Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > The International Research Journal Department of Usooluddin > Volume 1 Issue 1 of The International Research Journal Department of Usooluddin

حکیم محمد اختر کا فروغ تصوف میں کردار |
The International Research Journal Department of Usooluddin
The International Research Journal Department of Usooluddin

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

ولی کی اصل ولاء سے ہے جس کے معنی قرب و نصرت اور دوست کے ہیں جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ۔[1] ’’اللہ مومنوں کا دوست ہے۔‘‘ اور مومن بندوں میں ان لوگوں کا شمار ہوتا ہے جن کو دیکھ کر اللہ یاد آتا ہے کیونکہ وہ مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسولﷺکے احکامات پر عمل کرنے کے ساتھ شیطانی کاموں سے دور رہتے ہیں جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَآفَّةً۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰن اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۔[2] ’’اے ایمان والوں! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘

 

بعض عارفین نے فرمایا کہ ولایت نام ہے قرب الٰہی اور ہمیشہ اللہ کے ساتھ مشغول رہنے کا، جب بندہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو اسے کوئی خوف نہیں رہتا اور نہ کسی شے کے فوت ہونے کا غم ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِيَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۔[3]’’خبردار! بے شک اولیاء اﷲپر نہ خوف ہے اور نہ کوئی غم۔‘‘

 

حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ ولی وہ ہے جس کو دیکھنے سے اللہ یاد آئے، یہی حدیث طبری میں بھی ملتی ہے۔ ولی اللہ کے بارے میں حدیث قدسی ہے جسے پڑھ کر ایسے لوگوں سے دور رہنے کا حکم ملتا ہے جو منکرین اولیاء ہیں چنانچہ آپؐ نے ارشاد فرمایا:

 

عن ابی ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ان اللہ تعالیٰ قال من عادی الی ولیا فقد اذنتہ بالحرب وما تقرب الی عبدی بشی احب الی مما افترضت علیہ ولا یزالی عبدی یتقرب الی بالنوافل حتی احبیتہ فکتن سمعہ الذی یسمع بد بصرہ الذی یبصربہ ویدہ التی یبطش بھاورجلہ التی یمشی بھاوان سآلنی لا عطینہ ولئن۔ استعاذنی لا عندنہ۔[4]

 

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ بے شک اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی کرے گا میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں اور مجھے فرائض سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں جس کے ساتھ بندہ میرا قرب حاصل کرے اور پھر بندہ نوافل کے ذریعے مسلسل میرے قریب ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں، پس (جسے میں اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو) میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اگر وہ مجھ سے کچھ مانگے تو میں ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ طلب کرے تو میں اسے اپنی پناہ دیتا ہوں۔‘‘

 

اسی طرح کے ایک ولی اﷲجو حضرت والا کے نام سے مشہور و معروف تھے جن کا نام "حضرت شاہ حکیم محمد اخترؒ" تھا۔آپ ؒ کا تعلق سلسلہ چشتیہ سے تھا جبکہ آپؒ کی خانقاہ "خانقاہ امدادیہ اشرفیہ" کے نام سے گلشن اقبال میں واقع ہے۔

 

حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ کی سوانح حیات

حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر ؒ ہندوستان کے شہر پرتاب گڑھ صوبہ یوپی کی ایک چھوٹی سی اٹھیہہ نامی بستی کے ایک معزز گھرانے میں۱۹۲۸ء کوپیدا ہوئے۔[5] والد ماجد جناب محمد حسینؒ ایک سرکاری ملازم تھے، ان کا قیام بہ سلسلہ ملازمت ضلع سلطان پور میں تھا۔[6] آپؒ ان کے اکلوتے فرزند تھے اور دو بہنیں بھی تھیں۔حضرت والا کا بچپن و جوانی عام بچوں سے ہٹ کر تھا۔ اﷲتعالیٰ نے آپ کو ایک خاص مقصد کے لیے پیدا فرمایا تھا۔ اس خاص مقصد کی تکمیل کے لیے اﷲنے آپ کے دل میں اپنی محبت کا بیج بُو دیا تھا جس کے آثار بچپن ہی سے آپ ؒ میں نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔آپؒ نے جب سے ہوش سنبھالا تو حضرت والا کوحافظ و عالم اور نیک بندوں کی وضع قطع رکھنے والوں سے محبت ہوتی تھی۔

 

چار درجہ پاس کرنے کے بعد والد ماجد سے حضرت نے اصرار کیا کہ مجھ کو دیوبند بھیج دیا جائے لیکن والد ماجد نے مڈل اسکول میں داخل کروا دیا۔ آپؒ اپنے والد ماجد کے حکم کے پابند تھے جبکہ دنیاوی تعلیمات میں حضرت والاکا دل نہیں لگتا تھا۔[7] ۱۲ سال کی عمر میں ہی آپ ؒ تہجد کی نماز کے پابند ہوگئے تھے۔ گھر سے دور مسجد جو جنگل میں تھی، آپ کے گھر والے جب سو جاتے تو آپ وہاں اﷲکا ذکر کرتے تھے جبکہ آپؒ ابھی کسی سے بیعت نہیں تھے۔[8] درجہ ہفتم سے فارغ ہونے کے بعد والد صاحب کا تبادلہ "ضلع سلطان پور" ہوا۔ آپؒ نے پھر پرانہ مطالبہ کیا کہ آپ کو دیوبند جانا ہے لیکن والد ماجد نے آپ ؒ کو "طبیہ کالج الٰہ آباد"میں داخل کرانے کا حکم دے دیا اور کہا کہ حکمت سے فارغ ہونے کے بعد پھر عربی پڑھنا شروع کرنا۔[9] آپؒ اپنے والد صاحب کی اس بات کے متعلق اکثر فرمایا کرتے تھے:

 

’’طبیہ کالج کے داخلہ کے بارے میں والد صاحب کے یہ تاریخی الفاظ مجھ کو ہمیشہ یاد رہیں گے کہ والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں تمہیں طب کی تعلیم اس لیے دے رہا ہوں تاکہ دین تمہارا ذریعہ معاش نہ ہو اور دین کی خدمت تم صرف اﷲ کے لیے کرو۔‘‘[10]

 

مدرسہ بیت العلوم اعظم گڑھ میں حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھول پوری سے دورہ حدیث تک کتب پڑھیں اور دینی تعلیم مکمل کی۔[11] اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اپنے عہد کے تین مشائخ عظام کی طویل خدمت و صحبت کی وہ توفیق عطا فرمائی تھی جو خال خال کسی کے نصیب میں آتی ہے۔حضرت محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی، حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھول پوری اور حضرت مولانا ابرار الحق صاحب (قدست اسراء ہم) تینوں کے فیض نے ایسا کندن بنادیا تھاکہ مٹی بھی سونے کی خاصیات حاصل کرلیتی ہے۔ [12]

 

حکمت کے دوران آپ کا تعلق محمد احمد پرتاب گڑھی سے ہوگیا تھا۔ آپ ان کی مجلس میں جاتے پھر آپ کا تعلق حضرت پھول پوری سے ہوا۔ آپ ان کی خدمت میں ۱۷ سال رہے۔ آپ نے اپنی والدہ کا عقدثانی اپنے والد کے انتقال کے بعد حضرت پھول پوریؒ سے کردیا تھا۔ حضرت پھول پوری جب انڈیا سے پاکستان تشریف لائے تو آپ بھی پاکستان حضرت پھول پوری کے ساتھ آگئے تھے پھر حضرت پھول پوری کے انتقال کے بعد آپ کا اصلاحی تعلق حضرت ہردوئی سے ہوا۔آپؒ نے اپنا نکاح ایک ایسی خاتون سے کیا جو عمر میں آپ ؒ سے ۱۰ سال بڑی تھیں۔جن کا تعلق پھول پور کے قریب کوٹلہ نامی گاؤں سے تھا۔ [13]

 

حضرت والاؒ کو۳۰ مئی۲۰۰۰ء میں فالج کا حملہ ہوا جس سے آپؒ بستر کے اسیر ہوگئے، ان دنوں کے بارے میں حضرت کے مشہور و معروف خلیفہ عشرت جمیل صاحب راقم طراز ہیں:’’یوں تو تندرستی کے زمانے میں حضرت والا ہمہ وقت دین کی خدمت میں مشغول رہتے، تصنیف و تالیف سالکین کے خطوط کے جوابات اور اصلاح کے لیے آنے والوں سے ملاقات اور اس میں اپنے آرام کی بھی فکر نہ فرماتے لیکن مجلس ہفتہ میں دو بار ہوتی تھی، ایک اتوار کی صبح دوسری پیر کی شام کو لیکن اس معذوری اور بیماری کی حالت میں صبح سے رات تک روزانہ چار پانچ مجلسیں ہونے لگیں، جس کا دورانیہ ایک گھنٹہ سے ڈیڑھ گھنٹہ ہوتا تھا۔ اﷲتعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے حضرت والا کو ایسی ہمت اور قوت ارادی اور مقام تسلیم و رضا عطا فرمایا تھا کہ معذوری کی حالت میں جبکہ حضرت والا بغیر کسی خادم کے سہارے کے چل بھی نہیں سکتے تھے مختلف ممالک کے دینی اسفار فرمائے۔۲۰۰۴ء ہی میں جنوبی افریقہ کے دو سفر فرمائے۔ ۲۰۰۴ء ہی میں جنوبی افریقہ سے بوئسوانہ نصبیا اور موزنیق کا سفر فرمایا۔ بنگلہ دیش کے دو سفر اور برطانیہ کا ایک سفر فرمایا اور اندرون ملک کے شہروں کا سفر فرمایا اور تمام مقام پر اپنی مجالس ارشاد سے مستفیض فرماتے رہے۔‘‘[14]

 

عشرت صاحب کے بیان سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ حضرت والا نے فالج ہونے کے باوجود اپنی بیماری کو اپنی کمزوری نہیں بنایا بلکہ دین کی خدمت پہلے سے کئی زیادہ کی، بیماری کے بعد آپ کا فیض اور توجہ اور زیادہ بڑھ گئی تھی۔آپ ؒ کا انتقال ۲۳ رجب المرجب۱۴۳۴ھ بمطابق۲ جون۲۰۱۳ء کو ہوا۔ دن اتوار کا تھا لیکن مغرب کے بعد اسلامی تاریخ تبدیل ہوجاتی ہے اور آپ کا انتقال مغرب کے بعد ہوا تھا اس لیے پیر کا دن شمار ہوگا۔حکیم محمد اختر صاحبؒ نے اپنی وصیت میں اپنے مریدوں اور عام مسلمانوں کو تین باتوں کی نصیحت کی ہے۔ اول تقویٰ اختیار کرو اور ذات باری تعالیٰ کو نہ بھولو۔ دوئم اپنے مالی معاملات کو حلال طریقے سے استوار کرو اور تیسری تین بار سورہ اخلاص پڑھ کر انہیں ایصال ثواب کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔[15]

 

آپ ؒ کی اولادوںمیں ایک صاحبزادہ اور ایک صاحبزادی ہیں( آپؒ کے فرزند انجمن مولانا محمد مظہر صاحب جو حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئی ؒ کے خلیفہ ہیں) آپؒ کے جنازہ میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی جس سے آپؒ کی قدر و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جگہ کی کمی اور ٹریفک زیادہ ہونے کی وجہ سے راستے بند ہوگئےتھےجس کے سبب ہزاروں لوگ شرکت سے رہ گئے۔

 

خانقاہ امدادیہ اشرفیہ کا قیام

حضرت اقدس حکیم محمد اختر ؒ حضرت پھول پوری ؒکے ساتھ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان تشریف لائے تو کراچی کے ایک علاقے ناظم آباد میں رہائش اختیار کی، پھر حضرت ہردوئی ؒ کی خواہش پرآپؒ نے ناظم آباد کا مکان بیج کر گلشن اقبال بلاک نمبر۲ میں سکونت اختیار کی۔[16] جہاں’’خانقاہ امدادیہ اشرفیہ‘‘کا قیام عمل میں آیااوراسی کے سامنے ایک چھوٹا سا کتب خانہ بنام "کتب خانہ مظہری" کھولا۔ اس خانقاہ میں ناصرف اہلِ محلہ بلکہ اندرونِ و بیرونِ ملک کے کونے کونے سے لوگ اپنی اصلاح اور تزکیہ کے لیے تشریف لاتے۔اس خانقاہ میں اول قرآن پاک کی تعلیم کے لیے ایک مکتب قائم ہوا جس میں قرآن پاک اور حفظ و ناظرہ کی تعلیم دی جاتی پھر کافی عرصے کے بعد مسجد اشرف کی تعمیر شروع کی گئی۔جس میں طالبات کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی چار سالہ دینی تعلیم کا آغاز کردیا گیا بعد ازاں درس نظامی بھی کرائی جانے لگی۔ حضرت والا ؒفرماتے تھے:

 

"حضرت پھول پوریؒ کا ہجرت کرنا مجھ پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم تھا۔ کراچی شہر میں قیام سے سارے عالم سے رابطہ ہوگیا اور دین کی اشاعت و تبلیغ آسان ہوگئی اور اصلاح اخلاق اور تزکیۂ نفس کا کام جو خانقاہ کی اصل روح ہے کراچی سے دنیا بھر میں پھیل گیا۔"[17]

 

حضرت والا ؒ کی تعلیمات

حضرت والا نے نبی پاک ﷺاور اللہ کی محبت و عظمت بیان کرنے میں کوئی شعبہ نہیں چھوڑا ۔آپ ؒ ہمیشہ شریعت پر عمل کرنے پر زور دیتے اور غیر شرعی کاموں سے بچنے کی تلقین فرماتے تھے۔لڑکیوں کو بے دینی تعلیمی اداروں سے دور رکھنا، آپس میں حسنِ اخلاق سے پیش آنا، کبیرہ گناہوں کے بعد بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا آپؒ کی تعلیمات میں شامل تھا۔ آپ ؒ فرماتے تھے: "ولایت کا دارومدارزیادہ وظائف اور عبادات پر نہیں ہے بلکہ فرض ،واجب، سنتِ مؤکدہ کی ادائیگی کے بعد صرف گناہوں سے بچنے پر ہے۔"[18]

 

حضرت والاؒ کے خلفاء کرام

 

آپ ؒ کے پاکستان میں خلفاء کرام کی تعداد تقریباً ۳۳۱ ، جنوبی افریقہ میں ۵۰، بنگلہ دیش میں ۹۴، سعودیہ عربیہ میں ۲۳، برما میں ۱۶، انڈیا میں ۱۳،امریکہ میں ۱۰،برطانیہ میں ۲۵، فرانس میں۱۰، افغانستان اورکینیڈا میں۴،UAEمیں ۵، ایران اور موریشیس میں ۳ ، مسقط (عمان )، کینیا اور ویسٹ ڈیز اس طرح بیرون ملک خلفاء کی کل تعداد ۲۶۴ کے اریب قریب ہے۔[19]

 

ہدایات برائے خلفاء کرام

 

حضرت والاؒ کے خلفاء کرام کی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ؒ نے اپنے اکابر سے علم و معرفت کی جو دولت حاصل کی تھی وہ دولت آپؒ نے خلوص کے ساتھ ساری دنیا میں تقسیم کردی۔لیکن خلافت جنت کی ضمانت نہیں بزرگوں کا حُسن ظن اور اعتماد نامہ ہے۔ چنانچہ اگر کسی کے حالات خدانخواستہ بگڑ جائیں تو بزرگوں کا اجماع ہے ایسے شخص سے خلافت عملاً سلب ہوجاتی ہے اور برکت ختم ہو جاتی ہے، اس سے دین کا کام نہیں لیا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ ؒ اپنے خلفاء کو درج ذیل ہدایت فرمایا کرتے تھے :

 

’’خلافت کو نعمت سمجھیں کہ اہل اللہ کا حُسن ظن ہے اور بزرگوں کے حُسن ظن کی برکت سے اللہ تعالیٰ نااہل کو اہل بنادیتے ہیں۔لیکن اس کو جنت کا ٹھیکہ نہ سمجھیں ، خوف کا مقام ہے۔ بہت سے غیر خلفاء اپنے تقوی و خشیت کی برکت سے نور کے منبروں پر ہونگے اور بہت سے خلفاء کی وجہ بد عملی مشکیں کسی ہوئی ہونگی، نجات کا دارو مدار اعمال پر ہو گا۔اللہ پناہ میں رکھے۔‘‘[20]

 

جامعہ اشرف المدارس کا قیام

جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا گیا حضرت والا کی شہرت شہر شہر ملک در ملک ہونے لگی۔ جب خانقاہ امدادیہ اشرفیہ و مسجد میں گنجائش کم ہوگئی، روز بہ روز لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے لگی،خانقاہ اشرفیہ میں لگایا ہوا پودا ایک مکمل درخت بن گیا، اس درخت سے ہزاروں لوگ فیض یاب ہونے لگےتو جگہ کی شدید کمی محسوس ہونے لگی۔ حضرتؒ کے ایک مرید نے حضرتؒ کو گلستان جوہر میں قائم سندھ بلوچ سوسائٹی کے بارے میں بتایا تو حضرت وہاں تشریف لے گئے۔ آپ کو وہ جگہ بہت پسند آئی۔ فرمایا کہ کاش یہاں ایک خانقاہ اور ایک بڑا مدرسہ بھی قائم ہوجائے لیکن وہاں کی تمام زمینیں فروخت ہوچکی تھیں۔ چونکہ ولی کا تعلق لوگوں سے کم اور اللہ سے زیادہ ہوتا ہے تو آپ نے اللہ سے دعائیں مانگنا شروع کیں اور روزانہ صبح کی سیر کے لیے وہاں جاتے اور دو رکعت نماز ادا کرتے اور پھر دعائیں مانگتے۔ آپؒ کی نماز و دعا کی برکت سے لوگوں نے اپنی زمینیں آپ کو فروخت کرنا شروع کردیں اور سوسائٹی کے مالکان نے جو جگہ مسجد کے لیے رکھی تھی وہ بھی آپ کے ہاتھوں فروخت کردی۔ اس طرح آپؒ کی دعاؤ ں کی برکت سے آج جامعہ اشرف المدارس سندھ بلوچ سوسائٹی گلستان جوہر میں قائم ہے جہاں مکمل درس نظامی اور تخصصات تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔

 

چار ہزارگز کے پلاٹ پر ایک عظیم الشان عمارت "جامعہ اشرف المدارس"کے نام سے قائم ہوئی جس میں طلباء کرام کی رہائش گاہ بھی قائم ہے۔ اس عمارت کا ظاہری حسن بھی دلکش ہے، اس میں تمام سہولتیں موجود ہیں۔ اس میں تعلیم و تدریس اور طلباء کی تربیت کا نظام بہت اچھا ہے۔ عام درجات کے علاوہ مختلف تخصصات کے درجات بھی قائم ہیں۔ ہزاروں کتابوں پر مشتمل ایک کتب خانہ "شعبہ تصنیف و تالیف"ہے اور دارالافتاء جیسے اہم شعبے بھی کام کررہے ہیں ۔ جامعہ سے ہر ماہ اردو زبان میں ماہنامہ "الابرار" کے نام سے ایک اسلامی رسالہ بھی پابندی سے شائع ہوتا ہے۔

 

المظہر انسٹیٹیوٹ

جامعہ اشرف المدارس کراچی میں جہاں دینی تعلیم کو فروغ دیا جاتا ہے، وہاں یہ عصری تعلیم کے ایک ادارہ کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔"المظہر انسٹیٹوٹ"جامعہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے، اس کا مقصد عصرِ حاضر میں مذہبی اور عصری تعلیمات کے درمیان موجود خلا کو ختم کرنا ہے، تاکہ وہ طلباء جو عصری علوم میں پیچھے رہ گئے ہیں، وہ اپنے آپ کو جدید فنون سے کم سے کم وقت میں آگاہ کرلیں، اور موجودہ دور میں انگریزی زبان اور مینجمنٹ سائنس کی تعلیم سے کسے انکار ہے، اس اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے "المظہر انسٹیٹوٹ" طلباء کے لیے مختلف کورسز کا اجراء کرتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ "المظہر انسٹیٹیوٹ" نے جدید دور کی بنیادوں کے مطابق ایک اسکول "المظہر اسکول آف ایکسیلینس" کا بھی اجراء کیا ہے۔ موجودہ دور میں پرائیویٹ اقراء طرز کے اسکولوں کی طرح یہ بھی ایک اسکول ہے، مگر یہ اسکول عام اسکولوں سے چنداں مختلف ہے۔یہاں طلباء کو باقاعدہ اولیول کی تعلیم دی جاتی ہے، اس کے علاوہ یہ اسکول "کمپیوٹرائز ڈلینگویج لیب " اور "ملٹی پریز آڈیٹوریم ہال"سے آراستہ ہے، اس کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ خالصتاً اسلامی قدروں کی ترجمانی کرتا ہے اور مزید یہ ہے کہ جو طلباء رہائش یہاں رکھنا چاہیں اُن کے لیے ہاسٹل کا بھی انتظام موجود ہے۔

 

حضرت مولانا حکیم محمد مظہر صاحب دامت برکاتہم نے المظہر کے نظام کی ذمہ داری کے لیے جناب محمد شہاب صاحب کا انتخاب فرمایا جو کہ الیقین ایجوکیشن فاؤنڈیشن میں ڈائریکٹر اکیڈمکس اور ہیومن سروسز کے ہیڈ رہ چکے ہیں، اور اُن کے نائب محترم محمد عادل صاحب ہیں جو یہاں شعبۂ کمپیوٹر میں منیجر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، آپ کا آئی ٹی کی فیلڈ سے بہت پُرانا تعلق ہے۔ اس وقت "المظہر انسٹیٹیوٹ "میں زیر تعلیم طلباء کی تعداد150 ہے اور کل اساتذہ 15 ہیں۔ ماشاء اللہ یہ ادارہ بھی دن بدن ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔

 

یہ جامعہ اشرف المدارس کراچی کے شعبۂ جات کا مختصر سا تعارف تھا، جس کی بنیاد حضرت والا مولانا حکیم محمد اختر صاحبؒ نے رکھی، حضرتؒ کے محبوب فرزندو جانشین حضرت مولانا حکیم محمد مظہر صاحب دامت برکاتہم نے اس کو پروان چڑھایا اور آج حضرت ؒ کے حفید اور خلیفۂ مجاز حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب مدظلہم کی جہدو عمل سے اس کی شاخیں چار دانگِ عالم میں پھیل رہی ہیں بقول حضرت والا ؒ کے خلیفۂ مجاز جناب شاہین اقبال اثرؔ صاحب کے :

 

رحمۃ للعالمیں کا لہلہاتا گلستاںحضرت اقدس کی بکھری ہوئی اِک کہکشاںحضرتِ مظہر کا مبارک کارواںحافظ ابراہیم کے جہدوعمل کی داستاں

 

دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت والا مولانا حکیم محمد اختر صاحب نور اللہ مرقدہٗ کے لگائے ہوئے اس گلشن کو ہمیشہ سرسبز و شاداب رکھیں۔ اور مخلوقِ خدا کو ہمیشہ اس سے نفع پہنچتا رہے۔آمین

 

آتی ہی رہے گی ترے انفاس کی خوشبوگلشن تری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا[21]

 

الاختر ٹرسٹ

 

حضرت محمد حکیم اختر صاحبؒ کی زیرِ نگرانی ’’الاختر ٹرسٹ‘‘ قائم ہوا تھا مگر بعدازاں اس پر پابندی لگا دی گئی۔

 

علمی مقام

 

حضرت محمدحکیم اختر ؒ شریعت و طریقت کے آفتاب و ماہتاب تھے او رآپ کو دو سلسلہ یعنی نقشبندی اور چشتیہ سلسلہ سے بیعت کی اجازت تھی لیکن آپ کو روحانی طور پر حضرت اشرف علی تھانویؒ سےعشق تھا اس لیے آپ نے سلسلہ چشتیہ سے اپنے مریدین اور سالکین کی رہنمائی کی۔ آپ نے تقریباً ۶۰سال تک دنیا کے ظلمت کدہ پر اپنی نورانی، عالمانہ، عارفانہ، عاشقانہ کرنیں بکھیریں۔ آپ کا فیض سات براعظم تک گیا جس میں امریکہ، عرب و عجم، ایشیا و یورپ، افریقہ، جاپان اور آسٹریلیا۔اگر یہ کہا جائے کہ آپ کا فیض دنیا کے کونے کونے تک پہنچا تو بے جا نہ ہوگا اور اللہ نے آپ کو ایسی زبان اور قلم عطا کی تھی جس نے طالبات حق کو اللہ سے ملا دیا۔

 

ادبی خدمات )شاعری(

 

نقش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستےاللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے

 

یہ شعرحضرت والاؒ کا بہت ہی مشہور و معروف ہے جس کسی کا ادبی ذوق ہوگا یا شعر و شاعری سے لگاؤ ہوگا تو اس نے تو یہ شعر ضرور سنا ہوگا۔حضرت کی شاعری کو اگر غور سے سنا جائے، دیکھا جائے تو آپ کو اس میں ایک سحر سا محسوس ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ اﷲوالوں کی شاعری الہامی ہوتی ہے، اس میں کچھ اور ہی نظر آتا ہے۔

 

مولانا شفیق احمد بستوی فاضل دیوبند حضرت کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’حضرت کی شاعری درحقیقت مولائے حقیقی کی محبت، اس کی سچی معرفت اور اس کے قرب کی والہانہ چاہتوں کے رنگ میں ڈہلی ہوئی ہے۔ وہ عارفانہ شاعری ہے جس کے موضوع کی گہرائی کو وہی شخص بجا طور پر سمجھ سکتا ہے جس کومولانا روم کی مثنوی، ملا جامی، شیخ سعدی شیرازی، حافظ شیرازی کے عارفانہ کلام یا وطن عزیز کے صوفی شاعر ولی کامل حضرت حق باہو حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب سہارن کی معرفت بھری شاعری کے رنگ و آہنگ سے واقفیت و آشنائی رکھتا ہے۔‘‘

 

حضرت والاؒنے اﷲتعالیٰ سے مناجات کرتے ہوئے عرض کیا:

 

سوا تیرے نہیں ہے کوئی میرا سنگ در اپناکوئی حاجت ہو رکھتا ہوں تیری چوکھٹ پر سر اپناچھڑا کر غیر سے دل کو تو اپنا خاص کر ہم کوتو فضل خاص کو ہم سب پہ یارب! عام کر اپنا

 

اس دوسرے شعر میں عام و خاص کے وصف کے ساتھ جو خوبصورت تحلیل پیش کی گئی ہے اس کے نہ صرف کلام میں چاشنی پیدا کردی ہے بلکہ ہر جنگی و ملامت کلام کی ایسی حسین ترتیب اس میں نظر آتی ہے،سخن دانی طبیعتوں کو سرور آجاتا ہے۔

 

حضرت کے اشعارمیںمولائے کائنات کے حقیقی عشق کا عکس بہت نمایاں ہے۔حکیم محمد اختر صاحب کا کلام بالجملہ عشق مولیٰ، محبت و معرفت الٰہیہ کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔حسن فانی اور لیلائے دنیا کسی بے ثباتی اور بے وفائی اور اس کی پُرفریبی کو اپنے انداز میں بیان فرماتے ہیں کہ اگر عشاق مجازی عقل و خرد کی میزان پر رکھ کرحضرتؒ والا کا کلام پڑھیں یا سنیں تو ان کی زندگی کا بگڑا ہوا زاویہ بالکل درست ہوجائے گا۔ سینکڑوں لوگوں کی زندگیاں درست زاویے پر آچکی ہیں۔جو فسق و عشق میں گرفتار تھے اب عشق مولیٰ کی راہ پر گامزن ہیں۔عشق مجازی والے کے لیے حضرت والاؒ کا شعر ہے:

 

حسن فانی ہے عشق بھی فانیپھول مرجھا گئے ذرا کھل کےکیسا چہرہ بدل گیا اُن کادام کچھ بھی نہیں رہے تل کےکی نہ توبہ اگر گناہوں سےدونوں روئیں گے خاک میں مل کر[22]

 

حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت نے عارفانہ کلام کے ذریعے ایک مومن و مسلمان کی زندگی میں جتنے معمولات آئے ان سب کو اپنی شاعری کے ذریعے اصلاحی تاثیر سےمعمور کیا اور آپ نے لوگوں کو اصل عشق کی جانب راغب کیا۔غیراﷲکےعشق کے نقصانات کو اپنی شاعری میں سمو دیا۔ذیل میں حضرت کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:

 

میر کا معشوق جب بڑھا ہوابھاگ نکلے میر بڈھے حسن سےصلہ عشق مجازی کا یہ کیسا ہے؟ رائے توبہ!کہ عاشق روتے رہتے ہیں صنم خود سوتا رہتا ہےکسی خاکی پہ مت کر خاک اپنی زندگانی کوجوانی کر فدا اس پر کہ جس نے دی جوانی کو

 

حضرت کی شاعری کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کی تعبیرات اور تراکیب میں بکثرت سہل ممتنع کی صنعت دیکھنے کو ملتی ہے جو کسی بھی شاعر کے قادر الکلام اور ماہر ادب سخن ہونے کی دلیل ہے۔[23]

 

ادبی خدمات

 

حضرت حکیم اختر صاحبؒ نے اپنی زندگی کو تین چیزوں میں مصروف کردرکھا۔ ایک واعظ ،دوسرا سفر ،تیسرا کتابیں لکھنے میں۔ واعظ کے ذریعے آپ لوگوں سے براہِ راست تعلق پیدا کرتے اور آپ کی شخصیت ایسی تھی کہ لوگ آپ کو دیکھ کر سنت اور شعائر اسلام کی طرف کھنچے چلے جاتے۔سفر آپ نے ان لوگوں کے لیے کیے جو آپ تک نہیں پہنچ پاتے تھے لیکن آپ میں بندہ خدا کی اتنی تڑپ تھی کہ آپ خود لوگوں تک پہنچ جاتے جبکہ کتاب کے ذریعے آپ ان لوگوں کے دل میں اﷲکی محبت پیدا کرتےجولوگ آپ تک اور آپ ان تک نہیں پہنچ پاتے تو وہ کام آپ کی کتاب کرتی۔

 

اﷲنے آپ کو نہ صرف بہترین زبان دی تھی بلکہ آپ کو بہترین لکھنے والا دل و دماغ بھی عطا کیا تھا۔ آپ سے اﷲنے ایسے ایسے کام کتابوں کے ذریعے لیے جس کو آج تک کسی نے بھی پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچایا۔ آپ نے قریب قریب ۴۶کتابیں تحریر کیں اور واعظ حسنہ تقریباً۱۰۹ سے زائد ہیں۔ آپ کی مشہور کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:

 

(۱)خزائن القرآن(۲)خزائن الحدیث(۳)رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں دنیا کی حقیقت(۴)خزائن شریعت و طریقت(۵)خزائن معرفت و محبت (۶)معارف شمس تبریز (۷)فیضان صحت (۸)معارف مثنوی(۹)فغان رومی (۱۰)تربیت عاشقان خدا (تین جلدیں) (۱۱)روح کی بیماریاں اور ان کا علاج (۱۲)مجالس ابرار(۱۳)ایک منٹ کا مدرسہ(۱۴)معارف ربانی (۱۵)مواعظ درد صحبت(۱۰ جلدیں) (۱۶)حسن پرستی و عشق مجازی کی تباہ کاریاں اور ان کا علاج(۱۷)بدنظری و عشق مجازی کی تباہ کاریاں (۱۸)معمولات صبح و شام (۱۹)پیارے نبی کی پیاری سنتیں (۲۰)قرآن پاک سے شراب کے حرام ہونے کا ثبوت (۲۱)ولی اللہ بنانے والے چار اعمال(۲۲)قومیت و صوبائیت اور زبان و رنگ کے تعصب کی اصلاح (۲۳)بدنظری کے چودہ نقصانات(۲۴)آپ کے سفرنامے: سفر نامہ لاہور، سفر نامہ رنگون و ڈھاکہ،سفرنامہ حرمین شریفین ۔

 

آپ کے چند مشہور فہرست مواعظ حسنہ:استغفار کے ثمرات، فضائل توبہ، ہم جنس پرستی کی تباہ کاریاں اور ان کا علاج، حقوق والدین، اسلامی مملکت کی قدر و قیمت، لذتِ اعتراف قصور، دارِفانی میں بالطف زندگی، غم تقویٰ اور انعام ولایت، راہِ محبت اور اس کے حقوق، طلباء و مدرسین سے خصوصی خطاب، کرامتِ تقویٰ، عظمت صحابہ، اہل اﷲکی شان کے طریقے، لذت قرب خدا، دین پر استقامت کا راز، حقوق الرجال، محبوب الٰہی بننے کا طریقہ، تقریر ختم قرآن و بخاری، تحفہ ماہِ رمضان، علاماتِ مقولین، صحبت اہل اﷲاور جدید ٹیکنالوجی، عشق رسالت کا صحیح مقام، منزل قرب الٰہی کا قریب ترین راستہ، انوارِ حرم، فیضان حرم، حقیقت شکر، اﷲتعالیٰ کے باوفا بندے، قافلہ جنت کی علامات اور اﷲسے اشد محبت کی بنیاد۔

 

کتابوں پر تبصرہ

اب ہم حضرت حکیم محمد اختر صاحبؒ کی چند کتابوں اور مواعظ حسنہ کے قلمی فیضان کا ذکر کریں گے۔

 

"رسول اﷲﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت"

 

یہ کتاب آپ نے حضرت مولانا مفتی محمد عاشق الٰہی صاحب بلند شہری کی فرمائش پر۱۳۹۴ھ میں تالیف فرمائی۔ [24]اس کتاب میں مختلف عنوان کے تحت تقریباً 85 حدیثیں شامل ہیں جن کے عنوانات مندرجہ ذیل ہیں:(۱) کتاب الرقاق (دل کو نرم کرنے والی حدیثیں) (۲)فقراء کی فضیلت اور نبی کریمؐ کی معاشرت کا بیان (۳)حرص و آرزو کا بیان (۴)اللہ کی اطاعت کے لیے مال اور عمر سے محبت رکھنے کا بیان (۵)توکل اور صبر کا بیان (۶)ریا اور تمغہ کا بیان (۷)رونے اور ڈرنے کا بیان (۸)لوگوں کی حالتوں میں تغیر و تبدیل کا بیان (۹)ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان۔

 

"روح کی بیماری اور ان کا علاج"

 

اس کتاب میں حضرت والا نے بدنظری، عشق مجازی، تکبر، غصہ، حسد جیسے تمام امراض کے نقصانات اور ان کا مکمل علاج تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔اس کے علاوہ کتاب میں دستور تزکیہ نفس، تکمیل الاصبر تحصیل الصبر، مذاکرات دکن اور حضرت کے کچھ منتخب کلام بھی تحریر ہیں۔اصل میں یہ کتاب لکھنے کی وجہ حضرت مقدمہ میں فرماتے ہیں:

 

’’ارشاد حضرت حکیم الامت مولانا تھانویؒ ہے کہ غیر محرم عورت و مرد (خوبصورت لڑکے) سے کسی قسم کا تعلق رکھنا خواہ اس کو دیکھنا یا اس سے دل خوش کرنا اور اس کے لیے ہم کلام ہونا یا تنہائی میں اس کے پاس بیٹھنا یا اس کے پسند طبع (طبیعت کی پسند) کے موافق اس کو خوش کرنے کیلئے اپنی وضع قطع یا کلام کو سنوارنا، آراستہ کرنا اور نرم کرنا۔ یعنی آواز میں عورتوں کی سی لچک و نزاکت پیدا کرنا، اس کو پھسلانے کے لیے اور مائل کرنے کیلئے پیدا کرنا، میں سچ عرض کرتا ہوں اس تعلق سے جو قریباں اور نقصانات ہوتا وہ احاطہ تحریر خارج یعنی اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا احاطہ مشکل ہے۔ ان شاء اﷲکسی رسالہ میں اس بارے میں لکھنے کا ارادہ ہے۔‘‘[25]

 

حضرت والاؒ فرماتے ہیں کہ حکیم الامت تھانویؒ کی اس خواہش کو پورا کرنے کی عرصے سے تمنا تھی اور اس کتاب کو لکھنے کے بعدحضرت تھانویؒ کی خواہش پوری ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ حضرت نے اس کتاب میں روح کو لگائی جانے والی بیماریوں کو تفصیل سے ذکر کیا ہے کیونکہ ہمارے ہاں یہ عام رواج ہے کہ انسان کو جسم میں لگنے والی بیماری محسوس بھی ہوتی ہے اور اس سے تکلیف بھی ہوتی ہے اور اس کے علاج کیلئے انسان ڈاکٹر حضرات کے پاس معقول رقم خرچ کرکے بیماری کو دور کرنے اور اس سے بچپنے کیلئے نسخہ لیتا ہے۔ جبکہ یہ بیماری تو اس کے جسم کی ختم ہوجائے گی لیکن وہ بیماری جو روح میں لگ جاتی ہے جو انسان کے ساتھ ساتھ اس کے قبر میں جائے گی، اس کے علاج کی فکر نہیں کرتا ہے اور یہ کہ ان بیماریوں پر اور اس کے علاج پر رقم بھی خرچ نہیں ہوتی، علاج مفت ہوتا ہے۔ بس کسی کامل شیخ کے ساتھ وقت گزارنا پڑتا ہے اور اپنے نفس پر پاؤں رکھنا پڑتا ہے۔ اس کتاب میں ان ہی بیماریوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کا مکمل علاج مذکور ہے۔ اس کتاب سے لوگوں کو ایک فائدہ یہ ہوا کہ اُن کو اپنی روح کی بیماریوں کا علم ہوگیا اور اس کا علاج بھی معلوم ہوگیا جس سے بہت سے لوگوں کی زندگی میں انقلاب آگیا۔اس کتاب میں کل آٹھ ابواب ہیں، جن کی مختصراً تفصیل حسبِ ذیل ہے:

 

باب اول :بدنگاہی و عشق مجازی کی تباہ کاریاں اور ان کا علاج ہے۔باب دوئم: جہالت کی بیماری۔باب سوئم:غصہ اور حسد کا بیان۔ باب چہارم:تکبر اور عجب، کبر کا فرق۔باب پنجم:رِیا (دکھاوا)۔باب ششم:دنیا کی محبت کی برائی۔باب ہفتم:حب جاہ اور خودپسندی۔باب ہشتم:غیبت و بدگمانی (غیبت کے نقصانات)۔ان ابواب پر نظر ڈالیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ کتاب حضرت والاؒ کی کس قدر نفع کی ہے اور سالک کو اس سے کیا کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔

 

"معارف مثنوی"

 

مثنوی شریف کی اہمیت حضرت مولانا قاسم تانونوی کے اس فرمان سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے فرمایا: تین کتابیں انوکھی ہیں (۱)قرآن شریف (۲)بخاری شریف (۳)مثنوی شریف۔ [26]

 

حضرت مولانا روم مثنوی کی خصوصیات ایسی ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کتاب الہامی ہے۔ اﷲتعالیٰ نے مولانا کے دل میں اس کو نقش کیا ہے، یہ احقر کی ذاتی رائے ہے۔ اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ حصہ اول میں حکایت ہے۔ حضرت حکیم محمد اختر صاحبؒ نے اس کتاب میں شعرکی اس طرح تشریح کی ہے کہ ہر حکایت کو ختم کرنے کے بعد دوسری حکایت شروع کی ہے تاکہ پڑھنے والا پہلی حکایت اچھی طرح سمجھ جائے پھر دوسری حکایت پڑھنا شروع کرے۔ اس حصہ میں حضرت نے اپنے فارسی اشعار بھی تحریر کیے ہیں۔حصہ دوئم میں مختلف عنوانات کے تحت اشعار ہیں۔ مثلاً خشیت الہٰی، شہوت پرستی، غصہ، تکبر، صبر و شکر، عشق، تواضع، اخلاص، ادب، ان ضروری مضامین پر اشعار کاانتخاب مع شرح کیا اور اس بات کو حضرت نے مدنظر رکھا کہ زندگی کے ہر طبقہ کے لوگ علمائے واعظمین، مشائخ طریقت اورمصنفین کو انتہائی کم وقت میں باآسانی علمی مواد حاصل ہوجائے۔ تیسرے حصہ میں مولانا روم نے دعائیہ اشعار اور مناجات کو مع شرح تحریر کیا ہے۔اس مثنوی کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۹۸ء کو تقریباً ۷ سے زائد ملکوں کے علماء حضرات خانقاہ گلشن اقبال تشریف لائے۔ مثنوی کے درس کے لیے آپ سے درخواست کی۔جو درس مثنوی مولانا روم (معیت و معرفت) کے نام سے آپ کے خادم خاص "سید عشرت جمیل صاحب"نے ۱۹۹۹ء میں مرتب کی،اس درس مثنوی کے بارے میں سید عشرت جمیل صاحب کہتے ہیں:

 

’’مثنوی کا یہ درس عشق و محبت کی آگ بھری ہوئی ہے جس کے ایک ایک لفظ میں آتش عشق کی برقی رو دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایسی تندوتیز شراب عشق جام سنت و شریعت میں محصور ہے۔ کیا مجال ہے کہ عشق و مستی حدود شریعت سے باہر قدم رکھ دے۔ مثنوی مولانا روم قرآن پاک و احادیث پاک کی بے مثل عاشقانہ کی صحیح و تشریح ہے۔‘‘[27]

 

"خزائن الحدیث و خزائن القرآن"

 

حضرت والاؒکے تمام تقاریر و تصانیف میں جو قرآن کی آیت اور جو احادیث آپ نے تشریح اور تفسیر کی ہے جو ایک نایاب اور الہامی بیان ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان تمام حدیث کی تشریح اور قرآنی آیت کی تفسیر کو علیحدہ کرکے خزائن الحدیث اور خزائن القرآن کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ تقریباً خزائن قرآن میں ۱۰۹ آیت کی تفسیر فرمائی ہے جبکہ خزائن الحدیث میں ۹۷حدیث کی تشریح فرمائی ہے۔ خزائن قرآن میں تقریباً آپ کے ۳۵۹ موضوعات ان ۱۰۹ آیت سے اخذ کیا ہے جبکہ خزائن الحدیث میں موضوعات ۲۶۹ کی قریب قریب ہے۔تفسیر اور تشریح کے موضوعات زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

 

"عرفان محبت شرح فیضان محبت"

 

حضرت والاؒ کے تمام اشعار کو تین جلد و شائع کیا گیا اور ان اشعار کی تشریح بھی شامل کی جس کو مفتی محمد امجد صاحب (جن کا تعلق جنوبی افریقہ کے دارالعلوم آزاد دل سے تھا) نے حضرت کی زندگی میں کیا۔اس شعر کے مجموعہ اور اس کی شرح کے بارے میں حضرت فرماتے ہیں:’’احقر کا مجموعہ کلام بعنوان "فیضان محبت" جس کے تقریباً نوے فیصد اشعار میری زندگی کے 66 سال کے بعد اچانک قلب کی آرفغان کے ساتھ زبان ترجمان درد دل سے نمودار ہوئے اور بعض راتوں میں بے ساختہ آنکھ کھل گئی اور نیند غائب ہوگئی اور بغیر محنت و کاوش دماغی محض عطائے رحمت حق تعالیٰ شانہ سے یہ اشعار موزوں ہوگئے اور شرح یعنی شعر کی تشریح کے بارے میں فرماتے ہیں۔ میرے اشعار کی تشریح قرآن و حدیث سے مدلل ہے، قابل وجہ ہی۔ اس تشریح سے عوام کے لیے ان اشعار کا سمجھنا اور عمل کرنا آسان ہوگیا اور اشعار میں جو الہام تھا وہ ختم ہوگیا۔ اس قرآن و حدیث کے حوالوں کی وجہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہرشعر حدود و شریعت و سنت کے دائرہ میں ہے۔‘‘[28]

 

"پیارے نبیﷺکی پیاری سنت"

 

نبی کریمﷺکی شب و روز معمولات زندگی کی حضرت والاؒ نے پیارے نبی ﷺکی پیاری سنت نامی کتاب میں جمع فرمایا ہے اور اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے اس کتاب پر آپ نے تمام سنتوں کو جو اس میں درج ہیں ان کے حوالاجات بھی دیے ہیں۔یہ کتاب تقریباً چالیس سال سے لکھی جارہی ہے اور اس وقت سے آج مختلف زبانوں میں ہزاروں کی تعداد میں چھپ کر تقسیم ہوچکی ہے۔ اس میں تقریباً ۴۰ کے قریب عنوان ہیں۔

 

"قرآن و حدیث کے انمول خزانے اور ایمان پر خاتمے کیلئے سات مدلل نسخے"

 

حضرت حکیم محمد اختر صاحبؒ نے ایمان پر خاتمے کے سات اعمال بتائے ہیں جن کو کرنے سے ہر مسلمان کا خاتمہ ایمان پر ہوجائے گا۔ ہم ان اعمال کو یہاں لکھتے ہیں:

 

پہلا نسخہ: اللہ والی محبت یعنی کسی سے صرف اﷲکے لیے محبت کرنا ہے اور حلاوت ایمانی پا جانا ہے۔

 

دوسرا نسخہ: نظر کی حفاظت یعنی بدنظری سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔

 

تیسرا نسخہ: یعنی دعا ’’ربنا لا تزع قلوبنا۔۔الخ‘‘ مانگنا یہ دعا ہر نماز کے بعد پڑھنا ہے۔

 

چوتھا نسخہ: مسواک کرنا، مسواک والی نماز اور بغیر مسواک نماز کا فرق ۷۰ گنا کا ہے۔

 

پانچواں نسخہ: صدقہ کرنا، اﷲ کے راستہ میں خرچ کرنا۔

 

چھٹا نسخہ: موجودہ ایمان پر شکر، یعنی اﷲکی دی ہوئی تمام نعمت کا شکر اور ایمان بھی ایک نعمت ہے۔

 

ساتواں نسخہ: اذان کے بعد کی دعا پڑھنا۔ اگر کوئی یہ عمل کرتا ہے تو اس پر حضورﷺ کی شفاعت واجب ہوجاتی ہے۔[29]

 

حرف آخر

آج آپؒ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن آپ کا فیض مختلف طریقوں سے ہمارے درمیان ہمیشہ ہمیشہ موجود رہے گا۔ اﷲ تعالیٰ سے دعاہے کہ اﷲ ہمیں اﷲوالوں کی صحبت نصیب فرمائے اور ہماری زندگی اﷲوالوں جیسی ہوجائے۔ (آمین)

حوالہ جات

  1. القرآن الکریم،سورۃآل عمران:۶۸
  2. القرآن الکریم،سورۃالبقرہ:۲۰۸
  3. القرآن الکریم،سورۃیونس:۱۶۲
  4. محمدبن اسماعیل ابوعبداللہ البخاری،صحیح بخاری،دارطوق النجاۃ،بیرت،۱۴۲۲ھ،باب التواضع،رقم الحدیث:۶۵۰۲
  5. سیدعشرت جمیل میر،رشک اولیاءحیات اختر،ادارہ تالیفاتِ اختر،کراچی،۲۰۱۷ء،ص۲۳
  6. حکیم محمداختر،ترجمہ المصنف،کتب خانہ مظہری،کراچی،۲۰۱۵ء،ص۷
  7. محمدتقی عثمانی،نقوش رفتگان،مکتبہ معارف القرآن،کراچی،۲۰۱۴ء،ص۶۶۹
  8. ترجمہ المصنف،محولہ بالا،ص۷
  9. سیدعشرت جمیل میر، مولانا شاہ حکیم محمد اختر کے حالات زندگی، فغان اختر،خانقاہ امدادیہ اشرفیہ،کراچی،۱۴۳۵ھ،ص۲۴۱
  10. رشک اولیاءحیاتِ اختر،محولہ بالا،ص۳۵
  11. محمد اکبر، شاہ بخاری ، مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب، ماہنامہ اظہر ملتان رمضان المبارک رسول المکرم ۴۳۴ اور اگست ۲۰۱۳ء، ص۸
  12. نقوش رفتگان،محولہ بالا،ص۶۶۷
  13. رشک اولیاء حیاتِ اختر،محولہ بالا،ص۴۲
  14. سید عشرت جمیل، مولانا شاہ حکیم اختر صاحب کے حالات زندگی، فغان اختر امدادیہ اشرفیہ کراچی، ۱۴۳۵ھ، ص۲۶۰
  15. ڈاکٹر طاہر مسعود روزنامہ نئی بات کراچی، ۶ جون ۲۰۱۳ء، ایک عارف باللہ کا وصال
  16. محولہ بالہ، ص۶۶۹
  17. رشک اولیاءحیاتِ اختر،محولہ بالا،ص ۱۸۰
  18. ایضاً،ص۴۸۸
  19. فغان اختر محولہ بالا، ص ۶۰۹ تا ۴۲۹
  20. ایضاً،ص۶۰۸
  21. ابن سرتاج عالم جامعہ اشرف المدارس فغان اختر امدادیہ اشرفیہ کراچی، ۱۴۳۵ھ، ص۳۵۷
  22. حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر اور آپ کی شاعری، مولانا شفیق احمد بستوی،سہ ماہی فغان اختر، خانقاہ امدادیہ اشرفیہ ، کراچی، ۱۴۳۵ھ، ص ۳۲۶
  23. ایضاً، ص ۳۳۱
  24. حضرت محمد حکیم اختر صاحب، رسول اللہ کی نظر میں دنیا کی حقیقت، کتب خانہ مظہری ،کراچی، ص۶
  25. محمدحکیم اختر،روح کی بیماریاں اوران کاعلاج،کتب خانہ مظہری،کراچی،۱۹۸۴ء،ص۶
  26. محمدحکیم اختر،معارف مثنوی شرح مثنوی مولانا روم اردو،کتب خانہ مظہر،کراچی،س ن،ص۲
  27. محمدحکیم اختر،درس مثنوی مولاناروم محبت ومعرفت،کتب خانہ مظہری،کراچی،س ن،ص۷
  28. مفتی محمدامجد،عرفان محبت شرح فیضان محبت،خانقاہ امدادیہ شرفیہ،کراچی،س ن،جلد:۱،ص۲۲تا۲۳
  29. حکیم محمداختر،حدیث البخاری ایمان پرخاتمہ کےسات انمول نسخے،ادارہ تالیفات اختر،کراچی،س ن،ص۳۲
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...