Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 2 Issue 1 of Al-ʿILM

سماجی روابط کی ویب سائٹس اور اسلامی تعلیمات |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060040263_855

Pages

82-98

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/70/60

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/70

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

سماجی رابطے کی ویب سائٹ سے مراد ایسی ویب سائٹ ہے جو افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے اور معلومات ، تصاویر اور ویڈیوز وغیرہ کا اشتراک کرنے میں مدد دیتی ہیں۔[1] یہ سائٹس انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے، رابطہ قائم کرنے، معلومات کا تبادلہ کرنے کیلئے وجود میں آئی ہیں۔اسلام دین فطرت ہے اس نے انسانوں کے اجتماعی شعور کو مد نظر رکھا ہے۔ اسلام تمام انسانوں کے آپس کے تعلقات، ملاقات اور رابطوں سے جنم لینے والی اجتماعیت کو نا صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کو فروغ دینے اور اس کی نشوونماکرنے والے عوامل کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے اور ایسے اصول و ضوابط دیتا ہے جن سے اجتماعیت اور گروہی زندگی کو تقویت ملے۔نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

صلاۃ الجماعۃ تفضل صلاۃ الفذ السبع و عشرین درجۃ[2]

 

"جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا ثواب انفرادی نماز سے 27گنا زیادہ ہے۔"

 

ایسا حکم اسی لیے دیا گیا کہ لوگ ایک دوسرے سے ملیں ان کے درمیان بات چیت ہو خیالات کا تبادلہ ہو۔ ایک دوسرے کےحالات سےآگاہی ہو۔ اخوت اور ہمدردی کا جذبہ پروان چڑھے۔ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشی غمی میں شریک ہو کر ایک صحت مند اور خوشحال معاشرے کی تعمیر ممکن ہوتی ہے

 

آج دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے۔ انسان ایک جگہ بیٹھ کر پوری دنیا میں موجود کہیں پر بھی دوسرے فرد کے ساتھ بذریعہ انٹرنیٹ رابطہ کر سکتا ہے۔ بات چیت کر سکتا ہے، اپنا حال دوسرے تک پہنچا سکتا ہے اور دوسرے فرد کا حال معلوم کر سکتا ہے۔ فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں۔عام طور پر کوئی پیغام 200,100,5,2، افرادیا ایک مجمع تک پہنچا یا جاسکتاہے مگر ان ویب سائٹس پر وہی پیغام پوسٹ کرکے پوری دنیا میں موجود لاکھوں کروڑوں لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ پاکستان سے یورپی ممالک میں اسلام کا پیغام پہنچانے کا ایک بڑا ذریعہ یہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس ہیں۔ اچھائی اور خیر کو فروغ دیا جا سکتا ہے تو دوسری طرف ان ویب سائٹس پراسلامی تعلیمات کی غلط ترجمانی کر کے لوگوں کو گمراہی کے راستے پر چلا سکتے ہیں، جرائم پیشہ افراد کے ساتھ تعلقات بنا کر معاشرے کے اندر بد امنی اور انتشار پیدا کیا جا سکتا ہے۔سماجی روابط کی ویب سائٹس کا اسلامی تعلیمات کے تناظر میں مختلف پہلوؤں کے تحت جائزہ لیا جاتا ہے:

 

(1)۔ جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی جیسے رزائل اخلاق کا باعث

جھوٹ فریب اور دھوکہ دہی ایسی اخلاقی برائیاں ہیں جو ہر مذہب و ملت کے ضابطہ اخلاق میں قابل مذمت ہیں۔اسلام نے اپنےماننے والوں کو سختی سے ان سے منع کیا ہے۔

 

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ[3]

 

"تو بتو ں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو"

 

لیکن سماجی میڈیا پر ایسی برائیاں اپنے عروج پر ہیں۔سوشل میڈیا پر فرضی ناموں کی بڑی کثرت ہے بہت سے لڑکےخود کو لڑکیوں کے نام سے موسوم کر کے دوسروں کو بے وقوف بنانے کا کام کرتے ہیں۔ اور تعارف کرواتے وقت بھی خلاف حقیقت نام و جنس کا اظہار کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے:

 

اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللہ ِج وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْکٰذِبُوْنَ[4]

 

"جھوٹ افتراء تو وہی لوگ کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اور وہی جھوٹے ہیں"

 

یعنی جھوٹ بولنا اور افتراء کرنا بے ایمانوں کا ہی کام ہے۔"اس آیت سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے بد ترین گناہ ہے۔"[5] حقیقت یہ ہے کہ یہ طریقہ دھوکہ اور جھوٹ پر مشتمل ہے۔"اس ضمن میں ایک تحقیقاتی سروے کیا گیا جو کہ والدین، اساتذہ اور طلبہ و طالبات پر مشتمل تھا 50، 50 لوگوں سے سوال کئے گئے جن میں٪ 84والدین،٪94اساتذہ اور٪ 86طالب علموں کا کہنا تھا سماجی روابط کی ویب سائٹس فراڈ اور دھوکہ دینے کا باعث ہیں، جبکہ٪ 16والدین،٪ 4اساتذہ اور٪ 12طالبعلموں کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔"

 

اسلام میں جھوٹ بولنا بھی حرام ہے اور دھوکہ دینا بھی۔ اس لیے اس طرح فرضی ناموں سے خود کو موسوم کر کے دوسروں کو دھوکہ دینا ایک غلط اور مذموم عمل ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔

 

[6]عن ابی ہریرۃؓ ان رسول اللہ ﷺ قال من حمل علینا السلاح فلیس منا و من غشنا فلیس منا

 

"حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا "جو شخص ہم پر ہتھیار اٹھائےوہ ہم میں سے نہیں اور جو ہمیں دھوکہ و فریب دے وہ ہم میں سے نہیں"

 

مزید ارشاد ہے:

 

"نبی کریمﷺنے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے۔ جبوعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتاہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے"[7]

 

گویا جھوٹ بولنے والا،دھوکہ دینے والا شخص منافق ہے اور قرآن کی رو سے منافق کی سزا جہنم کا سب سے نیچے والا گڑھا ہے۔

 

محمد عارف باللہ اس حوالے سے لکھتے ہیں"غلط آئی ڈیز ، جھوٹ پر مبنی تصویریں اور کلمات چسپاں کیے جاتے ہیں۔ بہت سی مرتبہ بعض اہم شخصیتوں کے نام سے بعض لوگ کوئی ”صفحہ“ تیار کر لیتے ہیں جیسے کہ فیس بکپر کسی نام سے موسوم کوئی پیج بنا دیتے ہیں عام لوگوں کو اس سے تاثر یہ ہوتا ہے کہ اس صفحہ پر آنے والی تحریریں اور آراء اسی شخصیت کی ہیں، اس سے بہت مرتبہ کئی مفاسد اور خرابیاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ بعض اوقات ان کی شخصیت مجروع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر فیس بکپر ایک ”صفحہ“ائمہ مسجد حرام میں سے ایک ذی علم امام صاحب کے نام سے موسوم ہے لیکن اس پر بہت سی مرتبہ بے اصل اور لا یعنی باتیں بھی لکھی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں ایک عام انسان کو تو یہی تصور ہوتا ہے کہ یہ بات انھوں نے لکھی ہے اس سے ان کی شخصیت مجروع ہوتی ہے۔ حالانکہ اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان جیسے معروف افراد کو اتنی فرصت ہے کہ وہ فیس بک پر روزانہ درجنوں پوسٹ کریں۔"[8]

 

اسی طرح دوسروں کو ہنسانے کے لیے اور ان سے داد وصول کرنے اور احباب کا دائرہ کار وسیع کرنے کے لیے لوگ انویبسائٹس پرجھوٹ،مذاق میں مشغول رہتے ہیں حالانکہ حدیث پاک میں ایسے شخص کے بارے میں آیاہے کہ

 

قال سمعت النبیﷺ یقول ویل للذی یحدث با لحدیث لیضحک بہ القوم فیکذب ویل لہ ویل لہ[9]

 

"تباہی ہے اس کے لیے جو بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تا کہ اس سے لوگوں کو ہنسائے، تباہی ہے اس کے لیے، تباہی ہے اس کے لیے"

 

جبکہ قرآن کریم میں جھوٹے اور فریبی کے بارے میں فرمایا ہے:

 

"بے شک اللہ اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتا"[10]اِنَّ اللہ َ لاَ یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ

 

مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ"جس نے دل میں یہ ٹھان لی کہ کبھی سچ کو نہ مانوں گا۔ جھوٹ اور ناحق پر ہی ہمیشہ اڑارہوں گا۔ منعم حقیقی کو چھوڑ کر دوسرے محسنوں کی ہی بندگی کروں گا۔اللہ کی عادت ہے ایسے بد باطن کو فوز و کامیابی کی راہ نہیں دیتا"[11]

 

(2)۔ والدین کی نافرمانی

معاشرے کے اندر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بدولت والدین کی نافرمانی بہت زیادہ عام ہو رہی ہے، بچے صبح اٹھ کر والدین کو سلام کرتے ہوں یا نہیں لیکن اپنا ان بکس ضرور د یکھتے ہے۔ ماں باپ کی خدمت کا وقت ہو یا نہ ہو لیکن فرصت کا کوئی بھی لمحہ ہاتھ آتا ہے تو وہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس واٹس اپ، فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب وغیرہ کیلئے ہی ہوتاہےاور یہی سوچ ہوتی ہے کہ ان سائٹس پر کوئی چیز ان سے چھوٹ نہ جائے۔ اولاد پر والدین کاکیا حق ہے، اگر قرآن کریم سے معلوم کریں تو بخوبی پتہ چل جائے گا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔۔

 

وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًا[12]

 

"اورہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ والدین کے ساتھ احسان کرے۔"

 

مفتی محمد شفیع فرماتے ہیں کہ:"ووصینا الانسان بوالد یہ احسانا“ لفظ وصیت تاکیدی حکم کے معنی میں آتا ہے اور احسان بمعنی حسن سلوک ہے جس میں ان کی خدمت و اطاعت بھی داخل ہے اور تعظیم و تکریم بھی"[13]

 

والدین کی اطاعت کے سلسلہ میں احادیث میں بھی واضح احکامات دیے گئے ہیں۔ ایک روز نبی کریمﷺ نے فرمایا:"اس شخص کی ناک خاک آلود ہو،اس شخص کی ناک خاک آلود ہو،اس شخص کی ناک خاک آلود ہو۔صحابہ ؓ نے پوچھا یا رسول اللہﷺ کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور ان کی خدمت کرکے جنت حاصل نہ کی"[14]

 

مطلب یہ کہ جس طرح اولاد کو ماں باپ کے قدموں کے نیچے پڑی ہوئی چیز آسانی سے مل سکتی ہے اسی طرح ماں کے ساتھ بھلائی کرنے اور ان کی دعا سے اولاد کو جنت ہاتھ لگ سکتی ہے۔ مگرآج والدین اولاد کو ان ویب سائٹس پر وقت ضائع کرنے سے منع کرتے ہیں تو اولاد کو یہ برا لگتا ہے۔ وہ انہیں اپنے دشمن محسوس ہوتے ہیں جو کہ دوستوں سے تعلقات کو کم کرنے یا اعتدال میں رکھنےکا کہتے ہیں ۔ اس طرح یہ ویب سائٹس والدین کی نافرمانی کی موجب بن رہی ہیں۔

 

(3)۔ بغیر تحقیق کے مواد شیئرکرنا

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس خبریں پھیلانے کا وسیع ذریعہ ہیں۔ فیس بک وغیرہ پر لوگ کچھ پوسٹ کرتےہیں تو وہ ان کے گروپ میں موجود تمام لوگوں تک جاتی ہیں اور پھر ہر فرد سے اس کے تمام کانٹیکٹ لسٹ تک جاتی ہے۔ پہلا فرد اس بات کو بغیر تحقیق کے پھیلا دیتاہے یہ جانے بغیر کہ اس میں کتنی سچائی ہے اور جھوٹ کتنا ہے، حالانکہ قرآن پاک اس بارے میں کہتا ہے کہ

 

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآءَ کُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ[15]

 

"اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو کہ کہیں کسی قوم کو

 

انجانے میں تکلیف دے بیٹھو (ایذا نہ دے بیٹھو) پھر اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاؤ"

 

تفسیر عثمانی میں ہے کہ"نزاعات اور منافشات کی ابتداء جھوٹی خبروں سے ہوتی ہے اس لیے اول اختلاف و تفریق کے اسی سر چشمہ کو بند کرنے کی تعلیم دی یعنی کسی خبر کو یونہی بے تحقیق قبول نہ کرو۔"[16]

 

مزید فرمایا:

 

وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْم[17]"اور اس چیز کے پیچھے نہ پڑو جس کا تمھیں علم نہ ہو"

 

قرآنی آیات اور احادیث کے ساتھ بہت سی باتوں کو منسوب کر دیا جاتا ہے۔ کسی شخصیت، لیڈر یا رہنما کے بارے میں شکوک و شبہات پر مبنی باتوں کو پھیلایا جاتا ہے جو ان کی تذلیل اور توہین کا باعث بنتی ہیں۔وحید الدین خان اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:"کوئی آدمی کسی دوسرے شخص کے بارے میں اگر ایسی خبر دے جس میں اس شخص پر کوئی الزام آتا ہو تو ایسی خبر کو محض سن کر مان لینا ایمانی احتیاط کے سراسر خلاف ہے۔ سننے والے پر لازم ہے کہ وہ اس کی ضروری تحقیق کرے اور جو رائے قائم کرے وہ غیر جانبدارانہ تحقیق کے بعد کرے نہ کہ تحقیق سے پہلے۔ غیر تحقیقی بات پر بولنے سے زیادہ اس پر چپ رہنا پسندیدہ ہے۔"[18]

 

"ابو ہریرہؓ سے مروی ہے: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے کافی ہے کہ جو سنے بغیر تحقیق آگے بیان کردے"[19]

 

کوئی ایک بات لکھ کر نیچے لکھ دیا جاتا ہے کہ اس کو آگے لوگوں تک پھیلائیں صدقہ جاریہ ہوگا اور لوگ بغیر سوچے سمجھے اور تصدیق کیے اسکو دھڑا دھڑ فارورڈکرنے لگتے ہیں جوکہ اکثر اوقات دین میں نئی بات ہونے کی وجہ سے بدعت کے زمرےمیں آتی ہے۔ابھی رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں یہ میسج ہر طرف بہت پھیلایا جا رہا تھا کہ "رمضان کے پہلے جمعہ کی رات کو پہلا کلمہ 40مرتبہ پڑھنے والے کو ایک مقبول حج کا ثواب ملتا ہے اور بتانے والے کو دو حج کا" بغیر تحقیق کیے لوگ ثواب کے چکروں میں اسے دوسروں کو شیئرکرنے لگے۔حدیث میں اس کے بارے میں فرمایا گیا ہے:

 

من احدث فی امرنا ھذا، ما لیس فیہ فھو رد[20]

 

"جو شخص ہماری لائی ہوئی شریعت میں ایسی چیز کا اضافہ کرے جو اس میں نہ ہو تو وہ مردود ہے۔"

 

اور بدعت کے بارے میں یہ بھی فرمایا:

 

کل بدعۃ ضلالۃ و کل ضلالۃ فی النار[21]"ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں لے جائے گی۔"

 

گویا ان ویب سائٹس کے ذریعے افراد تصدیق کئے بغیر جب مواد شیئرکرتے ہیں تو وہ نہ صرف ان کے لئے گمراہی کا باعث بنتاہےبلکہ ہراس شخص کیلئے گمراہی کا باعث بنتا ہے جس جس تک یہ پہنچتا ہے اور اس طرح اس کا وبال آغاز کرنے والے کے سر پر بھی ہوتا ہےآج کے دور میں ویب سائٹس پر اپنے فیلوز کی تعداد بڑھانے کے لیے بے بنیاد قصے پوسٹ کیے جاتے ہیں جو کہ سراسرغلط ہے۔مثلاََ واٹس اپ اور فیس بک وغیرہ پر یہ پیغام آئے دن گردش کرتا رہتا ہے کہ اتنے لوگوں کو یہ آگے بھیجو تو رات تک خوشخبری ملے گی اور اگر کوئی اس پیغام کو نظر انداز کرے گا تو اسے نقصان اٹھانا پڑے گا۔۔۔ ایسے لوگ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی بہکا کر گمراہی کا راستہ دکھاتے ہیں۔ قیامت کے د ن ایسے لوگوں پر دوہرا عذاب ہوگا ذاتی گمراہی کا الگ اور لوگوں کو بہکانے کا الگ۔

 

(4)۔ناجائز تعلقات

اسلام مردوں اور عورتوں کے ناجائز تعلقات کی اجازت نہیں دیتا۔ نامحرم مردوں اور عورتوں کی مجلسوں اور دوستیوں کے خلاف ہے۔ مگر ان ویب سائٹس پر مردوں اور عورتوں نے آزادانہ ایک دوسروے سے تعلقات بنا رکھے ہیں۔جس معاشرے میں مرد و عورت کا آز ادانہ اختلاط ہو وہاں بدکاری اور فحاشی ضرور جنم لے گی۔ اسلام نے مرد اور عورت کے آزادانہ اختلاط کے درمیان پردہ کی صورت میں ایک دیوار کھڑی کر دی ہے جو فحاشی اور بدکاری کے جراثیم بڑھنے نہیں دیتی۔ قرآن پاک میں پردہ کا حکم:

 

یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ط[22]

 

"اے نبیﷺ! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادرکے پلو لٹکا لیا کریں"

 

سورۃ النور میں اس طرح حکم دیا گیا۔۔

 

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُن[23]

 

"اے نبی ﷺ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں"

 

جبکہ سماجی رابطوں کی ان ویب سائٹس پر کیا ہوتا ہے کہ لڑکیاں اپنی تصاویر بنا کر اپنے دوستوں جن میں لڑکیاںاور لڑکے دونوںشامل ہوتے ہیں ان کے ساتھ شیئرکرتی ہیں تاکہ وہ اپنے حسن کی تعریف سن سکیں۔ لوگ ان کو دیکھ کر ان پرکومنٹس کرتےہیں۔بغیر ضرورت غیر مردوں کے ساتھ بات کرنے کی اجازت نہیں۔ اسلام بحالت مجبوری غیر مردوں سے بات کرنے کی اجازت دیتا ہے مگر اس میں بھی اختیاط کا دامن تھامے رکھنے کی تعلیم ہے۔

 

مگر آج ان ساری تعلیمات و احکامات کو پسِ پشت ڈال کر لڑکیاں اور لڑکے ان ویب سائٹس پر ایک دوسرے سے دوستیاں کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے نظر آتے ہیں۔اور پھر نقصان اٹھاتے ہیں جیسے کہ روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی اس خبر سے اندازہ ہوتا ہے:

 

"فیس بک دوستی کا بھیانک انجام: حافظ آباد کی لڑکی اقراء اپنے دوست سے ملنے شجاع آباد چلی آئی جہاں اسے لڑکا شہزاد اپنے دوست کے گھر چھوڑ کر فرار ہو گیااور بعد میں پولیس نے بازیاب کر اکے عدالت پیش کر دیا جہاں سے وہ دارالامان بھیج دی گئی"[24]

 

اسلام میں تو مردوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے عورتوں کو احتیاط برتنے کا حکم دیا گیا ہے تو اس میں اس بات کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے کہ لڑکیاں لڑکے آپس میں چیٹ، ویڈیو کالنگ ،تصاویر کا تبادلہ اور ملاقاتیں کرتے پھریں۔

 

(5)۔ تہمت و الزام تراشی

سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر مخالفین کے خلاف پروپیگنڈے کی مکمل آزادی کی وجہ سے معاشرے میں انتہا پسندی میں اضافہ ہو رہاہے۔ بعض اوقات ایک دوسرے کے خلاف بے جا الزامات یا غیر مستند فتاویٰ جات کا پرچار کر کے انتشار اور خلفشار پھیلایا جاتا ہے۔ دین اسلام ہمیں کسی پر تہمت لگانے سے سختی سے منع کرتا ہے۔

 

وَالَّذِیْن یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَااکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُہْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا [25]

 

"جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بغیر گناہ کے ایذا پہنچاتے ہیں وہ لوگ بہتان اور صریح گناہ کا بار اٹھاتے ہیں"

 

"اس آیت میں ان لوگوں کو سرزنش کی گئی ہے جو اہل ایمان مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی قصور کے ستایا کرتے ہیں۔ کبھی ان پر جھوٹی تہمتیں لگاتے ہیں کبھی راہ چلتے ان کی بے عزتی کر دیتے ہیں کبھی انہیں ذردکوب کرتے ہیں وہ سن لیں کہ وہ بہتان تراشی اور کھلے گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد رہے ہیں۔"[26]

 

اور جو کوئی تہمت لگاتا ہے اس پر نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی لعنت کی جاتی ہے اتنی سخت سزا سے اس برائی کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔لیکن سوشل میڈیاپر بعض عناصر کی جانب سے بے بنیاد الزامات کو پھیلا کر کئی گناہوں کے مرتکب ہونے کے ساتھ معاشرے میں بے چینی و بد امنی کی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے۔حدیث میں سات ہلاک کر دینے والی چیزوں سے بچنے کا حکم دیاگیا ہے جن میں سے ایک پاک دامن ایمان دار اور برے کاموں سے بے خبر عورتوں پر تہمت لگانا ہے۔[27]

 

(6)۔ ریاکاری اور نمود و نمائش

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس استعمال کرنے والے صارفین میں ریاکاری اور نمود و نمائش کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔ وہ جو کھانا کھا رہے ہوں، کسی جگہ سیر کیلئے گئے ہوں، کوئی فنکشن ہو اس کی تصاویر بنا کر ان سائٹس پر شیئر کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی نے کوئی نئی چیز مثلاً گاڑی، موٹرسائیکل، کوئی جوتا، کوئی سوٹ وغیرہ خریدا ہو تو اس کے بارے میں بھی اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ریاکاری اور نمودو نمائش ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔اسلام نمودونمائش، تصنع کا نہیں بلکہ سادگی کا علمبردار ہے۔ سادگی کی بدولت ضروریات زندگی حدود میں رہتی ہیں اور زندگی سہل ہو جاتی ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:

 

اَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوٰہُ ط[28]

 

"کیا تو نے اس کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا ہے"

 

اسی طرح بعض لوگ عبادات کے موقع پر ان کی نمائش ان ویب سائٹس پر کرتے نظر آتے ہیں۔ کوئی مسجد میں اعتکاف کی حالت میں ہو، عیدین کی نماز کا موقع ہو، حج و عمرہ کیلئے مکہ میں حرم کعبہ میں موجود ہو، کسی کی امداد کی جا رہی ہو، ان مختلف موقعوں کی تصاویر بنا کر واٹس اپ، فیس بک ،ٹوئٹروغیرہ پر شیئراور اپ لوڈکی جاتیں ہیں اور دوسروں کے خیالات اور تبصروں پر خوشی محسوس کی جاتی ہے۔

 

"حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں دوسرے شریکوں کے مقابلے میں، شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں۔ جو کوئی ایسا عمل کرے کہ اس میں وہ میرے ساتھ میرے علاوہ کسی اور کو بھی شریک کرے تو میں اس کو اس کے شرک سمیت چھوڑ دیتا ہوں۔"[29]

 

"کسی او رکو شریک کرنے کا مطلب ہے کہ دکھلاوے کے لیے کام کیا جائے تا کہ اس کے ذریعے دینوی مفاد حاصل کرے یا لوگوں کی نظروں میں متقی یا پارسا کہلائے۔ ’میں اس کو شرک سمیت چھوڑ دیتا ہوں‘ کے معنی ہیں کہ اس کے عمل کو برباد اور اس کے اجر کو ضائع کردیتا ہوں۔ اس حدیث میں دکھاوے کو شرک سے تعبیر کر کے (کہ یہ شرک خفی ہے) اس کی قباحت کو واضع کر دیا ہے۔ تا ہم یہ شرک اصغر ہے جس کے مرتکب پر جنت حرام نہیں، یہ سزا بھگت کر با لآخر جنت میں چلا جائے گا۔"[30]

 

اسی طرح جو لوگ اپنی نمود و نمائش ان ویب سائٹس پر کرتے ہیں ان کو دیکھ کر وہ لوگ جو ان چیزوں کو یا سہولیات کو افورڈنہیں کرسکتے وہ احساس کمتری اور احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔اور بعض لوگ ان کی سہولیا ت اور آسائشات کو دیکھ کر حسد جیسی برائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں حالانکہ آپﷺ نے واضح الفاظ میں حسد سے بچنے کا حکم دیا ہے۔

 

عن ابو ہریرہؓ ان النبیﷺ قال اِیاکم و الحسد، فان الحسد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب۔۔۔ او قال:العشب[31]

 

"حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:حسد سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ بلاشبہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ ایندھن کو۔۔۔ یا فرمایا۔۔۔ گھاس پھوس کو کھا جاتی ہے"

 

(7)۔ کفار و مشرکین سے دوستی

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس، فیس بک،ٹوئٹروغیرہ پر مسلمان اپنے ہم مذہب اور رشتہ داروں کے علاوہ غیرمذاہب

 

کے لوگوں کے ساتھ بھی دوستی اور رابطے کرتے ہیں اور ان کے ساتھ باتیں کرنے میں وقت گزارتے ہیں۔ خصوصاً نوجوان لڑکے مغربی ممالک میں موجود غیر مسلم لڑکیوں اور عورتوں سے ان ویب سائٹس کے ذریعے تعلقات بناتے ہیں تاکہ وہ ان کے ملک میں جانے میں انکی مدد کریں اور بعض اوقات تو یہ تعلقات اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ نوبت شادی تک آجاتی ہے۔"جنوبی افریقہ سے لڑکی پاکستانی طالب علم سے فیس بک پر دوستی کے بعد اس کے یہاں( قلعہ رامکو)حافظ آباد پہنچ گئی"[32]

 

اسلام غیر مسلموں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے ارشادِ ربانی ہے:

 

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْھِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَ قَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآءَ کُمْ مِّنَ الْحِقّ ج [33]

 

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم ان کے ساتھ دوستی

 

کی طرح ڈالتے ہو حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے اس کو ماننے سے وہ انکار کر چکے ہیں"

 

اس سورت کے اول و آخر میں مسلمانوں کو کفار سے تعلقات، دوستی رکھنے اور خصوصاََ مشرکات سے نکاح رکھنے کی ممانعت ہے مولانا اشرف علی تھانوی کہتے ہیں کہ"گو دل سے دوستی نہ ہو مگر ایسا دوستانہ برتاؤ بھی مت کرو۔او ل تو دوستی ہی بری چیز ہے پھر خفیہ پیغام بھیجنا اور زیادہ برا ہے"[34]

 

گویا اسلام کے مخالف لوگوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے سے منع فرمادیا گیا ہے کیونکہ وہ ہر وقت اسلام کو اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کےدرپے ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔

 

(8)۔مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنا(گستاخانہ خاکے)

سوشل میڈیااور آزادی اظہارِ رائے کے نام پر جو سب سے بڑا نقصان سامنے آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ بدفطرت اور بد مزاج لوگ مقدس شخصیات اور مقدس نظریات کے بارے میں دریدہ ذہنی اور بے ہودہ گوئی کا وہ کھلا میدان پاکر اپنے غلیظ نظریات کی تشہیر میں لگے ہوئے ہیں۔گستاخ رسول قابل سزا ہے۔

 

"حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال جب نبی کریم ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے

 

اپنےسر انور پر "خود" آہنی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ جب آپ ﷺ نے اسے اتارا تو ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ابن خطل (گستاخِ رسولﷺ) کعبۃ اللہ کے پردوں سے چمٹا ہواہے تو آپﷺ نے حکم دیا کہ اسے قتل کردو۔"[35]

 

سماجی ویب سائٹس پر یہ عناصر یہ سب کچھ اپنے تعارف اور شخصیت کو پردے میں رکھ کر کر رہے ہیں کہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ ان کے یہ جرائم اس قدر گھناؤنے ہیں کہ کوئی بھی سلیم الفطرت انسان اور مہذب معاشرہ اسے برداشت نہیں کرنے والا۔سوشل میڈیاپر گستاخیوں کا ارتکاب کرکے دشمن قوتیں مسلمانوں کو اس کا عادی بنانا چاہتی ہیں۔ ماضی میں ڈنمارک، ناروے اوربعض دیگر ملکوں کی طرف سے نبی کریم ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخیوں کا ارتکاب کیاگیا تاہم اب مغربی ملکوں کی طرح انڈیا بھی اس ناپاک جسارت میں پیش پیش ہے اور منظم منصوبہ بندی کے تحت ایسی گستاخیاں کرکے مسلمانوں کے جذبات مشتعل کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔"[36]

 

ایسی غلیظ حرکتیں کرنے والوں کو مغربی ممالک کا تعاون حاصل ہے۔"گستاخ بلاگرزکا بیرونِ ملک بھاگنا اس امر کی دلیل ہے کہ ایسی مذموم حرکتیں کرنے والوں کی پشت پناہی اور فنڈنگ بیرونی قوتوں کی جانب سے کی جا رہی ہے۔"[37] گزشتہ دنوں اس حوالے سےچند افراد کی گرفتاری کی خبر بھی سامنے آئی تھی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ انہیں رہا کردیا گیا۔ معلوم نہ ہوسکا کہ اصل ماجرا کیا تھا؟مگریہ حقیقت ہے کہ اس کے بعد اب ایسے پیجزاور گروپس دوبارہ متحرک ہوئے اور جناب نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس، ازواج مطہرات اور شعائر اسلام کی شدید گستاخی کے مرتکب ہوئے جو بحیثیت مسلمان ناقابل برداشت ہی نہیں بلکہ ناقابل التفات اور ناقابل سماعت ہے۔"[38]

 

وزارت نے جولائی 2016ء سے گستاخانہ مواد کی نشاندہی اور شکایت کے لئے کام شروع کیا اور اب تک تقریباً چھ سو ستر(670) ویب سائٹس کے خلاف کاروائی ہوئی ہے۔ PTA سے شکایات کے علاوہ وزارت نے ان ویب سائٹس کے مالکان کو براہِ راست رابطہ کرکے تقریباً 700 ویب سائٹس یا ان کے لنکس کے بار ے میں رپورٹ کر چکی ہے۔ جن میں سے اب تک565 ویب سائٹس بلاک کر دی گئی ہیں۔[39]

 

 

(9)۔ اشاعت فحش/ بے حیائی

سماجی رابطے کی ویب سائٹس معاشرے کے اندر فحاشی پھیلانے میں بھی بہت کردار ادا کر رہی ہیں۔ اخلاق باختہ تصاویر اور ویڈیوکلپس ان ویب سائٹس پر بڑے پیمانے پر موجود ہوتی ہیں اور برے لوگ خود بھی دیکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی شیئرکرتے ہیں تاکہ وہ بھی دیکھیں ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہے:

 

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌلافِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِط وَاللہ ُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ[40]

 

"بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش اور بے حیائی پھیلائے

 

وہ دنیا اور آخرت میں درد ناک سزاکے مستحق ہیں۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے"

 

چونکہ بے حیائی انسان کے وقار کو کھو دیتی ہے اس کی عزت کو خاک میں ملا دیتی ہے اور اس کے اخلاق کو تباہ کر دیتی ہے اس لیے مسلم معاشرہ میں بے حیائی پھیلانے والوں کو اس آیت میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ان کے لیے نا صرف آخرت بلکہ دنیا میں بھی درد ناک عذاب ہے۔ یوٹیوب تو ایسی خرافات سے بھری پری ہے لوگ رات رات بھر ان کو دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بچے کم عمری میں ہی ان تمام باتوں سے آگاہ ہو جاتے ہیں جن کا انھیں بلوغت کے بعد پتا ہونا چاہیے۔ نیز جو برائی نہیں جانتے وہ بھی اس سے آگاہ ہو جاتے ہیں اور سیکھ جاتے ہیں۔سورۃ اعراف میں فرمایا گیا ہے:

 

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَن[41]

 

"اے محمد ﷺ! کہہ دو کہ میرے رب نے تمام بے حیائیوں کو حرام قرار دے دیا ہے،وہ اعلانیہ ہوں یا خفیہ"

 

"جہاں تک انٹرنیٹ پرعریانیت اور غیر اخلاقی مواد پھیلانے والی ویب سائٹس کا معاملہ ہے ان کو کتنا دیکھا اوروزٹ کیا جاتا ہے اس کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک حالیہ رپورٹ(Report)کے مطابق PTAکی جانب سے 31 ہزار ایسی ویب سائٹس کو بلاک کیا جا چکا ہے۔ غیر اخلاقی ویب سائٹس (Websites)کی اتنی بڑی تعدادیہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ معاشرے میں فحاشی کو پھیلانے میں کس قدرسر گرم ہے جس کی وجہ سے زیادتی و زنا جیسے واقعات کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔"[42]

 

بدکاریوں کو نہ صرف حرام کیا بلکہ ان کی اشاعت و فروغ سے بھی منع کیا گیا ہے لٰہذا تمام مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے کہ وہ تمام فواحش ومنکرات سے پرہیز کریں۔ شرم و حیا کو اختیار کریں۔ فرمایا:

 

الحیاء من الایمان[43]"حیا ایمان سے ہے"

 

یہ حیا ہی انسان کو فحش اور بے حیائی کی باتیں کرنے اور دیکھنے سے روکتی ہے اور ان کی اشاعت سے باز رکھتی ہے۔

 

(10)۔ افشائے راز

سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر وغیرہ پر ایک رہنما دوسرے رہنما کے رازوں کو افشا کر دیتاہے۔ کسی شخص کو کسی دوسرے کے فعل کے بارے میں معلوم ہو جائے تو بڑے پیمانے پر لوگوں میں اس کی تشہیر کر دی جاتی ہے۔

 

"جس نے مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کریں گے۔"[44]

 

گویا کہ مسلمان سے متعلق باتوں کی فواحش کی تشہیر نہ کی جائے اسے مخفی رکھا جائے۔ کیونکہ اشاعت سے نفسانی تحریک گناہ کی طرف راغب کرتی ہے۔ اسلام اس سے منع کرتا ہے۔

 

عن معاویۃؓقال سمعت رسول اللہﷺ یقول: انک ان اتبعت عورات الناس افسدتھم۔ او کدت ان تفسدھم[45]

 

"حضرت معاویہؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپ فرماتے

 

تھے اگر تو لوگوں کے عیوب کے پیچھے پڑ گیا تو انھیں بگاڑدے گا یا قریب ہے کہ توانھیں بگاڑ دے گا"

 

عین ممکن ہے کہ لوگ عیب کھل جانے کی وجہ سے مزید جری ہو جائیں اور اعلی الاعلان غلط کام کرنے لگیں۔ تا ہم امام عادل نصیحت اور اصلاح احوال کے لیے ان کی خبریں معلوم کرے تو جائز ہو گا۔ عقبہ بن عامرؓ سے مروی ہے آپﷺ نے فرمایا:

 

"جس نے کسی کا مخفی عیب دیکھ لیااور اس پر پردہ ڈال دیا تو یہ ایسا ہے کہ جیسے کسی نے زندہ گاڑھی ہوئی بچی کو موت سے بچا لیا"[46]

 

مسلمان جس سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو اس کے راز کو فاش کرنا کسی طرح کی نیکی نہیں۔ نصیحت ضرور کرنی چاہیے۔ ہاں اگر کوئی عادی مجرماور فاسق فاجر ہو تو اس کی پردہ پوشی مناسب نہیں۔کیونکہ اس سے اس کے فسق و فجور میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس لیے اس کی شکایت حاکم اور قاضی تک ضرور پہنچنی چاہیے تا کہ اس کی اصلاح ہو۔

 

عصر حاضر میں ہر فرد کسی نہ کسی طرح ان ویب سائٹس سے جڑا ہوا ہے۔ سماجی رابطے کی ان ویب سائٹس کے استعمال کے رجحانات کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کس طرح سے ان ویب سائٹس سے منسلک ہو کر اسلامی تعلیمات سےروگردانی کی جا رہی ہے۔اسلام ترقی اور جدت کا مخالف نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات سوشل میڈیایا سماجی ویب سائٹس کو برا نہیں کہتیں بلکہ ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے منفی اثرات کی مذمت کرتی ہیں۔

 

سوشل میڈیاایک غیرجانبدار ہتھیار ہے۔ یہ بذات خود اچھا یا برا نہیں ہے بلکہ اسکا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ سوشل ویب سائٹس کی مثال ایک چھری کی مانند ہے، جس سے اچھا کام بھی لیا جاسکتاہے اور برا بھی۔ اگر اس کو پھل، سبزی وغیرہ کاٹ کر کھانے پکانے کیلئے استعمال کیا جائے تو یہ ایک فائدہ مند چیز ہے اور اگر اس سے دوسروں کو تکلیف پہنچانے، گردنیں کاٹنے کیلئے استعمال کیا جائے تو یہ ایک نقصان دہ آلہ ثابت ہوگی۔ یہی حال سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا ہے۔ ان کے ذریعے آپ اپنے پرانے دوست احباب سے تعلق قائم کر سکتے ہیں، رشتہ داروں سے رابطہ رکھ سکتے ہیں۔ علماء و سکالرز سے رابطہ کر کے دین کے معاملات میں سمجھ بوجھ اور رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔دین اسلام کی تبلیغ بھی کر سکتے ہیں۔لٰہذا ان ویب سائٹس کے اچھے یا برے ہونے کا انحصار ان کے استعمال پر ہے۔

حوالہ جات

  1. Rosalind Combley, Cambridge Business English Dictionary, Published by Cambridge University Press, Nov 2011,p.789, retrived 16 Jan 2017, 10:15am from www.cambridge.com
  2. بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الجماعۃ و الامامۃ، باب فضل صلوۃ الجماعۃ، دار ابن کثیر، دمشق،بیروت، الطبعۃ الرابعۃ،1999ء،رقم الحدیث:619، 1/231
  3. الحج،22/30
  4. النخل، 16/105
  5. مراد آبادی، نعیم الدین، خزائن العرفا ن فی تفسیر القرآن، ضیا القرآن پبلی کیشنز، لاہور کراچی پاکستان، ص 502
  6. مسلم، الجامع الصحیح، کتاب الایمان، باب قول النبیﷺ من غشنا فلیس منا، دار احیاء التراث العربی،بیروت،1904ء،رقم الحدیث: 101، 1/99
  7. بخاری، الجامع الصحیح،کتاب الادب، باب علامۃ المنافق،رقم الحدیث:33، 1/21
  8. قاسمی، محمد عارف باللہ، سوشل ویب سائٹس۔ چند اہم آداب، Retrived 25 Aug 2016, 4:35pm from muftiarifbillah. blogs.com.
  9. ترمذی،الجامع، کتاب الزہد، باب فیمن تکلم بکلمۃ یضحک بہا الناس، دار احیاء التراث العربی،بیروت،لبنان،رقم الحدیث:2315، 4/557
  10. الزمر، 39/3
  11. عثمانی، شبیر احمد،تفسیر عثمانی،ناشر دارالاشاعت، اردو بازار کراچی،مطبوعہ1993ء،2/447
  12. الاحقاف، 46/15
  13. مفتی محمد شفیع، معارف القرآن، مکتبہ معارف القرآن کراچی، 7/803
  14. مسلم، الجامع الصحیح، کتاب البر و الصلۃ و الادب، باب رغم انف من ادرک ابویہ أو احدھما عند الکبر، فلم یدخل الجنۃ،رقم الحدیث: 2551، 4/1978
  15. الحجرات، 49/6
  16. عثمانی، شبیر احمد،تفسیر عثمانی،2/587
  17. بنی اسرائیل، 17/36
  18. وحید الدین خان، تفسیرتذکیر القرآن،المکتبہ الاشرفیہ، جامعہ اشرفیہ، لاہور،2/611
  19. مسلم، الجامع الصحیح، المقدمہ باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع،رقم الحدیث:5، 1/10
  20. ،2/959بخاری، الجامع الصحیح ، کتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود،رقم الحدیث: 2550
  21. نسائی،احمد بن شعیب،السنن،کتاب الصلوۃ العیدین،باب کیف الخطبۃ،مکتب المطبوعات الاسلامیۃ حلب، الطبعۃ الثانیۃ،۶۰۴۱ھ،رقم الحدیث: 1578، 3/388
  22. الاحزاب، 33/59
  23. النور، 24/31
  24. ،Retrived 10 Jan 2017, 8:05pm from https://dailypakistan.comروزنامہ پاکستان، 18فروری2016ء

     

    pkhafizabad/19-Feb-2016
  25. الاحزاب، 33/58
  26. ازہری،محمد کرم شاہ،تفسیر ضیا القرآن، ضیا القرآن پبلیکیشنز،لاہور،4/94
  27. بخاری، الجامع الصحیح،کتاب الفرائض،باب قول اللہ تعالیٰ: ان الذین یاکلون اموال الیتامی۔۔۔النساء:۰۱،رقم الحدیث: 6857، 8/175
  28. الفرقان، 25/43
  29. مسلم، الجامع الصحیح، کتاب الزھد و الرقائق، باب تحریم الریأ،رقم الحدیث: 46، 4/2289
  30. نووی،ابو بکر یحییٰ بن شرف، ریاض الصالحین، مطبوعہ دارالسلام، 2/506
  31. ابو داؤد،السنن، کتاب الادب باب فی الحسد،دارالحدیث ، القاھرہ، رقم الحدیث: 4903، 4/278
  32. ، Retrived 19 Aug 2016, 5:55pm from https://www.nawaiwaqt.com.pk ،نوائے وقت، 13مارچ2015
  33. الممتحنہ، 60/1
  34. تھانوی، اشرف علی،بیان القرآن،مکتبہ رحمانیہ، لٹل سٹار پرنٹرز، لاہور،3/538
  35. بخاری،الجامع الصحیح، کتاب جزاء الصید احرام، باب دخول الحرم و مکۃ بغیر احرام،رقم الحدیث:1846، 3/17
  36. حکومت پاکستان گستاخانہ ویب سائٹس اور توہین آمیز مواد اپ لوڈ کرنے والے اکاؤنٹس بند کرے، اردو پوائنٹ، 11 فروری 2017ء، Retrived 4May 2017, 11:09am from https://www.dailyurdupoint.com/livenews/2017-12-11/mews-919599.html
  37. پاکستان اپ ڈیٹس، 16مارچ2017،www.pakistanupdates.com.pk/urdu/Retrived 4 May 2017, 11:45am from
  38. سوشل میڈیا پر گستاخوں کی دریدہ ذہنی اور اصحاب اقتدار کی ذمہ داریاں،،القلم،(اداریہ)، شمارہ 592 ،5 تا 11 مئی 2017ء،Retrived 4May 2017, 11:48pm from www.alqalamonline.com/indexphp/idarti/7366-585-idearia
  39. محمد اشتیاق،گستاخانہ مواد والی ویب سائٹس کے خلاف کاروائی کا حکم، 31 مارچ 2017ء ،،Retrived 4 May 2017, 11:30am from https;//www.urduvoa.com/a/pakistan-blasphemy-materia-web-sites/3790693.html
  40. النور، 24/19
  41. الاعراف، 7/33
  42. جعفری،سید وقاص، انٹرنیٹ کی دنیا: پاکستان میں خطرناک رجحانات،Vol.3, Issue.1، Retrived 22 Nov 2016, 4:29pm https://technologytimes.pk/ post.php?id=437
  43. بخاری، الجامع الصحیح،کتاب الایمان، باب الحیا ء من الایمان، رقم الحدیث: 24، 1/17
  44. مسلم، الجامع الصحیح،کتاب البر و الصلۃ و الادب، باب بشارۃ من ستر اللہ تعالیٰ عیبہ فی الدنیا یستر علیہ فی الاخرۃ، رقم الحدیث: 2590، 4/2002
  45. ایضاََ، باب فی التجسس،رقم الحدیث: 4888، 4/274
  46. ابو داؤد،السنن،کتا ب الادب، باب فی الستر علی المسلم، رقم الحدیث: 4891، 4/274
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...