Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 2 Issue 2 of Al-ʿILM

عصر حاضر میں مسلم ریاست کے غیر مسلم ریاستوں سے تعلقات: معاہدات نبوی کے تناظر میں |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

2

Year

2018

ARI Id

1682060040263_958

Pages

186-202

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/103/81

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/103

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ میں بلاشبہ اسلام کو مرکزی اور محوری مقام حاصل ہے۔ از آدم ؑ تا ھنوز نسل انسانی نے تہذیب و تمدن کے ارتقاء کی بے شمار منزلوں کو طے کیا۔ اس تمدنی ارتقائی سفر میں جو پیش رفت اسلام کے واسطے سے ہوئی وہ کسی دوسری مذہبی،علمی، فکری یا اصلاحی کاوش کے نتیجے میں نہیں ہوئی۔ اسلام کے دینِ فطرت ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ نسل انسانی کی بقا اسلام کے اُصول و ضوابط کی اتباع میں ہے اور ان اصولوں سے انحراف خود کشی کے مترادف ہے۔تاریخ انسانی گواہ ہے کہ جس ملک و ملت نے بھی اسلام کا اقرار کرتے ہوئے یا بغیر اعلانیہ اقرار کے اسلام کے آفاقی قوانین کی پابندی کی ہے ترقی و عروج ان کا مقدر رہا ہے۔

 

پیغمبرِ اسلام حضور نبی اکرم ﷺکا اسوہ حسنہ وہ واحد معیار ہے جواسلام کے ان آفاقی اصولوں کی عملی تعبیر و تشریح ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺکی حیات پاک کا ہر گوشہ نسل انسانی کے لیے اپنے اندر رہنمائی کے ان گنت پہلو رکھتا ہے۔ سیرتِ طیبہ کے دیگر گوشوں کی طرح آپ ﷺ کے غیر مسلموں سے معاہدات بھی قیامت تک کے مسلمانوں کورہنمائی فراہم کرتے رہیں گے۔ عصر حاضر میں مسلمان اپنے سیاسی، معاشی، تہذیبی اور سماجی مسائل جنگ و جدل اور مخاصمت و عداوت کے ذریعے حل کرنے کی بجائے غیر مسلم ریاستوں سے باعزت انداز میں ڈپلومیسی اور معاہدات کے ذریعے حل کر سکتے ہیں اس سلسلے میں بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات اُمت مسلمہ کے لیے مینارہء نور ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکے ماڈل کو اُسوہ حسنہ قرار دیا۔ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ کا ہر پہلو ہمارے لیے سرچشمہ ہدایت ہے۔

 

آج مسلم دنیا کو جو جو چیلنجز اور مسائل درپیش ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ سے رہنمائی نہ ملتی ہو۔ انسانیت نوازی کا جذبہ ہو یا قیام امن کی عالمی و قومی کاوشیں، معاشی مساوات کا خواب ہو یا سماجی عدل و انصاف کی فراہمی، تعلیمی انقلاب ہو یا سیاسی سوجھ بوجھ، ہمارے آقائے نامدار ﷺ نے ہر محاذ پر انسانیت پروری اور اخلاص کے انمٹ نقوش ثبت کئے ہیں۔

 

ہاں! آج کے پر آشوب حالات میں علماء اُمت کی یہ ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ وہ اُسوہ نبوی ﷺ سے روشنی کشید کریں اور پوری دنیا میں اس نبوی ﷺ بصیرت و حکمت کو عام کریں تاکہ نام نہاد ترقی یافتہ مغرب، امن، انسانی حقوق اور شخصی آزادی کے نام پر دنیا کو مزید دھوکا نہ دے سکے۔

 

ہمارا موضوعِ بحث حضورﷺ کے معاہدات کی روشنی میں اسلامی ریاست کے غیر مسلم ریاستوں سے تعلقات کے باب میں رہنمائی فراہم کرنا ہے۔ اس حقیقت سے ہر باشعور شخص واقف ہے کہ آج پوری دنیا کی قومیتوں میں اسلامی ممالک کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔ گذشتہ کئی عشروں کے دوران بد قسمتی سے بعض ممالک کے تنگ نظر مذہبی گروہوں اور جماعتوں نے تبلیغ کی آڑ میں جہادی سرگرمیوں کو پروان چڑھانا شروع کر دیا جس میں بہت سے نوجوان بوجوہ استعمال ہو رہے ہیں، نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ مسلم دنیا لخت لخت بھی ہے اور لہو لہو بھی۔ ہمارا دشمن ہمیں مزید جذباتی کر کے ہماری قوت ختم کر رہا ہے۔ یہ فکری انتشار انفرادی قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ہمارا دین ہمیں ہر مذہب ہر رنگ و نسل کے انسان اور معاشرے سے پر امن بقائے باہمی اور اخلاص و خیر خواہی کے جذبات سے آراستہ کر کے دنیا کی رہنمائی پر کمربستہ کرتا ہے۔ اس ضمن میں حضورﷺکی سیرت ہمارے پاس سب سے بڑی رہنمائی کا ذریعہ ہے۔

 

حضور نبی اکرم ﷺ کے غیر مسلموں سے معاہدات قیامت تک کے مسلمانوں کو رہنمائی فراہم کرتے رہیں گے ۔عصر حاضر میں معاہدات نبوی ﷺ سے استفادہ کی درج ذیل صورتیں ہو سکتی ہیں:

 

خیر خواہی اور فلاحِ انسانیت کا جذبہ

 

معاہداتِ نبوی سمیت رسولِ اکرم ﷺ کے ہر قول و فعل میں سب سے نمایاں وصف انسانیت کی فلاح اور خیر خواہی کا جذبہ ہے۔ آپ a کو چونکہ اﷲ تعالیٰ نے پوری انسانیت کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا تھا، اس لیے آپ کے ہر سیاسی، سماجی اور دعوتی عمل کے لیے حسنِ نیت خلوص اور تعمیر انسانیت کی لازوال طاقت کار فرما تھی، یہی وجہ ہے کہ آپ کا کوئی ایک عمل بھی خواہ حالت جنگ میں بالمقابل جانی دشمنوں کے خلاف اُٹھایا گیا تھا، یا حالتِ امن میں مخالف فریق کے ساتھ معاہدات کی شکل میں، اُس سے قیامت تک انسانیت کو اخلاص و مروت کا ہی سبق ملتا ہے۔

 

معاہداتِ نبویﷺ میں کار فرما انسانی خیر خواہی کے جذبے کو مزید قریب سے دیکھنا ہو تو ایک نظر ان عالمی معاہدوں کے اثرات و نتائج پر ڈالنا ہو گی جو ’’مہذب‘‘ طاقتوں کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر قیام امن کے لیے مختلف اوقات میں بروئے کار لائے گئے۔

 

ان قومی اور بین الاقوامی معاہدات کا تعلق عالمی سیاست سے ہو یا معیشت سے، انسانی حقوق کے لیے قانون سازی سے ہو یا جنگ میں ملوث فریقین کے درمیان اَمن سے متعلق، بلقانی اتحاد اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان 1913ء کا معاہدہ لندن ہو یا 1914ء سے لے کر 1918ء تک جنگِ عظیم اوّل کے دوران طے پانے والے معاہدات، جنگ عظیم کے دوم کے دوران جرمنی، اٹلی جاپان اور دیگر طاقتوں کے درمیان درجنوں معاہدے، جنیوا میں ہونے والے 1987ء کے تخفیفِ اسلحہ کا معاہدہ ہو یا 1988ء کا جنیوا امن معاہدہ، اس طرح درجنوں فلسطین اسرائیلی معاہدے ہوں یا پاک بھارت امن معاہدے، آپ کو ان معاہدات میں ہر جگہ سیاست، بدنیتی، لالچ، فریب اور جھوٹ کے بے شمار مظاہر ملیں گے۔ ایک فریق بفرض محال کسی معاہدے کی پاسداری پر کاربند دکھائی بھی دے رہا ہو تو دوسرا عہد شکنی اور دھوکا دہی میں ملوث نظر آتا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ایک صدی میں ہونے والے ایسے سینکڑوں عالمی امن معاہدوں کے مثبت اثرات مرتب نہیں ہو سکے۔ فلسطین کا قضیہ ہو یا کشمیر اور بو سنیا و چیچنیا کا مسئلہ، مشرق وسطیٰ کی حالیہ شورش میں عالمی طاقتوں کے وعدے اور معاہدے ہوں، ہر جگہ عدم اطمینان، وعدہ شکنی اور جانبداری کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ سبب وہی ہے کہ فریقین لالچ یا پھر تہذیبی او رتعصب کار فرما ہوتا ہے۔

 

عالمی امن و سلامتی کا فروغ

 

معاہداتِ نبوی ﷺ کے مطالعہ سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ امن و سلامتی کو جنگ و جدال پر ترجیح دی ہے۔ جب بھی آپ ﷺکو موقع ملا آپ ﷺ نے دل سے امن و سلامتی قائم کرنے کی بھر پور کوشش کی انسانی جانوں کے ضیاع کو ناپسند فرمایا۔

 

حضور نبی اکرم ﷺنے اپنی حیات مقدسہ میں مختلف مذاہب اور قبائل کے ساتھ بیسیوں معاہدات فرمائے۔ ان تمام معاہدات سے ہمیں امن و سلامتی کا درس ملتا ہے۔ عصر حاضر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان معاہدات سے روشنی کشید کرتے ہوئے دنیا میں امن و سلامتی کے فروغ میں اپنا اہم کردار ادا کریں تاکہ دنیا میں امن و سلامتی کا قیام ممکن ہو سکے۔

 

آپ ﷺ کی پوری حیات طیبہ انسانی معاشرے میں امن و سلامتی کے قیام اور فتنہ و فساد کے خلاف جہدو جہد سے عبارت ہے۔ آپ ﷺ کی اس دنیا میں تشریف آوری کے وقت عرب معاشرہ عموماً تہذیب و تمدن سے عاری اور کسی مرکزی حکومت کے نظم و نسق سے محروم صحرا کی بدویانہ طرز زندگی کا خوگر تھا۔ ہر نوع کی برائی و بد امنی عام تھی۔ بدویوں کے علاوہ شہری زندگی بھی ان ہی مصائب و مشکلات میں گھری ہوئی تھی۔ حتی کہ مکہ مکرمہ میں بھی جو تمام عرب کے نزدیک محترم تھا، وہاں بھی مسافروں اور بے کسوں کا استحصال ایک معمول بن چکا تھا۔ مثلا ایک مرتبہ قبیلہ زید کا ایک تاجر سامان تجارت لے کرمکہ مکرمہ آیا ۔ یہاں کے ایک شخص عاص بن وائل نے اس سے سامان خریدا، مگر اُسے ادائیگی نہ کی۔ اس نے مکہ کے مختلف قبائل سے داد رسی کے لئے التجا کی، مگر کسی نے بھی توجہ نہ دی۔ آخر اس نے جبل ابی قبیس پر چڑھ کر دہائی دی۔ اس پر کچھ نیک دل افراد نے مظلومین کی حمایت و تحفظ کی خاطر آپس میں عہد و پیمان کیا۔ اس معاہدہ کی اہم دفعات کچھ یوں تھیں:

 

لَنَکُونَنَّ مَعَ الْمَظْلُومِ حَتّٰی يُؤَدَّي إِلَيْهِ حَقُّه، مَا بَلَّ بَحْرٌ صُوْفَةً.([1])

 

"جب تک دریا میں صوف بھگونے کی شان باقی ہے، ہم مظلوم کا ساتھ دیں گے۔ یہاں تک کہ اس کا حق ادا کیا جائے اور معاش میں ہم (اس کی) خبر گیری و غم خواری بھی کریں گے"

 

یہ معاہدہ حلف الفضول کے نام سے معروف ہے۔ اس کا مقصد مظلوم کی دادرسی اور ظالم کو ظلم سے باز رکھنا تھا۔ عربوں کی تاریخ میں اس معاہدے کو بابرکت اور افضل معاہدہ قرار دیاگیا۔حضرت حکیم بن حزام فرماتے ہیں:

 

وَکَانَ أَشْرَفَ حِلْفٍ کَانَ قَطُّ([2]).

 

"یہ تاریخ کا سب سے قابل احترام معاہدہ تھا"

 

حضور نبی اکرم ﷺ کی عمر شریف اُس وقت صرف بیس برس تھی مگر مکہ میں امن و امان کی بحالی کے لیے آپ ﷺاس میں ایک سرگرم سماجی کارکن کی حیثیت سے نہ صرف شریک ہوئے، بلکہ آپ ﷺ کو اس معاہدے کا انعقاد اس قدر عزیز تھا کہ اپنی بعثت کے بعد بھی اسے یاد کرکے فرمایا کرتے تھے: میں ابن جدعان کے گھر جس معاہدے میں شامل تھا اگر اس کے مقابلے میں مجھے سرخ اونٹ بھی دیئے جاتے تو قبول نہ کرتا اور آج بھی اس قسم کے معاہدے میں شرکت کی دعوت دی جائے تو قبول کرنے میں تامل نہ کروں گا([3]

 

آپﷺ کے ان الفاظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ طبعاً اور فطرتاً بعثت سے قبل بھی فتنہ و فساد سے کتنے نالاں اور امن و سلامتی کے کس قدر خواہاں تھے۔

 

مکہ مکرمہ سے جب آپ ﷺ نے مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی تو یہاں بھی قبائلی نظام مروج تھا۔ عرب اوس و خزرج کے بارہ قبائل میں بٹے ہوئے تھے اور یہودی بنو نضیر اور بنو قریظہ کے دس قبائل میں۔ ان میں کئی نسلوں سے باہم لڑائی جھگڑے چلے آ رہے تھے([4]

 

ان حالات کے پیش نظر آپ ﷺ نے یہاں پر آتے ہی قیام امن کے لیے بھرپور کاوش فرمائی اور ہجرت کے چند ہی ماہ بعد ایک ایسا معاہدہ مرتب فرمایا، جسے مدینہ کے تمام لوگوں نے تسلیم کیا۔ میثاقِ مدینہ کے نام سے معروف اس تاریخی دستاویز کی 63 دفعات ہیں جس میں داخلی طور پر قیام امن اور خارجی جارحیت کی صورت میں تمام فریقوں کی جانب سے متحدہ مدافعت کا معاہدہ کیا گیا۔ اس دستاویز میں اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ یثرب کا علاقہ محترم رہے گا۔ پڑوسی کو اپنی جان کی مانند سمجھا جائے گا، اسے نہ کوئی ضرر پہنچنا چاہیے اور نہ اس کے ساتھ بد سلوکی سے پیش آنا چاہیے۔ اس معاہدے میں شامل یہودی قبائل کے جان و مال کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جائے۔ چنانچہ معاہدہ کی ایک شق یہ ہے:وَإِنَّهُ مَنْ تَبِعَنَا مِنْ يَهُودَ فَإِنَّ لَهُ النَّصْرَ وَالْأُسْوَةَ غَيْرَ مَظْلُومِينَ وَلَا مُتَنَاصِرِينَ عَلَيْهِمْ([5]).

 

"اور یہود میں سے جو بھی ہمارے معاہدے پر عمل درآمد کرے گا اس کی مدد کی جائے گی اور اس کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے گا۔ ان (یہود) پر ظلم اور نا انصافی ممکن نہ ہوگی اور نہ ہی ان کے خلاف کسی (دشمن) کی مدد کی جائے گی"

 

اس معاہدہ کی ایک شق یہ بھی تھی:وَإِنَّ بَيْنَهُمْ النُّصْحَ وَالنَّصِيحَةَ وَالْبِرَّ دُونَ الْإِثْمِ([6]).

 

"اور (اس دستوری وحدت میں شریک) اتحادیوں کے درمیان مخلصانہ تعلقات اور باہمی خیر خواہی ہوگی اور وہ اس معاہدے سے مکمل وفا کریں گے، عہد شکنی اور دھوکہ دہی نہیں ہوگی"

 

یوں اس معاہدے کی رو سے تمام فریق اس بات کے پابند ہوگئے کہ اس (شہر مدینہ) کے امن کو برقرار رکھنے کے لئے سب گروہ مل کر جدوجہد کریں گے۔ سیاسی لحاظ سے اس دستور نے مدینہ طیبہ کی حدود میں قیام پذیر اقوام کو اختلاف مذاہب کے باوجود ایک وحدت قرار دیا۔ اس معاہدہ کی ابتداء میں ہی یہ تحریر کر دیا گیا:إِنَّهُمْ أُمَّةٌ وَاحِدَةٌ مِنْ دُونِ النَّاسِ([7]).

 

"(اس اتحاد کی بدولت) باقی اقوام و قبائل سے الگ یہ سب مل کر ایک قوم تشکیل پا گئے ہیں"

 

اس کے متعلق ڈاکٹر حمید اﷲ لکھتے ہیں:اصل میں یہ شہر مدینہ کو پہلی دفعہ شہری مملکت قرار دینا اور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا([8]

 

محمد حسین ہیکل نے لکھا ہے: یہ وہ تحریری معاہدہ ہے جس کی بدولت رسول اکرم ﷺنے آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا ضابطہ انسانی معاشرے میں قائم فرمایا، جس سے شرکائے معاہدہ میں ہر گروہ اور ہر فرد کے اپنے اپنے عقیدہ و مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہوا اور انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی([9]

 

مشہور انگریز مستشرق سر ولیم میور نے اس معاہدے کی تعریف ان الفاظ میں کی:

 

اس تاریخی معاہدے کی بدولت آپ ﷺ نے ایک عظیم مدبر اور سیاست دان کی طرح مختلف الخیال اور باہم منتشر لوگوں کو متحد اور یکجا کرنے کا کام بڑی مہارت سے انجام دیا۔ آپ ﷺ ایک ایسی ریاست اور معاشرے کے قیام میں کامیاب ہوئے جو بین الاقوامیت کے اصول پر مبنی تھا([10]

 

مولانا صفی الرحمٰن بیان کرتے ہیں:

 

آپ ﷺ کا مقصود یہ تھا کہ ساری انسانیت امن و سلامتی کی سعادتوں اور برکتوں سے بہر ور ہو اور اس کے ساتھ مدینہ اور اس کے گرد و پیش کا علاقہ ایک وفاقی وحدت میں منظم ہو جائے۔ چنانچہ آپ ﷺنے رواداری اور کشادہ دلی کے ایسے قوانین مرتب فرمائے جن کا اس تعصب اور علو پسندی سے بھری دنیا میں کوئی تصور ہی نہ تھا([11]

 

حضور نبی اکرم ﷺنے میثاق مدینہ کے ذریعے مدینہ منورہ اور قرب و جوار میں قیام امن کے لیے دستور مرتب فرما لیا، مگر عرب کے دیگر قبائل کی جانب سے ابھی کوئی اطمینان نہیں تھا اور قریش کی جانب سے لوگوں کو مسلمانوں کی مخالفت پر ابھارا جا رہا تھا۔ اس لیے آپ ﷺ نے کئی اور قبائل سے ایسے معاہدے فرمائے جن میں عموماً برابری کی بنیاد پر فریقین کے جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دی گئی۔

 

پرامن بقائے باہمی

 

حضور نبی اکرم ﷺ نے ہجرت کے بعد میثاق مدینہ کے ذریعے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو ایک شہر میں رہنے کے لیے ایسی تعلیمات سے نوازا جس کو پوری دنیا کے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسان بقائے باہمی (Mutual Co-existance) کاایک ماڈل قرار دے سکتے ہیں ۔دنیا کے پہلے تحریری دستور میثاق مدینہ کے تحت نہ صرف مدینہ میں موجود تمام طبقات ایک سیاسی وحدت میں بدل گئے([12])، بلکہ وہاں کافی عرصے سے رائج سیاسی انتشار، سیاسی استحکام میں بدل گیا۔ میثاق مدینہ میں تمام ریاستی طبقات کے ساتھ برداشت، بقائے باہمی اور احترام و وقار کا سلوک روا رکھنے پر آپ کی صلح جو، اعلیٰ ظرف اور معتدل مزاج قیادت کا تصورابھرا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر مذاہب کے ساتھ مل کر آج بھی قیام امن کے وسیع تر مقصد کے لیے بقائے باہمی کا معاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

 

بین المذاہب مکالمہ کا جواز

 

معاہدات سے قبل فریقین کو گفت و شنید کرنا پڑتی ہے۔دونوں فریق مختلف مذاہب کے پیروکار بھی ہو سکتے ہیں ۔حضور نبی اکرم ﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار مکہ کے نمائندے سے مکالمہ (Dialogue) فرمایا۔ میثاق مدینہ کے لیے یہودیوں اور دیگر فریقوں سے گفتگو کی گئی۔خیبر کے یہودیوں اور نجران کے عیسائیوں سے بات چیت کے ذریعے اتفاق رائے کے بعد مختلف معاہدات کیے گئے۔ چنانچہ ان معاہدات سے ایک یہ راہنمائی بھی ملتی ہے کہ کفار،یہود اور نصاریٰ سے اچھے انداز میں مذہبی معاملات پر بات چیت کی جا سکتی ہے جسے آج کل کی اصطلاح میں مکالمہ بین المذاہب (Interfaith Dialogue) کہا جاتا ہے۔

 

نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ در اصل مذہبی مکالمے کا ہی نتیجہ تھا۔ اس دستاویز اور تاریخی منشور کے ذریعے رسول اکرم ﷺ نے اسلامی ریاست میں دیگر مذاہب کے باشندوں کے حقوق کے تحفظ، ان سے حسن سلوک، رواداری اور اعتدال پسندی کی تعلیم اور ہدایات جاری کیں اور ان سے تعلقات کے رہنما اصول فراہم کیے([13]

 

بین المذاہب رواداری کا قیام

 

حضور نبی اکرمﷺکے معاہدات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے بین المذاہب رواداری کو ہمیشہ برقرار رکھا ہے۔ آپ ﷺ نے معاہدات کے سلسلے میں اہل کتاب(یہود و نصاریٰ) اور غےر اہل کتاب میں کوئی فرق روا نہیں رکھا۔ بلکہ امن کے لیے معاہدات کرنے میں مخالف فریق کے مذہبی عقائد سے بالا تر ہو کر ان سے گفت و شنید کی ہے۔ جہاں آپ نے مدینہ طیبہ کے یہودیوں سے میثاق کے ذریعے اپنے شہر کے امن کو یقینی بنایا ہے، وہیں خیبر کے یہودیوں سے معاہدات کیے اور وہاں نجران کے عیسائیوں سے بھی معاہدہ کیا۔ دوسری طرف مکہ معظمہ کے مشرکین سے بھی صلح حدیبیہ کیا ہے۔

 

حضور نبی اکرم ﷺنے کفار مکہ سے معاہدہ حدیبیہ کیاجس کی ایک شرط یہ تھی کہ فریقین میں دس برس تک جنگ نہیں ہو گی۔

 

امام طبری نے اسے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:اصْطَلَحَا عَلَی وَضْعِ الْحَرْبِ عَنِ النَّاسِ عَشْرَ سِنِينَ، يَأْمَنُ فِيهِنَّ النَّاسُ، وَيَکُفُّ بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ.([14])

 

"دونوں فریق اس بات پر صلح کرتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان دس سال تک جنگ نہیں ہو گی، اس عرصہ کے دوران لوگ امن سے رہیں گے اور انہیں ایک دوسرے کے ظلم سے بچایا جائے گا"

 

باالفاظ دیگر یہ دس سالہ معاہدہ عدم جارحیت (No war pact) تھا۔ عصر حاضر میں ہم معاہدہ حدیبیہ سے راہنمائی لیتے ہوئے کسی بھی غیر مسلم ملک سے جنگ نہ کرنے اورمعاشرتی وتجارتی تعلقات قائم رکھنے کا معاہدہ کر سکتے ہیں۔

 

بعض مذہبی انتہا پسند (Religious extremists) یہ کہتے ہیں کہ بھارت سے پاکستان کو کوئی معاہدہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہندوؤں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔یہ منفی سوچ ہے جو تعلیمات نبوی ﷺکے خلاف ہے۔اس سلسلے میں قرآن مجید میں بھی حکم دیا گیا ہے کہ جب کفار صلح کے لیے مائل ہوں تو مسلمانوں کو صلح کر لینی چاہیے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلۡمِ فَٱجۡنَحۡ لَهَا وَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِ.([15])

 

"اور اگر وہ (کفار) صلح کے لیے جھکیں تو آپ بھی اس کی طرف مائل ہوجائیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں"

 

اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کو تعلیم دی جا رہی کہ جب غیر مسلم خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں مسلمانوں کے ساتھ صلح کا ہاتھ بڑھائیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پیشکش کو امن و آشتی کی خاطر قبول کریں اور مذہبی رواداری کا ثبوت دیں۔

 

اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا تحفظ

 

حضورنبی اکرم ﷺ کے یہودو نصاریٰ سے کیے گئے معاہدات سے ہمیں یہ رہنمائی حاصل ہوتی ہے کہ مسلم ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کی مذہبی آزادی کے تحفظ کو کس قدر یقینی بنایا گیا ہے۔ اس کا اندازہ ہمیں آپ ﷺ کے اس فرمان عالی شان سے ہوتا ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺنے غیر مسلم اقلیتی، ذمی، معاہدپر ظلم و ستم کرنے اور اس کو تکلیف دینے والے کے لیے سخت وعید سنائی ہے نیز فرمایا ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کسی معاہد سے کوئی چیز اس کی مرضی کے خلاف لی تو بروزِ قیامت میں اس کی طرف سے مسلمان کے خلاف جھگڑوں گا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أَوِ انْتَقَصَهُ أَوْ کَلَّفَه، فَوْقَ طَاقَتِهِ أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيْبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيْجُه، يَوْمَ الْقِيَامَة.([16])

 

"خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا"

 

مذکورہ حدیث مبارکہ میں یہ صرف ایک تنبیہ ہی نہیں بلکہ ایک قانون ہے جو حضور نبی اکرم ﷺکے دور مبارک میں اسلامی مملکت میں جاری تھا ، جس پر بعد میں بھی عمل درآمد ہوتا رہا اور اب بھی یہ اسلامی دستور مملکت کا ایک حصہ ہے۔

 

جیسا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے دور مبارک میں اہل نجران سے معاہدہ کرتے وقت انہیں اس بات کی ضمانت دی گئی کہ نجران اور گرد و نواح کے لوگوں کی زندگی، ان کا مذہب، املاک، ان کے مویشی، ان کے موجود اور غیر موجود لوگوں اور ان کے قاصدوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکی طرف سے امان حاصل ہو گی۔ ان کی موجودہ حالت یا حقوق میں مداخلت نہیں کی جائے گی اور نہ ان کے بتوں کو توڑا جائے گا۔ ان کے راہبوں کو ان کے عہدوں سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ اسی طرح کئی دیگر معاہدات میں بھی غیر مسلم اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے([17]

 

میثاق مدینہ کے مطابق یہودِ مدینہ کو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی، اسی طرح بنو جہینہ، بنو ضمرہ اور بنو ربیعہ وغیرہ کو معاہدات کی رو سے مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی۔

 

الغرض! حضور نبی اکرم ﷺکے معاہدات کی روشنی میں پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کی غیر مسلم اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے، ان ممالک میں بسنے والے اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) اور غیر اہل کتاب غیر مسلموں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ ان کے بچوں کی مذہبی تعلیم میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔انہیں اپنے مذہبی تہوار منانے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔

 

بین المذاہب نکاح کا جواز

 

قرآن مجید میں مسلمان مردوں کو اجازت دی گئی ہے کہ حسبِ ضرورت وہ اہل کتاب عورتوں سے شادی کر سکتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ.([18])

 

"اور (اسی طرح) پاک دامن مسلمان عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاکدامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لیے حلال ہیں)"

 

معاہدات نبوی ﷺ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب عورت سے نکاح کرنا جائز ہے۔ اہل نجران کے معاہدے کے مطابق ان کی عورتوں سے عقد حلال قرار دیا گیا ہے لیکن مسلمانوں کو کسی نصرانی عورت سے زبر دستی نکاح کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔

 

سیاسی وحدت کا تصور

 

میثاق مدینہ میں دینی، مذہبی اور اعتقادی وحدت سے ماسوا سیاسی اور معاہداتی وحدت کا تصور بھی دیا گیا ہے۔ یہ تصور سیاسی مفہوم کی ایک ایسی نئی توسیع تھا جس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ مملکت کے اندر دینی اور مذہبی وحدت کے علاوہ موجود دیگر اکائیوں کوایک جاندار ریاستی کردار عطا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ انہیں بھی ایک ایسا باوقار سیاسی، ریاستی مقام دیا جاتا تاکہ وہ بھی اپنے آپ کو ریاست کا ایک عضو فعال تصور کرتے ہوئے ذمہ دارانہ کردار ادا کرتے۔ اس لیے وہ تمام فریق جن کے درمیان میثاق مدینہ طے پایا اور ان کی اتباع میں مستقبل میں اس میثاق میں شریک ہونے والے فریقوں کومیثاق مدینہ کی رو سے ایک سےاسی وحدت قرار دیا گیا:إِنَّهُمْ أُمَّةٌ وَاحِدَةٌ مِنْ دُونِ النَّاسِ([19])."دنیا کے تمام لوگوں کے مقابل میثاق مدینہ میں شریک فریقوں کی ایک علیحدہ سیاسی وحدت ہو گی"

 

میثاق مدینہ کی رو سے مسلمانوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر انہیں کہیں دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ مل کر حکومت بنانا پڑے تو وہ ایسا کر سکتے ہیں جیسا کہ حضور نبی اکرم ﷺنے یہود مدینہ سے مل کر ریاست مدینہ قائم کی تھی۔ آج دنیا کے کئی حصوں میں مسلمان ایسا کرنے پر مجبور ہیں ۔ میثاق مدینہ میں مدینہ کے یہود اور مسلمانوں کو ایک سیاسی وحدت (Political unit) قرار دیا گیا ہے۔

 

حضور نبی اکرم ﷺنے ہجرت کے بعد میثاق مدینہ کے ذریعے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو ایک شہر میں رہنے کے لیے ایسی تعلیمات سے نوازا جس کو پوری دنیا کے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسان بقائے باہمی (Mutual Co-existance) کا ایک ماڈل قرار دے سکتے ہیں۔ دنیا کے پہلے تحریری دستور میثاق مدینہ کے تحت نہ صرف مدینہ میں موجود تمام طبقات ایک سیاسی وحدت میں بدل گئے بلکہ وہاں کافی عرصے سے رائج سیاسی انتشار، سیاسی استحکام میں بدل گیا۔ میثاق مدینہ میں تمام ریاستی طبقات کے ساتھ برداشت، بقائے باہمی اور احترام و وقار کا سلوک روا رکھنے پر آپ کی صلح جو، اعلیٰ ظرف اور معتدل مزاج قیادت کا تصور ابھرا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر مذاہب کے ساتھ مل کر بقائے باہمی کا معاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

 

غیر مسلموں سے دفاعِ ریاست میں اعانت

 

میثاق مدینہ کی رو سے مسلمانوں کو دِفاعِ ریاست اسلامی کے سلسلے میں غیر مسلموں سے دفاعی معاہدات کرنے کی بھی اجازت ہے میثاق مدینہ کی ایک شق یہ بھی تھی:وَإِنَّ بَيْنَهُمُ النَّصْرَ عَلَی مَنْ حَارَبَ أَهْلَ هَذِهِ الصَّحِيفَةِ([20]).

 

"اگر کوئی (قبیلہ یا گروہ) اس میثاق میں شامل طبقات میں سے کسی ایک کے خلاف بھی جنگ مسلط کرے گا تو تمام فریق (مسلمان اور یہود مل کر اس کے دفاع اور حفاظت کے لیے) ایک دوسرے کی مدد کریں گے"

 

اسلامی ریاست میں ذمیوں سے جزیہ وصول کیا جاتا ہے۔ یہ ٹیکس اسلامی ریاست ان سے اس لیے وصول کرتی ہے تاکہ وہ اپنی غیر مسلم رعایا کو ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت یقینی بنا سکے۔ جبکہ دفاع مملکت ان کی ذمہ داری میں شامل نہیں ہے۔ لیکن اگر اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہری دفاع مملکت میں حصہ لینا چاہیں تو ان سے جزیہ وصول نہیں کیا جائے گا۔ اسلام میں دفاع ریاست صرف مسلمانو ں کی ذمہ داری ہے لیکن اگر غیر مسلم اس سلسلے میں اپنی خدمات سر انجام دینا چاہیں اور وہ قابل اعتماد بھی ہو یعنی غداری کا کوئی خدشہ نہ ہو تو ایسی صورت حال میں ان سے دفاعی خدمات لی جا سکتی ہیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

 

انٹیلی جینس فورس کا قیام

 

حضور نبی اکرم ﷺنے کسی بھی معرکے میں جانے سے قبل وہاں کے حالات سے مکمل آگاہی حاصل کرنے کے لیے ایک نبوی انٹیلی جینس فورس قائم کی ہوئی تھی جوکہ مطلوبہ علاقے کے دشمنوں کے تمام حالات و خطرات سے مسلمان مجاہدین کو آگاہ کرتی تھی،کیونکہ جب تک دشمن کی قوت کا مکمل اندازہ نہ ہو اس وقت تک اس سے ٹکر لینا حکمت و دانش کے خلاف ہے۔ اس کی ایک مثال ہمیں معاہدہ حدیبیہ کے موقع پر ملتی ہے۔ حضور ﷺنے قر یش کی متوقع مزاحمت کے پیش نظر حضرت بسر بن سفیان الخزاعی ؓ کو اس مقصد کیلئے مکہ روانہ کیا کہ وہ جا کر معلوم کریں کہ قریش کے تیو ر کیا ہیں۔ نیز عمرہ کیلئے مسلمانوں کی آمدکا کیا رد عمل ہے۔ کیا وہ آمادہ جنگ ہیں یا مکہ میں مسلما نو ں کا وہ کو ئی نوٹس نہیں لیں گے اور انہیں عمرہ کی ادائیگی سے نہیں روکیں گے، مقام ذو الحلیفہ جہاں آپ ﷺاور آپ کے ہمراہیوں نے عمرہ کی نیت سے احرام با ند ھا یہاں سے بھی چالیس سواروں کا ایک ہر اول دستہ آگے روانہ کیا گیا تا کہ دشمن کی منصو بہ بند ی اور اس کی نقل و حرکت سے آگاہی حاصل کی جا سکے۔ حضرت بسر ؓنے واپس آ کر سا رے حالات سے حضور ﷺکو آگاہ کیا۔([21])

 

حفظ ما تقدم کا ثبوت

 

معاہدہ حدیبیہ کے موقع پر جب حضور ﷺ اپنے جانثار صحابہ کے سا تھ مدینہ منو رہ سے عمرہ کی غرض سے روانہ ہو ئے تو آپ aکو شدت سے احساس تھا کہ قریش ان کی را ہ کی رکا وٹ بنیں گے اور مسلمانوں سے الجھنے کی کو شش کریں گے، حالانکہ حج و عمرہ کی ادائیگی عرب کے دستور کے مطابق مسلمانوں کا قانونی حق تھا لیکن قریش کی آنکھو ں پر تعصب کی پٹی بندھی ہو ئی تھی وہ مسلمانوں کو عمرہ کی ادائیگی کی اجازت دے کر اپنی جھو ٹی انا کی دیواروں کو مسمار نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کو روکنے کیلئے انہو ں نے ایک لشکر جرار بھی تیا ر کر لیا تھا جو آ ٹھ ہزار جنگجوؤ ں پر مشتمل تھا۔ حدیبیہ کے مقام پر یہ تاثر مزید گہرا ہوا کہ قر یش شرارت پر تلے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو ان کے قانونی حق سے روکنا چاہتے تھے۔

 

آپ ﷺ اگر چہ جنگ کیلئے کسی مہم پر نہیں نکلے تھے تاہم اپنے دفا ع کے لیے مکمل تیار تھے۔ حضور ﷺ نے تین دستے تشکیل دیئے تا کہ وہ گشت کرتے رہیں اور دشمن کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھیں، تاکہ دشمن مسلمانوں کو غفلت میں پا کر ان پر حملہ نہ کر دے یا شب خون مار کر انہیں نقصان نہ پہنچا سکے، پڑاؤ کے چاروں طرف دن رات پہر ے دار گشت کرتے رہتے، دشمن نے حملہ آور ہونے کی جزوی کوشش کی جسے ناکام بنا دیا گیا، یوں ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات پاک سے حفظ ما تقدم کا ثبوت بھی ملتا ہے۔

 

سفارتی تعلقات کا جواز

 

حضور نبی اکرم ﷺنے کئی موقعوں پرمختلف قبائل اور بہت سارے ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ،اور ان کے ذریعے سے بہت سارے مسائل کو حل کیا ۔ اس کی ایک مثال ہمیں معاہدہ حدیبیہ کے موقع پر ملتی ہے۔ حضور ﷺ نے سب سے پہلے حضرت خرا ش بن امیہ الخزا عی ؓکو اپنا سفیر بنا کر قریش کی جا نب بھیجا کہ ہم جنگ کرنے نہیں عمرہ کی نیت سے آئے ہیں اور عمرہ ادا کر نے کے بعد واپس مدینہ لوٹ جائیں گے لیکن مشرکین مکہ نے حملہ کر دیا اور اس بات کی بھی پرواہ نہ کی کہ حضرت خرا ش ؓ بن امیہ الخزا عی فر یق مخالف کے سفیر ہیں اور سفیر کو قتل کرنا زما نہ جاہلیت میں بھی معیوب سمجھا جا تا تھا لیکن کچھ لو گ آڑ ے آئے اور سفیر پیغمبر کو حملہ آ ورو ں سے بچا لیا۔ آ پ ؓ واپس آئے اور سارے حالات سے حضورﷺ کو آگاہ کیا ۔

 

بعدازاں حضورنبی اکرم ﷺ نے حضرت عمر فاروق ؓ کو قریش کے پاس اپنا سفیر بنا کر بھیجنا چاہا لیکن انہوں نے معذرت کر لی کہ یا رسو ل اللہ! میرا قبیلہ کمزو ر ہے اور مکہ میں میری حمایت کرنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں، حضورنبی اکرم ﷺنے حضرت عمر ؓکا عذر قبو ل فرماتے ہوئے بعد ازاں حضرت عثمان غنی ؓ کو نامزد فرمایا کیو نکہ قریش میں ان کا قبیلہ زیادہ قو ی تھا۔ حضرت عثما ن غنی ؓ سفیر مصطفی بن کر عا زم مکہ ہو ئے، یوں ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ کی سنتِ مطہرہ سے دشمن ملک کے ساتھ حسبِ حالات اہل افراد کے ذریعے سفارتی تعلقات کا جواز بھی ملتاہے۔([22])

 

خلاصہ کلام

 

۱۔ رسول مکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ ﷺ کی پوری زندگی قیامِ اَمن کے لیے کی گئی کوششوں سے عبارت ہے۔ آپ ﷺ کی تعلیمات اور اقدامات اِس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ آپﷺ ناصرف مسلمانوں کے آپس کے تعلقات میں اَمن و آشتی کے خواہاں تھے بلکہ دیگر اَقوام اور قبائل کے ساتھ بھی اَمن کے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔

 

۲۔ قیامِ اَمن کے لیے آپ ﷺکے کیے جانے والے اِقدامات میں سب سے اہم وہ معاہدات ہیں جو آپ ﷺ نے دیگر اَقوام ، قبائل اور حکومتوں کے ساتھ کیے۔ اِن معاہدات کی روشنی میں آپ ﷺنے عرب کے باشندوں کو ایک پراَمن معاشرے کے قیام کی طرف لے جانے کی کوشش کی، وہ عرب جو اپنی زندگی کے چالیس چالیس سال جنگوں میں گزار دیتے تھے۔

 

۳۔ نبی مکرم ﷺ کی مصالحانہ کاوشوں اور غیر مسلم اقوام کے ساتھ معاہدوں کے انعقاد سے اِس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ آپ ﷺدنیا میں اَمن و سلامتی کا قیام چاہتے تھے۔ جسے اپنوں اور غیروں سب نے یکساں تسلیم کیا ہے۔ اِس مضمون میں آپﷺ کی حیاتِ طیبہ کے اِس پہلو کو اُجاگر کیا گیا ہے۔

 

4۔ ان معاہدات سے ہمیں بین المذاہب رواداری، بین المذاہب مکالمہ کا جواز، دوسروں کے جائز مطالبات کا احترام، اقلیتوں کی مذہبی آزادی کے تحفظ، سیاسی وحدت کا تصور، غیر مسلموں سے دفاعِ ریاست میں اعانت اور باہمی سفارتی تعلقات کے جواز جیسے اہم ریاستی اُمور میں رہنمائی میسر آتی ہے، جو کہ عصر حاضر میں کسی بھی ریاست کی کامیاب خارجہ پالیسی کا جزو لا ینفق ہیں۔

 

5۔ عصرِ حاضر میں جب کہ دنیا عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے اِن معاہدات سے رہنمائی لے کر ہم دنیا کو اَمن کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. ()ابن سعد، ابو عبد الله محمد (١٦٨-٢٣٠ھ/٧٨٤-٨٤٥ء)۔ الطبقات الکبری، ١: ١٢٩.؛ ابن الجوزي، ابو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد بن علی بن عبید الله (٥١٠-٥٩٧ھ/١١١٦-١٢٠١ء)- المنتظم في تاريخ الملوك والأمم ، ٢: ٣١١.
  2. ()ابن سعد، الطبقات الکبری، ١: ١٢٨.
  3. ()ایضا، ١: ١٢٩؛ ابن الجوزي، المنتظم، ٢: ٣١١
  4. ()حمید اﷲ، ڈاکٹر محمد- دور نبوی کا نظام حکمرانی،: ٧٩
  5. ()أبو عبيد، القاسم بن سلام (224 هـ)- کتاب الأموال: ٢٦٢، رقم: ٥١٨ ؛ ابن زنجويه، أبو أحمد حميد بن مخلد بن قتيبة بن عبد الله الخرساني (251هـ)- کتاب الأموال، ٢: ٤٦٨، رقم: ٧٥٠ ؛ ابن هشام، ابو محمد عبد الملک بن هشام بن أیوب حمیری المعافری (٢١٣ھ/٨٢٨ء) - السيرة النبوية، ٣: ٣٣
  6. ()أبو عبيد القاسم بن سلام، کتاب الأموال: ٢٦٢، رقم: ٥١٨ ؛ حميد بن زنجويه، کتاب الأموال، ٢: ٤٦٨، رقم: ٧٥٠ ؛ ابن هشام، السيرة النبوية، ٣: ٣٣
  7. (). بيهقي، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني، أبو بكر، (458هـ)- السنن الکبری، ٨: ١٠٦، رقم: ١٦١٤١٧ ؛ أبو عبيد القاسم بن سلام، کتاب الأموال: ٢٦٠، رقم: ٥١٨
  8. ()حمید اﷲ، ڈاکٹر محمد - دور نبوی کا نظام حکمرانی: ٨١
  9. ()هيکل، محمد حسين- حيات محمد ،: ٣٥٣
  10. ()مبارکپوری، صفی الرحمن- الرحيق المختوم،: ٢٦٣
  11. ()أيضًا
  12. ()بيهقي، السنن الکبری، ٨: ١٠٦، رقم: ١٦١٤١٧ ؛ أبو عبيد القاسم بن سلام، کتاب الأموال: ٢٦٠، رقم: ٥١٨
  13. () ابن سعد، الطبقات الکبری، ١: ٢٦٦-٢٦٧ ؛ بلاذری، أحمد بن يحيى بن جابر بن داود (279هـ) - فتوح البلدان: ٧٥-٧٦
  14. ()طبري، محمد بن جرير بن يزيد بن كثير بن غالب الآملي، أبو جعفر (310هـ)- تاريخ الأمم والملوك، ١: ١٢٣
  15. ()الأنفال، ٨: ٦١
  16. ()أبو داود، سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السِّجِسْتاني (275هـ)- السنن، کتاب

     

    الخراج والإمارة والفيء، باب في تعشير أهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات، ٣: ١٧٠، رقم: ٣٠٥٢
  17. ()ابن سعد، الطبقات الکبری، ١: ٢٦٦-٢٦٧ ؛ بلاذری، فتوح البلدان: ٧٥-٧٦
  18. ()المائدة، ٥: ٥
  19. ()بيهقي، السنن الکبری، ٨: ١٠٦، رقم: ١٦١٤١٧ ؛ أبو عبيد القاسم بن سلام، کتاب الأموال: ٢٦٠، رقم: ٥١٨
  20. ()أبو عبيد القاسم بن سلام، کتاب الأموال: ٢٦٣، رقم: ٥١٨ ؛ حميد بن زنجويه، کتاب الأموال، ٢: ٤٦٩، رقم: ٧٥٠ ؛ ابن هشام، السيرة النبوية، ٣: ٣٤
  21. ()ابن هشام، السيرة النبوية، ٣: ٣٤ ؛ الزرقاني، محمد بن عبد الباقي بن يوسف المصري الأزهري (1055 - 1122هـ/1645 -1710ء) ؛ شرح مواهب اللدنيه، ٢: ١٨١
  22. ()شامی، محمد بن يوسف الصالحي (942هـ)- سبل الهدیٰ والرشاد في سيرة خير العباد، ٥: ٧٩؛ ابن هشام، السيرة النبوية، ٢: ٣٨٤
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...