Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

ڈیرہ غازی خان کی مذہبی و معاشرتی زندگی میں صوفیا کرام کی تعلیمات کے اثرات |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060029185_1270

Pages

251-267

DOI

10.51411/rahat.2.2.2018.45

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/45/342

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/45

Subjects

Islam Kindness Sufism Dera Ghazi khan Islam Kindness Sufism Dera Ghazi khan

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

Islam is the religion of peace and love for the humanity. It always ordered to his followers to treat other with kind and tolerance. The Holy prophet always proved himself the prophet of mercy as the Holy Quran Said, but we sent you as a mercy to the worlds. Islam spread through politeness. In Subcontinent the advent of Islam is a great achievement of the noble saints and sufis. D۔G Khan which was a purely Hindu area in the past and the several sufis came to this part of Punjab in the initial stage of Islam. They played glorious role in the advent of Islam in the region. Sufism is a deter-mine effort towards unity. His main purpose is to bring humanity close with one another, separated as it is into so many different units, closer together in the deeper understanding of life. The main task is to bring about brotherhood among races, nations and faiths and to respect one another's faith, scripture and teacher. Sufi is to confer Sympathy on these lives, to impart Love, Compassion and Kindhearted-ness on all creations .The Sufi message is the resonance of the same Divine message which has always come and will always come to inform humanity. This research paper highlights the services of sufis who influenced on socio religious life of the people of D۔G Khan.

تعارف

اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی فلاح، رہنمائی اور ہدایت کیلئے انبیاء اور رسل کا ایک طویل سلسلہ جاری رکھا اور کم و پیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور رسل اس دنیا میں لوگوں کی ہدایت کیلئے تشریف لائے۔ظہور اسلام کے ساتھ سر زمین مکہ پر اللہ پاک نے آخری رسول حضرت محمدﷺ کو مبعوث فرمایا اور ساتھ ہی سلسلہائے نبوت اختتام پذیر ہوا۔مگر رشدو ہدایت کی ذمہ داری اس امت کے کندھوں پر ڈال دی گئی اور واضح حکم دیا گیا کہ اللہ تعالی کے پیغام کو پہنچانا ہر اس شخص پر لازم ہے جس تک حکم پہنچا ہو۔ بلغوا عنی ولو آیۃ اور تم تک ایک بھی آیت پہنچی ہو تو اس کو آگے پہنچاؤ۔ اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد ہوا جس کا قرآن میں حکم یوں ہوا: اَلیومَ اَکملتُ لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا1۔آج کے دن تمہارے لئے اپنا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تم سب کیلئے دین اسلام کو پسند فرمایا۔اسی طرح ایک اور جگہ حکم ہوا ۔ کنتم خیرا امۃ للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر2: تم بہترین امت ہو اور تمہارے اوپر لازم ہے کہ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔

 

برصغیر پاک وہند میں اشاعت اسلام کا سہرا بزرگان دین کے سر رہا ہے۔شمالی ہندوستان خصوصاً پنجاب کا علاقہ ان صوفیا کرا م کا مرکز رہا۔ بزرگان دین کی مساعی جمیلہ کے طفیل اس خطے میں نہ صرف اسلام کی شمع روشن ہوئی بلکہ اس علاقے کے لوگوں کی معاشرتی اور اخلاقی تربیت کی تکمیل بھی انہیں بزرگان کے ذریعے ممکن ہوئی ۔ان بزرگان نے اس خطے میں نہ صرف اسلام کی تبلیغ میں کلید ی کردار ادا کیا بلکہ ان کے حسن سلوک اور اسلام کی اعلیٰ اخلاقی قدروں کے باعث یہاں کے مقامی معاشرے میں ان کی بات نہایت ادب اور توجہ کے ساتھ سنی گئی۔ ان صوفیا ء کی مساعی جمیلہ کی بدولت اس خطے میں نہ صرف اسلام کی شمع روشن ہوئی بلکہ ہزاروں افراد مشرف با اسلام ہوئے۔ان صوفیاء کی طرز زندگی اور اخلاق و اوصاف نے لوگوں کی کیا پلٹ دی۔ان صوفیائے کرام میں سید سلطان احمد المعروف پیر عادل، سید احمد سلطان المعروف سخی سرور، خواجہ محمد سلیمان تونسوی المعروف پیر پٹھان، خواجہ غلام فرید آف کوٹ مٹھن، سید صدرالدین مشہدی اور پیر ملا قائد شاہ کے نام نمایاں ہیں۔ ان صوفیا ء نے اپنے اخلاق اور کردار سے دلوں کو تسخیر کیا اور اسلام کی آبیاری میں کلیدی کردار ادا کیا3۔ یہ اکابر صوفیا اپنے زہد اور تقویٰ، اعمال صالحہ اور تبلیغی کاموں کی وجہ سے بے حد ممتاز ہیں ان کی مخلصانہ کوششوں کی بدولت ڈیرہ غازیخان کے معاشرے سے ہندوں کا فکری جمود نہ صرف ٹوٹ گیا بلکہ بیشمار جاہلانہ رسومات، ضعیف الاعتقادی، اوہام پرستی، ذات پات کا نظام، اور کفر و شرک کی جو گھٹائیں صدیوں سے یہاں پھیلی و چھائی ہوئی تھیں وہ چھٹ گئیں۔شرف انسانیت اور تعظیم تکریم کا آفتاب طلوع ہوا ۔توحید کا علم بلند ہوا اور یہ وجہ ہے کہ ان کی طرف سے امن و آشتی اور مساوات کی تلقین کر کے اسلام کا حقیقی عکس معاشرے میں پھیلایا جس میں انسانیت کی تکریم اولین ترجیح تھی۔انہوں نے بغیر کسی رنگ ونسل اور عقیدے کے امتیاز کے رواداری، اخوت، معاشرتی انصاف، حسن سلوک کا درس دیا۔ اسی لیے آج تک ان صوفیا ئے کرام کی درگاہیں ہر خاص و عام اور ہر مذہب و ملت کے ماننے والوں کیلئے مرجع عام ہیں بقول اقبالؒ؛ نگاہ ولی میں جو تاثیر دیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی4۔اگر ہم برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کو دیکھتے ہیں تودوسرے علاقوں کی طرح سرزمین ڈیرہ غازیخان میں صوفیائے کرام کی ایک کثیر تعداد آئی اور تبلیغ اسلام کی راہ ہموار کی۔ اس مقالہ میں کچھ اہم بزرگان اور انکی خدمات کا جائزہ حسب ذیل ہے۔ 

 

سید سلطان احمد پیرعادِل:

ڈیرہ غازیخان شہر سے تقریباً نو کلومیٹر کے فاصلے پر شمال میں ایک نہایت اہم اور قدیمی بزرگ کا مزار ہے ۔ یہ بزرگ پیر عادل کے نام سے مشہور ہے ۔ بزرگ کا اصلی نام سید سلطان احمد ہے۔5 اس بزرگ کی آمد اس علاقے میں غزنوی دور میں ہوئی اور یہ کہا جاتا ہے کہ آپ بغداد سے 1040ءمیں تشریف لائے6 اور آکر اس علاقے میں اسلام کی شمع کو روشن کیا۔ انکی تبلیغی خدمات سے متعلق مشہور ہے کے وہ داتا صاحب کے ہمعصر تھے اور یہاں انہوں نے جہاد بھی کیا ۔ان کے بارے کہا جاتاہے کہ ان کا ایک بیٹا سید علی تھا اس نے ایک چرواہے کو بے گناہ قتل کردیا۔ اس کے قتل پرمقتول کی والدہ آپ کے پاس فریادی ہوئی اور اپنے بیٹے کے قصاص کا مطالبہ کیا تو سید سلطان احمد نے اپنے بیٹے کو قصاص میں چرواہے کی ماں کے سپرد کردیا۔جس کو بڑھیا کے وارثان نے قتل کردیا، اس واقعہ سے وہ پیر عاد ل مشہور ہوئے ۔ ان کے اس مثالی عدل وانصاف سے لوگ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور زیادہ تر معتقد ہوئے اور خطے میں اسلام تیزی سے پھیلا۔ اپنے بیٹے کی وفات کے بعد وہ چھبس بر س زندہ رہے اور465ھ/1072 میں وفات پائی ۔ 7

 

عوام میں مشہور ہے کہ انہوں نے کفار سے زبر دست جنگ کی اور ان کے سپہ سالار کی خانقاہ قصبہ لاڈن کے قریب جھنڈاپیر کے نام سے موسوم ہے کیونکہ لشکر جھنڈا ان کے ہاتھوں میں تھا۔اس کامطلب ہے کہ انہوں نے قرامطہ کے خلاف جنگ میں عملی حصہ لیا۔اس دور میں ملتان کاعلاقہ قرامطہ کے قبضے میں تھااس کامطلب ہے کہ انہوں نے قرامطہ کے خلاف جنگ میں عملی حصہ لیااس دور میں ملتان کاعلاقہ قرامطہ کاکے قبضہ میں تھا۔محمد غور ی نے 571ھ/1175میں ملتان پر قبضہ کیااور قرامطہ کو شکست دی ۔8

 

آ پ جب اس خطے میں آئے تو ایک جگہ جھنڈا لگا کر بیٹھ گئے اور تبلیغ شروع کر دی، اس جگہ کی مٹی کوجانوروں کی بیماری میں باعث شفا سمجھا جاتا ہے۔ جانوروں میں جب منہ کھڑکی بیماری پھیلتی ہے تو مقامی لوگ اپنے مویشی جھنڈا پیر کے قبرستان میں لے جاتے ہیں ۔ اس قبرستان اور ملحقہ کھیتوں کی زمین نہایت شوریدہ اور کلراٹھی ہے ۔یہ مویشیوں کی بیماری میں فائدہ مند ثابت ہوتی ہے عوام کا اعتقاد ہے کہ یہ شفا اس بزرگ کی دعاسے ہے ۔میرانی دور حکومت میں 1556ءمیں نواب غازی خان میرر انی جو پیر عادل کامرید تھااس نے ایک لاکھ روپے کے خرچ سے خانقاہ تیارکرائی ۔ خانقاہ پیر عادلؒ پر ماہ چیت میں سالانہ بڑا میلہ ہوا کرتا ہے پورے پاکستان لوگ یہاں آتے ہیں ۔9

 

سلطان سخی سرورؒ :

سخی سرورؔ ابن زین العابدین ابن سید عمر ابن سید عبدالطیف ابن اسحاق ابن سید اسمعٰیل ابن امام موسیٰ کاظم ابن امام جعفر صادق ابن امام باقر ابن امام زین العابدین ابن امام حسین ابن علی کرم اﷲ وجہہ سے جا کر ملتا ہے ۔ آپ کے والد کا نام زین العابدین اور والدہ کانام عائشہ بی بی تھا۔ آپ کا دربار عین دامن پہاڑ پر واقع ہے10۔ ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بغداد سے یہاں تشریف لائے۔ان کی نسبی معرفت سید شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سےہے ۔620ھ تک بغداد میں رہے۔بعدازاں ان کا والد زین العابدینؒ مع دو بیٹےسخی سرورؒ دوسرا داؤد پنجاب کی طرف تشریف لائے۔ شروع میں انہوں نے وزیرآباد کے قریب رہائش اختیار کی اور پھر بعد میں وہاں سے سیالکوٹ جا کر آباد ہو گئے۔زین العابدینؒ نے یہیں وفات پائی اور انکا مقبرہ اُسی جگہ سیالکوٹ میں موجود ہے۔سید احمد سلطان المعروف سخی سرورؒ نے ملتان کے صوبہ دار گہنوں خان افغان کی بیٹی سے شادی کی اُسے ایک بیٹا ہوا، جس کا نام میاں رعناؔ مشہور ہے۔سخی سرورؒ بذات خود اہل فقر تھے۔وہاں سے دل برداشتہ ہو کر بخیال اطاعت الہٰی واسطے چلّہ کاٹنے اِس طرف پہاڑ میں آئے جو اسی جگہ بحالت چلّہ کاٹنے کے وفات پائی اور داؤد برادر و میاں رعنا فرزند سخی سرورؒ بطرف بغداد وطن مالوفہ خود روانہ ہوئے کہ میاں داؤد نے غزنی میں وفات پائی، مقبرہ اُس جگہ موجود ہے اور میاں رعنا بغداد میں دفن ہیں۔جب سخی سرورؒ اس پہاڑ پر چلّہ کاٹتے تھے کُچھ آبادی نہ تھی، ظاہرکہ سخی سرورؒ اہل فقر اور صاف باطن تھے، براہ خدا انہو ں نے بہت محنت اٹھائی جو کہ ان شُہرہ آفاق ہونے کاسبب ہے11۔ایک دن اُن کے دروازے پر تین بیمارشخص ایک مجذوم یعنی کھوڑا، دوسرا نابینا، تیسرا عنین یعنی نامرد سائل شفایابی کیلئے آئے۔حق تعالیٰ نے اُنکو شفا بخشی سب درست ہوگئے وہ تینوں مجاوری اختیار کر کے اُس جگہ سکونت پذیر ہوئے۔چناچہ اُن تینوں کی اولاد اُن تینوں کے نام سے مشہور ہے ۔جو اولاد کہوڑی سے پیدا ہوئے وہ کھلنگ مجاور کہلائے، جو نا بینا سے ہے وہ مجاور کاہے اور نامرد کی اولاد شیخ مشہور ہے اوراب بااندازہ 1650 مجاور خانقاہ سخی سرورؒ پر رہتے ہیں اور اس زمانہ سے آباد ہو تے ہُوئے اب قصبہ بن گیا ہے، یہ قصبہ بھی سخی سرور کے نام سے مشہور ہوا ہے12۔ پہلے زمانے میں سخی سرورؒ کی قبر سادہ خاک کی تھی۔ پیچھے کے زمانہ میں دیوان لکھپت رائے اور ہنپت رائے سکنہ ہندوستان، نے پختہ مکان بنایا اور قدیم الایام ہر سرکار مع مجاور لوگوں کو معاشی مدد کے واسطے کچھ نقدی اور محصول زمینات تمام موضع کا معاف کرتا تھاچنانچہ اب تک اسی طرح معافی بحال ہے۔اس موقع پر چاہ کوئی نہیں تھابس رودوکوہی کا پانی ہی کافی سمجھا جاتا تھا۔حتیٰ کہ مال اور انسان واسطے پانی بڑی مشکل سے حا صل ہوتا تھا اگر بارش ہو گئی تو بارش کا پانی پیاورنہ اندازاًدو دو تین تین کوس دور جا کر زمین کھودتے، بارش کے اُسی پانی سے لوگ گزارہ کرتے ہیں۔اکثر مجاور وغیرہ مشکیزے میں پانی بھر کر فروخت کرکے پیسہ کما تے ہیں۔ اِس خانقاہ کے بہت سے لوگ معتقد ہیں اورچیت کے مہینے میں اکثرزائرین پنجاب سے آتے ہیں جن میں ہندؤ، مسلمان بڑے اعتقاد اور صدق سے آکر زیارت کر کے دعا مانگتے ہیں13۔ایک روز پہلے سنگرند بیساکھی سے تا بیساکھی یعنی 3 یوم میلہ سخی سرور ؒ بڑی ہجوم سے ہوتا ہے ۔ اکثر لوگ واسطے ادائے اِس شرط کے آتے ہیں ایسے لوگ عموماً عیال اطفال خود ساتھ لاتے ہیں ۔ دعا طلب بامید حصول کسی مراد آئندہ کے آتے ہیں۔اعتقاد لوگوں کا اس حد تک ہے کہ ہندو لوگ جو ایک بوند پانی مسلمان کے پڑنے سے نا پاک ہوجاتے ہیں تو اُس جگہ مجاوروں کے گھر سے برتن لے کر اس میں پانی پیتے ہیں، البتہ یہی پانی کی قلت کا باعث بھی ہے۔اب سرکار سے منظوری لے کر بمقام احداثی چاہ سخی سرور ایک کنواں کھودا گیا ہے، پہلے بھی ایک کنواں کھودا گیا تھا جہاں سے دو سو ہاتھ عمق کے پانی نکلتا تھالیکن کسی سبب پیچھے کنواں مدفون ہو گیا تھا مجاوران نے بھی کچھ پرواہ نہ کی، اب بھی کچھ مجاور کنواں کھودنے سے خوش نہیں ہیں لیکن عام لوگ سرکار عالی کو دعا دیں گے، اور میلے کی رونق بھی زیادہ ہو گی ۔14

 

حضرت خواجہ سلیمان ؒ تونسوی :

حضرت خواجہ محمد سلیمان ؒ تونسوی 1183ہجری بمطابق1769ء کوہستان گڑگوچی میں خواجہ محمد زکریا کے گھر پیدا ہوئے آپکی والدہ کا محترمہ کا اسم گرامی بی بی زلیخاتھا ۔ بچپن میں آپ کو پیارسے مانہ کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔ بعد میں آپ عموماًپیرپٹھان کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ خواجہ زکریا کا تعلق مشہورقبیلہ جعفرسے تھا 15۔بچپن میں ہی ا والد کی وفات پر آپ بچپن میں یتیم ہوگئے اور والدہ کو سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کیلئے وہ تونسہ آگئے ۔ تونسہ میں انہوں نے میاں حسن علی کے حلقہ درس میں شمولیت اختیار کی، پھر وہاں سے بستی لانگہ میں میاں ولی محمدآرائیں کے حلقہ در س میں شامل ہوگئے۔ کوٹ مٹھن میں مدرستہ العلوم تھا، جس کے صدر مدارس قاضی احمد علی صاحب تھے، ان سے عربی کی تعلیم حاصل کی، پھر خواجہ نورمحمدمہاوری کے مرید ہوئے، تونسہ میں رہائش اختیار کرکے لوگوں کو روحانی فیض پہنچاتے رہے 16 آپ کوجس قدر آمد نی ہوتی اسے خیرات کردیتے ۔ 1267ھ میں اسی برس کی عمر میں انتقال فرمایااور تونسہ میں د فن ہوئے۔ جسے انہوں نے 1209ھ سے اپنا مدفن بنالیاتھا۔ان کے فرزند خواجہ گل محمد نے ان کی حیات میں وفات پائی لہذا آپ کے بعد ان کے پوتے خواجہ اللہ بخش سجادہ نشین بنے 17۔ نواب بہاول پور ان کے مرید تھےجس نے 1855ء میں پچاسی ہزار روپے کے خرچ سے آپ کاروضہ تعمیر کرایا۔غلام مصطفٰے خان خاکوانی ملتانی نے دس ہزار روپے کے خرچ سے خانقاء کے ملحقہ مجلس تعمیر خانہ تعمیر کرایا ۔ جبکہ احمد خان افغان نے کنواں تیار کرایا 18۔حضرت خواجہ محمد سلیمان ؒ کی خانقاہ کی عمارت نہایت عمدہ و صاف ہے ۔مزار شریف پر روز مرہ مخلوق مرید ین کی آمدورفت سے رونق رہتی ہے آپ کاسالانہ عر س 7 صفرکو منایاجاتا ہے جو تین دن جاری رہتاہے ۔ آپ خلیفہ خاندان چشتیہ کے ہیں نیز میاں عاقل محمدو تاج محمود کہ جن کی خانقاہ کوٹ مٹھن میں اور میاں نور محمد جن کی خانقاہ حاجی پور میں ہے، ایک ہی دربار مہاروی سے فیض یافتہ ہیں اور اکثر پٹھان اقوام سدوزئی و پوپلزی وغیرہ علاقہ ڈیرہ اسمعٰیل خان کے ان کےمرید ہیں۔خانقاہ کے مدرسہ میں درس کااعلیٰ انتظام ہے ۔اس مدرسہ میں اعلیٰ درجہ کی لائبریری موجود ہے ۔جس میں نہایت قیمتی کتب موجود ہیں ۔ وہاں قرآن مجید کاایک نسخہ موجود ہے، جو سونے کے تاروں سے لکھا گیاہے19۔ خواجہ محمد سلیمان ؒ اپنے وقت کی ایک ولی کامل شخصیت ہیں، انکی مذہبی خدمات کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ۔

 

خواجہ غلام فرید ؒ :

خواجہ غلام فریدکا تعلق جدی پر صوفی گھرانے سے تھا حسب و نسب کے اعتبار سے فاروقی تھے آ پ خواجہ خدابخش کے فرزند ا رجمند او ر خواجہ فخرالدین کے چھوٹے بھائی تھے۔ آپ کے والد ماجد ایک بزرگ کامل اور علماء متبحرین میں سے تھے۔آپ 1261ھ میں چاچڑاں میں پیدا ہوئے، تاریخی نام خورشید عالم رکھا گیا20۔ ابھی آپ کی عمر چار سال تھی کہ آپ کے والد محترم وفات پاگئے آپؒ کی تعلیم وتربیت کا ذمہ آپ کے بھائی نے لے لیا۔ آٹھ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔ نواب محمد صادق خان والی ریاست بہاولپور کی سفارش پر شاہی محل میں آپؒ کی پرورش ہوتی رہی ۔ اپنے بڑے بھائی کے ہاتھ پر تیرہ سال کی عمر میں بیعت کی اورسولہ سال کی عمر میں علوم ظاہری اورباطنی پر کمال حاصل کر لیا۔بڑے بھائی کی وفات کے بعد آپ ستائیس برس کی عمر میں سجادہ نشین مقرر ہوئے21۔خواجہ صاحب باشریعت صوفی تھے اور ہروقت ذکر الہی میں مشغول رہتے تھے ۔ نہایت سخی دل تھے ان کو دولت جمع کرنے کی بجائے اسے خرچ کرنے کی فکر لاحق رہتی تھی ۔ ہندوستان کی سیا حت کے بعدآپ نے اٹھارہ سال بہاولپور کے ریگستان روہی میں عبادت اور ریاضت کی۔آپ نے1895ھ میں ایک سو سے زائد عقیدت مندوں کے ساتھ فریضہ حج ادا کیا اور تمام اخراجات بھی خود برداشت کیے وطن واپس آکر درس و تدریس میں مشغول رہے۔ آخر24جولائی 1901ء بمطابق 6ربیع الاول 1319ہجری میں اس دارِفانی سے کوچ کیا22۔ حضر ت خواجہ غلام فریدؒ کاروضہ کوٹ مٹھن میں واقع ہے۔ آپ کا مدرسہ علوم دینی کا مرکز بن گیا۔آپ کا سلسلہ چشتیہ تھا مگر آپ چاروں سلا سل کے مجاز رہے۔آپ نے اعمال و افعال کو شریعت کے تابع کر دیا۔ شریعت کو اطاعت کا جزو لازم سمجھتے تھے ان کے مریدو ں کی تعد اد صر ف سرائیکی بولنے والے علاقے میں ہی لاکھوں سے تجاوزکرچکی ۔ویسے ان کے عقیدت مند سارے پاکستان اور ہند میں موجود ہیں ۔ آپ سرائیکی زبان کے اعلی پایہ کے شاعر تھے جس میں انہوں نے عشق حقیقی و مجازی اور فطرت کی نقاشی ایسے طریقہ پر کی ہے جو صرف ان کا حق ہے ۔ انہوں نے اپنے اشعار میں عشق مجازی کے کئی حقیقی واقعات کو بیان فرما یا ۔خواجہ صاحب کا دیوان سرائیکی زبان کا لازوال شاہکار ہے ۔ 23

 

عشق رسولﷺجذبہ وحدت الوجد اور عشق و محبت آپؒ کی شاعری کے موضوع تھے۔ آپ نے نظریہ وحدت الوجود کی بڑی اچھی وضا حت کی ہے ۔اس سلسلے میں آپ کی دو کتابیں فصوص الحکم اورفتوحات المکیہ بہت مشہور ہوئیں۔آپ کےبزرگ خواجہ فخراورنورمحمدمہاروی بھی اسی نظریے کے قائل تھے اور آپؒ نے خود بھی اس نظریے کی ترجمانی کی ہے۔فنا فی الشیخ کےمرحلے میں آپؒ کےمُرشدخواجہ فخرجہاں تھےچشماں فخرِجہاں مٹھل دیاں تن من کیتا چُور (اپنے مرشد خواجہ فخر جہاں کیلئے جسم و جان بھی قربان ہے) گھول گھتاں میں فخرجہاں توں جنت، حُور، قصور (اور میں

 

اپنے مرشد خواجہ فخر جہاں پر سب کچھ جنت اور حوروں کو بھی قربان کر دوں) 24

 

فنا فی الرسولﷺ میں آپؒ حد سے بڑھ کر ڈوبے ہوے تھے۔ حضور ﷺکے ساتھ

 

آپؒ کا پیار قابلِ دید ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ: اِتھاں میں مٹھڑی جندجان بہ لب اُوتاں خوش وسد ا وِچ مُلک عرب۔ توڑے دھکڑ ے دھوڑے کھاندڑی ہاں تیڈے ناں توں مفت وِکاندڑی ہاں۔تیڈے باندڑیاں دی میں باندڑی ہاں ھِم دردےکُتیاں نال ادب۔25 (میری بدبخت جا ن بہت مجبور ہے میری زندگی لبوں پرر آئی ہوئی ہے اور محمدﷺ ملک عرب میں خوشیوں میں آبادہے۔میں دھکے اورٹھوکریں کھا کربھی آپﷺکےنام پرمفت بکنےکوتیار ہوں۔ میں تو آپکے نوکروں کابھی نوکر ہوں مجھے تو محبوب ﷺ کے گھر کے کتے کا بھی ادب و احترام ہے) ۔

 

شاہ صدر دین ؒ :

صدردین شاہ بزر گ سا دات مشہدیؒ نے اِس موضع کو آبادکیا۔اس سبب سے اِس کا نام صدردین ہے۔چو نکہ زمین زیرجنگل تھی، اس واسطے اُس کو جھاڑی سادات بھی کہتے ہیں26۔اُسی روز سے اس موضع اور زمینداری پراولاد سید مذکور کی متقابض اور بہادر شاہ سید نمبردار مقرر ہے۔ آپ کا روضہ ڈیرہ غازی خان سے انیس میل جانب شمال شاہراہ تونسہ پر واقع ہے ۔آ پ جدی صوفی ہونے کے ساتھ صوفیائے کرام کے عظیم جد حضرت بہاء الدین زکریا ملتان کے مرید اور ان کے خاندان سے تھے۔ آاپ نے شاہ صدردین کو جب مر کز بنایا تو اس علاقے میں عام جہلانہ رسومات کا دور دورہ تھا آپ نے لوگوں کو راہ ہدایت دکھائی اور ساتھ ہی تزکیہ نفس اور تقویٰ کی مجسم تصویر پیش کی۔آپ اپنی زندگی میں کسی عورت کو بیعت نہیں کرتے تھے بلکہ وصال کے بعد بھی آپکے مزار پر عورتوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ سلانہ میلہ اور مزار پر عرس ماہ چیت کے پہلے سوموار کو لگتاہے ۔ اُن کا موجود ہ روضہ ایک ہندو مرید نے بنوایا تھا جس نے اولاد کی منت مانی تھی 27 ۔ اولاد ہونے پر اس نے اس کی تعمیر کی۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کے یہ صوفیا طبقاتی اور نسلی و مذہبی تقسیم سے بے نیاز انسانیت کے غیر متنازعہ رہبر تھے جن کا کام انسانیت کے دکھوں کا مداوا تھا۔

 

حضرت ملاء قائد ؒ :

حضرت پیر سید ملا قائد شاہ ؒ کا مزار شہر ڈیرہ غازیخان کے بلاک چورہٹہ میں غازی خان میرانی سوم کے مقبرے کا سامنے مشرقی سمت میں واقع ہے28 آپ غازی خان چہارم کے زمانے میں تشریف ؒ لائے ۔اس کا مزار غازی خان کے مقبرے کے ساتھ ہے ۔ ملاء قائد بہت بڑے عالم دین تھے شاہ جہاں کے دور حکومت میں وہ اکثر اوقات مسلک اہلسنت دفاع کرتے رہے ملا قائد شاہ نے اپنی ساری زندگی دین اسلام کی سربلندی میں گذاری اور کبھی حالات سے نہ گھبرائے۔ ڈیرہ غازی خان کی معاشر تی زندگی پر انکی تعلیمات کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔وہ حق اور سچ پر کٹ مرنے کو تیار رہتے تھے۔ اور وہ قولوا قولاً کے مصداق ڈٹ جانے والے تھے ۔ ایک بار وہ شاہجہان کے دربار میں پہنچے اور شکایت کہ ڈیرہ غازی خان میں گل نسیم شاہ نامی سند ھ سے آیا ہوا ہے غازی خان اُس کا مریدبن چکا ہے اور وہ صحابہ کرام کے خلاف بات کر تاہے۔اس شکایت پر شاہ جہاں نے گل نسیم شاہ کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تو دہلی سے کوتوال وارنٹ گرفتاری لے کر ڈیرہ غازی خان پہنچا اور اس نے غازی خان کو وبتایاکہ ملاء قائد کی درخواست پر گرفتار کیا جارہا ہے29۔ غازی خان نے گل نسیم شاہ کے ساتھ بطور گواہ علماء روانہ کر دئیے اور اُن علما کو بڑی رقم کی لالچ دی گئی جب گل نسیم شاہ اور علماء دہلی پہنچے تو وہ وفد ڈیرہ غازی خان مہمان خانہ رہائش پذیر ہوا جب ملاقائد کو پتہ چلا کہ علماء گل نسیم شاہ کے حق میں بطور گواہ پیش ہوں گے تو ملاقائد مسلسل نوافل میں ساری رات بیٹھا رہا اور اللہ سے دُعاکی کہ میں آپ کے اصحاب کی ناموس کیلئے کوشش کررہاہوں میری مدد فرما، دوران نوافل رات کو تھوڑی نیند آگئی تو دیکھا کہ دربارلگاہوا ہے نسیم گل شاہ منظر سےختم ہوجاتاہے دوبارہ ملاقائد نوافل شروع کردیتاہے دوسری مرتبہ یہی منظر پیش ہوا پھر تیسری مرتبہ بھی، تب ملاء قائد اپنی رہنمائی سمجھی جب صبح دربار لگا تو علماء بطور گواہ پیش ہوئے ۔شاہ جہان نے ملاقائد سے کہا کہ علماء تو گل نسیم شاہ کے حق میں گواہ ہیں آپ کیا کہتے ہیں تو ملاء قائد نے کہا کہ جاندار چیز خصوصاً انسان کبھی بھی بک سکت، اہے ایمان بیچ سکتا ہے مگر بے جان چیز نہیں بدل سکتی تو ملاء قائد نے کہا کہ گل نسیم شاہ کے جوتے اُتارے جائیں ۔ چوپ داروں نے جوتے اُتارے ملاء قائد نے کہا کہ جوتوں کی چتی اُکھاڑی جائے چوپدارنے چتی اُکھاڑی تو اصحابہ ثلاثہ کے نام اندر چتی کے لکھے ہوئے ملے تو شاہ جہاں نے فوراًگردن مارنے کا حکم دریا مگر ملاء قائد کی درخواست پر کہ گردن ڈیرہ غازی خان میں ماری جائے تب بادشاہ نے بمعہ جلاد اور فورس ڈیرہ غازی خان روانہ کر دی کہ ڈیرہ غازی خان میں نسیم گل شاہ کی گردن ماری جائے جب غازی خان کو پتہ چلا تو اُس نے بڑی منت سماجت کی کہ ملاء قائد گل نسیم شاہ کو معاف کر دے اور شاہ جہاں سے حکم نامہ واپس کروائے مگر ملاء قائد نے یہ بات نہ مانی اور نسیم گل کی چوراہے پر گردن ماردی گئی۔غازیخان نے اس کو اپنی اناء کےخلاف سمجھا اور ان کو اپنی فکر لگی کہ ملا ء قائد کہیں اُس کیلئےمصیبت نہ بن جائے تب غازی خان چہارم نے ساز ش کرکے ملاقائد کو زہر دے دی30 اگر ہم ملا قائد شاہ کی شخصیت کی بات کریں تو وہ عملاً ایک نیک انسان اور صاحب شریعت تھے، ڈیرہ غازیخان کے معاشرے سے جہاں کفر و شرک کا خاتمہ کرنا جہاں اولین ترجیح تھی وہیں انہوں نے مسلمانوں میں موجود خرافات اور غیر اسلامی روایات کے خاتمے اورا نکی معاشرتی اصلاح بھی کی اور یہاں امن کا پیغام دیا۔ان کے مزار پر پانی کا ایک نلکا لگا ہوا ہے اور مشہور ہے کہ وہاں جا کرنہانے سے خارش اور الرجی سے شفا ملتی ہے۔31

 

سید عبداللہ شاہ ؒ سمینہ:

سید عبداللہ ؒ کا شمار ڈیرہ غازیخان کے اکابر صوفیا میں ہوتا ہے۔آپ کا مزار شہر ڈیرہ غازیخان سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق میں قصبہ سمینہ میں واقع ہے 32۔جب ہلاکو خان نے بغداد کو تباہ کیا اور غارت گری کی توہ سید محمد غوث گیلانی کا گھرانہ ہندوستان کی طرف ہجرت کرآیا۔ پہلے دہلی میں رہے مگر پھر دکن میں آبادہوئے ۔ انہوں نے اپنے زہد تقوی کی بدولت محمد غوث بندگی کے نام سے شہر ت حاصل کی ۔ ان کے ایک فرزند سید احمد شاہ اُچ میں مقیم ہوئے سید احمد شاہ کے فرزند لعل شاہ نے بغداد میں تعلیم حاصل کی اور عرب ممالک کی سیاحت بھی کی ۔ وطن واپسی کے وقت ہڑند ڈیرہ غازی خان میں آئے اس زمانے میں ہڑند بڑامشہور تجارتی او ر علاقے کاصدر مقام تھا۔ہڑند سے مغرب میں قصبہ میاں پناہ علی قریشی موجود ہے ۔وہاں اس زمانے میں سلطان طیب قریشی کے زہدوتقوی کی بڑی دھوم تھی، انہوں نے اپنی صاحبزادی کانکاح لعل شاہ سے کردیاجس سے عنایت شاہ پیداہوئے۔ لعل شاہ نے تبلیغ کے سلسلہ میں دکن کاسفر اختیارکیا۔وہاں کسی حاسد نے ان کو زہردے کر ہلاک کردیااور احمد آباد میں مدفون ہوئے ۔میاں سلطا ن طیب قریشی کے انتقال کے بعد عنایت شاہ کی پرورش اس کے ماموں نے کی، عنایت شاہ نے 17رمضان 1190ھ میں وفات پائی۔ عنایت شاہ نے دو فرزند سید غلام محمد شاہ اور سیدعبداللہ شاہ اپنی بارگاہ چھوڑے ۔سید غلام محمد شاہ کامزار نوشہرہ نزد داجل ہے جبکہ حضرت سیدعبداللہ شاہ کامزار سمینہ میں ہے۔سمینہ کاایک رئیس آپ کو سمینہ لایااور یہاں آپ نے درس وتدریس اور تبلیغ کے لئے مسجداور درسگاہ قائم کی ۔آپ صاحب کرامات بزرگ تھے " روایات پنجاب "مصنفہ میجر ٹمپل میں آپ کی کرامات کئی کہانیوں میں سے ایک میں ذکر ہے کہ کس طرح اپنی کرامات سے جام پور کے موچی کی بیوی کو قلات سے معجزانہ طور پر واپس لائے جسے خان قلات جام پور کی فتح کے بعد اپنے ہمراہ لے گیا تھا ۔ آپ نے1222ھ مطابق 1807ء میں وفات پائی ۔ انکے مریدوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے جوپنجاب، سندھ اور بلوچستان میں پھیلے ہوئے ہیں ۔33

 

حضرت سید علی احمدگیلانیؒ:

سید علی احمد ؒ گیلانی کیتھلی کا مزار ڈیرہ غازی خان شہر میں ہے ۔ ان کے متعلق یہ مشہور ہے کہ آپ ہندوستان کے شہر کیتھل شریف سے تشریف لائے تھے34۔ آپ کے جد امجد شاہ کمال ؒ کا مزار کیتھل شریف ہندوستان میں و اقع ہے ۔شاہ کمال ؒ کی وفات 1891ء میں ہوئی۔سامراجی دور کے اختتام پرجب تقسیم ہند ہوئی اور پاکستان قائم ہوا تو اس وقت اس خاندان کے افراد میں میاں عبدالعلی گیلانی ؒ کے خاندان نمایاں تھا۔جس میں میاں محمد حنیف گیلانی ؒ اور میاں علی احمد ؒ گیلانی اول ہجرت کر کے لاہور آکر مقیم ہوئے ۔کچھ عرصہ بعد محمد حنیف گیلانی لاہور سے بستی قبولہ تحصیل پاک پتن ضلع ساہیوال منتقل ہوئے اور اسی بستی میں رہائش پذیرہوئے جبکہ سید علی احمد ؒ گیلانی پہلے لاہور سے ملتان آ گئے اور پھروہ ملتان سے 1950 ء میں ڈیرہ غازی خان ہجرت کر آئے اور بلاک 35میں آکر آباد ہوگئے اس وقت تک ان کے بیشتر مریدین بھی ہجرت کر کے ڈیرہ غازی خان آباد ہوچکے تھے۔ 35 مزار کے ساتھ ایک شاندار مسجد بھی تعمیر کی گئی ہئےجہاں دینی تعلیم کا اعلی نظام موجود ہے۔

 

حضرت امام الدین (المعروف جکھڑامام شاہ) :

ڈیرہ غازی خان کے صوفیا میں سے آستانہ عالیہ جکھڑ امام شریف بہت اہم ہے۔ سید امام الدین ؒ کا زمانہ 16صدی شمار کیا جاتاہے۔ان کا تعلق سلسلہ چشتیہ سے تھا اور یہ بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کی اولا میں سے کسی بزرگ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔ ڈیرہ غازیخان کی تین اہم صوفیانہ گدیاں ہیں جن میں پہلی گدی سید امام الدینؒ کی ہے، دوسری گدی خواجہ محمد سلیمان ؒ تونسوی کی اور تیسری سنجر پور کی ہے 36 سید امام الدین ؒ جب بستی جکھڑ تشریف لائے اور جکھڑ خاندان کو مشرف بااسلام کیا تو اور جکھڑخاندان نے ان کو کچھ زمین کا تحفہ بطور عقیدت دیا اور درخواست کی کہ اپنی رحمت و برکت سے ہمیں کچھ عطا فرمائیں جو ہمارے لیئے یادگار رہے، تو امام الدین ؒ نے فرمایا میری اولاد سے تعلق قائم رکھنا فیض ملتارہے گا او ر بستی کا نام جکھڑامام الدین ؒ رکھ دیا جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جکھڑامام شاہ کے نام سے مشہور ہوگیا ہے37 سیدامام الدین ؒ صاحب کرامت بزرگ تھے ۔ ان کے ہاتھوں ہزاروں لوگ مسلمان ہوئے۔آپ کی ذات ایک کامل صاحب شریعت اور صاحب طریقت کا درجہ رکھتی ہے مریدین کی تعداد لاکھوں میں ہے اور یہ پورے پنجاب میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کا مزار آج بھی لوگوں کیلئے مرجع خلائق ہے، مدرسہ بھی قائم ہے 38 جہاں بچوں کو دینی تعلیم دی جاتی ہے۔آنے والے زائرین کیلئے لنگر بطور خاص ہر وقت جاری رہتا ہے۔عام طور پر یہاں ہر وقت زائرین کا تانتا بندھا رہتاہے۔آپ کی اولاد میں سید حامد رضا شاہ ؒ نہایت ہی صاحب کرامات بزرگ تھے ان کے وصال کے بعدسید غلام عباس شاہ ؒ دربار آستانہ عالیہ جکھڑ امام شریف کے سجادہ نشین ہیں اورصاحب کرامات ہیں ۔ نہایت خوش اخلاق اور ملنسار ہیں ۔ امام الدین ؒ کا سالانہ عرس 22-23ربیع الاول کوہر سال ان کے مزار پرمنعقد ہوتاہے جہاں دور دراز سے لوگ فاتحہ کیلئے حاضری دیتے ہیں ۔ سید غلام عباس شاہ صاحب سجادہ نشیں ایک صاحب شریعت بزرگ ہیں۔علاقے میں ان کا سیاسی اثر و رسوخ بھی ہے پورے علاقے خصوصاً ڈیرہ غازیخان شہر میں کئی دینی مدارس اور مساجد تعمیر کرائی ہیں ۔

 

حاصل بحث۔

مندرجہ بالا صویائے کرام کے حالات زندگی سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ خطہ کسی زمانے میں کفر اور شرک کا مرکز تھا اور پھر وقفے سے یہاں بت گرانے کی کوشش کرتے ہوئے مختلف بزرگان دین اسلام کی سر بلندی کا جھنڈا اٹھایا ۔یہ علاقہ جہاں کفر شرک اور الحاد کا غلبہ تھا اور پھر آہستہ آہستہ اسلام کا گہوارہ بن گیا۔ان صوفیاء نے معاشرے کے اندر اسلام کی حقیقی تصویر پیش کی گئی۔ یہ صوفیا ئے کرام نہ صرف صاحب طریقت تھے بلکہ صاحب شریعت بھی تھے اور انہوں نے اسلام کے بنیادی احکامات کو دین کا عملی مجسمہ قرار دیا۔اسلام کے بنیادی عقائد کے ساتھ اسلام کے بنیادی اراکین کی پاسداری کرنے کا درس دیا اور واضح کر دیا کہ اسلامی تعلیمات پرعمل کرنا ہی شریعت ہے اور یہی دین و دنیا کی بھلائی کا حقیقی راستہ ہے۔اعمال صا لحہ کی ترغیب کے ساتھ سا تھ معاشرتی زندگی کے کئی پہلوں کی بھی اصلاح کی۔جس میں ایک پرامن معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کرنا، اخوت، مساوات اور باہمی رواداری کا درس صوفیا کی تعلیمات کا بنیادی محور تھیں۔ان پر خلوص مساعی جمیلہ کی بدولت ایک اسلامی فلاحی معاشرے کی کامیاب بنیادیں ہمیشہ کیلئے امر ہو گئیں اور اس کی کامرانی کا سہرا انہی صوفیا اور بزرگان کے سر ہےجو حقیقی معنوں میں اسلام کے مبلغ کے طور پر کام کرتے رہے ہیں اور وارث الانبیاء ٹھہرے ۔

 

حوالہ جات

1 االمائدہ3: 5

 

2آل عمران110: 3

 

3احسان چنگوانی، تاریخ ڈیرہ غازیخان، اووتا پبلشر، ڈیرہ غازیخان، 2006ء، ص41

 

4علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال، علم و دانش پبلشر، لاہور، 2012ء، ص91

 

5ڈسٹرکٹ گزٹئیر 1883ء، ص54

 

6ای ڈی میکلگن، پنجاب مذہبی فرقوں اورصوفی سلسلوں کا انسائیکلوپیڈیا، بک ہوم، لاہور، 2006ء، ص228

 

7 منشی حکم چند، تواریخ ضلع ڈیرہ غازیخان، انڈس پبلیکیشنز، 2005ء، ص46

 

8 احسان چنگوانی، تاریخ ڈیرہ غازیخان، ، ص 63

 

9عبدالقادر لغاری، تاریخ ڈیرہ غازی خان، سلمان اکیڈمی ڈیرہ غازیخان، 2007ء، ص 233

 

10منشی حکم چند، تواریخ ضلع ڈیرہ غازیخان، انڈس پبلیکیشنز، 2006ء، ص43

 

11 عبدالقادر لغاری، تاریخ ڈیرہ غازی خان، ص207

 

12ہتو رام، گل بہار، ص 33

 

13 منشی حکم چند، تواریخ ضلع ڈیرہ غازیخان، ص44

 

14 عبدالقادر لغاری، تاریخ ڈیرہ غازی خان، ص208

 

15 منشی حکم چند، تواریخ ضلع ڈیرہ غازیخان، ص 49

 

16 ہتو رام، گل بہار، ص46

 

17 عبدالقادر لغاری، تاریخ ڈیرہ غازی خان، ص206

 

18 احسان چنگوانی، تاریخ ڈیرہ غازیخان، ، ص1

 

19 ہتو رام، گل بہار، ص 46

 

20 عبدالقادر لغاری، تاریخ ڈیرہ غازی خان، ص 204

 

21 ہتو رام، گل بہار، ص56

 

22 احسان چنگوانی، تاریخ ڈیرہ غازیخان، ص64

 

23عبدالقادر لغاری، تاریخ ڈیرہ غازی خان، ص 205

 

24 ڈاکٹر مہرعبدالحق، پیام فرید، کافی22، ملتان، 2006ء، ص595

 

25ایضاً، ص 584

 

26 منشی حکم چند، تواریخ ضلع ڈیرہ غازیخان، ص54

 

27 ہتو رام، گل بہار، ص 30

 

28 یوسفی سلیمانی، فقیر حسن محمود، عبیرالحقیقت، سلیمانیہ اکیڈمی، ڈیرہ غازیخان، 2017ء، ص 80

 

29 عبدالقادر لغاری، تاریخ ڈیرہ غازی خان، ص 211 

 

30 احسان چنگوانی، تاریخ ڈیرہ غازیخان، ، ص183

 

31 عبدالقادر لغاری، تاریخ ڈیرہ غازی خان، ص211

 

32ایضاً، ص212

 

33 احسان چنگوانی، تاریخ ڈیرہ غازیخان، ، ص183

 

34 یوسفی سلیمانی، فقیر حسن محمود، عبیرالحقیقت، ص 84

 

35 احسان چنگوانی، تاریخ ڈیرہ غازیخان، ، ص182

 

36ایضاً، ص 185

 

37 منشی حکم چند، تواریخ ضلع ڈیرہ غازیخان، ، ص 49

 

38 ہتو رام، گل بہار، ص39

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...