Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

موجودہ معاشرتی اضطراب اور اس کا حل: سیرت طیبہﷺ کی روشنی میں |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

مقدمہ:

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بد امنی، فساداور اضطرابی صورتحال معاشرےکو تباہی وبربادی کی طرف دھکیل دیتاہے۔ فساد کی صورت میں معاشرتی، معاشی اور سیاسی امن درہم برہم ہو جاتا ہے۔ بد امنی کی فضا میں علوم وفنون کی ترقی رک جاتی ہےاور صنعتی ترقی کے لیے فضاسازگار نہیں رہتی۔ بلند تر اقدار پنپ نہیں سکتیں اور معاشرے کا ہر فرد مستقل طور پر خوف وہراس کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر افراد زیادہ دیر تک خوف وہراس اور اضطرابی کیفیت میں مبتلا رہیں تو ان کی صلاحیتیں تباہ ہو جاتی ہیں، نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں اورعلوم وفنون سمیت صنعتی ترقی کا پہیہ جام ہوجاتا ہے۔

 

اسلام ایک روشن فکر اور فطری دین ہےجو علو م وفنون اور معاشرت ومعیشت میں ترقی چاہتا ہےاور یہ بات کبھی بھی گوارا نہیں کرتا کہ انسانی زندگی اور اعلیٰ اقدار کے فروغ میں کسی بھی طرح جمود، تعطل اور اضطرابیت پیدا ہو۔ اس لیے اسلام نے فتنہ و فساد کے استیصال، انسداد اور خاتمے کے لیے مؤثر اور مثبت لائحہ عمل دیا ہے۔اسلام بد امنی اور فتنہ وفساد کو ناپسند کرتا ہےاور کسی ایسی حرکت اور فعل کوروا نہیں رکھتا جو بد امنی پر منتج ہو۔ قرآن مجید فتنہ و فساد کی جہاں مذمت کرتا ہے وہاں اس کے انسداد کے لیے لوگوں کی ذہنی تربیت بھی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عبرت کے لیے حدود وتعزیرات کی صورت میں سزائیں بھی نافذ کرتا ہے تاکہ جن پر کوئی نصیحت اثر نہ کرے، اُنہیں قانون کے شکنجے میں جکڑ کر لا قانونیت سے روکا جاسكے۔دور جدید میں ہمارے معاشرے کو مختلف النوع اضطرابی صورتحال کا سامنا ہےجس کی وجہ سے زندگی گزارنے میں بے یقینیت، جمود اور اضطرابیت پایا جاتا ہے۔لہذا ذیل میں معاشرے میں انہی

 

اضطرابی وافتراقی عوامل کا مختصر جائزہ لینگے ۔

 

حقوق کی پامالی:

معاشرے میں بد امنی اور فساد بے چینی کا ایک سبب معاشرتی، معاشی اور سیاسی شعبوں میں ظلم وزیادتی اور حقوق کی پامالی بھی ہے۔ ظالم اپنے اقتدار، معاشرتی برتری، یا معاشی شعبے میں بالا دستی کی بنا پر دوسروں کو زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے حقوق کی پامالی کرتا ہے۔ جب ظالم ان کا استحصال کرتا ہےتو متاثرہ افراد یا طبقات احتجاج کرتے ہیں، اگر احتجاج غیر مؤثر ہو جائے تو وہ ظالم سے خود نمٹنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرہ بد امنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسلام اس سلسلے میں معاملات کو جڑ سے پکڑتا ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ حقوق کی عدم ادائیگی دنیوی اعتبار سے قابل دست انداز آئین وقانون ہے اور آخرت میں بھی قابل مؤاخذہ جرم قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریمﷺنے فرمایا: اپنے آپ کو مظلوم کی بد دعا سے بچاؤ کیونکہ مظلوم کی آہ اور اللّٰہ تعالیٰ کے درمیان کوئی آڑ اور رکاوٹ نہیں ہوتی۔اسی طرح آپﷺ نے فرمایاکہ:

 

انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا[1]۔

 

یعنی اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، صحابہ نے پوچھا کہ مظلوم بھائی کی تو مدد سمجھ میں آتی ہے، ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟ آپ ﷺنےفرمایا کہ ظالم کا ہاتھ روکنا اور اسےظلم سےباز رکھنا اس کی مدد ہے، اسی بارے میں شاہ ولیؒ اللہ فرماتے ہیں کہ:

 

ان من اعظم المقاصد التی قصدت ببعثۃ الانبیاء علیھم السلام دفع المظالم من بین الناس، فان تظالمھم یفسد حالھم ویضیق علیھم۔[2]

 

ترجمہ: جن مقاصد کے لیے انبیاء کرام کو دنیا میں مبعوث کیا گیا ان میں سے ایک عظیم مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان مظالم کو روکنے اور ان کے تدارک کے لیے تدابیر عمل میں لائیں۔ کیونکہ اگر ظلم وزیادتی کا سد باب نہ کیا جائے تو نظامِ زندگی میں ابتری واقع ہو جائے۔

 

استحصال بھی امن وامان کو تہہ وبالا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اسلام نے اس کا استیصال بھی کیا ہے اور محض نصیحت کر دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اللہ کی ناراضگی اور آخرت کی مسئولیت کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ قانونی تحفظات کے ذریعے استحصال کو روکا گیا ہے ۔استحصال زدہ طبقہ اندر ہی اندر اپنی کمزوریوں اور محرومیوں میں جلتا رہتا ہے۔ استحصال کرنے والوں کے خلاف ان کے دل میں لاوا پکتا رہتا ہے۔ مغرب میں سرمایہ داری کے تحت غریب کا استحصال ہوا تو کمیونزم کی شکل میں ردعمل ظاہر ہوا اور اس انقلاب میں لا تعداد انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ استحصال زدہ طبقے جب رد عمل ظاہر کرتے ہیں تو پھر کشت وخون کی ندیاں بہہ جاتی ہیں۔ اسلام نے ہر طرح کے استحصال کی راہیں بند کر دیے، فساد کےخاتمے کیلئے اسلام نے جو ذرائع اختیار کیے ہیں، ان میں سے ایک مؤثر ذریعہ حدود وتعزیرات

 

کا نظام ہے۔ اسلامی حدود کے بارے میں شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

 

اعلم أن من المعاصي ما شرع الله فيه الحد، و ذلك كل معصية جمعت وجوهامن المفسده، بأن کانت فسادافي الأرض واقتضاباعلى طمأنينةالمسلمين وكانت لهاداعية في نفوس بني آدم لاتزال تهيج فيهاولها ضراوة لايستطيعون الاقلاع منهابعد أن أشربت قلوبهم بها، وكان فيه ضررلايستطيع المظلوم دفعه عن نفسه في كثيرمن الأحيان، وكان كثير الوقوع فيما بين الناس فمثل هذه المعاصي لا يكفي فيها الترهيب بعذاب الآخرة، بل لابدمن إقامةملامةشديدةعليهاوإيلام، ليكون بين أعينهم ذلك، فيردعهم عمايريدونه[3]

 

ترجمہ: شریعت نے بعض جرائم پر حدود مقرر کی ہیں۔ یہ وہ جرائم ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں فتنہ وفساد پیدا ہوتا ہے اور مسلم معاشرے کا امن وسکون غارت ہو جاتا ہے۔ دوسرے ان جرائم کے بار بار ارتکاب سے نفس انسانی کو ان جرائم کی لت پڑ جاتی ہے۔ پھر اس جرم سے باز رکھنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ اکثر اوقات بے چارے مظلوم کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ان مجرموں کے مقابلے میں اپنا تحفظ کر سکے۔ اگر ان جرائم کی روک تھام نہ کی جائے تو پھر ان جرائم کے خاتمے کیلئے محض آخرت کے خوف اور وعظ وتلقین سے کام نہیں چلتا بلکہ اس کیلئے سخت سزاؤں کا نفاذ ضروری ہوتا ہے تاکہ مجرم کا انجام سب کے سامنے ہو جسے دیکھ کر دوسرے لوگ جرم سے باز رہیں۔

 

معاشرے کو فتنے فساد سے بچانے کیلئے اسلامی حدود بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں، جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن لکھتے ہیں کہ:

 

” تمام حدود کے نفاذ سے معاشرےکی حفاظت مقصد ہےکیونکہ یہ اللّٰہ کےحقوق میں سےہےکہ اجتماعی زندگی کو محفوظ رکھاجائے اسی طرح وہ تمام اُمور جن میں فقہاے اُمّت نے اللہ تعالیٰ کے حق کو غالب تصور کیا ہے، ان میں اشخاص کے انفرادی حقوق کا لحاظ نہیں رکھا جاتا بلکہ اجتماعی زندگی کا مفاد پیش نظر رکھا جاتا ہے اور اشخاص کے انفرادی مفاد کو اس کے تابع قرار دیا جاتا ہے‘‘[4]۔

 

انتشار وافتراق:

جنگ وجدال، نفرت ومشکلات، گالی گلوچ وہ عوامل ہیں جو معاشرے میں اضطراب، انتشار اور افتراق کے سبب ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں انہی عوامل کی فراوانی ہے۔جنگ وجدال، لڑائی جھگڑے، گالم گلوچ، ایک دوسرے سے سیاسی، قومی، مذہبی ومسلکی بنیاد پر نفرت سمیت انہی بنیادوں پر ایک دوسرے کیلئے مشکلات پیدا کرناوہ عوامل ہیں جو معاشرے میں اضطرابیت وبےچینی کے سبب بنے ہوئے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کرنہ صرف نفسانی خواہشات کو ترجیح دی ہےبلکہ اس کےگھٹاٹوپ اندھیروں میں اتنے غرقاب ہوئے ہیں کہ سیرت نبویؐ کی کرنیں ہم سے اوجھل ہیں۔حالانکہ حضورؐکے تعلیمات تو یہی ہیں کہ لوگ آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کرےبلکہ آپس میں ایک دوسرے کیلئےسہولتیں پیدا کرنے والے ہوں اور سب سے بڑھ کر اعلیٰ اخلاق کے پیکر ہوں۔آپؐ نےہمیشہ لڑائی جھگڑےسے بچنے کا حکم دیااورلڑنےجھگڑنے پر ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے۔نبی کریمﷺ جب کسی صحابی کو کسی جگہ عامل تعینات فرماتےتو اسے ہدایت کرتے کہ :

 

بشّروا ولا تنفروا، يسّروا ولا تعسّروا[5]۔

 

ترجمہ: خوشخبری دینا، نفرت پیدا نہ کرنا ۔ آسانیاں پیدا کرنا، مشکلات اور دقتیں پیدا نہ کرنا۔

 

حضورﷺکےاخلاقِ کریمانہ کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ آپؐ نے کبھی کسی سے جھگڑا نہیں کیا، آپؐ نے فرمایا:

 

مَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَهُوَ بَاطِلٌ بُنِيَ لَهُ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ وَمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَهُوَ مُحِقٌّ بُنِيَ لَهُ فِي وَسَطِهَا وَمَنْ حَسَّنَ خُلُقَهُ بُنِيَ لَهُ فِي أَعْلَاهَا[6]۔

 

ترجمہ: جس نے باطل چیزکے لیے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا، اللہ اس کے لیے جنّت کے کنارے پر محل تیار کرے گا اورجس نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے سے اجتناب کیا تو اللّٰہ جنّت کے وسط میں اس کے لیے محل تیارکرے گا اور جس نے (نہ صرف جھگڑا کرنے سے اجتناب کیا بلکہ) حسن خلق کا مظاہرہ کیا تو اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں محل تیار کردیا جائےگا ۔

 

دنیا کو شائستگی اور تہذیب سکھانے میں نبوی اصلاحات نے بڑا مؤثر کردار ادا کیا۔نبوی تعلیمات سے لوگوں کے ذہن اس انداز سے ڈھل گئے کہ وہ معمول کی زندگی میں بھی تہذیب وشائستگی کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔نبی کریمﷺ نے نہ صرف وہ تمام بنیادیں مسمار فرما دیں جو باہم عداوتیں پیدا کرتی اور فتنہ وفساداور مرعوبیت وخوفزدگی کا سبب بنتی بلکہ ہنسی مذاق میں بھی کسی مسلمان کو پریشان کرنے سے منع فرماتے، چنانچہ حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:

 

لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا[7]۔

 

ترجمہ: مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو مرعوب وخوفزدہ کرے۔

 

لَا يَأْخُذَنَّ أَحَدُكُمْ مَتَاعَ أَخِيهِ لَاعِبًا وَلَا جَادًّا. [8]

 

یعنی آپﷺنے منع فرمایا کہ کسی مؤمن کو پریشان کیاجائے اور اس کا سامان ہنسی میں یا حقیقت میں اُٹھا لیا جائے۔

 

ایک شخص نے دوسرے شخص کا جوتا اُٹھایا اور اسے غائب کر دیاوہ اس سے مزاح کر رہا تھا، اس بات کا ذکر رسول اللہ ﷺکے سامنے کیا گیاتوآپﷺ نے فرمایا:  

 

لَا تُرَوِّعُوا الْمُسْلِمَ، فَإِنَّ رَوْعَةَ الْمُسْلِمِ ظُلْمٌ عَظِيمٌ[9]۔

 

ترجمہ: تم مسلمان کو نہ ڈراؤ، بے شک مسلمان کو ڈرانا بہت بڑا ظلم ہے۔

 

کسی بھی فتنے اور بد امنی کی فضا سےبچنے کے لیے اسلام کی حکمت عملی کمال احتیاط پر مبنی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کوئی شخص اسلحہ یا اور ایسی چیز جس سے کسی کو تکلیف یا زخم پہنچنے کا خدشہ ہو سکتا ہو، غیر محتاط انداز سے لے کر نہ چلے۔اسی طرح نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو حکم فرمایا جو مسجد میں تیر لے کر جا رہا تھا کہ وہ جب تیروں کو لیکر نکلے تو ان کی نوکوں کو پکڑ کر رکھے، ایسا نہ ہو اس کی نوک کسی کو لگ جائے۔

 

أن رجلا مر بأسهم في المسجد قد أبدى نصولها فأمر أن يأخذ بنصولها كي لا يخدش مسلما[10]۔== ==

 

اشتعال انگیز ی:

بہت سے جرائم کا محرک فوری اشتعال ہوتا ہے جسے قانون کی زبان میں Sudden Provocation کہا جاتا ہے۔ یہ کیفیت غصّے سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ قرآن نے اس کے مقابلے میں صبر، عفو ودرگزر اور احسان کی تعلیم دی ہے اور لوگوں کو ترغیب دی ہے کہ اگر وہ غصہ کی حالت میں انتقامی کاروائی نہ کریں تو یہ بات اللّٰہ کو بات پسند آتی ہے۔نبی کریمﷺنے فتنے فساد کے محرکات کا مستقل طور پر سدِ باب کر کے ان اسباب کا تدارک فرما دیا جو اس کا سبب بنتے ہیں۔اشتعال انگیزی اور غصہ وغیرہ وہ بنیادی جڑ ہے جو فساد کے آغاز کا سبب بنتےہیں۔آپﷺنے غصے کا علاج بھی مختلف طریقوں سے بیان فرمایا۔ غصے کی حالت میں نبی کریمﷺ نے وضو کرنے کا حکم دیاہےاس سے شیطان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ غصے کی حالت میں اگر کوئی کھڑا ہے تو بیٹھ جائے۔ قرآن میں ہے کہ غصے کو قابو میں رکھنے والے اللّٰہ کو بہت محبوب ہیں، چنانچہ ارشاد فرمایاکہ:

 

وَالكـٰظِمينَ الغَيظَ وَالعافينَ عَنِ النّاسِ  واللَّهُ يُحِبُّ المُحسِنينَ[11]

 

ترجمہ: وہ لوگ جو اپنے غصہ پر قابو رکھتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

 

قرآنِ مجید اور احادیث میں واضح کیا گیا ہے کہ غصہ شیطان کے اشتعال کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے، اسی لیے فرمایاکہ:

 

وَإِمّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيطـٰنِ نَزغٌ فَاستَعِذ بِاللَّهِ[12]۔

 

ترجمہ: جب شیطان تمہارے دلوں میں اشتعال پیدا کرے تو تم اللہ کی پناہ طلب کیا کرو۔

 

لہذانبی کریمﷺنے اشتعال انگیزی پرقابو پانے اور دشمن کے اس وار کو ناکام بنانےکاحکم فرمایا کہ:

 

لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَالْغَضَبِ[13]۔

 

ترجمہ: پہلوان وہ نہیں جو بدلہ لینے میں زیادہ سخت ہو بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔

 

قرآن مجید کہتا ہے کہ اگرتم زیادتی کابدلہ لینا چاہو تو لے سکتے ہو لیکن اگر تم معاف کر دو تو یہ باعثِ اجر ہو گا، لیکن بدلہ لینے

 

میں بھی تمہیں اس بات کو ملحوظ رکھنا ہو گا کہ: وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِه[14]”اگر تم بدلہ لو تم تو اتنا ہی جتنا تم پر زیادتی کی گئی‘‘۔ اسی طرح فرمایا کہ: فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ[15] ”جس قدر زیادتی تمہارے ساتھ کی گئی ہے، بدلہ اسی قدر لیا جائے‘‘اس سلسلے میں قرآن مجید کا نظریہ یہ ہے کہ: اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ[16] ”برائی کا بدلہ برائی کی صورت میں دینے کے بجائے برائی کو اچھائی اور حسن سلوک سے مٹاؤ اس طریق کار کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہارا بدترین دشمن بہترین دوست بن جائے گا‘‘، قرآن کریم اس بات کی ضمانت دیتاہے کہ کسی کی زیادتی پرصبر کرنا اپنے نتیجےکےاعتبار سےبدلہ لینے سے بہتر نتائج پیدا کرے گا، چنانچہ ارشاد ہے کہ: اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ[17] ”کیا تم پسند نہیں کرتے کہ (تم لوگوں کو معاف کرو اور) اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے‘‘۔

 

قتل وغارتگری:

یہ بات ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جہاں انسانی جان کی کوئی قیمت نہ ہو، اس کا کوئی احترام نہ ہو اور نہ ہی حفاظت یعنی امان کا بندوبست نہ ہو وہاں کیسے چند افراد بھی رہ سکتے ہونگے، ان میں باہم کاروبار یا دیگر معاملات بحسن و خوبی انجام پا سکتے ہیں کیونکہ ہر شخص کو تجارت، صنعت کاری، گھر داری، سیر و تفریح اور متمدن زندگی گزارنے کی ضروت ہوتی ہے۔پھر اگر ضروریات زندگی سے قطع نظر خالص انسانیت کی نظر سے دیکھا جائے تو اس لحاظ سے بھی کسی ذاتی فائدے کی خاطر یا کسی ذاتی عداوت کسی دوسرے انسان کو قتل کرنا بدترین سنگدلی ہے۔ دنیا کے سیاسی قوانین تو احترام حیات انسانی کو صرف سزا اور قوت کے زور سے قائم کرتے ہیں لیکن ایک سچے اور حقیقی مذہب کا کام دلوں میں اس کی درست قدر و قیمت کا پیدا کرنا ہے تا کہ جہاں انسان کوکسی کو تعزیر کا خوف ہو اور نہ ہی اسے کسی قانون کے اہلکار کے روکنے کا ڈر ہو۔انسانی تمدن کی بنیاد جن قوانین پر قائم ہے اس میں اولین جان کو محترم کہا گیا ہے، یعنی انسان کے تمدنی حق میں پہلا حق زندہ رہنے کو دیا گیا ہے جب کہ اس کے تمدنی فرائض میں بھی اول فرض زندہ رہنے دیے جانے کا فرض عائد کیا گیا ہے۔دنیا میں جتنی بھی شریعتیں اور مہذب قانون موجود ہیں ان میں احترام نفس کا قانون ضرور موجود ہے، البتہ جن قوانین یا مذاہب میں اسے تسلیم نہیں کیا گیا وہ مہذب انسانوں کا قانون تو بن سکتا ہے لیکن اس کے ماتحت رہ کر کوئی انسان یا انسانی گروہ پر امن زندگی گزار سکتا ہے اور نہ ہی اسے فراغ حاصل ہو سکتا ہے۔احترام انسانیت کی موثر اور جامع تعلیم اسلام ہی میں دی گئی ہے ۔ قرآن کریم جو کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک ضابطہ حیات ہے اس میں جگہ جگہ انسانی جان کے احترام کی مختلف پیرائیوں میں تعلیم دی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہےکہ:

 

كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًابِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَاقَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًاوَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ[18]۔

 

ترجمہ: ہم نے بنی اسرائیل کو یہ لکھ دیا کہ جو کوئی کسی کی جان لے بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو یا زمین میں

 

فساد کیا ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کا خون کیا اور جس نے کسی کی جان بچائی توگویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی۔

 

حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

 

لن يزال المؤمن في فسحة من دينه ما لم يصب دما حراما[19]۔

 

ترجمہ: مؤمن اپنے دین کی وسعت میں اس وقت تک برابر رہتا ہے جب تک وہ کسی حرام خون کو نہیں بہاتا۔

 

نبی کریمﷺ کی بعثت سے قبل عرب کے خونخوار ماحول میں انسانیت کا احترام اور امن پسندی کا نظام تباہ ہو چکا تھا پھر وہیں رحمت للعالمین ﷺ کی موجودگی میں مہذب معاشرہ تشکیل پایا جس کا اثر چہار سو پھیل گیا اور اسلامی تعلیمات نے انسان کی بے شمار غلط کاریوں اور دیگر گمراہیوں کے ساتھ ساتھ انسانی جان کی بے قدری کا بھی استحصال کر دیا۔ آج دنیاکے مہذب قوانین میں حرمت نفس کو وہ درجہ ملا جو کسی بھی لحاظ سے کسی انقلا ب سے کم نہیں ہے۔اجتماعی تاریخ کا کوئی قانون و انصاف پسند معاشرہ اس سے انکاری نہیں کہ دنیا کے اخلاقی قوانین میں انسانی جان کی حرمت قائم کرنے کا فخر جتنا اسلام کو حاصل ہے اتنا کسی اور مذہب کو حاصل نہیں۔

 

یہاں یہ وضاحت بھی لازمی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انسانی خون کی حرمت اس وقت تک ہےکہ جب تک اس پر حق نہ لاگو ہو جائے، اسے زندگی گزارنے کے تمام حقوق حاصل ہیں جب تک کہ وہ حدود سے تجاوز نہ کر جائے، جوں ہی وہ حدود سے باہر نکلا اور زمین پر فساد و انتشار کا باعث بنا اسے سزا کا دیا جانا فرض عین ہے تا کہ ایک متوازن معاشرے کی تشکیل ہو سکے۔

 

لاقانونیت اور اقرباء پروری:

ہمارے پاس تاریخ میں المیہ یہ ہے کہ ہم مال و متاع اور جاہ و حشم کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں جب کہ قانون کی عملداری صرف غریب اور مفلس و محکوم افراد پر لاگو کی جاتی رہی ہے حالانکہ عدل و انصاف کے پیمانوں میں ایسی کوئی شق موجود نہیں۔صاحب منصب کے لیے بہت ہی خطرناک چیز یہی ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں اورقریبی ساتھیوں کو اہمیت دے یا ان کی سفارش کرے اوران میں ہی عہدے تقسیم کرے چاہے ان میں لیاقت ہویا نہ ؟ اگروہ اس لائق ہیں تو اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے لیکن نالائق لوگوں کو عہدے دینا اس بنا پر کہ وہ قائد اورحاکم کے رشتہ داراوراس کے قریبی ہیں اورانہیں میں بیت المال تقسیم کرکےان میں اور دوسرے لوگوں میں فرق کرنا یہ زیادتی ہے اورتاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی ایسا کیا وہ اس دنیا میں بھی ذلیل ہوتے دکھائی دیا سفارش واقرباءپروری لاقانونیت کاوہ ناسورہےجواداروںکوکوکھلاکردیتاہے، جبکہ ہمارےہاں سب سےزیادہ جوکلچرعام ہےوہ سفارش واقرباء پروری ہے، اسکےہوتے ہوئےکبھی بھی معاشرے کوایک کامیاب معاشرتی نظام کےدائرےمیں داخل نہیں کرسکتے۔اس کلچرکاسخت مذمت کرتےہوئے ایک بار نبی کریم ﷺ کی خدمت میں فاطمہ نامی عورت کا مقدمہ پیش ہوا، کئی معتبرین نے اس معاملے میں سفارش کی مگر نبی محترم ﷺ نے اس پر برہمی کا اظہارکیا اور فرمایاکہ اگر اس کی جگہ فاطمہؓ بنت محمد ﷺ بھی ہوتی تو قانون کے مطابق فیصلہ کیا جاتالہذااس سلسلےمیں ارشادفرمایاہےکہ:

 

اتشفع فی حد من حدود اللہ ثم قام فاختطب فقال یاایھاالناس انما ھلک الذین قبلکم انہم کانوا اذا سرق منھم الشریف ترکوہ واذا سرق فیھم الضعیف اقاموا علیہ الحدود، واللہ لوان فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت یدھا[20]۔

 

ترجمہ: کیاتم اللہ کی حدودمیں سفارش کررہےہو؟پھرکھڑےہوکرخطبہ ارشادفرمایا: اےلوگو!بےشک تم سےپہلے لوگ اس لئے ہلاک ہوئےکہ جب ان میں سےکوئی معزز چوری کرتا تو اسےچھوڑ دیتےاورجب کوئی نادارچوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتےاللہ کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تومیں ضروراس کےہاتھ کاٹتا۔

 

اس لیے صاحب منصب کی خاصیت وذمہ داریوں میں سےایک یہ بھی ہےکہ وہ ناجائز سفارش اور اقرباپروری سے پرہیز کریں، اپنے رشتہ دار، دوست واحباب کے بجائے عام افراد جو قابل اور اہل ہوں انہیں ترجیح دی جانی چاہیےاور تمام ترفیصلےصرف اور صرف میرٹ پر کریں۔

 

تعصّبات اور گروہ بندی:

پوری دنیا میں اس وقت مختلف عصبیتوں سےزہر آلود ہو چکی ہے۔ لوگ رنگ ونسل، مذہب اور زبان کی عصبیتوں میں پھنسے ہوئے ہیں، سیاسی مفادات اور جتھا بندی کی خاطر لسانی، علاقائی اور نسلی تعصب کو اُچھالا جاتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے ان تمام عصبیتوں کا بڑی شدت سے خاتمہ فرمایا۔اپنی قوم اوربرادری سےمحبت اس بناءپرکہ وہ آپ کی قوم کےآدمی ہیں اورآپ کےرشتہ دارہیں، آپ کےہروقت شریک رنج وراحت ہیں اسی وجہ سےاس کےساتھ آپ کی دوستی، محبت اورتعاون و مددہے، یہ بات اسلام کی نظرمیں قابل اعتراض نہیں، جب تک ناحق ان کی حمایت نہ کرے اورظلم وزیادتی پر ان کےساتھ تعاون ومدد نہ کرے۔ایک شخص نے حضورﷺ سےدریافت کیاکہ:

 

یارسول اللّٰہ امن العصبیة ان یحب الرجل قومہ قال لا، ولٰکن من العصبیة ان ینصرالرجل قومہ علی الظلم[21]

 

ترجمہ: اےاللہ کےرسولﷺایک شخص اپنی قوم سےمحبت رکھتاہےتو کیایہ عصبیت سےشمارہوتی ہے، تو آپﷺ نےارشادفرمایاکہ نہیں، لیکن عصبیت یہ ہےکہ کوئی شخص اپنی قوم کی مدداسکےظلم کےباوجود کرتاہے۔

 

گویا حضورؐنے قوم کا ساتھ دینے کی حدیں بھی بیان فرما دیں کہ قوم کی مدد صرف اس حد تک ہو کہ قوم کا موقف حق و انصاف پر مبنی ہو۔ جتھے بندی، گروہی سیاست اور پریشر گروپ تشکیل دیکر ذاتی گروہی اور سیاسی مفادات حاصل کرنے کی خاطر دوسروں کی مدد کرنا ناجائز ہے۔ اسلام زندگی کےہرمعاملےمیں ناجائزقومیت وعصبیت سےگریزکاحکم دیتاہے، ایسی خبروں کی اشاعت سےگریز کاحکم دیتا ہےجس سے علاقائی تعصب پیداہویامذہبی منافرت کوہواملے۔حضورﷺکاارشادہےکہ:

 

لیس منامن دعاالیٰ عصبیة ولیس منامن قاتل عصبیة ولیس منامن مات علیٰ عصبیة[22]۔

 

ترجمہ: وہ شخص ہم میں سےنہیں جوعصبیت کی دعوت دے اور وہ بھی ہم میں سےنہیں جوعصبیت کی بنیاد پر جنگ کرے اور ہم میں سےوہ بھی نہیں جوعصبیت کی حالت میں مرے۔

 

قرآنِ مجید مختلف جرائم کا ذکر ان کی خرابیوں کے سیاق وسباق میں بیان کر کے اُن کی برائی ہمارے ذہن نشین کرواتا ہے۔ مثلاً قتل نفس کا ذکر اس انداز سے کیاہے کہ:

 

مَن قَتَلَ نَفسًا بِغَيرِ‌ نَفسٍ أَو فَسادٍ فِى الأَر‌ضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النّاسَ جَميعًا[23]۔

 

ترجمہ: جس نے کسی جان کو بغیر حق کے قتل کیا تو اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر ڈالا۔

 

یہ مشاہدہ ہے کہ ایک قتل بہت سے قتلوں کا ذریعہ بن جاتا ہے، اس میں خاندانوں کے خاندان ختم ہو جاتے ہیں، لیکن انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو پاتی۔ اسلام سے قبل کی زندگی اور آج کے دور کےقبائلی تعصبات کی بنیاد پر ہونے والے قتل اس کی مثال ہیں۔

 

پروپیگنڈہ اوربدگمانی:

اللہ رب العزت جوبادشاہوں کا بادشاہ اور حاکموں کا حاکم ہے، بندوں کے تمام عیوب وتقائص جانتے ہوئے بھی ان کی عیب پوشی کرتا رہتا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ہم عبدالستار ہو کر بھی اپنے کسی بھائی کی عیب پوشی نہیں کرپاتے ہیں اور حسن ظن کی تاکید وتلقین ہو نے کے باوجود اپنے بھائی کے ساتھ حسن ظن نہیں رکھ پاتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی ناگواربات ہمارے بڑوں کے بارے میں کہی جاتی ہے تو وہ ہمیں بری لگ جاتی ہے اور ہم اسے کسی بھی طرح ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے، لیکن وہی بات اگر کسی اور کے بڑوں کے بارے میں کہی جاتی ہے تو وہ ہمیں اچھی لگ جاتی ہے اور ہم بڑی آسانی سے اسے مان لیتے ہیں، جب کہ حسن ظن کا تقاضایہ ہے کہ جس بات کو ہم اپنے اکابر کے لیے معیوب سمجھتے ہیں اس کو ہر کسی کے اکابر کے لیے بھی معیوب سمجھیں اور جسے ہم اپنے اکابر کے لیے اچھا سمجھتے ہیں اسے دوسروں کے اکابر کے لیے بھی اچھا سمجھیں ۔اس کے علاوہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ فرد مخالف صحیح العقیدہ مومن ہے اور پابند شریعت بھی، اس کے باوجود اگر وہ کوئی مدلل بات بھی کہتا ہے تو ہم بلاسوچے سمجھے اس کو ردکر دیتے ہیں، جب کہ فرو موافق صحیح العقیدہ مومن تو ہے مگر پابند شریعت نہیں، اگر وہ کوئی بات کہتا ہے غیر مدلل ہی صحیح، پھر بھی ہم اسے  نہ صرف خودقبول کرتے ہیں بلکہ دوسروں سے بھی قبول کروانے کے لیے پورازور لگا دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دینی اور دنیوی دونوں سطحوں پر اختلاف و انتشار اور فتنہ و فساد کا بازار گرم ہوجاتا ہے ۔ ایسے حالات میں حسن ظن کی معنویت واہمیت بڑھ جاتی ہے، کیوں کہ ایسے وقت میں اگر ہم حسن ظن سے کام لیتے ہیں تو نہ صرف امن وآشتی، آپسی ہم آہنگی، صلح ومصالحت اور اتحاد واتفاق کو فروغ دیتے ہیں، بلکہ معاشرتی انتشار واختلاف ختم کرنےکےساتھ ساتھ قرب الہٰی کےبھی حقدارہوتے ہیں، چنانچہ حضرت ابوھریرہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا ہے کہ:

 

یقول اللہ: انا عندظن عبدی بی، وانامعہ اذا دعانی[24]۔

 

ترجمہ: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندے کے میرے متعلق گمان کے ساتھ ہوتا ہوں اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے ۔

 

یہی وجہ ہے کہ علمائے ربانی اور مشائخ کرام نے ہمیشہ حسن ظن سے کام لیا ہے اور اگر کبھی کسی سے بدگمانی ہوئی بھی تواس کو اپنے ہی تک محدودرکھا، کسی پر ظاہر ہونے نہیں دیا، کیوں کہ کسی سے بد گمان ہونا اور پھر اس کا اظہار کرنا گناہ ہے۔ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت سفیان بیان کرتے ہیں کہ:

 

الظن ظنان فظن إثم وظن ليس بإثم فأما الظن الذي هو إثم فالذي يظن ظنا ويتكلم به وأما الظن الذي ليس بإثم فالذي يظن ولا يتكلم به [25]۔

 

ترجمہ: بد گمانی دو طرح کی ہوتی ہے، ایک بد گمانی گناہ ہے اور دوسری گناہ نہیں، جو بدگمانی گناہ ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بد گمان بھی رہے اور اس کا پرو پیگنڈہ بھی کرے اور جو بدگمانی گناہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ کسی سے بد گمان تو رہے لیکن اس کا پر وپیگنڈہ نہ کرے ۔

 

ہمیں عملی طور پر اپنا اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ ہم کہاں تک حسن ظن کے زیورسےمزین ہیں ۔اگر ہم اپنےاحباب واقارب کے عیوب ونقائص کو بھی اپنے حسن ظن کی وجہ سے محاسن وخوبیاں شمار کررہے ہیں اور ان کی بڑی سے بڑی خرابیوں پر بھی پردہ ڈال رہے ہیں، اس کے بر خلاف دشمنوں کے محاسن وخو بیوں کو بھی عیوب ونقائص گمان کررہے ہیں، ان کی چھوٹی چھوٹی برائیوں کو بھی بڑا کر کے بیان کررہے ہیں اور مزہ لے لے کر اس کا پر و پیگنڈہ بھی کررہے ہیں، اگر ایسا ہے تو جان لیں کہ ہم حسن ظن سے کوسوں دور ہیں۔

 

حسن ظن ایک ایسی خوبی ہے جس کی معنویت وافادیت سے ہم چاہ کر بھی انکار نہیں کر سکتے اگر ہم حسن ظن کو دل سے اپنا لیں تو اس میں دورائے نہیں کہ ہم دینی اور دنیوی ہر طرح کے اختلافات واتہامات سے پاک رساف ہو جائیں، کیوں کہ حسن ظن نہ صرف مسلمانوں کا ایمانی زیورہے، بلکہ یہ آپسی ہم آہنگی، صلح ومصا لحت، اتفاق واتحاد اور معاشرت انسانی کی صلاح وفلاح کے لیے ناگزیربھی ہے۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ: یاایھاالذین آمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعد الظن اثم[26]۔ ’’اے ایمان والوں ! بد گمانو ں سے بچو، بلاشبہ بعض گمان گناہ ہیں ‘‘۔ بدگما نی سے بچنے کا واضح مطلب ہے کہ ہم خود کو حسن ظن سے آرستہ کریں ورنہ اس کا اثر یہ ہوگا کہ نہ ہم اپنے اندر پیدا ہو نے والے انتشار واختلاف کو روک پائیں گے اور نہ ہی انسانی معاشرے کی صالح تعمیر کرپائیں گے، جب کہ نفس کا تزکیہ اور معاشرے کی صالح تعمیر و تشکیل ہماری دینی اور دنیوی دونوں ذمہ داری ہے، اور اسی ذمہ داری کی صحیح انجام دہی کی وجہ سے ہماری عبادتوں میں حسن اور نکھا ر پیدا ہوتا ہے ۔ابو ہریرہ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ: حسن الظن من حسن العبادۃ. [27] ”حسن ظن بہترین عبادت ہے‘‘۔

 

غیرارادیت /بے احتیاطی:

شریعتِ اسلامیہ کا مزاج یہ ہے کہ وہ ان اسباب کا بھی تدارک کرتی ہے جو کسی خرابی کا سبب بنتے ہیں۔نبی کریم ﷺنے مسلمان کو تلقین کی ہے کہ وہ اس بات کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے کہ اگر وہ کوئی ایسی چیز دیکھے جس سے دوسرے کو تکلیف ہو سکتی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس اذیت دینے والی چیز کو راستہ سے ہٹا دے۔ اس سلسلے میں ایک روایت میں ایک پتھر ہٹانے، ایک میں ایک درخت کی ٹہنی ہٹانے جو لوگوں کو تکلیف دیتی تھی، ایک روایت میں راستے میں کانٹا ہٹا دینے پر انسان کو مغفرت کی بشارت دی گئی ہے۔گویا ان احادیث میں فرمایا گیا کہ اسلام اس بات کو بھی گوارا نہیں کرتا کہ کسی مسلمان کے ہاتھ سے غیر ارادی طور پر کسی دوسرے مسلمان کو نقصان اور تکلیف پہنچے، چہ جائیکہ مسلمان دوسروں کے خلاف ہتھیار بند ہو کر لڑے۔ فرمایا گیا کہ ایسا نہ ہو کہ غیر ارادی طور پر تیر کی نوک کسی کو لگ جائے اور وہ تکلیف کی حالت میں مشتعل ہو کر جوابی حملہ کر دے حالانکہ اس میں دوسرے شخص کی نیت داخل نہ تھی۔اسی طرح نبی کریم ﷺنے ننگی تلوار لے کر چلنےسے بھی منع فرمایا:

 

نَهَى رَسُولُ الله ﷺ أَنْ يُتَعَاطَى السَّيْفُ مَسْلُولًا[28]۔

 

ترجمہ: نبیﷺنے کسی کو ننگی تلوار دینے (پکڑانے) سے منع فرمایا (مبادا اس کو اچانک لگ جائے) ۔

 

اسی طرح ایک شخص تیرلیکر مسجد میں آیاتو آپﷺنے فرمایا کہ انہیں پیکانوں سے پکڑ لو۔ دوسری حدیث میں وضاحت ہے کہ پیکانوں سے پکڑ لو ایسا نہ ہو کہ کسی کو لگ جائے۔ابوموسیٰ ؓ کہتے ہیں کہ: واللہ مامتنا حتی سددناھا بعضا فی وجوہ بعض[29] ”خدا کی قسم! ہم نہیں مرے اس کے بعدکہ ہم نے تیر دوسروں کے منہ پر ہی مارا۔ یعنی تیر چلایا تو جنگ کے دوران ہی چلایا‘‘۔

 

اس بے احتیاطی کی عملی شکلیں ہم روز ملاحظہ کرتے ہیں کہ بے احتیاطی سے بندوق صاف کرتے ہوئے سامنے والے کو گولی لگ گئی یا اندھی گولی لگنے سے کسی کی جان گئی وغیرہ۔ اگر کوئی شخص بندوق وغیرہ صاف کرتے ہوئے اس بات کی احتیاط کر لے کہ پہلے اچھی طرح دیکھ لے کہ کہیں اس کے اندر کوئی گولی تو موجود نہیں، یا شادی بیاہ کے موقع پر ہونے والی آتش بازی اور فائرنگ کے موقع پر خوشی اور جذبات میں کئی دفعہ من چلے نوجوان حادثات کر بیٹھتے ہیں۔ باشعور شہریوں میں اتناشعور ہونا چاہیے کہ کیا خطرناک کام کر کے ہی خوشی کا اظہار ہو سکتا ہے؟ اسی طرح بسنت وغیرہ کے موقع پر ہونے والی آتش بازی کے حوالے سے ان احادیث سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے کہ اس طرح کے مواقع پر بھی غیر ذمہ دارانہ انداز سےفائرنگ کی جاتی ہے۔بہرحال مذکورہ بالا احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام یہ بات گوارا نہیں کرتا کہ اسلحہ کی نمائش کی جائے۔ نمائش کے دوران کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔ ایسا اکثر اسلحہ کی نمائش کے دوران ہوتا ہے، ان احادیث میں اس بات کی واضح ممانعت موجود ہے۔ اس رجحان کا ایک مزید برا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ اگر دوسرا فریق بھی اسی طرح اسلحہ لیکر نکل آئے تو فساد برپا ہو سکتا ہے۔ اسلحہ کی نمائش کا برا نتیجہ یہ بھی ہے کہ دوسرے کو مرعوب کرنا غرور اور تکبر کا مظاہرہ بھی ہے۔

 

نبی کریمﷺکے احکام پر عمل درآمد کرانا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس بنا پر یہ اُصول اَخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی حکومت فتنے فساد کے زمانے میں ہتھیاروں کی تیاری، ان کی خریدوفروخت پر سرکاری طور پر پابندی لگا دے۔ اگر تحفظ کے لیے اسلحہ عوام کی ضرورت ہو تو اسے محدود دائرے میں خصوصی اجازت اور لائسنس کے ساتھ ان کے درست استعمال کی ضمانت کے ساتھ اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

 

خلاصہ بحث:

مل جل کر زندگی گزارتے ہوئے لوگوں کے درمیان اختلافات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس شخص کے لیے بڑے انعام کا ذکر فرمایا جو باہمی نزاعی معاملات میں ضبط وتحمل اور عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے کشیدگی سے اجتناب کرتا ہے۔بلکہ اس موقع پر تو شریعت اسلامیہ میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے اگر کچھ جھوٹ بھی بولنا پڑے تو اس کی بھی اجازت ہے، یہ اس لئےکہ ان کے درمیان بدگمانیاں اور اشتعال پیدا کرنے والی باتیں کم ہوں اور معاشرہ اضطرابیت و بے چینی کے حالات سے نکل کر امن وسکون اور بھائی چارے کا مظہر بنے۔

 

اسلام نے کسی بھی طرح کے اشتعال کی حوصلہ شکنی ہی نہیں کی بلکہ اشتعال کا سبب بننے والے کاموں کا سد باب کرتے ہوئے کسی کو گالی دینے کی ممانعت فرمائی، زبان کا غیر ذمہ دارانہ استعال ممنوع قرار دیا۔ کسی کو لعنتی کہنے، تہمت لگانے، چغلی کرنے، کسی کا تمسخر اُڑانے، دوسروں کو حقیر جاننے، بے جاپروپیگنڈہ کرنے، افواہیں پھیلانے، کسی کو نسب کا طعنہ دینے اور دیگر مشتعل کرنے والی حرکات کی شد ت سے ممانعت کر دی گئی۔اس کی وجہ یہی ہے کہ معاشرہ پرسکون رہے اور ہر فرد بلا خوف وخطرامور زندگانی سرانجام دیتے ہوئے کامیاب وپرسکون معاشرے کا حصہ بنے۔

 

ہمارا عدالتی نظام جس حد تک پست ہوچکا ہے، جس طرح لوگ اس نظام سے نالاں‌اور جس قدر اس سے لوگوں کی شکایتیں‌ وابستہ ہوچکیں ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نظام میں انصاف بالکل مفقود ہوچکا ہےبلکہ انصاف، ریاست میں ترجیح ہی نہیں ہے۔عدالتوں میں معمولی کیسز سالہا سال تک چلتے رہتے ہیں لیکن فیصلہ نہیں ہوتاجس کی وجہ سے سائل نفسیاتی بیماری کا شکار ہوجاتاہے اور کبھی کبھار تو عدالتی چکروں سے تنگ آکر خود ہی اپنا عدالت لگا لیتا ہے اور بات قتل وقتال تک پہنچ جاتی ہےاورایک قتل بہت سے قتلوں کا ذریعہ بن جاتا ہے، اس میں خاندانوں کے خاندان ختم ہو جاتے ہیں لیکن انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو پاتی، جس سے معاشرے میں مزید الجھنیں جنم لیتی ہیں ۔اگر آپ انصاف کا اہتمام کردیتے ہیں تو لوگوں کو ایک چینل مہیا ہوجاتا ہے جہاں‌ وہ جاکر باآسانی اپنی بات کہہ سکتے ہیں اور جو مشکلیں و مصبیتیں ان کو درپیش ہوتیں ہیں وہ ان کا مداوا بننے کا موحب بن جاتا ہے، انتشار اور خود ساختہ لاقانونیت ختم ہوجاتی ہے ۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق بے لاگ عدل وانصاف کا اہتمام کریں تاکہ حق دار کو اس کا حق بروقت ملے، اور معاشرہ مزید الجھنوں سے بچ کر امن وسکون کا گہوارہ بنے۔

 

دین خداوندی کے نزدیک جب حق کا اطلاق ہو جائے وہاں کسی کی نہیں سنی جاتی۔ انسان بنیادی طور پر اپنی جبلت میں نیکی کے ساتھ بدی اور اطاعت کے ساتھ معصیت بھی رکھتا ہے۔ لہٰذا اس کی سرکش طبیعت کو اطاعت پر مجبور کرنے کے لیے ایسے قوانین کی ضرورت ہے جس میں حکم دینے کے ساتھ یہ بھی ہو کہ اگر س کی تعمیل نہ کی گئی تو سزا کیا ہے اور منع کرنے کے ساتھ یہ بھی ہو کہ اگر فعل ممنوعہ سے اجتناب نہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ کیا بھگتنا پڑے گا۔ چنانچہ صرف یہ کہہ دینا کافی نہ ہو گا کہ ’’ًجس جان کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اسے قتل نہ کرو‘‘ بلکہ جب تک یہ بتا دیا کہ اگر اس عظیم گناہ سے اجتناب نہ کیا اور فساد فی الارض پھیلایا گیا تو اسے کیا سزا ہو گی۔لہذا سرکشوں کو دائرہ اطاعت میں لانے اورمعاشرے کو پرسکون بنانے کے لئے اسلامی قوانین پر مکمل عمل درآمد لازمی ولابدی ہے جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔

 

حوالہ جات

  1. البخاری، ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح للبخاری/ الجامع المسندالمختصر من امور رسول اللهَ ﷺ وسننہ وایامہ، دار طوق النجاۃ، بیروت، 1422ھ، کتاب الجمعہ، باب اعن اخاک ظالما او مظلوما۔ج3، ص128
  2. شاہ ولی اللہ، احمدابن عبدالرحیم الدھلوی، حجۃ اللّٰہ البالغہ، القاہرہ، بغداد، ج1، ص742
  3. ایضاً، ج1ص 756
  4. جسٹس تنزیل الرحمن، جرم و سزا كا اسلامی تصور، لاہور، ص120
  5. القشیری، ابوالحسین مسلم ابن الحجاج، الجامع الصحیح للمسلم، کراچی، قدیمی کتب خانہ، کتاب الجہادوالسیر، باب فی الامر بالتیسیر وترک التنفیر، ج3، ص1358
  6. ترمذی، محمد بن عیسیٰ بن سورہ، الجامع للترمذی/ الجامع المختصرمن السنن عن رسول اللهَ ﷺومعرفة الصحیح والمعلول وما علیہ العمل، دار احیاء التراث العربی، بیروت، کتاب البروالصلۃ، باب المراء، ج4، ص358
  7. السجستانی، ابی داؤدسلیمان بن اشعث، السنن لابی داؤد، دارالرسالۃ العالمیہ، 1430ھ، کتاب الادب، باب من یاخذ الشیئ علی المزاح، ج7، ص352
  8. ایضا ج4، ص458
  9. المتقی، علاوالدین علی بن حسام الدین الھندی، کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، مؤسسہ رسالة، بیروت، 1401ھ، کتاب المواعظ والحکم، باب ثانی فی الترھیبات، فصل الاول فی المفردات، ج16، ص11
  10. بحوالہ بالا، القشیری، ابوالحسین مسلم ابن الحجاج، الجامع الصحیح للمسلم، کتاب البرؤالصلۃ والاداب، باب أمر من مر بسلاح في مسجد أو سوق أو غيرهما من المواضع الجامعة للناس أن يمسك بنصالها، ج4، ص2019
  11. آل عمران134: 3
  12. الاعراف200: 7
  13. بحوالہ بالا، البخاری، ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، ج8، ص28
  14. النحل126: 16
  15. البقرۃ194: 2
  16. حم السجدہ34: 32
  17. النور22: 24
  18. المائدہ32: 5
  19. بحوالہ بالا، البخاری، ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالیٰ ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جھنم، ج9، ص2
  20. ایضاٍ، باب من انتظر حتی تدفن، ج4، ص175
  21. الخطیب العمری، ولی الدین محمدبن عبداللہ، مشکواةالمصابیح، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ، کتاب العصبیہ، ج2، ص432
  22. بحوالہ بالا، السجستانی، ابوداؤدسلیمان ابن اشعث، سنن ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی العصبیة، ج2، ص357
  23. المائدہ32: 5
  24. بحوالہ بالا، المتقی، علاوالدین علی بن حسام الدین الھندی، کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال، کتاب الاخلاق، باب الاول فی الاخلاق والافعال، الفصل الثانی فی تعدید الاخلاق المحمودۃ، ج3، ص134
  25. بحوالہ بالا، ترمذی، محمد بن عیسیٰ بن سورہ، الجامع للترمذی، کتاب البروالصلۃ، باب ماجاء فی ظن السوء، ج4، ص356
  26. الحجرات12: 49
  27. بحوالہ بالا، السجستانی، ابوداؤدسلیمان ابن اشعث، سنن ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی حسن الظن، ج4، ص455
  28. ایضا، کتاب الجھاد، باب فی النہی ای یتعاطی السیف مسلولاً، ج2، ص336
  29. بحوالہ بالا، القشیری، ابوالحسین مسلم ابن الحجاج، الجامع الصحیح للمسلم، کتاب البرؤالصلۃ والاداب، باب أمر من مر بسلاح في مسجد أو سوق أو غيرهما من المواضع الجامعة للناس أن يمسك بنصالها، ج4، ص2019
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...