Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > The International Research Journal Department of Usooluddin > Volume 2 Issue 2 of The International Research Journal Department of Usooluddin

بیسویں صدی عیسوی میں تحریک اسلامی کے اہداف و نتائج: ایک تجزیاتی مطالعہ |
The International Research Journal Department of Usooluddin
The International Research Journal Department of Usooluddin

ریاست مدینہ: ایک نعرہ، خواب، خواہش یا مقصد

پاکستان میں نئی حکومت کے آتے ہی ریاست مدینہ کا ذکر ہوا تو ایک غلغلہ شروع ہوگیا ۔ تمام ہی ملک سے سیاسی مخالفین اور عوام الناس نے الیکٹرانک میڈیا، اخبارات اورسوشل میڈیا پر انفرادی زندگی کے معاملات پر گفتگو شروع کردی ہے ۔ دورِ خلفائے راشدین کے واقعات سے موجودہ لیڈران کا تقابل شروع ہوگیا لیکن یہ بات ذہن میں نہیں رہی کہ نظامِ خلافت قائم کرنے سے قبل اللہ کے رسول ﷺنےتیرہ برس انفرادی محنت کی تھی جس کے بعدیثرب کی طرف ہجرت کا حکم ہوا اور ریاست مدینہ کا آغاز ہوا۔ لیکن سورہ مائدہ کی آیت مبارکہ (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا) فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔

 

اللہ کے رسولﷺنے جس ریاست مدینہ کا قیام کیا تھا اور ان کا جو مقصد بعثت قرآن نے بیان کیا ہے اس کی تکمیل آپ ﷺکے دست مبارک سے سرزمینِ حجاز کی حد غزوہ تبوک کے وقت ہوچکی تھی۔ان کے بعد ان کے نائبین نے آئندہ۳۰ سالوں میں آدھی دنیا تک یہ نظام پہنچا دیا جس کے بعد آہستہ آہستہ یہ نظام ملوکیت سے ہوتا ہوا جمہوریت کی صورت اختیار کرگیا ۔ اہم ترین بات اور ہمارے ایمان کے حصہ ہے کہ حضور اکرم ﷺاس بات کی خبر دے کر گئے ہیں۔جیسا کہ آپﷺنے فرمایا:

 

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تكون النبوة فيكم ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها الله إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة فتكون ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها الله إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون ملكًا عاضًا فيكون ما شاء الله أن يكون، ثم يرفعها إذا شاء الله أن يرفعها، ثم تكون ملكًا جبرية فتكون ما شاء الله أن تكون، ثم يرفعها الله إذا شاء أن يرفعها، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة، ثم سكت۔[1]

 

’’تمہارے اندر عہد نبوت جب تک اللہ چاہے گا موجود رہے گا ۔پھر جب اللہ اسے ختم کرنا چاہے گا تو اس (عہد نبوت) کو ختم کردے گا ۔ (اس کے بعد) خلافت علٰی منہاج النبوۃقائم ہوگی، جو قائم رہے گی، جب تک اللہ (اسے قائم) رکھنا چاہے گا، پھر جب اللہ اسےختم کرنا چاہے گا تو اسے ختم کردے گا۔پھر (اس کی جگہ) کاٹ کھانے والی بادشاہت قائم ہوجائے گی، جو جب تک اللہ چاہے گا برقرار رہے گی ۔ پھر جب اسے بھی اللہ ختم کرنا چاہے تو ختم کردے گا ۔ پھر جابرانہ ملوکیت کا دور ہوگا، جو جب تک اللہ چاہےگا باقی رہے گا ۔پھر اللہ جب اسے بھی ختم کرنا چاہے گا ختم کردے گا ۔ پھر خلافت علٰی منہاج النبوۃ (دوبارہ) قائم ہوجائے گی ۔ پھر آپﷺ نے خاموشی اختیار کرلی۔‘‘

 

یہ خبر جو الصادق والمصدوق نے دی ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ رسولوں کا یہ مشن پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ دنیا میں یہ نظام عدل و قسط نافذ ہو کر رہے گا۔ چاہے کوئی مانے یانہ مانے مستقبل میں یہ نظام خلافت پوری دنیا پر قائم ہوناہے ۔بحیثیت مسلمان ہمیں اس بات کا یقین بھی ہے اور فرض بھی ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں۔ یہ خبر بھی الحمد للہ احادیث میں موجود ہے۔ جیساکہ آنحضرتﷺنے ارشاد فرمایا:

 

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وَإِنَّ رَبِّي قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ وَإِنِّي أَعْطَيْتُكَ لِأُمَّتِكَ أَنْ لَا أُهْلِكَهُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لَا أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ يَسْتَبِيحُ بَيْضَتَهُمْ وَلَوْ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بِأَقْطَارِهَا أَوْ قَالَ مَنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا وَيَسْبِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا۔[2]

 

’’رسولﷺ نے ارشاد فرمایا زمین میرے لئے سمیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے زمین کے مشرق و مغرب کو دیکھ لیا اور مجھے دونوں خزانے (یا سرخ) اور سفید یعنی سونا اور چاندی دیئے گئے (روم کا سکہ سونے کا اور ایران کا چاندی کا ہوتا تھا) اور مجھے کہا گیا کہ تمہاری (اُمت کی) سلطنت وہی تک ہوگی جہاں تک تمہارے لئے زمین سمیٹی گئی اور میں نے اللہ سے تین دعائیں مانگیں اول یہ کہ میری اُمت پر قحط نہ آئے کہ جس سے اکثر اُمت ہلاک ہو جائے دوم یہ کہ میری اُمت فرقوں اورگروہوں میں نہ بٹے اور سوم یہ کہ ان کی طاقت ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہو (یعنی باہم کشت و قتال نہ کریں) مجھے ارشاد ہوا کہ جب میں (اللہ تعالی) کوئی فیصلہ کرلیتا ہوں تو کوئی اسے رد نہیں کر سکتا میں تمہاری اُمت پر ایسا قحط ہرگز مسلط نہ کروں گا جس میں سب یا (اکثر) ہلاکت کا شکار ہو جائیں اور میں تمہاری اُمت پر اطراف و اکناف ارض سے تمام دشمن اکٹھے نہ ہونے دوں گا یہاں تک کہ یہ آپس میں نہ لڑیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں۔‘‘

 

اب اگر اس بات کا تجزیہ کیا جائے تو رسولﷺکے اس مشن، نظام عدل کا قیام، کی تکمیل کے لیےواحد مثال رسول اکرمﷺ کی زندگی اور تحریک میں ملتی ہے جو تاریخ انسانی میں پیش کی جاسکتی ہے کہ جب دنیا نے یہ دیکھاکہ تکمیل انقلاب ہوگئی۔

 

دورِ ملوکیت میں تحریکاتِ اسلامی کے اہداف

دورِ ملوکیت اورپھرنوآبادتی نظام میں دنیا کےمختلف خطوں میں بے شمارتحریکات اٹھیں، جن میں سے دنیاوی اعتبارسے کامیابی شاید کسی کو بھی نہیں مل سکی البتہ اخروی اجر یقینی طور پر اللہ کے پاس محفوظ ہے کہ جس اخلاص نیت اور مقصد کے حصول کے لیے تمام ہی تحریکات کے داعیان نے کام کا آغاز کیا وہ رضائے الہی کا حصول ہی تھا۔ ہم ان میں سے پانچ احیائی تحریکات تحریک شہیدین، سنوسی تحریک، نورسی تحریک، اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ جنہوں نے نظامِ خلافت، احیائے اسلام، اسلام کا نظام حکومت اور دیگر نعروں کے ساتھ کام کا آغاز کیا ۔الغرض ان تمام تحریکات کا ہدف نشأۃ ثانیہ ہی تھا۔

 

تحریک شہیدین نے اس نصب العین کو’’ہندوستا ن میں اسلامی حکومت کا احیاء‘‘کہا، اس مقصد کیلئے انہوں نے ہندوستان کے ایک خطہ کا انتحاب کیا تاکہ اگر ایک خطہ میں یہ نظام قائم ہوجا ئے اسر اسی نظام کو قبولیت عامہ مل جائے پھر اس کو ہندوستان کے باقی خطوں میں پھیلانا آسان ہوجائے گا۔سید احمد شہید خود اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم رضائے الہی کے آرزو مند ہیں، ہم نے محض اللہ کے لیے علم جہاد بلند کیا ہے۔سنوسی تحریک میں اس مقصد کو’’احیائے خلافت‘‘کا نام دیا گیا، وہ اس کےذریعہ سے اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے ۔جبکہ سعید نورسی اپنی جدوجہدکے آغاز میں انجمن اتحاد محمدی قائم کی جس کا مقصد’’اسلام کی بنیاد پر خلافتِ اسلامیہ کی تشکیل نو کرنا اور وحدت اسلامی کو فروغ دینا‘‘تھا۔ جماعت اسلامی کے اولین دور میں اس حکومت کو’’حکومت الہیہ‘‘کہا گیا ۔ اس کے مقابلہ میں اخوان المسلمین نے اس جدوجہد کو’’نظام خلافت‘‘کا نام دیا اور وہ احیائے خلافت ہی چاہتے تھے۔

 

مصر، برصغیراورترکی، ان تینوں خطوں کے افراد کا ایک جذباتی تعلق خلافت کے ادارہ کےساتھ موجود رہا ہے۔ اسی لئے ان تمام تحریکات میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ جب ترکی میں اس خلافت کے ادارہ کے خاتمہ کا اعلان 3 مارچ1924ء کو کیا گیا تو اس کے خلاف سب سے پہلے25 مارچ 1924ء کوجامعہ الازہر سے ایک اعلامیہ جاری ہوا جس میں الازہر یونیورسٹی کے ریکٹر نے کہا:

 

’’خلافت، جو امامت کے ہم معنی ہے، دینی ودنیاوی معاملات میں تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے کیونکہ یہ پوری ملت کے مفادات کی نگہداشت اور اُمت کے معاملات کو چلانے کی ضامن ہوتی ہے۔‘‘[3]

 

مصری عوام نے بھی اس فیصلہ پر غم و غصہ کا اظہار کیا ۔ پہلی خلافت کانفرنس بھی 1926ء میں قاہرہ میں ہوئی جس کا پس منظر یہ ہے کہ اُمتِ علماء کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ اس اہم مسئلہ پر مسلمانوں کی ایک نمائندہ اسمبلی یا کانگریس میں بحث کرکے خلیفہ کا انتخا ب کیا جاسکتا ہے۔دوسری جانب عوامی سطح پر اگر کوئی تحریک چلی تو وہ تحریکِ خلافت ہے جو ہندوستان میں چلی اس کے باوجود کہ ان کو حکمران ہی خلافت کو ختم کرنے میں ایک بنیادی کردار رکھتے تھے۔اسی طرح جنگِ عظیم دوم کے بعد جو پہلی ورلڈ مسلم کانفرنس کا انعقاد ہوا اس کی میزبانی کا شرف پاکستا ن کو حاصل ہوا جو کہ فروری 1949ء ہے۔[4]

 

جبکہ 21ویں صدی میں کسی درجہ میں اُمہ کے لیے آواز اٹھانے کا سہرا ترکی کی موجودہ حکومت کو جاتا ہے۔اس کے علاوہ ان تحریکات کو سلاسل سے بھی نسبت ہے جس میں تزکیہ نفس کی اہمیت ہے تمام ہی بانیان تحریک کو اس بات کا احساس تھا کہ حقیقی ایمان کی منتقلی صحبت کے بغیر ممکن نہیں اور تعلق مع اللہ کے حصول کے لیے صفائی قلب نہایت ضروری ہے۔ شاہ اسمٰعیل شہیدنے تو اس کام کو ہمیشہ ہمیشہ جاری رہنے کی خاطر بیان وتقاریرسے آگےبڑھ کر ایک کتاب’’تقویہ الایمان‘‘بھی تحریر کی۔اس کے دیباچہ میں وہ ایک علیحدہ مضمون باندھتے ہیں جس میں انبیاء کا مقصد بعثت توحید کا خصوصیت سے تذکرہ کرتے ہیں ۔ اسی دیباچہ میں وہ لکھتے ہیں:

 

’’بندگی کا دارومدار ایمان کی اصلاح پر ہے ۔ اس کی بندگی غیرمقبول ہے جس کے ایمان میں خلل ہے اور جس کا ایمان درست ہے اس کی تھوڑی سی بندگی بھی قابل قدر ہے لہذا ہر مسلمان کا فرض ہے کہ ایمان کو درست رکھنے کی کوشش کرے اور اصلاح ایمان کو تمام چیزوں پر مقدم رکھے۔‘‘[5]

 

ان اہداف کے حصول کے لئے اپنے رفقاء و کارکنان کی تربیت کے حوالہ سےان تمام تحریکات کا طریقہ کاراور مرکز نگاہ رفقاء و کارکنان کا تعلق مع اللہ، کارکنان کی اخلاقی اور فکر ی تربیت کے ساتھ تزکیہ نفس کو اہمیت حاصل ہے۔تحریک شہیدین نے رفقاء سے جو بیعت لی اس میں بنیادی طور پر یہ بیان کیا:

 

’’امام کی مکمل اطاعت اور احکام و قانون شریعت کی پوری پابندی کرنی ہوگی۔تمام رسوم جاہلیت اور امورغیر مشروع، مخالف شریعت، رواج و دستور یک قلم چھوڑنے پڑیں گے۔‘‘[6]

 

جبکہ جماعت اسلامی کےنظام دعوت میں دو میدا ن قابل ذکر ہیں۔ سید مودودی نے جماعت کے قیام سےقبل اپنی تحریروں کے ذریعہ دعوت کے کام کا آغاز کیا۔ اگرچہ وقت گزرنےکے ساتھ ساتھ ان صلاحیتوں میں کمی واقع ہوئی لیکن اب بھی تحریر و تقریر دونوں ہی شعبوں میں جماعت کی دعوت کا موثر ذریعہ ہے۔ سید مودودی کے دور کے بارے میں صفہ ماڈل سکول کی نگراں محترمہ فرزانہ چیمہ کہتی ہیں:

 

’’مولانا مودودی کا کارناہمہ پہلو، ہمہ جہت اور جامع ہے ۔آپ کا اصلی کام فکری رہنمائی اور قلم و قرطاس کا صحیح استعمال ہے۔ جہاد قلم، زبان اورسیف سبھی سے کیا جاتا ہے۔ دیر پا اثرات قلمی جہاد ہی کے ہوتے ہیں، جو سید مودود ی کی اصل پہچان ہے۔‘‘[7]

 

تحریکات کی جدوجہد کے نتائج

اگر ہم نتائج کا جائزہ لیں تو اخروی اعتبار سے تو یقیناً تمام ہی تحریکات کے افراد کا یہ معاملہ ہے کہ ان کا اخروی اجر اللہ کے پاس محفوظ ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

 

إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقرآن وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ۔[8]

 

’’بلا شبہ اللہ تعالٰی نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں۔ جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں، اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے۔ تو تم لوگ اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ۔ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘

 

البتہ دنیاوی اعتبار سے دیکھیں تو تحریک شہیدین کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا ۔ تمام قائدین اور مجاہدین کو ملا کر 137 مجاہدین شہید ہوگئے۔ اسلامی حکومت کا احیاء اور انگریز کو بے دخل کردینے کا خواب بھی پورا نہ ہوسکا اور کچھ عرصہ کے بعد پور ے ہندوستان پر برطانیہ کی براہ راست حکومت کا آغاز ہوا۔ یقینی طور پر اس میں کچھ دخل حکمت عملی اختیار کرنے کا بھی ہے لیکن قائدین کے اخلاص اور ان کے جذبہ عمل کی نفی نہیں کی جاسکتی۔یہ ضرور ہوا کہ اس طرح آئندہ سالوں میں احیائے خلافت اور اسلام کے احیاء کے لیے اٹھنے والی تحریکات کے لیے کچھ راہنما اصول مل گئے۔

 

سنوسی تحریک کو بھی عملی میدان میں ابتدائی کامیابیاں ضرور ملیں۔لیبیا کی آزادی کے بعدمحمد ادریس بن محمد المہدی اگرچہ پہلے بادشاہ بنے لیکن وہ عمر مختار یا سید احمد الشریف کے طرح تحریک کے اتنے قریب نہ تھے کہ سنوسی العظیم کے کام کو آگے بڑہا سکتے۔ البتہ ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کا کارنامہ انجام دینے والے افراد کو مغرب کی آشیر باد حاصل تھی۔ دوسری طرف دنیاوی اعتبار سے ہم آج کہہ سکتے ہیں کہ اس تحریک کے زعماء جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو تیل کی دریافت کے بعد جن ممالک کے افراد دنیاوی اعتبار سے اعتدال کی روش پر ہیں وہ صرف لیبیا ہی ہے۔ دیگر تمام عرب اور افریقی ممالک میں تیل کی دولت نے ان کی ذاتی زندگی اور دولت کے ریل پیل میں بے تحاشا اضافہ کر دیا۔

 

نورسی تحریک کو بھی کامیابی اس طرح تو حاصل نہ ہوسکی جو سعید نورسی کا مطمع نظر تھا۔ اگرچہ وہ خود تمام عمر قید و بند میں گزار کےاس دنیا سے تنہا رخصت ہوئے لیکن انہوں نے ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی جو ان کے انتقال کے 50سال بعد جزوی طور پر کامیابی سے ہمکنار ہوئی ۔گذشتہ 9سال کی جدوجہد میں جو افراد بھی ترکی میں کام کررہے ہیں اب وہ خلافت کی تشکیل نو اور ترکی کو عالم اسلام کے ایک رہنما کے طورپر پیش کررہے ہیں ۔ اگرچہ اس کام میں ان کا طریقہ کار نہایت سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن تمام ہی معاصر تحریکا ت کے مقابلہ میں یہ موثر محسوس ہورہا ہے بالخصوص جن قوتوں سے ان کا مقابلہ ہے وہ زیادہ زور آور، منظم اور مربوط ہیں ۔ اس کے باوجود نورسی تحریک کے متتبعین ان کی فکر کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

 

اگر ہم جماعتِ اسلامی کی جدوجہد کا جائزہ لیں تو یہاں معاملہ جزوی طور پر کامیابی کا ہے جس کو ہم دنیاو ی کامیابی کہہ سکتے ہیں۔لیکن یہ کامیابی اس نصب العین کا حصہ نہیں ہے جو آغاز سفر میں طے کیا گیاتھا یعنی انسانی زندگی کے پورے نظام کو اس کے تمام شُعبوں فکر ونظر، عقیدہ وخیال، مذہب و اخلاق، سیرت و کردار، تعلیم وتربیت، تہذیب و ثقافت، تمدّن و معاشرت، معیشت وسیایت، قانون و عدالت، صلح و جنگ، اور بین ُالاقوامی تعلّقات سمیت خُدا کی بندگی اور انبیاءؑ کی ہدایت پر قائم کیا جائے۔[9]

 

ہم جس کامیابی کو معیار بنا رہے ہیں وہ ہے انتخابی میدان میں کامیابی جو 1970ء کے انتخابا ت میں چار نشستیں یا پھر متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے سرحد (خیبر پختونخواہ) کی صوبائی حکومت ہے۔ لیکن اگر ہم جائزہ لیں کہ احیائی تحریکات میں کس جماعت یا تنظیم کے حصہ میں کیا عزت آئی ہے تو اس معیار پر جماعت تمام احیائی تحریکات میں سب سے آخر میں نظر آتی ہے لیکن اگر بانی جماعت کی عزت، ان کی تحریروں سے رہنمائی، دیگر احیائی تحریکات کے لیے لٹریچر کی فراہمی، رفاہ عامہ کے کاموں میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر احیائی تحریکات کی مدد کی بات ہو تو جماعت اسلامی کی فعالیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اسی لیے اس کو راقم جزوی کامیابی گردانتا ہے۔ رفاہ عامہ کے کاموں میں بھی افراد جماعت اسلامی کے کئے گئے کام کو سراہتے ہیں لیکن اس کے نتیجہ میں عوام الناس سیاسی یا اخلاقی طورپر جماعت اسلای کے قریب نہیں آتے۔ وہ جماعت اسلامی کو ان ہی شعبوں (رفاہ عامہ) میں کام کرنے کا اہل سمجھتے ہیں۔ ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کے کام کے قابل نہیں سمجھتے۔

 

اخوان المسلمین کو جزو ی طور پر ضرور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ لیکن اس کی کامیابیوں کی ایک طویل فہرست ہے ۔ سب سے اہم محاذ فلسطین پر ہونے والی محنت اورجدوجہد ہے جس کی داستان کا ہم باب پنجم میں جائزہ لے چکے ہیں۔اس کے علاوہ سماجی خدمات، رفاہ عامہ کے کاموں اور بالخصوص اقتصادی میدان میں انکی کامیابیوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی جس کی مثال دیگر احیائی تحریکات میں نہیں ملتی۔ یہ بھی اخوان کا کارنامہ ہے کہ ان تمام شعبہ جات میں یکبارگی کام کرنے کے باوجود ان کی دعوتی اور فکر ی و نظریاتی سطح پر رفقاء کی تربیت کے معیار میں کوئی کمی نہ آئی۔

 

بعد ازاں ایسا بھی ہوا کہ اخوان اپنی جدوجہد کے دوران مصر کی حکومت کی ذمہ داری تک پہنچ گئے۔ اگرچہ یہاں وہی داستان دہرائی گئی جو اس سے قبل الجزائر میں پیش آچکی تھی لیکن اخوان کے عزم و حوصلہ میں کوئی کمی نہ آسکی۔اگرچہ نظام خلافت کے احیاء کی جدوجہد میں اخوان کو کامیابی حاصل نہ ہوسکی لیکن دیگر شعبہ جات میں ترقی کے باعث مصری اور عرب عوام سے ان کا رابطہ بڑھتا گیا اور جب جب موقع ملا انتخابی میدان میں اخوان کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی۔ اس بات کا امکان ہے کہ آئندہ کچھ سالوں میں ترکی کے طیب اردگان کی طرح اخوان بھی مصر میں کامیابی حاصل کرلیں لیکن فی الحال ہم ان کی کاوشوں جزوی کامیابی ہی کہہ سکتے ہیں۔

 

طریقہ کار یا منہج

اگرچہ تمام تحریکات کا مقصد و نصب العین ایک ہی تھا لیکن ان تحریکات نے مختلف انداز میں کام کا آغاز کیا اور مختلف طریقے اختیار کئے۔ تحریک شہیدین نے عسکری منہج اختیار کیا۔ وہ تمام افراد جو دعوت کی بنیاد پر ان کے قریب آئے ان کو منظم کرکے ایک اجتماعیت میں جمع کیا اور پھر ہجرت کا اعلان کیا ۔ اس سے قبل انہوں نے تربیت کے حوالہ سے عقائد کی اصلاح، مقصد کو واضح کرنا، تزکیہ نفس کی تلقین و مشقیں، بدعات کا ابطال، بے جارسومات کی نکیر بھی کی اور رفقاء کار کی عسکری تربیت بھی کی۔

 

سنوسی تحریک نے اپنا منہج انتظامی امور، خدمت اور عسکریت پر مبنی ایک مجموعی طور پر موثر نظام کو رکھا ۔ ہم دیکھ آئے ہیں کہ کس طرح انہوں نے زاویہ قائم کرکے صحرا پر اپنی عملداری قائم کی اور بالآخر تمام قبائل کو اپنے منظم ہونے کا ثبوت دیا ۔ یہ کہا جاسکتا ہےکہ انہوں نے عسکری تربیت کو اپنے رفقاء کے لیے لازم رکھا لیکن یہ بات بہت اہم ہے کہ1843ء میں آغاز کرنے والی تحریک جس کے رفقاء 1850ء کے زمانہ سے عسکری تربیت حاصل کررہے تھے اور ایک معرکہ کےلیے تیار تھے ان کا پہلا معرکہ1911ء میں قابض افواج کے ساتھ ہوا۔ یہ بھی ہوا کہ بہت سے ان کے ساتھی کسی معرکہ میں داد شجاعت نہ دکھا سکے اور زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہ کی لیکن وہ اس حدیث کی عملی تصویر بن کر کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔جیساکہ حدیث نبویﷺہے:

 

مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَغْزُ وَلَمْ يُحَدِّثْ بِهِ نَفْسَهُ مَاتَ عَلَی شُعْبَةٍ مِنْ نِفَاقٍ۔[10]

 

’’جس کی موت واقع ہوگئی اور اس نے جہاد کیا اور نہ اس کے دل میں اس کی تمنا ہوئی تو وہ نفاق کے شعبہ پر مرا۔‘‘

 

نورسی تحریک کامنہج آغازمیں یقیناً عسکری تھا لیکن یہ بعد میں خدمت کے منہج میں تبدیل ہوگیا ۔ سعید نورسی نے رسائل نور کے ذریعہ جو تربیت کی تھی اس سے ان کے کارکنان کی نظری، روحانی اور عملی تربیت ہوئی ۔ بعد ازاں جب کمالی استبداد کے باعث طویل جدو جہد اختیار کرنا پڑی۔ عدنان مندریس کے حکومت کے خاتمہ کے بعد نجم الدین اربکان نےمحسوس کیا کہ اب منہج کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔لہذا انہوں نے تعلیمی اور خدمت کے منہج کو اختیار کرکے طویل راستہ سے جدوجہد کا آغاز کیا جس کے نتائج 20سال بعد ظاہر ہونا شروع ہوئے۔

 

جماعت اسلامی نے اپنا منہج پہلے 9 سال تک انقلابی رکھا اور پاکستان بننے کے کچھ عرصہ (قرارداد مقاصد کی کامیابی) بعد اس میں تبدیلیاں آگئیں۔لیکن اب ہم جماعت کے منہج کوانتخابی مانیں گے کیونکہ مہمات چلانے کے لیے وقت کا تعین، مہمات کا موضوع، شوریٰ کا ایجنڈا، امیر جماعت کے دورےاور دیگر جماعتوں سے تعاون و اتحاد الغرض تمام امور میں جماعت اسلامی کا فیصلہ انتخابی ہوتا ہے۔ اب جماعت اسلامی حکومات الہیہٰ کی جدوجہد سے تائب ہوکر حکومت کے حصول میں سرگرداں ہے۔اسی دور میں امام خمینی نے بھی جلاوطنی کے ماحول میں بادشاہت کے خلاف ایک تحریک کی بنیاد رکھی اگر اس کا تقابل کیاجائے تو کامیابی نظر آتی ہے جبکہ انتخابی منہج کے بجائے احتجاجی منہج اختیارکیا گیاتھا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے علی رضا لکھتے ہیں:

 

’’مولانا مودودی اور خمینی کے اختیار کردہ راستوں کا ذکر بھی ضروری ہے ۔ مولانا کے خیال میں اسلام اور غیر اسلام کے مابین برپا کشمکش بالآخر اسلامی انقلاب اور اسلامی ریاست کے قیام پر منتج ہوگی اور پھر اس کے نتیجے میں معاشرہ میں بڑے پیمانے پر اصلاحات ہونگی ۔ اصلاحات کے بعد تمام نقائص سے پاک مثال اسلامی نظام معرض وجود میں آجائے گا۔ آیت اللہ خمینی کے برعکس مولانا مودودی نے اقتدار تک پہنچنےکے فوری راستوں میں کوئی دلچسپی نہیں لی بلکہ اسلامی ریاست کی تشکیل کے بنیادی کاموں کو پہلے مکمل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے رہے تاکہ پختہ بنیادوں اور پختہ دیواروں پر تعمیر شدہ عمارت صدیوں کام دے سکے۔‘‘[11]

 

اخوان المسلمین نے انقلابی منہج اختیار کیا لیکن اس کےساتھ ساتھ اپنے رفقاء کو اسلاف سے جوڑ کے رکھا، تعلیمی، تحقیقی، ثقافتی اور اقتصادی میدان کے ساتھ ساتھ میدان جہاد میں بھی جوہر دکھائے ۔ اسی بنا پر ہم اخوان کے منہج کو انقلابی مانتے ہیں کہ انہوں نے مختلف شعبہ جات میں بیک وقت کام کیا جس کا فائدہ انہوں نے حکومت بناتے وقت حاصل کیا ۔ اگرچہ انہیں دائمی طورپر کامیابی نہ مل سکی لیکن منہج اور نصب العین پر برقرار رہے۔

 

پاکستان میں ریاستِ مدینہ کا خواب اور اس کی تعبیر

اب پاکستان میں ریاست مدینہ کا خواب دیکھا جارہا ہے ۔ اگر ہم غور کریں کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کے باعث مذکورہ بالا تحریکات اپنا اثر چھوڑنےاور دنیاوی اعتبار سے ایک اسلامی مملکت کے قیام یا احیائے خلافت میں ناکام رہیں۔تو درج ذیل عوامل سامنے آتے ہیں جن کے باعث ان تحاریک کو اپنے مقاصد میں کما حقہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی ۔وہ عوامل حسبِ ذیل ہیں:

 

۱۔ بانی کے زمانہ حیات میں یا ان کے رخصت ہوجانے کے بعد طے کردہ طریقہ کار میں بنیادی تبدیلی اختیار کرنا۔

 

۲۔ تربیتی پہلو میں دین کے بنیادی ماخذ یعنی قرآن مجید اور حدیث کو بنیادی عنصر سے پہلو تہی کرنا۔

 

۳۔ کارکنان کا تعلق مع اللہ اور تزکیہ نفس (باطنی صفائی) سے اعراض کرنا۔

 

۴۔ کارکنان کااسلاف سے تعلق کمزور رہنا، بالخصوص اولاًانقلابی تحریک یعنی تحریک محمدیﷺکو پیش نظر نہ رکھنا۔

 

۵۔ ذمہ داران کا تعین کرتے ہوئے ان کی باطنی کیفیات کے مقابلہ پرتحریکی پہلو کو اہمیت دینا۔

 

ریاست مدینہ کے طرز پر ریاست قائم کرنے کے لیے مندرجہ ذیل امور کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔

 

مغربی مفکرین اس بات کا بھی اعتراف کرتےہیں کہ نشأۃ ثانیہ یا احیائےاسلام کی تحریکات تین خطوں میں ہی اثر پذیر ہوئیں جن میں ترکی، عرب ممالک اوربرصغیر پاک و ہند کو نمایاں حیثیت حاصل ہےکیونکہ باقی عالم اسلام عظمت رفتہ کی دوبارہ بحالی کی خواہش تو ضروررکھتا ہے لیکن کوشاں نہیں ہے ۔ ولفریڈ اسمتھ کے الفاظ میں:

 

It is perhaps not misleading to epitomize the divergence in discrimination between the concepts ‘renaissance’ and ‘reformation’. Taking these terms as signifying respectively the reviving of an ancient reality that has lapsed, and the modifying of an existing one that has gone wrong, then the former idea applies more aptly to the modern mood of other Muslims, particularly Arabs and Indo-Pakistanis, the latter to the Turks. The others, in their attitude to Islamic society on earth, are thinking of an ancient glory that they wish to recapture. [12]

 

طریقہ کار کا انتخاب

یہ وہ مشکل سوال ہے جس پر اہلِ علم نے مسلسل اورانتھک کام کیا ہے ۔ اس ذیل میں بھی یہ کاوش موجود ہے گذشتہ دو سو سالوںمیں مختلف راستے و مناہج اختیار کئے گئے لیکن کامیابی مکمل اور مستقل حاصل نہ ہوسکی۔ ہر ایک منہج اختیار کرنے والے کے پاس اپنے دلائل موجود ہیں ۔عسکری منہج اختیار کرنے والے سورہ النساء آیت 75 سے دلیل لے کر آتے ہیں:

 

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَاۗءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُھَا ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّـۢا ڌ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا۔[13]

 

’’آخر کیا سبب ہے کہ تم ان مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر قتال نہ کرو گے جو کمزور پڑ کر دب گئے ہیں۔ اور پکار رہے ہیں کہ اے ہمارے رب اس جگہ سے ہماری جان چھڑا جہاں کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارے لئے کوئی نجات دینے والا بھیج۔‘‘

 

اس آیت سے واضح ہوا کہ ہمیں مدد کرنے کے لیے قتال کرنا چاہیے۔اس مقصد کے لیے فلسطین، کشمیر، شام، عراق، بحرین، افغانستان مختلف مقامات پر کام ہورہا ہے۔اس کا جزوی فائدہ ضرور ہوا ہے لیکن اس مقالہ میں یہ بات بھی سمجھ کر آئے ہیں کہ جب بھی کوئی تحریک ہتھیار اٹھاتی ہے تو حکومت وقت کو چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو اس کے خلاف جبر کا راستہ اختیار کر کے اسکو کچل دیا کرتی ہے۔ اس کی مثال ہمیں تحریک شہیدین کی صورت میں نظر آتی ہے جس کو آغاز جہاد ہی میں کچل کر بہت جلد ختم کردیا گیا۔ اخوان المسلمین نے یہی راستہ اختیار کیا تو دنیا نے فلسطین میں ان کی کامیابیوں کے فوری بعد تشدد، جبر اور پابندیوں کے ہتھیار استعمال کر کے اخوان کی تحریک کو کچلنے کی کوشش کی۔ اخوان نے خود کو جلد ہی حالات کے مطابق ڈھال لیا تو مثبت اثرات بھی سامنے آئے اور پھر انہوں نے انتخابی منہج کے مطابق کام کرکے کامیابی بھی حاصل کی۔

 

اگرچہ اخوان کا منج عسکر ی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود جہاد فی سبیل اللہ کو ایک خاص مقام حاصل رہا ہے۔اخوان المسلمین کے نزدیک جہادایک مقدس قومی اور دینی فریضہ ہے جس کا سلسلہ تا ابد جاری رہے گا۔ اخوان یہ چاہتے ہیں کہ ایک مسلمان اپنی پوری زندگی اسی فریضہ کی ادائیگی میں گذار دے۔ ان کے لیے یہ حدیث مشعل راہ تھی:

 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَغْزُ وَلَمْ يُحَدِّثْ بِهِ نَفْسَهُ مَاتَ عَلَی شُعْبَةٍ مِنْ نِفَاقٍ۔[14]

 

’’جس شخص کو موت آئی اس حال میں کہ اس نے نہ تو جہاد کیا اور نہ ہی اس کی کبھی نیت کی وہ حالت نفاق میں مراجہاد کے ضمن میں اخوان کسی سے سمجھوتہ کرنے کے قائل نہیں رہے۔ باطل کے خلاف نفرت جہاد کا پہلا درجہ، جبکہ اللہ کے راستہ میں جہاد آخری درجہ ہے ۔ ان دونوں کے درمیان زبان، قلم اور ہاتھ کا جہادہے۔‘‘[15]

 

لیکن اس کے باوجود حسن البنا جہاد کے سلسلہ میں کسی قسم کی عجلت پسندی یا جلد بازی کے قائل نہیں تھے ان کے نزدیک جہاد کے لیے مناسب تیاری اور وقت کا انتظار کرنا چاہیے تاکہ منزل تک بہ آسانی پہنچا جا سکے ۔ وہ مکمل تیاری کے ساتھ آخری ضرب لگانا چاہتے تھے۔ اسی طرح تحریکات کے قائدین نے ہمیشہ خفیہ کام کرنے سے منع کیا ہے ۔ سید ابولاعلیٰ مودودی نے اخوان طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

 

’’اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انہیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نا کرنی چاہئیے۔ یہ بھی بے صبری اور جلد بازی کی ہی صورت ہےاور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک کے ذریعے ہی برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلائیے۔بڑے پیمانوں پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجئے’’لوگوں کے خیالات بدلئیے‘‘اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے۔اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگاجسے مخالف قوتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کر سکیں گے۔ جلد بازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا، اسی راستے سے مٹایا بھی جا سکے گا۔‘‘[16]

 

مولاناؒ اس مقصد کے لیے ڈٹ جانے کی ہی تلقین کرتے ہیں:

 

’’میرا عمر بھر کا مطالعہ مجھے یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں کبھی وہ طاقتیں زندہ نہیں رہ سکی ہیں جنہوں نے قلعہ میں پناہ لینے کی کوشش کی ہے کیونکہ میدان کے مقابلے سے جی چرانا اور قلعوں کے پیچھے چھپنا بزدلی کی کھلی علامت ہے اور خدانے اپنی یہ زمین بزدلوں کی فرمانروائی کے لئے نہیں بنائی ہے۔اسی طرح میرا مطالعہ مجھے یہ بھی بتاتا ہے کہ جن لوگوں کا کاروبار جھوٹ اور فریب اور مکر کے بل چلتا ہے اور جن کے لئے حقیقت و صداقت کا روشنی میں آجانا خطرے کا حکم رکھتا ہے اور جن کو اپنی حکمرانی کی حفاظت کے لئے سیفٹی ایکٹ قسم کے قوانین کی ضرورت پیش آتی ہے، ایسے اخلاقی بزدلوں کی چوبی ہنڈیا زیادہ دیر تک چولہے پر نہ کبھی چڑھی رہ سکی ہے اور نہ رہ سکتی ہے۔ یہ چیز عقل کے خلاف ہے، قانون فطرت کے خلاف ہے اور ہزار ہا برس کے تاریخی تجربات اس پر شاہد ہیں کہ ان سہاروں پر جینے والے تھوڑی دیر کے لئے چاہے کتنا ہی زور باندھ لیں بہر حال وہ دیر تک جی نہیں سکتے۔‘‘[17]

 

اس حوالہ سے یہ امر بھی قابل غورہےکہ ان تمام منتخب تحریکات کے تجزیہ سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ تحریکات کی کامیابی اور ہموار اندازمیں پیش رفت کےلیے یہ ضروری ہےکہ سنتِ نبویﷺکے مطابق طریقہ کار اختیار کیا جائے اور اسلاف سے اپنا رشتہ جوڑا جائے۔تحریک شہیدین کی ناکامی کی بنیادی وجہ تربیت کی کمی کہی جاسکتی ہے کہ سید احمد شہید ؒ نے ہجرت کے فوری بعد جہاد کا اعلان کیا اور ابھی مقامی آبادی کو تربیت کے مراحل سے نہیں گزاراتھا ۔ اولین کامیابیو ں کے بعد وہ مالِ غنیمت اور اس طرح کے دیگر معاملات کی وجہ سےاصل مقصد (احیائے اسلام) کو بھول گئے اورتمام محنت اورجدوجہد اسی جانب ہوگئی۔ جبکہ دیگرتحریکات جماعت اسلامی، تحریک خدمت اور اخوان المسلمین کو وہ حصہ جو خروج کی طرف چل پڑا ناکامی سے دوچار ہوئے۔

 

اس ذیل میں اصل وجہ اسلاف سے اپنا تعلق توڑ دینا ہے۔ سنت نبویﷺ اور اسلاف کی تعلیمات خفیہ تحریکو ں اور جدوجہد کی بھی مخالف ہیں اورمسلم حکمرانوں کے خلاف ہتھیار کے استعمال کی اجازت نہیں دیتے۔اسی طرح دورنبویﷺسے ہمیشہ دعوتِ ایمان اور حصولِ ایمان کے ذرائع کو جدوجہد میں بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔ جب تحریکات نے اس جانب توجہ کم کی تو اولاً کارکنان کا تعلق مع اللہ کمزور ہوا جس کےبعد منزل نظروں سےاوجھل ہونا شروع ہوگئی اور دنیا یا پھر اپنی اجتماعیت کی کامیابی ہی مطمع نظر بن گئی جس کی خاطر کوئی بھی راہ اختیار کرنی پڑے اس کا ہی انتخاب کرلیا جائے۔

 

لائحہ عمل

اس ضمن میں برصغیر میں دیگر دو شخصیات، سید احمدسرہندی ؒ اور ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی تحریکات جو منہج محمدیﷺپر عمل کررہی ہیں ان کے افکار اور طریقہ کار کا جائزہ بھی لیا جاسکتا ہے ۔جس میں سید احمد سرہندی المعروف حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی تحریک کی نا مساعدحالات میں کامیابیاں ظاہرکرتی ہیں کہ یہی منہج اختیار کیا جائے۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری پیدائش سے مقصود یہ ہے کہ ولایتِ محمدیﷺولایتِ ابراہیمی علیہ صلوٰۃ و سلام کے رنگ میں رنگی جائے اور اس ولایت کا حسن ملاحت اس ولایت کے حسن صباحت کے ساتھ مل جائے۔[18]

انہوں نےانقلاب سلطنت کے بجائے نظریات سلطنت کی تبدیلی کو زیادہ مفید تصور کیا لیکن اس کیلئے بادشاہ کی اصلاح سے پہلے عمال حکومت کی اصلاح اہم تھی چنانچہ انہوں نے طریقہ کار میں مندرجہ ذیل ترتیب اختیار کیغیرسرکاری سنجیدہ طبقہ کی اصلاح، ارکانِ سلطنت کی اصلاح، بادشاہ کی اصلاح، اس ترتیب کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے مکاتیب کے ذریعہ مختلف افراد کو ہدف بنا کر کام کاآغاز کیا اور ان کو آگا ہ کیا کہ اہلِ اسلام نے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ بادشاہ کو شریعت کی ترویج اور مذہب کو تقویت دینے میں معاون ہوں اس مقصدکے لیے کسی بھی قسم کی امداد دینے میں ہچکچاہٹ سے کام نہ لیں۔ اس مقصد کے لیے کتاب وسنت اور اجماعِ اُمت کے طریقہ پر شرعی مسائل کو بیان کرنا اور عقائد کلامیہ کو ظاہر کرنا تاکہ کوئی بدعت اور گمراہی بادشاہ کا راستہ سے نہ بہکائے۔ [19]

اس کے بعد ارکانِ سلطنت کی اصلاح کا کام اس طرح کیا کہ دربار کے سنی المذہب ارکان کا اپنے حلقہ میں شامل کیا جو بادشاہ کے عمائدین میں شامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مجدد الف ثانیؒ کی عظمت و جلالت اور مؤدت ومحبت کچھ اس طرح ان قلوب میں ڈال دی کہ آپ نے ایک طرف ان کی خودتعلیم و تربیت فرمائی اور ان کے خیالات کو درست رکھا پھر ان کی زندگی کا نصب العین ان کے سامنے رکھ کر حکومت کی مشینری کو درست خطوط پر چلانے میں ہدایات دیں۔ یہ ایک ٹھوس لیکن خاموش انقلابی کوشش تھی۔

 

بادشاہ کی اصلاح اس طرح ہوئی کہ آپ کچھ عرصہ معاندین کی سازش کے باعث قید وبند میں بھی رہے لیکن اس کو فائدہ اس طرح ہوا کہ آپ نے قید کے دوران بھی اپنے اخلاق اور کردار سے بادشاہ کی متاثر کیا اور قید سے رہائی کے بعد اس کے ساتھ لشکر میں رہ کر صحبتِ شیخ سے جہانگیر بادشاہ کے باطن کا تزکیہ کردیا اس کی محفل میں رہ کر اس کو وعظ ونصیحت کی اور اسی رفاقت کے باعث اس کے دل میں ترویج شریعت کا جذبہ پیدا ہوا ۔ اس کے دربار سے سجدہ تعظیمی ختم کرایا، خلافِ شریعت قوانین منسوخ کرائے، ذبیحہ گاؤ علی الاعلان جاری کرایا، ویران مساجد آباد کروائیں۔اسی طرح ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے بھی منہج محمدیﷺ کے چھ مختلف مراحل بیان کیے ہیں۔[20] جو مندرجہ ذیل ہیں:

 

۱۔ انقلابی نظریہ (توحید) کی دعوت

 

۲۔ انقلابی جماعت کی تشکیل و تنظیم

 

۳۔ انقلابی جماعت کی اخلاقی و روحانی تربیت

 

۴۔ تشدد کے جواب میں صبر محض

 

۵۔ اقدام اور چیلنج

 

۶۔ مسلح تصادم

 

ان تحریکات کے مطالعہ سے اس نتیجہ پر بھی ذہن یکسو ہوتا ہے کہ منہج محمدی ﷺہی اختیار کیا جائے گا۔ منہج محمدی ﷺکو پیشِ نظر رکھتے ہوئے چنداُمور پر توجہ کرنی ہوگی تاکہ ایک جانب منہج بھی تبدیلی کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے اور اصل ہدف یعنی رضائے الہی بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جائےجس میں تزکیہ و تصفیہ قلب کو بنیادی اہمیت حاصل ہوگی ۔ ماحول کے ساتھ بھی منہج کی تطبیق کی جائے گی اور مختلف خطوں میں مختلف انداز سے جدوجہد کی جائے گی۔ لیکن اس تمام جدوجہد میں تعلق مع اللہ اور کردارسازی کو بنیادی اہمیت حاصل ہوگی۔جس طرح حضور اکرم ﷺنے صحابہ کرامؓ کی تربیت کی کہ ایک ہی ملاقات یا چند دن کی صحبت میں ان کے اندروہ ایمان اورروحانی تصرف پیدا ہوا جس کے ذریعہ انہوں نے لاکھوں لوگوں کی زندگی تبدیل کردی۔

 

یہی مادہ حب افراد کےدلوں میں پیدا کرنا ہوگا۔اسلاف سےتعلق مضبوط کرنا ہوگا، تربیت کے لیے ذریعہ قرآن کو بنایا جائے، اخروی نجات کو افراد کے دلوں میں نصب العین بنایا جائے ۔ذمہ داری کا تعین کرتے وقت تحریکی طرزِ عمل کے بجائے باطنی کیفیات کو اہمیت دی جائے تاکہ ذمہ داریاں متقیوں کے سپرد رہیں اور وہ اصل مقصد یعنی رضائے الہٰی کی طرف توجہ رکھیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ آج پھر حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے افکار سے سرشار کوئی مرد فقیر خانقاہ سے نکل کر پرچم اسلام کو سر بلند کر دے ۔جیسا کہ اس کا خواب علامہ اقبالؒ نے بھی دیکھا تھا اور کہا:

 

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریکہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

 

ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رُہبانییہی ہے مرنے والی امتوں کا عالمِ پیری

 

لہذا منہج محمدی ﷺہی اختیار کیا جائے ۔صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی زندگیوں اور اسلاف کے افکار کی روشنی یہ فکر بھی واضح ہوئی کہ نظام عدل کا قیام لازم بھی ہے اور ہر فرد کے کرنے کا کام بھی یہی ہے کہ جب تک یہ نظام کوموجود نہ ہو اسی کے لیے توانائیاں خرچ کی جائیں۔ دنیا کے ہر خطہ میں کام الگ الگ ہوگا لیکن اس کو یکجا بھی کیا جاسکتا ہے اس کی مثالیں دورِ خلافت راشدہ سے ملتی ہیں۔ اس تمام جدوجہد کے لیے منہج محمدیﷺ ہی اختیار کیا جائے گا جس میں تزکیہ و تصفیہ قلب کو بنیادی اہمیت حاصل ہوگی ۔ ماحول کے ساتھ بھی منہج کی تطبیق کی جائے گی اور مختلف خطوں میں مختلف انداز سے جدوجہد کی جائے گی۔ لیکن اس تمام جدوجہد میں تعلق مع اللہ اور کردارسازی کو بنیادی اہمیت حاصل ہوگی۔

 

 

حوالہ جات

 

حوالہ جات

  1. (مسند احمد بن حنبل: 18430) الصحیح الالبانی: 5
  2. (صحیح مسلم: 2761)
  3. استنبول سے رباط تک، عمران این حسین، مترجم: محمد سردار اعوان، مکتبہ خدام القرآن، لاہور، 2006، صفحہ15
  4. استنبول سے رباط تک، عمران این حسین، مترجم: محمد سردار اعوان، مکتبہ خدام القرآن، لاہور، 2006، صفحہ48
  5. تقویتہ الایمان, شاہ اسمعیل شہیدؒ، کراچی, دارالاشاعت، صفحہ 13
  6. تاریخ دعوت و عزیمت، حصہ ششم، سید ابوالحسن علی ندوی، مجلس نشریات اسلام، کراچی، 1977
  7. ماہنامہ ترجمان القرآن، دینی معاشرت کی پکار از فرزانہ چیمہ، مئی 2004، ادارہ ترجمان القرآن، صفحہ533
  8. القرآن، سورة التوبہ، 111
  9. جماعت اسلامی کا نصب العین، دعوت اور طریق کار، شعبہ تنظیم، مکتبہ منصورہ لاہور، 1984، صفحہ 2
  10. صحیح مسلم
  11. اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے معمار, علی رہنما, سید ولی رضا, لاہور, تخلیقات29 ٹیمپل روڈ لاہور, 1999، صفحہ140
  12. Islam in Modern History, Wilfred Cantwell Smith, The New York American Library, New York, 1959, Page 175
  13. القرآن، سورۃ النساء، 75
  14. صحیح مسلم: جلد سوم: حدیث نمبر 434
  15. افتخار احمد, اخوان المسلمون, فیصل آباد, المیزان پبلیکیشنز, 1990، صفحہ 217
  16. ماہنامہ ترجمان القرآن، پروفیسر خورشید احمد، اگست 2011، ادارہ ترجمان القرآن، صفحہ279
  17. دعوت و عزیمت کے روشن ستارے, آباد شاہ پوری, لاہور, البد ر پبلیکشنز, 2011، صفحہ287
  18. حضرت مجدد الف ثانیؒ، مولانا سید زوار حسین شاہ، زوار اکیڈمی پبلیکیشنز، ناظم اباد، کراچی، دسمبر 2012، صفحہ417
  19. حضرت مجدد الف ثانیؒ، مولانا سید زوار حسین شاہ، زوار اکیڈمی پبلیکیشنز، ناظم اباد، کراچی، دسمبر 2012، صفحہ 419
  20. منہج انقلاب نبویﷺ، ڈاکٹر اسرار احمدؒ، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، جولائی 2006، صفحہ14
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...