Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > The International Research Journal Department of Usooluddin > Volume 2 Issue 1 of The International Research Journal Department of Usooluddin

کلام اقبال اور عشق مصطفے ﷺ |
The International Research Journal Department of Usooluddin
The International Research Journal Department of Usooluddin

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060030112_1281

Pages

1-10

PDF URL

http://www.journalusooluddin.com/index.php/irjdu/article/download/15/14

Chapter URL

http://www.journalusooluddin.com/index.php/irjdu/article/view/15

Subjects

Philosopher Selfhood Gist Devotion Socio-political Philosopher Selfhood Gist Devotion Socio-political Prophet’s love of Iqbal

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

بلاشبہ شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبال رحمہ الله کاشمار دنیا کے عظیم شعراء میں ہوتا ہے۔ آپؒ فلسفہ ،تاریخ اور ادبیا ت کے نامور عالم اورباکمال استاد تھے۔یو ں تو آپؒ کوکئی زبانوں سے واقفیت تھی لیکن عربی ، فارسی اور اردو زبان پر آپؒ کو بے مثال دسترس حاصل تھی۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؒ کو جو صلاحیت ملی تھی وہ اُن کے عہد کے دیگر شعراء کی بانسبت زیادہ عمیق اور ہمہ گیر تھی۔یہی وجہ ہے کہ آپؒ کا مقام فنِ شاعری میں بہت بلند ہے ۔

 

حقیقتاً شاعری مشرقی ہو یا مغربی منفرد مقام رکھتی ہے اوراپنے پڑھنے والے پرگہرا اثر رکھتی ہے۔یہی خصوصیت کلامِ اقبالؒ میں بہ تمام و کمال موجود ہے۔آپؒ کا سا را کلا م پڑھنے کے بعد ایک سیدھی سادی بات جو ایک عام انسان کی سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنی خفتہ صلا حیتوں قوتوں کو پہچانے ، ان سے بھر پور کام لے اورخدا اور اس کے رسولﷺ سے والہا نہ عشق رکھے ۔

 

 

فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنا ئی   مشرق میں ابھی تک ہے وہی کا سہ ، وہی آش !
حلا ّج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر   اک مردِ قلندر نے کیا رازِ خودی فاش ! (۱)
بمصطفی ؐبرساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست   اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است (۲)
علامہ اقبالؒ تما م حیات ا س پیغام کاببا نگ دہل تاکیدی الفاظ میں اعلا ن کر تے رہے کہ اے اللہ کے بندوں ! اے مسلمانوں! اپنے آپ کو مصطفیﷺ تک پہنچا ؤ، کیو نکہ آپﷺہی کی ذاتِ گرامی سارادین ہے ۔ اگر تم وہا ں تک رسائی حاصل نا کر سکو توسمجھ لو کہ تم اسلام سے دور ہو اور بولہبی میں گرفتار ہو ۔علا مہ اقبالؒ عشق کو ہی با عثِ تکوین کا ئنات تصور کر تے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ انسان سوائے عشق کے اپنی زما م کسی کے حوالے نہیں کر تا،عشق ہی اسے خود سپردگی سکھا تا ہے،عشق ہی اسے اپنی رضا کو محبوب کی رضا کے سپرد کر نے پر آما دہ کرتا ہے ۔ چنا نچہ علامہ اقبا لؒ فرما تے ہیں:

 

 

عشق دم ِ جبر یل ، عشق دلِ مصطفیٰؐ   عشق خدا کا رسولؐ، عشق خدا کا کلام (۳)
اسی نسبت سے ڈاکٹر طاہر فاروقی تحریر فرماتے ہیں: ”اس عشق کی برکت سے عاشق کو بے پناہ قوت حاصل ہو جاتی ہے وہ ابو الوقت اور ابوالحال بن جاتا ہے۔ النفس و آفاق اس کے زیرِ نگین ہوتے ہیں اور وہ جن وملائکہ کو اپنے صیدزبوں سمجھنے لگتا ہے۔“(۴) چنانچہ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

 

 

عشق کی ایک جست نے طے کردیا قصہ تمام   اس زمین و آسمان کو بے کراں سمجھا تھا میں(۵)

علامہ اقبالؒ کے نزدیک عشق زندگی کی ایک اعلیٰ ترین تخلیقی استعداد ہے یہ عشق ہی ہے جو انسانی کارناموں کو حیات دوام بخشتا ہے جیسے مسجد قرطبہ(اسپین) اور تاج محل(آگرہ)۔ لہٰذا علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ عشق کو موت نہیں،ملاحظہ فرمائیں:

 

 

مرد خدا کا عمل عشق سے صاحبِ فروغ   عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام (۶)

اگر چہ ”عشق“ کا لفظ کلا مِ پاک میں مذکور نہیں ، لیکن اقبال کی مراد اس لفظ سے محبت ہے اور حُب کا لفظ ا س آیت میں موجود ہے ۔ یعنی عشق کا تصور اس آیت سے مقتبس ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓااَشَدُّحُبًّالِّلّٰہِ(۷) ”ایمان والے اللہ ہی سے سب سے زیا دہ محبت کر تے ہیں ۔“

 

پروفیسریوسف سلیم چشتی اپنی کتاب ”شرح ضرب کلیم“کے صفحہ نمبر ۴۳۰ میں علا مہ اقبا ل ؒ کی شاعری یا ان کی مذہبی فکر کا محورجو عشقِ رسولﷺہے اور ان کا سرمایہ حیات ہے وہ اس حدیث نبویﷺسے مربوط ہے: لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین(۸) ”تم میں سے کو ئی شخص ا س وقت تک ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اپنے والدین ،ا پنی اولا د اور تما م انسانوں سے زیا دہ محبو ب نہ ہو جا ؤ ں ۔“

 

عشقِ رسول ؐیا حبِ رسول ؐسے مراد نبی کریمﷺ سے صرف زبانی یا ظاہری محبت نہیں بلکہ قلبی اور عملی اتباع کا مظاہرہ بھی ہے۔جس کی وضاحت ڈاکٹرحافظ محمد طفیل اس طرح فرماتے ہیں: ”حب رسول ؐسے مراد ہے خاتم الاانبیاءومرسلین،رحمت للعالمین، سیدالثقلین،نبی الحرمین،سرورکائنات،محسن انسانیت حضرت محمدمصطفیٰﷺ کیساتھ دل کی گہرائیوں،عقل وشعور کی پنہائیوں اور انسانی بساط کی گہرا ئیوں سے محبت ، الفت ، چاہت اور عظمت کا اس طرح مظاہرہ کیا جا ئے کہ انسان کے فکر و عمل سے یہ حقیقت عیاں ہو کہ یہ اعلی وارفع ہستی ، "بعد از خدا بزرگ تو ئی "کا حقیقی مصداق ہو ۔ کہ خالق کائنات اور رب العالمین کی پیدا کر دو مخلوق میں وہ سب سے عظیم اور سب سے بزرگ ہیں اور تما م فرشتے جن وانس اور دیگر مخلو ق سے وہ بلند و بالا اور عظیم تر ہیں ۔“(۹)

 

علا مہ اقبالؒ کے نزدیک عشق ِ رسولﷺ سرّ دین ہے اور و سیلئہ دنیا بھی۔ اس کے بغیر انسا ن نہ دین کاہے اور نا ہی دنیا کا۔ چنانچہ علا مہ اقبا ل فرما تے ہیں:

 

 

ہر کہ ازسرّ نبیؐ گیرد نصیب   ہم بہ جبریل امیں گردد قریب(۱۰)

جو کو ئی بھی نبی کریمﷺ کے راز (شریعت ) سے حصہ پا تاہے وہ جبریل امیں (جو حکمت کی علا مت ہیں ) کے بھی قریب آجاتا ہے ۔ اسی مثنوی میں آگے چل کر مزید فرما تے ہیں:

 

 

می ندانی عشق ومستی ازکجا ست ؟   ایں شعاع آفتاب مصطفیٰ ؐست
زندہ تا سوزِ اُو در جان تست   ایں نگہ دارندہ ایمان ِ تست(۱۱)
کیا تو نہیں جانتا کہ عشق و مستی کہا ں سے حاصل ہو تی ہے (یہ عشق و مستی ) حضور سرور کو نینﷺ کے آفتاب کی شعاع ہے تو اس وقت تک زندہ ہے جب تک اس (آفتاب ) کی تپش تیر ی روح میں ہے اوریہ تپش تیرے ایمان کی محافظ ہے ۔مزید برآں اسرارِ خودی کے یہ اشعار حضور انورﷺ کی محبت میں جس انداز سے لکھے گئے ہیں وہ اہل دل کے لئے متاعِ گراں ما یہ ہیں ۔

 

 

دردل ِمسلم مقام مصطفیٰؐ است   آبروے ما ز نا مِ مصطفیٰؐ است
طور، موجے ازغبارِِخانہ اش   کعبہ رابیت الحرم کا شانہ اش
کمتراز آنے زاوقاتش ابد   کا سبِ ِافزایش ازذاتش ابد
بوریا ممنون خواب راحتش   تاجِ کسریٰ زیرِ پا ئے اُمتش
درشبستان حرا خلوت گزید   قوم و آئین و حکومت آفرید(۱۲)

اقبالؒ فرما تے ہیں:مصطفیﷺکا مقام مسلما نو ں کے دل میں ہے ہماری عزت آپﷺ کے نامِ مبارک سے ہے۔ کو ہِ طورآپﷺ کے دولت خانہ کی گرد کی ایک لہر ہے ۔ اور آپﷺ کا کا شانہ مبارک کعبہ کے لیے بیت الحرم کا درجہ رکھتا ہے ابد حضور ﷺ کے اوقات کے ایک پل سے بھی کم تر ہے ۔ وہ حضورﷺ کی ذات مبارک سے فیضان حاصل کر نے والاہے چٹا ئی حضورﷺ کی راحت بھری نیند کی احسان مند ہے ۔ کسریٰ کا تاج آپﷺ کی اُمت کے پا ؤ ں تلے ہے ۔حضور اکرمﷺ نے غارِحرا میں خلوت گزینی اختیار کی اور ایک قوم ایک (عظیم ) آئین اور ایک (عظیم) حکومت دنیا کو دی۔جنا ب فقیر سیّد وحید الدین اپنی کتاب ”روزگارفقیر“ میں لکھتے ہیں:

 

’’ڈاکٹر محمد اقبالؒ مرحوم کی سیرت اور زندگی کا سب سے زیا دہ ممتاز ، محبوب اور قابل قدر جذبہ عشق رسولﷺ ہے ۔ ذات رسالت مآب کے ساتھ انھیں جو والہانہ عقیدت تھی اس کا اظہار ان کی چشم نمناک اور دیدئہ تر سے ہو تا تھا کہ جہاں کسی نے ان کے سامنے حضور ﷺکا نا م لیا ان پر جذبات کی شدت اور رقت طاری ہو گئی اور آنکھو ں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے ۔

 

رسول اللہﷺ کانا م آتے ہی اور ان کاذکر چھڑتے ہی اقبال بے قابو ہو جا تے تھے ۔ آپ کی شاعری کا خلاصہ ، جو ہر اور لب لباب عشقِ رسولﷺ اور اطاعتِ رسولﷺ ہے ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کی صحبتوں میں عشقِ ر سولﷺ کے جو منا ظر دیکھے ہیں ان کا لفظوں میں اظہار بہت مشکل ہے۔“(۱۳)

 

اقبال عاشق رسولﷺ ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب مسلمان حقیقی معنو ں میں آنحضورﷺ کے عاشقِ صادق بنیں اور آپ ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہوں ،جس کا ذکر آپ کے اس شعر میں مضمر ہے :

 

 

ہر کہ عشقِ مصطفیٰؐ سامانِ اوست   بحر وبر درگوشئہ دامانِ اوست (۱۴)
علا مہ اقبالؒ فرما تے ہیں: ہر وہ شخص جس کے دل کا سرما یہ آنحضورﷺ کا عشق ہے ، بلا شبہ وہ دنیا پر متصّرف ہے ۔ آنحضور ﷺ کی اطاعت اللہ تعالی کی اطاعت ، آپؐ سے وفااللہ پاک سے وفا ،آپ ؐسے دوستی اللہ پاک سے دوستی اور آپؐ سے عشق اللہ تعالیٰ سے عشق قراردیا گیاہے ۔ چنا نچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (۱۵) ” فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کر تے ہو تو میری اتبا ع کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کر ے گا۔“

 

حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز مکتوبات میں فرماتے ہیں:”اتباع کے معنی یہ ہیں کہ ہر چیز جو محبوب کے اخلاق و عادات، اطوار و گفتار سے میں آئے اسے تقلید کی دُھن میں محبوب سمجھا جائے۔ یہی رمز اس آیت شریف کے مضمون میں ہے کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے: فاتبعوننی یحببکم اللہ ( اگر یم خداسے محبت کے دعوے دار ہو تو تم میرا اتباع کرو، ایسی صورت میں خود خدا تم کو اپنا محبوب بنالے گا۔) اس سے معلوم ہوا کہ رسولِ کریم علیہ الصلوة و التسلیم کی متابعت کا اجر عظیم یہ ہے کہ انسان خدا کی محبوبیت کے مقام پر فائز ہوجا تا ہے۔ “(۱۶)

 

عشق و محبت کایہ مرتبہ ایمان کا خاصہ اور لازمہ ہے ۔ اتبا ع رسولﷺ کے بغیر محبت رسولﷺ تصور میں نہیں آسکتی۔ حضورﷺ کے نقش قدم پر چلنا ، سنت رسولﷺ اور اسوہ حسنہ کا کا مل اتباع ،محبت رسولﷺ کے لئے لا زم ہے ۔ علا مہ اقبالؒ نے جاوید نا مہ میں بزبان حلا ّج حضور انورﷺکے دیدار سے مشر ف ہو نے کہ نہا یت عمدہ توجیہ پیش کی ہے ،آپؒ فرما تے ہیں:

 

 

معنی دیدار آں آخر زما ں   حکم او بر خویشتن کردن رواں
درجہاں زی چوں رسول ؐانس وجا ں   تا چو او باشی قبول انس و جا ں
باز خود رابیں ہمیں دیدار اوست   سنت او سرّے از اسرار اوست (۱۷)

دنیا میں زندگی ایسے بسر کرو جیسے رسول پاک ﷺ کا اسوئہ حسنہ تم کو تلقین کر تا ہے اگر تم ایسا کروگے تو تم کو جن و انس سب میں مقبولیت حاصل ہو جا ئیگی ۔ آپ ﷺ کی سنت میں ڈوب کر خود شنا سی حاصل کرو ، یہی آپﷺکا دیدار ہے ۔ یاد رکھو کہ آپﷺ کا اسوہ حسنہ اور آپﷺکی سنت آپ ﷺکے اسرا ر میں سے ہے ۔الغر ض دعویٰ عشق اس وقت تک لا یعنی ہے جب تک محبو ب ﷺ کا اتباع نہ کیا جا ئے ۔ایک سچے مومن کے لیے تقلید واتباع رسولﷺ کا اہتمام کر نا ازبس لازم ہے ۔ علا مہ اقبالؒ کی نظر میں حقیقی عشق رسو ل ﷺ کیا ہے ان کے کلام سے ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں:

 

 

کیفیت ہا خیزد از صہبا ئے عشق   ہست ہم تقلید از اسمائے عشق
کا مل بسطام ؒ در تقلید فرد   اجتناب از خوردن خربوزہ کرد
عاشقی ؟ محکم شو از تقلید یار   تا کمندِتو شود یزداں شکار(۱۸)
علا مہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ شراب ِعشق پی کرکیف ہی کیف حاصل ہو تا ہے ۔ مگر خیا ل رہے کہ تقلید واتباع عشق کے نامو ں میں سے ہی ایک نام ہے ۔ حضر ت با یزید بسطامیؒ کہ مثال یاد کرو ۔ آپؒ اتبا عِ رسولﷺ میں اس قد ر سرگرم تھے اور تقلید ِ نبوی ؐپر ایسے کاربند کہ آپ نے ساری عمر خربوزہ اس لیے نہیں کھا یا کہ آپ کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ نبی کریمﷺ نے یہ پھل کس طرح کھا یا تھا۔ اسی کامل تقلید کا نا م عشق ہے ، تو اگر تم عشق کے دعویدار ہو تو یار کی تقلید میں پختہ ہو جا ؤ ۔ پھر تمہاری کمند میں وہ گرفت آجا ئے گی کہ وہ یزداں شکار بن جا ئے گی۔ چنا نچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآوٴُکُمْ وَاَبْنَآوٴُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ ن ِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَة’‘ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہ ط وَاللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(۱۹) ” تم فرماوٴ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہار ے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھویہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔“

 

علا مہ اقبالؒ جو دل لے کر پیدا ہو ئے تھے اسکی تسکین کے لئے ایسا ہی عشق رسولﷺ لا زم تھا ۔ اقبا ل کو زیارت حرمین شریفین کی خواہش زندگی بھر رہی مگر انتہا ئی آرزو کے با وجود وہ حج نہیں کرسکے ۔ تاہم اپنے خیالا ت کی دنیا میں وہ ہمیشہ اس نعمت سے مستفید ہو تے رہے ہیں ۔ ”ارمغان حجاز“جو کہ علا مہ کی آخری کتا ب ہے اور انکے انتقال کے بعد نومبر ۱۹۳۸ء میں شائع ہو ئی اس کتاب میں کئی ایسی رباعیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے عالم تصور میں حجاز کا سفر کر رہے ہیں ۔ فکر کی گہرائی اور عشق کی شدت ان قطعات کی خصوصیت ہے ۔حضور رسالتﷺکے عنوان سے جو فصل شروع ہوتی ہے اس کی ایک رباعی میں فرما تے ہیں کہ میں نے عشق رسولﷺ میں مست ہوکر محبت کے نغمے الا پنے شروع کر دیے ہیں اور اس بڑھاپے میں مدینہ منورہ کا راستہ اختیار کر لیا ہے ۔ اس پرندے کی طرح جو صحرامیں شام کے وقت اپنے گھونسلے میں جانے کی فکر میں پرواز کے لیے پر کھو لتا ہے ۔ اقبالؒ فرما تے ہیں:

 

 

با یں پیری رہ یثرب گرفتم   نواخواں ازسر و رعاشقانہ
چو آں مرغے کہ درصحرا سرشام   کشاید پر بفکر ِ آشیانہ(۲۰)
پھر عالم خیال میں صحرائے عرب کی سیر کر تے ہیں جہاں (مدینہ طیبہ کے راستے میں ) کتنے ہی قافلے درود پڑھتے ہو ئے گامزن ہیں۔چنانچہ آپؒ فرماتے ہیں:

 

 

چہ خوش صحرا کہ دروےّ کا رواں ہا   درودے خواند و محمل براند
بہ ریگِ گرم اوآور سجودے   جبیں راسوز تا داغے بماند(۲۱)
اسی کتاب میں آگے چل کر انتہائی عشق میں آپؒ یہا ں تک کہہ جا تے ہیں:

 

 

تو فرمودی رہِ بطحا گرفتیم   وگرنہ جزتو مارامنزلے نیست(۲۲)
کیونکہ جہاں از عشق و عشق از سینئہ تُست (۲۳)

دنیا عشق سے ہے اور تیرے (آپ ؐکے ) سینئہ مبارک سے ہی اس عشق کا تعلق ہے ۔ اقبالؒ کے مطابق حضورانورﷺ کی محبت سب مسلمانو ں پر فرض عین ہے ۔ درحقیقت آپﷺ کی محبت ہی ہمارے ایمان کو مکمل کر تی ہے ۔ سچے اور حقیقی عشق کا کمال یہ ہے کہ عاشق کا اٹھنا، بیٹھنا ، کھانا ، پینا، سونا،جاگنا غرضیکہ اس کے تمام افکار و اعمال و جذبات کا محور محبوب کا عشق اور اس کا تصور ہو۔ خلیفہ عبد الحکیم اپنی کتاب”فکرِ اقبال “میں رقمطراز ہیں: ”جس طرح کا عشق رسول اللہﷺ کوخدا کے ساتھ تھا اس سے کچھ مشابہ عشق صحابہ کرامؓ کو رسول اللہﷺسے تھا۔ صحابہ کرامؓ میں کوئی شخص دکھائی نہیں دیتا جو استدلال کی بنا پر یا کس خرق عادت یا معجزے سے رسول ﷺپر ایمان لایا ہو، ان لوگوں میں عشقِ رسولﷺآپ کی صحبت اور محبت سے پیدا ہوا اور اس محبت میں یہ شدت تھی کہ زن و فرزنداور والدین کی محبتیں اس کے مقابلے میں قابل اعتنا نہ تھیں۔ اس کے بعد اس میں کون شک کرسکتا ہے کہ اسلام عشق سے پیدا ہوا، بلکہ عشق ہی کا دوسرا نام اسلام ہے۔“(۲۴)

 

اس کی بہترین مثال رسول اللہﷺ سے محبت کر نے کاوہ ایمان افروزواقعہ جو خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب ؓ کو پیش آیا ۔ جس کے مطالعے سے ایمان تازہ ہو جا تا ہے ۔ آپ بھی ملا حظہ فرما ئیں : وکذلک قصة عمر بن الخطابؓ۔ قال عبداللہ بن ہشامؓ: فقد کان مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو اخذ بیدہ فقال لہ عمر: یا رسول اللہ، لانت احب الی من کل شیء الا من نفسی، فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: لا والذی نفسی بیدہ حتی اکون احب الیک من نفسک۔ فقال لہ عمر: فانہ الان، واللہ لانت احب الی من نفسی، فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: الان یا عمر(۲۵)

 

”حضرت عبد اللہ بن ہشام کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس تھے ، جبکہ آپ حضرت عمرؓ کا ہاتھ پکڑے ہو ئے تھے اور عمر آپ سے عرض کر رہے تھے ۔یا رسول اللہ ﷺ آپ مجھ کو سوائے میری جان کے ہر چیز سے پیارے ہیں اس پر حضورﷺ نے فرما یا نہیں اے عمر قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جب تک کہ میں تیری جان سے بھی تجھ کو پیارا نہ ہو ں گا (جب تک تیرا یمان کامل نہ ہو گا)۔ حضر ت عمرؓ نے عرض کیا حضور بے شک آپﷺمجھ کو میری جان سے زیا دہ پیارے ہیں ۔ تب آپﷺ نے فرمایا:ہا ں اے عمر ؓ! اب تمہار ایمان کا مل ہو ا ۔“

 

اس کیفیت میں اب اقبالؒ کے یہ اشعار ملا حظہ ہو ں :

 

 

وہ دانا ئے سُبل ختم الرسُّل مولا ئے کل جس نے   غبارِراہ کو بخشا فروغ وادیء سینا
نگا ہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر   وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسین ، وہی طٰہٰ (۲۶)

کلا مِ اقبالؒ سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو چکی کہ علا مہ اقبالؒ کی محبت آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی سے عشق کا درجہ رکھتی تھی اورعشق رسولﷺان کی زندگی کا سب سے گہرا، سب سے شدیداور سب سے پائیدار جذبہ تھا جس سے ان کے تما م ذہنی اورفکری رشتے وابستہ تھے ۔الغرض امتِ مسلمہ یہ جان لے کہ اقبالؒ کے کلام کی روشنی میں عشق رسولﷺ کا صحیح مفہوم ومدعا ”اتباع رسولﷺ“ہے،چنانچہ ارشاد باری تعا لیٰ ہے : مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ(۲۷) ”جس نے رسولﷺکی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔“

 

علامہ اقبالؒ ملت اسلا میہ سے فرما تے ہیں:

 

 

بمنزل کوش مانندِ مہِ نو   دریں نیلی فضاہر دم فزوں شو
مقام ِ خویش اگر خواہی دریں دیر   بحق دل بند وراہِ مصطفی رو (۲۸)

اے مسلمانو ں ! تم نئے چاند کی طرح منزل کو پانے کی کوشش کرو ۔ اس نیلی فضا (آسمان ) میں ہر لمحہ بڑھتے رہو اگرتم اس جہاں میں اپنا ( کھو یا ہوا )مقام پا ناچاہتے ہو تو اللہ سے دل لگا ؤ اور حضرت محمدﷺکے راستے پر چلو ( انکی شریعت ، سنت اور اسوئہ حسنہ کو اختیار کرو )۔ یہی درحقیقت امت کے اتحاد کی کنجی ہے، امت کا احیاء اور وجود عشقِ مصطفےٰ ہے، اسی رشتہ سے ملت اسلامیہ قائم و دائم ہے۔ رموزِ بیخودی میں علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

 

 

عشقِ او سرمایہ جمعیت است   ہمچو خوں اندر عروق ملت است
عشق در جان و نسب درپیکر است   رشتہ عشق از نسب محکم تر است (۲۹)

حضورﷺ کا عشق ہی ہمارے لئے یکجا رہنے کا سامان ہے۔ یہ عشق خون کی طرح ملت کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ عشق جان میں اتر جاتا ہے اور نسب صرف جسم تک محدود رہتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ عشق کا رشتہ نسب کے رشتے سے زیادہ مضبوط ہے۔ فی زمانہ ہم نے عشقِ رسول ؐ کو غیر اہم سمجھ رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا میں ذلیل و خوار ہیں۔ اگر ہم آنحضرت ﷺ کی محبت کو دل میں جا گزیں کریں اور اپنے عمل سے اس کو ثابت کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دنیا میں حسبِ سابق معزز و موقر نہ ہوں۔ کائنات میں رونق کا سبب صرف حضور انورﷺ کا عشق ہی ہے۔ اگر کائنات سے یہ جذبہ عشق معدوم ہو جائے تو وہ خالی اور بے مقصد ہو جائے گی۔

 

حواشی و حوالہ جات

(۱) کلیاتِ اقبال (اردو )ضرب کلیم ،غلام علی پبلیشرز،لاہور،فروری ۱۹۷۳ء، ص۱۱۸

 

(۲)ایضاً، ارمغان حجاز،ص ۴۹(۳)ایضاً،با ل جبریل ، ص ۹۴

 

(۴)ڈاکٹرمحمد طاہرفاروقی ، اقبال اور محبت رسول،بی پی ایچ پرنٹرز، لاہور،س ن، ص۲۳

 

(۵)کلیاتِ اقبال (اردو )،با ل جبریل ، محولہ بالا،ص ۹۴(۶)ایضاً، ص ۱۱۲

 

(۷)القرآن الکریم ، ۲:۱۶۵

 

(۸) محمد بن اسماعیل بخاری،صحیح البخاری،دار طوق النجاة،دمشق،۱۴۲۲ھء، کتاب الایمان ،باب حب الرسول ، ص۱۲

 

(۹)ڈاکٹرحافظ محمد طفیل ، حب رسول کی قرآنی بنیا دیں ،البغداد پرنٹرز ،فیصل آباد،س ن، ص ۲۰

 

(۱۰)کلیاتِ اقبال (فارسی ) ، پس چہ باید کرد، غلام علی پبلیشرز،لاہور،فروری۱۹۷۳ء، ص ۳۲

 

(۱۱)ایضاً ، پس چہ با ید کرد ،ص۶۸(۱۲)ایضاً ، اسرارخود ی ، ص ۱۹

 

(۱۳) سید وحید الدین فقیر ،روزگارفقیر ،لاہور،۱۹۶۳ء، جلد اول ، ص ۹۴، ۹۵

 

(۱۴)کلیاتِ اقبال (فارسی ) ، پیام مشرق ،محولہ بالا، ص۲۰

 

(۱۵)القرآن الکریم، ۳: ۳۱

 

(۱۶)مترجم سید زوّار حسین شاہ، مکتوبات امام ربّانی مجدد الف ثانی رحمه الله،زوّار اکیڈمی،۲۰۱۴ء،دفتر اول مکتوب ۴۴، ص ۱۵

 

(۱۷)کلیاتِ اقبال (فارسی ) ، جاوید نامہ ،محولہ بالا، ص ۱۳۰(۱۸)ایضاً ، اسرارِخودی ، ص۲۱،۲۲

 

(۱۹)القرآن الکریم، ۹: ۲۴

 

(۲۰)کلیاتِ اقبال (فارسی ) ، ارمغانِ حجاز ، محولہ بالا ، ص ۲۴

 

(۲۱)ایضاً ، ص ۲۶(۲۲)ایضا ً ، ص ۴۶(۲۳)ایضا ً ، ص ۵۴

 

(۲۴)ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، فکرِ اقبال،زاہدہ نوید پرنٹرز، لاہور، مارچ ۲۰۱۵ء،ص ۱۹۶

 

(۲۵)صحیح البخاری،محولہ بالا، ص۱۲۹

 

(۲۶)کلیاتِ اقبال (اردو ) بال جبریل ،محولہ بالا، ص۲۵

 

(۲۷)القرآن الکریم ،۴: ۸۰

 

(۲۸)کلیاتِ اقبال (فارسی ) ، ارمغان حجاز ، محولہ بالا ،ص ۶۵

 

(۲۹)ایضاً، رموز بےخودی،محولہ بالا، ص۱۶۳

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...