Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 2 of Rahat-ul-Quloob

ہبہ مشاع اور غیر مشاع میں قبضہ |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

اسلام اللہ تعالی کا ایسا دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو بے یار ومددگار نہیں چھوڑتا۔قدم قدم پر اپنے پیروکاروں کی راہنمائی کرتا ہے اور ان کو وہ راستے بتاتا ہے جو انہیں اللہ تعالی کی خوشنودی تک لے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ ہر شعبہ زندگی میں بنیادی قوانین فراہم کرتا ہے تاکہ اہل علم مسلمان ان قوانین کو دیکھ کر اور ان کی روح کو سمجھ کر نئے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کر سکیں اور دوسرے مسلمانوں کو بتا سکیں۔ انہی شعبائے زندگی میں سے ایک شعبہ معاملات کا ہے، جس میں اسلام کے قوانین واضح اور قابل عمل ہیں۔ معاملات میں ایک موضوع جس سے روزمرہ زندگی میں بہت سارے مسلمانوں کو واسطہ پڑتا ہے وہ ہے ’ہبہ‘(Gift)ہبہ کیا ہے؟ اس کی ضرورت واہمیت کتنی ہے؟ اور فقہی اعتبار سے ہبہ کب مکمل ہوتا ہے ؟ کیا اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو یہ کہہ دے کہ میں یہ چیز آپ کو تحفہ یا ہبہ میں دیتا ہوں تو کیا دوسرا شخص اس چیز کا مالک ہو جائے گا؟ اور کیا وہ اس سے فائدہ حاصل کرنے اور اس کا نقصان برداشت کرنے میں اکیلا ہوگا یا اس کو تحفہ یا ہبہ دینے والا بھی اس میں اس کے ساتھ شریک ہوگا؟اور ہبہ کے اس معاملے میں کس نقطہ پر یہ کہا جائے گاکہ ہبہ کی گئی چیز ہبہ دینے والے کی ملکیت سے نکل کر ہبہ لینے والے کی ملکیت میں داخل ہو چکی ہے اور اب اس چیز سے متعلق ساری ذمہ داریاں اس دوسرے شخص پر عائد ہوتی ہیں؟اسی نقطہ کو فقہی اصطلاح میں’قبضہ‘کا نام دیا جاتا ہے ۔اس مقالہ میں مذکورہ بالا سوالات کے جوابات اور قبضہ سے بحث کی جائے گی۔

 

ہبہ کی لغوی تعریف:
علی حیدرنے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام‘‘میں ہبہ کی لغوی تعریف یوں بیان فرمائی ہے:

 

الھبۃ:فی اللغۃ ھوالتفضل والاحسان بشیء ینتفع بہ الموھوب لہ ای المعطی لہ سواء اکان ذالک الشیء ما لاکھبۃ شخص لاۤخرفرسا ام غیرمال کقول الانسان لاۤخرلیھب اللہ لک ولدک،مع ان ولدذالک الشخص حرلیس بمال۔1

 

ترجمہ:ھبہ:لغت میں ہبہ کہتے ہیں کسی پر کسی چیزکے ذریعہ سےفضل و احسان کرنے کو جس سے موھوب لہ (جس کو ہبہ کیا گیا) فائدہ اٹھا سکے، چاہے وہ چیز مال ہوجیسے کوئی شخص کسی کو گھوڑا ہبہ کرے یا وہ چیز مال نہ ہو جیسے کوئی انسان دوسرے کو کہے : اللہ تعالی آپ کو اولاد ہبہ کرے، باوجود اس کے کہ اس شخص کی اولاد آزاد ہے مال نہیں ہے ۔

 

قرآن پاک میں لفظ ہبہ:
لفظ ’ہبہ‘بطور اسم تو قرآن پاک میں استعمال نہیں ہوا ، البتہ بطور فعل استعمال ہوا ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

 

رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ۔2

 

ترجمہ:اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ نہ فرمااور ہمیں اپنی رحمت عطا فرما، بے شک آپ خوب عطا کرنے والے ہیں۔

 

اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو یوں بیان فرمایا گیا ہے:

 

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ۔3

 

ترجمہ:تعریف ہے اس ذات کی جس نے بوڑھاپے میں مجھے اسماعیل اور اسحاق عطا کیے ، یقینا میرا رب خوب دعائے سننے والا ہے ۔

 

احادیث میں لفظ ہبہ :
صحیح مسلم میں ہے:قال العائدفی ھبتہ کالکلب یقیء ثم یعود فی قیئہ۔4

 

ترجمہ:رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے ہبہ میں رجو ع کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ کتا قی کرے اور پھر اپنی قی کو چاٹے۔

 

ایک اورحدیث میں ہےکہ:

 

عن جابر قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: من كانت له أرض فليهبها أو ليعرها5۔

 

ترجمہ:حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺکو فرماتے ہوئے سنا: جس کے پاس زمین ہوتو اسے چاہیے کہ اسے ہبہ کر دے یا اس کو عاریت پہ دے دے۔

 

ہبہ کی اصطلاحی تعریف:
ہبہ کی اصطلاحی تعریف یوں بیان کی جاتی ہےکہ :

 

وفي الشرع تمليك العين بلا عوض۔6

 

ترجمہ:شریعت میں بلا عوض کسی چیز کے مالک بنانے کو ہبہ کہتے ہیں۔

 

مذکورہ تعریف سے معلوم ہوا کہ ہبہ عقود معاوضہ میں سے نہیں ہےبلکہ عقود تبرع میں سے ہے ، اگر ہبہ دونوں طرف سے ہویا عوض کی شرط لگا دی جائے تو وہ ہبہ خریدو فروخت کا معاملہ بن جاتا ہے ، اور اس پر خرید وفروخت کے احکام جاری ہوتے ہیں۔

 

ہبہ کی ضرورت واہمیت:
حضرت محمد ﷺنے ہبہ کی ضرورت اور اہمیت کواپنے قول اور فعل سے واضح فرمایاہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

 

عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: تهادوا تحابوا۔7

 

ترجمہ:حضرت ابو ہریرۃ سے روایت ہے، فرمایا: رسول اللہ ﷺکا ارشادہے: آپس میں ہبہ دو اورمحبت پیدا کرو۔

 

اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ معاشرے میں محبت اور الفت پیدا کرنے کا نسخہ یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیے جائیں۔ ایک دوسری حدیث میں آنحضرت ﷺنے ہبہ دینے کا ایک اور فائدہ بتایا ہے کہ اس سے دلوں میں بھرے بغض اور عداوت کے جذبات کو ختم کیا جاسکتاہے۔ ارشادہے:

 

عن أبي هريرة:عن النبي ﷺقال: تهادوا فإن الهدية تذهب وحر الصدر ولا تحقرن جارة لجارتها ولو شق فرسن شاة۔8

 

ترجمہ:حضرت ابو ہریرۃ سے روایت ہے کہ حضرت محمدﷺنے فرمایا: آپس میں ہبہ دیا کرو یہ(عمل) دلوں کے بغض کو دور کرتا ہے ۔ کوئی ہمسائی کسی دوسری ہمسائی کے معاملہ میں (ہبہ کرتے وقت) بکری کے گھر کو بھی ہرگز چھوٹا نہ سجھے۔

 

حضرت محمد ﷺکی مذکورہ بالا دونوں احادیث ہبہ کے بارے میں دو اہم فائدے بیان کرتی ہیں ۔ ایک محبت کا پیدا کرنا اور دوسرا باہمی بغض وعناد کے جذبات کا خاتمہ کرنا۔ آنحضرت ﷺکی ہبہ کرنے کی عادت مبارکہ بھی تھی ۔ ایک مثال یہاں ذکر کی جاتی ہے۔ حضرت محمدﷺکا نجاشی کو ہبہ کرنا اور پھر جب وہ مال نجاشی کی موت کی وجہ سے واپس آنے والا تھا تو آپﷺنے واپس آنے سے پہلے ہی اسے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو ہبہ کردیا۔

 

روى الحاكم في صحيحه أنهﷺأهدى إلى النجاشي ثلاثين أوقية مسكا ثم قال لأم سلمة إني لأرى النجاشي قد مات ولا أرى الهدية التي أهديت إليه إلا سترد فإذا ردت إلي فهي لك فكان كذلك۔9

 

حاکم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے تیس اوقیہ مسک ہدیہ بھیجا، پھر ام سلمہ سے فرمایا: نجاشی فوت ہو چکے ہیں اور میرے خیال میں وہ ہدیہ جو میں نے ان کو کیا تھا وہ واپس آئے گا،اور جب وہ میرے پاس لوٹایا جائے گاتو وہ آپ کا ہوگا اور اسی طرح ہوا۔ان مذکورہ بالاقولی اور فعلی احادیث سے ہبہ کی ضرورت واہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

 

ہبہ کی اقسام:
منطقی طور پر اشیاء کی دو قسمیں ہیں: 1: موجود2: معدوم

 

انہی دو اقسام کے اعتبار سے ہبہ کی بھی دو قسمیں ہیں: 1: موجود چیز کا ہبہ 2: معدوم چیز کا ہبہ

 

موجود چیز کا ہبہ:
موجود چیز کے ہبہ کرنے کی بھی دو صورتیں ہیں: 1: قابل تقسیم چیز کا ہبہ 2: غیر قابل تقسیم چیز کا ہبہ

 

قابل تقسیم ان چیزوں کو کہا جاتا ہے کہ جن کو تقسیم کرنا ممکن ہواور ان کے تقسیم کرنے کے بعد بھی ان سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہو، اور اگر کوئی چیز ایسی ہو کہ اس کو تقسیم کرنا ممکن ہی نہ ہو یا تقسیم کرنے کے بعد اس سے تقسیم سے پہلے والا فائدہ حاصل نہ کیا جاسکے تو اسے غیر قابل تقسیم یا ناقابل تقسیم کہا جاتا ہے ۔ آنے والے عنوان کے تحت صرف ان چیزوں کے ہبہ سے متعلق بات کی جائے گی جو قابل تقسیم ہواور ناقابل تقسیم اشیاء کے ہبہ کےبارے میں اگلے عنوان میں بات کی جائے گی۔آگے بڑھنے سے پہلے دو اصطلاحات کا جان لینا ضروری ہے، تاکہ آنے والی بحث واضح ہو جائے۔ وہ دو اصطلاحات ہیں۔ مشاع اور ہبہ مشاع۔

 

مشاع اور ہبہ مشاع:

 

اگر کسی چیز کےحصےمتعین نہ ہوں اوروہ ایک سے زائد لوگوں کی ملکیت میں ہو تو اسے مشاع کہتے ہیں اسی طرح اگر کوئی چیز ایک سے زائد لوگوں کو دی جائے اور ان کی ملکیت کے حصے اس کے اندر متعین نہ ہوں، تب بھی اس کومشاع کہا جاتا ہے۔ اس تفصیل کے مطابق ہبہ مشا ع اس ہبہ کو کہا جاتا ہے جس میں ہبہ کرنے والا کوئی چیز جو صرف اسکی ملکیت ہو وہ ایک سے زائد لوگوں کوتقسیم کیےبغیر اکھٹے ہبہ کردے اور دوسری صورت یہ ہےکہ وہ چیز ہبہ کرنے والےاوردوسروں کے درمیان مشترک ہو اور وہ اس کو ہبہ کردے۔

 

قابل تقسیم چیزکاہبہ:
قابل تقسیم چیز کی پھر دو صورتیں ہیں:

 

1: قابل تقسیم چیز کا تقسیم سے پہلے ہبہ2:قابل تقسیم چیز کا تقسیم کے بعد ہبہ

 

دوسری قسم یعنی قابل تقسیم چیز کا تقسیم کے بعد ہبہ تو بالاتفاق جائز ہے ، البتہ پہلی قسم یعنی قابل تقسیم چیز کا تقسیم سے پہلے ہبہ کے بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔آیئے اس اختلاف کو ان کے دلائل کے ساتھ دیکھتے ہیں۔

 

قابل تقسیم چیزکاتقسیم سےپہلےہبہ:

 

احناف کا مذہب:
احناف کا مذہب مشاع چیز کے ہبہ کرنے کے بارے میں یہ ہے کہ تقسیم کیے بغیر اس کا ہبہ درست نہیں۔علامہ ابن نجیم ’بحر رائق‘ میں فرماتے ہیں :

 

ہبۃ المشاع الذی یمکن قسمتہ لا تصح۔10ایسی مشاع چیز کاہبہ جس کو تقسیم کرنا ممکن ہو صحیح نہیں۔

 

مالکیہ کامذہب:
ان کے مطابق مشاع چیز کا ہبہ جائز ہے۔جائز ھبۃ المشاع۔ 11مشاع چیز کا ہبہ جائز ہے ۔

 

شافعیہ کامذہب:
ان حضرات کے نزدیک مشاع چیز کا ہبہ تقسیم سے پہلے صحیح ہے۔

 

تصح ھبۃ المشاع ولو قبل القسمۃ۔ 12

 

ترجمہ:مشاع چیز کا ہبہ اگرچہ تقسیم سے پہلےہو صحیح ہے۔

 

حنابلہ کامذہب:
ان کے ہاں بھی مشاع چیزکاہبہ درست ہے ۔

 

وتصح هبة المشاع من شريكه ومن غيره منقولا كان أو غيره ينقسم أولا۔13

 

ترجمہ:شریک اور اس کے علاوہ کو مشاع چیز کا ہبہ کرنا درست ہےچاہے وہ منقول ہویا غیر منقول ہو، چاہے وہ قابل تقسیم ہو یا غیر قابل تقسیم ہو۔

 

اہل تشیع کامذہب:
ان کے ہاں بھی ہبہ مشاع صحیح ہے۔وتصح هبة المشاع كبيعه14۔مشاع کی بیع کی طرح اس کا ہبہ بھی صحیح ہے۔

 

قابل تقسیم مشاع چیز کا تقسیم سے پہلے ہبہ سوائے حنفی مذہب کے باقی تمام مذاہب میں جائز ہےاور یہی اس بحث کا خلاصہ اور نتیجہ ہے۔

 

غیرقابل تقسیم چیزکاہبہ:

 

غیر قابل تقسیم مشاع چیز کےہبہ کے متعلق تمام ائمہ کرام اور تمام مذاہب کا اتفاق ہے کہ ایسا ہبہ صحیح ہے۔ احناف کے علاوہ باقی حضرات تو جس طرح قابل تقسیم چیز کے تقسیم سے پہلے ہبہ کے جواز کے قائل ہیں ، اسی طرح ان کے نزدیک ناقابل تقسیم چیز کا ہبہ بھی جائز ہے اور احناف صرف غیر قابل تقسیم چیز کے ہبہ کو جائز فرماتے ہیں ، کیونکہ اس معاملے میں تقسیم کی شرط لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اس لیے کہ ان کے ہاں قابل تقسیم چیزوں کے ہبہ کے مکمل ہونے کیلئے قبضہ ضروری ہے،تاکہ جس کو ہبہ کیا گیا ہے وہ اس سے قبضہ کرنے کے بعد اس چیز سے مستقل طور پر فائدہ اٹھا سکے ، جبکہ نا قابل تقسیم چیز سے فائدہ کی صورت صرف مہایاۃ(باری باری ) ہے ، جس کے لئے قبضہ کی ضرورت نہیں۔

 

معدوم چیز کا ہبہ:

 

اس عنوان کے تحت اس بات سے بحث کرنا مقصود ہے کہ معدوم چیز کو ہبہ کرنے کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے، کیونکہ معدوم چیز کے ہبہ کی صورت میں فی الفور اس پر قبضہ کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔ آیئے ائمہ کرام کی آراء کا جائزہ لیتے ہیں:

 

احنافؒ کی رائے :
احناف کےنزدیک معدوم چیز کا ہبہ باطل ہے ، اور اگر اس ہبہ کی گئی چیز کو بعد میں سپر دبھی کر دیا جائے تب بھی اس پرانے عقد کی بنیاد پر یہ ہبہ درست نہیں ہوگا۔بحر رائق میں ہے:

 

( وإن وهب دقيقا في بر لا وإن طحن وسلم ) أي لا تصح الهبة وأشار به إلى أن هبة المعدوم تقع باطلة فلا تعود صحيحة بالتسليم۔ 15

 

ترجمہ: (اور اگر کوئی گندم کے اندر موجو د آٹا ہبہ کرے تو یہ صحیح نہیں اگرچہ اس کو پسوائے اور سپرد کردے) یعنی ہبہ درست نہیں ہو گا او ر اس مسئلہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیاہے کہ معدوم چیز کا ہبہ باطل ہوتا ہے اور سپر د کرنے سے بھی صحت کی طرف لوٹ کر نہیں آتا۔

 

مالکیہؒ کی رائے :
ان حضرات کے مطابق ایسی معدوم چیز کا ہبہ جائز ہےکہ جس کے وجود کی توقع ہو۔ ابن رشدؒ فرماتے ہیں:

 

لا خلاف في المذهب في جواز هبة المجهول والمعدوم المتوقع الوجود۔ 16

 

ترجمہ:ایسے ہبہ کےجواز میں کوئی اختلاف نہیں ہےکہ جو مجہول ہواور ایسا معدوم ہو کے جس کے وجود کی توقع ہو۔

 

شوافع کی رائے :
ان کی رائے بھی یہ ہے کہ معدوم چیز کا ہبہ جائز نہیں۔

 

وما لا يجوز بيعه من المجهول ومالايقدر على تسليمه ومالم يتم ملكه عليه كالمبيع قبل القبض لاتجوز هبته17

 

ترجمہ: جس مجہول چیز کی بیع جائز نہیں اور جس کی سپردگی پر قدرت نہ ہواور جس چیز پر ملکیت مکمل نہ ہوئی ہوجیسے قبضہ سے پہلے والی مبیع(ان سب کا) ہبہ جائز نہیں ہے۔

 

حنابلہؒ کی رائے:
ان حضرات کے ہاں بھی معدوم چیز کا ہبہ جائز نہیں۔

 

لا تصح هبة المعدوم كالذي تحمل امته أو شجرته۔ 18

 

ترجمہ:معدوم کا ہبہ صحیح نہیں ہے جیسے جو اس کی باندی کا حمل ہو یا جو درخت پر آئے(اس کا ہبہ)۔

 

اہل تشیع کی رائے:
ان کے ہاں بھی معدوم چیز کا ہبہ صحیح نہیں ۔

 

(والشرط الثالث : کون الموھوب مما یصح بیعہ مطلقاوالا فلا) تصح ھبتہ۔19

 

ترجمہ: (ہبہ کے درست ہونے کی ) تیسری شرط:ہبہ کی جانے والی چیز ایسی ہو کہ اس کی مطلق بیع صحیح ہواور اگر ایسا نہ ہو تو اس کا ہبہ درست نہیں۔

 

یہ بات تو واضح ہے کہ معدوم چیز کی بیع جائز نہیں ، اسی طرح معدوم چیز کا ہبہ بھی جائز نہیں۔

 

خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ اکثر حضرات کی رائے کے مطابق معدوم چیز کا ہبہ جائز نہیں ، البتہ امام مالک ؒ کے نزدیک اس چیز کاہبہ جائز ہے جس کے وجود میں آنے کی توقع ہو۔اور نتیجہ یہ ہے کہ:معدوم چیز کاہبہ جائز نہیں۔

 

ہبہ کیلئے قبضہ کاشرعی حکم:

 

ہبہ کےمعاملہ میں قبضہ کے شرط ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالی کا اختلاف ہے۔آیئے ان حضرات کے مذاہب اور دلائل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

 

احناف کامذہب:

 

حنفی مذہب میں ہبہ کی صحت کے لیے قبضہ شرط ہے ، اس بات کو علامہ ابن نجیم ؒ نے یوں بیان فرمایا ہے:

 

في الموهوب أن يكون مقبوضا 20ہبہ کی جانے والی چیز میں شرط یہ ہے کہ وہ قبضہ کی گئی ہو۔

 

احناف کے دلائل:

 

پہلی دلیل حضرت ابوبکر صدیق کا واقعہ ہے کہ آپ ؓ نے وفات سے قبل اپنی بیٹی حضرت عائشہسے فرمایا تھا: اے میر ی بیٹی ! میرے نزدیک آپ سے زیادہ کسی کا مالدار ہونا پسند نہیں اور نہ ہی آپ سے زیادہ کسی کی مفلسی مجھ پر بھاری ہے ، میں نے آپ کو اپنی غابہ کی زمین میں سے بیس وسق دیے تھے ، اگر آپ وہ بیس وسق کاٹ لیتیں اور اپنے پاس محفوظ کر لیتیں تو وہ آپ کے ہوتے ، لیکن آج وہ

 

ورثاء کا مال ہے اور وہ تمہارے بھائی اور تمہاری بہنیں ہیں تو اسے اللہ تعالی کے حکم کے مطابق تقسیم کریں۔21

 

دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو بکر اورحضرت عمر نے تقسیم اور قبضہ کو ہبہ کے جائز ہونےکیلئے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کی موجودگی میں ضروری قرار دیا اور کسی نے اس بات پہ نکیر نہیں کی ، تو گویا ہبہ کے لازمی ہونے پر ان حضرات کا اجماع ہو گیا ۔

 

اسی طرح چاروں خلفاء اور حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنھم سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا ہبہ قبضہ کے بغیر جائز نہیں۔ ان کی اس بات پر کوئ اختلاف منقول نہیں ہے اس سے ہبہ کے اندر قبضہ کے ضروری ہونے پر واضح ثبوت موجود ہے ۔22

 

شوافع کامذہب:

 

ان کے ہاں بھی ہبہ کے لازم ہونے کے لیے قبضہ شرط ہے ، اس کو شربینی خطیب ؒ نے یوں بیان فرمایا ہے :

 

لاتلزم الھبہ الصحیحۃ الا بالقبض۔ 23ہبہ صحیحہ قبضہ کے بغیر لازم نہیں ہوتا ۔

 

شوافع کےدلائل:

 

ان کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :

 

روى الحاكم في صحيحه أنهﷺأهدى إلى النجاشي ثلاثين أوقية مسكا ثم قال لأم سلمة إني لأرى النجاشي قد مات ولا أرى الهدية التي أهديت إليه إلا سترد فإذا ردت إلي فهي لك فكان كذلك24

 

ترجمہ:حاکم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺنے تیس اوقیہ مسک ہدیہ بھیجا، پھر ام سلمہ سے فرمایا: نجاشی فوت ہو چکے ہیں اور میرے خیال میں وہ ہدیہ جو میں نے ان کو کیا تھا وہ واپس آئے گا،اور جب وہ میرے پاس لوٹایا جائے گاتو وہ آپ کا ہوگا اور اسی طرح ہوا۔

 

اس سے معلوم ہوا کہ ہبہ کے الفاظ ادا کرنے اور اسے موہوب لہ کے پاس بھیجنے کے باوجود ہبہ مکمل نہیں ہوا اور وہ دوبارہ آپ ﷺکے پاس بھیج دیا گیااور حضرت محمدﷺنے اس کو دوبارہ قبول فرما کے آگے دوسرا ہبہ کا عقد نافذ فرمایا۔ اوردوسری دلیل وہ ہے جو احناف کے دلائل میں بیان ہوئی ۔

 

حنابلہ کامذہب:

 

حنابلہ کے نزدیک بھی ہبہ کے لزوم کے لیے قبضہ ضروری ہے ، ورنہ ہبہ لازم نہیں ہو گا۔

 

وتلزم بالقبض25۔ہبہ قبضہ سے لازم ہوتا ہے ۔

 

حنابلہؒ کے دلائل:

 

ان حضرات نے بھی انہیں دلائل سے استدلال کیا، جو احنافؒ کے مذہب کے بیان میں ذکر کیے گئے ہیں۔26

 

مالکیہ کا مذہب:

 

ان کے نزدیک ہبہ کے تام ہونے کیلئے قبضہ ضروری ہے ، اس کی صحت کیلئےضروری نہیں ابن رشد ؒ فرماتے ہیں:

 

القبض عنده في الهبة من شروط التمام لا من شروط الصحة۔ 27

 

رہے امام مالک ؒ تو ان کے نزدیک ہبہ کے معاملے میں قبضہ اس کو تام کرنے والی شروط میں سے ہے ، اس کی صحت کی شروط میں سے نہیں ہے ۔ان کے نزدیک ہبہ لازم تو صرف عقد کرنے سے ہی ہو جاتا ہے ، البتہ ہبہ تام قبضہ کے ذریعہ ہوتا ہے ۔

 

یہاں ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ امام مالک ؒ کے ہاں کیلی اور وزنی چیزوں کےاندرہبہ کے تام ہونےکیلئے قبضہ کی ضرورت ہے۔

 

مالکیہ کےدلائل:

 

لأنه إزالة ملك بغير عوض فلزم بمجرد العقد الوقف والعتق وربما قالوا تبرع فلا يعتبر فيه القبض كالوصية والوقف ولأنه عقد لازم ينقل الملك فلم يقف لزومه على القبض كالبيع۔28

 

ترجمہ:چونکہ ہبہ بغیر عوض کے ملکیت کو زائل کرنے کا نام ہے، اس لیے یہ وقف اور غلام کو آزاد کرنے کی طرح صرف عقد سے ہی مکمل ہو جائے گااورکبھی کہتے ہیں کہ وہ نیکی کا کام ہے تو اس میں قبضہ کا اعتبار نہیں ہے ، جیسے وصیت اور وقف ،اور اس لیے کہ وہ ایسا لازمی عقد ہے جو ملکیت کو منتقل کرتا ہے تو اس کا لازم ہونا قبضہ کرنے پر موقوف نہیں ہوگا بیع کی طرح۔

 

مذکورہ عبارت میں تین دلائل دیے گئے ہیں:

 

1: ہبہ ملکیت کو زائل کرنے والا عقد ہے ۔

 

2:ہبہ ایک نیکی کا کام ہے ۔

 

3: ہبہ اپنی ذات میں ایک لازمی عقد ہے ۔

 

فائدہ:

 

مالکیہ کے ہاں کیلی اور وزنی چیزوں میں ہبہ کے تام ہونے کے لیے قبضہ ضروری ہے ، لیکن اگر ہبہ کی جانے والی چیز کیلی یا وزنی نہ ہو تو ایسی صورت میں اس پر قبضہ کرنا بھی ضروری نہیں ، بلکہ ہبہ کے الفاظ ادا کرنے سے ہی وہ ہبہ مکمل سمجھا جائے گا۔29

 

اہل تشیع کا مذہب:

 

ان کے مطابق بھی ہبہ میں قبضہ شرط نہیں ہے ، بلکہ ہبہ کرنے والے کے کہنے اور دوسرے کے زبانی قبول کرنے پر ہبہ مکمل ہو جائے گا۔’’شرح النیل وشفاء العلیل‘‘ میں ہے :تصح ( بقبول فقط)۔ 30یعنی ہبہ صرف قبول کرنے سے صحیح ہو جاتا ہے۔

 

اہل تشیع کے دلائل:

 

وهو قول علي وابن مسعود(وھو المختار)اور یہ حضرت علی ؓاور ابن مسعودؓکا قول ہے اور یہی مختار ہے ۔

 

ان کا اشارہ اس حدیث کی طرف ہے جو’اعلاء السنن ‘ میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کی گئی ہے:

 

قال: کان علی بن أبی طالب وابن مسعود یجیزان الصدقۃ وإن لم تقبض۔31

 

ترجمہ:راوی کہتے ہیں: حضرت علی بن أبی طالب ؓ اور عبد اللہ بن مسعودؓ قبضہ کے بغیر بھی صدقہ کو جائز قرار دیتے تھے۔

 

مختصر یہ کہامام مالک ؒ اور اہل تشیع کے نزدیک ہبہ کی صحت کے لیے قبضہ ضروری نہیں البتہ اس کے مکمل اور تام ہونے کے لیے قبضہ کی ضرورت ہے، جبکہ ائمہ ثلاثہ ؒ کے ہاں ہبہ کی صحت کےلیے ہی قبضہ ضروری ہے۔

 

نتیجہ:
اس بحث کا فرق ایسے مسئلہ میں ظاہر ہوگا جہاں مالک نے زبانی طور پرکوئی چیز ہبہ کر دی ہواور اس پر قبضہ نہ کرایا ہوں ، تو ان سب حضرات کے درمیان اس کی ملکیت کے منتقل ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں رائے مختلف ہو گی ۔جیسا کہ مالکیہ ؒ کی کتب فقہ میں ایک مسئلہ ذکر کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی چیز ہبہ کرے اور اس کے بعد قبضہ سے پہلے ہی موھوب لہ (جس کو چیز ہبہ کی گئی ) فوت ہو جائے ،تو اس کے ورثہ کو قبضہ کا حق حاصل ہوگا ، جبکہ دیگر حضرات کے نزدیک چونکہ ہبہ درست ہی نہیں ہوا تو اس پر ورثہ کے قبضہ کا حق حاصل ہونا دور کی بات ہے ۔

 

خلاصہ بحث:
روزمرہ زندگی میں ایک خوشگواراور پھلتےپھولتےمعاشرےکےہرفردکویہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ وہ تحفہ یا ہبہ دےیا اسےقبول کرے۔تو ایک مسلمان کے دل میں فوراً یہ داعیہ پیداہوتاہےکہ وہ کیوں نہ اس عمل کے بارے میں اسلامی نقطہ نظرسے واقف ہو۔اس داعیہ کوپوراکرنےکی غرض سےیاتووہ خودقرآن وحدیث یا پھر اسلامی علمی موادکی طرف رجوع کرتاہےبشرطیکہ وہ خود ان ذرائع علم سےاستفادہ کرنےکی صلاحیت رکھتاہواوریاپھروہ کسی علم والےکےپاس اپنے اس داعیہ کی تسکین کیلئے پہنچتاہے۔

 

مندرجہ بالا مقالے میں تمام مسلمانوں کے ایسےہی داعیہ کی تسکین کیلئےکوشش کی گئی ہےکہ وہ اپنے سوالات کےجوابات اس میں پاسکیں۔

 

ہبہ کی لغوی واصطلاحی تعریف اور قرآن وحدیث سےاس کےشواہدبیان کرنےکےبعداس سے یہ نتیجہ نکالاگیاہےکہ: ہبہ ایساعقدہےجس میں ایک انسان دوسرےکوکوئی چیزبغیرعوض کےمالک بناکردیتاہے۔مالک بنانے کے بعددوسراشخص اس کےنفع اور نقصان دونوں کاذمہ دارٹھہرتاہے،جیسے وہ نفع اکیلےاٹھاتاہےاسی طرح نقصان بھی اکیلےہی برداشت کرتاہے۔ہبہ میں قبضہ کاحکم مذاہب خمسہ یعنی حنفی،مالکی،شافعی،حنبلی اور اہل تشیع کی روشنی میں ان کے دلائل کے ساتھ بیان کیا گیاہے اور ہبہ کی اہمیت کواجاگر کرنےکیلئےآنحضرتﷺ کی حیات طیبہ سےقولی وفعلی احادیث کے ذریعے بحث کی گئی ہے۔

 

 

حوالہ جات
1علی حیدر، درر الحكام شرح مجلة الأحكام، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان، ج2، ص342، رقم المادہ833

 

2 آل عمران8:3

 

3 ابراہیم39:14

 

4القشیری،مسلم ابن حجاج، الجامع الصحیح، ج3، ص1241، رقم الحدیث1622

 

5ایضاً، ج3، ص1178، رقم الحدیث1536

 

6الجرجانی،علی بن محمد بن علی،کتاب التعریفات ،لفظ بیع، دارالکتاب العربی،بیروت، 1405ھ،ص 319

 

7 أبویعلی،أحمد بن علي بن المثنى الموصلي التميمي،المسند،دار المأمون للتراث،دمشق،1404ھ،1984ء ،ج11، ص9

 

8الترمذی،أبو عیسی محمد بن عیسی،السنن، دار إحياء التراث العربي،بيروت، ج4، ص441

 

9الشربینی الخطیب،محمد،الاقناع فی حل الفاظ ابی شجاع،دارالفکر،بیروت،1415ھ، ج2، ص366

 

10ابن نجیم،زین الدین الحنفی،البحر الرائق شرح کنز الدقائق، دارالمعرفۃ،بیروت، ج7، ص286

 

11النمری القرطبی،أبو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبدالبر بن عاصم ،الکافی فی فقہ أھل المدینۃ، مکتبۃ الریاض الحدیثیۃ الریاض، المملکۃ العربیہ السعودیۃ، 1400ھ، 1980ء، ج2، ص1001

 

12 الدمیاطی،ابو بکر ابن السید محمد شطا، دارالفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع ،بیروت، ج3، ص147

 

13ابو النجا الحجاوی، شرف الدین موسی بن احمد بن موسی، دارالمعرفۃ ،بیروت،ج3، ص33

 

14العنسی الصنعانی، احمد بن قاسم،البحر الزخار الجامع لمذاہب علماء الامصار، مکتبۃ الیمن، ج10، ص287

 

15 ابن نجیم،زین الدین الحنفی،البحر الرائق شرح کنز الدقائق، دارالمعرفۃ ،بیروت، ج7، ص286

 

16ابن رشد، أبو الوليد محمد بن أحمد بن محمد بن أحمد القرطبي، بداية المجتهد و نهاية المقتصد،مصطفى البابي الحلبي ،مصر، 1395ھ، 1975ء، ج2، ص329

 

17 النووی، أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف ، المجموع شرح المھذب، کتاب البیوع، مکتبۃ الرشاد ،جدہ، ج15، ص373

 

18ابن قدامہ، عبد الرحمن، الشرح الکبیر، دارالکتاب العربی ، ج6، ص263

 

19 احمد بن یحی بن المرتضی، التاج المذہب لاحکام المذہب، دارالکتاب الاسلامی،ج5، ص173

 

20 ابن نجیم،زین الدین الحنفی،البحر الرائق شرح کنز الدقائق،ج7،ص284

 

21 عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه و سلم أنها قالت : إن أبا بكر الصديق نحلها جداد عشرين وسقا من ماله بالغابة فلما حضرته الوفاة قال والله يا بنية ما من أحد من الناس أحب إلي غني منك ولا أعز الناس علي فقرا من بعدي منك وإني كنت نحلتك جداد عشرين وسقا فلو كنت جددتيه وأحرزتيه كان لك وإنما هو اليوم مال وارث وإنما هما أخوك وأختاك فاقتسموه على كتاب الله تعالى فقالت عائشة والله يا أبت لو كان كذا وكذا لتركته إنما هي أسماء فمن الأخرى قال ذو بطن بنت خارجة أراها جارية۔ الطحاوی، أبوجعفر أحمد بن محمد بن سلامۃ بن عبد الملک بن سلمۃ ، شرح معانی الآثار، دارالکتب العلمیۃ بیروت، 1399، ج4، ص88، رقم الحدیث 5404

 

22ولنااجماع الصحابۃ رضی اللہ عنھم وھومارویناان سیدناابابکروسیدناعمررضی اللہ عنھمااعتبراالقسمۃ والقبض لجوازالنحلی بحضرۃ الصحابۃ ولم ینقل انہ انکرعلیھمامنکرفیکون اجماعاًوروی عن سیدناابابکروسیدناعمروسیدناعثمان وسیدناعلی وابن عباس رضی اللہ عنھم انھم قالوا لاتجوز الھبۃ الامقبوضۃ محوزۃ ولم یردعن غیرھم خلافہ۔الکاسانی، بدائع الصنائع،دارالکتاب العربی،بیروت، ج6، ص123

 

23الشربینی الخطیب،محمد،الاقناع فی حل الفاظ ابی شجاع،دارالفکر،بیروت،1415ھ، ج2،ص366

 

24ایضاً

 

25المقدسی،بہاؤالدین،عبدالرحمن بن ابراہیم بن احمد،العدۃ شرح العمدۃ،دارالکتب العلمیہ،بیروت،1426ھ،باب الھبۃ، ج1،ص264

 

26ایضاً

 

27ابن رشد،ابوالولیدمحمدبن احمدبن محمدبن احمد القرطبی،بدایۃ المجتہد ونھایۃ المقتصد،مصطفیٰ البابی،مصر،1395ھ، ج2،ص329

 

28ابن قدامہ،عبد الله بن أحمدالقدسی،المغني في فقه الإمام أحمد بن حنبل الشيباني،دار الفكر،بيروت، 1405ھ، ج6،ص273

 

29قال: وأماغیرالمکیل والموزون فتلزم الھبۃ فیہ بمجرد العقد، ویثبت الملک فی الموھوب قبل قبضہ۔ روی ذلک عن علی وابن مسعود،وھو قول مالک وأبی ثور۔عثمانی،ظفراحمد،إعلاء السنن،إدارۃ القرآن والعلوم الإسلامیۃ،کراچی،ج15، ص7330، 7331
30أطفیش، محمد بن یوسف بن عیسی، شرح النیل شفاء العلیل،مکتبۃ الإرشاد، ج22، ص249
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...