Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

معاصر مسلم تعلیمی حالت اور مستقبل کے چیلنجز: پاکستان کے تناظر میں |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060029185_1200

Pages

174-189

DOI

10.51411/rahat.2.2.2018.41

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/41/338

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/41

Subjects

Education Muslim world challenges Islam Education Muslim world challenges Islam

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اگر ہم مسلمانوں کے ابتدائی صدیوں کے رائج نظام تعلیم پر غور کریں تو ہمیں دینی اور دنیوی تعلیم کی کوئی تفریق نہیں ملے گی ۔لیکن گزشتہ تقریباً دو سو سال سے اسلامی دنیا میں مختلف فکری بنیادوں پر الگ الگ قسم کے تعلیمی ادارےقائم ہیں، عصری اداروں میں علوم دینیہ یا مابعد الطبیعات سے بیگانگی نظر آتی ہے اور مدارس دینیہ میں خالصتاً دینی علوم پر زور دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ علوم طبعیہ سے لا تعلقی برتتے رہے، یوں ہمارےنظام تعلیم میں وحدت نہ رہی اور دو ایسی دھاریوں میں تقسیم ہوگیا جو متوازی تو چلتے ہیں لیکن آپس میں کبھی نہیں ملتے اور اس کے نتیجے میں مختلف خیالات کے گریجویٹ پیدا ہو رہے ہیں، جوعملی دنیا میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے ۔آج کی مسلم دنیا کو درحقیقت ایک نئے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جودینی وعصری تعلیمی نظاموں کو یکجا کرکے ایک ایسا جدید ترین نظام تعلیم مرتب کیا جائے جس میں دینی و دنیا وی علوم متناسب مقدار میں جمع کردئیے جائیں ۔دینی علوم کا عالم بننا ہر ایک طالب علم پر ضروری نہیں لیکن دین کی بنیادی معلومات حاصل کرنا ہر مسلمانوں کے لئے ضروری ہے۔ آج ہم اگر دنیوی لحاظ سے مغلوب ہیں تو دینی لحاظ سے متحارب فرقوں میں تقسیم ہیں اس لیے پہلے علوم اسلامیہ کے احیاء اور اس کو زندہ کرنے پر توجہ صرف کرنا ہوگی اور ملت اسلامیہ کے تحفظ کے لئے سائنسی علوم کو بھی سیکھنا ہو گا۔ عصرحاضراور مستقبل میں علمی پیش رفت کے حوالے سے ہماری کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں جنہیں پورا کرکے مسلمان پوری دنیا کے لئے امن وآشتی کے حقیقی پیامبر بن سکتے ہیں۔زیر نظر مقالہ میں ہماری موجودہ تعلیمی حالت اور مستقبل کی ذمہ داریوں پرتفصیل کے ساتھ بحث کی گئی ہے۔

 

دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ اسلام کے پیروکاروں پر مشتمل ہے ۔ مسلمان دنیا کے تقریباً ہر حصے میں آباد ہیں 56 آزاد وخود مختار اسلامی ممالک میں سےزیادہ تربراعظم ایشیا وافریقہ میں واقع ہیں، ان میں سعودی، عراق، کویت، پاکستان، ترکی، انڈونیشیا اور ملائیشیا زیادہ اہم ہیں ۔ براعظم افریقہ میں مصر، صومالیہ، سوڈان، لیبیا، الجزائر اور مراکش زیادہ مشہور ہیں۔یورپ کے مسلم ممالک میں البانیہ، بوسنیا اور ترکی شامل ہیں۔الغرض دنیا کا کوئی براعظم ایسا نہیں جہاں مسلمان نہ بستے ہوں ۔

 

معاصر اسلامی دنیا کو جو مختلف النوع مسائل و چیلنجز درپیش ہیں ان میں ناخواندگی، جہالت اور فرسودہ نظام تعلیم بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ تعلیم کے حوالے سے آج وہ امت پریشان فکر ہے جس کی بنیاد ہی علم وعرفان پر رکھی گئی تھی اور جس کے لیے الہامی پیغام کا آغاز ہی لفظ "اقراء" یعنی لکھنے پڑھنے سے ہوا تھا اور پوری دنیا کو اس نے علم، تعلیم وتہذیب سے منور کیا ۔ اسلامی نکتہ نظر سے بنی نوع انسان نے اپنے سفر کا آغاز جہالت وتاریکی سے نہیں، بلکہ علم اور روشنی سے کیا ہے۔خالق کائنات نےحضرت آدم ؑ کوسب سےپہلےعلم جیسےعظیم نعمت سےسرفرازفرمایااورعلم ہی کی بدولت حضرت آدم ؑ اور بنی نوع انسان کو ساری مخلوقات پر عظمت وفضیلت بخشی۔ تخلیق آدم کے وقت اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور فرشتوں کے درمیان ایک بڑا معنی خیز مکالمہ ہوا تھا جس میں اللہ سبحانہ وتعالی نے اس وقت کی تمام ذوی العقول مخلوقات کو مطلع فرمایا: وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً[1] "اور جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔" تو فرشتوں نے رائے پیش کی کہ انسانوں میں تو ایسے لوگ بھی ہوں گے جو فساد اور خون ریزی کریں گے ان کو زمین کی خلافت اور انتظام سپرد کرنا سمجھ میں نہیں آتا، اس کام کے لیے تو فرشتے زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کی فرشتوں پر ترجیح اور مقام علم میں اس کے تفوق کا ذکر کیااور فرمایا کہ خلافت ارضی کے لیے تمام کائنات عالم کے نام اور ان کے خواص وآثار کا جاننا ضروری ہےاور علم کی یہ صلاحیت صرف حضرت آدم ؑ ہی میں ودیعت کی گئی تھی ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَعَلَّمَ آَدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ[2]۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ ۔

 

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض چیزوں کے نام جاننے کو انسان کی تخلیق اور افضلیت پر دلیل ٹھہرایا گیا یعنی امر واقعہ یا امر موجود کو جاننے کی صلاحیت رکھنا، یہ صلاحیت اللہ تعالیٰ نے انسان میں تخلیق کر دی ہےاور باقی مخلوقات میں پیدا نہیں کی، اس بنا پر انسانوں کو باقی تمام مخلوقات یہاں تک کہ فرشتوں پر عزت وعظمت اور فضیلت عطا کرکے مسجود ملائک ٹھہرایا گیا۔[3]

 

دین اسلام کی آمد نے ہر طرف علم وحکمت کی شمع روشن کر دی اور وہ عرب بدو جو عام طور پر جہالت کی نسبت سے ہی پہچانے جاتے تھے سب سے مہذب قوم بن کر دنیا کے سامنے آئے۔اس لیے کہ اسلام نے ہر مرد وعورت پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے۔آپ ﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ[4]یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔

 

اسی بنیاد پر مسلمانوں نے نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی علوم میں بھی کمال حاصل کیا۔جس مسلم معاشرہ کی بنیاد آپ ﷺ نے مدینہ منورہ میں رکھی اس معاشرے کی نمایاں خصوصیات میں سب سے پہلے "علم " ہی آتا ہے۔جس میں تعلیم وتعلم اور ابلاغ علم کو امت مسلمہ کا بنیادی فریضہ قرار دیا گیا۔تعلیم اور علم کی بنیاد پر انسانوں کو تمام مخلوق پر عظمت وفضیلت اور خلافت ارضی عطا فرمائی۔ اس حقیقت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:

 

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا[5]

 

ترجمہ: اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ہے اور خشکی اور دریا میں اسے سوار کیا اور ہم نے انھیں ستھری چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انھیں فضیلت عطا کی۔

 

آپ ﷺ کی جامع اور ہمہ گیر تعلیمات کے سبب اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے انسانوں کے لیے آپ ﷺ کی اطاعت واتباع لازم کر دی اور آپ ﷺ کی حیات طیبہ کو اسوہ کامل قرار دیا ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [6]

 

ترجمہ: تحقیق تم لوگوں کیلئے اللہ کے رسول ﷺکی زندگی ایک بہترین نمونہ ہے۔

 

معلم انسانیت ﷺ نے علم و اہل علم کے بے شمار فضائل بیان فرمائے، آپ ﷺ نے حصول علم کو امت کا دینی، ملی اور اجتماعی فریضہ قرار دیا، آپ ﷺ نے ابلاغ علم اورفروغ تعلیم وتعلم کے فضائل بیان فرمائے اور کتمان علم کو گناہ عظیم قرار دیا ۔ آپ ﷺ نے علم حاصل کرنے کی ترغیب دیکر فرمایا: مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ کَانَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّی يَرْجِعَ [7]

 

ترجمہ: جو شخص علم کی تلاش میں نکلے وہ واپس لوٹنے تک اللہ کی راہ میں ہے۔

 

بے شمار مناصب کے باوجود آپ ﷺ نے تفاخر کے طور پر فرمایا: إِنَّمَابُعِثْتُ مُعَلِّمًا[8]

 

ترجمہ: اور مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔

 

آپ ﷺ کی ان تعلیمات کی بدولت دور رسالت کے آغاز سے تعلیم وتعلم کا ایک ہمہ گیر انقلاب برپا ہوا، اولین اسلام لانے والوں میں سے ایک صحابی ارقم رضی اللہ تھے، ان کا مکان کوہ صفا کی بلندی پر واقع تھا جس کو دار ارقم کہا جاتا تھا، نبی کریم ﷺ نے اس کو اسلام کا پہلا مرکز بنایا اور یہی تعلیم گاہ قائم ہوئی[9] اسی طرح مدینہ منورہ میں صفہ، مسجد قبا اور دیگر درس گاہوں کے ذریعے وہ علمی وتعلیمی انقلاب برپا ہوا جس نے پوری دنیا کو منور کیا اور انسانیت کو تہذیب اور آئین حیا ت عطا کیا ۔

 

معلم انسانیت ﷺ نے فروغ علم کے لیے جو اقدامات فرمائے ان میں سے ایک اہم واقعہ ان قیدیوں کا ہے جو کفر اسلام کے پہلے معرکہ یعنی غزوہ بدر میں مسلمانوں کی قید میں آئے آپ ﷺ نے ان میں سے بعض کی رہائی کے لیے یہ فدیہ مقرر کیا کہ مدینہ منورہ کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں ۔[10]اس واقعہ سے آپ ﷺ کی تعلیم وتعلم سے گہری دلچسپی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔آپ ﷺ نے تعلیم وتعلم کا مادی سطح سے بلند تصور پیش کیا اور اہل ایمان کے دلوں یہ بات جا گزین کردی کہ تدریس اور تعلیم کا کام عبادت کی طرح محترم اور مقدس ہے، یہ وہ کار خیر ہے جس کا اجر آخرت میں ملے گا ۔آپ ﷺ نے فرمایا:

 

أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ أَنْ يَتَعَلَّمَ الْمَرْئُ الْمُسْلِمُ عِلْمًا ثُمَّ يُعَلِّمَهُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ [11]

 

ترجمہ: بہترین صدقہ (نیکی کا کام) یہ ہے کہ ایک مسلمان علم حاصل کر کے اپنے مسلمان بھائی کو اس کی تعلیم دے۔"

 

نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو اس بات کی بھی ترغیب دی کہ وہ مختلف زبانیں سیکھیں۔ آپ ﷺ نے کاتب وحی حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ سے فرمایا: " میرے پاس مختلف بادشاہوں کے خطوط آتے ہیں میں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی غیر اس کو پڑھے ۔تم عبرانی یا سریانی زبان سیکھ لو تاکہ ہم ان بادشاہوں کے ساتھ خط وکتابت کر سکے ۔حضرت زید رضی اللہ نے 17 دن میں یہ زبان سیکھ لی اور کسریٰ کے ایلچی سے فارسی زبان سیکھی۔اسی طرح کئی صحابہ کرام ایسے تھے جنہیں اپنی زبان کے علاوہ دوسری زبانوں پر عبور حاصل تھا انہیں میں سے ایک عبداللہ بن زبیر رضی اللہ بھی تھے جو کئی زبانوں کے ماہر تھے۔[12] خالص دینی علوم کے علاوہ آپ ﷺ نے اپنے زمانے کے رائج الوقت مفید علوم سیکھنے کی نہ صرف ترغیب دی بلکہ خود بھی اس کا اہتمام فرمایا، چنانچہ آپﷺ کا حکم تھا کہ نشانہ بازی وتیراکی کی تعلیم ضرور دی جائے۔[13]

 

مندرجہ بالا اسلامی تعلیمات وہدایات کے باوجود آج امت مسلمہ کی تعلیمی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہیں ۔چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان تعلیم وتحقیق اور سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں دیگر اقوام عالم سے حد درجہ پیچھے ہیں۔سارے عالم اسلام میں ایک خوفناک قسم کا علمی جمود نظر آتا ہے، اس وقت مسلمان ملکوں میں تعلیم کی صورت حال یہ ہے کہ دو چار ممالک کے سوا پورے عالم اسلام میں شرح خواندگی 30سے 40 فیصد سے زیادہ نہیں حالانکہ مغربی ممالک کا تو ذکر کیا سری لنکا جیسے چھوٹے سے ملک میں شرح خواندگی 99 فیصد ہے۔اس وقت پورے عالم اسلام میں ڈیڑھ ارب

 

 

فی میل شرح خواندگی٪ میل شرح خواندگی٪ ٪ٹوٹل شرح خواندگی تعلیمی اخراجات ٪GDP ملک نام نمبر شمار
24. 6 43. 1 33. 4 4. 4 مالی 1
25. 8 49. 7 37. 8 0. 4 صومالیہ 2
24 52 38. 2 1. 9 افغانستان 3
31. 9 48. 5 40. 2 3. 2 چاڈ 4
99. 7 99. 9 99. 8 2. 8 آذربائیجان 5
97. 3 97. 9 97. 8 4. 1 قطر 6
91. 3 97. 5 94. 7 5. 6 سعودی 7
91. 5 96. 3 93. 3 2. 8 انڈونیشیا 8
45. 3 71. 5 58. 7 2. 7 پاکستان 9
58. 5 64. 6 61. 5 2. 4 بنگلادیش 10

مسلمانوں میں تقریباً ساٹھ سے ستر کروڑ سے زائد افراد ناخواندہ ہیں ۔ جب کہ مغربی ممالک میں شرح

 

خونداگی 99 فیصد ہے۔پورے عالم اسلام میں سالانہ پی ایچ ڈی کی تعداد اکیلے برطانیہ سے بھی کم ہے۔

 

مختلف اسلامی ممالک میں شرح خواندگی کے بارے میں جائزہ: [14]

 

2015 ء کے اقوام متحدہ کے اعداد شمار اور حالیہ تعلیمی جائزے کے مطابق پوری دنیا کی مجموعی شرح خونداگی 83. 7 فی صد ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی شرح خونداگی 99. 2 فیصد ہے ۔ جبکہ دنیا بھر میں 56 اسلامی ممالک کی مجموعی اوسط شرح خونداگی صرف 30تا 35 فی صد ہے۔ انٹرنیشنل اسلامک نیوز ایجنسی جدہ (IINA) نے حال ہی میں ایک سروے کیا ہے جس کے مطابق موجودہ دنیا میں40 فی صد مسلمان لکھنا پڑھنا نہیں جانتے اور تقریباً 65 فی صد مسلمان عورتوں ناخواندہ ہیں عرب ممالک نے پچھلے چند سالوں میں تعلیمی میدان میں کچھ پیش رفت کی ہے ۔ جبکہ ا فریقہ میں اسلامی ممالک کی شرح خونداگی صرف 37 فی صد ہے۔[15]

 

معلم انسانیت، حضرت محمدﷺکی بعثت اور وحی الہی کی شروعات حکم "اقراء" کےفیضان سے علوم وفنون، فکر وفلسفے، مثالی تہذیب وتاریخ اور عظیم تمدن کا آغاز ہوا اور پوری دنیا علمی، تہذیبی وثقافتی حوالے سے نئے دور میں داخل ہوئی اور امت مسلمہ کئی صدیوں تک تعلیم، تہذیب وثقافت اور سائنس وطب میں دنیا کی امام رہی، موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی اسی مثالی عہد کی یاداشت اور پیداوار ہے۔مسلمانوں نے پوری دنیا کو علم اور تہذیب وتمدن کے نور سے منور کیاچنانچہ یہ حقیقت ہے کہ اسلام کے دور عروج میں اندلس کی اسلامی ثقافت یورپ کی نہیں بلکہ پوری دنیا کی سب سے بلند اور ترقی یافتہ ثقافت تھی۔اسی طرح کئی دیگر اسلامی شہر اعلیٰ تعلیمی وتحقیقی اداروں اور جامعات سے معمور تھے ۔ جامعہ نظامیہ بغداد جو پانچویں صدی ہجری سے لیکر نویں صدی ہجری تک دنیا کی عظیم ترین یونیورسٹی تھی اس میں باقاعدہ طلبہ کی تعداد 6ہزار رہتی تھی ۔ اسی طرح مراکش کے شہر فاس میں واقع جامعۃ القرویین دنیا کا سب سے قدیم جامعہ ہے جہاں آج تک تعلیم دی جاتی ہے اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق اسے "موجودہ دنیا کا سب سے قدیم تعلیمی ادارہ" قرار دیا گیاہے ۔[16]

 

اس قابل فخرتہذیب وثقافت کی علمبردار اور ماضی میں شاندار علمی اور تہذیبی روایات کی امین امت مسلمہ موجودہ تعلیمی وتحقیقی اور سائنس وٹیکنالوجی کے حوالے سے کس مقام پر ہے، اس حوالے سے حقائق انتہائی افسوسناک ہیں ۔ تین چوتھائی ممالک ایسے ہیں جو اپنے سالانہ بجٹ کا چار فی صد بھی تعلیم پر خرچ نہیں کرتے، لاکھوں باشندوں میں صرف ایک سائنس دان مل پاتا ہے۔اس وقت پوری اسلامی دنیا میں صرف چند سو یونیورسٹیاں ہیں ۔ ان یونیورسٹیوں کو اگر ہم مسلمانوں کی مجموعی تعداد پر تقسیم کریں تو ایک یونیورسٹی پر 30لاکھ مسلمان نوجوان آتے ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں امریکہ میں 5 ہزار سے زیادہ یونیورسٹیاں ہیں ۔جاپان کے صرف ٹوکیو شہر میں 120 یونیورسٹیاں ہیں اور پورے جاپان میں ایک ہزار سے زیادہ یونیورسٹیاں ہیں ۔ عیسائی دنیا کے 40 فی صد نوجوان یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ اسلامی دنیا کے 4 فی صد نوجوانوں کو کبھی یونیورسٹی تک پہنچنے کا موقع نہیں ملتا ۔ عصر حاضر میں سائنس وٹیکنالوجی کی اہمیت مسلم ہے مگر آج جب ہم امت مسلمہ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ کیفیت نظر آتی ہے کہ سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں وہ تمام اقوام عالم کے مقابلے میں سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔جس کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا بھر میں ایک سال میں تقریباً ایک لاکھ سائنسی کتابیں اور تقریباً دو لاکھ تحقیقی آرٹیکل شائع ہوتے ہیں ان میں اسلامی ممالک میں شائع ہونے والی کتب ومقالات کی تعداد تقریباً ایک ہزار ہے[17] ۔حالیہ چند سالوں میں عرب ممالک، پاکستان اور ملائیشیا میں ایک خوش آئند تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے ۔پاکستان میں تحقیقی رجحان بڑھ رہا ہے اور ہماری جامعات میں Ph. D کی ڈگری کی پیداوار میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ 10 سالوں میں تقریباً 5 ہزار سکالرز نے Ph. D کی ڈگری کی ڈگری حاصل کی ہے ۔اسی طرح 8 فی صد پاکستانی نوجوانوں کو (جنکی تعداد تقریباً 10 لاکھ بنتی ہیں) اعلیٰ تعلیم تک رسائی ممکن ہو گئی ہے۔پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ہونے والی ترقی HEC کی مرہون منت ہے۔

 

مسلمانوں کی ماضی کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مسلم دنیا نے سائنس کو بنیادیں فراہم کیں۔لیکن آج عالم اسلام کی جامعات تخلیقی ریسرچ نہیں ہو رہی ہیں بلکہ صرف ایسے گریجوویٹ فارغ ہو رہے ہیں جو صرف ترقی یافتہ اقوام کی اندھی تقلید کر رہے ہیں ۔جسکا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان سائنس وٹیکنالوجی اور تحقیق کے شعبوں میں مغرب کے دست نگر ہیں۔ اسی تعلیمی پسماندگی کا نتیجہ ہے کہ آج امت مسلمہ کے ممالک جدید صنعتی ترقی میں کوئی خاص مقام حاصل نہ کر سکے بلکہ ہر نئی ایجادات مغرب میں ہو رہی ہیں اور ہم اس کو صرف استعمال کر رہے ہیں ۔

 

آج کے دور میں خصوصاً تعلیمی نظام کے حوالے سے مسلمان ممالک میں یہ تصور پختہ ہو گیا ہے کہ دینی علم الگ ہے اور دنیاوی علم الگ ہے ۔دین اور دنیا کی اس تقسیم نے بھی اسلام کی ہمہ گیریت اور مسلمانوں کی اجتماعی صلاحیتوں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ گزشتہ صدیوں میں مسلمانوں کی زوال کا اصل سبب یہی ہوا کہ انہوں نے دین ودنیا کی وحدت کے نکتہ کو فراموش کر دیا۔مسجد کے مولانا صاحب دینی معلومات کا ذمہ دار بنا اورجدید نظام تعلیم کا گریجویٹ دنیاوی کاروبار کا ذمہ دار ٹھہرا، مسیحیت کی طرح دین اور دنیا کو الگ الگ کر لیا، قیصر الگ اور خدا الگ قرار دیا، مسٹر اور ملا کا فلسفہ گھڑ لیا گیا ۔دینی کاموں کی فہرست الگ تیار کی گئی کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو صرف خانقاہوں، مسجدوں اور حجروں میں بند کرکے اپنے آپ کو دین کا خادم کہلایا حالانکہ آپ ﷺنے واضح طور پر فرمایا: لا رہبانیہ فی السلام [18]

 

کچھ لوگوں نے دنیا کے بازاروں، مارکیٹوں اور حکومت کی صفوں میں پہنچ کر اپنے آپ کو دنیا دار قرار دیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ اہل دین ہونے کے مدعی دنیا کے کاموں کے لائق نہ رہے اور کھلم کھلا اہل دنیا کہلانے والے اللہ تعالیٰ کے خوف وخشیت کو بھلا کر اس کی رضا کی دولت کو کھو بیٹھے اور اپنے دھندوں میں منہمک ہوئے ۔ یہ رویہ افتراق کی خلیج کو وسیع کرنے کا سبب بنتا ہے اس لیے مسٹر اور ملا کی یہ تقسیم ختم کر دینی چاہیے اور ہر طبقہ دوسرے طبقہ سے استفادہ کی سبیل پیدا کرے تاکہ دونوں قسم کے علوم ایک دوسرے کے مددگار ہو کر ترقی کی راہ پر چلیں، غیروں کا قلع قمع ہو اور ترقی یافتہ استعماری طاقتوں کا صحیح مقابلہ کیاجا سکے جو مسلمانوں کو دینی ودنیاوی دونوں شعبوں میں کمزور کرکے ان پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں اور تمام معدنی ذخائر اور ایٹمی طاقت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ کو جو نظریہ تعلیم دیا تھا اس میں دین ودنیا کی تقسیم کا تصور نہیں تھا یعنی ایک صحابی جہاں ایک امام کی حیثیت سے مسجد میں فرائض سر انجام دے سکتا تھا تو دوسری طرف وہ ملکی سیاسی نظام کو چلانے اور پالیسیاں بنانے میں اتنا ہی ماہر بھی تھا، اب امت مسلمہ پر فرض ہے کہ دین ودنیا کی وحدت کے اس راز کو سمجھے اور اپنی نجات کی تدبیر تلاش کرے۔

 

موجودہ دور میں مسلمانوں کو زبردست قسم کے چیلنجز کا سامنا ہیں اگر مسلمان معاشرے اپنے تعلیمی نظاموں کو جدید خطوط پر استوار کریں اور اس وقت ترقی یافتہ اقوام کی ترقیات سے استفادہ کرنے کیلئےان کی زبان اور ان کی تحقیقات سے استفادہ کرکے صنعت وحرفت، معیشت اور سماجی زندگی میں ترقیات سے ہمکنار ہو سکتے ہیں اور اپنی تحقیقات وعلوم کا دائرہ بڑھا کر اپنے آپ کو ان کے فکری اور تہذیبی تسلط سے نکال سکتے ہیں۔اس تناظر میں اگر سوچا جائے تو امت مسلمہ میں علم دوستی کا ماحول پیدا کرنےکی ضرورت ہے، عصرحاضرومستقبل میں علمی پیش رفت کےحوالےسے مسلمانوں کی کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں جنہیں پورا کرکے ہم مستقبل کی چیلنجز سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں اور امت مسلمہ دوبارہ دنیا پر حکمرانی کر سکتے ہیں کیونکہ اسلام کی حکومت خدا کی حکومت ہے اور حکومت کے معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اس کے سارے بندوں کے لیے عام ہو جائیں۔[19]

 

اسلامی دنیا کے اہم تعلیمی مسائل اور مستقبل کے چیلنجز:

1: فرسودہ نظام تعلیم: بیشتر اسلامی ممالک استعماری قوتوں کے زیر قبضہ رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کا تعلیمی نظام انھیں استعماری قوتوں کی جانب سے وراثت میں ملا ہے۔ اس نظام کی تشکیل کا مقصد استعماری مفادات کی تکمیل کیلئے افرادی قوت کی فراہمی تھا۔ استعماری قوتوں کےجانے کے باوجود بھی بیشتر ممالک اسی فرسودہ نظام سے چپکے ہوئے ہیں جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہاہے۔

 

2: طبقاتی نظام تعلیم: جو ممالک استعماری قوتوں کےزیر سایہ رہے، وہاں پر استعمار نے اپنے مقاصد اور ضروریات کے تحت ایسا نظام تعلیم ترتیب دیا جو طبقاتی تھا۔ اس نظام کو آقا اور غلام کے نکتہ نظر سے تشکیل دیا گیا تھا، حاکموں کیلئے الگ تعلیمی ادارے اورمحکوموں کیلئےکم درجےکےتعلیمی ادارے قائم کئے گئے۔ یہ نظام اب بھی قائم ہے خصوصاً جنوبی ایشیا کے اسلامی ممالک میں اس طبقاتی تقسیم کو واضح انداز میں محسوس کیا جاسکتاہے۔

 

3: کمزور معیار تعلیم: اسلامی ممالک کے تعلیمی مسائل میں اہم ترین مسئلہ کمزور معیار تعلیم کا ہے۔ جو تعلیم دی جارہی ہے وہ معیا رمیں ترقی یافتہ ممالک سے بہت کم ہے۔ اس طرف توجہ کی انتہائی ضرورت ہے کہ جو تعلیم دی جائے وہ معیار ی اور دیرپا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ تعلیم اور معاشرتی ضروریات میں ہم آہنگی ہو، انہی مضامین کی تعلیم دی جائے جو ملکی، معاشرتی اور بین الاقوامی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کرسکے، فرسودہ اور غیر ضروری مضامین سے جان چھڑائی جائے۔

 

4: ناقص نصاب تعلیم: تعلیمی اہداف کو حاصل کرنے کے لئے ایک معیاری نصاب کا ہونا لازمی ہے۔ اسلامی ممالک کا اہم مسئلہ معیاری نصاب کی تیاری کابھی ہے۔ بیشتر اسلامی ممالک میں نصاب پر جمود طاری ہے اور نصابی ترقیات کی طرف بہت کم توجہ دی جارہی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے فضلاء میں ترقی یافتہ ممالک کے فضلاء سے مقابلہ کرنے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے نصاب تعلیم کی طرف ہنگامی بنیادوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اور وقتاً فوقتاً ا س کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔

 

5: سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف کم توجہ: موجودہ سائنسی اور ٹیکنالوجیکل ترقی کا سہرا بلا شبہ مسلمانوں کی طرف جاتاہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آ ج وہی قوم سائنسی علوم سے بیزار ہے جس نے مغربی اقوام کو روشنی اور ترقی کا راستہ دکھایا۔ بیشتر اسلامی ممالک ٹیکنالوجی کے میدان میں غیروں کے دست نگر ہیں، چند ہی ملک ایسے ہیں جو ٹیکنالوجی کی طرف توجہ دے رہے ہیں باقی فرسودہ روایتی نظام کو چلائے رکھے ہوئے ہیں۔

 

6: منصوبہ بندی کا فقدان: اسلامی ممالک میں منصوبہ بندی کا بہت فقدان ہے ۔ حکومتیں بنانا، گرانا اور دوبارہ بنانے پر توانائیاں خرچ ہورہی ہیں۔ تعلیم میدان میں تو صورت حال بہت ابتر ہے اور اس حوالے سےشائد ہی کوئی ملک خود کفیل ہو۔ دنیا میں وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو باقاعدہ منصوبہ بندی کرتی ہیں اس حوالے سے اسلامی ممالک میں بیداری کی سخت ضرورت ہے۔

 

7: اساتذہ کی تربیت: اکثر جگہوں پر یہ ہوتا ہے کہ جس شخص کو جو مضمون آتا ہے وہ بعد میں وہی مضمون پڑھانے لگ جاتا ہے۔ ایسا شخص ممکن ہے کہ” کتاب“ تو پڑھا لے لیکن چونکہ بطورِ استاد اُس کی تربیت نہیں ہوئی ہوتی لہذا اُسے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ ایک استاد کو کن اخلاقی و معنوی اوصاف سے آراستہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ برس ہا برس کی محنت کے باوجود ایسے استاد کے حلقہ درس سے خود اس کی سطح کے طالب علم بھی نہیں نکلتے۔ ایسے اساتذہ کے وجود میں آنے کے باعث ایک تو دیگر طالب علموں کی علمی ترقی رک جاتی ہے اور دوسرے خود ایسے اساتذہ بھی علمی طور پر ترقی نہیں کر پاتے اور انہی کتابوں کو جن کی تدریس کر رہے ہوتے ہیں گلے لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے تعلیمی سلسلے کوآگے جاری نہیں رکھتے حالانکہ اسلام میں علمی ارتقاء کے رُکھنے کا کوئی جواز نہیں۔

 

کسی بھی تعلیمی نظام میں اساتذہ کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہےبلکہ پورے نظام کی کامیابی کا انحصار اسی پرہے۔ اسلامی ممالک میں اساتذہ کےانتخاب اور تربیت پر وہ توجہ نہیں دی جاتی جو دینی چاہیے۔ چنانچہ ایسے افراد اس پیشے سے منسلک ہوجاتے ہیں جو قطعی طور پر اس کے مستحق نہیں ہوتے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تعلیمی معیار گرتا چلا جاتاہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اساتذہ کے انتخاب اور تربیت کی طرف بہت توجہ دی جاتی ہے اور تدریس کا پیشہ پرکشش پیشوں میں تصور کیا جاتاہے ۔

 

8: تحقیق کی کمی: اسلامی ممالک میں عمومی طور پر تحقیق کا رجحان نہیں ہے او ر تقلید وجمود زیادہ ہے۔ ریسرچ میں اکثر بیشتر غیروں پر ہی انحصار کیا جاتاہے ۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں تحقیق کا ماحول قائم نہیں ہو پارہا۔ جو ممالک غریب ہیں وہ تحقیق کے اخراجات کی استطاعت نہیں رکھتے اور جو مالدار ہیں وہ تحقیق کی طرف راغب ہی نہیں ہیں، جب ضرورت پڑے تو دولت کے بل بوتے پر نئی تحقیقات خرید لیتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ دوسر ا مسئلہ عقول کے اخراج کا ہے، اسلامی ممالک سے قابل اور ذہین افراد تحقیق کا میلان نہ ہونے اور تحقیقی مواقع نہ ہونے کے سبب ترقی یافتہ ممالک کو منتقل (Migrate) ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے اسلامی ممالک کو دہرا نقصان ہوتاہے۔ اس لئے تحقیقی ماحول کے فروغ کی اشد ضرورت ہے۔

 

9: طلباء کی معاشی مدد کرنا: اسلامی تاریخ کا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ تعلیم وتعلم کو عبادت کا درجہ

 

دیا اور اسلامی حکومتوں نے مفت تعلیم کی سرپرستی کی، اور تعلیمی عمل میں مسلم و غیر مسلم کی تفریق نہیں کی۔آج تعلیم حاصل کرنا، خاص کر اعلیٰ تعلیم، غریبوں کیلئے ایک خواب بنتا جا رہا ہےجو کہ اسلامی ممالک کیلئے اچھا شگون نہیں ہے۔ تمام اسلامی ممالک کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور سستا نظام تعلیم متعارف کرانا چاہیے جو ہر کسی کی پہنچ میں ہو۔ اس سلسلے میں OIC اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

 

==خلاصہ بحث: ==نظام تعلیم کا مسئلہ تمام مسلمانوں کا اہم ترین مسئلہ ہے۔اسلامی ممالک میں مختلف اور متضاد نظام تعلیم چل رہے ہیں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مسلم ممالک سائنس و ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے ہیں۔ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بدستور ناخواندہ اور ناقص تربیت یافتہ ہے، سائنس وتحقیق کے شعبوں میں تو اسلامی ممالک اور بھی پیچھے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک تقریباً مکمل طور پر مغرب کے دست نگر ہیں۔اس لئے پوری ملت اسلامیہ کو بیدار ہونے اور جنگی بنیادوں پر معیاری تعلیم کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ موجودہ دور کی ضروریات وچیلنجز سے مکمل طور

 

پر مقابلہ کرنے کی صلاحیت حاصل ہو۔

 

تجاویز:

1: امت مسلمہ دنیا کو درحقیقت ایک نئے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو دینی وعصری تعلیمی نظاموں کو یکجا کرکے ایک ایسا جدید ترین نظام تعلیم مرتب کیا جائے جس میں دینی و دنیا وی علوم متناسب مقدار میں جمع کردئیے جائیں۔ تعلیمی منصوبہ بندی کی طرف انتہائی توجہ کی ضرورت ہے، اور عالمی ضروریات کے مطابق معیاری نصاب کی تیاری کی جائے۔

 

2: اسلام کی نشاۃ ثانیہ، دین کی سربلندی، ترویج واشاعت اور امت مسلمہ کی بقا کیلئےضروری ہے کہ دین کے دامن سے وابستہ ہو جائیں قرآن وسنت اور تعلیمات نبوی ﷺ کو مشعل راہ بنائیں۔

 

3: جو ممالک استعمار کے زیر اثر رہ چکے ہیں ان کے نظام تعلیم کو استعماری اثرات سے پاک کیا جائے اور طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کرکے یکسا ں نظام رائج کیا جائے۔ بنیادی تعلیم میں یکسانیت ہو اور سپیشلائزیشن Specialization کے لیے ہر ایک طالب علم کے رجحان کے مطابق موقع دیا جائے۔ تعلیم کے حصول کو سستا بنایا جائے تاکہ امیروغریب کو یکساں مواقع فراہم ہوں۔

 

4: مسلم ممالک میں اسلامی اقدار کے تحفظ، سائنس، جدید علوم اور تحقیق پر بنیادی توجہ دی جائے اور Human Resource Development کے مشترکہ منصوبے شروع کئے جائیں۔ امت مسلمہ کے ریسرچ اسکالر ز، مختلف شعبوں کے ماہرین، سائنسدان اور مختلف پیشہ ورانہ خدمات کے حامل ماہرین کی خدمات سے مشترکہ طور پر بھر پور فائدہ اٹھایا جائے اور تحقیق اور تنقید کے ذوق کو پروان چڑھایا جائے۔ ہر سطح کے اساتذہ کی موثر اور دیرپا تربیت کا بندوبست کیا جائے۔ نیز قابل افراد کو تعلیمی شعبے کی طرف راغب کیا جائے۔

 

5: عالم اسلام کے جو سکالرز غیر مسلم ممالک میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں انھیں اپنے ملکوں میں واپس لانے کی حکمت عملی طے کی جائے۔

 

حوالہ جات

  1. 1 ا لبقرۃ 30: 2
  2. 2 البقرۃ 31: 2
  3. 3 البقرۃ 34: 2
  4. 4ابو عبداللہ محمد بن یزید قزوینی، سنن ابن ماجہ، دار الفکر، بیروت، حدیث: 224
  5. 5 الاسراء: 70
  6. 6 الاحزاب21: 33
  7. 7 ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، جامع ترمذی، دار احیاء التراث العربی، بیروت، حدیث نمبر 2648
  8. 8سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 229
  9. 9ابو الحسن علی بن محمد الجزری، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، دار احیاء التراث العربی بیروت، ج1، ص74
  10. 10 ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل، مسند احمد، عالم الکتب، بیروت، ج1، ص247
  11. 11سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر243
  12. 12شاہ معین الدین ندوی، مہاجرین، دارالمصنفین اعظم گڑھ، طبع دوم، 1952، ج2، ص61
  13. 13 ابن حجرعسقلانی، الإصابة فی تمیز صحابہ، دار الجیل بیروت، ج 1، ص 272 
  14. Literacy Statistics Metadata Information Table, UNESCO Institute for Statistics September 2015
  15. 15انٹرنیشنل اسلامک نیوز ایجنسی جدہ (IINA) 23 ربیع الاول 1436
  16. http: //www. guinnessworldrecords. com/world-records/oldest-university retrieved April 19, 2016
  17. 17 ڈاکٹر عطاء الرحمٰن، سائنسی تعلیم اور پاکستان، ، مکتبہ لاہور، ص 47-50
  18. 18مسند احمد، ج3، ص82
  19. 19مولانا عبید اللہ سندھی، شعور وآگہی، مکی دارالکتب لاہور، 1994، ص 55
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...