Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 1 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

مکالمہ و مطالعہ مذاہب کا نبوی منہج |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060029185_1207

Pages

21-34

DOI

10.51411/rahat.1.2.2017.12

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/12/308

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/12

Subjects

Interfaith dialog Human Peace Islam Prophet Muhammad(pbuh).

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اسلام انسانیت کے احترام کادرس دیتا ہےاوربحیثیت انسان ہر فرداحترام کا حقدار اورمستحق ہے چاہے وہ جس مذہب ، رنگ ونسل سے تعلق رکھتا ہو۔بد قسمتی سےمسالک اور فرقوں کی آپس میں جنگ وجدل اور بحث ومناظروں نے عام مسلمانوں کے ذہنوں سے اسلام کی وسعت نظری کو اوجھل کر دیا ہے۔ شیطانی ذہن رکھنے والوں نے یہ پروپیگنڈا مہم کے طور پر جاری کردیا کہ اسلام اپنے ماننے والوں کے علاوہ دوسروں کو موجبِ گردن زدنی قرار دیتا ہے اور اس میں مذہبی رواداری اور وسعت نہیں پائی جاتی۔ وہ مسلمانوں کو دوسروں سے الگ تھلگ رہنے کی تاکید کرتا ہے، ان کو انفرادیت پسندی سکھاتا ہے اور کسی غیر مسلم کی خوشی وغمی میں شرکت سے اجتناب کرتے اور اظہار ہمدردی کو حرام سمجھتے ہیں۔ یہ تصور یا تو سراسر غلط فہمی کے سبب ہے یا پھر بددیانتی کے سبب پھیلا دیا گیا ہے۔لیکن ہاں اسلام اتنابھی آزاد نہیں چھوڑتا جیسے کہ موجودہ مادہ پرست تہذیب نے اباحیت کو اس قدر فروغ دیا ہے کہ انسان اپنی جنسی ونفسانی خواہش کی تکمیل کیلئے کوئی بھی بندش گوارا نہیں کرنا چاہتا، ہر طرف مذہبی ہم آہنگی کے نام پر رسوم غیر کی اپنائیت اوربے حیائی و عریانی کی فضا ہےجس کا نتیجہ انتشار اور تباہی ہے۔مذاہب کے درمیان ایک قدر مشترک اخلاقیات ہے،صداقت و راست گوئی، عفت و عصمت، دیانت و امانت، باہمی اُلفت و محبت،رشتوں کا احترام، ہمدردی اور ان کی خبر گیری، تعصب او ر فرت سے اجتناب، کسی کے حق پر دست درازی اورظلم و زیادتی کا خاتمہ، اس طرح کی اخلاقیات کی اہمیت تمام مذاہب تسلیم کرتے ہیں اور ان کے مخالف رویّے کو صحیح نہیں سمجھتے۔اسلام معاشرے میں اخلاق کو فروغ دینا چاہتا ہے، اس کیلئےاس کا اپنا ایک طریقہ اور لائحۂ عمل بھی ہے، لیکن اس کے ساتھ اخلاق کو عام کرنے کی جو کوشش ہو اس میں وہ اپنے اصول کے تحت شریک ہوسکتا ہے۔ مذاہب کے ماننے والوں کو وہ نجی زندگی میں اپنی شریعت پر عمل کی اجازت دیتا ہے، لیکن اپنے دائرۂ اختیار میں آخری شریعت کو نافذ کرتا ہے۔

اسلام، امنِ عالم کا داعی ہے۔ یہ ہر ایک سے دلیل و برہان کی بنیاد پر مکالمہ کرتا ہے اور اپنے مخالفین تک سے دلیل و برہان لانے کا مطالبہ کرتا ہے اسی لئے تو ارشاد ربانی ہے کہ:

قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین۔[1] کہہ دیجئے کہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو۔

اسی بناء پر یہ دین دلائل، سچائی اور علم کی بنیاد پر مفاہمت کی دعوت دیتا ہے۔ یہ تصادم اور مخاصمت کے ماحول کے بجائے ایک پر امن اور مکالماتی فضا تشکیل دیتاہے۔ نبی کریمؐ کی حیات طیبہ اظہار حق، استقامت اور اخلاق عالیہ کے ساتھ ساتھ مثبت و مفاہمتی عمل کی داعی رہی ہے۔ اور اس میں غلبۂ دین کا مقصد پیش نظر رہا ہے۔ دنیا کو اس وقت بالعموم اور وطن عزیز کو بالخصوص جو مسائل درپیش ہیں ان کا حل سیرت طیبہ کے اندر موجود ہے۔

نبی کریم ﷺ کی سیرت ہمہ پہلو ہے اور آپؐ کا اسوہ حسنہ، عالم گیر اس لیے ہے کہ آپؐ کی تعلیما ت میں ان پیش آمدہ مسائل کے حل کی بنیادیں فراہم کی گئی ہیں۔ انسان کا جذبۂ مفاہمت اسے ہر مسئلے کے حل کی جانب لے جا سکتا ہے اور حسن نیت و عزم و ارادہ کے ساتھ مشکل سے مشکل مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

آج دنیا اخلاقی پستی اور کردار وعمل کی گراوٹ کا شکار ہے۔ جب تک اخلاق کی اس پستی سے چھٹکارا نہ ملےتب تک گھرسےلےکرپورےعالم تک امن اورسکون کامیسرآنامشکل امرہے۔حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا۔[2]

ترجمہ:مؤمنین میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہو۔

گویا اخلاق کی بلندی سے ایمان کی بلندی مشروط ہے۔ تعمیر اخلاق و کردار کی ترغیب کے لیے آپؐ نے ایک اور انداز سے فرمایا کہ:

ما من شیء اثقل فی المیزان من حسن الخلق، ان المؤمن لیدرک بحسن خلقہ درجة الصائم القائم۔[3]

ترجمہ:ترازو میں اچھے اخلاق سے زیادہ کوئی چیز وزنی نہیں ۔ بیشک مؤمن اچھے اخلاق کے ذریعے روزہ دار اور نماز والے کا درجہ پاتا ہے۔

اس لیے آج کے دور میں اگرہم مکالماتی عمل کی بنیاد حسن اخلاق کو بنائیں تو دنیا کے اس سے بڑے مسئلے کاحل نکل سکتا ہے۔اسی طرح فہم و فراست ایک ملکہ ہےجو اللہ کی طرف سے ودیعت کردہ ہے۔یہ نعمت جسے عطا ہو جائے وہ معاشرے میں خیر ونفع رسانی کاپیامبر بن جاتا ہے۔ مشکل سے مشکل مسئلے کی تہہ تک پہنچنا اور اسے دانش سے حل کرنا، اللہ کی عنایت ہے۔ ارشاد نبوی ہے کہ:"انسان کی عظمت اس کی دین داری میں ہے، اس کی مروت اس کی عقل ہے اور اس کا حسب اس کے اخلاق ہیں"[4]۔

دانش نوازی اور خرد افروزی کا کیا زبردست انداز ہے،ایک صحابی میں خرد ودانش کا یہ جلوہ دیکھ کرحضور ﷺ نے ان کی تحسین اور حوصلہ افزائی فرمائی۔نبی کریم ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا :

انک فیک خصلتین یحبھما الله الحلم والاناة۔[5]

ترجمہ:تم میں دو ایسی خصلتیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔ یہ دو عادتیں حلم و بردباری ہے۔

اس فہم و فراست سے کام لے کر آج کے عہد میں بالخصوص ہم متعدد اختلافات کو حل کر سکتے ہیں اور معاشرے میں مثبت مکالماتی اذہان پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسے کئی ظواہر ہیں جن میں اختلاف دکھائی دیتا ہے لیکن فراست کی نظر میں وہ اختلاف نہیں ہوتا۔ اسے کبھی تطبیق کے ذریعے اور کبھی ترجیح سے حل کر کے رفع فساد کیا جا سکتا ہے۔

کائنات کا نظام ہو یا انسان کی روحانی یا عملی اصلاح کا نظام، ان سب کی بنیاد عدل پر ہے۔عدل نہ ہونے سے یہ دنیا ظلم و طغیان کا گھر بن جاتی ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے تقویٰ کا راستہ عدل کو قرار دیا:

اعدلوا ھو اقرب للتقویٰ۔[6] عدل کرو کہ وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔

نبی کریمﷺ کی پوری زندگی عدل ِ کامل کی آئینہ دار تھی۔ عدل کے فروغ کے لیے مفاہمت کےجذبات کا عام ہونا ضروری ہے جتنی حق تلفی کم ہو گی اتنی ہی عدل کی فضا بنے گی۔آپؐ کا ارشاد ہےکہ:

تعافوا الحدود فیما بینکم فما بلغنی من حد فقد وجب۔[7]

ترجمہ:آپس میں ایسے گناہوں کو معاف کردیا کرو جن سے حد لازم آتی ہے لیکن مجھ تک جو واقعہ پہنچے گا میں اس کی سزا دوں گا۔

یہاں بڑے لطیف طریقےسے عدل اور مفاہمت کو آپؐ نے اکھٹا کردیا یعنی جذبۂ مفاہمت سے عفو درگزر کاحوصلہ پیدا ہو گا اور معاشره میں کھچاؤ اور بے قراری نہیں رہے گی۔

اسلام ایک ایسا دین ہے جو فکری اور عملی حوالے سے تمام مذاہب کی کسوٹی و فرقان ہے۔ اس کی کتاب قرآن مجید ہر عیب سے پاک اور"لاریب فیہ"[8] ہونے کے ساتھ ساتھ"مصدقا لما بینھم"[9] کی علمبردار ہے۔جس کی استنادی شان یہ ہے کہ " لا یأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ"[10] اور خود صاحب قرآن حامل خلق عظیم ہیں۔ اس لیے احقاق حق اور ابطال باطل کے باوجود اسلام دیگر مذاہب کے ساتھ احترام اور مفاہمت کا سبق دیتا ہے۔ پھر اسلام کی رواداری اس قدر وسعت پذیر ہے کہ وہ ہر طرح کے جبر کی نفی کرتا اور کسی پر بھی کوئی چیز مسلط نہیں کرتا،اسی لئے تو قرآن کریم میں " لا اکراہ فی الدین" [11]فرمایاگیا ہے۔احترام مذاہب کی اس حکمت عملی کے چند اہم خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:

1: مشترک نکات پر دعوت اتحاد:

اسلام حقائق پر نظر رکھتا ہے اور کئی ایک متنازعہ ابحاث سے گریز کرتاہے کیونکہ اس کے بہتر نتائج مرتب نہیں ہوتے۔ اس لیے وہ مذاہب میں اشتراکات کو بنائے اتحاد بناتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کی دعوت اس طرح دی گئی ہےکہ:

یا اھل الکتاب تعالوا الیٰ کلمة سواء بیننا وبینکم الا نعبد الا اﷲ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اﷲ۔[12]

ترجمہ:اے اہل کتاب آؤ ایک بات کی طرف جو برابر ہے ہم میں اور تم میں کہ بندگی نہ کریں مگر اللہ کی اور شریک نہ ٹہرادیں اس کا کسی کو اور نہ بنا دیں کوئی کسی کو رب سوائے اللہ کے ۔

مفتی محمد شفیع ؒ نےمعارف القرآن میں اس آیت کی توضیح اس طرح سے کی ہے کہ:

"اس آیت سے تبلیغ دعوت کا ایک اہم اصول معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی جماعت کو دعوت دینے کا خواہش مند ہو جو عقائد و نظریات میں اس سے مختلف ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ مخالف العقیدہ جماعت کو صرف اسی چیز پر جمع ہونے کی دعوت دی جائے جس پر دونوں کا اتفاق ہو سکتا ہو۔ جیسے نبی کریم ﷺ نے جب روم کے بادشاہ ہرقل کو اسلام کی دعوت دی تو ایسے مسئلہ پر دی، جس پر دونوں کا اتفاق تھا"[13]

مفاہمت کا یہ بنیادی اصول ہے کہ اشتعال میں لائے بغیر مشترک مسلمات کی دعوت دی جائے۔ یہی حکمت عملی دعوت دین کے نفوذ اور پھیلاؤ کا سبب بنتی ہے اور اس سے مفاہمانہ مکالمے کا راستہ پیدا ہوتا ہے اور مفاہمتی عمل کے لیے کئی کشادگیاں سامنے آتی ہیں۔

2: مذہبی شخصیات کا احترام:

حضورﷺ کا اسوۂ عالیہ، انسانی احترام کی تلقین و تحسین کرتا ہے اور دیگر پیشوایان مذاہب کے اکابر کے ادب کا ماحول تشکیل دیتا ہے۔ غیرمسلموں کے بارے میں اسلام کی شاندار تعلیمات ایسی ہیں جن کی مثال دنیا کا کوئی دوسرا مذہب پیش نہیں کرسکتا۔ مسلمانوں نے ان احکامات کی پاسداری میں غیرمسلموں سے حسن سلوک کی درخشندہ روایات قائم کیں۔ جملہ مؤرخین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں غیرمسلموں کو مسلم خلفا کی طرف سے مذہبی جبر کا سامنا کرنا پڑا ہو۔اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اس امر کا پابند کیاکہ وہ دوسروں کے مقدس مقامات اور مذہبی شخصیات کا احترام کریں،دوسرے ادیان سے تعلقات کےمعا ملہ میں غیرجانبداری اورانصاف پسندی کاتقاضا کرتاہے، دیگرادیان کیساتھ میل جول کےتعلقات قائم کرنے کیلئےایسے موضوعات پرگفتگو کرنے سے گریز کرنے کی ہدایت کرتاہے جو باہمی نزاع کا باعث بنیں اور اُس کی بجائے اُن موضوعات پر زور دیتا ہے جن میں یکسانیت ہو۔ قرآن مجید میں اس بارے میں ارشاد ہے کہ:

ولا تسبوا الذین یدعون من دون اﷲ فیسبوا اﷲ عدوا بغیر علم۔[14]

ترجمہ:اور تم لوگ برا نہ کہو ان کو جن کی یہ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا، پس وہ برا کہنے لگیں گے اللہ کو بے ادبی سے بغیر سمجھے۔

اس کی تشریح میں مفتی محمد شفیعؒ لکھتے ہیں کہ:

"جو کام اپنی ذات کے اعتبار سےجائز بلکہ کسی درجہ میں محمود بھی ہو مگر اس کے کرنے سے کوئی فساد لازم آتا ہو، یا اس کے نتیجے میں لوگ مبتلاء معصیت ہوتے ہوں وہ کام بھی ممنوع ہوجاتا ہے کیونکہ معبودات باطلہ یعنی بتوں کو برا کہنا کم از کم جائز تو ضرور ہے اور ایمانی غیرت کے تقاضا سے کہا جائے تو شاید اپنی ذات میں ثواب اور محمود بھی ہو مگر چونکہ اس کے نتیجے میں یہ اندیشہ ہوگیا کہ لوگ اللہ جل شانہ کو برا کہیں گے تو بتوں کو برا کہنے والے اس برائی کا سبب بن جائیں گے ، اس لئے اس جائز کام کو بھی منع کردیا گیا"۔[15]

اسی طرح مولانا شبیر احمدعثمانیؒ مذکورہ آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ:

"کسی مذہب کے اصول و فروع کی معقول طریقے سے غلطیاں ظاہر کرنا یا اس کی کمزوری پر تحقیقی و الزامی طریقے سے متنبہ کرنا جداگانہ چیز ہے۔ لیکن کسی قوم کے پیشواؤں اور معبودوں کی نسبت بغرض تحقیرو توہین اور دلخراش الفاظ نکالنا قرآن نے کسی وقت بھی جائز نہیں رکھا"۔[16]

یعنی اسلام کا اصل منشاء یہی ہے کہ مخاصمت کی بجائے، مفاہمانہ مکالمے کا ماحول پیدا کیا جائے۔ ضیاء القرآن میں اس کی بڑی پر حکمت توضیح کی گئی ہے۔

"آیت سے مبلغین اسلام کی تربیت مقصود ہے تاکہ وہ اسلام کی دعوت کو پوری شائستگی اور متانت سے پہنچانے کے لیے تیار ہو جائیں، انہیں حکم دیا کہ مشرکین کے باطل خداؤ ں کو برا نہ کہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مشتعل ہو کر تمہارے معبود بر حق کی جناب میں گستاخی کرنے لگیں"۔ [17]

یعنی ایسا ماحول اور حالات پیدا نہ کیے جائیں کہ جس میں گالم گلوچ اور عدم برداشت کے رویے نمایاں ہوں بلکہ احترام باہمی کو بنیا د بنا کر مفاہمانہ گفتگو کی جائے۔اسی طرحقرآن ما قبل کے ادیان کے علماء کے احترام کی ہدایت کرتا ہے:

ذالک بانھم قسسیسین ورھباناًوانھم لایستکبرون۔[18] 

ترجمہ: یہ اسلئے کہ اُن میں سے عالم اور راہب ہیں اور اِسلئے کہ وہ تکّبرنہیں کرتے۔

اسلام نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ غیرمسلموں کی عبادت گاہوں اور مذہبی شعارات کو بھی پورا تحفظ فراہم کیا۔مغربی مؤرخین کا بھی اس امرپر اتفاق ہے کہ خلافت کے زیر اثر مسلم علاقوں میں مسلم حکمرانوں نے عیسائیوں کو بھرپور مذہبی تحفظ فراہم کیا۔تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہودیوں کو جب دیگر اقوام کے مظالم کے نتیجے میں یورپ سے نکلنا پڑا تو اُنہوں نے مسلم علاقوں میں آکر پناہ لی۔ اَندلس میں یہودیوں اورعیسائیوں کو ہرقسم کے حقوق حاصل رہے۔یہ اسلامی تعلیمات کوئی نئی نہیں بلکہ اسلام کا ہر طالبعلم انہیں بخوبی جانتا ہے!ماضی اور حال میں کبھی بھی مسلمانوں نے کسی قوم کی مذہبی شخصیات، دینی شعارات اورعبادت گاہوں کو نشانہ نہیں بنایا،لیکن مقامِ افسوس ہے کہ گذشتہ چند برسوںمیں ہی پیغمبر اسلام ﷺ کی اہانت کو ایک مسلسل اور مذموم روایت بنالیا گیا ہے،کبھی مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآنِ مجید کی مثل خودساختہ قرآن (مثلاًفرقان الحق وغیرہ) تیار کرکے بڑے پیمانے پر پھیلائے جاتے ہیں اورکبھی معاذ اللہ قرآنِ عظیم کو ہی باتھ روم اور ٹوائلٹ میں بہا نے کی جسارت کی جاتی ہے۔کبھی اسلامی شعار’’حجاب‘‘کے خلاف دنیا کے مختلف ملکوں میں تحریکیں اُٹھتی ہیں تو کبھی داڑھی کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اسلام کی تمام تعلیمات کو طنز واستہزا کی بھینٹ چڑھانا اور اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا عالمی میڈیا کامعمول بن چکاہے۔ رواداری اور باہمی احترام کایہ سبق دیگر مذاہب کو بھی دیا جانا چاہئے۔

3: عبادت گاہوں کا تحفظ:

اسلام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ان کے مذہبی شعائر کی بے ادبی سے روکتا ہے تاکہ دیگر مذاہب کے ساتھ مفاہمت کا دروازہ کھل سکے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی عبادت گاہوں کے متعلق کہ جہاں اللہ کا ذکر کثرت سے ہوتا ہے فرمایا :

ولو لا دفع اﷲ الناس بعضھم لبعض لھدمت صوامع وبیع و صلوات ومساجد یذکر فیها اسم اﷲ کثیرا۔[19]

ترجمہ:اور اگر نہ ہٹایا کرتا اللہ لوگوں کو ایک کو دوسرے سے تو ڈھائے جاتے تکیے اور مدرسے اور عبادت خانے اور مسجدیں جن میں نام پڑھا جاتا ہے اللہ کا بہت۔

تفسیر مدارک میں ہےکہ:

لولااظہارہ وتسلیطہ المسلمین علی الکافرین بالمجاھدۃ لا ستولی المشرکون علی اھل الملل المختلفۃ فی ازمنتھم وعلی متعبداتہم فھدموھا،ولم یترکو للنصاریٰ بیعا ولا لرھبانہم صوامع ولا للیھود صلوات ای: کنائس وسمیت الکنیسۃ صلاۃ؛ لانہا یصلی فیھا۔[20]

ترجمہ: اگر کفار پر جہاد کے ذریعے دباؤ نہ ڈالا جاتا تو مشرکین، دیگر ادیان والوں کی عبادت گاہوں پر غلبہ پا کر ان کو گرا دیتے اور نہ کسی نصرانی کا گرجا بچتا اور نہ ان کے درویشوں کے گنبد باقی رہتے اور نہ ہی یہود کے تکیہ خانے اور کنائس چھوڑے جاتے بلکہ سب کو زمین بوس کر کے مٹا دیا جاتا۔

اسی طرح مفتی محمد شفیع ؒ معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ:

"مطلب آیت کا یہ ہے کہ اگر کفار سے قتال وجہاد کے احکام نہ آتے تو کسی زمانے میں ،کسی مذہب وملت کے لئے امن کی جگہ نہ ہوتی ۔ موسیؑ کے زمانے میں صلوات اور عیسیٰؑ کے زمانے میں صوامع اور بیع اور خاتم الانبیاء ﷺ کے زمانے میں مسجدیں ڈھا دی جاتیں"۔[21] "آیت میں صوامع ، صومعہ کی جمع ہے جو نصاریٰ کے تارک الدنیا راہبوں کی مخصوص عبادت گاہ کو کہا جاتا ہے۔ بیع، بیعۃ کی جمع ہے جو نصاریٰ کے عام کنیسوں کا نام ہے اور صلوات ، صلوت کی جمع ہے جو یہود کے عبادت خانے کا نام ہے اور مساجد مسلمانوں کی عبادت گاہوں کا نام ہے"۔[22]

یعنی ہر مذہب کی عبادت گاہوں کا تحفظ اللہ کی ایک خاص حکمت کا مظہر ہے اس لیے یہ عبادت گاہیں جب تک فساد فی الارض کا باعث نہیں بنتیں تب تک ان کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔اس سے دیگر مذاہب کو رواداری اور مفاہمت کا پیغام ملتا ہے کہ اسلام کے اندر کس قدر وسعت اور مخالفین تک کے لیے کس قدر گنجائش ہے اور یہ دین مفاہمتی عمل کی کس قدر حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

4: اہل کتاب کے جان و مال کا تحفظ:

اسلام دیگر ادیان کےساتھ رواداری کی تعلیم دیتا ہے اوراپنی رحمت سےغیرمسلموں کوبھی محروم نہیں رکھتا۔عہدنبویﷺ میں غیرمسلم رعایاکی حیثیت سے پہلا معاملہ نجران کے عیسائیوں کے ساتھ پیش آیا۔رحمۃ للعالمین نے ان کو جو حقوق دیے وہ رواداری اور مفاہمتی عمل کی عدیم النظیر مثالوں میں سے ہیں۔آپ ﷺ نے لکھوایاکہ:

ولنجران وحاشیتھا جوار اللہ وذمۃ محمد النبی رسول اللہ علی انفسہم، وملتھم، وارضہم واموالہم وغائبہم وشاھدہم وعیرھم وبعثہم وامثلتہم لایغیرماکانواعلیہ ولایغیرحق من حقوقھم وامثلتہم لایفتن اسقف من اسقفیتہ ولا راھب من رھبانیتہ ولاواقہ من وقاھیتہ علی ما تحت ایدیھم من قلیل اوکثیرولیس علیھم رھق ولا دم جاھلیۃ ولا یحشرون ولا یعشرون[23]

ترجمہ: نجران اور اس کے اطراف کے باشندوں کی جانیں ان کا مذہب ان کی زمینیں ان کا مال ان کی حاضر و غائب، ان کے وفد، ان کے قاصد، ان کی عورتیں، اللہ کی امان اور اس کے رسولؐ کی امان میں ہیں، ان کی موجودہ حالت میں کوئی تغیر نہ کیا جائے گا، اور نہ ان کے حقوق میں سے کسی حق میں دست اندازی کی جائے گی، اور نہ مورتیں بگاڑی جائیں گی، کوئی اسقف اپنی اسقفیت سے، کوئی راہب اپنی رہبانیت سے، کنیسہ کا کوئی منتظم اپنے عہدئے سے، نہ ہٹایا جائے گا اور جو بھی کم یا زیادہ ان کے قبضے میں ہے اسی طرح رہے گا، ان کے زمانہ جاہلیت کے کسی جرم کا بدلہ نہیں لیا جائے گا نہ ان کو ظلم کرنے دیا جائے گا اور نہ ان پر ظلم ہوگا۔

ا س صحیفہ میں جو لکھا گیا ہے اس کے ایفا ءکے بارےمیں اللہ کی امان اور محمد ﷺ کی ذمہ داری ہے یہاں تک کہ اس بارےمیں خدا کا کوئی دوسرا حکم داخل نہ ہو، جب تک وہ مسلمانوں کے خیر خواہ رہیں گے، ان کے ساتھ جو شرائط کیے گیے ہیں ان کی پابندی کریں گے، ان کو ظلم سے کسی بات پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔[24]اس سے بڑھ کر انسان دوستی اور مفاہمتی عمل کی عالم مذاہب میں کیا مثال ہو سکتی ہے۔

خلاصہ بحث:

اسلام کی یہ خوبی ہے کہ وہ تمام مذاہب کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کے ماننے والے اس پر ایمان بھی لاتے ہیں اور وہ کسی مذہب کو مسترد نہیں کرتے۔حضور ﷺ کا بقائے باہم اور بین المذاہب احترام پر کتنا یقین تھا اس کا اندازہ حلف الفضول کے قیام سے لگایا جاسکتا ہے جس کا مقصد مذہب، قبیلے اور حسب و نسب سے اوپر اٹھ کر کمزور طبقات کو ظلم سے بچانا تھا۔حلف الفضول کا تاریخی معاہدہ جس میں اللہ کے رسولؐ نے نبوت سے قبل ایک تکثیری معاشرے ہی کے اندر رہ کر بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا۔یہ ایک ایسا معاہدہ تھا جس میں مشرکین، ملحدین اور موحدین سب نے ایک جٹ ہو کر برائی اور ناانصافی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کا عہد باندھاتھا۔ اللہ کے رسولؐ عہد رسالت میں بھی اس معاہدے کی بڑی قدر کرتے تھے اور ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ اس طرح کا معاہدہ پھر کوئی ہو تو اس عنوان کی دعوت میں آپؐ اب بھی شریک ہونا چاہیں گے۔میثاق مدینہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کی بہترین مثال ہے اس میں تمام لوگوں کو اپنے مذاہب پر عمل کرنے اور اپنے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل تھا۔کوئی مذہب نفرت اور تفرقہ کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ تمام مذاہب انسانیت کی تعمیر پر زور دیتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے مکہ اور مدینہ کے تکثیری معاشرے میں  غیرمسلموں کیساتھ جو رویہ اپنایا وہ واحد راستہ ہے جسے اپنا کر دنیا کےہرشعبہ میں  کامیابی اور کامرانی کی معراج کوچھواجاسکتاہے۔لیکن افسوس کہ نبی کریمﷺ نےحسن اخلاق و کردار،حسن تعلیم وتربیت کی تلقین کی ہے،مگر مسلم معاشرہ اخلاق کی بنیادی چیزوں سےمحروم ہے۔حضورؐ نےفرمایا میں مکارم اخلاق کی تکمیل کیلئےمبعوث کیاگیا ہوں اس فرمان سےظاہر ہوتاہے کہ اسلام کی نشر و اشاعت،دعوت وتبلغ کا فریضہ حسن اخلاق سے ہی مکمل ہوا ہے،ثمامہ اسلام کا بدترین دشمن تھا جس کو آپؐ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپؐ نے اسے بغیر سزا کےمعاف کردیا، جس پر وہ مشرف بہ اسلام ہوگیا، اسی طرح اللہ کے رسول نے عکرمہ،صفوان بن امیہ اور ابوسفیان کےساتھ بھی حسن اخلاق کا برتاؤ کیاجواس بات کی شاہد ہےکہ آپؐ کےحسن سلوک سے کئی مشرکین دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔آج ضرورت ہے کہ ہم اپنے کردا ر وعمل میں اسوہ رسول سے رہنمائی لیکروہ وسعت پیدا کریں جو نبی ﷺ کی ذات بابرکت کی خاصہ تھی۔

مختصراً یہ کہ اسلام، امنِ عالم کا داعی مذہب ہے۔اسلام ہر ایک شخص سے دلائل و براہین کی بنیاد پر مکالمہ کرتا ہے اور اپنے مخالفین تک سے دلیل و برہان لانے کا مطالبہ کرتا ہے ، یہ تصادم اور مخاصمت کے ماحول کے بجائے ایک پر امن اور مکالماتی فضا تشکیل دیتاہے۔اسلام حقائق پر نظر رکھتے ہوئے مذاہب میں اشتراکات کو بنائے اتحاد بناتا ہے۔ مفاہمت کا یہ بنیادی اصول ہے کہ اشتعال میں لائے بغیر مشترک مسلمات کی دعوت دی جائے۔ یہی حکمت عملی دعوت دین کے نفوذ اور پھیلاؤ کا سبب بنتی ہے اور اس سے مفاہمانہ مکالمے کا راستہ پیدا ہوتا ہے اور اسی میں غلبۂ دین کا مقصد پیش نظر رہا ہے۔عہد حاضر میں ہم نبوت کی کرنوں سے جس قدر مستفید ہوں گے، معاشرے کی ظلمتیں اتنی ہی کم ہوں گی۔ تعصب و جہالت سے لے کر غربت و ظلم تک جتنے مصائب و کمزوریاں ہیں ان کی اصلاح، تعلیمات نبوی ﷺ کے منہج سے ہی ممکن ہیں۔ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں اس لیے آپ ﷺ کے مشن کی عملی تکمیل اور فکری توضیح و توسیع، پوری امت کی ذمہ داری ہے۔

تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا وہ ہزاروں کا سہی اب جو، تاحشر کا، فردا ہے وہ تنہا تیرا

حوالہ جات

  1. البقرۃ111:2
  2. الشیبانی،ابو عبداللہ احمد بن حنبل،مسند احمد بن حنبل ،روایت عن ابن عمر، ج 2، ص50
  3. السجستانی،ابوداؤ سلیمان ابن اشعث،السنن لابی داؤود،مکتبہ رحمانیہ،لاہور،کتاب الادب، باب فی حسن الخلق، ج2،ص318
  4. ابومحمدعبداللہ بن عبدالرحمن بن الفضل،سنن الدارمی،داراحیاءالتراث العربی، بیروت ، رقم الحدیث، 3848
  5. القشیری، ابوالحسین مسلم بن حجاج، الجامع الصحیح للمسلم، کتاب الایمان، باب الامر بالایمان باللہ تعالٰی ،قدیمی کتب خانہ، کراچی، 1956ء،ج1،ص35
  6. المائدہ8:5
  7. بحوالہ بالا، السنن لابی داؤد، کتاب الحدود، باب یعفی عن الحدود مالم تبلغالسلطان، ج2، ص253
  8. البقرہ 2:2
  9. البقرۃ: 89:2
  10. حم السجدۃ 42:41
  11. البقرۃ 256:2
  12. آل عمران64:3
  13. مفتی،محمد شفیع، معارف القرآن، ادارۃ المعارف،کراچی،2009ءج2،ص87
  14. الانعام108:6
  15. بحوالہ بالا، معارف القرآن،ج3،ص421
  16. عثمانی،مولاناشبیر احمد، تفسیرعثمانی،دارالاشاعت،کراچی،2000ء،ج1،ص424
  17. الازہری پیر، محمدکرم شاہ، ضیاء القرآن ، ضیاء القرآن پبلیکیشنز ، لاہور، ج1،ص590
  18. المائدہ82:5
  19. الحج40:22
  20. النسفی،ابوالبرکات عبد اللہ بن احمد بن محمود، مدارک التنزیل و حقائق التاویل مکتبۃ نزار مصطفیٰ الباز، ج2،ص732
  21. بحوالہ بالا، معارف القرآن،ج6،ص271
  22. ایضا ، ص270
  23. البلاذری،احمد بن یحیٰ بن جابربن داؤد، فتوح البلدان، دار النشر،القاہرہ،1956ء،ص87
  24. محمدحمیداللہ،الوثائق السیاسیہ فی العہد النبوی، مطبعۃ الجنۃ التالیف والترجمۃ،القاھرۃ،1941ء،ص80-81
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...