Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

ڈاروِن تھیوری کے مفکرینِ برصغیر پر اثرات: تحقیقی و تنقیدی جائزہ |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Man is curious. Today he is stepping forward to explore the world and space, but still he is trying to know the answer to the question that how he was made? Qur’an the last holy book of Allah, which provides complete guidance in every walk of life, can give better answer to this question. Besides this many theories were presented by the scientists called evolution theories. One of these theories is “Theory of natural selection” presented by Charles Darwin in 1859 A.D. This theory got a lot of reputation. Qur’anic teachings say that the first human being Hazrat Adam (علیہ السلام) was created by Allah as a complete Man. But this theory states that all species of organisms arise and develop through the natural selection of small, inherited variations that increase the individual's ability to compete, survive, and reproduce (means there was no Adam on earth as the Father of humanity, which is contrary to Islam).Darwin theory, a non-Islamic theory about the creation of humanity has a great impact over the various thinkers of subcontinent. This research article attempts to answer the questions that what are the Qur’anic teachings about the creation of humanity on earth? And what are the different evolution theories and their effects on the various thinkers of subcontinent?

حضرتِ انسان روز اول سے متجسس واقع ہوا ہے اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مختلف امور سے متعلق اس کے تجسس میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ انسان کا یہ تجسس بڑھتے بڑھتے یہاں تک آ پہنچا کہ اس بات کا پتہ چلایا جائے کہ اُس کا اپنا وجود کس مقصد کی خاطر ہے؟ اسے کیوں بنایا گیا اور کیسے بنایا گیا؟ دوسری مخلوقات میں اس کی حیثیت کیا ہے؟ انسان ہمیشہ سے ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش میں مصروف پایا گیا ہے۔ انسان کا یہ تجسس صرف یہیں تک محدود نہ رہا بلکہ اشرف المخلوقات نے تخلیقِ انسانیت سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر تخلیق کائنات سے آگاہی کی کوشش شروع کر دی اور اس سب کا مقصد انسانیت کی پیدائش کے ابتدائی مرحلے سے آگاہی حاصل کرنا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو ان تمام سوالات کے تسلی بخش جوابات صرف اور صرف وہ ذات ہی دے سکتی ہے جو ان تمام اسرار و رموز سے آگاہ ہو اور وہ تو صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہی ہے ۔ آفاقی تعلیمات میں ان تمام سوالات کے جوابات بھی دیئے جا چکے ہیں تاکہ انسانیت کی پیدائش کا مقصد اور اس کی حقیقت سے مکمل طور پر آگاہی حاصل ہو جائے۔

 

تخلیقِ کائنات کے بارے میں اس وقت دنیا دو متفرق تصورات پر یقین رکھتی ہے ۔ ایک تصور یہ ہے کہ موجودہ کائنات عدم سے وجود میں لائی گئی اور جس طرح کائنات وجود میں لائی گئی اسی طرح ایک دن یہ کائنات ختم بھی ہو جانے والی ہے۔ جبکہ دوسرا تصوریہ ہے کہ کائنات قدیم اور لازوال ہے۔ یہ روزِ اول سے قائم ہے نہ تو اس نے جنم لیا ہے اور نہ ہی یہ ختم ہونے والی ہے بلکہ اس کا وجود ہمیشہ کیلئے ہے۔ ہر دونوں تصورات پر ایمان رکھنے والے اپنے نظریات کے حق میں کئی ایک دلائل رکھتے ہیں۔ تخلیقِ کائنات کا پہلا تصور اسلامی نظریہ برائے ارتقائے کائنات سے ہم آہنگ نظر آتا ہے۔ جس طرح تخلیقِ کائنات سے متعلق دو نظریات ہیں ۔ اسی طرح کرہ ارض پر پائی جانے والی زندگی کی ابتداء کیسے ہوئی ؟ اس سوال سے متعلق بھی کئی ایک آراء پیش کی گئیں۔ جن میں ابن مسکویہ کی تھیوری ، لامارک ازم، ڈارون ازم، نیو لامارک ازم، موٹیشن تھیوری آف ایوولوشن اور نیو ڈارون ازم شامل ہیں۔ ارتقاء سے متعلق سب سے پہلا نظریہ الفارابی1نے پیش کیا ، جس کی تشریح ابن مسکویہ 2نے کی ۔ اس نظریہ کے مطابق :

 

موجودات عالم میں زندگی کا اثر سب سے پہلے نباتات کی شکل میں ظاہر ہوا کیونکہ ان میں حرکت پائی جاتی ہے اور وہ غذا کے محتاج ہوتے ہیں اور ان ہی دو خصوصیات کی وجہ سے وہ جمادات سے ممتاز ہوجاتے ہیں۔یہ ابتدائی درجہ تو ان نباتات کا ہے جو بغیر تخم کے پیدا ہوجاتے ہیں اور ہر قسم کی زمین سے اگتے ہیں۔وہ تخم کے ذریعے اپنی نوع کو مخفوظ نہیں رکھتے اس لئے ان میں اور جمادات میں بہت کم فرق ہے۔ اس بالکل ابتدائی درجے کے بعدزندگی کے اثر میں ترقی ہوتی ہے اور اس قسم کے نباتات پیدا ہوتے ہیں جن میں شاخ و برگ پائے جاتے ہیں اور وہ تخم کے ذریعے اپنی نوع کو مخفوظ رکھتے ہیں۔ایسے درخت پیدا ہوتے ہیں جن میں تنا، پتا اور پھل پائے جاتے ہیں اور اسی پھل سے وہ اپنی نوع کو محفوظ رکھتے ہیں ۔ان درختوں میں درجہ بدرجہ اور ترقی ہوتی ہے وہ لگائے بھی جاسکتے ہیں اور قدرت ان کی نشونما کرتی ہے۔ نباتات کی ارتقاء کا انتہائی درجہ وہ ہے جس میں ایسے قسم کے درخت پیدا ہوتے ہیں جو بہت بڑے حساس اور مخصوص ماحول میں اگتے ہیں۔ ابن مسکویہ نے نباتات میں زندگی ثابت کی اور اور کہا کہ یہ زندگی ترقی پزیر ہے نباتات کے ارتقاء کی آخری منزل حیواناتی زندگی کا ابتدائی درجہ ہے۔ حیوانات کی ابتدائی منزل تک پہنچ کر قوت حس لمس پیدا ہو جاتی ہے۔ یعنی حرکت اور حس لمس یہ دو قوتیں حیوانات میں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ابتدائی ترین حیوانی زندگی میں دوسرے حواس سے حیوان محروم تھے۔ اور ان میں حرکت اور حس لمس ابتدائی شکل میں موجود تھی جیسے گھونگھے اور سیپ جو سمندر کے کنارے پائے جاتے ہیں اور چھونے اور حرکت کی حس بہت کم ہوتی ہے۔ اس کے بعد ابن مسکویہ اور آگے بڑھتا ہے اور حیوانی زندگی کی ابتدائی کڑیاں بیان کرتا ہے۔#

ابتدائی قسم کے حیوانوں میں حرکت اور حس لمس کی قوتیں بلکل معمولی حالت میں پائی جاتی ہیں۔
  1. اس کے بعد کی قسم میں حرکت اور حس لمس کی قوت زیادہ پائی جاتی ہے جیسے کیڑے مکوڑے۔
  1. وہ جاندار جن میں اضافی خواص پائے جاتے ہیں مثلا چھچھوندر۔
  1. اور پھر ترقی ہوتی ہے اور ان میں قوت باصرہ پیدا ہوتی ہے جیسے شہد کی مکھیاں۔

 

 

 

ان ارتقائی کڑیوں کو بیان کرتے ہوئے ابن مسکویہ نے یہ ثابت کیا کہ کس طرح درجہ بدرجہ حیوانات ارتقاء پا گئے۔ اس کے بعد وہ مزید تشریح کرتا ہے حیوانات کا ابتدائی درجہ اور اس کی مختلف منزلیں مثلاً:

#

وہ حیوانات جو غبی اور کم فہم ہوتے ہیں۔
  1. وہ حیوانات جو ذکی الحس اور تیز فہم ہوتے ہیں مثلا ہرن، نیل، گائے وغیرہ۔
  1. وہ حیوانات جو ذکی الحس اور تیز فہم ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ اور قوت بھی رکھتے ہیں یعنی ان میں کچھ قوتیں حکم قبول کرنے کی اور نہ کرنے کی بھی پیدا ہو جاتیں ہیں۔ مثلا گھوڑا، باز وغیرہ۔
  1. نسبتاً ذکی الحس اور تیز فہم ہونے کے ساتھ ساتھ ابتدائی درجہ میں ان میں نقل کرنےکا کچھ مادہ ہوتا ہے جیسے طوطا اور مینا وغیرہ ۔
  1. ذکی الحس تیز فہم اور جماعت بندی پر مائل اجتماعی طور پر رہتے ہیں۔ مثلا بندر اور بن مانس وغیرہ۔

 

 

 

حیوانات کے اس اعلی ترین درجے کی آخری منزل سے انسانیت کا ابتدائی درجہ شروع ہوتا ہے۔ اس درجے میں حیوان اور انسان کے مزاج بہت ملتے جلتے ہیں اور بہت کم فرق پایا جاتا ہے مثلا جنگلی قبائل، آدی باسی، اور دوردراز کے حبشی لوگ۔ 3

 

دوسرا نظریہ لا مارک ازم کہلاتا ہے، جو لامارک نے 1809ء میں پیش کیا۔ اس نظریہ کی تعریف یوں کی گئی ہے:

 

"If an organism changes during life in order to adapt to its environment, those changes are passed on to its offspring. He said that change is made by what the organisms want or need."4

 

یعنی انواع کی اپنے ماحول اور اپنی ضرورت اور کوشش کی وجہ سے ان کے اجسام میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں اور یہی تبدیلیاں اگلی نسلوں میں بدستور قائم رہتی ہیں۔ لا مارک کے نظریہ پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جاندار اجسام اپنے ماحول کی ضرورت کے مطابق اپنے اجسام میں تبدیلیاں لاتے ہیں اور ایک نسل کی تبدیلیاں اگلی نسل میں بدستور قائم رہتی ہیں اور نئی نسل اپنے مفاد میں مزید نئی تبدیلیوں کو ڈھالتی ہے، یوں اجسام میں تبدیلیوں کا یہ ارتقائی عمل جاری رہتا ہے اور ماحول سے مطابقت رکھنے والی عمدہ ترین نسل کی جانب سفر جاری ہے۔

 

اس طرح1901ء میںHugo Marie de Vriesنے تبدیلی کانظریہ (MUTATION THEORY) پیش کیا ۔جس کے مطابق :’’ ایک موجود میں اچانک نئی صفات پیدا ہو جاتی ہیں، جن کے ذریعے ایک موجود اپنی حیات کو باقی رکھ سکتا ہے اور جب اس اچانک تبدیلی کے بہت سے تحرکات موافقت میں جمع ہو جائیں تو پھر اس سے جانداروں کی نوع میں تبدیلی کا عمل شروع

 

ہو جاتا ہے‘‘ ۔5

 

اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ابن مسکویہ کی جانب سے پیش کیا جانے والے نظریئے کا ارتقاء سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا بلکہ یہ جانداروں کی درجہ بندی کا نظریہ کہلایا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں مختلف خواص کی بنیاد پر جانداروں کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ لامارک ازم اور موٹیشن تھیوری اسلئے نظریاتِ ارتقاء کہلائے جا سکتے ہیں کیونکہ ان میں ایک جاندار کو ہی کی ارتقاء کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ارتقاء کے حوالہ سے پیش کئے جانے والے تمام نظریات میں سے جتنا عروج 1859ء میں پیش کی جانے والی چارلس ڈارون 6کی تھیوری کو حاصل ہوا، اتنا کسی دیگر فلسفہ کو حاصل نہ ہو سکا۔ارتقائے انسانیت کا یہ فلسفہ ڈاروِن تھیوری یا ڈاروِن کا نظریہ ارتقائے انسانیت کہلاتا ہے۔اس کے مطابق : ’’حیاتی اجسام اپنی بقا کے لیے خود کو ماحول کے مطابق تبدیل کر لیتے ہیں۔تمام جاندار اپنی ہیت کو تبدیل کرتے رہتے ہیں اپنے اطراف کے ماحول میں زندہ رہنے کے لیے‘‘ ۔7

 

ڈارون کی انسانیت کی ابتداء کے بارے میں پیش کی جانے والی تھیوری کو ڈاروِن تھیوری برائے ارتقاء انواع ِ مختلفہ سے سمجھا جا سکتا ہے، جِسے ہارون یحیٰ یوں بیان کرتے ہیں:

 

’’ڈاروِن نے اس سارے عمل کو ’’ارتقاء بذریعہ فطری انتخاب ‘‘ کا نام دیا۔ اسے خیال گزرا کہ اس نے ’’جانداروں کی ابتداء ‘‘کا راز معلوم کر لیا ہے۔ اور یہ کہ ایک جاندار کی ابتدائے آفرینش کسی دوسرے جاندار سے ہوئی۔ اس نے ان خیالات کا اظہار 1859ء میں اپنی کتاب (The Origin of Species by means of Natural Selection) جانداروں کی ابتداء بذریعہ فطری انتخاب میں کیا تھا‘‘۔8

 

ڈارون نے اپنا دوسرا نظریہ ’’The Descent Of Man‘‘ میں پیش کیا، جس کے مطابق انسان اس زمین پر از سر نو آنے والی نئی مخلوق نہیں بلکہ یہ بندروں کے درمیان ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد وجود میں آیا ہے۔انسانیت کے اس ارتقائی نظریہ کو چارلس ڈاروِن نے نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس نظریہ کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان ابتداء میں آج کی موجودہ شکل وصورت پر پیدا نہیں ہوا ، بلکہ اس شکل و صورت تک پہنچنے کیلئے اس نے کئی ایک ارتقائی اشکال ڈھالی ہیں ، کسی زمانہ میں انسان بندر کی شکل و صورت پر تھا اور آج انسان اپنی مکمل ترقی یافتہ شکل میں ڈھل چکا ہے۔ انیسویں صدی میں پیش کئے جانے والے اس نظریہ کے حق اور مخالفت میں جہاں دنیا بھر سے کئی ایک آراء سامنے آئیں ،وہاں مفکرینِ برصغیر بھی اس نظریہ کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ حالانکہ ارتقائے انسانیت سے متعلق اسلامی تعلیمات انتہائی واضح ہیں اور ان تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ابتدا ء ان کے جد امجد حضرت آدمؑ سے کی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حضرت آدم ؑ کو ایک مکمل انسان پیدا کیا۔ تمام سامی مذاہب کی طرح ارتقائے کائنات و ابتدائے انسانیت سے متعلق مذہب اسلام میں بھی کافی حد تک راہنمائی فرمائی گئی ہے۔یہی نہیں بلکہ قرآن مجید تو انسانیت کی تخلیق کا مقصد بھی بیان فرماتا ہے:

 

وَمَا خَلَقۡتُ ٱلۡجِنَّ وَٱلۡإِنسَ إِلَّا لِيَعۡبُدُونِ۔9

 

ترجمہ: اور ہم نے انسانوں و جنات کو اپنی عبادت کیلئے پیدا فرمایا۔

 

جب انسان کو پیدا کرنے کے مقصد کا اظہار ضروری سمجھا گیا تو کیسے ممکن ہے کہ اس کی تخلیق کی ابتداء پر ہی بحث نہ کی گئی ہو۔ اگر قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے تو اس کی کئی آیات مبارکہ سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر انسان کو ازسر نو مبعوث فرمایا ، نہ کہ یہ کسی دوسرے جاندار کی ارتقائی شکل ہے۔ درج ذیل آیات مبارکہ اس اسلامی نظریہ کا دفاع کرتی نظر آتی ہے۔

 

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـۃٍ مِّنْ طِيْنٍ 10

 

ترجمہ: اور تحقیق کہ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔

 

یہ آیت مبارکہ اس بات پر دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کسی دوسرے جاندار سے پیدا نہیں فرمایا بلکہ انسان کو مٹی سے پیدا فرمایا۔ سورۃ غافر میں یہی بات ان الفاظ میں بیان فرمائی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

ھُوَالَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّــطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُوْنُوْا شُيُوْخًا۔وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّتَوَفّٰى مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوْٓا اَجَلًا مُّسَمًّى وَّلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ 11

 

ترجمہ : وہ وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر لوتھڑے سے پھر تمہیں بچے کی صورت میں پیدا کرتا ہے پھر (تمہاری نشو و نما کرتا ہے) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ پھر (تمہیں مزید زندگی دیتا ہے) تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچ پاؤ اور تم میں سے کوئی تو پہلے ہی مر جاتا ہے اور (بعض کو مہلت ملتی ہے) تاکہ تم اپنے مقررہ وقت کو پہنچ جاؤ اور تاکہ تم عقل سے کام لو۔

 

سورۃ ص میں یہ بیان انتہائی واضح الفاظ میں موجود ہے۔

 

اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَۃِ اِنِّىْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِيْنٍ12

 

ترجمہ: جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا:میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں ۔

 

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ 13

 

ترجمہ: اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح کے خشک گارے سے بنایا۔

 

ان تمام آیات مبارکہ سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ انسان کو کسی دوسرے جاندار سے پیدا نہیں فرمایا گیا اور نہ ہی انسان کی موجودہ صورت کسی ارتقائی مرحلہ کی بدولت وجود میں آئی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے بنایا اور اس کی شکل و صورت بھی خود ہی ڈھالی۔ اور اسے ’’احسن تقویم‘‘ پر پیدا فرمایا۔ ارتقائے انسانیت کے نظریہ سے متعلق اگر مفسرین ِ برصغیر کی آراء کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اکثریت مفسرین اس نظریہ پر ایمان رکھتے ہیں کہ انسانیت کی ابتداء حضرت آدم ؑ کے وجود سے ہوئی اور آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے ایک مکمل انسان ہی پیدا کیا۔ ڈاکٹر سید حسن بلگرامی آیتِ مبارکہ إِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّي جَاعِل فِي ٱلۡأَرۡضِ خَلِيفَة14کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

 

’’نائب ، قائمقام ، احکام کے اجراء اور دیگر تصرفات میں اصل کا نائب ہوتا ہے۔اللہ کی طرف سے اسے شانِ حکومت عطا ہوتی ہے اور باطنی قوتوں سے نوازا جاتا ہے۔وہ متصل ملائک، مشتمل بخلائق ہوتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تمام موجودات کا نمونہ اور عالمِ روحانی اور عالمِ جسمانی کا مجموعہ بنایا‘‘۔15

 

اسی آیتِ مبارکہ کے ذیل میں مولانا عبد الماجد دریابادی لکھتے ہیں:

 

’’تیسرے رکوع میں اصل پیام کا لب لباب سنا دیا گیا یعنی توحید ورسالت کی تبلیغ کر دی گئی۔ اب اس چوتھے رکوع میں اس تبلیغ کی تاریخ شروع ہوتی ہے یعنی یہ پیام ابتداءًنسلِ انسانی کے بانی و مورث حضرت آدمؑ کو دیا گیا اوران سے نسل بہ نسل منتقل ہوتا آیا ہے‘‘۔16

 

علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:

 

’’اسی طرح ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کے مورثِ اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کن نعمتوں سے نوازا۔حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ اور نائب بنایا‘‘۔17

 

مولانا محمد آصف قاسمی لکھتے ہیں:

 

’’ان آیتوں میں انسانی زندگی کے آغاز کا وہ پہلو بیان کیا گیا ہے۔ جس کے معلوم ہونے کا ا س کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ اس کائنات کا مالک خود ہی اس کی پوری حقیقت اور حیثیت بیان کر دے۔ اس کے علاوہ پیدائشِ آدم کو معلوم کرنے کے جو بھی طریقے اختیار کئے جائیں گے۔ اس کی حیثیت محض ایک خیال اور گمان سے زیادہ نہیں ہو گی‘‘۔18

 

درسِ قرآن میں اس کی تفسیر ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:

 

’’چناچہ حضرت آدمؑ جو تمام بنی نوع انسان کے جد امجد اور پہلے انسان ہیں۔ ان کے شرف و فضیلت کو یاد دلایا جاتا ہے کہ اللہ نے ان کو کس طرح اپنی قدرت سے پیدا کیا، ان کو کیسی علم کی دولت دی ان کو مسجود ِ ملائکہ بنایا اور ان کو اپنے نائب اور خلیفہ ہونے کی عزت بخشی اور تمام انسانوں کو انہی کی اولاد ہونے کا فخر عطا کیا‘‘۔19

 

اسی طرح دیگر جتنے بھی مفسرینِ برصغیر گزرے ہیں ارتقائے انسانیت سے متعلق ان کا بھی یہی نظریہ ہے۔ کہ انسانیت کی ابتداء حضرت آدمؑ سے ہوئی۔ آدم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ایک مکمل انسان ہی پیدا فرمایا ۔ حضرت آدمؑ نہ صرف پہلے انسان تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو شرف بخش کیلئے ان کے جد امجد کو نبوت دے کر زمین پر اپنا خلیفہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو پیدا فرمانے کے بعد ان سے قبل موجود مخلوق فرشتوں پر انکی برتری جتلائی ۔ حضرت آدمؑ کی پیدائش کے بعدحضرت حواؓ کی پیدائش فرمائی گئی

 

اور اس پہلے جوڑے کو ایک مکمل مشن دے کر روئے زمین پر بھیجا گیا تاکہ نسلِ انسانی کو بڑھایا جا سکے ۔

 

مفسرین کرام کی آراء کے ساتھ اگر برصغیر کی لغات کو دیکھا جائے تو وہاں بھی لفظ آدم سے یہی مراد لی جاتی ہے کہ دنیا پر آنے والا پہلا انسان یعنی حضرت آدمؑ ہی ہے ۔ چند ایک حوالہ درج ذیل ہیں:رابعہ اردو لغت جامع میں سعید اے شیخ لکھتے ہیں:

 

’’آدم سے مراد باوا آدم ہے جس سے دنیا میں انسانی نسل پھیلی‘‘۔20

 

فیروز اللغات میں لکھا ہے کہ آدم سے مرادہے: ’’ حضرت آدمؑ جو پہلے انسان تھے‘‘۔21

 

لفظ آدمی کا ماخذ بھی آدم ہی ہے ،بنی آدم اور آدمیت سے مراد بھی انسانیت ہی لیا جاتا ہے اور یہ لفظ برصغیر میں اتنا مستعمل ہے کہ حضرتِ انسان کیلئے اس کے مقابل کوئی دوسرا لفظ اتنی کثرت سے استعمال نہیں ہوتا۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہےکہ برصغیر کے عام مسلمانوں کا بھی ارتقائے انسانیت بارے وہی عقیدہ ہے جس پر امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ حضرت آدمؑ انسانیت کےبابائے اول ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے حضرت آدمؑ کو ایک مکمل انسان پیدا کیا اور اس زمین پر موجود تمام انسان انکی نسل سے ہیں۔ جبکہ اس کے بالمقابل ایک غیر اسلامی نظریہ ڈاروینی تھیوری ہے، جس پر مغربی اقوام کا تکیہ ہےاور اس کے مطابق انسان کو یک لخت پیدا نہیں کیا گیا بلکہ موجودہ انسان کا وجود مختلف قدیم ادوار کے ارتقائی مراحل کا نتیجہ ہے۔ انسان ازل سے یوں نہیں تھا جیسا کہ آج اس کی شکل و صورت ہے بلکہ ابتداء میں کچھ اور تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ماحول کی مناسبت سے انسان نے ارتقائی مراحل طے کئے۔ اپنے آپ کو ماحول کےمطابق ڈھالنے کی ارتقائی محنت نے جو ترقی کی۔آج کی شکل وصورت اس ارتقائی ترقی کا نتیجہ ہے۔

 

سر سید احمد خان جن کی مسلمانانِ برصغیر کیلئے خدمات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ، اسی مغربی ڈاروینی ارتقائی نظریہ سے متاثر ہیں اور پیدائش آدم ؑ سے انکار کرتے ہیں۔ سر سید احمد خان نے قرآنِ مجید کی تفسیر، تفسیرالقرآن کے نام سے لکھی۔ جس میں انہوں تمام معاملات کو سائنسی نقطہ نظر سے بیان کرنے کی کوشش کی۔دورانِ تفسیر انہیں جہاں بھی اسلامی تعلیمات اور سائنس میں مطابقت نظر نہ آئی تو انہوں قرآنی تعلیمات کو کھینچ تان کر سائنس کے تابع کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ سائنس کی طرف سے پیش کردہ کئی ایک نظریات کو موجودہ ترقی یافتہ دور میں شواہد کی بنیاد پر جھٹلایا جا چکا ہے۔ سر سید احمد خان انہی سائنسی خیالات کے ماتحت محسوسات پر ایمان رکھتے تھے اور غیر محسوس کے متعلق اسلامی تعلیمات کی توجیح کر کے اس سے یکسر انکار کرتے تھے۔ فرشتوں کے وجود سے انکار، جنات سے وحشی انسان مراد لینا اور جنات کے بطورِ مخلوق وجود سے انکار کرنا، شیطان کو انسان کے اندر کی قوت سے تعبیر کرنا اور اس کے کسی خارجی وجود سے انکار کرنا وغیرہ سائنس ہی کی بدولت تھا۔ کیونکہ سائنس ہر اس چیز کے وجود سے انکار کرتی ہے جس کی بنیاد مادہ پر نہ ہو اور مادہ کے متعلق بنیادی نظریہ ہی یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو وزن رکھے اور جگہ گھیرے وہ مادہ کہلاتی ہے۔اور عام مشاہدہ میں بھی ہر اس چیز کو محسوس کیا جا سکتا ہے جس کا وزن ہو اور وہ جگہ بھی گھیرتا ہو۔ چونکہ جنات، شیاطین اور فرشتے ایسی مخلوقات ہیں جن کا وجود نہ تو نظر آتا ہے اور نہ اس کے وزن سے متعلق بات کی جا سکتی ہے۔ اسلئے سائنس اپنی مادیت کی بنیاد پر ایسی ہر چیز سے انکار کرتی ہے، جن میں یہ تینوں بھی شامل ہیں۔ اسی بنیاد پر سر سید احمد خان نے بھی ان مخلوقات کے خارجی وجود سے انکار کیا۔ جیسا کہ وہ نیکی اور اچھی خصلت کو فرشتوں ، بدی اور بری خصلت کو شیاطین پر محمول کرتے ہیں۔

 

’’ان دونوں قوتوں کی بے انتہا ذریات ہیں، جو ہر ایک قسم کی نیکی و بدی میں ظاہر ہوتی ہیں، اور وہی انسان کے فرشتے اور انکی ذریات، اور وہی انسان کے شیطان اور اس کی ذریات ہیں‘‘۔22

 

اسی طرح کئی ایک دیگر اسلامی تعلیمات کی بھی سائنس کے ماتحت توجیہات پیش کیں جن پر گرفت کی جا سکتی ہے لیکن ارتقائے انسانیت سے متعلق مسلمہ اسلامی نظریات سے راہِ فرار اختیار کرنا اور مسلمہ نصوص کی غلط توجیہات کرنا ہی موجودہ بحث کا موضوع ہے۔ سر سید احمد خان یہ سمجھتے تھے کہ انسانیت کی ابتداء حضرت آدم ؑ کے وجود سے نہیں ہوئی بلکہ قرآنِ مجید میں بیان شدہ مضامین آدم میں بنی نوع انسان کو خطاب کیا جاتا ہے اس سے مراد وہ آدم نہیں جسے حضرت آدمؑ کہہ کر انسانیت کا جد امجد مراد لیا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

 

’’آدم کے لفظ سے وہ ذات خاص مراد نہیں ہے جس کو عوام الناس اور مسجد کے ملا باواآدم کہتے ہیں، بلکہ اس سے نوع انسانی مراد ہے‘‘۔23

 

دوسری جگہ انتہائی وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں کہ:

 

اور اس کا شجر ممنوعہ کے پاس جانا اور اس کا پھل کھانا، اسکی فطرت کی اس حالت کا بیان ہے جبکہ وہ اوامر و نواہی کا مکلف ہوا، اور ہبوط سے اس کی فطرت کی اس حالت کا تبدیل ہونا مراد ہے جبکہ وہ غیر مکلف سے مکلف ہوا۔ہبوط کا لفظ صر ف انتقال مکان پر مختص نہیں ہے۔اس لفظ کا ذکر کہ خدا نے کس چیز سے آدم کو یا تمام زمین پر چلنے والے جانداروں کو پیدا کیا ۔متعدد لفظوں سے قرآن میں آیا ہے۔ایک جگہ فرمایا ہے’’انی خالق بشرا من طین‘‘، ایک جگہ فرمایا ہے ’’خلقہ من تراب‘‘، ایک جگہ فرمایا ہے’’من صلصال من حمئ مسنون‘‘، ایک جگہ فرمایا ہے’’ھوالذی خلق من المآء بشرا‘‘، ایک جگہ فرمایا ہے’’خلق کل دابۃمن المآء‘‘، ایک جگہ فرمایا ہے’’وجعلنا من المآء کل شیئ حی‘‘۔ ’’تراب‘‘کے معنی مٹی کے ہیں ،’’طین‘‘ کے معنی گارے کے ہیں،’’صلصال‘‘ کے معنی ریتلے گارے کے ہیں اور ’’حمئ مسنون‘‘ اس بدبو دارکیچڑ کو کہتے ہیں جو پانی کے نیچے بیٹھی ہوئی ہوتی ہے۔’’الماء‘‘ کا لفظ تین جگہ آیا ہے،’’خلق کل دابۃ من الماء‘‘ اور ’’جعلنا من الماء کل شیئ حی‘‘ ان دونوں مقام میں جو لفظ ’’الماء‘‘ہے اس سے تو نطفہ مراد ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ دابۃ کے پہلے جو لفظ ’’کل‘‘ہے اس میں تمام دابہ جو زمین پر چلتے ہیں داخل ہیں۔ چناچہ خود قرآن میں اس کی تفصیل بیان فرمائی ہےکہ’’منھم من یمشی علیٰ بطنہٖ ومنھم من یمشی علیٰ رجلین ومنھم من یمشی علیٰ اربع‘‘اور بہت سے دابہ ایسے ہیں جو نطفے سے پیدا نہیں ہوتے اور ’’من المآء بشرا‘‘میں جو لفظ’’ماء‘‘ہے اس سے بھی نطفہ مراد نہیں ہو سکتا۔اس لئے

 

یہاں بیان انسان کی اوّل خلقت کا ہے اور خلقت اوّل انسان کی نطفہ سے ہو نہیں سکتی، بلکہ اس سے دریا یا سمندر کا پانی مراد ہے۔24

 

سر سید اسی بحث کو اپنے مقصد کی بات تک پہنچانے کے لئے کافی تاویلیں کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:

 

’’اور ترکیب کیمیاوی یہ ہے کہ دو چیزیں آپس میں اس طرح پر ملیں کہ از خود جدا نہ ہو سکیں،بلکہ وہ دونوں مل کر ایک تیسری چیز بن جاوے،پس 'تراب' ،'طین'، 'صلصال'،'حمئ مسنون' اور'ماء'کی ترکیب کیمیاوی سے جو چیز پیدا ہوتی ہے،اس سے انسان پیدا ہوتا ہے۔وہ چیز غالبا وہ ہے جو سطح آب پر جمع ہو جاتی ہے، اور نہ وہ مٹی ہوتی ہے نہ ریت نہ گارا نہ کیچڑ بلکہ ان سب کی ترکیب کیمیاوی سےایک اور ہی چیز بن جاتی ہے، اور معلوم ہوتا ہے کہ اسی سے تمام جاندار، انسان و حیوان مخلوق ہوئی ہیں۔ اور یہی بات قرآن سے پائی جاتی ہے‘‘ ۔ 25

 

اگر آخری جملہ (اسی سے تمام جاندار، انسان و حیوان مخلوق ہوئی ہیں۔ اور یہی بات قرآن سے پائی جاتی ہے)پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سر سید احمد خان تمام مخلوقات کی پیدائش کو ایک تسلسل ہی مانتے ہیں جو کہ ڈاروینی ارتقائی نظریہ کی بنیاد ہے۔ایک مقام پر لکھتے ہیں:

 

’’اس قصہ میں چار فریق بیان ہوئے ہیں، ایک خدا، دوسرے فرشتے(یعنی قویٰ ملکوتی) تیسرے ابلیس شیطان(یعنی قویٰ بہیمی) چوتھے آدم(یعنی انسان جو مجموعہ ان قویٰ کا ہے اور جس میں عورت ومرد دونوں شامل ہیں) ‘‘ ۔ 26

 

یوں وجود آدمؑ سے انکار اور انسان کی پیدائش کو تمام جانداروں کی پیدائش کےساتھ ایک طریق سے ماننا نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ یہ تقدس انسانی کو بھی مجروح کرنے کی ایک کوشش ہے۔ کیونکہ اس سے یہ لازم ماننا پڑتا ہے کہ انسان اول ایک بوزنہ تھا اور پھر بعد کے موسمی حالات اور دنیا کی مشکلات کے مقابلہ میں اپنے اندر بہتر صلاحتیں پیدا کرنے کی کوشش میں آج کے مقام تک پہنچا، سائنسی نقطہ نظر میں ایسی صورتِ حال کو Modificationsکے نام سے جانا جاتا ہے ۔ سر سید نےاپنی کتاب ’’خلق الانسان‘‘ میں بھی چارلس ڈارون کے ارتقائی نظریہ کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔سر سید احمد خان کی طرح علامہ عنایت اللہ مشرقی صاحب بھی ڈاروینی ارتقائی نظریہ پر یقین رکھتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ یہ نظریہ قرآن مجید کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ ان کے مطابق قرآن مجید نے جن سوالات کا ذکر کیا ہے وہ کسی ایک عظیم شخصیت حضرت آدمؑ سے نہیں کئے گئے۔بلکہ وہ بنی نوع انسان سے کئے گئے۔ وہ لکھتے ہیں:

 

’’اس آیت سے صاف یقین ہو جاتا ہے کہ آدم کا لفظ نسل انسانی کے لئے استعمال کیا گیا اور ملائی تخیل کہ یہ سوال و جواب حضرت آدم سے ہوئے غلط ہے(اس کی واضح دلیل لفظ ثم سے ظاہر ہے،یعنی پہلے انسان کو پیدا کیا،پھر موجودہ صورت بنائی،پھر جب وہ نسل روئے زمین پر پھیل گئی تو ’’فرشتوں ‘‘ کو کہا کہ اس انسان کے آگے سجدہ کرو) اس آیت سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ موجودہ انسان کے آباؤ و اجداد کی صورتیں اور تھیں اور موجودہ صورت اور ہے ‘‘ ۔27

 

علامہ مشرقی صاحب ارتقائے انسانیت پر مزید لکھتے ہیں کہ:

 

’’ انسان بڑی مشکل سے اپنی پیدائش کے اس مرحلے اور احسنِ تقویم پر پہنچا۔ دوسرے حیوانات آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے کروڑہا سالوں میں انسانی پیدائش کے ابتدائی مرحلوں تک پہنچے‘‘ ۔28

 

تعلیمات اسلامیہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سب سے پہلے حضرت آدمؑ کو پیدا فرمایا اور پھر حضرت آدمؑ سے نسل انسانی کو وجود بخشا ۔ اس لئے حضرت آدمؑ کو انسانیت کا باپ تسلیم کیا جاتا ہے اور یہ عقیدہ مسلّمات میں سے ہے۔ لیکن اس عقیدہ کے متوازی ڈاروینی ارتقائی نظریہ کو مغرب نے پروان چڑھایا۔ اس نظریہ کے مطابق انسان یکایک نہیں بن گیا۔بلکہ اس کی موجودہ شکل و صورت مختلف ارتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد وجود میں آئی۔

 

برصغیر کے ایک اور مفسر جناب غلام احمد پرویز صاحب بھی پیدائش آدمؑ کے مسلمہ اسلامی عقیدہ کے برخلاف اسی ڈاروینی ارتقائی نظریہ سے متاثر ہیں۔ پرویز صاحب اپنی کتاب ’’ابلیس وآدم‘‘ میں تخلیق انسانی کو ارتقائی نظریہ سے ثابت کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ اسی نظریہ کے متعلق انکی دوسری کتب سے بھی حوالہ جات ملتے ہیں۔مثلاً اپنی ایک کتاب میں وہ لکھتے ہیں:

 

نوعِ انسانی ، سطح ارض پر زندگی کے سلسلہ ارتقاء کی آخری کڑی ہے۔ جس کا ملخص یہ ہے کہ خدائے خالقِ کائنات کی اسکیم کے مطابق غیر ذی حیات مادہ (IN-ORGANIC MATTER) اور پانی کے امتزاج (یعنی قرآن کے الفاظ میں، طین لازب) سے زندگی کا اوّلین جرثومہ (LIFE-CELL) ظہور میں آیا ، جو جوشِ نمو سے دو حصوں میں بٹ گیا۔ اس کا یک حصہ نر کی خصوصیات کا حامل تھا اور دوسرا مادہ کی۔ اس سے زندگی آگے بڑھنی شروع ہوئی اور جرثومات سے کیڑوں مکوڑوں کی شکل میں سامنے آئی۔ وہاں سے ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی ، آبی حیات اور پھر خشکی کے جانداروں کی صورت میں جلوہ پیرا ہوئی۔ اس سے آگے حیوانات کا سلسلہ شروع ہوا اور وہ اپنے ارتقائی مراحل طے کرتا ہوا ، پیکرِ انسانی میں نمودار ہو گیا۔29

 

دوسری جگہ ارتقائی نظریہ کے پیش نظر لکھتے ہیں:

 

’’خلیفہ کے معنی کسی کے پیچھے آنےوالا(Successor) ’’جانشین‘‘کے ہیں۔زمین میں آدمی سےپہلےجونوع آبادتھی،آدمی اس نوع کا جانشین ہے،یعنی اسکی جگہ اب آبادہے۔یہ ہےمفہوم خلیفہ فی الارض کا،یعنی زمین میں انواع سابقہ کا جانشین،نہ کہ اللہ کانائب۔اسی آدم(نوعِ انسانی)کو اللہ نےعلم اسمائےفطرت دیاتھاجو اس سےپہلی آبادی کوحاصل نہیں تھا‘‘ ۔30

 

اگر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان افکار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے۔ ابتدائے انسانیت کے بارے میں اسلامی تعلیمات مکمل، واضح اور غیر مبہم ہیں۔ قرآنِ مجید جہاں بھی حضرت آدم ؑ کا تذکرہ آیا ہے اس سے مراد وہی حضرت آدم ؑ ہی ہیں ، جنہیں انسانیت کا جد امجد ہونے کا شرف حاصل ہے اور جن کے دم قدم سے اس روئے ارض کو شرف بخشا گیا۔ اسلامی تعلیمات میں میں انسان کو بڑا اعزاز و اکرام حاصل ہے۔ اس کے خوبصورت پیدا ہونے کی قسم اٹھائی گئی ہے31۔ اور اسے زمین پر خلیفہ بنا کر کرہ ارض کو شرف بخشا گیا۔ قرآن مجید میں جہاں بھی انسانیت کو خطاب کیا گیا تو اس کیلئے اکثر یٰایھاالناس، یٰبنی اٰدم وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔اگر احسن تقویم اور انی جاعل فی الارض خلیفہ کے مضامین پر ہی غور کیا جائے تو ابتدا میں انسان کے بوزنہ ہونے یا آج کی موجودہ شکل و صورت سے گری ہوئی کسی دوسری شکل میں ہونے کی ہی نفی ہو جاتی ہے۔ انسان کو ابتداء میں بوزنہ ماننے کے نظریات قرآنی تعلیمات کے یکسر مخالف اور متضاد ہیں۔

 

نتائج:

اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں و دیگر سامی مذاہب کے پیروکاران کی طرح برصغیر کے مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ کرہ ارض پر بھیجا جانے والا پہلا انسان حضرت آدمؑ ہی ہے اور باقی تمام انسانیت اس کی اولاد ہے۔ نہ تو انسان ابتداء میں بوزنہ یا کسی اور شکل پر تھا اور نہ ہی اسے کسی دوسرے جاندار کے بطن سے جنم دیا گیا، بلکہ انسان کو ابتداء ہی سے احسن تقویم بنایا گیا اور اسے اللہ پاک نے اس دنیا پر بطور اپنے خلیفہ کے بھیج کر عزت بخشی جبکہ سر سید احمد خان اور ان کےچند ایک متبعین کی ارتقائے انسانیت بارے مغربی تعلیمات سے اثر لینے کی اسلامی تعلیمات میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کیونکہ سائنسی نظریات انسانی مشاہدات و تجربات کی بنیاد پر ہی قائم کئے جاتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ لیکن آفاقی تعلیمات نہ تو تبدیل ہوتی ہیں اور نہ ہی ان میں کسی انسانی مشاہدے یا تجربے کا عمل دخل شامل ہوتا ہے بلکہ یہ تعلیمات اس ذریعہ سے آتی ہیں جو اس دنیا کی حقیقت سے مکمل طور پر آگاہ ہے اور اس دنیا کی پیدائش کے مقصد کو بھی بخوبی جانتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ڈارون تھیوری پر یقین کر لیا جائے تو اس کے مطابق انسان قدیم (اول) ایک بوزنہ تھا جو کہ احسن تقویم کے سراسر خلاف ہے۔ اس لئے بھی یہ تھیوری قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے۔اس آرٹیکل سے یہ نتیجہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ سرسید احمد خان یا دوسرے تجدد پسند مفکرین ِ برصغیر نے ڈارون تھیوری سے جو اثرات لئے ہیں ، ان کو بھی وہ پزیرائی حاصل نہ ہو سکی جو اکثر طور پر کسی خاص فرقہ یا مسلک کے بانی کی تعلیمات کو حاصل ہوتی ہے۔ اسلئے کہ چند ایک مفکرین کی آراء کے علاوہ دیگر کثیرمفکرین میں سے کسی نے نہ تو کبھی تدریسی طور پر ان کا ذکر کیا ہے اور نہ تبلیغی یا تصنیفی طور پر۔

 

سفارشات:

موضوعِ زیر بحث کے حوالہ سے درج ذیل سفارشات پیش کی جاتی ہیں۔

 

دینی جامعات و مدارس کے علمائے کرام کو چاہیئے کہ تجدد پسندیت کی طرف مائل مفکرین برصغیر کی کتب کا مطالعہ کر کے اسلامی روح سے متصادم ان کے نظریات کو منظر عام پر لایا جائے اور مدارس میں جس طرز پر دورہ ہائے صرف و نحو، تفسیر و مکالمہ وغیرہ کرائے جاتے ہیں، اسی طرح ان مفکرین کےایسے نظریات کے رد میں بھی دورہ جات کرائے جائیں۔ تاکہ نسل نو کو حقیقی اسلامی تعلیمات کی طرف راہنمائی مہیا کی جا سکے۔ اس کے علاوہ مدارس کے طلباء کو ان موضوعات کی طرف راغب کیا جائے اور موجودہ دور میں سوشل میڈیا پر چلنے والے ان نظریات کے رد اور حقیقی اسلامی روح کی آگاہی کی خاطر اپنے مطالعہ میں وسعت پیدا کر کے معاشرے کی راہنمائی میں اپنا کردار ادا کریں۔

 

یونیورسٹیز کے پروفیسرز اور سکالرز حضرات کو چاہیئے کہ ایم اے،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالات کیلئے ایسے ہی موضوعات کا انتخاب کیا جائے ۔ تاکہ اسلامی آفاقی تعلیمات سے متصادم مغربی لٹریچر کے اثر کو زائل کرنے میں مدد مل سکے۔

 

جامعات کےمہتممین سے یہ سفارش کی جاتی ہے کہ ایسے عناوین پر سیمینارز کا انعقاد کرایا جائے تاکہ ان فکری اثرات کے بڑھتے ہوئے رجحان کے روکنے کے حوالے سے رائے عامہ کو ہموار کیا جا سکے۔

 

حوالہ جات
1بونصرفارابی کا پورا نام ’’محمد بن ترخان ابو نصر ‘‘ہے۔ یہ ترکستان کے مقام ’’فاراب ‘‘ میں 872ءمیں پیدا ہوااور 950ء میں دمشق میں وفات پائی،تقریباً50سال آپ نے حصولِ علم میں صرف کئے۔اس دوران اُس نے عیسائی طبیب ’’یو حنا بن حیلان ‘‘ سے بھی استفادہ کیا۔اس کے بعد تحقیق و تدریس کی طرف متوجہ ہو کر ’’سیف الدولہ ہمدانی ‘‘کے دربار سے وابستہ ہو گیا ۔ ارسطو کی اکثر کتابوں کی اس نے شرحیں لکھی ہیں ۔ اسی وجہ سے اسے ’’معلّم ثانی ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ان شرحوں میں شرح ’’الیساغوجی ‘‘ اور بطلیموس کی ’’ المجسطی ‘‘ بہت مشہور ہیں ۔ فارابی نہ صرف حکیم اور فلسفی تھا بلکہ سائنس ،نجوم اور موسیقی کے علوم پر بھی اسے دسترس تھی۔اس کی دیگر تصانیف میں الموسیقی الکبیرہ ،معافی العقل ،آرا ء اہل المدینۃ الفاضلہ اور السیرۃ الفاضلہ معروف ہیں۔اس کی تصانیف کی تعداد سیکڑوں تک پہنچتی ہیں (انصاری ، ڈاکٹر ابوطالب، اجالے ماضی کے، تحریم پرنٹرس ، 105 تھانہ روڈ ، بھیونڈی، ستمبر 2006ء،ص54)

 

2احمد بن علی مسکویہ مشہورمورخ، ماہر نفسیات ،سماجیات ،نباتات اور کیمیا دان تھے۔ ان کی پیدائش ’’رے ‘‘ میں 325 ھ میں ہوئی ، حصول تعلیم کے بعد بادشاہ عضدالدولہ کے دربار سے وابستہ رہے۔ یہیں رہ کر علمی تحقیقات کا سلسلہ جاری رکھا، اس کے علاوہ درس و تدریس کی محفلیں بھی سجائیں۔ ان کا خاص مضمون کیمیا تھا جس پر انہوں نے کافی محنت کی اور جابر بن حیا ن سے بھی استفادہ کیا ۔ ان کا انتقال 99 برس کی عمر میں ہوا۔ مشہور تصانیف :تجارب الامم،تہذیب الاخلاق اور جاوداں خرد ہیں۔ (انصاری ، ڈاکٹر ابوطالب ، اجالے ماضی کے، تحریم پرنٹرس ، ۱۰۵ تھانہ روڈ، بھیونڈی، ستمبر 2006ء،ص49)

 

3https://fatimahina.wordpress.com/2016/07/13ابن-مسکویہ-اور-نظریہ-ارتقاء/

 

 

 

6Charles Robert Darwin was born on 12 February 1809 in Shrewsbury, an ancient market town near the welsh border in the country of Shropshire, the most westerly country in the West Midlands… Darwin was an extra ordinary man and a great scientist. He was the author of the best–known theory in biology... Charles Darwin died on 19 April 1882. He was 74. (Keith A. Francis, Charles Darwin and the origin of species, Greenwood Press, 88 Post West, Westport, CT 06881, 2007, p# ­15-38)

 

 

8یحیٰ ، ہارون،نظریہ ارتقاء ایک فریب، ترجمہ ڈاکٹر تصدق حسین راجا، نظر ثانی سعود عثمانی، اسلامک ریسرچ سنٹر ، لاہور، ادارہ اسلامیات ، 2002ء، ص 22

 

9 الذاریات: 26

 

10المؤمنون: 12

 

11الغافر: 67

 

12ص: 71

 

13الرحمٰن: 14

 

14البقرہ30:2

 

15بلگرامی، سید حسن، ڈاکٹر، فیوض القرآن، فیروز سنز(پرائیویٹ) لمیٹڈ، لاہور، راولپنڈی، کراچی، ج1، حاشیہ ص 16

 

16دریابادی، عبدالماجد، مولانا، تفسیر ماجدی، پاک کمپنی اردو بازار لاہور، ص 18

 

17سعیدی، غلام رسول ، علامہ، تبیان القرآن، فرید بک سٹال، اردو بازار ،لاہور، الطبع التاسع جون 2009ء، ج1، ص 332

 

18قاسمی، محمد آسف، مولانا،تفسیر بصیرتِ قرآن، مکتبہ بصیرتِ قرآن، نارتھ ناظم آباد، کراچی، ج1، ص 64

 

19درسِ قرآن بمع تسہیل شدہ ترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی پارہ 1 تا 5، ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ، چوک فوارہ ملتان ، پاکستان، ص 41

 

20شیخ، سعید اے ، رابعہ اردو لغت جامع، اسلامک بک سروس، دریا گنج دہلی، 2007ء، ص 17

 

21فیروزالدین، مولوی، الحاج،فیروز اللغات، فیروز سنز لمیٹڈ، لاہور، راوالپنڈی، کراچی، ص13

 

22تفسیرالقرآن مع اصول تفسیر،ص124

 

23ایضاً، ص 117

 

24ایضاً،ص 128

 

25ایضاً،ص 130

 

26ایضاً ، ص 132

 

27حدیث القرآن،ص14(یہ کتاب انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی گئی ہے۔ پبلیشر وغیرہ کی کوئی معلومات درج نہیں ہیں۔ سر ورق پر اسمِ کتاب کے عین نیچے 1370ھ درج ہے اور کتاب کے صفحہ نمبر 7 کے آخر میں یہ عبارت لکھی ہوئی ہے۔حدیث القرآن کی تصنیف اول تا آخر قید خانہ میں ہوئی۔30 مئی 1951ء کو اسے شروع کیا گیا اور دورانِ رمضان ہی 19 جون 1951ء (یعنی کل 20 دنوں میں ) اس کا اکثر حصہ ختم ہو چکا تھا۔

 

28ایضاً،ص15

 

29پرویز، غلام احمد، علامہ، عالمگیر افسانے،ادارہ طلوع اسلام ،گلبرگ2، لاہور، ص 6

 

30ایضاً،اسباب زوال امت، طلوع اسلام ٹرسٹ،گلبرگ2، لاہور، ص 21

 

31لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم (التین: 5) البتہ تحقیق ہم نے انسان کو خوبصورت پیدا کیا۔

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...