Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 1 Issue 1 of Al-ʿILM

قرآنی اور غیر قرآنی زندگی کا تقابل اور جائزہ |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2017

ARI Id

1682060040263_1064

Pages

130

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/85/65

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/85

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

انعامات ربانی میں ایک بہترین انعام، امت مسلمہ کو نبی کریم ﷺ کے ذریعے دیا جانے والا قرآن حکیم کا عظیم تحفہ ہے۔سورہ یونس میں قرآن مجید کو رحمتِ خدا وندی سے موسوم کیا گیا ہے ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :

 

قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ ([1])

 

یہ صرف اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ یہ نعمت تمہیں نصیب ہوئی ، پس یہ وہ چیز ہے، جس پر لوگوں کو چاہیے کہ خوشیاں منائیں ، جتنی بھی چیزیں دنیا میں لوگ سمیٹتے ہیں، قرآن کی نعمت ، ان سب سے زیادہ بہتر اور قیمتی ہے۔

 

قرآن کریم کے نزول کا بنیادی مقصد ہی انسانی زندگی کے اسلوب کو راہ حق دکھا کر اوصاف خداوندی سکھا کر درست طرز زندگی پر ڈھالنا تھا ۔بد تہذیبی ختم کرنے اور بدسلیقہ اور ناشائشتہ ہونے کے سبب اور پوری دنیا کی اصلاح کرنے ،تہذیب سکھانے اور اسلوب زندگی درست کرنے کو اللہ نے اتارا۔اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

 

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ([2])

 

بےشک ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا تا کہ تم سمجھو ۔

 

مگر چونکہ یہ اللہ کی آخری کتاب ہے جو انسان کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف رہنمائی کرتی ہے‘ اس لئے اس کی روح ابدی‘ کلام کی تاثیر روحانی اور اس کی تعلیمات آفاقی ہیں یعنی یہ انسان کے لئے ضابطہ حیات ہے۔ انسان قرآنی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا پابند ہے اگر وہ اس سے نظر پھیرتا ہے اور احکامات الہی سے روگردانی کرتا ہے تو خسارہ اٹھانے کا خود ہی ذمہ دار بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا اسلوب بیان بھی انسانی فکر و نظر اور ذوق سلیم کے مطابق ہے یعنی انسان جب قرآن پڑھتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی ایک ایک نصیحت اس کے دل میں اترتی جاتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ قرآن مجھ ہی سے ہم کلام ہے۔ اس قرآن کا موضوع ہی انسان ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ کا مطلوب ہے کہ انسان قرآنی انداز فکر قرآنی اسلوب پر زندگی گزارے۔ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ اس کا اسلوب بیان اس انداز کا ہے کہ ہر نفس کو فرداً فرداً یکساں طور پر متاثر کرتا ہے اور پڑھتے وقت یہی باور کراتا ہے کہ قرآن اس کے قلب پر نازل ہو رہا ہے۔ تاہم قرآن کے اسلوب بیان کے کئی پہلو ہیں جن کو سمجھنا چاہئے۔ ویسے اس کے اسلوب کی طرف خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرما دیا ہے سورۃ یوسف میں قرآن کا اسلوب کیا ہے جو زندگی میں راہنمائی فراہم کرتا ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے :

 

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ ([3])

 

ہم تمہیں سب اچھا بیان سناتے ہیں اس لئے کہ ہم نے تمہاری طرف اس قرآن کی وحی بھیجی اگرچہ بے شک اس سے پہلے تمہیں خبر نہ تھی ۔

 

اسی طرح ارشاد ربانی ہے:

 

قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ ([4])

 

بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب ۔

 

ایک اور جگہ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے:

 

تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا([5])

 

بڑی برکت والا ہے وہ کہ جس نے قرآن اپنے بندے پر اتارا جو سارے جہاں کوڈر سنانے والا ہو ۔

 

اسی طرح ایک اور جگہ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

 

إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ ([6])

 

بلا شبہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے ۔

 

قرآنی اسلوب زندگی کا مفہوم

جوزندگی اللہ رب العالمین کے قرآنی احکامات اور اسالیب کے مطابق گزارتے ہوئے نبی کریم ﷺ کی سنت مطہرہ کی اتباع میں گزرے وہی اللہ رب العالمین کو پسند ہے اور جو زندگی قرآنی احکامات اور اسلوب کے مطابق نہ ہو اس میں الہی نافرمانی بھی ہے اور اللہ کی نعمتوں کی ناقدری بھی ہے اور یہی غیر انسانی اسلوب زندگی بھی ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جو نعمت جس قدر عظیم ہوتی ہے اس کے شکر کے تقاضے بھی اتنے ہی بڑے ہوتے ہیں۔ اگر اس کی ناقدری کی جائے تو پھر اس کی سزا بھی اسی قدر بڑی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

 

لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ[7]

 

اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں ضرور بالضرور تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا اور اگر میری ناشکری کرو گے تو پھر میرا عذاب بھی بہت سخت ہے ۔

 

آج مسلمان تارک قرآن ہو کر دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں علامہ اقبال نے خوب کہا تھا :

 

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کرتم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر )[8](

 

یہ عزت بلندی سرفرازی انہی کا نصیب بنتی جو اللہ کے احکامات کو بجا لاتے ہیں تاریخ انسانی گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان اقوام کو صفحہ ہستی سے مٹا کر عبرت کا نشان بنا دیا جنہوں نے اللہ اور اس کے رُسل کی نافرمانی کی ۔ آج بھی وہی ذلت قرآن سے دوری والوں کا مقدر ہے ۔کامیاب زندگی گزارنے کے لئے قرآن حکیم پر عمل کرنا اس کا فہم حاصل کرنا اس کی تعلیمات سمجھنا سمجھانا اُخروی فلاح اور دنیاوی کامیابی کے ناگزیر امر ہے قرآن ہدایت اور رحمت ہے اسی کے اندر ہمارے تمام مسائل کا حل ہے یہ ہمارے عقائد عبادات معاملات اخلاقیات سیاسیات معاشرت و معشیت اور قانون ہر جگہ راہنمائی فراہم کرتا ہے اسی لئے یہ دنیاوی دینی اُخروی شفا ء بھی ہے اور رحمت بھی نصیحت بھی اور تذکیر بھی، ہم قرآنی اسلوب کو اپنا کر ہی غیر قرآنی زندگی سے نکل سکتے اور سکون کی نعمت پا سکتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

 

يَاأَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ)[9](

 

اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نصیحت(قرآن ) آئی ہے اور جس میں دلوں کے لئے شفاء ہے اور ہدایت ہے رحمت ایمان والوں کے لئے ۔

 

علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے :

 

گر تو می خواہی مسلماں زیستننیست ممکن جز بہ قرآں زیستن ([10])

 

اگر تم مسلمان كى زندگی گزارنا چاہتے ہو تو قرآن كريم كو زندگی کا حصہ بنائے بغير ايسا ممكن نہیں۔

 

کیا دنیا کی کوئی ایسی کتاب ہے ؟جس نے نوع انسانی کے افکار، اخلاق، تہذیب اور طرزِ زندگی پر اتنی وسعت اتنی گہرائی اور اتنی ہمہ گیری کے ساتھ اثر ڈالا ہو کہ پہلے اس کی تاثیر نے ایک قوم کو بدلااور پھر اس قوم نے اٹھ کر دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کو بدل ڈالا۔ کوئی دوسری کتاب ایسی نہیں جو اس قدر انقلاب انگیز ثابت ہوئی ہو۔ یہ کتاب صرف کاغذ کے صفحات پر لکھی نہیں رہ گئی ہے بلکہ عمل کی دنیا میں اس کے ایک ایک لفظ نے خیالات کی تشکیل اور مستقل تہذیب کی تعمیر کی ہے۔ 1400 برس سے اس کے ان اثرات کا سلسلہ جاری ہے۔ اور روز بروز اس کے یہ اثرات پھیلتے چلے جارہے ہیں۔ آج اگر چہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں براہ راست اس کے اثرات کم محسوس ہو رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی امت مسلمہ کو اگر کوئی چیز بچا رہی ہے اور بہت سے دلوں میں شعلہ بن کر سلگ رہی ہے اور جب اندھیرا گہرا ہوجائے گا تو وہ روشنی بن کر طلوع ہوگی اور ُامت مسلمہ نئے سفر پر نکل کھڑی ہوگی۔ وہ یہی کتاب ہے اور یا وہ ذات ہے جس پر یہ کتاب نازل ہوئی تھی۔ یہی اس کا سب سے بڑا اعجاز ہے جس نے اس کتاب کو بے مثل اور معجز بنا دیا ہے۔ اللہ کرے ؛آج کے مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں اور دنیا کو بھی سمجھائیں۔ قرآن کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں اور دنیا کو اسی راستہ پر چلائیں۔ جب ہی وہ بچ سکتے ہیں اور دنیا کو تباہی و بربادی کے راستے پر جانے سے بچاسکتے ہیں۔قرآنی اسلوب زندگی کیا ہے ؟اسے جاننے کے لیے قرآن کے سمندر میں غوطہ زن ہونا پڑے گا اس سمندر کی گہرائی میں جا کر موتی اور سیپ تلاش کرنےہیں اس پر غور و فکر اور تدبر کر کے کائنات کے اسرار و رموز کو سمجھنا ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

 

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ([11])

 

ہم نے نصیحت حاصل کرنے کے لئے قرآن کو آسان کر دیا ہے پس ہے کوئی سوچنے والا ،نصیحت حاصل کرنے والا۔

 

ہر وہ شخص جو قرآن کریم کا کتابِ ہدایت و شفا کے طور پر خیر مقدم کرتا ہے اور قرآن مجید کے ساتھ اس کا طرزِ عمل حقیقی ہوتا ہے، اس کی شخصیت میں قرآن انقلاب پیدا کر دیتا ہے اور اسے ایک نئے سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ قرآنی تبدیلی کا نمونہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ ہیں۔ وہ اسلام سے پہلے جاہلیت کی انتہا پر تھے مگر قرآنی طریق زندگی اور طرز کو اپنا کر فوز و فلاح سے ہم کنار ہوئے ۔

 

اس کتابِ عظیم میں انسانی زندگیوں میں انقلاب برپا کرنے کی قوت و تاثیر اور استعداد کس قدر ہے، اس کا اندازہ بھلا کون کر سکتا ہے؟ کون یہ سوچ سکتا ہے کہ ایک قوم جو صحرا میں رہتی ہو، علم و دانش سے تہی ہو، اس قوم کو بدلنے کے لیے قرآن آتا ہے تا کہ اس کی تشکیل جدید کرے، اسے زمین کی پستی سے اٹھا کر آسمان کی بلندی تک پہنچا دے، اس قوم کے دلوں کو اللہ سے جوڑ دے تا کہ اس قوم کی غایت و مقصد صرف اللہ ہی بن جائے۔ یہ کس طرح ممکن ہوا؟ دراصل قرآن کریم کے ذریعے تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ قوم اس تغیر کے لیے آمادہ ہو۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

 

إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ ([12])

 

حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔

 

چند ہی سالوں کے بعد اس صحرا کے قلب سے ایک نئی قوت ابھری جس نے روم و فارس کی عظیم و قدیم سلطنتوں کو مٹا کے رکھ دیا اور عزت و ذلت کے پیمانے بدل دیئے۔ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ قرآن میں غوطہ زن ہو کر اپنے کردا رمیں جدت پیدا کرے چنانچہ فرماتے ہیں:

 

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماںاللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار([13])

 

اسی طرح فارسی کا ایک اور شعر ہے :

 

آں کتاب زندہ قرآن حکیم حکمت او لایزال است و قدیم([14])

 

قرآنی اسلوب زندگی کا جائزہ( عقائد ،عبادات معاملات،اخلاق ومعاشرت،معیشت وغیرہ )

اللہ وحدہ لاشریک نے تخلیق کائنات کے بعد کائنات میں اپنا رنگ بھرنے کے لئے آدم وحوا کو پیدا کیا، جن کے ذریعے اللہ وحدہ لاشریک نے انسانی معاشرت سے دنیا کو رونق بخشی اور باعث تخلیق کائنات، محسن انسانیت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے انسانی معاشرے میں تہذیب وتربیت کے لئے اور اس لئے کے دنیا خوشی مسرت اور سکون واطمعنان کا گہوارہ بنی رہے اور انسانی زندگی جملہ امور احکامات الٰہی کے مطابق انجام پاتے رہیں، انسان کو قرآن مجید کی شکل میں ایک ضابطہ حیات عطاء فرمایا، جس میں انسان کے لئے معاشرتی زندگی گزارنے کے بہترین اُصول بیان کئے گئے ہیں تاکہ انسان جو خیروشر کا مجموعہ ہے بالکل پایہ انسانیت سے گرہی نہ جائے بلکہ اس طرح زندگی گزارے کہ اس کی ذات انسانوں کے لئے باعث خیروبرکت ہو، باعث شر نہ ہو۔

 

زندگی کےقرآنی اسلوب پر عمل پیرا ہونے کے لئے اللہ سبحانہ تعالی کے دیے احکامات میں سے عقائد عبادات معاملات قانو ن اخلاقیات کی حد درجہ ضرورت بھی ہے اور اہمیت بھی ہے۔اس لئے ان کا اجمالی جائزہ لیا جا رہا ہے تا کہ قرآنی اسلوب کی بہتر طور پر وضاحت ہو سکے ۔

 

عقائد و عبادات

انسان کے دل اور ارادے پر کوئی چیز حکمران ہے تو وہ اس کا عقیدہ ہے راست اور صالح عمل کے لئے ضروری ہے کہ چند صحیح اصولوں کا اس طرح تصور کریں کہ وہ دل کا غیر مشکوک یقین اور غیر متزلزل عقائد بن جائیں اسی مستحکم عقیدے کے تحت ہم تمام کام انجام دیں ۔ایمان ہمارے تمام اعمال کی اساس ہے،جس کے بغیر ہر عمل بے بنیاد ہے اور ہماری سیرابی کا اصل سرچشمہ ہے۔ خدا کے وجود کا اقرار اور اس کی رضامندی کا حصول، ہمارے اعمال کی غرض وغایت ہیں اس کے بغیر ہمارے سب کام بے مقصد ہیں ۔عقیدہ دراصل ان فیصلوں کا نام ہے جنہیں انسان اپنی عقل سے سوچ کر، کانوں سے سن کر،اور قوانین الہی کے ذریعے پرکھ کر صادر کرتا ہے ۔یہ فیصلے دوٹوک اور بے لاگ ہوتے ہیں بندہ مانتا ہے اور زبان سے اقرار کرتا ہے کہ وہ ذات واحد ہے جس نے اسے وجود بخشا وہی خالق مالک رازق ہے ۔اس نے کل کائنات کو اپنی پرستش اور بندگی کے لئے پیدا کیا اسی غرض کے لئے اس نے انبیاء و رسل ہر قوم اور ہر زمانے میں مبعوث کئے اوران پر الہامی کتب نازل کیں۔

 

عقیدے کے معنی ہیں وہ قلبی تصدیق جو کسی تصور میں یقین کی کیفیت پیدا کرتی ہے اس سے مراد وہ بات ہے جسے انسان اپنے دل سے اس طرح تسلیم کرے کہ اس بات پر اسے سکو ن و ثبات مل جائےاور وہ اس کے دل سے پورا مرتبط ہو جائے کہ طلب و تر دد کا مزید سلسلہ منقطع ہو جائے([15])۔عقائد تمام اعمال کی اساس ہیں جس کے بغیر ہر عمل بے بنیاد اور بے اصل ہے ۔خدا کے وجود کا اقرار اور اس کی رضا مندی انسانی اعمال کی غرض و غایت ہے یہ نہ ہو تو تمام اعمال بے مقصد و بے معنیٰ ہو جاتے ہیں ۔اس کے برعکس جو اعمال ایمان سے خالی ہوں اور ان میں ریاکاری،نمود و نمائش اور شہرت طلبی ہو ،وہ اعمال نیک ہونے کے باوجود بے وقعت ہیں۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے چند سیدھے سادھے اصول وضع کیے ہیں جن کو عقائد کہا جاتا ہے اور ان پر یقین رکھنا ایمان ہے۔ان میں اللہ تعالیٰ پر ایمان،اس کے فرشتوں پر ایمان،اس کے رسولوں پر ایمان،اس کی بھیجی ہوئی کتابوں پر ایمان،تقدیر پر ایمان اور آخرت پر ایمان کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ان تمام عقائد کا دل سے یقین کرنا اور زبان سے اقرار کرنا ضروری ہے۔

 

عقیدہ توحید :

عقائد میں سب سے زیادہ بنیادی عقیدہ توحید ہے اور اسی عقیدہ پر آخرت کی نجات ہے۔ سیدنا آدم ؑ سے لے کر جناب رسول اللہﷺ تک ہر نبی نے اسی عقیدہ کی تبلیغ و اشاعت کی۔

 

توحید کی تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور حکم یا قانون میں کسی دوسرے کو شریک نہ سمجھا جائے یا خدا کو ایک ماننا وحدانیت یا توحید کہلاتا ہے اس با ت کی تصدیق کرنا کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہے، بے نیاز ہے، سارے جہان کا رب ہے۔ آسمانوںاور زمین کا مالک ہے۔ اس نے اپنی قدرت سے ساری مخلوق کو عدم سے وجود بخشا۔([16]) جیسا کہ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ۔ اللَّهُ الصَّمَدُ ۔ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ [17]

 

اے پیغمبرﷺ!لوگوں سے فرما دیجئے کہ وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے ، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کے برابر کا ہے۔

 

عقیدہ کی ضرورت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان کی جبلت میں قابل پرستش مقامات کی طرف میلان موجود ہے۔چونکہ یہ میلانات انسان میں موجود ہیں تو ان کی درست طریقے سے نشوونما ضروری ہے۔تاہم اگر ان کی نشوونما درست نہ ہوتو یہ منحرف راستے پر چل نکلتے ہیں ۔بت پرستی،شخصیت پرستی،اور طبیعت پرستی وغیرہ اسی قسم کے انحراف سے پیدا ہوتی ہیں۔ارشاد ربانی ہے :

 

أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ([18])

 

کیا وہ دین خدا کے سوا کسی اور چیز کی جستجو کرتے ہیں ،جبکہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اسی کے حضور سرتسلیم خم کیے ہوئے ہے۔

 

مذہبی عقیدے کا اثر نتیجے اور اچھی جدوجہد کے بارے میں پر امید ہونا ہے ۔ایک باایمان شخص اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا ،اگر برے حالات ہیں تو وہ جلد یا بدیر ایک نہ ایک ضرور صحیح ہو جائیں گے۔اور ایک اللہ پر ایمان توکل کی طرف لے جاتا ہے اور وہ ہر کام میں اسی پر بھروسہ کرتا ہے اور اسی پر پختہ یقین رکھ کر اپنی ہمت طاقت اور سپردگی سے اس کی اطاعت میں لگا رہتاہے تا کہ جو زندگی اللہ کو مؤمن سے مطلوب ہے اس کے مطابق زندگی کو گزارے اور قرآن ک ودل کی بہار بنا لے جس میں ضابطہ قوانین بتا دئیے گئے ہیں ۔

 

عقیدہ رسالت :قرآن کریم کی رو سے نبی کی مکمل اطاعت اور پیروی شرط ایمان ہے ۔ اسے بلا چوں وچرا تسلیم کرنا فرض ہے ۔ کیونکہ یہ ہر صورت میں خیر ہی خیر ہے اور سراپا حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

 

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ([19])

 

اور ہم نے جس رسول کو بھی بھیجا اس لئے بھیجا کہ اذن خداوندی کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے۔

 

اسی طرح ارشاد ربانی ہے :

 

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ ([20])

 

ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبر دار کردیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو ، اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہوگئی۔

 

عقیدہ آخرت :مذہب جن حقیقتوں کو ماننے کی ہمیں دعوت دیتا ہے، ان میں سے ایک اہم ترین حقیقت آخرت ہے۔آخرت سے متعلق اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ انسان کو صرف ایک دفعہ دنیا میں پیدا کرتا اورمارتا ہے ۔ پھر قیامت کے دن اُسے دوبارہ زندہ کرے گا ۔ اس عقیدے سے مختلف یا متضاد ومتناقض جملہ عقائد غیر اسلامی ہیں۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے :

 

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ([21])

 

تم اللہ کا انکار کیسے کرتے ہو ‘ حالانکہ تم بے جان تھے؟ اُس نے تمہیں زندہ کیا ‘ یعنی زندگی بخشی ‘ پھر تمہیں مارے گا ‘ بعد ازاں تمہیں زندہ کرے گا ‘ پھر اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔

 

ہر ایک نے موجودہ دنیا میں جو اچھے یا برے عمل کیے ہیں، وہ تمام وہاں خدا کی عدالت میں پیش ہوں گے، اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق انعام یا سزا دی جائے گی۔ارشاد ربانی ہے :

 

وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ([22])

 

اور وہی تو ہے جو رات میں تم پر موت طاری کردیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو وہ اس کو جانتا ہے پھر دن کے وقت تمہیں اٹھا کھڑا کرتا ہے تاکہ مقررہ مدت پوری کر دی جائے پھر اس وقت کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر اس وقت وہ تم کو تمہارے اعمال جو کچھ دنیا میں کرتے رہے ایک ایک کر کے بتا دے گا۔

 

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ([23])

 

ہر شخص ایک دن موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور قیامت کے دن پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

 

عبادت :

عبادت سے مراد ایسے اعمال ہیں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہو۔بندوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچانیں اور اس سے ربط کو مستحکم کریں ، اس کی عبودیت کا دم بھریں اور صرف ایک خدا کو اپنا سہارا بنالیں ۔انبیاء کرام علیہم السلام نے انسانوں کو معبود حقیقی سے ملانے کا کام اور ایسے اصول و ضوابط بیان کئے جن پر چل کر ایک انسان حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے ، بہت سے بندوں نے ان کی دعوت قبول کی اور جن کے مقدر میں ہدایت نہیں تھی ،وہ اس دعوت سے دور رہے اور ہمیشہ کے لیے ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی ۔

 

عبادت اوراسلامی اصول کے مطابق زندگی گذارنے کے لیے ہی انسان کی تخلیق عمل میں آئی ہے ، اس مقصد کی تکمیل کے لیے جتنا بھی جتن کیا جائے کم ہے ، تمام انبیائے کرام نے اس ذمہ داری کا احساس دلایا ہے اور ہر ایک کی یہی دعوت تھی :

 

يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ([24]

 

25۔مولانا عاصم نعمانی،نماز کا مقام ‘ ص:۱۸تا ۲۶؛ The New Encyclopaedia Britannica ,v:9, : p:442)

 

لوگو ! بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ گذرے ہیں ان سب کا خالق ہے تا کہ تم اس سے ڈرو، وہی توہے جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا ، آسمان کی چھت بنائی ، اور اس سے پانی برسایا اور اس کی بدولت ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا ، پس جب تم یہ جانتے ہو تو اللہ کا کسی کوشریک نہ ٹھہراؤ۔

 

انبیاء کرام علیہم السلام کی مشترکہ دعوت توحید و آخرت تھی ، یعنی تمام نبیوں اوررسولوں نے بندوں کو خدا سے جوڑنے اور اسی کی عبادت کرنے کی تلقین کی ، معبودان باطلہ اور دنیا کی چمک دمک سے منہ موڑنے کی ہدایت دی اور صاف صاف واضح کردیا کہ عبادت کے لائق صرف ایک خدا کی ذات ہے ، اسی کی عبادت کرنی چاہئے اور اسی کو اپنا سہارا اور ٹھکانا بنانا چاہئے ، اس کا ذکر سورۃ الانبیاء :25 میں موجود ہے ۔اسی طرح سورۂ شعراء میں مختلف انبیاء کرام کا تذکرہ کرتے ہوئے ان سب کی دعوت کا مفصل بیان ہے ، تمام انبیاء کرام کی یہی فکر تھی کہ کسی طرح انسان خدا آشنا ہوجائیں ، اس کی عبودیت اور بندگی کو مقصد حیات بنالیں یہی اسلوب اپنانے پر زندگی قرآن کے مطابق ڈھل کر اخروی کامیابی کی ضامن ہو سکتی ہے ۔

 

قرآن کا تصورعبادت یہ ہے کہ انسان کا اپنی پوری زندگی میں ہر قدم خدا کی بندگی کی راہ میں اُٹھے زندگی اسی کی بندگی میں بسر ہو۔ اس کی زندگی کا کوئی لمحہ بھی خدا کی عبادت سے خالی نہ ہو اس دنیا میں انسان جو کچھ بھی کرے اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق کرے اور اس کا ارادہ متزلزل نہ ہو۔عبادت احکامات الہی کی پیروی کا نام ہے اور اس کا مقصد رضائے الٰہی اور تقرب إلیٰ اللہ ہے ۔آدمی خدا کی خدائی کازبان سے اقرار کرے یا محض ایک علمی فارمولا کی حیثیت سے اس کو سمجھ لے بلکہ اس کے لئے ناگزیر ہے کہ اسے بار بار ابھارا جائے اور تازہ رکھا جائے یہی کام ہے جو نماز کرتی ہے۔ انسان جب کاموں میں مصروف ہوتا ہے تو احساس بندگی کا نقش دھندلا ہوجاتا ہے تو اسے تازہ کردے ۔ اس طرح نماز کے ذریعے انسان کو آگاہ کیا جاتاہے کہ تم اللہ کے بندے ہو۔ ([25])

 

انسان میں دو پہلو ہیں ایک مادیت وبہمیت کا اور دوسرا روحانیت اور ملوکیت کا ۔ اور اس کا اپنے پیدا کرنے والے (خالق)کے ساتھ خاص تعلق روحانی پہلو سے اور یہی پہلو اصلی اور قیمتی پہلو ہے جس کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات ہے ۔ دنیا میں انسان جو کھاتاپیتاہے اور اس قسم کی اپنی دوسری خواہش پوری کرتا ہے اُس سب کا تعلق اُس کے بہیمی اورمادی پہلو سے ہے ۔روحانی پہلو جو انسان میں عالم ملکوت کا حصہ ہے اور جس کی وجہ سے وہ دوسرے حیوانا ت سے ممتاز ہوتا ہے اس کی ترقی اور اس کے نشوونما کا ذریعہ عبادات ہیں۔ عبادات کے ذریعے انسان ملاء اعلیٰ سے ایک خاص مناسبت اور ربط پیدا کرتا ہے ۔ ملاء اعلیٰ سے ربط اورمناسبت پیدا کرنے کی جو تاثیر اورانسان کے روحانی اورملکوتی پہلو کی ترقی اور تکمیل کی جو خاصیت عبادات میں ہے وہ کسی دوسرے عمل میں نہیں ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے گوکہ دوسرے تمام اعمال اگرچہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق کیے جائیں اورہماری نیت بھی حکم الٰہی کی تعمیل کی اور رضائے الٰہی حاصل کرنے کی ہو لیکن ان کا تعلق مخلوق سے بھی ہوتا ہے مثلاً اخلاق،معاملات، معاشرت، سیاست ، حکومت ، تعلیم وتعلم ،امر بالمعروف ونہی عن المنکر ان سب اعمال کا رخ مخلوق کی طرف ہے۔ خالق کے ساتھ اُن کا تعلق صرف اتنا ہے کہ یہ بھی اسی کے احکام ہیں لیکن عبادات کاتعلق براہ راست معبود سے ہے اور اس میں بندے کا رخ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہوتا ہے یہی عبادات کا امتیاز ہے اور قرآن میں عبادات پر زیادہ زور اس لئے دیا گیا ہے ۔([26]) عبادت میں انسان کو حکم ہے کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کرے ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 

أَنْ لَا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ([27])

 

کہ تم لوگ اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کرو۔

 

امام راغب کے مطابق عبادت دو طرح کی ہوتی ہے ۔ ایک عبادت بالتسخیر اور دوسری عبادت بالاختیار۔اول الذکر عبادت سے مراد وہ عبادت جس کا صدور ازروئے فطرت اور وجدان ہوتا ہے ۔اور ثانی الذکر اختیاری ہے مثلا عبادات شرعیہ۔([28])

 

اصل عبادت صرف اللہ کی ہے اور وہی حقیقی ہے اور اسی کی طرف قرآن بلاتا ہے ۔ عبادت کی ایک عمومی غیر رسمی شکل دعا ہے لیکن شریعت کی طرف سے نافذ عبادات میں نماز کو اپنی رسمی شکل میں نہایت اہم مقام حاصل ہے۔ عبادت میں خشوع وخضوع پر زیادہ زور دیا گیا ہے جس سے رب کی عظمت اور عبد کے تذلل کا اظہار ہوتا ہے ۔عبادات کا اہم مقام اخلاص ہے اور خدا سے استعانت کا احتیاجی پہلو بھی آتا ہے ۔ کیونکہ بے بسی سے چھٹکارا پانے کے لئے انسان اپنے رب کو پکارتا ہے۔ عبادت رب العالمین کا اس کے بے پایہ انعام کی وجہ سے بندے پر حق ہے ۔

 

عبادات میں ارکان اسلام کی بہت اہمیت ہے توحید رسالت آخرت کے بعد مسلمان پر فرض عبادات میں سے نماز روزہ زکوۃ اور حج ہیں ۔ قرآن نے اس کا ذکر، واضح طور پر کیا ا ور، بار بار ،کیا ہے جن میں سے ہر مسلمان پر اللہ تعالیٰ نے صلوٰۃ کو فرض کیا مثلاً ارشاد ربی ہے:

 

فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا ([29])

 

اسی طرح ماہ رمضان کے روزے فرض کئے اس کا ذکر المائدہ:48 میں ملتا ہے۔صاحب استطاعت پر حج کی فرضیت کا ذکر آل عمران 97 میں ملتاہے اور زکٰوۃ سورۃ التوبہ میں ہے جو مال کو پاک کرتی ہے ۔یہ عبادت صاحب استطاعت کے لئے یعنی زکوۃ اڑھائی فیصد مال اور زیور سے جس پر ایک سال کامل گزرے اور حج ہر عاقل و بالغ پر جو صاحب مال ہو ۔ اسی طرح نفلی عبادات ہیں قربانی ہے صدقات ہیں وغیرہ ۔

 

اخلاق

اسلام ميں اخلاقيات كو جو بلند مقام حاصل هے اور اسلام كے آنے كا بڑا مقصد بھى يہ ہے كہ انسان كے اخلاق كو درست كيا جائے . طبائع سنوريں ، كردار ميں نكھار آئے ، مزاج پھلے پھوليں ، جذبات و احساسات اور خواہشات پر قابو پايا جاسكے كيونكہ جب تك انسان كے اخلاق اچھے نہ ہوں تو انسا انسان نہیں كو حیوانيت یا شر الدواب ہونا زیب نہيں ديتا۔معاشرے ميں جب لوگوں كا ايك دوسرے كے ساتھ تعلقات بنائے جاتے ہيں تو سب سے پہلے جو چيز دوسروں كو متاثر كرتی هے وه اخلاق ہی تو ہوتے ہيں اسی ليے الله تعالیٰ نے نبیﷺ كے متعلق فرمايا :

 

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ([30])

 

الله تعالیٰ كی رحمت كے باعث ہی تو آپ ان پر نرم دل ہيں اور اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو وه آپ كے پاس سے چھٹ جاتے ۔

 

یعنی اگر آپ ﷺ بدخلق ،سخت مزاج اور سخت دل ہوتے تو وه صحابہ كرام رضی الله عنہم آپ ﷺسے بھاگ جاتے ليكن الله كی كمال مہربانی سے آپ نرم خُو بنايا، تاكہ ان كے دل آپ (ﷺ)سے لگے رہيں ۔قرآن مومنین سے اچھے اخلاق کی تاکید کرتا ہے اسی لئے اُسوہ نبوی ہمارے پا س موجود ہے ۔قرآن كريم آپ ﷺکے اخلاق کے متعلق واضح اعلان كر ديا :

 

وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ([31])

 

اور بلاشبہ آپ تو بڑے عظيم اخلاق والے ہيں ۔

 

اسی عظيم اخلاق نے لوگوں كو آپ ﷺ كا گرويده بناديا كہ لوگ جان تك دينے سے گريز نہ كرتے تھے جيسا كہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ كا واقعہ ہے كہ جو ايمان لانے كے بعد فرمایاکہ:

 

« يَا مُحَمَّدُ، وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ، فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الوُجُوهِ إِلَيَّ، وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ، فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيَّ، وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ، فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ البِلاَدِ إِلَيَّ، » ([32])

 

اے محمد ﷺ ! الله كی قسم روئے زمين پر كوئى چہره آپ كے چہره سے زياده ميرے ليے برا نہيں تھا ليكن آج آپ ﷺ كے چہره سے زياده مجھے كوئی چہره محبوب نہيں . الله كی قسم كوئی دين آپ ﷺ كے دين سے زياده مجھے برا نہيں لگتا تھا ليكن آج آپ ﷺكا دين مجھے سب سے زياده پسنديده اور عزيز ہے . الله كی قسم ! كوئى شہر آپ ﷺكے شہر سے زياده مجھے برا نہيں لگتا تھا ليكن آج آپ ﷺكا شہر ميرا سب سے زياده محبوب شہر ہے۔

 

حسن و قبح كا ، اچھے اور برے كا يہ معيار ثمامہ بن اثال كے اندر كس چيز نے پيدا كيا ؟ اگر ديكھا جائے تو وه آپ ﷺ كا بلند ترين اخلاق تھا ۔

 

اس ليے ضروری ہے كہ ہر شخص جو صاحب ايمان ہے كہ اپنے اخلاق كو بہتر سے بہتر بنائے تاكہ معاشرہ پاك وصاف اور پاكيزه بن جائے ۔اس بحث كو دو حصوں ميں تقسيم كر سکتے ہیں یعنی الله نے اخلاق حسنہ كا حكم ديا ہے . اور نبی كريم ﷺ اپنی امت كو اچھے اخلاق كی ترغيب ديتے ہيں .

 

الله نے اخلاق حسنہ كا حكم ديا : ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 

 وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا ([33])

 

اور لوگوں كو اچھى بات كہيں

 

اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد باري تعالیٰ ہے :

 

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ ([34])

 

درگزر كريں اور اچھائی كا حكم ديں

 

الله تعالیٰ نے مندرجہ بالا دونوں آيات ميں اپنے پيغمبر جناب محمد كو تمام انسانيت كے حسن اخلاق كا حكم ديا ہے۔ نبی کریم ﷺکاارشاد ہے :

 

اتَّقِ اللَّهِ حَيْثُمَا كُنْتَ، وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ([35])

 

الله سے ڈرو جہاں كہيں بھى ہو اور برائی كے ہونے كے بعد نيكی كرو وه نيكی اس برائی كو مٹا دے گی اور لوگوں كے ساتھ اچھے سلوك سے پيش آؤ ۔

 

اس حديث سے معلوم ہوا كہ اگر كوئی شخص اپنے آپ كو الله كا محبوب بنانا چاہتا ہے تو وه اسلام كے اخلاقی نظام كو اپنے ساتھ متصف كرے ۔ حسن خلق سے عمومی طور پر مراد لوگوں سے اچھا برتاؤ ہے ۔نبی كريم ﷺ كے اخلاق كی گواہی تو خود الله تعالیٰ نے دی۔ حضرت عائشہ رضی الله عنها سے نبي کریم ﷺ كے خلق كے متعلق پوچھا گيا تو آپ ﷺنے فرمايا:

 

فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ ([36])

 

یعنی آپ نے قرآن كے آداب اس طرح اختيار كر ليے تھے كہ اسكے احكام پر عمل اور اس كے نواہی سے اجتناب اس طرح تھا كہ قرآن كی ہر بات آپ كی قلبی عادت بن گئی تھى ۔ حسن خلق كے اس مفہوم ميں اركان اسلام،حقوق العباد،صبر ،شكر، وفائے عہد،صدق ،امانت ،عدل ،صدقہ ،جہاد ،احسان غرض سبھی كچھ شامل ہے۔([37])

 

اسلام كا اخلاقی نظام اپنے اندر بڑی كشش ركھتا ہے اس ليے كہ يہ عارضی اور وقتی نہيں ہوتا بلكہ اخلاق كا اطلاق انہی عادات اور اعمال پر ہوتا هے جو پختہ ہوں ۔([38]) كسی عمل ميں دوام اور ہميشگی بھى آسانی پيدا كرتی ہے اس ليے آپ ﷺ ہميشہ يسروا و لا تعسروا كا سبق ديا كرتے تھے ۔ان تمام دلائل سے يہ بات ملتی ہے كہ آپ ہميشہ انہی اعمال كو پسند كرتے جن پر ہمیشگی كی جائے اور آپﷺ جو عمل بھى كرتے اس پر خود بھى مداومت كرتے تھے چاہے ان كا تعلق عبادت سے ہو يا اخلاقيات سے ،چاہے معاملات سے ہميشہ ان پر مداومت فرمايا كرتے ۔نبی رحمت ﷺ كی ان احاديث سے پتہ چلتا ہے كہ اخلاق سے تو لوگ مہذب و متمدن بنتے ہيں سليقہ و شعار ان كا طُرح بنتا ہے ۔معاشروں سے بدامنی بھى گئی ہے ۔ امن آتا ہے ۔ معاشرے تطہير و پاكيزگی كا بے مثال و بے نظير نمونہ بنتے ہیں ۔ جيسے نبی رحمتﷺ نے مدينہ طيبہ ميں بے مثال و بے نظير رياست كی بنياد ركھى ۔

 

قرآنی اسلوب اپنا کر ہی دنيا ميں امن و سكون ,پاكيزگی ، كردار ميں نكھار آتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 

لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ([39])

 

اپنی آواز كو نبی ﷺكے سامنے اُونچا نہ كرو ان كے سامنے اونچی آواز سے بولنا بھى اپنے اعمال كو برباد كرنے والی بات ہے۔ یعنی نبی رحمت ﷺ كے سامنے اونچی آواز سے بولنا ايمان كو برباد كرنے كا سبب ہے كيونكہ يہ گستاخی ہے۔یہ بداخلاقی ہے،اخلاق سے گری ہوئی حركت ہے . ان كا مقام ورفعنا لك ذكرك ہے . خدا تعالیٰ كے بعد سب سے زياده ان كا مقام ہے یہ تو نبی رحمتﷺ كے پاس آنے كے آداب و سليقہ كے بارے ميں ہے و گرنہ نبی رحمت ﷺ نے فرمايا :

 

لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا ([40])

 

جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ كرے اور بڑوں كی عزت نہ كرے اس كا ہمارے سے تعلق نہيں ۔

 

یعنی جس كو ادب و احترام ،اخلاق ،تميز نہيں اس بدنصيب سے نبی رحمتﷺ بيزاری كا اظہار كررہے ہيں ۔سورۃ الحجرات میں معاشرتی تعلیمات کامفصل بیان ہےقرآن کے اسلوب کو کیسے اپنانا ہے نبی کریمﷺ کا احترام کس طرح کرنا ہے۔ مثلاً معاشرہ کو بد امنی سے بچانے اور صلح کی طرف مائل ہونے کو اللہ نے پسند کیا اگر مومنوں کی دو جماعتيں كبھى آپس ميں لڑ پڑيں تو ان ميں صلح كرواديا كرو (تاكہ اغيار كی سازشيں ناكام ہوں) كيونکہ مومن آپس ميں ايك دوسرے كے بھائی ہيں ۔يہ اخلاق ہی تو ہے كہ آپس ميں لڑنا نہيں اگر كوئی لڑپڑے تو صلح كروادو ۔كتنی عمده قرآن کی اخلاقی تعليمات ہيں كيونكہ اس سے اناركی ،بدامنی وحسد ختم اور اغيار كی سازشيں ناکام ہو جائيں گی مگر یہ تبھی ممکن جب کردارمیں تقویٰ ہوتو رب تمہارے معاشروں پر رحمت وه خود كرے گا اسی طرح دیگر برائیوں سے انسداد سے معاشرہ کو کس طرح محفوظ رہنا چاہئیے مثلاً ارشاد ربانی ہے :

 

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ([41])

 

اے ايمان والو! كوئی قوم دوسري قوم سے مذاق نہ كرے ممكن ہے كہ وه ان سے بہتر ہو نہ ہی كوئی عورت كسی دوسری عورت سے مذاق كرے ممكن ہے دوسری عورت بہتر ہو كسی پر عيب نہ لگاؤ اور ايك دوسرے كو برے ناموں سے بھى نہ پكارو ۔

 

دنيا ميں مہذب قوموں كی شان ہے كہ ان ميں يہ صفات ہوں كيوں كہ قرآن میں مخاطب ايمان والے ہيں لہٰذا ايمان كا تقاضا يہ ہے كہ يہ بداخلاقياں تم ميں نہ ہوں .تاكہ معاشره امن كا گہواره بنے ,معاشرے ميں راحت و سكون ہو .يہ اخلاقيات ہی تو ہےمزيد آپس كی اخوت كو محبت كے رشتوں ميں پرونے كيلئے اور اخوت ايمانی كو نقصان پہنچانے والی چیزوں سے منع کرتی ہے اسی ليے تو نبی رحمت نے فرمايا :

 

ِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الحَدِيثِ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَنَاجَشُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا،وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا([42])

 

بدگمانی سے بچو،بدگمانی بہت بڑا جھوٹ ہے،كسی كا راز معلوم نہ كرو ،كسي كا عيب نہ تلاش كرو ،بولی پر بولی نہ لگاؤ،حسد ،بغض اور تعلقات منقطع نہ كرو اور الله كے بندے بھائی بھائی بن جاؤ ۔

 

حدیث نبوی میں کتنا عظيم اخلاقی سبق دے ديا گیا ہے ۔اپنی اُمت كو ،معاشرے كو پرسكون بنانے كيلئے اور اس حديث كے آخری الفاظ ہی اخلاق كو مزيد واضح كرديتے ہيں کہ جب معاشرے ميں سب بھائی بھائی بن كر رہيں گے ايك دوسرے كے متعلق برا گمان نہيں كريں گے ,ٹوه نہیں لگائيں گے ،عيب تلاش نہيں كريں گے غيبت نہيں كريں گے ،کینہ و بغض نہيں رکھیں گے تو ظاہر ی سی بات ہے كہ معاشره پاكيزگی كا اعلیٰ نمونہ ہوگا كيونکہ جب دل ہی صاف و شفاف ہوں گے توفساد بدامنی اور لڑائي جھگڑے ہوں گے۔اللہ تعالیٰ اور محمد ﷺنے ہمیں بتلایا جو ہم نے تمہارے اندرا قوام و قبائل وغيره بنائے ہيں ان كا مقصد پہچان ہے اور اس كے علاوه كچھ نہيں كيونکہ يہ بھی اخلاقی تعليم بھی كا حصہ ہے۔الله كے نزديك عزت والا صرف متقی ہے .يہ معيار تو خالق كائنات كا ہے مگر مغربی ممالک كا بداخلاق طبقہ دن رات مسلمانوں كی تذليل كيے جارہا ہے یا کہیں مذہب کی بنیاد پر انسانیت کی توہین ہے ان كے معيار كيا ہيں؟ کہیں يہ ہر مسلمان كی تلاشی برہنہ كركے ليتے ہيں جبكہ انہوں نے اپنے ليے معيار اور قائم كر ركھا ہے .اب تو مانو !يہ تمہارے حقیقی خيرخواه نہيں كيونکہ ان کے ہاں حسن و قبح كا معيار اور ہے اور خالق كائنات كے ہاں جانچنے كا معيار اور ہے یعنی زندگی صحیح طریق پر گزارنے کے لئے صرف قرآن حکیم کا ا سلوب ہی دنیاوی فلاح اور اُخروی کامیابی کا ضامن ہے ۔

 

حاصل كلام يہ ہے كہ اخلاق ہی كے ذريعے سے معاشرے ميں امن و سكون آسكتا ہے مگر اخلاق كا ماخذ بھى معلوم ہوا وه شريعت محمدی ہے اور جو تعليمات نبی كريم کے ذریعے قرآن حکیم کے نزول اور اس پر آپ ﷺکے عمل نے ديں ان ہی كے ذريعے سے قلوب میںُ انسیت پیدا ہو سکتی ہو سکتی ہے جو معاشرے کے امن اور ترقی کے لئے ضروری ہے قرآن اسی زندگی کی ہمیں ترغیب دیتا ہے ۔

 

معاملات:

جمال الدين العياشی فرماتے ہيں :

 

المعاملات جمع معاملة وهى تبادل الأموال و المنافع بين الناس بواسطة العقود و التصرفات ([43])

 

" لفظِ معاملات معاملہ کی جمع ہے معاملہ كی اور اس کا مطلب لين دين اور معاہدوں كے ذريعے لوگوں كے درميان فائدے اور اموال كا تبادلہ ہے "۔

 

سيد سلیمان ندوی فرماتے ہيں :

 

" ہماری مراد معاملات سے وه تمام احكام شرعیہ ہيں جن كا تعلق ان تمام حقوق العباد سے ہے جن كی حيثيت قانون کی ہے جن ميں معاملات اور مزاجر دونوں داخل ہيں اور جن كا منشا جان و مال و آبرو كی حفاظت ہے خواه وه اشخاص كی مصلحت سے متعلق ہوں يا خاندان كی يا پوری آبادی و مملكت كی،

 

آگے چل كر مزيد فرماتے ہيں :

 

" اب ہماری نئى اصطلاح ميں معاملات سے مقصود مسلمانوں كے وه تمام انسانی كاروبارہيں جن كا تعلق معاشرت مال و دولت اور حكومت كے ضابطوں اور قوانين سے ہے "۔([44])

 

منظور نعمانی فرماتے ہيں :

 

"معاملات سے مراد مالی لين دين كے معاملات ہيں جيسے قرض ، امانت ، خريد و فروخت ، نوكری اور مزدوری وغيره "۔ ([45])

 

الله تبارك و تعالیٰ نے جس طرح ہميں عبادات كا مكلف بنايا ہے اسی طرح كچھ معاملات كا مكلف بھى بنايا ہے تاكہ معاشره ميں فتنہ و فساد كو دبايا جاسكے اسلام نے جس طرح سے ہر مسئلہ ميں ہماری رہنمائى كی ہے بعينہ اسی طرح معاملات كے باب ميں بھى كی ہے تاکہ ہم آپس ميں ايك دوسرے كے ساتھ لين دين كے وقت كن باتوں كا خيال ركھيں ، كون سی چيزيں حلال اور كون سی چيزيں حرام ہيں كيونكہ دين صرف عقائد و عبادات كانام نہيں بلکہ اس كے ساتھ معاملات بھى ہيں جن كی بڑي اہميت بيان كی گئی ہے . ارشاد باري تعالیٰ ہے :

 

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ([46])

 

اے ايمان والو! آپس ميں ايك دوسرے كے مال باطل طريقے سے نہ كھاؤ درست صورت يہ ہے كہ باہمی رضامندی سے آپس ميں لين دين ہو۔

 

یعنی اس آيت مبارکہ ميں الله تعالیٰ نے اہل ايمان كو مخاطب كيا اور انہيں بتايا كہ غلط طريقوں سے ايك دوسرے كا مال مت كھانا كيونکہ حركت كرنے كي وجہ سے الله تعالیٰ بڑا سخت حساب لے گا ۔ دنيا ميں بھی اس كا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ مندرجہ بالا آيت كے بعد والے حصہ ميں فرمايا :

 

وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ([47])

 

اور مت قتل كرو اپنے آپ كو ظاہر ہے جب تم آپس كے اپنے معاملات ميں درست طريقے نہيں اپناؤ گے تواس كا نتيجہ زمين ميں قتل و فساد ہو گا لہٰذا ، اپنے معاملات بالكل درست ركھو قرآن ميں دوسرے مقام پر الله تعالیٰ كا ارشاد ہے :

 

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ([48])

 

اے ايمان والو ! جب تم آپس ميں ايك دوسرے سے ميعاد مقرر پر قرض كا معاملہ كرو تو اسے لكھ ليا كرو ۔

 

یعنی بظاہر كسی سے معاملہ كرنا ہے تو سماج كے بہت سے لوگ الله تعالیٰ كے اس ارشاد كو معمولی سمجھتے ہوئے چھوڑ ديتے ہيں جس كا نتیجہ بعد ميں لڑائی جھگڑوں كی صورت ميں سامنے آتا ہے .

 

اس مكمل آيت ميں الله تعالي نے معاملات كے احكام بيان كئے هيں يعني جب لين دين اور خريد و فروخت اور ادھار كا معامله كيا جائے تو معاملے كي صفائي كيلئے لكھ ليا جائے اور اس پر دو منصف گواه بھى ٹھہرا ليے جائيں يا اگر قرض لينے كي صورت پيش آجائے تو مقروض اپني كسي چيز كو رہن (گروی) ركھوا دينا چاہیے تاكہ اسے اطمينان ہو جائے يہ سب اس لئے ہے تاكہ معاملہ صاف رہے ۔ کسی قسم كا جھگڑا فساد نہ ہو كيونكہ زياده تر حالات تب ہی خراب ہوتے ہيں جب معاملات مبہم ہوں۔ معیشت کی درستگی اور تجارت اور سوداگری ميں معاملات كو صاف ركھنے سے بڑی ترقی ہوتی ہے ۔جھوٹ سے كبھى بركت نہيں ہوتی بلكہ بركت ہميشہ اپنے معاملات ميں سچائی كو اختيا ركرنے ميں ہےكہ نبی كريم ﷺ ہر معاملہ ميں عدل و انصاف ، سچائی اور حقيقت كو پسند كرتے یعنی اسلام ميں ہر جگہ ميں ، ہر موقع پر معاملات كی درستگی كا بتايا گيا ہے۔گھر ميں ,ماركيٹ ميں ,مسجد ميں عدالت ميں , الغرض كوئى ايك ايسا واقعہ نہيں ملتا جس ميں ہمارے ليے راہنمائی نہ ہو ۔آج مسلمان يہود و نصاری پروپيگنڈے كا شكار ہيں كہ دنياوی معاملات ميں دين كو ترجيح نہ ہو كيونكہ مذہب پرائيويٹ معاملہ ہے جب كہ ہميں تو اسلام ہی ہر موقع پر راہنمائى كرتے نظر آتا ہے قوم شعيب نے اپنے نبی شعيب علیہ السلام سے كہا :

 

قَالُوا يَاشُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ([49])

 

قوم نے كہا !كہ ا ے شعيب ! كيا تمہاري نماز تمہیں یہی سكھاتی ہے كہ ہم ان معبودوں كو چھوڑ ديں جن كی ہمارے آباء عبادت كرتے تھے يا جيسےہم چاہتے ہيں اپنے اموال ميں تصرف كرنا چھوڑ ديں۔

 

مولانا عبدالرحمن كيلانی فرماتے ہيں :

 

"ان لوگوں كا اپنے مال ميں تصرف كا مطلب يہ تھا كہ ہم جن جائز اور ناجائز ذرائع سے مال كمائيں يا جن كاموں ميں ہم چاہیں خرچ كريں ہم پر كچھ پابندي نہيں ہونی چاہیے . گويا عبادات كے متعلق ان لوگوں كا نظريہ وہی تھا جو آج كل كی اس دنيا كا ہے جسے مہذب سمجھا جاتا ہے ،یعنی عبادت بندے اور خدا كا ذاتی اور پرائيويٹ معاملہ ہے اور اسے دنيوی معاملات ميں اثر انداز نہ ہونا چاہیے گويا وہی پرانی جاہليت پھر سے نئی روشنی كی صورت ميں عود كر آئی ہے ".([50])

 

لہذا عبادات كے ساتھ ساتھ معاملات كے متعلق جو دين ميں راہنمائى ہے اس ميں خير و بھلائی ہےمنظور احمد نعمانی معاملات كی اہميت بيان كرتے ہوئے لكھتے ہىں :

 

"معاملات كو دوسرے امور كے مقابلے ميں اس حيثيت سے خاص امتياز حاصل ہے کہ اس ميں اپنی دنيوی منفعت ,مصلحت اور اپنی خواہش نفس کی اور الله تعالیٰ كے احكام كی كشمكش دوسرے تمام شعبوں سے زياده رہتی ہے .مثلا ً كاروبار ميں منفعت اس ميں نظر آتی ہے اور نفس كی خواہش بھى عموما يہی رہتی ہے كہ جھوٹ ،سچ اور جائز ناجائز كا لحاظ نہ ركھا جائے بلكہ جيسا موقع ہو اور جس طرح بھى زياده نفع كی اميد ہو وه كر گُزرا جائے ليكن دين يہ كہتا ہے كہ خبردار، چاہے سراسر نقصان ہو رہا ہو ليكن جھوٹ ہر گز نہيں بولنا اور وہی طریقہ كاروبار ميں اختيار كرو جو الله نے حلال كيا ہے ".([51])

 

اسی طرح دوسري حديث ميں معاملات كی اصلاح كو روزه ,صدقہ اور نماز سے افضل بتایا گيا ہے ۔ رسول الله ﷺ نے فرمايا :

 

أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ؟» قَالُوا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: إِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، وَفَسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ الْحَالِقَةُ ([52])

 

كيا ميں تمہیں روزے ،نماز اور صدقے سے بڑھ كر افضل درجات كے اعمال نہ بتاؤں ؟ صحابہ كرام ؓ نے كہا : كيوں نہيں اے الله كے رسول ﷺ ! آپ ﷺ نے فرمايا : آپس كے معاملات اور روابط كو بہتر بنانا (اور اس كے برعكس ) آپس كے معاملات اور روابط ميں پھوٹ ڈالنا (دين كو )مونڈھادينے والی خصلت ہے ۔

 

ان تمام دلائل سے پتہ چلتا ہے كہ اسلام ميں معاملات كی كتنی اہميت ہے مگر افسوس !کہ آج كامسلمان افراط و تفريط كی رو ميں بہہ گيا ،اگر كوئى حقوق الله ادا كر رہا ہے تو حقوق العباد سے بالكل بے خبر اور اگر كوئی حقوق العباد ادا كر رہا ہے تو وه حقوق الله سے غفلت كا مرتكب اور المیہ يہ ہے کہ ہمارے معاشرے ميں بہت كم لوگ ہيں جو حقوق الله اور حقوق العباد كو كما حقہ ادا كرتے ہيں .الغرض ! حاصل كلام یہ ہے كہ مسلمانوں كو اپنے روزمره كے تمام امور ميں قرآنی اسلو ب زندگی اور احکامات الہی کے سنہری اصول و قوانين كو اپنا حرز جان بنانا چاہیےتاكہ دنیا و آخرت كی سعادتوں كے ہم مستحق ہو سكيں ۔

 

دنيا ميں جو قوميں ترقی كرتی ہيں تو ان ميں امانت و ديانت كا وصف ہوتا ہے الله نے مسلمانوں كو خوب زور ديا ہےکہ وه امانت و ديانت كو اپنا شعار بنائيں . ارشاد باری تعالیٰ ہے :

 

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ([53])

 

اے ايمان والو !تم الله اور رسول كی خيانت نہ كرو اور نہ ہی جانتے بوجھتے ہوئے اپنی امانتوں ميں خيانت كرو

 

دوسری جگہ فرمايا :

 

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا ([54])

 

بے شك الله تمہيں حكم ديتا ہے كہ امانت والوں كی امانتيں ان تك پہنچا دو ۔

 

ان دونوں آيات سے يہ ہی سبق ملتا ہے كہ امانتوں كو امانت والوں كے سپرد كرديا جائے۔

 

غیر قرآنی اسلوب زندگی کا مفہوم ، نقصانات اورقرآنی حل

قرآن کریم ایک دستور حیات ہے جسے ہرمسلمان کو اپنی زندگی میں اپنانا ہے، یہ انسانی زندگی کے  نشیب و فراز اور زندگی کے تمام مشکلات اور مسائل کا حل بیان کرتا ہے، اس کا پیغام نہایت طاقتور اور بے پناہ قوت کا حامل ہے۔ جس کو اللہ عزوجل نے فرمایا:

 

لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ([55])

 

اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تم اسے دیکھتے کہ  وہ اللہ کے رعب سے جھکا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔

 

یعنی یہ قرآن کریم صرف کتاب تلاوت نہیں بلکہ یہ ایک پیغام کی حامل کتاب  ہے اس میں نہایت قوت اور طاقت ہے اس کے پیغامات اور احکامات پہاڑوں اور زمینوں کے حوالہ کئے جاتے، اس کی اہمیت اور قوت کی وجہ سے یہ پہاڑ عدم تحمل کی وجہ سے جھک جاتے ہیں اور ایک جگہ اس مفہوم کو یوں فرمایا:

 

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا ([56])

 

ہم نے یہ امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے  اس کے اٹھانے سے انکار کیا، اور اس سےڈر گئے، اورانسان نے اس کا بوجھ اٹھالیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ظالم ، بڑا نادان ہے۔

 

اس آیت کریمہ کی روشنی میں احکام خداوندی جس کوقرآن اور احادیث نبویہ مشتمل ہیں ، اللہ عزو جل نے ان احکام کو آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو اس کے تحمل اور اس کی بجا آوری سے انکار کیا اور سہم گئے اور اولاد آدم نے ان احکامات اور قرآن وحدیث کو اپنی عملی زندگی میں اختیار کرنے کا وعدہ کیا: لیکن اس نے اس کی کماحقہ تکمیل نہیں کی جس کی وجہ سے اس کو ظالم اور جاہل کہا گیا ، وہ احکام خداوندی اور امور شریعت ، قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونے سے پیچھے رہ گیا جو اس کو دونوں جہانوں میں کامیابی و کامرانی کی منزل سے ہم کنار کرسکتے تھے۔

 

اور ایک جگہ فرمایا کہ جو قرآن کو ترک کرتے ہیں، اس کو پس پشت ڈال کراپنی زندگی گزارتے ہیں ، اس کے آیات و احکام اور معانی و مطالب پر غور وخوض کرکے اس کو زندگی میں اپنانے کی کوشش نہیں کرتے ان کے تعلق سے قرآن کریم کہتا ہے:

 

وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى ۔ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا۔ قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى ۔ وَكَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِآيَاتِ رَبِّهِ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَى۔[57]

 

یعنی جوشخص میرے ذکر (قرآن کریم اور پیغمبر قرآن )سے اعراض کرتا ہے ،اس کی طرف توجہ نہیں دیتا ،قرآن کریم کو پس پشت ڈالتا ہے ،اللہ اس کی زندگی میں بے چین پریشان حال حیران کر دیتے ہیں۔ قیامت کے روز وہ فہم و ادراک ،عقل و دانش ،بصارت ارو بصیرت سے محروم ہو گا ۔اسے جہنم کے سوا کچھ نظر نہ آئے گا ۔اس کی وجہ صرف یہ ہ وگی کہ اس نے اللہ کے احکامات کو ان سنا اور ان دیکھا کیا ہو گا۔ اس بصارت و بصیرت کے کھونے پر جب وہ سوال کرے گا تو اللہ سبحانہ تعالیٰ فرمائیں گے ! کہ تم نے اللہ اور اس کے رسولوں کے پیغام کو پس پشت ڈالا اور ان کو بھول گئے ۔ہم نے بھی آج اسی طرح تمہیں بھلا دیا اور بصارت و بصیرت سے محروم کیا ۔

 

کتنی سخت سزا اور وعید ہے غیر قرآنی زندگی کے نقصان اور خسارہ سے کچھ ہاتھ نہ آئے گا ۔ یعنی ترک قرآن دنیا و آخرت دونوں جہاں میں ناکامی خست و ذلت کے باعث ہیں اس پر عمل پیرا ہونا اور قرآن کریم کو بدستور حیات بنانا اور اس کے پیغام کو عام کرنے  اور اس کو سیکھنے سمجھنے اور اس کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنانے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے دونوں جہاں میں چین و سکون اور راحت و آرام اور ہردو جہاں کی کامیابی و کامرانی نصیب ہوسکتی ہے ورنہ یہ جہاں بھی پریشانیوں کی آماجگاہ اور روز قیامت بھی سوائے افسوس، ناکامی اور نامرادی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔غیر قرآنی اسلوب زندگی غیر اسلامی ڈھانچے میں ڈھلی زندگی کامیابی کی ضمانت نہیں بلکہ دونوں جہاں میں ذلت کا سبب ہے ۔

 

نتائج بحث /حاصل کلام

خلاصہ یہ ہے کہ آج کے  اس دور میں جب کہ ہر طرف سے مسلمانوں پر گھیرا تنگ کیا جارہا ہے،مسلمانوں کو مٹانے اور ان کو زِیر کرنے کی ہر تگ ودو جاری ہے، مسلمانوں پر دہشت گردی اور اسلام کے پاک چہرے پر کیچڑ اچھالنے اور اسلامی تعلیمات ی شبیہ خراب کرنے کی ہر طرف سے کوشش ہورہی ہے، ہمیں ایسے وقت میں قرآن کریم کو رہنما اور راہبر اور اس کی تعلیمات اور احکامات کو سمجھنے اور عام کرنے اور قرآن کریم کے اصول و ضوابط کی روشنی میں اور احادیث نبویہ کی توضیح و تشریح کے ضمن میں زندگی کے ہر مسئلے کے حل کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔جب تک ہم قرآن کی رسی کو تھام نہ لیں گے ، تب تک رسوا اور ذلت اٹھانا ہو گی ۔ یہ تگ و دو نہ صرف انسان کو اس دنیا میں سرخروئی اور کامیابی سے سرفراز کرے گی بلکہ وہ آخرت میں بھی کامیابی اور کامرانی سے سرفراز ہو جائے گا۔قرآن ہمیں پیغام دیتا ہے کہ :

 

يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ([58])

 

اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ سلامتی کی راہوں کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو اس کی رضامندی کاتابعدار ہوا انہیں اپنے اذن سے تاریکی (گمراہی )سے روشنی(ہدایت ) کی طرف جاتا ہے ۔

 

اسی طرح سورۃ البقرہ :38 میں بھی انعام کا ذکر ہے ان لوگوں کو جو اس رہنمائی پر چلے ان کو نہ کوئی خوف نہ غم ہو گا۔ حاصل یہ ہے کہ آدمی ہر حال میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہے ، بلا شبہ انسان پر مختلف حالات آتے ہیں ، کبھی کبھی ذہنی اور جسمانی دونوں اعتبار سے الجھنیں اور مسائل کے بھنورمیں انسان پھنس بھی جاتا ہے ، لیکن ایمان میں اتنی مضبوطی ہو کہ اس کے تقاضوں پر عمل کرنے میں کبھی کوتاہی اورسست روی پیش نہ آئے ، نماز ، روزہ ، انفاق فی سبیل اللہ ، اخلاق و انسانیت ، ہمدردی اور خیر خواہی اور جتنے بھی اسلامی احکام ہیں ، ان کی رفتار میں کوئی فرق نہ آئے ، ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہرحال میں خدا کی شہنشاہی ، عظمت و کبریائی کا اعتراف ہو ، اس کی بڑائی میں کسی کو شریک کرنے کا تصور تک نہ آئے عبادت ہی تخلیق انسانی کا بنیادی مقصد اور غرض ہے ، اگر کوئی اپنے مقصد کو فراموش کربیٹھتا ہے تووہ غیر قرآنی اسلوب زندگی گزار کر معصیت الہی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کی ناراضگی غضب اور سزا کا حقدار ٹھہرتا ہے ۔قرآن میں واضح طور پر ارشاد فرمایا دیا گیا ہے :

 

وَقَالَ الرَّسُولُ يَارَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ([59])

 

اور رسول ﷺ کہیں گے ! اے رب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھاتھا۔

 

آج مسلمان تارک قرآن ہو کر دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں علامہ اقبال نے اسی کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا :

 

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر ([60])

 

آج غفلت لاپرواہی قرآن سے دوری ہی اصل میں سبب بے سکونی و بے چینی ہے اور یہی غیر قرآنی اسلوب زندگی ہے جس کی وجہ سے بے حیائی برائی عام ہے فرض کو بوجھ سمجھ کر ادا کیا جاتا ہے قرآن اور ایمان دل میں جب تک نہ اترے گا۔ قوم تب تک اللہ کے غضب کو دعوت دینے اور اس کی ناراضگی کا سبب بننے کے کامون کے سبب مشکل میں رہے گی اتحاد امت کے لئے بھی قرآن کو تھامنا ہی ضروری ہے محمد ﷺ نے بوقت وفات بھی یہی کہا تھا کہ:

 

تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ ([61])

 

میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا راہا ہوں اس کومضبوطی سے تھامے رکھو۔کتاب اللہ اور میری سنت یعنی جب تک قرآن کریم اور سنت رسول کی تعلیمات کو مسلمان اپنائے رہے گا تو پھر اس کے گمراہ ہونے اور اس کے ذلت و خست میں پڑنے کا کوئی امکان نہیں، وہ خسارہ اٹھانے والو ںمیں سے نہیں ہو گا ، وہ نہایت سیدھی اور سچی راہ پر چل کر جس میں کو ئی اندھیر نہیں راہ عالم بقا ہوجائے گا، اسے دنیا و آخرت دونوں کی کامرانی اور کامیابی اور سرخ روئی حاصل ہوگی۔ یعنی اُخروی نجات اور دنیاوی سکون اسی پر موقوف ہے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ !ہمیں اپنی زندگی اور اعمال کا محاسبہ کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ کیا ہم بندگی رب کا حق ادا کر رہے ہیں؟ کیا خدا کے اتنے عظیم احسانات کا شکر ہم سے کسی نہ کسی درجہ میں ادا ہوررہا ہے ؟ افسوس کہ اللہ کے بے پایاں احسانات اور اس کے غیر معمولی انعام و اکرام سے استفادہ ہم شب و روز کرتے ہیں ، مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جس ذات نے ہمارے اوپر اتنا انعام کیا اور جس کے احسان سے ہم کبھی سبکدوش اور بے نیاز نہیں ہوسکتے اس کی عبادت اور دیے گئے ضابطہ حیات کے مطابق زندگی گذارنے کے ہم پابند ہیں ، جو زندگی قرآنی اسلوب اور محمد ﷺ کی نافرمانی کے بناء ہو گی اور اپنے رب کے سامنے حاضر ہوتے وقت زاد راہ سے خالی ہو گی ۔تو اس کے لئے دنیا کی ذلت اور آخرت کی رسوائی ناکامی ہو گی ۔

 

قرآن کے ساتھ اپنے لگاؤ اورتعلق کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔زندگی قرآن کے مطابق گزاری جائےتو تمام مقاصد قرآن، سمجھ آتے، نفس انسانی کی تہذیب ،رد عقائد باطلہ اور اعمال فاسدہ کی نفی ،یہی مومن سے مطلوب الہی ہے ۔دنیا کے علوم کا مخزن قرآن حکیم ہی ہے سب علوم کی کونپلیں اسی سے پھوٹتی ہیں اور سب اسی قرآن کے محتاج ہیں اس لئے ضروری ہے کہ زندگی کو بامقصد بنایا جائے بے مقصد زندگی سے نکلا جائے۔ہوائے نفس کی پیروی کی بجائے الہی احکامات کی پیروی کی جائے اتباع رسول ہو تو زندگی کا اسلوب قرآن کے مطابق ہو جائے گا تو زندگی سے آہستہ آہستہ سب گھٹائیں اور خزائیں جھڑ جائیں گی ہدایت کی روشنی چمکے گی ۔ اللہ کے حکم کے مطابق زندگی رحمت سکون عافیت اُخروی نجات کی ضامن ہے۔

 

سفارشات:

  1. جامعات میں باقاعدہ پانچ منٹ ایک آیت کی تفہیم میں لازماً صرف کرنے کو روزانہ ایک آیت سے اخذ بات بتائی جانی چاہیے طالب علم کا تعلق کسی بھی مضمون یا شعبہ سے ہو۔ اس کے لئے اساتذہ کی بھی ورکشاپس کروائی جائیں ۔
  1. عملی زندگی میں ہمیں قرآن کو سیکھنے اور عربی زبان کی جانکاری اور براہ راست قرآن و حدیث سے استفادہ اور ناظرہ و قرآن کے مکاتب اور مدارس اور قرآن و تفسیری حلقوں سے استفادہ اور تجوید قرآن و تصیح قرآن کے حلقوں سے استفادہ کی ضرورت ہے.
  1. قرآن کی اہمیت اجاگر کرانے کے لئے ڈاکومینٹریز بنائی جانی چاہئیے اور اس پر آج کے دور کی مثالیں ہر عمر کے دور کے مطابق لوگوں کے انٹرویوز کئے جائیں اور دکھائیں جائیں تا کہ قرآن سے لگاؤ اور رغبت پیدا ہو ۔اس میں ہر لیول کے مطابق اس کو باقاعدہ ارینج کیا جانا چاہیے بلکہ ممکن ہو کہ قرآنی زندگی اصل میں ہے کیا اس پر لیکچر میں دلچسپی پیدا ہو اور امت کے اتحاد کس طرح ممکن وہ سکتا ہے قرآن کیسے بہار ہے جیسے موسم ،اس پر سیمینارز بھی منعقد کیے جانے چاہئیں ۔

حوالہ جات

  1. 1۔یونس،10:58
  2. یوسف،12:2
  3. یوسف،12:3
  4. 4۔ المائدۃ،5 :15
  5. 5۔ الفرقان،25 :1
  6. 6۔الاسرا،17 :9
  7. 7۔ ابراہیم، 14 :7
  8. 8۔ علامہ اقبال ،کلیات اقبال،جواب شکوہ ،اقبال اکادمی لاہور ،2004 ء۔
  9. 9۔یونس،10 :57
  10. 10۔علامہ اقبال،رموز بے خودی ،کتب خانہ نذیریہ اردو بازار دہلی
  11. 11۔ القمر ،54 :17،22
  12. 12۔ الرعد،13 :11
  13. 13۔علامہ اقبال،کلیات اقبال،ضرب کلیم ،اقبال اکیڈمی لاہور،ص:148
  14. 14۔ علامہ اقبال ،کلیات اقبال،رموز بے خودی،اقبال اکیڈمی لاہور۔ص:109
  15. 51۔ اردودائرہ معارف اسلامیہ ،دانش گاہ پنجاب لاہور ،ص:۱/۱۴ ‘ ص:۴۲
  16. 16۔ عبد اللہ بن زید المحمود، اسلامی عقائد، ،دار الکتب السلفیہ لاہور،۲۰۰۷ء، ص: ۲۳
  17. 17۔الاخلاص ،112: 1 تا 4
  18. 18۔آل عمران،3 :83
  19. 19۔ النساء،4 :64
  20. 20۔ النحل ،16: 36
  21. 21۔البقرۃ،2 :28
  22. 22۔الانعام،6 :60
  23. 23۔آل عمران،3 :185
  24. 24 ۔ البقرۃ،2 :21-22
  25. Cite error: Invalid tag; no text was provided for refs named ftn26
  26. 26۔ منظور نعمانی‘دین وشریعت،ادارہ اسلامیات لاہور ، ص:۱۲۵
  27. 27۔ ھود،11 :26
  28. 28۔ راغب اصفہانی ‘مفردات القرآن‘ ص: ۲/۶۶۳
  29. 29۔النساء،4 :103
  30. 30۔ آل عمران،3 : 159
  31. 31۔ القلم،68 :5
  32. 32۔صحيح بخاري ،كِتَابُ المَغَازِي ، بَابُ وَفْدِ بَنِي حَنِيفَةَ، وَحَدِيثِ ثُمَامَةَ ،حدیث نمبر:4372۔
  33. 33- البقرة،2 : 83
  34. 34- الاعراف ،7 :199
  35. 35- ترمذى، السنن،أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ ، بَابُ مَا جَاءَ فِي مُعَاشَرَةِ النَّاسِ، حدیث نمبر: 1987
  36. 36- مسلم، الجامع الصحيح ، كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا ، بَابُ جَامِعِ صَلَاةِ اللَّيْلِ ، حدیث نمبر: 139 (746)
  37. 37- حافظ عبدالسلام ,شرح كتاب الجامع من بلوغ المرام ص: 32
  38. 38- حافظ زاہد علی , پيغمبر اسلام اور اخلاق حسنہ، ص: 171
  39. 39- الحجرات ،49 : 2
  40. 40- ترمذی،السنن، أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ ، بَابُ مَا جَاءَ فِي رَحْمَةِ الصِّبْيَانِ ،حدیث نمبر:1919
  41. 41- الحجرات ،49: 11
  42. 42- بخاري،الجامع الصحيح،كِتَابُ الأَدَبِ، بَابُ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ،حدیث نمبر: 6066
  43. 43- جمال الدين العياشي ، المعاملات المالية فى الاسلام ۔طبع اول،تونس،1973ء،ص: 13
  44. 44- علامہ شبلی ، سيد سليمان ندوي ، سيرة النبی،الفیصل ناشران و تاجران کتب ،لاہور،ص: 4 / 733
  45. 45- منظور نعمانی ، دين و شريعت ،ص:166
  46. 46- النساء،4 : 29
  47. 47۔ ایضا
  48. 48- البقرة،2 : 282
  49. 49- ھود ،11: 87
  50. 50۔ مولانا عبدالرحمن كيلانی ، تيسير القرآن، مکتبہ السلام ،لاہور ص: 2/ 365
  51. 51- منظور نعمانی ، دين و شريعت ،ادارہ اسلامیات لاہور،ص : 166
  52. 52۔ ابو داؤد،السنن ، كِتَاب الْأَدَبِ، بَابٌ فِي إِصْلَاحِ ذَاتِ الْبَيْنِ، حدیث نمبر: 4919
  53. 53- الانفال،8: 27
  54. 54۔ النساء،4: 58
  55. 55۔ الحشر،59 :21
  56. 65۔ الاحزاب،33 :72
  57. 57۔ طہٰٰ، 20 :124 تا 127
  58. 58۔ المائدۃ،5 :16
  59. 59۔الفرقان،25 :30
  60. 60۔علامہ اقبال ،کلیات اقبال،،جواب شکوہ ،اقبال اکادمی لاہور۔
  61. 61۔مالک،مؤطا ،[كِتَابُ الْقَدَرِ] ، النَّهْيُ عَنِ الْقَوْلِ بِالْقَدَرِ ،حدیث نمبر:3338/678
    ¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶¶
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...