Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

موجودہ جمہوری سیاسی اضطرابی صورتحال کا جائزہ اور اس کا حل: سیرۃ طیبہﷺ کی روشنی میں |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060029185_1204

Pages

94-109

DOI

10.51411/rahat.2.1.2018.25

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/25/321

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/25

Subjects

Political System Democracy Seerah Political System Democracy Seerah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

جمہوریت کالفظ درحقیقت ایک انگریزی لفظ”Democracy“ کاترجمہ ہے، اورانگریزی میں بھی یہ لفظ یونانی زبان سےآیاہےاوریونانی زبان میں”Demo“عوام کوکہتےہیں۔ ”Cracy“یونانی زبان میں حاکمیت کوکہتےہیں، اسی لئےعربی میں جب اس کاترجمہ کیاگیاتواسے”دیمقراطیہ“کہاگیا، عربی زبان میں جمہوریت نہیں بولتے۔ہم اردومیں جب Democracyکا ترجمہ کرتےہیں توجمہوریت لکھتےہیں، لیکن عربی میں جمہوریت کے لفظ سےیہ مفہوم کوئی نہیں سمجھے گا۔[1]

 

بہر حال جمہوریت کا بنیادی تصور یہ ہے کہ حاکمیت کا حق عوام کو حاصل ہے، لہذا جمہوریت کے معنی ہوئے ایسا نظام حکومت جس میں عوام کو، یا عوام کی رائے کو کسی نہ کسی شکل میں حکومت کی پالیسیاں طے کرنے کے لئے بنیاد بنایا گیا ہو۔ ویسے جمہوریت کی جامع ومانع تعریف میں بھی خود علماءسیاست کا اتنا زبردست اختلاف ہے کہ ایک کی تعریف دوسرے سے ملتی نہیں ہے، لیکن بحیثیت مجموعی جو مفہوم ہے وہ یہی ہے کہ اس سے ایسا نظام حکومت مراد ہے جس میں عوام کی رائے کو کسی نہ کسی شکل میں حکومت کی پالیسیاں طے کرنے کی بنیاد بنایا گیا ہو۔مولانا سید محمد میاں ؒنے جمہوریت کی تعریف کے آخر میں لکھا ہے کہ:

 

”اگر ہم جذبات سے بالاتر ہوکر حقیقت کو سامنے رکھیں تو حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی مذہب جمہوریت کی موافقت نہیں کرسکتا، جس طرح جمہوریت۔اگر صحیح معنی میں جمہوریت ہے تو وہ مذہب کی تابع نہیں ہوسکتی کیونکہ ہم جمہوریت کے ثناخوان ومداح اس لئے ہوتے ہیں کہ اس میں عوام کو آزادی میسر آتی ہے، رائے کی آزادی، فکر کی آزادی، تحریر کی آزادی، تقریر کی آزادی، مطلق العنان حریت یعنی بے لگام آزادی، حالانکہ کوئی بھی مذہب اس مطلق العنان حریت، بے لگام آزادی کی اجازت نہیں دے سکتا۔ بے شک جمہوریت کا یہ رخ قابل قدر ہے کہ اصولاً ایک فرقے کو دوسرے پر مسلط نہیں کرتی، اگر چہ عملاً اس سے نجات بھی نہیں مل سکتی کیونکہ اکثریت اگر کسی ایک فرقے سے تعلق رکھتی ہے تو وہ لامحالہ اپنی چھاپ جمہوریت پر ڈال دیتی ہے یہاں تک کہ وہ یہ سمجھنے لگتی ہے کہ جمہوریت کے معنی ہیں اکثریت کے ہم رنگ ہونا ۔[2]

 

سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں کہ: " یورپ میں احیاء Renaissance اور روشن خیالی Enlightenment کی تحریکوں نے جمہوریت کو فروغ دیا ۔یاد رہے کہ جمہوریت، سیاست سے پہلے ایک معاشرت کے وجود میں ہے۔ غیر طبقاتی اور تحمل پر مبنی معاشرہ کہلاتا ہے۔ اس سے اگلا قدم یہ ہے کہ ایسے معاشرے سے وجود میں آنے والی حکومت میں عوام کے جذبات کی مکمل نمائندگی ہوتی ہے۔ اس کے لئے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخاب کے طریقے کو اپنایا گیا ہے ۔ انتخابی عمل کے نتیجے میں قائم ہونے والی سیاسی قیادت جمہوریت کی کلی طور پر نمائندہ نہیں ہوسکی کیونکہ مختلف ملکوں میں اس کا انداز انتخاب مختلف ہے۔ لہذا سیاست کے حوالے سے جمہوریت کا نفاذ شاید کہیں بھی کامل نہیں ہے لیکن مجموعی طور پر ایک متوازن معاشرہ یورپ میں ہر جگہ موجود ہے جو کہ جمہوریت کی اصل ہے[3]۔اسلامی معاشرے سے اس کا فرق یہ ہے کہ اسلام میں وحی کو بالادستی حاصل ہے جبکہ جمہوریت میں عوام کی مرضی کو بالادستی حاصل ہے خواہ وہ کسی مذہب سے متصادم ہی کیوں نہ ہو۔ اس نظریہ کو اسلام کسی طرح سے بھی قبول نہیں کرسکتا لیکن عملی طور پر جمہوریت کے اثرات دیکھ کر مسلمان اسے اختیار کرنے پر مجبور ہیں، خاص طور پر سیاسی قیادت کی فراہمی کے لئے انتخابی جمہوریت ایک سیدھا اور آسان طریقہ نظر آتا ہے۔ دور حاضر میں مسلمان، جن میں علماءبھی شامل ہیں، کی توانائی اس ضمن میں خرچ ہورہی ہے کہ کس طرح سے جمہوری عمل اور اسلام کے مابین راہ کو ہموار کیا جائے ۔ بعض نے جمہوریت کو عین اسلام قرار دیا اور خلافت راشدہ کو اس سے تعبیر کیا لیکن یہ اس کے لغوی معنوں میں تو ہوسکتا ہے اصطلاح میں نہیں[4]. ایک طبقہ اسے سرے سے کفر قرار دیتا ہے اور ہر طرح کے انتخابی عمل کا رد کرتا ہے. [5]لیکن وہ اس کا کوئی عملی متبادل حل بھی ابھی تک پیش نہیں کرسکا ۔ اسی وجہ سے مغربی تعلیم یافتہ طبقہ ابھی تک جمہوریت ہی کو اپنی منزل سمجھتا ہے۔ جمہوریت ابھی تک مسلم معاشرے میں ناکام اسی لئے ہے کہ اس کے لئے تعلیم اور شعور درکار ہے جس کی مسلم ممالک میں زبردست کمی پائی جاتی ہے ۔ جبکہ مخالف طبقہ اس کی ناکامی کا سبب یہ بتاتا ہے کہ اس میں انسانوں کو گننا اہمیت رکھتا ہے اور ان کے کردار سے کوئی سروکار نہیں، اس لئے اچھے لوگ کبھی برسر اقتدار نہیں آسکتے۔ لیکن وہ چیز بتانے سے بھی قاصر ہیں کہ وہ کونسا پیمانہ ہے جس سے انسانوں کے کردارکو ناپا جائے اور انہیں اقتدار سپرد کیا جائے[6]۔اکثر سیاسی مصنفین کے خیال کے مطابق موجودہ جمہوری طرز حکومت ایک فریب ہے۔ اس میں شک نہیں کہ لوگوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے اور وہ اپنے نمائندے منتخب کرسکتے ہیں، لیکن عملی طور پر ان کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس حق سے اپنی مرضی کے مطابق فائدہ اٹھا سکیں ۔ دراصل رائے عامہ ذرائع ابلاغ سے تشکیل پاتی ہے لیکن یہ سرمایہ دار اور دولتمند اشخاص کے ہاتھ میں ہوتے ہیں جو لوگوں کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ انکے حق میں ووٹ دیں لہذا اسی بناءپر یہ فریب کے سواکچھ نہیں[7]۔بہر حال اس بحث کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جمہوری معاشرے میں عوام کی رائے اور رعایا کی بہبود کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے جبکہ بادشاہت یا آمریت کے نظام میں عوام کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوتی اور معاشرہ حاکم ومحکوم کی ذیل میں تقسیم ہوجاتا ہے۔جمہوری حکومت عوام کی حکومت ہوتی ہے اور عوام کی فلاح وبہبود کیلئے کام کرتی ہے، بدیں وجہ جمہوری معاشرے کے عوام باشعور ہوتے ہیں اور جبری معاشرے کے عوام شعور وآگاہی سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔

 

جمہوریت پر اس مفصل بحث کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ موجودہ سیاسی نظام بھی اسی جمہوری روش کا حصہ ہے، لیکن اس سیاسی نظام کو دنگا فساد پھیلانے، شتر بے مہار آزادی و خود مختاری کے بھینٹ چڑھانے اور دینی ومذہبی دائرے سے باہر نکالنے کا کسی بھی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ویسے عام طور پر ریاستیں اس طرح بنتی ہیں کہ کسی ایک علاقے کے لوگ اپنی داخلی ضرورتوں یا بیرونی تسلط کی وجہ سے کسی نظام پر متفق ہوجاتے ہیں، اس کے لئے اصول وضوابط بنا لیے جاتے ہیں اور ان ضوابط پر عملدرآمد کرانے کے لئے مشینری متعین کردی جاتی ہے، لیکن نبی اکرم ﷺنے جو ریاست قائم کی، اس کے لئے اس سے مختلف طریقہ اختیار فرمایا اور وہ یہ کہ پہلے آپ ﷺنے افراد تیار کئے، پھر ان افراد کو ایک جگہ جمع کر کے ان کو ایک قوم کی شکل دی اور ان کے لئے دستور بناکر ریاست کا سنگ بنیاد رکھا، آپ ﷺنے اپنی ریاست کی بنیاد رنگ، نسل، زبان، قومیت، پاپائیت یا شہنشاہیت پر رکھنے کے بجائے ان عقائد و نظریات پر رکھی، جن کا نام اسلام ہے[8]۔اسلامی احکامات کی رو سے مسلمانوں پر فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ ہر حال میں دین الٰہی پر کاربند رہیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

ھُوَ الَّذِی اَرسَلَ رَسُولَہ بِالھُدٰی وَدِینِ الحَقِّ لِیُظھِرَہ عَلَی الدِّینِ کُلِّہ وَلَوکَرِہَ المُشرِکُون[9]

 

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا، تاکہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کردے، خواہ یہ بات مشرکین کو کتنی ہی بری لگے۔

 

اس آیت کی رو سے حضورﷺ کی بعثت کا مقصد ہی یہ بیان کیا گیا ہے کہ دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کردیا جائے اس کا واضح مقصد یہی ہے کہ ایک ایسے اسلامی نظام کی اساس قائم کی جائے جو دنیا کے تمام نظاموں پر افضل ہو، اسی سے ایک اسلامی ریاست کے قیام کا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے جس کے جملہ معاملات کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺکے مطابق چلائے جائیں جہاں اسلامی تصور حیات کاعملی نمونہ پیش کیا جاسکے اور دنیا بھر کے لوگوں کو اس اسلامی ماڈل کو دیکھنے سمیت اسلامی اور غیر اسلامی طرزہائے حکومت اور نظریات زندگی کا تقابلی جائزہ لینے کا موقع ملے، جہاں سماجی و ثقافتی اقدار کا اسلامی لحاظ موجود ہواور اقتصادی وسیاسی نظام اسلام کےبنیادی اصولوں سے ہم آہنگ ہو، لہذا اسی سلسلے میں موجودہ سیاسی نظام کا تفصیلی جائزہ حسب ذیل لیتے ہیں۔

 

سماجی وثقافتی اقدار:

ہمارے ہاں خاندانی نظام کی شکست وریخت، عالمی میڈیا کی ثقافتی یلغار، لسانی اور گروہی اختلافات، قوم پرستی، مادہ پرستی نام نہاد ترقی پسندی، مغرب زدگی اور مغرب سے محاذ آرائی سرفہرست ہیں۔ جدیدیت یعنیModernizationسے انکار نہیں ۔ ہمیں اکیسویں صدی کے تقاضوں کا ساتھ بہر حال دینا ہے لیکن اپنے سماجی ڈھانچے کو بھی محفوظ رکھناہے اور ثقافتی اقدار کا بھی تحفظ کرنا ہے۔ ان حالات میں ہمیں حضور ﷺکی سیرت طیبہ کو ایک نئے انداز سے اپنانے کی ضرورت ہے۔ آپ ﷺکی بعثت ایک ایسے معاشرے میں ہوئی تھی جس کی حالت ہر اعتبار سے ابتر تھی ۔آپ ﷺنے مکی زندگی میں بالخصوص اور مدنی زندگی میں بالعموم سماجی اور ثقافتی اصلاح کی طرف خصوصی توجہ دی۔ آپ ﷺنے اس امر کی طرف خصوصی توجہ دی کہ افراد ذہنی اور اخلاقی طور پر اتنے پاکباز ہوں کہ ریاست اور قانون کی کم سے کم مداخلت کے باوجود بھی وہ صحیح راستے پر چلیں۔

 

اسی طرح حضور ﷺکا طریق تربیت یہ بھی تھاکہ لوگ ایمانی قوت سے مالا مال ہوں اور مادہ پرستی سے متنفر ہوں ۔ پھر باہمی ہمدردی، احسان وایثار، شجاعت وحمیت، صبرواستقامت، عفوودرگزر، حلم وبردباری، سخاوت وفیاضی، حسن اخلاق، صدق وتوکل، رواداری اور حسن ظن جیسے اخلاقی اوصاف سے متصف ہوں ۔ لوگوں کا رخ ایسی تعلیمات کی طرف موڑا جائے جس سے یہ صفات ان میں بدرجہ اتم پیدا ہو جائیں۔فرقہ پرستی گروہی اور لسانی اختلافات نے ہمارے اتحاد واتفاق کو پارہ پارہ کردیا ہے ان اختلافات کے باعث آپس کا لین دین اور محبت واخوت کے عناصر کو ملیامیٹ کردیا ہے۔ حضور ﷺنے تمام اختلافات کو مٹاکر آفاقیت اور انسان دوستی کادرس دیا۔آپ ﷺنے فرمایا:

 

کلکم بنو آدم، وآدم خلق من تراب۔[10]

 

ترجمہ: انسان آدم کی اولاد ہے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔

 

آپؐ نے تعصب پر جان دینے، تعصب کی طرف بلانے اور تعصب پر جنگ کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ:

 

لیس منا من دعا الیٰ عصبیة ولیس منا من قاتل عصبیة ولیس منا من مات علیٰ عصبیة۔[11]

 

ترجمہ: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی دعوت دے اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی بنیاد پر جنگ کرے اور ہم میں سے وہ بھی نہیں جو عصبیت کی حالت میں مرے۔

 

آپ ﷺنے مؤمن کی جان ومال اور عزت وآبرو کو ایک دوسرے کے لئے حرام قرار دیا اور ارشاد فرمایا کہ:

 

کل المسلم علی المسلم حرام دمہ ومالہ وعرضہ۔[12]

 

ترجمہ: ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حرام ہے، اس کاخون، اس کا مال اوراس کی عزت۔

 

بہر حال آج ہمیں اپنے سماجی اور ثقافتی مسائل کے حل کے لئے آنحضرت ﷺکے ان اقدامات پر بھر پور عمل کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے حکمرانوں کا طرز عمل لازمی طور پر اسلامی اصولوں کے مطابق ہونا چاہئے۔رشوت، سفارش، اقرباءپروری کا خاتمہ، عدل و انصاف کی ترویج، میرٹ کا تقدس اور انتظامیہ کی اصلاح ایسے اقدامات ہوسکتے ہیں جن سے ہمارے سماجی اور ثقافتی مسائل کو حل کرنے میں کما حقہ مدد مل سکتی ہے، اور ہمارا ملک ان اوصاف کو اپنانے کے بعد ایک بہترین سیاسی نظام کے حامل مملکت گرداننے کے زمرے میں آسکتا ہے۔

 

اقتصادیات:

بلاشبہ آج کی دنیا معاشی مسابقت کی دنیا بن چکی ہے۔ اکثر سیاسی مصنفین کا خیال ہے کہ معاشی غیر یکسانیت کی فضاءمیں جمہوریت پنپ نہیں سکتی ۔ حقیقی جمہوریت تبھی ممکن ہے جب یہ معاشی جمہوریت سے ہم آہنگ ہو جس میں دولت کی بے جا تقسیم اور غیر یکسانیت کو برداشت نہیں کیا جاتا[13]۔ترقی یافتہ مغربی ممالک دنیا بھر کو بالعموم اور عالم اسلام کو بالخصوص اپنی صنعتی پیداوار کی کھپت کے لئے اپنی منڈی بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں مگر ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ بے شمار مادی وسائل کے باوجود اقتصادی مسائل کا شکار ہیں۔

 

یہ حقیقت ہے کہ اسلام کی معاشی تعلیمات اسی معاشرے میں رو بہ عمل آسکتی ہیں جو اخلاقی طور پر مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار ہو، لیکن اخلاق سے عاری معاشرے میں ان تعلیمات کو کیسے نافذ کیا جائے؟ یہ سوال آج بھی اپنی جگہ بہت اہم ہے۔اقتصادی میدان میں اگر آنحضرتﷺکے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ مدینہ کی اسلامی ریاست ابتداءمیں معاشی پسماندگی کا شکار تھی۔ مہاجرین مکہ کی تجارت منقطع ہوچکی تھی۔ علاوہ ازیں انصار مدینہ پر پہلے سے یہودیوں کی معاشی بالادستی قائم تھی۔ اس طرح ایک طرف تو مشرکین مکہ سے واسطہ تھا تو دوسری طرف یہود مدینہ سے، جو مدینہ کی تجارت پر چھائے ہوئے تھے اور سودی کاروبار کرتے تھے۔آپﷺنے ان استحصالی قوتوں کے معاشی چنگل سے نکلنے کے لئے مدینہ میں اسلامی تجارت کو فروغ دیا، زرعی پیداوار میں اضافے کا رجحان پیدا کیا اور سودی کاروبار کا خاتمہ کیا، اس کے علاوہ مشرکین اور یہود کی تجارتی اجارہ داری کے خاتمے کے لئے تجارتی راستے پر آباد قبائل سے امن معاہدے کئے، تجارت اور صنعت و حرفت کی طرف مسلمانوں کو ترغیب دلائی۔ صنعت وحرفت کو پاک ترین روزی اور تجارت کو بہترین معاش قرار دیا اور ارشاد فرمایا کہ: ”جو شخص تجارت کرتا ہے اس کے یہاں خیر وبرکت اور بھلائی پیدا ہوتی ہے“[14]

 

اسلام کے نزدیک معاشی مسئلہ اس قدر اہم اور پیچیدہ نہیں ہے جیسا کہ دور حاضر کی اور حکومتوں اور ملکوں میں سمجھا جاتا ہے اور جس کے حل کے لئے سوشلزم اور کیمونزم جیسی تحریکوں کو جنم لینا پڑا[15]۔مسلمان ممالک جب تک اپنا نظام معیشت ترتیب نہیں دیں گے اس وقت تک وہ سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل سے نہیں نکل سکتے ۔ بدقسمتی سے عالم اسلام کے معیشت دان ذہناً مغرب سے مرعوب ہیں کیونکہ وہ اس نظام کے پروردہ ہیں ۔ کوئی ایک مجتہد پیدا نہیں ہوا جو سود سے پاک معاشی نظام مرتب کر کے دے۔ جب تک ریاست سے سود، سٹہ اور جوا ختم نہیں ہوگا اس وقت تک مسلمان مملکت کے پنپنے کی کوئی امید نہیں۔ عالمگیریت اسی سودی نظام کو مزید مستحکم کرنے کا نظام ہے جسے عالمی ساہوکار منظم کررہے ہیں اور چلا رہے ہیں۔[16]

 

عہد نبویﷺکی اسلامی ریاست ابتداءمیں معاشی پسماندگی کا شکار تھی، آپﷺنے غیر مسلم قوتوں کے معاشی چنگل سے نکلنے کے لئے مدینہ میں اسلامی تجارت کو فروغ دیا، زرعی پیداوار میں اضافے کا رجحان پیدا کیا اور سودی کاروبار کا خاتمہ کیا، اس کے علاوہ مشرکین اور یہود کی تجارتی اجارہ داری کے خاتمے کے لئے تجارتی راستے پر آباد قبائل سے امن معاہدے کئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جلد ہی مسلمانوں نے اپنا معاشی اعتبار قائم کر لیااور غیروں کے تسلط سے آزاد ہوگئے۔ لہذا آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کو غیروں کے معاشی چنگل سے نکالنے کے لئے اسلامی اصولوں پر استوار تجارت کو فروغ دیا جائے، زرعی پیداوار میں اضافے کا رجحان پیدا کیاجائے اور سودی کاروبار کا یکسر خاتمہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ معاشی میدان میں مسابقت رکھنے والےممالک کے ساتھ ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین معاشی واقتصادی معاہدے کئے جائیں، یہ تمام ضروریات ایک بہترین سیاسی مملکت کی طلب عاجلہ ہیں ان کو حاصل کر کے ہی ہم اس مملکت خدادادپاکستان کو ایک حقیقی سیاسی نظام کے دائرے میں لاسکتے ہیں۔

 

مروجہ سیاسی نظام:

پاکستان میں جو سیاسی نظام اس وقت مروج ہے، اس کے بنیادی قوانین اسلام کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ اور یکساں ہیں جس طرح کے 1973کے آئین میں تفصیلاً بیان کیا گیا ہے، ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس پر کماحقہ عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔مثلاًمغربی تصور جمہوریت کے نظریہ اقتدار اعلیٰ [17]کے برخلاف پاکستان کے آئین میں اقتدار اعلیٰ سمیت نفوذ قوانین اور مجلس شوریٰ وغیرہ کی وضاحت یوں کردی گئی ہے کہ: ” تمام کائنات کی حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے اور لوگوں کے پاس جو اختیار ہے وہ ایک مقدس امانت ہے ۔ آئین میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کوئی قانون ایسا نافذ نہیں کیا جائے گا جو قرآن کریم اور سنت رسولﷺکے منافی ہو۔ اس طرح پاکستان کے حکمرانوں کو اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ وہ شریعت اسلامی کے خلاف ملک میں کوئی قانون نافذ نہ کریں“۔ مزید یہ بھی بتایا گیا ہے کہ: ” کسی فرد یا پوری ملت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مقتدر اعلیٰ ہونے کا دعویٰ کرے، حاکم محدود اختیارات کا مالک ہے اور شریعت کے حدود کے اندر رہ کر ہی کوئی حکم جاری کرسکتا ہے، وضع قانون کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے “جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

 

یَقُولُونَ ھَل لَّنَا مِنَ الاَمرِ مِن شَیئٍ قُل اِنَّ الاَمرَ کُلَّہ لِلّٰہ. [18]

 

ترجمہ: وہ پوچھتے ہیں کہ اختیارات میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے !کہہ دو کہ اختیارات تو سارے اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔

 

ریاست ضروریات زمانہ کے مطابق صرف فروعی قوانین بنا سکتی ہے لیکن ان کا بنیادی احکام سے مطابقت کرنا ضروری ہے۔ مسلمانوں کو صرف محدود عمومی حاکمیت عطاءکی گئی ہے، وہ امور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کی شریعت میں کوئی واضح حکم موجود نہیں، اجتہاد کے ذریعے طے کئے جائیں گے، یعنی پاکستان میں مجلس شوریٰ/پارلیمنٹ ان امور کے بارے میں جن میں اللہ اور رسول ﷺنے واضح احکامات دیئے ہیں یا حدود اور اصول مقرر کئے ہیں، صرف تعبیر اور تشریح کرسکتی ہے مگر ان میں رد و بدل نہیں کرسکتی ۔یہ احکامات اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی رسول اکرم ﷺ کو ارسال کئے ہیں، اب ان کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، لیکن ان امور کے بارے میں جن میں کوئی قطعی احکام موجود نہیں مجلس شوریٰ/پارلیمنٹ قانون سازی کرسکتی ہے ۔ ہر زمانے میں انسانی مسائل اور صورتیں یکساں نہیں رہتیں بلکہ بدلتی رہتی ہیں، اس لئے فقہاءاور اصحاب اجتہاد کا یہ فرض ہے کہ وہ زمانے کے حالات اور ضروریات کے مطابق کتاب اللہ کے احکام کی روشنی میں قوانین وضع کریں، اللہ تعالیٰ اور رسولﷺکے حکم میں ترمیم کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔اسی بات کی اجازت فقہاءکے واضح اقوال سے بھی ملتی ہے جیسا کہ علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں کہ:

 

فکثیرمن الاحکام تختلف باختلاف الزمان لتغیرعرف اھلہ اولحدوث ضرورة اوفساد اھل الزمان بحیث لوبقی الحکم علی ماکان علیہ اولا للزم منہ المشقة والضرر بالناس ولخالف قواعد الشریعة المبنیة علی التخفیف والتیسیر ودفع الضرر والفساد لبقاءالعالم علی اتم نظام واحسن احکام ولھٰذا تریٰ مشائخ المذھب خالفوا مانص علیہ المجتہد فی مواضع کثیرة بناھا علی ماکان فی زمنہ لعلمھم بانہ لوکان فی زمنھم لقال بما قالوا بہ اخذا من قواعد مذھبہ۔[19]

 

ترجمہ: بہت سے احکام ہیں جو زمانہ کی تبدیلی کیساتھ بدل جاتے ہیں اس لئے کہ اہل زمانہ کا عرف بدل جاتا ہے، نئی ضرورتیں پیدا ہو جاتی ہیں اہل زمانہ میں فساد (اخلاق) پیدا ہوجاتاہے اب اگر حکم شرعی پہلے ہی کی طرح باقی رکھا جائے تو یہ مشقت اور لوگوں کیلئے ضرر کا باعث ہو جائے گا، اور ان شرعی اصول وقواعد کے خلاف ہوجائے گا جو سہولت اور آسانی اور نظام کائنات کو بہتر اور عمدہ طریقہ پر رکھنے کیلئے ضرر و فساد کے ازالہ پر مبنی ہے۔تاکہ دنیا صحیح نظام اور بہتر طریقہ پر قائم رہے۔ اسی لئے تم دیکھتے ہو کہ مشائخ نے بہت سے مواقع پر مجتہدکی رائے سے اختلاف کیا ہے جو انہوں نے اپنے زمانہ میں اختیار کی تھی۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر امام مجتہد اس زمانہ میں ہوتے تو وہی کہتے جو یہ مشائخ قواعد مذہب سے استفادہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں۔

 

یہی بات مالکی مکتبہ فکر کے ممتاز صاحب نظر فقیہ علامہ قر افی نے اس طرح کہی ہے کہ:

 

ان اجراءالاحکام اللتی مدرکھا العوائد مع تغیر تلک العوائد خلاف الاجماع وجھالة فی الدین وکلّ ما ھو فی الشریعة یتبع العوائد یتغیر الحکم فیہ عند تغیر العادة الیٰ ما تقتضیہ العادة المتجددة ولیس تجدیدا للاجتھاد من المقلدین حتیٰ تشترط فیہ اھلیة الاجتھاد بل ھٰذہ قاعدة اجتہد فیہا العلماءفاجمعوا علیھا نتبعھم فیھا من غیر استئناف اجتھاد۔[20]

 

ترجمہ: جن احکام کی اساس عرف و عادت پر ہو ان میں عرف کےتغیر کے باوجود انہی احکام کو باقی رکھنا اجماع کے خلاف ہے اور دین میں جہالت ہے، شریعت کے وہ تمام احکام جو عرف و عادت پر مبنی ہوں، عرف کے تغیر کے بعد نئے تقاضوں کےمطابق تبدیل ہوجائیں گے، یہ مقلدین کی طرف سےنیا اجتہاد نہیں کہ اس میں اجتہادکی اہلیت مطلوب ہو بلکہ یہ ایک ایسا قاعدہ ہے جو اہل علم کے اجتہاد کا نتیجہ ہے اور اس پر ان کا اجماع و اتفاق ہے، ہم کسی نئے اجتہاد کے بغیر ان کی پیروی کر رہے ہیں۔

 

موجودہ دور کے تناظر میں جدید سیاسی نظام کے حامل مملکت جو کہ اسلامی قوانین کے مطابق ہو، کا قیام ناگزیر ہے ۔محمد عربیﷺنے ایک قلیل مدت میں اسلامی نظریات کے عین مطابق ایک جدید فلاحی انقلابی ریاست قائم کی اور پورے عرب کو اس کے زیر سایہ لانے میں کامیاب ہوگئے کیونکہ افراد کی سیرت کی تشکیل معاشرے اور ریاست سے باہر ممکن نہیں[21]۔داخلی سیاسی نظام کے کامیابی کے لئے سیرة النبی ﷺکے مطابق تین چیزیں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔

 

1: سیاسی نظام کی تشکیل نو2: امن وامان کا قیام3: ریاستی اداروں کی اصلاح

 

سیاسی نظام کی تشکیل نو:

اس وقت تقریبا ً تمام مسلم ریاستوں میں ملوکیت، جاگیرداری، سرمایہ داری یا مغربی جمہوریت کے ذریعے حکومتیں بنتی اور بدلتی ہیں جبکہ اسلام کے سیاسی نظام میں ان عوامل کا سرے سے کوئی دخل ہی نہیں۔ بلکہ اسلام کا تو پیغام ہی طبقاتی امتیاز کا خاتمہ تھا۔

 

ہمارے ایک روشن خیال مفکر نے لکھا تھا کہ:

 

”کوئی جمہوریت جو اسلامی ہونے کا دعویدار ہو، وہ نہ برطانوی نمونے کی ہوگی اور نہ روسی۔ ان میں پہلی تو دو یا زائد جماعتوں کے تصادم پر مبنی ہے اور دوسری صرف ایک جماعت کے اقتدار کی اجارہ داری ہے جو کسی اختلاف کو برداشت نہیں کرسکتی۔ اگر کوئی اسلامی حکومت اسلامی اصول پر اسمبلی یا کسی پارلیمنٹ کو تشکیل دے تو اس کے مذہبی پیشواؤں کی انجمن بن جانے کا خطرہ نہیں۔اسلامی معاشرہ ایک غیر طبقاتی معاشرہ ہے کیونکہ یہاں کوئی مذہبی انجمن اور طبقات خاص رعایت اور مفادات کے ساتھ نہیں ہیں لیکن اصحاب علم اور اہل دانش میں ارکان مجلس کے انتخاب کا کوئی طریقہ ہونا چاہئے۔ سیاسیات میں مال ودولت کو کوئی دخل نہیں ہونا چاہئے ورنہ برائے نام جمہوریت اور عملی طور پر اہل ثروت کی ریاست ہوگی“[22]

 

حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے اولین خطبہ خلافت میں فرمایا تھا کہ:

 

ایھا الناس ان اکیس الکیس التقی وان احمق الحمق الفجور، وان اقواکم عندی الضعیف حتی آخذ لہ بحقہ، وان اضعفکم عندی القوی حتی آخذ الحق منہ، انما انا متبع ولست بمبتدع فان احسنت فاعینونی وان زغت فقومونی وحاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا ۔[23]

 

ترجمہ: لوگو سب سے بڑی سمجھ داری تقوی ہے اور بڑی نادانی گناہ کا کام ہے۔ تم میں جو ضعیف ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ اس کا حق دلوا دوں، اور قوی ضعیف ہے یہاں تک کہ اس سے غریب کا حق لے لوں ۔میں متابعت کرنے والا ہوں مبتدع نہیں۔ اگر میں اچھائی کروں تو میری مدد کرو، اگر غلط کروں تو مجھے درست کرو۔ اور تم لوگ اپنا محاسبہ کرو اس سے قبل کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔

 

اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا ہمارا ملکی سیاسی ڈھانچہ ایسے خطوط پر استوار ہے جو ہمیں ایسے حکمران دے سکے جو حضرت صدیق اکبرؓ جیسا نصب العین اور روشن فکر کا حامل ہو؟ یقینا مشکل بلکہ ناممکن ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کے حکمران بلاتفریق عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں، امراءکو نوازنے اور غرباءکو مزید غربت کی چکی میں پیسنے کا جو رواج ہمارے ہاں عام ہے اسے سرے سے ختم کرنا ہوگا۔ہمارے ملک میں تضاد خیالی اور تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ اکثر اوقات ایک دوسرے کو رجعت پسند، قدامت پسند، اسلام دشمن، مغرب زدہ، آزاد خیال اور بعض اوقات مرتد جیسے سخت القابات سے نوازا جاتا ہے۔ ان حالات میں کیا ہمارا حکمران طبقہ ملک کو صحیح اسلامی سیاسی نظام کی کسی ایک نہج پر قائم کرسکیں گے۔ لہذا اس کا واحد حل یہی ہے کہ صرف زبانی کلامی دعوؤں کی بجائے حقیقی رواداری، وسعت نظر، حکمت، حلم وبردباری، قوت برداشت اور روشن خیالی کا عملی مظاہرہ کیا جائے جو سیرة النبی ﷺ کا امتیازی شان بھی ہے۔

 

اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ فکری یکجہتی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، جدید مسائل کی نوعیت اور وسعت کے پیش نظر ایک فرد کے بس کی بات نہیں، لہذا اجتماعی اجتہاد کے لئے ادارے تشکیل دئے جائیں جن میں تمام مکاتب فکر کے علماء، اسکالرز اور اہل دانش شامل ہوں۔ یہ ادارے مجالس قانون ساز کا باقاعدہ حصہ ہوں جہاں دوسرے ماہرین کے ساتھ انہیں بھی قانون سازی میں برابری کا حق ہو۔ بقول علامہ محمد اقبالؒ:

 

”علماءکو مجالس قانون ساز کا لازمی حصہ ہونا چاہئے تاکہ وہ قانون سازی کے عمل میں رہنمائی اور مدد مہیا کر سکیں“[24]

 

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اقتدار، سیاسی زعماءاور ارباب حل وعقدملک میں ایک ایسا سیاسی نظام تشکیل دے جو اسلامی اصولوں اور عوامی امنگوں کے مطابق ہو نہ کہ ذاتی پسند ناپسندکے۔اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے مملکت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اسے اسلامی اصولوں کے مطابق چلایا جائے، جو بھی ملک یا ادارہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہوگا یقینا اس کے عوام و افراد خوشحال و مطمئن بھی ہونگے، کیونکہ اسلام میں ہر فرد کے حقوق و خواہشات کا حد المقدور خیال رکھا جاتا ہے، لہذا کامیاب ریاست بھی وہی ہوسکتا ہے جس کا سیاسی نظام کامیاب ہو۔اس کے ساتھ ساتھ ملک میں خود احتسابی کا عمل انتہائی اہم ہے، احتساب کا فرض اگر خلوص اور جرات کے ساتھ ادا کیا جائے تو ایک غیر جانب دار نقاد اور ایک بے لاگ مؤرخ کی طرح اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کی جائے گی جو ایک کامیاب سیاسی نظام کی تشکیل کا سبب بنے گی۔

 

امن وامان کا قیام:

ہمارے ملک میں امن وامان کی صورتحال ناگفتنی ہے۔ بد امنی، قتل وغارت گری، ٹارگٹ کلنگ، اغواءبرائے تاوان بم بلاسٹ، دھماکے اور خودکش حملے وغیرہ وہ چیزیں ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ہر شہری ذہنی کوفت میں مبتلا ہے بلکہ ان چیزوں نے ہمارے سیاسی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔داخلی سیاسی نظام کے کامیابی کے لئے امن ومان کا قیام انتہائی اہم ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ جب مکہ کو آباد کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس شہر کو امن کا گہوارہ بنانے کی دعا کرتے ہیں اس کے بعد معیشت کی بات کی ۔ لہذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی مملکت کے لئے امن وامان کا قیام لازمی جزو ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

 

وَاِذقَالَ اِبرٰھِیمُ رَبِّ اجعَل ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًاوَّارزُق اَھلَہ مِنَ الثَّمَرٰتِ. [25]

 

ترجمہ: اور جب ابراہیم ؑ نے دعا کی کہ اے میرے رب بنادے اس شہر کو امن والا، اور اس کے رہنے والوں کو رزق دے میوے۔

 

رسول اللہ ﷺنے اسلامی ریاست کی بنیاد رکھتے ہی داخلی امن کی طرف توجہ فرمائی، فساد پھیلانے والوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی فرمائی اور آپ ﷺ کا یہ فرمان سچ ہوکر رہا کہ:

 

لیتمن ھذا الامر حتی یسیر الراکب من صنعاءالیٰ حضر موت، لایخاف الا اللّٰہ۔[26]

 

ترجمہ: ایک وقت ایسا آئے گا جب صنعا یمن سے ایک محمل نشین خاتون تنہا سفر کرے گی اور اس کو خدا کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا۔

 

امن وامان برقرار رکھنے کے لئے آپؐ نے کشت وخون سے ہر ممکن گریز کیا، آپؐ نے جاہلی معاشرے کے ان افراد سے

 

لوگوں کو نجات دلائی جو ناسور کی حیثیت اختیار کرچکے تھے، وہ نہ خود امن، اسلام، آزادی اور عدل ومساوات کے قائل تھے اور نہ کسی دوسرے کو یہ اعلیٰ قدریں قائم کرنے دیتے تھے، اس لئے جس طرح ایک انسان کا بازو اگر اتنا خراب ہوجائے کہ اندیشہ ہو کہ اگر اسے کاٹا نہ گیا تو اس کا زہر پورے بدن میں سرائیت کرجائے گا اور وہ آدمی مر جائے گا، ایسے آدمی کا بازو کاٹ کر اسے بچا لینا سراپا رحمت وشفقت ہے، اسی طرح انسانی معاشرے میں جو افراد ناسور کی حیثیت اختیار کرجائیں اور دوسرے لوگوں کو بھی تباہی کی طرف لے جا رہے ہوں، ان سے معاشرے کو نجات دلانا رحمت اور انسان دوستی کا تقاضا ہے، نبی کریم ﷺنے غزوات کے ذریعے یہی کام کیا[27]۔ لہذا حضور ﷺکے اسی فلسفے کو مد نظر رکھتے ہوئے ملکی سیاسی نظام کے کامیابی کے لئے داخلی امن وامان کا قیام ایک لازمی امر ہے ۔ اس کے لئے سیرت طیبہﷺسے رہنمائی لازمی امر ہے جس میں دو چیزیں بڑی واضح ہیں:

 

==الف: ==بے لاگ عدل وانصاف اور عدلیہ کی بالادستی

 

==ب: ==اداروں کے استحکام اور اصلاح کے لئے احتساب کے عمل کو جامع اور ہمہ گیر شکل دینا

 

ان نقاط کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات اٹھانا ایک کامیاب سیاسی نظام کے حامل مملکت میں امن وامان کے قیام کے لئے جزو لاینفک ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

 

یاَیُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُواکُونُوا قَوّٰمِینَ بِالقِسطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوعَلٰٓی اَنفُسِکُم اَوِالوَالِدَینِ وَ الاَقرَبِین۔[28]

 

ترجمہ: اے ایمان والوقائم رہو انصاف پر، گواہی دو اللہ کیلئے اگرچہ نقصان ہو تمہارا، یا ماں باپ کا، یا قرابت والوں کا۔

 

ریاستی اداروں کی اصلاح:

سیاسی نظام کے ضمن میں تیسرا اہم مسئلہ ریاستی اداروں کا اصلاح واستحکام ہے۔آج اگر ہمیں مملکت خداداد پاکستان میں افراتفری کا عالم محسوس ہورہا ہے یا بے چینی اور عدم استحکام سے ہم دوچار ہیں تواس کا بنیادی وجہ اکثر ریاستی اداروں کی عدم اصلاح ہے۔ جس میں سفارش، رشوت، کرپشن، ناقابلیت، دھوکہ دہی، چور بازاری، اقرباءپروری کی یلغار، عدم مساوات، انتظامیہ مقننہ، عدلیہ وغیر ہ کا عدم احترام، اختیارات کا ناجائز استعمال اورانصاف و احتساب کا نہ ہوناوہ عوامل ہیں جن میں ہمارے ملک کا تقریباًہر فرد مبتلا ہے۔ اگر ملک کو داخلی وخارجی خلفشار سے بچانا ہے اور اسے ایک کامیاب اور بطور نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے تو ارباب اقتدار پر لازم ہے کہ وہ تمام تر ریاستی اداروں کی اصلاح کرے اور اس میں استحکام کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں۔حضورﷺنے ریاست میں قائم کردہ تمام شعبوں کے استحکام پر خصوصی توجہ دی ۔ اسی ضمن میں سیرت النبی ﷺاور خلافت راشدہ کی رہنمائی مشعل راہ ہے، جس سے درج ذیل ہدایات اخذ کئے جاتے ہیں:

 

==الف: ==سرکاری ملازمین کا تقرر اہلیت اور استحقاق کی بنیاد پر کیا جائے۔

 

اگر کسی کام کوسفارش، رشوت یا اقرباءپروری کے تحت نا اہل کے حوالے کیا گیا تو سمجھ لیں کہ بربادی آن پہنچا ہے۔جبکہ در حقیقت ہمارےہاں یہی چیزیں سرعام اور بلا خوف و خطر جاری ہیں جن پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ چنانچہ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ:

 

اذا وسد الامر الی غیر اھلہ فانتظر الساعة. [29]

 

ترجمہ: جب کوئی کام نااہل کے سپرد کردیا جائے تو قیامت کا انتظار کیا جائے۔

 

==ب: ==سفارش اور اقرباءپروری کے عناصر کا قلع قمع کیا جائے۔

 

سفارش و اقرباءپروری وہ ناسور ہے جو اداروں کو کوکھلا کر دیتا ہے، جبکہ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ جو کلچر عام ہے وہ یہی سفارش اور اقرباءپروری ہے۔اس کلچر کے ہوتے ہوئے ہم کبھی بھی اپنے ملک کو ایک کامیاب سیاسی نظام کے دائرے میں داخل نہیں کرسکتے۔حضور ﷺنے اس کلچر کا سخت مذمت کرتے ہوئے ایک مقام پر اس سلسلے میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

 

اتشفع فی حد من حدود اللہ ثم قام فاختطب فقال یاایھاالناس انما ھلک الذین قبلکم انہم کانوا اذا سرق منھم الشریف ترکوہ واذا سرق فیھم الضعیف اقاموا علیہ الحدود، واللہ لو ان فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت یدھا۔[30]

 

ترجمہ: کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کر رہے ہو ؟ پھر کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا، کہ اے لوگو بے شک تم سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی معزز چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی نادار چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے ۔ خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کے ہاتھ کاٹتا۔

 

==ج: ==تمام حکام اور ذمہ دار افسران و ملازمین کے طرز عمل اور کردار کی کڑی نگرانی کی جائے، اور ان کے اثاثوں کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔جبکہ ہمارے ملک میں المیہ یہ ہے کہ صدر سے لیکر چپڑاسی و چوکیدار تک بے لگام ہیں، جس کا جو جی چاہے کر لیتا ہے، کوئی روک ٹوک نہیں۔محتسب اور نیب جیسے ادارے برائے نام چیز بن گئے ہیں۔معمولی تنخواہ دار عالی شان کوٹیوں کا مالک بنا بیٹھا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک محاسبہ کے خوف سے آزاد ہے۔ جبکہ فرائض واحتساب میں آپﷺ کا سب سے بڑا فرض عمال کا محاسبہ تھا، یعنی جب عمال زکواة اور صدقہ وصول کر کےآتےتھے تو آپﷺاس غرض سے اس کا جائزہ لیتے تھے کہ انہوں نے کوئی ناجائز طریقہ تو اختیار نہیں کیا ہے ۔ چنانچہ ایک بارآپﷺنے ابن اللتبیہ کو صدقہ وصول کرنے کے لئے مامور فرمایا، وہ اپنی خدمت انجام دے کر واپس آئے اورآپﷺنے ان کاجائزہ لیا تو انہوں نے کہا یہ مال مسلمانوں کا ہے اور یہ مجھ کو ہدیةً ملا ہے، آپﷺ نےفرمایا کہ گھر بیٹھےبیٹھےتم کو یہ ہدیہ کیوں نہیں ملا؟ اسکے بعدآپﷺنے ایک عام خطبہ دیا، جس میں اس کی سخت ممانعت فرمائی[31]

 

==د: ==ہمارے ہاں احتساب کا فقدان ہے اور قانون کی بالا دستی کا اطلاق نہیںاگر واقعی ملک کو ایک ماڈل اسلامی سیاسی نظام کے روپ میں پیش کرنا ہے تو عدالتی نظام کو ہر قسم کے دباؤسے آزاد کرنا انتہائی ضروری ہے ۔ انصاف واحتساب کے معاملے میں حاکم ومحکوم امیر وغریب اور افسر وماتحت سب کے ساتھ ایک جیسا اور مساوی سلوک کیا جائے۔کیونکہ قومیں اپنے اور اپنے قائدین کے احتساب سے زندہ اور باقی رہتی ہیں، بعض جمہوری مزاج قوموں نے تو جنگ جیتنے والوں اور اپنے ملک کی عزت بچا لینے والوں تک کا احتساب کیا ہے اور ان کو اپنا کام ختم کرلینے کے بعد ریٹائر کردیا ہے، قومیں بڑی بڑی شکست کھانے کے بعد سنبھل گئی ہیں[32]۔امید ہے کہ احتساب کا فرض اگر خلوص اور جرات کے ساتھ ادا کیا جائے تو ایک غیر جانب دار نقاد اور ایک بے لاگ مؤرخ کی طرح اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کی جائے گی جو ایک کامیاب سیاسی نظام کی تشکیل کا سبب بنے گی۔

 

اگر چہ تمدن اسلام کے دور ترقی میں محکمہ احتساب ایک مستقل محکمہ تھا جو نہایت وسیع پیمانے پر تمام قوم کے اخلاقی مصطلحات، بیع وشراءاور معاملات وغیرہ کی نگرانی کرتا تھا، لیکن حضورﷺ کی عہد مبارکہ میں یہ محکمہ قائم نہیں تھا بلکہ خود آپﷺ اس فرض کو ادا فرماتے تھے، ہر شخص کی جزئیات اخلاق اور فرائض منصبی کے متعلق آپﷺ وقتا فوقتا داروگیر فرماتے رہتے تھے۔ تمام لوگوں سے اصلاحات پر عمل کرانا صیغہ احتساب سے تعلق رکھتا تھا، چنانچہ آپﷺنہایت سختی کے ساتھ ان معاملات کی نگرانی فرماتے تھے اور تمام لوگوں سے عمل کراتے تھے اور جو لوگ باز نہیں آتے تھے ان کو سزائیں دلاتے تھے[33]۔اس سلسلے میں آپﷺکا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ:

 

لقد رایت الناس فی عہد النبیﷺ یبتاعون جزافاً یعنی الطعام یضربون ان یبیعون فی مکانہم حتی یؤووہ الی رحالہم۔[34]

 

ترجمہ: آنحضرتﷺ کے عہد میں دیکھا کہ جو لوگ تخمیناًغلہ خریدتے تھے ان کو اس بات پر سزا دی جاتی تھی

 

کہ اپنے گھروں میں منتقل کرنے سے پہلے اس کو خود اسی جگہ بیچ ڈالتے جہاں اس کو خریدا تھا۔

 

اسی طرح بے لاگ عدل وانصاف کے قیام کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

 

یاَیُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُواکُونُوا قَوّٰمِینَ بِالقِسطِ شُھَدَآء لِلّٰہِ وَلَوعَلٰٓی اَنفُسِکُم اَوِالوَالِدَینِ وَ الاَقرَبِین۔[35]

 

ترجمہ: اے ایمان والوقائم رہو انصاف پر، گواہی دو اللہ کیلئے اگرچہ نقصان ہو تمہارا، یا ماں باپ کا، یا قرابت والوں کا۔

 

خلاصہ بحث:

موجودہ سیاسی نظام اگر چہ جمہوری روش کا حصہ ہے، لیکن اس سیاسی نظام کو اغیار کے مفادات ومقاصد کے بھینٹ چڑھانے اور دینی ومذہبی دائرے سے باہر نکالنے کا کسی بھی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر بنا ہے لہذا اس مملکت خداداد کے نظام کو بھی داعی اسلامﷺکے طرز سیاست کے موافق استوار کرناہے۔پاکستان میں جوجمہوری سیاسی نظام اس وقت مروج ہے، اس کے بنیادی قوانین اسلام کے بنیادی اصولوں سے بہت حد ہم آہنگ اور یکساں ہیں یہ الگ بات ہے کہ اس پر کماحقہ عمل درآمد نہیں کیا جاتا، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اساسی وبنیادی اسلامی قوانین پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے مملکت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اسے اسلامی اصولوں کے مطابق چلایا جائے، جو بھی ملک یا ادارہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہوگا یقینا اس کے عوام و افراد خوشحال و مطمئن بھی ہونگے، کیونکہ اسلام میں ہر فرد کے حقوق و خواہشات کا حد المقدور خیال رکھا جاتا ہے، لہذا کامیاب ریاست بھی وہی ہوسکتا ہے جس کا سیاسی نظام کامیاب ہو۔اس ضمن میں لازمی ہے کہ ملک میں خود احتسابی کا عمل انتہائی مؤثر ہو، تمام حکام اور ذمہ دار افسران و ملازمین کے طرز عمل اور کردار کی کڑی نگرانی کرنا اور ان کے اثاثوں کا جائزہ لیتے رہنا ملکی نظام کو چلانے کا انتہائی اہم حصہ ہے۔ ہمارے ملک میںہر ایک کے بے لگامی کا جو عنصر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک محاسبہ کے خوف سے آزاد ہے۔ احتساب کا عمل پوری دیانت داری اور خلوص و جرات کے ساتھ ادا کیا جائے تویہ ایک کامیاب سیاسی نظام کی تشکیل کا سبب بنے گی۔امن وامان کے قیام پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ داخلی سیاسی نظام کے کامیابی کے لئے امن ومان کا قیام انتہائی اہم ہے۔ اس وقت ملک میں امن وامان کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ بد امنی، قتل وغارت گری، ٹارگٹ کلنگ، اغواءبرائے تاوان، بم بلاسٹ، دھماکے اور خودکش حملے وغیرہ وہ چیزیں ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ہر شہری ذہنی کوفت میں مبتلا ہے بلکہ ان چیزوں نے ہمارے سیاسی نظام کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔پاکستان میں اس وقت بے لاگ عدل وانصاف اور عدلیہ کی بالادستی سمیت اداروں کے استحکام اور اصلاح کے لئے احتساب کے عمل کو جامع اور ہمہ گیر شکل دینے کی انتہائی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو افراتفری کا عالم محسوس ہورہا ہے یا بے چینی اور عدم استحکام سے اگر ملک دوچار ہے تو اس کا بنیادی وجہ اکثر ریاستی اداروں کی عدم اصلاح ہے۔ سفارش، رشوت، کرپشن، ناقابلیت، دھوکہ دہی، چور بازاری، اقرباءپروری کی یلغار، عدم مساوات، انتظامیہ مقننہ، عدلیہ وغیر ہ کا عدم احترام، اختیارات کا ناجائز استعمال، انصاف و احتساب کا فقدان، لسانی اور گروہی اختلافات، قوم پرستی، مادہ پرستی، نام نہاد ترقی پسندی وغیرہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ملک کا حقیقی سیاسی سفر متزلزل اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔سفارش اور اقرباءپروری کلچر کا خاتمہ لازمی ہے، ملازمین کا تقرر اہلیت واستحقاق کی بنیاد پر کیا جائے کیونکہ سفارش و اقرباءپروری وہ ناسور ہےجو اداروں کو کوکھلا کر دیتا ہے، جبکہ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ جو کلچر عام ہے وہ یہی سفارش اور اقرباءپروری ہے۔اس کلچر کے ہوتے ہوئے ہم کبھی بھی اپنے ملک کو ایک کامیاب سیاسی نظام کے دائرے میں داخل نہیں کرسکتے۔

 

خلاصہ یہ کہ اگر ہم مروجہ جمہوری سیاسی نظام کا جائزہ لیں تو ہم پیغمبر اسلام ﷺکے دیئے ہوئے تعلیمات سے کوسوں دور نظر آتے ہیں۔ ہمارے ملکی سیاسی نظام میں ہر وہ ناجائز صورت موجود ہے جو کہ اسلامی معاشرے کے لئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہو، لہذا ان تمام ناجائز امور کا خاتمہ اور ایک حقیقی اسلامی سیاسی نظام کا وجود پیغمبر اسلام ﷺکے طرز سیاست میں مضمر ہے کیونکہ حضورﷺ کا طریق تربیت یہی تھاکہ لوگ ایمانی قوت سے مالا مال ہوں اورباہمی ہمدردی، احسان وایثار، شجاعت وحمیت، صبرواستقامت، عفوودرگزر، حلم وبردباری، سخاوت وفیاضی، حسن اخلاق، صدق وتوکل، رواداری اور حسن ظن جیسے اخلاقی اوصاف سے متصف ہوں ۔ آپﷺنے اس امر کی طرف خصوصی توجہ دی کہ افراد ذہنی اور اخلاقی طور پر اتنے پاکباز ہوں کہ ریاست اور قانون کی کم سے کم مداخلت کے باوجود بھی وہ صحیح راستے پر چلیں۔

 

حوالہ جات

  1. عثمانی، مفتی محمد تقی، اسلام اور سیاسی نظریات، مکتبہ معارف القرآن، کراچی، 2010ء، ص80
  2. مولانا سید محمد میاں، دور حاضر کے سیاسی واقتصادی مسائل، مکتبہ محمودیہ، لاہور، 1999ء، ص221
  3. مودودی، سید ابوالاعلی، خلافت وملوکیت، اسلامک پبلیکیشنز، لاہور، 1967ء، ص167
  4. سلفی، عبدالقدوس، اسلاف کی سیاست اور جمہوریت، جماعة الدعوة، لاہور، سن ندارد
  5. ڈاکٹر محمد فاروق خان، اسلامی انقلاب کی جدوجہد، غلطی ہائے مضامین، لاہور، 1994ء، ص21
  6. محمدحبیب و بیگم افسر سلیم، سلاطین دہلی کا سیاسی نظام، انڈین کونسل آف ہسٹاریکل ریسرچ، نئی دہلی، 1979ء، ص35
  7. چودھری احمد شفیع، اصول شہریت، سٹینڈرڈ بک، لاہور، 2009ء، ص285
  8. اچکزئی، ڈاکٹر محمد عبدالعلی، روضة السیرة، مکتبہ ولیہ، کوئٹہ، 2012ء، ص122
  9. الصف 9: 16
  10. المتقی، علاوالدین علی بن حسام الدین الہندی، کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، مؤسسہ رسالة، بیروت، 1401ھ، ج3، ص527
  11. السجستانی، ابوداؤدسلیمان ابن اشعث، سنن ابوداؤد، مکتبہ رحمانیہ، لاہور، سن ندارد، کتاب الادب، باب فی الغیبة، ج2، ص326
  12. المسلم النیسابوری، ابی الحسین مسلم ابن الحجاج (متوفی261ھ) ، المسند الصحیح المختصر من السنن بنقل العدل عن العدل عن رسول اللہ ﷺ، احیاءالتراث العربی، بیروت، کتاب البر، حدیث 32
  13. بحوالہ بالا، چودھری احمد شفیع، اصول شہریت، ص285
  14. بحوالہ بالا، المتقی، علاوالدین علی بن حسام الدین الہندی، کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، الفصل الثالث فی انواع الکسب
  15. علامہ عبدالوحید خان، مسلمانوں کے عروج وزوال کی داستان، دوست ایسوسی ایٹس، لاہور، 2003ء، ص23
  16. ڈاکٹر خالد علوی، اسلام اور عالمگیریت، دعوة اکیڈمی، اسلام آباد، 2006ء، ص28
  17. (مغربی تصور کے نظریہ اقتدار اعلیٰ میں جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ”مطلق، ہمہ گیر، پائیدار یا لازوال، لامحدود، ناقابل انتقال، اور ناقابل تقسیم “۔ان صفات کا کسی ایک شخص یا جماعت میں تلاش کرنا بے سود ہے کیونکہ یہ سب صفات صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہیں کسی اور کو نہیں)
  18. اٰل عمران154: 3
  19. شامی، ابن عابدین سید محمد امین آفندی، رسائل ابن عابدین، سہیل اکیڈمی، لاہور، 1980ء، ج2، ص125
  20. قرافی، شہاب الدین ابوالعباس احمد بن ادریس، الاحکام فی تمیزالفتوی من الاحکام، مکتبةالعلمی، بیروت، ص231
  21. الطاف جاوید، جدید اسلامی ریاست اکیسویں صدی کے تناظر میں، مطبوعہ المعارف، لاہور، جنوری۔مارچ 1995ء
  22. خلیفہ عبدالحکیم، اسلام کا نظریہ حیات، ادارہ ثقافت اسلامیہ، سن ندارد، ص295
  23. بحوالہ بالا، المتقی، علاوالدین علی بن حسام الدین، کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، باب الاول فی خلافة الخلفاء، ج5، ص633
  24. ڈاکٹر حمیداللہ، امت مسلمہ کے موجودہ مسائل اور ان کا تدارک، وزارت مذہبی امور، اسلام آباد، 2007ء، ص186
  25. البقرہ126: 2
  26. البخاری، امام ابی عبداللہ محمد بن اسماعیل (متوفی256ھ) ، الجامع المسندالمختصر من امور رسول اللہ ﷺوسننہ وایامہ، دار طوق النجاة، 1422ھ، کتاب المناقب، علامات النبوة
  27. بحوالہ بالاڈاکٹر محمد عبدالعلی اچکزئی، ص123
  28. النساء135: 4
  29. بحوالہ بالا البخاری، باب من رفع صوتہ بالعلم، ج1، ص21
  30. ایضاً، باب من انتظر حتی تدفن، ج4، ص175
  31. ندوی، سید سلیمان، سیرت النبیﷺ، ادارہ اسلامیات، لاہور، حصہ دوئم، ص411
  32. مولوی محمد رمضان، خطبات علی میاںؒ، دارالاشاعت، کراچی، ج8، ص64
  33. بحوالہ بالا، سید سلیمان ندوی، حصہ دوئم، ص411
  34. بحوالہ بالا البخاری، ، باب من انتظرحتی تدفن، ج3، ص69
  35. النساء135: 4
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...