Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 2 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

گرو نانک کے جانشین اور سکھ مت کے ارتقاء میں ان کی اہمیت |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

This article is an attempt to know about “The Succeeds of Guru Nanak and Their Significance in the Development of Sikhism. There have been nine Succeeds of Guru Nanak in the history of Sikhism. They took significant role in the field of development of Sikhism. It has been studied the major works of these succeeds in this articles. It throws light on the methodology and strategies of the succeeds of Guru Nanak in their reign. Gurdwara panja sahib is one of the holiest places in Sikhism which is believe hold a rock hand print of Guru Nanak. Every year, hundreds and thousands of pilgrims from various parts of the world, especially India and rural areas of Sindh, visit this temple to offer religious rituals in Connection with various occasion like Rakhi, Besakhi, Birth and death anniversary of Guru Nanak Ddev, Joti Jott Mela, death anniversary 05th Guru of Sikhism Guru Arjun Dev. and last emperor of Punjab Maharaja Ranjeet Singh. The lager (holy Food) served at the temple is part of the teachings of Guru Nanak dev Ji, the founder of Sikhism.

تمہید

بابا نانک سکھ مت کا حقیقی موسئس ہے جس نے 1469ء میں تلولڈی، موجودہ ننکانہ میں ھندو مت کے کھشتریا طبقہ میں کالو چند ہاں جنم لیا۔[1] ان کی تربیت اس وقت کے رواج کے مطابق ھندوں اور مسلمان اتالیقوں کے ہاتوں ہوئی۔[2] کالو چند نے بچپن ہی میں اپنے بیٹے کو مختلف کاموں میں لگا کر ان کا مستقبل سنوارنے کی کوشش کی، مگر نانک اپنی کچھ خاص کیفیات کی وجہ کسی ایک کام میں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ بہت سوچ بیچار کے بعد اس کے والد نے اسے سلطان پور میں اپنے داماد لالہ جے رام اور بیٹی نانکی کے پاس وہاں کے مسلمان حکمران دولت خان کے پاس سرکاری نوکری کے حصول کے لئے بہیج دیا، جہاں وہ وہاں کے حاکم کے مودی خانے کا نگران و محاسب مقرر ھوا۔[3] اپنے ان فرائض منصبی کی ادائگی کے ساتھ گرو نانک روزانہ دریائے بیاس پر نہانے کے لئے جایا کرتا تھا، اس اثناء میں ایک دفعہ حاسدوں نے سلطان پور کے حاکم کو شکایت کی کہ مودی خانے کے نگران نے سارا خزانہ اورغلہ لوگوں میں بانٹ کر اسے خالی کر دیا ھےجس پر وھاں کے حکمران نے نانک سے باز پرس کی، نانک کا محسابہ اس بات پر منتج ھوا کہ مودی خانے کا تمام غلہ حساب وکتاب کے مطابق پورا ہے، اور اس میں کوئی ناجائز تصرف نہیں ہواھے۔[4] زندگی کے صبح و شام اسی طرح گزرتے رہے، ایک دن جب نانک دریائے بیاس پر نہانے کے لئے گیا تو دریا میں غوطہ لگانے کے تین دن کے لئے غائب ہوا، اس کے بہنوئی بہن اور دوسرے لوگوں نے کافی تلاش کیا مگر انکی سعی لا حاصل رہی اور تین دن کے بعد نانک خود بخود دریا کے کنارے ظہور پذیر ھوا، اس وقت ان کے زبان پر یہ کلمات تھے "نہ کوئی ھندو نہ کوئی مسلمان"۔[5] اس کے بعد نانک نے مودی خانے کے وظیفے کو چھوڑ کر اپنی نئی فکر کی طرف دعوت دینے کا آغاز کیا اور بزعم خویش کچھ عناصر اسلام اور کچھ ہندو مت کے لیکرایک نئی فکر کی بنیاد رکھی۔ ایک عا م آدمی سے اس مقا م تک پہنچنے کے لئے بابا نانک نے کڑی تپسیا کی ۔ اور ایک نئے

 

اخلا قی مذہب کی بنیاد ڈا لی۔[6]

 

اس سلسلے میں نانک نے ہندو مندروں میں جاکر ہندو پنڈتوں سے مناظرے کئے اور بت پرستی، تعدد اور کثرت پرستی پر قدغن کیا۔اسی طرح ہندو مت کے طبقاتی نظام پررد کرتے ہوئے یہ کہا کہ برھمن کو کس کے برھمن بنایا، اور ویش کو ویش اورکھشتری کو کھشتری ٹہرایا جبکہ قصوروار شودر بیچارے کیونکر شودر پیدا ھوئے۔ تمام انسان انسانیت کے ناطے سے برابر ہیں اور ان میں کوئی طبقاتی اونچ نیچ نہیں، ایک اس کے ذات کے سوا کوئی اور پکارنےکے لائق نہیں۔[7]

 

نانک نے عقیدۂ توحید کی طرف دعوت دی جوکہ ایک اسلامی اور فطری عقیدہ ہے، اسی طرح طبقاتی نظام پر رد کرتے ہوئےاسلامی انسانی مساوات کو اپنایا۔ بابا نانک نے ہندوستان کے تمام اطراف میں جہاں تک اس سے ہوسکا اپنے دو شاگردوں"مردانا"اور"بالا"کے ساتھ اسفار کئےاور اپنا آخری سفر مغرب کی طرف کیا، جس میں سکھ تاریخ کے مطابق حج کے موسم مسلمان حاجیوں کے ساتھ مکہ مدینہ گئے، پہرمصر، بغداد افغانستان سے ہوتے ہوئے حسن ابدال کی طرف رخ کیا اور یہاں کچھ دن قیام کرکے آخری زندگی کرتار پور میں گزاری، بابا نانک نے اس وقت کے مسلمان صوفیاء کی خانقاہوں کی بھی زیارت کی، خصوصی طور پر پاکپتن میں بابا فرید کی خانقاہ پر کئی دفعہ حاضری دی اور شیخ ابراہیم فرید ثانی سے بابا فرید شکر گنج کا منظوم کلام حاصل کیا، جسے وہ مجلس لگا کر گایا کرتا تھا اور بابا مردانا اس کے ساتھ چمٹا بجایا کرتا تھا۔[8]بابا نانک نے کبیر کا کلام بھی حاصل کیا اور اپنی فکر کی طرف دعوت دینے کا ذریعہ بنایا۔ بعض تاریخی روایات کے مطابق بابا نانک نے اپنی آخری زندگی میں ایک مسجد بھی بنائی اور اس کے لئے امام اور موذن بھی مقرر کیا اور لنگر کے جاری کرنے کا بھی اھتمام کیا جس میں ہر طبقے کے لوگوں کو بلا تفریق اجتماعی طور پر ایک ہی دسترخوان پر کھانا پروسا جاتا تھا، اور یونہی بابا نانک 1539ء میں سکھ روایات کے مطابق وفات پاگیا۔[9]

 

بابا نانک کے نئے ایجاد کردہ اخلاقی مذھب کو کو گا ہے بگا ہے ان کے جانشینو ں نے اپنے اپنے عہد میں ترقی دینے کی انتھک سعی کی، جسکی وجہ سے آج تک اس مذہب کے نام لیوامختلف روپوں میں موجود ہیں۔ گرو نانک کی وفات کے بعد اس کےتما م جا نشینوں نے یکے بعد دیگرے سکھ مت کو ترویج دی جس کا مختصر سا جا ئزہ مندرجہ ذیل ہے ۔

 

پہلا جانشین گرو انگد:

گرو انگد سکندر لودھی کے زمانے میں"بھیرو مل"کے گھر ھندوستان کے ضلع فیروز پور کے ذیلی قصبہ کھدور جو کہ دریائے بیاس کے کنارے واقع ھے31 مارچ 1504ء میں کھشتری طبقہ میں پیدا ھوا[10]گرو انگد کا اصلی نام "لہنا" تھا بابا نانک کی آخری زندگی میں انکی شاگردی میں آیا تھا۔اور کم وقت میں پینتھ کی خدمت اور بابا نانک کی اطاعت نے اسکو اتنا معتمد بنا دیا کہ بابا نانک نے اسے اپنے دونوں بیٹوں لکھشمی اور ہری چند کے بحائے اپنا جانشین مقرر کیا، جبکہ اسکی بیوی نے بعض اقتصادی نظریات کی بنیاد پر اپنے دونوں بیٹوں میں سے کسی کو جانشین مقرر کرنے پر اصرار کیا، ہری چند اور لکھشمی بابا نانک کے ھاں باطن کی صفائی کے اس درجہ پر نہیں تھے کہ انکو جانشین مقرر کیا جاتا[11]

 

گرو انگد بھی بابا نانک کی طر ح غور وفکر اور مرا قبے میں مشغو ل رہتا تھا۔ اور لوگوں کی طرف سے حا صل ہو نے وا لے نذرا نو ں سے خود کو دور رکھتا تھا، عمو می لنگر پر خر چ کر تا تھا اور اپنے ما لی اخرا جا ت پو رے کر نے کے لئے گرو انگد نے اپنی اولاد کو زراعت وتجارت کے پیشے سے منسلک رکھا ہوا تھا۔[12] گرو انگد کی محفل میں بھی لوگ اسی طر ح جمع ہو کر ذکر یعنی" کرتا ن " سنا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے لوگ گرو انگدکےبا رے میں یہ رائے رکھتے تھے کہ وہ اپنے عہد کا منجھا ہوا جانشین ہے۔[13]

 

گرو انگد نے بابا نانک کے کلام کو جمع کیا اور گور مکھی زبان کا اجراء کیا۔[14]لنگر کے سلسلے کو بھی ویسے ہی برقرار رکھا جیسا کہ وہ اس سے پہلے زمانے میں عمومی طور پر رائج تھا۔[15]

 

دو سرا جانشین گرو امر داس:

گرو امرداس امرتسر میں 1509ء کو کھشتری طبقہ میں ایک فقیر گھرانے میں پیدا ہوا، گرو انگد نے اپنی آخری زندگی میں امرداس کو اپنا جانشین بنایا تھا۔[16]اس نے بھی سکھ مت کی ترقی میں بہت سارے کام سر انجا م دیئے جیسے کہ"ستی"[17]کو ممنوع قرار دیا جو کہ اس کا سب سے پہلا کارنامہ تھا۔[18]

 

گوندوال میں مقدس حوض کی تعمیر کی۔[19]شا گردوں میں مناظرے کی قابلیت پیدا کی، روحانی بالیدگی کے ساتھ ساتھ گرو امرداس نے اپنے شاگردوں اور پیروکاروں کو جسمانی ورزش اور حفظان صحت کے اصولوں پر متوجہ کیا اور جسمانی طاقت کو بے جا ضائع کرنے سے منع کیا[20]۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے لنگر کے سلسلے کو بلا امتیاز جاری و ساری رکھا، دعوت و تبلیغ کے طریقے میں جدت پیدا کرنےاورشاگردو ں کے بیٹھنے کیلئے منجیوں کا اہتمام کیا جن کی تعداد 22 سے زائد ہوگئی۔[21]سکھ پینتھ میں گرو امرداس کے منظوم کلام کے مجموعے کو"آنند"کے نام سے جانا جاتاہے۔

 

اس کے علاوہ خواتین کے پردہ کو اجتماع میں سرڈھانپنے تک محدود کر دیا، گرو امرداس نے اموات پر مردوں اور عورتوں کے رونے پیٹنے کوممنوع قرار دیا اور بیوہ کی شا دی کو رواج دیا اور بیک وقت مرد کی دوشادیوں پر بین لگا دیا۔[22]

 

تیسرا جانشین گرو رام داس:

گرو رام داس لاہور میں 24 ستمبر 1534ء کو کھشتری گرانے پیدا ہوا۔ سکھ مت اختیار کرنے سے پہلے اسکا نام"جیٹھاجی" تھا، سکھ مت میں داخل ھوا تو گرو امرداس نے اس کو رام داس کا نام دیا۔[23]گروامرداس نے رام داس کو اپنا جانشین مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو اپنا داماد بھی بنایا۔ اپنی جانشینی کے زمانے میں گرو امر داس کی شہنشاہ جلال الدین اکبر سے لاہور میں ملاقات ہوئی ۔ اس میں گرو رام داس نے اپنے روحانی اور صوفیانہ کلام سے شہنشاہ اکبر کو متاثر کر دیا اور اس کے عوض لاہو ر کے قریب ایک بڑی جائیداد پائی جہاں پر گرو رام داس نے شہر امرتسر کو بسایا۔[24]اس نے بھی سکھ مت کی تبلیغ کرنے والے مبلغین کے لئے مسندوں اور منبروں کا اہتمام کیا۔[25]

 

گرو رام داس نے امرتسر کے اندر ایک مقدس حوض کی تعمیر کی جس کو احمد شاہ ابدالی[26] نے ہندوستان پر حملے کے وقت مسمار کردیا۔ بعد میں سکھوں نے اس کی تعمیر نو کی، گرو رام داس نے لنگر کے انتظام کو وسیع کرنے کے لئے اپنے مریدوں سے ان کی ہر طرح کی آمدنی کا دسواں حصہ لینا شروع کر دیا۔[27]زراعت و تجارت نے بھی گرو رام داس کے زما نے میں ترقی پا ئی۔[28]

 

چوتھا جانشین گرو ارجن:

گرو ارجن سوموار کے دن15 اپریل 1573ء کو گوندوال میں گرو رام داس کے گھر پیدا ھوا، ان کی والدہ کا نام "بھانی" تھا۔ [29]جب چوتھے گرو رام داس کو یہ احساس ہوا کہ وہ اب خالق حقیقی سے ملنے والا ہے تو اس نے سکھ مت کو 1581ء میں نیا جانشین گرو ارجن دیا ۔ [30]

 

گرو ارجن نے سکھ مت کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور اپنے مذہب کے ارتقاء کے لئے وہ کام کئے جو اس سے پہلے جانشینوں نے نہیں کئے تھے۔

 

گرو ارجن نے سکھوں کے ما بین تنازعات کو دور کرنے کے لئے قانون سازی کی جس کی وجہ سے سکھ مت، اسلا م اور ہندو مت سے الگ نظر آنے لگا اور اسی وجہ سے گرو ارجن یہ کہا کرتا تھا کہ اگر ہم سیاسی لحاظ سے کمزور ہو گئے تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ ہمارا تشخص مٹ جائے گا۔[31]

 

اس نے حربی تنظیموں کی طرف بھی بھرپور توجہ دی ۔ مزید یہ کہ گرو ارجن نے بابا نانک اور اپنے سے پہلے جانشینوں اور اس کے علاوہ دوسرے ہندو باٹ اور مسلمان صوفیاء اورمصلحین کے اقوال کو تحریری شکل میں جمع کیا۔[32]اور یہ کام 1604 ء میں انجا م دے کر "آدی گر نتھ" کے نا م سے متصف کر کے ہری مندر امرتسر میں رکھ دیا ۔ اوراس بات کا حکم دے دیا کہ اب مسلمانوں کی مقدس کتا ب قرآن اور ہندوؤں کی مقدس کتا ب "پران"[33]پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔

 

گرو ارجن نے سکھوں کی معاشی حالت کو ترقی دینے کے لئے خاصا اہتمام کیا۔ امیر لوگوں کو اپنی آمدنی کا دسواں حصہ تحریک میں دینے کے لئے پابند کر دیا ۔ اس کے علاوہ گرو ارجن نے کچھ مریدوں کو لوگوں سے محصول اور نذرا نے لینے پر مامور کر دیا۔[34]اور ان بڑی بڑی رقوم سے اس نے حوض، تالاب اورگوردوارے بنا ئے۔[35]

 

پانچواں جانشین گرو ہرگوبند:

ہر گوبند اتوار کے دن 1590ء میں گرو ارجن کے ہاں پیدا ہوا اور باپ کے زیر سایہ اپنی ابتدائی دینی تربیت حاصل کی۔ [36]گرو ارجن نے اپنی آخری زندگی میں اپنے ہی بیٹے ہر گوبند کو سکھ مت کا اگلا جانشین مقرر کیا، گرو ہر گوبند کی تا ریخ نے یہ ثا بت کیا کہ اس کے باپ کا فیصلہ غلط نہیں تھا۔ گرو ہر گوبند نے اپنے پیروکاروں کو منظم کیا اور ان کو اپنے مذہب کی سمجھ بوجھ دی۔ اس نے ایک طا قتور فوج تیار کی اور ایک بڑا قلعہ "خالصہ راج" تعمیر کیا۔[37] اس نے اپنے پیروکاروں کے دلوں سے حوف کو نکال باہر کیا اور انکے اندر بہادری اور شجاعت کی ایسی روح پھونکی کہ وہ ہر وقت ننگی تلوار کی عملی تفسیر بنے پھرتے۔

 

خود ہرگوبند بھی اپنے ساتھ دو دو تلواریں لئے پھرتا تھا۔ وہ جنگی مہارتوں کا شاہکار تھا۔ اس نے ہمیشہ اپنے پیروکاروں کو تلوار گھوڑا ساتھ رکھنے کی تلقین کی اور ان کو اپنے ہاتھ سے شکار کر کے کھانے کا شوق پیدا کیا۔ گرو ہرگوبند نے ہری مندر کی تیاری میں نمایاں کردار نبھایا یہ عمل اس کے مذہبی ہونے کا پتہ دیتی ہے۔

 

اس کے علاوہ گرو ارجن نے ایک عظیم الشان محل"آکال تخت"[38]کے نام سے بنایا جو

 

سکھوں کے سیاسی اور دینی معاملات کا راز دان تھا ۔ جہاں پر بیٹھ کر بڑے بڑے مذہبی سربراہ مذہب کے پیروکاروں کے معاملا ت کو طے کرتے اور ضرورت مند لوگوں کو امداد فراہم کرتے اور مجرموں کو ان کے کیے کی سزا سناتے ۔

 

گرو ہر گوبند نے سکھوں کے اندر باہمی تعاون اور بھائی چارے کو فروغ دینے کیلئےاجتماعی دُعا کی بنیاد رکھی ۔ اگر کسی سکھ کو کوئی مسئلہ ہوتا تو سکھوں کی ایک جماعت خدا کے حضور دینی گیت گا گا کر اپنی مشکل بیان کرتی۔ ایک خاص کام جو گرو ہر گوبند نے کیا وہ یہ کہ اپنے مذہب کی طرف دوسرے ادیان کے لوگوں کو بلانے کیلئے اپنے مستند شاگردوں کی جماعتیں بھی بنا ئیں۔[39]

 

چھٹا جانشین گرو ہری رائے:

گرو ہری رائے گوردتہ کا بیٹا اور گرو ہرگوبند کا پوتا تھا، یہ کیرت پور میں سن 1630ء میں شاہ جہان کے زمانے میں پیدا ہوا۔[40]

 

گرو ہرگوبند نے اپنے دور ہی میں اپنے پوتے ہری رائے کی جا نشینی کا اعلان کردیا تھا کیونکہ وہ معرفت الٰہی اور اپنی علمی بصیرت کی وجہ سے اپنے بھائیوں سے برتر تھا اور زیادہ وقت اپنے دادا کی سرپرستی میں گزارتا تھا۔ اور ان کی ہدایات پر عمل کرتا تھا ۔ اسی وجہ سے وہ اپنے دادا کو بہت زیادہ محبوب تھا۔[41]

 

اسی قابلیت، ذی فہم اور فرض شناسی کی وجہ سے اسے سکھ دھرم کا جانشین بنایا گیا۔ انہی عادات کی وجہ سے مغل سلاطین کے ساتھ اس کے انتہائی خو شگوار تعلقات تھے ۔ خاص طور پر دارا شکوہ کے سا تھ ۔ [42]

 

ایک دفعہ دارا شکوہ اور شہنشا ہ اورنگزیب میں جانشینی کی جنگ چھڑ گئی تو گرو ہری رائے نے اپنی مضبوط فوجی طا قت کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔ دارا شکوہ کی مدد کی مگر پھر بھی شہنشاہ اورنگزیب جنگی میدان میں فتح یاب ہو گیا ۔ اور تخت پر بیٹھنے کے بعد گرو ہری رائے کو دار القضاء میں پیش ہونے کا حکم صادر فرمایا ۔ جس پر گروہری رائے نے انکار کرتے ہوئےاپنے بیٹے رائے رام کو پیش ہو نے کے لئے بھیج دیا ۔ رائے رام نے اورنگزیب کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ اپنی مقدس کتاب سے اسلا م کےخلا ف تمام عقائد کو نکال دے گا ۔

 

جب وہ شہنشاہ اورنگزیب کے دربار سے واپس ہوا تو اس کی اس فضحیت کے باعث گرو ہری رائے نے اسے وراثت سے عاق کر دیا اور اپنے چھو ٹے بیٹے ہری کرشن کو جانشین مقرر کیا ۔ گرو ہری رائے کی جا نشینی کی مدت تقریباً 16 سال ہے ۔ اس نےکرتار پور میں وفات پائی ۔ سکھ ادب گرو ہری رائے کی خدمات پر گونگے پن کا شکا رہے۔[43]

 

سا توا ں جانشین گرو ہری کرشن:

ہری کرشن، کوشن کورے کے ہاں 1656ء میں کرتارپور میں پیدا ہوا۔[44] گرو ہری رائے کے دو بیٹے تھے۔ رائے رام اور ہری کرشن۔ رائے رام جھگڑالو تھا ۔ جس کی بنا ء پر وہ مغل بادشاہ کے ہاں دہلی میں مقید تھا ۔اس لئے گروہری رائےنے اپنے چھو ٹے بیٹے ہری کرشن کو 7 اکتوبر 1661ء کو اپنا جانشین مقرر کرنے کا اعلان کر دیا ۔اس وقت اس کی عمر ابھی صرف 6 سال تھی ۔ جب یہ خبر رائے رام کو ملی تو وہ بہت آگ بگولہ ہوگیا اور مقابلے پر اتر آیا۔ جب یہ معاملہ حد سے بڑھ گیا تو مغل بادشاہ کے دربا ر میں پیش کیا گیا۔ مغل بادشاہ اورنگزیب نے ہری کرشن کو اپنے دربار میں بلا بھیجا۔ اور جب وہ وہاں پہنچا تو بادشاہ اس کی کم عمری کو دیکھ کر انگشت بدنداں ہو گیا۔[45]

 

بادشاہ نے ہری کرشن کی کم عمری کو دیکھتے ہوئے کچھ سوالات وجوابات کئے اور اس کی حاضر دماغی اور ذہانت وفطانت سے بہت متاثر ہوا اور اسے شاہی دربار میں بھیج دیا تاکہ وہ وہاں موجود خوبصوت عورتوں اور ملکہ میں فرق کرسکے تو ہری کرشن اس امتحان میں بھی کامیاب ہو گیا اور بادشاہ

 

کی حیرانی مزید بڑھ گئی۔اسی لئے بادشاہ نے اس کی جا نشینی کو باقی رہنے دیا۔[46]

 

آخر کار چیچک کی بیماری کی وجہ سے تین سال دہلی میں رہنے کے بعد وفات پاگیا۔[47] سکھ ادب کی ہری کرشن کے بارے میں سکوت کی ایک وجہ اس کی کم عمری ہے ۔

 

آٹھواں جانشین گرو تیغ بہا در:

گرو ہری کرشن انتہا ئی کم عمر جانشین تھااوراپنے مختصرعہد حکومت کے خاتمے پر اس نے تیغ بہادر کو اپنا جانشین قرار دے دیا تھا۔ گرو تیغ بہادر کی پیدائش یکم اپریل 1621 ء میں امرتسر میں ہوئی۔[48]

 

گرو ہرگوبند کے پا نچ بیٹے تھے جن میں سے ایک تیغ بہادر تھا۔[49]گرو ہری کرشن نے اسکے جانشین ہونے کا حوالہ اپنے پیرو کاروں کودیاتھا جنہوں نےگرو ہری کرشن کےمرنےکےبعد گووند وال کے ایک گاؤں بکالا میں تیغ بہادر کی جانشینی کو تسلیم کرتے ہوئے بیعت کی ۔ گرو تیغ بہادر نے اپنے عہد میں کرتارپور میں ایک مضبوط قلعہ اور شہر کے گرد ایک فصیل بنائی اور انتہائی شان وشوکت کی زندگی گزار رہا تھا، ہر وقت ایک ہزار شہ سواروں کا مسلح لشکر اس کے اشارے کا منتظر رہتا تھا۔[50]

 

گرو تیغ بہادر اور را ئے رام کے درمیان جب حکومتی نزاع پیدا ہوا تو رائے رام نے شہنشاہ اورنگزیب کے دربار میں تعصب کی بنا ء پرشکا یت کچھ اس طرح سے کی کہ اس جانشینی کا حقدار میں تھا۔ اس نے مجھ سے یہ ہتھیا لی ہے۔[51]اسی دوران گرو تیغ بہادر شہنشاہ اورنگزیب اور ان کی سلطنت کے خلاف وبال جان بن گیا ۔

 

رائے رام نے شہنشاہ اورنگزیب سے گرو تیغ بہادر کو رو کنے کیلئے درخواست دی جس کی وجہ سے گرو تیغ بہادر کو پورے خا ندان کے سا تھ گرفتار کر کے دہلی حاضر ہونے کا حکم صادر فرمایا گیا ۔

 

جب گرو تیغ بہادر تک یہ حکم نامہ پہنچا تو اس نے انتہا ئی عاجزی سے معذرت چاہی اور یہ

 

وعدہ کیا کہ آئندہ وہ کبھی قا نون توڑنے کےجرم مرتکب نہیں ہوگاتو اورنگزیب نے اسے معاف کر دیا۔[52]تاریخ میں گرو تیغ بہادر ایک لڑاکا صفت کردار گزرا ہے۔ اس نے اورنگزیب کی عام معافی کے بعد بہت زیادہ سازشوں کے جا ل بچھائے۔ شہنشاہ اورنگزیب نے مغل حکومت کے خلا ف ایک لشکر مسلح کر کے گرو تیغ بہادر کی سرکوبی کے لئے بھیجا ۔

 

ایک خونخوار جنگ کے بعد گرو تیغ بہادر کو گرفتار کرکے دہلی پہنچا دیا گیا۔[53]اس نے شہنشاہ ارنگزیب کی اسلا م کی دعوت کو قبو ل کر نے سے انکار کر دیا ۔ اور شا ہی دربار میں بہت تلخ کلامی کے بعد اس نےاپنے شاگرد سے اپنا سر کٹوا دیا ۔

 

نواں جانشین گرو گوبند سنگھ:

گوبند سنگھ پٹنہ میں 1667ء میں گرو تیغ بہادرکے گھر پیدا ہوا، اس نے ہندواتالیق کے ہاتھوں تعلیم وتربیت پائی۔ مختلف علوم وفنون سے خود کو آراستہ کیا، گھڑ سواری سیکھی، اور جنگی فنون سے خود کو لیس کیا، بیک وقت اس نے ہندی اور فارسی زبان سیکھی، اور مختلف مذاھب کا مطالعہ کیا۔ [54]

 

گرو تیغ بہادر نے اپنی تلوار دے کر اپنے صا حبزا دے گوبند سنگھ کو اپنا جانشین بنایا۔ اس اپنے کئے دھرے کی وجہ سے افسوس ناک موت کے بعد سکھ دھرم کو بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ان تکالیف کا مقابلہ کرکے سکھ مت کے آخری گرو نے بہت ہی عقلمندی کا ثبوت دیتے ہوئےبہت سی خدمات انجام دیں۔[55]

 

فکری انتشار میں مبتلا سکھوں کو سکھ لفظ کے سائے تلے جمع کرکے گوبند سنگھ نے پنجاب میں سکھ نامی نئی حکومت قائم کرنے کی سعی کی۔

 

وقت کی نزاکت کو ملحوط ِ خاطر رکھتے ہوئے سکھوں کو مغلیہ سلطنت کی قوت سے ٹکرانے کی بجائے پہاڑوں میں گوشہ نشینی اختیا ر کرکے سکھوں کی عسکری تربیت کی، انہیں مضبوط اور متحد کرکے ایک جرار لشکر تشکیل دیا۔ اور ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ اس حکمت عملی کی بناء پر وہ مسلمانوں کو ڈرانے میں کا میا ب ہوا۔[56]

 

وقتا ً فوقتاً اپنی فوجی طا قت کو مزید بڑھانے کے لئے وہ ارد گرد کے ہندو حکام کے سا تھ تربیتی طور پر چھوٹے بڑے معرکے کراتا تھا۔[57]گرو گوبند سنگھ کی فوجی طاقت میں اضا فہ کرنے کے لئے انبالہ[58] کے پہا ڑوں نے خاصہ اہم کر دار ادا کیا۔

 

گرو گوبند سنگھ نے اپنے لشکر میں موجود فوجیوں کو بھوک پیاس کی تکلیف کو بردا شت کرنے کی صلاحیت پیدا کر نے کے لئے بیس سال تک تربیت دی۔ اور ان کے دل ودماغ بلکہ شعور ولا شعور میں مسلمانوں کے خلا ف دشمنی اور حسد کا بیج بو دیا۔[59]

 

گروگوبند سنگھ کے فوجیوں کی تعداد جب ایک لاکھ تک پہنچی تو"بلا س پور"[60] کے حا کم راجہ "بھیم چند" کے سا تھ پہلا معرکہ باراتیوں کو گزر نے سے منع کرنے پر گرو گوبند سنگھ کے سا تھ پیش آیا۔ بھیم چند نے اس لڑائی کیلئے ارد گرد کے را جاؤ ں سے معا فی مانگی اور ان دونوں کے درمیان جنگ بنکالی کے مقا م پر ہوئی۔[61]

 

اس جنگ کے نتیجے میں بھیم چند کو شکست ہوئی اور گرو گوبند سنگھ فتح یاب ہوگیا ۔ اس نے آنند پو ر میں ایک مضبوط عسکری قلعہ تعمیرکیا۔ اور 1687ء میں نداؤں[62] کے امکان پر جموں کے مقا م پر زبردست لڑا ئی ہوئی جس میں گرو گوبند سنگھ نے فتح پائی ۔ گرو گوبند سنگھ نے 1699ء میں بیساکھی کے میلے کے دوران خالصہ کی تنظیم کی بنیا د رکھی۔[63]

 

اس نے سکھوں کو ہندوؤں اور مسلمانوں سے متمیز کرا نے کیلئے پانچ علامات جو کہ" ک"

 

سے شروع ہوتی ہیں جنہیں پنج ککے بھی کہتے ہیں: کیس، کڑا، کرپان، کنگھا، کچھا کا بھی اضا فہ کیا۔[64]

 

گرو گوبند سنگھ نے جنگ کے دوران مسلمان عورتوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی بد اخلاقی

 

وبے حرمتی کرنے سے منع کیا ۔ اور وقت کے ضا ئع ہو نے کی وجہ سے ہر اجتماعی موقعوں پر محفل سجانے سے بھی منع کیا۔[65]

 

گرو گوبند سنگھ نے سب سے اہم کام یہ کیا کہ دمدما کے مقام پر گرو ارجن کے بعد سے نویں گرو تک جن جن گروؤں کا کلام تھا وہ سارے کا سارا گرو گرنتھ میں جمع کرکے گرنتھ کے خالی صفحات کو مکمل کر دیا اور اس کا نام "سری گرو گرنتھ صاحب جی"رکھا[66]۔اور اسے ہمیشہ کے لئے زندہ گرو کی حیثیت دی۔ جبکہ اپنی تعلیمات کو مستقل کتابی شکل دے کر اسے دسم گرنتھ کا نام دیا۔

 

گرو گوبند سنگھ اپنےآخری ایام میں دکن میں مقیم تھا۔ اسی دوران ایک پٹھا ن نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لیتے ہوئے ۔ موقع پا کر گرو پر خنجر کے ایسے مہلک وار کئے کہ وہ ان کی تاب نہ لا سکا اور 1708ء میں اس دار فا نی سے رخصت ہو گیا۔ [67]

 

خلاصہ:

سکھ مذھب جسکی بنیاد گرو نانک نے پندرھویں صدی عیسویں میں رکھی، جس میں اس کے بانی گرو نانک نے اسلام اور ہندو مت کو ایک دوسرے کے قریب لانےاور دونوں کی آپس میں سے اپنے پسندیدہ نقاط لے کرایک نئی فکرکا آغاز کیا، گرو نانک اور ابتدائی جانشینوں کے ہاں یہ ایک اخلاقی، روحانی صوفیانہ تعلیمات تھیں، جبکہ متاخرین جانشینوں نے رفتہ رفتہ اس کو روحانیت سے نکال کر ایک جنگی اور مادی جماعت میں تبدیل کردیا، جو اس وقت کے مسلمان حکمرانو سے نبرد آزما رہے، مسلمان حکمرانوں کے آپس کے اختلاف کی وجہ سے گرو گوبند سنگھ کے بعد پنجاب میں ایک عرصے کے لئے بالخصوص رنجیت سنگھ کے زمانے میں سکھ حکمرانوں کا راج رہا، جسکا اختتام انگریز کے زمانے میں مسلمانوں کی حکومت کے خاتمےکے بعد ہوا، بابا نانک نے جن روحانی تعلیمات سے اپنے پیروکاروں کو روشناس کرایا تھا بعد میں وہ اختلاف کا شار ہو کر اکثر وبیشتر سکھ اس روحانیت سے نکل کر اپنے صحیح پینتھ سے دور ہوگئے جوکہ عام طور پر وطیرہ ہے۔

 

حوالہ جات

  1. قریشی، مفتی غلام سرورتاریخ مخزن پنجاب، مطبع اسلم اردو بازار، لاہور، 1996ء، ص170
  2. “A history of the Sikh people” by Dr Gopal Singh, world Sikh university Asif Ali Road, Delhi, India page 35, 1979 ایضا، گیان سنگھ گیانی، تواریخ گرو خالصہ، مطبہ رزیر ھند، امرتسر انڈیا، ایڈیشن سوئم، 1945ء، ج1، ص22-23
  3. “Guru Nanak”by Raja sir Daljit Singh, The University Publishers Gita Bhawan McLeod Road Lahore page 10, 1943. ایضا: تذکرہ بابا نانک صوفی غلام قاسم سرور، مطبعہ عبد الکریم زرگراں بازار امرتسر انڈیا، 1342ھ، ص23
  4. ھربنس سنگھ، گروناناک سوانح عمری، المطبعہ العربیہ لاھور، 2000ء، ص121
  5. پروفیسررام سروف کوشل، دس گروصاحبان، دی پنجاب سکول سپلائی ڈپوموھن لال روڈ لاھور، 1915ء، ص21
  6. گروناناک سوانح عمری ھربنس سنگھ، ص133
  7. راگ ماجھ، گرو گرنتھ، ناشر بھائی چرتر سنگھ بازر مائی سیواں امرتسر، ص93
  8. صوفی غلام قاسم سرور، تذکرہ بابانانک، ص65-66، مزید دیکھئے، تواریخ گروخالصہ، گیان سنگھ گیانی، 1/522
  9. گرو ناناک، جودھ سنگھ نیشنل بک ٹرسٹ، دہلی انڈیا، 1974ء، ص12
  10. History of Sikhs by Hari Ram Gupta, Vol 1, page 113, Printed and Published by Munshiram Manoharlal, Publisher Pvt. Ltd, Post Box # 5715 Rani Jhansi Road, New Delhi India, year 1984.
  11. کھنیا لال ھندی، تاریخ پنجاب، مرتبہ کلب علی خان فائق، مجلس ترقی اردو کلب روڈ لاھور، ص23
  12. اقبال صلاح الدین، تاریخ پنجاب، مطبع عزیز اردو با زا ر لا ہور، 1988ء، ص379-380
  13. History of Sikhs by Hari Ram Gupta, Vol۔1, page 113
  14. Encyclopedia of Britannica, Vol: 1, printed Chicago University USA, 15 Eudation, 1985, p 399 Encyclopedia of Religion by Mircea Eliade, Vol. 13, 1987, Madillan, Publishing Company New york, 1917, vol. 1, p318 گور مکھی کا مطلب ہے گرو کے منہ سے نکلی ہوئی بات ۔ اور اسی زبان سے انگد نے بابا نانک کا منظوم کلام لکھا اور اپنی اولاد کو سکھایا ۔ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ گرو انگد نے بابا نانک کے حکم پر یہ زبان ایجاد کی۔
  15. A History of the Sikhs by Khushwant Singh, Oxford university Press, Bombay, 1991, Vol: 1, p50
  16. اردو انسائکلوپیدیا ایک جلد میں، اشاعت دوم، طبع فیروز سنز لاھور، 1984ء، ص22 Secred Writing of the World Great Religion by S. E. Frost, published by New Home Library New Yourk USA, p355
  17. ہندو مت میں شوہر کے مرنے کے بعد اس کے جسم کے جلانے کے ساتھ ساتھ اس کی زندہ بیوی کو اس آگ میں زندہ جلا نے کی رسم مشہور تھی جو کہ سکھوں میں بھی چلی آرہی تھی ۔
  18. سیدعبدالطیف، تاریخ پنجاب، مطبعہ ان پریس، لاھور، 1994ء، ص 506۔دائرہ المعا رف الاسلامیہ، جلد 11، دانشگاہ پنجاب لاھور، ص 109
  19. History of Sikhs by Hari Ram Gupta Vol 1, page 121، لا لہ ہر ی رام گپتا، سکھ دھرم کی پھلواری، ایم ۔ اے ۔ بی ۔ ٹی، انڈین پریس لمیٹڈ آلہ آبا د، ص51
  20. History of the Sikhs by Hari Ram Gupta, Vol 1, page 122 ایضا۔اکرام علی ملک، تا ریخ پنجاب، ص 108
  21. فاروقی، عمادالحسن، دنیا کے بڑے مذاھب، ص 216
  22. گیا ن سنگھ گیا نی، توا ریخ گرو خالصہ، مطبع وزیرِ ہند امرتسر، اشاعت سوم، 1896 ء، ص 83
  23. History of the Sikhs by Hari Ram Gupta, Vol۔1, page 126 ایضا: عباد اللہ گیانی، سکھ گرو صاحبان اور مسلمان، ایک تاریخی جائزہ، بغیر سن طباعت اور مقام طباعت، ص79
  24. امرتسر کی وجہ تسمیہ کے با رے میں سکھ ادب میں عجیب و غریب قصے کہا نیا ں مشہو ر ہیں ۔ لغوی طور پر اس کے معنیٰ آب حیا ت اور ابدی حو ض مراد ہیں ۔
  25. History of Sikhism by Hari Ram Gupta, Vol۔1, p128-129
  26. احمد شا ہ ابدا لی، نا در شاہ بادشاہ کے قتل کے بعد افغانستا ن کا فرمانروا بنا ۔ جس کی حکو مت 1747 ء سے 1773 ء تک رہی، جس کا تعلق افغا نستان کے ابدا لی خا ندان تھا اس نے ہندوستان پر کئی دفعہ حملے کئے اور 1761ء کے مشہور حملے میں پانی پت کے میدا ن میں مرہٹوں کو شکست فاش سے دو چار کیا ۔ قندھار، کابل پشاور اور پنجاب کو فتح کر نے کے بعد اس نے دہلی کو بھی فتح کیا اور افغا نستا ن سے دہلی تک ایک طویل و عریض حکومت کی بنیا د ڈالی ۔اردو انسائیکلو پیڈیا، ص 57۔ قو می ڈا ئجسٹ سکھ نمبر، ص 114
  27. سیدعبدالطیف، تا ریخ پنجا ب، ص 508
  28. Guru Nanak Founder of Sikhism by Dr. Trilochan Singh, Gurdawara Parbandhak, Committee Sis Ganj, Chandni Chwok, Delhi, Printed by united India Press, link House Bahadurshah Zafar Marg, Edition 1st Edition, New Dehli-1969, page 13
  29. A brief Account Of the Sikh by Ganda Sing, publishd by Shiromani Gurdwara Parbandhak committee Amritsar India, 1956, p5
  30. گیان سنگھ گیانی، تواریخ گرو خالصہ، ج 1، ص92-93
  31. سیدعبدالطیف، تا ریخ پنجا ب، ص 510
  32. History of the Sikhs by Khushwant Singh, Oxford University Press, Bombay, India, Vol. 1, p57-58
  33. لا لہ ہر ی رام گپتا، سکھ مذہب کی پھلوا ری، ص 82-83 لغوی لحاظ سے قدیم اور تایخ کے معنی ٰ میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور ہندومت کی اصطلاح میں بیاس جی کی تصنیف ہے۔ ان پرانوں کی تعداد اٹھا رہ تک پہنچتی ہے ۔ دیکھئے " ہندی اردو لغت "، را جہ جیسور راؤ اصغر، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، 1993ء، ص154
  34. History of the Sikhs by Khushwant Singh, Oxford University Press, Bombay, India, Vol. 1, p61
  35. گیان سنگھ گیانی، تواریخ گرو خالصہ، ج 1، ص88
  36. ایضاً، ص112
  37. اقبال صلاح الدین، تا ریخ پنجاب، ص 391
  38. آکال تخت: بنیا دی طور پر وہ مقام ہے جہا ں پانچواں گرو ارجن تشریف رکھتا تھا اور ہر ی مندر کی تعمیر کے وقت مزدو رو ں اور تعمیر کی نگرا نی کر تا تھا تو گرو ہر گوبند نے اس مقام پر گرو ارجن کی یا دگار کے طور پر ایک عظیم الشان محل تعمیر کیا ۔ جہاں پر بعد میں دسویں گرو گوبند سنگھ نے سکھوں کی مقدس کتا ب گرو گرنتھ کے رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ ایضا، قو می ڈا ئجسٹ سکھ نمبر، ص 114-115 See also: History of Sikhs by Hari Ram Gupta Vol: 1 p57
  39. History of Sikhs by Hari Ram Gupta, Vol 1, p158
  40. گیان سنگھ گیانی، تواریخ گرو خالصہ، ج 1، ص140
  41. ایضاً، ص 141
  42. دا را شکوہ: شہنشاہ شا ہجہا ں کا بڑا بیٹا تھا ۔ جو اجمیر میں پیدا ہوا اور 1633 ء میں بادشاہ کا ولی عہد بنا ۔ بادشاہ شا ہجہا ں کی زندگی میں دارا شکوہ اور شہنشاہ اور نگزیب کے درمیان حکو مت یعنی پا یہ تخت کے لئے معرکہ آرا جنگ ہوئی جس میں شکست دارا شکوہ کا مقدر ٹھہری ۔
  43. اکرام علی ملک، تاریخ پنجاب، ص 112
  44. عباد اللہ گیا نی، سکھ گرو صا حبا ن اور مسلما ن، ایک تا ریخی جائزہ، ص 161-162
  45. سیدعبدالطیف، تا ریخ پنجا ب، ص 517
  46. مسعود الحسن خان، تا ریخ پاک وہند 1707 ء سے 1857 ء تک، طبع نیو بک پیلس لاہو ر، ص32
  47. دہلی سے چا لیس کلو میٹر کے فاصلے پر دریا ئے جمنا کے کنا رے گرو ہری کرشن کی مرڑی بنا ئی گئی ۔
  48. عباد اللہ گیا نی، سکھ گرو صاحبان اور مسلمان ایک تاریخی جائزہ، ص 167
  49. ہر گوبند کے پانچ بیٹوں کے نام یہ ہیں: 1۔ گوردتھا 2۔ صورت سنگھ 3۔ امرت 4۔ اتل رام 5۔ تیغ بہادر۔ سید عبد الطیف، تاریخ پنجا ب، ص 516 ۔ سید اصغر علی جعفری، تاریخ پنجا ب، مطبع الکتاب، لاہور، ص 256-257
  50. اقبال صلاح الدین، تاریخ پنجاب، ص 392
  51. سیدعبدالطیف، تا ریخ پنجا ب، ص 510
  52. اردو انسا ئیکلو پیڈیا، ص 156
  53. اکرام علی ملک، تا ریخ پنجا ب، ج1، ص 114
  54. احمد عبد اللہ المسدوسی، مذاھب عالم ایک معاستی و سیاسی جائزہ، مکتبہ خدام، اشاعت اول، کراچی، 1958ء، ص321
  55. اقبال صلاح الدین، تاریخ پنجاب، ص 395
  56. سیدعبدالطیف، تا ریخ پنجا ب، ص 523
  57. اکرام علی ملک، تا ریخ پنجا ب، ج1، ص114
  58. انبالہ: ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کا ایک مشہور شہر ہے۔ اردو دائرہ المعارف الاسلامیہ، ج 3، ص 298
  59. اقبال صلاح الدین، تاریخ پنجاب، ص 396
  60. یہ انڈیا کے صوبہ پنجاب میں واقع مشہور شہر ہے۔
  61. گیان سنگھ گیانی، تواریخ گرو خالصہ، ص17 See also: History of the Sikhs by Khushwant Singh Vol, p78.
  62. یہ مقبوضہ کشمیر میں ایک دیہا ت کا نام ہے اس وقت کی تا ریخ کے اعتبا ر سے ۔
  63. اقبال صلا ح الدین، تاریخ پنجا ب، ص 396۔ ایضا: "المسوعۃ المیسیرۃ فی الادیان و المذاھب المعا صرۃ " الندوۃ العالمیۃ للشباب الاسلامی، الریاض المکۃ العربیۃ، سعودیہ، طبع دوم، ص228 See also: A Popular Dictionary of Sikhism, by W. Owen Cole and Paira SinghSambha 1st published London, 1990, p114
  64. عماد الحسن فاروقی، دنیا کے بڑے مذا ھب، ادیان العالم بین الحقیقۃ والاسطوہ فوزی محمد حمید، ص 223 History of the Sikhs Khushwant Singh Vol. 1, p79
  65. اقبال صلاح الدین، تاریخ پنجاب، ص 397
  66. گیان سنگھ گیانی، تواریخ گرو خالصہ، ص212
  67. کھنیا لال ہندی، تاریخ پنجا ب، مرتبہ گلاب علی خان فائق، مجلس ترقی ادب، کلب روڈ لا ہور، ص 67
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...