Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > The International Research Journal Department of Usooluddin > Volume 1 Issue 1 of The International Research Journal Department of Usooluddin

حضور انورﷺ کی رحمت کی امتیازی خصوصیات |
The International Research Journal Department of Usooluddin
The International Research Journal Department of Usooluddin

رحمت کا مادہ ر ،ح، م ہے، اس سے مراد نرمی اور مہربانی لیے جاتے ہیں ،یہ احسان و کرم ،بخشش و سخاوت ،شفقت و محبت، نفع بخشی اورعنایت نوازی کا وہ مرکب ہے ،جس کی بالیدگی کا انحصار دل کی نرمی سے ہے ۔دل کی نرمی کا نتیجہ ہمدردی ،خدا ترسی ، خیر و بھلائی مہیا کرنے ،اور نقصان دور کرنے کی شکل میں نکلتا ہے ۔لفظ رحمت قرآن کریم میں کئی مقامات میں آیا ہے ، یہ رحمت و مغفرت کے ساتھ ساتھ لطف و احسان ، بارش ، بادل ، شادابی ، رزق ، نبوت ، ہدایت ، علم اور برُائی و ضرر کی ضد کو رحمت من اللہ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، اس کے علاوہ قرآنِ پاک شفا ء و رحمت اور اُس کے ساتھ ساتھ اللہ کی رحمت کے مظہرِ خاص کو ’’رحمۃ للعلمین‘‘کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔قرآن مجید میں الرحمۃ کا لفظ برائی اور ضرر کی ضد کے طور پر آیا ہے۔جیساکہ ارشاد ہے:

 

قُلْ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَعْصِمُكُمْ مِّنَ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَ بِكُمْ سُوْۗءًا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً۔۔۔۔ الخ۔۱

 

’’آپ ان سے پوچھئے کہ اگر اللہ تمہیں تکلیف دینا چاہے تو کون ہے جو اس سے تمہیں بچا سکے ؟ یا اگر تم پر مہربانی کرنا چاہے۔‘‘

 

اس لیئے بعض علماء کے مطابق رحمت صرف بھلائی کرنے اور ضرر سے بچانے کا نام ہے ۔اس قول کے مطابق:

 

لان الانسان قدید فع الشرعمن لا یرق علیہ، ویوصل الخیرالی من لا یرق علیہ۔۲

 

’’کیونکہ انسان کھبی ایسے شخص سے شر کو دور کر تا اور ایسے کو خیرپہنچاتا ہے جس کے لئے اسکے دل میں نرمی نہیں ہوتی ۔‘‘

 

امام رازی کا قول بھی اسی کے مطابق ہے،چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

 

ان الرحمۃ عبارۃ عن التخلیص منانواع الافات،وعن ایصال الخیرات الی اصحاب الحاجات۔۳

 

’’رحمت مختلف آفات سے بچانے اور ضرورت مندوں کو خیر پہنچانے کا نام ہے ۔‘‘

 

گویا رحمت اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایسی صفت ہے جسے اس ذاتِ باری تعالیٰ کا مقصد اپنے بندوں کو بھلائی پہنچانا اور ہر شئے سے محفوظ رکھنا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ایسا منتہائے مقصود ہے ، جس سے اس کے بندوں کو ایسا اجر دینا ہے جو اُن کے استحقاق سے کہیں زیادہ ہو ، اور ایسے ضرر سے محفوظ رکھنا ہے جس کے وہ مستحق ہیں۔جیساکہ ارشاد فرمایا گیا:

 

قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۔۴

 

’’آپ لوگوں سےکہہ دیجئے : اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، اللہ یقیناً سارے ہی گناہ معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ غفور رحیم ہے۔‘‘

 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَضَی اللَّهُ الْخَلْقَ کَتَبَ فِي کِتَابِهِ فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِي غَلَبَتْ غَضَبِي۔۵

 

’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اس نے لوح محفوظ میں لکھ لیا سو وہ اس کے پاس عرش کے اوپر موجود ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب آگئی۔‘‘

 

رحمت اللہ کی ایسی صفت ہے جس کے نتیجے میں اللہ کسی کی غلطیاں اور گوتاہیاں معاف کر دیتا ہے ۔ نہ صرف معاف کرنا بلکہ معاف کرنے کے ساتھ ساتھ ایسا نوازنا جو بندے کے وہم اور گمان سے بالاتر ہو ۔قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ۔۶

 

’’اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینہ برساتا ہے اور وہی (حاملہ) کے پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے۔‘‘

 

فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ۔۷

 

’’(اے منافقو!) تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہو جاؤ تو ملک میں خرابی کرنے لگو اور اپنے رشتہ داروں کو توڑ ڈالو۔‘‘

 

لفظ اَرْحَام جمع ہے رَحِم کی، جسکے ایک معنی : بچہ دانی، اور رشتہ داری کے ہیں، یہ معنی و مفہوم نصوصِ قرآنی سے معلوم ہوتےہیں۔اس لیے بعض علمائے لغت نے رحمت کا لغوی رشتہ رحم ( مادر)سے منسلک کیا ہے ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ رحمت کا ایک مفہوم صلہِ رحمی اور دوسرا مفہوم ماں کی ممتا کا بھی لیاجاتا ہے، اسی رعایت کے پیش نظر عرب لغت میں رحمت کا لفظ مجازی طور پر ایسے معنوں میں مستعمل ہوتا ہے جن میں یہ مفہوم موجود ہو ۔یہ معنی و مفہوم حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی حدیث سے بھی معلوم ہوتے ہیں ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

 

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ أَنَا الرَّحْمَنُ وَهِيَ الرَّحِمُ شَقَقْتُ لَهَا اسْمًا مِنْ اسْمِي مَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهُ۔۸

 

’’حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے میرا نام "رحمن " ہے اور وہ چیز جو صلہ کو واجب کرتی ہے " رحم " ہے اسی لئے میں نے اپنا ایک نام " رحمٰن " تجویز کیا ہے پس جو اس کو ملائے گا یعنی صلہ رحمی کرے گا تو میں اس کو اپنی رحمت سے ہمکنار کروں گا اور جو اس کو کاٹے گا میں اس کو اپنی رحمت خاص سے محروم رکھوں گا۔‘‘

 

اگر چہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں کے ساتھ رحم عام کرنے کا حکم دیتا ہے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ، جن سے زیادہ رحمت و مہربانی سے پیش آنا چاہیے، ان میں سے ایک ’’ذو الا حارم ‘‘ہیں ۔ ذو الا حارم کی اسی اہمیت کے پیش نظر حضور انورﷺنے فرمایا کہ ان سے رشتہ جوڑئے رکھو ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت کو صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا ، بلکہ اپنی رحمت کا پر تو اس عالم بے ثبات میں موجود کئی چیزوں پر بھی ضرور ڈالا ۔یہ ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت ہے جس کا اندازہ کرنا ممکن نہیں ، یہ صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہے جو اس کا حقیقتاً ادرک رکھتی ہے ۔ قرآنِ کریم میں لفظ رحمت کا بیان سب سے زیادہ اللہ کے لیے ہوا ہے ۔قرآنِ پاک میں ایسی آیات کی تعداد سینکڑوں میں ہے جن میں مادہ ( ر، ح، م اور اُس سے مشتق صیغے ) استعمال ہوئے ہیں ۔ ان صیغوں میں دو صیغے زیادہ مشہور ہیں ،رحمن اور رحیم یہ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں ۔قرآن کریم کی ہرسورۃکا آغاز بسم اللہ سے ہوا جس میں یہ دونوں صیغے موجود ہیں۔’’رحمن‘‘ اور’’ رحیم ‘‘کے بارے میں ماہرین اہلِ لغت و قرآن اپنی آرا ء یوں پیش کرتے ہیں۔

 

خطابی بیان کرتے ہیں :

 

’’جمہورکی رائے کے مطابق رحمن رحمۃسے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں’’ذو رحمۃ لانظیر لہ فیھا‘‘ایسی رحمت والی ذات جس کی رحمت کی کوئی نظیر نہ ہو ۔‘‘۹

 

امام راغبؒ کے بیان کے مطابق :

 

ھورحمن الدنیاورحیم الا حزۃ، وذلک ان احسانہ فی الدنیا یعم المومنین والکافرین وفی الا خرۃ یختص بالمومنین۔۱۰

 

’’رحمن الدنیا( جس کی رحمت دُنیا میں عام ہو ) اور رحیم الآخرۃ یعنی(جسکی رحمت آخرت میں مومنوں کے لیے خاص ہے)۔‘‘

 

رحمن اور رحیم کے بارے میں اہلِ علم کی ان وضاحتوں سے اللہ تعالیٰ کی رحمتِ کاملہ کے بارے میں آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ آگاہی جزوی ہے مکمل نہیں،کیونکہ مکمل آگاہی بشری استطاعت کی فہم سے بلا تر ہے۔مندرجہ بالا قرآنی آیات ، احادیث اور علمائے کرام کے بیانات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رب کائنات کی رحمت بھی بے بیکراں اور لامحدود ہے ۔ جس کا اظہار ہر دم کائنات میں ہوتا رہتا ہے ۔ اس رحمتِ الہی کا نتیجہ ہدایت ہے ، ہدایت کے مفہوم میں رہنائی کرنا ، راہ دیکھنا اور راہ پر لگانا سب شامل ہیں ۔ یعنی جب رحمتِ الہی متوجہ ہوئی تو بندوں کی رشد و ہدایت کا بندو بست کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں کے روشد وہدایت کے جو سلسلہ ( نبوت ) شروع فرمایا ،اُسے رحمت کا نام دیا ، یعنی ہر نبی رحمت بن کے آیا ۔ چنانچہ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:

 

يَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۔۱۱

 

’’وہ مختص کرلیتا ہے اپنی رحمت سے جسے چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔‘‘

 

اللہ کی اس رحمت کے بیان کے بارے میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ نے اپنے مرید شیخ فریدؒ کی طرف اپنے مکتوب میں لکھا ہے: ’’انبیاءعلیہم الصلوٰۃ والسلام کے اللہ کی صلوٰۃ اورسلام اوربرکات ان سب پربالعموم اوراُن کے افضل پر بالخصوص ہو اور اللہ کی رحمتیں ہوں، کیونکہ ان بزرگواروں کے طفیل جہاں کو نجات ِ ابدی کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور ہمیشہ کی گرفتاری سے آزادی حاصل ہوئی ہے۔ اگر ان کا وجود شریفانہ نہ ہوتا تو حق ِ تعالیٰ جو فنی مطلق ہے جہاں کو اپنی ذات ِ صفات کی نسبت کچھ خبر نہ دیتا اور اس طرف کا راستہ نہ دکھاتا اور کوئی شخص اس کو نہ پہنچانتا اور امر نوا ہی جن کے ساتھ بندوں کو محض اپنے کرم سے اُن کے نفع کے لیے مکلف کیا ہے۔اُن کے بجا لانے کی تکلیف نہ دیتا اور اُس کی رضا مندی نا رضا مندی سے جد ا نہ ہوتی۔پس اس نعمت عظمیٰ کا شکر کس زبان سے ادا کیا جائے اور کس کو یہ طاقت ہے کہ اُس کا شکر ادا کر سکے۔‘‘۱۲

 

اسی سلسلے میں ایک مکتوب خواجہ محمد سعیدؒ کی جانب لکھا ۔جس میں انبیا ء کرامؑ کے ارسال کی رحمت کو اسطرح سے بیان فرمایا:

 

الحمد للہ الذی ھدنا لھذا وما کنا لنھتدی لولاان ھد نا اللہ لقد جاء ت رسل ربنا بالحق۔

 

’’اللہ تعالیٰ کی حمد ہے جس کی ہم کو اس نےہدایت دی اور ہم ہر گز ہدایت نہ پاتے اگر ہم کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہ کرتا ۔ بیشک ہمارے رب کے پیغمبر حق لے کر آئے ہیں۔ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے ارسال کرنے کی نعمت کا شکر کس زبان سے ادا کیا جائے اور دل سے اس منعم کا اعتقاد کیا جائے اور وہ اعضا ء کہاں ہیں جو اعمال ِ حسنہ کے ساتھ اس نعمت ِ عظمیٰ کا بدلہ ادا کر سکیں ۔ اگر ان بزرگوارو ں کا وجود شریف نہ ہوتا تو ہم بے سمجھوں کو صانع کے وجود اور اُس کی وحدت کی طرف کون ہدایت کرتا۔‘‘۱۳

 

گویا انبیا ء کرامؑ کا سلسلہ رحمت ِ الہیٰ کا ایک خاص مظہر ہے، یعنی تمام انبیاء کرامؑ کو دنیا میں بھیجنا باسبب رحمت ہے ۔ لیکن وہ ہستی جسے انبیاءؑ کے سلستہ الذھب میں ’’رحمتہ للعالمین ‘‘کے لقب سے سر فراز کیا گیا ، وہ صرف ہمارے آقا، محبوب خدا حضرت محمد ﷺکی ذات مبارکہ ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ۔۱۴

 

’’اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

 

رحمت کے مذکورہ مفاہیم ، قرآن ِ وحدیث ، ماہرین لغت و قرآن ،اور ریاض الصالحین کی آراء کو مد نظر رکھا جائے اور اس ارشاد ِ خدا وند ی کو کہ’’ ہم نے آپ ؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔‘‘ تو حضو ر انور ﷺ کی رحمت جو مظہرِالہی ٰ کا خاص الخاص مظہر ہےکھل کرسامنے آتی ہے ۔ تاہم بتقضائے بشریت ، انسانی ذہن و دماغ سےاس رحمت کا احاطہ کرنا محال ہے تاہم توفیق امر ِ الہیٰ کے فیض سےحضور ِ انور ﷺ کی رحمت کی چندامتیازی خصوصیات حسب ِ ذیل ہیں :

 

اتمام نعمت

عالم انسانیت نے جب سے شعور کی منازل طے کرنی شروع کیں تو اللہ اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے انبیاء کرامؑ کو مبعوث فرماتا رہا۔ اس سلسلے کے آخری پیغمبر محمدﷺ جو دین اسلام لے کر آئے وہ کوئی نیا دین نہ تھا بلکہ سابقہ الہامی مذاہب جو اپنے پیروکار وں کے ہاتھوں تحریف و گمراہی کا شکار ہو چکے تھے ، اُن کی صحیح کامل اورحتمی شکل ہے جسکے لئے خود خالق کائنات نے اعلان فرمایا:

 

اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۔۱۵

 

’’آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔‘‘

 

یہاں پر خالق کائنات نے اسلام کے لیےلفظ نعمت استعمال کیا ہے ، اللہ کی رحمت اورنعمت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جب رحمت معاوضے کے بغیر ہو تو اسے ’’نعمت و احسان ‘‘کہا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ بندوں پر اللہ کی رحمت کو ہم نعمت و احسان سےتعبیر کرتے ہیں ۔ اسی بات کی تائید امام ماوردی نے اس طرح کی ہے:

 

والرحمۃ ھی النعمۃ علی المحتاج۔۱۶

 

’’محتاج پر رحمت ہی نعمت ہے۔‘‘

 

ایسی بات کو حضرت مجدد الف ثانی ؒنے اپنے ایک مکتوب میں جو انھوں نے ملا حسینی کی جانب لکھا ہے ، اُس میں بیان کیا ہے کہ’’تمام نعمتوں پر خاص کر اسلام اور حضرت سعید الانام ﷺکی متابعت کی نعمت پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور اُس کا احسا ن ہے ، کیونکہ اصلی مقصود یہی ہے اور نجات کا مدار اسی پر ہے ، اور دنیا و آخرت کی سعادت کا پانا اسی وابستہ ہے ۔۱۷

 

گویا دین اسلام جسے اللہ نے اپنی نعمت قرار دیا اس کا اتمام جس پیغمبر پر ہوا وہ بھی صاحب رحمت قرار پا یا ، حضور انورﷺ کی یہ رحمت زمان و مکان کی وسعتوں سے آزاد اور ازل و ابد پر محیط ہے ، نہ صرف آپ ؐ کی ذات مبارکہ بلکہ آپ کا پہنچا ہوا دین ، آپ کی شریعت ، اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق آپ کی تعلیمات و ہدایات سب سراسر رحمت ہی ہیں ، آپ ؐ پر جو کتاب نازل ہوئی وہ بھی خیر و رحمت سے عبارت ہے ۔ جس کے بارے میں قرآن خود گواہی دیتا ہے:

 

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۔۱۸

 

’’اور ہم نے جو قرآن کریم میں سے نازل کیا ہے تو وہ یقین کرنے والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔‘‘

 

گویا سب رحمت ہی رحمت ، خالق ِ کائنات بھی رحمت ، اُس کا بھیجا ہو ادین بھی رحمت ، جس نبی پر دین کی تکمیل وہ بھی رحمت ، جس صحیفے میں تکمیل دین کا تذکرہ وہ بھی رحمت ۔جیساکہ ارشاد ِ ربانی ہے:

 

وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ۔۱۹

 

’’اور ہم نے آپ پر قرآن اتارا ہے کہ تمام (دین کی) باتوں کا بیان کرنے والا ہے اور (خاص) مسلمانوں کے واسطے بڑی ہدایت اور بڑی رحمت اور خوشخبری سنانے والا ہے۔پس حضور ؐ جن پر اللہ کی نعمت کا اہتمام ہوا وہ سراپا ذات ِ رحمت ہے ۔‘‘

 

سابقہ ادیان میں معبود کی صفت رحمت کا تصور

 

حضورﷺ کی آمدسےقبل سابقہ ادیان کے پیروکاروں نے خدائی پیغام میں رد وبدل کر کے اپنے دین میں ایسی بدعات و اختراعات بنا لیں تھیں جس کی وجہ سے انسان اور خدا کے درمیان بہت فاصلے پیدا ہوگئے تھے۔ جس کا نتیجہ اس نا قابل تلافی نقصان کی صورت میں یہ نکلا کہ انسان خدا سے اور اُس کی رحمت سے مایوس ہو گیا ۔ اُن مذاہب کے پیروکاراپنے معبود دں کی شفقت و رحمت کے بجائے ڈر و خوف کا شکار تھے ۔ جسکے نتیجے میں مختلف تو ہمات کا شکار ہوکر اپنی زندگی اجیرن بنا چکے تھے ۔اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ ہر وہ چیز جس سے اُنھیں ذرہ برابر بھی خوف و خطر ے کا شبہ محسوس ہوا ،اُسے بچاؤ کی واحد صورت یہی نظر آئی کہ اُسے معبود کا درجہ دے ڈالیں اور اپنے آپ کو محفوظ کرلیں ۔ یہاں تک کے مختلف علاقوں میں اور مختلف ادوار میں ان معبودوں نے مختلف شکلیں اختیار کیں ۔مثلاً قدیم عراق اور ہندوستان کے لوگوں نے مظاہر کائنات مثلاً اجرام فلکی ، سورج ، چاند اور ستاروں کو معبود بنا لیا۔

 

اس کےعلاوہ مظاہرفطرت مثلاً :پانی آگ اور بارش کی بھی پرستش کی جاتی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ ہندو مذہب کے پیروکاروں نے خدا کی صفت رحمت کے قائل ہونے کی بجائے اُسکی ہر صفت کو علیحدہ علیحدہ قرار دے دیا تھا ۔ اور اسطرح اپنے معبودوں کو لاکھوں ، دیوی اور دیوتاؤں میں منقسم کر رکھاتھا ۔ جبکہ بُدھ مذہب کے لوگ خدا کی رحمت کے قائل کیا ہوتے وہ تو سرے سے ہی خدا کے منکر تھے ۔ یہی احمقانہ خیالات یہودی مذہب ماننے والوں کے تھے اگر چہ وہ ایک معبود پر یقین تو رکھتے تھے لیکن وہ خدا کی صفت و رحمت کی بجائے صفت جلال کے قائل تھے اور خدا کو فوجوں والا خدا کے نام سے پکارتے تھے ۔ اس کے برعکس عیسائیت کے پیرو کار اس قدر افراط و تفریظ میں مبتلا ہوچکے تھے کہ پہلے تو انسانوں کے گناہوں کے سبب مایوسی کا شکار ہوئے اور بعد میں حضرت عیسیٰ ؑ کے سولی چڑھنے کے بعد ( ان کے خو د ساختہ عقیدے کے مطابق) حد سے زیادہ خوش گمانی میں مبتلا ہوگئے ۔اور نعوذ باللہ حضرت عیسی ٰؑ کو خدا کے بیٹے کا درجہ دے ڈالا ۔

 

سابقہ ادیان میں معبود کی صفتِ رحمت کا جو تصور تھا اُس کی وضاحت صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتی ہے ۔ سیدنا ابنِ عمرؓ بیان کرتے ہیں :’’حضرت زید بن عمرو بن نفیل شام کی طرف نکل گئے ۔ دین کی جستجو میں گئے تھے کہ جس کی وہ اتباع کرسکیں ۔ وہاں یہ ایک یہودی عالم سے ملے،اُس سے اُن کے دین کے بارے میں پوچھا اور کہا :مجھے اپنے دین کی خبر دو شاید میں تمھارے دین کے سامنے سر تسلیمِ خم کر دوں ۔ اُس نے بتایا :ہمارے دین پر اُس وقت تک تم نہیں چل سکتے جب تک تم اللہ کے غضب کا کچھ حصہ حاصل نہ کر لو۔ حضرت زیدؓ نے کہا : میں غضب الہٰی سے تو بچنے کے لیے در بدر سرگرداں ہوں ۔میں تو غضب الہٰی کا ایک ذرہ تک برداشت نہیں کر سکتا۔ میں یہ دین اختیا ر نہیں کر سکتا جس میں غضبِ الہٰی سے دو چار ہونا پڑے ۔ اسی طرح وہ ایک عیسائی عالم کے پاس گئے اُس نے بھی اُن سے یہودی عالم کی مانند کہا کہ ہمارے دین میں داخل ہو کر لعنت الہٰی سے دو چار ہو نا پڑتا ہے انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی لعنت سے بچاؤ کے لیے تو میں اتنی بھاگ دوڑ کر رہا ہوں مجھ میں غضب اور لعنت اُٹھانے کا یارا نہیں ۔‘‘۲۰

 

حضور ِ انورﷺ کا معبود کی صفت ِ رحمت سے متعلق پیام ِ رحمت

حضور انورﷺ جو پیام لے کر آئے وہ سراپا رحمت و شفقت پر مبنی تھا۔ آپ ؐ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش ، اُس کی ذات و صفات کی معرفت کے ساتھ ساتھ معبودِ الہٰی کی رحمت سے بھی لوگوں کو روشناس کرایا ۔ اسلام میں خدا خدائے رحمت ہے اُس کی رحمت ہر لحظہ ، ہر آن ، ہر جگہ ، چاہے اندھیرا ہو یاُ جالا جنگل ہو یا آبادی ، ہر لمحہ ہر تکلیف میں اچھی ہو یا بُری گھڑی میں مقام اور ہر ساعت میں شاملِ حال ہے ۔وہ اپنے بندے کومایوس نہیں کرتا ، بلکہ مایوسی کو کفر اور گمراہی قرار دیتا ہے۔جیساکہ ارشادباری تعالیٰ ہے:

 

قَالَ وَمَن یَقْنَطُ مِن رَّحْمَۃِ رَبِّہِ إِلاَّ الضَّآلُّونَ۔۲۱

 

’’(ابراہیم نے) کہا کہ اللہ کی رحمت سے (میں مایوس کیوں ہونے لگا اس سے) مایوس ہوناگمراہوں کا کام ہے۔‘‘

 

اور اس سے بڑھ کر کون سا پیغام رحمت کا ہو سکتا ہے کہ انسان کا خدا اُس کے ہر گناہ کو معاف کردے گا۔جیساکہ ارشاد فرمایا:

 

قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ۔۲۲

 

’’تم فرماؤ! اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی، اللہ کی رحمت سے نا اُمید نہ ہو بے شک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ،بے شک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

 

حضورِ انورﷺنے لوگوں کو اس بات کی تعلیم دی کہ اگر کسی کے گناہ بہت زیادہ ہو جائیں اور وہ اللہ تعالیٰ سے خلوصِ دل سےمعافی مانگیں تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے۔حضور انورﷺ جو کتابِ رحمت لے کر آئے اُس کتابِ رحمت میں اللہ کا لفظ۲۶۹۷ بار آیا ہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی عربی لغت کے مطابق دلوں کے اس محبوب کے ہیں جو دلوں کو موہ لے ، اور انسان اس کی محبت میں حیران و سرگرداں ہو جائے ۔اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں خدا کا تصور پیار و محبت اور اُس کی بے پایاں رحمت سے منسلک ہے ۔پس رحمت و محبت سے گندھے اس لفظ سے قرآن کا ورق ورق منور ہے۔ اسی سلسلے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

وَلَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِكِتٰبٍ فَصَّلْنٰهُ عَلٰي عِلْمٍ هُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۔۲۳

 

’’اور ہم نے اُن لوگوں کے پاس ایسی کتاب پہنچا دی ہے جس کو ہم نے اپنے علم کامل سے بہت واضح کر کے بیان کر دیا ہے ۔اور یہ ذریعہ ہدایت اور سببِ رحمت ہے ،اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ۔‘‘

 

اسی کتابِ رحمت کی پہلی سورۃ ، سورۃ فاتحہ کی تفسیر کے ضمن میں اُس کی آخری تین آیات پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا ابو الکلام آزاد ؒنے اللہ تعالیٰ کی عالم گیر رحمت کو نہایت خوبصورت طریقے سے بیان کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں:’’پھر وہ (اللہ کا بندہ ) خدا سے سیدھی راہ چلنے کی توفیق طلب کرتا ہے یہی ایک مدعا ہے جس سے زبان احتیاج آشنا ہوتی ہے ۔لیکن کونسی سیدھی راہ ؟کسی خاص نسل کی سیدھی راہ ، کسی خاص قوم کی سیدھی راہ ، کسی خاص مذہبی طبقہ کی سیدھی راہ ؟ نہیں وہ راہ جو تمام رہنماؤں اور تمام راست بازانسانوں کی متفقہ رائے خواہ کسی عہد یا کسی قوم میں ہوئے ہو ں ، اس طرح وہ محرومی اور گمراہی کی راہوں سے پناہ مانگتا ہے ۔ لیکن یہاں بھی کسی خاص نسل یا قوم یا کسی خاص مذہبی گروہ کا ذکر نہیں کرتا ۔ بلکہ اُن راہوں سے بچنا چاہتا ہے جو دنیا کے تمام محروم اور گمراہ انسانوں کی راہیں رہ چکی ہیں۔گویا جس بات کا طلبگار ہے وہ بھی نو ع انسانی کی عالم گیر برائی ہے۔نسل ، قوم ، ملک ، یا مذہبی گروہ بندی ، تفرقہ و امتیاز کی کوئی پرچھائیں اُس کے دل و دماغ پر نظر نہیں آتی۔ کم از کم دو باتوں سے انکار نہیں کر سکتے ، ایک یہ کہ اُس کی خدا پر ستی خدا کی عالم گیر رحمت و جمال کے تصور کی خدا پرستی ہو گی ، دوسری یہ کہ کسی معنی میں بھی وہ نسل ، قوم یا گروہ بندیوں کا انسان نہیں ہو گا ۔عالم گیر انسانیت کا نسان ہو گا اور دعوتِ قرآن کی اصل روح یہی ہے ۔۲۴ یہی وجہ ہے کہ اس قرآن کو رب العالمین سے اولین وصول کرنے والی ہستی حضرت محمد ﷺکو ’’رحمۃ للعالمین‘‘ قرار دیا ۔

 

منفر داعزازنبی رحمۃللعالمینﷺ

 

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تمام برائیوں اور مفسدات سے دور کرنے اور ہر خیرو بھلائی سے ہمکنار کرنے اُن کی روحوں کو ہدایت سے سیراب کرنے، انھیں شرک و کفر کے گہرے غاروں سے نکالنے ، انہیں انسانوں کی غلامی سے نکالنے ، چہارجانب چھائے ظلمتوں کے اندھیروں کو اجالوں میں بدلنے کے لیے اپنی رحمت کا ’’سراج‘‘ بھیجا۔پروردگار رحمن اور رحیم نے اپنی رحمت کے ’’سراج‘‘کو’’رحمت اللعالمین ‘‘کے لقب سے سرفراز کیا اور اپنی رحمت کے اس نزول کو یوں بیان فرمایا :

 

وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْن۔۲۵

 

’’ہم نے تمام جہانوں کے لیے آپ کو رحمت بنا کر بھیجا۔‘‘

 

اور یہی حقیت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سراجِ رحمت کی روشنی میں کرہ ارض کی تمام ظلمتوں کے پردے چاک ہو گے اور ایک نئی صبحِ نو نے جنم لیا اور اس کائنات رنگ و بو نے رحمتوں کے وہ مظاہر دیکھے جس کے سامنے تاریخِ عالم کے تمام اوراق کورے ہیں۔ جس کی رحمتوں کی عظمتوں کا اعتراف سب نے کیا ۔ کہا جاسکتا ہے کہ جس دور میں پیغمبر رحمتﷺ کی بعثت ہوئی وہ تاریخ کا بدترین دور تھا ۔آپﷺ کی آمد سے روئے زمین پر رحمتوں کے بند ابواب کھل گئے ۔رحمت کے ایک معنی ہے عنایت ،انعام و احسان ۔اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شمار محال ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی احسان کو جتلایا نہیں ماسوائے ایک احسان کے ۔ اُس رسول کے بھیجنے کا احسان جو لوگوں کو گمراہی سے نکالتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اُسے نبی رحمتﷺ کا لقب دیا جو اس سے پہلے کسی کو نہیں ملا ۔

 

اس بات کو بڑے خوبصورت انداز میں امام غزالی ؒ نے یوں بیان کیا ہے:’’اللہ نے چاہا کہ عالم پر ایک ایسے انسان کے ساتھ احسان کرے جو اس کے آلام کو مٹا دے،غموں کو ہلکا کر دے،خطاؤں پر رحم کر ے،اس کی ہدایت کی خاطر جان دینے کو تیار ہوجائے کمزور کی مدد کرے اور جس طرح ماں بچوں کی طرف سے لڑتی ہے،اسی طرح ان کی طرف سےلڑے،قوی کی طاقت کو توڑ دے حتی ٰ کہ اُس کو ایک سلیم الفطرت انسان بنا دے جو ظلم و ذیادتی چھوڑ دے تو اللہ نے محمدعلیہ الصلوۃوالسلام کو بھیجا ۔‘‘۲۶

 

یہی وہ بات ہے جس کا اعتراف اپنوں نےاور غیروں نے سبھی نے کیا ۔ کیرن آرم اسٹرانگ لکھتی ہیں :

 

Muhammad had greater spiritual as well as political gifts the two do not always go together and he was convinced that all religious people have a responsibility to great a good and just society. He could become darkly angry and implacable. But he could also be tender, compassionate, vulnerable and immensely kind.۲۷

 

’’محمد ؐ روحانی اور سیاسی خصوصیات کے حامل تھے ۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ تمام مذہبی لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک اچھی اور انصاف پر مبنی سو سائٹی بنائیں ، اُن کو غصہ بھی آتا تھا ۔ لیکن آپ ؐ نرم ، نہایت مہرباں ، شفیق ،حساس اور بے حد رحم کرنے والے تھے ۔‘‘

 

حضور انورﷺ کی شان ِ رحمت الہامی مذاہب کے تناظر میں

سلسلہ نبوت رحمت ہے ۔ انبیائےکرامؑ کو دنیا میں بھیجنا اور اُن کو مبعوث کرنا اللہ کی بڑی رحمت ہے ۔ اس بات کو مجدد الف ثانی ؒنے اس طرح سے بیان کیا ہے:’’بعثت عین رحمت ہے جو واجب الوجود تعالیٰ تقدس کی ذات و صفات کی معرفت کا سبب ہے جو دنیا و آخرت کی سعادت کو متضمن ہے اور بعثت کی بدولت معلوم ہو گیا ہے کہ یہ چیز حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کے مناسب ہے اور یہ چیز نامناسب کیونکہ ہماری اندھی اور لنگڑی عقل جو حدوث اور امکان کے داغ سے داغدار ہے کیا جانتی ہے کہ ا س حضرت و جوب کے لئے جس کے واسطے قدم لازم ہےاس کے اسماء و صفات و افعال میں سے کون سے مناسب ہیں اور کون سے نا مناسب تاکہ ان کا اطلاق کیا جائے اور ان سے اجتناب کیا جائے بلکہ بسا اوقات اپنے نقص کی وجہ سے کمال کو نقصان جانتے ہیں اور کمال کو نقصان سمجھتے ہیں ۔یہ تمیز فقیر کے نزدیک تمام ظاہری و باطنی نعمتوں سے بڑھ کر ہے وہ شخص بڑا بد بخت ہے جو امور ِ نامناسب کو حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کی طرف منسوب کرے اور ناشائستہ اشیا ء کو حق سبحانہ کی طرف نسبت دے بعثت ہی بدولت حق و باطل سے جدا ہوا ہے اور بعثت ہی کی وجہ سے عبادت کےمستحق اور غیرمستحق میں تمیز ہوئی ہے ۔ وہ بعثت ہی کے ذریعے حق تعالیٰ کے راستہ کی طرف دعوت کرتے ہیں اور بندوں کو مولیٰ جل شانہ، کے قرب اور وصل کی سعادت تک پہنچاتے ہیں اور بعثت کے ذریعے حق تعالیٰ کی مرضیات پر اطلاع حاصل ہوتی ہے ۔ جیسا کہ گزر چکا اور بعثت کے ذریعے حق تعالیٰ ملک میں تصرف کے جواز اور عدم جواز میں تمیز ہوتی ہے ۔بعثت کے اس قسم کے فائدے بکثرت ہیں ۔پس ثابت ہوا کہ بعثت سراسررحمت ہے اور جو شخص اپنے نفس امارہ کی خواہش کے تابع ہو جائے شیطان لعین کے حکم سے بعثت کا انکار کردے اور بعثت کے موافق عمل نہ کرے تو بعثت کا کیا گناہ ہے اور بعثت کیوں رحمت نہیں۔‘‘۲۸

 

آ پﷺ کی بعثت میں اور دوسرے انبیاءؑ کی بعثت میں یہ فرق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐکو تمام عالموں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے(علمائے لغات عرب کے نزدیک اللہ کی ذات و صفات کے سوا ہر شے عالمین میں شامل ہے) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺکی رحمت انتہائی وسیع ہے۔جس کے حلقہ اثر میں کائنات اور اس میں موجود جن و انس، مومن و کافر، نباتات اور جمادات سب شامل ہیں ۔ انسانوں میں چاہے وہ مومن ہو یا کافر کسی بھی مذہب ، رنگ یا نسل سے تعلق رکھتے ہو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

 

آپﷺ کا ہرقول فعل عمل اداحتیٰ کہ تقریر(سکوت)بھی رحمت ہے۔ اسی طرح نبی رحمت ؐ نہ صرف مومنین و مخلصین کے لیے رحمت تھے بلکہ اہل ِ کتاب کے لیے بھی سراپا رحمت تھے ، اگر چہ اہل ِ کتاب آپ ؐ کی رحمت سے انکار کرتے رہیں ۔ لیکن آپ ؐ کی رحمت تو عام ہے اگر کوئی محروم القسمت اس سے مستفید نہ ہو تو یہ اُس کی بد بختی ہے ۔ آپ ؐ کی رحمت کافیضان تو جاری و ساری رہے گا ۔ اہل ِ کتاب کے لیے آپ ؐ کی رحمت کا بیان چیدہ چیدہ نکات کی صورت میں حسب ِ ذیل ہے:

 

(۱) اہلِ کتاب سے یہی شفقت و ہمدردی تھی جس کی بناء پر اُن کی گمراہی آپ ؐ کی اذیت کا باعث تھی ۔ آپ ؐ نے اُن کے ایمان نہ لانے کو اس درجہ حرز جہاں بنا رکھا تھا ، جس کے باعث اُس رب العلمین کو آپ ؐ کو کہنا پڑا:

 

لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۔۲۹

 

’’شاید آپ ان کے ایمان نہ لانے پر (رنج کرتے کرتے) اپنی جان دے دیں گے۔‘‘

 

اہل ِ کتاب کی یہ گمراہی اس لیے بھی باعث ِ شدت تھی کہ آپ کو بذریعہ وحی الہیٰ ( قرآن ) کے اس بات سے آگاہی حاصل تھی کہ آپ ؐ کی نصرت و حمایت کا وعدہ اللہ نے ہر نبی سے لے رکھا تھا اور ہر نبی نے اپنی اُمت کے لوگوں کو اس بارے میں بتا رکھا تھا آپ ؐکی آمد، آپ ؐ کی ذات و صفات کی آگاہی سے اہل ِ کتاب بخوبی واقف تھے ایسے میں آپ ؐ کو جھٹلانا اور پیغام ِ الہی ٰ کو رد کر دینے کی صورت میں وہ سزا اور عذاب کے مستحق ٹہرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اپنی حد درجہ رحمت و شفقت کی غایت کے سبب اہل ِ کتاب کے لیے پریشان رہتے۔ قرآن پاک میں یہ بات مذکور ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے روز ِ الست اپنی ربوبیت کا پختہ عہد اپنی مخلوق سے لیا تھا اسی طرح تمام انبیا ئے کرامؑ سے نبی ِ رحمتﷺ پر ایمان لانے اور اُن کی حمایت و نصرت کا وعدہ لیا تھا ۔ اس سلسلے میں ارشاد ِ ربانی ہے:

 

وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ ۭ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰي ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ ۭ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ۭ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ۔ فَمَنْ تَوَلّٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔۳۰

 

’’اور جب کہ اللہ تعالیٰ نے عہد لیا انبیاءؑ سے کہ جو کچھ میں تم کو کتاب اور علم دوں پھر تمہارے پاس کوئی پیغمبر آوے جو مصدق ہو اس کا جو تمہارے پاس ہے تو تم ضرور اس رسول پر اعتقاد بھی لانا اور اس کی طرفداری بھی کرنا۔ فرمایا کہ آیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا عہد قبول کیا وہ بولے ہم نے اقرار کیا ارشاد فرمایا تو گواہ رہنا اور میں اس پر تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ سو جو شخص روگردانی کرے گا بعد اس کے تو ایسے ہی لوگ بےحکمی کرنے والے ہیں۔‘‘

 

اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں ترجمان القرآن حضرت ابن ِ عباس ؓ فرماتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے یہ عہد و پیماں لیا تھا کہ اگر اُس کی زندگی میں محمدﷺ مبعوث ہوں تو وہ لازماً آپ ؐ پر ایمان لائے گا ۔آپ ؐ کی پیروی کرنے کے ساتھ آپ ؐ سےتعاون کرے گا۔ نیز اس کو پابند کیا کہ اپنی امت سے بھی یہ پختہ عہد لے کہ اگر اُن کی زندگی میں محمد ؐ مبعوث ہوں تو وہ سب ان پر ضرور ایمان لاویں گےاور اُن کی اتباع و پیروی کریں گے۔گزشتہ انبیائے کرامؑ نے آپ ؐ کی بعثت کی بشارت دی یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسی ٰ ؑ نے بھی آپ ؐ کی بعثت کی خوشخبری سنائی اسی طرح آپ ؐ کی آمد کی اطلاع یہودی علماء ، کاہنوں اور راہبوں نے بھی دی ۔‘‘۳۱

 

) اگر آپﷺ کی بعثت کی بشارات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ساری بشارات آپﷺ کی رحمت سے عبارت ہیں ۔ مثلاً حضرت عیسی ٰ ؑ نے اپنے لوگوں سے کہا:

 

And I will ask the father and he will give another Advocate to be with you forever.۳۲

 

’’اور میں باپ درخواست کرونگا ، تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشےگا،جو قیامت تک تمہارے ساتھ رہے۔‘‘۳۳

 

مندرجہ بالا بیان میں حضور انورﷺ کی رحمت کا ایسا واضح اشارہ پایا جاتا ہے جو ختم نبوت، اتمام ِ دین و نعمت سےمتعلق ہے ۔ جو ایک آیا اور ہمیشہ رہے گا ۔ وہ ذات ِ رحمت ہے جو قیامت تک ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘کی صورت میں رہی گی ۔ اس کے علاوہ ’’ابد تک ساتھ رہے گا ‘‘سے مراد دراصل یہ بھی ہے کہ آپؐ کی شریعت، آپؐ کا قانون ، آپؐ کی تعلیمات اور آپؐ کی نبوت کا فیضان قیامت تک باقی رہے گا ۔نبیِ رحمتﷺ جو دین لے کر مبعوث ہوئے تھے اُس دینِ رحمت نے اُن تمام باطل عقائد ، اوہام پرستی اور جاہلانہ رسومات کے بوجھ تلے دبی ہوئی انسانیت کو اُن تمام امراض سے نجات دلائی جس میں وہ مبتلا تھی ۔ بدھ مت ، عیسائیت، ہندو مت ، یہودیت اورمجو سیت کے مذہبی عقائد نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی ۔

 

عیسائیت میں تارک الدنیا ہو جانا ، رہبانیت اختیار کرنا ، معاشرتی زندگی سے دور ہونا ،تجر د کی زندگی اختیار کرنا ، تمام فطری خواہشات کے ساتھ ضروری احتیاجات سے بھی خود کو دور رکھنا ، ایذا رسانی یہ سب چیزیں انسانیت کی معراج اور خدا کی معرفت کے لیے از حدضروری افعال تھے۔رحمتہ للعالمین نے ان تمام طریقوں کو باطل اور جاہلانہ رسم و رواج قرار دیتے ہوئے دینِ اسلام کے بارے میں یہ تعلیمات دیں کہ وہ نہایت سادہ اور آسان ہے۔یہ اوہام پرستی اورخرافات سے مبرا ہے اس میں سختی ،تنگی اور دشواری نہیں ۔دینِ اسلام کے احکامات ہر انسان کی استطاعت کے مطابق ہی آئے ہیں ۔یہی وہ رحمت ہے جس کا شائبہ بھی دوسرے مذاہب میں نہیں ملتا ۔ حضورِ پاک ﷺ ذاتی اعتبار سے بھی رحمت تھے اور اپنی تعلیمات کے اعتبار کے حوالے سے بھی رحمت تھے۔یہی وجہ ہے کہ نبی رحمت ؐ نے جو ضابطہ حیات انسانوں کو دیا وہ سراسر رحمت ہے ، یہ رحمت (ضابطہ حیات ) دین و عقیدے کی رحمتوں کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کے تمام جملہ امور پرمشتمل ہے۔ چاہے وہ امورانسانی زندگی کے اجتماعی، انفرادی، بین الاقوامی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اور عسکری زندگی کے مختلف شعبہ جات سے متعلق ہوں سب کے سب رحمت کے باب میں شامل ہیں۔

 

رسول رحمتﷺ کی رحمت زمان و مکان کی حدود سے مستثنیٰ ہو کر ازل و ابد کے عنوان سے عبارت ہے ۔نہ صر ف آپ ؐ کی ذات مبارک بلکہ آپ ؐ کا پھیلا یاہوا دین ،آپ ؐ کی شریعت ،آپ ؐ پر نازل شدہ پیغام وحی ( قرآن ) یہ سب چیزیں دائرہ رحمت میں داخل ہیں اورنری رحمت ہی رحمت ہیں اوریہی وہ ابدی تعلیمات ہیں جن کا پیغام حضرت عیسی ٰ ؑ نے دیا تھا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے گا ۔

 

نبی رحمتﷺبحثیت سردار

I will not say much more to you, for the prince of this world is coming. He has no hold over me. ۳۴

 

’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا ، کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں ۔‘‘۳۵

 

دنیا کا سردار وہی ہو سکتا ہے جس کی نبوت ، جس کا پیغام کسی ایک قوم یا علاقے تک محدود نہ ہو ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضور انو رؐ کی نبوت عالمی و آفاقی ہے اورآپ ؐ کی بعثت مبارکہ تمام نسل انسانی کی رہنمائی کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو رحمتہ للعلمین کا لقب عطا کیا۔ نبی رحمت کی رحمت عامہ تمام اقوام عالم کیلئے ہے ۔ آپ ؐ کی رحمت کے دائرے سے کوئی قوم مستثنی ٰ قرار نہیں دی جاسکتی ، اس لیے کہ صرف وہی ہستی نوع انسانی کیلئے رحمتہ للعلمین ہو سکتی ہے ، جس میں کم از کم تین خصوصیات موجود ہوں:

 

اول : اول خصوصیت یہ کہ جو بھی انسان کسی مذہب کا بانی یا رہنما ہو ۔ اس کا کردار و عمل بالکل واضح ہو ۔ اس کی سیرت ایسی محفوظ ہو جو معتبر ذرائع سے انسانوں تک پہنچی ہو،جسکی زندگی کا کوئی گوشہ انسان سے مخفی نہ ہو۔ تاریخ عالم میں کسی بھی مذہب و قوم کے رہنما یا بانی کی زندگی اس معیار پر پوری نہیں اترتی سوائے نبی رحمت ﷺکے جنھوں نے فرمایا : جو مجھ میں خلوت میں دیکھو ، وہ برملا جلوت میں بیان کرو۔

 

دوئم : حضور انورﷺ کا پیغام ، آپ ؐ کی بعثت ، آپ ؐ کا فراہم کردہ دستور حیات تمام نوع انسانی کے لئےہے۔ کسی قوم رنگ یا خطہ کے لیے محدود یا مخصوص نہیں ہے، بلکہ اس کی وسعت ہر زمانہ، ہر رنگ و نسل و مذہب کے لیے ہے ۔ جبکہ دوسری اقوام کے بانیاں و رہنمائی کی تعلیمات و پیغامات صرف ایک خاص علاقے یا قوم تک محدود ہیں ۔

 

سوئم : حضورﷺ نے زندگی کے ہر معاملے کے بارے میں انسانوں کی رہنمائی کی ہے ۔ چاہئے وہ انفرادی معاملات ہوں یا معاشرتی یا اجتماعی تمام انسانوں کے معاملات ہوں ، جبکہ دوسری اقوام کے بیان کے ہاں یہ صورتحال موجود نہیں ۔

 

دنیا کے اُس سردار کی بادشاہت کچھ اسطرح سے نافذ ہوگی کہ ہرجانب سے رحمتوں کے سوتے پھوٹیں گے ۔ زمین ، حجر ، شجر ، پہاڑ، انسان اور نباتات تک اُس کی رحمت سے مستفید ہوں گے،ا س بادشاہت کی مزید وضاحت کچھ اس طرح سے ہے:’’اس کی سلطنت سمندر سے سمندر تک ہوگی ۔ بیابان کے رہنے والے اس کے آگے جھکیں گے اور اس کے دشمن خاک چاٹیں گے۔ ترسیس کے اورجز یروں کے بادشاہ نذریں گزاریں گے ۔ سبااور سیبا کے بادشاہ ہد یے لائیں گے، بلکہ سب بادشاہ اس کے سامنے سر نگوں ہوں گے، کل قومیں اس کی مطیع ہوں گی ، کیونکہ وہ محتاج کو حب وہ فریاد کرے اور غریب کو جس کا کوئی مددگار نہیں چھڑائے گا ، وہ غریب اور محتاج پر ترس کھائے گا اور محتاجوں کی جان کو بچائے گا۔ وہ فدیہ دے کر ان کی جان کو ظلم اور جبر سے چھڑائے گا اور ان کا خون اس کی نظر میں پیش قیمت ہوگا ۔ وہ جیتے رہیں گے اور سبا کا سونا اس کو دیا جائے گا ۔ لوگ برابر اس کے حقمیں دعا کریں گے ۔ وہ دن بھر اسے دعا دیں گے، زمین میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر اناج کی افراط ہوگی ، ان کا پھل لبنان کے درختوں کی طرح جھومے گا اور شہر والے زمین کی گھاس کی مانند ہرے بھرے ہوں گے ، اس کا نام ہمیشہ قائم رہے گا ، جب تک سورج ہے اس کا نام رہے گا اور لوگاس کے وسیلے سے برکت پائیں گے، سب قومیں اسے خوش نصیب کہیں گی۔‘‘۳۶

 

چنانچہ اسی سلسلے میں مولانا ابو الکلام آزاد فرماتے ہیں:’’تما م کرہ ارضی کی روشنی کے لیے ایک ہی آفتاب امن ہے ۔جس کی تسخیر عالم کرنوں سے دنیا اپنی تمام تاریکیوں کے لیے نورِ بشارت پاسکتی ہے ۔اس آفتاب امن نے دنیا میں ظاہر ہو کر یہ نہیں کہا کہ میں صرف بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے آیا ہوں بلکہ اس نے کہا کہ تمام عالم انسانیت کو غیر الہٰی قوتوں سے نجات دلانا میرا مقصد ظہور ہے ۔ اس نے صرف اسرائیل کے گھرانے کی گم شدہ رونق ہی سے عشق نہیں کیا بلکہ تمام عالم کی اجڑی ہوئی بستیوں پرغمگینی کی اور ان کی دوبارہ رونق و آبادی کا اعلان کیا ۔ اس نے اس خدا کی محبتوں کی طرف دعوت نہیں دی جو صرف سیناکی چوٹیوں یا ہمالیہ کی گھاٹیوں میں رہتا ہے،بلکہ اس رب العٰلمین کی طرف بلایا جو پورے نظام ہستی کا پروردگار ہے ۔ہمیں دنیا میں سکندر ملتا ہے جس نے تمام عالم کو فتح کرنا چاہا تھا ، لیکن ہم دنیا کی پوری تاریخ میں آپﷺ کے علاوہ اللہ کے کسی ایسے رسول کو نہیں پاتے جس نے تمام عالم کی ضلالتوں اور تاریکیوں کے خلاف اعلان جہاد کیا ہو۔‘‘۳۷

 

آپ کی رحمت سے متعلق مزید ایک عبارت ہے :

 

All this I have spoken while still with you.۳۸ But the Advocate, the Holy Spirit, whom the Father will send in my name, will teach you all things and will remind you of everything I have said to you.۳۹

 

’’میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں ۔ لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجےگا، وہی تم سب باتیں سیکھائے گا اور جو کچھ میں تم سے کہا ہے وہ سب تم کو یاد دلائے گا۔‘‘۴۰

 

I have much more to say to you, more than you can now bear۔But when he, the Spirit of truth, comes, he will guide you into all the truth. He will not speak on his own; he will speak only what he hears, and he will tell you what is yet to come.۴۱

 

’’مجھے تم سے اور بھی باتیں کہنا ہیں مگر اب تم انکی برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب وہ یعنی روح ِحق آئے گا، تو تم کو تمام سچائی کی راہ دیکھائے گا ، اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا ، لیکن جو کچھ سنائے گا وہی کہےگا۔‘‘۴۲

 

اس مندرجہ بالا بیان کی روشنی سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عیسائی حضرت عیسیٰ ؑ کی تعلیمات کو بھلا دیں گے جس کے نتیجے میں وہ نبی آکر اُنھیں یہ سب یا د دلائے گا ۔ اس میں کوئی شک و شب نہیں کہ عیسائی حضرات مسیح ؑ کی اصل تعلیمات سے منحرف ہوچکے تھے، اصل تعلیم کی جگہ عقیدہ تثلیث ، الوہیت مسیح ، مجسمہ پرستی اور دیگر غلط و فاسد عقائد و رواج نمو پاچکے تھے ۔ یہ بھی حضور انورﷺ کی رحمت ہے کہ آپ نے عیسائیوں کو حضرت عیسی ٰؓ کی گم گشتہ تعلیمات کو دوبارہ سے یاد کرایا ۔ اور بھر پور طریقے سے غلط و فاسد عقائد کی بیخ کنی کی ۔ عقیدہ تثلیث کی بجائے اصلی عقیدہ توحید کا اظہار و اعلان فرمایا ۔

 

توحید کا یہ اعلان و اظہار آپ نے اپنی طرف سے نہ کیا تھا ، بلکہ حکم ِ الہی ٰ کے عین مطابق تھا :’’اور اے محمدﷺ تم کو اس تمام عالم کاہادی بنا کر اس لیے رحمت و شفقت کی نظرسے بھیجا ہے کہ میرے بندوں کوجو تاریکی میں پڑے ہیں مطلع کردو اور من جملہ اور پیغاموں کے سب سے موکد حکم توحید کا ہے سو وہ پہنچا دو۔‘‘۴۳

 

آپ نے اس حکم کی تعمیل کی ۔اس طرح سے حضرت عیسیٰ ؑ کا یہ اعتراف کہ اُن کی تعلیم ادھوری ہے ، اور اُن کے بعد آنے والا جو تعلیم دے گا وہ اس قدر جامہ اور مکمل ہوگی کہ اُس سے سچائی کی ساری راہیں کھل جائینگی۔حقیقت ِ حال یہ ہے کہ واقعی سچائی کی راہیں کھولنے والا یہ نبی رحمت ﷺخود سچا اور صادق تھا ۔اُس کی قوم کے لوگ اُس کی پارسائی ، امانت و دیانت سے بخوبی واقف تھے ، کیونکہ اُس نے اپنی زندگی کے چالیس سال اُن کےساتھ گزارے تھے ، وہ پیدائش سے لے کر اعلان ِ نبوت تک آپ کے ہر حال سے واقف تھے۔پس کہا جا سکتا ہے کہ نبی رحمتﷺ کی حیات ِ مبارکہ قبل از نبوت سراسر رحمت و خیر پر مشتمل تھی اس لیے اس قطعی دلیل کو (یعنی آپ ؐ کی حیات ِ مبارکہ) قرآن ِ حکیم نے آپ ؐ کی نبوت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔

 

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔۴۴

 

’’ اس سے پہلے بھی تو ایک بڑے حصے عمر تک تم میں رہ چکا ہوں پھر تم کیا اتنی عقل نہیں رکھتے۔‘‘

 

قرآن ِ پاک کی اس آیت مبارکہ کی تائید حضور ِ انورﷺ کے اُس تبلیغِ عام کے اعلان سے ہوتی ہے جب آپ نے صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر اپنی قوم سے کہا:’’اے لوگو! اگر میں کہو کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن کا لشکر ہے جو تم پر حملہ آور ہو نا چاہتا ہے تو کیا تم مان لو گے ؟ لوگوں نے یک زبان ہو کر جواب دیا ہاں ہم مان لیں گے کیونکہ ہم نے آپ ؐ کو آمین اور صادق پایا ہے ۔ قریش ِ مکہ کا یہ جواب حضور ِ انورؐکی رحمت کا ایسا اعتراف ہے جس کی پیشنگوئی حضرت عیسی ٰ ؑ پہلے کر چکے تھے یعنی روح ِ حق آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دیکھائے گا ۔

 

سچائی کی روحِ حق نے عربوں کو جو حد درجہ گمراہی اور رذائل کا شکار تھے اُن کی برائیوں کو اعلیٰ اخلاقی اقدار میں بدل دیا جس کا اعتراف حضرت جعفر ؓ نے نجاشی کے دربار میں کیا تھا ۔ نبی رحمت ﷺکے یہی رحمت بھرے اوصاف تھے جس کی بنا ء پر علماء یہود و نصاریٰ آپ ؐ کی آمد سے بخوبی آگاہ تھے یہی وہ بات ہے جس کا اعتراف قرآن ِ پاک میں ان الفاط میں کیا گیا ہے:

 

اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ ۭ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۔۴۵

 

’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب (توراة وا نجیل) دی ہے وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کو ایسا پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور بعضے ان میں سے امر واقعی کا باوجودیکہ (خوب) جانتے ہیں (مگر) اخفا کرتے ہیں (حالانکہ) یہ امر واقعی منجانب اللہ (ثابت ہوچکا) ہے۔‘‘

 

مندرجہ بالا آیت کی تصریح اہل ِ کتاب کے اُ ن واقعات سے ہوتی ہے جو حدیث و سیر کی کتابوں سے ثابت ہیں ، مثلاً ورقہ بن نوفل کی گواہی،نجاشی کی گواہی، ہرقل کا اعتراف اور علمائے یہود ( عبداللہ بن سلام ، زید بن سعنہ کے اعترافات ) گویا حضور انورﷺ کی رحمت کا فیض عام اہل ِ کتاب کے لیے اس قدر ہے کہ اُسے جھٹلا یا نہیں جا سکتا ۔’’رحمتہ العلمین ‘‘ کا تذکرہ و احاطہ کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ،تاہم چند چیدہ امتیازی خصوصیات کو اس چھوٹے سے مضمون کی صورت میں سمندر کو کوزہ کر نے کی کو شش کی ہے ۔

 

حوالہ جات

۱ (الا حزاب،۳۳: ۱۷)

 

۲ (تفسیر البحر المحیط، محمد بن یوسف ابی حیان الا ند لسی، دارلکتب العلمیۃ، بیروت، الجزء الا وّل، ص ۱۲۹، تفسیر سورۃ الفاتحۃ الا یۃ۔۱)

 

۳ (تفسیر الکبیر و مفاتیح الغیب، امام محمد الرازی فخر الدین، دارا لفکر، للطبا عۃ و النشرو التوز یع، بیروت، الجزء الا وّل،ص ۱۵)

 

۴ الزمر (53:39)

 

۵ صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر453

 

۶ لقمان (۳۴:۳۱)

 

۷ محمد (۴۷ : ۲۲)

 

۸ (سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1690

 

۹ (ابنِ اثیر مجددالدین ابو) السعادات؍النہایۃ،قمایران،موسسۃاسماعیلیان:ج۲،ص۲۱۰

 

۱۰(الراغب الاصفھانی، المفردات فی غریب القرآن، دارالمفرقۃ، (الباعۃ والنشروالتوزیع، بیروت، جلد اول، ص۱۹۲)

 

۱۱ آ ل عمران، ۷۴:۳)

 

۱۲ (مجدد الف ثانی، مکتوباتِ امام ربانی، قاضی عالم الدین، دارلاشاعت کراچی، جلد اول، ص ۲۴۸، مکتوب نمبر ۶۳)

 

۱۳(ایضاً ، مکتوب نمبر۲۵۹، ص ۵۶۷)

 

۱۴ الا نبیا ء(۲۱:۱۰۷)

 

۱۵ المائدہ( ۵:۳)

 

۱۶ ( ابو الحسن علی ابن محمد الماوردی، النکت و العیون تفسیر ِ الماوردی، دارلکتب العلمیہ، بیروت، تفسیر سورۃ الفاتحہ)

 

۱۷(محوالہ بالا، مکتوب ۲۰۳، ص ۴۴۶)

 

۱۸ بنی اسرائیل (۱۷ : ۸۲)

 

۱۹ النحل (۸۹:۱۶)

 

۲۰ (امام محمد بن اسماعیل،صیحح بخاری، رقم حدیث نمبر۳۸۲۷)

 

۲۱ الحجر (۱۵:۵۶)

 

۲۲ النجم (۳۹:۵۳)

 

۲۳ الا عراف (۵۲:۷)

 

۲۴ (مولانا ابولکلام آزاد، ترجمان القرآن تفسیر سورۃ فاتحہ)

 

۲۵ الا نبیا ء (۲۱:۱۰۷)

 

۲۶ْ (علامہ محمد غزالی، مسلم اخلاقیات، نگارشات پبلیشرز، لاہور ۲۰۱۲، ص ۲۲۴)

 

۲۷(Armstrong, Karen, Muhammad: A Biography of Prophet, Phoenix. Press, London, U.K 1991, P:52)

 

۲۸ (امام ربانی، مکتوبات، ۱/۶۲۷، مکتوب ۲۶۶)

 

۲۹ الشعراء(۳:۲۶)

 

۳۰ العمران (۸۲،۸۱:۳)

 

۳۱(سیرۃ النبی ، امام حافظ ابوالفداء، عماد الدین ابن کثیر، ترجمہ مولانا ہدایت اللہ ندوی، مکتبہ قدوسیہ، لاہور، ۳/۵۵۲)

 

۳۲۔ https://www.biblegateway.com/passage/?search=John+14:16

 

۳۳(کتاب یوحنا، باب ۱۴، آیت ۱۶، ص ۹۹)

 

۳۴ ۔ https://www.biblegateway.com/passage/?search=John+14%3A30&version=NIV

 

۳۵ (یو حنا کی انجیل، باب ۱۴: آیت ۳۰، ص ۹۹)

 

۳۶ (کتاب مقدس، پرانا عہد نامہ، کتاب زبور، دوسری کتاب، باب ۷۲، آیت ۸ تا ۱۵، بائبل سوسائٹی، انار کلی لاہور، ص ۵۶۸)

 

۳۷ (مولانا ابولکلام آزاد، رسولِ رحمت ؐ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ص ۷۴۷)

 

۳۸https://www.biblegateway.com/passage/?search=John+14%3A25&version=NIV

 

۳۹https://www.biblegateway.com/passage/?search=John+14%3A26&version=NIV

 

۴۰( یوحنا کی انجیل، باب ۱۴، آیات ۲۵ تا ۲۶)

 

۴۱https://www.biblegateway.com/passage/?search=John+16%3A12&version=NIV

 

https://www.biblegateway.com/passage/?search=John+16%3A13&version=NIV

 

۴۲ (کتاب ِ یوحنا باب ۱۶،آیات ۱۲ تا ۱۴)

 

۴۳ (ابو محمد عبدالحق حقانی، تفسیر حقانی، میر محمد کتب خانہ، کراچی،پارہ۱۷، ص۳۱۱، تفسیرسورۃ انبیا ء)

 

۴۴ یونس (۱۶:۱۰)

 

۴۵ البقرہ (۱۴۶:۲)

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...