Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 2 Issue 2 of Al-ʿILM

خاندانی نظام میں تربیت اخلاق: سیرت النبیﷺ کے تناظر میں |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060040263_768

Pages

63-81

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/97/77

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/97

Subjects

Family Ethics Training Wisdom

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

عصر حاضر جہا ں اپنے دامن میں بے مثال کامیابیوں کی داستان سمیٹے ہوئے ہے۔ وہیں بے شمار مسائل اور چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ تیز ترین ترقی نے انسان کو مادیت پرستی کی طرف راغب کر دیا ہے۔ خاندانی اور اخلاقی اقدار زوال پذیر ی کا شکار ہو رہی ہیں ۔انسان جسم اور روح کا مرکب ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی اس کی مادی ضروریات تو پوری کرنے پر قادر ہے لیکن اس کی روحانی حاجات کی تسکین سے عاجز ہے۔ کیونکہ جہاں عقل کی حدود ختم ہوتی ہیں وہیں سے روح کا سفر شروع ہوتا ہے اور روح کی تسکین کا سامان تو صرف اور صرف آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت طیبہ میں پوشیدہ ہے۔

 

معاشرت پسندی انسان کے خمیر میں ہے۔ ہر دور کے انسان نے اجتماعی زندگی کو پسند کیاہے۔ اور اس کی اجتماعی عمرانیاتی زندگی کی بنیادی اکائی خاندان ہے۔ جو زوجین کے معاہدہ نکاح کی صورت میں وجود میں آتا ہے۔ خاندان وہ معاشرتی ادارہ ہے جو قوموں کی تعمیر کرتا ہے۔افراد کی شخصیت کی تعمیر ، کردار سازی یہیں کی جاتی ہے۔ شخصیت کی تعمیر اور کردار سازی اخلاقی تربیت کے بغیر ادھوری ہے۔ اخلاق خوشنمابرگ وبار کی مانند ہے کہ جس کی عدم موجودگی انسانی شخصیت کوبے رنگ اور بد نما اور عیب دار کر دیتی ہے۔اخلاق انسانی جسم میں لہو کی مانند ہے۔ جیسے انسان کے اخلاق ہوں گے ویسے ہی اس کے اعمال ہوں گے۔اخلاق کی تربیت راتوں رات نہیں ہو جاتی بلکہ تربیت اخلاق کا عمل تو بچے کی پیدائش سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور یہ اس کی نشوونما کے ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے اور اس کی ذات اس کی فطرت کا غیر محسوس انداز میں حصہ بن جاتا ہے۔ اس کے اعمال اس کے افعال کا ظہور اسی فطرت کے تحت ہوتا ہے۔

 

انسانی زندگی کی ابتداء خاندان میں ہوتی ہے، جہاں خاندان بچے کی باقی کی ضروریات کی تسکین کا پابند ہوتا ہے وہیں بچے کی روحانی حاجات اور اس کی تربیت بھی خاندان کے فرائض میں شامل ہے۔عربی میں خاندان کو عائلہ کہتے ہیں۔ اس کا مادہ 'ع ول 'ہے۔ خاندان عام طور پر زوج زوجہ اور اولاد پر مشتمل ہوتا ہے۔ جیسا کہ آکسفورڈ ایڈوانسڈ لرنرز ڈکشنری میں بھی خاندان کی یہی تعریف کی گئی ہے۔

 

Family: Group of parents and children, All those who persons decended from common ancestors, group of living things or of language with comon Characteristics and a common source.[1]

 

الموسوعہ فقہیہ میں ہے:

 

والاسرۃ: عشیرۃ الرجل وأھل بیتہ[2]دمی کے خاندان اور اس کے گھر والوں کو اسرۃ کہتے ہیں"

 

اسی طرح تاج العروس میں بھی خاندان کی یہی تعریف بیان کی گئی ہے:

 

الاسرۃ اقارب الرجل من قبل ابیہ [3]"آدمی کے اس کے باپ کی طرف سے رشتہ داروں کو اسرۃ کہتے ہیں"

 

قرآن مجید کی رو سے مرد کو سربراہ خاندان کی حیثیت حاصل ہے۔ عربی میں اسے " عیال الرجل" کہا جاتا ہے۔

 

وعیال الرجل وعیلہ الذین یتکفل بھم[4]

 

"آدمی کے عیال سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی وہ کفالت کرتا ہے"

 

وقیل قام بما یحاجون الیہ من قوت وکسوۃ وغیرھما۔[5]

 

اور بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کھانے پینے اور لباس کے لیے اس کے محتاج ہوتے ہیں"

 

لہذا خاندان سے مراد وہ افراد ہیں جو باہم قرابت داری کے رشتہ سے منسلک ہوں ۔ ایک دوسرے کے ساتھ شوہر اور بیوی، ماں اور باپ، بیٹے اور بیٹی، بہن اور بھائی کے رشتوں سے باہم مربوط ہونے کی حیثیت سے عموماً ایک چھت تلے زندگی بسر کر رہے ہوں ۔

 

اصل موضوع کی طرف آنے سے پیشتر لفظ اخلاق کا لغوی و اصطلاحی مفہوم مختصراً بیان کیا جاتا ہے ۔

 

 

اخلاق کا لغوی و اصطلاحی مفہوم

 

اخلاق عربی زبان کا لفظ ہے اور جس کا مادہ خ ۔ل ۔ق ہے۔ اور یہ خُلق کی جمع ہے۔اور خُلق کا مطلب ہے عادت، طبیعت مروت اور خصلت جیسا کہ مفردات القرآن میں بھی یہی معنیٰ بیان ہوئے ہیں۔"و خص الخلق بالقوی والسجایا المدرکۃ با لبصیرۃ۔" [6]

 

خلق کا لفظ عادت اور خصلت کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے اور محاسن خلق کا احساس بصیرت سے ہوتا ہے۔تاج العروس میں ہے:

 

الخلیقۃ: الطبیعۃ یخلق بھا الانسان۔"[7]خلیقہ کی جمع خلائق ہے اس کا معنی طبیعت ہے جس پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔

 

امام جرجانی نے اخلاق کی تعر يف ان الفاظ کے ساتھ کی ہے۔

 

الخلق : عبارۃ عن ھیئۃ للنفس راسخۃ تصدر عنھا الافعال بسھولۃ۔ [8]

 

"خلق يااخلاق نفس کی اس پختہ حالت کانام ہے جس سے اچھے يابرے افعال بغیرغوروفکر کے سرزدہوں"

 

علامہ زبیدی نےلکھا ہے :الخلق:السجيۃ"اخلاق طبیعت میں راسخ کیفیت کانام ہے[9]

 

ابن در يد کے نزدیک اخلاق فطرت ،عادات اور خصائل کانام ہے۔ وہ لکھتےہیں:الخلق:الطبيعۃ،والخلقيۃ ،والسليقۃ۔[10]

 

ہم کہہ سکتے ہیں کہ اخلاق سے مراد فطرت ، عادات اور وہ خصلتیں ہیں جو انسان کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہوں، اور بغیر کسی غورو فکر کے انسان سے صادر ہوتی ہوں۔

 

خاندان کی اخلاقی تربیت اور اسوہ حسنہ

 

خاتم النبیین ﷺ کی سیرت طیبہ زندگی کی بو قلمونیوں کا عجب حسین و جمیل مرقع ہے ،جس کی شان جامعیت کا عالم تو یہ ہے کہ چودہ سو سالوں میں اس کے ہر پہلو پر، ہر زمانے میں، دنیا کی ہر زبان میں کئی ضخیم کتب لکھی گئیں لیکن پھر بھی سیرت محمد مصطفٰی ﷺ کے اسرار ختم نہ ہوئے۔یوں تو یہ آپ ﷺ کی تربیت ہی تھی کہ عرب کہ بدو دنیا کی تہذیب یافتہ اور متمدن قوم بن گئی۔مسجد کے منبر سے لے کر سیاست کی مسند تک، معیشت کے بازاروں سے لے کر معاشرہ اور خاندان تک آپ ﷺ نے زندگی کے ہر پہلو پر کامل راہنمائی فرمائی۔اور یہ اصول اس قدر جامع ہیں کہ ان سے بہتر اور کوئی ضابطہ حیات ہو ہی نہیں سکتا۔ہر میدان کی طرح آپﷺ نے اپنے اصحاب کی نہ صرف اخلاقی تربیت کی بلکہ اخلاق حسنہ کا عملی مظاہرہ بھی کر کے دکھایا۔اور صرف یہی نہیں بلکہالا کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ۔" [11]فرما کر جہاں دیگر معاملات میں سربراہ خاندان کو ذمہ دار ٹھہرایا وہیں خاندان کی اخلاقی تربیت بھی سربراہ خاندان پر لازم قرار دی۔اگرچہ آپﷺ نے اخلاق حسنہ کو فرو غ دینے کے لیے جامع ہدایات فرمائیں جن پر اگر سرسری بحث بھی کی جائے تو اچھا خاصا ضخیم مقالہ بن جائے۔ لیکن اس مختصر مقالہ میں خاندان کی تربیت اخلاق کے نبویﷺ منہج پر بات کی جائے گی۔ اور آپ ﷺ کی خانگی زندگی کے اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے خاندان کی اخلاقی تربیت کے لیے راہنما اصول مرتب کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔سیرت النبی ﷺ کا بغور مطالعہ کرنے سے خاندنی نظام میں تربیت اخلاق کےپانچ مراحل سامنے آتے ہیں۔*

ایک سربراہ خاندان خود بھی عمدہ اخلاق کا حامل ہو۔
  • دوسرا اہل خانہ کے ساتھ اخلاق حسنہ کا عملی مظاہرہ
  • تیسراگھر کی فضا میں محبت ،الفت، اعتماد اور دوستی کی فضا کا ہونا
  • چوتھا جہا ں لازم ہو بیوی کی مناسب انداز میں اصلا ح کرنا
  • پانچواں مر حلہ یہ کہ زوجین کا باہم مل کر نسل نو کی تعمیر اخلاق کے لیے تگ و دو کرنا۔

 

 

 

اب ان پانچوں مراحل کا سیرت طیبہ کی روشنی میں جائزہ لیا جاتا ہے۔

 

۱۔ سربراہ خاندان خود بھی عمدہ اخلاق کا حامل ہو :

 

سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سربراہ خاندان کو خود بہترین اخلاق کا مطاہرہ کرنا چاہیے۔ اخلاقی لحاظ سے خود وہ رول ماڈل ہو۔ جیسا کہ آنحضور ﷺ اخلاق حسنہ کا پیکر تھے۔آپﷺ نے اخلاق حسنہ کو اپنے عملی قالب میں ڈھال کر دکھایا۔۔ حضرت عائشہ سے جب آپ ﷺ کے اخلاق کریمانہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ؓ فرمانے لگیں:"کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنَ۔"[12]اور صرف یہی نہیں بلکہ آپ ﷺ اکثر دعا فرمایا کرتے تھے ۔

 

اللھم احسنت خلقی فاحسن خلقی۔[13]اے اللہ جس طرح تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے اسی طرح میری سیرت بھی اچھی کر دے۔

 

یہ اس پاک ہستی کی دعا ہے جس کے ا خلاق کا یہ عالم ہے کہ اللہ تبارک وتعالٰی نے اس کے اخلاق کی گواہی ان الفاظ کے ساتھ دی ہے:

 

واِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ.[14]"اور بیشک آپ بلند اخلاق پر فائز ہیں"

 

اس سے ثابت ہوا کہ سربراہ خاندان نہ صرف اخلاق حسنہ کا حامل ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خود کے اخلاق بہتر سے بہتر کرنے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔تاکہ اس کے قول اور فعل کی یکسانیت افراد خانہ کے لیے ایک مؤثر محرک ثابت ہو۔اور اخلاق حسنہ کو اپنانا ان کے لیےدشوار نہ ہو۔

 

۲۔ اہل خانہ کے ساتھ اخلاق حسنہ کا عملی مظاہرہ

 

خاندان کی اخلاقی تربیت کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ اہل خانہ کے ساتھ بہترین اخلاق کا مظاہرہ کیا جائے ۔ کیونکہ انسان کا عمل اس کے قول سے زیادہ تاثیر رکھتا ہے ۔اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا: اکمل المومنین ایمانا احسنھم خلقا والطفھم باھلہ۔[15] مومنوں میں ایمان کے اعتبار سے کامل تر وہ شخص ہے جو ان میں اخلاق کے اعتبار سے بہتر اور اپنے اہل سے زیادہ نرم خو ہے۔

 

مزید فرمایا:خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔"[16] تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل کےلیے بہتر ہے اور میں تم میں سے اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہوں۔

 

حضور کی پوری زندگی اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسنِ معاشرت، عمدہ اخلاق اور محبت و ایثار سے بسر ہوئی۔ ازواج مطہرات کے ساتھ آپ کا انتہائی درجے کے لطف و اخلاق سے پیش آنا حضرت فاطمہؓ ، اور حضرت حسنؓ حضرت حسین ؓ کے ساتھ نہایت محبت و اکرام کا برتاؤ کرنا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔نیز خوش اخلاقی ، صلہ رحمی، فیاضی سخاوت، نرمی، زہدو قناعت، صبر و شکر کے عملی مظاہر آپ ﷺ کی خانگی زندگی میں نمایا ں نظر آتے ہیں ۔ جن کا ایک مقصد اہل خانہ کی اخلاقی تربیت بھی تھا۔

 

 

۳۔ گھر میں محبت ،الفت، اعتماد اور دوستی کی فضا کا ہونا

 

تہذیب اخلاق کے لیے باہمی الفت و محبت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ محبت ہی اخلاق کی آبیاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔ محبت ذریعہ ہم آہنگی ہے، افراد خانہ کے درمیان عزت و احترم کے جذبات پیدا کرتی ہے۔ اور عزت و احترام سے ہی رشتوں کا تقدس بحال رہتا ہے ایک دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر زوجین کے درمیان الفت و محبت ہی مفقود ہو، وہ ہر وقت ایک دوسرے سے بیزار ہوں۔ تو اس ماحول میں وہ اولاد کو کیا اخلاق سکھائیں گے اور کیا ان کی تربیت کا حق ادا کر سکیں گے۔

 

اگر ہم آنحضور ﷺ کی خانگی زندگی پر نظر دوڑائیں تو یہ الفت و محبت گھر کے کونے کونے میں رچی بسی نظر آتی ہے۔آپ ﷺ کے عقد میں متعدد ازواج تھیں عمر، ذہن اور مزاج کا اختلاف اپنی جگہ لیکن محبت و الفت نہ صرف زوجین میں نظر آتی ہے بلکہ یہ محبت باہم ازواج میں بھی تھی۔ آپ ﷺ اہل خانہ کے ساتھ گھل مل جاتے تھے، گھر یلو کام کاج میں ازواج کا ہاتھ بھی بٹاتے،کبھی گھر میں آٹا گوندھ دیتے ، جیسا کہ ایک بار حضرت عائشہ سے چولہے کی آگ نہیں جل رہی تھی، توحضورﷺ نے حضرت عائشہ کو ایک طرف کرکے خود آگ جلا کردی، اس حالت میں کہ گیلی لکڑیوں کا دھواں آپ کے چہرہ انور پر پھیل رہا تھا۔

 

حضرت عائشہ کم سن تھیں ان کی سہیلیاں ان سے کھیلنے بلا ججھک آ یا کرتی تھیں۔ اور آپ ﷺ انہیں منع نہ فرماتے۔ [17]اسی طرح ایک بار عید کا دن تھا، گھر میں کچھ بچیاں آئی ہوئی تھیں وہ مل کر خوشی کے گیت گانے لگیں، آپ ﷺ منہ پر کپڑا ڈالے لیٹے ہوئے تھے اتنے میں حضرت ابو بکر صدیقؓ تشریف لائے اور انہیں منع کرنے لگے لیکن آنحضور ﷺ نے آپ کو یہ کہہ کر منع فرما دیا کہ " آج ان کی عید کا دن ہے۔"یہ تمام واقعات ہمارے سامنے خانگی زندگی کا ایسا نقشہ کھینچتے ہیں جس میں محبت الفت تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر فرد کو اپنی زندگی جینے کے لیے مناسب آزادی بھی ہے، جس میں نہ بلا وجہ کی روک ٹوک ہے نہ بے جا مداخلت، نہ ہی سختی کا عنصر ہے نہ ہی رعب و دبدبے اور خوف کا ماحول۔ اور ایسا ہی ماحول افراد کی صحت مند اخلاقی ذہنی اور روحانی تربیت کے لیے سازگار ہوتا ہے۔

 

۴۔جہا ں لازم ہو بیوی کی مناسب انداز میں اصلا ح کرنا

 

اگرچہ آپ ﷺ کے اہل خانہ دنیا کی انتہائی معتبر اور پاکباز ہستیاں تھیں جنہیں اللہ نے اپنے نبیﷺ کی مصاحبت کے لیے چن لیا تھا۔ لیکن پھر بھی آپ ﷺ نے ان کی اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دی، اور وقتاً فوقتاً ان کی احسن انداز میں اصلا ح بھی کی۔اس حوالے سے آپ ﷺ کی سیرت طیبہ سے مختلف واقعات ملتے ہیں۔ ان واقعات کے پس منظر میں آپ ﷺ کا حکیمانہ اسلوب تربیت لائق غور ہے۔

 

گفتگو انسانی شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے۔ اور کمال یہ ہے کہ انسان دوست ہو یا دشمن بڑا ہو یا چھوٹا سب سے خوش اخلاقی سے پیش آئے تہذیب کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔آپ ﷺ اپنے اہل خانہ کو خوش خلقی کی تربیت نہایت دلنشین انداز میں دیتے ہیں۔

 

ام المؤمنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں ایک شخص نے نبی اکرمﷺ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا " اپنے کنبے کا برا شخص ہے۔" جب وہ اندر آ گیا تو رسولﷺ اس سے کشادہ دلی سے ملے اور اس سے باتیں کیں، جب وہ نکل کر چلا گیا تو میں نے عرض کیا ! اللہ کے رسول! جب اس نے اجازت طلب کی تو آپﷺ نے فرمایا : اپنے کنبے کا برا شخص ہے، اور جب وہ اندر آ گیا تو آپ کشادہ دلی سے ملے" آپ ﷺ نے فرمایا " عائشہ اللہ کو فحش گو اور منہ پھٹ شخص پسند نہیں۔"[18]

 

مزید فرمایا: عائشہ لوگوں میں سب سے بدترین لوگ وہ ہیں جن کا احترام اور تکریم ان کی زبانوں سے بچنے کے لیے کیا جائے۔[19]

 

یہ وہ طریقہ تربیت کہ ایک طرف توآپ اپنے اہل خانہ کو متعلقہ شخص کی برائی سے آگاہ کر رہے ہیں ۔مبادا آپﷺ کے خوش اخلاقی سے پیش آنے کی بنا پر کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر اس کی برائی سے غافل نہ رہیں اور دوسری طرف یہ سمجھا رہے ہیں کہ کسی کی برائی دیکھتے ہوئے خود برائی پر اتر آنا درست نہیں بلکہ ایسے حالات میں بھی خوش اخلاقی کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔

 

پھر اسی طرح نرمی اپنانے کی تلقین کا انداز کتنا خوبصورت ہے۔ایک دفعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں چند یہودی آئے اور بجائے السلام علیک کے (تم پر سلامتی ہو ) زبان دبا کر السام علیک (تم کو موت آئے) کہا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کے جواب میں صرف وعلیکم (اور تم پر) فرمایا حضرت عائشہؓ سُن رہی تھیں وہ ضبط نہ کر سکیں ، بولیں ، علیکم السام واللّعنۃ ( تم پر موت اور لعنت) آپؐ نے فرمایا : یا عائشہ ان اللہ یحب والرفق فی الامر کلہ۔[20]

 

لیکن کچھ مواقع ایسے بھی ہیں جن میں نرمی اپنانے سے گریز کرنا چاہیے جیسا کہ نامحرم سے بات کرتے ہوئے زیادہ نرم لہجہ اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔

 

یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ الَّذِیۡ فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا[21]

 

"اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو "

 

خوش خلقی کے اس برتاؤ کی تعلیم کا دائرہ کار صرف انسانوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ جب ایک بار حضرت عائشہ کا اونٹ دوران سفر تیزی کرنے لگا تو دستور زمانہ کے مطابق حضرت عائشہ کے منہ سے فقرہ لعنت نکل گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس اونٹ کو واپس کر دو ملعون چیز ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ [22]گویا کہ یہ تلقین تھی کہ جانور تک کو برا نہیں کہنا چاہیے۔

 

آپ ﷺ کی تربیت کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ آپ ﷺ نام لیے بغیر غیر محسوس انداز حکیمانہ بصیرت کے ساتھ اصلاح فرما دیا کرتے تھے لیکن اگر کبھی کوئی بات زیادہ سنگین ہوتی تو اس پر خفگی کا اظہار بھی فرماتے حضرت صفیہؓ کسی قدر پست قد تھیں ۔ ایک دن حضرت عائشہ نے کہا ’’ یا رسول اللہ ! بس کیجئے صفیہ تو اتنی ہیں ‘‘۔ آپ نے فرمایا ’’عائشہ تم نے ایسی بات کہی کہ اگر وہ سمندر کے پانی میں گھول دی جائے تو وہ اس پر بھی غالب آ جائے ‘‘یعنی یہ غیبت ایسی تلخ بات ہے کہ سمندر کے پانی میں ملا دی جائے تو کل پانی بد مزہ ہو جائے ۔ عرض کیا ’’ یا رسول اللہ ! میں نے تو ایک شخص کی نسبت واقعہ بیان کیاہے۔اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ " اگر مجھ کو اتنا اور اتنا بھی دیا جائے تو بھی یہ بیان نہ کر وں "۔یعنی مجھ کو کسی قدر بھی لالچ دلائی جائے تو میں ایسی بات کسی کے متعلّق نہ کہوں ۔[23]

 

پھر آپ ﷺ نہ صرف اخلاق حسنہ کی تربیت کرتے ہیں بلکہ آپ ﷺ کی تربیت کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ اخلاقی حوالے سے اپنا دفاع احسن انداز میں کرنا بھی سکھاتے ہیں ۔جیسا کہ ایک بارسیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا جو ایک یہودی حیی بنت اخطب کی بیٹی ہیں اور آپ ﷺ کی بیوی بھی ہیں،جنگ خیبر کے موقعہ پر آپﷺ نے ان سے شادی فرمائی۔انکے کمرے میں آپﷺ تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ زار وقطار رورہی ہیں ۔آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ صفیہ کیوں رورہی ہو؟کہا کہ زینب جو آپکی بیوی ہیں وہ کہہ رہی تھیں کہ ہمار اتعلق نبی کریم ﷺ سے نسبی ہے،لہذا فضیلت میں ہم تم سے بڑھ کر ہیں۔تم فضیلت میں ہمارے برابر نہیں ہوسکتیں اور ہم سے بڑھ نہیں سکتیں۔فورا ًنبی کریم ﷺ نے ان سے یہ کہا کہ: ارے !تم نے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ تم مجھ سے فضیلت میں کیسے بڑھ کر ہوسکتی ہوجبکہ میرا باپ ہارونؑ اور میرے چچا موسیٰؑ اور میرے شوہر حضرت محمد ﷺ ہیں۔[24]

 

آپ ﷺ نے کس خوش اسلوبی سے معاملہ نمٹا دیا کہ دلوں میں کدورت بھی نہ رہی اور ملال بھی جاتا رہا۔کہ بجائے دل جلانے کہ بہترین طریقے سے دفاع کرنے کی بھی تعلیم دے دی۔

 

پھر آپ ﷺ اپنے اہل خانہ کو صلہ رحمی کی ترغیب دیتے بھی نظر آتے ہیں جیسا کہآپ ﷺ نے فرمایا "صلہ رحمی عرش کے ساتھ لٹکائی ہوئی ہے اور کہتی ہے کہ جس نے مجھے جوڑا اللہ اسے جوڑے گا اور جس نے مجھے توڑا اللہ اس سے دور ہو گا۔"[25]

 

ایک بار  حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا نے ایک لونڈی آزاد کی۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم نے اس لونڈی کو آزاد کرنے کہ بجائے اپنی بہن کو دیدیتیں اور تمہاری بہن اس سے فائد ہ اٹھاتیں تو تمہار ااجر بڑھ جا تا۔[26]

 

اسی طر ح آپ ﷺ حضرت خدیجہ ؓ کی سہیلیوں کو قربانی کا گوشت بھجواتے۔[27]

 

آنحضور ﷺ کی اخلاقی تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ " بنی زہرہ کے چند لوگوں کے ساتھ حضرت عائشہ بہت اچھی طرح پیش آتی تھیں کیونکہ ان لو گوں کی آنحضورﷺ سے قرابت تھی۔"[28]

 

کہا جاتا ہے کہ عورت اور قناعت ایک جگہ اکٹھے نہیں ہو سکتے لیکن آنحضور ﷺ کے اہل خانہ میں زہد و قناعت کے اوصاف بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ حالانکہ آپ ﷺ کی اکثر ازواج بڑے گھرانوں سے تھیں نہایت نازو نعم میں پلی بڑھیں تھیں لیکن یہ آپ ﷺ کی محبت اور تربیت کا اعجاز تھا کہ دنیاوی مال و مطاع کی حرص سے بے نیاز تھیں آنحضور ﷺ خود بہت فیاض تھے تو ازواج مطہرات بھی آپ ﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جو بھی ان کے پاس ہوتا جمع کرنے بھی بجائے راہ خدا میں خرچ کر دیا کرتیں اور خود گھر کے حالات یہ تھے کہ کئی کئی روز آپ ﷺ کے گھر کا چولہا نہ جلتا تھا، آپ ﷺ کے اہل خانہ کی خوراک پانی اور کھجوروں پر ہی مشتمل رہتی۔ آپﷺ کےگھر والے مسلسل کئی کئی راتیں فاقہ کشی میں گزار دیتے کیونکہ گھر میں شام کو کھانے کی کوئی چیز نہ ہوتی تھی۔ ازواج مطہرات کے حجرے دس دس بارہ بارہ فٹ کے تھے جن میں سے بعض کی دیواریں کچی تھیں اور بعض کے لیے اوپر ٹہنیاں ڈال کر لپائی کر دی گئی تھی اور کھجور کی شاخوں کی چھتیں تھیں ۔ اونچائی اتنی کہ کھڑے ہو کر ہاتھ بآسانی چھت تک جا پہنچتا۔[29]حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں چالیس چالیس راتیں گزر جاتیں اور گھر میں چراغ نہ جلتا تھا،کبھی تین دن لگاتار ایسے نہیں گزرے کہ خاندان نبوت نے سیر ہو کر کھایا ہو۔[30]مزید فرماتی ہیں کہ"پورا مہینہ گزر جاتا تھا ہم چولہے میں آگ نہیں جلاتے تھے صرف کھجور اور پانی پر ہماری گزر اوقات ہوتی تھی۔"[31]

 

ازواج مطہرات ان حالات میں بھی نہایت صبر و شکر کے ساتھ گزارہ کرتیں اور آپ ﷺ کی رفاقت کو دنیا وما فیہا سے بہتر خیال کرتیں ، جیسا کہ ایک بار ازواج مطھرات نے بشری تقاضوں کے پیش نظر نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ کیا تو آپ ﷺ نے انہیں دنیا یا آخرت میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی پیشکش کی اور تمام ازواج مطہرات نے آخرت کو ہی پسند کیا۔[32]

 

لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ موجودہ خواتین کی طرح امہات المومنین میں مال و مطاع کی حرص نہ تھی اور وہ مال کو جمع کرنے یا رکھنے کی قائل بھی نہیں تھیں۔ فیاضی اور سخاوت کی صفت ان میں عروج پر تھی۔ان کے یہاں کہیں سے کوئی ہدیہ یا تحفہ آتا تووہ اسے اسی وقت ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتی تھیں۔

 

موطا امام مالک سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک دن روزے سے تھیں اور گھر میں ایک روٹی کے سوا کچھ نہ تھا، اتنے میں ایک سائلہ نے آواز دی، انہوں نے باندی کو حکم فرمایا کہ روٹی سائلہ کو دے دے ، باندی نے کہا: شام کو افطار کس چیز سے کریں گی؟ ام المومنین نے فرمایا: تم یہ اسے دے دو، شام ہوئی تو کسی نے بکری کا گوشت ہدیہ بھیج دیا- باندی سے فرمایا: دیکھو! اللہ نے روٹی سے بہتر چیز بھیج دی ہے۔[33]

 

ایک بار حضرت عائشہؓ کوان کے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے اس قدر فیاضی وسخاوت پر ٹوکا تو وہ ان سے سخت خفا ہوئیں اور ان سے بات نہ کرنے کی قسم کھا لی۔[34]

 

حضرت زینب بنت خزیمہ اپنی سخاوت اور فیاضی کی وجہ سے ام المساکین کے لقب سے مشہور تھیں۔صحیحین میں ہے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو اطلاع دی کے تم میں سے سب پہلے مجھ سے آکر وہ ملے گی جس کا ہا تھ سب سے لمبا ہو گا اور ایسا ہی ہوا سب سے پہلے ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا جو سب سے زیادہ سخی تھیں۔ )عربی محاورے میں سخی کو لمبے ہاتھ والا کہتے ہیں۔مسلم شریف میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ ہم میں سب سے زیادہ دراز ہاتھ والی (یعنی صدقہ خیرات کرنے والی ) حضرت زینب تھیں۔ وہ سوت کاتا کرتی تھیں اور دیگر محنت مشقت دباغت وغیرہ کرکے پیسہ حاصل کرتیں اور فی سبیل اللہ صدقہ خیرات کیا کرتی تھیں۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ناپ کے لحاظ سے حضرت سودہ کے ہاتھ دراز تھے‘ ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں یہی سمجھا کہ دراز ہاتھ والی بیوی کا انتقال پہلے ہونا چاہیے۔ مگر جب حضرت زینب کا انتقال ہوا تو ظاہر ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ہاتھوں کا دراز ہونا نہ تھی بلکہ صدقہ وخیرات کرنے والے ہاتھ مراد تھے اور یہ سبقت حضرت زینب کو حاصل تھی‘ پہلے انہی کا انتقال ہوا۔[35]

 

یہ آپ ﷺ کی تربیت کا ہی اعجاز تھا کہ تمام ازواج مطہرات کے دس دس ہزار درہم سالانہ مقرر تھے،[36]لیکن ازواج مطہرات اسے فی الفور صدقہ کر دیا کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارہ ہزار دینار مقررتھےلیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کے باوجود قناعت اختیار کرتیں اور ہمیشہ موٹے اور کم قیمتی کپڑے پہنتی تھیںاور تمام رقم راہ خدا میں خرچ کر دیتیں-[37]

 

آپ ﷺ اکثر ازواج مطہرات کو ایثار کی تلقین فرمایا کرتے تھے جیسا کہایک دفعہ کسی سائل نے سوال کیا۔ حضرت عائشہؓ نے اشارہ کیا تو لونڈی ذرا سی چیز لیکر دینے چلی۔ آپ نے فرمایا ’’ عائشہؓ گن گن کر نہ دیا کرو ورنہ خدا تم کو بھی گن گن کر دیگا ‘‘[38]

 

دوسرے موقع پر فرمایا ’’ آنحضور حضرت عائشہ سے فرمایا کرتے تھے اے عائشہ کسی مسکین کو اپنے دروازے سے خالی ہاتھ نہ جانے دو، کچھ نہ ہو تو چھو ہارے کا ایک ٹکڑا ہی سہی ضرور دے دو۔[39]

 

آپ ﷺ کی اخلاقی تربیت ہی کا ثمرہ تھا کہ آپﷺ کے اہل خانہ میں ایثار پسندی کی صفت اس قدر موجود تھی کہ ا مہات المومنین دوسروں کو خود پر ترجیح بھی دیاکرتی تھیں ، "ایک بار ایک صحابی کا ولیمہ تھا ، حضور ﷺنے فرمایا عائشہ کے پاس جاؤ اور آٹے کی ٹوکری مانگ لاؤ۔ حالانکہ خود حضور ﷺ کے ہاں رات کھانے کچھ باقی نہ رہا۔"[40]

 

اور اس ایثار کی حد تو یہ تھی کہ حضرت سودہؓ نے اپنی باری حضرت عائشہؓ کو ہبہ کر دی تھی۔اس پر وہ اس قدر متاثر ہوئیں کہ انہوں نے ان کی تعریف میں فرمایا:

 

’’مجھے سب سے زیادہ یہی بات پسند آئی اور میری خواہش ہوئی کہ میں بھی سودہ بنت زمعہ جیسی بن جاؤں۔ ‘‘[41]عورت کا سوتن کو اپنی ذات پر ترجیح دینا واقعی تعجب خیز عمل ہے اور اس کی مثال شاذونادر ہی نظر آئے گی۔

 

۵۔ تربیت اولاد کا نبوی منہج

خاندان زوجین کے باہمی عائلی معاہدہ سے وجود میں آتا ہے ۔ اور پھر اولاد اس رشتے کو مزید مضبوط کر دیتی ہے۔ والدین پر اولاد کی پرورش کے ساتھ ان کی تربیت کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے، جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

 

"کسی والد نے اپنی اولاد کو بہترین اخلاق سے اچھا تحفہ نہیں دیا۔"[42]

 

مولانا محمد شفیع لکھتے ہیں "اولاد کو صحیح تعلیم وتربیت نہ دینا ، جس کے نتیجے میں وہ خدا رسولﷺ اور آخرت کی فکر سے غافل رہے، بد اخلاقیوں اور برائیوں میں گرفتار ہو قتل اولاد سے کم نہیں۔[43]

 

تربیت أولاد کا بہترین اسوہ آپ ﷺ کی ذات سے ملتا ہے ۔ تربیت أولاد کے لیے بھی پہلا أصول محبت ہے۔ ان سے محبت اور شفقت کا برتاؤ کیا جائے۔

 

آپ ﷺ کی اپنی اولاد سے محبت مثالی ہے عرب جو کہ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے اس معاشرے کو آپ ﷺ نے بیٹی کے ساتھ نہایت لطف و محبت سے پیش آنا سکھایا آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے فاطمہ ؓ میرا جگر گوشہ ہے۔[44]

 

جب حضرت فاطمہ ؓ آپ ﷺ سے ملنے آتیں آنحضور ﷺ اٹھ کر ان کا استقبال کرتے، ان کو بوسہ دیتے، انہیں خوش آمدید کہتے ان کے ہاتھ کو تھامتے اور اپنی جگہ بٹھاتے ان کے لیے اپنی چادر بچھا دیتے ۔اور جب آپ ﷺ حضرت فاطمہ ؓ کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ بھی اٹھ کر آگے بڑھتیں استقبال کرتیں،آپ ﷺ کے ہاتھ کو پکڑتیں بوسہ دیتیں، اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔[45]

 

نواسے نواسیوں سے بھی آپ ﷺ بے پناہ محبت کیا کرتے تھےان سے ملنے گھر چلے جایا کرتے تھے اور پکارتے " أثم لکع؟ أثم لکع؟[46]

 

اقرع بن حابس تمیمی کا واقعہ مشہور ہے کہ آپ ﷺ کو نواسوں سے پیار کرتے دیکھا تو کہنے لگا میرے تو دس بچے ہیں لیکن میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا،اس پر آپ ﷺ نے فرمایا " من لا یرحم لا یر حم "[47]

 

حضرت حسن ؓ اور حسین سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے :"ھما ریحانتا ی من الدنیا۔"[48]

 

اور فرماتے "اللھم انی أحبہ، فأحبہ وأحبب من یحبہ۔"[49]

 

محبت والدین اور اولاد میں ایک اٹوٹ تعلق قائم کر دیتی ہےاس تعلق کے بنا تربیت اولاد نا ممکن ہے، ڈانٹ ڈپٹ اور سختی بچوں میں باغیانہ سوچ کو جنم دیتی ہے اور اولاد کو ماں باپ سے متنفر کرتی ہے عصر حاضر کے خاندانی مسائل میں سے ایک مسئلہGeneration Gap ہے۔ اس کی وجہ اولاد اور والدین کے درمیان محبت کی کمی باہم گفت و شنید کا نہ ہونا ہے۔اس مسئلے کا بہترین حل یہی ہے کہ اسوہ نبوی ﷺ کو سامنے رکھتے ہوئے اولاد کے ساتھ محبت و شفقت کا برتاؤ کیا جائے۔

 

تربیت اولاد کا دوسرا اہم اصول یہ ہے کہ اولاد جو کہ انسان کا سرمایہ حیات ہے ا س کو وقت دیا جائے ،اسے اپنے ساتھ رکھا جائے اور اپنے عمل سے اسے آداب و اخلاق سکھائے جائیں ۔آپﷺ اپنے نواسا نواسی کو اپنے ساتھ رکھتے۔ ان کے ساتھ وقت گزارتے یہاں تک کہ نماز میں بھی انہیں اپنے ساتھ رکھتے۔ جیسا کہ ابو قتادہ بیان کرتے ہیں کہ:

 

رایت النبی یوم الناس وامامۃ بنت ابی العاص وھی ابنۃ زینب بنت النبی ﷺ علی عائقہ فاذا رکع وضعھا، واذا رفع من السجود اعادھا۔[50]

 

میں نے نبی کریم ﷺ کو امامت کرواتے ہوئے دیکھا اور ابو العاص کی بیٹی امامہ جو نبی کریمﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب کی بیٹی بھی تھیں، آپ ﷺ کے شانہ اقدس پر تھیں۔ آنحضرت جب رکوع کرتے تو انہیں نیچے اتار کر رکھ دیتے اور جب سجدے سے سر اٹھاتے تو انھیں دوبارہ کندھے پر رکھ لیتے ۔

 

اسی طرح سے حضرت حسن اور حسین کو بھی آپ اکثر اپنے ساتھ رکھتے اور اسی طرح نماز کے دوران بھی وہ آپ ﷺ کے ساتھ ہوتے جب آپ ﷺ سجدہ کرتے تو وہ کود کر آپ ﷺ کی گردن اورپشت پر چڑھ جاتے تو نبی کریم آرام سے سر اٹھا کر انہیں بٹھا دیتے۔ایک بار آپ ﷺ خطبہ دے رہے تھے، حضرت حسن اور حسین سرخ قمیض پہنے لڑکھڑاتے ہوئے آئے رسول اللہ ﷺ منبر سے نیچے آئے ان دونوں کو اٹھایا اور اپنے آگے بٹھا لیا۔[51]

 

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے: ’’جب بچہ سات سال کا ہوجائے اسے نماز کا حکم دو اور جب دس سال کا ہوجائے اسے سرزنش کرو‘‘[52]

 

بچوں کو نماز کی طرف راغب کرنے کا یہ بہترین طریقہ ہے کہ اسے نماز کے دوران ساتھ رکھا جائے ،کیونکہ بچہ نقل کے ذریعے جلد سیکھتا ہے اور ہر وہ کام کرنا پسند کرتا ہے جو اس کے بڑے کرتے ہوں اس لیے تربیت اولاد کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہے مختلف مواقع پر بچے کو اپنے ساتھ رکھا جائے تا کہ بہتر زندگی کے لیے بہترین تربیت کی جا سکے۔

 

آپ ﷺ اکثر اپنے نواسوں کو بھی مختلف دعائیں یاد کروایا کرتے تھے۔انہیں نماز سکھاتے اور عمدہ اخلاق کی تربیت دیتے۔سیرت النبی ﷺ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ تربیت کا یہ سلسلہ اولاد کے جوان ہو جانے یا شادی کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا، جیسا کہ آپ ﷺ اکثر حضرت فاطمہ ؓ کی شادی کے بعد بھی ان کی تربیت و اصلا ح کے لیے فکر مند رہتے تھے ۔

 

آپ ﷺ ایک رات حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کے پاس تشریف لائے اور ان سے فرمایا کیا تم نماز تہجد نہیں پڑھتے پھر آپ ﷺ اپنے گھر تشریف لے گئے اور رات کا کافی وقت نماز پڑھتے رہے اس دوران آپ ﷺ نے کوئی حس و حرکت محسوس نہ فرمائی تو دوبارہ ان کی طرف تشریف لائے اور بیدار کرنے کی خاطر فرمایا اٹھو نماز پڑھو۔[53]

 

آنحضور ﷺ کا اپنے گھر سے چل کر حضرت فاطمہ ؓ کے گھر تشریف لے جانا اور اس نماز کی ترغیب دینا جو فرض بھی نہیں اور پھر دو بار جانا، تربیت اولاد کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ جبکہ آج کل کچھ والدین بچوں کو فجر کی نماز کے لیے بھی نہیں اٹھاتے۔

 

پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ اپنی اولاد کو مصائب و آلام پر صبر و شکر کی تعلیم بھی نہایت احسن انداز میں فرماتے ہیں ۔ ایک مرتبہ کسی غزوہ میں کچھ کنیزیں آئیں رسول اللہ ﷺ انہیں تقسیم فرما رہے تھے۔حضرت فاطمہ کو بھی ایک خادمہ کی ضرورت تھی کیونکہ آپ ؓ گھر کے تمام کام خود سرانجام دیتی یہاں تک کہ چکی بھی خود پیستیں،جس کی وجہ سے آپ کے ہاتھوں میں آبلے پڑ جاتے تھے۔اور خود پانی کی مشک بھر کر لاتی تھیں جس کی وجہ سے سینہ پر مشک کی رسی کے نشان پڑ گئے تھےگھریلو ذمہ داریوں میں مدد کے لیے آپ نے نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہو ئیں لیکن حیا اور خوداردی کے باعث کچھ کہہ نہ پائیں ، حضرت علی ؓ نے ترجمانی کی ۔ لیکن آپ ﷺنے فرمایا ” ما عندی اعطیک ۔"آپ واپس چلی گئیں، اور پھر اس کے بعد آپﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ تمہیں وہ چیز زیادہ پسند ہے جو تم نے طلب کی ہے یا اس سے بہتر چیز ، حضرت علی پاس تھے ان سے کہنے لگے کہیے وہ چیز جو اس سے بہتر ہے ، حضرت فاطمہؓ نے ایسا ہی کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہو :

 

"اللھم رب السموات السبع ورب العرش العظیم ربنا ورب کل شئی منزل التوراۃ والانجیل والقرآن العظیم انت الاول فلیس قبلک شئی وانت الاخر فلیس بعدک شئی وانت الظاہر فلیس فوقک شئی وانت الباطن فلیس دونک شئی اقض عنا الدین واغننا من الفقر ۔"[54]

 

آپ ﷺ نے انہیں نماز کے بعد اور بستر پر آنے کے بعد پڑھنے والے کلمات سکھائے،اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیاوی آسائشوں کی بجائے اولاد کو اخلاق سکھانا زیادہ اہم ہے۔ دوسری بات کے تربیت کی یہ ذمہ داری اولاد کی شادی ہو جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی ، پھر آپ ﷺ کا استفہامیہ انداز کہ آیا تمہیں وہ چیز پسند ہے جو تم نے طلب کی ہے یا وہ جو اس سے بہتر ہے۔ اب یہاں آپ ﷺ اپنی اولاد کو ترجیحات کا تعین کرنا سکھا رہے ہیں ۔ اور ساتھ ساتھ دنیاوی عیش وآرام سے بے رغبتی اور اخروی فلاح کی طلب کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہامام بخاری ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ کیسے آپ ﷺ نے اپنی اولاد کو دنیا سے بے رغبتی اختیار کرنا سکھائی۔

 

أتی النبی بیت فاطمہ فلم یدخل علیھا وجاء علی فذکرت لہ ذالک فذکرہ للنبی ﷺ

 

نبی کریم ﷺ حضرت فاطمہ ؓ کے گھر پہنچے لیکن ان کے ہاں تشریف نہ لے گئے،حضرت فاطمہؓ نے اس بات کا ذکر حضرت علی ؓ سے کیا۔ آپ آنحضور ﷺ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے اس بات کا ذکر فرمایا، آپ ﷺ نے جواب دیا "انی رایت علی بابھا سترا مو شیا۔"

 

بلا شبہ میں نے اس کے دروازے پر رنگ برنگا پردہ دیکھا ہے۔

 

پھر آپﷺ نے فرمایا " ما لی وللدنیا ؟"

 

حضرت فاطمہ ؓ کو جب یہ بات پتہ چلی تو فرمایا"لیا مرنی فیہ بما شاء۔"

 

آپ ﷺ نے فرمایا"ترسلی بہ الی فلان ، أھل بیت ، فیھم حاجۃ ۔"[55]فلاں کو بھیج دو وہ محتاج گھرانہ ہے۔

 

اسی طرح ایک بار حضرت فاطمہ ؓ کے ہاتھوں میں سونے کی زنجیر دیکھی جو حضرت علی ؓ نے انہیں بطور تحفہ دی تھی آپ ﷺ نے اسے نا پسند کرتے ہوئے فرمایا:"یا فاطمۃ ! بالعدل أن یقول الناس : فاطمۃ بنت محمد ﷺ وفی یدک سلسلۃ من نار ؟"

 

حضرت فاطمہ ؓ نے اسے فورا بیچ دیا اور اس رقم سے ایک غلام خرید کر آزاد کیا جب آپ ﷺ کو اس بات کا پتہ چلا تو اللہ اکبر کہا اور فرمایا:الحمد للہ الذی نجی فاطمۃ منالنار۔[56]

 

یہاں بھی آپ ﷺ کا انداز تربیت دیکھیں کہ براہ راست منع نہیں کیا نہ حکم دیا کہ اسے اتار دو بلکہ استفہامیہ انداز اپناتے ہوئے انہیں سے پو چھا کہ کیا تم پسند کرو گی کہ لوگ کہیں رسول اللہ ﷺ کی بیٹی اور اس کے ہاتھ میں آگ کی زنجیر ہے۔

 

خلاصہ بحث

 

عصر حاضر تیز ترین ترقی کا دور ہے۔ مادیت پرستی عام ہوتی جا رہی ہے۔ والدین بچے دنیاوی تعلیم کے لیے جتنے کو شاں رہتے ہیں اتنے تربیت اخلاق کے لیے نہیں ہوتے کیونکہ تعلیم کا مقصد بھی معاشی فوائد کا حصول بن چکا ہے۔ دوسرا زندگی میں آنے والی نت نئی ایجا دات نے انسان کو انسان سے دور کر دیا ہے ، افراد خانہ کی ملا قات عام طور پر کھانے کی میز پر ہی ہوتی ہے۔ ہر فرد مصروفیت کا شکار ہے۔ نتیجتاً بچہ والدین کی نگرانی سے دور اور میڈیا کے ہاتھوں پرورش پا رہا ہے۔ آج کے بچے کی تربیت میڈیا کر رہا ہے۔ اسی لیے خاندانی اور اخلاقی اقدار کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ زندگی کا حسن اس کے توازن میں پوشیدہ ہے۔ اور اگر یہ توازن بگڑ جائے تو سب کچھ بکھر جاتا ہے۔ لہذا والدین کو اپنے اپنے دائرہ عمل میں رہتے ہوئے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے، اس کے لیے چند تجاویز ہیں

 

۱۔ والدین خود کو اخلاق حسنہ کا خو گر بنائیں۔

 

۲۔ والدین کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔

 

۳۔ اگر والدین میں تنازعات ہوں بھی تو ان کو پس پشت ڈال کر بچوں کی بہترین پرورش کی خاطر گھر کے ماحول کو محبت ،الفت ،شفقت ،عزت ، احترام دوستی اور تعاون سے بھرپوربنائیں۔

 

۴۔ بچوں کو نیکی کی ترغیب دیں۔

 

۵۔ بچوں کو وقت دیں، ان کے معاملات میں دلچسپی کا اظہار کریں۔

 

۶۔ بچوں کے ساتھ ایسا رویہ اپنائیں کہ وہ والدین کو اپنا دوست مانیں اور سب سے زیادہ انہیں پر اعتمااد کریں اپنی ہر بات ان کو بتائیں۔

 

۷۔ان کے دوستوں پر نظر رکھیں۔

 

۹۔ بچوں میں مطالعہ کا شوق پیدا کیا جائے اور اخلاقی اقدار پر مبنی سبق آموز کہانیا ں اور مضامین پڑھائے جائیں۔

 

۱۰۔ میڈیا بھی خاندانی نظام میں تربیت کے حوالے سے بہت مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر ٹی۔وی چینلز پر با مقصد پرو گرام دکھائے جائیں۔ اگر میڈیا اپنا درست کردار ادا کرے تو خاندان کیا قوم کی تعمیر کر سکتا ہے، اس لیے میڈیا کو مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔

حوالہ جات

  1. Oxford advanced learners Dictionary, pg.510
  2. الموسوعۃ الفقہیہ، ۴ :۲۲۳
  3. زبیدی،محمد بن عبدالرزاق ( ۱۲۰۵ھ ) ،تاج العروس من جواہر القاموس،دار الہدایہ،۱۴۲۳ھ ، ۱۰ : ۵۱
  4. ابن منظورافریقی، جمال الدین محمد بن مکرم ، لسان العرب، مطبوعہ نشر ادب الحوذۃ، ایران،۱۱ :۴۸۸
  5. ایضاً:۴۸۶
  6. راغب اصفہانی ،ابو القاسم الحسین بن محمد،(۵۰۲ ھ)،المفردات فی غریب القرآن،دارالقلم،الدار الشامیہ،دمشق بیروت،۱۴۱۲ھ ،۱ : ۲۹۷
  7. زبیدی ،تاج العروس من جواہر القاموس، ۲۵ : ۲۵۴
  8. جرجانی ، علی بن محمد ، التعریفات، دارلکتاب العربی، بیروت لبنان ۲۰۰۲ ، ۱ : ۱۰۱
  9. زبیدی ،تاج العروس من جواہر القاموس ، ۲۵ : ۲۵۷
  10. ازدی،محمد بن الحسن بن درید، ( المتوفی: ۳۲۱ ھ ) ، جمہرۃ اللغۃ، دار العلم للملایین، بیروت، الطبع الاولیٰ ۱۹۸۷ ، ۱ : ۶۱۸
  11. بخاری،محمد بن اسماعیل(۲۵۶ھ)،الجامع الصحیح المسند المختصر من امور رسول اللہﷺ وسننہ وایامہ،مکتبہ دار طوق النجاۃ، کتاب الجمعۃ،رقم الحدیث : ۸۹۳
  12. حنبل،احمد بن محمد، (متوفی،۲۴۱ ھ) المسند، رقم الحدیث: ۲۵۸۱۳، مؤسسۃ الرسالۃ، ط اولی ۱۴۲۲ھ۔ ۲۰۰۱
  13. ایضا، ۲۵۲۲۱
  14. القلم، ۶۸ :۴
  15. احمدبن حنبل ،المسند، رقم الحدیث:۲۴۶۷۷
  16. ترمذی،ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ(۲۷۹ھ)،السنن ،کتاب المناقب ، باب فضل ازواج النبی ، رقم الحدیث : ۳۸۹۵ ، دارالغرب الاسلامی،بیروت
  17. عبد الحق دہلوی، مدارج النبوۃ،مترجم (الحاج مفتی غلام معین الدین نعیمی ) شبیر برادرز،اردو بازار لاہور، جولائی ۲۰۰۴ ،۲ : ۴۶
  18. بخاری،الجامع الصحیح ، کتاب الادب ، رقم الحدیث:۶۰۵۴
  19. ایضاً ، رقم الحدیث:۶۰۳۲
  20. ایضاً، رقم الحدیث:۶۰۲۴
  21. الاحزاب،۳۳: ۳۲
  22. احمد بن حنبل,المسند ، رقم الحدیث : ۲۶۲۱۰
  23. ابوداؤد سلیمان بن الاشعث، ( المتوفی : ۲۷۵ ھ ) ،السنن ،کتاب الادب، باب فی الغیبۃ، رقم الحدیث:۴۸۷۵ ، المکتبہ العصریہ، صیدا ، بیرو ت
  24. مدارج النبوۃ،۲ :۵۵۹
  25. مسلم بن حجاج(۲۶۱ھ)، الجامع الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب صلۃ الرحم وتحریم قطعیتھا، رقم الحدیث: ۲۵۵۵
  26. بخاری،الجامع الصحیح ، کتاب الھبۃ وفضلھا والتحریض علیھا ، رقم الحدیث: ۲۵۹۲
  27. ایضاً،کتاب المناقب الانصار،باب تزویج النبی ﷺ خدیجہؓ وفضلھا، رقم الحدیث :۳۸۱۶
  28. ایضاً، باب مناقب قریش، رقم الحدیث:۳۵۰۳
  29. بخاری، محمد بن اسماعیل ( المتوفی ۲۵۶ ) ، الادب المفرد، باب التطاول فی البنیان، رقم الحدیث: ۴۵۱،دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت ، طبع الثالثۃ، ۱۹۸۹، ۱۴۰۹ھ
  30. بخاری,الجامع الصحیح ، کتاب الرقاق ،رقم الحدیث۶۴۵۵
  31. ایضاً ،رقم الحدیث:۶۴۵۸
  32. بخاری ،الجامع الصحیح ، کتاب المظالم والخصم ، باب الغرفۃ، والعلیۃ المشرقۃ، رقم الحدیث ۲۴۶۸
  33. انس بن مالک، امام ( المتوفی،۱۷۹ ) المؤطا ،کتاب الصدقہ، رقم الحدیث: ۳۶۵۵ ، مؤسسۃ زاید بن سلطان آل نھیان الاعمال الخیریۃ والانسانیۃ، ابو ظہبی الامارات، طبع الاولیٰ ۲۰۰۴
  34. بخاری،الجامع الصحیح ، کتاب المناقب، باب المناقب قریش،رقم الحدیث:۳۵۰۵
  35. مسلم,الجامع الصحیح،کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل زینب ام المومنینؓ، رقم الحدیث:۲۴۵۲
  36. محمد ابن سعد،الطبقات ، ۳ :۱۰۱
  37. مستدرک حاکم ،۴:۷،۸
  38. ابو داؤد ،السنن ، کتاب الزکاۃ، باب الشح ، رقم ال حدیث ۱۷۰۰
  39. احمد بن حنبل، المسند،۲ : ۷۹
  40. ایضاً،۳ :۱۲۳
  41. مسلم، الجامع الصحیح ،کتاب الرضاع ،باب جواز ہبتھا نوبتھا لضرتھا، رقم الحدیث :۱۴۶۳
  42. ترمذی،محمد بن عیسیٰ (۲۷۹ھ),السنن،ابواب البر والصلۃ، باب ما جاء فی ادب الولد، رقم الحدیث: ۱۹۵۲ ، دار الغرب الاسلامی ۔بیروت،۱۹۹۸ء
  43. مفتی محمد شفیع، معارف القرآن ، ادارۃ المعارف، کراچی، طبع جدید ۲۰۰۸، جلد سوم، ص ۴۸۴
  44. بخاری، الجامع الصحیح، کتاب النکاح ، باب ذَبِّ الرَّجُلِ عَنِ ابْنَتِهِ فِي الْغَيْرَةِ وَالإِنْصَافِ، رقم الحدیث:۵۲۳۰
  45. ابو داؤد،السنن ، ابواب السلام باب ما جاءفی القیام، رقم الحدیث : ۵۲۱۷
  46. مسلم ،الجامع الصحیح ، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضائل حسن وحسین ؓ، رقم الحدیث :۲۴۲۱
  47. ترمذی ،السنن، ابواب البر والصلۃ ،باب ما جاء فی رحمۃ الولد، رقم الحدیث: ۱۹۱۱
  48. بخاری,الجامع الصحیح ، کتاب الادب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقہ، رقم الحدیث:۵۹۹۴
  49. مسلم ،الجامع الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضائل حسن وحسین ؓ، رقم الحدیث :۲۴۲۱
  50. بخاری ،الجامع الصحیح ،کتاب الصلاۃ،باب اذا حمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقۃ فی الصلاۃ، رقم الحدیث: ۵۱۶
  51. ابو داؤد ،السنن ،کتاب تفریع ابواب الجمعۃ، باب الامام تقطع الخطبہ للامر ،رقم الحدیث:۱۱۰۹
  52. ترمذی,السنن،ابواب الصلاۃ،باب ما جاء متی یؤمر الصبی بالصلاۃ، رقم الحدیث: ۴۰۷
  53. نسائی,السنن ، کتاب قیام اللیل، باب الترغیب فی قیام اللیل، رقم الحدیث : ۱۶۱۲
  54. مسلم,الجامع الصحیح ،کتاب الذکر والدعا والتابۃ والاستغفار، باب ما یقوم عند النوم اخذ المضجع ، رقم الحدیث :۲۷۱۳
  55. بخاری ،الجامع الصحیح، کتاب الھبۃ، باب ھدیۃ ما یکرہ لبسھا، رقم الحدیث: ۲۶۱۳
  56. نسائی،السنن ،کتاب الزینۃ، الکراہیۃ للنساء فی اظھار الحلی والذھب وتطوع النھار ، رقم الحدیث: ۵۱۴۰
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...