Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 1 Issue 2 of Al-ʿILM

قاعدہ استصحاب کی حجیت پر اہل سنت اور اہل تشیع کی آرا ء کا تحقیقی و تقابلی مطالعہ |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060040263_1062

Pages

106-129

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/6/7

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/6

Subjects

Hujeyat Fiqh Istishab Hukam and Adillah.

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

مقدمہ:

اسلام ایک ایسا جامع ،کامل اور ہمہ جہت دین ہے جس نے صرف فردی و شخصی مسائل یا اخلاقی پندو نصیحت پراکتفا نہیں کیا بلکہ معاشرہ کی تعمیر و ترقی کے تمام اہم اورمؤثروسائل و ذرائع نیز ان سے صحیح استفادہ کرنے کے طور طریقے بھی بیان کیے ہیں۔

اسلام بنیادی طور پر معاشرہ ساز دین ہے اسی بنا پر معاشرے کو جس چیز کی ضرورت ہے،اس کا حصول اسلام نے بطور واجب کفائی فرض قرار دیا ہے اور جو عوامل معاشرتی ترقی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں انہیں اسلام نے حرام قرار دیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے تاکہ ہر زمانہ کے مطابق پیش آنے والے واجبات ومحرمات کا سراغ لگا یا جا سکے ۔

اصول فقہ وہ مہم ترین علم ہے جسے فقہ کے مقدمہ کے طور پر حاصل کر نا ضروری ہے ،علم اصول در حقیقت ایسے قواعدو قوانین پر مشتمل ہے جنہیں ایک مجتہد و فقیہ استنباط احکام میں بروئے کار لا تا ہے ۔

 

استنباط کا لفظ مادہ نبط سے مشق ہے جس کا معنی زمین کے نیچے سے پانی نکلنا ہے ۔اس لیے استنباط کو اجتہاد بھی کہا جا تا

 

ہے ،گویا علماء نے احکام کے استنباط میں اپنی سعی و کوشش کو کنواں کھودنے والوں کے کام سے تشبیہ دی ہے کہ وہ مختلف تہوں کے نیچے سے احکام کا شفاف پانی نکالتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لفظ 'استنباط'تقریبا اجتہاد کا معنی دیتا ہے ۔[1]

 

علم اصول فقہ ہمیں فقہی مصادر کے ذریعے استنباط احکام کا صحیح طریقہ سکھاتا ہے ۔علم اصول فقہ کاماہر فقہی مصادر کے ذریعے استنباط احکام کے قواعد و اصول اور طریقوں سے بحث کرتاہے ۔اہل سنت اور اہل تشیع کے نزدیک استصحاب علم اصول فقہ کا ایک اہم قاعدہ ہے دونوں مکاتب فکر کے ہاں استصحاب اخذ احکام کے ماخذ ہے اور اس کی حجیت پر دونوں مکاتب فکر کے ادلہ کا ایک تقابلی مطالعہ کیا ہے تاکہ ایک جامع دلیل پیش کیا جاسکے ۔

 

استصحاب کا تعارف:

الاستصحاب لغوی اعتبار سے باب استفعال کا مصدر ہے اور استفعال کے وزن پر ہےاستصحاب اصل میں صَحِبَ (مادہ : ص۔ح۔ب) اور اسی مادہ سے ہی صحابی ماخوذ ہے جو کہ اصطلاح میں رسول اکرم ﷺ کے اصحاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا باب استفعال میں استعمال طلب صحبت اور استمرار صحبت کے معنی دیتا ہے۔[2] مثلا: استصحب الرجل ای دعاہ الی الصحبۃ۔یعنی اس شخص نے ساتھ رکھنا چاہا یعنی ساتھ رکھنے کو طلب کیا۔ اسی وجہ سے عربی میں بیوی کو صاحبہ کہتے ہیں کیونکہ عقدنکاح کی ذریعے بیوی شوہر کے ساتھ ہمیشہ کے لیے وابستہ ہوجاتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہےکہ : وَ صَاحِبَتِہٖ وَ اَخِیۡہِ [3](اس کی بیوی اوربھائی۔)اس آیہ کریمہ میں صاحبہ، بیوی کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔

 

علما ئے اصولیین میں سے اہل سنت کے معروف اصولی امام سرخسی (۴۹۰ھ)نے اپنی معروف کتاب’’اصول السرخسی‘‘میں بحث استصحاب میں استصحاب کی فنی تعریف بیان نہیں کی ہے بلکہ مثالوں کے ضمن میں اسے واضح کیا ہے۔ کہتے ہیں: استصحاب کو اُس وقت دلیل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی دوسری دلیل نہ ہو۔[4] مثلا : مسائل شرعیہ میں مال الصبی(نابالغ بچے کے مال) کے بارے میں ہمارے علما ءکا حکم یہ ہے کہ اس مال پر زکاۃ نہیں لگتی اور اس کے واجب نہ ہونے پر استصحاب سے استدلال کرتے ہیں جب تک کوئی دلیل واجب ہونے کو ثابت نہ کرے۔یعنی اصل یہ ہے کہ مال الصبی پر زکاۃ نہیں اور اسی اصل پر ہم استصحاب کا سہارا لیتے ہیں جب تک کوئی دلیل اس کے وجوب کو ثابت نہ کرے۔

 

اس مسئلہ کو یوں بیان کرسکتے ہیں کہ جب کسی نابالغ بچے کے حصے میں وراثت کی ذریعے یا کسی اور طریقے سے کوئی مال آجائے اور وہ مال نصاب زکاۃ کو پورا کرتا ہو تو اس صورت میں حکمِ شرعی کیا ہے ؟ جواب یہ ہے کہ اس صورت کے لیے کوئی حکمِ قرآن و سنت یعنی نص صریح نہیں ہے، البتہ اصولی قوانین کے اعتبار سے اصل یہ ہے کہ اس مال پر زکاۃ واجب نہیں ہے تو یہاں پر قاعدہ استصحاب جاری کرتے ہوے ہم کہتے ہیں کہ اس بچے کے مال پر زکاۃ واجب نہیں جب تک کوئی دلیل زکاۃ واجب ہونے پر دلالت نہ کرے۔ یعنی عدم وجوب الزکاۃ کا حکم جو کہ استصحاب کے ذریعے ثابت کیا ہے تب تک باقی رہے گا جب تک کوئی دوسرا حکم نہ آئے جو اس کو تبدیل کرے۔

 

امام غزالیؒ نے استصحاب کی فنی تعریف یوں بیان کی ہے : بانہ عبارۃ عن التمسک بدلیل عقلی او شرعی و لیس راجعا الی عدم العلم بالدلیل بل الی دلیل مع العلم بانتفاء المغیر او مع ظن انتفاء المغیر عند بذل الجھد فی البحث والطلب[5] استصحاب سے اس وقت تمسک کیا جاتاہے کہ جب اس حکم کو تبدیل کرنے والی کسی اور دلیل کا علم ہو یا ظن ہو۔ دلیل نہ ملنے کی وجہ سے نہیں ۔اس عبارت میں استصحاب کے وقت تمسک کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

 

اہل تشیع کے معروف اصول فقہ کے عالم شیخ مرتضی انصاریؒ استصحاب کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ:الاستصحاب’’ابقاء ماکان‘‘والمراد بالابقاء الحکم بالبقاء۔[6] استصحاب جو ہے اسی کو برقرار رکھنا ہے اس سے مراد باقی رکھنے کا حکم لگانا ہے۔شیخ انصاری ؒ کہتے ہیں کہ علما ءئے اصول نے استصحاب کی مختلف تعریفیں کی ہیں، البتہ ان میں سے سب سے زیادہ مضبوط تعریف ’’ابقاء ماکان‘‘ ہے اس سے مراد حکم سابق پر باقی رہنے کا حکم لگانا ہے۔ اب اس حکم کی باقی رکھنے کی وجہ اور علت پہلے اس حکم کا ہونا ہے اور وہ سابق حکم دلیل سے ثابت ہے ۔

 

اہل تشیع کے ایک اور فقیہ سید علی شاہرودی نے سید ابو القاسم الخوئی کی تقریرات کو جمع کیا ہےجس میں سید ابو القاسم الخوئی کا نظریہ استصحاب کے بارے میں یوں نقل کیا ہےکہ:ان جمیع التعاریف المذکورۃ للاستصحاب من قبیل شرح الاسم وکلھا مشیرۃ الی ذلک المعنی الواحد، الحکم ببقاء حکم او موضوع ذی حکم شک فی بقائہ۔[7] یعنی علما ء نے استصحاب کی جو تعریفیں ذکر کیا ہے وہ سب کے سب لفظی تشریح ہیں اور ان سب کا معنی یہ ہے کہ کسی حکم کا باقی رکھنا یا حکم والے موضوع کو باقی رکھنا جب مسلم حکم کے بارے میں شک پڑ جائے۔

 

معاصر شیعہ اصولی شیخ محمد رضا مظفر ؒ نے استصحاب کی تعریف کی ہے :’’الاستصحاب :ابقاء ما کان‘‘[8]یعنی جو تھا اسی کو باقی رکھنا۔

 

یہاں سے اہل سنت اوراہل تشیّع علما ء کی استصحاب کے بارے میں آراواضح طور پر سامنے آگئیں اور ان تعریفوں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ استصحاب کے بارے میں ان تمام علما ءکے الفاظ مختلف ہیں مگر معنی یکساں ہیں۔ اور وہ یہ کہ کسی امر یا نہی کا حکم ثابت رکھنا زمان حال یا استقبال کے لیے اس مبنی پر کہ وہ حکم زمان ماضی میں کسی دلیل شرعی کے ذریعے ثابت ہو چکاتھا۔اور اس کے متغیروتبدیل ہونے پر کوئی دلیل شرعی یا عقلی نہیں آئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک شرعی حکم جو دلیل شرعی کے ذریعے ماضی میں ثابت تھا اسی حکم کو حال اور مستقبل میں بھی باقی رکھنا ہے کیونکہ کوئی دلیل شرعی یا عقلی جو اس حکم کو تبدیل کرنے والی اب تک نہیں آئی ہے اس لیے اسی حکم کو برقرار رکھا جاتا ہے۔

 

علما ء کی تعریفات کا مجموعہ مندرجہ ذیل تین چیزیں ہیں :* استصحاب ایک عقلی یا شرعی دلیل ہے۔

  • استصحاب اس وقت دلیل بنتا ہے جب حکم سابق کو تبدیل کرنے والی کوئی اور دلیل نہ ہو۔اور اس دلیل کا نہ ہوناعلم یا ظن کے ذریعے ثابت ہو۔
  • اگر تبدیل کرنے والی کوئی دلیل ہاتھ آئے تو اس دلیل کا شرعی لحاظ سے معتبر ہو نا ضروری ہے۔

 

 

 

اب سوال یہ ہے کہ کون سی تعریف زیادہ مناسب ہے اورکس تعریف کوترجیح دینی چاہیے ؟ جواب : یہ بات واضح ہے کہ عربی زبان دنیاکی زبانوں میں فصاحت اور بلاغت کے اعتبارسے سب سے آگے ہے فصاحت و بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ الفاظ کم ہوں اور معانی و مطالب واضح ہوں ۔ اور ان تمام تعریفوں میں سے سب سے کم لفظوں پر مشتمل تعریف جس کومعاصر اصولی شیخ محمد رضا المظفر ؒ نے اختیار کیا ہے وہ : ’’ابقاء ما کان‘‘[9]یہ تعریف لغوی اور اصطلاحی دونوں معانی پرمحیط ہے جامع افراد اور مانع اغیار[10]ہو نے کے لحاظ سے بھی یہ تعریف باقی تعریفوں کی نسبت بہتر ہے۔

 

استصحاب کی حجیت پر اہل سنت اور اہل تشیع علما ء کے دلائل

اہل سنت علما ء میں سے جو استصحاب کی حجیت کے قائل ہیں، انہوں نے مندرجہ ذیل دلائل ذکر کیے ہیں:پہلی دلیل : قرآن 

 

استصحاب کی حجیت پر علما ء نے جن آیات قرآنی سے استدلال کیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں: ھُوَ الَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۔[11] (وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیزکو تمہارے لیے پیدا کیا۔) اور دوسری آیت : وَسَخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ[12] (اور جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہیں سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کیا۔)

 

استدلا ل : ان دونوں آیتوں میں کہا گیا ہے کہ جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے وہ سب انسانوں کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔یعنی جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے اس میں تصرف مباح ہے۔ چنانچہ محض جن چیزوں کے عدم اباحہ کے بارے میں نص (دلیل) موجودہو ان میں تصرف حرا م ہے۔[13]

 

تیسری آیت کریمہ : قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْدَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ۔[14] ( کہہ دیجیے جو وحی میرے پاس آئی ہے ،اس میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتاجو کھانے والے پرحرام ہو مگر یہ کہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کیونکہ یہ ناپاک ہیں۔) استدلال : یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جو چیزیں محرمات میں شامل نہیں ان میں اصل / حقیقت دلیل کا نہ ہونا ہے پس اس میں حکم اباحہ جو زمان اول میں تھا اب بھی باقی ہے۔چنانچہ قاعدہ استصحاب کے تحت وہی حکم اول برقرا ررکھا جائے گا۔ اس آیت کے بارے میں علامہ زنجانی اپنی کتاب ’’تخریج الفروع علی الاصول ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت دلالت کرتی ہے نفی کی دلیل نہ ہونے پر ۔ اورنفی سے مراد عدم ہے۔ عدم دلیل کا محتاج نہیں لہذا جب دلیل نہ ہوتو حکم بھی نہیں ہوگا۔[15]

 

چوتھی آیت : وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّاحَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلاَّ مَااضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ ۔ [16](حلانکہ اللہ نے جن چیزوں کو اضطراری حالت کے سوا تم پر حرام قرار دیا ہے۔) پانچویں آیت : ٰٓایا يُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَيِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ[17] (اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کردی ہیں وہ حرام قرار مت دو۔) چھٹی آیت : یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْءَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ ۔[18] ( اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کردی جائے تو تمہیں بُری لگیں۔)

 

استدلال: یہ تین آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ چیزوں میں اصل مباح(تصرف جائز) ہونا ہے مگر یہ کہ اس کے حرام ہونے پر دلیل قرآن یا سنت میں واضح طور پر موجود ہو۔ رسول اکرم ﷺ ان چیزوں کے بارے میں سوال کرنے سے روکا ہے کہ کہیں اس سوال کے نتیجہ میں کوئی چیز حرام نہ ہو جائے۔[19]

 

دوسری دلیل : سنت

 

جن احادیث سے اہل سنت علما ء نے استصحاب کی حجیت پر استدلال کیا ہے وہ درج ذیل ہیں :’’ قال رسول اللہ ﷺ:اذا شک احدکم فی الصلاۃ فلم یدرکم صلی ثلاثاً ام اربعاً فلیطرح الشک و لیبن علی ما استیقن ، ثم یسجد سجد تین، قبل ان یسلم،فان کان صلی خمسا شفعن لہ صلاتہ وان کان صلی اتماما لاربع کانتا ترغیما للشیطان۔‘‘[20]

 

(رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ : جب کسی شخص کو نمازکی تیسری اور چوتھی رکعت میں شک ہو تو شک کی اعتبار نہیں کرنی چاہے یا جو یقین ہے اس پر بنا رکھے پھر دو سجدہ کرے سلام کرنے سے پہلے،اور اگر پانچ رکعت پڑھے تو یہ شفع ہوگا اور چار پر نماز تمام کرے تو یہ شیطان کو دور کرنا ہے۔)

 

استدلال: اس حدیث میں رسول اکرم ﷺ نماز کی رکعات میں شک کرنے والے کو حکم دے رہا ہے کہ وہ شک چھوڑ دے اور یقین پر بناء رکھے ۔ یقین یعنی اقل (کم) پر بنیاد رکھے اور اس پر واجب ہے کہ اضافہ کے لیے سجدہ سہو کرے۔یہ حدیث صریح ہے کہ یقین پر بنا رکھنا واجب ہے اور اس کی دو وجوہات بیان کی گئی ایک اصل مکلف کے ذمہ باقی ہونا ہے اور دوسرا اصل اضافہ نہ ہونا ہے ۔اضافہ ہونے کے لیے یقین شرط ہے۔ کچھ اضافہ ہونے کے بارے میں شک ہوجائے تو اس شک کی کوئی پروا نہیں کرنی چاہیے اور یہی استصحاب ہے ۔

 

دوسری حدیث : ’’قال رسول اللہ ﷺ:یاتی احدکم الشیطان فی صلاتہ فینفخ فی مقعد تہ فیخیل الیہ ، انّہ احدث ولم یحد ث،فاذا وجد ذلک فلاینصرف حتی یسمع صوتاً او یجد ریحاً۔ [21](اس حدیث میں آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ شیطان نماز میں آجاتا ہے اور پاؤں کے درمیان پھونکتا ہے تو نمازی کو خیال ہوتا ہےکہ اس کا وضو ٹوٹ گیا جب کہ اس کا وضو نہیں ٹوٹتا ،اور جب ایسا ہوجائے تو اعتنانہ کرنا جب تک آواز یا بُو نہ آئے۔)

 

استدلال: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ چیزوں میں اصل تب تک حکم اولی پر باقی ہونا ہے جب تک اس کے مخالف حکم پرکوئی محکم دلیل نہ ہو۔اور اس حوالے سے شک کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔چنانچہ اگر کسی کو شک ہوجائے تو اس صورت میں وہ طہارت پر ہے یعنی وہ شک اس کی طہارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے۔پس رسول اکرم ﷺ نے اس حدیث میں وضو کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے جب کہ شک بھی آگیا ہے اوریہی استصحاب ہے کہ’’ابقاء ما کان علی ما کان حتی یرد الدلیل‘‘(جو ہے اسی کو باقی رکھنا جب تک تبدیلی پر دلیل نہ آئے۔)

 

ایک اورحدیث جسےحضرت ابن عمر ؒ نے روایت کیا ہے :’’ان رجلاً سال النبی ﷺ: ما یلبس المحرم ، فقال:لا یلبس القمیص ولا العمامۃ ولا البرنس ولا ثوباً مسہ الورس او الزعفران ، فان لم یجد النعلین فیلبس الخفین و لیقطعھما حتی یکونا تحت الکعبین‘‘ ۔ [22]( ایک شخص نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کہ محرم(یعنی وہ شخص جو احرام کی حالت میں ہو) کیا پہنے؟ آپﷺ نے فرمایا قمیص، عمامہ،برنس،وہ کپڑا جسے ورس یا زعفران لگا ہوا ہو نہ پہنے اگر نعلین نہ ہو تو خفین پہنا اور ان دونوں کو پاؤں کی اُبھری ہوئی ہڈی کے نیچے تک کاٹنا چاہیے ۔)

 

استدلال: اس حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے صرف محرمات حج کو گنا ہے کیونکہ یہ محدود ہیں متذکرہ بالا کے علاوہ باقی سب مباح ہے۔پس یہ بات واضح ہو گئی کہ جو چیز یہاں بیان ہوئی اس کے علاوہ باقی چیزوں کا حج کے دوران پہننا جائز ہے۔یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اشیا میں اصل ان کا مباح ہونا ہے اور یہ استصحاب کی اقسام میں سے ہی ایک قسم ہے۔

 

 

تیسری دلیل اجماع :

 

اجماع کسی زمانے میں تمام مجتہدین کا کسی ایک یا ایک سے زائد فیصلوں پراتفاق رائے قائم کرنے کو کہاجاتا ہے۔اجماع کی تعریف اور شرائط میں اہل سنت اور اہل تشیع کے ما بین اختلاف ہے ۔ قرآن اور سنت کے بعد عموماً علما ء نے اجماع ہی کے ذریعے استدلال کیا ہے۔ ابن حاجب، صفی ھندی اور مصطفی سعیدنے اجماع کے ذریعے کیے جانے والے استدلال کی دو صورتیں بیان کی ہیں۔

 

صورت اول: اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی انسان کو شروع میں حدث کا یقین حاصل ہوبعد میں شک کرے کہ اس نے طہارت کی ہے یا نہیں تو اس صورت میں تمام فقہا کا اجماع ہے کہ نماز طہارت کے بغیر جائز نہیں ہے اور اگر حدث میں شک ہو یعنی وضو پر یقین تھا اور شک کرئے کہ اس وضو کو ختم کرنے والا کوئی حدث سرزد ہوا ہے یا نہیں؟ تو تمام فقہا کا اجماع ہے کہ دوبارہ وضو کیے بغیر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔

 

صورت ثانی: اگر کسی کو یقین ہو کہ نکاح منعقد ہواہے پھر شک ہوجائے کہ طلاق ہوئی یا نہیں تو اس صورت میں مقاربت (ہم بستری) حرام نہیں ہے۔اور اسی طرح اگر کسی کو طلاق واقع ہونے کا یقین ہو اور پھر نکاح پر شک ہوجائے تو اس صورت میں مقاربت (مباشرت،ہم بستری) جائز نہیں ہے۔ اگر استصحاب ظن کا فائدہ نہ دیتا تومتذکرہ بالا دونوں مثالوں میں حکم ایک جیسا ہونا چاہیے تھا جو کہ حکم دونوں میں حرمتِ مقاربت یا حلیتِ مقاربت ہے اگر حکم یکساں ہوتا تو یہ خلاف اجماع قرار پاتا،جو کہ باطل ہے کیونکہ یہ اجماع اس کے مخالف ہے۔ [23]یہاں سے یہ بات واضح ہوگی کہ اجماع کے ذریعے بھی استصحاب کی حجیت ثابت ہے۔

 

چوتھی دلیل عمل صحابہ وتابعین

 

قرآن ،سنت اور اجماع کے علاوہ عمل صحابہ سے بھی استصحاب کی حجیت پر استدلال کیا گیا ہے۔چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں: اول : ابن شیبہ نے روایت نقل کی ہے :’’ قال عمر: اذ ا شک رجلان فی الفجر فلیاکلا حتی یستیقنا‘‘ [24](عمر نے کہا: جب کسی شخص کو فجر کے بارے میں شک ہوجائے تو دونوں کھاتے ہیں جب تک فجر کا یقین نہ ہو۔)

 

دوسری روایت جو عبد الرزاق نے نقل کی ہے : ’’ عن مسلم بن صبیح قال: قال رجل لابن عباس ’’اراء یت اذا شککت فی الفجر و انا ارید الصیام قا ل: کل ما شککت حتی لاتشک‘‘ [25]( مسلم بن صبیح سے روایت ہے: ایک شخص نے ابن عباس سے پوچھا میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں اور فجر کے بارے میں شک ہوجائے تو کیا کروں؟ ابن عباس نے جواب دیا کہ شک ہونے تک کھاتے رہو جب تک شک ختم نہ ہو۔ )

 

استدلال: ان دونوں روایتوں میں صحابی رسول اکرم ﷺ عمر اور ابن عباس نے قاعدہ استصحاب سے کام لیا ہے۔ رات کے باقی ہو نے کا جب تک طلوع فجر کا یقین نہ ہو ، طلوع فجرکے بارے میں ہونے والے شک کو قابل اعتبار نہیں سمجھا گیا ہے۔

 

دلیل پنجم عقل

 

علمائے اصولیین نے عقل کے ذریعے کرنے والے استدلال کو درج ذیل صورتوں میں تقسیم کیا ہے۔

 

صورت اول : استصحاب الحال" زمان" اول میں جو چیز باقی ہے اس کو زمان لاحق میں بھی بر قرار رہنے کا ظن پیدا کرتا ہے جو چیز ظن کا سبب بنتی ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے پس استصحاب ظن کا سبب بنتا ہے لہذا اس پر عمل کرنا واجب ہے یہ بات دلیل صغری اور دلیل کبری کی دلائل کے ذریعے یوں واضح ہوجاتی ہے:

 

دلیل صغریٰ :

 

اس دلیل میں تین چیزیں ہیں ۔اول: اگر حصول ظن ،بقاء حکم کا سبب نہ ہوتا تو اس صورت میں معجزہ دینے کا کوئی فائدہ نہ ہوتاکیونکہ معجزہ ایک فوق العادہ کام جب یہ انبیاء ؑ اور رسل ؑ کے ہاتھوں ظاہر کراتا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ وہ باقی اور برقرار رہے اور اس سے ظن ہی حاصل ہوتا ہے۔ جب تک اس حکم کو تبدیل کرنے والی دوسری دلیل نہ آئے یہ حکم باقی رہتا ہے اگر معجزہ تبدیل ہوسکتا تو اس صورت میں یہ خارق العادہ امر نہ رہتادوسرے الفاظ میں یہ معجزہ،معجزہ نہ رہتا۔ معجزہ جب وجود میں آتا ہے تو پھر باقی بھی رہتا ہے۔پس یہی عین استصحاب ہے

 

دوم: اگر استصحاب حجت نہ ہوتا تو اس صورت میں جو شریعت عہد نبوی میں ثابت تھی وہ آج کے لیے ثابت نہ ہوتی۔ کیونکہ ممکن تھا کہ وہ شریعت نسخ ہوئی ہوجب کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ شریعت ابھی تک ہے اور جیسے تھی ویسے ہی

 

موجودہے اس کا مطلب ہے کہ استصحاب کے ذریعے وہ شریعت ثابت ہے اور یہ اس معاملے میں ظن بقاء کا فائدہ دے

 

رہا ہے۔ 

 

سوم: نکاح کے حوالے میں اگر کسی نکاح پر شک ہوجائے یا کسی طلاق پر شک ہوجائے تو ان دونوں صورتوں کا حکم الگ الگ ہے جب کہ دونوں صورتیں ایک جیسی ہیں اور اگر استصحاب حجت نہ ہوتا تو حتماً دونوں صورتوں کا ایک ہی حکم ہونا چاہیے تھا۔ان دونوں مساوی صورتوں میں حکم الگ الگ ہونے کی وجہ استصحاب سے حاصل ہونے والا ظن ہے جس کی وجہ سے ایک میں حکم حرمت اور دوسرے میں حکم حلیت ہے۔[26] 

 

دلیل کبریٰ:اس میں بھی تین چیزیں ہیں۔اول: اس بات پر اجماع قائم ہے کہ ظن راجح پر عمل کرنا تب تک واجب ہے جب تک اس ظن سے قوی کوئی دلیل اس کو ختم نہ کرے۔اس نکتے پر صحیح بخاری کی یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ:’’ قال ﷺ: نحن نحکم بالظاہر‘‘۔[27] (آپ ﷺ نے فرمایا:ہم ظاہر پے حکم لگاتے ہیں۔)

 

دوم : اگر ظن راجح پر عمل کرنا واجب نہ ہوتا تو مرجوح کو ترجیح دینا لازم آتا ہے جو کہ واضح طور پر باطل ہے۔

 

سوم : قیاس ،خبر واحد ، شھادۃ ، فتوی اور باقی ظنون پر عمل صرف اس بناء پر کیا جاتا ہے کہ اقوی کو اضعف پر ترجیح دینا واجب ہے اور یہ بات استصحاب میں موجود ہے۔لہذا اس عقلی دلیل کی بناء پر استصحاب پر عمل کرنا واجب ہے۔

 

صورت دوم: عقلی دلائل میں سے دوسری دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ ظن بقا کا رجحان زیادہ ہے بہ نسبت ظن تغیر کے۔اور جب ظن بقا میں راجح ہے تو تمام علما ء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس راجح پر عمل کرنا واجب ہے راجح ہونے اور اس پر عمل واجب ہونے کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:

 

اول : پہلی بات یہ ہے کہ جو چیز باقی ہے اس کے بقاودوام کے لیے سبب جدید کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کا پہلے سے ہونا ہی اس کے دوام کے لیے کافی ہوتاہے کیونکہ اسی وجود کی وجہ سے ہی دوام ہوتا ہے اور اگر دوام کے لیے وجود جدید کے قائل ہوجائیں تو اس صورت میں تحصیل حاصل لازم آتا ہے پس یہ واضح ہوا کہ جو چیزپہلے سے موجود ہے اسے باقی رکھنے کے لیے کسی نئے سبب اور شرط کی ضرورت نہیں ہاں جو چیز موجود ہو اس کو معدوم کرنے کے لیے سبب اور شرط کی ضروت ہے لہذا موجود کاباقی رکھنا راجح ہوا بہ نسبت حادث کے۔

 

دوم : دوسری چیز یہ ہے۔ کہ عدم باقی کم ہے عدم حادث سے۔کیونکہ عدم حادث بہت زیادہ ہے اسے لا متناہی بھی کہا جا سکتا ہے البتہ عدم باقی کم ہے کیونکہ جو چیز وجود میں آئی ہواس کاعدم قابل تصور ہے پس اس کا وجود راجح ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہے۔

 

سوم : بقا کاظن غالب ہے ظن تغیر پر۔کیونکہ ظن بقادو چیزوں پر منحصر ہے ایک زمان مستقبل کے ہونے۔ اور دوسرے وہ زمان مستقبل باقی کے ساتھ قریب ہونے پر۔لیکن ظن عدم تین چیزوں پر موقوف ہے: ایک زمان مستقبل کے ہونے،دوسرے وجود کے عدم میں تبدیل ہونے،تیسرے یہ وجود یا عدم زمان باقی کے ساتھ ہونے پر۔پس جس کا وجود دو پر منحصر ہو وہ اولی ہے اس چیز سے جس کا وجود تین چیزوں پر موقوف ہو۔[28]

 

صورت سوم: عقلاکی سیرت یہ ہے کہ جب بھی ان کے نزدیک کوئی حکم یا کسی چیزکا وجود اس کا عدم ثابت ہوجائے تو وہ اسی پر استصحاب کرتے ہیں جب تک اس کے تغیر اور تبدیل ہونے پر یقین قائم نہ ہوجائے۔اسی طرح جب کوئی شخص گھر سے سفر پر جاتا ہے اور پھر کافی عرصے بعد گھر خط اور کتابت کرتا ہے چنانچہ وہ خط اور کتابت سابقہ حالت (گھر کا وجود) موجود ہونے پر استصحاب کرکے کرتا ہے۔اگر یہ اصل بقاء اور دوام نہ ہوتی توانسان کبھی ایسا نہ کرتا۔[29] ۔چنانچہ یہ روایت بھی اسی مضمون پر دلالت کرتی ہے :’’ ما رآہ المسلمون حسناً فھو عند اللہ حسن[30](جوچیز مسلمانوں کے ہاں اچھی ہے وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے)

 

صورت چہارم: عقل کا واضح تقاضا ہے کہ استصحاب کو حجت ماننا چاہیے۔کیونکہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ کسی شخص کا خون مباح ہونے کا دعوی کرے مگر یہ کہ اس کے دعوی کے ساتھ کوئی دلیل موجود ہو۔ اسی طرح کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ عادل شخص کے فاسق ہونے کا دعوی کرے مگر یہ کہ اس کے فاسق ہونے پر دلیل موجود ہو۔کیونکہ عدالت ایک بارثابت ہو چکی ہے تو اسی کوتب تک ثابت رکھا جائے جب تک اس کی نقیض ثابت نہ ہوجائے۔اسی طرح جب کسی مرد کاکسی عورت کے ساتھ نکاح ثابت ہوجائے تو بداہت کا تقاضا یہ ہے کہ حکم زوجیت ثابت تصور کیا جائے جب تک طلاق پر دلیل ثابت نہ ہو۔[31]

 

ان چارعقلی دلائل سے یہ ثابت ہوا کہ عقلاً استصحاب حجت ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہے نیز اس کے وجوب میں کوئی قید و شرط نہیں ہیں۔

 

دلیل ششم :استقراء

 

استصحاب کی مطلق حجیت پرعلما ئے اہل سنت کی طرف سے پیش کی جانے والے دلائل میں سے چھٹی اور آخری دلیل استقراء ہے ۔ یہ بات استقراء اور تتبع سے ثابت ہے کہ احکام شرعیہ جب تک دلائل ہیں ثابت رہیں گے۔یعنی جب تک کوئی دوسری دلیل نہ آئے، تبدیل نہیں ہوسکتے۔مثلاً : انگور حلال ہے اور اس کا حکم حلیت تب تک ثابت باقی رہے گا جب تک اس کی صفت میں تبدیلی نہ آئے یعنی شراب نہ بنے۔ اسی طرح سے تمر ہے۔یہ چیزیں حلال ہیں اور ان پر حکم حلیت باقی رہے گا جب تک ان میں صفت تبدیل نہ ہوجو کہ حکم کے تبدیل ہونے کا سبب ہے۔اور اسی طرح کسی چیز کی حرمت پر کوئی دلیل قائم ہوجائے تو وہ اسی حرمت پر قائم رہے گا جب تک کوئی حلیت کو ثابت کرنے والی دلیل نہ آئے۔پس اسی وجہ سے جوحکم دلائل شرعیہ کے ذریعے ثابت ہو چکااس پر تب تک اسی حکم پر عمل کرتا رہے گا جب تک دوسری کوئی دلیل اس دلیل شرعی کے حکم کو تبدیل کرتے ہیں یا حکم کو محدود نہ کرئے۔اور اسی طرح دوسرے احکامات شرعیہ بھی استصحاب کی حجیت اور اس پر عمل کی تائید کرتے ہیں۔[32]

 

اہل تشیع علما ءئے اصولیین کی حجیت استصحاب پر دلائل مندرجہ ذیل ہیں.

استصحاب مطلقاً حجت ہے اس قول کے قائل آخوند محمد حسین ؒ خراسانی ہیں ان کی کتاب ’’کفایۃ الاصول‘‘ جلد دوم میں لکھا ہے ۔[33]البتہ جو علما ءاستصحاب کی حجیت کے قائل ہیں انہوں نے مندرجہ ذیل دلائل پیش کیے ہیں ان دلائل میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ مستند دلیل قرآن ہے اس بات پر تمام مسلمان متفق ہیں اور قرآن سے استصحاب کی حجت کے بارے میں علامہ جواد مغنیہ ؒ اپنی کتاب ’’علم اصول الفقہ فی ثوب جدید‘‘ میں لکھتے ہیں : لا علم لی بان احداً من الامامیۃ استدل بآیۃ قرآنیۃ علی الاستصحاب۔[34] (مجھے نہیں معلوم کہ امامیہ میں سے کسی نے قرآن سے استصحاب کی حجیت پراستدلال کیا ہو۔)

 

یعنی شیعہ امامیہ میں سے کسی نے بھی قرآن سے حجیت استصحاب پر اب تک استدلا ل نہیں کیا ہے اور باقی عنقریب تمام علما ء نے بنا قطعیہ عقلا، حکم عقل ،اجماع اور روایات و اخبار سے استدلال کیا ہے، لہٰذا ذیل میں ان چاروں دلائل کی وضاحت پیش کی جاتی ہے۔

 

 

پہلی دلیل:بنا قطعیہ عقلا

 

استصحاب کی دلیلوں میں سے ایک دلیل بناء قطعیہ عقلا عالم ہے جسے مکرراً تمام شیعہ علما ء نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ۔ اور حجیت استصحاب کے لیے بہترین دلیل قرار دیا ہے۔اس دلیل کا دو مقدموں پر مشتمل ہونا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ دونوں مقدمات قطعی اور یقینی ہو ں کہ نتیجہ بھی یقینی ہوجائے وگرنہ فائدہ نہیں ہوگا۔دونوں مقدمہ مندرجہ ذیل ہے:

 

مقدمہ اول:جب ہم عقلا عالم کی طرف رجوع کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ عقلا جس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو یا جس رنگ و رسم کا حامل ہوں یا جو بھی ذوق و سلیقہ رکھتے ہوں ان سب میں ایک نقطہ اشتراک پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ سب کے سب ایک سیرہ عملی پر چلتے ہیں اور اپنے لیے ایک کسوٹی قرار دیا ہو اہے کہ ہمیشہ یقین سابق پر عمل کرتے ہیں اور شک لاحق پر اعتنا اور توجہ نہیں کرتے ہیں اصولی طور پر دیکھا جائے تو نظام زندگی بشر اسی کسوٹی پر قائم ہے۔اور اگر یہ بناءنہ ہوتی تو پورا نظام رُک جاتا ہے نہ تعلیم ،نہ تجارت، نہ مسافرت وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ بعض علما ءء کا کہنا ہے کہ یہ بناء گزاری اور یقین سابق پر عمل کرنا صرف انسان کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ بہت سارے حیوانات اور جانوروں کے درمیان بھی پایا جاتا ہے مثلاً : پرندے صبح اپنے گھونسلوں سے پرواز کرکے چلے جاتے ہیں اور دور دراز جگہوں پر سفر کرتے ہیں لیکن رات کو سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آتے ہیں اسی طرح دوسرے حیوانات بھی جہاں سے وہ نکلتے ہیں اور سفر کرتے ہیں آخر میں وہی واپس لوٹ آتے ہیں ۔ 

 

مقدمہ ثانی :جب ہم شرع مقدس سے رجوع کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ خود شارع عقلا عالم کے ساتھ اس سیرہ عملی میں متحد المسلک نہیں ہے ۔کیونکہ شک لاحق دربقا شارع کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا ہے بلکہ شارع کے لیے زمان لاحق کما ھو زمان سابق قطعی اور یقینی ہے اور اس ارتفاع حکم پر یقین رکھتا ہے جب مصلحت حکم ختم ہو چکی ہو۔پس یہ سیرہ علمی زندگی کے تمام شعبوں میں حتی کہ دینی امور میں بھی رائج ہے اور شارع مقدس یعنی پیغمبر اکرم ﷺ کے حضور میں یہ کام ہوتا رہا اور کبھی آپ نے منع نہیں فرمایا ۔لہذا عدم منع شارع سے انکی موافقت اور رضایت کو کشف کرتے ہیں اس دلیل کے ساتھ کہ اگر شارع مقدس اس سیرہ عملی پر راضی نہیں ہوتے تو انہیں منع کرنا چاہیے تھا تا کہ ان کے پیروان گمراہی میں نہ رہیں اور اگر منع کیا ہوتا تو ہم تک بات پہنچتی۔خواہ خبر واحد کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو یا خبر متواتر کے ذریعے ہو۔ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ جب منع کی خبر شارع کی طرف سے نہیں آئی ہے تو خود شارع کا اس پر راضی ہونا کہاں سے ثابت ہوتا ہے پس نتیجہ یہ ہوا شارع کے ہاں بھی قابل پیروی ہے۔[35] اس مقدمہ پراعتراضات بھی کیے گیے ہیں اور شیخ مظفر ؒ نے ان کے جوابات بھی دیے ہیں:

 

اعتراض:بنا عقلا جہاں کاشف از رائے معصوم ہو وہاں پر ایک شرط اہم قرار دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس بناء میں عقلاء کا منشاء عمل میں بھی طبق حالت سابقہ تعبداً ہو۔یعنی دوسری عبارت میں یو ں کہوں کہ(کون السابق) فقط پہلے ہونا سبب ہوگیا کہ امر لاحق و عارض کو اس چیز پر بناء رکھیں بغیر کسی معیار اور ملاک و کسوٹی کے۔اس چیز کو اگر ثابت کرسکے تو یقیناً کرسکتے ہیں کہ شارع مقدس بھی ہمارے اس عمل پر راضی ہے لیکن افسوس کہ یہ اہم شرط ثابت نہیں ہوتی ہے کیونکہ اس سیرہ عقلا کے منشا میں چھ (۶) احتمالات ممکن ہیں ۔اور ان احتمالات اور توہمات کے باوجود رضاے شارع کیسے ثابت ہوگی ؟

 

احتمال اول: ممکن ہے بناء عقلا کا سرچشمہ فقط سابقہ ہونا ہو یعنی پہلے سے موجود ہونامعیار ہو کہ اس صورت میں زمان لاحق میں بھی تعبداً خود بخود باقی رہے گا۔

 

احتمال دوم: ممکن ہے کہ بنا ء عقلا کا منشا یہ ہو کہ عقلاء واقعیت کو درک کرنے کی امیدوار ہوں اور قطع و یقین نہ رکھتے ہو ں تو اس صورت میں استصحاب سے اس کا کوئی ربط پیدانہیں ہوگا۔

 

احتمال سوم: ممکن ہے کہ عقلاواقعیت کوپانے کے لیے احتیاط کرتے ہو ں اگر چہ بعض جگہوں پر ہی کیوں نہ ہو یہ بھی استصحاب کے ساتھ ربط و تعلق نہیں رکھتا ۔ کیونکہ احتیاط کا مقصد واقعیت تک رسائی حاصل کرنا ہے لیکن استصحاب سے واقعیت تک رسائی حاصل نہیں ہوتی ہے۔

 

احتمال چہارم: ممکن ہے منشا بناء عقلا کا مقصد یہ ہو کہ وہ لوگ بقا ما کان پر اطمینان رکھتے ہوں اور اطمینان عقلا عالم کے نزدیک علم ہے اور علم کی حیثیت سے اسے دیکھتے ہیں مثال کے طور پر ایک تاجر اپنے مال تجارت کو اپنے وکیل کے ساتھ دور دراز جگہوں پر بھیجتا ہے اس اطمینان کے ساتھ کہ وہ اس کا سابقہ وکیل ہے ۔

 

احتمال پنجم: ممکن ہے کہ منشابنا عقلا فقط گمان ہو بقاء سابق پر لذا صرف گمان پر رضایت شارع ثابت نہیں ہوگی ۔احتمال ششم: ممکن ہے کہ منشا عقلا یہ ہوکہ شک کی حالت سے وہ غافل ہو ں یعنی وہ اپنے شک کے بارے اصلاً متوجہ نہ ہوں ۔[36]

 

جیسے ایک آدمی صبح اپنے گھر سے نکلتا ہے اور رات کو واپس آتا ہے بغیر کسی ٹینشن کے ساتھ اس کا گھر خراب ہوگیا ہے کیونکہ وہ جب گھر سے جارہا تھا تو گھر صحیح تھا اور کبھی بھی گھر کی خرابی کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہوگاپس اس کا گھر واپس آنا استصحاب کی وجہ سے نہیں ہے ۔شک ہوا ہی نہیں ہے تو استصحاب کیسے کریگا۔

 

اعتراض کرنے والے نے ان احتمالات کی بناء پر اعتراض کیا تھا اس اعتراض کا جواب مندرجہ ذیل ہے: جواب:جو چیز بناء عقلا کے باب میں ضروری ہے وہ یہ ہے کہ عقلاعالم شک لاحق کی صورت میں حالت سابقہ پر اطمینان و اعتماد کرتے ہیں اور اس میں کسی جھجک کا احساس نہیں کرتے ہیں یہ بات ہمارے لیے مفید اور اہم ہے جو ہم ثابت کرنا چاہتے ہیں اور ہماری روز مرًہ کی زندگی میں بھی ہم اسی روش پر عمل کرنا ہے اور جہاں پر شک اور گمان کی شکل پیش آئی تو ہم فوراً حالت سابقہ کو مد نظر رکھتے ہوے عمل کرتے ہیں اور یقین پیدا کرلیتا ہے اور جن احتمالات سے آپ لوگوں نے تمسک کیا ہے وہ خود بخود سیرہ عقلاء عالم اور ہماری روز مرًہ کے طور وطریقے سے باطل ہوجاتے ہیں۔ اور عقلاء کے نزدیک ایک قاعدہ کلیہ ہے جسے امور دینی اور دنیاوی میں استعمال کرتے ہیں ۔ اور یہ ساری چیزیں مرای و مسمع شارع میں بھی انجام دیا ہے لیکن کبھی شارع نے منع وردّ نہیں فرمایا ہے پس معلوم ہوتا ہے شارع بھی اس روش و طریقے پر راضی ہے چاہیے منشاہ بناء عقلاء فقط تعبّد ہو یا اطمینان یا ظن و گمان بہ بقاء وغیرہ۔[37]

 

دوسری دلیل: حکم عقل 

 

استصحاب کی حجیت پر دوسری دلیل جو اصولی علما ء نے پیش کی ہے وہ حکم عقل ہے۔ حکم عقل کی دو قسمیں ہیں: 

 

اول :عقل نظری

 

اس عقل سے مراد وہ ہے جس کے ذریعے انسان اس چیزکو درک کرتا ہے جس کو جاننا ضروری ہوتا ہے۔ (و ینبغی ان یعلم)(اور جاننا سزاروارہے)یعنی عقل کی یہ قسم فقط نظریاتی حد تک محدود ہوتی ہے اور عمل سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے اسی لیے اسے عقل نظری کہا گیا ہے۔

 

دوم :عقل عملی

 

عقل عملی کا مدرک امور عملی ہیں یعنی جس کے ذریعے ان امور اور چیزوں کو درک کرلیتا ہے جن کو انجام دینا ہوتا ہے۔ عقل ایک ہے اور فقط ایک قوّت مدرکہ یعنی درک کرنے والی ایک قوّت ہے اور ایک حقیقت ہے لیکن مدرکات یعنی جن چیزوں کو عقل درک کرتی ہے ان کی مختلف قسمیں ہیں ایک نظریات سے مربوط ہے اور دوسری قسم عمل سے۔ لہذا عقل کو نظری اور عقلی کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں پر ہماری بحث میں حکم عقل سے مراد حکم عقل نظری ہے کیونکہ دوچیزوں کے درمیان ربط وملازمہ کو عقل نظری درک کرتی ہے نہ کہ عقل عملی ۔ استصحاب میں یقین سابق ، ظن و گمان لاحق کے درمیان رابط و ملازمہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے اور یہ عمل عقل نظری کا کام ہے چونکہ تلازم ایسے امور واقعی اور نفس الامر میں سے ہے کہ جسے عقل نظری کے ذریعے درک کیا جاتا ہے۔ مثلاً : انسان گزرے ہوئے زمانے میں کسی چیز کے ہونے کے بارے میں علم رکھتا ہو اور اسےیقین حاصل ہو۔ اور وہ علم اور یقین کسی حادثات اور واقعات کے سبب متزلزل اور کمزور ہوئے اور اس چیز کی بقاء پر شک کرے تو اس صورت میں سابقہ یقین کو مد نظر رکھتے ہوے عقل بقا کا حکم لگاتی ہے۔اور ظن بقا کو ترجیح دیتی ہے پس کسی چیز کے سابقہ وجودکا علم ہونا اور اسکے بقا کے درمیان میں ربط پایا جاتا ہے لہذا ہم اس ربط کو مقدمے کا صغری قرار دیتے ہوے کہیں گے : صغری :العقل یحکم برجحان بقاء ما کان متیقناً  (صغریٰ: عقل جو چیز ہے اسی کو باقی رکھنا راجح ہونے کا حکم لگاتا ہے) کبری : کل ما حکم بہ العقل حکم بہ الشرع۔ (کبریٰ: ہر وہ چیز جس کی عقل حکم دے شریعت بھی اسی کا حکم لگاتا ہے) یعنی جس چیز پر عقل حکم لگا تی ہے اس پر شرع بھی حکم لگاتی ہے اس تلازم سے یہ ثابت ہواکہ جہاں پر بھی حکم عقل ہو وہاں پر حکم شرع بھی ہوا کرتاہے کیونکہ شارع بھی عقلاء میں سے ہے بلکہ خالق العقلاہے ۔ [38]پس نتیجہ یہ ہوا کہ شارع کے ہاں بھی یقین سابق کو زمان لاحق میں بھی برقرار رکھنا رجحان رکھتا ہیں۔ 

 

تیسری دلیل: اجماع

 

علم اصول کے علما ءنے استصحاب کی حجیت کو ثابت کرنے کے لیے اجماع کو دلیل کے طور پر بیان کیا ہے ان بزرگ علما ء میں سے ایک علامہ حلّی ؒ ہیں جنہوں نے اپنی کتاب ’’المبادیء ‘‘ میں لکھا ہے :  الاستصحاب حجّۃ لاجماع الفقھا ء علی انّہ متی حصل حکم ثم وقع الشک فی انّہ طراء ما یزیلہ ام لا؟ وجب الحکم ببقاۂ علی ما کان اولا۔[39] ( استصحاب حجت ہے اجماع فقہا کی وجہ سے،اس مبنی پر کہ جب بھی کوئی حکم آجائے پھر شک ہوجائے کہ اس حکم کو ختم کرنے والی کوئی چیز آئی ہے یا نہیں تو اس صورت میں جو حکم ثابت اسی پر باقی رکھنا ضروری ہے۔) یعنی استصحاب حجت ہے تمام فقہاء کی نظر میں جب کسی کے لیے یقین و علم حاصل ہواہو پھر اس میں شک کرے کہ آیا یقین سابق باقی ہے یا زائل ہوگیا ہے تواس وقت فقہاء اور بزرگان علم کا شیوہ یہ ہے کہ یقین سابق کو زمان لاحق میں بھی جاری سمجھتے ہیں اور بقاء کا حکم دیتے ہیں اس کے لیے انہوں نے چند مثا لیں پیش کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:۱۔ ایک شخص کو طہارت پر یقین تھا پھر اس کو شک ہو جائے کہ کہ کوئی حدث (باطنی آلودگی ) یا خبث (ظاہری آلودگی ) جیسے بول ،ہوا وغیرہ خارج ہوئی یا نہیں ؟ اس مسئلہ میں تمام فقہاء امامیہ شیخ طوسیؒ کے زمانے سے لے کر آج تک کااجماع اور اتفاق ہے اور تمام علما ء اور فقہا نے فتوی دیا ہے کہ یقین سابق کو زمان لاحق میں بھی جاری کیا جاتا ہے اور اسی یقین سابق کے تحت عمل کرنا ہوتا ہے۔

 

۲۔اگر ایک انسان کو حدث اور نجاست پر یقین ہو اور پھر شک کرے کہ طہارت کی ہے یا نہیں ؟ تو اس صورت میں تمام علما ء اور فقہا نے کہا ہے کہ اس پر حکم نجاست اور حدث مترتب ہوجائے گا۔ یہ سب مثالیں دلیل ہیں کہ علما ءء اور فقہاء سب یقین سابق کو اہمیت دیتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو منع کرنا چاہیے تھا اور منع نہ کرنا اجماع کی دلیل ہے ۔یہاں سے اجماع کے ذریعے استصحاب اور یقین سابق پر عمل کرنا ثابت ہوگیا ۔[40]

 

چوتھی دلیل: احادیث

 

علما ءاور فقہانے استصحاب کی حجیت پر روایات سے بھی استدلال کیا ہے خصوصاً علما ء متاخرین نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصّہ لیا ہے ۔اس میں کچھ چیزیں اہم ہیں :

 

اول: جو روایات اس ضمن میں ہم یہاں پر زیر ٖبحث لانا چاہتے ہیں خبر واحد ہونے کی صورت میں بھی معمولاً تمام روایات اور اخبار ثقہ ہیں اور مباحث حجّت میں ان کااعتبارواضح طورپر ثابت ہوچکا ہے ۔لہٰذا ان اخبار و روایات پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں۔

 

دوم: معمولاً یہ روایات خبر واحد سے بالاتر روایات مستفیضہ کی حد تک نقل ہوئی ہیں لیکن تواتر کی حد تک نہیں پہنچی ہیں۔سوم : ان روایات کے ساتھ قرائن عقل و نقلی موجود ہیں اس حوالہ سے بھی ان روایات میں کوئی نقص نظر نہیں آتی ہے ۔شیخ انصاری لکھتے ہیں کہ بعض روایات سند کے لحاظ سے عالی (حدیث کی اچھی قسم) ہیں لیکن افسوس کہ ان کی دلالت کمزور ہے اور بعض دوسری روایات و احادیث دلالت کے حوالے سے قوی و مضبوط ہیں لیکن ان کی سند میں اشکال ہے مختصراً ان تمام روایات سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔[41]

 

پہلی حدیث : یہ روایت زرارہ نے امام محمد باقر ؑ سے نقل کی ہے۔ شیخ محمد رضا مظفر کہتے ہیں کہ یہ روایت مضمر ہے۔[42] لیکن شیخ انصاری لکھتے ہیں کہ یہ اضمار روایت پر کوئی اثرانداز نہیں ہوتا ہے اور علت یہ بیان کرتے ہیں کہ زرارہ امام ؑ کے علاوہ کسی اور سے روایت ہی نہیں کرتے تھے۔روایت:’’قال زرارہ:قلت لہ: الرجل ینام و ھو علی وضوء ایوجب الخفقۃ و الخفقتان علیہ الوضوء؟قال:یازرارۃ !قد تنام العین ولا ینام القلب و الاذن ، فاذانامت العین و الاذن فقد وجب الوضوء۔قلت: فان حرک فی جنبہ شییء وھو لایعلم؟قال: لا! حتی یستیقن انہ قد نام۔‘‘ [43](زرارہ سے روایت ہے : میں نے اُن سے پوچھا کہ ایک شخص وضو پر تھا اور سوجائے تو کیا ایک اونگھ اور دو اُنگھ وضو کو باطل کرتا ہے یا نہیں؟ فرمایا: اے زرارہ کبھی انسان کی آنکھ سوتی ہے لیکن دل نہیں سوتا پس جب آنکھ اور دل دونوں سوجائے تب وضو واجب ہوتا ہے۔زرارہ پھر پوچھتا ہے:جب اس کے پہلو میں کوئی ہلائے تو بھی اُس کو پتہ نہیں چلتا ہے۔فرمایا: پھر بھی وضو واجب نہیں جب تک یقین نہ ہوکہ نیند آئی ہے۔)

 

استدلال:اس روایت میں جو لفظ’’ الاّ‘‘ استعمال کیا ہے وہ در حقیقت’’ ان لا‘‘ ہے نون ساکن اور لام ساتھ آئے جو کہ حروف یرملون میں سے ہے اس لیے ایک دوسرے میں ادغام ہوگئے تو ’’الاّ‘‘بن گیا ہے اور یہ’’ ان‘‘ حرف شرط ہے جس کو فعل شرط اور جزاء کی ضرورت ہے اور اس روایت میں فعل شرط ’’وان لم یستیقن انہ قد نام ‘‘ کا جزاء کہاں ہے معلوم نہیں ہے اس کے بارے میں علما ء کے کئی اقوال ہیں۔ان اقوال میں سے مشہور قول شیخ انصاریؒ کا ہے جو کہ یہ ہے :اس قول میں شیخ انصاریؒ کے ساتھ آخوند محمد حسین خراسانیؒ بھی اتفاق کرتے ہیں کہ اس شرط کی جزاء یہاں پر محذوف ہے اور روایت میں مذکورہ عبارت ’’فانہ علی یقین من وضوۂ ‘ اس جزاء محذوف کے لیے علت ہے اور یہ علت قائم مقام فعل شرط ہے۔ جو’ فاء‘ اس عبارت میں ہے وہ فاء علت پر آئی ہوئی ہے اس کے لیے قرآن میں بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔یہاں ایک مثال ذکر کرتے ہیں مثلا: قَالُوْا اِنْ یَّسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ اَخٌ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ ‘‘[44](اگر اس نے چوری کی ہے (تونئی بات نہیں)اُس کے بھائی (یوسف)نے بھی تو پہلے چوری کی تھی۔)اس آیت میں جواب شرط’ فلا تعجب‘ ہے اور خود عبارت میں’’ فقد سرق‘‘ پر فاء علت پر آیا ہوا ہے۔ اس مثال میں جواب شرط محذوف ہے اور علت قائم مقام جواب عبارت میں مذکور ہے۔لہذا اصل میں عبارت یوں ہوگی کہ:’’ان لم یستیقن انہ قدنام فلایجب الوضوء لانہ علی یقین من وضوۂ فی السابق‘‘ یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ محذوف نکتہ کیسے معلوم ہوا اوراس کا کیا ثبوت ہے؟ جواب:اس کے لیے قرینہ روایت کی ابتداء میں یہ عبارت فراہم کر رہی ہے کہ:’’فاذا نامت العین و الاذن فقد وجب الضوء‘لہٰذا اس عبارت کو مجموعاّ یوں دیکھا جاسکتا ہے کہ :صغری:من لم یستیقن انّہ قد نام فانّہ علی یقین من وضوۂ کبری: ولا ینقض الیقین بالشک ابداّ ۔نتیجہ: فمن لم یستیقن انّہ قدنام فلاینقض وضوءُہ بالشک۔جو شخص نیند کے بارے میں یقین نہ رکھتا ہو اس کا صرف شک کی بنا پر وضو باطل نہیں ہو اور استصحاب بھی یہی ہے کہ یقین سابق کو شک لاحق کی بنا پر ختم نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ یقین کو یقین ہی کے ذریعے ختم کیا جائے گا اور شک کی صورت میں یقین سابق پر عمل کیا جائے گا۔[45]دوسری حدیث:یہ روایت بھی زرارہ نے ہی نقل کی ہے:’’قال زرارۃ: قلت لہ (ای الباقراو الصادق )من لم ید ر فی اربع ھو او فی ثنتین وقد احرز الثنتین؟ قال : یرکع برکعتین و اربع سجدات و ھو قائم بفاتحۃ الکتاب ، و یتشھد، و لا شییء علیہ۔ واذا لم یدر فی ثلاث ھو او اربع و قداحرز ثلاثا۔قام فاضاف الیھا اخری، ولاشییء علیہ۔ ولا ینقض الیقین بالشک ۔ ولا یدخل الشک فی الیقین۔ولایخلط احدھما بالآخر ۔ ولکن ینقض الشک بالیقین ۔ویتمّ علی الیقین فیبنی علیہ۔ ولا یعتد بالشک فی حال من الحالات۔‘‘[46] (زرارہ نے کہا:میں نے اُن سے پوچھا(باقر سے جعفر)کہ ایک شخص کو تین اور چار کے درمیان شک ہوجائے اور دو کے بارے میں یقین ہوتو کیا کیا جائے؟فرمایا:دو رکعت پڑئے اور چار سجدے کرئے اور کھڑے ہوجائے اور حمد پڑھے ،تشھد پڑھے اس پر کوئی اور چیز واجب نہیں ہے۔ اور اگر تین اور چار میں شک ہوجائے تو کھڑا ہوجائے اور ایک رکعت اضافہ کرئے اور کچھ واجب نہیں،شک کے ذریعے یقین کو ختم نہ کرو۔اور شک کو یقین میں داخل نہ کرو۔اور نہ ان دونوں کو آپس میں ملائے۔لیکن شک کو یقین کے ذریعے ختم کیا جا تاہے اور یقین پر مکمل کرتے ہیں اور شک پر کسی بھی حالت میں اعتبار نہیں کیا جاتا ہے۔)اس حدیث میں روای سوال کرتا ہے کہ اگر نمازی کو نماز میں شک ہوجاتا ہے کہ دو رکعتیں پڑھی ہیں یا چار تو کیا حکم ہے؟ اس صورت میں دوقیام اور چار سجدے کرئے اور تشہد پڑھے اور اسی طرح اگر تین اور چار رکعت میں شک ہوجائے اور تین یقینی ہو تو اس صورت میں کھڑا ہوجائے اور ایک رکعت پڑھے اور یقین شک کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن یقین کے ذریعے شک کو ختم کیا جاسکتا ہے۔یقین پر بناء رکھو اور شک کی اعتبار نہ کرو۔

 

استدلال:روایت مذکورہ میں امام نے فرمایا کہ اگر تین اور چہار رکعت میں شک ہوجائے اور تین پر یقین ہو تو اس صورت میں تین کے یقین پر کوئی اثر انداز نہیں ہوگا لہذا ایک اور رکعت پڑھے گا۔یہ استصحاب ہے کیونکہ نمازی کو پہلے چہار رکعتیں نہ پڑھنے کا یقین ہے اور اب شک ہو رہا ہے کہ پڑھی ہیں یا نہیں تو اس صورت میں اس شک کا کوئی اعتبار نہیں ایک رکعت اضافی پڑھے گا۔ اور ساتھ ساتھ امام نے صراحتً فرمایا کہ ’لاینقض الیقین بالشک‘یعنی یقین کو شک کے ذریعے ختم نہیں کیا جاتا ہے اور اسی روایت کے آخری جملے میں کہا کہ ’’ولا یعتد بالشک فی حال من الحالات۔‘‘یقین سابق کی صورت میں شک کی ہر گز پروا نہیں کی جا ئے گی۔دوسرے الفاظ میں اس روایت کی تمام فقرے استصحاب کی تائیدکرتے ہیں۔ [47]

 

تیسری حدیث:یہ روایت محمد بن مسلم ؒ نے نقل کیا ہے:’’محمد بن مسلم عن ابی عبداللہ ، قال : قال امیر الموٗمنین صلوات اللہ علیہ : من کان علی یقین فشک، فلیمض علی یقینہ ، فان الشک لا ینقض الیقین۔‘‘[48](محمد بن مسلم نے ابا عبداللہ سے روایت کی ہے،فرمایا : امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: جس شخص کو یقین ہو اورپھر شک ہوجائے تو اپنے یقین کو برقرار رکھے ،کیونکہ شک یقین کو ختم نہیں کرتے ہیں۔)اسی مفہوم کی دوسری روایت بھی نقل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ : ’’ من کان علی یقین فاصابہ شک فلیمض علی یقینہ،فان الیقین لا یرفع بالشک۔‘‘[49](جس شخص کو یقین ہوپھر شک ہوجائے تو وہ اپنے یقین پر قائم رہے گا کیونکہ شک کے ذریعے یقین کو ختم نہیں کیا جائے گا۔)

 

استدلال:ان دونوں روایتوں میں امام ؑ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص یقین کی حالت پر ہو اور پھر کوئی شک لاحق ہوجائے تو اس صورت میں اس شک کی کوئی پروا نہیں کی جاتی ہے ۔اور دونوں روایتیں قاعدہ استصحاب کو بیان کر رہی ہیں ’’الشک لاینقض الیقینَ‘‘ ۔ دوسرے الفاظ میں ان دونوں روایتوں میں یقین کی بقاء اور استمرار کا حکم دیا جا رہا ہے جو کہ عین استصحاب ہے۔البتہ اکثر علما ء نے کہا ہے کہ ان دونوں روایتوں کی استصحاب پر دلالت بہت واضح ہے۔

 

چوتھی حدیث :یہ روایت علی بن محمد القاسانی نے امام کو خط لکھا تھا اس خط کا جواب ہے: ’’ قال :کتبت الیہ۔وانا بالمدینۃ ۔ عن الیوم الذی یشک فیہ من رمضان ھل یصام ام لا؟ فکتب: الیقین لا یدخلہ الشک ، صم للروء یۃ و افطر للروء یۃ۔‘‘ [50]((علی بن محمد قاسانی راوی ہے) کہا: میں نے اُن کو خط لکھا اور وہ مدینہ میں تھا،میں نے پوچھا یومِ شک کو روزہ رکھوں یا نہیں ؟(امام جواب)لکھا: یقین میں شک کو داخل نہ کروجب چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب چاند دیکھو تو افطار کرو۔)

 

علما ءئے اصولین نے استصحاب کی حجیت پر لانے والے احادیث میں سے ایک یہ روایت علی بن محمد قاسانی کی مکاتبہ ہے۔اس روایت میں قاسانی یوم الشک کی روزہ کے بارے میں پوچھتا ہے کہ: جب کسی کو یکم رمضان کے بارے میں شک ہوجائے تو روزہ رکھے یا نہیں؟اوراسی طرح اگر کسی کو شک ہوجائے کہ آخر رمضان ہے یا اول شوال؟تو اس صورت میں روزہ رکھنا واجب ہے یا حرام ؟

 

تو اس سوال کے جواب میں امام ؑ نے لکھا ’’الیقین لا یدخلہ الشک‘یعنی یقین میں شک اثر انداز نہیں ہوتا ہے مزید لکھا ہے ’’صمّ للرّوء یۃ و افطر للرّوء یۃ‘ شیخ انصاری اپنی کتا ب میں لکھتے ہیں کہ یہ روایت باقی روایات سے زیادہ واضح طور پر استصحاب کی حجیت پر دلالت کرتی ہے لیکن اس روایت کی سند میں اشکال ہے۔[51]

 

استدلال:اس روایت کی ابتداء میں امام نے فرمایا کہ ’’الیقین لا یدخلہ الشک‘‘اور پھر اس کے بعد فرمایا کہ ’’صم للرؤیۃ‘یعنی جب تک رمضان کا چاند نظر نہ آئے روزہ رکھنا واجب نہیں ہے آگے فرمایا کہ ’’افطر للرؤیۃ‘یعنی جب چاند نہ دیکھے شوال نہیں ہوگا اور اس وقت تک روزہ حرام نہیں ہے بلکہ روزہ واجب ہے اور یہ استصحاب بقارمضان کرتے ہوئے حکم دیا ہے یعنی استصحاب بقائے رمضان اور عدم دخول شوال کیا ہے جو کہ یقیناًاستصحاب ہے۔[52] 

 

نتیجہ

 

اصول فقہ کی اہمیت تمام اسلامی مسالک اورفرقوں کے ہاں مسلمہ ہے۔ اصول فقہ کی بنیاد اصول اربعہ یعنی قرآن،سنت، اجماع،قیاس/ عقل پر ہے۔ اصول فقہ کے ثانوی ماخذ ومصادر میں سے ایک استصحاب ہے۔دونوں مکاتب فکر کے علما ء کی تعریفوں کا نتیجہ ایک ہی ہےجن کے الفاظ مختلف ہےمگر معنی ایک جیسے ہیں مختصر یہ کہ’’ ایک حکم شرعی جو دلیل شرعی کے ذریعے زمان ماضی میں ثابت ہو اورجب تک اس کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی دوسری دلیل شرعی نہ آئے تو زمان حال اور استقبال میں بھی وہی حکم ثابت رکھا جائے گا ‘‘،اسی کو استصحاب کہا جاتا ہے ۔استصحاب کی اقسام کے تقسیم بندی کا طریقہ کار الگ ہیں لیکن اقسام کلی طور پر ایک ہی ہےاور ساتھ ہی استصحاب کی حجیت پر دلائل دونوں مکاتب فکر نے جو دلائل پیش کیے ہیں ان میں سنت ، اجماع، عقل،بنائے عقلا اور سیرت صحابہ / قول صحابی سے استدلال کرنے والے دونوں متفق ہیں دونوں مکاتب فکر کے اصولیین نے متفقہ طور ان دلائل کے ذریعے استصحاب کی حجیت پر دلائل پیش کی ہیں۔اور ان دلائل سے استصحاب کا حجت ہونا ثابت ہوگیا ہے۔لہذا مندرجہ ذیل نکات کو اس مقالے کا خلاصہ کہا جاسکتا ہے:

* ایک حکم شرعی جو دلیل شرعی کے ذریعے زمان ماضی میں ثابت ہو اورجب تک اس کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی دوسری دلیل شرعی نہ آئے تو زمان حال اور استقبال میں بھی وہی حکم ثابت رکھا جاے گا۔

  • استصحاب کی حجت ہونے کا دونوں مکاتب فکر قائل ہیں اور استصحاب کی حجیت پر دلائل دونوں مکاتب فکر نے جو دلائل پیش کیے ہیں ان میں سنت ، اجماع، عقل،بنائے عقلا اور سیرت صحابہ / قول صحابی سے استدلال کرنے دونوں مکاتب فکر متفق ہیں۔
  • جو چیز دوران تحقیق مشاہدہ میں آئی وہ یہ ہے کہ اہل سنت علما ء میں سے قدیم علما ء نے علم اصول فقہ پر بہت زیادہ کام کیا اور جدید علما ءنے کم پیش رفت کی ہے، جب کہ اس کے برعکس اہل تشیع علما ء میں سے قدیم علما ء نے علم اصول فقہ پر نسبتاکم کام کیا ہے جبکہ جدید علما ء نے بہت زیادہ کام کیا ہے، اس لیے جدیدمسائل میں ہم علما ءئے اہل تشیع کی کاوشوں سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

حوالہ جات

  1. ۔ ابن منظور،لسان العرب،دار احیاء التراث العربی ،طبع اول،بیروت،لبنان،ج:۷،ص۲۷۶۔
  2. ۔ ایضا ص:۲۷۱۔
  3. ۔ سورۃ المعارج:۷۰/ ۱۲۔
  4. ۔ السرخسی ،اصول السرخسی ،دار الکتب العربیہ، ۱۳۸۳ھ ، مصر ،ج: ۲ ،ص۲۲۳۔
  5. ۔غزالی، ابو حامد محمد بن محمد طوسی،المستصفیٰ من علم الاصول، الجامعہ الاسلامیہ بالمدینہ المنورہ، ص:۴۰۷۔
  6. ۔ الانصاری،شیخ مرتضی ، فرائد الاصول،ج: ۲ ،ص :۴۰۸، دار الاعتصام،قم ،ایران۔
  7. ۔ شاہردی، دراسات فی علم اصول ،موسسہ دائرہ معارف فقہ اسلامی،طبع اول،قم ،ایران، ،ج:۴،ص:۷۔
  8. محمد رضا مظفر، اصول الفقہ،انتشارات اسماعیلیان،قم ،ایران، ج:۴،ص: ۲۱۹۔
  9. ۔ایضا
  10. ۔ جامع افراد اور مانع اغیار، یعنی اپنے تمام افراد کو شامل کرے اور دوسروں کے افراد کو آنے سے منع کرے ۔یہ دونوں اصطلاح فلسفہ اور منطق کے ہے علم اصول فقہ میں بھی استعمال ہوتے ہیں ۔
  11. ۔ البقرہ ۲: ۲۹۔
  12. ۔ الجاثیۃ :۴۵: ۳۵ ۔
  13. ۔ البخاری، کشف الاسرار ،ج: ۳،ص: ۴۰۵ ۔
  14. ۔ الانعام ۔۶: ۱۴۵۔
  15. ۔ زنجانی ،تخریج الفروع علی الاصول،ص:۱۵۶۔
  16. ۔ الانعام :۶:۱۹۶ ۔
  17. ۔ المائدہ ۵: ۸۷۔
  18. ۔ المائدہ :۵ ۱۰۱۔
  19. ۔ امام بدخشی، شرح بدخشی ،ج: ۳، ص:۷۸۵۔
  20. ۔ امام مسلم ،صحیح مسلم ، باب: السھو فی الصلاۃ،رقم الحدیث۵۷۱۔
  21. ۔ الطبرانی ،سلیمان بن احمد بن ایوب ابو القاسم الطبرانی ،المعجم الکبیر،ج:۳ ، ص: ۲۲۲،رقم،الحدیث:۱۱۸۵، طبع الثانیہ ،۱۴۰۴ھ،مکتبتہ العلوم و الحکم ،موصل، عراق۔
  22. ۔ البخاری،صحیح البخاری،باب :من اجاب السائل، کتاب العلم،رقم الحدیث: ۱۳۴۔
  23. ۔ صفی ھندی، نھایۃ الوصول فی درایۃ الاصول ،ج:۷،ص:۳۹۵۸۔
  24. ۔ ابن ابی شیبہ ابراہیم بن عثمان بن ابی بکر،مصنف ، رقم الحدیث:۹۱۵۹، باب : ما ذکر فی فصل الصیام،ج: ۵۶،ص:۱۵۵،دار الفکر ،بیروت ،لبنان۔
  25. ۔ عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی،مصنف عبد الرزاق، طبع ثانی،مکتب اسلامی،بیروت ،لبنان، ج: ۴،ص:۱۷۲، باب الطعام و الشراب مع الشک،۔
  26. ۔ الاسنوی، نھایۃ السول،ج:۴،ص:۲۳۴۔
  27. ۔ امام بخاری،صحیح بخاری،کتاب الشھادات،رقم الحدیث: ۲۶۴۱، ص: ۴۲۷۔
  28. ۔ اسنوی،تخریج الفروع علی الاصول،ص:۶۰۲۔
  29. ۔ صفی ھندی، نھایۃ الوصول الی درایۃ علم الاصول،ج:۹،ص:۳۹۵۸۔
  30. ۔ الحاکم نیشاپوری،مستدرک ،رقم الحدیث:۴۴۶۵،ص:۹۸۳۔
  31. ۔ ابو زہرہ، اصول الفقہ،ص:۲۹۸۔
  32. ۔ الزنجانی، تخریج الفروع علی الاصول ،ص:۱۷۳۔
  33. ۔ آخوندمحمد حسین خراسانی،کفایۃ الاصول،ج:۲۔
  34. ۔ محمدجواد مغنیہ،علم الاصول فی ثوب جدید،ص: ۳۵۵۔
  35. ۔ علی محمدی ، شرح اصول الفقہ،ج:۴،ص:۱۷۷۔
  36. ۔ ایضاً،ص:۱۹۵۔
  37. ۔ ایضاً،ص:۱۹۹۔
  38. ۔ایضا
  39. ۔ علامہ حلّی، المبادی،ص: ۲۵۰۔
  40. ۔ محمد رضا ، اصول الفقہ،ج:۲ ،ص:۱۱۲
  41. ۔ علی محمدی، شرح اصول فقہ،ج:۴،ص:۱۶۱ تا ۲۸۰۔
  42. ۔ علم حدیث کی اصطلاح میں مضمر سے مراد وہ حدیث ہے جس میں مروی عنہ یعنی جس سے روایت کی گئی ہے

     

    اُس کا نام لیے بغیر روایت نقل کیاگیا ہوتا ہے۔
  43. ۔ العاملی،شیخ محمد بن حسن الحر ،وسائل الشیعہ،ج:۱،باب:من نواقض الوضوء،حدیث:۱۔
  44. ۔ سورہ یوسف،۷۷۔
  45. ۔ مظفر،محمد رضا ،اصول الفقہ،ج؛۴،ص:۱۹۱۔
  46. ۔ کلینی ،شیخ محمد بن یعقوب ،الکافی،ج: ۳، باب: السھو فی الثلاث و الاربع،حدیث:۳،ص:۳۵۱۔
  47. ۔ محمدی،علی،شرح اصول الفقہ،ج:۴،ص:۲۱۷۔
  48. ۔ ایضاً، وسائل الشیعہ،ج: ۱،باب: من ابواب الوضوء،حدیث:۶۔
  49. ۔ایضا ، رقم الحدیث: ۸۔
  50. ۔ ایضاً،وسائل الشیعہ،ج:۷،باب: احکام شہر رمضان،حدیث: ۱۳۔
  51. ۔ شیخ انصاری، فرائد الاصول ،ج: ۲،ص:۲۲۱۔
  52. ۔ ایضاً،ص:۲۲۳۔
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...