Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 3 Issue 2 of Al-ʿILM

جدید تجارتی نظام میں مزدوروں کے حقوق سیرت طیبہ کی روشنی میں |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

2

Year

2019

ARI Id

1682060040263_708

Pages

65-77

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/29/27

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/29

Subjects

Labour Rights Trade’s Systems Seerat-ul-Nabi

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

دین اسلام کا نظریہ ہے کہ کائنات کا خالق ومالک اوررازق اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اُسی نے کائنات بنائی اور انسان کو اپنا نائب بنا کر دنیا میں بھیجااللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں انسان منفرد اور مختلف ہے انسان کو زندگی عطاء ہوئی تعظیم اور عزت عطاء کی گی وسائل عطاء ہوئے اور ارادہ اور اختیار کی قوت دے کر اللہ نے اپنا نائب اور نمائندہ مقرر کیا اسکے ساتھ ساتھ انسان کو صحیح اور غلط میں تمیز کے لیے ہدایت اور عقل و شعور کی نعمت عطاء کی کہ وہ اسکا استعمال کرتے ہوئے زندگی کی نئی راہیں کھول سکے انسان اللہ تعالیٰ کےاختیارات کا امین ہےاسکو جو بھی نعمتیں حاصل ہوئی ہیں وہ اِن سب کے لیے اللہ تعالیٰ کو جواب دہ ہے۔چنانچہ انسان نے ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیےمادی اشیاء جن میں زراعت،تجارت،صنعت،مال مویشی وغیرہ کو بھی اپنی زندگی میں شامل کیا لیکن تجارت کو ان سب میں فوقیت دی گی ہے کیونکہ تجارت کے ذریعے سے انسان کی زندگی کی زیادہ تر ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔ زمانہ جاہلیت میں بھی زیادہ تر تجارت کی جاتی تھی حضرت محمدﷺ کے ساتھ ساتھ زیادہ تر صحابہ کرام کا پیشہ تجارت ہی تھا ۔ محمد خالد سیف بیان کرتے ہیں کہ اسلام نے تجارت کا وہ معیار دیا جس میں ملاوٹ،جھوٹ، ناپ تول میں کمی،سامان تجارت کا نقص چھپانے جیسے گھٹیا فن میں کوئی گنجائش نہ رکھی غیر مسلم سامان تجارت لینے آتے لیکن سچے مسلمان تاجروں کے اخلاق کی وجہ سے ایمان کی دولت لے کر جاتے۔[1]

 

حضورﷺ نے جہاں دین و دنیا کے باقی اُصول بتائے وہاں پر آپﷺنے تجارت و معاشرت کے اُصولوں کو بھی واضع کیا جن پر عمل کر کے دین اور دینا میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ڈاکٹر نور محمدبیان کرتے ہیں کہ حضورؐ اکثربازاروں کا چکر لگاتے تھے تا کہ تجارتی معاملات کی اصلاح کر سکیں اور تجارتی کاروبار درست طریقہ پر چلایا جائے تا کہ وہ حلال کمائی اور باہمی تعاون کا ذریعہ بن جائے۔[2]

 

عصر حاضر میں بھی ملکی معیشت کو مظبوط کرنے کے لیےتجارت کو زیادہ فروغ دیا جا رہا ہے کیونکہ جب ملک کی معیشت مظبوط ہو تی ہے تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو تا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں بھی تجارت کے بارے میں فرمایا گیاہے۔

 

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ [3]

 

"اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، آپس میں ایک دُوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاو بلکہ آپس کی رضا مندی سےتجارت کے ذریعے نفع حاصل کرو "

 

یہاں پر باطل سے مراد تمام ناجائز طریقوں جس میں سود سے کمانے والا مال و دولت بھی شامل ہے کو حرام قرار دیا گیا ہےجبکہ دوسروں کو وہ مال و دولت جو باہمی رضامندی سےتجارت کے لیے لیا گیا ہوحرام نہیں۔

 

ڈاکٹر حبیب الرحمن کیلانی تجارت کی فضیلت بیان کرتے ہیں کہ تجارت ایک باعزت اور باوقار پیشہ

 

ہےاگر تجارت کا پیشہ اسلامی حدود کے اندر رہ کر اختیار کیا جائے تو دنیا میں فراوانی رزق کے علاوہ اخروی زندگی میں بھی بلندی درجات پر فائز کر دیتا ہے۔[4]

 

ہر انسان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے مال دولت اور اثاثہ جات میں اضافہ کرے اور اس مقصد کےلیےاپنے مال سے خود بھی تجارت کر سکتا ہے یا پھرکسی دوسرے تجربہ کار آدمی کو اپنا مال تجارت کے لیے دے دے۔ جیسا کہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کو باہمی رضامندی سے تجارت کے ذریعے نفع حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے ۔

 

فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ [5]

 

"پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاو اور اللہ کا فضل (مال تجارت اور رزق )تلاش کرو"

 

قرآن پاک کے ان احکامات سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام تجارت کی طرف ترغیب دیتا ہے کیونکہ قومیں تجارت سے ہی ترقی کرتی ہیں اسی لیےاسلا م بھی تجارت کرنے پر زور دیتاہے۔ حافظ زوالفقار علی بیان کرتے ہیں "کہ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے مرادتجارت، کاروبار ہے اور اگر یہ اسلامی احکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا جائے تو یہ اللہ کے قرب کا ذریعہ بن جاتا ہے"۔[6]

 

تاجرکے مقام و رتبہ کا اندازہ مندرجہ ذیل حدیث سےہوتا ہےجیسے کہ آپؐ نے فرمایا ہے۔

 

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ حَدَّثَنَا کَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنَا کُلْثُومُ بْنُ جَوْشَنٍ الْقُشَيْرِيُّ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّاجِرُ الْأَمِينُ الصَّدُوقُ الْمُسْلِمُ مَعَ الشُّهَدَائِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ [7]

 

"احمد بن سنان، کثیر ابن ہشام، کلثوم بن جوش، ایوب، نافع، حضرت ابن عمربیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسلمان سچا امانت دار تاجر روز قیامت شہداء کے ساتھ ہوگا"۔

 

احادیث میں بھی مزدور کے حقوق کی تائید کی گئی ہے

 

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَائِ [8]

 

"ہناد، قبیصہ، سفیان، ابی حمزہ، حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ

 

علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا سچا اور امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔"

 

بالا احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ ایک سچے اور امانت تاجر کا رتبہ اتنا بلند ہوتا ہےکہ قیامت والے دن اسے انبیا اور شہدا کا ساتھ نصیب ہو گا۔ ابو نعمان بشیراسی تناظر میں بیان کرتے ہیں" کہ عصر حاضر میں کچھ تاجر اس فکر سے آزاد ہیں کہ انداز تجار ت حلال ہے یا حرام اور جو لوگ یہ فکر رکھتے ہیں انہیں جائز و ناجائز تجارت کا علم ہی نہیں ہے۔" [9]

 

حضورؐ نے بھی حلال کمائی پر زور دیا ہے آپؐ نے حلال کمائی کو فرض کے برابر درجہ دیا ہےذیل کی احادیث اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ دنیا میں حلال کمائی سے بہتر کوئی روزی نہیں ہے۔

 

طلب کسب الحلال فریضیۃ بعد الفریضیۃ [10]

 

"حلال کمائی کی طلب کرنا دوسر ےفرائض کے بعد ایک فرض ہے۔"

 

حدثنا إبراهيم بن موسى ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا عيسى ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ثور ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن خالد بن معدان ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن المقدام ـ رضى الله عنه ـ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ما أكل أحد طعاما قط خيرا من أن يأكل من عمل يده [11]

 

"ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی ، انہیں ثور نے خبر دی ، انہیں خالد بن معدان نے اور انہیں مقدام رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی انسان نے اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھائی ، جو خود اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے ۔"

 

موجودہ تجارتی نظام میں مزدور کے حقوق سیرت طیبہ کی روشنی میں

 

عصر حاضر میں اسلامی معاشرے کو جن مشکلات سے گزرنا پڑھ رہا ہے اسکی سب سے بڑی وجہ دین سے غفلت ہےمسلمانوں نے قرآن و سنت کی تعلیمات کو چھوڑ کر مغربی دنیا کےطور طریقوں کو اپنا لیا ہےجبکہ اللہ تعالیٰ نےان کو مکمل شریعت عطاء کی اور قرآن میں تمام مسائل کا حل رکھ دیا اس کے باوجود مسلمان مسائل کے حل کے لیےبھٹک رہے ہیں اگر مسلمان قرآن و سنت کےمطالعہ کواپنا لے تو معاملات زندگی کے مسائل کا حل ان میں موجود پائے گا۔اسلام نے معاملات اور تجارت کے احکامات کو شریعت میں ایک خاص مقام دیا ہےجو کسی نظام معیشت میں نہیں ملتا۔قرآن پاک میں تجارت سے متعلق ہدایات دی

 

گئی ہیں۔# مزدور کے ساتھ تعاون

 

 

 

تجارت ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون پر مبنی ہوتی ہے لہذا تجارتی امورمیں جہاں فریقین تعاون کے ساتھ کام چلاتے ہیں اور ایک فریق دوسرے کے ساتھ مدد اور تعاون کا معاملہ اختیار کرتا ہے وہاں پر مزدور کے ساتھ بھی تعاون کرنا چاہیے اور نفع و نقصان کے اندیشہ کے بغیر مزدور کا ساتھ دینا چاہیے ۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔

 

وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ [12]

 

"بھلائی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی میں کسی سے تعاون نہ کرو ۔"

 

اس آیت میں یہی بیان کیا گیا ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے ۔تاکہ ایک مزدور جواپنے گھر والوں کے لیے محنت کر کے حلال روزی کماتا ہے اُس کی مدد ہو جائے۔

 

اس کا حکم حضورﷺ نے بھی دیا ہے۔

 

حدثنا سليمان بن حرب ،‏‏‏‏ قال حدثنا شعبة ،‏‏‏‏ عن واصل الأحدب ،‏‏‏‏ عن المعرور ،‏‏‏‏ قال لقيت أبا ذر بالربذة ،‏‏‏‏ وعليه حلة ،‏‏‏‏ وعلى غلامه حلة ،‏‏‏‏ فسألته عن ذلك ،‏‏‏‏ فقال إني ساببت رجلا ،‏‏‏‏ فعيرته بأمه ،‏‏‏‏ فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا أبا ذر أعيرته بأمه إنك امرؤ فيك جاهلية ،‏‏‏‏ إخوانكم خولكم ،‏‏‏‏ جعلهم الله تحت أيديكم ،‏‏‏‏ فمن كان أخوه تحت يده فليطعمه مما يأكل ،‏‏‏‏ وليلبسه مما يلبس ،‏‏‏‏ ولا تكلفوهم ما يغلبهم ،‏‏‏‏ فإن كلفتموهم فأعينوهم ‏"‏‏. [13]

 

"ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، انھوں نے اسے واصل احدب سے ، انھوں نے معرور سے ، کہا میں ابوذر سے ربذہ میں ملا وہ ایک جوڑا پہنے ہوئے تھے اور ان کا غلام بھی جوڑا پہنے ہوئے تھا ۔ میں نے اس کا سبب دریافت کیا تو کہنے لگے کہ میں نے ایک شخص یعنی غلام کو برا بھلا کہا تھا اور اس کی ماں کی غیرت دلائی ( یعنی گالی دی ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معلوم کر کے مجھ سے فرمایا اے ابوذر ! تو نے اسے ماں کے نام سے غیرت دلائی ، بیشک تجھ میں ابھی کچھ زمانہ جاہلیت کا اثر باقی ہے ۔ ( یاد رکھو ) ماتحت لوگ تمہارے بھائی ہیں ۔ اللہ نے ( اپنی کسی مصلحت کی بنا پر ) انہیں تمہارے قبضے میں دے رکھا ہے تو جس کے ماتحت اس کا کوئی بھائی ہو تو اس کو بھی وہی کھلائے جو آپ کھاتا ہے اور وہی کپڑا اسے پہنائے جو آپ پہنتا ہے اور ان کو اتنے کام کی تکلیف نہ دو کہ ان کے لیے مشکل ہو جائے اور اگر کوئی سخت کام ڈالو تو تم خود بھی ان کی مدد کرو ۔"

#

مزدور کی اُجرت طے کرنا

 

 

 

جب کسی مزدور کو کام پر لگائیں تو سب سے پہلے مزدور کے کام کی تنخواہ کا تعین کرنا چاہیے نہ کہ کام ختم ہونے کے بعد مزدور کو اپنی مرضی سے پیسے دیے جائیں بلکہ یہ پہلے مرحلے پر ہی طے کرنا چاہیے کہ مزدور کام کے کتنے پیسے لے گا اور آجر اُس کو کتنے پیسے دے گا جب مزدوری طے ہو جائے تو پھر مزدور کو کام شروع کرنے کا کہا جائے۔مزدور کو اتنی اُجرت ضرور دینی چاہیے کہ وہ عزت کے ساتھ ضروریات زندگی پوری کر سکے۔ اس تناظر میں حضوراﷺ کا فرمان ہے۔

 

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ أَنْبَأَنَا حِبَّانُ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ أَنَّهُ کَرِهَ أَنْ يَسْتَأْجِرَ الرَّجُلَ حَتَّی يُعْلِمَهُ أَجْرَهُ [14]

 

"محمد، حبان، عبد اللہ، حماد بن سلمہ، یونس، حضرت حسن سے روایت ہے کہ وہ اس بات کو ناگوار سمجھتے تھے کہ مزدور سے مزدوری مقرر کئے بغیر کام کرائیں۔"

 

خلیل الرحمان اس تناظر میں بیان کرتے ہیں "کہ موجودہ معاشرے میں بھی جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ مزدور کی اُجرت کیا ہونی چاہیے تو اس ضمن میں کوئی امریکہ کے قوانین اور طریقوں کا اور کوئی برطانوی قوانین کا حوالہ دیتا ہے۔لیکن چودہ سو سال قبل کے مزدور کو اسلام نے جو عطا کیا وہ کلیہ آج بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے تھا۔"[15]#

اُجرت کی بروقت ادائیگی

 

 

 

مزدور کی اُجرت کی ادائیگی کےوقت بہت ملال یا پھر تاخیر کرنا،عدم ادائیگی یا پھر ادائیگی بہت احسان جتا کر نے کی سخت ممانعت کی گئی ہے اس سے متعلق حضورﷺ کا فرمان ہے۔

 

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ قَالَ أَنْبَأَنَا حِبَّانُ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ

 

إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ إِذَا اسْتَأْجَرْتَ أَجِيرًا فَأَعْلِمْهُ أَجْرَهُ [16]

 

"محمد بن حاتم، حبان، عبد اللہ، شعبہ، حماد، ابراہیم، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت تم مزدوری کرانا چاہو کسی مزدور سے تو تم اس کی مزدوری ادا کر دو۔"

 

ڈاکٹر اوصاف کے مطابق" ایک اچھا آجربروقت اپنے مزدوروں کی مزدوری ادا کرتا ہےنیز تجارتی چکر کے دوران (یعنی کبھی خوش حالی اورکبھی بد حالی کا دور آتا ہے ) جب خوش حالی کا دور ہوتا ہے تو اجیر کی مزدوری میں اضافہ کرتا ہے۔" [17]#

مزدور کی استطاعت کے برابر کام لیا جائے

 

 

 

آجر کو چاہیےکہ مزدور سےاتنا ہی کام لے جسقدروہ آسانی سے مکمل کر لے اور کام لینے میں اسکو اتنی تکلیف میں نہ ڈالا جائے کہ کام اسکی اسطاعت سے زیادہ ہو اور وہ دلبرداشتہ ہو کر کام اُدھورا چھوڑ دے۔اس سے متعلق حضورﷺ فرماتے ہیں۔

 

ولا تكلفوهم ما يغلبهم ،‏‏‏‏ فإن كلفتموهم فأعينوهم[18]

 

"اور ان کو اتنے کام کی تکلیف نہ دو کہ ان کے لیے مشکل ہو جائے اور اگر کوئی سخت کام ڈالو تو تم خود بھی ان کی مدد کرو ۔"

 

هم إخوانكم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ جعلهم الله تحت أيديكم ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فمن جعل الله أخاه تحت يده فليطعمه مما يأكل ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وليلبسه مما يلبس ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا يكلفه من العمل ما يغلبه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإن كلفه ما يغلبه فليعنه عليه ‏[19]

 

"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں یاد رکھو یہ ( غلام بھی ) تمہارے بھائی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ما تحتیٰ میں دیا ہے ، پس اللہ تعالیٰ جس کی ما تحتیٰ میں بھی اس کے بھائی کو رکھے اسے چاہئے کہ جو وہ کھائے اسے بھی کھلائے اور جو وہ پہنے اسے بھی پہنائے اور اسے ایسا کام کرنے کے لیے نہ کہے ، جو اس کے بس میں نہ ہو اگر اسے کوئی ایسا کام کرنے کے لئے کہنا ہی پڑے تو اس کام میں اس کی مدد کرے"

#

مزدور سے حسن سلوک کا معاملہ اختیار کیا جائے

 

 

 

آجر کو اپنے ماتحتوں کے ساتھ اپنے اخلاق کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور حسن سلوک کا عملی مظاہرہ کرے۔

 

اسی ضمن میں شیخ حماد امین چاولہ لکھتے ہیں کہ اسے شرعی اصطلاح میں "سماحۃ" سے تعبیر کیا گیا ہے ۔یعنی

 

بلند اخلاق و کردار کا مظاہرہ کرنا،خندہ پیشانی اور خوش اسلوبی سے معاملات کو نبھانا،سخاوت کو اختیار کر،مجبور و کمزور لوگوں پر نرمی و شفقت کا معاملہ کرنا۔یہ وہ بنیادی ہدایات ہیں جن پر ہر مسلمان کومعاملات زندگی بالخصوص کاروبار تجارت،لین دین اور خرید و فروخت کےدوران عمل کرنا چاہیے۔ [20]

 

حضورﷺ نے مزدوروں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ اختیار کرنے کادرس دیا ہے۔

 

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ زُفَرَ عَنْ بَعْضِ بَنِي رَافِعِ بْنِ مَکِيثٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ مَکِيثٍ وَکَانَ مِمَّنْ شَهِدَ الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حُسْنُ الْمَلَکَةِ يُمْنٌ وَسُوئُ الْخُلُقِ شُؤْمٌ [21]

 

"ابراہیم بن موسی، عبدالرزاق، معمر، عثمان بن زفر، حضرت رافع بن مکیث سے روایت ہے اور یہ ان صحابہ میں سے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صلح حدیبیہ میں شریک تھے وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مملوکوں کے ساتھ عمدہ برتاؤ کرنا باعث برکت ہے اور ان کے ساتھ بد اخلاقی باعث نحوست ہے۔"

#

مزدور کی غلطی پر درگزر کرنا

 

 

 

اجیر کو چاہیےکہ مزدور کی چھوٹی موٹی غلطیوں پر در گز کرے اور معمولی حکم عدولی یا نافرمانی کرنے پر جھڑکنے یا ذلیل کرنے،سزا دینے سے اجتناب کرنا چاہیے اور مزدور کی دانستہ غلطی پر آجر کو اپنا دل بڑا کرنا چاہیے اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرتےہوئے درگزر سے کام لینا چاہیے۔ حضورﷺ نے فرمایا۔

 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِي هَانِئٍ الْخَوْلَانِيِّ عَنْ عَبَّاسٍ الْحَجْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ کَمْ أَعْفُو عَنْ الْخَادِمِ فَصَمَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ کَمْ أَعْفُو عَنْ الْخَادِمِ فَقَالَ کُلَّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ أَبِي هَانِئٍ الْخَوْلَانِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهَذَا [22]

 

"قتیبہ، رشدین بن سعد، ابی ہانی خولانی، عباس بن جلید حجری، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتنی مرتبہ اپنے خادم کو معاف کروں آپ خاموش رہے پھر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خادم کو کتنی بار معاف کروں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر روز ستر مرتبہ یہ حدیث حسن غریب ہے عبداللہ بن وہب اے ابوہانی خولانی سے اسی سند سے اس کے ہم معنی حدیث نقل کرتے ہیں۔"

#

مزدور کو محنت پر انعام دینا

 

 

 

آجر کو چاہیے کہ تنخواہ کے علاوہ بھی آجیر کی محنت کے عوض اسکو انعام دےاس طرح مزدور کی حوصلہ بڑھتا ہے اور وہ زیادہ دل جمی سے کام کرتا ہےحضورﷺ نے بھی آجر کو اجیر کی محنت کا صلہ دینے کی نصیحت فرمائی ہے۔

 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَائَ أَحَدَکُمْ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ فَلْيُجْلِسْهُ فَلْيَأْکُلْ مَعَهُ فَإِنْ أَبِي فَلْيُنَاوِلْهُ مِنْهُ [23]

 

"محمد بن عبداللہ بن نمیر، اسماعیل بن ابی خالد، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کے پاس اس کا خادم کھانا لائے تو اسے چاہیے کہ خادم کو بٹھا کر اپنے ساتھ کھانا کھلائے اگر خادم ساتھ نہ کھائے یا مالک کھلانا نہ چاہے تو اس کھانے میں سے کچھ خادم کو دے دے۔"

 

ڈاکٹر طاہر القادری لکھتےہیں" کہ اسلام آجر کو اس امر کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ مزدور کو اپنے منافع میں بھی شریک کر ےیہ شراکت بہتر کام کرنے کے سلسلے میں بذریعہ حوصلہ افزائی اور انعام کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔"[24]

 

مندرجہ بالا احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر آجرمزدور کواپنے منافع سے کچھ حصہ بطور انعام یا محنت کا ثمر کے طور پر دے تو اس سے محبت و عزت اور تعاون ہمدردی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں جو آجر اور اجیر دونوں کے حق میں فاہدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔

#

موجودہ لیبر پالیسی

 

 

 

موجودہ تجارتی نظام میں اسلامی لیبر پالیسی بنائی گی جو کہ بالا بیان کردہ نکات کے عین مطابق ہے ڈاکٹر طاہر

 

القادری نے لیبر پالیسی کے چند نکات بیان کیے ہیں۔انسانی محنت خریدنی ہے جنس نہیں،ظلم و ناانصافی کی نفی،اُجرت کی درجہ بندی اور عادلانہ اُجرت،اضافی محنت پر اُجرت ،اضافی حقوق کی ادائیگی،سرمایہ ،ہنر اور محنت میں توازن،عورتوں اور بچوں سے مشقت کی ممانعت،محنت کشوں کا اخلاقی اور قانونی استحقاق۔[25]

 

یہ پالیسی عین حضورؐ کے بتائے ہوئےمزدور کے حقوق کے مطابق ہے آج سے چودہ سو سال پہلےحضورؐ نے مزدور کے لیے جواُصول وضع کیے تھے آج تک وہی پالیسی رائج ہے پس ضرورت اس امر کی ہے کہ مزدورپالیسی سے متعلق حضورؐ کی ہدایات پر عملی اقدامات کو یقینی بنایا جائےتو غربت اور ناانصافی کی چکی میں پسنے والا مزدور اپنی زندگی بہتر بنا سکتا ہے۔

 

اسی ضمن میں حافظ ذولفقار علی بیان کرتے ہیں "کہ اسلامی ہدایات سراسر معاشرے کے مفاد میں ہیں جنکو نظر انداز کرنے سے معاشی بگاڑ پیدا ہوتا ہے اس لیے مسلم معاشرے میں ان لوگوں کو کاروبار کی قطعی اجازت نہیں جو تجارت کے متعلق اسلامی احکام سے ناواقف ہوں۔"[26]

 

نتائج بحث

 

عصر حاضر میں ہر فرد کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال و دولت اکٹھا کرے تا کہ اپنا معیار زندگی بلند کر سکےاور اپنے اہل و عیال کی خواہشات کی تکمیل کر سکے اس مقصد کے حصول کے لیےجوتگ و دو ہے وہ حلال مال کی ہے تو ٹھیک لیکن اگر اس کوشش میں اسلامی تعلیمات کو چھوڑ دیا تو پھر یہ مال دنیا اور آخرت میں وبال بن کر سامنےآئے گا۔مندرجہ بالا مضمون میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تجارت بابرکت ذریعہ معاش ہے اور یہ نبیوں کا پیشہ ہےاس لیے تجارت کے دوران صرف دیناوی مقاصد مد نظر نہیں رکھنے چاہیے بلکہ آخری زندگی کی کامیابی کو بھی سامنے رکھناچاہیے اس لیے ضروری ہے کہ تجارت قرآن و سنت کے اُصولوں کے مطابق ہونی چاہیے اور اُن شرائط اور ہدایات پر معاملات کیے جائیں جن کی شریعت نے اجازت دی ہے۔اسی میں دنیاوی اور آخروی زندگی کی کامیا بی ہے۔

 

حضورؐ نے معاشرے کوظلم اور فساد کی دلدل سے باہر نکالا اور ہر طرف امن کا بول بالا کیا حضورؐ نے صرف زبانی احکامات جاری نہیں کیے بلکہ خود عمل کر کے دیکھا جیسے خود تجارت کی،محنت مزدوری کی،ملازم /ماتحتوں کے ساتھ احسن طور پر معاملات کر کے دیکھائے۔اور آخری ایام میں بھی یہی ہدایت کی کہ غلاموں اور زیردستوں کے حقوق کا خیال رکھیں تو ہی ہماری زندگیوں میں امن کا بول بولا ہو سکتا ہے اور معاشرہ خوشحال ہو گا۔ موجودہ دور کی اشد ضرورت ہے کہ مزدوروں کے حقوق سے متعلق حضورؐ کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کیا جائے ۔موجودہ دور میں سمینار،ورکشاپس ،کانفرنسوں وغیرہ میں مزدوروں کے حقوق کا پر چار تو بہت کیا جاتا ہے لیکن عملی طور پرکچھ نہیں ۔پوری دنیا میں یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن بنایا جاتا ہے لیکن اس دن بھی کچھ مزدورں کو رخصت نہیں دی جاتی جیسے گھروں میں کام کرنے والے ملازم، سڑک پر مزدور ی کرنے والے مزدور،ہوٹلوں اور مالز میں کام کرنے والے ملازم الغرض ایسے کئی شعبہ زندگی ہیں جن میں کام کرنے والےمزدوروںکو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ یکم مئی /مزدور کا عالمی دن سے کیا مرادہے۔زیر بحث مضمون میں بیان کردہ احادیث اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ حضورؐ نے جو مزدور کے حق میں رہنما اُصول وضع کیے ہیں ان کا زبانی پرچار کرنے کے بجائے ان کوعملی زندگی میں لاگو کیا جائے تا کہ معاشرے میں امن اور خوشحالی کی بالادستی قائم ہو۔

 

حوالہ جات

  1. 1 محمد خالد سیف،محمد سرورطارق،کامیاب تجارت کے سنہری اصول ،دارالسلام لاہور،جنوری 2006 ،: 5
  2. 2 نو ر محمد غفاری، ڈاکٹر ،اسلام کا قانون تجارت،ا مبرنٹ آفسٹ پرنٹرز،لاہور : 20
  3. 3النساء ،4: 29
  4. 4 حبیب الرحمن کیلانی، ڈاکٹر ،احکام تجارت اور لین دین کے مسائل ،مکتبہ داراسلام،لاہور،جولائی 2003، :45
  5. الجمہ،62: 10
  6. حافظ زوالفقار علی،معیشت و تجارت کے اسلامی احکام ،ناشر ابو ہریرہ اکیڈمی،لاہور،2010، :25
  7. ابن ماجہ ، محمد بن یزید القزوینی ،ابوعبداللہ، السنن ، ،تجارت و معاملات کا بیان،کتاب کمائی کی ترغیب ،حدیث نمبر: 2142
  8. الترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ(۲۷۹ھ)، السنن ،کتاب البیوع،باب تاجروں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تجارکاخطاب دینا،حدیث نمبر: 1224
  9. ابو نعمان بشیر احمد،مقبول احمد،اسلامی تجارت،اسلامیہ پرنٹرزلاہور،مارچ 2008،ص 11
  10. البیہقیی ،ابو بکر احمد بن الحسین (المتوفی:458ھ)،شعب الایمان ،الریاض:مکتبہ الرشد للنشر و التوزیع،1423ھ،175: 11
  11. بخاری،محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)،الجامع الصحیح المسند المختصر من امور رسولﷺ وسننہ وایامہ ،کتاب البیوع،باب انسان کا کمانا اور اپنے ہاتھوں سے محنت کرنا،حدیث نمبر: 2072
  12. سورۃالمائدہ،5: 2
  13. صحیح بخاری،کتاب ایمان،حدیث نمبر: 31
  14. النسائی ، احمد بن شعیب، ابو عبد الرحمن، السنن ،کتاب شرطوں سےمتعلق احادیث،حدیث نمبر: 3895
  15. خلیل الرحمان،اسلام کا نظریہ محنت ،المکتبہ الرحمانیہ،لاہور ،،ص140
  16. النسائی ، السنن ،کتاب شرطوں سےمتعلق احادیث،حدیث نمبر: 3894
  17. اوصاف احمد، ڈاکٹر ،علم معاشیات اور اسلامی معاشیات، ایفا پبلیکیشنز،نئی دہلی،جون2010، ص 71
  18. صحیح بخاری،کتاب ایمان کا بیان،حدیث نمبر: 31
  19. ابن ماجہ، السنن ،کتاب آداب کا بیان،باب غلاموں اور باندیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا،حدیث نمبر: 3694
  20. البیان،حماد امین چاولہ، المدینہ اسلامک ریسرچ سنٹر،کراچی،جون2013، ص18
  21. ابو داؤد ،سلیمان بن اشعث،سجستانی، السنن ،کتاب آداب کا بیان،باب غلام وباندی کے حقوق کا بیان،حدیث نمبر: 5127
  22. ا لترمذی،السنن،کتاب نیکی و صلہ رحمی کا بیان،باب خادم کو معاف کردینا،حدیث نمبر: 2034
  23. ابن ماجہ،السنن،کتاب کھانوں کے ابواب،باب خادم کھانا لائے تو کچھ کھانا اسے بھی دینا چاہیے،حدیث نمبر: 3294
  24. محمدطاہر القادری، ڈاکٹر ،اقتصادیات اسلام ، مہناج القرآن پبلی کیشنز،لاہور،مارچ 2007، ص731
  25. ایضا،ص 743
  26. ذوالفقار علی، حافظ ،دور حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم، ابو ہریرہ اکیڈمی،لاہورستمبر2008، ص 21
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...