Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 1 Issue 1 of Al-ʿILM

خاندانی نظام کا استحکام اور معاشرتی فلاح: تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060040263_516

Pages

42-75

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/87/67

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/87

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

اس کرہ ارض پر ہر دور میں انسان نے معاشرت پسندی کے حوالے سے اجتماعی زندگی بسر کی۔ اس ضمن میں جس معاشرتی ادارے کو بنیادی اہمیت حاصل رہی وہ خاندان ہے۔لغت عربی میں مادہ "عول"کے ذیل میں "عائلۃ" مصدر سے خاندان کا مفہوم واضح کیا گیا ہے مثلا عربی زبان میں سربراہ خاندان کے لئے "عیال الرجل" کی اصطلاح مستعمل ہے ،لسان العرب نے ان الفاط میں بیان کیا ہے:

 

وعیال الرجل وعیلہ الذین یتکفل بھم وقد یکون العیل واحد اوالجمع عالۃ ([1])

 

آدمی کے عیال سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی وہ کفالت کرتا ہے ،عیل واحد ہے اور اس کی جمع عالۃ ہے ۔

 

عال عیالہ یعولھم اذا کفالہ معاشھم ،وقال غیرہ ،اذا قات تھم ،وقیل قام بما یحاجون الیہ من قوت وکسوۃ وغیرھما ([2])

 

"عیال اسے کہا جاتا ہے جس کی معاشی طور پر کفالت کی جائے اور بعض نے کہا ہے کہ جب وہ ان کا خرچ اٹھائے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کھانے پینے اور لباس کے لئے اس کے محتاج ہوتے ہیں "یعنی وہ شخص جو اپنے کنبے کی کفالت کا فریضہ سر انجام دیتا ہے وہ عیال الرجال کی تعریف کے ضمن میں آتا ہے ،جو شخص کھانے اور لباس کی ضروریات کی کفالت کرتا ہو ۔

 

الاسراۃ اقارب الرجل من قبل ابیہ [3]اھلۃ زوجتہ وقالا یعنی صاحبی ابی حنفیۃ کل من فی عیالہ نفقتہ غیر ممالکیہ "لقو لہ تعالیٰ (فنجیناہ واھلہ اجمعین( ([4])

 

ابو جعفر نحاس کے نزدیک خاندان سے مراد آدمی کے وہ رشتہ دار ہیں جو اس کے باپ کی طرف سے اور بیوی کے گھر کے لوگ ہوں اور صاحبین کے نزدیک خاندان سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر وہ خرچ کرتا ہو اور وہ اس کے غلاموں میں سے نہ ہوں وہ اللہ کے اس قول کو دلیل بناتے ہیں "پس ہم نے اسے اور اس کے سب گھر والوں کو بچا لیا ۔

 

قرآن حکیم اور حضورﷺ کی احادیث مبارکہ کی روشنی میں قرآن پاک میں خاندان کا ذکر بار بار آتا ہے:

 

إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ ([5])

 

اور جب یوسف علیہ سلام نے اپنے والد سے کہا اے ابا جان میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں

 

فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ ([6])

 

پس جب وہ اس کے پاس داخل ہوئے تو کہنے لگے اے عزت والے ہمیں اور ہمارے خاندان کو سخت مصیبت پہنچی ہے:

 

وَوَهَبْنَا لَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنَّا وَذِكْرَى لِأُولِي الْأَلْبَابِ ([7])

 

"اور ہم نے اسے اس کے اہل وعیال اور ان کے ساتھ اتنے ہی مزید اپنی خاص رحمت عطا کئے اور یہ عقل رکھنے والوں کے لئے یاد دہانی ہے "خاندان اور اس سے متعلقہ اصطلاحات کی جو تعریفات درج ذیل ہیں وہ بین الاقوامی مقالہ جات اور اقوام متحدہ کے اجلاس کی دستاویزات کے مطابق کچھ یو ں بیان کئے گئے ہیں

 

خاندان ،معاشرے کی ایک فطری اور بنیادی اکائی ہے ، وسیع پیمانے پر ممکنہ تحفظ اور مدد وتعاون کا مستحق ہے۔ ([8])

 

Oxford advanced learners Dictionnery: Family: Group of parents and children, All those who persons decended from common ancestor, group of living things or of language with commonCharacteristics and a common source )[9](

 

بچپن سے لے کر بلوغت کی عمر تک پہنچنے تک بچوں کی پرورش ،نشو نما اور تحفظ، خاندان کی بنیادی ذمہ داری ہے ([10])

 

شخصیت کی بھرپور اور متوازن نشونما کی خاطر ،بچوں کی پرورش ایک ایسے خاندانی ماحول میں ہونی چا ہئے،جہاں اس کے لئے خوشی محبت اور باہمی تعلقات ،افہام وتفہیم موجود ہو ۔([11])

 

خاندانی اقدکے سلسلے میں اپنے آپ سے عہد کرتے ہیں کہ بچوں کی نگہداشت ،دیکھ بھال ،نشونما اور تعلیم کے سلسلے میں خاندان کے کردار کو تسلیم کریں اور اس ضمن میں تہذیبی ،مذہبی اور سماجی پہلو ؤں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے آزادی ،وقار ،اور ذاتی طور پر اپنائے جانے والی اقدار کے علاوہ اخلاقی اور تہذیبی اقدار کو مد نظر رکھیں ۔([12])

 

اسلام دین فطرت ہے اور قرآن وسنت انسانی فطرت میں ودیعت کئے ہوئے عقائد ،افکار ونظریات، اعمال واخلاق اور عادت واطوار کی تفصیل وتشریح ہیں۔

 

وَهُوَ نِكَاحُ مَنْ قَامَ بِهِ الْوَصْفُ الْمُنَافِي لِلْإِيمَانِ، وَهُوَ الْإِشْرَاكُ الْمُوجِبُ لِلتَّنَافُرِ وَالتَّبَاعُدِ. وَالنِّكَاحُ مُوجِبٌ لِلْخِلْطَةِ وَالْمَوَدَّةِ قَالَ تَعَالَى: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ([13]) یعنی نکاح ملاپ اور محبت کا باعث بنتا ہے اور شرک کرنا لڑائی جھگڑے اور دوری کا باعث بنتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت کو رکھ دیا ،چناچہ نکاح کے لئے ایمان کو ضروری شرط قرار دیا گیا ۔

 

خاندا ن کی اہمیت اور اسلامی تعلیمات :

اسلام نے خاندان کی اکائی کی بطریق احسن تشکیل پر زور دیا ہے ،خاندان جو میاں اور بیوی کے عزیز واقارب سے تشکیل پاتا ہے ،یہی بیوی ماں کے مرتبہ جلیلہ پر فائز ہوتی ہے توا ولاد کی جنت قرار پاتی ہے،میاں اور بیوی جب ماں باپ بنتے ہیں تو اولاد کی ہمہ جہت ذمہ داریاں ان کے کندھوں کو جھکا دیتی ہیں جن سے عہدہ برآ ہونے کے لئے خالق نے پہلے سے ان کے لئے ہدایات کاانتظام کر رکھا ہے۔

 

"اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک خاندان اگرچہ ایک مرد اور عورت کے نکاح کے عقد اور بندھن اور ان کے بچوں سے وجود میں آتا ہے لیکن اس میں شوہر کے والدین اور خونی رشتے کے عزیز بھی شامل ہو کر ایک وسیع خاندان کو تشکیل دیتے ہیں۔ پھر اسلامی شریعت کے خصائص میں سے ہے کہ اسلام نسب ونسل کی حفاظت کو شریعت اسلامیہ کے عمومی مقاصد میں سے شمار کرتا ہے"۔ ([14])

 

وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ([15])

 

اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو "

 

انسان کے لئے جوڑے کی تخلیق باعث اطمینان اور وجہ سکون ہے ،اسلام دین فطرت ہے اس نے اس خطہ اراضی پر اس کی ہر فطری ضرورت کا اہتمام کرتے ہوئے اس کوخوبصورت ساتھ عطا کیا تاکہ وہ زندگی کی خوشیوں میں شریک ہو اور پریشانیوں میں معاون بنے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

 

وَمِنْ آياتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْواجاً لِتَسْكُنُوا إِلَيْها وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ([16])

 

اللہ کی قدرت کی نشانیوںمیں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری جنس میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون واطمینان پاؤ اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان محبت اور نرم دلی کو قائم کردیا اور اس میں یقینا غوروفکر سے کام لینے والوں کے لئے (قدرت کی نشانیاں ہیں )۔

 

اسلام نے اس مودت اوررحمت کو بہت ہی خوبصورت انداز میں قرآن میں بیان فرما دیا :

 

هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ ([17])

 

وہ عورتیں تمہارے لئے اور تم ان کے لئے لباس ہو ۔

 

اس آیت میں زوجین کو لباس کہا گیا ہے لباس وہ چیز ہے جو انسان کے جسم سے متصل رہتی ہے اور اس کی پردہ پوشی کرتی ہے اور اس کو خارجی فضا کے مضر اثرات سے بچاتی ہے ،یہ تعلق نفسیاتی تسکین اور اخلاقی تحفظ اور انسانی داعیات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ نسل انسانی کے تحفظ اور بقا کا باعث بنتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ([18])

 

"اے لوگو پروردگار سے جس نے تمھیں نفس واحدہ سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنا دیا اور ان میں دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دیئے ،اس اللہ سے تقویٰ اختیار کرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ اور قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پر ہیز کرو یقین جانو اللہ تم پر نگرا نی کر رہا"

 

جامع بیان القرآن میں اس آیت کی یوں تفسیرکی گئی ہے :

 

ومنبِّهَهم بذلك على أن جميعهم بنو رجل واحد وأم واحدة،وأن بعضهم من بعض، وأن حق بعضهم على بعض واجبٌ وجوبَ حق الأخ على أخيه، لاجتماعهم في النسب إلى أب واحد وأم واحدة، وأن الذي يلزمهم من رعاية بعضهم حق بعض، وإن بَعُدَ التلاقي في النسب إلى الأب الجامع بينهم، مثل الذي يلزمهم من ذلك في النسب ([19])

 

یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سب کے سب لوگ ایک مرد اور عورت (آدم وحوا) کی اولاد ہیں اور ان کے ایک دوسرے پر حقوق واجب ہیں چناچہ بھائی کا اپنے بھائی پر حق واجب ہے ،اور بے شک یہ سب نسب میں ایک باپ اور ایک ماں کی طرف منسوب ہیں چناچہ نسب کی وجہ سے ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت رکھنا لازم قرار دیا گیا ہے -

 

اسلام میں بقا ء نسل انسانی کے لئے شادی کا حکم دیا اور اس کی حفاظت کے لئےحسب اور نسب کواختلاط سے محفوظ رکھنے کے لئے زنا کو حرام قرار دیا فرمایا:

 

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا [20]

 

"اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کررو اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں نکاح کردیا کرو ،اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا اور اللہ تعالیٰ بہت وسعت والا اور جاننے والا ہے ۔"

 

اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ تمام انسانوں کی اصل ایک ہے انھیں مل جل کر رہنا ہے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے :

 

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِير ([21])

 

لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو ،درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سے عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے ۔

 

اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کی بقا اور افزائش نسل کے لئےجانداروں کے جوڑے تخلیق کئے

 

فَاطِرُ السَّمَٰوَاتِ وَالْأَرْضِ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ([22])

 

اس نے تمہاری اپنی جنس سے تمھارے لئے جوڑے پیدا کئے ،اور اسی طرح جانوروں میں بھی (انھی کے ہم جنس) جوڑے بنائے ،اور اس طرح سے تمھاری نسلیں پھیلاتا ہے

 

نبیﷺ نے ارشاو فرمایا :

 

یا معاشر قریش ان اللہ قد اذھب عنکم نخواۃ الجا ھلیۃ وتعظیمھا بالاباء ،الناس من آدم وآد م من تراب ([23])

 

اے گرو قریش اللہ نے تم سے جاہلیت کے غرور اور س پر فخر کرنے کو دور کردیا ہے، لوگ آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے تھے ۔

 

خاندان کے استحکام کی بنیادیں :

میاں بیوی کے حقوق کا تعین ،ماں باپ اور اولاد کے مابین تعلقات بنتے ہیں،رشتہ داروں کے حقوق گھروں کے اردگرد پڑوسیو ں کے حقوق خاندان کی بنیاد مرد اور عورت رکھتے ہیں ان میں مرد کو قوامیت کے عہدے پر فائز کیا گیا بیوی کو داخلی اور خارجی تحفط دے دیا گیا، قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے

 

وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا ([24])

 

"اور اگر تمھیں ان میں نااتفاقی کا ڈر ہو تو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک ثالث عورت کے خاندان سے مقرر کردو اگر وہ دونوں صلح کرنا چاہیں تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرمادیں گے ۔

 

خاندان کی اکائی تنہا معاشرے میں مثبت کردار ادا نہیں کر سکتی ، خالق رب کریم نے اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ میل جول ،حسن سلوک اور ادائیگی حقوق پر ہدایات دینے کے ساتھ ساتھ ،غیر رشتہ دار ہمسایوں اور محلہ داروں کے حقوق کی بھی ہدایات سے نوازا ہے ۔ قرآن کریم اور سیرت النبی ﷺ میں خاندان کے ادارے کے استحکام کے لئے حقوق وفرائض کا تعین،میراث کے قانون کا نظام اور ترغیبات دی گئی ہیں ۔

 

خطبہ نکاح (مستحکم خاندان کی ابتداء)

خاندان کی بنیاد ایک گھر ہے اور ایک گھر کی بنیاد نکاح کے بندھن پر رکھی جاتی ہے ،اس مسنونہ خطبہ نکاح میں قرآن مجید کی تین آیات کا انتخاب خود نبیﷺنے فرمایا ان آیات میں پورے خاندان کے استحکام اور مضبوطی کی بنیادیں فراہم کرتی ہیں ،ان آیات میں کون سا پیغام ہے ؟ اس کو جاننا ضروری ہے

 

 

خطبہ نکاح کی پہلی آیت :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ([25])

 

اے لوگو :اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اسی کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بہت سارے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم باہم دگر طالب مدد ہوتے ہو اور ڈرو قطع رحمی سے بے شک اللہ تعالیٰ نگرانی کررہا ہے ۔

 

اس بزم حیات میں انسانوں کی آمد کا ایک ذریعہ مرد ہے تو دوسرا ذریعہ عورت ہے اس لئے عورت کو کمتر سمجھ کر اس کے حقوق کو پامال نہ کیا جائے ۔رحم کا رشتہ انتہائی اہم اور مقدس رشتہ ہے اس کی اہمیت اور تقدس کا پاس ولحاظ ہمیشہ رہنا چاہئے ۔

 

خطبہ نکاح کی دوسری آیت :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ([26])

 

اے ایمان والو :اللہ سے ڈرو ،جیسا کہ اس سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم اسلام پر رہو ۔

 

اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو :آگے کے مراحل میں تمہارے لئے بڑے بڑے امتحانات ہیں (نئی زندگی کی ذمہ داریاں ،بیوی ،اولاد ،والدین کی ذمہ داریاںاور دیگر معاشرتی ذمہ داریاں ،ان تمام امتحانات سے خیر وخوبی کے ساتھ گذرنا اور زندگی کی آخری سانس تک تمام نشیب وفراز کے ساتھ پار کرنا ہے ورنہ یاد رکھو کہ اللہ کی گرفت سے تمھیں کوئی نہیں بچا سکتا ۔

 

خطبہ نکاح کی تیسری آیت :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا © يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ([27])

 

اے ایمان والو :اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو تو اللہ تمہارے اعمال سدھارے گا اور تمھارے گناہوں کو بخشے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہیں گے تو انہوں نے بڑی کامیابی حاصل کی ۔

 

اس آیت میں خصوصیت کے ساتھ زبان کی حفاظت کی تلقین کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اجتماعی زندگی کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں ،ان کی تکمیل لازم ہے نرم گفتار ی اور خوش کلامی مہر ومحبت کو پروان چڑ ھاتی ہے ،دلوں میں ہمدردی پیدا ہوتی ہے ،لغزشوں سے صرف نظر کی راہ سجھاتی ہے ما حول میں شرینی گھولتی ہے، درج بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک نئے خاندان کی بنیاد ڈالنے کے لئے پہلے ہی ہدایات ذہن نشین کروا دیں

 

نسل انسانی کی بقا:نسل انسانی کی بقاکی ذمہ داری اسلام نے انسان پر عائد کی ہے اپنے اپنےکردار ادا کرنےکے لئے مردوعورت اور بچےتمام ا س ضمن میں اہم کردارکے حامل ہیں۔

 

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ([28])

 

اے لوگو پروردگار سے جس نے تمھیں نفس واحدہ سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنا دیا اور ان میں دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دیئے ،اس اللہ سے تقویٰ اختیار کرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ اور قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پر ہیز کرو ،یقین جانو اللہ تم پر نگرا نی کر رہا ہے۔

 

عفت وعصمت کی حفاظت:جنسی لحاظ سے مرد اور عورت کا ایک دوسرے کی طرف مائل ہونا فطری عمل ہے ،اسلام ان ناجائز تعلقات کا مخالف ہے ،شادی کے ذریعے سے آپ ان تعلقات کو جائز طور پر نبھا سکتے ہیں اور اس کے ذریعے سے زندگی میں توازن بھی قائم رکھا جا سکتا ہے قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ؛

 

وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ([29])

 

"اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئی ہیں اس طرح تم اپنے مالوں کے ذریعے ان سے نکاح کرو بشرطیکہ (نکاح)سے مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ کہ شہوت رانی ۔"

 

صلہ رحمی : "وصل رحمہ ای احسن الیٰ الاقربین الیہ من النسب" ([30])"صلہ رحمی سے مراد ان رشتوں داروں سے اچھا سلوک کرنا ہے جو جب کی وجہ سے قریب ہیں "صلہ رحمی کے معنی ہیں رشتوں کو جوڑنا ،

 

امام بقاعی کے بقول صلہ رحمی کا جو عظیم مقام اللہ کے نزدیک ہے اس وجہ سے اس نے اس کو اپنے نام کے ساتھ جوڑ دیا ہے ۔ ([31])

 

"قرآن میں صلہ رحمی کی تاکید کی گئی ہے اور قطع رحمی پر شدید انکار کی وجہ سے ملت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلہ رحمی واجب ہے اور قطع رحمی ہر صورت میں حرام قرار دی گئی ہے ۔"[32]

 

ذوالارحام کے اور صلہ رحمی کے مختلف درجات ہیں ،ان میں سب سے اعلیٰ مقام والدین کا ہے،والدین کے بعد صلہ رحمی میں حسب قرابت دوسرے رشتہ داروں کے مراتب ہیں :

 

وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا [33]

 

"اور تیرے رب کا فیصلہ ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آؤ"

 

والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید تمام انسانیت کو کی گئی ،والدین کے بعد ذوالقربا ء کا تذکرہ آتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ ([34])

 

"اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا تھا کہ وہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں گے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بھلا سلوک کریں گے اور یتامیٰ ومساکین کے ساتھ "

 

والدین کے بعد حسن سلوک کے مستحق رشتہ دار ہیں ،اگر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک روا رکھا جائے گا تو ہی معاشرہ امن کا گہوارہ اور ایک فلاحی معاشرہ کہلا ئے گا ۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی عطا ہو اور اس کی موت میں تاخیر ہو اور عمر میں اضافہ ہو تو اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے ۔([35])

 

صلہ رحمی پر مبنی اسلامی خاندانی نظام ایک ایسااجتماعی نظام ہے جو مغربی تہذیب کے صلہ رحمی سے خاندانوں کے بہت سے مسائل سے نجات عطا کرتا ہے، معاشرے کو بہت سی خرابیوں سے بچاتا ہے جن میں آج مغربی معاشرہ مبتلا ہے وہاں پر ماں باپ کو بوڑھا ہونے پر اولڈ ہوم میں چھوڑ آتے ہیں جب کے قرآن میں کہا گیا :

 

إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا (23) وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ([36])

 

جب بڑ ھاپے تک پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو بلکہ ان کے لئے محبت اور شفقت کے ساتھ جھکے رہو ،اور ان کے لئے دعا گو رہو اے اللہ ان پر اس طرح رحم فرماجس طرح انہوں نے ہم پر بچپن میں رحم کیا ۔

 

" اسلامی معاشرے میں ایک مثالی خاندان کی تصویر، اس میں ماں باپ کی عزت اور وقار ایسا ہی ہونا چاہئے اس کے بعد باقی رشتوں کے ساتھ حسن سلوک کی باری آتی ہے ۔" ([37])

 

آپ ﷺ نے والدین کی خدمت کی با ر بار تاکید کی اور اس سے روگردانی کرنے والے کے لئے سزا کی وعید بھی بتائی :

 

آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کی ناک خاک آلودہ ہو جو بوڑھے ماں باپ سے جنت حاصل نہ کرسکے ان کی (خدمت کرکے )" ([38])

اخلاقی اقدار کی ترویج :

نیک تمنا ؤں اور دعاؤں کے طفیل میں جو اولاد وجود میں آئے گی وہ لازما ًخاندانی اور معاشرتی اقدار کو استحکام بخشے گی قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے :

 

وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ([39])

 

"جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ اے اللہ ،ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا "

 

ظاہر ہے ایسی نیک تمنا ؤں اور دعاؤں کے طفیل میں جو اولاد وجود میں آئے گی وہ لازما ًخاندانی اور معاشرتی اقدار کو استحکام بخشے گی ،صالحیت کی تمنا کرنے والے والدین کو اسی نہج پر تربیت کرنے کے لئے مکلف کیا گیا ۔

 

مقصد ہے کہ اولاد کو نیک وسعادت مند بنانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اس کی نیکی وسعادت مندی کی دعا بھی مانگتے رہنا چاہئے تاکہ ظاہر وباطن کا حسن صورت وسیرت کی خوبیان ان میں پیدا ہوں ۔ ([40])

 

جو خاندان اور معاشرہ کو صحیح خطوط پر آگے بڑھا سکے یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا :

 

"والدین اپنی اولاد کو حسن اخلاق سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں دے سکتے ۔([41])

 

بچوں کی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ،ان کے طبعی رحجانات کو صحیح رخ پر ڈالنا اور انہیں ذہنی، جسمانی ،عملی اور اخلاقی اعتبار سے بتدریج اس لائق بنانا کہ وہ اللہ کے شکر گذار بندے بن کر رہیں ،کائنات میں اس کے مطابق تصرف کریں ،نیز انفرادی عائلی اور اجتماعی حیثیت سے جو ان پر ذمہ داریاں ان کے خالق ومالک کی طرف سے عائد ہوتی ہیں ان سے کما حقہ عہدہ برآ ہوسکیں۔ ([42])

 

خاندان –افرادی قوت کا تسلسل:

اسلامی معاشرے میں اصل قیمت اس مقصد اور نصب العین کی ہے جس کے لئے خاندان کی یہ بنیادی اکائی استوار ہوتی ہے اور اس کے ساتھ نوع انسانی کے تسلسل کی خصوصیت پروان چڑھتی ہے۔ یہ وہ بنیادی ذمہ داری اور فریضہ ہے جو خاندان کا ادارہ صدیوں سے سر انجام دے رہا ہے ،اسلامی معاشرہ میں اس وظیفہ حیات کی تکمیل کو شرم وحیاء پاکیزگی اور تقدیس کی فضا میں پروان چڑھایا گیا۔

 

سماجی اور معاشی تحفظ اورامداد باہمی کا سب سے اہم ذریعہ:

اسلام کی خصوصیت ہے کہ اس نے افراد خاندان کے درمیان ایک دوسرے کے حوالے سے اور افراد حکومت کے درمیان نان ونفقہ کی ذمہ داری کا ایک ٹھوس نظام رکھا ہے :

 

اسلام میں نظام امدا باہمی کے ایک اہم حصے کی حیثیت رکھتا ہے اور دونوں مل کر غریب وناتوں اور معذور لوگوں کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ ([43])

 

معاشرتی اقداراور خاندان کا ارتقاء:

شادی کے ذریعے سے مختلف خاندانوں اور قبیلوں کے درمیان آپس میں تعلقات استوار ہوتے ہیں کیونکہ(دو خاندانوں یا قبیلوں) کے درمیان ہونے والی شادی آپس میں دوستی کو فروغ دیتی ہے ۔

 

جذ بہ ایثار اور قربانی کو پروان چڑھانا

یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ شادی ذمہ داری کا احساس پیدا کرتی ہے ،اور زندگی کو مزید بہتر بنانے کے لئے کوشش کرنے کا حوصلہ دیتی ہے اس سے انسان کے اندراپنے بیوی بچوں ،والدین اور دوسرے لوگوں کے لئے ایثار وقربانی کا جذبہ پروان چڑھتا ہے ۔

 

خاندانی نظام اور اسوہ حسنہﷺ:

سماجی زندگی دوسرے انسانوں کے ساتھ سلوک ،برتاؤاور رویہ سے تشکیل پاتی ہے لوگوں سے خوشگواری اور خندہ پیشانی سے ملنا مسکرا کر ملنا ان سے شیریں کلام کرنا مہذب زندگی کی علامت ہے ،رسولﷺ کی عوامی اور سماجی زندگی کا یہ خوشنما اصول ہے جسے آپ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے

 

خیر کم خیر کم لاھلیٰ ،وانا خیر کم لاھلی ([44])

 

تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لئے بہتر ہو اور میں تم لوگوں میں سب سے زیادہ اپنے اہل خانہ کے لئے بہترہوں ۔"

 

اللہ تبارک تعا لیٰ نے بنیﷺ کو انسانوں کے لئے کامل رہنماء بنا کر بھیجا اور انسانوں پر پر ان کی راہنمائی اور اتباع کو لازم قرار دیا

 

لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ ([45])

 

بے شک تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ میں ایک بہترین نمونہ ہے اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کو یاد کرے۔

 

النکاح من سنتی فمن لم یعمل بسنتی فلیس منی ([46])

 

"کہ نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت پر عمل نہ کیا وہ مجھ میں سے نہیں "

 

واذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الدین فلیتق اللہ فی ما بقی ([47])

 

"جب بندہ شادی کر لیتا ہے تو اپنے دین کی تکمیل کر لیتا ہے لہذا اسے چاہیے کہ اپنے آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے ۔"

 

یا معاشر الشباب من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج فاءنہ اغض للبصر واحصن للفرج ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فا نہ لہ وجاء ([48])

 

"اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جو شادی کی استطاعت رکھتا ہو تو وہ ضروری شادی کرے شادی نظر کو خوب جھکانے والی اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والی ہے اور جو شادی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے تو یہ روزے اس کی شہوت کو ختم کردیں گے ۔"

 

آپ ﷺ نے خاندان کے اندر عورتوں کو معزز مقام دیا تاکہ خاندان کی بنیادی اکائی کی معاشرتی حیثیت کو بلند کیا جائے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ :خدا نے تم پر ماؤں کی نافرمانی اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا حرام قراردیا ہے (بچیوں کو زندہ دفن کرنا )۔ ([49])

 

حدیث انس بن مالک ،حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ سفر میں تھے اورآپ کے ساتھ ایک حبشی غلام تھا انجثہ کہا جاتا تھا یہ غلام حدی گا کر اونٹوں کو تیز ہانک رہا ہے آپ ﷺ نے فرمایا :تیری خرابی اے انجثہ ذرا آہستہ چل آبگینوں کا خیال رکھ "([50]) حدیث ابو ھریرہ قال :جاء رجل الیٰ رسول اللہ ﷺ فقال یا رسول اللہ من احق بحسن صحابتی ،قال امک،قال ثم من ،قال ،امک،قال ثم من ،قال امک ،قال ثم من ،قال ثم ابوک" ([51])

 

"حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبیﷺ کی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ،میرے حسن سلو ک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا تیری ماں ،،اس نے کہا اس کے بعد کون آپ ﷺ نے فرمایا تیری ماں ،اس نے پھر دریافت ،اس کے بعد کون آپ ﷺ نے فرمایا تمھاری والدہ ،اس نے پھردریافت کیا ،اس کے بعد کون زیادہ حقدار ہے ؟آپ نے فرمایا تمھارا والد "رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت دیتے ہوئے آپ ﷺنے صلہ رحمی کی تلقین فرمائی۔

 

حدیث انس بن مالک ،قال :سمعت رسول اللہ ﷺ یقول ،من سرۃ ان یبسط لۃ رزقہ او ینسالۃ فی اثرہ فلیصل رحمہ" ([52])

 

"حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺکو فرماتے سنا ،جو شخص یہ بات پسند کرتا ہے اس کے رزق میں فراخی ووسعت اور اس کی عمر میں برکت ہو تو اس کو چاہئے کہ صلہ رحمی کرے "لا یدخل الجنۃ قاطع"([53]) قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

 

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ بیان فرماتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا نبیﷺ کی خدمت میں ایک اعرابی حاضر ہوا کہنے لگا :آپ لوگ بچوں کو بوسہ دیتے ہیں لیکن ہم بچوں کو نہیں چومتے ،یہ سن کر آپ نے فرمایا ،اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحم اور شفقت چھین لی ہے تو کیا میں پیدا کرنے پر قادر ہوں ؟([54]) نبیﷺ کےاس فرمان کی تصدیق ان کی ازواج مطہرات نے یوں کی کہ آپ فرماتی ہیں :نبیﷺ نے کبھی کسی خادم کو یاخاتون نہ مارا۔([55])

 

آپﷺ نے خاندان کو انتشار سے بچانے کے لئے اور اسے استحکام بخشنے کے لئے باہمی حقوق وفرائض کا ایک سلسلہ قائم کردیا ،جس پر عمل پیرا ہو کر انفرادیت پسندی ،عدم اعتماد،پریشانی اور انتشار جیسے معاشرتی امراض کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ، حضورﷺ کے اسوہ حسنہ میں خاندان کے جملہ عناصر ترکیبی مثلا والدین ،ازواج مطہرات ،اولاد ،اقربا اور غلاموں کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ ([56])

 

نبیﷺ نےصلہ رحمی کے ضمن میں فرمایا :

 

عن ابی ہریرہ ،قال :یا رسول اللہ ان لیٰ قرابۃ ا صلھم ویقطعو نی واحسن الیھم ویسیئون الیی واحلم عمھم ویجھلون علیٰ فقال ﷺ لءن کنت قلت فکا نماتسفھم المل ولا یزال معک من اللہ علیھم مادمت علیٰ ذلک ([57])

 

ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا ،میرے کچھ رشتہ دار ہیں ،میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ قطع رحمی کرتے ہیں ،میں ان سے احسان کرتا ہوں وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں ،میں ان سے بردباری سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت کا معاملہ کرتے ہیں ،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،اگر معاملہ تمہارے کہنے کے مطابق ہے تو جب تک تم ایسا کرتے رہو گے ،تب تک ان کے خلاف اللہ کی طرف سے ایک مددگار تمہارے ساتھ رہے گا ۔

 

آپ کے متعلق آپ کے خادم حضرت انس رضی اللہ فرماتے ہیں کہ "میں نے دس سال آپ کی خدمت کی اور آپ ﷺ جیسا حسن اخلاق کا مالک کسی کو نہیں دیکھا۔ ([58])

 

اسلامی معاشرت میں خاندان کے کردار کا جائزہ :

خاندان کی بنیادی اکائی تنہا بقائے نوع انسانی کی ذمہ داری کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی اہل ہے اور اسلامی تعلیمات کے تناظر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نسلی پاکیزگی اور رشتوں کی حرمت اور تقدس کو اسلام کی عائلی حکمتوں سے زیادہ کسی نے تحفظ نہیں دیا ،یہ تمام حکمتیں دین فطرت کے بنیادی قوانین کی ہم آہنگی کی وجہ سے پروان چڑھنے اور پایہ تکمیل تک پہنچنے میں کامیاب ہوتی ہے ۔

 

قال رسولﷺ من اراداان یلقی اللہ طاھر ا مطاھر فلیتزوج ([59])

 

یہ تمام حکمتیں دین فطرت کے بنیادی قوانین کی ہم آہنگی کی وجہ سے پروان چڑھنے اور پایہ تکمیل تک پہنچنے میں کامیاب ہوتی ہے ۔

 

"اذا آتا کم من ترضون خلقہ ودیتہ فزوجوہ الا تفعلواتکن فتنۃ فی الارض وفساد عریض" ([60])

 

جب تمھارے پاس کوئی رشتہ آئے جس کا دین اور اخلاق تمھیں پسند ہو تو اس سے نکاح کرلو اگر تم ایسانہ کرو گے تو زمین میں فتنہ وفساد پھیل جائے گا ۔

 

ایک اچھےمعاشرتی تمدن کے لئے ایسے افراد ضروری ہیں جن کے اندر احساس ذمہ داری پایا جائے اور یہ نکاح ہی سے پیدا ہوتا ہے خاندان کی اہمیت یہ ہے کہ وہ نوع انسانی کے تسلسل کو قانونی اور اخلاقی تحفظ کی چھاؤں میں پروان چڑھاتا ہے اور اس کے سا تھ تہذیب وتمدن کی صلاح وفلاح اور بقا وابستہ ہوتی ہے۔

 

قال رسولﷺ"تزوجو الولودالودوفانی مکاثر بکم " ([61])

 

"اولاد حاصل کرنے کے لئے نکاح کرو پس میں تمھاری کثرت پر فخر کروں گا "

 

خاندانی نظام کا کردار اورفلاح معاشرہ :

خاندان افراد کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی کو کامیاب کس طرح گزاریں؟

 

"کسی معاشرے کے ادارے جتنے مضبوط ،واضح اور منضبط ہوں گے معاشرہ اتنا مظبوط ہوگا ان کی وجہ سے معاشرے کو استحکام نصیب ہوتا ہے انہی کے سبب معاشرتی نظام کی تکمیل ہوتی ہے یہی وہ ذرائع ہیں جن سے ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے ،ان اداروں کی ساخت فرد ،سازوسامان تنظیم اور عمل پر مشتمل ہوتی ہے۔([62]) ان اداروں کے اپنے اپنے دائرہ کار ہیں جن میں یہ ادارے کام کرتے ہیں ان کے دائرہ کا ر کو یوں متعین کیا گیا ہے :

 

"معاشرتی ہم آہنگی،افراد کا نظم وضبط ،معاشرتی احساس کی بیداری ،مقاصد کی تکمیل ،حقوق وفرائض کا خیال رکھتے ہیں اور یہ تمام انسانی معاشروں کی مشترکہ میراث ہیں" ([63])

 

اسلامی معاشرت میں عمرانیات(معاشرتی علم ) تسلسل کی پر حکمت نشاندہی ،اولاد کی اہمیت اور معنویت میں اضافہ کرتی ہے۔

 

خاندان کامعاشرتی کردار:

 

خاندان کا ادارہ فعال اور مربوط اصول وضوابط کے نظام کے تحت اپنی منصبی عمرانیاتی ذمہ داریوں کو ادا کرتا ،رسول ﷺنے خاندان کی اسی ضرورت واہمیت کی تکمیل میں بیوی اور ما ں کے ا ہم کردار کی نسبت سے فرما یا :

 

"لا تزوجوا النساء لحسنھم فعسیٰ حسنھن ان یردیھن ولا تزوجوھن لا موالھن فعسیٰ اموالھن ان اتطغیھن ولکن تزوجوھن علیٰ الدین " ([64])

 

عورتوں سے ان کی خوبصورتی کی وجہ سے شادی نہ کرو شاید کہ ان کا حسن انہیں خراب کردے ،اور نہ ہی ان کے اموال کی وجہ سے شادی کرو ،شاید ان کے اموال ان کو سرکش بنا دیں ،بلکہ ان کی دینداری کی وجہ سے ان سے شادی کرو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

 

"انما الدنیا متاع ،ولیس من متاع الدنیا شیء "افضل من المرآۃ الصالحۃ "ما استفاد الموءمن بعد تقویٰ اللہ الہ من زوجۃ صالحۃ ،ان امرھا اطاعتہ ،وان نظر الیھا سرتہ ،وان اقسم علیھا ابرتہ ،وان غاب عنھا نصحۃ فی نفسھا ومالہ" ([65])

 

بے شک دنیا متاع ہے اور دنیا کی متاع میں کوئی چیز نیک عورت سے زیادہ افضل نہیں اللہ تعالیٰ کے تقوی ٰ کے بعد جو چیز مومن کو فائدہ دیتی ہے وہ نیک بیوی ہے کہ جب وہ اسے حکم دے اسے بجا لائے جب اس کے طرف نظر کرے تو وہ اسے خوش کردے اور جب اسے قسم دے تو اس کو پورا کرے اس کی غیر موجودگی میں اپنے نفس اور اس کے مال کی حفاظت کرے ۔

 

گویا دینداری کی خصوصیت ہی اس ادارہ کو تمام اچھے برے حالات میں اپنے فرائض کی ادائیگی پر مستعد رکھتی ہے ،جس عمرانیاتی اعتبار سے اجتماعی ماحول پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ مطلوب ،ممکن الحصول ہو جاتا ہے جو اسلامی تعلیمات کا منشاء ہے ،خاندان کااخلاقی کردار بنیادی اکائی کی حیثیت سے اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ نسلی اور خونی رشتوں پر مبنی ادارہ ہے ،جس میں نئی نسل پروان چڑھتی ہے تربیت پاتی ہے

 

خاندان کا اخلاقیاتی کردار:

زوجین کو والدین کی حیثیت سے اولاد کی پرورش ،بیٹیوں اور بیٹوں میں عدم تفریق اور دونوں میں مساوی سلوک کی ذمہ داریاں پایہ تکمیل تک پہنچانے کا پابند بنایا گیا اور اس بات پر خصوصی توجہ دلائی گئی کہ بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ اختیار کیا جائے ،حضور ﷺ کا ارشاد ہے :

 

"من عال جار یتین حتیٰ تبلغا ،جاء یوم القیامۃ نانا وھوا ،وضم اصابعہ " ([66])

 

من کانت لۃ جاریۃ فعلمھا فاحسن الیھا ثم اعتقھا وتزوجھا کان لہ اجران ([67])

 

"من عال ثلاث بنات ،فادبھن وزوجھن واحسن الیھن،فلۃ الجنتہ ([68])

 

من کان لہ ثلاث بینات فصبر علیھن واطعمھن وسقاھن وکساھن من جدتہ، کن لہ حجابا من النار یوم القیامۃ ([69])

 

ان مذکورہ بالا احادیث میں فرمایا گیا "جس شخص کو دو بیٹیوں سے نوازہ گیا اس نے ان کی اچھی پرورش کی ،وہ روز قیامت میرے ساتھ یوں ہوگا آپ ﷺ نے دو انگلیوں کو ملا کر بتایا ،صحابہ نے دریافت فرمایا کہ ایک بیٹی کی جس نے پرورش کی ،تو آپ ﷺنے اس کو بھی کہا اتنا ہی اجر ملے گا ،اور جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی انہیں آداب سکھائے ان کی شادی کی وہ بھی جنت کا حق دار ہے ،ایک جگہ فرمایا کہ جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی اس پر صبر کا مظاہرہ کیا اچھا کھلایا پلایا تو اس کے اور جہنم کے آگ کے درمیاں حجاب قائم کردیا جائے گا"-

 

"ان النبی ﷺ:الا ادلک علیٰ الصدقہ؟ابنتک مردو ۃ الیک ،لیس لھا کاسب غیرک" حضور ﷺ نے بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کے ضمن میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر باپ کے گھر واپس آجائیں تو ان پر خرچ کرنا افضل ترین صدقہ ہے:گویا تربیت اولاد اور خصوصا بیٹیوں کی نگہداشت تعمیر شخصیت وکردار اور ان کی عائلی آباد کاری کواستحقاق جنت کا باعث قرار دیا گیا ۔

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:’’ ایک عورت میرے پاس آئی اور اس کے ہم راہ اس کی دو بیٹیاں تھیں۔ اس نے میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ پایا تو میں نے اسے وہی دے دی۔ پھر اس نے اسے اپنی بیٹیوں میں بانٹ دیا اور اس میں سے خود نہ کھایا، پھر اٹھ کر باہر چلی گئی۔ اس کے بعد نبی ﷺگھر آئے میں نے آپﷺ کو بتایا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’جو کوئی ان بیٹیوں کی آزمایش میں ڈالا گیا اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو وہ اس کے لیے آگ سے مقابلے میں رکاوٹ ثابت ہوں گی۔ ([70])

 

آپﷺ نے باہم بیٹوں میں بھی کسی قسم کا امتیاز قائم نہیں فرمایا۔ اگر کسی نے اپنے ایک لڑکے کو عطیہ دیا اور دوسرے لڑکے یا لڑکوں کو نہ دیا تو آپﷺ نے اسے ظلم قرار دیا:

 

چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے اپنے لڑکوں میں سے کسی ایک کو ایک غلام ہبہ کیا اور چاہا کہ اس پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنائے۔ چنانچہ انھوں نے آپﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ آپﷺ نے دریافت فرمایاکہ کیا تم نے اپنے سب بچوں کو ایک ایک غلام دیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا: نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں سوائے حق کے کسی پر گواہ نہیں بنتا ۔([71])

 

خاندان کا تربیتی کردار

خاندان ایک تربیت گاہ کے طور پر بھی اہم ہے ،اس تناظر میں بچوں میں اسلامی اقدار، وعظ ونصیحت کے ساتھ ساتھ جسمانی اور عقلی تربیت کا بھی گہرا اثر پڑتا ہے ۔

 

اس سلسلہ میں اسوہ حسنہ کا وجود اس پہلوکے نمایاں آ ثار میں سےہے جو بچے کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے اور وہ بچہ اس کی پیروی کرتا ہے اور اس کے طریقہ کا ر پر چلتا ہے ،لہذا اس کے سامنے نمونہ صالح اور اچھا ہو گا تو اس کے باطن میں پوشیدہ صلاحیتیں متحرک اور اجاگر ہو ۔ ([72])

 

والدین کا اہم فریضہ ہے کہ ان کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کریں تاکہ دنیا میں بھی باعزت زندگی گزارسکیں ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ

 

اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے

 

یہ واضح حقیقت ہے کہ خاندان میں نئی نسل کی سیرت وکردار اور شخصیت کی تعمیر وتشکیل ہوتی ہے ان کی قابلیتوں اور صلاحیتوں کو نکھارنے اور پروان چڑھانے میں والدین کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے ،

 

حضورﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے :آپ نے ارشاد فرمایا کوئی باپ اپنے کسی بیٹے کو کوئی عطیہ اچھے ادب سکھانے سے بہتر نہیں دے سکتا ۔([73])

 

اس تناظر میں خاندان معاشرہ کے تہذیبی وثقافتی ورثہ اور اقدار کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے عائلی زندگی معاشرے کا وہ پتھر ہے جس پر تہذیب وتمدن کی عمارت کھڑی ہوتی ہے رسول کریم ﷺ کا امتیازی کردار یہ ہے کہ آپ ﷺ نے امت میں یہ شعور دیا کہ اولاد کی تربیت صرف دنیاوی نقطہ نظر سے نہ کی جائے ،بلکہ یہ خیال بھی مدنظر رہے کہ اس کے ساتھ اخروی جوابدہی وابستہ ہے۔ ([74])

 

حضرت لقمان کی پوری تعلیمی اور تربیتی تقریر ہی قرآن نے نقل کردی ہے اللہ تبارک تعالیٰ کا ارشاد ہے :

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ( [75])

 

چناچہ ادارہ خاندان میں والدین کے کردار کی اس اہمیت کے پیش نظر عمرانیات زندگی میں اس کی معنویت میں اضافہ ہو جاتا ہے اہل خانہ کی دیکھ بھال ،ان کی کفالت ،ان کی ضروریات کے لئے اخراجات ان کے جائز آرام وسکون کے لئے ایثار کا درس خاندان کے ادارے کی عظمت میں اضافہ کا باعث بنتا ہے حضور ﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے

 

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ([76])

 

آیۃ مذکور ہ میں صاحب ایمان مرد اور صاحب ایمان عورتوں کی اس خصوصیت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ وہ تمام اہل ایمان لوگ مل جل کر کام کرتے ہیں اور اس کے اثرات اجتماعی سطح تک پھیل جاتے ہیں جس کے نتیجے میں تہذیب وثقافت کی اعلیٰ اقدار پروان چڑھتی ہیں اور وہ اسا س مضبوط ومستحکم ہوتی ہے ،جو وروحانی تربیت کو فروغ دیتی ہے اور خاندان میں پرورش پانے والی نئی نسل متوازن اور ایک مکمل شخصیت کے طور پر پروان چڑھتی ہے اور نظم وضبط کی عادی ہوتی ہے۔عورت کو چونکہ گھریلو زندگی کی منتظم بنایا گیا ہے لہذا اس کا فرض ہے کہ خوش اسلوبی اور سلیقہ کے ساتھ خاندانی معاملات کو نبھائے

 

آپ ﷺسے اچھی بیوی کی خوبیاں دریافت کی گئیں تو آپ ﷺنے فرمایا :وہ جس کو اس کا شوہر دیکھے تو خوش ہو جائے اور جب حکم دے تو بجا لائے [77]

 

عورت کے گھریلو فرائض کو واضح کیاگیا ہے "یہ فرائض عورت کے لئے مخصوص ہیں کہ وہ کھانے پینے اور لبا س تیار کرنے کی خدمت سر انجام دے ،شوہر کے مال کی حفاظت کرے ،بچوں کی تربیت کرے اور وہ تمام امور جو گھر سے متعلقہ ہوں انہیں بطریق احسن سر انجام دے "۔[78]

 

خاندان کانفسیاتی کردا ر:

 

نبی کریمﷺ نے بچوں کی اخلاقی تربیت کے حوالے سے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی انتہائی اہمیت دی جو بہ ظاہر تو چھوٹی نظر آ تی ہیں مگرمستقبل میں انسانی شخصیت و کردارپر ان کے بہت گہرے اور پائیدار اثرات دیکھنے میں آ تے ہیں۔چناں چہ نبی کریمﷺ بچوں کو سلام کی تلقین فرماتے تھے ۔ روایت میں آ تا ہے کہ: نبی کریمﷺ نے حضرت انسؓ سے فرمایا: ’’اے بیٹے ! جب اپنے گھر میں داخل ہو تو اہل خانہ کو سلام کرو ، یہ تمھارے اور اہل خانہ دونوں کے لیے باعث برکت ہو گا([79])۔بچوں کے لیے تربیت کا یہ اصول بتا یا گیا ہے:’’اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو ، اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر مارو اور ان کے بستر علیحدہ کر دو’’ ([80])

 

خاندان بیرونی اور خارجی دباؤ کے معاملے میں افراد خانہ کے لئے اخلاقی ،نفسیاتی اور عملی پشت پناہی فراہم کر تاہے تا کہ وہ غیر متوازن شخصیت بن کر منفی رویے نہ اختیار کریں ،دین اسلام ایثار وہمدردی کی جن اقدار کو پروان چڑھانے کا حکم دیتا ہے تاکہ انسان معاشرتی اعتبار سے باوقار رویوں کے ساتھ زندہ رہے ،یہ معرفت وآگاہی خاندانی تربیت کے ذریعے ہی فرد کی شخصیت کا حصہ بنتی ہے۔

 

"اسی طرح انسان بھی اس سےمستثنیٰ نہیں قرار دیا گیا ،اسے کچھ صلاحیتیں اور توانائیاں عطا کی گئی ہیں جنہیں استعمال کرنے کی ضرورت ہے ،اس کے اندر بعض جذبات اور میلانات ودیعت کر دئیے گئے ہیں ،جن کی تسکین کا سامان کرنے پر وہ مجبور ہے ۔داعیات اور تقاضے دراصل اس کی بقاء اور ترقی کے ضامن ہیں ،اسلام ایک حیات آفرین دستور العمل ہے ،وہ مقتضیات فطرت سے نبرد آزمائی نہیں سکھاتا بلکہ ان کے لئے صحیح سمت سفر متعین کرتا ہے۔" ([81])

 

خاندان کے استحکام کو زوال کا شکار کرنے والے عناصر :

 

اسلام میں خاندان کے استحکام اور اس کی بقاء کے لئے مکمل ہدایات فراہم کرتا ہے ،لیکن ان تمام ہدایات کے باوجود نظام کیو ں کرغیر مستحکم ہو جاتاہے ؟

 

"زندگی کے اس شعبے میں جس قدر خرابیاں ،نقا ئص اور بد مزگیاں پید ا ہوتی ہیں اس کی وجہ اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ شادی کرنے والا جوڑا اپنے ازدواجی تعلقات ومعاملات میں حضرت محمدﷺ کے پیغام رحمت اور ان کے بتلائے ہوئے نقشوں سے مستغنی اور بے نیاز ہو کر اپنی ماری تاری چلانے لگتا ہے جس کے نتائج دونوں یا ایک کی زندگی کے لئے تباہ کن اور وہ گھروں کی بربادی کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔" ([82])

 

اسلام سے دوری کا ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہوا ہے کہ لوگوں نے اسلام کو محض چند عبادات تک ہی محدود کر لیا ہے باقی معاملات میں اسلام کو یکسر فراموش کر دیا ہے ، دوسرے معاملات کی طرح شادی بیاہ جیسے اہم معاملے میں بھی اسلام کی تفصیلی تعلیمات موجود ہیں جن عمل کا نتیجہ ایک مضبوط خاندان کی صورت میں سامنے آتا ہے اور ان اسلامی تعلیمات سے اعراض کی صور ت میں نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ خاندان کے بکھرنے میں عرصہ نہیں لگتا۔([83])

 

There is an urgent need for education and training not only of girls and women ,but also of fathers and of all men, the worst enemy of the right s of women is not Islam but ignorance and illiteracy, to wich we may add the determining role of traditional prejudice.)[84](

 

منیر احمد خلیلی کے مطابق :جو لوگ دینی وتبلیغی سرگرمیوں سے وابستہ ہوتے ہیں ان کےاپنے اخلاق وکردار اور عقائد کا ہلکا سا رنگ بھی اپنے خاندان پر نظر نہیں آتا وہ تحریکی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں ۔([85])

 

خاندان کی اہمیت اور مقام میں کمی : باہم افراد کا مل جل کر رہنا ،ایک دوسرے کے دکھ درد میں خوشی میں شریک ہونا افراد کو سکون مہیا کرتا ہے ،آج دور جدید میں ماڈرن کہلانے کے چکر میں خاندان کے افراد کی ایک دوسرے سے دوری ،عدم توجہی کے رویے کی وجہ سے اس ادارے کو کمزور کردیا ۔

 

مرد کا حاکمانہ رویہ : ایسے خاندان جہاں پر میاں بیوی ،بچوں اور دیگر رشتوں کے اندر ربط تعلق ہم آہنگی اور خوشگواری کا فقدان ،خانگی فضاء سرگرمی ،جوش باہمی احترام ومحبت اور شفقت وپیار سے خالی ہے

 

"ایسے گھرانے جہاں پر مرد کا آمرانہ رویہ ہے اور وہ اپنی رائے اور اپنے فیصلوں سے اختلاف کو سنگین جرم سمجھتا ہے اور ایسے مجرم کو خواہ وہ اس کی بیوی ہو یا بیٹی سخت سزا کا موجب گردانتا ہے یہ رحجان اسلامی اصولوں کے خلاف ہے ،اسلامی تعلیمات کے منافی اور خاندانی استحکام کو نقصان پہنچانے والا رویہ ہے۔([86])

 

مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ درست اسلامی سوچ نہ ہونے کی بنا پر خاندان متا ثر ہوتے ہیں :

 

The lack of Religious education ,this has led such estranagement of Muslims from the Muslim Marital law that even well-educated Muslims are not aware of the common issues involved in this law.) [87](

 

قوامیت کا ناجائز استعمال : مرد کا بے جا رعب ودبدبہ بھی خاندان کے اندر دراڑیں ڈلنے کا سبب بنتا ہے ۔

 

والٰتی تخافون نشوزھن فعظوھن واھجروھن فی المضاجع واضربوھن فان اطعنکم فلاتبغواعلیھن سبیلاً ([88] )

 

’’وہ عورتیں جن سے تم کو نافرمانی یا بغاوت کا اندیشہ ہو ان کو (پہلے) نصیحت کرو۔ اور(اگر نہ مانیں تو ) ان کو بستروں میں تنہا چھوڑ دو۔ اور اگر (پھر بھی وہ نہ مانیں تو) ان کو ہلکی جسمانی سزا دو۔ پھر اگر وہ تمہاری فرماں برداری کرنے لگیں تو ان پر ظلم کرنے کے راستے مت تلاش کرو‘‘

 

بہت زیادہ سختی اور بے جا مار پیٹ سے منع کیا گیا ہے تاکہ گھریلو معاملات خراب نہ ہوں ۔

 

عورت کے بدلتے ہوئے کردار کی بنا پر خاندانی رشتوں کی شکست وریخت: گھر عورت کے دم سے آباد ہے ،جب عورت نے گھر کی ذمہ داریوں سے فرار کی راہیں تلاش کی ہیں نہ صرف شوہر ،بچے اس کا پورا خاندان ہی تباہ نہیں ہوا بلکہ انسانی رشتے بھی اس کے بھینٹ چڑھ گئے ہیں :

 

The Modren family has been greatly influenced by the increase of Education ,The rise of industrialized society,and modern invention ,Some of the changes in the Family have been for the better ,Other have not, manufacturing, farming, and other industries take most men away from the home to work.)[89](

 

تحریک آزادی نسواں نے عورتوں کو مظلوم قرار دیتے ہوئے خاندان کی ذمہ داریوں سے فرار کی راہ دکھائی ان عوامل کی بنا پر اب بچوں کی پرورش اور تربیت کے ادارے تباہی کی طرف رواں دواں ہیں ،بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ،نئی نسلیں ماں باپ کے بغیر پل رہی ہیں قدیم اجتماعیتوں اور خاندانوں کا نظام ختم ہورہاہے۔([90])

 

عورت کی گھریلو ذمہ داریوں سے لا پرواہی :خاندان کا استحکام عورت کے دم سے ہے کسب معاش کے نام پر جب عورت نے گھر کو چھوڑا تو شوہر ،بچے وہ خود ہی تباہ نہیں ہوئی بلکہ انسانی رشتے بھی اس ملازمت کی بھینٹ چڑ ھ گئے –عورت کو نام نہاد آزادی کے نام پر باہر نکالا گیا سویت یونین کے آخری صدر میخائل گوربا چوف نے ایک کتاب :پروسٹرائیکا "لکھی ہے ،آج یہ کتاب ساری دنیا میں مشہور ہے اور شائع شدہ شکل میں موجود ہے اس کتاب میں گوربا چوف نے عورتوں کے بارے میں (status of Women ) کے نام سے ایک باب قائم کیا ہے اس میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ :

 

"مغرب سوسائٹی میں عورت کو گھر سے نکالا گیا اور اس کو باہرنکالنے کے نتیجے میں بے شک ہم نے کچھ معاشی فوائد حاصل کئے اور پیدا وار میں کچھ اضافہ تو ہو اہے لیکن خاندانی نظام تباہی سے دو چار ہو اہے ۔"([91])

 

زوجین کے انتخاب کا میعار : زوجین میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کے اخلاق وکردار سے متاثر ہوتا ہے اس لئے

 

زوجین کے اتخاب میں دینداری اور تقویٰ کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے نبی ؤﷺ نے حسب نسب ،مال وجمال اور دین میں سے دین کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے۔ ([92])

 

بے جوڑ رشتے اور جھوٹ ودھوکے پر مبنی رشتے خاندانی نظام کے ٹوٹنے کا باعث ہیں ،ڈاکٹر خالدہ ترین نے کہا کہ :

 

اخلاق کردار اور اچھی شہرت کی بجائے دولت میعار بن گیا ہے جس کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے اور گھر ٹوٹنے لگے ہیں ۔([93])

 

بعض لوگ اپنی بیٹیوں کا رشتہ اس طرح کر دیتے ہیں جیسے بھیڑ بکریاں فروخت کی جا رہی ہوں اب بکری لینے والے کی مرضی ہے اسے گھاس کھلائے یا ذبح کردے ،کتنے ہی بے رحم اور ظالم ہوتے ہیں وہ ماں باپ جو اپنی بیٹی کا رشتہ نالائق اور بد فطرت انسان کے ساتھ صرف مالی لالچ اور مفادات کی خاطر کر دیتے ہیں ،پھر بیٹی کو دنیا میں ہی جہنم مل جاتی ہے ۔[94]

 

دیگر اقوام کے ساتھ معاشرت کے اثرات : صدیوں سے ہندؤں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے بھی ہمارا خاندانی نظام اسلام نظام خاندان سے جدا طرز پر تشکیل پا گیا ہے ۔

 

غیر اسلامی تمدن کی وجہ سےمسلمانوں کے خاندانی معاملات میں نہ صرف بہت سے ایسے رسمیات اور واہمیات داخل ہوگئے ہیں جو اسلامی قانون ازدواج کے اصولوں اور اس کی روح کے خلاف ہیں بلکہ سرے سےاسلامی تصور خاندان محو ہو گیا ہے۔ "([95])

 

یکساں ذات پر زور : ایک مناسب رشتے کی تلاش کے وقت لوگ اکثر یکساں ذات کے شخص کو تلاش کرتے ہیں ،نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا تو شادی نہیں ہو پاتی یا ہو جائے تو میاں بیوی باہم غیر موزوں جوڑا ہوتے ہیں اور نتیجہ طلاق کی صور ت میں نکلتا ہے ۔

 

مادہ پرستی : شادی کرتے وقت پیسہ اور مال ودولت کو میعار بنا یا جاتا ہے لڑکے والوں کی طرف سے بھی اور لڑکی والوں کی جانب سے بھی ،دین اور مذہب کو کم ہی ترجیح دی جاتی ہے۔

 

بے جا توقعات: ازدواج کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ  بے جا توقعات ہیں جو کبھی والدین اپنی اولاد سے وابستہ کرلیتے ہیں اور کبھی خود بچے اپنی متوقع بیوی یا شوہر کے بارے میں فرض کرلیتے ہیں اور پھر انہی مفروضات کی بناء پر اپنے بچوں کے لئےیا اپنے لئے شوہر یا بیوی تلاش کرناچاہتے ہیں۔ہمیں اپنی طرف سے مفروضات قائم کرنے کے بجائے دینِ اسلام کے مقرّر کردہ معیارات کو ہی ترجیح دینی چاہیے اور خوابوں کی دنیا میں زندہ رہنے کےبجائے زمینی حقائق اور معاشرتی اقدار کو بھی مدِّ نظر رکھنا چاہیے۔

 

والدین اور سرپرستوں کی عدمِ توجہ: ازدواج کے راستے میں ایک اہم رکاوٹ والدین اور سرپرستوں کی بچّوں کے جنسی بلوغ اور روحانی و جسمانی ضروریات سے چشم پوشی اور عدم توجہ بھی ہے۔ اس چشم پوشی اور عدمِ توجہ کے اسباب چاہے کچھ بھی ہوں اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں،

 

جہاں ہماری زندگیوں کے طور طریقے بدلے ہیں وہاں شادی جیسا مقدس بندھن بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا بدلت حالات میں شادیاں تاخیر سے کرنے کا رواج ہو گیا ہے ([96])

 

غرور وتکبّر:ازدواج نہ ہونے کی ایک وجہ غرور و تکبّر بھی ہے ممکن ہے پورے کا پورا خاندان ہی اس مرض میں مبتلا ہو یا خود لڑکا یالڑکی غرورو تکبّر کی شکار ہو تا ہے اسلام نے برابری اور کفایت کا میعار تقویٰ قرار دیا ہے:

 

فانکحو ماطاب لکم من النساء ([97])

 

معاشی مسائل: ایک اور مسئلہ جسے ازدواج کے سلسلے میں بہت اچھالا جاتاہے وہ معاشی مسئلہ ہے۔حضرت امام صادق کا ارشادِ مبارک ہے کہ غربت اور معاش کے خوف سے ازدواج نہ کرے وہ در حقیقت خدا سے ناامید ہو چکاہے۔ہمیں یہ یاد رہنا چاہیے کہ قرآن مجید نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہااگر کوئی فقیر ہو اور نکاح کرے تو خدا اسے اپنے فضل سے غنی کردے گا۔

 

دنیاوی زرق و برق: بہت سارے خاندان دوسرے خاندانوں کی دیکھادیکھی عقد کے لئے سخت ترین شرائط مقرّر کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ حق مہر اورجہیزتجویز کرتے ہیں۔حالانکہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ میری امت کی بہترین خواتین وہ ہیں کہ جن کی شکل و صورت زیبا اور مہر کم ہو اسی طرح ولیمے کے موقع پر غیر ضروری اخراجات اور غیراسلامی رسومات پر بھی بے دریغ روپیہ پیسہ صرف کیا جاتا ہے۔

 

مغربی میڈیا کی یلغار : مغربی افکار کی ترویج کرنے والے رسائل و جرائد نیز فلموں اور ڈراموں کے ذریعے نوجوانوں کوغیر محسوس انداز میں حرام محبت کی لذت سے آشنا کیا جاتاہے۔نامحرموں کے ساتھ تعلقات کو جدید معاشرے کے لوازمات کے طور پر پیش کیا جاتاہے۔

 

خاندانی نظام سے فرار کے نتائج سے عدمِ آگاہی: شادی شدہ زندگی میں انسان کے بہت سارے نفسیاتی،معاشرتی اور اخلاقی مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔اس سے نہ صرف انسانی زندگی کی مشکلات حل ہوتی ہیں بلکہ انسان کی اجتماعی ومخفی صلا حیتوں کو بھی نکھرنے کا موقع ملتاہے ، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر قرآن و سنّت کی تعلیمات کی روشنی میں نکاح کو عام کیا جائے تو منشیات کا استعمال،گھٹیا ڈائجسٹوں کی اشاعت،والدین کی نافرمانی،ہمسائیوں کی ایذاء رسانی،گندی فلموں کی بھرمار اور جرائم کی شرح میں ناقابلِ یقین حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔

 

پاکستان اور عصری خاندانی نظام کی صورتحال :

قرآن مجید نے والدین کو جن اسباب کی بنا پر یہ اعزاز بخشا ہے وہ اسباب اپنی جگہ پر قائم ودائم ہیں مگر مسلم والدین کی آنکھوں سے زمانہ کی چکا چوند نے انبیائی مشن کو اوجھل کردیا ہے اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں میں بھی اولاد کی تربیت ،تعلیم اور ترجیحات کا پورا نظام بدل گیا ہے ،مسلمان بھی طلب دنیا کی دوڑ میں اپنی اولاد کو آگے رکھنے کے لئے وہی کچھ کررہے ہیں جو باطل نظریات رکھنے والے کررہے ہیں ،خاندانوں کے اندر تربیتی نظام کمزور پڑ گیا ہے ۔

 

نظا م خاندان کو اس کے بیرونی خطرات سے بچانے کے ساتھ اسے اندرونی خطرات درپیش ہیں ان سے بھی بچایا جائے ،ان میں صحیح خطوط پر تربیت ،اسلامی اقدار کی خود شناسی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید ذرائع ابلاغ اور مغربی تہذیب کی یلغار کا دفاع ،مادہ پرستی سے نفرت ،مشترک برہمنی خاندانی نظام سے تحفظ ،جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے بروقت نکاح ،سماجی رسم ورواج کی جکڑ بندیوں سے آزادی اور حقوق وفرائض کی پرسوز تعلیم سے انحراف کی بنا پر خاندان عدم تحفظ کا شکار ہے ۔

 

خاندانی انتشار میں سب سے مہلک کردار ذرائع ابلاغ کا ہے جس کے ہر نشریہ میں چاہے وہ ڈرامہ ہو، فلم ہو یا اشتہار کوئی پروگرام ایسا نہیں ہوتا جو خاندانی اقدار پر تیشہ چلانے والا نہ ہو اس پر مستزاد انٹرنیٹ (سوشل میڈیا) کی تباہ کاریاں ہیں ،ذرائع ابلاغ کے مہلک اثرات کے وجہ سے کورٹ میرج، ناجائز دوستیاں ،طلاق کی شرح میں اضافہ ،خاندانوں کی ٹوٹ پھوٹ کا سامنا ہے ۔

 

خاندانی ادارے کے زوال کا سبب والدین کی سوچ ،فکر اور ترجیحات میں تبدیلی بھی ایک اہم وجہ ہے۔

 

خلاصہ بحث:

اسلام میں خاندان کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور اس میں خاندانی نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے دین اسلام فرد کی فکری تربیت کے حوالے سے اس حقیقت کو متعارف کراتا ہے کہ انسان معاشرت پسندی کے خمیر سے تخلیق کیا گیا۔خاندان معاشرے کا سب سے اہم اور بنیادی یونٹ ہے جو مرد اور عورت کے درمیا ن رشتہ ازدواج سے وجود میں آتا ہے ،معاشرے کی ترقی ونشونما کا انحصار جہاں خاندان پر ہے وہاں معاشرے کی تنزلی وانتشار کا انحصار بھی اسی خاندان پر ہے ،کیونکہ خاندان ہی معاشرے کی اساسی اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اسی سے معاشرے وجود میں آتے ہیں ،جس خاندان کی اکائی مضبوط اور مستحکم ہو گی اسی قدر ہی معاشرہ اور ریاست مضبوط اور مستحکم ہوں گے ،خاندان کی اہمیت کا اندازہ ا س سے لگا یا جا سکتا ہے کہ خاندان کی بقاء اور تحفظ کو شریعت کے بنیادی مقاصد میں شمار کیا گیا ہے ،اور اسلامی تعلیمات کا ایک مکمل شعبہ جو مناکحات یا اسلام کے عائلی نظام سے موسوم ہے ،اس مقصد کے لئے وجود میں لایا گیا - اسلام میں خاندان کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور اس میں خاندانی نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے دین اسلام فرد کی فکری تربیت کے حوالے سے اس حقیقت کو متعارف کراتا ہے کہ انسان معاشرت پسندی کے خمیر سے تخلیق کیا گیا۔خاندان معاشرے کا سب سے اہم اور بنیادی یونٹ ہے جو مرد اور عورت کے درمیا ن رشتہ ازدواج سے وجود میں آتا ہے ، "آپﷺ نے خاندان کو انتشار سے بچانے کے لئے اور اسے استحکام بخشنے کے لئے باہمی حقوق وفرائض کا ایک سلسلہ قائم کردیا ،جس پر عمل پیرا ہو کر انفرادیت پسندی ،عدم اعتماد،پریشانی اور انتشار جیسے معاشرتی امراض کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ،اسلام فرد اور جماعت کے تعلق میں جس توازن واعتدال کا علمبردار ہے اس کا تقاضا ہے کہ خاندان کی حیثیت ایک اجتماعی اکائی کے طور پر قائم رہے تاکہ اجتماعی تربیت کا ابتدائی مرکز وسیع تر اجتماعی شعور اور فلاح کے لئے موئثر کام کرے۔

حوالہ جات

  1. ۔ابن منظور ،جمال الدین اصمعی محمد بن مکرم اابو الفضل ،الافریقی المصری ،لسان العرب ،بذیل مادہ عول ،بیروت دار صار الطبعۃ السادسۃ ، 1997ء، 11/785
  2. ۔ایضا ،حواالہ مذکورہ ،11/486
  3. ۔الزبیدی ،حمد مرتضی ،تاج العروس ،دارالفکر ،بیروت 1994،3/13 ،موسوعۃ الفقیہہ،4/223
  4. ۔الدرر المختار شرح تنویر الابصار فی الفقہ الحنفی مع حاشیہ ابن عابدین ،دارالفکر ،بیروت ، الطبعۃ الثانیہ ،1386ھ، 5/452، الشعراء :26
  5. ۔یوسف 12 :4
  6. ۔یوسف 12 :88
  7. ۔ص،38 :43
  8. ۔Universal Declaration of Human Right Artical16-3
  9. ۔Oxford Advance learner Ditionary,oxford university press,1987,p510
  10. ۔Convenant on the Rights of the child and pre ambel , Universal Declaration of Human Raghts
  11. ۔Universal Declaration of Human Raghts ,Article,25-3
  12. ۔Universal Declaration of Human Right ,Article26-3, , Universal Declaration of Human Raghts ,Article, 25-26
  13. ۔ابو حيان محمد بن يوسف بن علي بن يوسف بن حيان أثير الدين الأندلسي ،البحر المحيط في التفسير البحر المحيط في،دارلفکر البیروت، 1420ھ،ص۱۶
  14. ۔خالد رحمن ،سلیم منصور ،عورت خاندان اور ہمارا معاشرہ ،انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈی ،اسلام آباد ،2007ء ،ص47
  15. ۔البقرہ 2: 35
  16. ۔الروم 30: 21
  17. ۔البقرہ2: 187
  18. ۔النساء4: 1
  19. ۔محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب الآملي، أبو جعفر الطبري (المتوفى: 310ه) جامع البيان في تأويل القرآن - ومؤسسة الرسالة الأولى، 1420 هـ - 2000-ص 480
  20. ۔النساء 4: 3
  21. ۔الحجرات:49۔13
  22. ۔الشوریٰ :42 ،11
  23. ۔ابن ھشام :السیرۃ النبویہ ،4/40۔مطبعہ مصطفیٰ البابی ،مصر ،س ن،ص95
  24. ۔النساء :4 ،34
  25. ۔النساء:4 ،1
  26. ۔آل عمران :3،102
  27. ۔ الاحزاب :33 ،70،71
  28. ۔النساء:4 ،1
  29. ۔النساء:4 ،25
  30. ۔المنجد،،دارالمشرق ،بیروت ،1975ء،ص253
  31. ۔البقاعی ،برہان الدین ابوالحسن ابراہیم بن عمر ،نظم الدررفی تناسب الآیات والسور ،المکتبہ التجاریۃ ،لمصطفیٰ احمد باز ،مکۃالمکرمہ، 1992ء ،5/176
  32. ۔القرطبی ،ابواعبداللہ محمد بن احمد ،الجامع لاحکام القرآن ،داراحیاء التراث العربی ،1985ء،5/2
  33. ۔اسراء: 17 ،23
  34. ۔البقرہ،:2 ،83
  35. ۔الدمیاطی ،المتبحر الرابح،فی چواب العمل الصالح ،مکتبہ النہضہ الحدیثیہ ،مکۃ المکرمہ 1986ء،ص52
  36. ۔الاسراء:17،24
  37. ۔اصلاحی عبدالعظیم،صلہ رحمی اور خاندان کی شیرازہ بندی ،ادارہ علوم القرآن ،علی گڑھ 2010ءص85
  38. ۔مسلم،الجامع الصحیح ،کتاب البر 4/312
  39. ۔الفرقان :25 ،74
  40. ۔شبلی نعمانی ،سیرۃ النبیﷺ،مکتبہ تعمیر انسانیت ،لاہور ،1975ء،ص218
  41. ۔ابن ماجہ ،کتاب ابواب الاداب ،ترمذی ،ابواب البرالصلۃ با ماجاء فی اداب الوالد
  42. ۔افضل حسین ،فن تعلیم وتربیت ،مرکز جماعت اسلامی ہند ،دہلی ،1963ء ص35
  43. ۔احمد العسال ،ڈاکٹر،اسلام کا خاندانی نظام،ی نیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی ،اسلام آباد ،س ن ،ص442
  44. ۔الجامع للترمذی ،ابواب البر والصلہ،باب فضل ازواج النبیﷺ (ح 3895)
  45. ۔الاحزاب 33،21
  46. ۔ابن ماجہ ،ابو عبداللہ بن یزید القزوینی :سنن ابن ماجہ ،دارلافکر ،بیروت ،کتاب النکاح ،باب ما جاء فی فضل النکاح :1846
  47. ۔الھیثمی ، نور الدین علیٰ بن ابی بکر :مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ،تصویر دارلکتاب العربی ،بیروت ،الطبعۃ الثالثہ 1402ھ:2/178
  48. ۔صحیح بخاری ،کتاب النکاح ،باب قول النبی ﷺ من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج لانہ من لم یسطع الباۃ فلیصم :1905
  49. ۔صحیح بخاری کتاب الاداب وکتاب الاداب وکتاب فی الاستقراض وصحیح مسلم باب النبیﷺعن کثرۃ المسائل
  50. ۔اخرجہ البخاری فی کتاب 78،الاداب باب 95 ماجا فی قول الرجل ویلک ،1501
  51. ۔اخرجہ البخاری فی :78،کتاب الاداب 2،باب من احق الناس بحسن اصحبۃ
  52. ۔اخرجہ البخاری فی 34 ،کتاب البیوع 31،باب من احب البسط فی الرزق 1657
  53. ۔المستدرک للحاکم :4//153
  54. ۔اخرجہ البخاری فی کتاب75 الاداب باب 18،رحمۃ الوالد وتقبیلہ ومعانقہ ،1496
  55. ۔السنن لابی داؤد ،کتاب الاداب ،باب فی الحلم والاخاق النبیﷺ،(ح 4774)
  56. ۔خالد علوی ،ڈاکٹر ،انسان کامل ،فیصل ناشران ،لاہور 1995ء،ص515
  57. ۔صحیح بخاری ،کتاب الاداب ،باب لیس الوصل بالمکانی :5991
  58. ۔السنن لابی داؤد ،کتاب الاداب ،باب فی الحلم واخلاق النبیﷺ 4773
  59. ۔البخاری ،محمد بن اسماعیل ،ابو عبداللہ ،الامام ،الجامع الصیحیح ،کتاب المغازی ،باب اذھمت طائفتان ،الریاض :مکتبہ دارالسلام، الطبیعۃ الثانیہ ،1999،رقم الحدیث 4052،ص686
  60. ۔سنن ابن ماجہ ،ابواب النکاح ،باب الاکفاء ،رقم الحدیث ،1968،ص281
  61. ۔النسائی ،ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب ،اللامام ،سنن نسائی الصغریٰ ،کتاب النکاح ،باب کراھیۃ تزویج العقیم الریاض ،مکتبہ دارلسلام ،الطبعۃ الاولیٰ 1999ء،رقم الحدیث3224،6/165سنن ابن ماجہ ،ابواب النکاح ،باب ما جا فی فضل
  62. ۔خالد علوی ،ڈاکٹر ،اسلام کا معاشرتی نظام ،الفیصل ناشران لاہور،2005ء،ص68
  63. ۔اسلام کا معاشرتی نظام ،ص78
  64. ۔سنن ابن ماجہ ،ابواب النکاح ،باب التزویج زات الدین ،رقم الحدیث،ص266،1859
  65. ۔سنن ابن ماجہ،ابواب النکاح ،باب افضل النساء ،رقم الحدیث ،1855-1857،ص266
  66. ۔المسلم ،ابوالحسن ،مسلم بن الحجاج القشیری ،صحیح مسلم ،کتاب البرو اصلۃ ،باب فضل الاحسان ،الریاض مکتبہ دارالسلام ،الطیعۃ الثانی 2000ء،رقم الحدیث 6695،1136
  67. ۔البخاری ،الجامع الصحیح ،کتاب العتق باب فضل من ادب ،رقم الحدیث ،2544،2/140
  68. ۔ابو داؤد ،سلیمان بن الا شعت بن اسحاق ،سنن ابی داؤد ،کتاب الادب ،باب فی فضل من عال ،الریاض ،مکتبہ دارالسلام ،اطبعۃ الاولیٰ ،1999ء رقم الحدیث ،5146ء ،5147،3/342
  69. ۔سنن ابن ماجہ ،کتاب الادب ،باب بر الوالدہ،رقم الحدیث ،3669،ص526
  70. ۔بخاری، حدیث ۵۹۹۵،صحیح مسلم کتاب البر وصلۃ باب فضل الاحسان الیٰ البنات
  71. ۔ابوداؤد، حدیث ۳۵۴۲
  72. ۔جمعہ احمد خلیل ،اولاد کی تربیت قرآن وسنت کی روشنی میں ،لاہور ،بیت العلوم ،2003ء،ص130
  73. ۔ترمذی /ج3،ص383،شعب الایمان /ج2،ص256
  74. ۔تقی عثمانی ،خاندانی حقو ق وفرائض ،ادارہ تالیفات اشرفیہ ،ملتان ،1427ھ ،ص 106
  75. ۔التحریم :66 ،6
  76. ۔التوبہ:9 ،71
  77. ۔ترمذی /ج2،ص357 ،رقم 1144،ابن ماجہ /رقم1969(133)نسائی
  78. ۔شاہ ولی اللہ،حجۃاللہ البالغۃ،مرجم مولانا عبدالرحیم ،الفیصل ناشران ،لاہور 2003ءص50/4
  79. ۔ترمذی، حدیث ۲۷۰۷
  80. ۔ابوداؤد، حدیث ۴۹۵
  81. ۔جلال الدین عمری ،سید ،اسلام کا عائلی نظام ،الفیصل ناشران کتب ،س ن ،ص54،55
  82. ۔محمد عمر ،مسلمان خاوند اور مسلمان بیوی ،معارف اسلامیہ ،لاہور ،س ن، ص6
  83. ۔شادیاں کیوں ناکام ہوتی ہیں ؟ماہنامہ بنات عائشہ کراچی ،نومبر دسمبر ،2008ء،ص137
  84. ۔Islam, The west and the challenges of Modernity ,p54
  85. ۔خلیلی منیر احمد ،عصر حاضر کی اسلامی تحریکیں ،حسن البناء اکیڈمی راولپنڈی ،2004 ،ص245
  86. ۔عصر حاضر کی اسلامی تحریکیں ،ص425
  87. ۔The Laws of Marriage and divorce in islam, P:1
  88. ۔النساء :4،34
  89. ۔The world book encyclopedia Field Enterprises Educational Corporation Chicago ،19876/2،47
  90. ۔ماہنامہ ا فکار معلم ،تنظیم منزل ،لاہورجولائی ،2007،ص18
  91. ۔بحوالہ ماہنامہ محدث ،جے بلاک ماڈل ٹاؤن ،لاہور،نومبر 2004،ص54
  92. ۔ابو داؤد ،کتاب النکاح ،باب مایو مر بہ من تزویج ذات الدین ،'(ح47،2)
  93. ۔روزنامہ جھنگ ،لاہور 13 اگست ،2001ء
  94. ۔ابو یاسر ،شیخ ،ہماری شادیاں ناکام کیوں ہوتی ہیں ،نعمانی کتب خانہ لاہور،2006ءص13
  95. ۔ابوالاعلیٰ مودودی ، حقوق زوجین ،اسلامک پبلیکیشنز ،لاہور، 1986،ص13
  96. ۔تاخیر سے شادی فیشن یا مجبوری ،جنگ سنڈے میگزین ،11مئی 2008ء
  97. ۔النساء ،2:3

     

     

    ¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...