Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Rahat-ul-Quloob > Volume 3 Issue 1 of Rahat-ul-Quloob

یورپ میں قرآن کریم کی طباعت اور تراجم کے مختلف ادوار |
Rahat-ul-Quloob
Rahat-ul-Quloob

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060029185_1293

Pages

161-179

DOI

10.51411/rahat.3.1.2019.64

PDF URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/download/64/361

Chapter URL

https://rahatulquloob.com/index.php/rahat/article/view/64

Subjects

Orientalists Quran treatise and translation Orientalists Quran treatise and translation

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرق اور مغرب میں فاصلے خاصے سمٹ چکےتھے۔میڈیا کے ذریعے مغرب مشرق پر حملہ آور ہوچکا تھا لیکن اس کے جارحانہ انداز میں ابھی وضعداری اور سنجیدگی کا عنصر غالب تھا ۔جدید تاریخ کے اس دور میں پروان چڑھنے والے ادب اور فنون لطیفہ نے دنیا کو نئے زاویے تعارف کرائے۔پچاس کی دہائی سے لیکر اسی کی دہائی کے نصف اول کو مغرب کا کلاسیکل دور کہا جاسکتا ہے ۔یہ وہ دور ہے جب مغرب نے موسیقی ،فلم سازی صحافت،تحقیق،تصنیف میں کمال عروج حاصل کیا اور دنیا کو اس کی تقلید پر مجبورہوناپڑالیکن اسکےساتھ ایک اہم شعبہ جوامریکہ اوریورپ میں کئی صدیوں سےکام کررہاہےوہ استشراق (Orientalism) کا شعبہ ہے۔جی ہاں یہ وہی شعبہ ہےجس سےمتعلق محققین کو ہم مستشرقین(Orientalists)کے نام سے جانتے ہیں ۔اس شعبے میں یونیورسٹی کے پروفیسرزسے لیکر تعلیم یافتہ پادری بھی شامل تھے۔اوائل میں یہ شعبہ مشرقی علوم ،وہاں کی ثقافت ،زبانیں اور قوموں کے عادات و اطوار سےمتعلق تحقیق تک مختص رہا لیکن بعد میں اس کا دامن صرف اسلام اور مسلمانوں سے متعلق تحقیقات تک محدود ہوگیا اس شعبے کی ابتداء کےبارےمیں عرب اورمغربی علماء میں اختلاف ہےلیکن جمہورعلماء کا اس بات پراتفاق ہےکہ جس وقت عالم عیسائیت کو بلاد شام سے بدحواسانہ انداز میں پسپا ہونا پڑا اور اس نے مسلمانوں کو یورپ کے دروازوں تک اپنے تعاقب میں پایا تو مسلمانوں اور اسلام سے متعلق آگاہی کی خواہش کے بطن سے اس علم نے جنم لیا ۔صلیبی جنگوں کے دور میں اسلام اور عیسائیت کا ایک مرتبہ آمنا سامنا ہوا۔میدان جنگ کیسا ہی کیوں نہ ہولیکن جب دوقومیں آمنےسامنےآتےہیں توانکی ثقافت اورفکربھی رزم آراہوجاتی ہیں۔صلیبی جنگوں کے دور میں جو اثرات عرب اسلامی ثقافت کے مغربی تہذیب پر پڑے وہ اس دور کی مغربی تصنیفات میں نمایا ں ہیں۔اس طرح جو اثرات مغربی ثقافت نے عرب ثقافت پر چھوڑے وہ اس دور کی عرب شاعری اور ادب میں نمایاں ہیں۔

 

مغرب کے نزدیک اسلام اور مغرب کے درمیان ہونے والی ابتدائی معرکہ آرائیوں میں جو شعور اجاگر ہوا وہ یہ تھا کہ مشرق میں مغرب کی سرمایہ دارانہ استعماری سوچ کے سامنے اگر کوئی واحد رکاوٹ ہے تو وہ اسلامی فکر ۔کیونکہ جاپان سے لیکر غرب الہند تک کوئی مشرقی قوم اور مذہب ’’نظام‘‘ کے وصف سے متصف نہیں تھا ۔ صرف دین اسلام ہی تھاجو معاشرتی ، معاسی اور سیاسی نظام کا حامل تھا یہ صرف عبادات کا مجموعہ نہیں تھا بلکہ اس نے طبیعات اور مابعد الطبیعات کے میدانوں میں بھی اتصال پیدا کر رکھاتھا ۔انہی خدشات کی بناپر مغرب میں بڑے بڑے تحقیقی ادارے اور یونیورسٹیوں کے ڈیپارٹمنٹ تشکیل دیئے گئے جہاں پر علمی سطح پر اسلامی فکر میں نقب لگانے کے کام زوروں سے شروع ہوئے۔

 

مستشرقین کے اہداف:
اہل علم نے مستشرقین کے بہت سے مقاصد بیان کیے ہیں ،جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

 

1۔دین اسلام کی تعلیمات اور تصویر کو مسخ کرنا۔(Rudolf Rudi Pared)(1901-1983)کا کہنا ہے کہ معاصراستشراقی جدوجہد کا مقصد دین اسلام کو باطل ثابت کرنااور مسلمانوں کو دین مسیحیت کی طرف راغب کرنا ہے۔

 

روڈی پارٹ نے لکھا ہے کہ ازمنہ وسطی(Middle Ages) میں عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد علوم اسلامیہ کی طرف اس لیے متوجہ ہوئی کہ دین اسلام اور پیغمبر اسلام کی شخصیت کو مسخ کرسکے، کیونکہ اس کا ذہن بن چکاتھا کہ جو دین بھی مسیحت کے خلاف ہے اس میں کوئی خیر نہیں ہوسکتی۔[1]

 

اسلام کے غلبے کا خوف:
مغرب میں اسلام کے پھیلاؤ کو روکنا اور عیسائی دنیا کو مسلمان ہونے سے بچانا بھی تحریک استشراق کے اہم مقاصد میں سے ہے سابقہ برطانوی وزیر اعظم رہنما ولیم گلاڈسٹنWilliam Ewart Gladstoneنے 1882 میں کہا تھا کہ جب تک قرآن موجود ہے ،یورپ کیلئے مشرق کو مغلوب کرناممکن نہیں ہے،بلکہ قرآن کی موجودگی یورپ کیلئے اپنے آپ کو حالت امن میں محسوس کرنا درست نہیں ہے۔[2]

 

مسلمانوں میں عیسائیت کی ترویج:

استاد عبد الرحمن میدانی کا کہنا ہے کہ یورپ کی اکثر یونیورسٹیوں میں علوم اسلامی اور علوم عربیہ کا تعلیمی نصاب ،منہج اور طریق تدریس طے کرنے والے متعصب مستشرقین اورتنصیری(Evangelist) ہیں۔[3]

 

جرمن مستشرق یوہن فک)(Johan fuck)1894-1974) نے لکھا ہے کہ استشراق محض کوئی علمی تحریک نہیں ہے بلکہ اس کا مقصود اسلام کا رد اور مسلمانوں میں عیسائیت کی ترویج ہے۔[4]

 

اصلاحِ مذہب:

مسلم مفکر ابن رشد)(Avicenna)890-1037) کے فلسفے کے زیر اثر اہل مغرب میں ہی ایک بڑی تعداد مصلحین کی پیدا ہوچکی تھی جنہوں نے اپنے مذہب کی اصلاح کے لیے مسلمانوں کے علوم و فنون کی طرف توجہ دی ۔ایسے مصلحین کو عموما مسیحی دنیا میں پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ مارٹن لوتھر Martin Luther)1483-1546)وغیرہ پر اہل روم نے یہ تہمت لگائی کہ وہ مسیحی دین کو دین محمد سے تبدیل کرنا چاہتا ہے۔[5]

 

سیاسی مقاصد:
معروف برطانوی مستشرق ایڈورڈلینEdward William Lane (1801-1876) 1825ء میں مصر واپس آیا اور 10 سال یہاں قیام کیا ۔لندن واپسی پر اس نے 1836 میں ایک کتاب ’’اخلاق وعادات المصریین المعاصرۃ‘‘ شائع کروائی۔اس کتاب کی کئی ایک طباعت انگلینڈ ،جرمنی اور امریکہ سے شائع ہوئیں تاکہ مغرب مشرق پر حملہ آور ہونے سے پہلے اس کے بارے میں ممکنہ جانکاری حاصل کرسکے۔[6]

 

چنا چہ ان اہداف کو حاصل کرنے کیلئے مستشرقین کا سب سے اہم ہدف رسول اللہ کی ذات گرامی، قرآن کریم، احادیث نبوی اور اسلامی شریعت رہا۔لہذا اسی ہدف کو حاصل کرنے کیلئے انہوں نے قرآن کریم کی طباعت اور تراجم کا کام شروع کیا ۔

 

قرآن کریم کی طباعت:

1:ان اول طبعۃ للقرآن فی نصّہ العربی الکامل ھی تلک التی تمّت فی البندقیہ بتاریخ ان یکون سنۃ ۱۵۳۰م تقریبا ۔الا ان جمیع نسخ ھذہ الطبعۃ قد تمّ اتلافھا بأمرٍ من الکنیسۃ ولم یعثر لھا علی اثرٍ حتی الآن۔[7]

 

ترجمہ:قرآن کریم کا سب سے پہلا مکمل نسخہ عربی نص کے ساتھ 1530 میں اٹلی کے شہر وینس میں طبع ہوا ۔ لیکن رومن پوپ کے کہنے پر اس نسخہ کو ضائع کر دیا گیااور آج تک اس کا پتہ نہیں چلا۔

 

اس کے بارے میں مزید تفصیل (YakubovychMykhaylo)نے بیان کی کہ قرآن کریم کا سب سے پہلا نسخہ (Venice) اٹلی میں وجود میں آیا جو صرف دو(vencain)کی جدوجہد سے ہوا جن کا نام جو(Alenandio Paganini)کا والد تھا۔ باپ بیٹے کی بے انتہا محنت کے بعد قرآن کریم کی آزادانہ اشاعت 1537-1538 میں ہوئی یہ دونوں شخصیات اپنےدورکے فلاسفرومرتب جانےجاتےتھے جوPhilosophical)Theological)اور دوسرےمضامین کی اشاعت اورمضمون نگار تھے کچھ صدیوں بعدقرآن کریم کایہ نسخہ کہیں غائب ہوگیا یا کھوگیا مانا یہ جاتا ہے کہ رومن پوپ کےحکم سےجلا دیا گیا ۔1987 میں(Angela Nowvo)کو لائبریری سے ایک کاپی شدہ نسخہ ملا جو(Franciscan Frians of Isoladisea)جو اٹلی میں واقع ہے ۔(Jonathan)نے یہ تبادلہ خیال کیا کہ جو قرآن کریم کا جو نسخہ ملا ہے شاید تجارتی نیت سے رکھا گیا تھااور دوسرے علماء کی رائے یہ تھی کہ یہ کاپی شدہ نسخہ سلطنت عثمانیہ میں برآمدات کی جانی تھی ۔اس خصوصی نسخہ میں 466صفحات تھے جس میں عربی زبان کے علاوہ کچھ لاطینی عنوان بھی شامل تھے ۔جیسے القرآن واعرابی جس کا مطلب ’’ال اعرابی قرآن‘‘ہے۔اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ اس نسخہ میں اسلام کے خلاف کوئی مواد نہیں ہے اور اس نسخہ کو مسلمانوں میں تقسیم کی نیت سے لکھا گیا تھا ۔ اس پورے نسخہ میں ہر سورت کو اس طرح سے تقسیم کیا گیاکہ ہر سورت کا آیت نمبر موجود تھا اور اس کی اشاعت میں مسلمانوں کی کاوش بھی شامل تھی۔ صفحہ کے درمیان میں عربی 16لائینوں پر مشتمل تھی اس نسخہ کی سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ عربی کےتمام اعراب،زبر،زیر اورپیش اورحرکات بہت دلفریف تھےلیکن بدقسمتی سےوہ کافی نہیں تھی۔(Pahanini's edition) میں دو اہم مسئلے یہ تھے کہ اسکے (Text)میں انگریزی الفاظ کی ملاوٹ تھی،جیسے(Surah Fatihah)۔دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اشاعت نگراں نے کافی جگہوں پر اعراب کا صحیح استعمال نہیں کیا سوائے عربی زبان کے ۔اسی وجہ سے اس نسخہ کے الفاظ کو پڑھنا اور اس کی ادائیگی کرنا ناممکن تھا۔[8]

 

2: ثم طبع توما ارپنیوس’’سورۃ یوسف‘‘بنصھا العربی،مع ثلاث ترجمات لاتیننیۃ و شروح۔لیدن مطبعۃ ارپنیوس،۱۶۱۷۔[9]

 

ترجمہ:1617 میں تھام ارپنیوس نے سورۃ یوسف کو عربی متن اورلاطینی زبان کے تین ترجموں اور شروحات کے ساتھ مطبع ارپنیوس سے شائع کیاتھامس ارپنیوس(Thomas Erpenius) (1548-1624) ہالینڈ کا ایک مستشرق تھا ۔11 ستمبر 1584ء کوگورکم میں پیدا ہوا ۔لیڈن یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور کتابوں اورمخطوطات کی طلب میں انگلینڈ، فرانس ،جرمنی اور اٹلی کا سفر کیا ۔سفر کے بعد لیڈن واپس آیا اور1613میں لیڈن یونیورسٹی میں عربی کا سب سے پہلا استاذ مقرر ہوا۔پھر اس نے ایک مطبع کی بنیاد رکھی اور یہ مطبع ’’دار بریل‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اسی کو ہالینڈ میں استشراق کی بنیاد رکھنے والا شمار کیا جاتا ہے۔ ارپنیوس نے کئی کتابیں لکھیں ۔[10]

 

3:وطبع یوھان زیشندروف فی رسالتین،بدون تاریخ،طبعتا فی(Cygnea) السورتین101و103فی

 

الاولی،والسورتین ۶۱و۷۸ فی الثانیۃ ،بحروف عربیۃ منحوتۃ فی الخشب۔

 

ترجمہ:یوہان زیشندروف نےدورسالےبغیر تاریخ کے(Cygnea)میں طبع کیےپہلےرسالہ میں سورۃ نمبر 101 ، 103 اور دوسرے میں سورۃ نمبر 78،61 طبع کیےیہ دونوں رسالے عربی حروف کے ساتھ تھے جو ایک لکڑی پر تراشے ہوئے تھے۔

 

4:وطبع فی امستردام ۱۶۴۶ کرسیتانوس رافیوس من برلین السور الثلاث عشرۃ الأولی من القرآن بحروف لاتینیۃ،وفی مقابلھا ترجمۃ لاتینیۃ ۔واستعمل رافیوس طریقۃ خاصۃ فی رسم الحروف العربیۃ بالحروف اللاتینیۃ۔

 

ترجمہ:1646ء میں کرسیتا نوس راویوس نے برلن میں قرآن کریم کی پہلی دس سورتوں میں سے تین سورتیں طبع کی لیکن اس میں عربی حروف کی جگہ لاطینی حروف استعمال کیے اور اس کا ترجمہ بھی لاطینی میں کیا ،اور یہ طباعت ایمسٹرڈیم میں ہوئی۔ راویوس نے کہ عربی حروف کہ جگہ لاطینی حروف کا یہ خاص طریقہ استعمال کیا۔

 

5:وقام یوھانس جورج نسلیوس بطبع السورۃ الرابعۃ عشرۃ والخامسۃ عشرۃ بالنص العربی والحروف العربیۃ، مع ثلاث ترجمات لاتینیۃ ،وذلک فی لیدن ۱۶۵۵ فی مطبعۃ یو۔الزفیر ھی التی اشترت مطبعۃ ارپنیوس بحروفھا العربیۃ۔

 

ترجمہ:1655 ء میں یوہانس جارج نسلیوس(Nisselius)نے لیڈن میں سورۃ نمبر 14 اور 15 کو عربی میں عربی حروف مع لاطینی ترجموں کے ساتھ مطبع جو الزفیر(Jo.Elsevier) سے طبع ہوا ۔یہ وہی مطبع ہے جو بعد میں مطبع ارپنیوس کے نام سے مشہور ہوا۔

 

6:وطبع ماتیاس فردریک بکیوس السورتین ۳۰،و۸۸ اعتمادا علی اربعۃ مخطوطات عربیۃ ،مع ترجمۃ لاتینیۃ وتعلیقات۔وذلک فی اوجسبرج(Augustae Vindelicorum)۱۶۸۸،والنص بحروف عربیۃ۔

 

ترجمہ:1688 میں ماتیاس فرڈریک بکیوس(Beckius) نے چارعربی مخطوطات پر اعتماد کرتےہوئے سورۃ نمبر 30 اور 88 کو عربی میں عربی رسم الخط اور لاطینی ترجمہ اور تعلیقات کے ساتھ مطبع (Augustae Vindelicorum)سے طبع کیا۔

 

7:أما اول طبعۃ للنص الاکامل للقرآن وبحروف عربیۃ ،وانتشرت ولا یزال توجد منھا نسخ فی بعض مکتبات أوروبا ،فھی تلک التی قام بھا أبراھام ھنکلمان(Abraham Hinckelman)( ۱۶۵۲۔۱۶۹۵)فی مدینۃ ھامبورج بألمانیۃ،فی مطبعۃ Schultzio-Schilleriana،فی سنۃ ۱۶۹۴ وتقع فی ۵۶۰ صفحۃ وعنوانھا اللتینی ھو:

 

ترجمہ:1694 میں قرآن کریم کامکمل نسخہ عربی رسم الخط میں ابراھام ہنکلمان (Abraham Hinckelman) نے جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں طبع کیا یہ وہی نسخہ ہے جو آجکل یورپ کے بعض مکاتیب میں پایا جاتا ہے اسی نسخہ کے صفحہ 560 پر یہ عنوان درج ہے:

 

(Al.Coranus seu lex Islamitia Muhammedis,filii Abdallae pseudo prophatae

 

Codicum fidem edtia ex musco Abraham Hinkelmanni,D.Hamburgi,ex officina Schultzio-Schilleriana,anno 1694.4 pagg.560 )۔[11]

 

ابراھام ہنکلمان 2 مئی 1652کو ڈالبنDabelnجو کہElectorate of Saxonyکا ایک قصبہ ہےاور (Electorate of Saxony) جرمنی کی ایک ریاست ہے ،میں پیدا ہوا اور وفات 11فروری 1695 کو ہوئی۔یہ جرمنی کا ایک پروٹسٹن مسیحی اور اسلام شناس تھا ۔ اور اس نے قرآن کریم کا ترجمہ کیا ۔[12]

 

ہنکلمان کے نسخے کہ مزید وضاحت کرتے ہوئے Mykhaylo Yakubovychبیان کرتے ہیں کہ قرآ ن کریم کا مکمل نسخہ 1694میں ہیمبرگ میں طبع ہوا ،مطلب جبکہ کچھ سورتوں کی طباعت الگ سے ہوچکی تھی ۔جیسے سورۃ یوسف 1617 میں Leiden میں (leading Dutch Orientalist Thomas Erpenius) نے شائع کی ۔ہیمبرگ ایڈیشن جرمنی کے مستشرق ابراہم ہنکلمان نے تیار کیا ۔ایک وقت میں اس کی توجہ ان دونوں پر تھی اس نے قرآن کریم کی اصل عربی کو جھوٹا اور غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ہنکلمان نے کئی بار دلچسپی سے قرآن کی مخطوطات کو استعمال کیا۔یہ طباعت ایک لمبے تعارف پر مشتمل تھا اور اس میں عربی زبان سے لاطینی زبان تک خبر رسانی کی گئی۔جدید چھپائی اور وینس خبر رساں کی وجہ سے یہ نسخہ بہت زیادہ ترقی یافتہ ہوگیا ۔ کاغذاور دوات دونوں کی وجہ سےاس نسخہ کوپڑھنےمیں آسانی ہوگئی۔اس پوری اشاعت کاعنوان:

 

(Al-Coranus,lex Islamitica Muhammedis Filii Abdallae) اس کا عربی ٹائٹل:بسم اللہ الرحمن الرحیم القرآن وھو شرائع الاسلامیہ محمد بن عبد اللہتھا ۔563 صفحات پر مشتمل یہ عربی عبارات پچھلے اور اگلے صفحات پر سورتوں ، مقام وحی اور ملک کے نام کے ساتھ چھاپا گیا تھا ۔اور اس کے ساتھ صفحوں کے اوپرلاطینی زبان میں عنوانات تھے۔زیادہ تر آیتیں بہت اچھے طریقے سے پرنٹ ہوئی تھیں ۔الفاظوں کو تجوید کی علامات جیسے مدہ وغیرہ کے ساتھ واضح طور پر لکھا گیا تھا ۔بہرحال مکمل تجوید شامل نہ تھی اور رسم الخط بھی کچھ الگ ہی تھا جو مغرب کے پہلے ایڈیشن سے مختلف تھا ۔اگرچہ یہ جو رسم الخط تھابہت اعلی اور غلطی سے پاک تھا لیکن پھر بھی اس میں لکھائی کی غلطیاں تھی ۔جیسے سورت بقرہ کی تیسری آیت من قبلک میں نون کے ساتھ لکھا ہوا ہے جبکہ یہ با کے ساتھ ہوناچاہیے تھا ۔اس نسخہ میں غلطیوں کی ایک فہرست بھی شامل کی گئی ہے۔

 

ہنکلمان کا یہ نسخہ کافی مشہور ہوا اور لائبریری میں ایک بہت بڑی تعداد اس کے نسخوں کی جمع کی گئی اور اس کو بڑے پیمانے پر تقسیم بھی کیا گیا۔اوراٹھارویں صدی کے مستشرقین نے اس کے نسخہ کو بہت استعمال کیا ۔اس بات کا کوئی ثبوت نہیں جس سے یہ بات ثابت ہو کہ یہ نسخہ مسلمانوں نے بھی استعمال کیا یا نہیں ۔[13]

 

8: واجودمنھا،وھی الیتی حظیت بالشھرۃ والذیوع،طبعۃ کاملۃ للقرآن،قام بھا لودوفکو مرًتشی Ludovico Marracci)،الراھب المنتسب الی ’’جمعیۃ رھبان امً اللہ‘‘وکان للبابا انوسنت الحادی عشر۔

 

وتم الطبع مدینۃ پتافیاBatavia۱۶۹۸فی مطبعۃ السمیناریین ۔وھذا ھو عنوانھا اللاتینی الکامل۔

 

ترجمہ:(1698میں قرآن کریم کا ایک مکمل نسخہ اٹلی کے شہر (Padovo) میں لوڈوو مرتشیLudovico Marracciنے طبع کیا ۔لوڈوو ایک راہب تھا جو Arabic in the college of women کا پروفیسر تھا یہ نسخہ مطبع سمیناریین نے شائع کیا تھا اور اس پر لاطینی میں یہ عنوان تھا:

 

Alcorani textus universus ex correctioribus Arabum exemplaribus summa fide,atque pulcherrimis characteribus traslate descriputs,eademque fide,acpari diligentia ex arabico idionate in latinum ,oppositis unicuque capiti notis,atque refutatione:His omnibus praemissus est prodromus totum priorem tomum implens,in quo contenta indicantur pagina sequenti-auctore Ludovico Marraccio e Congregation clericoum regularium matris Dei,Innocentii XI.Gloriosissimae memoriae olim confessario,Patavii 1698,ex typograhiae seminarii.[14]

 

لوئس یا لوڈوو مرتشی (1612-1700) اس کا صحیح تلفظ لوئس ہے ۔یہ ایک اطالوی مستشرق تھا ۔لوکا میں 1612ءمیں پیدائش ہے۔Clerks regular of the Mother of God of Luccaکا ممبر بنا اور مشرقی زبان میں کافی مہارت حاصل کی خاص طور پر عربی زبان میں ۔بعد میں یہ پوپ انوسنٹ کا معترف بھی بنااور پوپ نے اس کو College of wisdom میں عربی کا پروفیسر مقرر کیا ۔88 برس کی عمر میں 1700ءمیں اس کی وفات ہوئی[15]۔ اس نسخہ کے بارے میں Mykhaylo Yakubovych اپنی تحقیق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : مغرب میں قرآن کریم کاتیسرا مکمل ایڈیشن ہنکلمان کے نسخہ کے چار سال بعد ظاہر ہوا جس کو اٹلی کے ایک مستشرق لوڈوومرتشی Ludovico Marracci) )نے 1700 پوڈاوا (اٹلی) میں شائع کیا۔جو ایک زاہد (عابد) ،تعلیم یافتہ تھا اور عربی میں مہارت رکھتا تھا ۔پوپ نے اس کوCollege of wisdomمیں عربی کا پروفیسر مقرر کیا تھا۔اس کی اس زبان کی قابلیت کی وجہ سے بعد میں اس کو اعلیٰ عہدے پر فائز کردیا گیا ۔مرتشی کا یہ ایڈیشن مختلف لائبریروں میں (Al.Corani textus universus) کے نام سے محفوظ کر لیا گیا ہے اور اس کی دو جلدیں شائع ہوئیں ۔اس میں دو قسم لکھائی استعمال ہوئی ۔ایک خالص عربی اور دوسرا یونانی ترجمہ میں ۔اس ایڈیشن میں ہر نوٹ کے ساتھ حضور کی مختصرسیرت اور اسلامی عقائد کی تردیدات کو شامل کیا گیا۔مرتشینے تردید کی صورت میں قرآن کریم اور مسیحی فلسفہ کا موازنہ کیا تاہم اس نے اسلامی تفاسیر کو اہم قرار دیا ۔اس کی وضاحت میں اس نے بیضاوی اور زمخشری جو مشہور سلطنت عثمانی کے مفسر ین ہیں ان کو ترجیح دی۔اور اس نے کچھ اشارے ابو اسحاق طہلابی کی کتاب سے دیا ۔مرتشی کے نسخہ کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ اس نے قرآن کریم کی تمام آیتوں کے شروع میں نمبر ڈالے ۔آیتوں کو خاص اشارہ نماعلامت سے الگ کیا جو آیت کے آخر میں پرنٹ تھے ۔ اس اشاعت میں عربی الفاظ استعمال کیا۔ جیسا کہ ہنکلمان کی اشاعت میں تھا ۔مزیدبراں مرتشی قرآن کےاجزاء سےبھی واقف تھا لہذا اس نے اپنے اس ایڈیشن میں مارجن (Margin) کیلئے بھی جگہ رکھی۔مغرب میں یہ پہلی مرتبہ اجزاء کی صورت میں قرآن کریم ظاہر ہوا۔باوجود یہ کہ مرتًشی کی بہترین جدوجہد تھی لیکن پھر بھی یہ لکھائی کی غلطی سے خالی نہ تھا ۔بہرحال کچھ جگہوں پر عربی الفاظ ایک دوسرے میں الجھے ہوئے تھے،جیسے ت،ق کے ساتھ(سورۃالملک کی آیت نمبر 1)تبارک الذی میں ت کی جگہ ق استعمال کیا کیا گیا اور سورۃ البقرۃ آیت 71میں تطھر شین کے ساتھ لکھا ہوا تھا۔اسی طرح اور بھی کچھ الفاظوں کو مختصر کیا گیا جیسے الفاظوں کے درمیان فاصلہ دیا گیا اور غلط الفاظ واضح نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے پڑھائی میں کافی پیچیدگیا ں ہوئیں ۔اس اشاعت نے لاطینی ترجمہ کی وجہ سے کافی شہرت پائی اور یورپی مستشرقین نے اس سے کافی استفادہ کیا ۔اور یہ ترجمہ دوسری تشریحات کے لئے بھی بہت اہم تھا۔[16]

 

9:وفی برلین ۱۷۰۱ نشرت مختارات من القرآن بالعربیۃ والفارسیۃ والترکیۃ واللاتینیۃ قام بنشرھا أندریا أکولوتوسAndriaAcroliths،اللاھوتی واستاذ اللغات الشرقیۃ فی براتسلاقا۔وتقع فی ۵۷ ص من قطع الورقۃ۔ وعنوانہ باللاتینی۔

 

ترجمہ:1701ءمیں برلن میں قرآن کریم کے کچھ مختارات عربی،ترکی،فارسی اور لاطینی زبانوں میں نشر کیے گئے اور ان کوانڈریا اکولوتھس نےنشرکیا۔یہ براتسلاقامیں علم لاھوت کاماہراورلغات شرقیہ کااستاذتھا ۔اس نسخہ پریہ عنوان درج تھا:

 

Alcoranica,sive specimen Alcorani quadrilinguis,Arabici,Persici,Turcici,Latini.

 

10:طبعۃ کاملۃ للقرآن فی نصہ العربی ،تمت فی بطرسبرج ۱۷۸۷،فی ۴۷۷ ص بعنوان ۔

 

ترجمہ:1787ء میں قرآن کریم کا عربی میں ایک مکمل نسخہ بطرسبرج میں طبع ہوا اس کے صفحہ 477 پر یہ عنوان تھا: (Koran,Arabice.Petropoli,1787)

 

11:وطبع النص العربی الکامل للقرآن مرتین فی قازان فی سنۃ ۱۸۰۳۔وقد اشرف علی ھذہ الطبعۃ (احقر عباد اللہ ،عبد العزیز توقطمش بن علی)

 

ترجمہ:1803ء میں احقر عباد اللہ عبدالعزیز توقطمش بن علی نے قازان میں دو مرتبہ قرآن کریم عربی رسم الخط میں طبع کیا۔12:لکن یفوق تلک الطبعات جمیعھا ،کم استصبح عمدۃ الطبعات الأوروبیۃ والمرجع للباحثین جمیعا فی أوروبا،الطبعۃ التی قام بھا جوستاف فلوجل فی ۱۸۳۴ فی لیپتسک،عند الناشر کارل تاوخنتس الشھیر وھاک عنوانھا اللاتینی۔

 

ترجمہ:1834ءمیں گوسٹو فلوجل نے ایک نہایت عمدہ نسخہ شائع کیا جس میں پچھلے تما م نسخوں کا خلاصہ کیا ،اورخالص عربی رسم الخط کو مغرب میں پیش کرنے کا یہ نہایت ایک اہم اقدام تھا اور اس پر لاطینی میں یہ عنوان درج تھا:

 

Corani textus arabicus ad fidem librorum manuscriptorum et impressorum et ad

 

praecipuorum interpretum lectiones et auctritatem recensuit indicesque et suratarum addidit Gustavus Fluegel Philosophiae doctor et Artium liberalim magister,Afranei Professor,Societaties Asiaticae Parisiensis sodails,Societatits Sorabice Lipsiensismembrum honorarium .Lipsiae typis et sumptibus Caroli.Tauchnaitii.MDCCCIV.IIn-4VIII et texte arabe (4) et 241.

 

ترجمہ: القرآن : خالص عربی میں مخطوطات اور مطبوعات اور سب سے افضل مفسرین اور مؤلفین کی قرات کے اعتبار سے ،اس کو گوسٹو فلوجل نے طبع کیاجو فلسفہ میں ڈاکٹر ہیں اور فنون میں ماسٹر اور پروفیسر ہیں اورآپ جمعیۃ الاسیویہ پیرس اور جمعیۃلیپزک (Leipzig)کے ایک اہم ممبرہیں۔

 

اس مطبوعہ کی اہم خصوصیات:

 

عربی طرز پر پہلے صفحے کو خالی چھوڑا، دوسرے صفحے پر عربی میں عنوان ہے ،تیسرا صفحہ صاف ہے چوتھے صفحہ پر صرف سورۃ الفاتحہ ہے ،ان صفحات پر کوئی نمبر نہیں ہے نمبرات کی ابتدا سورۃ بقرۃ سے کی ہے ۔اس نسخہ کی مشرق میں متعدد بار طباعت ہوچکی ہے۔ اس کی دوسری طباعت تصحیح کے ساتھ 1841ء میں ہوئی ۔تیسری طباعت 1858ءمیں ،چوتھی طباعت 1870ء میں پانچویں 1881ءمیں اور چھٹی طباعت 1893ء میں ہوئی۔فلوجل کی اس طباعت کوجوزف موریس ردزلوبG.M Red slobنے چوری کر لیا تھا لہذا اس نے دوبارہ اس کی طباعت کی استریوتیپ کی طباعت کی طرز پر اور اس پر یہ عنوان درج کیا :

 

Coran Arabice,Recensionis Flugelianae textum recognitum iterum exprimi curavit Gustavus Mauritius Redslob,Phil.Dr et in univ.Literatia Lips .Prof.Pupl. extroaord Editio setreotypa.Lipsiae Typis et sumptu Caroli Tauchnitii:1837 Gr.in-8.538

 

فلوجل نے اس بد شکل چوری پر کافی احتجاج کیا جس کے بارے میں حاجی خلیفہ نے کشف الظنون (صIX-X)کے مقدمہ میں ذکر کیا ہے یہ چوری دنیا کی عجیب چوریوں میں سے تھی اس لئے کہ چور کوئی اور نہیں فلسفہ کا ایک ڈاکٹر ،جامعہ لیپتسک کا استاذ تھا۔[17]

 

گوسٹو فلوجل ایک جرمن مستشرق ہے ۔18 فروری 1802ءکو باوتس (Bautzen) کے علاقہ میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم اپنے ہی شہر میں سیبلیس(Siebel’s) کی نگرانی میں حاصل کی ۔1821ء میں لیپستک کی جامعہ میں داخلہ لیا اور علم لاھوت اور فلسفہ میں تخصص کیا اور روزنملر(Rosenumuller)، ونر(Wiener) اور ونزر Winzerسے مشرقی زبانیں سیکھی 1827ء سے1830ءتک فارسی ،عربی،اور مشرقی زبانیں سیکھیں اور اس کے بعد مخطوطات پر کام کیا 1831ءمیں کلیہ مایسن میں استاذ مقرر ہوئے۔اس کے بعد بیمار ہوئے اور 1870ءمیں ڈرسڈن میں انتقال ہوا۔کہتے ہیں کہ ان کا علمی کام بہت عمدہ ہے اس میں کوئی اور مستشرق ان کی ٹکر کا نہیں ۔انہوں نے کئی کتب نشر کی جن میں چند مندرجہ ذیل ہیں :

 

1:عربی ،فارسی ،ترکی،سریانی اور حبشی زبانوں کے مخطوطات کی فہرس مرتب کی جو مکتبہ القصر والدولہ میں موجود ہے۔

 

2:حیاۃ السیوطی ومؤلفاتہ ۔3: المنتقیات الجدیدۃ لمخطوطات شرقیۃ فی مکتبۃ باریس۔4: المنتقیات الجدیدۃ لمخطوطات شرقیۃ فی المکتبۃ الامبراطوریۃ فی فیینا۔5:تاریخ العرب فی ثلاث مجلدات:درسدرن ولیپتسک۔ 6:طبعہ للنص العربی للقرآن۔7:فھرس القرآن۔8:’’بحث فی المترجمین العرب للکتب الیونانیۃ‘‘مایسن۔ 9:’’التعریفات ‘‘کو نص عربی کے ساتھ اور’’ کشف الظنون عن اسامی الکتب و الفنون‘‘ کو سات جلدوں میں نشر کیا ۔[18]

 

مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم:

مستشرقین نے صرف طباعت پر ہی اکتفا ء نہیں کی بلکہ اس سے آگے انہوں نے قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں ترجمے بھی کیے ۔ ترجمہ سے ان کی اغراض کیا تھی اس بارے میں فرماتے ہیں:

 

سب سے پہلے مستشرقین نے عربی زبان سیکھی اور یہ سب سے اہم بات تھی جو ان کے درمیان حائل تھی کہ ان کو عربی نہیں آتی تھی ۔لہذا انہوں نے اس کے لئے اپنا وقتمختص کیا اور محنت شروع کی اس محنت میں ان کا سب سے اہم ہدف قرآن کریم تھا ۔قرآن کریم کا ترجمہ کرنے میں نہ تو ان کا مقصد قرآن کو سمجھنے کا تھا اور نہ ہی اس سے استفادہ تھا بلکہ صرف مناظرہ کرنا اور احتجاج کرنا ،اس بات کو ڈاکٹر محمد البہی نے اس طرح بیان کیا ہے ’’ استشراق کا منہج اور ان کی افکار کا خلاصہ یہ تھا کہ وہ اسلامی قوائد کی اصل کو ختم کر کے اس کا انکار کردیں جو ماضی میں اس امت کی ثقافت اور روحانیت تھی اس پر تنقیدات اور اس کا استخفاف کیا جائے ۔[19]

 

1:لاطینی زبان میں ترجمہ:

أول واقدم ترجمۃ کاملۃ للقرآن ھی تلک التی دعاالیھاورعاھابطرس المحترم (Pierre le Venerable) رئیس دیر کلونی (راجع تحت اسمہ)،وتولاھا بطرس الطلیطلی وھرم الدلماشی وروبرت کینت،بمعونۃ عربی مسلم یدعی ’’محمد‘‘ ( ولا یعرف لہ لقب ولا کنیۃ ولا ای اسم آخر)،وراجع الترجمۃ اللاتینیۃ پییر دی پواتییہPierre de Poitiers ۔وتمت ھذہ الترجمۃ فی ۱۱۴۳۔وطبعت فی بازل(سویسرۃ) ۱۵۴۳ بالعنوان التالی:

 

ترجمہ:لاطینی زبان کا سب سے پہلا اور قدیم ترجمہ وہ جس کی طرف پطرس محترم نے بلایا۔ اس ترجمہ کی ذمہ داری پطرس الطلیطلی اور ھرمن الدلامشی اور روبرٹ کیننٹ نے ایک عربی مسلمان کی معاونت کے ساتھ لی تھی جس کا نام محمد تھا۔لاطینی ترجمہ کی پروف ریڈینگ پیی ڈی پواتییہ Pierre de Poitiers نے کی اور یہ ترجمہ 1143 میں مکمل ہوا اور 1543ء میں بازل شہر میں طبع ہوا[20]۔اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے عبدالرحمن بدوی لکھتے ہیں کہ اس پر یہ عنوان بھی درج تھا :

 

Machumeties,Saracenorum Principis,ejusque successorum vitae,ac doctrina ,ipseque acloran...quae annos CCCC,vir..clarissimus,D.petrus Abbas Cluniaace-nsis...ex Arabica lingua in Latinam trnasferri curavit-Haee omnia in umun volumen redecta sunt,opera et studio Theodori Bibliandri,Ecclesiae Tigurinae ministri,qui collatis etiam exemplaribus latini et Arabi.Alcorani teztum emendavit.Basilea,1543,infol.

 

اس ترجمہ کی دوسری طباعت 1550ء میں بازل شہر میں ہوئی۔اس کی ذمہ داری تھیوڈر ببلانڈر(Theodor Bibliander) نے لی تھی اور یہ لاھوتی تھا زیورخ (سوییسرہ)کاباشندہ تھا۔ پہلی جلد میں ترجمہ صفحہ 8 سے 188 تک ہے ۔پبلشر نے بلانڈر سے مدد حاصل کی تھی اس ترجمہ کے دو مخطوطات کیساتھ، لیکن اس نے ان دونوں کی جگہ کی طرف اشارہ نہیں کیا اور اسی وجہ سے اس کی مدت کا جاننا مشکل ہے پھر انہوں نے گمان کیا کہ عنوان کے صفحہ میں انہوں نے لاطینی ترجمہ کو اصل عربی قرآن کو سامنے رکھ کر پروف ریڈنگ کی اور حواشی کا اضافہ کیا ۔لیکن ایسی کوئی دلیل نہیں جو اس پروف ریڈینگ کا ذکر کرے ۔جیسے ان کے عربی زبان جاننے کے بارے میں شک کیا جاتا ہے اس طور پر کہ ہمیں کوئی ایسی دلیل نہیں ملی جو یہ بتائے کہ وہ عربی زبان سے واقفیت رکھتے تھے۔ مگرھامش کے چند حاشیوں میں اس کا ذکر ملتا ہے(مثلاص 185،187،188) اور اس لاطینی ترجمہ کیساتھ سورۃ فاتحہ کا ایک لاطینی زبان میں ترجمہ شائع کیا گیا جوموجودہ لاطینی ترجمہ سےزیادہ اچھاتھالیکن اس کےمترجم کاکہیں ذکرنہیں۔ولیم پوسٹل Postalنے اس ترجمہ سے متعلق ایک تقریب منعقد کی تھی اور طباعت کے دوران دو لاتینی مخطوطوں کےبارے میں اطلاع دی تھی۔[21]

 

اس کے علاوہ لاطینی زبان کا ایک اور ترجمہ 1698ء میں ماروس نے کیا ۔[22]

 

2: اٹالین زبان میں ترجمہ

The oldest complete translation into a European vernacular, namely theItalian, is in the Qur'an edition issued by the Venetian publisher Andrea Arrivabene in 1547.Although the title asserts that the Qur'an was newly translated from the Arabic, thetranslation actually based exclusively on the 1543 Latin Qur'an by Theodor Biblinder,as noted by the two great Leiden philologists, Justus joseph Scaliger and Thomas Erpenius (1584.1624).[23]

 

ترجمہ:قرآن کریم کا سب سے قدیم مکمل ترجمہ یورپ کی رائج الوقت زبان یعنی اٹالین زبان میں وینس پبلشر اینڈری اریوابینی نے 1547ء میں کیا ۔اور اس کے عنوان سے پتا چلتا ہے کہ یہ ترجمہ عربی زبان سے کیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ترجمہ تھیوڈر ببلانڈر کے لاطینی ترجمہ کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے ۔اور اس بات کی تصدیق دو عظیم ماہر لغات جسٹس جوزف اسکیلیگر اور تھامس ارپنیوس نے بھی کی کہ یہ ترجمہ عربی زبان کو سامنے رکھ کر نہیں ہوا۔ 

 

اس کے علاوہ اٹالین زبان میں مندرجہ ذیل ترجمے ہوئے:

 

1:ترجمہ گلزہ1847ء۔2:ترجمہ تبریری 1882ء یہ ترجمہ تین مرتبہ شائع ہوا۔

 

3:ترجمہ دیولانٹی 1912ء۔4: ترجمہ برانسی 1913ء۔

 

5:ترجمہ فراقاسی 1914ء۔6: ترجمہ فرجو 1928ء۔7: ترجمہ بونکی1929ء۔[24]

 

3: جرمن زبان کا سب سے پہلا ترجمہ:

وعن ھذہ الترجمۃ الایطالیۃ تمت الترجمۃ الالمانیۃ التی قام بھ اسالومون اشوجر(Salomon Schwigger)فی ۱۶۱۶ تحت عنوان:

 

ترجمہ: 1616ء میں سالمون شویگر(Salomon Schwigger)نے اٹالین زبان سے جرمن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا اس پر یہ عنوان درج تھا:

 

Alcoranus Mohometicus,das its Der Turken Alcoran ...erstlich aus der arabis-chen in die Italienische,jetzt aber in die Teutsche Sprache gebracht durch Herrn Salomon Schweigger,Nurnberg,1616.

 

اس ترجمہ کی دوسری طباعت 1623ءمیں نورنبرج میں ہوئی۔[25]جرمن زبان میں اور بھی تراجم ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔

 

1:ترجمہ ڈیوڈنارٹر 1703ء2:ترجمہ مگرلین 1772ء3: ترجمہ بولیس 1773ء ۔ اس کو 1828ء میں دول نے بعد تنقیح و تہذیب دوبارہ شائع کیا ۔

 

4:ترجمہ المان ۔1840ء ۔آٹھ مرتبہ شائع ہوا۔5:ترجمہ ہٹینگ 1901ء6:ترجمہ گری گول 1901ء7:ترجمہ روگرٹ 1880ء۔8:ترجمہ گرم 1923ء9:ترجمہ گولڈ اسمتھ 1916ء ،یہ دو مرتبہ شائع ہوا۔10:ترجمہ لنگی 1688ء11: ترجمہ آرنلڈ 1746ء12:ترجمہ گلامروٹ1910ء۔[26]

 

4: ڈچ زبان میں ترجمہ:
وعن ھذہ الترجمۃ الامانیۃ تمت ترجمۃ القرآن الی اللغۃ الھولندیۃ ۱۶۴۱،وقد ظھرت بالعنوان التالی:ترجمہ: 1641ء میں جرمن زبان سے ڈچ زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا گیا ۔اور یہ اس عنوان کے ساتھ ظاہر ہوا:

 

De Arabische Alkoran--Uty de Arabische Sparaeke, nu Hooghduytsch gertansl-ateertdoor Salamon Swigger-Ende Wederom uyt Hooghduytsch in Nederland. sche Spraeke ghestelet.Geruckt voor Barent Adriae n s I.Berenstma,Boek-ver Kooper to Hamburgh. 1641, L.pagg.162.

 

اشنورر نے اس کی پروف ریڈنگ کی اور کہا کہ اس عنوان میں دو غلطیاں ہیں ۔پہلی غلطی یہ ہے کہ اس میں لکھا ہے کہ یہ ترجمہ عربی سے جرمن زبان میں ہوا ہے اور دوسری یہ کہ یہ ہیمبرگ میں طبع ہوا ہے ۔[27]ڈچ زبان کے دیگر تراجم:1: ترجمہ گلاسمیز 1658ء ۔یہ ترجمہ دو بار شائع ہو ا۔2:ترجمہ زولینس 1859ء 

 

3:ترجمہ میزع 1860ء ۔یہ چار مرتبہ شائع ہوا۔4: ترجمہ احمدیہ کا ترجمہ ہالینڈ کی زبان میں کیا گیا ۔[28]

 

5:فرانسیسی زبان میں ترجمہ:
اول ترجمۃ للقرآن الی الفرنسیۃ ،ھی التی قام بھا دی رییر Du Ryer ۱۶۴۷بالعنوان التالی:

 

ترجمہ:فرانسیسی زبان میں سب سے پہلا ترجمہ ڈی رییر(Du Ryer)نے 1647ء میں کیا ، اس پر یہ عنوان درج تھا:

 

L'alcoran de Mahomet.Translate d'Arabe en Francais,per le Sieur De Ryer, Sieur de la Grande Malezair; a Paris chez Antonie de Sommaville. 1647, in-4.p.p.648

 

 ڈی رییرکے اس ترجمہ میں کئی مواقع پر پوشیدگیا ں ہیں ،اورنہ اس میں کو تعلیقات کا اضافہ کیا اور نہ ہی ان پوشیدگیوں کو ختم کرنے کے لئے کوئی تشریح کی ۔1649ء میں ہالینڈ میں اس کی دوبارہ طباعت ہوئی اور اس طباعت میں انکو کافی کامیابی حاصل ہوئی اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ترجمہ کو سامنے رکھ کر متعدد ترجمے کیے گئے جو مندرجہ ذیل ہیں۔

 

الف: انگریزی زبان میں ترجمہ

 

The Alcoran of Mohamet,translated out of Arabic into French...and newly Endilshed for the satisfaction of all that desire to look into the Turkish vanities. London, 1688, in8.

 

ب:ہالینڈی زبان میں ترجمہ:

 

Mahomets Alcoran door du Ryer uuit d'Arabische in de Fransche en door J.H Glaze maker in de Nederlantsche Taal vertaalt.Rotterdam,1698.in-8

 

ج: ترجمہ جرمن زبان میں :

 

ہالینڈی زبان سے جرمن زبان میں ترجمہ کیا گیا اور اس پر یہ عنوان درج تھا ۔

 

Vollsandiges Turkisches Gesetz buch...Aus der Arabischen in die Franzosische Sprache ubergestzt durch Herrn Du Ryer,aus dieser aber in die Niederlandische durch H.J.Glasemacker: und jetzo zum allererstenmahl in die Hochteusche Sprache versetzt durch Johann Lange,Medicinae Condidatum.Hamburg.in-fol.

 

اما ثانی ترجمۃ فرنسیۃ فتمت بعد ذلک بمقدار ۱۳۶ سنۃ ،اذ ظھرت فی باریس ۱۷۸۳۔وقام بھاساواری ،وعنوانھا ھو :

 

ترجمہ:فرانسیسی زبان میں دوسرا ترجمہ ساواری (Savory) نے 136 سال بعد پیرس میں کیا جو 1783ء میں کیا ظاہر ہوا۔اور اس پر یہ عنوان درج تھا:

 

Le Coran,traduit de I'Arabe,accompagne de notes ,et precede d'un abrege de la vie de Mahomet,tire des ecrivains orientaux les plus estimes.Par M.Savary.T.I et II,a Paris 1783 in-8.[29]

 

اس کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ کچھ تعلیقات کے ساتھ یہ ترجمہ قدیم و جدید تراجم کو ملا کربنایا گیا ہے اور اس کو لوڈوو مراتشی

 

کے تعلیقات سے بھی سیراب کیا ہے۔1947ء ء میں بلاشیر نے اس کو ترتیب نزولی کے زمانے کے اعتبار سے اس کے تین اجزاء مرتب کیے۔لیکن کچھ ہی عرصہ کے اس ترتیب سے اعراض کیا اوردس سال کے بعد دوبارہ اس کو طبع کیا راھن کی ترتیب پر۔اور یہ ہی طباعت کافی وسیع پیمانے پر پھیلی۔[30]

 

مترجم اینڈری ڈی رییر(Andre Du Ryer) یہ ایک فرانسی مستشرق ہے ۔1580ء میں مارسجنی(Marcigny) میں پیدائش ہے اور 1660ء میں وفات ہے ۔ مصر میں فرانس کا سفیر تھا اور یہ عربی اور ترکی زبان پر مہارت رکھتا تھا۔اس کی مندرجہ ذیل تصانیف ہیں۔

 

مبادی نحو اللغۃ الترکیہ۔لاطینی زبان میں پیرس میں1630ء میں لکھی اور1633ء میں یہ کتاب طبع ہوئی۔شیخ سعدی کی کتاب گلستان کا ترجمہ کیا۔فرانسسی زبان میں : قرآن کریم کا ترجمہ کیا۔ترکی اور لاطینی زبان میں ایک معجم بھی لکھی۔[31]

 

فرانسیسی زبان کے دیگر تراجم:

 

ترجمہ دیرویر 1647 ء میں پیرس میں چار مرتبہ شائع ہوا۔ لاہی میں چار مرتبہ شائع ہوا امسٹردم میں تین مرتبہ شائع ہوا۔ پھر اس کو انگریزی میں مسٹرروس نے اور ہالینڈ کی زبان میں گلاسیاکو نے 1658ء میں منتقل کیا۔ہالینڈ کی زبان سے جرمنی میں کالانکی نے منتقل کیا۔ پھر اس ترجمہ کا ترجمہ 1716ء میں روسی زبان میں ڈنمبیریوس کاٹیز نے کیا ۔1790ء میں روسی زبان میں فرنکین نے بھی کیا ۔

 

2: ترجمہ سیوری 1783ء ،آٹھ مرتبی ،ایک مرتبہ مسٹردم میں اس کا ترجمہ 1883ء میں اطالوی زبان میں ہوا اور 1913ء میں قستلانی زبان میں ہوا۔1911ء میں ارمنی زبان میں ہوا۔

 

3: ترجمہ کشمیرسکی 1854ء یہ بائیس مرتبہ شائع ہوا ۔اس کا ترجمہ 1844ء میں قستلانی زبان میں اور گلزہ نے اطالوی میں 1844ء۔ پھر دوبارہ اطالوی میں اس کا ترجمہ 1913ء میں ہوا۔نیکولف نے 1864ء میں اس کو روسی میں منتقل کیا ۔ کونٹش نے 1911ء میں ارمنی میں منتقل کیا ۔

 

4: ترجمہ ایڈورڈمونبر 1929ء اس کا ترجمہ اطالوی میں ہوا۔

 

5: مزدروس 1926ء6: ترجمہ لامیس 1931ء7: ترجمہ فاطمہ زاہدہ 1861ء۔[32]

 

5:انگریزی میں قرآن کریم کا ترجمہ:

واقدم ترجمۃ انجزیلیۃ للقرآن عن العربیۃ مباشرۃ ھی تلک التی قام بھا جورج سیل ،وظھرت فی لندن ۱۷۳۴،وحظیت بانتشار واسع منذ ظھورھا حتی الیوم اذ اعید طبعھا باستمرار۔وعنوانھا بالانجزیلیۃ: 

 

ترجمہ: 1734ء میں جارج سیل نے لندن میں قرآن کریم کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔یہ ترجمہ خالص عربی زبان سے منتقل

 

کیا گیا اوربہت عام ہوا اور آج تک اس کی کئی طباعت ہوچکی ہیں ۔اس پر انگریزی زبان میں یہ عنوان درج تھا:

 

The Koran, Commonly called the Alcoran of Mohammed: Translated into English immediately from the original Arabic with explanatorynotes, taken from the most approved commentators to which is prefixed a preliminary discourse: by George Sale Gent.London, 1734 in-4, p.187-508

 

اس کی دوسری طباعت لندن میں 1764ءمیں دو جلدوں میں ہوئی۔اور اسی ترجمہ کو سامنے رکھ کر تیوڈور آرنلڈ نے اس کو جرمن زبان میں منتقل کیا۔اس پر یہ عنوان درج تھا ۔

 

Der Koran..unmittelber aus dem Arabischen Original in das Ebglische ubersetzt...von George Sale ,Gent.Aufs treulichste wiedes ins Teutsche verdoll-metschet von Theodor Arnold.Lemgo 1746.in-4,p.p XXVIII.232,693[33]

 

جارج سیل 1736ء میں پیدائش اور 1797ء میں وفات ہے ۔فراغت کے اوقات میں عربی کا درس دیتا تھا اس نے کسی عربی مخطوط کا وافر مجموعہ حاصل کر لیا اور اس کو مکتبہ بودلیہ کو ودیعت رکھوادیا ۔اسلام کے بارے میں بہت زیادہ اس پر اثر تھا جس وجہ سے اس کو آدھا مسلمان کہا جاتا تھا۔ زمانہ جدید میں عربی نسخوں پر تحقیق میں اس نے کافی مدد کی ۔قرآن کریم کاترجمہ انگریزی زبان میں 470 صفحات پر کیا ۔نے القاموس الفلسفی میں لکھاہے کہ یہ ترجمہ کرنے میں کامیاب ہوا اور اس کا ترجمہ کئی بار طبع ہوامگر اس کا ترجمہ، شرح ،حواشی اور مقدمہ پر مشتمل تھا ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے دین اسلام میں لغو باتیں ،جھوٹ اور جرحات کو قلمبند کیا ۔ابن ہاشم عربی نے اس کو عربی زبان میں (قاہرہ 1913 ) میں نقل کیا اور شارل بیل نے دائرۃ المعارف جو یورپ میں سب سے پہلا دائرۃ المعارف شمار ہوتا ہے اس کے جمع کرنے میں اس سے مدد لی اور اس میں اس کے تمام عربی مقالات کو بھی لکھا۔[34]

 

انگریزی زبان کے دیگر تراجم :

 

1:ترجمہ سکندر روس 1649ء میں شائع ہوا۔پھر ایک مرتبہ لندن اور ایک بار امریکہ سے شائع ہوا۔

 

2:ترجمہ جارج سیل معہ مقدمہ 1743ء ۔چھتیس مرتبہ شائع ہوا۔آخری ایڈیشن 1913ء میں شائع ہوا ۔اس پر سرولن کا مقدمہ بھی ہے ۔یہ ترجمہ امریکہ میں آٹھ مرتبہ شائع ہوا۔

 

3: ترجمہ روڈول 1861ء۔آٹھ مرتبہ شائع ہوچکا ہے۔امریکہ میں بھی شائع ہوا ہے۔

 

4:ترجمہ ای ۔ایچ پار 1880ء تین مرتبی شائع ہوا۔ایک مرتبہ امریکہ میں شائع ہوا ۔

 

5:مترجمہ عبد الحکیم خان 1905ء۔

 

6: ترجمہ مرزا ابو الفضل 1913ء۔

 

7: ترجمہ محمد علی 1916ء ۔تین مرتبہ شائع ہوا۔اور ہالینڈ کی زبان میں بھی منتقل ہوا ۔

 

8: ترجمہ غلام سرور 1930ء میں آکسفورڈ سے شائع ہوا۔

 

9:ترجمہ پکہنال 1930ء یہ ترجمہ حضور نظام خلد اللہ ملکہ کے حکم سے کیا گیا 1931ء میں نیویارک (امریکہ) سے شائع ہوا۔

 

10: ترجمہ ڈاکٹر بل۔11: ترجمہ لین :منتخب ترجمہ۔12: ترجمہ مارکولیس:16پارے ہے

 

13:ترجمہ نواب عماد الملک۔14: ترجمہ مدرسہ الوعظین لکہنو۔15:ترجمہ عبداللہ یوسف علی 1935ء

 

16: ترجمہ مولوی عبدالماجد دریابادی۔ابھی مکمل شائع نہیں ہوا۔[35]

 

6: جرمن زبان میں قرآن کریم کا دوسرا ترجمہ:
واقدم ترجمۃ ألمانیۃ عن النص العربی ۔مباشرۃ ھی ترجمۃ دیوید فریدریش میجرلن، الاستاذ فی جامعۃ فرنکفورت، وظھرت ۱۷۷۲،تحت ھذا عنوان :

 

ترجمہ: 1772ء میں ڈریوڈ فریڈش میجرلن نے قرآن کریم کا عربی نص کے ساتھ جرمن زبان میں ترجمہ کیا۔ فریڈش فرنکفورٹ یونیورسٹی کے استاد تھے ۔اس ترجمہ پر یہ عنوان درج تھا:

 

Die Turkische Bibel,oder des Korans allereste Teutsche Uebersetzung aus der Arabischen Urschrift selbst fertigt: Welcher Nothwendigkeit und Nutzbarkeit in einer besonderm Ankundigung hier erwiesen: von M.David Friedrich Megerlin professor.Franfurt am Mayn.1772,in-8,p.p.876.

 

اس عنوان کا ترجمہ: یہ کتاب مقدس ترکی زبان ہے یا القرآن ،یہ جرمن زبان میں ترجمہ ہے خالص عربی زبان سے کیا ہے چند ضراری فوائد کے ساتھ ہے 1772ء میں اس کا ترجمہ ڈیوڈ فریڈرش میجرلن نے کیا ہے۔جو فرنکفورٹ کے استاذ ہیں ۔1773ء میں اس کا ایک اور ترجمہ جرمن زبان میں ہی شائع ہو اور یہ بھی خالص عربی زبان سے ہی کیا گیا تھا اس کا مترجم فریڈرش ابرہارڈ بویسن تھا اور اس پر یہ عنوان درج تھا ۔

 

Der Koran,oder das Gesetz fur die Muselmanner durch Muhammed den Sohn Abdall,nebst einigen feyerliclichen koranischen Gebeten,unmittelbar aus dem Arabischen ubersetzt,mit Anmerkungen und einen Register nersehen ,und auf verlangen herausgegeben von Friedrich Eberhard Boysen.Halle 1773,in-8,p.p.680

 

اس ترجمہ کی دوسری طباعت تصحیح کے ساتھ ھلہ کے مقام پر 1775 ء میں ہوئی ۔ان دونوں ترجموں کیلئےMichaels Bibliothek.VIII,p30-98 اور اشنورر کے صفحہ 430-431کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے ۔[36]

 

1772ء میں دنڈ فریڈریش اور فریڈریش بویزن سے قرآن کریم کے ترجمہ کا کام شروع ہوا ان ترجموں میں سب سے افضل ترجمہ روڈی باریت کا ترجمہ تھا جیسے پروفیسر عادل ٹیوڈور خوری نے جرمن زبان میں قرآن کریم کا دوسرا ترجمہ کیا۔اور وہ ترجمہ معتمد بہ ہے ۔عادل خوری نے پہلے تمام ترجموں پر اعتراض کیا ہے اور کہا کہ آیت ’’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ‘‘ میں روڈی باریت نے لا کو نافیہ سمجھا ہے حالانکہ یہ لائے نافیہ نہیں ہے ،جس کی وجہ سے قرآن کا ترجمہ تبدیل ہوگیا ۔[37]

 

ترتیب نزولی کے اعتبار سے قرآن کریم کا ترجمہ:

ظھرت لاول مرۃ ترجمۃ القرآن الکریم حسب التنزیل ،قام بھا رودویلRod wellسنۃ ۱۸۶۱،اتبع فیھا ھذا المستشرق سبیلا آخر غیر المعھود ،حیث جعل ترجمۃ قائمۃ علی الترتیب الزمنی حسب نزول الآیات و السور ،فبدأ بآیات ( اقرا باسم ربک۔۔۔)[العلق:۱] وانتھی (الیوم اکملت لکم دینکم)[المائدۃ:۳]

 

ترجمہ:1861ء میں روڈویل(J.M Rod well)نے پہلی مرتبہ قرآن کریم کا ترتیب نزولی کے اعتبار سے ترجمہ کیا ۔اور یہ ایک غیرمعہود کام تھاکہ قرآن کریم کاسورتوں اورآیتوں کی ترتیب زمانی کےاعتبارسےترجمہ کرنا۔سورۃ العلق کی آیت(اقرا باسم ربک۔۔۔)سےابتداء کی اور(الیوم اکملت لکم دینکم)پراختتام کیا۔ 

 

قرآن کریم کا اشعار کی صورت میں ترجمہ:

قام ادواری ھنری بالمر(E.H.Palmer) من جامعۃ کمبردج باخراج ترجمۃ للقرآن الکریم فی قالب شعری عامی،زعما منہ ان اسلوب القرآن اسلوب بدائی وعر ممایجب نقلہ الی العامیۃ حتی یفھم،ونشرت ھذہ الترجمۃ لادل مرۃ سنۃ ۱۸۸۰ وحظیت بالشھیرۃ۔[38]

 

ترجمہ:ایڈورڈ ہنری پالمر جو کہ کیمبر ج یونیورسٹی کا فاضل تھااس نے قرآن کریم کا ترجمہ عام اشعار میں کیا اس کا گما ن یہ تھا کہ قرآن کریم کا اسلوب ایک نیا اور دشوار اسلوب ہے لہذا اس کو عام فہم زبان میں نقل کیا جائی تاکہ سمجھا جاسکے ۔ یہ ترجمہ1880ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوا اور کافی مشہور ہوا۔اگر مان لیا جائے جو کچھ اس مترجم کے ذہن میں تھا تو یہ بات اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مترجم ایک جاہل،غافل اور خائن اور قرآن کریم کی بلاغت جو اعجازجو نظم ،اسلوب ،معنی ،تاثیر اور ہدف کے اعتبار سے اعجاز کی بلندیوں تک پہنچی ہوئی ہے اس سے عاجز ہے۔

 

خلاصہ بحث:
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب مغرب اور مشرق کے درمیان فاصلے مٹنا شروع ہوئے اور مغرب مشرقی علوم کی طرف سنجیدگی کے ساتھ متوجہ ہوا ۔خاص کر یورپی ممالک نے علوم اسلامیہ میں خاص توجہ دی اور ایک نئی اصطلاح پیدا ہوئی جس کو استشراق کہا جاتا ہے اور ان علوم کے حاصل کرنے والوں کو مستشرقین کا نام دیا گیا۔ چنانچہ مستشرقین نے علوم اسلامیہ میں خصوصی دلچسپی لینا شروع کی اور اس سے ان کا مقصد دین اسلام کی ترویج نہیں بلکہ دین اسلام کی تعلیمات اور اصل تصویر کو مسخ کرنے کے علاوہ اسلام کے غلبہ کا خوف، عیسائیت کی ترویج اوربہت سے مختلف سیاسی مقاصد تھے۔ اس کیلئےانہوں نے جس چیز کوسب سے پہلا ہدف بنایا وہ قرآن کریم تھا ۔چنانچہ سابقہ برطانوی وزیر اعظم رہنما ولیم گلاڈسٹن(William Evart Gladstone) نے 1882ءمیں کہا تھا کہ جب تک قرآن موجود ہے، یورپ کیلئے مشرق کو مغلوب کرناممکن نہیں ہے۔چنانچہ یہاں سے قرآن کریم کی طباعت اور تراجم کا نیا دور شروع ہواجس میں قرآن کریم کی مختلف ممالک میں طباعت اور مختلف زبانوں میں تراجم کیے گئے جن کا ذکر اس مقالہ میں ہے اور اس کے ساتھ ان مستشرقین کا ذکر بھی کیا گیا ہے جنہوں نے بناعت میں حصہ لیا یا ترجمہ کیا۔

حوالہ جات

  1. اسماعیل علی محمد،الاستشراق بین الحقیقہ والتضلیل،مدخل علمی لدراسۃ الاستشراق،للنشر والتوزیع ، 1419ھ، ص29
  2. ایضاً، ص85
  3. المیدانی،عبدالرحمن،اجنحۃ المکر الثلاثہ وخوافیھا التبشیر،الاستشراق۔الاستعمار،دارالقلم ،دمشق،ص150
  4. اسماعیل علی محمد،الاستشراق بین الحقیقہ والتضلیل،ص35
  5. الکبیسی،فاضل محمد عواد،المستشرقون المعاصرون،دارالفرقان،اردن، 2005ء،ص 26
  6. اسماعیل علی محمد،الاستشراق بین الحقیقہ والتضلیل،ص56-57
  7. مطر ہاشمی،حسن علی حسن ،قراۃ تقدیمہ فی تاریخ القرآن،للمستشرق تھیودورنولدکہ،المطبعۃ دارالکفیل للطباعۃ والنشر التوزیغ ، 1435ھ ،ص88
  8. MykhayloYakubovych: History of the printing of the Glorious Quran in Europe p:5
  9. بدوی ،ڈاکٹر عبد الرحمن،موسوعۃ المستشرقین ،دارالعلم للملایین،ص438
  10. العقیقی ،نجیب،المستشرقون، دار المعارف مصر، طبعۃ ثالثہ ،ج2،ص653
  11. بدوی،موسوعۃ المستشرقین ،ص438

     

    Encyclopedia of Quran,Jane Dammen KcAuliffe,General editor, Brill leiden .Boston 2004.Vol 4:P 265

  12. Wikipedia.search (Abraham Hinkalman)
  13. Mykhaylo Yakubovych:History of the printing of the Glorious Quran in Europe p:8
  14. بدوی ،موسوعۃ المستشرقین ،ص438
  15. Wikipedia.search (Ludovico Marracci)
  16. Mykhaylo Yakubovych, History of the printing of the Glorious Quran in Europe, p۔10-13
  17. بدوی،موسوعۃ المستشرقین ،ص439
  18. العقیقی ،نجیب،المستشرقون،ج2،ص701
  19. بنداق،محمد صالح ،ڈاکٹر،المستشرقون و ترجمۃ القرآن الکریم ،منشورات دارالافاق الجدیدہ بیروت،الطبعۃ ثانیۃ 1403ھ،1983ء،ص89
  20. حسین،محمد بھاء الدین،ڈاکٹر ،المستشرقون والقرآن الکریم ،دارالنفائس لننشر والتوزیغ، ص 286
  21. بدوی ،موسوعۃ المستشرقین ،ص441
  22. صارم،قاضی عبد الصمد ،عرض الانوار المعروف تاریخ القرآن،میر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی،ص 121
  23. Encyclopedia of Quran, Jane Dammen KcAuliffe,General editor, Brill leiden Boston 2004.Vol 5:P 346
  24. صارم،قاضی عبد الصمد ،عرض الانوار المعروف تاریخ القرآن،ص122
  25. بدوی،موسوعۃ المستشرقین ،ص443
  26. صارم،قاضی عبد الصمد ،عرض الانوار المعروف تاریخ القرآن،ص121
  27. بدوی،موسوعۃ المستشرقین ،ص443
  28. صارم،قاضی عبد الصمد ،عرض الانوار المعروف تاریخ القرآن،ص122
  29. بدوی،موسوعۃ المستشرقین ،ص443
  30. قراۃ تقدیمہ فی ( تاریخ القرآن ) للمستشرق تھیودورنولدکہ، ص94
  31. بدوی،موسوعۃ المستشرقین ،ص327
  32. صارم،قاضی عبد الصمد ،عرض الانوار المعروف تاریخ القرآن،ص121
  33. بدوی،موسوعۃ المستشرقین ،ص444
  34. العقیقی ،نجیب،المستشرقون،ج2 ،ص471 / موسوعۃ المستشرقین ،ص358، قراۃ تقدیمہ فی ( تاریخ القرآن )للمستشرق تھیودورنولدکہ، ص94
  35. صارم،قاضی عبد الصمد ،عرض الانوار المعروف تاریخ القرآن،ص119-120
  36. بدوی،موسوعۃ المستشرقین ،ص444
  37. قراۃ تقدیمہ فی ( تاریخ القرآن ) للمستشرق تھیودورنولدکہ،ص95
  38. المستشرقون والقرآن الکریم ،ص291-292
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...