Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 3 Issue 1 of Al-ʿILM

حضرت امام ابو حنیفہ کے علمی اسفار |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060040263_737

Pages

70-86

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/17/15

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/17

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

دنیا ایک مسافر خانہ ہے، یہاں ہر انسان مختلف قسم کے سفر میں مشغول ہے، کوئی انسان معیشت کی خاطر سفر کرتا ہے تو کوئی معاشرت کی خاطر، کوئی دنیا کی خاطر توکوئی دین کی خاطر ۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو یہاں دین کی خاطر سفر کرتے ہیں، رسول اللہﷺ کی مبارک زبان کے مطابق وہ بندہ جو کسی قسم کا کوئی بھی سفر دین کی خاطر کرتا ہے اس کے لیے کائنات کی ہر چیز بخشش کی دعا کرتی ہے، مبارک باد کے مستحق ہیں وہ لوگ جنہوں نے دین کی خاطر مختلف سفر کیے اور امت مسلمہ کے لیے علم کے خزانوں کو جمع کیا، ان بزرگ ہستیوں میں سے ایک ہستی جنہوں نے دین کے علم کی خاطر مختلف سفر کر کے امت مسلمہ کی بھر پور انداز سے رہنمائی فرمائی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں، ذیل میں ان کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔

 

مختصر تعارف:

نام :نعمان ، کنیت:ابو حنیفہ ،لقب:امام اعظم رحمہ اللہ ۔ [1]آپ کے پوتے حضرت اسماعیل بن حماد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

 

’’ میں اسماعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن مرزبان ہوں۔ ہم لوگ فارسی النسل ہیں اور خدا کی قسم ہم کبھی کسی کی غلامی میں نہیں رہے ۔ہمارے دادا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ۸۰ھ میں پیدا ہوئے۔ان کے دادا اپنے نومولود بیٹے ثابت کو لے کر سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کے لئے اور ان کی اولاد کے لئے برکت کی دُعا فرمائی اور ہم اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتے ہیں کہ اس نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی دُعا ہمارے حق میں ضرور قبول فرمائی ہے ‘‘۔[2]

 

حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ۸۰ ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے ۔ [3]حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے عراق میں ابراہیم بن عبد اللہ کی حمایت میں فتویٰ دیا تھا ۔ اس لئے منصور نے آپ رحمہ اللہ کو گرفتار کر لیا۔ منصور نے دورانِ قید امام اعظم سے اینٹوں کی گنتی کا کام لیا۔ اس غیر معمولی مشقت کے دوران ۱۵۰ھ؁ میں آپ رحمہ اللہ کا انتقال ہو گیا۔ [4]

صلوٰۃ جنازہ اور تدفین:

امام اعظم کے انتقال کی خبر تمام شہر میں پھیل گئی اور سارا شہر امڈ آیا۔ حسن بن عمارہ جو آپ کے استادِ محترم بھی تھے اور قاضی شہر بھی انہوں نے آپ کو غسل دیا۔ غسل کے وقت حسن بن عمارہ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے:

 

’’ ابو حنیفہ اللہ آپ پر رحم فرمائے آپ نے تیس سال تک روزے رکھے۔ چالیس سال تک رات میں نہیں سوئے۔ آپ ہم میں سب سے بڑے فقیہہ ، سب سے بڑے عابد،سب سے بڑے زاہداور نیک خصلتوں کے سب سے بڑے جامع تھے ۔ سنت اور نیکی پر موت پائی، اپنے بعد لوگوں کو رنج وغم میں مبتلا کر دیا‘‘۔

 

غسل سے فارغ ہو نے کے بعد پہلی نماز حسن بن عمارہ نے پڑھائی تھی۔ جس میں پچاس ہزار آدمی شریک تھے۔ آپ کی نمازِ جنازہ چھ مرتبہ ہوئی اور دفن کے بعد ۴۰ دِن تک لوگ آپ کی قبر پر نمازِ جنازہ پڑھتے رہے۔ خلیفہ منصور نے بھی آپ کی صلوٰۃ جنازہ قبر پر ہی جا کر پڑھی۔

 

امام کی وصیت کے مطابق آپ کی قبر خیزراں کے مقبرے میں بنائی گئی آپ کے خیال میں وہی جگہ ایسی تھی جو مخصوبہ نہیں تھی ۔

 

حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے علمی اسفار

۱-حصول علم کے لئے:

 

اس میں شک نہیں ہے کہ امام اعظم کے اپنے گھر میں اتنا ذخیرہ وافر تھا کہ اگر صرف اسی جگہ علم حاصل کرتے تو علم میں کمی نہ آتی۔ لیکن اس کے باوجود صرف کوفہ ہی میں رہ کر علم حدیث میں ان کی معلومات کا حال یہ تھا کہ اما م شعبی جیسا امام حدیث ان کو علم حدیث کی ترازو کہا کرتا تھا۔

 

صحابہ و تابعین اگرچہ تمام اسلامی شہروں میں گئے ہیں مگر روایت حدیث کے باب میں جو مرکزیت کوفہ اور مکہ و مدینہ کو حاصل تھی وہ دوسرے شہروں کو نہ تھی۔ اسی صورتِ حال کو مدنظر رکھ کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حدیث کی خاطر رختِ سفر باندھا تاکہ آپ کے علمی خزانہ میں صرف مقامی ہی نہیں بلکہ بیرونی معلومات کا بھی سرمایہ ہو ۔

 

۲- رحلت علمیہ کی تاریخ :

 

آپ نے طلب علم کی خاطر مکہ ،مدینہ اور بصرہ کا سفر کیا ہے۔ لیکن آغاز سفر کے بارے میں جامع بیان العلم کی روایت کے علاوہ کوئی مثبت تصریح نہیں ہے۔ علمی سفر کا آغاز اگر چہ۹۶ھ میں ہو چکا تھا لیکن علمی اسفار میں باقاعدگی اور تسلسل ۱۰۴ھ کے بعد ہواہے۔ امام لیث فرماتے ہیں کہ :

 

’’میں امام اعظم کی شہرت سنتاتھا، ملنے کا بے حد مشتاق تھا ، حسن اتفاق سے مکہ میں اس طرح ملاقات ہوئی کہ میں نے دیکھاکہ لوگ ایک شخص پر ٹوٹے پڑے جارہے ہیں ۔ مجمع میں مَیں نے ایک شخص کی زبان سے کلمہ سناکہ اے ابو حنیفہ میں نے جی میں کہا کہ لو تمنا بھر آئی یہی امام ابو حنیفہ ہیں ‘‘۔ [5]

 

۱۱۳ھ میں ہجوم کا ٹوٹا پڑنا بتا رہا ہے کہ یہ امام اعظم کا پہلا سفر نہیں ہے ۔ بلکہ اس سے پہلے متعددبار آچکے ہیں۔ اور ذات گرامی جانی پہچانی ہے ۔ ورنہ ایک اجنبی کے گرد یہ ہجوم کہاں ہو تا ہے ۔ مگر امام ابو عاصم النبیل نے جو مکہ ہی کا واقعہ بتایا ہے ۔اس میں تو بات یہاں تک کھول دی ہے کہ لوگوں کی عقیدت امام اعظم کو مکہ میں صرف جَلوت میں ہی نہیں بلکہ گھر کی خَلوت میں بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتی تھی ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ رحمہ اللہ نے مستقل رہائش بھی مکہ میں اختیار کر لی تھی۔ آپ رحمہ اللہ کی علم الفقہ اور علم الحدیث دونوں فنون میں لوگوں کو جلالت قدر کا یکساں اقرار تھا۔ کردری رقم طراز ہیں کہ :

 

فھرباِلی مَکۃ واقام بھا سنت مِائَۃ وَثلاثین۔ [6]"مکہ روانہ ہو گئے اور وہاں ۱۳۰ھ تک قیام فرمایا"

 

۳-حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی زیارت اور روایت:

 

بچپن میں امام صاحب نے مکہ مکرمہ میں ایام حج میں ایک صحابی حضرت عبد اللہ بن حارث بن جزرضی اللہ عنہ کی زیارت کی اور ان سے ایک حدیث سن کر اس کی روایت کی ۔ مسند ابی حنیفہ کتاب العلم میں ہے:

 

قَالَ ابو حنیفۃ رضی اللہ عنہ: ولدتُ سنۃ ثمانین، وحججت مع ابی سنۃ ست و تسعین، وانا ابن ست عشرۃ سنۃ ، فلما دخلتُ المسجد الحرام ورایتُ حلقۃ، فقلتُ لابی: حلقۃُ من ہذہٖ ؟ فقال: عبد اللہ بن الحٰرث بن جزء صاحب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فتقدمتُ فسمعتہُ یقول: سمعتُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : من تفقہ فی دین کفاہ اللہ مہمَّہ ورزقہ من حیث لایحتسب۔ [7]

 

"امام ابو حنیفہ نے بیان کیا ہے کہ میں ۸۰ھ میں پیدا ہوا اور ۹۶ھ میں اپنے والد کے ساتھ حج کیا۔ اس وقت میں سولہ سال کا تھا جب مسجد حرام میں داخل ہوا تو ایک حلقۂ درس دیکھا۔ والد سے پوچھا کہ یہ کس کا حلقہ ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ صحابی رسول ،عبد اللہ بن حارث بن جزء کا حلقہ ہے۔یہ سن کر میں آگے بڑھاتو ان کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : جو شخص اللہ کے دین میں تفقہ حاصل کرے گا اللہ اس کی مہمات کے لئے کافی ہو گااور اس کو بے حد و گمان روزی دے گا۔"

 

۴- حجاز میں امام اعظم رحمہ اللہ کے مشاغل:

 

امام اعظم کو اس زمانے کے دستور کے مطابق حجاز کے علماء ومحدثین سے فائدہ اٹھانے کا یہ زریں موقع ملااور صرف استفادے کا نہیں بلکہ حجاز میں لوگوں نے امام کو افادے کی مجلسیں قائم کرنے پر مجبور کردیا۔

 

وزیر عبد اللہ کا بیان ہے:

 

"میں نے مکہ میں یاسین زیارت کو دیکھا کہ سامنے ایک جماعت ہے اور وہ چلا چلا کر کہہ رہے ہیں لوگو! ابو حنیفہ کے پاس آیاجایا کرو اور ان کی مجلس کو غنیمت سمجھواور ان کے علم سے فائدہ اٹھائو۔ کیونکہ ایسا آدمی پھر بیٹھنے کے لئے نہیں ملے گااور حلال و حرام کے ایسے عالم کو پھر نہیں پاؤگے۔ اگر اس شخص کو تم نے کھو دیا تو علم کی بہت بڑی مقدار کھو دو گے"[8]

 

الموفق نے ان کی یہ روایت نقل کی ہے ۔

 

امام ابو حنیفہ حرم کعبہ کی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور ان پر خلقت کا ہجوم تھا ۔ ہر علاقے کے لوگ ہو تے تھے۔ سب کو جواب دیتے اور فتوی بتاتے۔ امام عبد اللہ بن مبارک نے امام اعظم کے اس علمی افادے کے تماشے کو مکہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ان کا خود بیان ہے :

 

’’ میں نے حرم کعبہ میں ابو حنیفہ کو دیکھا کہ بیٹھے ہوئے ہیں اور مشرق و مغرب کے باشندوں کو فتویٰ دے رہے ہیں ‘‘۔ [9]

 

امام اعظم کی اس مجلس میں کس قسم کے لوگ شریک ہو تے تھے۔ یہ عبد اللہ بن مبارک کی زبانی سنئے: والناسُ یو مَئِذٍ ناسٌ ۔[10] صدر الائمہ نے عبد اللہ بن مبارک کے اس جملے کا مطلب یہ بتایا ہے کہ عبد اللہ بن مبارک کی مراد یہ ہے کہ بڑے بڑے فقہاء اور بہترین لوگوں کا مجمع تھا۔

 

۵-مکہ مکرمہ کی علمی حیثیت:

 

وہ حرم پاک جہاں سے علم و حی ونبوت کا آغاز ہوا اور حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم اعلانِ نبوت کے بعد تیرہ سال کا عرصہ گزارا۔ امام اعظم کے زمانہ میں یہ بھی کوفہ کی طرح دارالعلم تھا۔حافظ ذہبی فرماتے ہیں:

 

"عہدِ صحابہ میں یہاں علم کم تھا۔پھر صحابہ کے آخری دور میں علم کی کثرت ہوئی اور اسی طرح عہدِ تابعین میں مجاہد،عطاء، سعیدبن جبیر اور ابن ابی ملیکہ اور پھر ان کے شاگردوں کے دور میں عبد اللہ بن ابی بخیح، قاری ابن کثیر،حنظلہ بن ابی سفیان، ابن جریج جیسے علماء ہوئے ہیں’"

 

بہرحال دوسری صدی کے آغاز میں اور پہلی صدی کے آخر میں مکہ مکرمہ علم کی منڈی تھا اور تمام بلادِ اسلامیہ میں مکہ کے علمی جلال کا لوہا مانا جا تاتھا۔ مکہ میں امام اعظم نے جن حفاظ ِ حدیث سے علمی استفادہ کیا ان کی تفصیل حسب ذیل ہے

 

۶- حضرت امام اعظم کی عطاء بن ابی رباح سے پہلی ملاقات:

 

’’جب امام موصوف سے ان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے عطاء سے کوئی مسئلہ دریافت کیا۔دریافت کرتے ہی جواب دینے سے پہلے امام صاحب کی طرف مخاطب ہو کر بولے : بتائو کہاں کے رہنے والے ہو؟ امام صاحب نے فرمایا کوفہ شہر کا شہری ہوں۔فرمایا: کہ اس بستی کے جہاں دینی فرقہ بندی کی بنیاد پڑی ۔ امام صاحب نے جواباً فرمایا: جی ہاں۔ فرمایا: اچھا بتائو کہ کن لوگوں سے تعلق رکھتے ہو؟ یعنی کس مدرسہ خیال کے ہو؟ امام صاحب نے جواباً فرمایا: الحمدللہ ان لوگوں سے تعلق رکھتاہوں جو سلف کو بُرا نہیں کہتے ۔ یعنی نہ رافضی ہوں نہ خارجی ، نہ قدری اور اہل قبلہ کی بربنائے معصیت تکفیر نہیں کرتے ۔ یعنی نہ مرجیہ ہوں نہ جہمی اور نہ معتزلی۔ حضرت نے جواب باصواب سُن کر فرمایا:

 

عَرَفْتُ فَالْزمْ،[11]"پہچان گیاہوں رہو‘‘ حافظ ابن عبد البر نے لکھاہے :

 

’’ہم عطاء بن ابی رباح کے پاس ہوتے کچھ ہم میں سے کچھ کے پیچھے ہوتے ۔ جب امام ابو حنیفہ مجلس میں آتے تو حضرت عطاء امام صاحب کے لئے جگہ بناتے اور ان کو اپنے قریب کر لیتے ‘‘۔ [12]

 

حرم پاک میں صحابہ کا پھیلاہوا علم حضرت عطاء کے ذریعے امام ابو حنیفہ میں منتقل ہوا ہے ۔ اسی بناء پر امام خلف بن ایوب کا امام اعظم کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ علم کی دولت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دولت صحابہ کرام کو وراثت میں ملی اور صحابہ کرام سے تابعین عظام اور تابعین عظام سے امام ابو حنیفہ کو ملی ہے ۔

 

۷- امام اعظم کا عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے تلمذ:

 

حافظ ذہبی نے علم حدیث میں عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کو امام اعظم رحمہ اللہ کا استاد بتایا ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں :

 

عنہ ایوب وحسین المعلم وابن جریج وابن اسحاق والاوزاعی وابو حنیفۃ۔[13] 

 

" عطاء کے تلامذہ میں ایوب،حسین ابن جریج ، ابن اسحاق اوزاعی اور ابو حنیفہ ہیں"

 

بلکہ امام ذہبی نے اپنی مشہور تاریخ کے خلاصہ میں بالتصریح یہ بھی لکھا ہے کہ :

 

اکبر شُیُوْخِہٖ عَطَاء بن اَبِیْ رِبَاحٍ۔[14]"ابو حنیفہ کے اساتذہ میں سے سب سے بڑے عطاء بن ابی رباح ہیں "

 

۸- حضرت عمرو بن دینار مکی سے تلمذ:

 

حضرت عمرو بن دینار مکی کا شمار صحاح کے راویوں میں ہو تا ہے ۔ آپ امام اعظم کے شیخ اور کبار تابعین میں سے امام اور مجتہد ہیں ۔ قاضی ابو یوسف کی کتاب الآثار میں بحوالہ امام اعظم ان سے روایات لی ہیں ۔

 

’’عن ابی حنیفۃ عن عمرو بن دینار عن جابر عن زید انہ قَالَ اِذ خیرت المرأۃِ نفسھا فقامت مِن مجلسھا قبل ان تختارَ فلیس بشیٍٔ۔‘‘۔[15]

 

حضرت زید فرماتے ہیں کہ جب عورت اپنے لئے اختیار کرے پھر وہ اپنی جگہ سے اختیار ملنے سے پہلے کھڑی ہو جائے تو کچھ نہیں ہے۔

 

۹-حافظ ابو الزبیر محمد بن مسلم سے تلمذ:

 

لیلیٰ بن عطاء فرماتے ہیں کہ ہم سے محمد بن مسلم حدیث بیان کرتے تھے۔ ہمارا اندازہ ان کے بارے میں یہ تھا کہ سب سے زیرک اور سب سے زیادہ قوت حافظہ کے مالک ہیں۔ عطاء بن ابی رباح یہ کہہ کر ان کو خراج تحسین ادا کرتے تھے کہ ہم سب حضر ت جابر بن عبد اللہ کے پاس جا کر حدیثیں سنتے ۔سننے کے بعد باہم مذاکرہ کرتے تو حضرت ابو الزبیر کو سب سے زیادہ احادیث یاد ہو تی تھیں۔ سب آئمہ حدیث نے ان سے روایات لی ہیں ۔ قاضی ابو یوسف نے کتاب الآثار میں بحوالہ امام اعظم ان کی روایات کو پیش کیا ہے ۔

 

ابو حنیفۃ عن ابی الزبیر عن جابر اَنَّ سراقۃ بن مالک قال یا رسول اللہ ارأیت عمر تنا ہذہٖ لعامنا ام لابد قال لابد۔’’۔[16]

 

"سراقہ کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ یہ عمرہ ہمارا اسی سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے ۔ فرمایا: ہمیشہ کے لئے ہے"

 

حافظ ابو الزبیر کے اساتذہ میں عبادلہ اربعہ ، حضرت عائشہ ، حضرت جابر، ابو الطفیل صحابہ ہیں ۔ ان کے علاوہ باقی جلیل القدر آئمہ تابعین ہیں ۔ امام اعظم نے ان سے جِس قدر احادیث سنی ہیں ۔ان سب کا مرکز حضرت جابر بن عبد اللہ ہے

 

۱۰- المدینۃ المنورہ کی طرف علمی سفر :

 

مدینہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دارالہجرۃ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرامگاہ ہے۔ علوم نبوت کا اصلی مخزن اور منبع ہونے کا اسی شہر کو فخر ہے۔ مکہ کے ساتھ اس مبارک جگہ کو بھی حرم کہا جاتا ہے ۔ وہ بنائے خلیل ہے یہ بنائے حبیب ہے ۔ عہدِ نبوی سے لے کر حضرت علی المرتضیٰ کے ابتدائی زمانے تک ساری دنیائے اسلام کا علمی مرکز یہی تھا۔ ۱۰۸ ھ تک مدینے کی علمی بہار پر فقہاء سبعہ آفتاب و ماہتاب بن کر تاباں رہے ہیں ۔ یہ سات شخصیتیں یعنی ۔[17]

 

۱- سعید بن المسیب رحمہ اللہ

 

۲-عروۃ بن الزبیررحمہ اللہ

 

۳-قاسم بن محمد رحمہ اللہ

 

۴-خارجہ بن زید رحمہ اللہ

 

۵-عبد اللہ بن عبد اللہ رحمہ اللہ

 

۶-سلیمان بن یسار رحمہ اللہ

 

۷- ابو بکر بن عبد الرحمان رحمہ اللہ

 

۱۱-مدینہ کے فقہاء سبعہ :

 

فقہاء سبعہ کے نام پر تو تاریخ میں شہرت کا شرف ان ہی اکابر کو حاصل ہے ۔ لیکن مؤرخین میں سے ابو الفداء نے فقہاء مدینہ کی تعداد دس بتائی ہے ۔ یہ مشاورتی کونسل کے افراد تھے ۔ تاریخ میں فقہاء مدینہ کے نام صرف سات ہی ہیں۔ ابن العماد حنبلی نے ان اکابر کو فقہاء سبعہ کہنے کی وجہ یہ لکھی ہے ۔’’ یہ فقہاء سبعہ ہیں کیونکہ یہ سب ایک ہی دور میں ہوئے ہیں۔ مدینہ میں ان کے ذریعے علم و فتویٰ کی بیش از بیش نشرواشاعت ہوئی ہے۔ حالاں کہ ان کے زمانے میں دوسرے فقہاء تابعین بھی موجود تھے لیکن ان کا علم کی اشاعت میں وہ حصہ نہیں ہے جو فقہاء سبعہ کا ہے ۔ ‘‘ اس دور میں مختلف شہروں میں حدیث کے مدرسے کھل گئے تھے۔ ان مدرسوں کا اجمالی سا خاکہ یہ ہے :

 

مدینہ میں مدرسہ حدیث کے مشہور امام:

 

۱-سلیمان بن یسار رحمہ اللہ ۹۳ھ ؁

 

۲-سعید بن المسیب رحمہ اللہ ۹۴ھ؁

 

۳-عروۃ بن الزبیر رحمہ اللہ ۹۴ ھ؁

 

۴-ابو بکر بن عبد الرحمن رحمہ اللہ ۹۴ھ ؁

 

۵-عبد اللہ بن عبد اللہ رحمہ اللہ ۱۰۶ ھ ؁

 

۶-قاسم بن محمد رحمہ اللہ ۱۱۲ ھ ؁

 

۷-امام زہری رحمہ اللہ ۱۱۲ ھ؁

 

۸-نافع بن مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ ۱۱۷ھ ؁

 

۹-ابو الزناد رحمہ اللہ ۱۳۰ھ؁

 

۱۲- مدینے کے علم و عمل پر اعتماد:

 

امام اعظم حج کے علمی سفروں میں مدینہ طیبہ تشریف لے جاتے تھے ۔ آپ نے اگر پچپن حج کئے ہیں تو پچپن ہی بار مدینہ طیبہ تشریف لے گئے۔ چونکہ امام صاحب کے یہ اسفار علمی ہوتے تھے اور مدینہ اپنی علمی بزرگی میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ ایوب بن زید سے حافظ سخاوی نے نقل کیا ہے کہ علم کو مدینے میں رسوخ حاصل ہوا ہے اور یہیں سے اس کا ظہور ہوا ہے ۔

 

۱۳- امام مالک رحمہ اللہ اور امام اعظم رحمہ اللہ :

 

امام مالک رحمہ اللہ ، امام اعظم رحمہ اللہ کا حد درجہ احترام و اکرام کرتے تھے۔ محمد بن اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک اور امام اعظم دونوں کو مدینہ میں دیکھا ہے ۔ دونوں باہم ہاتھ پکڑے جارہے تھے۔ جب دونوں مسجد نبوی کے دروازے پر پہنچے تو امام مالک نے احتراماً حضرت امام ابو حنیفہ کو آگے کردیا۔ امام اعظم یہ کہتے ہوئے داخل ہوئے :

 

’’بِسم اللہ ہذا موضع الامان فآمنی من عذابک ونجنی من عذاب النار۔‘‘۔[18]

 

حضرت امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:

 

"میں نے مدینہ طیبہ میں علم پھیلتا ہوادیکھاہے۔ اگر کو ئی سمیٹ سکتا ہے تو یہ سرخ و سفید لڑکا ہے"

 

یعنی حضرت امام مالک رحمہ اللہ ۔ ظاہر ہے یہ بات امام اعظم رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں اس وقت کہی ہے جب حضرت امام مالک رحمہ اللہ کی عمر چودہ ، پندرہ سال ہے اور آپ کی عمر مبارک پچیس سال ہے ۔ گویا یہ بات آپ نے ۱۰۵ھ؁ میں فرمائی ہے ۔[19]

 

خود امام مالک رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بے حد اکرام کرتے تھے اور اکرام اس لئے نہیں کرتے تھے کہ عمر میں بڑے تھے ۔ بلکہ اس لئے کہ امام مالک کو امام اعظم کی فقاہت اور مجتہدانہ شان کا اقرار تھا۔ چنانچہ امام لیث بن سعد فرماتے ہیں :

 

" میں مدینہ میں امام مالک رحمہ اللہ سے ملا۔ ان سے میں نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے آپ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہیں ۔ فرمایا: کہ امام ابو حنیفہ کے سامنے عرق آلود ہو جا تا ہوں ۔ کیونکہ وہ فقیہہ ہیں"امام لیث کہتے ہیں کہ

 

’’بعد ازیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پاس گیا ۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ امام مالک کی نظر میں آپ کا مقام بہت بلند ہے ۔ امام اعظم نے فرمایا: میں نے سچے اور کھرے جواب میں مالک سے زیادہ تیز اور کھرا کوئی نہیں دیکھا‘‘۔

 

۱۴- بصرہ :

 

مشہور اسلامی شہر جو تیسری صدی تک علوم اِسلامیہ کا گہوارہ رہا اور وسعت علم کثرت حدیث اور دوسری خوبیوں کے لحاظ سے اس کا ایک امتیازی مقام تھا۔ امام حاکم نے معرفتہ علوم الحدیث میں بصرے کے اندر سکونت اختیار کرنے والے صحابہ کی ایک فہرست دی ہے ۔ بصرہ کے آئمہ ثقات اور حفاظ حدیث کا بھی ایک طویل تذکرہ کیا ہے اور تقریباً نصف صدسے زیادہ حفاظ حدیث کے نام بتائے ہیں ۔ حافظ ذہبی فرماتے ہیں :

 

’’ بصرے میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ، حضر ت عمران بن حصین ، حضرت ابن عباس اور متعدد صحابہ آکر فروکش ہوئے ہیں ان میں سب سے آخری حضرت انس ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص، ان کے بعد حسن بصری ، ابن سیرین ، ابو العالیہ، قتادہ ، ایوب، ثابت البنانی، یونس بن عون ، حماد بن سلمہ، حماد بن زید۔ آئمہ مجتہدین میں سے امام حسن بصری ، بصرہ کے رہنے والے ہیں ۔ جن کے متعلق امام اعظم فرماتے ہیں : ’’میں نے امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے سنا ہے کہ عراق میں حضرت حسن بصری جیسا کوئی نہیں ’’۔ [20]

 

۱۵-حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا سفرِ بصرہ:

 

حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ طلبِ علم ِ حدیث کے لئے بصرہ تشریف لے گئے۔ ایک بار نہیں بلکہ بیس مرتبہ سے زیادہ آپ کو بصرہ جانے کا اتفاق ہوا ہے اور وہاں سال بھر قیام کیا ہے ۔

 

چنانچہ حافظ عبد القادر قرشی نے بحوالہ یحییٰ بن شیبان خود امام صاحب کا یہ بیان نقل کیا ہے ۔

 

’’ میں بیس بار سے زیادہ بصرہ گیاہوں اور اکثر سال سے زیادہ وہاں قیام بھی کیا ہے‘‘۔

 

حضرت امام اعظم کے اسفارِ علمیہ کی آخری منزل بصرہ ہے اسلامی مملکت میں علوم نبوت کے لئے پانچ شہروں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ کوفہ میں عبد اللہ بن مسعود کے شاگرد، بصرہ میں عبد اللہ بن عباس کے شاگرد، مکہ ،مدینہ اور شام میں فاروق اعظم کے تلامذہ علوم نبوت کے حامل تھے۔ بصرہ میں عبد اللہ بن عباس کے علوم کا اندازہ اس سے ہو تا ہے کہ خود ابو بکر بصری کا بیان ہے کہ :

 

’’ ابن عباس بصرہ تشریف لائے تو تمام عرب میں جِسم، علم،بیان ، جمال اور کمال میں کو ئی ان کی مثال نہ تھا‘‘۔ [21]

 

علامہ کمال الدین البیاضی نے امام اعظم کے علوم کی سند اور ان کے علمی اسفار کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

 

’’فہم اخذ عن اصحاب عمر عن عمرو عن اصحابِ ابنِ مسعود عن ابن مسعود عن اصحاب ابن عباس عن ابن عباس ممن یبلغ العدد المذکور بالکوفۃ والبصرۃ والحجاز فی حجہ سنۃ ست و تسعین وبعدہ۔

 

امام اعظم کے علوم کا ماخذ بواسطہ اصحابِ عمر، حضرت فاروق اعظم اور بواسطہ اصحابِ ابن مسعود،خود حضرت عبد اللہ بن مسعود اور بحوالہ تلامذہ ابن عباس حضر ت عبد اللہ بن عباس ہیں ۔ ان ہی لوگوں کی مذکورہ بالاتعداد سے امام اعظم نے کوفہ، مکہ ، مدینہ میں ۹۶ھ؁ اور اس کے بعد علوم حاصل کئے۔

 

۱۶- الامام ابو بکر یعقوب بن ابی تمیمہ السختیانی:

 

آپ علم حدیث کے مشہور امام ہیں ۔ امیر المؤمنین فی الحدیث امام شعبہ نے ان کو سید العلماء کہا ہے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ ہم ان کے پاس جاتے تھے۔ جب ان کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد گرامی بیان کیا جاتا تو بے اختیار روپڑتے۔

 

حافظ ابن المدیی فرماتے ہیں کہ حدیث کے ذخیرے میں ان کی آٹھ سوحدیثیں ہیں ۔ امام حماد بن زید فرماتے ہیں کہ میں نے حج کا ارادہ کیا ۔ حج کی خاطر رخصت ہونے کے لئے امام ایوب کے پاس گیا۔ آپ نے مجھے بتایا کہ معلوم ہوا ہے کہ امام اعظم بھی حج کو جارہے ہیں۔ تمہاری ان سے ملاقات ہو تو ان سے میرا سلام کہنا۔امام اعظم نے ان سے جو حدیثیں سنی ہیں وہ قاضی یوسف نے کتاب الآثار میں درج کی ہیں ۔ [22]

 

امام اعظم کی علمی مجالس کے وقت ان شہروں کی رونق کا کیا حال تھا ۔ امام ایوب کے علاوہ بصرہ کے جن محدثین سے حضرت امام اعظم نے علم حدیث حاصل کیا ہے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں ۔

 

۱-بہزبن حکیم رحمہ اللہ

 

۲-بکر بن عبد اللہ المزنی رحمہ اللہ

 

۳-محمد بن الزبیر رحمہ اللہ

 

۴-عطاء بن عجلان رحمہ اللہ

 

۵-قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ

 

۶-شداد بن عبد الرحمان رحمہ اللہ

 

۷-مبارک بن فضالہ رحمہ اللہ

 

۸-یزید بن ابی یزید رحمہ اللہ

 

۹-نصر بن سعد رحمہ اللہ

 

۱۰- ابو سفیان ظریف بن سفیان رحمہ اللہ

 

۱۱- یزید بن ابی حبیب رحمہ اللہ

 

۱۷- امام اعظم رحمہ اللہ اور حصول علم حدیث :

 

حضر ت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کوفہ کے بہت سے محدثین سے حدیث کے علم کے سلسلے میں استفادہ کیا۔ علم حدیث کے سلسلہ میں کوفہ اور بصرہ کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ کوفہ کے جن محدثین سے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے علم حدیث حاصل کیا ان میں حضرت امام شعبی رحمہ اللہ ، سلمہ بن کہیل رحمہ اللہ ، محارب بن مثار رحمہ اللہ ، ابو اسحاق سبعی رحمہ اللہ، عون بن عبد اللہ رحمہ اللہ ، سماک بن حرب رحمہ اللہ ، ابراہیم بن محمدرحمہ اللہ ،عدی بن ثابت رحمہ اللہ اور موسیٰ بن ابی عائشہ رحمہ اللہ کے نام بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ مگر حضرت امام ابو حنیفہ کے عملی زندگی میں حضرت امام شعبی رحمہ اللہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔

 

کیونکہ ان کے ناصحانہ جملوں کی بدولت ہی حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علم کی راہ پر گامزن ہو گئے ۔

 

ان کے بارے میں مشہور ہے:

 

’’ انہوں نے پانچ سو صحابہ کرام کو دیکھا تھااور ان سے احادیث سنی تھیں۔ وہ کافی عرصہ تک کوفہ میں قضا کے عہدے پر فائز رہے ۔ خلفاء اور تمام اراکین حکومت ان کی بڑی تعظیم اور ادب ملحوظ رکھتے تھے انہوں نے ۱۰۴ھ؁ میں وصال فرمایا‘‘۔[23]

 

۱۸- امام صاحب رحمہ اللہ کا سفرِ مکہ :

 

کوفہ کے بعد حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حرمین شریفین کا رخ اختیار کیا ۔ جو کہ ان دِنوں علوم مذہبی کے اصل مراکز تھے۔ آپ رحمہ اللہ نے ۲۴ برس کی عمر میں مکہ معظمہ کا رخ کیا۔ جب آپ مکہ معظمہ تشریف لے گئے تو درس و تدریس کا بہت زور تھا۔ بہت سے اساتذہ کرام جو فن حدیث میں کمال رکھتے تھے اور صحابہ کرام کی صحبت سے مستفید ہو چکے تھے۔وہ اپنی اپنی درس گاہوں میں مشغول درس تھے۔ مگر ان سب میں عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کا حلقہ درس بہت وسیع اور مشہور تھا۔ ان کو یہ عظمت اور شہرت اس وجہ سے حاصل ہوتی تھی کہ انہوں نے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خدمت میں حاضری دی تھی اور ان کی صحبت سے مستفید ہو چکے تھے۔ اس کے علاوہ ان کو درجہ اجتہاد بھی حاصل تھا۔ ان کا اپنا بیان ہے کہ :

 

‘‘ میں دوسو ایسے حضرات سے ملا ہوں جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل تھا’’۔[24]

 

ان حضرات میں درج ذیل شخصیات خاص مشہور ہیں :

 

۱- حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما

 

۲-حضر ت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

 

۳-حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما

 

۴- حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما

 

۵-حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما

 

۶-حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما

 

۷- حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ

 

۸- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

 

حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے مکہ معظمہ کی تمام درس گاہوں کا جائزہ لیا اور حالات معلوم کئے۔ مگر کسی کے حالات و واقعات سے مطمئن نہ ہوئے اور وہ سیدھے عطاء بن ابی رباح کی درس گاہ میں پہنچے اور ان سے شرف شاگردی کی درخواست کی ۔ جِس کو انہوں نے قبول فرمایا۔ آپ رحمہ اللہ کی ذہانت کے جوہر ان پر بھی عیاں ہو نے لگے اور محترم استاد کی نظر میں بھی مقام حاصل کر لیا۔

 

حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کے علاوہ مکہ میں اور بھی کئی حضرات سے علم حدیث حاصل کیا۔ ان میں نمایاں حضرت عکرمہ رحمہ اللہ کا نام لیا جاتا ہے ۔ حضرت عکرمہ رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت جابر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے حدیث کا علم حاصل کیا تھا۔ [25]

 

۱۹- مدینہ منورہ آمد:

 

حضر ت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ مکہ مکرمہ سے تحصیل علوم سے فارغ ہو ئے تو انہوں نے مدینہ منورہ کا راستہ لیا۔ تاکہ وہاں بارگاہِ رسالت میں حاضری کا شرف حاصل کریں ۔وہاں پہنچ کر انہوں نے مدینہ منورہ کے کئی علمائے عظام سے ملاقات کی ۔ ان میں سب سے پہلے حضرت امام باقر رحمہ اللہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔[26]

 

۲۰- اہل مدینہ سے مناظرہ :

 

ایک مرتبہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اہل مدینہ کے کچھ افراد کے ساتھ مناظرہ کیا۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم آپ سے قرأۃ خلف الامام پر مناظرہ کرنا چاہتے ہیں ۔ امام صاحب نے فرمایا: تم سب سے ایک ساتھ کس طرح مناظرہ ہو سکتا ہے ۔ لہٰذا تم اپنے میں سے سب سے زیادہ عالم کو منتخب کر لو۔ انہوں نے ایک آدمی کو منتخب کر دیا۔ امام صاحب نے فرمایا: یہ تم میں سے سب سے زیادہ عالم ہے ۔ انہوں نے جواب دیا ہاں ۔ امام صاحب نے پوچھا: کیا اس کا اقرار و انکار آپ کا اقرار و انکار شمار ہوگا؟ انہوں نے کہا ہاں ۔ امام صاحب نے پھر پوچھا اگر یہ ہار گئے تو آپ کی ہار ہو گی؟ انہوں نے کہا ہاں ۔ تب امام صاحب نے فرمایا: مناظرہ ختم۔ اس وجہ سے کہ ہم نماز میں امام کو اسی لئے تو منتخب کرتے ہیں ۔ حدیث میں موجود ہے ۔" جس کا امام موجود ہو تو امام کی قرأت اس کی قرأت ہو گی "[27]

 

نتائج

  • انسانی کردار کی نشوونما میں اسفار بہت اہم ہیں کیوں کہ انکی بدولت انسان آسانی ومشقت وغیرہ کی سب صورتوں کو سمجھ بھی سکتا ہے اور مقابلہ میں صلاحیت بھی حاصل کر لیتا ہے۔
  • زندگی کے تجربات میں زیادہ حصہ اسفار کا ہوتا ہے۔
  • سفر سے انسان اپنی طے شدہ منزل پا تے ہیں اور اس طرح چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کا ذخیرہ ہمارے اسفار سے بنتا ہے۔
  • علمی اسفار ہمارے علم میں اضافہ کا باعث ہوتے ہیں اور دینی علم کی اشاعت کے اسفار دنیا و آخرت کی بھلائیوں کا ذریعہ بنتے ہیں اس سے اسفار کی اہمیت اور افادیت کا ثبوت مل جاتا ہے۔
  • حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جو کوئی علم کے حصول کے لیے نکلتا ہے اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے ۔اس حدیث سے علمی سفر کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ راستہ جنت کا راستہ ہے۔
  • علمی سفر کی منزل بہت بڑی کامیابی ہے لہٰذا مشقت کے باوجود ایسے اسفار خوش بختی کی علامت ہوتے ہیں۔
  • دینی فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن ا لمنکر کو بجا لانے میں اسفار ہماری معاونت کرتے ہیں۔
  • لوگوں سے رابطہ کے لیے بھی اسفار ایک مضبوط ذریعہ ہے اور اپنوں سے ملاقات بھی اسفار سے ممکن ہے۔

 

 

 

تجاویز و سفارشات*

ہمیں اپنے اسلاف کے اسفار کے سے متعلق لوگوں کو اور خاص طور پر طالب علموں کو باتیں بتانا چاہیں تاکہ ان میں بھی علم کے حصول کے لیے مشقت اٹھانے کا جذبہ پیدا ہو سکے ۔
  • امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے علمی اسفار سے حاصل ہونے والے اثرات سے لوگوں کو باخبر کرنا چاہیے تاکہ انکی علمی خدمات کا اندازہ ہو سکے۔
  • دیگر آئمہ کے علمی اسفار پر بھی تحقیق ہونی چاہیے۔
  • تاریخ اسلام میں علمی خدمات دینے والے مفکرین پر بھی تحقیق ہونا ضروری ہے تاکہ ان کی خدمات منظر عام پر آسکیں ۔
  • امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت و خدمات کی مختلف پہلوں پر بھی تحقیق علمی حلقوں میں بڑی اہم ہو سکتی ہے۔

 

 

 

 

 

خلاصہ مضمون

حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ۸۰ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد ماجد کا نام ثابت بن ذوطی رحمۃ اللہ علیہ تھا۔حضرت امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کے کہنے پر آپ علم کی طرف راغب ہوئے ۔آپ کا گھرانہ دیندار تھا۔ابتداء میں آپ نے قرآن مجید حفظ کیا ۔آپ قرآن پاک کی تلاوت کثرت سےکرتے تھے ۔آپ نے قرآن کی قرءات امام عاصم رحمۃ اللہ علیہ سے سیکھی ۔جن کا شمار قراء سبعہ میں ہوتا ہے۔حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سے علماء کرام سے علم حاصل کیا ۔جن میں امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت سلمہ بن کہیل رحمۃ اللہ علیہ ،ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت سماک بن حرب رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت محارب بن وثار رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت عوان بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت ہشام بن عروہ رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت سیلمان مہران رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت شعبہ رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت حماد بن ابی سلمان رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر اساتذ ہ کرام سے بھی علم کی پیاس بجھائی۔

 

مندرجہ بالا شیوخ سے علم کے خزانے لوٹنے کے بعد آپ مسند درس پر فائز ہو گئے اور اپ نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کااپنے شاگردوں کے ساتھ رویہ انتہائی مشفقانہ تھا۔آپ اپنے شاگردوں کی ضروریات کا خیال رکھتے ۔حفظ قرآن،صرف و نحو،علم الکلام ،مناظرہ،علم الحدیث ،فقہ وعلم الشرائع گویا علم کے ہر گوشے میں کمال دسترس رکھتے تھے۔آپ نے کئی کتب تصانیف کیں لیکن فقہ اکبر،کتاب السیر،کتاب الاوسط،الفقہ الاوسط کو خاص مقام حاصل ہے۔

 

حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے حصول علم کےلیے مکہ ،مدینہ ،بصرہ کے اسفار کئے ۔انہی اسفار کے دوران حضرت عبد اللہ بن حارث بن جز رضی اللہ عنہ ،عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت عمرو بن دینار رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت عمرو بن دینار مکی رحمۃ اللہ علیہ ،حافظ ابو الزبیرمحمد بن مسلم رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت ابو بکر یعقوب بن ابی تمیمہ السختیانی رحمۃ اللہ علیہ و دیگر علما ء و فقہاء سے تلمذ طے کیا ۔علم حدیث اور فقہ میں دسترس حاصل کی جب آپ مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں حضرت امام باقر رحمۃاللہ علیہ سے ملاقات ہوئی ۔

 

انہی اسفار کے دوران آپ رحمۃ اللہ علیہ مختلف لوگوں سے بحث و مباحثہ اور مذاکر ے بھی کرتے رہے ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کا پہلا مناظرہ اپنے استاد ِ محترم امام حماد رحمۃ اللہ علیہ سے ہو ا۔حضرت امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت یحیٰ بن سعید رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت امام باقر رحمۃ اللہ علیہ سے بھی مناظرہ ہوا۔ان کے علاوہ دیگر صاحب علم لوگوں سے بھی مناظرے ہوئے اور آپ نے اسلام کی صداقت و حقانیت کو لوگوں کے سامنےعقلی اور نقلی دلائل سے ثابت کیا۔آپ نے ۱۵۰ھ میں وفات پائی۔

 

حوالہ جات

  1. شبلی نعمانی،علامہ، سیرت النعمان، مکتبہ رحمانیہ،اقراء سنٹر غزنی سٹریٹ ،اردوبازار ،لاہور، :۱۶
  2. قادری ، تراب الحق، شاہ ،سید، علامہ، سیدناامام اعظم ،زاویہ پبلشرز ، c-۸ ،داتا دربار مارکیٹ،لاہور ، ۲۰۱۲ء، :۴۳
  3. ابن کثیر،ابو الفداء ، عماد الدین ، حافظ، تاریخ ابن کثیر، (مترجم اردو) مولانا ابو طلحہ محمد اصغر مغل، دارالاشاعت ، اردو بازار ، ایم اے جناح روڈ، کراچی ،پاکستان،۵: ۳۰۵
  4. ابراہیم ،محمد، سید، تاریخ طبری، ۷: ۲۷۰؛ ابن خلدون، عبد الرحمن،علامہ،تاریخ ابن خلدون(مترجم اردو)حکیم احمد حسین الٰہ آبادی ، نفیس اکیڈمی ، اردو بازار کراچی،۵: ۳۶
  5. ذہبی ، ابو عبد اللہ، محمد بن احمد بن عثمانی ، مناقب ابی حنیفہ ، : ۲۲
  6. کردری ، محمد بن شہاب ، ابن بزاز، مناقب ابی حنیفہ، : ۲۷
  7. مسند ابی حنیفہ ص ۲۵،۲۶ ، بحوالہ ،مبارکپوری ، قاضی اطہر، مولانا، سیرت آئمہ اربعہ ،: ۳۵
  8. موفق،احمد بن محمد مکی،مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ، ۲ :۳۸ ؛ مناقب ، ۲ : ۵۷ ،بحوالہ :گیلانی ، احسن،مناظر ،سید، حضرت امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی،:۲۲۸
  9. ایضاً
  10. شاہ نواز، امام الدنیا، زاویہ پبلشرز، 8-cمحی الدین بلڈنگ داتادربار مارکیٹ، لاہور۲۰۰۸ء، :۳۶
  11. ابن کثیر، ابو الفداء،عماد الدین،اسماعیل، البدایہ والنھایہ ، ۸: ۳۰۷
  12. جعفری ،رئیس احمد، سید ، سیرت آئمہ اربعہ، شیخ غلام علی اینڈ سنز ، کشمیری بازار لاہور ، : ۴۰
  13. ذہبی ، ابو عبد اللہ، محمد بن احمدبن عثمان، تذکرۃ الحفاظ، ۱ :۹۲
  14. ذہبی، ابو عبد اللہ ، محمد بن احمد بن عثمان، دول الاسلام، : ۴۷
  15. ابن ماجہ، ابو عبد اللہ ، امام ، سنن ابن ماجہ، رقم حدیث ۔ ۱۱۹۶۲
  16. نسائی، احمد بن شعیب، ابو عبد الرحمن ،سنن نسائی، رقم حدیث۔ ۲۸۰۶
  17. کاندھلوی، صدیقی ، علی ، محمد، مولانا، امام اعظم اور علم الحدیث، : ۲۴۴
  18. صدر الائمہ،۱ : ۳۴
  19. الذہبی ، محمد، ابو عبد اللہ، تذکرۃ الحفاظ، ( مترجم اردو) شیخ الحدیث حافظ محمد اسحاق، ۱: ۴۸
  20. کتاب الآثار ، :۳۰۹
  21. ذہبی، ابو عبد اللہ ، محمد احمد بن عثمان، تذکرۃ الحفاظ ، ۱ : ۲۸
  22. کتاب الآثار
  23. خان ،امیر علی،تذکرہ آئمہ اربعہ،:۳۱
  24. ایضا،:۳۲
  25. ایضا
  26. ایضا
  27. موفق، مناقب ، الامام الاعظم ، ۱ :۱۷۸، بحوالہ : بجنوری، عزیز الرحمن ، مفتی ، مولانا، سیرت امام اعظم ابو حنیفہ،: ۸۱؛ امام محمد، کتاب الآثار(مترجم اردو) علامہ محمد صدیق ہزاروی، مکتبہ اعلیٰ حضرت ، دربار مارکیٹ ، لاہور۔ ۲۰۰۹ء، :۶۳رقم حدیث:۸۶
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...