Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Īqān > Volume 1 Issue 2 of Īqān

تکافل کا مضاربہ ماڈل: تعارف اور عملی طریقہ کار میں پیش آمدہ مسائل کا حل |
Īqān
Īqān

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682731180342_697

Pages

33-52

DOI

10.36755/iqan.v1i02.61

PDF URL

https://iqan.com.pk/index.php/iqan/article/download/61/25

Chapter URL

https://iqan.com.pk/index.php/iqan/article/view/61

Subjects

Takaful companies Modharba model assistance Cooperation

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف :

ہر شخص اپنی زندگی، دولت اور مال و جائیداد کے حوالےسے خطرات سے دو چار ہے۔ جوں جوں معاشرہ ترقی کر رہا ہے انسان کی زندگی میں خطرات و خدشات بھی اس مقدار سے بڑھ رہے ہیں۔ انسان کو بہت سے ایسے واقعات اور حادثات سے گزرنا پڑتا ہےجو اس کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں اور انھیں برداشت کرنا اس کے لیے بارگراں سے کم نہیں ہوتا ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ ایسے خطرات اور پریشانیوں سے اطمینان حاصل ہو، یا کم سے کم اس نقصان کی تلافی کی صورت ممکن ہو۔انسان کی اسی ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انشورنس کا نظام پیش کیا گیا تھالیکن گزرتے وقت کے ساتھ اس میں بہت سے شرعی مفاسد پیدا ہوتے گئےمثلاً اس میں سود،غرر اور قمار جیسی خرابیاں بالعموم پیدا ہوگئیں جبکہ یہ وہ معاملات ہیں جن کی شریعت میں سختی سے ممانعت ہے۔ انشورنس کا نظام جن مقاصد کے لئے قائم کیا گیا تھا ان مقاصد میں تو کوئی غیر شرعی چیز نہیں ہے۔ تاہم مسائل اور اشکالات انشورنس کے نظام میں پائے جاتے ہیں۔لہذا علماء نے یہ سوچا کہ کوئی ایسا نظام بنایا جائے جس سے انسان کی خوداپنے آپ اور اپنے عزیزو اقارب کو نقصانات سے بچانے کی ضرورت بھی پوری ہوسکے اور اس میں شریعت کے کسی اصول کی خلاف ورزی بھی نہ ہو۔لہذا مسلم ممالک میں انشورنس کے متبادل کے طور پر تکافل کا نظام پیش کیا گیا ۔

تکافل کا معنیٰ و مفہوم:

تکافل عربی زبان کالفظ ہے اور اس کے معنی میں’’ایک دوسرے کا ضامن بننا او ر ایک دوسرے کا خیال رکھنے کے ‘‘معنی پائے جاتے ہیں ۔تکافل کی اصطلاحی تعریف یہ ہے:

’’اتفاق أشخاص يتعرضون لأخطار معينة على تلافی الأضرار الناشئة عن هذه الأخطار، وذلك بدفع اشتراكات على أساس الالتزام بالتبرع، ويتكون من ذلك صندوق تأمين له حكم الشخصية الاعتبارية، وله ذمة مالية مستقلة، يتم منه التعويض عن الأضرار التي تلحق أحد المشتركين من جراء وقوع الخطار المؤمن منها وذلك طبقا للوائح والوثائق. ويتولى إدارة هذا الصندوق هيئة مختارة من حملة الوثائق، أوتديره شركة مساهمة بأجر، تقوم بإدارة أعمال التأمين، واستثمار موجودات الصندوق‘‘ [1]

’’لوگوں کے ایک گروہ کامخصوص خطرات کی بابت اتفاق کرنا کہ ان خطرات سے پیداہونے والےنقصانات کی تلافی کریں گے،اس طور پرکہ آپس میں تبرّع(بھلائی کرنا/تحفہ دینا)کرنے کےلئے مشترکہ فنڈجمع کریں گے،جس سےایک فنڈبکس تشکیل پائے گاجوشخصِ قانونی کےحکم میں ہوگااوراس(بکس)کی مالی ذمہ داری ہوگی(پھر)اس سے ان نقصانات کی تلافی ہوگی جوکسی شریکِ تکافل کوبیمہ شدہ خطرات کےپیش آنے سے سامنے آئیں،اوریہ معاہدے میں بیان شدہ وثیقہ جات کےمطابق ہوگا۔فنڈبکس کاانتظام وانصرام بااختیارادارہ یاکمپنی سرانجام دیتی ہےجوتکافل کےمقاصد اورفنڈبکس کی سرمایہ کاری وغیرہ کومنظّم کرتی ہے۔‘‘

گویا تکافل سے مراد ایک دوسرے کی کفالت اورایک دوسرے کوپیش آنے والے خطرات کو آپس میں بانٹے کا نام ہے۔تکافل کے عملی طریقہ کار کو مختلف ماڈلز کے تحت متعدد اسلامی ممالک میں رائج کیا گیا ہے ۔یہ ماڈلز ایسے اصولوں پر قائم کئے گئے ہیں جن کی نہ صرف شریعت میں اجازت ہےبلکہ ان کی ترغیب بھی دی گئی ہے ، مثلاً تبرع ، وکالہ ، مضاربہ اور وقف کی بنیادوں پر تکافل کو قائم کیا گیا ہے ۔اس مقالہ میں تکافل کے مضاربہ ماڈل کا تعارف اور اس کے میکینز م کی وضاحت کی جا رہی ہے ۔ مضاربہ ماڈل کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں مضاربت کے مفہوم سے مکمل آشنائی ہو۔

مضاربت کا تعارف:

مضاربت عربی زبان کا لفظ ہے اور عربی زبان میں لفظ مضاربۃ ضرب سے مشتق ہے اور ضرب کے بہت سے معنی آتے ہیں: ضرب کا سب سے مشہور و معروف معنیٰ ’’مارنے ‘‘کے معنی میں آتا ہے۔قرآن کریم میں بھی یہ لفظ اسی معنیٰ کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ولو تریٰ اذ یتوفیٰ الذین کفروا الملائکة یضربون وجوههم وأدبارهم وذوقو عذاب الحریق‘‘[2]

’’اور اگر تم دیکھتے (تو وہ عجیب منظر تھا)جب فرشتے ان کافروں کی روح قبض کر رہے تھے ،ان کے چہروں اور پشت پر مارتے جاتے تھے (اور کہتے جاتے تھے)کہ اب جلنے کا مزا بھی چکھنا۔‘‘

مضاربۃ ضرب سے مفاعلۃ کے وزن پر ہے جس کے معنی زمین میں چلنے پھرنے کے ہے۔چونکہ مضارب بھی زمین میں محنت مشقت کرتے ہوئے چلتا پھرتا ہے اور سفر کرتا ہے اس لئے عقدِ مضاربت کی مناسبت سے اس کو مضارب یا ضارب کہا جاتا ہے۔اصطلاح شریعت میں ’’مضاربت‘‘اس عقد کو کہتے ہیں جس میں ایک فرد کی جانب سے مال اور دوسرے فرد کی جانب عمل کی ذمہ داری ہو اور نفع میں دونوں شریک ہوں ۔ جس کی جانب سے مال ہو گا اس کو رب المال کہتے ہیں اور جس کی جانب عمل ہو اس کو مضارب کہتے ہیں اور جو مال دیا جائے اس کو مال مضاربت کہتے ہیں۔

مضاربت کی شرائط:

مضاربت کی شرائط میں پہلی شرط مضاربت کے عقد سے متعلق ہے۔ اس عقد کے لئے ایک طرف سے ایجاب اور دوسری طرف سے قبول ضروری ہو گا۔ جمہور فقہاء نے زبان سے الفاظ کی ادائیگی کو لازم قرار دیا ہے۔ دوسری قسم کی شرائط راس المال سے متعلق ہیں۔ان میں سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ راس المال نقود رائجہ میں سے ہو یعنی ایسی نقدی ہو جس کارواج ہو اور لوگ اس کے ساتھ خریدو فروخت اوردیگرمعاملات کرتےہوں،چنانچہ عروض(یعنی سامان) میں زمین وغیرہ اور دیگر منقولی اشیاء میں جمہورکے ہاں مضاربت کا معاملہ شرعاًدرست نہیں ہوگا۔

راس المال کے حوالے سے دوسری شرط یہ ہے کہ راس المال معلوم اور معین ہو۔ کیونکہ راس المال میں جہالت کی وجہ سے منافع میں جہالت ہوگی ۔اور منافع کا معلوم ہونا صحت مضاربت کے لئے شرط ہے۔ جہالت فریقین کے مابین جھگڑا کا باعث ہوتی ہے۔تیسری شرط یہ ہے کہ راس المال کوئی عین چیز ہو جو مضاربت کے تصرف کرتےوقت حاضر اور موجود ہو ۔ایسا مال جوعقد مضاربت کے وقت حاضر اور موجود نہ ہو ایسے مال میں مضاربت کامعاملہ شرعاً درست نہیں ہوگا۔چوتھی شرط یہ ہے کہ راس المال مضارب کے حوالے کر دیا جائے ،کیونکہ جب تک مال مضاربت یعنی راس المال مضارب کے حوالے نہیں کیا جائے گا مضارت شروع نہیں ہوگی۔

تیسری شرط کی شرطیں جو ربح یعنی منافع سے متعلق ہیں ۔ان میں پہلی شرط یہ کہ منافع کی مقدار معلوم ہو،یعنی رب المال اور مضارب میں سے ہر ایک مضاربت میں نفع کا تناسب معلوم ہو کیونکہ مضاربت میں اصل مقصود نفع ہے جس کی جہالت مضاربت کا فاسد کر دیتی ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ نفع کی تقسیم مشاعاً ہو یعنی حصوں کے اعتبار سے نفع کی تقسیم مقرر ہو،مثلاً اس طرح طے ہو جائے کہ حاصل ہونےوالے کل نفع میں سے نصف رب المال کا او رنصف مضارب کا ہوگا ، یا دو تہائی رب المال کا اورایک تہائی مضارب کا ہو ،یا اس کو یوں بھی تعبیر کیا جاسکتاہے کہ نفع فی صد کے حساب سے طے ہو جائے مثلاً مضارب کو کل نفع کا بیس فیصد اور رب المال کو کل نفع کا اسی(80) فیصد دیا جائے گاوغیرہ ذالک۔نفع متعین کرنا درست نہ ہو گا۔

یہ مضاربت کے چند اہم اور بنیادی شرائط واصول تھے جن کا وجود جمہور فقہاء کرام کے ہاں ضروری ہے جس کے بغیر مضاربت درست نہیں ہوتی بلکہ بعض صورتوں میں مضاربت خود فاسد ہوجاتی ہے جبکہ بعض صورتوں میں شرط فاسد ہوتی ہے اور مضاربت برقرار رہتی ہے جس کی تفصیل کے لئے کتب فقہ کی مراجعت کی جا سکتی ہے۔

مضاربت کی مشروعیت:

مضاربت کی مشروعیت قرآن و سنت ،آثارِ صحابہؓ ، اجماع ِامت اور قیاس ہر ایک سے ثابت ہے۔ارشادِ ربانی ہے:

’’وَاٰخَرُوْنَ يَضْرِبُوْنَ فِي الْاَرْضِ يَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ‘‘ [3]

’’ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو زمین میں چل پھر کر اللہ تعالیٰ کا رزق تلاش کرتے ہیں۔‘‘

اس آیت کریمہ سے فقہاء نے مضاربت کے جواز پر استدلال کیا ہے۔جواز مضاربت سنتِ رسول ﷺ اور حدیثِ رسول اللہ ﷺ سے بھی ثابت ہے۔نہایۃ المحتاج میں ہے کہ نبی کریم ﷺ پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ ؓ کا مال شام لے کر گئے۔ مضاربت کا اس واقعہ سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ نبوت کے بعد آپﷺنے اس واقعہ کی تردید نہیں فرمائی لہذا اس کی مشروعیت کے

لیے یہی کافی ہے۔[4]

اس ضمن میں عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضرت عباس بن عبد المطلب جب کسی کو مضاربت پر مال دیتے تو مضارب پرشرط رکھتے کہ وہ مالِ مضاربت کے ساتھ سمندر میں سفر نہیں کرے گا،کسی وادی میں قیام نہیں کرے گا اور نہ اس سے کوئی ایسی چیز خریدے گا جو جاندا رہو(یعنی جانور فیرہ ذی روح اشیاء)اگر اس (مضارب) نے ایسا کیا تو وہ اس کا ضامن ہوگا،پس یہ شرط نبیﷺ کے سامنے پیش کی گئی (یعنی آپﷺ کو معاملہ بتا کر پوچھا گیا ) تو آپ ﷺ نے اس کو جائز قرار دیا۔‘‘[5]

اس روایت سے مضاربت کا جواز معلوم ہوتا ہے ۔ جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو بدائع الصنائع میں ہے:

’’وَأَمَّا الإْجْمَاعُ: فَإِنَّهُ رُوِيَ عَنْ جَمَاعة مِنَ الصَّحَابة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّهُمْ دَفَعُوا مَال الْيَتِيمِ مُضَارَبةمِنْهُمْ عُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَعَائِشَة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، وَلَمْ يُنْقَل أَنَّهُ أَنْكَرَ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْرَانِهِمْ أَحَدٌ، وَمِثْلُهُ يَكُونُ إِجْمَاعًا‘‘[6]

’’اور جہاں تک اجماع کا تعلق ہے تو چونکہ صحابہ کی جماعت سے منقول ہے کہ انہوں نے مال کو مضاربت کے طور پر دیا ۔ اس جماعت کے بعض افراد حضرت عمرؓ، حضرت عائشہ ، حضرت عثمان ؓ ۔ حضرت عبداللہ ؓ ، حضرت علی ؓ اور حضرت عبیداللہ بن عمر ؓ ہیں ۔ اور ان کے ہم عمروں میں سے اس کا انکار کسی ایک سے منقول نہیں کیا گیا ۔ ایسی صورت جہاں پائی جائے وہ اجماع ہوتا ہے۔ ‘‘

مضاربت کے جواز میں قیاس بھی پوری طرح موید ہے۔ مضاربت کے جواز کی بنیا د مزارعت ہے۔جمہور فقہاء اور محققین اس کے جواز کے قائل ہیں اورانہوں نے مزارعت پر قیاس کر کے مضاربت کا جواز ثابت کیا ہے۔مذکورہ بالا بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ مضاربت کے طریقے ہر طرح کے کاروبار کے لئے استعمال کیا جا سکتے ہیں۔تجارتی،صنعتی اور زرعی کاروبار ہر ایک میں مضاربت کی بنیاد پر سرمایہ لگایا جا سکتا ہے۔

تکافل کا مضاربہ ماڈل :

مضاربہ ماڈل تکافل کا ایک ایسا ماڈل ہے جو کمرشل بنیادوں پر کام کرتا ہے ۔ یہ منافع شئیر کرنے والا ماڈل ہے ۔ اس ماڈل میں دو فریقین شامل ہوتے ہیں:شئیر ہولڈرز اور تکافل آپریٹرز ۔ شئیر ہولڈرز سرمایہ فراہم کرتے ہیں اور کمپنی کے ممبران تکافل آپریٹر کی حیثیت سے اس سرمایہ کو کاروبار میں لگاتے ہیں۔ شئیر ہولڈرز کی حیثیت رب المال کی ہوتی ہے اور تکافل آپریٹرز مضارب کی حیثیت رکھتے ہیں۔تمام انتطامی اخراجات سرمایہ سے برداشت کئے جاتے ہیں ۔ منافع کی تقسیم کا تناسب دونوں فریقین کے درمیان شروع میں ہی کر لیا جاتا ہے۔ بعد ازاں منافع اسی تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے ۔ منافع کی تقسیم 50/50 ،70/30 یا طےشدہ تناسب سے ہوتی ہے۔ اس ماڈل کے تحت شرکاء کی رقوم کو دومختلف حصوں میں رکھا جاتا ہے ۔ فنڈ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ایک حصہ تبر ع فنڈ کے نام سے موسوم کی جاتا ہے اور دوسرا حصہ مضاربہ فنڈ کے نام سے مختص کیا جاتا ہے ۔دونوں پول میں موجود رقم کو سرمایہ کاری میں لگایا جاتا ہےاوراس سے حاصل ہونے والا منافع بھی ان پولز میں شامل کیا جاتا ہے۔ تبرع فنڈمیں موجودرقم سے شرکاءکے نقصانات کی تلافی کی جاتی ہے ،کمپنی کے تمام اخراجات اورری تکافل کے لئے رقم بھی فنڈکے اسی حصے سے استعمال کی جاتی ہے ۔اس سب کے بعد بچ جانے والی رقم کو شرکاء اورپالیسی ہولڈرز کے درمیان تقسیم کر دیا جاتا ہے ۔فنڈ کا جو حصہ مضاربہ پول کےنام سے مختص کیا جاتاہے اس کی سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والا منافع تمام سرمایہ کاروں کے درمیان ان کے سرمایہ کے حساب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اورکمپنی بحیثیت مضارب طے شدہ تناسب سےاس منافع میں شریک ہوتی ہے ۔

مضاربہ ماڈل کا عملی طریقہ کار:

تکافل کے ہر ماڈل کو دو بڑے پلانز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ فیملی تکافل اور جنرل تکافل ۔ فیملی تکافل یا لائف تکافل میں کسی انسان کی زندگی سے متعلق تحفظات شامل ہوتے ہیں جبکہ جنرل تکافل میں اثاثہ جات ،یعنی جہاز ،موٹر اور اماکن وغیرہ کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لئے تکافل کی رکنیت فراہم کی جاتی ہے۔ مضاربہ ماڈل میں بھی تکافل کے یہی دونوں ماڈل نافذ العمل ہیں۔

فیملی تکافل پلان:

فیملی تکافل پلان میں شرکاء کی طرف سے دی گئی رقوم کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک حصہParticipant Account اور دوسرا حصہ (Participant Special Account)کے نام سے مختص کیا جاتا ہے۔ Participant Account میں شرکاء کی رقوم کا زیادہ حصہ رکھا جاتا ہے اور یہ حصہ مکمل طور پر شرکاء سے متعلق ہوتا ہے۔ فنڈ کا دوسرا حصہ (Participant Special Account) کے نام سے مختص کیا جاتا ہے اس میں فنڈ کا تقریباً 20%حصہ رکھا جاتا ہے ۔یہ حصہ شرکاء کے نقصانات کی تلافی اور انڈر رائٹنگ کے تمام اخراجات کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔

PAاورPSAکی مکمل رقم کو شرعی طور پر جائز کاموں کی سرمایہ کاری میں لگایا جاتا ہے ۔PAکی سرمایہ کاری سے آنے والا منافع شرکاء اور تکافل آپریٹرز کے درمیان طے شدہ تناسب کے ساتھ تقسیم کیا جاتا ہے۔اور منافع کی یہ تقسیم معاہدہ کے شروع میں ہی طے کر لی جاتی ہے، لیکن اکثر اوقات اس کا تناسب یہ کمپنیز بدلتی رہتی ہیں ۔دوسری طرف PSA میں موجود رقم اور اس کی سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والا منافع دونوں کلیمز کی ادائیگی اور انڈر رائٹنگ کے اخراجات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔اگر کلیمز اور انڈر رائٹنگ کے اخراجات PSAمیں موجود رقم سے بڑھ جائیں تو ایسی صورت میں نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسے انڈر رائٹنگ خسارہ کہا جاتا ہے ۔اس خسارہ کی تلافی PAمیں موجود رقم سے کی جاتی ہے ۔یعنی PAمیں موجود رقم سے پھر کلیمز کی ادائیگی کی جاتی ہے یا ایسی صورت میں شئیر ہولڈرز کمپنی کو بغیر سود کے قرضہ فراہم کرتے ہیں۔بعض اوقات کلیمز کی ادائیگی اور انڈ رائٹنگ کے اخراجات PSAمیں موجود رقم سے کم ہوتے ہیں ایسی صورت حال میں اس اکاؤنٹ میں خاصی رقم بچ جاتی ہے اس رقم کو فائض یا انڈررائٹنگ سرپلس کہا جاتا ہے ۔ یہ بچی ہوئی رقم تکافل آپریٹرز اور شرکاء کے درمیان تقسیم کر دی جاتی ہے ۔

جنرل تکافل پلان:

جنرل تکافل پلان میں شرکاء کے سرمایہ کو دو حصوں میں تقسیم نہیں کیا جاتا ۔ اس پلان میں Participant Account نہیں ہوتا۔ اس میں صرف Participant Special Accountہوتا ہے ۔ شرکاء کی رقوم اسی اکاؤنٹ میں جاتی ہیں ۔بعد ازاں اس اکاؤنٹ میں سے کلیمز ادا کئے جاتے ہیں اور انڈر رائٹنگ کے اخراجات بھی یہاں سے ہی ادا کئے جاتے ہیں ۔ اس فنڈ میں موجود رقم کو سرمایہ کاری میں لگایا جاتا ہے اور فنڈ میں موجود رقم منافع سمیت پالیسی ہولڈرز کے نقصانات کی تلافی کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ Participant Special Accountکا ایک حصہ(انویسٹمنٹ کی طرف سے آنے والا منافع کا) مستقبل کے مصائب و نقصانات کی تلافی کے لیئے محفوظ رکھا جاتا ہے ۔ بچ جانے والی رقم (Under Writing Surplus) شرکاء اور تکافل آپریٹرز کےدرمیان طے شدہ مناسبت سے تقسیم کر دی جاتی ہے۔

 

مضاربہ ماڈل کی عملی ابتداء:

مضاربہ ماڈ ل کو عملی طور پر سب سےپہلےملائیشا میں رائج کیاگیا ۔۱۹۸۵ سےسیاری کٹ تکافل ملائیشیا کے قیام کے ساتھ ہی مضاربہ ماڈل کی ابتداءہو گئی ۔اپنی بنیادوں کو مضبوطی سے قائم کرنے کے بعد تکافل کا مضاربہ ماڈل ملائیشیا میں نہ صرف پنپنے والا کاروبار بنا بلکہ صارفین اور انویسٹرز کےلئے ایک منافع بخش معاہدہ کے طورپرسامنے آیا۔

ملائیشیا کےعلاوہ برنائی میں تکافل کے مضاربہ ماڈل کو اپنایا گیا ، یہ ماڈل برونائی کی مختلف کمپنیز میں رائج ہے۔ ایک رپورٹ کےمطابق برونائی اس معاہدہ کے تحت 36% منافع اپنے شرکاء کو فراہم کرتا ہے۔[7] پاکستان میں تکافل کاوکالہ ماڈل رائج ہے لیکن ممکن ہے کہ مستقبل میں پاکستان میں بھی تکافل کمپنیز مضاربہ کی بنیا د پر قائم کی جائیں۔

مضاربہ ماڈل کے عملی طریقہ کار میں عقود و معاملات

تکافل آپریٹر اور مضاربہ پول کا تعلق:

مضاربہ ماڈل کے عملی طریقہ کار میں تین اہم کردار ہوتے ہیں ۔تکافل آپریٹرز ، پالیسی ہولڈرز اور ٹکافل پول ۔ پالیسی ہولڈرز سے مراد وہ افراد ہوتے ہیں جو اپنے مختلف خطرات کا ازالہ کرنے کے لئے تکافل پالیسی خریدتے ہیں ۔ بنیادی طور پر پالیسی ہولڈرز سرمایہ فراہم کرنے والے ہوتے ہیں ۔ ان کے دئیے گئے سرمایہ سے تکافل فنڈ کا پول جو مضاربہ ماڈل میں مضاربہ پول کہلاتا ہے ،قائم کیا جاتا ہے ۔ مضاربہ ماڈل میں شرکاء کی طرف سے جو سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے اس کے دو حصے کئے جاتے ہیں ۔ ایک حصہ تبرع کے نام پر الگ کیا جاتا ہے اور ایک حصہ مضاربت کی بنیاد پر سرمایہ کاری کے لئے مختص کیا جاتا ہے ۔تکافل آپریٹر مضاربہ پول کے لئے مینیجر اور امین ہوتا ہے ۔عقدِ مضاربت میں مضارب کی حیثیت ،’’ جب اسے مالک نے اپنا مال سپرد کیا‘‘فقط امین کی ہےاور جب مضارب اس مال میں تصرف شروع کرتا ہے تو وہ مالک کی طرف سے وکیل ہوتا ہے۔[8]

شرکاء اپنا سرمایہ اس پول میں رکھواتے ہیں تاکہ بوقتِ ضرورت ان کے اس پیسے سے انہیں پیش آنے والے خطرات کی تلافی کی جا سکے۔اس پورے نظام کو چلانے والے تکافل آپریٹرز ہوتے ہیں اوریہ آپریٹر اس فنڈ کے لئے مینیجر کی حیثیت رکھتے ہیں۔مالِ مضاربت،مضارب کے پاس امانت ہوتا ہے لہذا اس کے ضیاع اور ہلاکت کی صورت میں مضارب پر ضمان نہیں ہوتا۔ مضارب پر ضمان شرائط کی مخالفت کرنے پر عائد ہوگا ۔ مثال کے طور پر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کومضاربت کے لئے مال دیا اور کہا کہ میرے اس مال سے کپڑے کی تجارت کرو یا کاروبار کرو، جب رب المال نے مضارب سے حساب مانگا تو اس نے کہا کہ میں نے تو کپڑے کی تجارت کی نہیں میں نے تیل کی تجارت کی اور اس میں تو نقصان بھی ہوا ہے ۔ ایسی صور ت میں راس المال کے مانگنے پر مضارب رب المال کو اس کا سرمایہ دینے کا مجاز ہو گا۔

مضاربہ پو ل اور کلائنٹ کا تعلق:

جہاں تک پول کے تبرع فنڈ کے حصے کا تعلق ہے تو اس میں مضاربہ پول او ر کلائنٹ کے درمیان’’ التزام التبرع ‘‘ کا تعلق پایا جاتا ہے۔کیونکہ اس میں شرکاء چندہ دینا اپنے اوپر لازم قرار دیتے ہیں ۔ تکافل پالیسی میں بھی طے ہوتا ہے کہ اپنے نقصان کے حساب سے تمام شرکاء کو اس فنڈ میں چندہ یا تبرع کے نام پر ایک متعین رقم دینا ہوتی ہے ۔ اس کے بدلے میں پول اپنے اوپر یہ لازم ٹھہراتا ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر شرکاء کے نقصانات کی تلافی اس نقصان کو بھر کر کرے گا۔ گویا اس میں دونوں جانبوں سے التزام پایا جاتا ہے، جسے دو طرفہ التزام کہتے ہیں۔ جبکہ پول کے دوسرےمضاربہ فنڈ کا کلائنٹ مالک ہوتا ہے جسکی ملکیت اس فنڈپر برقرار رہتی ہے۔

کلائنٹ اور تکافل آپریٹر کا تعلق ،عقود کے احکامات ، نتائج و آثار:

مضاربہ ماڈل میں کلائنٹ اور آپریٹرز کا انتہائی اہم تعلق ہے ۔ یہ سارا نظام چونکہ مضاربت کے نام پر قائم کیا جاتا ہے لہذا کلائنٹ اور تکافل آپریٹرز کے درمیان مضاربت کا تعلق ہوتا ہے۔ جس میں کلائنٹ رب المال یعنی سرمایہ فراہم کرنے والا ہوتا ہے ۔ اور تکافل آپریٹر مضارب ہوتا ہے یعنی وہ اس سرمایہ کا امین ہوتا ہے اور نفع میں رب المال کے ساتھ طے شدہ تناسب کے ساتھ شریک ہوتا ہے۔رب المال کاروبارکا فیصلہ مضارب کی صوابدید پر بھی چھوڑسکتاہے کہ وہ اپنی مرضی سے کاروبارکرے اور وہ مختلف شرائط بھی عائد کر سکتا ہے۔مثال کے طور پر رب المال کاروبار کی مدت ،مخصوص اشیاء کی تجارت ،مخصوص جگہ اورمخصوص کمپنی کے ساتھ تجارت کرنے جیسی شرائط عائد کر سکتا ہے۔ رب المال کاروبارمیں خود عملی طورپر شریک ہونے کی شرط مضاربت کے معاہدہ میں نہیں لگا سکتا فقہاء کی اکثریت نے اس کی اجازت نہیں د اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مضارب اپنی صوابدید کے مطابق بہتر سے بہتر کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔

جہاں تک مضارب کے احکامات کا تعلق ہے تو مضاربت مطلقہ میں مضارب کے لئے بیع و شراءاور کاروباری اجارہ داری وغیرہ کی اجازت ہے۔ مضارب کے لئے رب المال کی اجازت کے بغیر ادھار کی بیع،مالِ مضاربت میں اپنا یا کسی اور کا مال ملانا،اور مالِ مضاربت کسی اور کو آگے مضاربت کے لئے دیناجائز نہیں ہے۔جمہور فقہاء کا اس پر اتفاق ہے۔

تکافل کے مالی مقاصد:

تکافل کفالت عامہ کے لئے قائم کیا گیا ایک ایسا نظام ہے جس سے مقصود انسا ن کا خود اپنے آپ اور دوسرے لوگوں کو پیش آنے والے مالی خطرات سے نکالنا تھا۔ لیکن تکافل کا’’ مضاربہ ماڈل‘‘تکافل کے ان مقاصد کو بدل کر کاروباری اور تجارتی مقصد میں بدل دیتا ہے جہاں انسان اور ساتھ ہی ساتھ تکافل کمپنیز کا مقصود تکافل پالیسی سے بھی منافع کمانا ہو جاتا ہے۔ جب تکافل کا یہ نظام ا مدادِ باہمی سے نکل کر ایک انسان کے صرف ذاتی مفاد کا حصہ بنتا ہے تو اس کی ماہیت بدل جاتی ہے ۔لہذا تکافل کے نظام کی نوعیت بدلتے ہی اس پر بہت سے اشکالات وارد ہوتے ہیں۔جن میں سب سے پہلے اس فنڈ میں موجود مضاربہ پول کی ملکیت کا مسئلہ اور اس سے جڑے کچھ جزوی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جو اس ماڈل میں بہت سے تنقیدی پہلو اجاگر کرتے ہیں۔

مضاربہ پول کی ملکیت کا مسئلہ :

عام انشورنس کمپنی میں انشورنس کمپنی اور Insured Personsیعنی پالیسی خریدنے والا ،دو فریق ہوتے ہیں ۔انہی دونوں فریقین کی وجہ سے کمپنی کا سارا نظام چل رہا ہوتا ہے۔ لیکن تکافل یا اسلامی انشورنس کے اندر تین فریق ہوتے ہیں:

۱۔ تکافل کمپنی: اس کی حیثیت امین اور منتظم کی ہوتی ہے۔

۲۔پالیسی ہولڈر: وہ شخص جو خطرے کے ازالے کے لئے پالیسی خریدتا ہے۔

۳۔تکافل پول: وہ حوض جو مختلف لوگوں کے عطیات یا فنڈ سے وجود میں آتا ہے ۔ اس کا تکافل کے اندر ایک الگ وجود ہوتا ہے۔ انشورنس کمپنی کے اندر اس پول کی مالک انشورنس کمپنی ہوتی ہے اس لئے اس کا کوئی الگ وجود نہیں ہوتا ۔

یہ بظاہر تکافل کا نظام ہے لیکن تکافل کے نظام میں بھی تکافل پول ،جو کہ تبرع اور مضاربہ پول دونوں کی حیثیت رکھتا ہے، کی ملکیت کا مسئلہ جوں کا توں موجود ہے ،آیا اس فنڈ کی ملکیت کا اختیار کمپنی کے پاس ہے یا اس فنڈ میں موجود رقوم پر پالیسی ہولڈرز کا حق بد ستور رہتا ہے یا یہ فنڈ اپنی ایک الگ حیثیت رکھتا ہے؟ یہ تمام اشکالات اس ماڈل میں میں پائے جاتے ہیں۔

عقدِمعاوضہ کا عنصر:

لین دین کی وہ صورت جس میں ایک فریق دوسرے فریق سے معاوضہ لینے کا حق رکھتا ہے۔ گویا کہ ’عقود المعاوضات ان عقود کو کہتے ہیں ، جن میں کسی کو عین مال یا منفعت کا مالک بنایا جاتا ہے کسی عوض کے بدلے میں ،خواہ وہ عوض مال ہو یا کوئی اور چیز ہو‘۔عقدِ معاوضہ میں ایک شخص دوسرے شخص کو مال وغیرہ کے بدلے میں کسی مال یا مال کی منفعت کا مالک بناتا ہے۔تجارتی تکافل کے حامی کہتے ہیں کہ اضافہ اور غرر تب ممنوع ہوتا ہے جب وہ عقدِ معاوضہ میں ہو۔، جبکہ یہ تو عقدِ تبرع ہے ۔لیکن ان کی یہ توجیہ درست نہیں۔

تکافل فنڈ کے ایک حصے کی حیثیت اس ماڈل میں تبرع کی ہے ۔ یہ وہ حصہ ہے جس سے پالیسی ہولڈرز کے نقصانات کی تلافی کی جاتی ہے ۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی فرماتے ہیں کہ تبرع کی اس توجیہ سے یہ عقد، عقدِ معاوضہ بن جاتا ہے ۔ تبرع ماڈل کے حامی حضرات اس کی درج ذیل توجیہات پیش کرتے ہیں کہ یہ معاملہ تبرع ہے لہذا اس میں عقدِ معاوضہ کا عنصر نہیں پایا جاتا ۔ان توجیہات کاذکر مولانا مفتی محمد تقی عثمانی [9]نے کیا ہے یہاں ان کا خلاصہ پیش کیا گیا جا رہا ہے؛

۱۔یہ پریمیم (فنڈ) ’’ ہبہ بشرط العوض ‘‘ ہے، یعنی پالیسی ہولڈر یہ پریمیم کمپنی کو بطور ہبہ دیتا ہے ، البتہ اس میں بدلہ لینے کی شرط لگاتا ہے،گویا وہ تکافل کمپنی سے یہ کہتا ہے کہ میں آپ کو یہ رقم اس شرط پر دیتا ہوں کہ آپ اس کے بدلے میں میرے نقصانات کی تلافی کریں گے۔

یہ توجیہ درست نہیں ہے کیونکہ ہبہ بشرط عوض بیع کے حکم میں ہے ، اس لئے یہ صورت اس عقد کو عقدِ معاوضہ بنا دیتی

ہے۔اس میں دوسرا اشکال کا پہلو یہ ہے کہ اس میں کمپنی کو ہی اس فنڈ کا مالک ٹھہرایا جارہا ہے جو کہ انشورنس کے شرعی متبادل تکافل کو انشورنس کی طرح کا ہی ایک عقد بنا رہا ہے۔

۲۔ایک توجیہ اس کی یہ پیش کی جا تی ہے کہ یہ ’’التزام التبرع ‘‘ کی قبیل سے ہے جس میں پالیسی ہولڈر اپنے اوپر یہ التزام کرتا ہے کہ وہ کمپنی کو اتنی رقم بطور عطیہ دے گا اور کمپنی اوپر یہ التزام کرتی ہے کہ جو شخص اسے اتنا پریمیم ادا کرے گا ،وہ اس کے فلاں فلاں رسک کو کور کرے گی لہذا یہ عقد کسی صورت بھی عقدِ معاوضہ نہیں بنتا ۔ یہ توجیہ مالکیہ کے مسلک پر پیش کی گئی ہے۔

لیکن یہ توجیہ بھی اس تبرع کے عقد کو عقدِ معاوضہ بننے سے روکنے میں قاصر ہےاور یہ اس لئے قابل اعتبار نہیں کہ اس میں دونوں فریق (کمپنی اور پالیسی ہولڈر میں سے ہرایک اپنے اوپر یہ تبرع کا التزام اس شرط پر کر رہا ہے کہ دوسر ابھی اس پر تبرع کا التزام کر ے کیونکہ کمپنی ایسے شخص کے لئے تبرع کا التزام نہیں کرتی جو اس کے لئے تبرع کا التزام کر کے اس کے پاس پریمیم جمع نہ کرائے اور پالیسی ہولڈر بھی اس کمپنی کے لئے تبرع کا التزام کر رہا ہوتا ہے جو اس کے نقصانات کی تلافی کے لئے تبرع کا التزام کرے۔ ایسا التزام جو جانبیبن سے مشروط ہو ، خود مالکیہ کے ہاں عقد معاوضہ کے حکم میں ہے۔ اس کے علاوہ تکافل فنڈ میں لوگوں کے نقصانات کی تلافی ان کے دئیے ہوئےتبرع کی مقدار کی بنیاد پر ہوتی ہے ۔ یعنی جس کا جتنا زیادہ تبرع ہوگا وہ اپنے اتنے ہی بڑے نقصان کی تلافی اس فنڈ سے کروا سکے گا ۔ دوسرے الفاظ میں تبرع کی رقم کا تعین اس چیز کی قیمت کے لحاظ سے ہو تا ہے جس کے نقصان کی وہ تلافی چاہتا ہے ۔ یعنی اگر کوئی کسی مہنگی گاڑی مثلاً مرسڈیز وغیرہ کے نقصان کا خواہشمند ہوتا ہے تو اسے زیادہ مقدار میں تبرع کرنا ہو گا بہ نسبت اس شخص کے جو مہران گاڑی کے نقصان کی تلافی کرنا چاہتا ہے۔ یہ سارا معاملہ تکافل کے اس عقد ، جو کہ تبرع اور مضاربت کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا،عقدِ معاوضہ بنا دیتا ہے۔عقدِ معاوضہ بالکل ایک الگ اور مختلف معاملہ ہے،اس کی شرائط وضوابط بھی عقدِ تبرع سےمختلف ہیں۔ لہذا تکافل ،مروج نظام کے تحت عقدِ تبرع نہیں رہتا بلکہ عقدِ معاوضہ بن جاتاہے اور اس میں غرر کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے۔

غرر کا اشکال :

انشورنس جمہور علماء امت کے نزدیک ناجائز ہے اور اس کے عدم جواز کی وجہ اس میں موجود سود ،قمار، غرر اور میسر جیسی شرعی خرابیوں کا پایا جانا ہے۔مروجہ انشورنس میں پائی جانے والی ایک بڑی خرابی غرر ہے ۔ انشورنس کا جو بھی متبادل پیش کیا جائے یا پیش کیا جاتا ہے وہ شرعی طور پر ان خرابیوں سے پاک ہو گا تو ہی وہ متبادل قابل قبول ہو گا۔ جہاں تک تکافل اور اس کے دیگر ماڈلز کا تعلق ہے تو سود کے علاوہ باقی تمام خرابیاں اس میں ویسے ہی موجود ہیں ۔

لغوی اعتبار سے غرر ’’غیر یقینی کیفیت‘‘ کا نام ہے۔ اور اصطلاحِ شرع میں غرر ایسے معاملہ کو کہتے ہیں ’’جس میں کم از کم کسی ایک فریق کا معاوضہ غیر یقینی کیفہت کا شکار ہوتا ہے ۔فقہاءِ کرام ؒ نے غرر کی دو اقسام بیان کی ہیں :

ایک قسم تو وہ ہے کہ جس میں غرر معمولی درجے کا ہو، جو جھگڑے اور نزاع کا باعث نہ بنے ۔ یہ غرر یسیر ہے۔شریعت میں ایسے غرر کی اجازت ہے۔

دوسری قسم وہ ہے جس میں غرر(دھوکہ ، بے یقینی) اس درجے کی ہو، جو باعثِ نزاع ہو۔یہ غرر کثیر ہے اور یہ ناجائز ہے۔ یہ غرر شریعت میں ممنوع ہے۔ حدیث مبارک ہے:

’’عن ابی هریرة رضی الله تعالیٰ عنه قال:نهیٰ رسول الله ﷺ عن بیع الحصاة و عن بیع الغرر‘‘[10]

’’نبی کریم ﷺ نے کنکر کی بیع اور غرر کی بیع سے منع فرمایا ہے۔‘‘

انشورنس کے اندر غرر کثیر کی خرابی موجود ہے، کیونکہ انشورنس کے اندر جس خطرے کی تلافی کے لئے پالیسی خریدی جاتی ہے اس کا پایا جانا غیر یقینی ہوتا ہے ۔وہ خطرہ پیش آئے یا نہیں اوراس کے بدلے میں ملنے والی رقم کی مقدار سب مجہول عناصر ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا جتنی رقم خود ادا کی وہی سود کے ساتھ ملے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حادثے کی صورت میں زیادہ رقم ملے،یعنی صورت ِ حال واضح نہیں ہےاور اسی کو غرر کہتے ہیں ۔

یہ تمام انشورنس کے معاملات بعینہ تکافل میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ پالیسی ہولڈرز اپنے کسی ایسے ہی نقصان کے لئے تکافل پالیسی خریدتے ہیں کہ اگر وہ اس نقصان سے دو چار ہو جاتے ہیں تو تکافل کمپنی اس فنڈ سے ان کے نقصانات کا ازالہ کرے گی۔ یہاں پہلی بات اشکال کی یہ ہے کہ اس نقصان کے پیش آنے کی نہ تو مدت واضح ہے اور نہ ہی اس بات کا یقین ہے کہ آیا وہ نقصان پیش آئے گا بھی یا نہیں۔ تکافل میں موجود یہ مجہول پہلو اسے غرر میں شامل کرتےہیں۔کیونکہ ممکن ہے کہ جس نقصان کے لئے پالیسی لی گئی ہے وہ پیش نہ آئے اور پالیسی ہولڈر کی وہ ساری رقم ضائع ہو جائے اور یہ بھی احتمال ہے کہ جس نقصان کے لئے پالیسی خریدی گئی ہے وہ پیش آجائے اور کمپنی کو زیادہ رقم ادا کرنی پڑے۔ اور غرر شرعی طور پر سختی سے ممنوع ہے ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے۔

جوئے کا اشکال:

جوا یا قمار ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۔ قمار کو اردو میں جوا کہتے ہیں ۔ قمار کی حقیقت یہ ہے کہ دو یا دو سے زائدافرا د آپس میں کوئی اس طرح کا معاملہ کریں جس کےنتیجے میں ہر فریق کسی غیر یقینی واقعے کی بنیاد پر اپنا کوئی مال (فوری ادائیگی کر کے یا ادائیگی کا وعدہ کر کے)اس طرح داؤ پر لگائے کہ وہ اپنا مال یا تو بلا معاوضہ دوسرے فریق کے پاس چلا جائے یا دوسرے فریق کامال پہلے والے کے پاس بلا معاوضہ آ جائے ۔قمار کی بنیادی طور پر دو صورتیں ہیں:

۱۔ پہلی صورت یہ ہے کہ غیر یقینی واقعہ پیش آنے سے پہلے کوئی فریق دوسرے کو ادائیگی کا پابند نہ ہو، بلکہ غیر یقینی واقعے کے نتیجے میں ایک فریق پر دوسرے فریق کی ادائیگی لازم ہو جیسا کہ شرط لگانا۔ مثلاً زید خالد سے کہے کہ اگر پاکستان میچ جیت گیا تو میں تمہیں سو روپے دوں گااور اگر ہار گیا تو تم مجھے دو گے۔ اسی طرح بعض مرتبہ لڑکے کوئی کھیل کھیلنے سے پہلے یہ شرط لگاتے ہیں کہ جو ہار گیا وہ جیتنے والے کو اتنی متعین رقم ادا کرے گا۔

۲۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک فریق پہلے سے ادائیگی کرتا ہے پھر اگر وہ واقعہ پیش آجائے تو وہ اپنی رقم سمیت کئی گنا زیادہ لے لیتا ہے، ورنہ اپنی دی ہوئی رقم سے بھی محروم ہو جاتا ہے ۔اس کی واضح مثال لاٹری ہے کہ اس مقابلہ میں حصہ لینے والا متعین رقم ادا کر کے ٹکٹ خریدتا ہے۔ اگر اس پر قرعہ نکل آئے تو وہ دی ہوئی رقم سے کئی گنا زیادہ بڑھ کر رقم حاصل کرتا ہے اور نہ نکلے تو اپنی رقم سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔

انشورنس کے اندر پایا جانے والا قمار اسی نوعیت کا ہے ۔ کیوں کے اس میں پالیسی ہولڈر کی طرف سے ادائیگی تو یقینی ہوتی ہے لیکن جنرل انشورنس کے اندر اس کے بدلے میں رقم ملنا یقینی نہیں ہوتا، بلکہ ایک غیر یقینی واقعہ مثلاً گاڑی کے حادثے وغیرہ سے معلق ہوتا ہے ، اگر وہ پیش آئے تو نقصان کے بقدر تلافی کر دی جاتی ہے ، ورنہ اصل پریمیم بلا معاوضہ چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مروجہ انشورنس کو حرام قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس کے اندر بہت سی شرعی خرابیاں پائی جاتی ہیں جن سے بچنے کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ اس سلسلے میں قرآنی احکامات مندرجہ ذیل ہیں:۔

’’یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘[11]

’’اے مومنو! بے شک شراب ، جوا،بت،پانسے یہ سب چیزیں ناپاک ہیں ،شیطانی کام ہیں پس ان سے بچتے رہا کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔‘‘

جو ا غرر کی ایک شکل ہے کیونکہ جواری کو اس کے نتیجے کا علم کا نہیں ہوتا۔ ایک شخص اس امید پر اپنا پیسہ داؤ پر لگاتا ہے کہ اسے اس کے بدلے میں زیادہ پیسہ ملے گایا پھر اس کا یہ پیسہ بھی ضائع ہو جائے گا۔ قرآن نے اسے شیطانی کام کا نام دیا ہے لہذا ہر اس معاملے سے بچنا چاہئے جس میں غرر کا اشکال بھی پایا جاتا ہو۔

تکافل کے اندرانشورنس کی طرح قمار کا اشکال پایا جا تاہے تکافل کمپنی غیر یقینی واقعہ کے پیش آنے پر رقم کی ادائیگی کاوعدہ کرتی ہے۔ اسی طرح دوسری صورت میں پالیسی ہولڈر کمپنی سے غیر یقینی واقعہ کے پیش آنے پر اپنی رقم سمیت کئی گنا زیادہ لینے کا وعدہ لیتا ہے۔کوئی بھی ایسا معاملہ جس میں کسی ایک فریق کے نقصان میں جانے کا خطرہ ہو تو وہ بھی قمار ہے۔ یہ تمام صورتیں تکافل کے مضاربہ ماڈل میں بعینہ موجود ہیں۔

مضاربہ ماڈل کے عملی طریقہ کار میں پیش آمدہ مسائل:

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ مقاصد کے اعتبارسے انشورنس میں کسی قسم کی شرعی قباحت موجود نہیں ہے۔مسئلہ انشورنس کے طریقہ کار میں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کی ضرورت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس کے شرعی متبادل پیش کرنے کی کوشش کی گئی لہذا اب یہ شرعی متبادل ایساہونا چاہئے جو شریعت کے اصولوں کے عین موافق ہو۔ تکافل کا مضاربہ ماڈل مضاربت کے نام پر قائم کیا گیا ہے لیکن اس میں مضاربت کے تمام اصول و قواعد کی پابندی نہیں کی جاتی بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ یہ ماڈل مضاربت کے شرعی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا ۔ذیل میں موجوداشکالات اس بات کی وضاحت کرتے ہیں۔

مضاربت مقیدہ کے اصول کی خلاف ورزی:

یہ ماڈل جو بظاہر مضاربت کے نام پر قائم کیاگیا تھا ،مضاربت کے صحیح شرعی اصولوں سے موافقت نہیں رکھتا۔ بہت سے اسلامی اسکالرز اس بات پر متفق ہیں کہ مضاربہ ماڈل میں کچھ ایسی پالیسیز ہیں جو مضاربت کی شرعی روح کے منافی ہیں۔

شرعی نقطہ نظر سے مضاربہ کے معاہدے میں سرمایہ کار کا حق ہوتا ہے کہ وہ مضارب پر کسی مخصوص شخص ،کمپنی کے ساتھ لین دین کرنے یاکسی خاص جگہ کاروبارکرنے کی پابندی عائد کر سکتا ہے ۔ اور ان اشیاء کا تعین بھی کر سکتا ہے جن کے علاو ہ سرمایہ کاری نہیں کی جا سکتی اور ا گرمضارب رب المال کی ہدایات پر عمل نہ کرے تو وہ رب المال کے سرمایہ کا ذمہ دار ہوتا ہے۔امام ابنِ قدامہ اس بارے لکھتے ہیں:

’’أن یشترط علی العامل فی نوع بعینه صحیح ولنا أنهما مضاربة خاصة لا تمنع الربح بالکلیة فصحت کما لوشرط أن لایتجر إلا فی نوع یعم وجوده ولانه عقد یصح تخصیصه بنوع یصح تخصیصه فی الرجل بعینه وسلعةبعینه کالو کلة۔‘‘ [12]

فقہاءکی عبارت سےیہی بات واضح ہوتی ہے کہ رب المال مضارب پرخاص شہر،خاص شخص اورمعین وقت کی قید لگا سکتا ہے۔ان شرائط کے عائد کرنے پر فقہاءکا اتفاق ہے۔لیکن تکافل کمپنیز پالیسی ہولڈرز سے یہ حق پہلے ہی withdraw کروا لیتی ہیں۔[13] مضاربہ کی بنیاد پر ہونے کے باوجود یہ کمپنیز پالیسی ہولڈرزکو یہ اختیار نہیں دیتیں کہ وہ اس قسم کی کوئی بھی پابندی لگا سکیں حالانکہ یہ مضاربہ معاہدےمیں ان کا شرعی حق ہوتاہے۔

نفع کی تقسیم کے مسائل:

دوسرا اعتراض اس میں یہ وارد ہوتا ہے کہ تکافل کے مضاربہ ماڈل میں نفع کی تقسیم مضاربت کے اصولوں کے مطابق نہیں کی جاتی۔ صحت ِ مضاربت کے لئے ضروری ہے کہ دونوں فریقین(رب المال اور مضارب) کا حصہ حاصل شدہ نفع میں فیصد کے اعتبار سے مقرر ہو نہ کہ راس المال کے اعتبار سے ، کسی کے لئے سرمایہ کے تناسب سے نفع طے کرنا کہ کل سرمایہ کا اتنا فیصد نفع ملے گا،

جائز نہیں ہے۔ فریقین کے لئے لازمی ہے کہ ہ آغاز میں میں ہی نفع کی خاص اور واضح شرح متعین کر لیں ۔آئمہ اربعہ کا اس بنیادی

اصول پر اتفاق ہے ۔علامہ کاسانی اس ضمن میں لکھتے ہیں:

’’اعلام مقدار الربح لان المعقود علیه وهو الربح و جهالة المعقود علیه توجب فساد العقد‘‘ [14]

’’منافع میں یہ شرط ہے کہ اس کی کیفیت اس طرح معلو م ہو کہ اس میں کوئی بے خبری اور نزاع کا امکان نہ ہو۔‘‘

مضاربت میں نفع کی تقسیم کے شرعی اصول او دیگر تکافل کمپنیز کے نفع کی تقسیم کاجائزہ لینے سے مندرجہ ذیل اعتراضات سامنے آتے ہیں:

۱۔ پالیسی ہولڈرز کو نفع کی تقسیم کا تناسب شروع میں بتایا جاتاہے لیکن پالیسی ہولڈرز سے جوفارم پر کروایا جاتاہے اس میں صا ف لکھا ہوتا ہے کہ کمپنی یہ تناسب تبدیل کرنے کی مجا زہے ۔ ملائشیا کی تمام تکافل کمپنیز مضاربت کے لئے بینک نگارہ سے منسلک ہیں بینک کی منافع تقسیم کے حوالے سے یہ شِق ہے کہ منافع کی مقدار تبدیل ہو سکتی ہے :

“The PSR may be revised during the tenure of the mudharabah contract.”[15]

لیکن بینکوں اور تکافل کمپنیز کی طرف سے منافع کی تبدیل شدہ شرح کی نوعیت کیا ہوگی اور یہ تبدیل شدہ مقدار کتنے عرصہ کےلئے ہوگی اس کی وضاحت کہیں نہیں ملتی۔اس سے یہ معاملہ ناجائز ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں کمپنیز کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے تمام پالیسی ہولڈرزکواس کی معلومات ہر ممکنہ ذرائع سے فراہم کرے،یا تو انکے ساتھ میٹنگ کر کے یا انہیں اس کی معلومات آن لائن فراہم کرے:

۲۔ ایک مضاربہ پول میں کل کتنے ممبرا ن شامل ہیں؟ اور ان کی طرف سے ادا کیا گیاکل سرمایہ کتنا ہے ؟ان سوالات کی وضاحت نہیں کی جاتی ۔

۳۔اس سرمایہ سے کس قسم کا کاروبار کیا جائے گا؟ اس کی وضاحت بھی رب المال کے سامنے نہیں کی جاتی۔

۴۔تکافل کمپنیز کے بنانے میں کچھ ا فراد جو درحقیقت کمپنی کے مالکان ہوتے ہیں وہ اپنا سرمایہ بھی لگاتے ہیں ۔ ایک تو اس اعتبار سے وہ کمپنی کے شئیر ہولڈرز ہوتے ہیں اس حوالے سے ان کا سرمایہ کمپنی میں پہلے سے لگا ہواہوتا ہے اوردوسری طرف وہ مضاربت میں بھی اپنا سرمایہ شامل کرتے ہیں ۔ایسی صورت حال میں یہ کمپنیز شریک اور مضارب دونوں حیثیت سے منافع میں حصہ دار بنتی ہیں لیکن اس صورت حال کو یہ کمپنیاں پالیسی ہولڈر کے سامنے واضح نہیں کرتیں اور نہ ہی اپنے منافع کا تناسب بتاتی ہیں۔ شرعی اصول ’’خلط المضاربہ‘‘ کے تحت یہ درج ہے کہ ’’ اگر مضارب اپنا سرمایہ بھی مال مضاربت میں شامل کرنا چاہے تو اس کے لئے رب المال کی صریح اجازت درکار ہو گی کیونکہ اس سے عقد کی نوعیت مضاربت سے بدل کر شرکت ہو گی۔‘‘ان کمپنیز کی جانب سے ان تمام

امور کی وضاحت بہت اہمیت کی حامل ہے ۔

مختلف اقسام کی فیسوں کا وصول کیا جانا:

تکافل کے اس ماڈل میں شرکاء کے مضاربہ فنڈ سے مضاربت کے اخراجات کو منہا کیا جا تا ہے جبکہ تبرع فنڈ سے کمپنی کے انتظامی اخراجات کو detect کیا جاتا ہے ۔ اور اس میں اس بات کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا کہ مضاربت کے اخراجات اور کمپنی کےذاتی اخراجات کو الگ رکھاجائے ۔ فقہاءِ مذاہب اربعہ اس امر پر متفق ہیں کہ حالت حضرمیں مضارب مال مضاربت سے اپنے ذاتی اخراجات کی مد میں کچھ خرچ نہیں کر سکتا لبتہ اگر وہ شہر سے باہر سفر کرتا ہے تو مقررہ حد تک اور ضروری اخراجات کی مد میں خرچ کر سکتا ہے۔لیکن یہ تکافل کمپنیز ہر طرح کے اخراجات کا بوجھ بھی پالیسی ہولڈرز پر ڈال دیتی ہیں۔یہ وہ شرط ہے جس کی وجہ سے مضاربت فاسد ہو جاتی ہے۔پالیسی ہولڈرز کی ادا کی گئی رقوم سے سب سے پہلے ایلوکیشن فیس منہا کی جاتی ہے ۔یہ فیس پالیسی کی مدت اور مالیت کو مدِ نظر رکھ کر لی جاتی ہے۔پہلی قسط سے ایک خطیر رقم اس مد میں چلی جاتی ہے ۔ایلوکیشن فیس کے بعد جو حصہ خالص انویسٹمنٹ کے لئے ہوتا ہے اس سے بھی دو فیسیں کاٹی جاتی ہیں :

۱۔ایڈمن فیس :۔ یہ ماہانہ بنیادوں لیکن پالیسی کی مدت اور مالیت کے اعتبار سے مختلف مگر فکسڈ ہوتی ہےاور اس میں سالانہ آٹھ فیصد اضافہ ہوتا ہے۔

۲۔ مینجمنٹ انویسٹمنٹ فیس:۔ یہ بھی ہر کمپنی کی مختلف تناسب کے ساتھ ہوتی ہے ۔

یہ ساری فیس تکافل کمپنی کے ایجنٹ اور کمپنی کے ذمہ داران کی ملکیت ہوتی ہے۔یہ وہ پہلو ہے جس سے انشورنس اور تکافل کمپنی میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ انشورنس میں بھی پہلی قسط ساری تکافل ایجنٹوں کی جیب میں چلی جاتی ہے اور یہاں بھی کافی رقم مختلف فیسوں کی مد میں کاٹ لی جاتی ہے۔کمپنیز کے لئے یہ جائز نہیں ہےکہ وہ منافع کے ساتھ اور کئی فیسوں کے نام پر پالیسی ہولڈرز کی جیبیں خالی کرواتی رہیں ۔اور یہ ماڈل مضاربت کے اصول پر قائم کیا گیا تھااورمضاربت کی بنیاد پر قائم کی گئی کمپنیز کا تنخواہ اور اجرت لینا ناجائز اور مفسد عقدہےکیونکہ اس معاہدہ میں رب المال اور مضارب کا تعلق منافع شئیر کرنے کی حد تک ہوتا ہے۔

وراثت کے مسائل:

مضاربہ ماڈل کی بنیادپرتکافل پالیسی خریدنے سے اس میں وراثت کا مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ تکافل پالیسی میں انشورنس کی طرح پالیسی ہولڈر کسی ایک کو اپنے بعد نامزد کرتا ہے ۔نامزدکیا ہوا شخص پالیسی کی مدت کےدوران پالیسی ہولڈر کی وفات کی صورت میں اس کے بعدپالیسی سے ملنے والے فوائد کا حقدار ٹھہرتا ہے ۔اس پالیسی سے ملنے والی تمام رقم اسی شخص کوملتی ہےچاہے وہ پالیسی ہولڈر کا کوئی ایک وارث،دوست یا کوئی دورکارشتہ دارہو۔یہ بات صریحاً غلط اور خلاف ِ شریعت ہے ۔ اسلام نے وراثت کا ایک مکمل نظام دیا ہے جس میں اس کے خاندان کے تمام افراد ایک طے شدہ حصے سے شریک ہوتے ہیں ۔قرآن کی نصوص سے وارثین اور ان کے حصے شریعت نے متعین کر رکھے ہیں۔اس ضمن میں درج ذیل ارشاد ات باری تعالیٰ کافی اہم ہیں:

  • ’’لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ ۔۔الخ‘‘[16]
  • ’’یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ۔۔ الخ ‘‘[17]

ان تمام آیات میں وراثت کی فرضیت اور میراث کی مکمل تفصیل ملتی ہے ۔ شریعت نے ہر انسان کا وراثت میں خود حصہ مقرر کر رکھاہے جس میں کسی بھی قسم کا ردوبدل نہیں کیا جا سکتا۔ خاندان کے تمام افراد کا حصہ قرآن نے خود بیان کیا ہے اور اس کی مزید وضاحت نبی کریمﷺ کے ارشادات سے ملتی ہے۔ا ب کسی بھی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کسی ایک شخص کو اپنے سرمایہ کا حقدار ٹھہرا کر خاندان کے باقی افراد کو اپنی وراثت سے محروم کر دے۔مضاربت کے تحت لگایا جانے والا سرمایہ اورمنافع پالیسی ہولڈر کی میراث کی حیثیت رکھتا ہے،لہذا اسے شرعی طریقہ کے مطابق تمام وارثین میں تقسیم ہونا چاہئے۔لیکن انشورنس اور تکافل پالیسیز میں ایسا ہی کیا جاتا ہے کہ اس میں پالیسی ہولڈر کسی ایک کو نامزد کر دیتا ہے ۔اگرپالیسی ہولڈر کی پالیسی کی مدت کے دوران وفات ہو جائے تو نامزد کیا ہوا شخص اس پالیسی سے ملنےوالے تمام سرمایہ کا حقدار ٹھہرتا ہے۔

سرپلس کی تقسیم:

ایک اعتراض شرکاء اورپالیسی ہولڈرز کے درمیان سرپلس کی تقسیم ہے ۔فنڈ میں موجود رقم سےشرکاء کے کلیمز کی ادائیگی اور کمپنی کے اخراجات کے بعد جو رقم بچ جاتی ہے،اسےپالیسی ہولڈرز اور تکافل آپریٹرز کے درمیان تقسیم کیاجاتا ہے۔مختلف تکافل کمپنیز نے اپنے حساب سے سرپلس کی تقسیم کا معیار بنا رکھا ہے اس حساب سے وہ رسک فنڈمیں سے سرپلس اپنے لئے منہا کرتے ہیں اور اکثر اس کا علم پالیسی ہولڈرز کو نہیں ہوتا کیونکہ انہیں ا س بارے میں بتایا نہیں جاتا ۔ یہ چیز اس ماڈل پر ایک اور اشکال پیدا کرتی ہےوہ یہ ہے کہ مضارب ہونے کی حیثیت سے کمپنی کا حق صرف منافع پر ہوتا ہے مضاربت کی بنیاد پر کئے گئے عقد میں رب المال اور مضارب کے درمیان تعلق نفع شئیر کرنے کا ہوتا ہے۔لیکن اس ماڈل میں مضارب نفع کے ساتھ مختلف طرح سے فائدہ وصول کرتا ہے جو کہ خلافِ شریعت ہے۔

تبرع پول میں کلیمز کی دائیگی کے بعد بچ جانے والی رقوم بھی تکافل آپریٹر نہ صرف پالیسی ہولڈرز کو دیتا ہے بلکہ خود بھی اس کا حصہ دار بنتا ہے ۔یہ اصول قرآن کریم کے درج ذیل حکم کے خلاف ہے:

’’یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ‘‘[18]

’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔‘‘

تکافل کمپنیز نقصان کی صورت میں نقصان خود برداشت نہیں کرتی ہیں بلکہ اس کا سارا بوجھ پالیسی ہولڈرز پر ڈال دیتی ہیں۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہا اگر وہ پول میں بچ جانےوالی رقم میں حصہ دار بنتی ہےتو انہیں پھر نقصان بھی پالیسی ہولڈرز کے ساتھ مل کر شیئر کرنا چاہئے لیکن کمپنیز ایسانہیں کرتیں۔

خلاصہ کلام

زیر نظر مقالہ میں دورِ حاضر میں رائج انشورنس کے شرعی متبادل، تکافل کے ایک ماڈل ’’مضاربہ ماڈل ‘‘پر جامع بحث کی گئی ہے ۔ ان کے تعارف اور رائج نظام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ ماڈل جو مضاربت کی بنیا د پر قائم کیا گیا ہے یہ شرعی طور پر مضاربت کے قانون سے کتنی مطابقت رکھتا ہے ۔ مضاربت کے جواز کو دلائل کے ساتھ ثابت کرتے ہوئے مضاربت کی شرائط اور قواعد و ضوابط پر مدلل بحث کی گئی ہے۔ بعد ازاں تکافل کے مضاربہ ماڈل کو عملی سطح پر جانچا گیا ہے جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مضاربہ ماڈل حقیقی اعتبار سے مضاربت کے اصولوں سے متصادم ہے ۔ اس میں بہت سے اشکالات وارد ہوتے ہیں جن کا ذکر کیاگیاہے۔ یہ ماڈل مضاربت اور تبرع کے اصولوں پر قائم ہے لیکن عملی اعتبار سے اس میں مضاربت کے بہت سے اصولوں کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔ مثلاً منافع کی تقسیم کا نظام ، راس المال سے لاعلمی ، مضاربت اور شراکت کا یک جا کیا جانا لیکن اس کے قواعد کی پیروی نہ کرنا، قرض حسنہ کی فراہمی ، سرپلس کی تقسیم ، تمام اخراجات کا راس المال سے منہا کیا جانا وغیرہ جیسے متعدد اعتراضات پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تکافل کا یہ عقد، عقدِ معاوضہ بن رہا ہے جس سےاس میں غرر اورقمار جیسے شرعی مفاسد پائےجاتے ہیں ۔اس لئے یہ ماڈل کسی صورت بھی شرعی خرابیوں سے مبرا نہیں ہے ۔ تکافل کا نظام جو بظاہر اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہونے کا دعوٰی کرتا ہے، اسلامی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا ہے ۔ لہذا یہ کہنا کہ یہ ما ڈل شرعی اصولوں کے عین مطابق اور ہر طرح کے اشکالات سے پاک ہے، درست نہیں ہے۔

سفارشات و تجاویز:

پیش کی گئی تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تکافل کا مضاربہ ماڈل جو مختلف اسلامی ممالک میں رائج ہے اس میں بہت سے اشکالات پائے جاتے ہیں ۔لہذا یا تو تکافل پالیسی کا سارا نظام بدلا جائے یا پھر مروج نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ذیل میں اس ماڈل کو بہتر بنانے کے لئے کچھ سفارشات و تجاویز دی جا رہی ہیں جو کسی حد تک اس نظا م کو قابل قبول بنانے میں معاون ہو سکتی ہیں؛

۱۔ تکافل کا معاہدہ تبر ع کی بنیاد پر ہی قائم ہو نا چاہئےلیکن اس تبرع کی نوعیت ایسی ہونی چاہئے کہ جس میں التزام التبرع کی نیت اور معاملہ نہ ہو۔تبرع اس نوعیت کا ہونا چاہئے کہ کچھ افراد مل کر یہ تکافل فنڈقائم کریں اور اسے کسی طبقے کے لئے مخصوص کرلیں۔ تمام افراد اس میں اپنی استطاعت کے مطابق چندہ دیں اور اس مخصوص طبقے کے افرادکو جب بھی کوئی حادثہ پیش آئے تو اس سے اس انسان کی مدد کی جاسکے۔ ضروری نہیں ہے کہ اس مخصوص کئے گئے طبقہ کا ہر شخص جبراً اس فنڈمیں چندہ دے ۔ جو شخص دینے کی استطاعت رکھتاہو وہ چندہ دے لیکن یہ بات اس میں شامل نہ ہو کہ جو چندہ نہیں دے گا اس کی مدد نہیں کی جائے گی۔

۲۔اول توتکافل کا معاہدہ مضاربت کی بنیا د پر نہیں ہونا چاہئے لیکن اگر کچھ کمپنیز اس بنیاد پر تکافل کا نظام چلا رہی ہیں تو پھرشرعی طور پر مضاربت کے تمام قواعد و ضوابط کا خیال رکھنا چاہئے۔مضاربت کے معاہدے میں پالیسی ہولڈر اور تکافل کمپنی کے درمیان تعلق آپس میں نفع تقسیم کرنے کا ہوتا ہے۔ لہذا نفع کا تناسب مضاربت کے قوانین کے مطابق واضح اور متعین ہو نا چاہئے۔ یعنی تناسب کے اعتبار سے اس کی شرح متعین ہو نی چاہئے۔ اور کسی ایک فریق کا بھی نفع میں سے حصہ رقم کے اعتبار سے متعین نہیں ہونا چاہئے۔ نفع کی شرح کا تعین اور اس کی تقسیم واضح ہونی چاہئے۔ پالیسی ہولڈرز کو نفع کی تقسیم کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے۔اس کے علاوہ تکافل کمپنیز کو ایلوکیشن فیس اور مینجمنٹ فیس کے نام پر شرکاء سے بھاری بھاری فیسیں وصول نہیں کرنی چاہئیں۔مضاربت کے اصول کے مطابق مضارب صرف تجارتی اخراجات راس المال سے منہا کرنے کا مجاز ہے لیکن اسے اس کی مکمل تفصیل پالیسی ہولڈرز سے شئیر کرنی چاہئے۔

۳۔ تکافل کمپنیز میں چونکہ ایک سے زیادہ پالیسی ہولڈرز ہوتے ہیں لہذا ہر ایک کے سرمایہ کی مقدار اور اس پول میں اپنے سرمایہ کا تناسب تمام پالیسی ہولڈرز کو معلوم ہونا چاہئے ۔ تاکہ ہر پالیسی ہولڈر کو معلوم ہو کہ اس کےسرمایہ کے حساب سے اس کے نفع کی مقدار کا تناسب کیا ہوگا۔اس کے علاوہ تکافل کمپنیز کو اپنا سرمایہ مال مضاربت میں شامل نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس سے معاہدہ کی نوعیت مضاربت سے بدل کر شرکت کی ہو جاتی ہے ۔ لیکن پھر بھی اگر کوئی کمپنی ایسا کرنا ضروری سمجھتی ہے تو تو اسے پنے سارے پالیسی ہولڈرز کو اپنے سرمایہ کی تفصیل فراہم کرنی چاہئے ۔ پول میں کل سرمایہ کتنا ہے اس سے کس نوعیت کا کاروبار کیا جائے گا اس کی ساری معلومات پالیسی ہولڈرز کو دینی چاہئے۔

۴۔دوران پالیسی اگر کسی پالیسی ہولڈر کا انتقال ہو جائے تو اس صورت میں اسے ملنے والی رقم اس کی طرف سے کئے گئے نامزد کئے ہوئے شخص کو ملتی ہے حالانکہ یہ سرمایہ اور اس پر منافع پالیسی ہولڈر کی جائیداد کی حیثیت رکھتا ہے لہذا ا س پر پالیسی ہولڈر کے تمام وارثین کا حق ہوتا ہے۔اس لئے اسے تمام وارثین کے درمیان شرعی طریقے سے تقسیم ہونا چاہئے ۔ اس نظام کو تکافل کمپنیز احسن انداز میں manageنہیں کر سکتیں ۔ اس سے نکلنے کا ایک یہی طریقہ ہے کہ تکافل کا نظام مضاربت کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہئے بلکہ اسے خالصتاً تبرع کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔زکوٰۃ کی ادائیگی کو بھی اس فنڈ میں سے یقینی بنانا چاہئے۔

۵۔ہر پالیسی ہولڈر کے لئے پریمیم کی ایک مخصوص مقدار متعین نہیں ہونی چاہئےبلکہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق جتنا سرمایہ اس فنڈ میں دینا چاہے اسے دینے کی اجازت ہونی چاہئے ۔ اورا س کے سرمایہ کے حساب سے اسے نفع میں سے حصہ ملنا چاہئے۔

۶۔ فنڈمیں کلیمز کی ادائیگی اوراخراجات کے بعد بچ جانے والی رقوم یعنی سرپلس پر نہ تو پالیسی ہولڈر کا حق ہونا چاہئے اور نہ ہی تکافل آپریٹرز کا۔اس رقم کو فنڈمیں باقی رکھا جائے تاکہ بعد ازاں لوگوں کو پیش آنے الے نقصانات کی تلافی کی جاسکے۔

۷۔فنڈکو اگرخسارہ ہو جائے تو تکافل کمپنی کو قرض حسنہ نہیں دینا چاہئے بلکہ تمام پالیسی ہولڈرز کو اس نقصان کے بارے میں بتانا چاہئے ان پر اس نقصان کی ساری نوعیت کو واضح کرنا چاہئے۔ کیونکہ یہ ماڈل مضاربت کی بنیا د پر قائم کیا گیا ہے، مضاربت کی یہ شرط ہےکہ نقصان رب المال کا ہی ہوتا ہے ۔لیکن اس نقصان میں کسی بھی قسم کی غیر ذمہ داری مضارب کی نہیں ہونی چاہئے اگر ایسا ہوا تو اس نقصان کو پورا کرنے کی ذمہ داری بھی مضارب یعنی تکافل کمپنی پر آئے گی ۔ اورپھر بھی تکافل کمپنیز پالیسی ہولڈرز سے بھاری پریمیم اس نقصان کو پورا کرنے کی مجاز نہیں ہونی چاہئیں ۔

حوالہ جات

  1. ہیئۃ المحاسبۃ والمراجعۃ ،المعاییر الشریعۃ للمؤسسات المالیۃ الاسلامیۃ (الکویت:ہیئۃ المحاسبۃ والمراجعۃ للمؤسسات المالیۃ الاسلامیۃ ،۲۰۱۴ ء) ،ص :۲۶
  2. الانفال:۵
  3. المزمل: ۲۰
  4. == شمس الدین ،محمد ابن عباس،نہایۃ المحتاج الی شرح المنہاج( بیروت : دار الفکر ،۱۹۸۲ء)، ۵: ۱۸
  5. == دار قطنی، ابو الحسن علی بن عمر،السنن(بیروت:مؤسسۃ الرسالۃ،س ن)،حدیث :۳۰۸۱؛ بیہقی، ابو بکر، احمد بن حسین بن علی،السنن،( بیروت :دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۲۴ھ) ، حدیث :۱۱۶۱۱
  6. الکاسانی، ابوبکر بن مسعود بن احمد، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع( بیروت : دار الکتب العلمیہ ،۱۴۰۲ھ) ،۴: ۷۹
  7. == Takāful Malaysia, News bulletin, 2001.
  8. == رضا ء الحق، مفتی، فتاوی دار العلوم زکریا )کراچی: زمزم پبلشرز، س۔ن(، ۵: ۷۲۹
  9. == مفتی، تقی عثمانی، تاصیل التامین علیٰ اسا س الوقف والحاجۃ الداعیۃ إلیہ( غیر مطبوعہ)،ص:۱۷
  10. نیشاپوری، مسلم بن الحجاج، الجامع الصحیح(الریاض: دارالسلام، ۱۹۹۹ء) ،حدیث :۳۸۰۸
  11. المائدہ: ۹۰
  12. ابن قدامہ، عبد اللہ بن احمد المقدسی، المغنی (مصر: مکتبہ القاہرہ، س ن)، ۵: ۶۹
  13. == [A rabbul mal shall not be involved in managing the mudharabah venture], Modharba, Islamic Baking and Takaful Department, (Bank Negara: Malaysia, 2015) http://www.bnm.gov.my/guidelines/05_shariah/Mudarabah.pdf,
  14. الکاسانی ، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ، ۵ :۱۱۸
  15. Modharba, Islamic Baking and Takaful Department, (BNM: Malaysia, 2015)
  16. النساء:۷۰
  17. ایضاً: ۱۱
  18. ایضاً:۲۸
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...