Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Īqān > Volume 1 Issue 2 of Īqān

بیع سلم میں تلفیق بین المذاہب کی فعالیت: هيئة المحاسبة کے فتاوی کا تحقیقی جائزہ |
Īqān
Īqān

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682731180342_621

Pages

17-32

DOI

10.36755/iqan.v1i02.70

PDF URL

https://iqan.com.pk/index.php/iqan/article/download/70/33

Chapter URL

https://iqan.com.pk/index.php/iqan/article/view/70

Subjects

Talfiq Finance Bay-e-Salam AAOIFI financial

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف:

کسی ایک مسئلہ کے مختلف اجزاء میں،ایک باب کے مختلف مسائل میں،یا مختلف ابواب میں مختلف فقہاء کے اقوال و مذاہب کو اختیار کرنا تلفیق کہلاتاہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں انسانی زندگی کے ہر شعبے میں بڑی تیزی سے تبدیلی آئی ہے ،اور دن بدن مزید آرہی ہے، خاص کر معاشی شعبے میں تجارتی معاملات میں مختلف ممالک کے قوانین اور سودی مالیاتی اداروں کی پوری دینا میں موجودگی سےا سلامی مالیاتی اداروں کے لئے بہت سی پیچیدگیاں اور مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔اسلامی مالیاتی اداروں کے ان نئے اور پیچیدہ مسائل کا حل اور پورے مالیاتی نظام کو اسلامی قالب میں ڈھالنے کے لئے کسی ایک فقہی مذہب کو اختیار کرنا اور اسی میں رہ کر ان تمام جدید معاشی مسائل کا حل تلاش کرنااور ان کو جدید معاشی نظام میں قابلِ عمل بنانا، صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔اس لئے’ہیئۃ المحاسبۃ والمراجعۃ للمؤسسات المالیۃ الاسلامیۃ‘(بحرین) کی مجلس شرعی ان تمام معاشی مسائل کے حل کے لئے "تلفیق بین المذاہب "کا سہارا لیتی ہے۔ چنانچہ" ہیئۃ المحاسبہ " نےدیگر عقود کی طرح بیع سلم پر بھی ایک مستقل شرعی معیار"السلم والسلم الموازی"کے نام سے تیارکیاہے، اس میں بیع سلم کی عصر حاضر میں قابل عمل ا ورمنافع بخش ممکنہ صورتوں کے شرعی اصول وضوابط بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں- بیع سلم کو آج کل اسلامی مالیاتی ادارے بڑے پیمانے پر طریقہ تمویل کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ، کیونکہ شریعت نے سلم کی اجازت کاشتکاروں اور تاجروں کی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے دی ہے۔اس لئے یہ بنیادی طور پر چھوٹے تاجروں اور کاشتکاروں کیلئے ایک طریقہ تمویل ہے اور یہ طریقہ جدید اسلامی مالیاتی ادارے بکثرت استعمال کرتے ہیں ،خاص طور پر زرعی شعبے کی تمویل کیلئے تو اس کا استعمال بہت زیادہ ہے۔عام طور پر سلم میں قیمت عام بازار سے کم طے ہوتی ہے یعنی بازار میں وہ چیز مہنگی ہوتی ہے اور بیع سلم میں ان کی قیمت کم طے کی جاتی ہےتو اس طرح ان دونوں قیمتوں کے درمیان جو فرق ہوگاوہ بنکوں اور مالیاتی اداروں کا جائز منافع ہوگا۔

ذیل میں اس شرعی معیار میں سے تلفیق پر مبنی فتاوی جات کا جائزہ لیا جائےگا، کہ مجلس شرعی نے اس معیار میں کہاں کہاں تلفیق کی ہے؟ اور یہ تلفیق جائز ہے یا ناجائز؟ اور اگر جائز ہے تو وجوہ جواز کیا ہیں؟

تلفیق کا لغوی معنی:

تلفیق باب تفعیل سے مصدر کا صیغہ ہے، جو لفق سے مشتق ہے، مجرد میں اس کا باب ضرب ہے۔کہا جاتا ہے:لفق الثوب جس کا معنی ہے ایک کپڑے کو دوسرے کے ساتھ ملا کر سی دینا۔ مختلف اشیاء کو ملا کر ایک بنا دینے کو اہل لغت تلفیق کا نام دیتے ہیں۔ جیسے تلافق القوم کا معنی تلائمت امورهم کہ ان کے معاملات باہم ملے جلے ہیں۔ اسی لئے ایسی دو چیزیں جو دائمی ملی ہوئی ہوں انہیں لفقان کہا جاتا ہے۔[1]قدیم فقہاء کے ہاں لفظ تلفیق لغوی معانی میں ہی مستعمل ہے،چنانچہ حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کے ہاں حیض کے باب میں پندرہ دن سے کم طہر کے ایام کودونوں طرف کے دم سے ملا کر حیض شمار کیا جاتا ہے۔جب کہ شوافع یہاں تلفیق کے قائل نہیں ہیں ،اسی طرح مالکیہ بحری اور بری سفر میں تلفیق کے قائل ہیں،یعنی دونوں کو ملاتے ہیں جبکہ حنفیہ یہاں تلفیق کے قائل نہیں ہیں ۔

یہ اور اس قسم کے دیگر کئی مسائل میں قدیم فقہاء لفظ تلفیق کو اس کے لغوی معنی ضم کرنےکے میں ہی استعمال کرتے ہیں۔چنانچہ جمال الدین قاسمی لکھتے ہیں:

’’لم یسمع لفظ التلفیق فی کتب الائمة ولا فی موطاتهم ولا فی امهاتهم ولا فی کتب اصحابهم ولا اصحاب اصحابهم‘‘[2]

’’تلفیق کا لفط ائمہ کی کتب میں نہیں سنا گیا ،نہ ان کی مذہب کی امہات کتب میں،نہ ان کے شاگردوں کی کتب میں ،اور نہ ہی ان کے شاگردوں کے شاگردوں کی کتابوں میں‘‘

مصنف تلفیق کے اصطلاحی معنی کا ہی انکار کر رہے ہیں کہ اس اصطلاحی معنی میں تلفیق کا ذکر ان کی کتب میں نہیں ملتا۔

تلفیق کی اصطلاحی تعریف:

تلفیق کی اصطلاحی تعریفات بہت سے علماء سےاپنے اپنے انداز میں کچھ کمی بیشی کے ساتھ منقول ہیں ، ان سب کا ما حصل یہ ہے:

’’ التلفیق ان الاخذ فی الاحکام الفقهیة بقول أکثر من مذهب فی أبواب متفرقة أو باب واحد أو فی أجزاء الحکم الواحد‘‘[3]

’’تلفیق یہ ہے کہ احکام فقہیہ میں ایک سے زائد مذاہب کو مختلف ابواب،یا ایک باب ،یاایک مسئلہ کے مختلف اجزاء میں جمع کر دینا۔ ‘‘

گویا کہ اس تعریف کے مطابق تلفیق کی تین صورتیں ہیں:

  1. مختلف ابواب میں تلفیق کرناجیسے نماز میں ایک امام کے اقوال پر عمل کرنا اوراور زکوۃ میں دوسرے امام کے مذہب کو اختیار کرنا۔
  2. ایک باب میں مختلف ائمہ کے اقوال پر عمل کرناجسے وضو کے طریقہ کا ر میں حنفیہ کے مذہب کو اختیار کیا اور غسل میں شوافع کے اقوال کو لےلیا۔
  3. ایک ہی مسئلہ کے مختلف اجزاء میں مختلف مذاہب کو جمع کر دیناجسے وضوء کرتے ہوئے صرف چند بالوں کا مسح شافیعہ کے مذہب کے مطابق کیا اور پھر مس امرۃ میں حنفیہ کے مذہب کو اختیار کیا۔یہ تمام صورتیں علماء کے ہاں اصطلاحی تلفیق کی ہیں،اور ان کےجوازاور عدم جواز میں کا فی تفصیلی مباحث موجود ہیں ،خاص کر آخری صورت میں کافی شدت پائی جاتی ہے۔کیوں کہ تلفیق تقلید ہی کی ایک صورت ہے چنانچہ اس کا جواز اور عدم اس بحث پر موقوف ہے کہ کسی معین فقہی مذہب کی تقلید ضروری ہے یا نہیں؟ اس بارے میں تمام علماء کےتین نقطہ نظر سامنے آتے ہیں۔

مطلق عدم جواز:

بہت سے علماء ہر قسم کی تلفیق کے عدم جواز کے قائل ہیں،ان میں ابوالمعالی ،امام الحرمین عبدالملک الجوینی،علی بن محمد الکیاالھراسی اور محمد بن احمد السفارینی عدم جواز کے قول میں مشہور ہیں۔ ان حضرات کی مشہور دلیل یہ ہے کہ اس سے تکالیف شرعیہ کا خاتمہ ہو جاے گا اور بعض د فعہ حرام چیز حلال ہو جائے گی۔[4]

مطلق جواز:

بعض علماء تلفیق کو مطلقا جائز قرار دیتے ہیں۔ان میں کمال الدین علامہ ابن ہمام، محمد امین بن محمود امیر بادشاہ اور علامہ ابن عابدین کے نام مشہور ہیں۔ان حضرات نےبہت سے دلائل دیئے ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ تلفیق میں آسانی ہے جو شریعت اسلامیہ میں پسندیدہ ہے،اور صحابہ وتابعین کاعمل بھی اس کے جواز پر دال ہے،نیز شریعت میں کہیں بھی اس کی ممانعت وارد نہیں ہوئی،لھذا تلفیق مطلقا جائز ہے۔[5]

مشروط جواز:

اہل علم کی ایک کثیر جماعت تلفیق کو چند شرائط کے ساتھ جائز قرار دیتی ہے،ان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ،ابن قیم جوزی، علامہ احمد بن ادریس القرافی،حافظ خلیل العلائی،عبدالرحمن بن یحی المعلمی،شاہ ولی اللہ،ڈاکٹر وھبۃ الزحیلی اور موجودہ دور کےبہت سے محقین علماءشامل ہیں،ا ن حضرات کے بھی وہی دلائل ہیں جو مطلقا جواز کے قائلین کے ہیں البتہ ان حضرات میں سے بعض نے تلفیق کے جواز کے لئےایک ،بعض نے دو اور بعض نے دو سےزیادہ شرائط لگائی ہیں۔[6]

تلفیق کے جواز کی شرائط:

۱۔ تلفیق تب جائز ہو گی جب اس کی واقعی حاجت اور ضرورت ہو گی،اتباع ہوی یا تکلیفِ شرعی سے بچنے کے لئے نہ ہو۔

۲۔ مسئلہ ملفوقہ کی مرکب صورت کی مخالفت پر اجماع نہ ہو ،مثلا ایک آدمی امام شافعی کے مذہب کے مطابق کہتا ہے کہ نبیذ اور خمر حکم میں برابر ہیں،پھرامام ابو حنیفہ کےمذہب پر عمل کرتے ہوئے کہتاہے کہ نبیذ حلال ہے ۔اور کیوں کہ یہ دونوں امام شافعی کے نزدیک حکم میں برابر ہیں لھذا خمر بھی حلال ہے ۔تو ایسی تلفیق باطل اور حرام ہے۔

۳۔ تلفیق کے جواز کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ مقاصد ومزاجِ شریعت کے مخالف نہ ہو ۔جیسے ایک شخص ولی ،مہر اورگواہوں کے بغیر نکاح کرتا ہے ،اور بالترتیب امام ابوحنیفہ ا، امام شافعی اور امام مالک کی تقلید کا دعوٰ ی کرتا ہے ۔ تو یہ تلفیق نا جائز ہے ،کیوں کہ یہ

مزاج شریعت کے مخالف ہے ۔اس میں کئی مفاسد پائے جاتےہیں ۔مثلاعورت کے حق کا ضیاع ، تہمت اورزنا کی بہت زیادہ آسانی ۔

۴۔ قضائے قاضی کی مخالفت نہ ہورہی ہو۔کیوں کہ قاضی کا حکم رافع ِ اختلاف ہے۔

۵۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ مسئلہ کی صورت مرکبہ کو مبتلاء بہ یا مفتی حالات حاضرہ کے مطابق راجح اور درست سمجھتا ہو۔[7]

بیع سلم کی تعریف:

سلم کا لغوی معنی ہے دینا ، چنانچہ ’اسلم الثوب للخیاط ‘کا معنی ہے درزی کو کپڑا دیا۔ اصطلاح شرح میں سلم سے مراد بیع الآجل بالعاجل، نقد کے ساتھ ادھاربیع کرنا،یعنی ثمن نقد ادا کرنا اور مبیع ادھار لینا۔[8]

بیع سلم کا جواز اور مشروعیت قرآن وحدیث اور اجماع تینوں سے ہے۔

’’يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوه‘‘ [9]

’’اے ایمان والو جب تم ادھار کا معامہ کسی متعین وقت تک کرنے لگو تو اسے لکھ لیا کرو‘‘

عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں وہ عقد سلم جس کی مدت متعین ہو اسے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے اور اس کی اجازت دی ہے ،پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔[10]

اس اثر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس کے نزدیک بیع سلم کا جواز قرآن سے ہے، اور اس آیت میں کیونکہ دَین کو حلال اور مباح قرار دیاہےاور عقد سلم دَین کی ایک قسم ہے، لھذ ا وہ حلال ہے۔چنانچہ ابن عربی لکھتے ہیں:

’’ہر وہ معاملہ دین ہے جس میں ایک عوض نقد ہو اور دوسرا ذمہ میں ادھار ہو ،اس لئے کہ عربوں کے نزدیک جو حاضر ہے وہ عین ہے جو ادھار ہے وہ دَین ہے۔‘‘[11]

سلم کی مشروعیت میں جو احادیث مبارکہ موجودہیں ان میں خاس طور پر عبداللہ بن عباس کی روایت ہے جس میں وہ

فرماتے ہیں کہ جب آپﷺمدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کھجور میں دو تین سال کے لئے عقد سلم کرتے تھے،تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:

’’من أسلف فی تمرفلیسلف فی کیل معلوم ووزن معلوم الی أجل معلوم‘‘[12]

’’جو شخص کھجور میں عقد سلم کرے ،اسے متعین کیل،متعین وزن اور متعین مدت تک کرنا چاہیے۔‘‘

ابن المنذر نے کہا کہ ہمارے علم کے مطابق تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ بیع سلم جائزہے۔[13]

بیع سلم کاخلاف قیاس ہونا:

بیع سلم خلاف قیاس مشروع ہے؛ جمہورفقہاء کے نزدیک بیع سلم قیاس اور شریعت کے عام قواعد کے خلاف بطور استثناء لوگوں کی ضرورت وحاجت کی بنیاد پر مشروع ہوئی ہے۔چنانچہ علامہ ابن نجیم نے واضح کہا ہےکہ یہ خلاف قیاس ہے اس لئے کہ یہ معدوم کی بیع ہے،حاجت کی بنیاد پر نص اور اجماع سے جائز ہے۔[14]

اس طرح علمائے مالکیہ نے بھی اس بات کی صراحت ہے کہ بیع سلم رخصت ہے ،جو چیز بائع کے پاس نہ ہو اس کی بیع جا ئز نہیں ہے لیکن یہ اس سے مستثنی ہے۔

تلفیق اور بیع سلم کی کے بارے میں ان ضروری مباحث کے بعد ذیل میں’’ہئیۃ المحاسبۃ والمراجعۃ للمؤسسات المالیہ ‘‘ کا بیع سلم پر تیار کردہ شرعی معیار ’’ السلم والسلم الموازی‘‘ میں تلفیق پر مبنی صورتوں جائز ہ لیا جاتا ہے۔

منفعت کا راس المال بننا:

بیع سلم میں مبیع کو مسلم فیہ، ثمن کو راس المال ،بائع کو مسلم الیہ اور مشتری کو رب السلم اور مسلم کہا جاتا ہے ۔اب مسئلہ یہ ہے کہ راس المال نقدی ضروری ہے یا کسی چیز کی منفعت کو بھی راس المال بنایا جا سکتا ہے؟ صورت مسئلہ یہ ہے کہ راس المال اگر کوئی عین نہ ہو بلکہ اس کے منافع ہوں تو یہ درست ہے یا نہیں ؟اس میں فقہاء کا اختلاف ہے۔

جمہور کا مذہب:

جمہور فقہاء مالکیہ،شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک منافع راس المال بن سکتے ہیں؛

دلیل:

جمہور فقہاء کی دلیل یہ ہے کہ منافع بذات خود اموال ہیں،ان کے اصول و مصادر پر قبضہ کر کے ان پر بھی قبضہ کیا جا سکتا

ہے،اور ان کے اصول ومصادر وہ اعیان ہیں جن سے نفع حاصل کیا جاتا ہے، اس لئے انہوں نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ عقد سلم میں منافع کو راس المال بنایا جاسکتا ہے لہذا اگر رب السلم یہ کہے کہ میں نے اپنا یہ مکان تم کو ایک سال کی رہائش کیلئے بطور عقد سلم دیا اور تم مجھے اتنی گندم فلاں تاریخ کو دو گے تو یہ درست ہے۔[15]

حنفیہ کا مذہب:

حنفیہ کے نزدیک راس المال کا منفعت ہونا درست نہیں ہے۔اس لئے کہ اگرچہ منافع ملک ہیں، لیکن حنفیہ کے نزدیک یہ مال نہیں ہیں،کیونکہ حنفیہ کے نزدیک مال وہ ہے جس کی طرف انسانی طبائع کا میلان ہو،وقتِ ضرورت کیلئے اس کومحفوظ رکھنا ممکن ہو۔[16] اور منافع قبضہ کرنے اور محفوظ کرنے کے لائق نہیں ہیں،کیونکہ یہ اعراض ہیں اور دہیرے دہیرے آناً فاناً پیدا ہوتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں ،اس لیے حنفیہ کے نزدیک عقد سلم میں منافع کو راس المال بنانا درست نہیں ہے۔[17]

مجلس شرعی کا فیصلہ:

مجلس شرعی نے اس مسئلہ میں جمہور فقہاء کا مذہب اختیار کیا ہے اور اپنے شرعی فیصلے میں منافع کے راس المال بننےکو جائز قرار دیا ہے۔چنانچہ المعاییر الشرعیۃ میں ہے:

’’يجوز أن يكون رأس مال السلم عينا من المثليات ۔۔۔ويجوز أيضاً أن يكون منفعة عامة لعين معينة كسكنى الدار أو الانتفاع بطائرة أو باخرة لمدة محددة، ويعتبر تسليم العين التي في محل المنفعة قبضا معجلا لرأس المال‘‘[18]

’’یہ جائز ہے کہ سلم کا راس المال مثلی اشیاء میں سے کوئی متعین چیز ہو ۔۔۔اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ کسی متعین چیز کے منافع سلم کا راس المال ہوں جیسے ایک متعین مدت کیلئے گھر کی رہائش یا ہوائی جہاز کا استعمال،اس صورت میں اس متعین چیز جو کہ منفعت کا محل ہے کو سپرد کر دینے سے سلم کے سرمائے کی پیشگی ادائیگی شمار کی جائے گی۔‘‘

اس کی شرعی بنیاد ذکر کرتے ہوئے مجلس شرعی کے علماءنے لکھا ہے :

’’مستند جواز كون المنفعة رأس مال السلم مبني على ما صرح به المالكية وقد استندوا في ذلك

إلى قاعدة قبض الأوائل قبض للأواخر ، فلا يصير حينئذ بيع دين بدين‘‘[19]

’’منفعت کو سلم میں قیمت کے طور پر طے کرنے کا جواز مالکیہ کی صراحت کی بنیاد پر ہے،اور اس سلسلے میں انہوں نے ایک فقہی قاعدہ ”اوائل پر قبضہ کرنا اواخر پر قبضہ کرنا شمار ہو جاتا ہے“کو بنیاد بنایا ہے چنانچہ اس صورت میں ادھار کے بدلے

میں ادھار کی فروخت نہیں آئے گی۔‘‘

اس مسئلہ میں مجلس شرعی نے امام مالکؒ کا قول اختیار کیا ہے اور امام مالکؒ کے نزدیک منافع اگرچہ بتدریج وجود میں آتے ہیں لیکن ان کے ہاں ایک قاعدہ ہے :”قبض الاوائل قبض الاواخر“[20]اوائل یعنی پہلے حصوں پر قبضہ اواخر یعنی بعد والے حصوں پر قبضہ شمار ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد پر منافع کے محل پر جب قبضہ کر لیا اور اوائل پر جب قبضہ ہو تو گویا کہ تمام منافع پر قبضہ ہوگیا۔

مجلس شرعی کے فیصلے کا جائزہ:

مجلس شرعی کا یہ فیصلہ درست معلوم ہوتا ہے اس کی وجوہ مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں؛

1:آج کل عرف میں منافع کے ساتھ مال والا ہی برتاؤ کیا جاتا ہے، اس لئے یہاں بھی ان پر مال کا حکم ہی لگایا جائے گا۔

2:وقت اور ضرورت کی بنیاد پر بھی اس مسلک کو اختیار کرنا بینک اور لوگوں کی ضروریات کے مطابق ہے اس لئے یہاں امام مالک کا مذہب اختیار کرنا درست اور اقرب الی الصواب ہے۔

مجلس ِعقد میں راس المال پر قبضہ کرنا:

بیع سلم میں مبیع تاخیر سے ادا کی جاتی ہے لیکن راس المال کی ادائیگی میں تاخیر جائز ہے یا نہیں؟اس میں علماء کا اختلاف ہے؛

حنفیہ ،شافعیہ اور حنابلہ کا قول:

حنفیہ شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک بیع سلم کے جواز کیلئے ضروری ہے کہ مجلس عقد میں ہی راس المال پر قبضہ پایا جائے،اگر راس المال پر قبضہ نہ کیا گیا تو بیع سلم درست نہیں۔[21]

جمہور کے دلائل:

جمہور کی پہلی دلیل عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی سابقہ حدیث ہے :

’’من أسلف فلیسلف فی کیل معلوم ووزن معلوم الی أجل معلوم‘‘[22]

’’جو عقد سلف کرے وہ متعین کیل ،متعین وزن میں متعین مدت کیلئے کرے۔‘‘

عربی میں تسلیف کا معنی فوری دینا ہوتا ہے لہذا جس کے ساتھ عقد کیا ہے اس کے جدا ہونے سے پہلے اس کو مال نہیں دیا

جس کے ذریعے عقد سلف ہوا تو اسے عقد سلف نہیں کہا جائے گا بلکہ وعدہ سلف کرنے والا ہوگااس لئے یہ درست نہیں۔[23]

ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ راس المال پر قبضہ کرنے سے قبل جدا ہو جانا ادھار کی بیع ادھار سے کر کے جدا ہونا ہوگا اور یہ بالاجماع ممنوع ہے۔[24]

تیسری دلیل یہ ہے کہ سلم میں دھوکا ہے، لیکن ضرورت کی وجہ سے اس کو خلاف قیاس(استحساناً) مشروع کیا گیا ہے، لہذا دوسرے عوض یعنی راس المال پر فوری قبضہ کے ذریعے اس کی تلافی کی جاتی ہے تاکہ طرفین میں دھوکا مزید نہ بڑھے۔[25]

چوتھی دلیل یہ ہے کہ عقود میں شرعی مقصد یہ ہے کہ محض ان کے انعقاد سے ان پر آثار مرتب ہوں تو اگر دونوں بدل یعنی مسلم فیہ اور راس المال موخر ہو جائیں گے تو عقد اپنے اصلی حکم اور اس کی غرض ومقتضی ٰکے خلاف عاقدین کیلئے غیر مفید رہ جائے گا ،اسی وجہ سے ابن تیمیہ نے عقد سلم میں راس المال کی تاخیر کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ممنوع ہے تاکہ عاقدین میں سے ہر ایک کا ذمہ بغیر کسی فائدے کے مشغول نہ ہو ۔نہ اس کو فائدہ ہو نہ دوسرے کو فائدہ ہو ،اور عقود کا مقصد قبضہ کرنا ہوتا ہے اور یہ ایسا عقد ہو جائے گا جس سے مقصد بالکل ہی حاصل نہ ہوگا۔ بلکہ یہ بلا فائدہ ایک چیز کو اپنے اوپر لازم کرنا ہوگا۔[26]

اس کے علاوہ بھی جمہور فقہاء کے کئی دلائل کتب میں مذکور ہیں ، ان دلائل سے بھی یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جمہور کا مذہب مضبوط دلائل و براہین پر قائم ہے۔

مالکیہ کا مذہب:

مالکیہ نے اس مسئلہ میں جمہور فقہاء سے اختلاف کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ شرط کے ساتھ یا بغیر شرط کے دو یا تین دونوں

کی تاخیر جائز ہے۔اور انہوں نے اس قاعدہ فقہیہ کا اعتبار کیا ہے:”ما قرب من الشیئ له حکمه‘‘کہ جو کسی چیز کے قریب ہو اس کو اسی کا حکم دے دیا جاتا ہے۔[27]

اس لئے مالکیہ نے اس معمولی تاخیر کو معاف قرار دیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ فوری ادائیگی کے حکم میں ہی ہے۔[28]

مجلس شرعی کا فیصلہ:

اس مسئلہ میں مجلس شرعی کے فقہاء نے مالکیہ کا قول اختیار کیا ہے چنانچہ شرعی معیار نمبر 10 میں ہے:

’’يشترط قبض رأس مال السلم في مجلس العقد، ويجوز تأخيره ليومين أو ثلاثة بحد أقصى ولو بشرط على ألا تكون مدة التأخير مساوية أو زائدة عن أجل تسليم المسلم فيه‘‘ [29]

’’سلم کے راس المال پر عقد طے ہونے کے بعدمجلس عقدمیں ہی قبضہ ہونا ضروری ہے، تاہم زیادہ سے زیادہ دو یا تین دن کی تاخیر کی گنجائش ہے اور اس تاخیر کی شرط بھی رکھی جا سکتی ہے بشرطیکہ تاخیرکی یہ مدت،مبیع کی حوالگی کیلئے طے شدہ مدت کے برابر یا اس سے زیادہ نہ ہو۔‘‘

اس کی شرعی بنیاد میں ہیئۃ المحاسبۃ نےوہی سارے دلائل ذکر کئے ہیں جو جمہور علماء کے ہیں :کہ تاخیر جائز نہیں ہے۔

’’مستند اشتراط قبض رأس المال في مجلس العقد هو قوله ﷺ:’من سلف فليسلف في كيل معلوم‘ والتسليف أو الإسلاف هو التقديم ولأنه سمي سلما لما فيه من تقديم رأس المال فإذا تأخر لم يكن سلما ولان تأخير دفع رأس المال عن مجلس العقد والتفرق من غير تقابض يجعل العقد كالئا بكالئ دينا بدين وهو منهي عنه ومتفق على تحريمه. قال ابن رشد: وأما الدين بالدين فأجمع المسلمون على تحريمه‘‘[30]

’’عقد کے انعقاد کے لئے ہونے والی مجلس میں سلم کے راس المال پر قبضہ کرنا ضروری ہونے کی بنیاد حضور ﷺ کی اس حدیث پر ہے کہ جو بھی تسلیف کرے وہ معلوم پیمانہ میں کرے،اور تسلیف یا اسلاف کے معنی ہیں ”تقدیم“یعنی پیشگی ادائیگی کرنا اس عقد کو سلم اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں راس المال پہلے دیا جاتا ہے اگر اسی میں تاخیر ہو تو یہ عقد سلم نہیں رہے گا۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اگر عقد کے انعقاد کی مجلس میں راس المال نہیں دیا گیا تو یہ ادھار کے بدلہ ادھار کی فروخت ہوگی۔،جو کہ ممنوع ہے اور اس کی حرمت پر اتفاق ہے،ابن رشدؒ نے فرمایا:امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ ادھار کے بدلے ادھار کی فروخت حرام ہے۔‘‘

مجلس شرعی کے سارے دلائل وہی ہیں جو جمہور نے راس المال کی فوری ادائیگی کے ضمن میں دیے ہیں۔مجلس شرعی نے فتوی امام مالک کے مذہب پر دیا ہے لیکن عجیب بات ہے کہ اس پر کوئی دلیل نہیں دی،بہر حال امام مالکؒ معمولی تاخیر کو تاخیر شمار نہیں کرتے،اور ان کی دلیل امام مالک کے مذہب میں ذکر کی گئی ہے۔ گویا کہ امام مالک بھی راس المال کے فوری ادائیگی کے ہی قائل ہیں لیکن وہ معمولی تاخیر کی گنجائش دیتے ہیں جب کہ جمہور فقہاء اس کی گنجائش نہیں دیتے۔

مجلس شرعی کے فیصلے کا جائزہ:

یہاں پر مجلس شرعی کا فیصلہ امام مالک کے مذہب کے مطابق مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر درست معلوم ہوتا ہے:

1- آجکل زیادہ تر ثمن کی ادائیگی چیکوں کے ذریعہ ہوتی ہے اور چیک کلیئر ہونے میں بھی دو تین دن ضرور لگ جاتے ہیں، لہذا اس قسم کی معمولی تاخیر کی اجازت ہونی چاہیے۔

2: یہ تو بیع سلم ہے آج کل تو عام بیوع جن میں مبیع اور ثمن دونوں نقد ہوتے ہیں وہاں بھی جب چیک دیا جاتا ہے تو اس کے کلیئر ہونے میں دو تین دن لگ جاتے ہیں اور عرف تجار میں اس کو نقد ہی سمجھا جاتا ہے لہذا بیع سلم میں بھی اس قسم کی معمولی تاخیر کو برداشت کر لینا وقت کی ضرورت ہے اور امام مالک کا مذہب اس بارے میں اختیار کرنابالکل درست معلوم ہوتا ہے۔

3- چیک کے علاوہ بھی عام طور پر بڑے معاملات میں دو تین دن تک ثمن کی ادائیگی کو تاجر نقدہی تصور کرتے ہیں۔لھذا بیع سلم میں بھی اس کی گنجائش ہونی چاہئیے۔

وقت عقد سے لے کر حلول ِاجل تک مبیع کا موجود ہونا اور دلیل :

عقد سلم میں مبیع کا عقد سلم سے لےکر حلول اجل تک مارکیٹ میں موجود ہونا ضروری ہے یا نہیں؟اس میں بھی فقہاء کا اختلاف ہے،جمہور فقہاء مالکیہ،شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک عقد سلم کے صحیح ہونے کیلئے عقد کے وقت مسلم فیہ کا موجود ہونا شرط نہیں،لہذا جو چیز عقد کے وقت موجود نہ ہو اور مدت پوری ہونے سے قبل لوگوں کے پاس نہ رہے تو اس میں جمہور کے نزدیک عقد سلم جائز اور درست ہے۔[31]

جمہورکی دلیل مذکورہ بالا حدیثِ عبداللہ بن عباس ؓ ہی ہے۔جس کے مطابق نبی کریم ﷺ نے عقد کے وقت مسلم فیہ کے موجود ہونے کی شرط نہیں لگائی ،اگر اس کا موجود ہونا شرط ہوتاتو آپ ﷺ اس کو ضرور ذکر فرماتے اور آپ ﷺ لوگوں کو دو سال تین سال سے ضرور منع فرماتے اس لئے کہ یہ یقینی بات ہے کہ اتنی طویل مدت تک پھل نہیں رہتے،تو اس صورت حال کے باوجود آپ ﷺکا اس کو منع نہ فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ عقد سے لےکر حلول اجل تک مسلم فیہ کا پایا جانا ضروری نہیں ہے۔

حنفیہ کا مذہب اور دلیل :

حنفیہ،سفیان ثوری اور امام اوزاعی نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے اور ان کے نزدیک جو چیز عقد کے وقت سے لیکر مدت کے پوری ہونے تک انقطاع کے بغیر مسلسل بازاروں میں موجود نہ رہے اس میں عقد سلم صحیح نہیں ہوگا۔ان کی دلیل یہ ہے کہ مسلم الیہ کے مر جانے سے مدت باطل ہو جاتی ہے،اور اس کے ترکہ سے مسلم فیہ کا وصول کرنا واجب ہو جاتا ہے،اسی لئے مسلم فیہ کے ہمیشہ موجود رہنے کی شرط لگائی جاتی ہے تاکہ سپردگی پر قدرت بھی ہمیشہ رہے ،اس لئے کہ اگر یہ شرط نہ ہو اور مسلم الیہ مدت پوری ہونے سے قبل مر جائے تو ہو سکتا ہے کہ مسلم فیہ کو سپرد کرنا نا ممکن ہو جائے ،تو اس کا نتیجہ غرر ہوگا۔ [32]اور جس عقد میں غرر ہو وہ شرعی اعتبار سے درست نہیں ہوتا،لھذا اس غرر کو دور کرنے کے لئے مسلم فیہ کا پوری مدت بازار میں موجود رہنے کی شرط ہی درست ہے۔[33]

مجلس شرعی کا فیصلہ:

اس مسئلہ میں مجلس شرعی نے جمہور فقہاء یعنی مالکیہ،شافعیہ اور حنابلہ کے مذہب کو اختیار کیا ہے۔چنانچہ معیار شرعی نمبر10 کے ضابطہ نمبر 3/2/8 میں ہے:

’’يشترط أن يكون المسلم فيه عام الوجود في محله بحكم الغالب عند حلول أجله حتى يكون في إمكان المسلم إليه تسليمه للمسلم‘‘[34]

’’یہ بھی ضروری ہے کہ حوالگی لازم ہونے کے وقت مسلم فیہ عموما اپنے مقام پر عام طور پر دستیاب رہے تا کہ فروخت کنندہ کیلئے اسے خریدار کے سپرد کرنا ممکن ہو سکے۔‘‘

ہیئۃ المحاسبۃ نےاس کی کوئی خاص شرعی بنیاد ذکر نہیں کی بلکہ مطلقاً اس بات کو ذکر کر دیا ہے کہ غرر سے بچا جا سکے۔ مجلس شرعی نے فتوی یہاں بھی جمہور کے مذہب پر دیا ہے لیکن دلیل میں حنفیہ کی غرر والی بات ہی ذکر کی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

’’مستند اشتراط أن يكون المسلم فيه عام الوجود في محله هو دفع الغرر ولكي يكون في إمكان المسلم إليه التسليم‘‘[35]

مسلم فیہ کے اس جگہ عام طور پر موجود رہنے کی شرط ہونے کی بنیاد یہ ہے کہ غرر کو دور کیا جاسکے اور فروخت کنندہ کے لئے حوالگی ممکن ہو سکے۔

مجلس شرعی کے فیصلے کا جائزہ :

مجلس شرعی کا مسلم فیہ کے عقد سے حلول اجل تک بازار میں موجود ہونے کے برخلاف اس کا حلول اجل کے وقت موجود ہونے پر فتوی دینا درست معلوم ہوتا ہے، وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:

1-اس سلسلے میں جمہور فقہاء کی دلیل مضبوط ہے کہ آپ ﷺ نے بیع سلم کی اجازت اس وقت دی جب بازار میں عام طور پر اتنی مدت پھل نہیں پایا جاتا تھا، جو اس بات کی دلیل ہے کہ عقد سے لے کر حلول اجل تک مبیع کا پایا جانا ضروری نہیں۔

2: حنفیہ نے جو دلیل اس سلسلے میں دی ہے وہ بظاہر کمزور معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے اس جزئی کو لیکر پورا ایک حکم لگایا ہے۔ لہذا ایک مخصوص فرضی صورت کی بنیاد پر پورا ضابطہ تبدیل کرنا درست نہیں ہے۔

3: مدت پوری ہونے سے قبل مسلم فیہ کو سپرد کرنا ضروری نہیں ،لہذا مسلم فیہ کا پایا جانا بھی ضروری نہیں ہونا چاہیے۔

4:آج کل بنک اس کو طریقہ تمویل کے طور پر استعمال کرتے ہیں خاص کر زرعی شعبہ میں تو مسلم الیہ یہ عقد کرتا ہی اس لئے ہے کہ اب وہ چیز نہیں لیکن جب وقت آئے گا تو میری فصل ہو جائے گی اور میں یہ چیز آسانی کے ساتھ تمہارے سپرد کر دوں گا ،لہذا اس صورت حال میں جمہور فقہاء کے مذہب پر فتوی دینا باکل درست معلوم ہوتا ہے۔

رہی بات حنفیہ کے استدلال کی کہ اس میں غرر پایا جاتا ہےتو اس کا جواب یہ ہے کہ جب حلول اجل میں مسلم فیہ پائی جائے گی تو غرر کا خاتمہ ہو جائے گا ،نیز عقد سلم کی روح کو دیکھا جائے تو حنفیہ کا مسلک کمزور اور جمہور کا راجح نظر آتا ہے۔

عقد کے بعد مسلم فیہ کی تبدیلی کا حکم:

صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایک چیز پر عقد سلم ہوا مثلا مسلم فیہ گندم تھی تو اب کیا اس گندم کے بدلے چاول لینا جائز ہے یا نہیں؟اس میں فقہاء سے مختلف آراء منقول ہیں:

مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک مسلم فیہ کی تبدیلی حلول اجل سے پہلے بھی جائز ہے اور حلول اجل کے بعد بھی ،بشرطیکہ وہ بدل اصل سے زائد نہ ہو ۔[36]

فقہاء شافعیہ اور حنفیہ کے نزدیک مسلم فیہ کو حلول اجل سے پہلےتبدیل کرنا تو جائز نہیں ہےالبتہ عقد میں شرط لگائے بغیر حلول اجل کے بعد جائز ہے، بشرطیکہ تبدیل کی گئی مسلم فیہ غیر نقد ہو ،یعنی وہ بدل راس المال کے علاوہ ہو اسی کی جنس میں نہ ہو ۔[37]

شافعیہ اور حنفیہ کی دلیل:

جمہور فقہاء کی دلیل آپ ﷺ کا درج ذیل ارشاد ہے :

’’من أسلم فی شیئ فلا یصرفه فی غیره‘‘[38]

’’جو شخص کسی شئے میں بیع سلم کرے تو وہ اس کو دوسری چیز کی طرف نہ پھیرے۔‘‘

مالکیہ اور حنابلہ کی دلیل:

ان حضرات کی دلیل حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم کسی چیز میں ایک مدت تک عقد سلم کرو

تو جس چیز میں عقد سلم کیا ہے اسی کو لے لو تو ٹھیک ہے ورنہ اس کا بدل اس سے کم لو،دوبار نفع نہ لو ۔[39]جس سے واضح معلوم ہو رہا ہے کہ عبداللہ بن عباس ؓ مسلم فیہ کی تبدیلی کے قائل تھے۔

مجلس شرعی کا فتوی:

اس مسئلہ میں مجلس شرعی نے حنفیہ اور شافیعہ کا مذہب اختیار کرتے ہوئے مسلم فیہ کی تبدیلی کے جواز کا فتوی ان شرائط کے ساتھ دیا ہے۔ جو انہوں نے لگائی ہیں مثلا حلول اجل کے بعد،عقد میں شرط لگائے بغیر وغیرہ۔چنانچہ ضابطہ نمبر 4/2 میں ہے:

’’يجوز للمسلم ( المشتري ) مبادلة المسلم فيه بشيء آخر – غير النقد – بعد حلول الأجل دون اشتراط ذلك في العقد، سواء كان الاستبدال بجنسه أم بغير جنسه، وذلك بشرط أن يكون البدل صالحا لأن يجعل مسلما فيه برأس مال السلم، وأن لا تكون القيمة السوقية للبدل أكثر من القيمة السوقية للمسلم فيه وقت التسليم‘‘ [40]

’’شرط لگائے بغیر خریدار کیلئے سلم کی مدت پوری ہونے کے بعد مسلم فیہ کے بدلہ میں نقد کے علاوہ کوئی اور چیز لینا جائز ہے۔ چاہے یہ تبدیلی مسلم فیہ کی جنس کی کسی چیز کے ساتھ ہو یا اس کی جنس کے علاوہ کسی اور چیز کے ساتھ ،اسی طرح یہ بھی شرط ہے کی بدلہ میں دی جانے والی چیز سلم کے موجودہ راس المال کے مقابلے میں مسلم فیہ بن سکتی ہو اور ادائیگی کے وقت بازار میں اس بدل کی قیمت مسلم فیہ کی بازاری قیمت سے زیادہ نہ ہو‘‘

اس کی شرعی بنیاد ذکر کرتے ہوئے ہیئۃ المحاسبۃ کے علماء لکھتے ہیں :

’’مستند منع الاستبدال إذا كانت القيمة للبدل أكثر من القيمة السوقية للمسلم فيه وقت التسليم هو لا يربح المشتري مرتين في صفقة واحدة‘‘ [41]

’’مسلم فیہ کو تبدیل کرنے کی صورت میں بدلہ میں لی جانے والی مسلم فیہ کی قیمت،ادائیگی کے وقت اصل مسلم فیہ سے زیادہ ہونے کی ممانعت ہے ۔اس ممانعت کی بنیاد یہ ہے کہ خریدار ایک ہی سودے میں دو مرتبہ نفع نہ کمائے۔ ‘‘

لہٰذا مذکورہ بالا شرائط کی موجودگی میں یہ بیع جائز قرار پاتی ہے اور مسلم فیہ کی تبدیلی کے جواز کا فتوی دیا ہے۔

مجلس شرعی کے فیصلے کا جائزہ:

مجلس شرعی نے حلول اجل سے قبل مسلم فیہ کو تبدیل کرنا ممنوع قرار دیا ہے۔ حلول اجل کے بعد حنفیہ اور شافعیہ کے قول

کے مطابق جائز قرار دیا ہے ،کیو نکہ حنفیہ اور شافعیہ نے اس میں کڑی شرائط لگا دی ہیں ؛

1:حلول اجل کے بعد تبدیلی ہو۔

2:عقد میں تبدیلی مشروط نہ ہو۔

3۔بدل نقدی کے علاوہ ہو،یعنی نقدی نہ ہو۔

4۔اس بدل کی قیمت مسلم فیہ کی بازاری قیمت سے زیادہ نہ ہو۔

ان شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ فتوی باکل مناسب اور درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ جو دلیل مالکیہ اور حنابلہ نےمسلم فیہ کو حلول اجل سے پہلے تبدیل کرنے میں دی ہے اس میں کہیں بھی حلول اجل سے پہلے تبدیلی کی بات نہیں ہے۔ باقی اس اثر کو حنفیہ اور شافعیہ نے من وعن لیا ہے کہ بدل کی قیمت زیادہ نہ ہو تاکہ رب السلم ایک ہی عقد میں دوبار نفع نہ کمائے۔تو بہر حال مجلس شرعی کا یہ فیصلہ انتہائی احتیاط پر مبنی ہے اور دلائل کے اعتبار سے مضبوط مذاہب کی بنیاد پر قائم ہے اس لئے درست معلوم ہوتا ہے۔

خلاصہ بحث و نتائج تحقیق:

تلفق کے لغوی معانی دوچیزوں کو ملانے کے ہیں جبکہ اصطلاحی معنی کسی ایک مسئلہ میں یا مختلف مسائل میں مختلف مذاہب پر عمل کرنے کا نام ہے اور یہ تقلید ہی ایک صورت ہے ۔قدیم فقہاء لفظ تلفیق کولغوی معنی میں زیادہ تر استعمال کرتے ہیں اصطلاحی معنی میں نہیں۔دسویں صدی ہجری کے بعد تلفق علماء کے ہاں اصطلاحی معانی میں مستعمل ہواہے۔

تلفیق کے مجوزین کا قول مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر راجح ہے :

1-تلفیق کی ممانعت پر کوئی نصِ قطعی موجود نہیں ہے۔

2-تلفیق کے عدم جواز سے لوگوں کو تنگی کا سامنا کرنا پڑے گا جو شریعت کے مزاج کے خلاف ہے۔

3-دور صحابہ وتابعین میں کسی متعین مذہب کی تقلید نہیں تھی بلکہ تلفیق کی ہی ایک صورت تھی۔مجلس شرعی نے سلم کے باب میں جن مسائل میں تلفیق کی ہے ان فتاوی میں مجلس شرعی کے علماء کا موقف لوگوں کی حاجات کے اعتبار سے بلکل درست معلوم ہوتاہے،اور یہ تلفیق شرعاجائز ہے کیوں کہ اس کی بنیاداتباع ِہوٰ ی اور خواہشات نفس پرنہیں بلکہ عرف ،اور ضروت وحاجت کے ساتھ ساتھ دیگر مضبوط دلائل پر ہے۔

تلفیق کے جواز اور عدم جواز میں علماء کے تین قول زیادہ اہم ہیں ، راجح قول شرائط کے ساتھ جواز کے قائلین کا ہے۔ قرآن و حدیث سےبیع سلم کا جواز خلاف قیاس ضرورت کی بنا پرہے۔

ہیئۃ المحاسبۃ والمراجعہ کے فقہاء نے قرآن وسنت اور قدیم فقہاء کےمذاہب کے مطابق جدید حالات کے تناظر میں عقد سلم کے اصول وضوابط بڑی شرح وبسط کے ساتھ بیان کئے ہیں، عقد سلم فی نفسہ ایک جائزعقد ہے لیکن اس عقد کو جدید مالیاتی اداروں کیلئے قابلِ عمل طریقہ تمویل بنانے کیلئے علماء نے تمام مذاہب کا سہارا لیا ہے اور پورے معیار کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں تلفیق بین المذاہب مکمل طور پر فعال نظر آتی ہے۔چنانچہ مجلس شرعی کے علماء نے منافع کے راس المال بننےاور عقد سے لے کر حلول اجل تک مبیع کے موجود ہونے کے مسئلے میں مالکیہ،شافعیہ اور حنابلہ ،مجلس عقد میں راس المال پر قبضہ کرنے میں صرف مالکیہ ِ، اورمسلم فیہ کی تبدیلی کے مسئلے میں حنفیہ اور شافعیہ کا مذہب اختیار کیاہے۔ان مسائل میں مجلس شرعی نے عرف، تعامل ناس اورضرورت وحاجت کی بنا پر تلفیق کی ہے،جو شرعی اعتبار سے بلکل درست عمل ہے۔

حوالہ جات

  1. ابن منظور افریقی ،محمد بن مکرم ،لسان ا لعرب( بیروت :دار صادر ،س ن )، ۱۰: ۳۳۰ ، مادہ لفق۔
  2. قاسمی، جمال الدین محمد بن محمد، الفتوی فی الاسلام ( بیروت :دارلکتب العلمیہ، ۱۳۸۹ھ)،ص: ۱۰۴
  3. محمد بن عبدالرزاق،التلفیق موقف الاصولیین منہ ( کویت: وزارۃ الاوقاف والشؤوں الاسلامیہ، ۱۴۳۴ ھ)،ص:۱۵۰
  4. السفارینی،محمد بن احمد، التحقیق فی بطلان التلفیق ( ریاض : دارالصمیعی ،س ن )،ص: ۱۷۱۔ ۱۷۲
  5. البانی، محمد سعید، عمدۃ التحقیق فی التقلید والتلفیق( دمشق : المکتب الاسلامی ، س ن )،ص:۹۵۔۹۸
  6. ایضاً ،ص:۱۱۱۔ ۱۱۲
  7. دیکھیے:وھبۃ الزحیلی،اصول الفقہ الاسلامی(بیروت :دارلفکر ،۱۴۰۶ھ )،ص: ۱۱۴۲۔ ۱۱۵۰؛ وھبۃ الزحیلی ،فتاوی الزحیلی ، (بیروت:دارلفکر، ۱۴۰۶ ھ)، ۱: ۱۱۰؛ علی بن نایف الشحود،الخلاصۃ فی احکام الاجتهاد والتقلید(دمشق:المکتب الاسلامی ، س ن )،ص:۱۵۰
  8. ابن عابدین، ردالمحتار( بیروت : دارالمعرفۃ ، س ن) ، ۴: ۲۰۳
  9. البقرۃ :۲۸۲
  10. شافعی ، محمد بن إدريس ،مسند الشافعی بترتیب السندی) بیروت : دارلکتب العلمیہ ، ۱۹۵۱ء )، ۲: ۱۷۱
  11. ابن العربی ،محمد بن عبداللہ ، احکام القرآن ( بیروت : دارلکتب العلمیۃ ،س ن) ،۱: ۲۴۷
  12. ابو داؤد،سلیمان بن اشعث،السنن (ریاض :دارالسلام،۱۹۹۹ء ) ، حدیث :۳۴۶۳
  13. ابن قدامہ ،المغنی (ریاض: مکتبہ الریاض الحدیثہ،۱۴۰۱ ھ)، ۴: ۳۰۴
  14. ابن نجیم ،زین الدین بن ابراہیم، البحرالرائق (بیروت :دارالکتب الاسلامی ،س ن )، ۶: ۱۶۹
  15. شہاب الدین، محمد بن ابو العباس ،نہایۃ المحتاج الی شرح المنھاج(بیروت:دارالفکر ،۱۴۰۴ ھ)،۴: ۱۸۴؛الانصاری، زکریا بن محمد،اسنی المطالب ( بیروت : دارالکتاب الاسلامی ، س ن )،۲: ۱۲۳؛ النووی، یحیی بن شرف،روضۃ الطالبین ( بیروت : المکتب الاسلامی ،۱۴۱۲ھ)، ۴: ۲۷؛ الخرشی،محمد بن عبداللہ،شرح مختصر الخلیل ( بیروت : دارالفکر ،س ن)، ۵: ۲۰۳
  16. جماعۃ من العلماء، مجلۃ الاحکام العدلیہ ( کراچی : كارخانہ تجارتِ كتب،س ن)دفعہ نمبر: ۱۲۶
  17. الکاسانی ،علاءالدین ،بدائع الصنائع ( بیروت : دارالکتاب العربی، ۱۹۸۲ء)، ۵: ۲۰۲
  18. ہیئۃ المحاسبۃ والمراجعۃ للمؤسسات المالیہ الاسلامیہ ، المعاییر الشرعیۃ ( بحرین : ہیئۃ المحاسبۃ والمراجعۃ ،۱۴۳۱ ھ )، ص :۱۳۲
  19. ہیئۃ المحاسبۃ والمراجعۃ ، المعاییر الشرعیۃ، ص:۱۳۵
  20. الونشریسی ،احمد بن یحیی،ایضاح المسالک الی قواعد الامام مالک (بیروت: دار ابن حزم ،۱۴۲۷ ھ)،ص: ۱۸۷
  21. الکاسانی ،بدائع الصنائع ، ۵: ۲۰۲؛ شافعی، محمد بن ادریس،الامّ ( بیروت: دارالمعرفۃ ، س ن ) ، ۳: ۹۵؛ ابن قدامۃ، المغنی،۴: ۳۲۸
  22. ابو داؤد، السنن، حدیث: ۳۴۶۳
  23. الرملی ،ابو العباس،حاشیۃ الرملی علی اسنی المطالب ( قاہرہ : مکتبۃ دارلحدیث ،۲۰۰۴ء)،۲: ۱۲۲
  24. ابن قدامہ،المغنی،۴: ۵۴
  25. ایضاً
  26. ابن تیمیہ،احمد بن عبدالحلیم، نظریۃ العقد ( بیروت : دارالمعرفۃ ، س ن )،ص: ۲۳۵
  27. الونشرینی ،ایضاح المسالک الی قواعد الامام مالک،ص: ۱۷۰
  28. قاضی ، عبدالوھاب بن علی، الاشراف علی مسائل الخلاف ( بیروت : دار ابن حزم،۱۴۲۰ ھ)،۱: ۲۸۰
  29. ہیئۃ المحاسبۃ، المعاییر الشرعیۃ ،ص: ۱۳۲
  30. ایضاً ،ص:۱۳۹
  31. ابن قدامۃ،المغنی ، ۴: ۳۲۶؛ ابوالولید الباجی،سلیمان بن خلف،المنتقی شرح المؤطا ( مصر : مطبعۃ السعادۃ،۱۳۳۲ھ)،۴: ۳۰۰
  32. الکاسانی،بدائع الصنائع، ۵: ۲۱۱؛ ابن نجیم،البحر الرائق، ۶: ۱۷۲
  33. الحصکفی ، محمد بن علی ،الدر المختار مع حاشیۃ رد المحتار (مصر : طبع بولاق ،۱۲۷۲ ھ)، ۴: ۲۲۶ ؛ا بن نجیم،البحر الرائق ، ۶: ۱۷۲
  34. ہیئۃ المحاسبۃ والمراجعۃ ، المعاییر الشرعیۃ ،ص:۱۳۳
  35. ایضاً ، ص :۱۳۹
  36. البھوتی، منصور بن یونس، کشاف القناع عن متن الاقناع ( بیروت : دارالکتب العلمیۃ ،س ن)،۳: ۲۹۳
  37. الکاسانی،بدائع الصنائع،۵: ۲۱۴؛ا لنووی،ا لمجموع شرح المھذب (بیروت: دارلفکر ، س ن)،۹: ۲۷۳
  38. ابو داؤد، السنن، حدیث :۳۴۶۸
  39. ابن القیم ،محمد بن ابی بکر ،تہذیب سنن ابی داود وایضاح مشکلاتہ (بیروت : دارالکتب العلمیۃ ،س ن)، ۵: ۱۱۳
  40. ہیئۃ المحاسبۃ والمراجعۃ ،المعاییر الشرعیۃ،ص:۱۳۳
  41. ایضاً ، ص:۱۳۹
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...