Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 2 Issue 2 of Al-ʿILM

صارفین کے حقوق: معاصر پاکستانی قوانین اور سیرت نبوی ﷺ کا تقابلی مطالعہ |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060040263_900

Pages

122-153

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/100/79

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/100

Subjects

Islam Consumers Rights Seerat Shariat

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف :

 

صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لئے حکومت پاکستان نے قومی اور صوبائی سطح پر باقاعدہ قانون سازی کی ہے۔ جس میں صارفین کے حقوق کو واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ قوانین عصر حاضر میں نافذ اور جامع بھی ہیں ۔ جو صارفین کے حقوق کی تحفظ کو یقینی بنا نے میں ممدثابت ہوتے ہیں ۔ ان قوانین کی مدد سے صارفین کے مختلف مسائل اور تنا زعات کو بآسانی حل کیا جا سکتا ہے ۔ شریعت مطہر ہ نے جو حقوق صارفین کے لئے بیان کئے ہیں وہ بھی جامع نوعیت کے ہیں۔ذیل میں دونوں کا موازنہ مختصر انداز میں پیش کیا جائے گا۔

 

پاکستانی قوانین میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لئے قانون سازی کے عمل کا تعارفی و تجزیاتی مطالعہ : # اسلام آباد کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ ۱۹۹۵ء کا تعارف:

 

 

 

حکومت پاکستان نے سب سے پہلے قومی سطح پر صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لئے قانون سازی کا عمل شروع کیا ۔ ۱۹۹۵ ء میں پہلا ایکٹ پاس کیا جس کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں :

 

الف: ایکٹ کانام : اسلام آباد کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ ۱۹۹۵ء

 

ب: ایکٹ کا مقصد : صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لئے اقدامات کرنا

 

ج: دائرہ کار(حددو):اسلام آباد (یہ ایکٹ اسلام آباد سے متعلق علاقوں میں نافذ العمل ہوگا )

 

د: اختیارات :کورٹس آف سیشن اسلام آباد

 

ذ: صارف سے مراد : # خریداری اشیا ء بالخصوص ادائیگی جو ادا شدہ ہو یا وعدہ شدہ ہو یا کچھ کا وعدہ ادا کرنے کا کیا ہو یا کسی نظام کے تحت بعد ادائیگی مستعار لینا خریدتا ہو اور بشمول استعمال کندہ لیکن ایسا شخص شامل نہ ہوگا جو تجارتی مقصد کے لئے اشیا ء بعد از خرید دوبارہ فروخت کرتا ہو۔

  1. کرایہ ، اجرت پر سامان یاخدمات بابت غور ادا شدہ یا وعدہ شدہ یا جزوی وعدہ بابت ادائیگی یا ایسے نظام بابت ادائیگی بشمول کرایہ پر خریدنا یا لیزنگ اور بشمول فائدہ وظیفہ خدمات۔[1]

 

 

 

صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لئے کئے گئے قانون اقدامات کا خلاصہ :

صارفین کی آسانی کے لئے قومی اسمبلی نے جو مذکورہ بل پاس کیا ہے اس کابنیادی مقصد صارفین کے حقوق کا تحفظ ہے۔ اس غرض کے لئے مندرجہ ذیل قانونی نکات ذکر کئے گئے ہیں تاکہ واضح رہے کہ کونسا عمل و طریقہ کار ممنوع تصور ہوگا جس کا کرنا جرم بھی ہوگا اورجس کے کرنے سے صارفین کے حقوق کی پامالی بھی لازم آئے گی۔

 

ناواجب تجارتی عمل کا مفہوم :

 

وہ کاروبار یا پیشہ جو صارفین کے لئے نقصان کا باعث بنتا ہو ایسے کاروبار یا پیشہ کو " ناواجب تجارتی عمل" کہا جاتا ہے۔ جس کے لئے ایکٹ میں مندرجہ ذیل ہدایات مذکور ہیں :

* ایسی جھوٹی نمااشیا ء یا خدمات نمائندگی جس سے یہ سمجھا جائے کہ وہ چیز یا خدمات کسی خاص معیار مقدار بوجہ قسم ملاوٹ یعنی اس میں کوئی چیز مخفی لکھی گئی ہو۔

  • کوئی ایسی چیز جس کو دوبارہ مرمت کیا گیا ہو اور اس کو نئی چیز کے داموں فروخت کیا جارہاہو یا ظاہر کیا جارہا ہوکہ یہ نئی چیز ہے ۔
  • ایسی جھوٹی نمائندگی جو عا م کمپنی کوخاص ظاہر کیا جائے۔جو معیاری نہ ہو بس ظاہر کیا گیاہو ۔
  • ایسی غلط نمائندگی جس کے ذریعے یہ ظاہر کیا گیا ہو کہ کسی چیز کا استعمال انتہائی ضروری ہو۔
  • عوام کو غلط وارنٹی / گارنٹی دینا
  • غلط طور پر مکان/ گھر وغیرہ فروخت کرنا جس میں مخصوص سہولیات موجود نہ ہو۔
  • عوام کو غلط یقین دہانی کرانا
  • ایسے نجی تعلیمی ادارے جو قومی یا بین الاقوامی مجاز اتھارٹی سے منظور شدہ نہ ہو اور تشہیر کریں کہ وہ منظور شدہ ہیں ۔
  • غلط نمائندگی کہ ماہرین کی خدمات کی سہولیات میسر ہیں مثلا ڈاکٹرز، انجنئیرز، حکما ء وغیرہ
  • ایسے غلط حقائق کسی دوسرے ادارے یا فرم کے بارے میں پیش کرنا جس وہ سے بدنام ہو۔
  • بذریعہ خط /اشتہارضروریات زندگی یا خدمات کو غلط تفصیلات بیان کرنا[2]

 

 

 

کونسل کے قیام کی منظوری :

اسلام آباد کنزومر پروٹیکشن ایکٹ ۱۹۹۵ء سیکشن ۳ کے تحت صارفین کے حقوق کی تحفظ کے لئے کنزومر پروٹیکشن کونسل، اسلام آباد کے قیام کو عمل میں لایا گیا ۔ جو ۱۲ ارکان پر مشتمل ہوگئی ۔فیڈرل گورنمنٹ باقاعدہ نوٹفکیشن کے مطابق ایکٹ کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر چیئر مین کا انتخاب کریں گی۔ کونسل باقاعدگی کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کا خیال رکھی گی اور صارفین کی شکایات کوحاصل کرکے اس کو اپنی ماہرانہ رائے سے آگاہ کرے گی اور ان کی ممکن مدد کے لئے اپنی کوششوں کا دائرہ وسیع کرے گی۔ اس کونسل کا بنیادی مقصدحکومت ، صارفین اور مارکیٹ کے درمیان ربط پیدا کرنا ہے تاکہ تینوں اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے آگاہ رہیں۔ [3]

 

شکایات کی وصولی اور سزائیں :

کنزومر پروٹیکشن کونسل شکایات وصول کرے گی اور اس کو عمل درآمد کے لئے متعلقہ حکام تک پہنچائےگی۔ اگر ایکٹ کے سیکشن ۷ کے مطابق کوئی جھوٹے اشتہارات شائع یا سیکشن ۵ میں مذکورہ صورتوں میں کوئی بھی صورت اختیار کرے گا تو ان کو دوسال قید یا چالیس ہزار کا جرمانہ یا دونوں سزاؤں کا نفاذ ہوسکتا ہے ۔

 

اسلام آباد کنزومر پروٹیکشن ایکٹ ۱۹۹۵ء میں قومی اسمبلی نے ۲۰۱۱ء دوبارہ کچھ اضافہ کیا۔ جنوری ۲۰۱۲ ء میں اس کا نوٹفکیشن جاری کردیا۔[4]#

دی پنجاب کنزومر پروٹیکشن ایکٹ ۲۰۰۵ ء کا تعارف

 

 

 

مذکورہ ایکٹ صارفین کے حقوق کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ جس کا ذیل میں مختصراً ذکر کیا جارہا ہے :

 

اس ایکٹ کے چھ بنیادی حصے ہیں :

 

حصہ اول : ابتدائیہ

 

الف : ایکٹ کا نام : دی پنجاب کنزومر پروٹیکشن ایکٹ ۲۰۰۵ ء

 

ب: دائرہ کار :صوبہ پنجاب

 

ج:اتھارٹی : ڈی سی او (ڈسٹرکٹ کوارڈنیٹر آفیسر) یا حکومت جس کو اختیار دے دیں ۔

 

د: صارف : ایکٹ میں صارف کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے : # بعوض بدل کوئی مصنوعہ چیز خریدتا ہے یا پٹہ پر لیتا ہے اور بشمولہ مصنوعہ چیز کا استعمال کنندہ شامل ہے لیکن وہ شخص شامل نہیں جو دوبارہ فروخت یا کسی مقصد کے لئے کوئی مصنوعہ شے حاصل کرتا ہے اس میں شامل نہ ہوگا۔

  1. بعوض بدل کوئی خدمات کرایہ پر لیتا ہے اور ایسی خدمات کا کوئی مستفید شامل ہے۔ [5]

 

 

 

حصہ دوم : ناقص اشیا ء سے پیدا ہونی والی ذمہ داری

* ناقص اشیا ء کی ذمہ داری

  • بناوٹ یا آمیزش میں نقص
  • نمونہ میں نقص
  • ناقص بوجہ نامناسب تنبیہ ناقص بوجہ واضح ورانٹی سے عدم مطابقت
  • مینو فیکچرر کے علم کا ثبوت
  • ہرجانہ دینے پر پابندی
  • فرض انکشاف
  • ذمہ داری سے استخراج پر ممانعت [6]

 

 

 

حصہ سوم : ناقص اور غلط خدمات سے پیدا ہونی والی ذمہ داری * فراہمی خدمات کا معیار

  • ہرجانہ ادا کرنے پر پابندی
  • فرض انکشاف
  • ذمہ داری سے استخراج پر ممانعت [7]

 

 

 

حصہ چہارم : مینوفیکچرز کی ذمہ داریاں * مقام کاروبار پر قیمتوں کا نمایاں ہونا

  • خریدار کو رسید کا جاری کرنا
  • واپسی اور رقم لوٹانے کی پالیسی [8]

 

 

 

حصہ پنجم :غیر مناسب افعال * جھوٹی ، دھوکہ باز اور گمراہ کن نمائندگی

  • جھوٹے اشتہارات پر ممانعت [9]

 

 

 

حصہ ششم : اتھارٹی کے اختیارات * اتھارٹی کے اختیارات

  • حکومت کے اختیارات [10]

 

تحفظ صارفین کا قانون مجریہ ۱۹۹۷ء خیبر پختونخواہ

قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کی طر ح خیبر پختونخواہ اسمبلی نے بھی صارفین کے حقوق کے تحفظ کے باقاعدہ قانون سازی کی ہے۔ ۱۹۹۷ء میں "تحفظ صارفین کا قانون مجریہ ۱۹۹۷ء پاس کیا ہے جو صارفین کے حقوق کے تحفط کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ایکٹ کا مختصر تعارف ذیل میں پیش کیا جارہا ہے :

 

مذکورہ ایکٹ کے بنیادی چار حصے ہیں ۔ [11]

 

حصہ اول : تعارف ایکٹ اور ضروری اصلاحات کی وضاحت

 

حصہ دوم : صارفین کونسل کے بارے میں بنیادی قانون سازی

 

حصہ سوم : استغاثوں کا فیصلہ

 

حصہ چہارم : متفرق

 

مذکورہ ایکٹ میں " ناواجب تجارتی عمل " کے عنوان سے ۱۴ صورتیں واضح کردی گئی ہیں جن کا کرنا قانون درست نہ ہوگا اور اگر کوئی شخص اس طرح کر ے گا وہ قانون کے مطابق ملزم تصور ہوگا اور اس ایکٹ کے مطابق اس کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔ #

دی سندھ کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ ۲۰۱۴ء (ایکٹ نمبر XVII-2015)

دوسری قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی طرح سندھ حکومت نے بھی صارفین کے حقوق کی حفاظت کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی ہے اور "دی سندھ کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ ۲۰۱۴ء (ایکٹ نمبر XVII-2015)" کے نام سے سندھ اسمبلی نے ایکٹ منظور کیا ہے ۔ جس کے ضروری تفاصیل مندرجہ ذیل ہیں :[12]

 

مذکورہ ایکٹ ایک تفصیلی ایکٹ ہے جو آٹھ بنیادی حصوں پر مشتمل ہے :

 

حصہ اول : "ابتدائیہ " جو ایکٹ کے تعارف اور بنیادی اصطلاحات پر مشتمل ہے ۔

 

حصہ دوم : عیب دار مصنوعات سے پیدا ہونے والی ذمہ داری

 

حصہ سوم : عیب دار اور ناقص خدمات کی مصنوعات سے متعلق پیدا ہونے والی ذمہ داری

 

حصہ چہارم : مینوفیکچررز کی ذمہ داری

 

حصہ پنجم : غیر منصافانہ طریقے (ناواجب تجارتی عمل )

 

حصہ ششم : اٹھارٹی کے اختیارات

 

حصہ ہفتم : کنزیومر پروٹیکشن کونسل کی تشکیل کے بارے میں قانون سازی

 

حصہ ہشتم : شکایات کی وصولی اور صارف عدالتوں کا قیام

 

حصہ نہم : متفرقات

# دی بلوچستان کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ ۲۰۰۳ء

 

 

 

صارفین کے حقوق کے لئے بلوچستان حکومت نے بھی قانون سازی کی ہے اوربلوچستان اسمبلی نے " دی بلوچستان کنزومر پروٹیکشن ایکٹ ۲۰۰۳ء " کے نام سے ایکٹ منظور کیا ہے جو مندرجہ ذیل بنیادی چارحصوں پر مشتمل ہے : [13]

 

حصہ اول : ابتدائیہ

 

حصہ دوم : کنزیومر پروٹیکشن کونسل کا قیام

 

حصہ سوم : شکایات کی وصولی

 

حصہ چہارم : متفرقات

 

سیرت طیبہ کی روشنی میں صارفین کے حقوق کا تعارفی جائزہ

اسلام ایک جامع دین ہے۔ محمد مصطفیﷺ کی سیرت طیبہ چشمہ ہدایت ہے۔آپ ﷺ کے ہدایات پر عمل کرنے میں دنیا وآخرت میں کامیابی کا باعث ہے ۔ دنیا وی معاملا ت کے لئے آپ ﷺ نے باقاعدہ احکامات صادر فرمائیں ہیں۔انبیا ء کرام ؑ جو اصلی پیغام وحی سے جڑے رہیں اس کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاش کے لئے بھی کسی نہ کسی پیشہ سے وابستہ رہیں۔ آپ ﷺ نے اپنے لئے پیشہ تجارت منتخب کیا تھا۔اللہ تعالی نے قرآن کریم میں "فضل اللہ" قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّـٰهِ[14]جو اس پیشہ کی افضلیت پر دال ہے۔ تجارت کا پیشہ مقدس اور اہمیت کا باعث ہے۔ تجارت میں دو افراد کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔(الف) بائع (ب) مشتری (صارف)

 

بائع اور مشتری کے حقوق شریعت مطہر ہ نے تفصیلا بیان کئے ہیں ۔ ذیل میں ان حقو ق کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے ۔

 

شریعت اسلامی میں تجارت کا مفہوم :

تجارت کا لفظ تاء ، جیم اور راء سے بنا ہوا ہے۔ تجر یتجر تجارۃ بطور مصدر استعمال ہوتا ہے۔ [15]فقہ اسلامی میں تجارت کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے : " التجارۃ فی اللغۃ والاصطلاح ھی تقلیب المال، ای بالبیع والشرا٫ لغرض الربح وھی فی الاصل مصدر دال علی المھنۃ، وفعلہ تجر یتجر تجراً وتجارۃ"۔[16]

 

فقہ اسلامی میں بائع ومشتری کا تعارف :

فقہ اسلامی میں "بیع" کا مفہوم :

 

بیع عربی زبان کا لفظ ہے جو اضداد میں شمار ہوتا ہےجس کے لغوی معنی ہے خریدنااور بیچنا ۔[17]

 

بیع کا اصطلاحی مفہوم : فقہ اسلامی میں بیع کو کچھ یوں متعارف کرایاگیا ہے :

 

"واما مفہومہ لغۃوشرعا فقال فخر الاسلام البیع لغۃ مبادلۃ المال بالمال وکذا فی الشرع لکن زید فیہ قید التراضی "[18]

 

بیع کے ارکان : بیع کے بنیادی دو ارکان ہیں : (۱)ایجاب وقبول (۲)تعاطی

 

بیع کے شرائط :بیع کے شرائط چار ہیں : (۱) شرائط انعقاد (۲) شرائط نفاذ (۳) شرائط صحت (۴) شرائط لزوم

 

بیع کی قسمیں : فقہ اسلامی میں بیوع کی مختلف قسمیں مذکور ہیں ذیل میں چند مشہور کاتعارف پیش کیا جارہا ہے :[19]

 

(الف )احکام کے اعتبار سے بیع کی قسمیں : ( بیع کی جائز شکلیں )

 

(۱) بیع نافذسے مراد وہ بیع ہے جو اپنی اصل اور خارجی شرائط کے اعتبار سے صحیح ہو ، نہ مبیع میں کسی کا حق متعلق ہو اور نہ اس میں بائع یا مشتری کے لیے کو ئی خیار ثابت ہو۔

 

(۲) بیع غیر نافذسے مراد وہ بیع ہے جس میں مذکورہ بالا باتیں پائی جاتی ہوں لیکن اس میں بائع یا مشتری کے لیے خیارات میں سےکوئی خیار بھی ثابت ہو،جس کی وجہ سے فی الحال یہ بیع لازم نہ ہو۔

 

(۳) بیع موقوف سے مراد وہ بیع ہے جو غیر کے حق کی وجہ سے نافذ نہ ہوسکے اس کو بیع موقوف کہتے ہیں، صاحب حق اگر اجازت دے دے تو جائز ہو جائے گی ورنہ ناجائز ہے جب تک کہ اس کا حق جدا کر کے اس کو نہ دیا جائےاور از سرنو ایجاب و قبول نہ کیا جائے۔

 

(ب) مبیع کے اعتبار سے بیع کی قسمیں

(۱) بیع مرابحہ : یہ وہ بیع ہے جس میں بائع اپنی قیمت خرید پر اضافی رقم لے کر کسی مبیع کو فروخت کریں مثلاً ایک کتاب ۴۵ روپے میں خرید کر ۵۰ روپے میں بیچ دے۔ ربحہ کے معنی ہیں نفع اور چونکہ اس معاملہ میں بائع کو نفع ملتا ہے اس لیے اس بیع کو مرابحہ کہتے ہیں۔اس کے ضمن میں بیع تعاطیبھی ہے۔ بیوعات میں عام طور پر ایجاب و قبول زبان سے کی جاتی ہے لیکن بیع تعاطی میں صورت خاموشی کی ہے یعنی جب کسی چیز کی قیمت پہلے سے معین ہو تو بائع اور مشتری بیع کا معاملہ اس طرح کر تے ہیں کہ مشتری مبیع کی قیمت کو بائع کے ہاتھ میں دے کر یا اس کے سامنے رکھ کر خاموشی کے ساتھ مبیع کو اٹھا لیتے ہیں زبان سے کچھ بھی نہیں کہتا اور بائع قیمت کو خاموشی کے ساتھ قبضہ کر لیتا ہے اور زبان سے کچھ بھی نہیں کہتا ۔ اس کو بیع تعاطی کہتے ہیں ۔ فقہاء کے صحیح قول کے مطابق عمدہ اور حسیس دونوں قسم کے چیزوں میں یہ بیع جائز ہے۔ یہ اگرچہ اس تقسیم میں شامل نہیں ہے لیکن بائع کی خاموشی دلالت کرتی ہے کہ اس میں کوئی منافع ضرور ہے ،اس لیے میں نے اس کا تذکرہ بیع مرابحہ کے ضمن میں کردیا۔

 

(۲) بیع تولیہ:مبیع کے مالک یعنی بائع نے اگر اسی قیمت پر اپنا سامان بیچ دیا جس پر خریدا تھا تو اس بیع کو بیع تولیہ کہتے ہیں۔

 

(۳) بیع وضیعہ: جب مالک اپنی چیز (مبیع) کو تاوان کے ساتھ بیچ دے تو اس بیع کو بیع وضیعہ کہتے ہیں۔

 

(۴) بیع مساومہ: بیع مساومہ اس بیع کو کہتے ہیں جس میں قیمت کا بالکل ذکر نہ ہو ،مبیع کی قیمت خرید، قیمت فروخت سے کم ہو یا زیادہ یا مساوی ہو ،بائع اس کا کوئی تذکرہ نہ کریں جبکہ گزشتہ تینوں بیوع میں قیمت کا ذکر ضرور ہو گا۔ان میں قیمتوں کے ذکر سے نام کا پتہ چلے گا کہ کون سا بیع مساومہ ہے، کونسامرابحہ ہے، کونسا وضیعہ ہے اور کونسا تولیہ ہے۔

 

(د) مبیع کے اعتبار سے بیع کی قسمیں

 

(۱) بیع صرف: ثمن جس کو عام عرف میں قیمت سے موسوم کیا جاتا ہے،اس کے بدلے ثمن یعنی قیمت ہی دینے کو بیع صرف کہا جا ئے،مثلاً روپے کا نوٹ ،نوٹ ہی سے بدلنا یا سکہ کو سکہ سے بدلنا،اسی طرح سونا سونے سے اور چاندی چاندی سے بدلنا۔ بیع صرف میں مساوات اور برابری کے علاوہ مجلس بیع میں ثمن اور مبیع پر قبضہ بھی ضروری ہے ورنہ یہ معاملہ سود ہو جائے گا کما فی الحدیث :قال رسو ل اللہ صلیّ اللہ علیہ وسلّم : الذھب بالذھب رباً الا ھاء وھاء والبرّبالبرّ رباً الاّ ھاء وھاء ۔[20]

 

یہ حدیث نص ہے کہ مجلس عقد میں ثمن اور مبیع پر قبضہ ضروری ہے ورنہ معاملہ سود ہو جائے گااورمساوات کے بارے میں ارشاد نبوی ہے۔ قال ابوسعید فی الصرف سمعت رسول اللہ صلیّ اللہ علیہ وسلمّ یقول الذھب بالذھب مثل بمثل والورق بالورق مثل بمثل۔ [21]

 

(۲) بیع مقائضہ:یہ وہ بیع ہے جس میں رقم اور سونا چاندی نہیں ہوتی بلکہ سامان کو سامان کے بدلے فروخت کی جاتی ہےمثلاً کتاب کو کپڑے کے عوض یا کپڑے کو لکڑی کے عوض بیچنا۔

 

(۳) بیع مطلق: بیع مطلق وہ بیع ہے جس میں سامان کو روپوں کے عوض بیچا جاتا ہے جیسے قلم کو روپے اور سکے کے عوض بیچنا۔اس میں روپے ثمن اور قلم مثمن یعنی مبیع ہے۔جولوگ عام بیوعات کرتے ہیں یہ سب بیع مطلق کے ضمن میں آتے ہیں۔

 

(ج) مدت کے لحاظ سے بیع کی قسمیں

 

(۱) بیع سلم:بیع سلم اس بیع کو کہتے ہیں جس میں قیمت ایڈوانس میں فی الحال ادا کی جائے اور مبیع بعد میں دینے کا وعدہ ہومثلاً ایک مشتری ایک گاڑی خریدتا ہے تو آج ایجاب وقبول مکمل ہو جانے کے بعد مشتری گاڑی کی قیمت دے دے اور بائع وعدہ کرے کہ کل میں گاڑی آپ کو حوالہ کروں گا۔

 

(۲) بیع مؤجل: اگر معاملہ اوپر مذکورہ صورت کے برعکس ہو یعنی با ئع مبیع مشتری کو فی الحال حوالہ کرے اور مشتری قیمت کسی معین تاریخ پر دینے کا وعدہ کرے تو اس کو بیع مؤجل کہتے ہیں ۔شریعت میں یہ دونوں بیوع جائز ہیں۔

 

مذکورہ بالا اقسام کے علاوہ فقہاء کرام نے دوسرےاقسام کا ذکر بھی کیا ہے جن میں اکثر بیوع شرعاً ناجائز ہیں تاکہ مسلمان ان نا جائز بیوع سے آگاہ ہو کر اجتناب اور پرہیزکرے اور گناہ ، دھوکہ کھانے اور دھوکہ دینے سے محفوظ ہو جائے، البتہ بعض بیوع جمہور علماء کے نزدیک جائز ہیں ۔ ذیل میں ایسے بیوع کا اختصاراً تذکرہ کیا جاتا ہے۔

 

(د) بیع کی ممنوع شکلیں

 

(۱) بیع مکروہ :یہ وہ بیع ہے جو اپنی ذات کے اعتبار سے صحیح ہو لیکن کسی امر خارج کی وجہ سے اس میں کراہت آئی ہو جیسے جمعہ کے اذان کے وقت بیع کرنا۔

 

(۲)بیع باطل:یہ وہ بیع ہے ذات کے اعتبار سے بالکل درست نہ ہومثلاً مسلمان شراب یا خنزیر کو بیچے ، چونکہ یہ چیزیں اس کے حق میں مال نہیں ہےاس لیے یہ بیع صحیح نہیں۔

 

(۳) بیع فاسد: یہ وہ بیع ہے جو ذات اور اصل کے اعتبار سے تو درست ہو لیکن شرط فاسد کی وجہ سےاس میں فساد ونقصان آیا ہواور ہر وہ شرط جو عقد کے تقاضا کے خلاف ہو شرط فاسد کہلاتا ہے۔

 

(۴) بیع غرر:بیع غررکا دائرہ بہت وسیع ہے ، اگر ثمن میں جہالت ہو یا مبیع کی سلامتی مشکوک ہو تو یہ بیع غرر کے ضمن میں آتے ہیں۔

 

(۵) بیع حبل الحبلہ:حبل حمل کو کہتے ہیں اور حبل الحبل کا مطلب ہے حمل کا حمل ،پس اس بیع کا مطلب یہ ہواکہ حمل کے حمل کو فروخت کرنا۔حضرت عبدللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے خرید وفروخت سے منع فرما یا ہے۔ [22]

 

(۶)بیع ملامسہ : اس بیع کی صورت یہ ہے کہ مشتری مبیع کو ہاتھ لگائے اور صرف ہاتھ لگانے سے مشتری کے لیے بیع رد کرنے کا اختیار ختم ہوجائے۔ یہ بیع بھی شرعاً ممنوع ہے۔

 

(۷) بیع منابذہ: جب بائع مشتری کو مبیع پھینک دے اور مشتری کے لیے بیع فسخ کرنے کا اختیار ختم ہو جائے تواس کو بیع منابذہ کہتے ہیں۔

 

(۸) بیع حصاۃ :حصاۃ کنکری کو کہتے ہیں ،اس بیع کی صورت یہ ہے کہ خرید وفرو خت کے وقت بائع مشتری سے کہے کہ بات چیت کے درمیان میں تجھ پر کنکری پھینک دوں تو بیع لازم ہو جائے گی۔یہ بھی ممنوع بیوعات میں سے ہے۔

 

(۹)بیع مزابنہ ومحاقلہ:بیع مزابنہ وہ بیع ہے جس میں درخت پر لگے ہوئے پھل کے عوض اسی پھل کے ٹوٹے ہوئے دانے بیچے جاتے ہیں اور بیع محاقلہ میں کھیت میں کھڑی فصل کے دانوں کے عوض اسی جنس کے ٹوٹے ہوئے دانےدیے جاتے ہیں۔سنن ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلِم نے اس قسمکے بیع سے منع فرمایا ہے۔[23]

 

(۱۰) بیع المضامین والملاقیح: جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہو اور اس کا سودا کیا جائے تو اس کو بیع ملقوح کہتے ہیں اور جب بچہ ما ں کے پیٹ میں بھی نہ ہو بلکہ نر کے مادہ منویہ کی صورت میں ہو تو اس کی بیع کو بیع مضمون کہتے ہیں، یہ جا ہلیت کے بیوع ہیں اور شرعاً ممنوع اور حرام ہیں۔

 

(۱۱) بیع الحاضر للبادی : حاضرشہری کواوربادی دیہاتی کو کہتے ہیں،سنن ترمذی میں ہے:

 

لا یبیع حاضر للبادی ودعوا الناس یرزق اللہ بعضھم من بعض ۔[24]

 

ترجمہ: شہری دیہاتی کے لیے فروخت نہ کریں بلکہ لوگوں کو چھوڑدو کہ اللہ تعالیٰ ایک کو دوسرے کے ذریعے رزق عطا فر ماتا ہے۔

 

(۱۲) بیع تلقی الجلب: تلقی الجلب کی صورت یہ ہے کہ کسی شہر کے تاجر شہر سے باہر جا کر آنے والے تاجروں سے راستے میں سامان تجارت شہر کے بازار سے کم قیمت پرخرید لیتے ہیں، چونکہ باہر کے تاجروں کو ریٹ کا مکمل اندازہ نہیں ہو تا اس لئے شہر کے تاجر انہیں دھوکہ دے کر ان سے کم قیمت پر مال خرید لیتے ہیں اسی وجہ سے شریعت نے بائع کو اختیار دے دیا کہ اگر وہ چاہے تو بیع فسخ کر سکتا ہے۔ سنن ترمذی میں ہے کہ تلقی الجلب کے ساتھ مال بیچنے والے بائع کو بیع رد کر نے کا اختیار ہے۔[25]

 

(۱۳ (بیع نجش : غرر کی طرح نجش کی بھی مختلف صورتیں ہیں۔بیع نجش کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص مبیع خریدنے کا ارادہ نہیں رکھتا، صرف دوسرے خریداروں کو ابھارنے کے لیے قیمت کو بڑھا چڑھا کر کہتا ہے کہ میں اتنے پر خریدتا ہوں، گویا اس کا مقصد لو گوں کو دھو کہ دینا ہوتا ہے۔ شریعت میں ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔

 

عن ا بن عمر رضی اللہ عنہ قال نہی النبی صلیّ اللہ علیہ وسلمّ عن النجش۔[26]

 

(۱۴) بیع مزائدہ :بیع مزائدہ کو نیلام اور بیع من یزید بھی کہتے ہیں۔ اس بیع میں بائع یا دلال بولی کرتا ہے اور بہت سارے گاہک قیمت لگاکر خریدنے کا اظہار کرتے ہیں ،آخر میں جس گاہک نے سب سے زیادہ قیمت پر خریدنے کا اظہار کیا ہو ،مبیع اس کے نا م لکھ لیا جاتا ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ بیع جائزہے۔

 

(۱۵ ) بیع عربان: بیع عر بان کی صورت یہ ہے کہ گاہک بائع کو مبیع کی قیمت کا کچھ حصہ دے کر وعدہ کرے کہ اگر میں نے قیمت ادا نہ کی اور بیع فسخ کیا تویہ رقم آپ کی ہو جائے گی ۔ چونکہ اس میں جوئے کی شکل آجاتی ہے اس لیے رسول اللہ صلیّ اللہ علیہ وسلمّ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ ائمہ اربعہ میں صرف امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ جائز ہے اور باقی ائمہ کے نزدیک ناجائز ہے۔

 

(۱۶) بیع عریہّ:بیع عریہ کی صورت یہ ہے کہ پھلوں کے باغ میں باغ کا مالک ایک در خت کسی محتاج کو دےدے ،پھر اس فقیر کےپھل توڑنے کے لیے باغ میں بار بارآنے سے مالک تنگ ہو جائے اور وہ فقیر کو اتنے ہی پھل ٹوٹے ہوئے دے دے جتنے پھل اس کے درخت پر اندازۃ ہوتے ہیں ،لیکن فی الحال فقیر وہ درخت چھوڑے اور باغ کے کاٹنے کے وقت اپنے پھل وصول کریں، بظاہر یہ معاملہ درخت پر لگے ہوئے پھلوں کے بدلے میں ٹوٹے ہوئے پھل دینا ہے لیکن حقیقت میں یہ با غ کے مالک کی طرف سے عطیہ اور احسان ہے۔ جمہور علماء اس کو جائز کہتے ہیں ،البتہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صرف پانچ وسق میں جائز ہے۔

 

(۱۷) بیع سنین ومعاومہ:سنۃ اور عام دونوں سال کو کہتے ہیں، اس بیع کی تصویر یہ ہے کہ بائع کہے کہ اس سال میرے باغ میں جتنے پھل یا کھیت میں جتنا فصل پیدا ہو جا ئے اس کو اتنے قیمت پر فروخت کرتا ہوں۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ّ نے اس سے منع فر مایا ہے۔ عدم جواز اس وجہ سے ہے کہ یہ معدوم کی بیع ہے اورآنے والے پھل اور فصل کا پیدا ہونا یقینی بھی نہیں اور اگر پیدا بھی ہو جائے تو اس کی مقدار مجہول ہے۔

 

(۱۸) بیع عینہ: بیع عینہ کی صورت یہ ہے کہ ایک حاجتمند اور مجبور شخص کسی صاحب استطاعت شخص سے قرض مانگے ،وہ قرض تو نہ دے البتہ یہ کہے کہ ۱۰۰ روپے کی یہ چیز ۱۲۰ روپے میں مجھ سے خرید لو اور نقد ۱۰۰ روپے پر بیچو کراپنی ضرورت پوری کرو بعد میں مجھے ۱۲۰ روپے دے دیں۔

 

بیع کی یہ صورت بھی ناجائز ہے کیونکہ یہ قرض سے ناجائز طریقہ پر نفع حاصل کرنے کا ایک بہانہ ہے۔

 

بیع مصّراۃ: مصراّۃ تصریہ سے ماخوذ ہے ،تصریہ کے معنی ہیں دودھ کو جانوروں کے تھنوں میں روکے رکھنا۔ اگر مادہ جانورں مثلاً گائے ،بھینس،بکری اور اونٹنی کے تھنوں میں دودھ کو کئ روز تک چھوڑا جائے تاکہ بیچتے وقت گاہک کو یہ مادہ جانور زیادہ دودھ دینے والا نظر آجائےاورزیادہ قیمت میں اس کو خرید لے تو اس کو بیع مصّراۃ کہتے ہیں۔ یہ دھوکہ ہے ۔احناف میں سے قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور ائمہ ثلاثہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں مشتری کو اختیار ہے،چاہے جانور کو واپس کریں اور جو دودھ اس سے لیا ہے اس کے عوض ایک صاع (ساڑے تین سیر)کھجور بھی بائع کو دے دے اورچاہے تو مبیع کو قبول کرکے اپنے پاس رکھ لے۔

 

تجارت میں خیارا ت((Options سے متعلق صارف کے حقوق کا شرعی جائزہ

خرید وفروخت اور لین دین میں شفافیت لانے کے لیے اور فریقین ( بائع اور مشتری) کے درمیان باہمی نزاع کےخاتمے کے لیےاسلام نے معاملات میں خیارات کےایک اہم باب کو کھولا ہے ، تاکہ بوقت ندامت فسخ معاملہ ممکن ہو سکے۔اور فریقین میں جس کو نقصان کا اندیشہ ہو ،بچ سکے۔ خیارات کا باب اگر چہ بائع اورمشتری دونوں سے متعلق ہے لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو اس کی ضرورت زیادہ تر صارف اور مشتری کو پڑتی ہے کیونکہ ، مبیع بائع کے پاس کافی وقت سے موجود ہوتا ہے اور مشتری کے ہاتھ میں ابھی ابھی آنے والی ہے، لہٰذا مشتری کو اس کے عمدہ اور ردی ہونے کامکمل علم نہیں ہے۔

 

خیار کا لغوی واصطلاحی مفہوم :

خیار کے لغوی معنی کے بارے میں صاحب بحر الرائق رقم طراز ہے :

 

و فی المصباح الخیار و الاختیار ، وفسّرہ فی فتح الباری با لتخییر بین الامضاء والفسخ ۔[27]

 

مصباح میں ہے کہ خیار اور اختیار دونوں کے ایک معنی ہیں، اور فتح الباری میں خیار کی تفسیر( بیع کے) نفاذ اور فسخ کے درمیان اختیار دینےسے کی ہے۔

 

اصطلاح میں خیار سے مراد "ھو حق العاقد فی فسخ العقداو امضائہ لظھورمسوغ شرعی اوبمقتضی اتفاق عقدی:[28]

 

خیار عاقد( بائع یا مشتری) کا بیع کے نافذ یا فسخ کرنے کا حق ہے شرعی گنجائش کی وجہ سے یا عقدی اتفاق کے تقاضے کی وجہ سے۔

 

خیار کی قسمیں :

 

خیارات کی بنیادی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

 

(۱) خیار رویت (۲)خیار شرط(۳) خیار عیب (۴)خیار تعین

 

(۱) فقہ اسلامی میں خیارِ شرط کا مفہوم

 

خیار کے معنی کے با رے میں صاحب بحر الرائق لکھتے ہیں :" وفی المصباح :الخیار و الاختیار"[29] مصباح اللغات میں ہے کہ خیار کے معنی اختیا ر اورمنتخب کرنے کے ہیں اور جب شرط کی طرف اس کی اضافت کی جائے تو اس کے بارے میں آگے لکھتے ہیں " من اضافۃ الشیء الی سببہ لانّ الشرط سبب للخیار" [30]خیار الشرط میں جوخیار کی اضافت شرط کی طرف ہوئی ہے یہ شئ کا اپنے سبب کی طرف اضافت ہے، مطلب یہ ہے کہ یہاں مشتری کا اپنے لیے خیار کی شرط لگانے کی وجہ سے اس کے لیے خیار ثابت ہو رہا ہے۔ مزید لکھتے ہیں "وفسرہ فی فتح الباری بالتخییر بین الامضاء والفسخ۔ "[31]فتح الباری میں وضاحت کی گئی ہے کہ بیع کے نافذ کرنے اور فسخ کرنے کے اختیار کو خیار شرط کہتے ہیں۔

 

خیار شرط کے جواز کے دلائل اور اس کی مدّت کے بارے میں اقوال ِ فقہاء

 

صاحب ہدایہ فرماتےہیں :

 

خیار الشرط جائز فی البیع للبائع والمشتریو لھما الخیار ثلاثۃ ایاّم فما دونھا۔[32]

 

مطلب یہ ہے کہ خیار شرط بائع اور مشتری کے لیے جائز ہے اور ان کے لیے تین دن یا اس سے کم اختیار حاصل ہے۔

 

فتاوٰی عالمگیری میں ہے :

 

یصح البیع بشرط الخیار لاحد العاقدین او لھما جمیعاً عندنا وکذا خیار الشر ط لاجنبی جائز عندنا کذا فی فتاوٰی قاضی خان و ھو موضو ع للفسخ لا للاجازۃ عندنا۔ [33]

 

اور مزیدلکھتے ہیں:

 

وجائز بالاتفاق وھو ان یقول علی انیّ بالخیار ثلاثۃ ایام فما دونھا ومختلف فیہ وھو ان یقول علی انیّ بالخیار شھراً او شھرین۔[34]

 

اس عبار ت کا مطلب یہ ہے کہ مالک اور گاہک میں سے کسی ایک کے لیے یا دونوں کے لیے ہمارے ہاں خیار شرط کے ساتھ بیع کرنا جائز ہےاوراسی طرح ہمارے نزدیک ایک اجنبی شخص کے لیے خیار شرط لگانا بھی جائز ہے اسی طرح فتاوٰی قاضی خان میں ہےاورہمارے مذہب کے مطابق یہ خیار یعنی خیارِ شرط (معاملہ )کے توڑنے کے لیے وضع کیا گیا ہے نفاذ کے لیے نہیں،اور یہ بالاتفاق جائز ہے اور وہ یہ کہ مشتری ( گاہک ) کہے کہ اس شرط کے ساتھ کہ مجھے تین دن یا اس سےکم اختیا ر حاصل ہو گا، اور مختلف فیہ ہے اور وہ یہ کہ مشتری (گاہک)کہے کہ مجھے ایک ماہ یا دو ماہ کے لیے اختیار ہو گا ۔ اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ صارف کے لیے خیا رشرط لگانا بالاتفاق جائز ہے لیکن اس کے مدت میں اختلاف ہے ،تین دن تک تو کوئی اختلاف نہیں البتہ تین دن سے زیادہ میں اختلاف ہے ۔

 

علامہ کاسانی رحمۃاللہ علیہ بدائع الصنائع میں لکھتے ہیں:

 

(ومنھا ): شرطُ خیار غیر موقّت اصلاً والاصل فیہ انّ شرط الخیاریمنع انعقاد العقدِ فی حق الحکم للحال فکان شرطاً مغیّراً مقتضی العقدِ وا نّہمفسد فی الاصل وھو القیاس الّا انّا عرفنا جوازہ استحساناً بخلاف القیاس بالنّص وھو ما رُ وِیَ انّ حبّان بن منقذ کان یغبن فی التجاراتِ فشکا اھلہ الی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم فقال لہ "اذا بائعت فقل: لا خلابۃ َ ولیَ الخیار ثلاثۃ ایّا م" فبقی ماوراء المنصوص علیہ علی اصل القیاس ۔ [35]

 

اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ( بیوعات اور معاملات کے جو فاسد شروط ہیں ) ان میں سے یہ بھی ہے کہ (معاملہ میں) ایسا شرط ِ خیار لگایا جائے (جس کا کوئی وقت معلوم نہ ہو یا )جس میں وقت کی کوئی قید نہ ہو،اس میں قاعدہ اور قانون یہ ہے کہ خیار شرط بیع کو حکم کے اعتبا ر سے فی الحال منعقد ہونے سے روکتا ہے، تو یہ ایسا شرط ہے جو مقتضی عقد کے مغایر یعنی خلاف ہے اور اصل میں یہ (معاملہ کو) فاسد کرنے والا ہےاور قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے لیکن ہم نے استحساناً ( اور) خلاف قیاس اس کے جواز کو نص کے ذریعے معلوم کیا ہے اور وہ نص یہ ہے کہ حضرت حبان ابن منقذ تجارات( بیوعات )میں خسارہ اٹھاتے تھے تو اس کے گھر والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی ۔رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فر مایا کہ جب تم بیع کرتے ہو تو کہا کرو کہ کوئی دھو کہ نہ ہوگا اور میرے لیے تین دن تک خیار ہو گا۔ تو جو منصوص علیہ کے علاوہ ہے وہ قیاس کےقانون کے مطابق رہ گیایعنی جائز نہیں ، علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ کے اس تحقیق سے نہ صرف خیار شرط کا جواز معلوم ہوتا ہے بلکہ جواز کے ساتھ علت جواز اور مدت جواز بھی ظاہر ہوتا ہے ، علت جواز تو یہی حدیث ہے جس کو نص کا در جہ حاصل ہے اور مدت ِ جواز حدیث میں مذکورہ وقت یعنی تین دن ہیں۔در اصل بات یہ کہ فقہاء کرام نے خیار شرط کے جواز اور عدم جواز کے بارے مین تین صورتیں ذکر کی ہیں ۔پہلی صورت یہ ہے کہ گاہک خرید کرتے وقت سامان کے مالک سے کہے کہ میں نے یہ سودا آپ سے خرید لیا اس شرط کے ساتھ کہ میرے لیے خیار ہے یا یہ کہے کہ میرے لیے کئی دن خیار ہے یا اس طرح کہے کہ مجھے ہمیشہ کے لیے اختیار ہو گا۔ اس صورت کے عدم جواز پر فقہاء کرام کا اتفاق ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ گاہک مالک سے کہے کہ میں نے مبیع خرید لیا اس شرط کے ساتھ کہ میرے لیے تین دن تک خیار رہے گا یا تین دن سے کم وقت بتائے مثلاً ایک یا دو دن بتائے تو یہ صورت بالاتفاق جائز ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ گاہک تین دن سے زیادہ وقت بتائے مثلاً کہے کہ میرے لیے چاردن یا ایک ماہ یا دو ماہ تک خیا رہو گا ۔اس صورت میں فقہاء کرام کا اختلاف ہے اور اوپر جو علامہ کاسانی کے بدائع الصنائع سے عبارت پیش کی گئی ہے اس میں بھی تصریح ہے کہ اگر قیاس کے تقاضے کو ملحوظ رکھا جائے تو تین دن میں بھی جائز نہیں ہے لیکن استحساناً اور خلاف القیاس نص کا لحاظ رکھتے ہوئے تین دن میں جائزرکھاگیا اور تین دن سے زا ئد میں قیاس کے مطابق ناجائز رہا۔ امام ابو حنیفہ ، امام زفر اور امام شافعی رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ جس معاملہ اور بیع میں ایک یا دو ماہ کا خیار رکھا جائے ،خیار بائع کے لیے ہو یا گاہک کے لیے تو وہ بیع فاسد ہے اور صاحبین یعنی امام ابو یوسف اور امام محمد رحمھم ا للہ فرماتے ہیں کہ یہ بیع جائز ہے۔

 

صاحب بحر الرائق نے خیار شرط کے جواز کے بارے میں یہی روایت زیادہ تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ لکھتے ہیں:

 

والاصل فی ثبوتہ مارواہ ابن ماجہ فی سننہ انّ حبان بن منقذبن عمر کان رجلاً قد اصابہ امۃ فی راسہ فکسرت اسنانہ وکان لا یدع علی ذالک التجارۃ فکا ن لایزال یغبن فاتی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فذکر لہ ذالک فقال لہ : اذا انت بایعت فقل لا خلابۃ ، ثمّ انت فی کلّ سلعۃ ابتعتھا بالخیار ثلاثۃ لیال فاذا رضیت فامسک ، وان سخطت فارددھا علی صاحبھا [36]

 

مطلب یہ ہے کہ خیا ر شرط کے ثبوت میں دلیل وہ روایت ہے جس کو ابن ماجہ نے اپنے سنن میں ذکر کی ہےکہ حبان بن منقذ بن عمر ایک ایسا آدمی تھا جس کےسر میں کچھ چوٹ لگی تھی پس اس کے دانت ٹوٹ گئے تھےاور وہ اس کے باوجود بھی تجارۃ (جیسے با برکت پیشے) کو نہ چھوڑ تے تھے ،وہ ہمیشہ دھوکہ کھا جاتے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اس سے اس( بات) کا تذکرہ کیاتو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فر مایا کہ جب تم بیع کرتے ہو کہا کرو کہ کوئی دھوکہ نہ ہو گا ، پھر تم جس سامان کو بھی خرید وگے اس میں تم کو تین راتیں خیار ہو گا ،پس جب تم راضی ہو جاو تو (اس مبیع )کو رکھ لو اور اگر راضی نہ ہو تو اس کو واپس کرو۔

 

بحر الرائق کے اس عبارت سے اندزہ ہوتاہے کہ یہ روایت بدائع الصنائع کے عبارت میں ذکر شدہ روایت سے تفصیلی ہے ۔لیکن جو بات مقصود تھی یعنی خیار شرط کا جائز ہونا اور اس کے مدت کاتین دن ہونا ،وہ دونوں میں یکساں ہے۔البتہ اس روایت میں صارف کے رضا اور عدم رضا اور نفاذ بیع وفسخ بیع کےاختیارکابھی ذکر ہے۔یہی وجہ ہےکہ فقہاء کرام صارف کے لیے تین دن کے خیار شرط کے جواز پر متفق ہیں اور اس سے زیادہ میں اختلاف کیا ہے۔صاحب ہدایہ لکھتے ہیں :

 

خیار الشرط جائز فی البیع للبائع والمشتری ولھما الخیار ثلاثۃ ایام فما دونھا والاصل فیہ ما روی ان حبان ابن منقذ بن عمرو الانصاری کان یعبن فی البیاعات فقال لہ النبی علیہ السلام اذا بایعت فقل لا خلا بۃ ولی الخیار ثلاثۃ ایاّم ولایجوز اکثر منھا عند ابی حنیفۃ رحمۃ اللہ علیہ وھو قول زفر والشافعی رحمھما اللہ وقالا یجوز اذا سمیّ مدہ معلومۃ لحدیث ابن عمررضی اللہ عنہ انہ اجاز الخیار الی شھرین۔ [37]

 

اس عبارت میں صاحب ہدایہ فر ماتے ہیں کہ بیع میں خیار شرط بائع اور مشتری کے لیے جائز ہے اور ان دونوں کے لیے تین دن یا اس سے کم خیا رہوگا اور دلیل اس میں وہ حدیث ہے جس میں روایت کیا گیا ہے کہ حبان ابن منقذ بن عمرو الانصاری خرید وفروخت میں نقصان اٹھاتے تھے توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے( اس سے )فرمایاکہ جب تم بیع کرتے ہو تو کہا کرو کہ کوئی دھوکہ نہیں ہے اور میرے لیے تین دن کا اختیار ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک تین دن سے زیادہ جائز نہیں ہے۔ یہی قول امام زفر اور امام شافعی کا ہےاور صاحبین فرماتے ہیں کہ جب مدت معلوم ہو تو (زیادہ )بھی جائز ہے کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے دو ماہ تک خیار جائز رکھا۔

 

صاحب ھدایہ نےواضح کر دیا کہ فریقین( مالک اور گاہک) دونوں اس حق( خیارشرط )کے مستحق ہیں ،لیکن جو دو روایتوں کو ذکر کر دیا ان میں صرف صارف( گاہک)کے لیے خیار لینے کا تذکرہ ملتا ہےجو ہمارے کلام کا موضوع ہے لیکن بائع (مالک) کے لیے خیار لینے کا تذکرہ نہیں ملتا اور اس کی دلیل اوپر بحرالرائق کی عبارت میں ذکر کیے گیے روایت کے الفاظ ہیں:

 

ثمّ انت فی کلّ سلعۃ ابتعتھا بالخیار ثلاثۃ لیال فاذا رضیت فامسک ، وان سخطت فارددھا علی صاحبھا۔ [38]

 

اس عبارت میں یہ بیان کیا گیا ہےکہ تم جو بھی سامان تین دن خیار کے ساتھ خرید لوتو اگر پسند ہو تو بیع نافذ کرو اور اگر پسند نہ ہو تو واپس کرو۔معلوم ہو گیا کہ یہ صحابی مشتری ہونے کی حیثیت سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جواب میں خریدنے کی صورت میں خیار لینے کا حکم دے دیا۔ البتہ یہ کہنا قرین ازقیاس ہے کہ صاحب ہدایہ نے اس روایت کوان الفاظ کے بغیر ذکر کر کےگویااطلاق کی طرف اشارہ کیا ہے ،یعنی چونکہ حدیث کے الفاظ مطلق ہیں ۔خریدنے اور بیچنے دونوںصورتوں کو شامل ہیں اس لیےاس نےمشتری کے ساتھ بائع کے لیےبھی خیار کے جواز پر اس سے استدلال کیا۔ویسے بھی خیارات کا تعلق زیادہ تر مشتری کے ساتھ ہے جیسا کہ خیار رویت میں ذکر کیا گیا ہےکہ حضرت طلحہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے نزاع کے فیصلے میں حضرت جبیر ابن مطعم رضی اللہ عنہ نے مشتری کو خیار دے دیا ۔

 

روئیت دیکھنے کو کہتے ہیں اور خیار روئیت کا مطلب ہے کہ مشتری مبیع کو دیکھے بغیر خرید لے ۔خیار روئیت کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر ایسا معاملہ کیا گیا تو مبیع کے دیکھنے کے بعدمشتری کو اختیار ہو گا ، چاہے تو بیع نافذ کریں اور چاہے تو فسخ کریں ۔ شریعت نے یہ سہولت تو دی ہے کہ بوقت ضرورت بن دیکھے خریدو فروخت کا معاملہ کر سکیں، لیکن اس سہولت کے ساتھ نقصان سے بچنے کا راستہ بھی بتایا ہے کہ مشتری کے لیے دیکھنے کے بعد معاملہ باقی رکھنے اور ختم کرنے کا اختیار بھی ہو گا۔ مبیع اکثر تو بیع کے وقت موجود ہوتا ہے اور مشتری اس کو دیکھنے کے بعد خریدتا ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کہ مبیع موجود نہیں ہوتا اوربائع مشتری کے سامنے اس کے اوصاف بیان کرتا ہے اور مشتری اس کو خرید لیتا ہے، ایسا کرنا شرعاً جائز ہے اور مشتری کے لیے خیار روئیت ثابت ہو گا ، دیکھنے کے بعد اگر پسند آگیا توطے شدہ قیمت مکمل ادا کر کے بیع نافذکرے گا ، اگر پسند نہ آئےتوبیع فسخ کرے گا، علامہ ابن ہمام فتح القدیر میں لکھتے ہیں:

 

ومن اشتریٰ شیئا لم یرہ فالبیع جائز و لہ الخیار اذا رآہ ان شاء اخذہ بجمیع الثمن وان شاء ردہ سواء رآہ علی الصفۃ التی وصفت لہ اوعلی خلافھا۔ [39]

 

اور یہی عبارت فتاویٰ عالمگیری میں بھی ہےاور اس عبارت کے بعد اس فتاویٰ میں یہ عبارت ہے:

 

ھو الخیار یثبت حکماً لا شرطاً۔ [40]

 

مشتری کا اپنے لیے خیار رویت لگانا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کے بغیر بھی یہ خیار مشتری کے لیے ثابت ہے۔

 

خیار روئیت کے جواز پر امام ابو حنیفہ ،امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ متفق ہیں لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ خیار ناجا ئز ہے کیونکہ مبیع مجہول ہے۔لیکن احناف دلیل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ حضور صلیّ اللہ علیہ وسلمّ کا ارشاد ہے کہ جس نے کوئی چیز بن دیکھےخرید لی تو جب وہ دیکھ لے اسے اختیار ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ جہالت مضر بھی نہیں کیونکہ جب وہ دیکھ لے اور پسند نہ ہو تو بیع فسخ کرے گا۔ علامہ ابن الہمام فتح القدیر میں صاحب ہدایہ کے عبارت کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

وقال الشافعی لا یجوز العقد لان المبیع مجہول ولنا قولہ علیہ السلام من اشتریٰ شیئاً لم یرہ فلہ الخیاراذ رآہ ، ولان ّ الجہالۃ بعدم الروئیۃ لا تفضی الی المناز عۃ لانہ لو لم یوافقہ یردّہ۔[41]

 

امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ یہ بیع جائز نہیں کیونکہ مبیع مجہول ہے اور ہمارے لئے دلیل آپﷺ کا یہ قول ہے کہ جس نے بن دیکھے کوئی چیز خرید لی تو جب دیکھے تو اس کے لئے خیار ہے،اور نہ دیکھنے کی وجہ جو جہالت ہے وہ جھگڑے پیدا نہیں کرتا کیونکہ اگر مرضی کے موافق نہ ہو تو واپس کرے گا۔

 

خیار روئیت صرف صارف کے لیے ثابت ہے ، صارف خواہ مشتری ہو ، خواہ کرایہ دار ہو اور جو اصل مالک ہویعنی بائع یا مالک مکان اس کے لیے ثابت نہیں ہے ، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ ابن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے ہا تھ بصرہ کی ایک زمین بن دیکھے فروخت کر دی تھی ، دونوں حضرات نے زمین کو نہ دیکھا تھا۔حضرت طلحہ سے کسی نے کہا کہ آپ گھاٹے میں رہے تو اس نے کہا کہ میرے لیے خیار ہے کیونکہ میں نے ایسی زمین خریدی ہے جسے دیکھا نہیں ہے ،اور حضرت عثمان سے کہا گیا کہ آپ کو نقصان میں ہو اتو فرما یا کہ میرے لیے خیار ہے کیونکہ میں نے ایسی چیز فروخت کی جس کو میں نے نہیں دیکھا ہے۔ پس دونوں نے ایک اور صحابی حضرت جبیرا بن مطعم رضی اللہ عنہ کو ثالث مقررکیا ( تاکہ وہ فیصلہ کرے کہ خیار کس کے لیے ثابت ہے؟ ) توحضرت جبیر ابن مطعم نے حضرت طلحہ کے حق میں خیار روئیت کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ صحابہ کی موجودگی میں تھا۔ صاحب ہدایۃ لکھتے ہیں:

 

و روی ان عثمان ابن عفان باع ارضاً با لبصرۃ من طلحۃ بن عبید اللہ فقیل لطلحۃ انک قد غبنت فقال لی الخیار لانی اشتریت ما لم ارہ وقیل لعثمان انک قد غبنت فقال لی الخیار لانی بعت ما لم ارہ فحکما بینھما جبیر ابن مطعم فقضی ٰ بالخیار لطلحۃ وکان ذالک بمحضر من الصحابۃ۔[42]اس روایت کو صاحب بحر الرائق نے بھی انہی الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ [43]

 

فقہ اسلامی میں "خیار عیب " کا مفہوم

عیب کے معنی نقصان کی ہیں۔علامہ ابن ہمام عیب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں"والعیب ما تخلو عنہ الفطرۃ السلیمۃ مما یعد بہ ناقصا[44]"عیب وہ ہے جب کوئی چیز اپنی اصل فطرت سے خالی ہو اور جس کی وجہ سے وہ چیز ادھوری اورنقصان والی شمار کی جاتی ہو۔

 

فقہ اسلامی میں" خیار عیب" کا ثبوت

 

اگرا یک صارف کوئی مطلوبہ مبیع (خواہ سامان ہو یا جانور، جو بھی جنس ہو) بوقت خرید دیکھ کر لے جائے ،پھر جب اس مبیع کو اپنے پاس دوبارہ دیکھے تو اس میں کوئی عیب نظر آجائے توصارف کو شرعاً یہ اجازت اور اختیار ہے کہ وہ اس مبیع کو لوٹائے اوربائع سے قیمت کے واپسی کا مطالبہ کریں۔ خیار عیب کے ثبوت کےمتعلق علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ بدائع الصنائع میں لکھتے ہیں :

 

واما خیا ر الشرط والعیب فثبت باشتراط العاقدین اماخیارالشرط فظاہر،لانہ منصوص علیہ فی العقد واما خیار العیب فلان السلامۃ مشروطۃ فی العقد دلالۃ ،والثابت بدلالۃ النص کالثابت بصریح النص فکان ثابت حقا للعبد ۔[45]

 

عاقدین (سامان کا مالک اور گاہک)کے درمیان معاملہ میں اگر خیار شرط لگا یا جائے تو ظاہر ہے (کہ معاملہ شرط کے اختتام تک موقوف رہے گا)کیونکہ خیار شرط بیع میں منصوص علیہ ہے اورخیار عیب کے بارے میں قانون یہ ہے کہ ہر معاملہ میں مبیع کا عیوب سے پاک ہونا مشروط ہے دلالۃ ، اور دلالت سے ثابت ہونے والی چیز ،نص سے ثابت ہونے والی چیز کی طرح ہوتی ہے،تو گویا خیار عیب بندے کے( شرعی) حق کے طور پر ثابت ہے۔

 

فتاوٰی عا لمگیری میں لکھا ہے:

 

خیار العیب یثبت من غیر شرط، واذا اشتریٰ شیاَ لم یعلم بالعیب وقت الشراء ولا علمہ قبلہ والعیب یسیر اَو فاحش فلہ الخیار ان شاء رضی بجمیع الثمن وان شاء ردہ ۔[46]

 

خیار عیب شرط لگانے کے بغیر ثابت ہوتا ہے، اگر کسی( گاہک )نے کوئی چیز خرید لی اورخریدتے وقت یا اس سے پہلے اس کو کوئی عیب نظر نہ آئے اور پھر تھوڑا یا بہت عیب( اس مبیع) میں گاہک کو ظاہر ہواتو وہ اس بات میں مختار ہے کہ مبیع کو واپس کریں اور اس کی قیمت کا مطالبہ کریں یا پوری قیمت ہی سے لےلے۔

 

عالمگیری کے اس عبارت سے واضح ہو تا ہے کہ بیع میں خیا ر عیب گاہک کے لیے شرط لگا ئے بغیر ثابت ہو تا ہے ، سامان کا مالک راضی ہو یا نہ ہو ، اور یہ گاہک کا شرعی حق ہے، البتہ مالک کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے کہ اگر مشتری( گاہک) عیب کے با وجود سودا لینا چاہتا ہو تو قیمت پوری ادا کرنی ہوگی اور و ہ اس کا مجاز نہ ہو گا کہ عیب اور نقصان کے بقدر قیمت کے کمی کا مطا لبہ کریں کیونکہ فقہ کا قانون یہ ہے کہ عیب اور نقصان کے مقابلے میں ثمن( قیمت )کا کوئی حصہ کا ٹا نہیں جا تا اس لیے کہ عیب کوئی مال نہیں کہ اس کے مقابلے میں قیمت کا کوئی حصہ آجائے بلکہ یہ وصف ہےاور وصف کے مقابلے میں قیمت کا کوئی حصہ نہیں آتا۔ البتہ صاحب فتح القدیر علامہ ابن ھمام کی با ت بھی وزنی ہے وہ صا حب ھدایہ کی عبارت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

 

واذا اطلع المشتری علی عیب فی المبیع فھو با لخیار ان شاء اَخذہ بجمیع الثمن وان شاء ردہ لان مطلق العقد یقتضی وصف السلامۃ فعند فواتہ یتخیر۔[47]

 

یعنی مشتری کو مبیع میں جب عیب کا علم ہو جائے تو کل ثمن سے لینے یا بیع منسوخ کرنے کا وہ مجاز ہے، کیونکہ ہر عقد اس با ت کا تقاضہ کرتا ہے کہ بیچا جانے والا سودا تمام عیوب سے پاک ہو۔اور آگے شرح میں لکھتے ہیں کہ "ولم یکن شرط البراءۃ من کل عی " [48]اوربیچنے والےنے تمام عیوب سے سبکدوشی کا اعلان بھی نہ کیا ہو۔

 

اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ اگر مالک گاہک سے یہ کہے کہ میں سودا تیرے ہا تھ بیچتا ہوں لیکن میں کسی قسم کے عیب کا ذمہ دار نہ ہوگا اور اس بات کو مشتری نے قبول بھی کر دیا تو معاملہ طے پانے کے بعد جس قسم کا عیب بھی سودا میں نکل آئے ،مالک شرعا اس کا ذمہ دار نہ ہوگا اور گاہک ہر گز سودا واپس نہیں کر سکتا۔

 

خیار عیب کب معتبر ہے؟

 

خیار عیب اس وقت معتبر ہو گا جب مندرجہ ذیل شرطیں پائی جائیں۔ سودا کرنے کے وقت یا اس کے بعد مبیع مشتری کو سپرد کرنے کےوقت سے پہلے پہلے عیب پیدا ہو گیا ہو، اگر اسکے بعد پیدا ہو گیا ہو تو مشتری کے لیے خیار عیب ثابت نہ ہو گی۔اسی طرح یہ عیب قبضہ کے بعد مشتری کے ہا ں بھی نمایاں ہو ۔قبضہ اور عقد (معاملہ) کرتے وقت مشتری کا عیب سے نا واقف ہونا بھی ضروری ہے،اگر ان اوقات میں مشتری کو عیب کا علم تھا تو اس کے لیے خیار عیب ثابت نہ ہو گی۔سامان کے مالک یعنی بائع نے تمام عیوب سے بیزاری کا اعلان نہ کیا ہو اگر اس نے یہ شرط لگائی ہو کہ میں کسی قسم کے عیب کا ذمہ دار نہ ہوں گا تو پھر مشتری کے لیے خیار عیب ثابت نہ ہو گی۔

 

خیار عیب کا حکم

 

خیار عیب کے ہوتے ہوئے جو سامان فروخت کیا جائے توگاہک اس کا مالک ہے لیکن خیار عیب کے وقت تک یہ ملکیت عارضی ہے ،اگر اس نے خیار عیب استعمال کرتے ہوئے بیع کو فسخ کردیا تو اس کی ملکیت باطل ہو جائے گی۔

 

خیار عیب ورثہ کو بھی منتقل ہو سکتا ہے،یعنی گاہک مبیع خریدنے کے بعد اچانک مر جائے تو ورثہ خیار عیب کا استعمال کرتے ہوئے بیع کو فسخ کر سکتے ہیں۔

 

فقہ اسلامی میں " خیار تعین " کا مفہوم

 

تعین کے معنی ہیں معین اور ممتاز کرنا۔ اصطلاح فقہ میں خیار تعین کے معنی یہ ہیں :

 

وھو ان یبیع احد العبدین اوالثلاثۃ او احد الثوبین او الثلاثۃ علی ان یاخذ المشتری واحدا ۔[49]

 

خیا ر تعین یہ ہے کہ دو یا تین غلاموں یا کپڑوں میں کسی ایک کو اس شرط کے ساتھ بیچے کہ مشتری ان سے ایک کو خریدیں گے۔

 

معاملات اور بیوعات عمومی طور پر ایک معین اور معلوم مبیع میں ہوا کرتی ہیں لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کہ مشتری مبیع کے چند افراد میں کسی ایک کو خریدنا چاہتا ہے ۔ایسے موقع پر وہ ان افراد میں اپنے لیے خیار تعین کا مطالبہ کرتا ہے ،یعنی مشتری کہتا ہے کہ میں ان افراد میں کسی ایک کو کو منتخب کرکے اس کی قیمت ادا کروں گا اور باقی افراد کو واپس کروں گا،تو کیا شریعت میں ایسا کرنا جائز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں جائز تو ہے لیکن مطلقاً نہیں بلکہ چار سے کم افراد میں انتخاب کر سکتا ہے زیادہ میں نہیں۔ صاحب بحرالرائق لکھتے ہیں:

 

وصح خیار التعین فیما دون الابعۃ۔[50]

 

فروخت ہونے والی اشیا ء دو قسم کی ہیں ایک قسم وہ اشیا ءہیں جن کو قیمی کہا جاتا ہے یعنی اگر وہ ہلاک ہوجا ئے تو تاوان میں اس کی قیمت ادا کی جائی گی اور ایک قسم ان اشیاء کی ہے کہ جب وہ ہلاک ہو جائے تو تاوان میں ان کی قیمت نہیں بلکہ ان کا مثل دیا جائے گا ایسے اشیاء کو مثلی کہا جا ہے۔ مثلی چیزوں میں خیار تعین صحیح نہیں ہے اور قیمی چیزوں میں صحیح ہے ۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ چار سے کم مثلی چیزوں میں خیار تعین جائز ہے اور قیمی میں جائز نہیں ہے۔ اور چار میں صحیح نہیں ہے ۔

 

صح خیار التعین فی القیمیات لا فی مثلیات فیما دون الاربعۃ۔ ولایصح فی الاربعۃ۔[51]

 

قیمی چیزوں میں خیارتعین چار سے کم چیزوں میں جائز ہے، مثلی میں جائز نہیں اور چار میں جائز نہیں ۔

 

اگر مشتری خیار تعین کے ساتھ دو چیزیں لے جائیں تو ایک مشتری کی ملک ہو گی اور ایک بائع کی امانت ہو گی، اسی دوران کہ یہ دونوں چیزیں مشتری کے قبضہ میں ہیں اگر خدانخواستہ ایک چیز ہلاک اور ضائع ہو جائے تو مشتری کے ذمہ ثمن یعنی بائع اور مشتری کے درمیان طے شدہ قیمت ا دا کرنا لازم ہو گیا۔جب بائع اور مشتری دونوں راضی ہوں تو مشتری کے لیے خیار تعین کے ساتھ خیار شرط لگانا بھی جائز ہے ،مثلاً مشتری نے دو کپڑے یا دو اور چیز یں بائع سے لے کر کہا کہ میں ان دونوں میں سے ایک کو متعین کر کے قیمت ادا کروں گا اور دوسرا لوٹا لوں گا لیکن میرے لیے تین دن خیار ہو گی تو یہ جائز ہے،پس اگر اس نے ایک کپڑے کو واپس کیا تو یہ خیا ر تعین کی وجہ سے ہو گا ،دوسرے کپڑے میں اس کو خیار شرط حاصل ہے جب تک خیار شرط کا وقت ختم نہ ہوئی ہو اس وقت تک وہ دوسرے کپڑے میں بیع کے رد کرنے اور نافذ کر نے کا مجازہے ، اگر رد کیا تو مبیع واپس کرے گا اور اگر نافذ کیا تو ثمن ادکرے گا۔ کبھی کبھی مشتری سے غافل ہو جاتا ہے اور تین دن گزر جاتے ہیں لیکن وہ نہ تو ایک چیز کو معین کر کے دوسرے کو واپس کر تا ہے اور نہ بیع کو رد کر کے دونوں کو لوٹتا ہے ، اگر ایسی صورت پیش آئی تو مشتری کے لیے جو خیار تعین ثابت تھا وہ باطل ہو گیااور ایک چیز میں بیع خود بخود نافذ ہوگیا اب یہ مشتری کےذمہ ہے کہ وہ ایک کو معین کرکے اس کی قیمت کو ادا کرے اور دوسرے کو واپس کرےکیونکہ وہ اس کے پاس امانت ہے جس کا لوٹنا ضروری ہے۔

 

خیار تعین کا وارث کو منتقل ہونا

 

انسان کے لیے اپنی ضرویات کو پوری کرنا ناگزیر ہے،وہ بیمار کیوں نہ ہو لیکن جب کسی چیز کی ضرورت پڑ جائے تو اگر خود نہیں خرید سکتا تو کسی دوسرے شخص کو رقم دے کر خریدنے کے لیے بیچتا ہے ،اسی طرح کبھی ایسا بھی ہو جا تا ہے کہ سودا خریدنے کا معاملہ جاری ہوتا ہے مثلا مشتری بائع سے دو یا تین چیزوں کو خیار شرط مع خیار تعین کے ساتھ لے کر اپنے مکان لے گیا ، اورابھی نہ تین دن گزرے تھےاور نہ اس نےتعین کیا تھا کہ اچانک مشتری فوت ہو گیا تو اس صورت میں خیار شرط تو باطل ہو گیا، اب وارث کو دونوں یا تینوں چیزوں کے واپس کرنے کا کوئی اختیا ر نہ ہو گا ،البتہ خیار تعین وارث کو منتقل ہو گیا، لیکن یہ میراث نہ ہو گی بلکہ بائع اور مورث کی ملکیت کا اختلاط تھا ، اس لیے وارث کو مورث کی ملکیت جدا کرنے کے لیے اختیا ردیا گیا تا کہ وہ ایک چیز کو متعین کر کے باقی چیزوں کو واپس کر دےاور جب وہ ایک چیز کو متعین کرے تو بقیہ چیزیں اپنے مالک کوواپس کرنے تک اس کے پاس امانت رہیں گی۔

 

خیار تعین کی صورت میں اگر مبیع ہلاک ہو جائے توضمان اور تاوان کس پر ہے؟

 

جس طرح بیع اور خرید وفروخت فریقین کے لیے سہولت کا باعث ہو وہ اسی طرح کرتے ہیں اورشریعت نے بھی ممکن حد تک گنجائش دی ہے تو خیار تعین بھی اسی گنجائش کی ایک کڑی ہے، پھر کبھی تلف اور ہلاکت کی صورت بھی پیش آتی ہے تو اس کا نقصان کون برداشت کر گا؟ ،اس کا بھی شریعت نے محل بتایا ہے کہ جس کی طرف سے تعدی یا سستی ہو وہی نقصان برداشت کرے گا۔ جب مشتری خیار تعین کے ساتھ دو چیزوں میں سے ایک کا سودا کرے اور ابھی دونوں چیزیں بائع کے قبضہ میں تھیں کہ ایک چیز ہلاک ہو گیا تو ہلاک ہونے والا چیز امانت کے لیے متعین ہو گیا او رجو چیز موجود ہے وہ مبیع بننےکے لیے متعین ہو گیا، اب مشتری کو اختیار ہے چاہے لے لے اور چاہے تو واپس کرے لیکن اگر دونوں چیزیں ہلاک ہوئیں تو بیع باطل ہوجائےگی۔ اسی طرح جب مبیع کو تین افراد میں سے ایک کو متعین کر نا تھا اور ایک ہلاک ہو کر دو باقی رہ گئے تو مشتری کو اختیار ہے کہ دونوں میں سے ایک کو متعین کر کے اس کی قیمت ادا کرے اور چاہے تو دونوں کو واپس کرےاور اگر تینوں چیزیں ہلاک ہوئیں تو بیع باطل ہو جا ئےگی۔ ان تمام صورتوں پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ اس میں مشتری کی کوئی غلطی نہیں ہے نہ اس کی طرف سےکسی قسم کی سستی ہے ،بلکہ مبیع کے افراد ابھی تک بائع کے ہاتھ میں تھے اور اسی سے ہلاک ہوئیں۔اگر مشتری دو چیزوں میں سے ایک کو خیار تعین کے ساتھ خرید لے اور ان میں سےصرف ایک پر قبضہ کرے پھر وہی مقبوض چیز مشتری سے ہلاک ہو جائے تو یہی چیز بیع کے لیے متعین ہو گی اور مشتری طے شدہ قیمت کو ادا کرے گا ،اگر اس نے دوسرے چیز کو بھی قبضہ کر دیا تو یہ اس کے پاس امانت ہو گی ،اس کو اپنےمالک یعنی بائع کی طرف واپس کرے گا۔ اگر دونوں چیزیں مشتری کے قبضہ کرنے کے بعد یکے بعد دیگرے ہلاک ہوئیں تو پہلی چیز ہلاکت سے پہلے بیع کے لیے متعین ہو گیا اور مشتری کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اس کی مقرر شدہ قیمت ادا کرےاور اگر ایک ساتھ ہلاک ہوئیں تو دونوں چیزوں کی نصف نصف قیمت ادا کرنا مشتری کے ذمہ ضروری ہو گیا۔ اگر مالک سلعہ( سامان کا مالک) گاہک سے اس با ت میں نزاع اور جھگڑاکرے کہ پہلے ہلاک ہونے والی چیز زیادہ قیمتی تھی جبکہ گاہک کے خیال میں بعد میں ہلاک ہونے والی چیز پہلےہلاک ہو نے والے سے زیادہ قیمتی تھی تو اس صورت میں قسم کے ساتھ مشتری اور گاہک کی با ت تسلیم کی جائی گی،لیکن مالک یا گاہک میں سے اگر کسی ایک نے گواہ قائم کیے تو پھر گواہوں کا اعتبار ہو گا اور قسم سا قط ہو جائے گی ،گواہ خواہ بائع اور مالک کے ہوں خواہ گاہک کے ،یعنی جس کے گواہ ہوں اس کے حق میں فیصلہ کیا جائے گا۔اگر دونوں نے گوا ہ قائم کیے تو بائع کے گواہوں کو تسلیم کر کے ان پر فیصلہ کیا جائے گا، یعنی فیصلہ بائع کے حق میں کیا جائے گا۔اور مشتری کے گواہوں کو توجہ نہ دی جائے گی۔

 

خیار تعین کے دوران مبیع میں کوئی عیب پیدا ہونے کے شرعی احکامات

 

جب ایک گاہک کسی سامان کے مالک سے اس طرح خریدو فروخت کا معاملہ کرے کہ میں ان دو چیزوں میں ایک کو منتخب کر کے لے لوں گا ،دونوں چیزیں مالک کے قبضہ میں تھیں کہ ایک چیز عیب دار ہو گئی تو یہ عیب والی چیز بیع کے لیے متعین نہ ہو گا ،اگر مشتری چاہے تو کل طے شدہ قیمت ادا کر کے یہی عیب دار چیز لے لے اور چاہے تو اس کو چھوڑ کر وہ دوسرے بے عیب چیز کو اس کی طے شدہ قیمت پر لے لے،اور یہ بھی اختیار ہے کہ دونوں کو چھوڑدے۔ غور کرنے سے اندا زہ ہوتا ہے کہ یہاں بھی گاہک کی کوئی کوتاہی نہیں ہے بلکہ مالک کا اپنا مال اس کے اپنے ہا تھوں عیب دار ہوئی ہے،لہٰذا اس کی کوتاہی کا خمیازہ اسے ہی بھگتنا پڑے گا،مشتری اسے چھوڑ کر دوسرےکوخرید لے گا ، ہاں اگر مشتری یہ احسان کرنا چاہے کہ عیب کے باوجود اسی چیز کو خرید لے تو وہ اس کا بھی مجاز ہے،خواہ مبیع میں کوئی اور عمدہ صفت ہو جس کی وجہ سے وہ عیب کے با وجود نفع کے ساتھ بیچنے کی امید ہو ،خواہ مشتری بطور احسان بائع کو بچاکر خود تاوان مول لینا چاہتا ہو، مشتری کو خریدنے یا چھوڑ نے پر مجبور نہ کیا جائے گااور وہ پنے نفع حاصل کرنے یاتاوان برداشت کرنےمیں مختار ہے۔ جب بائع کے پاس دونوں چیزیں عیب دار ہو جائیں تو مشتری قیمت کم کرنے کا مجاز نہیں ہے البتہ اسے یہ اختیار حاصل ہےکہ عیبوں کے با وجود ہر ایک کے مقرر شدہ قیمت کے مطابق ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر کے خرید لے یا دونوں کو چھوڑ دے،چونکہ سودا کرتے وقت مبیع کے افراد سالم تھے اب عیب پیدا ہو گیا اور عیب ایک ایسا وصف ہے جس کے مقابے میں ثمن اور قیمت کا کچھ حصہ گھٹانا یا بڑھانا جائز نہیں ہے اس لیے مشتری وہی مقرر شدہ قیمت پر خرید لے گا ،ہاں اس عیب کے نقصان سے بچنے کے لیے اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ مبیع کو چھوڑ دے۔ یہ تو وہ صورتیں تھیں جن میں کوتاہی مالک کی تھی اب وہ صورتیں بیان کریں گے جن میں کوتاہی یا سستی گاہک اور خریدا کی ہو گی اور اسے اپنی کوتاہی کے بدلے میں نقصان بھی اس کو اٹھانا پڑے گا۔ اگر ایک گاہک اور خریدار کسی سامان کے مالک سے دو چیزوں میں سے ایک کو خیار تعین کے ساتھ خرید لے پھر دونوں پر قبضہ بھی کرے اور اس کے قبضہ میں ایک چیز میں کوئی عیب پیدا ہو گیا تو یہی عیب والا چیز بیع کے لیے متعین ہو گیا دوسرا مشتری کے پاس امانت ہے اور اگر دونوں میں عیب پید اہو گیا تو جو پہلے عیب دار ہو گیا ہو وہی بیع کے لیے متعین ہو گیا دوسرا واپس کرے گا اور اگر ایک ساتھ دونوں عیب دار ہوئیں تو جس کو چاہے کل طے شدا قیمت کے عوض لے لے اور مشتری کو اس صورت میں واپس کرنے کا کوئی اختیار نہ رہے گا کیونکہ اب مبیع میں تصرف کرنے اور نقصان پیدا ہونے کی وجہ سے مشتری کا خیار شرط باطل ہو چکا ہے، البتہ اگر ایک کا عیب بڑھ جائے یا ایک میں دوسرا عیب پید اہو جائےتو یہی بیع کے لیے متعین ہو گیا یعنی گاہک اسی کو اس کے طے شدہ قیمت کے عوض قیمت ادا کر کے لے جائے گا۔

 

خیار تعین کے ساتھ خریدے ہوئے مال میں تصرف کرنے کا حکم

 

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ گاہک دو چیزوں میں سے ایک چیز کو خیار تعین کےسا تھ خرید لیتا ہے پھر اس میں ایسا تصر ف کر تا ہے جیسے اس کا اپنا مالک اس میں تصرف کرتا ہے مثلا ً اس کو آگے بیچتا ہے یا اسے ہبہ کرتا ہے ،اگر کسی گاہک نے ایسا کیا تو اس کا خیار تعین ختم ہو گیا اور جس چیز میں اس نے ما لکا نہ تصرف کیا ہے وہ بیع کے لیے متعین ہو گیا ۔ گاہک اس کا طے شدہ قیمت مالک کو ادا کرے گا اور دوسرے چیز کو واپس کرے گا۔اس کے بر عکس اگر گاہک کی بجائے مالک نے ایک میں تصرف کیا تو اس کی تصرف اس وقت تک موقوف رہے گا جب تک کہ کوئی ایک مبیع بننے کے متعین نہ ہو جائے۔ اگر یہی مبیع بن گیا تو مالک کا تصرف باطل ہو جائے گا اور اگر یہ مشتری(گاہک ) کے پاس بطور امانت رہ گیا اور دوسرا بیع کے لیے متعین ہو گیا تو اس میں مالک کا تصرف نافذ ہو جائے گا مثلاً اگر مالک نے کسی اور کے ہاتھ بیچا ہو تو اس کا موقوف بیع اب نافذ ہو جائے گی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہےکہ مشتری دونوں چیزوں میں مالکانہ تصرف کر تا ہے اس صورت میں گاہک کے لیے خیار شرط تو باطل ہوجائے گا البتہ خیار تعین اب بھی باقی ہے ، دونوں چیزوں کو واپس تو نہیں کر سکتا لیکن دونوں میں ایک کو منتخب کر کے اسکی طے شدہ قیمت کو ادا کرے گا۔ اگر گاہک دو چیزوں میں سے ایک کو خیار تعین کے ساتھ خرید لے پھر دونوں کو آگے بیچےاس کے بعد خیار تعین کا استعمال کرتے ہوئے ایک کو بیع کے لیے متعین کرے تو اس ایک میں بیع یعنی اس کا آگے بیچنا صحیح ہو جائے گا۔ جب ایک گاہک کپڑےکے مالک سے سودا کر کے اس سے دو کپڑوں میں سے ایک کپڑے کو خیار تعین کے ساتھ خرید لے پھر اس میں ایسا تصرف کرے کہ ایک کپڑے کو سیے یا اس کو رنگ کرے تو یہی مبیع بننے کے لیے متعین ہو گیا ، اس کی مقرر کردہ قیمت کو ادا کرےگا اور دوسرے کپڑے کو واپس کرے گا،اگر مالک اور گاہک کا اختلاف آگیا مثلاً گاہک نے دو چادر لے کر ایک کو رنگ دے دیا گویا اس کو بیع کے لیے متعین کر دیا تو مالک کہتا ہے کہ جس کو تو نے رنگ دیا ہے وہ ۳۰۰ روپے کا ہے اور دوسرا ۱۰۰ روپے کا ہے اور گاہک کہتا ہے کہ نہیں جس کو میں نے رنگ دیا ہے وہی۱۰۰ رو پے کا ہے ،تو اس صورت میں نزاع کو ختم کرنے کے لیے گاہک کا قول لیا جائے گا مگر قسم کے ساتھ۔

 

معاصر پاکستانی قوانین اور اسلامی تعلیمات میں صارفین کے حقوق کا تقابل

 

صارفین کے حقوق کی تحفظ کے ٖلئے قانون سازی کا عمل تفصیلا ذکر کرنے کے بعد اسلامی تعلیمات اور سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں صارفین کے حقوق کا تذکرہ کیا گیا اب ذیل میں مختصر تقابل پیش کیا جائے گا۔

*

صارف سے مراد :

 

 

 

اسلام آباد کنزویمر پروٹیکشن ایکٹ اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے ایکٹوں کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ صارف سے مراد وہ شخص یا ادارہ /تنظیم ہے جو ذاتی استعمال کے لئے کوئی خریداری کرتا ہے اگر وہ خریداری تجارت کے ارادے سے کرے تو "صارف" کی تعریف اس پر صادق نہ آئے گی جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں مشتری (صارف ) عام ہے چاہے وہ ذاتی استعمال کے لئے خریداری کرے یا تجارت کی نیت سے دونوں صورتوں میں صارف ہوگا ۔

*

صارفین کو دھوکہ دینے کی ممانعت

 

 

 

تمام ایکٹوں میں مندرجہ ذیل دفعات مووجود ہیں :

* ایسی جھوٹی نمااشیا ء یا خدمات نمائندگی جس سے یہ سمجھا جائے کہ وہ چیز یا خدمات کسی خاص معیار مقدار بوجہ قسم ملاوٹ یعنی اس میں کوئی چیز مخفی لکھی گئی ہو۔

  • کوئی ایسی چیز جس کو دوبارہ مرمت کیا گیا ہو اور اس کو نئی چیز کے داموں فروخت کیا جا رہاہو یا ظاہر کیا جارہا ہوکہ یہ نئی چیز ہے ۔
  • ایسی جھوٹی نمائندگی جو عا م کمپنی کوخاص ظاہر کیا جائے۔جو معیاری نہ ہو بس ظاہر کیا گیاہو ۔
  • ایسی غلط نمائندگی جس کے زریعے یہ ظاہر کیا گیا ہو کہ کسی چیز کا استعمال انتہائی ضروری ہو۔
  • عوام کو غلط وارنٹی / گارنٹی دینا
  • غلط طور پر مکان/ گھر وغیرہ فروخت کرنا جس میں مخصوص سہولیات موجود نہ ہو۔
  • عوام کو غلط یقین دہانی کرانا
  • ایسے نجی تعلیمی ادارے جو قومی یا بین الاقوام مجاز اتھارٹی سے منظور شدہ نہ اور تشہیر کریں کہ وہ منظور شدہ ہیں ۔
  • غلط نمائندگی کہ ماہرین کی خدمات کی سہولیات میسر ہیں مثلا ڈاکٹرز، انجنئیرز، حکما ء وغیرہ
  • ایسے غلط حقائق کسی دوسرے ادارے یا فرم کے بارے میں پیش کرنا جس وہ سے بدنام ہو۔
  • بذریعہ خط /اشتہارضروریات زندگی یا خدمات کی غلط تفصیلات بیان کرنا

 

 

 

مذکورہ تمام نکات سیرت النبی ﷺ اور تعلیمات اسلامی سے ثابت ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کا مشہور ارشاد ہے : من غش فلیس منا[52] نبی کریم ﷺ کا گز رایک مرتبہ ایک تاجر پر سے ہوا جو کھانے کی اشیا ء کو فروخت کررہا تھا۔ آپ ﷺ نے اناج کے اندر ہاتھ داخل کیا جو اندر سے تر تھا آپ ﷺ نے فرمایا جس نے دھوکہ کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ [53]

 

خلاصہ کلام یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کاارشاد ایک اصول حیثیت رکھتا ہے جو مندرجہ بالا تمام دفعات کو شامل ہے۔

*

ممنو ع کاروبار کی وضاحت

 

 

 

قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے منظور شدہ تمام ایکٹوں میں یہ مندرجہ ذیل باتیں عمومی ہیں جس میں ممنوع کاروبار اور ممنوع لین دین کو قانونا جرم قراردیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے ارشادات سے بھی بہت سارے ایسے بیوعات کا ثبوت ملتا ہے جو شریعت اسلامی میں نا جائز شمار کئے جاتے ہیں ۔ مثلا بیع مکروہ ،بیع باطل، بیع فاسد، بیع غرر،،بیع حبل الحبلہ،بیع ملامسہ ، بیع منابذہ، بیع حصاۃ ،بیع مزابنہ ومحاقلہ، بیع المضامین والملاقیح، بیع الحاضر للبادی ،بیع تلقی الجلب،بیع نجش، بیع مزائدہ، بیع عربان، بیع عریہّ، بیع سنین ومعاومہ، بیع عینہ، بیع مصّراۃ ، ان تمام بیوعات کی تفصیل گزر گئی ہے۔

 

جس طرح معاصر قوانین میں مختلف کاروبار اور لین دین پر پابندی عائد کردی گئی ہے بالکل اس طرح بنی کریم ﷺ نے بھی معاشرہ کو مدنظررکھ کر مختلف مواقع اور مختلف مقامات پر احکامات صادر کئے ہیں جس کی رو سے لوگوں کے درمیان مختلف لین دین کو ناجائز قراردیا ہے۔

 

نتائج ِبحث

*

صارفین کے حقوق شریعت محمد ی ﷺ میں تفصیلا مذکورہیں ۔
  • نبی کریمﷺ نے لوگوں کے آپس میں معاملات کے ٖلئے ہدایات کا کافی ذخیرہ فراہم کیا ہے ۔
  • اسلام نے صارفین کو دھوکہ دینے سے منع کیا ہے ۔
  • پاکستانی قوانین میں صارفین کے حقوق کے لئے جامع قانون سازی کی گئی ہے ۔
  • پاکستانی قوانین جو صارفین کے حقوق کی تحفظ سے متعلق ہیں وہ شریعت نبو ی ﷺ کی تعلیمات سے متصاد م نہیں ہیں ۔

حوالہ جات

  1. اسلام آباد کنزومر پروٹیکشن ایکٹ ۱۹۹۵ ء
  2. ایضا
  3. ایضا
  4. الجمعۃ ، ۶۲: ۱۰
  5. کیرانوی،مولانا وحید الزمان قاسمی،القاموس الوحید، ادارہ اسلامیات ، لاہور ، کراچی ، جون ۲۰۰۱ء ،۱: ۱۹۴
  6. الموسوغۃ الفقہیہ الکوتیہ، الاصدار وزارت الاوقاف والشئو ن الاسلامیہ الکویت ،الطبعۃ الثانیہ ۱۴۰۴ھ/۱۹۸۳ء ،۱۰: ۱۵۱
  7. القاموس الوحید ، ۱: ۱۹۴
  8. ابن ھمام رحمۃ اللہ علیہ، الشیخ کمال الدین محمد بن عبدالواحد ، ( المتوفی۸۶۱ھ )، فتح القدیر، ، المکتبۃ الحبیبیہ ، کانسی روڈ ، کوئٹہ ملتان ،سن اشاعت ندارد،۵: ۴۵۵
  9. فتح القدیر۵ :۴۵۶
  10. بخاری ، محمد بن اسماعیل البخاری ،الجامع الصحیح،قدیمی کتب خانہ ، آرام باغ ، کراچی ، اشاعت ثانی : ۱۹۶۱ء/۱۳۸۱ھ،۱: ۲۹۰
  11. ایضا
  12. مسلم بن حجاج القشیری ، الجامع الصحیح،مکتبہ البشریٰ ، کراچی سن اشاعت 2011ء ،۵: ۸
  13. ترمذی ، ابو عیسی ٰ محمد ابن عیسیٰ ابن سورۃ ، السنن،باب ماجاء فی بیع المحاقلہ والمزابنہ مکتبہ رحمانیہ ، اردو بازار ، لاھور ،۱: ۳۶۳
  14. ایضا ۱: ۲۶۲
  15. ایضا۱: ۳۶۲
  16. بخاری ، الجامع الصحیح، ۱: ۲۸۷
  17. ابن نجیم،زین الدین بن ابراہیم،(۹۷۰ھ)البحرالرائق ،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ ،سن اشاعت ندارد ، ۶: ۳
  18. الموسوغۃ الفقہیہ الکوتیہ، ۲۰: ۴۱
  19. البحرالرائق ، ۶/۳
  20. ایضا۱ :۳
  21. ایضا
  22. المرغینانی،برہان الدین ابی الحسن علی بن ابی بکر الفرغانی ، المتوفی ۵۹۳ھ،الھدایۃ، مکتبہ رحمانیہ،اقراء سنٹر ،غزنی سٹریٹ،اردوبازار، لاہور ۔۳: ۳۰
  23. مولانا الشیخ نظام وجماعۃ من علماء الھند الاعلام، مکتبہ علمیہ ، الفتاویٰ العالمگیریہ المعروف بالفتاویٰ الھندیہ ،اکوڑہ خٹک، سن اشاعت ندارد۔۳: ۳۸
  24. ایضا
  25. الکاسانی، ا مام علاء الدین ابی بکر ابن مسعود ،الحنفی ، ( المتوفی ۵۸۷ ھ)، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، دار النشر ، کراچی ، سن اشاعت ندارد ۔۷: ۲۱
  26. البحرالرائق ، ۶/۴
  27. المرغینانی،الھدایۃ ، ۳:۳۰
  28. ابن نجیم،البحرالرائق ، ۶:۴
  29. ابن ہشام،فتح القدیر، ۵: ۵۳۰
  30. الفتاویٰ العالمگیریہ المعروف بالفتاویٰ الھندیہ ،۳ :۵۳۰
  31. فتح القدیر، ۵ : ۵۳۱
  32. ھدایۃ ،۳: ۳۸
  33. البحرالرائق ، ۶:۴۴
  34. فتح القدیر،۶:۲
  35. بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ،۱: ۳۲۱
  36. الفتاویٰ العالمگیریہ المعروف بالفتاویٰ الھندیہ ،۳: ۶۶
  37. ابن ہشام،فتح القدیر،۶:۲
  38. ایضا
  39. ابن نجیم،البحرالرائق ، ۶: ۳۸
  40. ایضا،۶/ ۳۵
  41. الفتاویٰ العالمگیریہ المعروف بالفتاویٰ الھندیہ ، ۳: ۴۵
  42. مسلم، الجامع الصحیح، کتاب الایمان حدیث رقم 102
  43. ابودا ؤد ، سلیمان ابن اشعث،السنن،مکتبہ رحمانیہ ،اردو بازار لاہور ،سن اشاعت ندار ۔۲: ۱۳۳
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...