Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Loading...
Loading...
Loading...
Loading...
Loading...
Loading...

قومی اتحاد

قومی اتحاد
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امّا بعد فاعوذ بااللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معزز اسا تذہ کرام اور میرے ہم مکتب شاہینو!
آج مجھے جس موضوع پر اظہار خیال کرنا ہے وہ ہے:’’قومی اتحاد‘‘
جناب صدر!
واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقو، تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو دینِ اسلام اس فرمان کی روشنی میں قومی اتحادکی تلقین کر رہا ہے۔ قومی اتحاد ملی وحدت کی ضمانت ہے۔
محترم صدر!
اتحاد جس شکل میں بھی موجود ہو قابل تحسین تصور کیا جاتا ہے، جوقوم ملی اتحاد کی دولت سے مالا مال ہوتی ہے وہ ہر لحاظ سے خوش و خرم ہوتی ہے، اس کی فضاؤں میں آلودگی نہیں ہوتی ، اس کے کھلیانوں میں خش و خاشاک نہیں ہوتے، اس کے بحر گرد جہالت سے خالی ہوتے ہیں، اس کے افراد کی عروق مردہ نہیں ہوتیں، اس کے میدان ویران نہیں ہوتے، اس کے ہسپتال آباد نہیں ہوتے۔
محترم صدر!
اتحاد جس قوم میں بھی ہو وہ دیگر اقوام میں ممتاز ہوتی ہے، اس کے وجود میں حسن اور نکھار پیدا ہو جاتا ہے۔ چند اینٹیں متحد ہو جائیں تو ایک مکان تعمیر کر دیتی ہیں، ایک عمارت بنا دیتی ہیں، ایک دیوار کھڑی کر کے بے پردہ گھر کو با پردہ بنادیتی ہیں، چند قطرے اکٹھے ہو جائیں تو ایک بحیرہ اور پھر بحر کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، چند ذرّے اکٹھے اور متحد ہو جائیں تو ریگستان وجود میں آتا ہے۔
صدرِ ذی وقار!
اسلام میں اتحاد پر بہت زور دیا گیا ہے، حدیث نبویؐ ہے مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، مسلمان مسلمان کو کبھی گالی نہیں دیتا، مسلمان مسلمان کو برا بھلا نہیں کہتا، اسلام کے زیور سے مرصعّ شخص معاشرے...

أحكام الحرابة و إختطاف الطائرات

This research article consist unique study regarding constitution of Human being character building in the thoughts of eminent philosopher Shah Wali Ullah (1703-1764). In present critique the focus has been made to explore how individual characters build in the specific environments? How surrounding effects on the character building? Moreover linkage of Islamic ‘IB└DA and its positive impact on the Muslim society has been explored. In interpretation of Shah Wali Ullah, All ‘IB└DA are like tools which lead to generate four basic ethics i.e purity and transparency capitulation, gainful and abstinence. These are the basic moral code which are the ultimate result of the four kind of ‘IB└DA i.e prayer, fasting, zakat and hajj. Muslim has inestimable inner power in the form of six lat┐’ef )اطلفئ, )which ultimately resulted upon the change of behavior. Character building are etiquettes, noble practices, decentness and good morality. It is generally refers to a code of conduct, that an individual group or society hold as authoritative in distinguishing right from wrong. Ethics are phenomenon values and can develop up to reasonable universal standards. Conduct in Islam governs all aspects of life and specifically addresses such principles as truthfulness, honesty, trust, sincerity, brotherhood and justice, while Islam forbid false, conspiracy, dodge, rude, irascibility, corruption. To materialize the virtues and disgrace the fake a role model prophet Muhammad (S.A.W) were deputed from Allah to guide the human being. So In present article character building in the theory of Shah Wali Ullah especially while in other Muslims scholars in general has diagnosed.

حدیث میں ناسخ و منسوخ Abrogating and Abrogated in Hadith

مقدمہ دین فہمی کے لیے جہاں قرآن و حدیث کا علم کلیدی کردار اداء کرتا ہے وہیں حدیث فہمی میں درایت حدیث ایک بنیادی امر ہےاور درایت حدیث اس وقت تک ممکن نہیں جب تک علم اسباب ورودِ حدیث،علم فقہ الحدیث ، علم مشکل الحدیث کے ساتھ ساتھ علم ناسخ و منسوخ الحدیث کا فہم حاصل نہ ہو،بلکہ حضرت ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ »مر علی علیٰ قاص فقال أتعرف الناسخ من المنسوخ؟ قال لا قال ھلکت و أھلکت«( ) ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گزر ایک قصہ گو کے پاس سے ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا تمہیں ناسخ و منسوخ کا علم ہے انہوں نے عرض کیا نہیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو خود بھی ہلاک ہوا اور ہلاک کررہا ہے‘‘۔ یعنی کسی بھی فن کے ناسخ و منسوخ کے علم کے بنا اس فن میں جد وجہد کرنا ہلاکت کے مانند ہے۔ کیونکہ اگر وہ ناسخ و منسوخ کے علم سے عاری رہتے ہوئے منسوخ روایت کی ترویج کرتا رہے تو یہ اس کے لیے دارین میں محرومی کا باعث ہو گا۔ یہاں یہ اشکال دور کرنا بھی ضروری ہےکہ نسخ اور نظر ثانی ہم معنیٰ نہیں بلکہ اس میں واضح فرق موجود جیسے نسخ میں ایک حکم کو دوسرے حکم سے بدل دیا جاتا ہے مثال کے طور پر پہلے ایک چیز جائز تھی پھر ناجائز قرار پا جاتی ہے یا اس کے برعکس ہو تاہے، البتہ نظر ثانی یہ ہے کہ آدمی پہلے ایک کام کا ارادہ کرے پھر اس کو ترک کر دے مثال کے طور پہ ایک آدمی سوچے کہ فلاں شخص کی طرف جاؤں پھر سوچے کہ اس کے پاس نہ جانا بہتر ہے تو اپنے فعل سے رک جائے یہ صرف انسانوں کے ساتھ ہی پیش آتا ہے اس فرق کی وضاحت یوں ہے کہ نسخ میں شارع کے علم میں یہ بات موجود ہے کہ جو حکم دیا جا رہا ہے وہ کتنے عرصے پہ محیط ہو گا جبکہ نظر ثانی کرنے واے کو اس کا علم نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے پہلا کام بھی اٹل ہی ہوتا ہے ۔( ) ایک اور اشکال کی وضاحت کر دوں کہ نسخ کا وجود حضور نبی آخر الزمان ﷺ کی اختراع نہیں بلکہ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے قبل والے سماوی ادیان میں اس کے وجود کے شواہد موجود ہیں جیسا کہ خالق کائنات اللہ رب العزت نے لاریب کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: ﴿فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَہُمْ وَ بِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ کَثِیرًا ﴾ ( ) ’’تو یہودیوں کے بڑے ظلم کے سبب ہم نے وہ بعض ستھری چیزیں کہ اُن کے لئے حلال تھیں ، اُن پر حرام فرمادیں اور اس لئے کہ انہوں نے بہتوں کو اللہ کی راہ سے روکا۔‘‘ تو ثابت ہوا کہ نسخ یہودیوں کے ہاں بھی موجود تھا کہ حلال چیزوں کی حلت کو منسوخ کرنے کے لیے حکم حرمت نازل ہوا۔ حدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم مشکل ترین مہم ہے۔ زہری کہتے ہیں، ’’حدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم حاصل کرنے کی کوشش نے اہل علم کو تھکا دیا ہے۔‘‘اس علم کے سب سے مشہور ماہر امام شافعی ہیں۔ وہ اس کام میں ید طولی رکھتے تھے اور دوسروں کی نسبت اس میدان میں بہت آگے تھے۔ امام شافعی جب مصر چلے گئے تو امام احمد بن حنبل نے ابن وارہ سے کہا، ’’کیا آپ نے شافعی کی کتب لکھ رکھی ہیں؟‘‘انہوں نے کہا،’’جی نہیں۔‘‘ امام احمد کہنے لگے، ’’یہ تو آپ نے بڑی غلطی کی۔ ہم میں سے کوئی مجمل و مفسر اور حدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم نہیں رکھتا تھا۔ جب ہم امام شافعی کے ساتھ بیٹھنے لگے تو ہمیں یہ چیزیں معلوم ہوئیں۔‘‘( ) اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر علامہ حازمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق کتاب الاعتبا ر میں لکھتے ہیں کہ ’’ثم ھذا الفن من تتمات الاجتہاد ، اذا الرکن الاعظم فی باب الاجتہاد معرفۃ النقل و من فوائد معرفت النقل الناسخ والمنسوخ ‘‘ ( ) ’’یہ اجتہاد کا بھی تتمہ ہے کہ اجتہاد کے باب کا اہم رکن دلائل نقلیہ کی معرفت ہے اور دلائل نقلیہ کی پہچان ناسخ و منسوخ کے علم کے بغیرنامکمل ہے۔‘‘ اتنا اہم اور دقیق موضوع اس پر اردو زبان میں اتنا کام موجود ہی نہیں تھاجو قارئین و محققین کے لیے کافی و وافی ہو تو راقم نے اس موضوع پر ایم فل کی سطح کا مقالہ لکھ کر آئندہ آنے والے محققین کے لیے ایک راستہ اور میدان مہیا کیا ہے البتہ اس موضوع کا ایک اہم پہلو تاحال تشنہ ہے جو کہ دوران تحقیق واضح ہوا اور وہ ہے اصولیین کی ابحاث ،میرا عنوان چونکہ علم حدیث کی حدود میں تھا جس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی بھرپور کوشش کی، آخر میں بارگاہ لم یزل میں دعا گو ہوں کہ وہ اس کو قبول فرما کر میرے لیے ذریعہ نجات بنائے۔ مقالہ نگار محمد حسنین رضا
Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.