حقیقی اللّٰہُ ربّ العٰلمین کی منشاء کے خلاف ہے ‘‘ ۔[41]

 

تبذیرکی ممانعت کے متعلق سورۃ الاسراء میں فرمان الٰہی ہے:

 

وَلَاتُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْآ اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا ۔[42]

 

’’اورمال کو بے جااوربے محل خرچ نہ کرو اوریادرکھو کہ بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں، اورشیطان اپنے رب کا بڑاہی ناشکراہے ‘‘۔

 

بے جااور بے محل کامطلب یہ کہ جن کاموں کااللہ تعالیٰ نے حرام وممنوع ٹہرایاہے، جیسے شراب نوشی، قمار بازی، تصویر سازی، بیہودہ کھیل کود، لہوولعب اور غلط رسوم وغیرہ ان میں مال خرچ کرنا تبذیر کی تعریف میں آتاہے، جیسے مذکورہ قرآنی آیت میں ممنو ع ٹہرایا اوراس سے سختی کے ساتھ روکاہے، کیونکہ اس سے مال ضائع ہوتاہے جواللہ کوپسندنہیں اوربلحاظ نتیجہ خودانسان کے لیے مضر اورنقصان دہ ہے ۔

 

مذکورہ آیت میں تبذیرکرنے والوں کوشیطان کابھائی قراردیاگیاہے، اس مشابہت کی وجہ یہ ہے کہ شیطان جیساکہ اس قوت کانام ہے جوبجائے خیر کے ہمیشہ شراوربرائی پرصرف ہوتی ہے، یہی حال مبذّر کاہے کہ خداکی دی ہوئی مالی طاقت کووہ بھی برائی اورشر کے حصول میں صر ف کرتاہے، اسی لیے اس کابھائی ہے اورجس طرح شیطان اپنی قوت کے غلط استعمال سے خداکاناشکراقرارپایا، یہی حال ا س (مبذّر) ناشکرے کاہے ۔[43]اسراف اور تبذیرسے معاشی عدم توازن بھی پیداہوتاہے اورمعاشرے میں اخلاقی اور سماجی خرابیاں بھی پھیلتی ہیں، جوشخص انفاق مال میں اخلاقی قیود وحدود کی پابندی نہیں کرتا، وہ کسب مال میں بھی حلال وحرام اورجائز وناجائز کی تمیز نہیں کرتا، اسلام نے کسب وانفاق یعنی آمد وخرچ دونوں میں انسان کو شتربے مہار کی طرح آزاد نہیں چھوڑا، بلکہ قیود وحدود لگادی ہیں، قومی وملی معیشت اورشخصی وانفرادی معیشت دونوں میں اسلام نے اسراف وتبذیر اوربخل وکنجوسی کے درمیان اعتدال واقتصاد یعنی میانہ روی پرقائم رہنے کی تاکیدکی ہے، نہ اتنا افراط کہ گناہوں کے کاموں میں بھی مال خرچ کیاجائے اورنہ اتنی تفریط کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں بھی مال خرچ نہ کیاجائے اورحقوق واجبہ تک ادانہ کیے جائیں، ارشادخداوندی ہے:

 

وَلَاتَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْہَاکُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْماً مَّحْسُوْرًا ۔[44]

 

’’اورنہ اپناہاتھ گردن ہی سے باندھ لے اورنہ اسے بالکل کھول دے ورنہ توملامت شدہ اورتہی دست ہوکر بیٹھ جائے گا‘‘

 

مَلُوْماکاتعلق بخل سے ہے، اس لیے کہ بخیل کوہرکوئی ملامت کرتاہے، براسمجھتاہے اوراس سے نفرت کرتاہے اور مَحْسُوْرًا کاتعلق اسراف سے ہے، اس لیے کہ بے جا خرچ کرنے والا اوراپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانے والا جلدہی تہی دست اورفقیر ہوجاتاہے اورپھرافسوس کرتاہے کہ ہاتھ میں کچھ باقی نہیں رہتا ۔

 

دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفت اس طرح بیان فرمائی ہے کہ:

 

وَالَّذِیْنَ اِذَااَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ۔[45]

 

’’اوروہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تونہ فضول خرچی کرتے ہیں اورنہ تنگی کرتے ہیں اوران کاخرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پررہتا ہے‘‘۔

 

قواماً کے معنی ہیں عدلاً وصواباً یعنی درست اوراعتدال وتوازن۔اقتصاد اورمیانہ روی معیشت کومتوازن بنادیتی ہے اوراس کے برعکس اسراف واقتار یعنی فضول خرچی اوربخل وکنجوسی اسے غیر متوازن بناتی ہے ۔

 

رسول اللہ ﷺ نے بھی اقتصاد ومیانہ روی کی برکات بیان فرمائی ہیں:

 

عن ابی الدرداء قال رسول اللّٰہ ﷺ من فقہ الرجل رفقہ فی معیشۃٍ ۔[46]

 

’’ابودرداءؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے کہ کسی شخص کی دانشمندی اور فقاہت یہ ہے کہ وہ اپنی معیشت میں نرمی اورمیانہ روی اختیار کرے ‘‘۔

 

عن عبداللہ بن مسعودؓ قال رسول اللّٰہ ﷺ ماعال من اقتصد ۔[47]

 

’’ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے جوشخص خرچ کرنے میں اعتدال ومیانہ روی اختیارکرتاہے، وہ تنگدست نہیں ہوسکتا‘‘۔

 

عن حذیفہؓ قال رسول اللّٰہ مااحسن القصد فی الغنی واحسن القصد فی الفقر واحسن القصد فی العبادۃ۔[48]

 

’’حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے، کتنی اچھی ہے میانہ روی غنی ہونے کی حالت میں اورکتنی اچھی ہے میانہ روی فقرکی حالت میں اورکتنی اچھی ہے میانہ روی عبادت میں ‘‘۔

 

حضرت ابن عمرؓ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:  

 

الاقتصاد فی النفقۃ نصف المعیشۃ ۔[49]

 

’’خرچہ میں میانہ روی آدھی معیشت ہے ‘‘۔

 

شاید مطلب یہ ہے کہ ایک اچھی اورکامیاب معیشت کادارومدار دوچیزوں پرہے، ایک حصول رزق ومال کے لیے صحیح طریقہ سے جدوجہد اورمحنت ومشقت کرنا اوردوسری چیز مال خرچ کرنے میں میانہ روی اورکفایت شعاری سے کام لینا یعنی حد سے بڑھ کر خرچ نہ کرنا ۔

 

یہاں یہ واضح کردینا بھی ضروری ہے کہ انفاق مال کی مصرف کے لحاظ سے دوقسمیں یادو صورتیں ہیں، ایک کاتعلق فی سبیل اللہ سے ہے یعنی ایسے امور سے ہے جودین حق کی دعوت وتبلیغ اور نشرواشاعت نیزاجتماعی فلاح وبہبود اوررفاہ عامہ کے زمرہ میں آتے ہیں اوردوسری قسم یاصورت کاتعلق ان امور سے ہے جوکسی فرد اورشخص کی ذاتی حاجات وضروریات اورطبعی وفطری خواہشات سے وابستہ ہوتے ہیں، جیسے کھاناپینا، پہننا پوشنا، رہناسہنا وغیرہ جہاں تک انفاق مال کی پہلی قسم یاصورت کاتعلق ہے، یعنی انفاق فی سبیل اللہ کا، اس میں شریعت اسلامی نے زکوٰۃ وفطرہ کی حدتک توانفاق کی مقدار مقرر کی ہے، جس کااداکرنا غنی مسلمانوں پرواجب اورلازم ہوتاہے، زکوٰۃ دینے کے بعد جومال کسی غنی مسلمان کے پاس رہ جاتاہے، اس کے متعلق اسے اختیار ہوتاہے کہ چاہے توپورا راہ خدا اور مصارف خیر میں خرچ کرڈالے اورچاہے تواس کاایک حصہ خرچ کردے ۔بہرحال اگرکوئی مسلمان اپناپورا مال راہ خداورمصارف خیرمیں خرچ کر دیتاہے تواس کاایسا کرنااسراف کی تعریف میں نہیں آتا اوروہ گنہگار نہیں ٹہرتا، بلکہ بڑے اجروثواب کامستحق قرارپاتاہے اسراف کاتعلق دوسری قسم کے انفاق سے ہے یعنی ذاتی حاجات اورنجی ضروریات پرحدسے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے، جس سے منع کیاگیاہے ۔[50]

 

الحاصل صرف وخرچ میں اسراف اورتبذیر معیشت فاسدہ اورمعاشرتی بدامنی کی علامات ہیں، اس لیے ’’اقتصاد‘‘ اورمیانہ روی اختیارکرنا ضروری ہے ۔ 

 

8: اتلاف مال:

سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ وہ تلف مال کو جرم قرار نہیں دیتا، بلکہ اس کومال کے مالک کاجائز حق قراردیتاہے، چنانچہ مشہورمغربی محقق جان آسٹن کہتا ہے:

 

’’غیر منقول املاک یامویشی وغیرہ میں مطلق ملکیت کی روسے اپنی ملکیت کے تباہ کردینے یاضائع کردینے کاحق حاصل ہے،

 

مگرشرط یہ ہے کہ اس تباہی میں کسی دوسرے فرد پرکوئی برااثر نہ پڑے ‘‘۔[51]

 

دراصل نظام سرمایہ داری نے ملکیت کاجو بے قید اورخودمختار تصوردیاہے اس کاتقاضا ہی یہ ہے کہ فرد کے لیے اپنے مال کوضائع کردینے کاحق بھی تسلیم کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے حامل ممالک میں اس قسم کے اتلاف مال کوقانونی تحفظ حاصل ہے، ان ممالک میں اموال تجارت یاصنعتی اورزرعی پیداوار کوضائع کردینا کوئی انوکھی بات نہیں ہے، جب کاروباری یہ دیکھتاہے کہ مال کے ایک حصہ کوتلف کردینے سے بقیہ مال کی قیمت چڑھ جائے گی اورمجموعی نفع میں اضافہ ہوجائے گا تواس کی خودغرضی اسے مال کو تلف کرنے پرآمادہ کردیتی ہے ۔اس کے برعکس اسلامی تصور ملکیت کااولین تقاضا یہ ہے کہ فرد کواپنی ملکیت کے فضول ضائع کرنے کاحق نہ دیاجائے ۔اسلام نے ملکیت کاجوتصوردیاہے اس کی روسے ہرقسم کی اشیاء اصلاً اللہ کی پیداکردہ اوراس کی ملکیت ہیں، اللہ تعالیٰ جس کو عطاکردے، وہ ان کامالک توبن جاتاہے، اور اللہ ان میں تصرف وانتقال کے حقوق بھی اس کوعطا کردیتاہے، مگریہ تمام حقوق اللہ تعالیٰ کی مرضی اوراس کے مصالح کے پابند ہوتے ہیں ۔گویا انسان کوہر قسم کی اشیاء پرملکیت توحاصل ہے مگرآزاد اورمختار نہیں، بلکہ اصلی مالک کی طرف سے کچھ حدود وقیود اس ملکیت پرعائد ہیں ۔اس لحاظ سے انسان کی ملکیت فی الحقیقت مالک حقیقی کی امانت ہے اوریہ بات ظاہرہے کہ امین کوامانت کے ضائع کردینے کاحق نہیں ۔

 

دراصل اس سلسلہ میں اسلام کانقطہ نظریہ ہے کہ مال واملاک وغیرہ بنی نوع انسان کی زیست کاسہاراہیں، اس سہارے کوغلط طریقہ سے ضائع کرنا فی الواقعی پوری انسانیت کی حق تلفی اورنسل انسانی پر صریح ظلم کے ہم معنی ہے، اسی لیے اتلاف مال کوفساد سے تعبیر کرتے ہوئےارشاد ہے:

 

وَاِذاتَوَلیّٰ سَعیٰ فِی الْارْضِ لِیُفْسِدَ فیْھَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّٰہُ لَایُحِبُّ الْفَسَادَ۔[52]

 

’’اورجب وہ لوٹ کرجاتاہے توزمین میں اس لیے دوڑدھوپ کرتا پھرتاہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کوغارت کرے اورنسل انسانی کو تباہ کردے، حالانکہ اللہ فساد کو ہرگزپسندنہیں کرتا‘‘۔

 

ایک دوسری جگہ پراسی طرح ارشادربانی ہے:  

 

وَلَا تُفْسِدُوْافِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا ۔[53]

 

’’اورزمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے ‘‘۔

 

آنحضرت ﷺ نے بھی مختلف مواقع پرصراحتاً مال کو ضائع کرنے کی ممانعت فرمائی ۔امام بخاری کتاب الرقاق میں حضرت مغیرہؓ سے ایک روایت لائے ہیں، آپ ؐ فرماتے ہیں:

 

قالَ وکان ینتہی عنْ قیل وقال وکثرۃ السُّوال واضاعۃ الْمال ومنع وَّھاتٍ وعقوق الامھات ووادِ الْبناتِ۔ [54]

 

’’ (راوی نے) کہا کہ آپؐ قیل وقال کرنے، بہت زیادہ سوالات دریافت کرنے، مال کوضائع کرنے، خودنہ دینے اور دوسروں سے مانگنے، ماں کی نافرمانی کرنے اوربچوں کو زندہ دفن کرنے سے منع فرمایاکرتے تھے ‘‘۔

 

اسی طرح کتاب الزکوٰۃ میں بھی حضرت مغیرہ بن شعبہ سے ہی امام بخاری ایک روایت لائے ہیں، اس میں بھی آنحضرت ﷺ نے بڑے ہی صریح الفاظ میں اتلاف مال سے منع فرمایاہے، حضرت مغیرہؓ فرماتے ہیں:

 

سمِعْتُ النّبی ﷺ یقولُ اِنَّ اللّٰہ کرہ لکُمْ ثلاثاً قیل وقال واضاعۃ الْمال وکثرۃ السّوالِ ۔[55]

 

’’میں نے نبی ﷺ کویہ فرماتے سناہے کہ اللہ نے تمہارے لیے تین چیزوں کوناپسند فرمایا ہے، قیل وقال کرنا، مال ضائع کرنا اورکثرت سے سوال کرنا‘‘۔

 

یہی مضمون صحیح مسلم میں ایک دوسری مفصل حدیث میں بھی آیاہے، اس کی تشریح کرتے ہوئے امام نووی ؒ لکھتے ہیں:

 

واما اضاعۃ المال فہو صرفہ فی غیر وجوہہ الشرعیۃ وتعریضہ للتلف و سبب النہی انہ فساد واللّٰہ لایحب المفسدین ولانہ اذاضاع مالہ تعرض لمافی ایدی الناس۔[56]

 

’’اضاعت مال سے مراد مال کوغیرشرعی طورپرصرف کرنا اورتلف بے جا کے حوالہ کرناہے، ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ (معاشرہ میں) بگاڑپیداکرنے کے ہم معنی ہے اوراللہ فساد پیداکرنے والوں کو ناپسندکرتاہے، مزیدبرآں یہ کہ جب کوئی شخص اپنا مال ضائع کردے گا توکسی دوسرے کے مال پرقبضہ کرنے کی فکرمیں لگ جائے گا‘‘۔

 

امام نووی کی اس تشریح سے یہ بھی واضح ہوگیاکہ قرآن کریم میں فساد (بگاڑ) پیداکرنے کی جوممانعت آئی ہے، اس میں تلف مال کی ممانعت خودبخود شامل ہے، کیونکہ تلف مال فساد پیداکرنے کی ایک شکل ہے ۔

 

مفیداشیاء کی تباہی دراصل اسلام کی نظرمیں پوری انسانیت کامشترکہ نقصان ہے، یہی وجہ ہے کہ دشمنوں سے جنگ کی حالت میں بھی تلف مال سے حتی الامکان پرہیزکواسلام ضروری قراردیتا ہے، حضرت ابوبکرؓ صدیق نے جب شام کی طرف فوجیں روانہ فرمائیں، توحضرت یزید بن ابی سفیانؓ سپہ سالار افواج کونصیحت فرمائی:  

 

انّی موصیک بعشر لا تقتلن امرأۃ ولاصبیاً ولاکبیراً ھرِما ولا تقطعن شجراً مثمراً ولا تخربنّ عامراً ولا تعقرنَّ شاۃً ولابعیراً الّا لاکلہ ولا تحرقن نخلاً ولا تغرقنّہ ولا تغلل ولاتجُبْنَ۔[57]

 

’’میں تمہیں دس باتوں کی تلقین کرتاہوں: کسی عورت، بچے یابہت بوڑھے کوقتل نہ کرنا، کسی بھی پھل دار درخت کونہ کاٹنا، کسی آبادزمین کو ویران نہ کرنا، کسی بکری یااونٹ کوبجز غذائی ضروریات کے ذبح نہ کرنا، شہدکی مکھیوں کونہ جلانا اورنہ انہیں پانی میں غرق کرنا، مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا اوربزدلی نہ دکھانا‘‘ 

 

البتہ حالت جنگ میں اگردشمن کی طاقت توڑنے کے لیے مال تلف کرناناگزیرہوجائے تو اس کی اجازت دی گئی ہے، جیساکہ سورۃ الحشر کی درج ذیل آیت سے صراحتاً معلوم ہوتاہے:

 

مَاقَطَعْتُمْ مِّنْ لِیْنَۃٍ اَوْتَرَکْتُمُوْھَاقَآءِمَۃً عَلآ اُصُوْلِہَا فَبِاِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ ۔[58]

 

’’تم نے کھجوروں کے جودرخت کاٹ ڈالے یاجنہیں تم نے ان کی جڑوں پرباقی رہنے دیا، یہ سب اللہ تعالیٰ کے فرمان سے تھا اوراس لیے بھی کہ فاسقوں کواللہ تعالیٰ رسواکرے ‘‘۔

 

یہودی گروہ بنونضیر کے محاصرہ کے دوران نبی کریم ﷺ کے حکم سے مسلمانوں نے بنونضیر کے کھجوروں کے درختوں کو آگ لگادی، کچھ کاٹ ڈالے اورکچھ چھوڑ دئیے، جس سے مقصود دشمن کی آڑ کو ختم کرنا اوریہ واضح کرنا تھاکہ اب مسلمان تم پر غالب ہیں، وہ تمہارے اموال وجائیداد میں جس طرح چاہیں تصرف کرنے پرقادرہیں، اللہ تعالیٰ نے بھی مسلمانوں کی اس حکمت عملی کی تصویب فرمائی اوراسے یہود کی رسوائی کاذریعہ قراردیا ۔غرض اسلام میں اتلاف مال کی ممانعت ایک ثابت شدہ اصول ہے، جس پرچلنا ہرمسلمان پرلازم ہے ۔

 

9: ناپ تول میں بدعنوانی کرنا:

ناپ تول میں بدعنوانی کرناایک تواخلاقی جرم ہے، دوسرے یہ کئی برائیوں کامجموعہ ہے، مثلاً جھوٹ، خیانت، دھوکہ دہی وغیرہ ۔ اس لیے اسلام نے اس کی سختی سے ممانعت کی ہے، قرآن حکیم میں متعدد مقامات پرپوراتولنے کاحکم آیاہے، ایک جگہ ارشادہے:

 

وَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ۔[59]

 

’’اورپیمانے اورمیزان کو انصاف کے ساتھ پوراکرو‘‘۔

 

ناپ تول میں کمی کرنا، لیتے وقت توپوراتول لینا، مگر دیتے وقت ایسانہ کرنا، بلکہ ڈنڈی مارکر دوسرے کو کم دینا، یہ نہایت پست اور اخلاق سے گری ہوئے بات ہے، قوم شعیب علیہ السلام میں یہی اخلاقی بیماری تھی جس سے انہیں منع فرمایاگیا اورانہیں پوراپورا ناپ اورتول کردینے کی تلقین کی گئی، قرآن حکیم میں ارشادہے:

 

فَاَوْفُواالْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ وَلَاتَبْخَسُواالنَّاسَ اَشْیَآءَ ہُمْ ۔[60]

 

’’پس تم ناپ اورتول پوراپورا کیاکرو اورلوگوں کوان کی چیزیں کم کرکے مت دو‘‘۔

 

اسی طرح ایک اورمقام پرتولنے کی چیزوں کوصحیح ترازو سے تول کردینے کاحکم دیاگیاہے:

 

وَاَوْفُواالْکَیْلَ اِذَاکِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَأْوِیْلاً ۔[61]

 

’’اور پورابھردو ماپ جب ماپ کردینے لگو اورتولو سیدھی ترازو سے، یہ بہتر ہے اوراچھاہے اس کاانجام ‘‘۔

 

آیت مذکورہ کے آخرمیں ناپ تول پوراکرنے کے متعلق دوباتیں ارشادفرمائیں، ایک اس کاخیرہونا، اس کاحاصل یہ ہے کہ ایساکرنا اپنی ذات میں اچھا اوربہترہے، شرعی کے علاوہ عقلی اورطبعی طورپر بھی کوئی شریف انسان ناپ تول کی کمی اچھانہیں سمجھتا ۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ انجام اس کا بہترہے، جس میں آخرت کاانجام اورحصول ثواب وجنت توداخل ہے ہی، اس کے ساتھ دنیا کے انجام کی بہتری کی طرف بھی اشارہ ہے ۔ایک اورمقام پرارشادہے:

 

وَاَقِیْمُوالوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَاتُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ ۔[62]

 

’’انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اورتول میں کم نہ دو‘‘۔

 

دوسری جگہ ایسے لوگوں کے لیے سخت وعید آئی ہے جو ناپ تول میں کمی کرتے ہیں:

 

وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِیْنَ oاَلَّذِیْنَ اِذَاکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ oوَاِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ وَزَنُوْ ہُمْ یُخْسِرُوْنَ oاَلاَیَظُنُّ اُولٰءِکَ اَنَّہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ o لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ oیَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔[63]

 

’’ان لوگوں پردردناک عذاب ہے جودوسروں کاحق کم دیتے ہیں، اورکم ناپتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں کہ جب دوسروں سے اپنا حق وصول کرنے کاموقع آتاہے تواس وقت اپناحق پوراپورالیتے ہیں، لیکن جب دوسروں کوناپ کریاتول کردینے کاموقع آتاہے تواس وقت (ڈنڈی ماردیتے ہیں) کم کردیتے ہیں ۔ (جتناحق دیناچاہئے تھا، اتنانہیں دیتے) ۔ (آگے اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ) کیاان لوگوں کویہ خیال نہیں کہ ایک عظیم دن میں دوبارہ زندہ کیے جائیں گے، جس دن سارے انسان ربُّ العٰلمین کے سامنے پیش ہوں گے ‘‘ (اوراس وقت انسان کواپنے چھوٹے سے چھوٹے عمل کوبھی پوشیدہ رکھنا ممکن نہیں ہوگا اوراس دن ہمارا اعمال نامہ ہمارے سامنے آجائے گا، توکیا ان لوگوں کویہ خیال نہیں کہ اس وقت کم ناپ کر اورکم تول کر دنیاکے چند ٹکوں کاجو تھوڑا فائدہ اورنفع حاصل کررہے ہیں، یہ چند ٹکوں کافائدہ ان کے لیے جہنم کے عذاب کاسبب بن جائے گا، اس لیے قرآن کریم نے باربارکم ناپنے اور کم تولنے کی بُرائی بیان فرمائی اوراس سے بچنے کی تاکید فرمائی)

 

ناپ تول میں کمی ایک تویہ ہے کہ دکان دار سودا بیچنے میں ڈنڈی مارتاہے اورخریدارکو وزن یاناپ کے اعتبارسے چیزکم دیتاہے عرف عام میں اسی کوناپ تول میں کمی کہتے ہیں، لیکن جولوگ اپنی ڈیوٹی پوری نہیں دیتے، تاخیر سے کام پر پہنچتے ہیں یاوقت سے پہلے کام چھوڑدیتے ہیں یاوقت توپورا دیتے ہیں مگر اس میں سوتے رہتے ہیں یاکام کی طرف توجہ نہیں دیتے اورلاپرواہی کامظاہرہ کرتے ہیں، یہ سب ناپ تول میں کمی کے زمرے میں آتاہے ۔ مذکورہ آیت میں دردناک عذاب کی جووعید آئی ہے وہ ایسے تمام لوگوں کیلئےبھی ہے ۔

 

ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  

 

’’پانچ چیزیں پانچ چیزوں سے آتی ہیں، صحابہؓ نے پوچھاوہ پانچ چیزیں کیاہیں ؟ آپ نے فرمایا:

 

1۔ جب کوئی قوم عہدتوڑتی ہے تواللہ اس پر اس کے دشمن کو مسلط کردیتاہے ۔

 

2۔ جب وہ اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف فیصلہ کرتی ہے تواس میں فقر (افلاس) پھیل جاتاہے ۔

 

3۔ جس قوم میں بے حیائی پھیل جاتی ہے، اس میں موت کی کثرت ہوجاتی ہے ۔

 

4۔ جوقوم زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کرنے لگتی ہے، اس سے بارش روک لی جاتی ہے ۔

 

5۔ جب وہ ناپ تول میں کمی کرنے لگتی ہے توان کی زمین سے رویدگی روک لی جاتی ہے اوراسے قحط میں مبتلاکیاجاتاہے ۔[64]

 

حضرت سویدبن قیسؓ کہتے ہیں:

 

’’میں اورمخرمہ مقام ہجر سے کپڑا خریدکرلائے تومیں نے رسول اللہ ﷺ کوایک شلوار فروخت کی، وہاں ایک وزن کرنے والاتھا جواجرت لے کر وزن کیاکرتاتھا تورسول اللہ ﷺ نے اس فرمایا کہ وزن کیاکرو اورجھکتاہوا تولاکرو‘‘۔[65]

 

خلاصہ یہ کہ اسلام کے مذکورہ بالازرین تعلیمات پر عمل کرنے سے ریاست میں معاشی استحکام پیداہوگا جس کے نتیجے میں معاشرے سے بدامنی اور فساد کاکافی حد تک خاتمہ ہوجائیگا ۔

حوالہ جات

  1. التوبہ34: 9-35
  2. عبدالماجد دریاآبادی، تفسیرماجدی، کراچی، تاج کمپنی لمیٹڈ، 1952ء، ص 403
  3. اٰل عمران180: 3
  4. الہُمزۃ1: 104-3
  5. الحشر7: 59
  6. الذّٰرِیٰت19: 51
  7. حفظ الرحمن سیوہاروی، اسلام کا اقتصادی نظام، (ترتیب جدید، نورمحمدغفاری) کراچی، شیخ الہنداکیڈمی، ص 117-120
  8. محمود حسن، ایضاح الادلہ، مطبوعہ دیوبند انڈیا، ص 268 بحوالہ سعیدالرحمن علوی، اسلامی حکومت کافلاحی تصور، لاہور، مکتبہ جمال 2003ء ص 91
  9. عمادالدین ابن کثیر، تفسیرالقرآن العظیم، الشہیر بتفسیرابن کثیر، لاہور، سہیل اکیڈمی، 1392ھ، تفسیر سورۃ توبۃ، آیت 34-35
  10. بخاری، محمد بن اسمعیل، الجامع الصحیح، کتاب الرقاق، باب قول النّبیّ ﷺ مااحب ان۔۔۔
  11. ابن ماجہ، محمدبن یزید القزوینی، السنن، ابواب التجارات، باب الحکرۃ والجلب
  12. ایضاً
  13. مولانا محمد یوسف لدھیانوی، آپ کے مسائل اور ان کا حل، کراچی، مکتبہ لدھیانوی، 1997ء، 6: 79-80
  14. النووی، ابوزکریا، یحییٰ بن شرف، المنہاج فی شرح مسلم، کتاب البیوع، باب تحریم تلقی الجلب، 2: 4
  15. مسلم، کتاب البیوع، باب تَحْرِیْمُ تَلَقِّیِ الْجَلْبِ
  16. Oxford Advanced Learners Dictionary, 8th Edition, p1482
  17. تقی عثمانی، فقہی مقالات، کراچی، میمن اسلامک پبلیشرز، 1994ء، 51: 5
  18. عبدالرحمن کیلانی، اسلام میں ضابطہ تجارت، لاہو، مکتبہ اسلام، ص 88۔89
  19. ترمذی، ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ، السنن، ابواب البیوع، باب ماجآء فی کراہیۃ بیع مالیس عندہ
  20. تقی عثمانی، فقہی مقالات، 52: 5-55
  21. عبدالرحمن کیلانی، اسلام میں ضابطہ تجارت، ص 89
  22. البقرہ219: 2
  23. المائدہ90: 5
  24. البقرہ188: 2
  25. مفتی محمد شفیع، معارف القرآن، کراچی، ادارۃ المعارف، 1979ء، ج1، ص 533-536
  26. السنن لابن ماجہ، ابواب التجارات، باب النہی عن تلقی الجلب
  27. رحمانی خالد سیف اللہ، جدید فقہی مسائل، لاہور، حراپبلی کیشنز، 1989ء، ج1، ص238-239محمد کمال الدین، جدید تجارت، اورروز مرہ معاملات کے شرعی احکام، کراچی، ماریہ اکیڈمی، 2002ء، ص88-90
  28. مولاناگوہررحمن، تفہیم المسائل، مردان، مکتبہ تفہیم القرآن، 1999ء، ج3، ص 358-359
  29. لدھیانوی، مفتی رشید احمد، احسن الفتاوٰی، کراچی، ایچ ایم سعیدکمپنی، 1420ھ، ج8، ص95
  30. فتاوٰی حقانیہ، اکوڑہ خٹک، دارالعلوم حقانیہ، 2003ء، ج6، ص69-70
  31. ایضا، ج6، ص71
  32. الاصفہانی، الحسین بن محمد المعروف بالراغب، معجم مفردات الفاظ القرآن، کراچی، میرمحمدکتب خانہ، ص 236
  33. صدیقی، محمدنجات اللہ، اسلام کانظریہ ملکیت، لاہور، اسلامک پبلی کیشنز، 1989ء، ج1، ص215
  34. الاعراف31: 7
  35. الجامع الصحیح للبخاری، کتاب اللباس، باب قول اللّٰہ تعالیٰ من حرّم زِینَۃ اللّٰہ ۔۔۔
  36. ایضا
  37. المفردات لالفاظ القرآن، ص 37
  38. القرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، قاہرہ، دارالکاتب العربی، 1967ھ، ج10، ص247
  39. محمود الحسن، شبیراحمدعثمانی، فوائدالقرآن، مدینہ منورہ، 1989ء، ص 377
  40. آلوسی، شہاب الدین، سیدمحمود البغدادی، ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، بیروت، احیاء التراث العربی، 1405ھ، ج15، ص63
  41. مولانامحمدطاسین، اسلام کی عادلانہ اقتصادی تعلیمات، کراچی، مجلس علمی فاؤنڈیشن، 1997ء، ص 143
  42. الاسراء 26: 17-27
  43. مناظراحسن گیلانی، اسلامی معاشیات، کراچی، دارالاشاعت، ص 440
  44. الاسراء 29: 17
  45. الفرقان 67: 25
  46. مسنداحمد، 194: 5
  47. ایضا447: 1
  48. کشف الاستار عن زوائد البزار، ج4، ص232
  49. کنزالعمال للہندی، کتاب الاخلاق، باب فی الاخلاق والافعال المحمودۃ، رقم 5434، ج3، ص49
  50. مولانامحمدطاسین، اسلام کی عادلانہ اقتصادی تعلیمات، ص145-146
  51. بحوالہ فہیم عثمانی، اسلامی معیشت کے چندنمایاں پہلو، لاہور، اسلامک پبلی کیشنز، 1987ء، ص81
  52. البقرۃ205: 2
  53. الاعراف85: 7
  54. بخاری، کتاب الرقاق، باب مایکرہ من قیل وقال
  55. بخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب قول اللّٰہ تعالیٰ لایسئلون النّاس الحافا۔۔۔
  56. نووی، شرح مسلم، کتاب الاقضیہ، باب النہی عن کثرۃ المسائل من غیرحاجۃ، ج2، ص76
  57. موطاامام مالک، کتاب الجہاد، باب النہی عن قتل النّساء ۔ ۔ ۔ص 464
  58. الحشر 5: 59
  59. الانعام152: 6
  60. الاعراف85: 7
  61. الاسراء35: 17
  62. الرحمن9: 55
  63. المطففین 1: 83-6
  64. الترغیب والترہیب للمنذری، کتاب الصدقات، الترہیب من منع الزکوٰۃ، رقم 21، 1: 544
  65. ابوداودطیالسی، المسند، بیروت، دارالمعرفۃ، ص165، رقم 1192 
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...