Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > The International Research Journal Department of Usooluddin > Volume 2 Issue 1 of The International Research Journal Department of Usooluddin

عصرِ حاضر میں ضمان کی اہمیت و ضرورت |
The International Research Journal Department of Usooluddin
The International Research Journal Department of Usooluddin

Article Info
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

اللہ تعالیٰ نے انسان کواپنا خلیفہ بنا کر زمین پرآباد کیا اور عدل وانصاف کے ساتھ پر امن معاشرہ قائم کر نے کی تعلیمات دیں۔ اُس خالق کائنات نے ظلم کو اپنے نفس پر بھی حرام کیا اور انسانوں کو بھی اس سے گُریز کرنے کی تلقین کی مگر انسان کے ساتھ ساتھ اس کا ازلی دشمن شیطان بھی با رگاہِ لم یزل سے راندہ درگاہ ہو کر اس عزم کے ساتھ زمین پراتراکہ وہ عدل وانصاف کے بجائے ظلم وفساداور اطاعت وبندگی کےبجائےتمردوشیطنت کے جال بچھا کر انسانوں کو راہِ راست سے گمراہ کرنے کا کو ئی موقع فراموش نہیں کرے گا، انسانوں کے مابین اخوت ومحبت کے بجائے نفرت و عداوت کے بیج بوکر انہیں جنت کا مستحق بننے کے بجائے جہنم کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرے گا۔ حق وباطل کی یہ جنگ حضرت آدم ؑ کی اس زمین پر آمد کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی چنانچہ انسانی معاشروں میں لوگوں کا ایک دوسرے پر ظلم اور جان ومال و اجسام میں زیادتیاں کرنا یہ سب اسی وقت سے ہے جب سے حضرتِ انسان اس روئے زمین پر آباد ہے۔

 

انسان وشیطان کے مابین اس تصادم اور سرکشی کو روکنے اورحق کی تا ئید و حمایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف قوتوں کو وجود بخشا اور اس کے حدود وآثار کی حد بندی کے لئے الہٰی شریعتوں کا نزول فرمایا۔ انسانی معاشروں کے تحفظ و احترام کو باقی رکھنے، انسانیت کو آپس کے ٹکراؤ او رتصادم سے بچانے،حدود سے تجاوزکر نے اورانسانوں کو ایک دوسرے پر ظلم ڈھانے سے باز رکھنے کے لئے ایک منظم شکل میں حدود مقرر فر مائیں اور ایسی جانی ومالی عقوبتیں لازم کیں جن کی رعایت وکفالت معاشروں اور زندگی کے حقوق کی بھر پور ضامن ہے۔

 

امت محمدیہﷺکی خاص آزمائش

جس طرح ظلم وفساد کی یہ داستان قدیم ہےخلقِ خدا پر تعدی اور ان کے حق میں نقصان و زیادتی کر نے والے ا فراد پر لا گو ہونے والے قوانین کا معاملہ بھی زمانہ قدیم سے نافذ العمل ہے۔ البتہ اُمتِ محمدیہ ﷺکے حوالہ سے ان حد بندیوں اور شرعی احکام کی اہمیت گذشتہ اُمتوں سے بھی زیادہ ہے کیونکہ ہماری امت کی بڑی آزمائش مال ہی کے ذریعہ کی گئی ہے۔ سرکارِ دو عالم ﷺکا فرمان مبارک ہے:"میں تم پر فقر و نادار ی آنے سے نہیں ڈرتا لیکن مجھے تمہارے بارے میں یہ ڈر ضرور ہے کہ دنیا تم پر زیادہ وسیع کر دی جائے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر وسیع کی گئی تھی پھر تم اسکو بہت زیادہ چاہنے لگو جیسے کہ انہوں نے اس کو بہت زیادہ چاہا تھا اور پھر وہ تم کو برباد کر دے جیسا کہ اس نے ان اگلوں کو برباد کیا۔"(۱)

 

ایک دوسری حدیث میں وارد ہے:"حضرت کعب بن عیاض ؓسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺکو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ہر اُمت کیلئے کوئی خاص آزمائش ہوتی ہے اور میری اُمت کی خاص آزمائش مال ہے۔"(۲)حجورﷺکے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ میری اُمت میں مال و دولت کو ایسی اہمیت حاصل ہوگی اور اس کی ہوس اتنی زیادہ بڑھ جائے گی کہ وہی اس اُمت کے لیے سب سے بڑا فتنہ بن جائے گا،چنانچہ قرآن مجید میں بھی اسی معنی میں مال کو فتنہ کہا گیا ہے۔

 

موجودہ معاشرے کی حالت زار

واقعہ یہ ہے کہ عہد نبویﷺسے لیکر ہمارے زمانہ تک کی تاریخ پراگر نظر ڈالی جائے توصاف محسوس ہو گا کہ مال کے مسئلہ کی اہمیت اور دولت کی ہوس برابر بڑھتی رہی ہے اور بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ بالخصوص ہمارے اس زمانہ میں مال ودولت کے ساتھ لوگوں کا تعلق اورشغف و انہماک حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔خالص دنیاوی اور مادی ترقی کے مسئلہ کو اتنی اہمیت دے دی گئی ہے کہ مال و دولت ہی مطلوب و معبود بن کر رہ گیا ہے۔قرآن و حدیث کی پیشین گوئیوں کے مطابق مال اس اُمت کے لیے بہت بڑی آزمائش بن چکا ہے اور آج دنیا میں جتنے گناہ اور جرائم سر زد ہورہے ہیں ان سب کا بنیادی سبب مال ہی ہے۔ اکثر فسادات اور جھگڑے اسی مال کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں، یہی وہ فتنہ ہے جس کے باعث آج دن دھاڑے انسانوں کا خون بہہ رہاہے، مال و آبرو پر ڈاکے پڑ رہے ہیں اور طاقتور کمزور کے حقوق پامال کر رہا ہے۔

 

اسی لیے ضمان (یعنی کسی کے مال میں ناحق دست اندازی کرنے اورکسی کا مالی حق پامال کرنے پر تلافی کے طور پر جو مال لازم ہوتا ہے) اس کے مسائل آج کی انسانی زندگی میں انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ نیز اسلام چونکہ ایک کامل، اکمل اور منتخب دین ہے جسے خالق کائنات نے تا قیامت انسانی زندگی کے لائحہ عمل کے طور پر منتخب کیا ہے اور اسلام کی تعلیمات سابقہ تمام انبیاء کو دی جانے والی تعلیمات سے زیادہ جامع ہیں، اس لیے دین ِاسلام میں اس حوالہ سے اہم تعلیمات دی گئی ہیں۔ اسلام اپنی تعلیمات کے ذریعہ دنیا میں اپنے پیرؤں کے لیے بالخصوص اور پوری دنیا کے لیے بالعموم جس معاشرہ کی تعمیر چاہتا ہے وہ ایک ایسا پاکیزہ اور صاف ستھرا معاشرہ ہے جس کے اعمال و افکار کے کسی گوشے میں بد اخلاقی، بے انصافی، چور بازاری اور جرائم کی گنجائش نہ ہو بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دینِ اسلام کی بنیاد جن اعمال و افکار پر رکھی گئی ہے ان میں سے اہم ترین اساس عدل و انصاف اور جرائم کی روک تھام ہے اور اسلام کی بے شمار تعلیمات اسی محور کے گرد گھومتی ہیں۔چنانچہ اس مقصد کی خاطر اسلام نے قانون سازی اور اخلاقی تعلیمات میں انتہائی جز رسی کا مظاہرہ کیا ہے اور ان تمام چور دروازوں پر پہرے بٹھائے ہیں جہاں سے معاشرہ میں جرائم کے گھس جانے کا احتمال ہو۔

 

کسی کا مال نا حق کھانے کی ممانعت

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:"اے ایمان والو! آپس میں ایک دو سرے کے مال ناحق طور پر مت کھاؤ لیکن کو ئی تجارت ہو جو باہمی رضا مندی سے واقع ہو تو مضائقہ نہیں اورجو شخص ایسا فعل کرے گا(یعنی دوسرے کا مال نا حق کھائے گا)اس طور پر کہ حد سے گذر جائے اورظلم کرے تو ہم عنقریب اس کو آگ میں داخل کریں گے۔"(۳)

 

آیت مبارکہ میں ناحق کسی کا مال کھانے کی ممانعت ہے مگر یہ حکم صرف کھانے میں محصور نہیں بلکہ اس سے ہر وہ صورت مراد ہے جس میں کسی انسان کا حق پامال ہوتا ہو خواہ اس کا تعلق کھانے سے ہو یا اور کسی چیز سے چنانچہ حضرت مو لانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ اس آیت کی تفسیر میں تحریر فر ماتے ہیں:"آیت میں"لا تأ کلوا"کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ہیں"مت کھاؤ"مگر عام محاورہ کے اعتبار سے اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسر ے کے مال میں نا حق طور پر کسی قسم کا تصرف نہ کرو خواہ کھانے پینے کا ہو یا اسے استعمال کر نے کا۔عرفِ عام میں کسی کے مال میں تصرف کر نے کو اس کا کھانا ہی بولا جاتا ہے اگرچہ وہ چیز کھانے کی نہ ہو۔لفظِ باطل جس کا ترجمہ نا حق سے کیا گیا ہے عبد اللہ ابن مسعودؓ اور جمہور صحابہ ؓکے نزدیک تمام ان صورتوں پر مشتمل ہے جو شرعاً ممنوع اور ناجائز ہیں، جس میں چوری،ڈاکہ، غصب، خیانت،رشوت،سود وقمار اور تمام معاملاتِ فاسدہ داخل ہیں۔"(۴)

 

مذکورہ اصول کو ایک دو سری آیت میں اس طرح ارشاد فر مایا گیا ہے:"اور آپس میں ایک دوسرے کے ما ل ناحق مت کھاؤ اور ان کو حکام کے پاس اس غرض سے مت لیجاؤ کہ لو گوں کے مال کا ایک حصہ گناہ کے طریقہ پر کھاؤ جب کہ تمہیں علم بھی ہو (کہ ایسا کر نا جائز نہیں)۔"(۵)

 

امام قرطبی ؒ اس آیت کی تفسیر میں فر ماتے ہیں:"اس آیت کے ذریعہ پوری اُمتِ محمدیہ ﷺکوخطاب کیا گیا ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ تم میں سے لو گ ایک دوسرے کا مال بغیر حق کے نہ کھائیں جس میں جوا،دھوکہ، غصب،ادائیگی حقوق سے انکار اور ہر وہ صورت داخل ہے جس میں مالک کی رضامندی شامل نہ ہو یا رضا مندی شامل ہو مگر شریعتِ مطہّرہ نے اس صورت کو حرام قرار دیا ہو جیسا کہ فا حشہ عورت کی کمائی،کاہن کی اجرت،شراب اور خنزیر کی قیمت وغیرہ۔"(۶)

 

مذکورہ دونوں آیات سے ملتی جلتی اور بھی کئی آیات قرآن کریم میں مو جود ہیں جن میں لو گوں کی جائز املاک کے مکمل احترام کی تاکید وارد ہوئی ہے اور لوگوں کے اموال میں ان کی رضامندی کے بغیر دست اندازی کی مذمت بیان فر مائی گئی ہے۔ طوالت کے خوف سے ان آیات کو ذکر نہیں کیا گیا۔بہرکیف ارشادِ با ری تعالیٰ ہے:"اور لوگوں کا ان کی چیزوں میں نقصان مت کیا کرواور زمین میں فساد کر تے ہو ئے حد سے مت نکلو۔"(۷)

 

مذکورہ آیتِ کریمہ کی تشریح کر تے ہو ئے حضرت مو لانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں:"یہ جملہ قرآن کریم میں تین جگہ حضرت شعیب ؑ کی زبانی کہلایا گیا ہے،کیونکہ ان کی قوم ناپ تول میں کمی کر نے کی عادی تھی اس لئے حضرت شعیب ؑ نے انہیں اس بری عادت کوچھوڑنے کے لئے پہلے تو صاف طور پر فر مایا کہ ناپ تول میں کمی نہ کرواس کے بعد یہ عمومی جملہ ارشاد فر مایا کہ لوگوں کی چیزوں میں کمی نہ کرو۔"

 

مشہورمفسر علامہ ابوحیان اندلسی فر ماتے ہیں:"پہلے تو انہیں ایک خاص جرم سے منع فر مایا گیا جو خرید و فروخت کے وقت ناپ تو ل میں کمی کی صورت میں کیا جاتا تھا، بعد میں"لا تبخسوا الناس" اشیاء ہم فر ما کر ہر طرح کے حقوق میں کتر بیونت اور کمی کو عمومی طور پرمنع کر دیا۔اس سے معلوم ہوا کہ یہ آیت صرف ناپ تو ل میں کمی کے محدودمعنی پر ہی دلالت نہیں کر تی بلکہ لو گوں کی جائز املاک میں ہر ایسا تصرف جو ان میں کمی کا باعث ہو اس کے عموم میں داخل ہے۔"(۸)

 

مذکو رہ آیات سے یہ بات بخوبی واضح ہو تی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوعِ انسان پر ایک دوسرے کے اموال کو ظلماً اور ناحق طریقہ سے کھانا حرام قرار دیا ہے۔ بندوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان پر کی جانے والی سر کشی کو زمین میں فساد پیدا کر نے کے مترادف قرار دے کر اسے ممنوع ٹہرایا ہے نیز اس عمل کے ارتکاب پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور آخرت کا عذاب ثابت ہو نے کے ساتھ ساتھ اس کی روک تھا م کے لئے دنیا میں بھی کچھ سزائیں مقرر فر مائی ہیں تا کہ امن وامان سے بھر پور معاشرہ قا ئم ہو سکے۔

 

خطبہ حجۃ الوداع کا اہم مضمون

قرآن کریم کی طرح بہت سی احادیث ِمبارکہ میں بھی یہی مضمون وارد ہوا ہے:"حضور سرورِ کونین ﷺنے اپنے پہلے اور آخری حج کے موقع پر نو ذوالحج کو عرفات کے میدان میں ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام ؓ کی موجودگی میں جو خطبہ ارشاد فرمایا اسے تاریخی حیثیت حاصل ہے اور اس خطبہ میں اسلامی تعلیمات کا نچوڑ اور اسلام کے معاشی و سماجی اصولو ں کا امتیاز نہایت واضح الفاظ میں ار شاد فر مایا گیا ہے، اس خطبہ کا ایک اہم حصہ یہ ہے۔پس تمہارے خون،تمہارے مال اور تمہاری آبرو تم پر ایسی ہی حرمت کی حامل ہے جیسے اس (مبارک)مہینے اور اس (مبارک)شہر میں تمہارے اس دن (یعنی یوم حج)کی حرمت ہے۔"(۹)

 

اس حدیث کی شرح میں علامہ نووی ؒ لکھتے ہیں:"ان الفاظ کے مجموعہ سے اموال، خون اورآبرو کی حرمت کے سلسلے میں شدت کو بیان کر نا اور ان (کو پا مال کر نے سے) ڈرانامقصود ہے۔"(۱۰)

 

علامہ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:"(حدیث میں) ان اشیاء (خون بہانے،بلا سببِ شرعی غیر کا مال لینے اور کسی کی آبرو پامال کرنے) کی حرمت بیان کر نے میں مبالغہ ہے۔اس لئے کہ (ذوالحجہ کے) مہینے،شہرِ (مکہ) اور (حج کے) دن کے حرمت ان لوگوں کے ہاں ثابت اور مسلم تھی بخلاف جانوں،اموال اورآبرو کے (عرب کے لو گ) زمانہ جاہلیت میں ان چیزوں کو جائز سمجھتے تھے تو شریعت نے ان کو متوجہ کیا کہ مسلمان کے خون،مال اور آبرو کی حرمت شہر،مہینہ، اور اس دن کی حرمت سے زیادہ عظیم ہے۔"(۱۱)

 

حضور اکرم ﷺکے اس حکیمانہ ارشاد نے انسانی معاشرہ کی دکھتی ہوئی رگوں پر ہاتھ رکھ دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا میں امن و امان قائم کرنے کے حوالہ سے اس ایک حدیث مبارکہ پر عمل کرناہی کافی ہو سکتا ہے۔

 

سنن ابو داؤد میں حضرت صخر بن عیلہ ؓ کی غزوہ طائف سے متعلق ایک طویل حدیث مروی ہے۔اس میں سے ہمارا مطلوب حدیث کا ایک خاص ٹکڑا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ"حضرت صخر بن عیلہ ؓ نے جب حصن ِطائف کو فتح کیا تو اس میں حضرت مغیرہ بن شعبہ ثقفی ؓ کی پھوپھی کو پکڑ لیا تھا جبکہ وہ اسلام لے آئی تھیں۔اسی طرح قبیلہ بنو سلیم کے لوگ اپنی بستی کو چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے جس پر حضرت صخر بن عیلہ ؓ نے قبضہ کر لیا تھا بعد میں یہ لوگ بھی اسلام لے آئے۔اسلام قبول کرنے کے بعدقبیلہ بنو سلیم کے لوگ حضرت صخرکے پاس آئے اور اپنی بستی اور اس کا پانی واپس لینے کی بات کی،اسی طرح حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے اپنی پھوپھی واپس کر نے کا مطالبہ کیا مگرحضرت صخر بن عیلہ ؓ نے ان کی واپسی سے انکار کر دیا قبیلہ بنو سلیم کے لوگ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے نبی کریم ﷺ کے سامنے حاضر ہو کر صورتِ حال بیان کی تو اس پر آنحضرت ﷺنے حضرت صخر بن عیلہ ؓکو خطاب کرکے فر مایا:بلا شبہ جب کو ئی قوم مسلمان ہو جائے تو اپنے مال اور اپنے خون کو محفوظ کر لیتی ہے۔"(۱۲)

 

اس حدیث میں حضور ﷺ نے عمہ مغیرہ اور ماءِ بنی سلیم یہ کہہ کر انہیں واپس کر نے کا حکم دیا کہ کفار جب اسلام لے آتے ہیں تو وہ قیدی ہوں یا غیر قیدی اسلام لانے کے بعدان کی جان ا ورمال محفو ظ ہو جاتے ہیں اورمحفوظ جان و مال کو کسی بھی طریقے سے نقصان پہنچانا کسی کے لیے درست نہیں۔

 

نبی کریم ﷺحضرت معاذ ؓ کو نصیحت

نبی کریمﷺنے اپنے صحابہ کرامؓ کی جس انداز سے تربیت فر مائی وہ آپﷺہی کا خاصہ تھا۔آنحضرتﷺنے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو گور نر بنا کر یمن بھیجا تھا۔رخصت ہو تے وقت آپ ﷺنے انہیں بہت سی نصیحتیں فر مائی تھیں جن میں سے ایک نصیحت یہ تھی:"پس اگر وہ لوگ (یعنی یمن کے باشندے)تمہاری اس بات کو مان لیں تو انہیں بتلائیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے مال میں صدقہ فر ض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لیا جائیگا اور ان کے حاجت مند افراد میں تقسیم کیا جائیگا پس اگر وہ اس بارے میں تمہاری اطاعت کر لیں تو ان کی عمدہ اور حرمت والی املاک (میں دست اندازی)سے مکمل پر ہیز کر نا۔"(۱۳)

 

غور کا مقام ہے کہ آنحضرتﷺحضرت معاذ ؓ کو گور نر بنا کر یمن بھیج رہے ہیں۔ چنانچہ اُنہیں یہ نصیحت کی جا رہی ہے کہ لوگوں کے اموال میں جو اللہ کا حق بنتا ہے اُسے وصول فر ما کر اس کے حقداروں تک پہنچایا جائے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی ارشاد فر مادی کہ حقو ق اللہ کی ادائیگی کےبعد ان کےحرمت والے اموال میں مزید کسی قسم کی دست اندازی نہ کی جائے،نہ حق سے زیادہ وصول کیا جائے اور نہ ان پر کسی قسم کا ظلم کیا جائے۔ یہ نصیحت یمن کے اس گورنر کو کی جارہی ہے جو خود آنحضرت ﷺکے تربیت یافتہ اور مزاج نبوت کے پاسبان ہیں۔

 

خیانت اور لوٹ مارسے بچو

 

بخاری ومسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا:"چور چوری کرتے وقت مؤمن نہیں ہو تااورجوشخص مال لوٹ رہا ہو جس کی طرف لوگ (حیرانی سے) آنکھیں اٹھائے ہو ئے (دیکھ رہے)ہوں وہ لو ٹتے وقت مؤمن نہیں ہو تا اور جو شخص مالِ غنیمت میں خیانت کر رہا ہو وہ خیانت کر تے وقت مؤمن نہیں ہو تا لہٰذا تم ان گناہوں سے بچو!ان گناہوں سے بچو۔"(۱۴)

 

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فر مایا:"جس شخص نے لو ٹنے کا کام کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔"(۱۵) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:"وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو لوٹنے کا کام کرے یا(کسی کا مال) چھینے یا چھیننے کا مشورہ دے۔"(۱۶)

 

غورکریں کہ کسی مسلمان کا مال لوٹنے والے کے بارے میں رسول اللہﷺکے مذکورہ تینوں ارشادات میں کس قدر سخت وعید ہے کہ آپ ﷺاس شخص کو اپنی اُمت سے خارج قرار دے رہے ہیں۔

 

گلے کاطوق

 

حضرت محمد بن ابراہیم روایت کر تے ہیں کہ ابو سلمہ ؓ نے ان سے یہ حدیث بیان کی:" ان کی اور ایک دوسری قوم کے مابین کسی زمین کے بارے میں جھگڑا چل رہا تھاتو وہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس گئے اور ان سے (اس جھگڑے)کے بارے میں ذکر کیا، اس پر حضرت عائشہ ؓ نے فر مایا اے ابو سلمہ زمین(حاصل کر نے)سے بچو اس لئے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فر مایا ہے کہ جو شخص کسی کی بالشت بھر زمین بھی ناحق لے لے اس کے گلے میں سات زمینوں کا طوق ڈالا جائے گا۔"(۱۷)

 

حضرت سعید بن زید ؓ ہی سے روایت ہے :"اروی(نامی ایک عورت) نے ان سے ان کے مکان کے بعض حصہ میں جھگڑا کیا تو انہوں نے کہا کہ اس کو چھوڑ دو (یعنی مکان لینے دو) اس لئے کہ میں نے نبی کریم ﷺکو ارشاد فر ماتے ہو ئے سنا کہ جو شخص بالشت بھر زمین بھی اپنے حق کے بغیر لے گا اس کے گلے میں سات زمینوں کا طوق ڈالا جا ئیگا (پھر حضرت سعید ؓ نے اس عورت کے لئے مکان ظلماً لینے پر بد عا کی) اے اللہ اگر یہ عورت جھوٹی ہے تو اس کو نابینا کر دے اور اس کی قبر اسی کے گھر میں بنادے۔ (حضرت سعید ؓ فر ماتے ہیں ) میں نے اس عورت کو اس حال میں دیکھا کہ وہ نا بینا تھی اور دیواروں کو تلاش کر تی پھرتی تھی اور یہ بھی کہتی تھی کہ مجھے سعید بن زید کی بد عا لگ گئی ہے پس اسی دوران کہ وہ ایک مرتبہ اپنے گھر میں چل رہی تھی کنویں کے قریب سے گذری تو اس میں گر گئی اور وہی اس کی قبر بن گئی۔"(۱۸) ان احادیث میں ظلم اورغصب کے حرام ہو نے اور ان کی سزاکے سخت ہو نے کی صراحت ہے اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ جس کام کے ارتکاب پر اس قدر سخت سزا بیان کی گئی ہو اس عمل کے گناہِ کبیرہ ہو نے میں کیاشبہ ہو سکتا ہے۔

 

جانور کے نقصان کا حکم

 

ابن ماجہ نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے :"حضرت براء ابن عازب ؓ کی اونٹنی کسی باغ میں چلی گئی اور وہاں باغ کا بڑا نقصان کیا (باغ والوں نے اس بارے میں) رسول اللہﷺسے بات کی تو آپ ﷺنے یہ فیصلہ فر مایا کہ باغ والوں پر دن کے وقت باغ کی حفاظت ہے اور جو نقصان جانوروں سے رات کے وقت ہو اس کا جرمانہ جانور والوں پر واجب ہے۔"(۱۹)

 

اس حدیثِ مبارکہ میں صراحت ہے کہ اگر کسی شخص کا جانوربھی دوسرے کی املاک کو نقصان پہنچادے تو اس نقصان کا ضمان جا نور کے مالک پر لازم ہو گا جس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہی نقصان اگر کسی انسان سے ہو تو بطریق اولی اس نقصان کا ازالہ کیا جائیگا۔قاضی شریح ؒ کے پاس بھی ایک ایسا ہی جھگڑا آیا تو آپ نے یہی فیصلہ فرمایا کہ اگر دن کو بکریوں نے نقصان پہنچایا ہے تب تو کو ئی معاوضہ نہیں اور اگر رات کو نقصان پہنچایا ہے تو بکریوں والے ضامن ہیں۔

 

صاحب حق کو اس کا حق ادا کرو

 

حضرت سا ئب بن یزید ؓ روایت کر تے ہیں:"میں نے نبی کریم ﷺکو یہ فر ماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے کو ئی شخص اپنے ساتھی کا کو ئی سامان نہ مذاق میں لے نہ سنجیدگی سے اور اگر کسی کا کو ئی سامان کبھی لیا ہو تو وہ اسی کو لو ٹا دے۔"(۲۰) حضرت سمرہ ؓ نبی کریم ﷺسے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فر مایا: "ہاتھ پر ہر وہ چیز لازم ہے جو اس نے لی یہانتک کہ اس کو ادا کر دے۔"(۲۱)

 

پہلی روایت میں صراحت ہے کہ جو انسان کسی دوسرے انسان کا مال ناحق طور پر لے لے تو اس شخص پر لازم ہے کہ وہ اس کا ازالہ کرے اور صاحب حق کو اس کا مال لوٹائے۔اسی طرح دوسری حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی کریم ﷺ نے کس قدر صراحت کے ساتھ یہ بات ار شاد فر مادی ہے :"جو شخص کسی کی ملیکت میں دست اندازی کر تے ہو ئے کوئی چیز لے لے تو اس پر اس چیز کو واپس لوٹانا واجب اور ضروری ہے اور وہ شخص اس وقت تک اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہو گا جب تک کہ مالک کو اس کی اصل چیز یا ہلاکت کی صورت میں اس کا بدل لوٹا نہ دے۔"شارحین کی تصریح کے مطابق اس حدیث سے ضمان کا وجوب ثابت ہو تا ہے۔

 

کفار کے اموال کی حرمت

 

مسلمان تو مسلمان ہے قرآن و حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی انسان کے لیے کسی غیر مسلم کا مال ناحق طور پر لینا بھی درست نہیں۔غزوہ حنین میں جب بنو ہوازن کے ایک لشکرِ جر ّار نے مسلمانوں پر حملہ کی تیاری کی اور اس کی اطلاع حضور نبی کریم ﷺکو ملی تو آپ ﷺنے مسلمانوں کو جنگ کی تیاری کا حکم دیا۔مسلمانوں کے پاس ہتھیاروں کی کمی تھی،ایسے میں آپ ﷺکو اطلاع ملی کہ صفوان بن امیہ کے پاس بہت سے ہتھیار ہیں۔ صفوان بن امیہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہو ئے تھے بلکہ ایک غیر مسلم شہری کی حیثیت سے مطیع بن چکے تھے۔آنحضرت ﷺنے ان سے وہ ہتھیار اور زرہیں مانگیں جس کا قصہ ابو داؤد میں اس طرح مروی ہے۔امیہ اپنے والد صفوان بن امیہ سے روایت کر تے ہیں:" حنین کے دن نبی کریم ﷺنے ان سے زرہیں بطورِ عاریت لیں تو انہوں نے کہا:اے محمد کیا یہ ہتھیار آپ مجھ سے چھیننا چاہتے ہیں تو آپ ﷺنے ار شاد فر مایا: نہیں بلکہ ہم یہ عاریۃً لینا چاہتے ہیں جن کی واپسی کی ضمانت ہو گی۔"(۲۲)

 

آنحضرت ﷺنے اس مو قع پر جنگ کی واضح ضرورت کے با وجود ایک غیر مسلم کا ہتھیار بھی بلا معاوضہ لینا گوارا نہیں فرمایابلکہ لینے سے قبل ان کی واپسی کی ضمانت دی اورپھر ہتھیار استعمال فر مائے جس سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ کسی کی املاک کو بلا معاوضہ لے لینا کسی بھی فر د کے لئے جائز نہیں خواہ وہ کو ئی غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔قرآن کریم اورآنحضرت ﷺکے مذکو رہ اقوال سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ کسی انسان کے لئے دوسرے کی ملکیت کو نقصان پہنچانا، اس کی رضامندی کے بغیر اس میں کسی قسم کا تصرف کر نایا کسی کی عزت وآبرو اورجان ومال سے کھیلنا شرعا ًجائز نہیں اورنبی کریمﷺکی سیرتِ طیبہ پرمشتمل یہ واقعات اس بات کا ناقابل ِانکار ثبوت ہیں کہ اللہ کے رسول ؐنے ہر شخص کی ملکیت کے احترام کا جو بنیادی اصول بار بار کھلے الفاظ میں بیان فر مایا وہ محض ایک نظریہ ہی نہیں تھا بلکہ نبی کریمﷺنے قدم قدم پر بذاتِ خود اس پرعمل بھی کر کے دکھایا ہے اور انتہائی نازک اور مشکل حالات میں بھی غیر معمولی باریک بینی کے ساتھ اس کی نگہداشت فر مائی ہے تاکہ اُمت کے افراد اس مسئلہ کی نزاکت سے بخوبی واقف ہوسکیں۔

 

خلاصہ بحث

عصرِ حاضر میں وقوع پذیر ہونے والے جرائم کو ختم کرنے کا اگر کوئی مؤثر طریقہ ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ قرآن و حدیث کے مذکورہ اور ان جیسے دیگر ارشادات کا استحضار کیا جائے اور یہ حقیقت لوگوں کے قلوب و اذہان میں راسخ کر دی جائے کہ ہر حق کو پامال کرنے پر اللہ اور اس کے رسول ﷺنے دنیا و آخرت دونوں میں کچھ سزائیں مقرر کی ہیں،ہر نقصان کا ازالہ کرنا لازم ہے خواہ دنیا میں ہو یا آخرت میں۔یہ حقیقت اگر انسان کے دل و دماغ میں اچھی طرح بیٹھ جائے تو صرف یہی وہ چیز ہے جو انسانی اعمال و افکار پر رات کی تاریکی اور جنگل کی تنہائی میں بھی پہرے بٹھا سکتی ہے اور جب تک کسی قانون کی پشت پر اس حقیقت کا مستحکم ایمان موجود نہ ہو اس وقت تک وہ عمل کی دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

 

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو بالعموم اور اہل پاکستان کو بالخصوص مال کے اس عظیم فتنہ سے محفوظ رکھے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جس مال نے آج ہماری آنکھوں کو خیرہ کیا ہوا ہے اور قلب و نظر پر ہوس کی پٹیاں باندھ رکھی ہیں وہ ہمیں جہنم میں لے جانے کا ذریعہ بن جائے۔ جس مال کو آج ہم راحت کا سبب سمجھ بیٹھے ہیں یہی مال کل قیامت کے دن ہماری جہنم کا سامان بن جائے۔(آمین)

 

المراجع والمصادر

 

(۱)قشیری مسلم ابن الحجاج، الجامع الصحیح، سعید ایچ ایم کمپنی، کراچی،ج۲،ص۴۰۷

 

(۲)ترمذی محمد ابن عیسیٰ ابن سورۃ، سنن ترمذی، فاروقی کتب خانہ، ملتان،لاہور،ج۲،ص۵۷

 

(۳)قرآن مجید:۴: ۲۹، ۳۰

 

(۴)عثمانی مفتی محمد شفیع، معارف القرآن، ادارۃ المعارف ، کراچی،۲۰۰۰،ج۲،ص۳۷۸

 

(۵)قرآن مجید: ۲:۱۸۸

 

(۶)قرطبی محمد بن احمد انصاری، الجامع لاحکام القرآن، مکتبہ حقانیہ، پشاور،۱۹۸۸،ج۲،ص۲۲۵

 

(۷)قرآن مجید:۱۱: ۸۵، ۲۶: ۱۸۳

 

(۸)عثمانی، مفتی محمدتقی، عدالتی فیصلے، ادارہ اسلامیات، لاہور، کراچی،۲۰۰۰،ص۴۵

 

(۹)بخاری محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، قدیمی کتب خانہ ، کراچی،۱۹۶۱،ج۱،ص۲۱

 

(۱۰)نودی شرف الدین، شرح النووی علی الجامع الصحیح لمسلم، سعید ایچ ایم کمپنی،کراچی،ج۲،ص۶۰

 

(۱۱)عسقلانی ابن حجر، فتح الباری شرح صحیح البخاری، قدیمی کتب خانہ، کراچی، ج۱،ص۲۱۰

 

(۱۲)سجستانی سلیمان بن اشعث، سنن ابی داؤد، ایچ ایم سعیدکمپنی، کراچی، ۱۹۶۷،ج۲،ص۸۰

 

(۱۳)قشیری مسلم ابن الحجاج، الجامع الصحیح، سعید ایچ ایم کمپنی ، کراچی، ج۱،ص۵۵

 

(۱۴)بخاری محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، قدیمی کتب خانہ، کراچی، ۱۹۶۱،ج۱،ص۲۰۲

 

(۱۵)ہیثمی نور الدین، مجمع الزوائد، دار الکتب العلمیہ، بیروت،۲۰۰۱،ج۵،ص۴۳۴

 

(۱۶)ایضاً

 

(۱۷)قشیری مسلم ابن الحجاج، الجامع الصحیح، سعید ایچ ایم کمپنی ، کراچی، ج۲،ص۳۳

 

(۱۸)ایضاً

 

(۱۹)قزوینی ابو عبد اللہ محمد بن زیدان ماجہ، سنن ابن ماجہ، قدیمی کتب خانہ، کراچی،۱۴۰۷، ص ۱۶۸

 

(۲۰)ایضاً

 

(۲۱)سجستانی سلیمان بن اشعث، سنن ابی داؤد، ایچ ایم سعیدکمپنی، کراچی، ۱۹۶۷،ج۲،ص۱۴۵

 

(۲۲)ایضاً
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...