Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 3 Issue 1 of Al-ʿILM

عالمی سیاست میں اسلامی ریاست کا کردار: سیرت نبوی کی روشنی میں ایک جائزہ |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060040263_957

Pages

144-177

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/21/19

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/21

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تمہید:

اسلام خیر خواہی کا نام ہے، اوراسلامی ریاست کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنی تمام رعایا کی دنیوی واخروی خیر خواہی اورمفاد کو مد ِ نظر رکھتی ہے ۔ اس لحاظ سے وہ ایک ماں کی حیثیت رکھتی ہےجس کی گود میں رعایا کے لئےشفقت مادری کا جذبہ کار فرما رہتاہے جو حقوق کی ترسیل میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کو روا نہیں رکھتی کیونکہ اسلامی ریاست کا سربراہ یا خلیفہ مالک ِ ارض وسماء کے استخلاف کے فرائض کی انجام دہی میں کوشاں رہے گا اور ذاتی مفاد کے حصول اور من مانی سے پرہیز کرے گا ، بلکہ جس نظام کے باگ ڈور اس کو سپرد ہے، اس کی منشاء کے مطابق ذمہ داری سے عہدہ براں ہونے کی مخلصانہ کوششیں بروئے کار لائے گا۔

 

چونکہ موجودہ سٹرکچر {حالت و کیفیت} میں { اگر ایمانداری سے کہا جائے تو} کوئی اسلامی ریاست حقیقت میں موجود ہی نہیں ہے۔ لہذا اس مقالے میں یہ کوشش کی گئی کہ اسلامی ریاست اور مسلم مملکت میں فرق واضح کرکےدونوں کا

 

کردار اور رویہ زیر بحث لایا گیا ہے، جو درج ذیل مباحث کا احاطہ کرتاہے:

 

* اسلامی ریاست کے عناصر ترکیبی اور دستوری اصول

 

* عالمی سیاست میں اسلامی ریاست کامقام اور کردار

 

* موجودہ مسلم مملکتوں کا خمیر ،مقام اورعالمی سیاست میں کردار

 

مبحث اول: اسلامی ریاست کے عناصر ترکیبی اور دستوری اصول

 

درِ شبستانِ حرا خلوت گزیدقوم وآئین وحکومت آفرید([1])

 

قال رسول اللہﷺ«لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لَمَّا جِئْتُ بِهِ([2])

 

"رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سےکوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا ہے، جب تک اس کے خواہشات میرےلائے ہوئے شریعت کے تابع نہ ہوجائے"

 

اتر کرحرا سے سوئے قوم آیا اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا ([3])

 

مولانا حالی نے بجاطورکہا ہےکہ اسلامی شریعت عظیم نسخہ کیمیا اور شاہِ کلید ہے ،جس سے حیات اِنسانی کےتمام گتھیاں سلجھائی جاسکتی ہے۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺنےعرب اوردیگرآس پاس تباہ حال معاشروں کےحالت کو اس کے ذریعےدرست فرمایا اور یوں انسانوں کی بد حالی دور ہوئی ۔اس انقلاب ِ نبوی کے اساسی نظریات کیا ہیں ؟ جس نے انسانوں میں ایک لازوال تبدیلی برپاکی اور بدحالی کو خوش حالی میں بدل دی۔

 

انقلاب نبوی کے اساسی نظریات

توحید ،رسالت اورآخرت اسلام کے اساسی عقائد و نظریات ہیں۔ نظام کا تعلق عقیدہ توحید سے ہے جبکہ آخرت پر ایمان لانے کا تعلق انسان کی سیرت وکردار کی تربیت سے ہے اور رسالت پر ایمان لانے کا تعلق قانون سے ہے۔ حضورﷺ کو دل وجان سے رسول تسلیم کرنے اور آپﷺ کی دی ہوئی تمام چیزوں کی تصدیق کا نام ہی دراصل ایمان ہے۔ اس کے بغیر ہم نہ توحید کو صحیح معنوں میں جان سکتے ہیں نہ آخرت کو مان سکتے ہیں اورنہ ایمان، اعمال صالحہ اور افعال سیئہ کو صحیح طور پہچان سکتے ہیں۔([4])

 

عقیدہ یا نظریہ توحید جس سے نظام کا تعلق ہے۔ اس کے تین بڑے متضمنات ہیں۔#

انسانی حاکمیت کی بجائے خلافت
  1. ملکیت کی بجائے امانت اور
  1. کامل معاشرتی مساوات

 

 

 

نظریہ توحید کے یہ تین متضمنات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔

 

محمد رسول اللہﷺ جو انسانیت کی رشدو ہدایت کے آخری رسول اور کامل نمونہ ہے۔آپﷺ نے ان موضوعات پر 13 سال خوب محنت کی اور اہل ایمان کو اچھی طرح سے سمجھا دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنہوں نے آپﷺ پر ایمان لایا طرح طرح کے آزمایشوں کو قبول اور انگیز کیا لیکن پھر اس راستے سے کبھی بھی منحرف نہیں کیے جاسکے۔

# انسانی حاکمیت کی بجائے خلافت

 

 

 

توحید ِخالص کے جو تضمنات ہیں ان میں سے پہلی چیز اقتدارِ اعلی ( Sovereignty) ہے جوذات باری تعالیٰ کےساتھ خاص ہے جس میں انسانی حاکمیت کی نفی کلی ہے۔ یعنی تکوینی حاکمیت کے ساتھ تشریعی حاکمیت بھی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس کا ذریعہ علم وحی الہی پر موقوف ہے۔ انسان اپنی تصرفات اور اختیارات سے دستبردار ہوگا۔ کرے گا وہی جو چاہے گا یا امر کرے گا، اللہ تعالیٰ ۔ یہ مضمون قرآن مجید کے کئی آیات میں ذکر ہے۔مثلاً :

 

إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ([5])

 

فرمانروائی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، اس کا فرمان ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو، یہی دین درست ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔

 

أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ ([6]) خوب سن لو فیصلہ اللہ ہی کا ہوگا اور وہ بہت جلد حساب لے گا۔

 

تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ([7])

 

بہت بابرکت ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

 

گویا : سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے حکمران ہے اک وہی باقی بتاں آزاری ([8])

 

اس انقلابی عقیدہ نے حکمرانی کا جھگڑا ختم کردیا ،جس کے بارے میں اقبال لکھتے ہیں :

 

اس سے بڑھ کر اور کیا فکر وعمل کا انقلاب پاد شا ہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین ([9])

 

اس نظریے کی رو سے اللہ کے سوا کوئی حاکم مطلق نہیں ہے ۔نہ کوئی فرد، نہ کوئی خاندن، نہ کوئی قوم ،نہ پوری نوع انسانی۔ انسان کے لیے حاکمیت کی نفی مطلق ہے ۔انسان کے لیے تو خلافت ہے اور وہ بھی عوامی خلافت ۔ یعنی عوام الناس اپنی رائے سے جس کوچاہے خلیفہ چن لیں ۔ گویا کہ وہ اپنے حق ِ خلافت کو تقویض( Dedicate)کررہے ہیں ایک شخص کو کہ وہ ان کا سربراہ ہے۔([10])

 

ملکیت کے بجائے امانت

 

نظریہ توحید کا دوسرا انقلابی تصور یہ ہے کہ جس میں انسان کی ملکیت مطلقہ کی نفی کامل ہے۔ جیسے کوئی حاکم مطلق نہیں ویسے ہی کوئی مالک مطلق نہیں۔ حاکم حقیقی بھی اللہ ہے اور مالک حقیقی بھی اللہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ([11]) لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَى([12])

 

ان آیات میں لله اور له میں لام تملیک اور لام استحقاق ہے۔ اسی طرح :وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ([13]) اور وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ([14])سے مزید یہ وضاحت ملتی ہے کہ جس طرح حاکم حقیقی صرف اللہ ہے ،اسی طرح کائنات کی ہر شے کا مالک حقیقی بھی صرف اللہ ہے۔شیخ سعدی ؒ نے اس مفہوم کو بڑے دل نشین اسلوب سے یوں ادا کیا ہے، کہتے ہیں:

 

ایں امانت چند روزہ نزدِ ماستدرحقیقت مالک ہر شے خدا است([15])

 

جبکہ علامہ محمداقبال لکھتےہیں :

 

بندہ مومن امیں، حق مالک استغیر حق ہر شے کہ بینی ھالک است([16])

 

حاصل کلام یہ ہواکہ اسلام میں حاکمیت کے بجائے خلافت اور ملکیت کے بجائے امانت کاتصورہے۔

 

3۔ کامل معاشرتی مساوات

 

نظریہ توحید کا تیسرا انقلابی پہلو کامل معاشرتی مساوات ہے، جس طرح انسانی تاریخ میں انسان حاکمیت اور مالکیت کےسلسلے میں اونچ نیچ کا شکار رہا ہے، اسی طرح اس زعم میں بھی مبتلا رہاہے کہ کوئی ادنیٰ ہے تو کوئی اعلیٰ ذات سے

 

تعلق رکھتا ہے ۔ عقیدہ توحید نے اس انسانی سوچ اور پہلو پر بھی زبردست تیشہ چلایا اور یوں برہمنیت اور شودر یت اور

 

رنگ ونسل کے تمام بتوں کو پاش پاش کردیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ([17])

 

” لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دیئے۔ اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حقوق مانگتے ہو اور رشتے باندھتے ہو۔ رشتہ اور قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو، یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے“۔

 

ڈاکٹر اسرار احمد کہتے ہیں:

 

اگر کامل سماجی مساوات نہیں ہے تو وہ معاشرہ کسی درجہ میں اسلامی معاشرہ کہلانے کا مستحق نہیں ہے([18])۔ اونچ نیچ کے ان تمام بتوں کو رسول اللہﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر پاش پاش کرتے ہوئے فرمایا:

 

يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى ([19])

 

”اےلوگو!تمہارا رب ایک ہےاورباب بھی ایک۔خبردار!نہ عربی کو عجمی پر اور نہ عجمی کو کسی عربی پر اورسفید کوکسی کالے پر اور نہ کالے کو کسی سفید پرکوئی فضیلت حاصل ہے سوائے تقوی کے“

 

اگر غور کیا جائے تو سماجی و معاشرتی مساوات کا تعلق بھی توحید ہی سے ہے۔وہ اس طرح کہ ایک ہی ذات نے انسان کو ایک ہی جوڑے سے پیدا کیا ہے۔ باقی رہی بات خاندانی و قبائلی اونچ نیچ ،تویہ محض شناخت کا مسئلہ ہے۔ بزبان ِ قرآن: يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ([20])

 

” لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو“

 

گویا کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے لیے طرز حکمرانی کا جو نمونہ انسانیت کو ملا وہ درویش بادشاہت کا تھا ،جس میں حکمران اور حکمران طبقہ کےکوئی ذاتی مفادات نہ تھے۔ صرف خدمت خلق کا جذبہ تھا اور ذاتی اغراض کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔اپنے اور اپنی اولاد کے لیے صرف وہی کچھ ہے جو عوام میں سے ایک عام مزدور یا اوسط درجے کا مستری و مزدوروصول کرتا ہے یا کما رہا ہے([21])

 

الغرض ! اسلامی ریاست کے سربراہ محمد رسول اللہ ﷺنے ، اجتماعی زندگی میں انداز حکمرانی، طرز جہانبانی اور شاہان جہانگیری کو قدرت اور دنیا بھر کے قیصروں، کسراؤوں ، فراعنہ و نماردہ، یونانی فلاسفہ کے تراشے مصنوعی و حیوانی اخلاق کے نمونوں کو مٹا کر ایک پاکیزہ ، سادہ، آسان اور قابل عمل نسخہ دیا جو دنیا کے ہر انسان اور حکمران کی آنکھوں کا سرما ، چلنے کے لیے روشن راستہ، خدمت خلق کا عالمی چارٹر اور میگناکارٹا ہے۔ ([22])

 

اس طرزِ حکومت سے انسانی خون خرابے کا روک تھام ممکن ہوا اور دنیا کی خون خوار حکومتوں کی خون آشامی رکی اور فقیر بادشاہت نے انسانیت کے دل و دماغ پر حکومت کی اور ہر قسم انسانی عدل و مساوات کا دور دیکھا۔

 

اسلامی ریاست کے دستوری اصول

اسلام میں اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور انسان کی حیثیت خلیفہ اور نائب کی ہے۔ گویا وہ اصل مالک کا ترجمان ہے، جس نے طے شدہ اصول دیے ہیں۔جس کی پابندی لازمی ہے اور ان اصولوں کی بناء پر یہ ریاست دوسری ریاستوں سے ممتاز ہے،چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:

 

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ([23])

 

” اے ایمان والو ! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں جھگڑا ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے“۔

 

دستوری اصول کا خلاصہ

1۔ اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کی اطاعت کا تمام اطاعتوں پر تقدم

 

2۔ اولی الامر کی اطاعت اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی اطاعت کے تابع ہے

 

3۔ اولی الامر اہل ایمان میں سے ہوں

 

4۔ رعایا کو حکام اور حکومت سے نزاع کا حق حاصل ہے

 

5۔ اس نزاع کے درمیان فیصلہ کن اتھارٹی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کو حاصل ہے۔

 

6۔اس نظام میں ایک ادارہ ایسا ہو جو اولی الامر اور عوام کے دباؤ سے بالاتر ہو اور قانون کے مطابق نزاعات

 

کافیصلہ کر ے۔ ([24])

 

ان دستوری اصولوں میں سے تین قسم کی اطاعتیں وہ ہیں جن پر ریاست اور عوام کی مضبوط تعلق مبنی ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

 

1۔ اطاعت الٰہی

 

اسلامی ریاست میں ذات باری تعالیٰ کی اطاعت دیگرتمام اطاعتوں سے بالاتر ہے کیونکہ وہ اصل مطاع ہے اس کا کوئی مد مقابل اس نظام میں نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اسلامی نظام سیاست میں وہ مرکز و محور کی حیثیت رکھتا ہے جو مذکورہ آیت اور آپﷺ کے درج ذیل ارشادات سے واضح ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

 

لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيةِ الخَالِقِ([25]) ”خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں “۔

 

السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلاَ سَمْعَ عَلَيْهِ وَلاَ طَاعَةَ ([26])

 

” پسند و ناپسند میں مسلمان پر سمع و طاعت لازم ہے ، جب تک اسےمعصیت کا حکم نہ دیاجائے۔ اگر اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو سمع و طاعت لازم نہیں ہے “۔

 

2۔ اطاعت رسول اللہﷺ

 

اسلامی ریاست کے دستوری اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول کی اطاعت کی جائے۔ اس سے بغاوت اللہ تعالیٰ کی بغاوت شمار ہوگی، جو آیت مذکورہ سے واضح ہے اور آپ ﷺ نے اس کی نشاندہی یوں فرمائی ہے:

 

مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ([27])

 

” جس نی میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالی ٰکی نافرمانی کی “

 

گویا احکامات الٰہی کی تفصیلات، تشریحات اور تطبیقات کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مطاع بناکر آپ ﷺ کی اطاعت کو ضروری قرار دیا ہے۔ باری تعالیٰ نےفرمایا:وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ ([28])” اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو“

 

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ([29])

 

” اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا “

 

3۔ اطاعت اولی الامر

 

مذکورہ دونوں اطاعتوں کے بعد تیسری اطاعت جو مسلمانوں پر فرض ہے ،وہ اولی الامر کی ہے، جو مسلمانوں میں سے ہو اور اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کا مطیع ہو تو وہ مسلمانوں کے لیے مطاع ہے ۔جس کی نشاندہی سابقہ آیت سے ہوگئی ہے اور آپ ﷺ نے اس کی اطاعت کی تاکید فرمائی ہے:

 

اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا، وَإِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ، كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ ([30])

 

” سنو اور اطاعت کرو، اگر چہ تمہارے اوپر ایک حبشی غلام امیر کیوں مقرر نہ کیا گیا ہو اور اس کا سر کشمش جیسا کیو نہ ہو“

 

امام ابن حزم ؒ اس تناظر میں لکھتے ہیں:

 

" وَأَن الْأمة وَاجِب عَلَيْهَا الانقياد لإِمَام عَادل يُقيم فيهم أَحْكَام الله ويسوسهم بِأَحْكَام الشَّرِيعَة الَّتِي أَتَى بهَا رَسُول الله َ" ([31])

 

”امت ِ مسلمہ پرامام عادل کی اطاعت واجب ہے،جو ان میں اللہ تعالی ٰ کے اوامر نافذ کرتاہواور ان کی سیاست رسول اللہ کے لائےہوئےشریعت کے مطابق کرتاہو “

 

اس کے ساتھ امام ابن حزم ؒ دو شروط کا اضافہ ان الفاظ میں ذکر کرتے ہیں کہ امراء سے مراد:

 

1۔ مسلمانوں کے حکمران اور امراء ہیں۔

 

2۔ وہ امراء اہل العلم ہوں اور فقاہت کی صفت سے متصف ہوں جسے امام ابن جریر الطبری ؒ نے اہل الحل والعقد سے موسوم کیا ہے یعنی وہ فہم وفراست اور علم و دانائی میں مرتبہ امامت پر فائز ہوں۔([32])

 

اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جب وہ اس مرتبہ علیاپر فائز ہوں اور مسلمانوں کے خیرخواہ اور معاملات کے چلانے کے اہل ہوں،اور پھر بھی ان کی اطاعت نہ کی جائے تو آپ ﷺنے یہ وعید ان کو سنائی ہے :

 

وَمَنْ عَصَى أَمِيرِي فَقَدْ عَصَانِي ([33]) ” جو میرے مقرر کردہ امیر کی عصیان کرے اس نے میری نافرمانی کی

 

امیرہے کون ہے؟

 

ہر وہ فرد جو کسی بھی حیثیت سے مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دارہو اور نگران ہو وہ امراء میں شامل ہے۔ خدا اور رسول ﷺ کے فرامین کے مطابق رعایا ان کی اطاعت کے پابند ہیں ، تاکہ ریاست و رعایا کا تعلق بہتر ہوکرریاست کے تمام ادارے مضبوط ہوں ، تو نتیجۃ ً اسلامی ریاست مستحکم ہوگی، جو رعایا کے لیے سایہ اور تحفظ کا ذریعہ بن سکے گی اور دنیا میں مسلمانوں کی وقار بلند اورعزت و ناموس بحال ہوگی۔

 

مبحث دوم : عالمی سیاست میں اسلامی ریاست کا مقام اور کردار

 

اسلامی ریاست کا عالمی معاملات میں اہم کیا کردار اور مقام ہونا چاہئیے؟سابقہ مباحث سے واضح ہے کہ اسلامی ریاست ایک نظریاتی اور اصولی ریاست ہوتی ہے ،جو ہر طرح سے دوسری ریاستوں سے ممتاز ہوگی۔ اس ریاست کی اصول پرستی کی بات تو ہوگئی۔ اب ان اصولوں پر مبنی مظہر اس کا کردار ہے، جو عالمی سیاست میں ان اصولوں کی بنیاد پرممتاز مقام کا حامل ہوناچاہیے۔ سیاست اسلام میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ اس کے معنی اصلاح کرنےاور سنوارنے کے ہے جو ریاستی لیول پر تدبیر مملکت کا ہم معنیٰ ہے جو ایک مدبرانہ اور قائدانہ کردار کا حامل کام ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امام غزالیؒ سیاست کی تعریف میں لکھتے ہیں:

 

" استصلاح الخلق وا رشادهم الی الطریق المستقیم المنجی فی الدنیا والاخرة " ([34])

 

” سیاست مخلوق کی اصلاح اور طراط مستقیم کی طرف راہنمائی کانا م ہے جو دنیا و آخرت کی نجات کا ذریعہ ہے“

 

جبکہ علامہ ابن خلدون ؒ سیاست کے تقدس کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

 

”سیاست اور حکومت مخلوق کی نگہداشت اور ان کے مفاد کی کفالت و ضمانت کا نام ہے۔ یہ سیاست خدا کی نیابت ہے

 

اور اس کے بندوں پر اس کے احکام نافذ کرنے کے کام ہیں“ ([35])

 

امام شاہ ولی اللہ ؒ دہلوی سیاست کو رعایااور حکمران کے باہمی مضبوط تعلق کا فن قرار دیتے ہوئےکہتےہیں:

 

" وهى الحكمة الباحثة عن كيفية حفظ الربط الواقع بين أهل المدينة " ([36])

 

”سیاست وہ حکمت(علم ) ہے جو ان تدابیر سے بحث کرتی ہے جن کے ذریعے سے شہریوں کے باہمی ربط و تعلق کی حفاظت کی جاتی ہے“

 

ان تمام اقتباسات میں سیاست کی جو تعریف کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ :

 

” سیاست و ہ فن و حکمت ہے جس کا موضوع فرائض حکومت اور سیاست کا نظم و نسق ہے۔ جس کی غرض و غایت مصالح کی حفاظت اور شہریوں کے باہمی ربط و تعلق کو قاعدے اور قانون کے ذریعے کنٹرول کرنا ہے“ ([37])

 

گویا سیاست ایک مقدس سماجی خدمت ہے ،جس سے اصلاح معاشرہ ممکن ہے۔ اس لحاظ سے شرعی سزاؤوں

 

کا اجراء و نفاذ بھی فقط اصلاح معاشرہ کے لیے مطلوب ہے ،جس سے مجرمین کی اصلاح کے ساتھ ساتھ عام آدمی کی جان ومال ، آبرو اور نسب کی حفاطت ہوتی ہے اور ان پر سیاست کا اطلاق ہوسکتا ہے بلکہ ہونا چاہیے کیونکہ ان کا مقصد اصلاح معاشرہ اور مصالح معاشرہ ہے۔ امام ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:

 

" وهذا التعریف للسیاسة العامة الصادقة علی جمیع ماشرعه الله تعالیٰ لعباده من الاحکام الشرعیة" ([38])

 

”سیاست کی یہ عام تعریف ان تمام شرعی احکام پر صادق آتا ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کےلیےمقرر کیا ہے“

 

سیاست دور جدید کے ماہرین فن کی نظر میں:

دور جدید کے ماہرین لفظ سیاست کو پالیٹکس کے معنی میں استعمال کرتے ہیں جس کے معنی شہری حکومت کا علم وفن ہے۔ جس کا نطاق بہت ہی محدود ہے بہ نسبت عربی لفظ سیاست کے، جس کے مفہوم میں اصلاح نفس، خاندانی سیاست، تعزیری سیاست اور مطلق اصلاحی کام ، اس اعتبار سے علم سیاست کے عموم میں وہ تمام علوم و فنون شامل ہیں جو انسانی معاشرے کے لیے اہمیت رکھتے ہیں لیکن دور جدید کے ماہرین نے اس کو فن حکومت گری کے لیے استعمال کیا ہے۔جیساکہ ڈاکٹر حسن صعب لکھتے ہیں:

 

"فن حکم الدولة او دراسة المبادئ التی تقوم علیها الحکومات والتی تحدد علاقاتها بالمواطین وبالدول الاخری" ([39])

 

غالباً ۱۹۶۲ء کے دورمیں علم سیاست کو انسانی معاشروں پر حکومت کرنے کا فن قرار دیا گیا ہے،جس کےبارے میں ڈاکٹر جمال الأتاشی رقمطراز ہے:

 

"السیاسة فی حکم المجتمعات الانسانیة" ([40])

 

جبکہ ایڈورڈ جیمز نےاسے اقامت ِنظم معاشرہ اور فرائض حکومت کی ادائیگی کاذریعہ بتایا ہے:

 

”سیاست فرائض حکومت ادا کرنا اور ان لوگوں کو نظم و ضبط میں رکھنا ہے ،جو سوسائٹی کی شکل میں جمع ہوں“([41])

 

جبکہ بلنچلی لکھتا ہے: ”سیاست وہ علم ہے جس کا موضوع بحث سلطنت ہے“ ([42])

 

اگر چہ سیاست کے مفہوم میں اسلامی علوم کے ماہرین اور دور جدید کے ماہرین میں قرب پایا جاتا ہے، تاہم عملی دنیا

 

میں دونوں میں بعد پایا جاتا ہے، دونوں میں فرق یہ ہے کہ سیاست عقلیہ سے دنیوی ، فوائد اور آسائشوں کا حصول اور

 

نقصانات کا ازالہ مقصود ہوتا ہے ،جبکہ سیاست شرعیہ (دینی سیاست) نہ صرف ان مقاصد کا حصول پیش نظر رکھتاہے بلکہ اخروی مصالح اور کامرانی کا حصول بھی مد نظر رکھتاہے اور اسی کو نظام خلافت کہا جاتا ہے، جو انسان کی حقیقی اور ابدی سعادت کو بھی ملحوظ رکھتا ہے اور دنیوی فلاح وبہبود کی ضمانت بھی یہی نظام دیتا ہے ، جس پر تیس سالہ دور خلافت راشدہ شاہد ہے جو محتاج بیان نہیں ہے۔

 

دور جدید کے ماہرین نے سیاست کے جو معنی فن حکومت گری بیان کی ہے ، یہ اسلام کا ایک باب ہے جو دیگر مصالح اور ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں حافظ ابن قیم لکھتے ہیں:

 

" أن السیاسة ۔۔۔ هی جزء من اجزائها و باب من ابوابها" ([43])

 

”سیاست حکومت کی اجزاء میں سے ایک جزء اور ابواب میں سے ایک باب ہے“

 

اس لحاظ سے اسلام کی نظر میں سیاست ایک بلند ترین کام ہے، جس کے ذریعے انسانوں کی ظاہر و باطن دونوں کی اصلاح

 

ہوتی ہے اور اس تعلیم و تربیت سے لوگوں کے قلوب میں ملکات حسنہ اور اخلاق فاضلہ پیدا ہوتے ہیں، جو انسان کے لیے دنیا میں کامیاب زندگی بسر کرنے اور آخرت میں نجات پانے کا ذریعہ ہے۔ ([44])

 

اسلامی ریاست کیوں ضروری ہے؟

اگر ہم بحیثیت مسلمان زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ،تو اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ ہم اپنی پوری زندگی اطاعت الٰہی میں گزاریں اور انفرادی و اجتماعی تمام معاملات کا فیصلہ خدا کے قانون اوراس کی شریعت کے مطابق کریں ورنہ دعویٰ ایمان مشکوک ٹھہرتا ہے ۔اس تناقض کو اسلام قطعاً قبول نہیں کرتا ۔ اسلامی ریاست اور اسلامی دستور کے مطالبے کی پشت پر یہی احساس کارفرما ہے کہ انسان اللہ تعالی ٰکے خلیفہ اور نائب کی حیثیت سے اس کے قانون شرعی کے مطابق حکمرانی اور فیصلہ کریں([45])

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَّلَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِهٓ اَحَدًا ([46]) ” اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا “

 

گزشتہ مباحث سےواضح ہوا کہ جن اطاعات کو اسلام میں ضروری قرار دیا گیا ہے، ان میں ایک اطاعت اولی الامر بھی ہے ، جس کےذریعے ریاست کےاندر رعایا کی طاقت وقوت اور فکر کو مجتمع اوریک سمت کرکے اس کی شیرازہ بندی کی جائے ۔اس بنا پر پیغمبر کو بھی قانونِ شرع کا پابند بنایا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ ([47])

 

” اور فیصلے کیجیے ان کے مابین اس (شریعت) کے مطابق جو کہ اللہ نے اتاری ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے اور ان سے ہوشیار رہیے ‘ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ آپ کو ان میں سے کسی چیز سے بچلا دیں جو اللہ نے آپ پر نازل کی ہیں “

 

إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ وَلَا تَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا([48])

 

”یقیناً ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہےاور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو“

 

ان دونوں آیات میں جو حکم اللہ نے اپنے نبی کو دیا ہے ،یہی حکم مسلمانوں کو بھی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ ([49])

 

” تم لوگ اس کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی پیروی مت کرو۔ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو“

 

ان آیات کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ خداوند عالم کی زمین پر صحیح حکومت اور عدالت صرف وہ ہے ،جو اس قانون کی بنیاد پر قائم ہو جو اس نے پیغمبروں کے ذریعہ سے بھیجا ہے، اسی کا نام خلافت ہے۔([50]) جو باقی تمام نظاموں پر غلبہ چاہتا ہے اور غالب ہونا چاہیے کیونکہ پیغمبر آخر الزمان ﷺ کو اس کے غلبے کے لیے بھیجا گیا تھا([51])۔ جس کا تقاضاہے کہ دین اسلام برسراقتدار ہو اور باقی ادیان مغلوب ہوں یا پھر معدوم ہوں۔ یہ حکم نہ صرف محمد رسول اللہ ﷺ، اورامت مسلمہ کو ہوا ہے ، بلکہ دیگر انبیاء کوبھی دیاگیاتھا([52])۔مولانا گوہر رحمٰن ؒ لکھتےہیں:

 

”فریضہ اقامت دین کی ادائیگی اور غلبہ کے لئے تعلیم و تربیت اور تزکیہ وارشاد کی کوششوں کے ساتھ اسلامی ریاست کے قیام اور حصول اقتدار کی کوشش کرنا بھی فرائض نبوت میں شامل ہے“ ([53])

 

ظلم و فساد کے خاتمہ اورعدل الٰہی و عدل اجتماعی کے قیام کے لیے جہاد و قتال فی سبیل اللہ فرض کردیاگیا ہے اور جہاد وقتال فی سبیل اللہ ریاست اور امیرِ عادل کے بغیر ممکن نہیں ۔ سورۃ الحج آیت نمبر 39 تا 41 کے خلاصہ میں مولانا گوہر رحمٰن ؒ لکھتے ہیں:

 

”ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ قتال کا مقصد یہ ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکا جائے اور ایسی حکومت قائم کی جائے جس میں اللہ کی عبادت کی آزادی ہو ، غریبوں کی معاشی کفالت کی جائے، بھلائی اور نیکی کے احکام نافذ

 

ہوں اور برائی کے طور طریقوں کومٹا دیا جائے یعنی ظلم، شرک اور فساد کے نظام کی جگہ ، توحید اور اصلاح کا

 

نظام آجائے“ ([54]) جیساکہ منشائے الٰہی ہے:

 

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ([55])

 

”اور ان سے اس حد تک لڑو کہ ان میں فساد عقیدہ نہ رہےاور دین اللہ کا ہی ہو جائےپھر اگر باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو خوب دیکھتا ہے“

 

اس آیت کی تشریح میں امام ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں:

 

ای یکون دین الله هو الظاهر العالی علی سائر الادیان([56]) ”یعنی خدا کا دین باقی تمام ادیان پر غالب اور بالادست ہوجائے“

 

دین کی بالادستی ایک مضبوط اسلامی ریاست اور ایک خدا ترس و عادل حکمرن اور خلیفہ ہی کرسکتا ہے ، جس کی امارت اور خلافت و سرپرستی میں محض اللہ کے دین کے غلبے کے لیے جہاد کیا جائے گا، جس میں دیگر کوئی خواہش کارفرما نہ ہو۔ آپ ﷺ نے اس کی طرف یوں اشارہ کیا ہے:

 

مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ([57])

 

” جو محض اللہ کےدین کےغلبہ کےلیےجنگ کرتا ہے،تو یہ فی سبیل اللہ جنگ ہے“

 

ان اعلیٰ و ارفع مقاصد کے حصول کے لیے جوا سٹیٹ اور ریاست کوشش کرے گی، وہ اسلامی ریاست کہلائے گی اور یہ ایک اعلیٰ مقام ہے اور اس سے بہتر کوئی ریاست نہیں ہوسکتی ،جس کے زیر سایہ رعایا کو تحفظ میسر ہو، حقوق کی نگہداشت ہو ، معاشی کفالت کا بھی انتظام ہو اور عدل اجتماعی کے اعلیٰ مظاہر سے متصف ہو۔دیگر ریاستوں اور عالمی سیاست میں جو کرداروہ نبھائے گی ،اس ریاست میں کیونکر انسانی حقوق کی پامالی کا ارتکاب ہوسکتا ہے ۔ بلکہ وہ تمام انسانیت کے لیے خیر اور بھلائی تلاش کرکے عام کرے گی،جو اپنی رعایا کے لیے چاہتی ہے، کیونکہ دین اسلام جس ریاست کا مذہب ہے وہ تمام انسانوں کی بھلائی چاہتاہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دین خیر خواہی کانام ہے،صحابہ کہتے ہیں :ہم نے کہا : کس کے لیے اے اللہ کے رسولﷺ! تو فرمایا:

 

لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ([58])

 

”اللہ کےلیے، کتاب اللہ کےلیے،رسول اللہ کےلیے،مسلمان قیادت کےلیے اور عام لوگوں کےلیےخیرخواہی ہے”

 

خیر خواہی کا یہ رویہ آپ ﷺ اور صحابہ کرام کے دور میں تمام انسانوں کے لیے عام تھا۔ کسی کے ساتھ ظلم

 

اور زیادتی نہیں ہونے دی گئی،جس کا اقرار غیر مسلموں نے کیا ہے اور بڑے مزےبھی کیے ہیں کیونکہ ان کو امن و امان میسر تھا۔ جس میں ان کے لیے معاشی خود کفالت کے مواقع بے شمار اور ظلم معدوم تھا۔خیر خواہی کا یہی رویہ دیگر ریاستوں کے ساتھ بھی اپنایا گیااور عالمی سیاست اور معاملات میں بہترین کردار ادا کیا۔

 

اسلامی ریاست کی ضرورت و اہمیت

ایسی ریاست اور حکومت کی ضرورت واہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے، جس کے قیام اور استحکام کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد رّسول ﷺ کو بھیجا ۔جنہوں نے اس کے قیام کے لیے مکی زندگی میں انتک کوشش کی اور لوگوں کو سمجھایا لیکن کوئی تیار نہیں ہوا ۔ اس رستے میں ساتھیوں سمیت ہرقسم صعوبتیں بھی برداشت کیں اورمکہ سے نکلتے ہوئے دعاکی پروردگار ! ایک ایسی ریاست اور حکومت سے ہماری مدد فرما جو سچائی کی پروجکشن میں ہماری مددگار ہو([59])

 

چونکہ بگاڑ اور فساد کو اقتدار اور حکومت کی طاقت سےبسہولت روک جاسکتا ہے اور خیر کی آبیاری بہتر طریقے سے کی جاسکتی ہے ۔ فواحش و منکرات اور معاصی و قانون شکنی کے سیلاب کو محض تذکیر سے روکا نہیں جاسکتا۔ اس لیےآیت مذکرہ میں رسول اللہ نے رب سے اقتدار اور حکومت کی استدعا کی ہے۔ جس کی تاید أمير المؤمنين عثمان بن عفان رضي الله عنه کے اس قول سے بھی ہوتی ہے ، جس میں آپ رضي الله عنه نے فرمایا: إن الله ليزعُ بالسلطانِ ما لا يزعُ بالقرآن ([60])

 

”اللہ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے ان چیزوں کا سدباب کردیتا ہے جن کا سد باب قرآن سے نہیں کرتا “

 

اس قول کی تشریح میں عبد المحسن بن حمد العبادلکھتےہیں : وقد بين أمير المؤمنين عثمان بن عفان رضي الله عنه عظم منزلة السلطان وما يترتب على وجوده من الخير الكثير، ومن حصول المصالح ودرء المفاسد، وذلك في قوله رضي الله عنه: (إن الله ليزع بالسلطان ما لا يزع بالقرآن)؛ لأن من الناس من يقرأ القرآن ويرى القوارع والزواجر ومع ذلك لا تحرك ساكناً في قلبه، ولا تؤثر عليه، ولكنه يخاف من سلطة السلطان، ومن بطش وقوة السلطان، ولهذا يقول شيخنا محمد الأمين الشنقيطي رحمة الله عليه: (من لم تقومه الكتب قومته الكتائب) ([61])

 

”امیر المومنین حضرت عثمان رضي الله عنه نےحکومت کی طاقت کی عظمت اور اس پر مرتب خیر وبرکت ،مصالح کا حصول اورمفاسدکی روک تھام کو بیان کیا ہے۔اور مذکورہ حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض لوگ قرآن مجید بھی پڑتے ہیں اور زجر و توبیخ دیکھتے رہتے ہیں لیکن ٹس سے مس نہیں ہوتےاور کوئی اثر نہیں لیتے لیکن حکومت کی ستوت اور بادشاہ کی قہرسے خوف زدہ رہتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے شیخ محمد امین شنقیطی ؒ کہتے ہیں :جس کوکتابوں کی باتیں ٹھیک نہیں کرتے، اسےقوت ٹھیک کرتی ہے“۔

 

پس اصلاح معاشرہ اور قیام عدل کے لیے ایسے صالحین جو یہ کام کرسکیں،کا حکومت و اقتدار طلب کرنا مندوب ہے

 

،جس کی تائید حضرت یوسف علیہ السلام کی سیرت و تاریخ سے بھی قرآن مجید کے ذریعے ملتا ہے ۔ ([62])

 

اس قسم کا اقتدار کوئی نوکری کی سند کا حصول نہیں بلکہ ایک صبرآزما اور انتہائی محنت طلب راستہ ہے لیکن اس کے بغیر معاشرہ ٹھیک بھی نہیں ہوسکتا اور اس کے بغیر کوئی بلند مرتبہ بھی حاصل نہیں کرسکتا۔سید مودودی ؒ لکھتے ہیں:

 

”حضرت یوسف علیہ السلام آزمائشوں کے ایک طویل سلسلے سے گزر کر آرہے تھے اور آزمائشیں کسی گمنامی کے گوشے میں پیش نہیں آئی تھیں

 

بلکہ بادشاہ سے لے کر عام شہریوں تک مصر کا بچہ بچہ ان سے واقف تھا۔ ان آزمائشوں میں انہوں نے ثابت کردیاتھا کہ وہ امانت ، راست بازی، حلم، ضبط نفس، عالی ظرفی، ذہانت و فراست اور معاملہ فہمی میں کم از کم اپنے زمانہ کے لوگوں کے درمیان تو اپنا نظیر نہیں رکھتے۔۔۔بلکہ ایک ثابت شدہ واقعہ تھا جس پر سب ایمان لاچکے تھے۔ اب اگر کچھ کسر باقی تھی تو وہ صرف اتنی کہ حضرت یوسف علیہ السلام خود حکومت کے ان اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے پر رضامندی ظاہر کریں جن کے لیے بادشاہ اور اس کے اعیان سلطنت اپنی جگہ بخوبی جان چکے تھے کہ ان سے زیادہ موزون آدمی اور کوئی نہیں ہے چنانچہ یہی وہ کسر تھی، جو انہوں نے اپنے اس فقرے سے پوری کردی : اجعلنی علیٰ خزائن الارض“ ([63])

 

امام زمخشری ؒ حکومت و اقتدار کی قوت کی اہمیت اور آیت اجعلنی علی خزائن الارض کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

 

” اس سے ان کی غرض صرف یہ تھی کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرنے اور حق قائم کرنے اور عدل پھیلانے کا موقع مل جائے اور وہ اس کام کوانجام دینے کی طاقت حاصل کریں ،جس کے لیے انبیاء بھیجے جاتے ہیں“ ([64])

 

الغرض ادخلنی مدخل۔۔۔ اور اجعلنی علی خزائن الارض جیسی آیات کی روشنی میں اور سیرت

 

مصطفوی اور سیرت یوسفی سےیہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ اگر کسی ملک میں ایک اور صرف ایک مرد مومن بھی خالص اسلامی اخلاق اور ایمانی فراست و حکمت کا حامل ہو تو وہ تن تنہا مجرد اپنے اخلاق اور اپنی حکمت کے زور سے اسلامی انقلاب برپا کرسکتا ہے [65])جو تمام انسانوں کی بلاتفریق ضرورت ہے تاکہ ان کے درمیان عدل گستری کے قیام کو ممکن بنا یا جاسکے، جس کے لیے پیغمبروں کو بھیجا گیا ہیں ۔ ([66])

 

بلامبالغہ ایک صحیح اسلامی اسٹیٹ کا قیام تمام انسانوں کی ضرورت ہے (خواہ ناسمجھ اور غیر مسلموں کو یہ ناگوار گزرے ) کیونکہ اس کی عادلانا قوت کےبغیرمعاشرتی امن وسلامتی کا قیام ممکن نہیں ہے،جو عالم انسانیت کی مشترکہ ضرورت ہے ۔

 

موجودہ اسلامی مملکتوں کا خمیر، مقام اور عالمی سیاست میں کردار

 

دنیا کے نقشے پر موجود اسلامی ممالک بشمول مملکت السعودیۃ العربیۃ کوئی بھی حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست نہیں ہے، جس کا ماڈل اور نمونہ محمد الرسول ﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرام نے دنیا کو دیا ہے، جو تیس سالہ خلافت راشدہ سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی ایسی ہی حکومتیں قائم تھیں تاہم طریقہ کار میں کچھ کمی بیشی رہی، لیکن ان حکومتوں میں مآخذ قانون قرآن و سنت ہی رہاہے۔ فرق صرف اتنا سا ہے کہ جس طرح تیس سالہ دور خلافت کی شخصیتیں کامل اور بے داغ تھیں ، خلافت بھی بے داغ اور کامل رہی اور بعد کے ادوار کی شخصیتیں جس طرح ناقص یعنی کامل نہیں تھیں خلافت بھی ناقص رہی، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ حکومتیں غیر اسلامی تھیں ([67])،البتہ کمال اور نقائص میں متفاوت تھیں۔ تاہم انسانیت کے لیے اس کے زیر سایہ خیر کے بہت سارے پہلو نمایاں تھے۔ لیکن گزشتہ چند صدیوں کے دوران صورتحال میں ٹھوس تبدیلیاں رونما ہوئیں اور استعماری طاقتیں دنیا پر حکمران رہی ہیں اور مسلم دنیا بحیثیت مجموعی مغربی ملکوں کے زیر تسلط رہی ہے، جسے سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔([68])استعماریت کے اس دور میں طرز حکومت میں واضح تبدیلی آتی گئی اور خلافت سے مغربی جمہوریت کی طرف سفر کیا اور رخ تبدیل ہوا ۔یوں کردار اور مقام میں بھی واضح فرق پڑ گیا۔ اس مبحث میں اس کاتذکرہ کیا گیاہے۔

 

استعمار سے آزادی اور غلطی

جیسا کہ کہا جاتا ہے ، لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی۔ مغربی استعمار اور سامراج سے آزادی کے

 

بعد اسلامی مملکتیں اپنے اصلی عقیدے اور دین کی طرف رجوع نہ کرنے کی وجہ سے آج تک محکوم ابن محکوم پیدا کررہی

 

ہیں ۔ اپنے اسلاف کی قربانیوں، نظریات اور عقیدے پر خاک اڑارہے ہیں ، خواہ انبیائے کرام ؑ کی تعلیمات ہوں یا آخری نبی حضرت محمد ﷺ کا دیا ہوا دین یا خلافت راشدہ کا نمونہ ہو۔ یا بعد کے ادوار میں محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، محمود الحسن اسیر مالٹا، حسن البناء، سید قطب شہید، علامہ اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح، سید ابوالاعلیٰ مودودی ، یا دیگر مصلحین امت ہوں سب کی عظیم جدوجہد اور کوششوں کی نفی ہورہی ہے۔ روشن دین، اس کی تعلیمات اور تہذیب و تمدن کی عظیم ماڈل ریاستوں کو چھوڑ کر ان تہذیبوں کو تباہ کرنے والوں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں، جو نام کے روشن خیال اور تہذیب یافتہ گردانے جاتے ہیں ، جو حقیقت میں انسانیت اوراسلامی تہذیب کے لیے موت کا پیغام ہے، العیاذ باللہ۔جس کے بارے میں اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

 

بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است([69])

 

ایسے تہذیب کے اوپر بنیادیں استوار کرنا ، اقبال نے خود کشی کےمترادف قرار دیا ہے۔ کہتے ہیں:

 

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا۔([70])

 

رب کائنات کےبھی یہی اصول ہیں ، فرمایا:

 

يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ([71])

 

(الله تعالیٰ ایمان والوں کو اس سچی بات (یعنی کلمہٴ طیبہ کی برکت)سے دنیا اور آخرت میں مضبوط کرتا ہے اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے)

 

رابطۃ المدارس الاسلامیہ پاکستان کےصدرمولانا عبدالمالک ؒ لکھتے ہیں:

 

”آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک مسلمان ممالک کے وسائل اپنی طرف کھینچ رہےہیں اور سودی قرضوں کے ذریعے انہیں معاشی غلام بنانے میں مصروف ہیں ۔ معاشی غلامی بالآخر سیاسی غلامی کاطوق بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے یہ دور امتحان کا دور ہے، اگر اس دور میں رجوع الی اللہ نہ ہوا۔ اسلامی نظام زندگی کو نافذ نہ کیا گیا ،تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ذلت و رسوائی سے نہیں بچا سکتی“ ([72])

 

مسلم مملکتیں ، خودمختاری اور مغربی جمہوریت

مسلم مملکتیں ترقی اور مفاد کے نام پر مغربی جمہوریت اور مفاد کے لیے استعمال کی جارہی ہیں، جو اسلامی طرز

 

زندگی کے بیخ و بنیاد کو اکھاڑنےمیں مصروف ہیں ۔ اس کے ثبوت کے لیے کسی مسلمان سکالر کا نہیں ایک غیر مسلم شاعر

 

( سکھ جسبیر سنگھ بسملؔ ) کا حوالہ بہتر ہوگا ،تاکہ اس کوتعصب کا نام نہ دیا جاسکے۔وہ رقمطراز ہے:

 

عصرِ نور کی ترقی کیا ہے اگرذہن انسان کا ارتقاء نہ ہوا

 

باپ ہے اب وہی جو بچوں کیگالیاں کھا کے بے مزا نہ ہو

 

اسی طرح اسلام بنام جمہوریت میں رقمطراز ہے:

 

ہر چیز ہی قابو سے ہوتی جاتی ہے باہرآغاز میں دیکھے کوئی انجام کے تیور

 

کیا ڈیموکریسی کا ہی لطف وکرم ہے؟عام آدمی کا جینا ہوا جاتاہے دوبھر

 

اسلام ہے جب زیست کا اک نظم مکملسینے سے لگا رکھی ہیں کیوں یہ بدعتیں دیگر

 

مسلم ہیں تو پھر ان سے ہے یہ صرفِ نظر کیوں؟اسلامی ہدایات تو اک فرض ہیں ہم پر

 

مفلس کی کفالت بھی ہے ہمسایے کا ذمہکیا یاد نہیں اب ہمیں فرمان پیمبرﷺ

 

اسلام کی تعلیم ہے اب بھی اہم اتنی تسلیم کہ بدلا ہوا ہے عالمی منظر

 

اسلامی تمدن وہ تمدن ہے کہ جس میں رکھتا ہے رواداری مؤنث سے مذکر

 

حاصل تو کیا تھا وطن پاک کہ ہوں گیاسلامی روایات یہاں زیست کا محور

 

سننے تھے یہ جمہوریت اسلامیہ ہوگیکر ڈالا گیا ہے مگر اسلام مؤخر

 

اے قائد اعظم ہو ا کیا حال وطن کا بننا تھا جسے سب کی تمناوؤں کا مظہر

 

اسلاف نے تو کی تھی زمانے پہ حکومتاوراپنا ہے یہ حال کہ جیسے ہو گداگر

 

نقالی یورپ نے بنا ڈالی ہے کنگالتھی اپنی روایات میں جو قوم تونگر

 

رکھتے نہیں کچھ مشرقی آداب سے نسبتیہ مغربی تہذیب کے پروردہ قلندر

 

اسلام کے ہوتے ہوئے بھی دیکھیے کیسےاس ڈیموکریسی سے ہوا ملک مسخر

 

ملتی نہیں ہے ڈھونڈے سے ایسی کہیں مثالجمہوریت کے ہاتھوں ہے جمہور یرغمال

 

لیڈر اسے ہیں کہتے حکومت عوام کیانکی فریب کاریوں کا دیکھیے کمال

 

جمہوریت کی بس یہی کارکردگیجاتی ہے ایک پارٹی، آتی ہے دوسری

 

جمہوریت کو کہنا حکومت عوام کیطاقت میں ان کاحصہ مگر پاؤ ہے نہ سیر

 

جمہوریت میں ہے کہاں جمہور کا مقامہےرخش ِاقتدار کی کچھ ہاتھوں میں لگام

 

مشغول خود پرستی ہیں، ان کو یہ کب خبر!کٹتے ہیں خستہ حالوں کے کس طرح صبح و شام

 

بسملؔ قلم کو روک نہ کر سلسلہ درازاسلام ہو تو لکھنے کا ہے کس طرح مجاز

 

قائل ہوں میں بھی اس متشرع نظام کابندہ نواز اتنا ہے بس لکھنے کا جواز ([73])

 

جب سے برطانوی استعمار کی جگہ امریکی استعمار نے پہلی جنگ عظیم (1914ء-1919ء)کے بعد لے لی ہے ،تو جمہوریت کی علمبرداری کا ٹھیکہ اس کو ملا ہے اور مغربی مفادات کے لیے جمہوریت کے ساتھ ساتھ مارشل لاؤں اور بادشاہتوں کو بھی پالتا رہتا ہے اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز ذرائع سے دریغ نہیں کرتا ([74])

 

امریکہ بہادر کی دنیا بھر میں 92 ممالک میں مداخلت جاری ہے اور ہمیشہ اس کی پسند کی حکومتیں برسراقتدار آئیں ،جس کے لیے اس نے ہر حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا اور اپنی مرضی کے نتائج ایک طویل عرصہ سے حاصل کررہاہے ([75]) اکثر مسلم ممالک میں جمہوریت کے نام پر اس قدردخیل ہوگیا ہے کہ ان کی خودمختاری داؤ پر لگ گئی ہے اور بیرونی ایجنسیاں ان میں دندناتی پھر رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ مسلم ممالک استعماری مفاد کے آلہ کار ہیں ،مسلم مفادات کے محافظ نہیں ۔

 

مسلمانوں کا ایک عقیدہ اور زندگی کا ایک نصب العین ہے ، مغربی دنیا کی طرح ملحدانہ سوچ اور نظریہ کے حامل نہیں ہوسکتے کہ ؎ بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ([76])

 

جو پیٹ کے پجاری اور مادیت کے غلام ہیں، عقیدہ و مذہب سے کیا سروکار۔ اس کے مقابلہ میں ایک مسلم ریاست کی سب سے بڑی اور اولین ذمہ داری اپنے عقیدے اور دین کی حفاظت اور حکومت الٰہیہ کا قیام ہے۔

 

اسلامی مملکتیں اور دہشت گردی کے اسباب

جب تک مسلم ممالک اسلامی شریعت کا قیام عمل میں نہیں لاتیں تو محرومیوں کےساتھ ساتھ بیرونی مداخلت بھی بڑھ جائی گی اور رعایا پر کنٹرول بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔ جس سے بیرونی طاقتیں فائدہ اٹھا کر اختلاف و افتراق کو مزید گہرا کردیتی ہیں۔ اسلامی ممالک میں اسلام کا درد رکھنے والوں کا ہر طرح ناطقہ بند کیا گیا،جس کے لئے ہر حربہ استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ جمہوریت کے میدان میں بھی ان پر شب خون مارا گیا اور ان کی حکومتیں چلنے نہیں دی گئیں

 

اور نہ چلنے دی جاتی ہیں۔ جیسا کہ مصراور دیگر ممالک میں ہوا۔ مغرب دنیا میں محض نام کی جمہوریت چاہتا ہے،جو ان کے

 

مفاد کو تحفظ دے۔

 

اسی طرح سماجی اور رفاہی میدان میں مسلم ممالک کا راستہ روکا گیا اور روکا جاتا ہےتاکہ مصیبت زدہ مسلمانوں کی کسی طرح بھی مدد نہ ہوسکے اور استعمار کے منشاء و مفاد پر چھوڑ دیا جائے تاکہ ان کا مزید استحصال ہوتا رہے۔اس تناظر میں تمام اسلامی رفاہی اداروں کو بند کردیاگیا اور ان پر قدغنیں لگائی گئیں ،خواہ یہ فلسطین میں غزہ کے محصورین کے لیے فریڈم فلوٹیلا کا واقعہ ہو یا افغانستان اور کشمیر و الجزائر وغیرہ کے پناہ گزین و محصورین کی امداد ہو۔ اس کے مقابلے میں ہر مغربی این جی اوز کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے، جو استعماریت کے لیے کام کررہی ہیں اور مسلمانوں کی بیخ کنی میں لگے ہوئے ہیں۔ بلکہ مسلمانوں کو دہشت گرد بنایاگیا ہے ،جو ایک طرفہ اور ظالمانہ رویہ ہے۔ اس کا مسلمانوں کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ۔جس کا اقرار کیتھولک عیسائیوں کے ایک روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے پولینڈ میں کرسچین یوتھ کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے یوں کرتے ہیں :

 

” انتہا پسند گروہ ہر مذہب میں ہوتے ہیں ۔ انتہا پسندوں کی موجودگی کی بنیاد پر اسلامی دنیا کو مطعون کرنا درست نہیں ہے کیونکہ عیسائیوں میں بھی انتہا پسند گروہ موجودہیں ۔ انتہاپسندی کا ارتکاب اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا اور یہ بات زور دے کر کہی کہ یورپ اپنے نظریات ، رجحانات ، پالیسیوں اور حکمت عملی کے ذریعے نوجوانوں کو دہشت گردی کی طرف دھکیل رہا ہے ۔ دنیا بھر میں جنگ کا ماحول ہے مگر اس پر مذہب کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ جنگیں مفادات کے ٹکراؤ ، وسائل کی غیرمساویانہ تقسیم یا بندربانٹ اور شدید قسم کے نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر ہوتی رہی اور ہورہی ہیں ۔ مذہب تو ان معاملات پر دور کھڑا نظر آتا ہے“ ([77])۔

 

جہاد فی سبیل اللہ اورمسلم ممالک

اسلام ایک عقیدہ اور نظام زندگی کا نام ہے، جس کے تحفظ کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کا ایک مقدس مرحلہ بھی آتا ہے لیکن مغربی استعماریت اور جمہوریت کےاثرات ہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ کی جگہ ان ممالک کے اندر قتال فی سبیل مفادات جاری ہے۔ جس میں ان ہی ممالک کی اپنی ہی جانیں اور توانائیاں ضائع ہورہی ہیں ۔ مغرب جومسلم دنیا کاہمارا دشمن ہے ،نے انہی کےاندر جنگ کی آگ کوبھڑکایاہے ،جس کی وجہ سے وہ اپنے عقیدے کے تحفظ کے لیے نظریہ جہاد سے پسپائی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ جو تنزلی اور بدحالی کی اصل سبب ہے۔ چونکہ مغرب کسی عقیدہ اور نظریہ کا

 

پابند نہیں ۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم بھی ایسے ہی ہوجائیں جیساوہ ہے([78])۔

 

مغربی استعماریت اور جمہوریت کے نتیجے میں بقول اقبال یہ فتویٰ آگیا ہے کہ اب فلسفہ جہاد وتلوارکاگر نہیں ۔

 

فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہےدنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

 

تعلیم اس کو چاہیے ترکِ جہاد کیدنیا کو جس کے پنجہ خونین سے ہو خطر ([79])

 

یوں سمجھ لیجئے کہ مسلم مملکتوں نے مغربی جمہویت کے اپنانے میں خود مختاری کے ساتھ قومی حمیت کو بھی کھو دیاہے۔

 

سربراہ مملکت ظل اللہ فی الارض

اسلام کی رو سے سربراہ مملکت اور ریاست رعایا کے لیے اللہ کا سایہ اور شلٹر ہے ،جس کے نیچےمیں عوام کو تحفظ، آرام اور سکون میسر ہوتی ہے ۔لیکن آج کے سربراہان مملکت یہ مقام اور کام کھو چکے ہیں کہ جس کے سایہ عاطفت میں رعایا متحد ہوکر قوت کا ذریعہ بن سکے۔ سلاطین اپنے مناصب کے تقاضے پورا کرسکے اور نہ اپنی رعایا اور ا ن کے وسائل کو تحفظ فراہم کرسکے۔ بلکہ رعایا کے حق میں بڑے بڑے جرائم کے مرتکب ہو کر ان کو کئی مذہبی، سیاسی، وطنی اور لسانی بنیادوں پر تقسم اور منتشر کرکے فرعونی اصولوں ([80]) کے تحت ان کا استحصال کررہےہیں۔

 

پیسے کی بنیاد پر رعایا کو تقسیم کرنا، سیاسی رشوتیں دینا ، رعایا سے غلاموں جیسا سلوک کرنا اور متشددانہ رویہ اپنانا فرعونی اصول ہیں ،جس سے رعایا میں اتحاد اور ہم آہنگی پیدا نہیں ہوسکتی ۔البتہ زمامِ کار کے چند افراد کے مفادات کے لیے یہ طریقہ نہایت سودمند ہے ،تاہم دیر پا نہیں بلکہ اس سے اجتماعی تباہی کا سامان میسر آتا ہے اور واپسی کا راستہ بند ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ ([81])

 

”اور (اے پیغمبر)جب تمہارا رب انسانی آبادیوں کو ظلم کرتے ہوئے پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے۔یقینا اس کی پکڑ (بڑی ہی) دردناک (اور بڑی ہی)سخت ہے “ اور ایسے لوگوں کی پکڑ بھی بہت سخت ہوتی ہے،جیسا کہ اللہ نے فرمایا:

 

إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ ([82]) ”(اے پیغمبر) تمہارے رب کی پکڑ بلاشبہ بڑی سخت (پکڑ)ہے“۔

 

یہی مضمون قرآن مجید کی کئی آیات میں بیان ہوا ہے کہ ظالمانہ طریقے پر چل کر رعایا کو تقسیم کرنے کا انجام بالآخر

 

اجتماعی تباہی پر منتج ہوتا ہے([83]) ۔

 

لہٰذا مسلم ممالک کو اپنے اور اپنی رعایا پر رحم کھاتے ہوئے اسلامی تعلیمات پر چلا کر متحد کرنا ہوگا، بصورت دیگر ان

 

کی اجتماعی تباہی کا سامان خوب سے خوب تر ہورہاہے۔ الجزائر ، عراق، افغانستان، فلسطین اور شام و کشمیر ہمارے سامنے ہیں ۔ العیاذباللہ۔

 

موجود اسلامی مملکتیں اور غلبہ اسلام کی کوششیں

موجودہ اسلامی ریاستیں محض نام کے جمہوری ہی نہیں بلکہ اس کا خمیر بھی مکمل مغربی ہے ،جو اصل میں خادم ِمغرب ہیں۔

 

اس کے پروگرام میں غلبہ اسلام کا کوئی منصوبہ ، اس کےلیے کوئی منظم پروگرام اور نہ مقاصد میں غلبہ اسلام کا نکتہ شامل ہو سکتاہے۔ بلکہ اسلام کے غلبہ کے لیے جو انفرادی، اور غیر سرکاری جماعتی کوششیں ہورہی ہیں ان کا بھی ناطقہ بند کرکے آواز کو بند کیا جاتاہے۔ اگر ریاستی سطح پر اس کے لیے کوئی منظم کام کیا جاتا تو رعایا کی وحدت اور باہمی تعاون کا داعیہ موجود ہوتا لیکن لگتا ایسا ہے کہ یہ ریاستیں ان کوششوں کو روکنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، یا کم از کم اسلام کی شکل وصورت بگاڑنے کے لیے استعمال ہورہی ہیں۔ گویا یہ وہ منصوبہ ہے ،جو صلیبی جنگوں کے بعد تیار کیا گیا تھا ،جس پر ان مملکتوں کو برابر گامزن رکھا گیا ہے۔ الجزائر، مصر اور افغانستان وغیرہ میں ایسی ہی غلبہ اسلام کی کوششوں کو مکمل طور پر سبوتاج کیا گیا۔

 

موجودہ مسلم ریاستیں اور سرمایہ داریت کا فروغ

 

موجودہ ریاستوں نےسرمایہ دارانہ اور طبقاتی نظام کو خوب پروان چڑھایا اورمغربی جمہوریت و آمریت کے لئے مسلسل استعمال کیا گیا ،جس نے انسانیت کو تھکا دیا۔ اسلامی قانون سازی، احکامات اور اس کی تطبیق کے لیے کوئی موقع نہیں دیا گیا اور نہ دیا جاتا ہے۔ ایسے کوششوں کو دبایا جاتا ہے اور ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے تاکہ اسلامی نظام جو حالات اور زمانے کے احوال سے ہم آہنگ ہے، سامنے نہ آئے۔ ان مملکتوں میں جمہوری اداروں یاپھرآمروں کے ذریعے قانون سازی جاری رہتی ہے تاکہ اصل اسلام پسِ پردہ رہے۔ اوراحوال حاضرہ اورمسائل امت میں اس کا کوئی کردار نہ رہے۔بلکہ استعمار کے مکروہ عزائم کے لیے استعمال کیے جائیں اور ہر وہ کام جاری رکھیں ، جس سے اسلام اور مسلمانوں کا فایدہ نہ ہو ۔ خواہ وہ آزادئ اظہار رائے کے نام پر فحاشی پھیلانا ہو، تہذیب کے نام سے عریانیت کا کلچر عام کرنا ہو ،یا ترقی کے نام سے سودی کاروبار ہو، یا قانون کو پامال کرنے کے لیے اہم شخصیات کو استثناء کاحصول ہو تاکہ خارجہ و داخلہ پالیسی میں استعمار کی من مانی مسلط ہوتی رہے۔ اسی طرح ترقی کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کو قومی اثاثہ جات کی نجکاری کو ممکن بنایا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ کرنسی میں استحکام کی بجائے کمی ہورہی ہے اور قومی اثاثہ جات کو فروخت کرنے پر مجبور ہورہے ہیں بلکہ سود بھرنے کے لیے مزید ٹیکسوں کے تلے دبے جارہے ہیں اور یوں غریب عوام کو جی ایس ٹی، انکم ٹیکس، وڈہولڈنگ ٹیکس اور ٹول ٹیکس جیسے ظالمانہ ٹیکسوں کے شکنجوں میں جکڑا یاجارہاہے۔

 

بیرونی جارحیت ، مداخلت اور مسلم ممالک

 

دنیا کے نقشے پر موجود مسلم ممالک اپنی سرزمین کے اندر بیرونی جارحیت اور مداخلت روکنے میں مکمل ناکام نظر آتی ہیں۔ یہ بیرونی مداخلت اسلامی تعلیمات میں ہو یا سیاست و معیشت اور دیگر اثاثہ جات اور Resourcesمیں یا پھر ریاستی پالیسیوں اور معاملات میں ہوں۔ الغرض ہر طرح سے مداخلت اور دراندازی جاری ہے اور یہ ریاستیں اس تناظر میں بے بس نظر آتی ہیں۔ نیشنل ، انٹرنیشل میڈیا، بشمول سوشل میڈیا کے ،ہر طرح اسلامی نظام حیات اور پروگرام پر حملہ آور ہے۔

 

گلوب کےاوپر روز بروز کےواقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان ریاستوں میں رعایا کی جان محفوظ نہیں اور ملکی مفادات کے نام پر جو اقدامات اٹھائے گئے یا اٹھائےجاتے ہیں ، ان ممالک میں دخل اندازہونے کے بہانےتھے اوراب بے دخلی کا عمل جاری ہے ، جس کے مظاہر ہمیں فلسطین ، مصر، الجزائر ، افغانستان ، کشمیر ، عراق، برما اور شام وغیرہ میں نظر آرہے ہیں۔ العیاذباللہ

 

حریت اور امید کا سہارا

 

پِسے ہوئے طبقات کی حریت و آزادی اور حقوق و تحفظ کا واحد سہارا جہاد کا راستہ اور جذبہ ہے، جو ہرظلم وجبر،مغربی استعماریت اور سامراجیت کے راستہ کا ایک قوی علاج ہے ،لیکن بدقسمتی سے مسلم ریاستوں کے اوپر بٹھائے ہوئے استعمار کے دوست و احباب کے توسط سے اس جذبے اور راستے کو مسدودکیا جاتا ہے اور یوں اقلیت اور مغربی طبقات کے مفاد کے لیے اکثریت کے حقوق کا استحصال کیا جارہے۔ مصر وشام ، الجزائر و عراق، بنگلہ دیش و افغانستان اور کشمیراکثرمسلم ممالک اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ ان مسلم ممالک میں جدید اسلحہ کے ساتھ فوج کی تربیت ، ہر قسم تیاری اور وسائل کی فراہمی سے رعایا کے تحفظ اور حقوق کی پاسداری خواب و خیال بن گیا ہے۔ان پربھاری اخراجات اٹھانے کا اصل مقصد تورعایا اور ان کے دین و عقیدے کا تحفظ ہے، جو حقیقت میں پسِ منظر میں چلا گیا ہے اور محض جغرافیائی تحفظ کے انتظام پر بھاری ریاستی اخراجات اٹھائے جاتے ہیں، جو اسلام کی رو سے کوئی معنی نہیں رکھتا ، اگر عقیدے اور دین کا تحفظ اس کے ساتھ نہ ہو ۔کیونکہ اسلام میں ریاست مقصودنہیں،بلکہ اصل مقصدشریعت ہے ،جس کےنفاذکےلیےریاست ایک ذریعہ ہے۔اور جب سےیاست اور جہاد کا یہ مقصد فوت ہوگیا ہے، ریاستیں ذلت پہ ذلت اٹھاتی رہتی ہیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

 

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا ۔ الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا([84])

 

شریعت اور ریاست کی تحفظ کےلیےجورعایا کےلیےشلٹرہے،جہادایک کارگرراستہ ہے،جن وجوہات کی بناء پربھی ترک کیاگیا ہے اورکیا جارہا ہے ،مسلمانوں کےذلت کا سبب بن رہاہے،آپ ﷺ نےبجا فرمایا ہے کہ:

 

إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلاًّ لاَ يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ ([85])

 

”جب تم بیع عینہ کرنے لگو اوربیلوں کے دم پکڑ کر زراعت پر راضی ہوجاواور جہاد کوترک کرو تو اللہ تعالی ٰ تم پر ذلت کو مسلط کرے گاجو تمہیں چھوڑے گا نہیں تاوقت یہ کہ تم جہاد کو لوٹ آو“

 

یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے جہاد کو عزت کا راستہ قراردیا ہے لیکن اس راستے کی برکات سے امت کو بیگانہ بنایا جارہا ہے جو بے سہارا،بے کس اور مظلوموں کے لیے امید کا واحد راستہ ہے۔ شاید اسی بنیاد پر آپﷺ نے فرمایا تھا کہ جہاد تاقیامت جاری رہے گا([86]) کیونکہ ا س سےظلم اور ظالم کوروکاجاسکتاہےاور بے سہاروں کو سہارا ملتا رہے۔

 

مسلم ممالک کی فراخدلی اور عالمی سیاست

موجودہ حالات کے تناظر میں ماضی کے مسلم فراخدلی پر حیران ہوں کہ اندلس و ہسپانیہ ، ہندوستان، مصر، فلسطین اور دیگر خطوں میں غیر مسلموں کے ساتھ لااکراہ فی الدین کی روشنی میں رواداری کے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو زندگی و مذہب کا تحفظ دیا گیا ۔لیکن حالات زمانہ نے ثابت کردیا کہ یہ کافر ملتیں کسی رواداری اور مروت نامی چیز سے واقف ہی نہیں ۔ جوں ہی اقتدار ان کے ہاتھ میں آیا ،غیروں کے وجود کو حرفِ غلط کی طرح ایسے مٹایا کہ اندلس و ہسپانیہ میں کوئی اذان دینے کے لیے نہ رہا ۔اسی طرح ہندوستان میں ان کے وجود کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، جس پر مسلمانوں نے 8سو سال حکومت کی اور غیروں کو باوقار زندگی گزارنے دی۔ ظالموں کا شکریہ کہ انہوں نے ۱۸۵۷ء میں اس قدر ظلم کیا کہ مسلم ضمیر بادل ناخواستہ سوچنے پر مجبور ہوا اور یوں ۱۹۴۷ء میں خطہ پاکستان کو بادل ناخواستہ آزادی دی گئی یا نصیب ہوئی ۔

 

لیکن معاف کیجیے! وہ خطہ جس مقصد کے لیے وجود میں لایاگیا تھا اور قائد محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال ؒ نے جو خواب دیکھے تھے ،چکناچور ہورہے ہیں ۔ محمد علی جناح ؒ نے ۲۱نومبر ۱۹۴۵ء میں فرمایا تھا:

 

” مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں ،جہاں وہ خود اپنے ضابطہ حیات، اپنے تہذیبی ارتقاء ، اپنی روایات اوراسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں “ ([87])

 

ایک دوسرے موقع پر فرمایا: ”ہمارا دین، ہماری تہذیب اور ہمارے اسلامی تصورات وہ اصل طاقت ہیں جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لیے متحرک کرتے ہیں“([88])

 

اسی پسِ منظر میں لیاقت علی خان ؒ جو وزیر اعظم پاکستان تھے، نے فرمایا:

 

” پاکستان ہماری ایک تجربہ گاہ ہے اور ہم دنیا کو دکھائیں گے کہ تیرہ سو برس پرانے اسلامی اصول کس قدر کارآمد ہیں“[89]

 

5 اپریل کو راولپنڈی میں لیاقت علی خان ؒ نے اعلان کیا:

 

” پاکستان کا آئندہ دستور قرآن مجید کے احکام پر مبنی ہوگا۔ محمد علی جناح ؒ اور ان کے رفقاء کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کا نشو و نما ایک ایسی مضبوط اور مثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہو جو اپنے باشندوں کو عدل وانصاف کی ضمانت دے سکے “ ([90]) اورعلامہ محمداقبال ؒ نے فرمایا تھا:

 

”اسلام کی حقیقت ہمارے لیے یہی نہیں کہ وہ ایک مذہب ہے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر ہے۔اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھریا وطن ہے،جس میں ہم اپنے زندگی بسر کرتےہیں جو نسبت انگلستان کو انگریزوں اور جرمنی کو جرمنوں سے ہے وہ اسلام کو ہم مسلمانوں سے ہے ۔اسلامی صول یا ہماری مقدس روایات کی اصطلاح میں خدا کی رسی جوں ہی ہمارے ہاتھ سے چھوٹی اور ہماری جماعت کا شیرازہ بکھرا “ ([91])

 

اسلامی عقیدے کا تحفظ حقیقت میں مسلمانوں کےتحفظ اور وحدت کا ذریعہ ہے بقول ِ اقبال جو نہی یہ رسی ہم سے چھوٹی ہے،ہمارا شیرازہ بکھرتاجارہاہے ۔ہماری موجودہ ریاستیں اس عقیدے اور نظریے میں نہایت سخاوت برت رہی ہیں۔ اپنے عقیدے اور تہذیب پر Compromise کرتے کرتے دین الٰہی کی بجائے دین اکبری ماننے کے لیے تیار ہورہے ہیں۔( جس نظریے کے تحت ہمیں آزادی ملی تھی ،اس کو تحفظ نہ دینے کی وجہ سے آج پھر سےمسلمان اپنے وطن میں بےگانہ ہیں۔ اللہ خیر کرے)۔ اس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہوگا کہ ہم خود پیغمبر اسلام ﷺ کی جہادی زندگی، خلافت راشدہ کی مہمات، صلاح الدین ایوبیؒ، محمد بن قاسمؒ، محمود غزنویؒ، جیسے جوانمردوں کی کوششیں دہشت گردی قرار دے رہے ہیں۔ مسلمانوں کا وجود دنیا سے مٹایا جارہاہے جب کہ ۵۸ مسلم ریاستیں تماشہ دیکھ رہی ہیں۔ الحفیظ والامان۔ اقبال ؒ نے کیا خوب کہا تھا:

 

مسلمان فقر و سلطانی بہم کردضمیرش باقی و فانی بہم کرد

 

ولیکن الامان از عصر ِحاضرکہ سلطانی بہ شیطانی بہم کرد ([92])

 

ترجمہ: مسلمانوں نے درویشی اور سلطانی کو باہم جمع کیا ہے ۔ ان کے ضمیر نے روح اور جسد کو باہم ملایا ہے لیکن دورِ حاضر سے اللہ کی پناہ ! کہ اس نے سلطانی اور شیطانی کو باہم جمع کردیا ہے ([93])

 

مسلم ریاستوں اور رعایا کے وسیع تر مفاد کا دعویٰ

اسلام ایک فطری دین ہے۔ اس کو غیر فطری اور غیر اسلامی لبادہ اوڑھانے سے سخت نفرت اور اباء ہے۔ اور جب بھی یہ کوشش کی گئی تو کچھ عرصہ کے بعد رعایا کو تباہی سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ برصغیر پاک وہند میں اسلام کی فطرت مسخ کردی گئی تو مسلمان ملت مٹ گئی اور عذاب کا سیلاب آیا۔

 

ترکی میں یہ تجربہ ہوا تو رعایا کی تباہی کے سوا اتاترک نے کچھ نہیں دیا۔ مصر میں جمال ناصر نے اپنی رعایا کی فطرت مسخ کی تو آج تک وہاں تباہی امت کے سوا کچھ برآمد نہیں ہورہاہے۔ یہی طرز عمل شاہانِ افغانستان نے اپنا یا تھا تو آج تک وہاں تباہی کے سوا کچھ برآمد نہیں ہورہاہے۔ یہ وہ فرعونی اصول ہیں جو بھی اپناتا ہے اپنے قوم کو تباہی کے سوا کچھ نہیں دے سکتا ہے۔ فرعون نے وسیع تر مفاد میں اپنی قوم کا ضمیر مسخ کیا تو دریا میں ڈبونے کے سوا کچھ نہیں دیااورقیامت کا خسارہ اس پر مستزاد ہے([94])

 

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی ریاستیں اس صحیح عقیدے اور منہاج کو اپنائے جو ہماری تہذیب و ثقافت کے مطابق قوموں کو دیر پا اثرات سے نوازتا ہے ۔ یہ وہ تہذیب ہے جو دوسری تہذیبوں سے ممتاز و اعلیٰ ہے ۔ اقبال نے کہا تھا:

 

بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام تیرا دین ہے تو مصطفوی ہے ([95])

 

مسلمان ملت کے وسیع تر مفاد اس میں ہے کہ ان کو دین و عقیدے کی قوت سے قوی کردیا جائے ۔ ان کو دین کی رسی سے یکجا کیا جائے،کیونکہ مسلم ملت کی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف اسلام ہی پر متحد ہوتی ہے ۔ اقبال ؒ کہتے ہیں:

 

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کرخاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

 

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصارقوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تیری

 

دامن ِ دین ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاںاور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی ([96])

 

اسلام کے جمہوری اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام تر شخصی اور ذاتی مفادات سے بالا ہوکر امت مسلمہ کے وسیع تراجتماعی مفادات کو مدنظر رکھا جائے جس کی تائید و حمایت عامۃ الناس سے حاصل ہو اور مرکز و محور قرآن وسنت ہو کیونکہ اگر ملک کا ہر فرد بھی قرآن و سنت کے فیصلے کےخلاف ووٹ دے، پھر بھی خلیفۃ المسلمین ان کی رائے کا پابند نہیں ہوتا ۔ یہ وہ بنیادی فرق ہے جو مروجہ جمہوری سیاست و ریاست اور اسلامی نظام سیاست میں مابہ الامتیاز ہے ۔([97])

 

افسوس ناک بات یہ ہے کہ دنیائے انسانیت سے حقیقی عوامی بادشاہت ، آسمانی بادشاہت اور درویش بادشاہتوں اور حکمرانوں کا ریاستی اور خوبصورت حکومتی ماڈل چھپایا اور چھینا جارہاہے ،جس کے سرخیل حضرت داؤد ؑ، سلیمان ؑ، محمد مصطفیٰ ﷺ اور ان کے خلفائے راشدین تھے۔ انسانیت کو ان محسنین سے دور کیا جارہاہے، جو آج کی تہذیبی دنیا کے ساتھ بہت بڑی خیانت ہے۔([98])

 

دنیائے انسانیت کے لیے یہ دھوکہ بہت بڑے خسارے کا سبب ہے ،جو دنیاپرستی کے ساتھ ساتھ اخلاقی پستی، انسان دشمنی، انتہاپسندی، دہشت گردی اور بدامنی جیسے مصائب سے دوچار کررہی ہے۔ لہٰذا مسلم ممالک کو بالخصوص اور دیگر ریاستوں کو بالعموم اس عقیدے اور تصور کی طرف آنا چاہیے جو انسانی فطرت کے قریب، اخلاق اور امن و سلامتی کی زبردست داعی اور محرک ہے، جو دین اسلام ہے۔ اور رب کائنات کا پسند فرمودہ ([99])بھی ہے اورجس کی طرف رخ کرنے کا حکم فرمایا ہے:

 

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ([100]) 

 

”آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خلقت الہٰی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے یقینا یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے مگر لوگوں کی

 

اکثریت اس بات سے بالکل بےخبر ہے“۔

 

جبکہ حضور ﷺ نے فرمایا: مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلاَّ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ[101]

 

”کوئی بھی بچہ جو پیدا ہوتا ہے فطرت ِ اسلام پر پیداہوتا ہے، لیکن اس کے والدین اس کو یہودی،نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں “

 

اسلامی ریاستیں اور نظریاتی فوج کی ضرورت

اسلامی ریاست عقیدے اور نظریے کی بنیاد پر دوسری ریاستوں سےممتاز حیثیت رکھتی ہے۔دوسرے اداروں کے مقابلے میں اس کی فوج کی تربیت نظریاتی لحاظ سے زیادہ اہم اور ضروری ہے کیونکہ ریاست و عوام کی امیدیں ان سے زیادہ وابستہ ہوتی ہیں۔

 

لہٰذا اگر اسلامی ممالک کی فوج نظریاتی لحاظ سے مضبوط نہیں تو رعایا و عوام کو کیا خاک تحفظ فراہم کریں گی بلکہ عوام کے بقول ہماری ریاستوں میں فوجیں اپنے ملکوں میں اپنی رعایاکو فتح کرتی رہتی ہیں اور اپنے ملک و قوم کے مفادات کے تحفظ کے بجائے دوسروں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتی ہیں اور ان کی وفادار رہتی ہیں جو مسلمانوں کے لیے ایک عظیم المیہ ہے۔

 

ترکی اور مصر کی تاریخ ہمارے سامنے ہیں جو مغربی جمہوریت اور استعماریت کے ہتھے چڑھ گئے ہیں اور مسلمانوں کا عقیدہ ، نظریہ ،اخلاق اور تمدن و کردار تباہی سے دوچار ہے اور باقی ریاستیں اس نہج پر برابر گامزن ہیں جس سے اسلامی مملکتوں کی بقاء خطرے میں ہے۔ایک مرتبہ اس وقت امید یں بن گئی تھیں کہ جنرل راحیل کی قیادت اور سربراہی میں 39 ممالک کی مشترکہ فورس بنائی گئی ، تاہم یہ امیدیں ایک مرتبہ پھر دم توڑ گئی جب روہنگیا کے مسلمانوں پر قیامت خیز مظالم کئےگئےاورفلسطین کو اسرایئل نےامریکہ کے سربراہی میں اپنا دارالخلافہ بنایا جب کہ ۳۹ ممالک اپنی اس مشترکہ فوج کے ساتھ یہ تماشہ دیکھ رہی تھیں ۔اللہ کرے کہ مشترکہ فوج کاجو اقدام اٹھایا گیاتھا،اس پرنظرثانی کےساتھ ساتھ اس کا نصب العین اورمقاصد کووضع کیا جائےتاکہ وحدت ِمسلمہ کےجد جہد کا ایک مشترکہ فلیٹ فارم میسر آجائے،اورمسلمانوں کے کھوئے ہوئے عزت و ناموس کو بحال کیا جاسکے۔ اگرمسلم ریاستوں نے ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیا اور اتحاد ِامت پر غور نہیں کیا تو اللہ کے قہر سے ملت اسلامیہ کی تمام ریاستیں اپنی موت آپ مرجائیں گی۔جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا :

 

وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ([102])

 

”اور جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ بھی ایک دوسرے کے کارساز و رفیق ہیں اگر تم ایسا نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ پیدا ہو جائے گا اور بڑی ہی خرابی پھیلے گی“

 

خلاصہ بحث

عالمی سیاست میں اسلامی ریاستوں کا کردار بہت فعال ہونا چاہیے اور یہ تب ممکن ہے جب ریاست کے وجود کا کوئی مقصد ہو ۔لہٰذا اسلامی ریاستوں کے پروگرام میں دین و عقیدہ کے تحفظ کو اولیت دی جائے جو اسلامی وحدت کا زبردست داعی ہے۔
  • بیرونی مداخلت کو کم کرنے کے لیے اسلامی ریاستیں باہم دیگر تعاون بڑھاتےہوئے ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرے۔
  • مسلم ممالک اسلامی تہذیب کی حفاظت وبقاکےلیےمشترکہ معاشی، معاشرتی، سیاسی اور تعلیمی پروگرامات ترتیب دیں اور رابطے بڑھائیں تاکہ بیرونی جارحیت اور مداخلت کا سدباب ممکن ہوسکے۔
  • متحدہ اسلامی فوج ، مشترکہ کرنسی اور اس جیسے دیگر اقدامات سےاسلامی ریاستیں عالمی سیاست میں فعال رول ادا کرنے اور اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لائق ہوسکیں گی ۔
  • اس قسم کی دیگر متحدہ اورمثبت پروگرامات سے اپنے دین اور رعایا کے حقوق کا تحفظ اور ادا ئیگی ممکن بنایاجاسکے گا۔
  • بین الاقوامی اسلامی کورٹ کی قیام کےذریعے تمام مسلم ریاستیں اپنی مسائل کو حل کرنے سے اسلامی احکامات میں بیرونی غیر اسلامی مداخت بند کرسکیں گی ۔
  • ایسا کرنے سے ہم بتدریج اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے قابل ہوجائیں گے اورمسلمانوں کا عزت ووقاربحال ہوجائے گا۔

حوالہ جات

  1. ) علامہ محمد اقبال،کلیات اقبال (اسرار خودی)، اقبال اکیڈمی ، لاہور،1990ء، 19
  2. ) البخاري، محمد بن إسماعيل، قرة العينين برفع اليدين في الصلاة، تحقيق:أحمد الشريف، دار الأرقم للنشر والتوزيع، كويت، ۱۹۸۳ء ، ۱؍۳۷
  3. ) مسدس حالی{مدّو جزراسلام} ،شمس العلماءخواجہ الطاف حسین حالی ، ،مکتبہ خلیل غزنی سٹریٹ لاہورجنوری ۲۰۰۵ء ،ص؍۱۷
  4. ) ملخص: حکمت بالغہ،خصوصی شمارہ نومبر۲۰۱۵،ص؍۱۲۶، ۱۲۷
  5. ) يوسف۱۲: ۴۰
  6. ) الانعام ،۶۲:۶
  7. ) المك، ۶۷:۱
  8. ) علامہ محمد اقبال ،بانگ درا،{کلیات اقبال}،زاہد بشیرپرنٹرز ، لاہور،جولائی، ۲۰۱۲ء ،ص؍ ۱۳۴
  9. ) علامہ محمد اقبال،ضرب کلیم{کلیات اقبال}، ص؍۱۵۹
  10. ) ڈاکٹر اسراراحمد، منہج انقلاب نبوی مقالہ در حکمت بالغہ،، نومبر ۲۰۱۵ء، ص؍۱۲۹
  11. ) البقرة ۲: ۲۸۴
  12. ) طه ۲۰:۶
  13. ) آل عمران ،۱۸۰:۳
  14. ) المنافقون ،۶۳:۷
  15. ) شیخ سعدی، مصلح الدین ،شیرازی، گلستان ،مکتبہ رحمانیہ، اردو بازار لاہور،ص؍43
  16. ) علامہ محمد اقبال، کلیاتاقبال ، فارسی(جاوید نامہ۔پیغام افغانی بملت روسیہ)،ص؍ 80(668)
  17. ) النساء،۴:۱
  18. ) حکمت بالغہ؍۱۳۳
  19. ) أحمد بن حنبل ، مسند ،تحقیق: شعيب الأرنؤوط وآخرون ،مؤسسة الرسالة ،ط؍۱، ۲۰۰۱ ء ، ۳۸ ؍۴۷۴
  20. ) الحجرات، ۱۳: ۴۹
  21. ) حکمت بالغہ؍۱۳۵
  22. ) حکمت بالغہ؍ ۱۴۶
  23. ) النساء: ۴: ۵۹
  24. ) دیکھیے : مودودیؒ، سید ابوالاعلی ، خلافت و ملوکیت ، ادارہ ترجمان القرآن لاہور، جنوری ۲۰۱۱ء، ص؍۴۲
  25. ) البغوي ، الحسين بن مسعود ، شرح السنة ، تحقيق: شعيب الأرنؤوط وغيره المكتب الإسلامي دمشق، ۱۹۸۳ء ،۱۰؍۴۴
  26. ) البخاري، محمد بن إسماعيل ، الجامع الصحيح ،حسب ترقيم فتح الباري ، دار الشعب القاهرة ، ۱۹۸۷ء ، ۹؍ ۷۸
  27. ) ابن ماجه ، محمد بن يزيد القزويني، سنن، تحقيق، فؤاد عبد الباقي ، دار إحياء الكتب العربية البابي الحلبي،۱؍۴
  28. ) الْحَشْر، ۵۹: ۷
  29. ) الاحزاب: ۳۳: ۳۶
  30. ) سنن ابن ماجه ،۲؍۹۵۵
  31. ) بن حزم ، محمد علي بن أحمد الأندلسي، الفصل في الملل والأهواء والنحل، مكتبة الخانجي، القاهرة ،س ن ندارد، ۴؍۷۲
  32. ) محمد بن جریر الطبری،جامع البیان، مؤسسۃ الرسالۃ،۲۰۰۰ ،۸؍۵۰۲
  33. ) بخاری، محمد بن إسماعيل ،صحیح بخاری ،کتاب الاحکام،حدیث نمبر:۷۱۳۷
  34. ) غزالی ،محمد بن محمد، احیاء علوم الدین،دار المعرفہ بیروت،بذیلہ کتاب المغنی عن حمل الاسفارفی الاسفار، لعبدالرحیم العراقی، 1؍13
  35. ) علامہ ابن خلدون ،مقدمہ ابن خلدون ،نفیس اکیڈمی ، اردو بازار کراچی ،2003ء ،ص؍ ۱۱۳
  36. ) شاہ ولی اللہ ، حجة الله البالغہ ،(مترجم: مولانا محمدمنظور الوجیدی)،شیخ غلام علی اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ پبلشرز انارکلی لاہور،ص؍122
  37. ) مولانا گوہر رحمٰن، اسلامی سیاست، دارالعلوم تفہیم القرآن، مردان، ۹۱۹۹۱ء ، ص؍۱۹
  38. ) شامی ، ابن عابدین ، محمد أمين بن عمر الدمشقي الحنفي ، دار الفكر-بيروت ،طبع دوم،1992م، ۳؍۲۰۳
  39. ) ڈاکٹر حسن صعب ،علم السیاسۃ، بیروت، ۱۹۷۰ء ، ص؍ ۲۰
  40. ) ڈاکٹر جمال الأتاشی، مدخل إلی علم السیاسہ، دمشق، س ن ندارد ، ص؍ ۷
  41. ) مولانا حامد انصاری، اسلام کا نظام حکومت، دہلی، ۱۹۵۶ء، ص؍ ۲۰۰
  42. ) ایضاً
  43. ) ابْن الْقيم ،الطّرق الْحكمِيَّة فِي السياسة الشَّرْعِيَّة، تَحْقِيق مُحَمَّد جميل أَحْمد، مطبعة الْمدنِي، مصر1961م،ص ؍ ۱۷
  44. ) دیکھئے اسلامی سیاست ؍ ۳۷
  45. )دیکھئے: اسلامی ریاست، سید مودودیؒ ، اسلامی پبلی کیشنز پرئیویٹ لمیٹڈ لاہور، ۲۰۰۳ء، ص؍۵۲، ۵۳
  46. ) الکهف، ۱۸: ۲۶
  47. ) المائدہ: ۵: ۴۹
  48. ) النساء: ۴: ۱۰۵
  49. ) الاعراف: ۷:۳
  50. ) اسلامی ریاست؍ ۵۵
  51. ) ﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ﴾(اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے اور تمام مذہبوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرک برا مانیں) (الصف: 9، توبہ: ۳۳)
  52. ) ﴿شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ﴾ (اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کر دیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے، اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ) (الشوریٰ ۴۲: ۱۳ )
  53. ) اسلامی سیاست ؍۱۶۶
  54. ) اسلامی سیاست ؍۱۸۴
  55. ) الانفال ۸ : ۳۹
  56. ) ابن کثیر،اسماعیل،التفسیرالقرآن العظیم، دار طيبة للنشر والتوزيع، طبع دوم 1999 م، 1؍525
  57. ) الجامع الصحيح ، باب من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا ، دار ابن كثير ، اليمامة – بيروت

     

    1987ء ، حدیث نمبر : 2655 ، 1؍81
  58. ) مسلم بن الحجاج،صحيح مسلم ،باب بيان أن الدين النصيحة، حديث نمبر:95
  59. ) ﴿وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا﴾(بنی اسرائیل ۱۷: ۸۰)
  60. ) عبد المحسن بن حمد العباد البدر ، شرح سنن أبي داود ، دروس صوتية http://www.islamweb.net ، الكتاب مرقم آليا، درس نمبر:۵۹۸
  61. ) ایضاً
  62. ) ﴿قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ۔ قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ ۔ وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ ﴾” بادشاہ نے آپ سے بات چیت کی تو کہا کہ آج کے دن سے آپ ہمارے نزدیک بڑے با عزت اور معتبر انسان ہیں،یوسف علیہ السلام نے کہا کہ : آپ مجھے ملک کے خزانوں (کے انتظام) پر مقرر کردیجیے ۔ یقین رکھیے کہ مجھے حفاظت کرنا خوب آتا ہے (اور) میں (اس کام کا) پورا علم رکھتا ہوں“ (یوسف : ۵۴، ۵۵ )
  63. ) اسلامی ریاست ،ص؍۱۷۴، ۱۷۵
  64. ) امام زمخشری جاراللہ، محمود بن عمرو ،تفسیر کشاف، دار الكتاب العربي – بيروت ،طبع سوم،۱۴۰۷ھ، ۲؍۲۴۲
  65. ) مودودیؒ، سید ابوالاعلی، تفہیم القرآن،ادارہ ترجمان القرآن، لاہور ۲؍ ۴۱۳
  66. )﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ﴾”حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی ہوئی نشانیاں دے کر بھیجا اور ا ن کے ساتھ کتاب بھی اتاری اور ترازو بھی، تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اور ہم نے لوہا اتار جس میں جنگی طاقت بھی ہے اور لوگوں کے لیے دوسرے فائدے بھی اور یہ اس لیے تاکہ اللہ جان لے کہ کون ہے جو اس کو دیکھے بغیر اس (کے دین) کی اور اس کے پیغمبروں کی مدد کرتا ہے ۔یقین رکھو کہ اللہ بڑی قوت کا، بڑے اقتدار کا مالک ہے“ (الحديد ۵۷: ۲۵)
  67. ) دیکھیے: اصلاحی، صدر الدین ، فریضہ اقامت دین، اسلامک پبلی کیشنز لاہور، ۲۰۰۱ء ، ص؍۱۳۰،۱۲۹
  68. ) ڈاکٹر حافظ محمد سجاد، اسلامی اور مغربی تہذیب و افکار تاریخی تناظر میں، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد، ۲۰۰۱ء، ص؍۲۷۵
  69. ) اقبال ، ضرب کلیم، ص؍۱۸۸
  70. ) اقبال ،بانگ درا، اقبال اکیڈمی ،پاکستان لاہور،1994ء،ص؍167
  71. ) ابراہیم ۱۴: ۲۷
  72. ) مولانا عبدالمالک اتحاد العلماء پاکستان کے صدر ہیں۔ دیکھیے: حرف اتحاد، جریدۃ الاتحاد، منصورہ، لاہور، فروری ۲۰۱۶ء، ص/5
  73. ) حکمت بالغہ، قرآن اکیڈیمی جھنگ، لالہ زار کالونی نمبر۲، ٹوبہ روڈ جھنگ صدر، جنوری ۲۰۱۷ء، ص؍ ۳۳- ۳۵
  74. ) دیکھیے: انجینئر مختار احمد فاروقی، اسلامی نظریہ اور ریاست پاکستان، قرآن اکیڈمی جھنگ، دسمبر ۲۰۱۶ء، ص؍۱۴
  75. ) حکمت بالغہ، نومبر ۲۰۱۵ء ،ص؍۱۹۴
  76. ) دیکھیے: تزک بابری
  77. ) حکمت بالغہ، جنوری ۲۰۱۷ء، ص؍۳۶
  78. ) ﴿وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ﴾ (وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہوجاؤ جیسے وہ خود ہوئے ہیں تاکہ سب برابر ہوجائیں ۔ لہذا ان میں سے کسی کو آپ دوست نہ بناؤ)۔(النساء ۴: ۸۹)
  79. )اقبال ،ضرب کلیم،الفیصل ناشران وتاجران کتب،غزنی ستڑیٹ، اردو بازار لاہور، ص؍۲۶
  80. ) ﴿إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ﴾
    ” فرعون سر زمین (مصر) میں بہت بڑھ چڑھ گیا تھا اور اس نے وہاں کے باشندوں کو مختلف قسمیں کر رکھا تھا کہ ان (باشندوں) میں سے ایک جماعت (یعنی بنی اسرائیل) کا زور گھٹا رکھا تھا (اس طرح سے کہ) ان کے بیٹوں کو ذبح کراتا تھا اور ان کی عورتوں( لڑکیوں)کو زندہ رہنے دیتا تھا واقعی وہ بڑا مفسد تھا“ (القصص: ۴)
  81. ) ہود ۱۱: ۱۰۲
  82. ) البروج ۸۵: ۱۲
  83. ) دیکھئے : الاعراف :۱۳۵ تا ۱۳۷
  84. ) مسلمانو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں ان بےبس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو (ظالموں کے تشدد سے عاجز آ کر) فریاد کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہم کو اس بستی سے نجات دلا جہاں کے رہنے والے (ہم پر) ظلم کر رہے ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی اور مددگار کھڑا کردے۔ جو ایمان والے ہیں وہ تو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، پس (مسلمانو،) تم شیطان کے حمایتیوں سے لڑو (اور

     

    ان کی کثرت کی کچھ پروا نہ کرو کیونکہ) شیطان کی (جتنی) تدبیریں (ہیں سب) بودی ہیں ) (النساء : ۷۵۔ ۷۶)
  85. ) سنن ابو داود، کتاب الاجارہ، باب النهي عن العينة ،دارالسلام للنشر والتوزیع ،2000ء،حدیث نمبر:3462
  86. ) « وَالْجِهَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِي اللَّهُ إِلَى أَنْ يُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِي الدَّجَّالَ لَا يُبْطِلُهُ جَوْرُ جَائِرٍ وَلَا عَدْلُ » ”اورجہادمیری بعثت کے بعد جاری ہے تاوقت یہ کہ میری امت کا آخری حصہ دجال کو قتل کرے۔ اس کو کسی ظالم کا ظلم ختم نہیں کر سکتااورنہ کوئی عادل اس کوقوف کرے گا“ (سنن ابو داود، حدیث نمبر:۲۱۷۰)
  87. ) Ahmad Jamil ud Din & Sh. Muhammad Ashraf , Speeches and writing of Mr. Jinnah, Lahore, 2/249
  88. ) ایضاً
  89. ) پاکستان ٹائمز ، ۱۵جنوری ۱۹۴۸ء
  90. ) پاکستان ٹائمز ۷ اپریل ۱۹۴۸ء
  91. ) شیروانی ، خطبات اقبال، ، لاہور،ص؍۱۰۳
  92. ) اقبال ،کلیات اقبال ،ارمغان حجاز(عصر حاضر) ،فارسی لاہور،ص؍)96 998)
  93. ) اسلامی نظریہ اور ریاست ِ پاکستان،ص؍۲۵
  94. ) ﴿يَقْدُمُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَوْرَدَهُمُ النَّارَ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُودُ﴾ وہ قیامت کے دن اپنی قوم کا پیش رو ہو کر ان سب کو دوزخ میں جا کھڑا کرے گا ،وہ بہت ہی برا گھاٹ ہے جس پر لا کھڑے کیے جائیں گے{ھود ۵۷: ۹۸ }
  95. ) اقبال ،بانگ درا، وطنیت،ص؍۲۲۷
  96. ) اقبال ، بانگ درا، مذہب،ص؍ ۳۵۲
  97. ) دیکھیے: اسلامی معاشرہ کی تاسیس و تشکیل؍ ۱۹۷-۱۹۸
  98. ) دیکھیے: حکمت بالغہ؍ ۱۶۶، ۱۶۷
  99. ) آل عمران ۳: ۱۹
  100. ) الروم ۳۰:۳۰
  101. ) صحیح بخاری ، باب إذا أسلم الصبي فمات هل يصلى عليه وهل يعرض على الصبي الإسلام ، دار ابن كثير ، اليمامة – بيروت، حدیث نمبر: 1293
  102. ) الانفال۸ :۷۳
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...