Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > The International Research Journal Department of Usooluddin > Volume 1 Issue 1 of The International Research Journal Department of Usooluddin

تعلیم وتربیت اور معلم کا مقام و مرتبہ |
The International Research Journal Department of Usooluddin
The International Research Journal Department of Usooluddin

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

ایک وحشت ودہشت کی فضاتھی، ظلم وستم اور لوٹ کھسوٹ کا دور دورہ تھا، فساد وبدامنی اورقتل غارت گری کی آگ بھڑک رہی تھی،انفرادی اورمعاشرتی سطح پرتشدد،عدم روادری،بغاوت اور انحراف وانتقام کا جذبہ پروان چڑہ رہا تھا،جہالت وگمراہی، خون خواری ودرندگی،قومیت،عصبیت،واناپرستی اور اپنے آباؤ اجداد پر فخرومباہات زندگی کا حد مشغلہ بن چکا تھا،حق وصداقت،عفت وپاکدامنی،اخوت وہمدردی اور احترام وتقدس کا تار وپودبکھیرا جا رہا تھا۔زندگی تھی جو بے مقصد گزر ہی تھی، پیاس تھی، تو امن آشتی کی، انتظار تھا تو ایک نجات دہندہ اور مسیحا کا۔

 

ماحول نے پلٹا کھایا، دھیرے دھیرے حالات سنورنے لگے، ظلم وبربریت اور خوف وحشت کے بادل چھٹنا شروع ہوگئے، علم وحکمت اور رشد وہدایت کا نورپھیلنے لگا، صحرا اور ریگستان کے سنگ دل باشندے انصاف وعدل گستری کے موجدکہلانے لگے، قومیت واناپرستی پر مر مٹنے والے، اخوت وہمدردی کی علامت بن گئے، امن وآشتی، صدق وراستی اور تہذیب وتمدن کے امام بنے، کل جو ایک دوسرے کی جان کے دشمن تھے اور خون کے پیاسے تھے، آج ایک دوسرے پر جان نچھاور کر رہے ہیں۔

 

حالات کے اس حیرت انگیز تبدیلی نے ہر موافق ومخالف کہ انگشت برنواں کردیا اور سوچنےپرمجبور کردیا کہ اتنی مختصر مدت میں یہ یکسر تبدیلی کیسے ممکن ہوئی؟یہ انقلاب معلم اعظم امام الانبیاء جناب رسول اللہﷺ کی تعلیم وتربیت نے برپا کیا تھا جو"اقرا"کی شمع ہدایت کا تمغہ لے کر علم ومعرفت کی دعوت دے رہا تھا، اور انسانیت کو اندھیروں سےنکال کر روشنی کی طرف لا رہا تھا، ان کی مخلصانہ اور پاکیزہ تعلیم وتربیت ہی کے سبب یہ ممکن ہوسکا کہ ایک بھٹکی اور بھولی بسری،اجڈ، خونخوار ، جنگ جو، اور تہذیب وتمدن سے نابلدقوم نے اقوام عالم کی قیادت سنبھالی اورعظیم رہبر ورہنمابنی:

 

 

خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے   کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
علم ومعرفت اور تعلیم وتربیت زندگی کا وہ بنیادی عنصرہےجس کے بغیر انسان اپنے رب کو پہچان ہی نہیں سکتا، تعلیم ہی وہ عظیم دولت ہے جس سے نبی کریم ﷺ کی بعثت اس عظیم الشان کام کی انجام دہی کی خاطر ہوئی اور تعلیمی حیثیت کو نمایاں کرکے انسانیت پر احسان جتلایا گیا، ارشاد باری تعالی ہے:

 

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِھٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَة۔۔۔الآیہ۔

 

’’حقیقت یہ ہےکہ اللہ تعالی نے مؤمنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں ایک رسول بھیجا، جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک وصاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے۔‘‘([1])

 

جناب رسول اللہ ﷺ کالوگوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی تعلیم دینا اور ان کا تزکیہ کرنے جیسے کام سے بعثت ہونا کوئی معمولی بات نہیں، بلکہ ایک بڑی عظیم نعمت ہےجو اللہ تعالی نے اس کو اپنا احسان قرار دیا ہے۔تعلیم وتربیت بہت اُونچا اور اعلی وارفع منصب اور قابل رشک عمل ہے اسی کو بعثت کا مقصد قرار دے کرآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا۔

 

’’ مجھے معلم بناکر بھیجا گیا۔‘‘([2])

 

دوسری جگہ ایک اور اسلوب اختیار کر کے فرمایا:

 

إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلاَقِ۔

 

’’مجھے بھیجنے کا مقصد ہی اچھے اخلاق کی تکمیل ہے۔‘‘([3])

 

معلم قوم بنانے میں ریڑہ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، وہ ایک معمارہے جو حقیقی معنوں میں افراد کی تربیت کرکے ایک صالح معاشرہ تشکیل دے کرتمام عالم کے لیئےخیروبرکت و رحمت اور ترقی کا باعث بن سکتا ہے، قوموں کی ترقی وکامیابی میں معلم کی تعلیم کابڑا ہی دخل ہے، جس قوم میں تعلیم یافتہ افراد ہوں گے، وہ قوم ترقی یافتہ بھی ضرور ہوگی، جدید ایجادات اورتحقیقات میں ان کی نمایاں کارکردگی ہوگی، اور اس کے برعکس قوم تنزلی وانحطاط اورپستی کا شکار ہوگی،اس نقطہ کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

 

يَرْفَعِ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ۔

 

’’اللہ اونچے کرے ان کے جو ایمان رکھتے ہیں تم میں اور علم، بڑے درجے۔ اللہ خبر رکھتا ہے جو کرتے ہو۔‘‘([4])

 

معلم کے لیے زمین وآسمان کے تمام ذی روح مخلوق، رینگنے والے حیوانات، سمندر کے نھنگ ، ہوا میں موجود پرند استغفار کرتے رہتے ہیں جیسا کہ فرمان نبی کریمﷺ نےفرمایا:

 

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرَضِينَ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الخَيْرَ۔

 

’’اللہ تعالی ان کے فرشتے، آسمان وزمین کی تمام مخلوق یہان تک کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلی( پانی میں) لوگوں کو اچھی باتیں سکھانے والے پر رحمت بھیجتی ہیں اور دعائیں کرتی ہیں۔‘‘([5])

 

معلم کامنصب ومقام بہت بلند ہے کیونکہ جوپیشہ اس نے اختیار کیا ہواہےوہ انبیاءکرام علیہم السلام کا ہے، جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں:

 

خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ بَعْضِ حُجَرِهِ، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا هُوَ بِحَلْقَتَيْنِ، إِحْدَاهُمَا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، وَيَدْعُونَ اللَّهَ، وَالْأُخْرَى يَتَعَلَّمُونَ وَيُعَلِّمُونَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلٌّ عَلَى خَيْرٍ، هَؤُلَاءِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، وَيَدْعُونَ اللَّهَ، فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ، وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ، وَهَؤُلَاءِ يَتَعَلَّمُونَ وَيُعَلِّمُونَ، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا» فَجَلَسَ مَعَهُمْ۔

 

’’ ایک دن نبی کریمﷺ اپنے حجرہ مبارک سے نکل کرمسجدتشریف لائے، اچانک دو حلقوں کودیکھا، ایک میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین قرآن کی تلاوت اور دعا میں مشغول تھے، جبکہ دوسرے حلقے والے تعلیم وتعلم میں مشغول تھے، نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا: دونوں حلقے والے بھلائی ور خیر پر ہیں، یہ لوگ قرآن مجید کی تلاوت اور اللہ تعالی سے مانگنے میں مصروف ہیں اور یہ حلقے والے سیکھنے سکھانے میں اور میں معلم بناکربھیجا گیا ہوں اور ان تعلیم وتعلم والے حلقے کے ساتھ بیٹھ گئے۔‘‘([6])

 

یہ وہ پیشہ ہےجس پر امام الانبیاء علیھم الصلاۃ والسلام فخر فرما رہے ہیں، اور ان کے اختیار کرنے والوں کے ساتھ بیٹھنےکو ترجیح دے رہے ہیں اور اللہ تعالی بذات خود ان کے فرشتے تمام مخلوقات،جمادات،چرند پرندسب معلمین کے لیے دعاگوہیں؛کیونکہ افراد کی تربیت کرکےمعاشرہ کوسنوارنا معلم ہی کےمرہون منت ہے،معلم کائنات نبی کریمﷺکی تعلیم وتربیت،عملی زندگی،مبارک اوصاف اورتعلیمی خصوصیات سے استفادہ کرکے ایک مثالی اورعظیم استاذ بنا جاسکتا ہے۔

 

تربیت اور بہترین نتائج کے حصول کے لئے اصول وآداب

نمایاں اوصاف

 

عملی تعلیم، شفقت محبت خیرخواہی، اپنے کام سےعشق کے حد تک لگاؤ، اعتدال وانصاف پسندی، پیش بندی، بھرپور تیاری، انفرادی محنت۔نبی کریمﷺ کو تمام عالم انسانیت کے لیےایک مثالی معلم بناکر بھیجا گیا، جنہوں نےاپنی عملی تعلیم کے ذریعے دنیا کا رخ موڑا، اس تھوڑے عرصےمیں (بعثت کے بعد وصال تک) جوتبدیلی رونما ہوئی، اور اپنے بہترین انداز تربیت کے نتیجے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جوبہترین جماعت تیار کی اسکی بنیادی وجوہات میں نرمی، شفقت رافت ورحمت اور خیرخواہی وہمدردی نے جو اثر دکھایا، دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔قرآن مجیدمیں بڑی وضاحت کے ساتھ اس کوبیان کیا گیا ہے،جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے:

 

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَھُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۔۔۔الایۃ۔

 

’’ سو کچھ اللہ ہی کی رحمت ہے جو تو نرم دل مل گیا ان کو اور اگر توہوتا تند خو سخت دل تو متفرق ہوجاتے تیرے پاس سے۔‘‘([7])

 

من جملہ اورصحابہ کرامؓ کے حضرت معاویہ بن الحکم سلمی ؓ نےبڑے حسین انداز میں اس وصف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

 

فَبِأَبِي هُوَ وَأُمِّي! مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ، فَوَاللهِ! مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي۔

 

’’میرے ماں باپ ان پر قربان ہوں! میں نے آپﷺ جیسابہترین تعلیم دینے والا نہ آپ سے پہلے دیکھا نہ بعدمیں، اللہ کی قسم! نہ آپ ﷺنے مجھےجھڑکا، نہ مارا، نہ ہی گالی دی۔‘‘([8])

 

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 

فِيهِ بَيَانُ مَا كَانَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَظِيمِ الْخُلُقِ الَّذِي شَهِدَ اللَّهُ تَعَالَى لَهُ بِهِ وَرِفْقِهِ بِالْجَاهِلِ وَرَأْفَتِهِ بِأُمَّتِهِ وَشَفَقَتِهِ عَلَيْهِمْ وَفِيهِ التَّخَلُّقُ بِخُلُقِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرِّفْقِ بِالْجَاهِلِ وَحُسْنِ تَعْلِيمِهِ وَاللُّطْفِ بِهِ وَتَقْرِيبِ الصَّوَابِ إِلَى فَهْمِهِ۔

 

’’اس میں آپ علیہ السلام کاخلق عظیم، جس کی گواہی اللہ تعالی نےدی ہے، اور آپ کی جاہل سے شفقت، نرمی اورمہربانی کابیان ہے، اور اس میں یہ بھی ہے کے جاہل کے ساتھ نرمی میں،اس کو اچھے طریقے سے تعلیم دینے میں، اور اس کے ساتھ مہربانی کرنےمیں اور ٹھیک بات اس کے ذہن نشین کرنےمیں،آپ ﷺ کے اخلاق اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘([9])

 

آپﷺ کی اس شفقت ورافت اورمہربانی کرنےکے بعدکئی سوال کیے،نہ آپؐ نے خفگی اور غصہ کا اظہار فرمایا ،بلکہ ہر ایک سوال کےعمدہ جواب دیئے۔اس نرمی اورخیرخواہی کے پہلوکےمدنظررکھ کرحضرت ام المؤمنین عائشہ ؓ کو آپ ﷺ نےفرمایا:

 

إِنَّ اللهَ لَمْ يَبْعَثْنِي مُعَنِّتًا، وَلَا مُتَعَنِّتًا، وَلَكِنْ بَعَثَنِي مُعَلِّمًا مُيَسِّرًا۔

 

’’اللہ تعالی نےمجھے سختی کرنے اور تکلیف دینے والابناکر نہیں بھیجا،بلکہ مجھے معلم اور آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘([10])

 

آپ ﷺجس قوم کی طرف مبعوث کیے گئے تھے، وہ جہالت وگمراہی اور سخت مزاجی میں ثانی نہیں رکھتی تھی، آپﷺ پر مشکلات ومصائب کےوہ پہاڑ ڈھائے گئے جن کا انسانی ذہن تصوربھی نہیں کرسکتا، لیکن آپﷺ نےاستقامت کا مظاہرہ کر کے انتقام کے بجائے دعائیں دیں، ہر وقت ان کے دل میں یہ فکر رہتی تھی کہ کیسے میری قوم کفر وشرک اور اللہ کی نافرمانی سے نکل کرایک رب کے سامنےسربسجودہو، اور دنیا وآخرت کی کامرانی سے ہمکنار ہو۔

 

آپﷺ نے جوشفقت ومحبت اپنے ماتحتوں کی دی کوئی حقیقی باپ بھی اپنے ماتحتوں کو نہیں دے سکتا۔ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی نگرانی کرتے تھے، برائی اوربھلائی کی نشاندہی کرتے تھے، موقعہ بہ موقعہ اپنے اصحابؓ کے احوال کی خبرگیری فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ امام ترمذی ؒ اللہ تعالی نے شمائل میں حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کی طویل روایت ذکر کی، جس میں رسول اللہﷺ کی جامع ومبارک زندگی کی منظر کشی کی گئی ہے، اور صراحت کے ساتھ یہ الفاظ مذکور ہیں:

 

وَيَتَفَقَّدُ أَصْحَابَهُ، وَيَسْأَلُ النَّاسَ عَمَّا فِي النَّاسِ، وَيُحَسِّنُ الْحَسَنَ وَيُقَوِّيهِ، وَيُقَبِّحُ الْقَبِيحَ وَيُوَهِّيهِ۔([11])

 

’’اپنے دوستوں کی خبر گیری فرماتے اور لوگوں کے حالات آپس کے معاملات کی تحقیق فرما کر ان کی اصلاح فرماتے ،اچھی بات کی تحسین فرما کر اس کی تقویت فرماتے اور بری بات کی برائی فرما کر اس کو زائل فرماتے اور روک دیتے۔‘‘

 

معلم کی مثال بھی ایک صاحب بصیرت باپ کی ہے،جس کو ہر وقت اپنے عزیزوں کی فکردامن گیر ہو،سیرت ہمیں اپنے ماتحتوں کی خبرگیری اور تفقد احوال کا درس دیتی ہے۔معاشرہ میں رونماہونے والی تبدیلیوں کا ہمہ وقت جائزہ لیتے رہنا اور اجتماعی کاموں میں مشورہ لینا، اچھے نتائج آنے پررفیقان کار کی حوصلہ افزائی کرنا اور ہر ایک کو مناسب مقام اور حق دینا، کیونکہ حق تلفی اور حوصلہ شکنی سےدل ٹوٹ جاتے ہیں۔ باصلاحیت افراد کے مخفی کمالات کو نکھارنےکے لیےمکمل رہنمائی اور تیاری کے بعد شریک کار بناکر ذمہ داری سپردکرنا،جس طرح حضورﷺنے حضرت ابوموسی اشعری ؓاورحضرت معاذ ؓ کوایک وفد کے ساتھ تعلیم کےلیے یمن بھیجا تھا۔([12])

 

ماقبل روایات سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ ایک ذمہ دار معلم اپنے شاگردوں کی کم از کم تین کیٹیگریاں بنائے، اور ان کی صلاحیت کے مطابق ان کی رہنمائی میں کردار اداکرے، جو علاقائی قومی اور بین الاقوامی سطح پرملک وملت کی تعمیر وترقی اور نیک نامی کا باعث بنیں ۔جو معلم یا ادارہ اپنے طلباء سے مستقل تعلق اور رابطہ رکھتا ہے،افادہ اور استفادے کا موقعہ فراہم کرتا ہے،، وہ ترقی کی منزلیں طےکرتا ہے اور اس کامعیار بہتر سے بہتر ہوتا جاتا ہے۔

 

عدل وانصاف

 

نبی کریم ﷺکےتعلیمی اوصاف وخصوصیات میں انصاف پسندی نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ ﷺنے ہر ایک کو اس کا جائز حق دیا، مراتب کاخیال رکھا اور اپنوں کو غیروں پر ترجیح دیئے بغیر ایثار وہمدردی کی تعلیم دی۔ جنت کی سردار معلم کائنات کی محبوب ترین بیٹی فاطمہ الزھراء ؓ آپﷺ کی خدمت اقدس میں آکر عرض کرتی ہیں کہ چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں گھٹے پڑگئےہیں کوئی خادمہ دے دیجئیے، آپﷺکاجواب آب زر سے لکھنےکے قابل ہے جو اس رافت ورحمت ایثار وہمدردی اورنرمی ولطافت کےپیکر مشفق ومہربان باپ کےدہن مبارک سے نکلا ، آپﷺنےفرمایا:میں تم کو کوئی قیدی خدمت کیلئے نہیں دے سکتا ابھی اصحاب صُفّہ کی خوردونوش کا تسلی بخش انتظام مجھے کرنا ہے، میں ان لوگوں کو کیسے بھول جاؤں جنہوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی خوشنودی کی خاطر فقروفاقہ اختیار کیا ہے۔([13])

 

عدل وانصاف اسلام کی روح ہیں، دنیا کےتمام مذاہب عدل کی بات کرتے ہیں،لیکن ان کا قول عملسے آشنانہیں ہوتا، معلم اول نبی کریم ﷺنے رنگ،نسل نسب اور قومیت سے ہٹ کر حقیقی بنیادوں پر اس نظریہ کووجود میں لایا۔

 

حلم وقار، عفو درگزر اور محبت بھرا رویہ

 

ایک مصلح ومربی اورایک کامیاب معلم کو جتنی اعلی صفات کا حامل ہونا چاہیے، وہ تمام نبی کریم ﷺمیں بدرجہ اتم موجود تھیں،لوگوں میں گھل مل کر رہتے تھے، الگ کوئی شناخت نہیں رکھتے تھے،نئے آنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ تواضع وحلم،بردباری سے پیش آتے، انہی اوصاف کے بدولت مخاطب کے دل میں تعظیم اورتسلیم وانقیاد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ نبوت کے ابتدائی دؤرمیں نبی کریم ﷺکو جن مصائب سے گزرنا پڑا وہ کسی سے مخفی نہیں، تکلیف وایذاء رسانی کی تمام ممکنہ شکلیں آزمائی گئیں،قتل کرنے تک منصوبےبنائے گئے، لیکن آپ ﷺنے صبروتحمل سے کام لیا، بد دعا تک نہ کی بلکہ ان کی ہدایت کے لئے یہ دعا مانگتے رہے: لَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللهِ، وَمَا يُؤْذَى أَحَدٌ، وَأُخِفْتُ فِي اللهِ، وَمَا يُخَافُ أَحَدٌ۔([14])

 

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ سرور کائنات ﷺنے فرمایا: اللہ تعالی کی خاطر جتنی تکلیف مجھے پہنچائی گئی کسی اور کونہیں پہنچائی گئی، اور جتنا بھی اللہ کی وجہ سے ڈرایا گیا اتنا کسی کونہیں ڈرایا گیا۔انہیں آلام ومصائب کا سلسلہ تھاجوتھمتا ہی نہ تھا حتی کہ آپ کو وطن چھوڑنا پڑا، اورمکہ سے مدینہ ہجرت فرما گئے۔دنیا کا قاعدہ وضابطہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے دشمن پر غلبہ پاتی ہے تو لوٹ مار، قتل وغارت،آبروریزی وعصمت دری،فصل،باغات اورآبادیوں کواجھاڑنےاوردشمن کونیچا دکھانے،ذلیل کرنےاورپاؤں تلے روندھنےمیں کوئی کسر نہیں چھوڑتی، یہی وجہ ہے کہ اگر مغلوب قومنے پہلے ظلم وستم کیا ہو تو پھر کسی کواعتراض بھی نہیں ہوتا، جبکہ وہ خود بھی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوتی ہے اور اپنے آپ کومجرم پیش کرتی ہے۔

 

رات کتنی ہی اندھیری ہو لیکن صبح صادق نوید سحر دے کر اجالا لایاکرتا ہے، اور ہرسختی کے بعد آسانی آیا کرتی ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وہ منظربھی دکھایا جب آپ ؐاپنے ساتھیوں سمیت مکہ مکرمہ فاتحانہ انداز میں داخل ہو رہے تھے اورکچھ لوگ بدلہ لینےکے گن گا رہے تھے جبکہ دوسری طرف ظلم وبریت کی انتہا کرنے والی قوم دست بستے کھڑی تھی اور اپنے کیے کی سزا پانے کے انتظار میں آخری سانسیں گن رہی تھی، اختیار وفیصلہ رحمۃللعالمینﷺکے ہاتھ میں تھا اس لیے آپ نے ان سے پوچھا: تمہارا میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ انہوں نےکہا: آپ رحم دل حرم والے چچازاد بھائی ہیں، اگر آپ معاف ودرگزر فرمادیں، تو ہماری آپؐ سے یہ توقع ہےاور اگر آپ انتقام وبدلہ لینا چاہیں تو (اس میں آپ حق بجانب ہیں) کیونکہ ہم واقعی ظالم ہیں، اور ہم نے بہت برا سلوک کیا ہے، آپ ؐنے فرمایا: میں تو وہی کہوں گا جو حضرت یوسف ؑ نے اپنےبھائیوں سے کہا تھا۔ جس کا ذکر سورۃ یوسف آیت۹۲ میں یوں ملتا ہے:

 

لا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ۔

 

’’ آج تم پر کوئی الزام نہیں، جاؤ آج تم آزاد ہو۔‘‘ ([15])

 

سیرت اور اسوہ حسنہ عملی زندگی نام ہے۔عملی تعلیم ہی کی وجہ سے امیر و فقیر،بادشاہ وگدا، آقا و غلام غرضیکہ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد قومیت و عصبیت کو ترک کر کے شمع رسالت کے گرد پروانہ وار جمع ہوتے گئے۔ اور ایسے اطاعت گزار بنے کہ مال و دولت ،قرابت و رشتے داری حتی کہ اپنی عزیز اولاد و جان تک نچھاور کر گئے مگر اپنے عظیم استاد و مربی کے حکم سے سرمو انحراف نہیں کیا اور نہ ہی ان کو کسی قسم کی گزند پہنچنے دی ۔ ان کے ہر قول پر لبیک کہا اور انکے حکم سے انحراف کرنے والےپر بڑےبڑے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔عملی تعلیم سب سے مؤثر و اوقع فی النفس ہوتی ہے ،کیونکہ سنا دیکھنے کے برابر نہیں ہو سکتا فطرت سلیمہ عملی تعلیم ہی کا متقاضی ہے۔ لہذامعلم کو چاہیےکہ صورتًا وسیرتًا آنحضرتﷺکی کامل اتباع کرے ۔

 

استاذ صرف درس گاہ تک محدودنہیں ہوتا بلکہ اس کا ہرقول وفعل،نشست و برخاست،اس کے انفرادی و اجتماعی معاملات، خلوت وجلوت معاشرے میں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔معاشرے اور سوسائٹی میں اس کی خوشبو پھیلتی ہے۔اور مشاہدہ بھی یہی ہے کہ جب ایک با عمل وباکردار اور عالی اوصاف کا حامل معلم ومربی کسی علاقے میں سکونت اختیا ر کرتا ہے تو خود بخود وہاں کے لوگوں کی ذہنی و اخلاقی سطح بھی اونچی ہو جاتی ہے۔اوراس کے عمل وکردار کا اثروہاں کے باسیوں پر واضح نظر آتا ہے۔ جب کہ آج جدید سکالرز اور محققین حضرات لمبے چوڑے دعوؤں،طویل نشست وبرخاست کی محفلوں میں دیر تک محو گفتگو اور بحث مباحثہ میں مگن رہتے ہیں عجیب وغریب فلسفے،افکارات اور آئیڈیاز پیش کرتے ہیں لیکن قول وعمل میں عدم مطابقت کی بنا پر معاشرے اور ملک و قوم میں اس کا عملی نتیجہ صفر نظر آتا ہے۔ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:

 

 

’’کیا تم( دوسر) لوگوں کو تو نیکی کاحکم کرتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔‘‘([16])

 

معلم کوچاہیے کہ اس کےقول وفعل میں تضاد نہ ہو ورنہ اس کی تعلیم بے اثر و بے جان ہو جائے گی، معاشرے میں تردد وتشویش کا باعث بنے گی۔لہذا سب سے پہلے اپنی ذات سے ابتداء کرے اور عملی نمونہ بن کر معاشرے میں ایک ذمہ دار فرد کا کردار ادا کرے۔سیرت بھی یہی تعلیم دیتی ہے چنانچہ جب حضرت محمدﷺنے عمان کے حاکم کی طرف حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو دعوت اسلام دینے بھیجا تو حاکم کے استفسار پر حضرت عمروبن عاصؓ نے فرمایا:

 

لقد دلّني على هذا النبيّ الأميّ، إنه لا يأمر بخير إلا كان أول آخذ به، ولا ينهى عن شرّ إلا كان أول تارك له، وأنه يغلب فلا يبطر، ويغلب فلا يهجر، وأنه يفي بالعهد، وينجز الوعد، وأشهد أنه نبيّ۔([17])

 

’’یہ باتیں مجھے اس نبی امی نے بتائی ہیں جن کا اپنا یہ معمول ہے کہ وہ کسی خیر کے کام کا جب بھی حکم دیتے تو پہلے خود عمل کرتے ،اور جس کام سےمنع فرماتےتو خود اسے چھوڑنے والے ہوتے ہیں۔جب دشمن پر فتح پاتے ہیں تو غرور کو مظاہرہ نہیں کرتے اور اگر مغلوب ہوتے ہیں تو دشمن کو برا بھلا نہیں کہتے۔وہ کیے ہوئے وعدے پورے کرتے ہیں اور عہد نبھاتے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ نبی ہیں۔‘‘

 

اور جب نماز کا حکم ہوا تو آپﷺنے عملا صحابہ کے سامنے نماز ادا کی اور فرمایا کہ صلوا کما رایتمونی اصلی۔([18]) اور وضو کا طریقہ خود کر کے بتلایا جیسا کہ سنن ابوداؤد ،سنن نسائی،اور ابن ماجہ میں تفصیل کے ساتھ روایات موجود ہیں۔نماز اتنی طویل اور خشوع وخضوع کےساتھ ادا فرماتے ہیں کہ پاؤں پر ورم آجاتا حالانکہ آپﷺبخشےبخشائےاورمعصوم تھے۔چنانچہ حضورﷺنے پہلے ہر اس عمل کو اونچے درجے اور اعلی معیار پر کر کے دکھلایا اور اس طرح امت کو عملی تعلیم کے ذریعے عدل و انصاف،مساوات اور قانون کی پاسداری کا عملا درس دیا۔

 

سیرت بتاتی ہے کہ معلم صرف تنخواہ دار ملازم نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک مصلح، مربی اور ملک و ملت کا فکری،نظری اور عملی قبلہ درست کرنے والا ہوتا ہے۔اگر معلم و استاذ سیرت کی روشنی میں خود بدلنے کا تہیہ کر لے اور چھوٹے دائرے میں رہ کر بھر پور عمل کا مظاہرہ کرے تو یہی لوگ عملی تربیت پا کر جب بڑے اداروں میں جائیں گے تو بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے، کامیاب معلم وہی ہوتا ہے جو معاشرتی آداب اور چھوٹے چھوٹے اصولوں کا بھی خیال رکھے کیونکہ چھوٹی باتیں ہی بڑے امور کی انجام دہی کے لئے پیش خیمہ بنتی ہیں۔معلم صرف نفس مضمون پڑھا رہا نہیں ہوتا بلکہ اس کے جذبات و خیالات اور ذاتی زندگی طلباء پر اثرانداز ہوتی ہے۔وہ ایک نمونہ ہوتا ہے اس کی اچھی یا بری زندگی کی عکاسی معاشرے میں نظر آتی ہے۔تعلیم جب صرف الفاظ اور فلسفیانہ تقریروں تک محدود ہو اور اسے کوئی عملی جامہ نہ پہنایا گیا تو وہ ایک فرد کی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوتی چہ جائیکہ اس سے ایک صالح معاشرہ وجود میں آئے۔

 

ایک معلم و استاذ خواہ کتنی ہی جدوجہد کرے اور اصلاح معاشرہ کے بلند بانگ دعوی کرے لیکن قول وفعل میں تضاد ہو اور جس چیز کی دعوت دے رہا ہو اس پر خود عمل پیرا نہ ہو تو اس سے ماتحتوں میں منافقت ہی بڑھے گی۔آج اس قول وفعل میں تضاد اورعملی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سےہمارےتعلیمی ادارےبانجھ ہیں وہ با کرداروایمانداراورصالح افرادکےبجائےنام نہادتعلیم یافتہ،غیرمہذب، انتہا پسند،یہاں تک کہ ملک و ملت سے غداری کے مرتکب اورکرپشن کے دلدادے پیدا کر رہے ہیں، جو مسلح دہشت گردی سے بڑھ کر امن وسلامتی،اتحاد ویگانگت،تہذیب وثقافت،قومی و ملی اقدار کے تحفظ اورنظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کیلئے ناسور ہیں۔

 

اس وقت ہمیں گوں نا گوں مسائل کا سامنا ہے، ہمارا معاشرہ سوسائٹی،عمومی ماحول اورفضاء،حکومتی ادارے، انتظامی ادارے،ان کی کا رکردگی اور نتائج،بین الاقوامی تشخص خاص کر نظریاتی اور مسلم تشخص گراوٹ کا شکار ہے۔ اگر تحقیقی جائزہ لے کر ان سب کی کڑیاں ملائی جائیں تو معلمین کا کردار واضح نظر آتا ہے ،چاہےمعلمین و معلمات پرائمری اسکولوں کے ہوں یا مڈل و ہائی اسکولوں کے،کالجوں کے ہوں یا یونیورسٹیوں کے، گرلز اسکولوں کے ہوں یا بوائز اسکولوں کے،نجی ادارے کے ہوں یا حکومتی ان تمام کا اس میں بنیادی کردار ہے۔ جس کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیاجا سکتا۔معلم ایک ذمہ دار فرد اور قوموں کی فکر و سوچ کو بدلنے والا ہوتا ہے۔اگرمعلمین ومعلمات کماحقہ فرائض کی ادائیگی کا احساس کریں تو ان کے پاس پڑھے ہوئے لوگ بھی بڑے اداروں و ماحول معاشرے وسوسائٹی میں جا کر عمدہ اخلاق و بہترین عمل کا ثبوت دیں گے۔اور اس طرح گھمبیر مسائل پر قابو پا کر چند سالوں میں ہی بڑے اہداف حاصل کر لیں گے اور اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گذار کر ایک صالح ،پر امن،با اخلاق، باکردار اور دیانتدار معاشرہ وجود میں لا سکیں گے۔بقولِ شاعر:

 

 

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر   ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

اصول و آداب

 

اس وقت ہماری تعلیم و تربیت میں جو خامیاں ہیں جن کی بنیاد پر ہمارے معاشرے و ماحول میں بھی فساد برپا ہے ان کو سیرت کی روشنی میں دور کرنے کی ضرورت ہے۔سیرت کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی کام کے لئے بھرپور تیاری اور ہوم ورک ضروری ہوتا ہے۔ استاذ کے لئے لازم ہے کہ انھوں نے تعلیمی نصاب کا پور ا جائزہ لیا ہو اور اس کے لئے معاون وممد ذرائع و لوازمات سے بھرپور استفادہ کرنے کی صلاحیت اس میں موجود ہو۔حال کے تقاضوں کو بحسن خوبی انجام دیتے ہوئے مستقبل میں پیش آمدہ مسائل ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہو اورمستقبل کی پیش بندی پہلے ہی سےکر رکھی ہو۔ حدیث مبارکہ میں بھی نبی کریم ﷺکی اس صفت کو حضرات حسنین رضی اللہ عنہما نے اس طرح بیان فرمایا ہے ہر مسئلہ کا حل اور اس کے پیش آنے سے پہلے ہی اس کے مناسب تیاری ہوا کرتی تھی ، اور حل موجود ہوتا تھا۔

 

وقت کی پابندی

 

ہمارے ملک کا بلکہ مسلم معاشرے کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ ہم وقت کی پابندی نہیں کرتے ہم کوئی کام بروقت نہیں کرسکتے ۔ اور اس میں ظاہر ہے کہ تعلیمی اداروں کے لوگ آئیڈیل ہوتے ہیں یہ ایک بڑی خامی ہے جس میں ہمارا معاشرہ گھرا ہوا ہے جب کہ بہت سارے گرے ہوئے معاشروں نے وقت کی پابندی کو اپنایا اور اس سے وہ آگے بڑھ گئے۔نماز ،روزہ،حج ،زکوٰۃ کے مقررہ ومخصوص اوقات بلکہ پوری سیرت ہمیں وقت کی پابندی کا درس دیتی ہے۔ وقت کا ہر لمحہ انتہائی قیمتی ہے اورگزرے ہوئے پل دوبارہ نہیں لوٹائے جا سکتے اورذرا سی غفلت وکوتاہی اور تاخیر وقت کی بنا پر ہونے والابڑا نقصان کا ازالہ کبھی نہیں کیا جا سکتا۔ عدالتی معافی نامہ میں ایک منت کی تاخیر،گواہ کا وقت پر نہ پہنچنا،امداد کا وقت پر نہ آنا کسی کی زندگی کا دیا گل کر دیتا ہے۔اس وقت حکومتی ،انتظامی اداروں، ہسپتالوں،پولیس وفوج ،بینکوں،دفاتروں ،کمپنیوں اور کارخانوں،عدالتوں اور کچہریوں میں، بروقت کام نہ کرنےاور حاضری پوری نہ ہونے کی جتنی شکایات ہیں ان کا سبب انہی تعلیمی اداروں سے نکل کر آئے ہو ئے لوگ ہی ہیں۔ انھوں نے یہ بے وقتی اور بد انتظامی چھوٹے پیمانےپر اپنے تعلیمی اداروں میں دیکھی اور اساتذہ سےان میں منتقل ہوئی ہیں جب وقت کی پابندی ہوگی تو اس طرح کی پریشانیوں اور شکایتوں کا موقع ہی نہیں رہے گا۔

 

معلمین بروقت حاضری کا خود بھی اہتمام کریں اور اپنے بچوں کے لئے اپنا مضمون اتنا دلچسپ بنائیں کہ وہ غیر حاضری کا تصور ہی نہ کر سکیں جو معلم غیر ذمےدار نہ رویہ اپناکر روایتی انداز سے درس دیتاہے اوراپنے مضمون کو موُثر اور دلچسپ بنانے کی کوشش نہیں کرتا تو پڑھنے والے بچے بھی مختلف معمولی بہانے بناکر غیر حاضری کرتے ہیں اور معلم کی لاپرواہی کی بنا پر زیر تربیت افراد کی تعلیم ناقص رہ جاتی ہے۔

 

تعلیم و تربیت سے جنون ہو

 

معلمین و معلمات کا علم کے ساتھ ذاتی تعلق ہو اور زیر تربیت افراد میں اعلی اوصاف منتقل کرنے کا جذبہ ہو۔ استاد کو چاہئے کہ پیشہ تعلیم کو صرف ذریعہ معاش نہ سمجھے بلکہ اس کے ساتھ اس کا دلی تعلق ،شوق اور لگاؤ ہو اور اپنے آپ کو ایک معما ر قوم قائد اور نگران و رہبر تصور کرے اور یہی سوچ اپنے طلباء میں بھی منتقل کرے۔ورنہ جس معاشرے میں تعلیم کا مقصد صرف نوکری کا حصول ہو تو اس معاشرے میں نوکر ہی پیدا ہو تے ہیں رہنما نہیں۔ جب ایک فن سے یاعلم سے ذاتی دلچسپی پیدا ہو تو اس کی بدولت نئی نئی چیزیں اور عجائبات وجود میں آتے ہیں نئی نئی راہیں کھلتی ہیں بہترین آئیڈیاز جنم لیتے ہیں اور ترقی کے راز افشا ہوتے ہیں اور ایک با شعور قوم تشکیل پاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے دنیا نے ہمیشہ ان ہستیوں کو یاد رکھا ہےاور ابدی زندگی بخشی ہے جنہوں نے علم کی بقا کی خاطر اپنی عارضی زندگی فنا کردی اور انمٹ نقوش چھوڑے ۔اور جنہوں نے علم ومعرفت کا دیا جلائے رکھنے میں اپنا حصہ نہیں ٖڈالا ،اس کو بجھنے دیا ،وقت کی قدر نہیں کی ،تن آسانی اور سہولت پسندی کا شکار ہو کر عیش پرستی میں پڑ گئے ،تو وقت نے بھی ان کو قابل قدر نہیں سمجھا ان کو یاد نہیں رکھا۔ اور ان کو دنیائے جہالت کی تاریک موجوں کے حوالے کر کے ایسے قافلے کا ہم سفر بنایا جس کی منزل متعین نہ ہو تا کہ گمنامی کی موت مر کر نہ ان کا نام رہے نہ نشان ۔

 

جس دور میں مسلمانوں نے علم کو اوڑھنا بچھونا بنایا تھا اقوام عالم ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے ۔کوفہ بصرہ، بغداد ، دمشق،سمرقند، بخارا،اندلس کے علاوہ مختلف بلاد میں مسلمان ہی حکمت و معرفت کی شمعیں روشن کیے ہوئے تھے۔ علم کے متلاشی صحرا نوردی و بادپیمائی کر کے انہی کے پاس پہنچ کر زانوئے تلمذ تہ کرتے تھے۔علوم وفنون کے ساتھ ساتھ زمام اقتدار بھی انہی کے ہاتھوں میں تھی اور پوری دھرتی پر حکم رانی کرتے تھے۔دورِ حاضر میں جدید علوم وفنون ،سائنس وٹیکنا لوجی نے جتنی ترقی کی ساخت و دریافت کی نئی نئی شکلیں وجود میں آئیں ،حیرت انگیز ایجادات ہوئیں ، ان سب کی بنیاد میں مسلمانوں کا خون پسینہ شامل ہے۔ سائنس ہویا فلسفہ، ریاضی ،ہیئت ،فلکیات ہو یا تاریخ ،جغرافیہ اور عمرانیات ہوں ان سب کے بانی و موجد اور اصول وضع کرنے والے مسلمان ہی ہیں ۔ لیکن جب مسلمانوں نے علم سے اپنا رشتہ ناطہ توڑا تو قیادت و سیادت نے بھی ان کے ساتھ رہنا پسند نہیں کیا اور ان کی بے وفائی کا رونا روتے ہوئے ان کو الوداع کہا۔ پھر ان کا جو حشر ہوا یا آج کل ہو رہا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔

 

آج مسلم معاشرہ بالخصوص وطن عزیز پاکستان مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہماری ساکھ گر چکی ہے ہماری جتنے بھی ادارے ہیں کسی بڑی فہرست میں ان کا نام نہیں ،ہمیں ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہو گا اور کھلے دل سے اعتراف کرنا ہو گا کہ ہم کوئی ایسے ڈاکٹر ز،انجینئر ،سائنس دان ،سیاست دان وکلاء اور دوسرے ماہرین و رجال کار مہیا نہیں کر سکے جو قومی و بین الاقوامی سطح پر قابل فخر ہوں جو مسلم امہ کا کھویا ہوا وقار بحال کر کے عہد رفتہ کی یاد تازہ کردیں اور پیارے ملک پاکستان کا نام روشن کر کے ہمارےلئے باعث فخر و سرخروئی بنیں۔جب کہ ہمارے تعلیمی اداروں بلکہ آکسفورڈ کے گریجویٹ لوٹ مار،قتل وغارت گری، کرپشن، ملک سے غداری جیسے گھناؤنے جرائم میں پڑ کر /ملوث ہو کر /گرفتار ہو کر کال کوٹھڑیوں اور جیل کے سلاخوں کے پیچھے نظر آتے ہیں ۔ ان اداروں سے منشیات،اسلحہ، ملک دشمن لٹریچر،حتی کہ وطن عزیز کو فساد وبد امنی کی آگ میں جھونکنے والے منصوبہ ساز یومیہ برآمد ہوتے ہیں جو پاکستان کے لئے خصوصا ہمارے لئے باعث ننگ وعار اور لمحہ فکریہ ہیں۔

 

یہ سب معلمین کا اپنے آپ کو ملازم سمجھ کر علم،تحقیق وجستجو سے دوری، طلبہ کی تربیت اور ان کو صحیح رخ پر ڈالنے سے پہلو تہی کی وجہ سے ہے۔معلم معاشرے کا عام فرد نہیں ہوتا بلکہ قوم کو مثبت سوچ ،صحیح اندازفکر اور ترقی کا شعور دینے والاایک ذمہ دارشخص ہوا کرتا ہے ہمیں اپنا انداز فکر بدلنا ہو گا انفرادی سوچ کو اجتماعی بنانا ہو گا ۔ سیرت علم وجستجو کے ساتھ اس شوق و لگن کی تعلیم دیتی ہے۔ نبی کریمﷺان لوگوں پر بہت خفگی کا اظہار فرمایا ہے جو تعلیم وتربیت کے حوالے سے غفلت و لا پرواہی کے مرتکب تھے تعلیم کی روشنی پھیلانے اور جہالت کے اندھیرے مٹانے کی اتنی ترغیب دی ہے اور توجہ دلائی کہ انہوں نے بھی اس تعلیم و تبلیغ کو زندگی کا مقصد اور نصب العین قرار دیا ۔ حضرت عبد الرحمن بن ابزیؓ کی طویل روایت ہے فرماتے ہیں:

 

خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ قَالَ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ لَا يُفَقِّهُونَ جِيرَانَهُمْ، وَلَا يُعَلِّمُونَهُمْ، وَلَا يَعِظُونَهُمْ، وَلَا يَأْمُرُونَهُمْ، وَلَا يَنْهَوْنَهُمْ۔

 

’’ نبی کریم ﷺنے ایک دن خطبہ دیا اور حمد وثنا کے بعد پھر ارشاد فرمایا لوگو ں کو کیا ہو گیا ہے کہ اپنے پڑوسیوں کو دین کی سمجھ بوجھ نہیں سکھاتے اورتعلیم نہیں دیتے ،ان کو نیکی کا حکم نہیں دیتے اور برائی سے منع نہیں کرتے ۔‘‘([19])

 

یہی وجہ ہے کہ قلیل عرصہ میں اتنی بڑی تبدیلی آئی ایسا معاشرہ وجود میں آیا کہ رہتی دنیا تک کے لئے مثال و نمونہ ہے۔ اگر معلمین اسی شوق وجذبہ کا ثبوت دیں،تحقیق وجستجو کو اپنا مقصد حیات بنائیں اپنے طلبہ اور سوسائٹی کے تمام افراد کو بھی تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنے کی نیت کریں،تو وہ دن دور نہیں کہ ایک سنجیدہ ،سلجھا ہوا،صالح و باکردار معاشرہ وجود میں آئے گا ، جوجہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکل کر روشنی وترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔

 

اعتدال اور میانہ روی

 

سیرت ہمیں دینی و دنیوی ہر معاملہ میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور معتدل رہنے کا سبق دیتی ہے،ہمارا باختیار تعلیم یافتہ طبقہ انتہا پسندی کا سارا الزام مذہبی لوگوں پر لگاتا ہے لیکن خود انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک انچ بھی سرکنے کیلئے تیار نہیں۔ اپنی کہی ہوئی بات پتھر کی لکیر سمجھتے ہیں جب کہ دوسرے کی بات قابل التفات نہیں گردانتے اور الٹا رجعت پسندی اور عدم برداشت کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں۔سیرت میں اعتدال نمایاں نظر آتا ہے آپؐ نے ہر ایک کو اس کا جائز حق دیا۔ہر ایک کا خیال رکھا تب ہی تو ہر رنگ نسل،قوم وزبان اور پیشہ وحرفت کے لوگ ان کے ہاں نظر آتے ہیں۔اساتذہ کا آپس میں لڑائی جھگڑہ ،بغض وکینہ،ایک دوسرے کی ترقی پر حسد،طلبہ انجمنوں /تنظیموں کو دوسرے اساتذہ کے خلاف ابھارنا ،تنخواہ نہ ملنے پر ہڑتال کرنا،یہ وہ منفی عادتیں ہیں جن کو ہم نونہالان قوم اور معماران مستقبل کو منتقل کر رہے ہیں۔ جن کا ہم یومیہ مشاہدہ کر رہے ہیں۔کئی نامور اداروں کے طلبہ اپنے ساتھیوں بلکہ اساتذہ حضرات کے قتل میں ملوث ہیں اس انتہا ئی اقدام پر یہ کیوں اترآ ئیں ؟ اور یہ انتہا پسندی نظر آتی ہے۔حکومتی ادارے ہوں یا نجی ادارے،سماجی فالح و بہبود کے ادارے ہوں یا حقوق کے نام پر ملک کو بے راہ روی کی طرف لے جانے والے این جی اوز،ملٹی میڈیا ہوں یا سوشل اور پرنٹ میڈیا ان سب میں انتہا پسندی اور عدم برداشت ناقابل یقین حد تک عروج پر ہیں یہاں تک کہ بعض تعلیم یافتہ اور مہذب کہلانے والے سیاست دان مخصوص اور ذاتی فائدے کی خاطر اپنے مخالفین کے قتل کے مرتکب ہوتے ہیں ۔

حوالہ جات

  1. - القرآن: سورہ آل عمران آیت نمبر 164۔بیان القرآن تھانوی
  2. - القزوینی: ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر229،تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي،داراحیاء کتب العربیہ بیروت
  3. - بزار:ابوبکر المعروف بالبزار، مسندبزار،حدیث نمبر8949،تحقيق محفوظ الرحمن،مکتبہ علوم والحکم مدینہ منورہ
  4. - القرآن: سورہ مجادلہ آیت نمبر 11، ترجمہ شاہ عبدالقادر
  5. - امام ترمذی، سنن ترمذی، للامام ابی عیسی الترمذی، حدیث نمبر171، ناشر مصطفى البابي الحلبي ، مصر،ط2/1975
  6. - القزوینی: ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر229،تحقيق محمد فؤاد عبد الباقي،داراحیاء کتب العربیہ بیروت
  7. - القرآن، سورۃ آل عمران آیت نمبر159
  8. - امام مسلم، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم حدیث نمبر(537)،تحقیق:محمدفؤادعبدالباقی، داراحیاءالتراث بیروت
  9. - نووی، امام یحیی نووی،شرح صحیح مسلم 5/20، دار إحياء التراث العربي، بیروت۔ط2/1392م
  10. - امام مسلم، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم حدیث نمبر(1478)،تحقیق:محمدفؤادعبدالباقی، داراحیاءالتراث بیروت
  11. - ترمذی،امام ترمذی ابوعیسی،شمائل محمدیہ،رقم حدیث337،تحقیق:سیدعباس، مکتبہ تجاریہ مکہ مکرمہ، ط1/1413ھ
  12. - امام بخاری: صحیح بخاری شریف ، للامام محمد بن اسماعیل بخاری ۔ حدیث نمبر3038، دار طوق نجات بیروت۔ط 1/1422ھ
  13. - ابن سعد، طبقات ابن سعد 8/25،تحقیق:إحسان عباس، ناشردارصادربیروت،ط1/1968م
  14. - احمد، مسند احمد، رقم حدیث نمبر12212، تحقیق: شعیب ارناؤط،ناشرمؤسسۃرسالہ بیروت،ط1/1421ھ
  15. - ابن قیم،زادالمعادفی ھدی خیرالعباد3/359،ناشرمؤسسۃرسالہ بیروت،ط1415ھ
  16. - القرآن:سورۃ بقرہ آیت نمبر44
  17. - ابن حجرالعسقلانی، اصابہ فی تمییزالصحابہ1/637، تحقيق: عادل أحمد،دار الكتب العلمية بيروت،ط1/1415ھ
  18. - امام بخاری: صحیح بخاری شریف ، للامام محمد بن اسماعیل بخاری ۔ حدیث نمبر631، دار طوق نجات بیروت۔ط 1/1422ھ
  19. - الھیتمی، نور الدين الهيتمي،مجمع الزوائد،تحقیق:حسام الدين القدسي،مكتبة القدسي، القاهرة،1414ھ
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...