Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 2 Issue 1 of Al-ʿILM

معاصر خاندانی مسائل اور سیرت طیبہ کی روشنی میں ان کا حل |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

2

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060040263_1163

Pages

42-61

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/68/58

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/68

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

عصر حاضر کےانسان نے راحت زندگی کے لیے ساماں کے انبار لگا دیے ہیں مگر پھر بھی ہر شخص افراتفری اور پریشانی میں مبتلا ہے ۔اور اس کی ایک بڑی وجہ معاشرے کی بنیادی اکائی "خاندانی نظام کا اپنی جڑوں سے کھوکھلا ہونا ہے۔انسان خواہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتا ہو اس کا مرکز محور فطری طورپراسکا گھراور خاندان ہوتاہے۔ ریاست کے بہت سے اداروں میں سے خاندان ریاست کا پہلا اور اساسی ادارہ ہے۔جو نسل نو کی تعلیم و تربیت میں اہم کرد ار ادا کرتا ہے۔خاندان کی بلند اور مستحکم اخلا قی اقدار معاشرتی ا ستحکام وتعمیر میں مدرگار ثابت ہوتی ہیں۔یعنی معا شرے کے استحکام پر اور خاندان کا استحکام افراد خانہ کی تربیت پرمبنی ہے۔اور گھر ہی وہ مرکز ہے جہاں افرادی قوت تیار ہوتی ہے۔ عصر حاضر میں اخلاقی و معاشرتی طور پر گرتی ہوئی انسانیت جہاں دیگر کئ مسائل کے حل کے لیے سیرت نبی ﷺ کی محتاج نظر آتی ہے وہاں بقاء نسل انسانی کے لیے خاندانی نظام کی اصلاح میں بھی سیرت رسول اللہ ﷺ چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہے .یہی وہ دوا ہے جس میں ہر ہر مرض کا علاج موجود ہے۔ تاہم خاندانی مسائل کو سیرت ﷺکی روشنی میں حل کرنے سے پہلے خاندان کیا ہوتا ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے اس کا مختصر جائزہ لیا جاتا ہے۔

 

خاندان کی اہمیت:

خاندان کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کسی مضبوط معاشرتی نظام کا تصور مضبوط خاندانی نظام کےبغیر ممکن نہیں ہو سکتا ۔یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس پر کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار ہوتا ہے ۔ڈاکٹر خالد علوی خاندان کی اہمیت

 

کے حوالے سے رقمطراظ ہیں :

 

" خاندان ایک ایسا ادارہ ہے جو انسانی رویے اور طرز عمل کی تشکیل کرتا ہے۔ خاندان ہی وہ ادارہ ہے جس کے ذریعے معاشرتی تربیت ہوتی ہے۔ خاندان ہی وہ ادارہ ہے جو فرد کو اپنے فرائض کا احساس دلاتا ہے۔ اسے فرق مراتب کا شعور بخشتا ہے۔ اگر خاندان کا استحکام کم ہو جائے تو انسانی طرز عمل ، معاشرتی فرائض کا شعور اور افراد معاشرہ کے مراتب کا یقین سب کچھ ختم ہو جائے گا۔"[1]

 

ڈاکٹر سیدہ سعدیہ خاندان کی اہمیت کے حوالے سے لکھتی ہیں :

 

" قوموں کے عروج و زوال خاندان کے استحکام و بقاء میں مضمر ہیں ۔کسی بھی تہذیب و تمدن اور قوم کا عروج اس ادارہ [ خاندان ] کےتعمیر وتربیت پر اور مثبت کردار کا مرہون منت ہے۔اس لیے بجا طور پرخاندان کو پہلاریاستی ادارہ قرار دیا گیا ہے۔خاندان ریاست کی ابتدائی منزل اور اساس ہے ۔۔۔اگر خاندان مضبوط رشتوں پر قائم ہو تو معاشرتی نظام بھی استحکام حاصل کرتا ہے ۔گھر ہی وہ مرکز ہے جہاں افرادی قوت تیار ہوتی ہہے ۔یہ وہ بنیادی یونٹ ہے جو افراد کی تعمیر و تشکیل اور تربیت کاکام بڑی جانفشانی اور عرق ریزی سے کرتا ہے ۔"[2]

 

"دنیا کی کوئی ایسی قوم نہیں بتائی جا سکتی ، خواہ وہ متمدن ہو یا وقتی، جو اپنا خاص خاندانی نظام نہ رکھتی ہو۔ خواہ وہ سماجی ارتقاء سے بن گیا یا وحی و الہام اور خدائی قانون کے ذریعے مرتب ہوا۔ لیکن قوموں کی تشکیل اور صورت گری میں اسکا بڑا بنیادی حصہ رہا ہے۔"[3]

 

"تمام مذاہب میں خاندان کی وکالت اس طرح کی گئی ہے کہ گویا یہ خاندان مرد کے لیے گھونسلہ اور عورت کو اولین استاد قرار دیا گیا ہے جس جیسااستاد مہیا ہونانا ممکن ہے"۔[4]

 

تصور خاندان قرآن و حدیث کی روشنی میں :

زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح قرآن حکیم خاندان کے بارے میں بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ارشاد ربانی ہے:

 

يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّّخَلَقَ مِنْـهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْـهُمَا رِجَالًا كَثِيْـرًا وَّنِسَآءً [5]

 

"اے لوگو! اس رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا۔ پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا پھر اس سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں"

 

حضرت آ دم اور حوا کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے خاندان کی بنیاد مرد اور عورت کے خوبصورت رشتہ نکاح پے رکھی۔ اور اس نظام کو مزید منظم اور مربوط کرنے کے لیے ہر ایک پر الگ الگ ذمہ داری ڈالی اور ہر ایک کو دوسرے کا نگران بنا دیا۔مردوں کو عورتوں پر قوام مقرر کر دیا قرآن پاک میں مرد کی قوامیت کے بارے میں ارشاد ہے

 

الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّـٰهُ بَعْضَهُـمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِـهِـمْ[6]

 

"مرد عورتوں پر قوا م ہیں ۔ اس بناء پر کہ اللہ نے ان میں سے ہر ایک کو دوسرے پرفضیلت دی ہے۔ مرد مال خرچ کرتے ہیں"

 

وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا[7]

 

"اسکی نشانیوں میں سے ہی ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری جنس سے بیویاں بنائیں"۔

 

اور بہترین شخص کا معیار ہے کہ جو اپنے گھروالوں کے حق میں بہتر ہو"تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے حق میں بہتر ہے۔"

 

پاکستان کا خاندانی نظام:

پاکستان کے خاندانی نظام کی اساس ہمارے دین اور تاریخی و ثقافتی ورثہ پر رکھی گئی ہے۔ ہمارے خاندانی نظام کی ساخت میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ جس میں علاقائی، معاشی، تہذیبی و تمدنی اور تاریخی روایات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سے اسبا ب و محرکات ایسے بھی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خاندانی نظام کی ساخت اور وظائف پر اثر ڈالتے ہیں۔ اوراس خاندانی ادارہ میں تغیر ہو رہا ہے۔

 

بلحاظ ساخت پاکستان کا خاندانی نظام :

بلحاظ ساخت پاکستان میں دو اقسام کے خاندانی نظام موجود ہیں۔

 

1۔ مشترکہ خاندانی نظام

 

2۔ جداگانہ خاندانی نظام یا سادہ خاندان

 

مشترکہ خاندان:

 

مشترکہ خاندان کی بھی دو اقسام ہیں : پہلی قسم : اس میں ماں باپ اور بچوں کے علاوہ ان کے قریبی رشتہ دار جن میں دادا دادی، نانا نانی، چچا چچی ، ساتھ رہتے ہیں۔ یہ خاندان دراصل دو خاندانوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ جس میں والدین اپنے بچوں کی شادیاں کرنے کے بعد ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ اسی طرح اگر شوہر شادی کے بعد اپنی بیوی کے ہمراہ سسرال میں رہے تو یہ بھی مشترکہ خاندان کہلاتا ہے۔ پاکستان میں یہ خاندانی نطام بکثرت دیہاتوں میں نظر آتا ہے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے دیہاتوں کی معیشت کا زیادہ تر انحصار رزعی پیداوار پر ہے۔ اس لیے وہاں مشترکہ خاندانی نظام پایا جاتا ہے۔

 

دوسری قسم:اس قسم کے خاندان میاں بیوی ، والدین اور بچوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر ایسے خاندانوں کی تعدا د پاکستان میں زیادہ ہے۔

 

جداگانہ خاندانی نظام :

 

اس طرح کے خاندان میں والدین شامل نہیں ہوتے ۔صرف میاں بیوی اور ان کے بچے ہی خاندان کی تشکیل کرتے ہیں۔

 

عصری خاندانی مسائل کی نوعیت:

قرون اولی میں زندگی سادہ اور محدود تھی۔ اس لیے مسائل بھی کم تھے۔ تہذیب و تمدن کے ساتھ ساتھ مسائل میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مسائل کل بھی تھے، مسائل آج بھی ہیں اور مسائل آئندہ بھی رہیں گے۔ مسائل زندگی کے ساتھ ہیں۔ انسان اور مسائل لازم و ملزوم ہیں۔ ہمارا مقصود مسائل کا بیان کرنا نہیں ہےبلکہ انکا حل بھی تلاش کرنا ہے۔ اور حل اس وقت ہوگا جب صحیح حکمت عملی اختیار کی جائیگی۔یہ حالت اس وقت تبدیل ہو گی جب صحیح حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔ ان مسائل کے حل کے لیے اگر کوئی امید کی کرن ہے تو وہ آنحضور ﷺ کی ذات ہے۔ رسول ﷺ کا اسوہ اور سیرت نہ صرف مرض کے سبب کی نشاندہی کرتا ہے ۔ بلکہ علاج کے فطری طریقے بھی تجویز کرتا ہے۔ آپ ؐ کی سیرت عمل بالقرآن ہے۔ قرآن مجید اور آپکی سیرت ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ قرآن اور محمد ؐ ایک ہی سرمدی صداقت کے دو رخ ہیں ۔ اگر ایک کو علم کا نام دیں تو دوسرے کو عمل کا ۔ ایک کو آفتاب ہدایت کا اور دوسرے کو آفتاب کی تجلی کا تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہو گا۔ جب حضرت عائشہ  سے آپ کی سیرت کا پوچھا گیا تو "کان خلقہ القرآن" ۔حقیقت تو یہ ہے کہ آنحضورﷺ کی زندگی ایک بین الانسانی مشن کی داستان ہے۔ جسے عمل کی زناب میں مرتب کیا گیا ہے۔ وہ اس مقدس پیغام کی تکمیل ہے جس کی مشعل آدم، ابراھیم، عیسی اور دیگر انبیاء نے روشن کی۔ وہ اس محبت خداوندی کا دعوٰی ہے۔ جس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

 

لہذا عصر حاضر میں خاندانی نظام کے بگاڑ میں جو اسباب پیش پیش ہیں ذیل میں اختصار کے ساتھ ان کو بیان کیا جا تا ہے ۔اور سیرت طیبہ کی روشنی میں ان مسائل کے حل کی کوشش کی جاتی ہے ۔

 

1۔ حسن سلوک کا فقدان

 

2۔ جہیز کے مسئلہ میں افراط وتفریط

 

3۔ غیر اسلامی رسم و رواج کی پیروی

 

4۔ مہر کے تعین میں افراط و تفریط

 

5۔ فرائض کی ادائیگی میں عدم توجہی

 

6۔ قوامیت کا غیر مناسب استعمال

 

7۔ ذات و برادری میں شادی کا مسئلہ

 

8۔ تربیت اولاد اور نگہداشت بزرگان کا فقدان

 

9۔ خاندانی ہم آہنگی کا خاتمہ

 

10۔نان و نفقہ سے متعلق مسائل

 

11۔ تعدد ازواج اور عصری مسائل

 

21۔ اخلاقیات کا خاتمہ اور رذائل اخلاق کا فروغ

 

آئندہ صفحات میں ان مسائل میں کی نشاندہی کرتے ہوئے سیرتِ طیبہ میں ان مسائل کے حل کا ذکر کیا جائےگا۔عصری مسائل کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں:

 

 

1۔ حسن سلوک کا فقدان

 

ہمارے خاندانی نظام میں حسن سلوک کا فقدان نظر آتا ہے۔میاں بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک عائلی زندگی کو مرقع سکون و اطمینان بنانے کا ذریعہ ہے۔ حسن سلوک سے مراد اچھا سلوک کرنے کے ساتھ ساتھ غلطیوں سے قطع نظر کرنا، طعن و تشنیع سے گریز کرنا۔غلطی کی صورت معاف و درگزر کرنا، اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالنا۔

 

میاں بیوی کا دوگانہ تعلق گویا اللہ اور بندے کے دو گونہ تعلق کی عکاسی کرتا ہے۔ اللہ قیوم ہے ۔ اور اس کے تحفظ کے حصار میں مرد قوام ہیں اور بیویاں صالحات ، قانتات اور پاک دامن ۔اور جس طرح اللہ اور بندے کے میں محبت کا دو طرفہ خوبصورت اور پائیدار رشتہ ہے اسی طرح میاں بیوی بھی محبت کی ڈور میں بندھے ہوئے ہیں ۔

 

عصر حاضر میں حسن معاشرت میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ معمولی غلطی پر ہاتھ جلا دینا، کہیں اعضاء کا کاٹ دینا، تیزاب سے زندہ وجود کو جلا دینا یہ سب کچھ امت مسلمہ کے لیے پریشان کن ہیں۔ حکومت ایسے واقعات کی روک تھام میں ناکام ہو چکی ہے۔ قرآن پاک میں خواتین کے ساتھ حسن معاشرت کاحکم دیا گیا ہے۔ وعاشروھن بالمعروف ۔[8]

 

ترجمہ:" عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو"

 

اس کی مزید وضاحت اس حدیث میں ہے کہ

 

"کوئی مومن مرد کسی مومن عورت(بیوی) سے بعض و عنار نہ رکھے۔ کیونکہ اگر اسکی کوئی عادت ناپسند ہو گی تو کوئی عادت اس کو پسند بھی ہو گی۔[9]

 

ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ : أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم۔[10]

 

ترجمہ مومنوں میں کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں ۔ اور مومنوں میں بھلا وہ شخص ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بھلا ہو۔

 

اس حدیث میں کامل ایمان کی علامت حسن اخلاق اورخیر خواہی کو قرار دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ہمارے مسائل کا حل سیرت طیبہ پر عمل کرنے سے ہے۔

 

ایک دفعہ نبی کریم ﷺ اور حضرت عائشہ  کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی ۔ حضرت ابوبکر  کو ثالث بنایا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہ  سے فرمایا پہلے تم اپنا بیان دو گی یا پہلے میں آغاز کروں ۔ تو حضرت عائشہ  نے فرمایا پہلے آ پ ؐ بات کریں گے لیکن سچ سچ کہیے گا تو حضرت ابوبکر صدیق  کو غصہ آگیا۔ حضرت عائشہ  کے منہ پر تھپڑ مار دیا کہ منہ سے خون نکل آیا اور کہا اے اپنی جان کی دشمن نبی کریم ﷺ جھوٹ بول سکتے ہیں۔ تو سیدہ عائشہ نبی کریمﷺ کے پیچھے چھپ گئیں۔ تو آپ ؐ نے فرمایا

 

آپ کو فیصلہ کرنے کے لیے بلایا تھا نہ کہ مار پیٹ کرنے کے لیے ۔[11]

 

ایک بار نبی کریمﷺ نے حضرت عائشہ  کو حبشیوں کا کھیل دکھایا۔ اور آپ کے ساتھ کھڑے ہو کر دیکھتے رہے۔[12]

 

نبی کریم ﷺ نے ازواج مطہرات کے ساتھ حسن معاشرت کا عمدہ نمونہ چھوڑا۔ وہ امت مسلمہ کے لیے نشان سعادت ہے۔ ہر معاملہ میں شفقت، نرمی اور رفق کا مظاہرہ کیا۔ کسی زوجہ کو طعن و تشنیع نہیں کی گئی۔کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا گیا۔ وہ حضرت عائشہ  کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کرنا [13]، گڑیوں سے کھیلنے کی اجازت دینا ،[14] عورتوں کو نازک آبگینے قرار دینا[15], لونڈی کی طرح بیوی کو مارنے سے منع کرنا[16] ، حضرت عائشہ  کے سوتے ہوئے آہستہ اٹھنا، آہستہ دروازہ بند کرنا[17]

 

بچوں کے ساتھ حسن سلوک میں آپ ؐ بے مثال تھے۔ حضرت حسین  کے بارے میں فرماتے: یہ میرے گلدستے ہیں۔

 

حضرت زینب کی بیٹی امامہ جب آپؐ نماز پڑھتے ۔ ان کو ساتھ رکھتے ۔ وہ آپ کے دوش مبارک پر سوار ہو جاتیں ۔ آنحضرت ﷺ خود کاندھوں پر بٹھالیتے اور جب سجدہ میں جاتے تو ان کو اتار دیتے۔

 

اولاد سے محبت کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کرتے تھے۔ ایک دفعہ کسی غزوہ پر واپسی میں آنحضور ﷺحضرت فاطمہ  کے گھر گئے۔ حضرت فاطمہ نے دونوں صاحب زادوں کے لیے چاندی کے کنگن بنوائے اور دروازے پر پردے لٹکا دیئے۔ لیکن نبی کریمﷺ حضرت فاطمہ  کے گھر نہ گئے۔ وہ سمجھ گئیں فورا پردوں کو چاک کیا اور صاحب زادوں کے ہاتھ سے کنگن اتار دیئے۔ صاحب زادے دربارِ اقدس میں حاضر ہوئے ۔ آپ ؐ نے کنگن لے کر بازار بجھوائے اور انکے بدلے ہاتھی دانت کے کنگن منگوا دیئے۔[18]

 

نبی کریم ﷺکے دل میں تمام بنی نوع انسان کے لیے محبت و شفقت کے جذبات پائے جاتے تھے۔ مگر چونکہ فطری طور پر انسان اپنے اہل و عیال اور قبیلہ کی نسبت سے پہچانا جاتا ہے اسی بناء پر آپ ؐ نے اپنی اولاد کے ساتھ محبت و شفقت کا اعلیٰ نمونہ قائم کیا۔ اھل عرب اپنے بچوں کو چومنا، ان سے لاڈ پیار کرنا اپنی سرداری کے خلاف سمجھتے تھے۔ مگر آپ ؐ ہمیشہ اس رسم کی مذمت کی۔ آپ ؐ اپنے بچوں کو گود میں اٹھا لیتے ۔بعض اوقات کندھے پر اکٹھا لیتے۔ سواری پر ہوتے تو اپنے آگے پیچھے انھیں سوار کر لیتے ۔ ان کی پیشانی کو چومتے۔ انھیں خیر و برکت کی دعا دیتے۔ [19]

 

آپ ؐ کو بچوں کی تعلیم وتربیت کاہمیشہ خیال رہتا تھا۔ آپ ؐ ان والدین کو جو بالخصوص تین بچوں کی تعلیم و تربیت کا اچھی طرح حق ادا کرکے ان کا مناسب گھروں میں نکاح کر دیتے ہیں ۔جنت میں داخلے کی بشارت دیتے تھے۔

 

سیرت طیبہ کے ان واقعات اوراحادیث میں حسن سلوک کو بہت ذیادہ اہمیت دی گئی ہے لہذا آج کے خاندانی نظام کو بہتر بنانے کے لیے اسی نبوی حسن سلوک پر عمل کرنا ہوگا۔

 

2۔ جہیز کے مسئلے میں افراط و تفریط:

 

عصری خاندانی مسائل میں ایک مسئلہ جہیز کا بھی ہے۔ کچھ لوگو ں نے جہیز کو شادی کا بنیادی حصہ قرار دے رکھا ہے۔ حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر بہت زیادہ سامان دیتے ہیں۔بعض والدین زیادہ جہیز دینے کے بعد بیٹی کو حق جائیداد سے محروم کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے اس کی خرابیوں کی وجہ سے اس کو حرام قرار دیا ہے۔ یہ دونوں چیزیں افراط و تفریط پر مبنی ہیں۔اگر جہیز کی شرط سسرال کی طرف سے ہے تو بہت ہی بری ہے۔ کیونکہ حدیث و سنت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔اگر لڑکی کو وراثت سے محروم کر کے دیا جائے تو یہ حدود اللہ کا تجاوز ہے۔ قرآن پاک میں وراثت کو حدود اللہ اور فریضہ من اللہ قرار دیا ہے۔

 

اگر نئی زندگی کے آغاز پر تحفہ کی غرض سے بغیر کسی دباؤ ، لالچ یا وراثت سے محروم کیے بغیراپنی استطاعت کے مطابق دیا جائے تو کوئی قباحت نہیں ہے۔ حضرت زینب  نے اپنی بیٹی کو ایک قیمتی ہار ان کے نکاح کے موقع پر بطور تحفہ دیا تھا۔[20] جہیز سنت نبوی نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو نبی کریم ﷺ کی چار صاحبزادیوں میں سے حضرت رقیہ ، حضرت ام کلثوم  کے نکاح میں کسی چیز کا تذکرہ ملتا۔ حضرت رقیہ  تحفہ اور حضرت فاطمہ  کو کچھ سامان دئے جانے کا تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت علی  روایت کرتے ہیں کہ رسول پاک ﷺ نے حضرت فاطمہ  کو ایک سرہانہ دیا۔ جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے۔ایک چادر اور مشکیزہ عطا فرمایا۔ [21]

 

ان روایات کا جائزہ لینے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ سامان حضرت علی کے پیش کردہ ۔۔۔۔ سے خریدا گیا تھا۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ سنت نہیں ہے۔ حضرت علی  نبی کریم ﷺ کی کفالت میں تھے۔[22]

 

سیرت امہات المومنین اور بنات رسول کے نکاح کے موقع پر دیے جانے والے سامان کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں جہیز کے مسئلے میں افراط و تفریط پائی جاتی ہے ۔امیر بہت ذیادہ جہیز دے دیتےہیں اور غریب جہیز دینے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے اور بعض اوقات لڑکیوں کی شادی کی عمر ہی نکل جاتی ہے لہذا موجودہ دور میں اس معاملے میں اعتدال کا معاملہ کرنا چاہیے۔

 

3۔غیر اسلامی رسم و رواج کی پیروی:

 

شادی کے موقع پر غیر اسلامی رسم و رواج کی پیروی کرنا فرض عین سمجھا جاتا ہے۔ لڑکے والوں کا بہت سی رقم خرچ کر کے وری بنانا۔ ا ور بہت بڑی بارات لڑکی والوں کے گھر پر لے کر جانا۔حضرت عائشہ  کی رخصتی انتہائی سادگی، بلاتکلف اور بغیر کسی نمود و نمائش کے ہوئی۔

 

سنت نبوی ؐ ہے ایک دفعہ رسول پاک ؐ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کے کپڑوں کو زرد رنگ لگا دیکھا تو پوچھا کہ کیا معاملہ ہے۔؟ انھوں نے کہا کہ میں نے شادی کی ہے۔ آپ ؐ نے برکت کی دعا دی اور فرمایا کہ ولیمہ ضرور کرنا۔ [23]

 

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ؐ کے صحابہ باوجود محبت کے شادی کی بارات میں ساتھ لے جانا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔دوسری طرف سے لڑکی والے لمبا چوڑا جہیز تیار کرتے ہیں۔ لڑکے والوں کےلیے تحائف ، اور بعض شادیوں پر لڑکی والوں کی طرف سے دولہا کو گاڑی، رہائش اور موٹر سائیکل بھی دی جاتی ہے۔ رسول پاک ؐ کی بیٹی کا نکاح سادگی کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ سلسلہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ منگنی کو نکاح کے حیثیت دی جاتی ہے۔ منگنی کے بعد فون پر باتیں کرنا، باہر اکیلے گھومنا پھرنا، شرعا ناجائز ہے۔ منگنی نکاح نہیں ہے۔ محض وعدہ نکاح ہے۔ اس پر نکاح کے احکام مرتب نہیں ہوتے۔

 

نبی کریم ﷺ نے اس چیز سے منع کیا ہے۔ دو محرم رشتے داروں کے علاوہ کوئی شخص کسی عورت کے پاس تنہائی میں نہ بیٹھے۔ [24]

 

شادی کے موقع پر لڑکے لڑکیوں کا اکٹھے ڈانس کرنا اور مہندی کی رسم میں بہت زیادہ خرچ کرنے والی رسومات کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

 

4۔مہر کے تعین میں افراط و تفریط :

 

معاصر عصری خاندانی مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زیادہ مہر ازدواجی زندگے کی مضبوطی عطا کرے گا۔ لاکھوں روپے مہر لکھواتے ہیں ۔ کچھ لوگ 32 روپے کچھ پیسے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ اور اس کو شرعی مہر سمجھتے ہیں۔ یہ چیز شریعت سے ثابت نہیں ہوتی۔ اکثر لڑکی والوں کا رجحان یہ ہوتا ہے کہ بڑی سے بڑی رقم کا مہر باندھیں۔ اس بات پر ضد کی جاتی ہے کبھی تو اس پر رشتے ٹوٹ جاتے ہیں حالانکہ بھاری مہروں نے نہ کبھی ٹوٹتے نکاحو ں کو بچایا ہے اور نہ پھلنے پھولنے والے نکاحوں کو کم مہروں نے بچایا ہے۔ دوسری طرف لڑکے والے جو اسی سودا بازی کو کم از کم قیمت پر بات کو لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔[25]

 

اگر اس مسئلہ کا حل ہم سیرت طیبہ کی روشنی میں دیکھیں ۔ نبی کریمﷺ نے ام حبیبہ کے ساتھ شادی کی جبکہ وہ حبشہ کی تھیں۔ نجاشی نے آپ کی طرف سے مہر ادا کیا۔[26]

 

حضرت علی  نے حضرت فاطمہ  کے ساتھ نکاح کی درخواست کی تو آپ ؐ نے سوال کیا کہ تمھارے پاس رہنے کے لیے کیا ہے؟[27]

 

حضرت عائشہ  کا مہر چار سو درہم تھا۔[28]

 

نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے :

 

مہر فرد کی مالی حالت پر ہے۔ تنگ دست پر اس کے حساب سے اور خوشحال پر اس کی طاقت کے مطابق۔[29]

 

ہمارے معاشرے میں منگنی کے موقع پر بہت زیادہ خرچ کرنے اور حق مہر دینے میں سستی کا مظاہرہ کرنے کا رواج ہے۔یہ بعض اوقات نیت نہیں ہوتی اورصرف دکھاوے کے لیےایسا ہوتا ہے ۔مہر نکاح نامے میں بھی زیادہ لکھوا دیا جاتا ہے لیکن ادا نہیں کیا جاتا۔جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق شوہر کو اسکی استطاعت کے مطابق اسے ادا کرنا چاہیے۔

 

5۔فرائض سے عدم توجہی:

 

معاصر خاندانی مسائل میں ایک مسئلہ فرائض کو صحیح طریقے سے ادا نہ کرنا ہے۔ خاندانی زندگی کی بنیاد میاں بیوی رکھتے

 

ہیں اگر وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض اچھے طریقے سے ادا کرتے رہتے ہیں تو گھر کا ماحول بھی اچھا رہتا ہے اور بچے بہتر ماحول میں پرورش پاتے ہیں۔

 

خصوصا عورت پر گھریلو امور کی ذمہ داری ہے۔بچوں کی پیدائش و پرورش و تربیت اور شوہر کو سکو ن مہیا کرنا ور جب عورت نے ملازمت بھی اختیار کر لی تو اور بنیادی فرائض نظر انداز ہوئے۔

 

گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے میں مرد اپنی بیوی کی مدد کر سکتا ہے۔ حضرت عائشہ  فرماتی ہیں : نبی کریم ﷺ کی گھریلو زندگی کے بارے میں کہ آ پ گھر کا کام بھی کرتے تھے۔ گھر میں جھاڑو دیتے ، اپنے کپڑے اور جوتوں کو پیوند لگاتے اور اپنی بکری کا دودھ خو د دھوتے۔[30]

 

اسلام میں فرائض کی ادائیگی کا تصور ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :

 

تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔[31]

 

نبی کریمﷺ کی سیرت کو اگر دیکھا جائے تو ازواج مطہرات اور بیٹیوں نے اپنے فرائض اندرون خانہ پورے کیے۔ حضرت خدیجہ  نے اگر تجارت کی تو اس چیز کا اثر اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی نہیں پڑا اور نہ نبی کریمﷺ کی بعث نبوت پر۔اگر مرد اور خواتین اپنے دائرہ کار میں اپنے فرائض ادا کرتے رہیں تو خاندا نی نظام کے مسائل اور جھگڑے ختم ہو سکتے ہیں۔آج کے دور میں ازواجِ مطہرات کے طرزِ عمل کو سامنے رکھ کر عصر حاضر کے خاندانی مسائل کو احسن طریقے سے حل کیا جاسکتا ہے۔

 

6۔قوامیت کا نامناسب استعمال

 

اگرچہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو انتظامی لحاظ سے قوام بنایا ہے مگر اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ نگہبان ہے حکمران نہیں اور وہ اپنے اس منصب کا استعمال ان حدود و قیود میں کرے جو اسلام نے اس کے لیے مقرر کی ہیں اگر وہ ان حدود سے تجاوز کرے گا تو خاندانی نظام میں خلل آئے گا ۔اللہ تعالیٰ نے عائلی نظام کی استواری اور پختگی کے لیے مرد کو قوامیت کا درجہ عطا کیا ہے۔

 

بعض علماء نے قوامیت سے مراد نفقہ کی ادائیگی لی ہے جیسا کہ علامہ آلوسی اس کے بارے میں فرماتے ہیں :

 

"مرد کی قوامیت سے مراد مہر اور نفقہ کی ادائیگی ہے"[32]

 

قرآن مرد کی قوامیت کے بارے میں فرماتا ہے:

 

الرجال قوامون علی النساء[33]

 

مگرمرد اس منصب قوامیت کا نا مناسب استعمال کرتے ہیں۔وہ عورت کو باندی اور نوکرانی سمجھتے ہیں۔

 

اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ مرد عورت کو اس کے دائرہ کار سے بلاضرورت باہر نہ نکالے ۔عورت کے دائرہ کار کو تحقیر نہیں تحسین کی نگاہ سے دیکھے۔عورت کے گھریلو امور کو فارغ رہنا خیال نہ کرے۔مرد اپنی قوامیت کا احسان عورت پر نہ دھرے،اسے کنیز تصور نہ کرے ۔عورت کی تخلیق چونکہ مرد کی بائیں پسلی سے ہوئی ہے جو کہ دل کے پاس ہے لہذا مرد کو بھی عورت کی دل سے قدر کرنی چاہیے۔

 

7۔ذات و برادری میں شادی کا مسئلہ

 

خاندانی مسائل میں ایک اور مسئلہ اپنی ذات و برادری میں شادی کرنا ہے۔ ہر برادری اپنے آپ کو دوسری برادری سے بہتر سمجھتی ہے اور بعض اوقات اچھے رشتوں کے انتظار میں ساری عمر گزر جاتی ہے۔ اسلام میں برادری کا ایسا کوئی تصور نہیں ہے۔ قبیلے،خاندن اس لیے بنائے گئے کہ ایک دوسرے کی پہچان ممکن ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 

" يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ "[34]

 

حضور اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات مختلف قبائل اور مختلف علاقوں سے تھیں۔ آپؐ نے بھی قبیلہ اور ذات برادری کو نہیں دیکھا بلکہ صرف دینداری کو دیکھا۔

 

ذات و برادری میں اگرچہ شادی کرنا معیوب نہیں ہے مگر بعض اوقات ذات برادری میں شادی کے انتظار میں لڑکی کی عمر نکل جاتی ہے لہذا شادی بیاہ میں نبی کریم ﷺ نے جو معیار ملحوظ رکھا اس پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ موجودہ دور میں انہی اصولوں کو اپنانے میں کامیابی ہے۔

 

8۔تربیت اولا د اور نگہداشت بزرگان کا فقدان :

 

خاندان میں مرد اور عورت کے تعلق کی سب سے اہم چیز بچوں کی تربیت اور بزرگوں کی نگہداشت ہے۔ اسلام نے بچے

 

اور بچیوں کی تربیت کواحسن عبادت سے تعبیر کیا ہے۔ بچوں کی تربیت بہتر انداز میں تب ہو سکتی ہے جب والدین ان کی تربیت کو ترجیح دیں۔ اور مسائل تب پیدا ہوتے ہیں جب والدین کی علیحدگی ہو جائے۔حدیث نبوی ﷺ ہے :

 

"اگر تم میں سے کوئی اپنے بچے کو ادب سکھاتا ہے تو اس کے لیے اس کام سے بڑھ کر ہے کہ وہ ہر روز ایک صاع خیرات کرے" [35]

 

صحیح بخاری میں ہے : کسی باپ کااپنے فرزند کے لیے بہترین عطیہ اور بخشش یہ ہے کہ وہ اپنے فرزند کو حسن ادب عطا کرے۔اپنے بچوں کی تکریم کرو او ر انھیں ادب و تمیز سکھاؤ ۔[36]

 

بزرگوں کی نگہداشت بھی اولاد کی تربیت کی طرح اہم ترین امور اسلامی میں شامل ہے۔مگر جدا گانہ خاندانی نظام میں بزرگوں کی نگہداشت اور دیکھ بھال نہیں ہوسکتی ۔بچے اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہوجاتے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے :

 

إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا[37]

 

جب بڑ ھاپے تک پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو بلکہ ان کے لئے محبت اور شفقت کے ساتھ جھکے رہو ،اور ان کے لئے دعا گو رہو اے اللہ ان پر اس طرح رحم فرماجس طرح انہوں نے ہم پر بچپن میں رحم کیا ۔

 

آپ ﷺ نے والدین کی خدمت کی با ر بار تاکید کی اور اس سے روگردانی کرنے والے کے لئے سزا کی وعید بھی بتائی :

 

آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کی ناک خاک آلودہ ہو جو بوڑھے ماں باپ سے جنت حاصل نہ کرسکے ان کی (خدمت کرکے )"[38]

 

آج کے دور میں جداگانہ خاندانی نظام میں بزرگوں خصوصا والدین کے ساتھ حسن سلوک کا جذبہ عنقا ہو گیا ہے۔مشترکہ خاندانی نظام میں بزرگوں کی کفالت سب مل کر کرتے ہیں ،جداگانہ خاندانی نظام میں کوئی مستقل ان کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا بلکہ ایک دوسرے پر ڈال دیتے ہیں۔

 

سیرت طیبہ میں والدین کی خدمت کا جو تصور اجاگر کیا گیا ہے اگر اسکو اپنا لیا جائے تو والدین اور بزرگوں سے متعلق بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔

 

 

9۔ خاندانی ہم آہنگی کا خاتمہ:

 

خاندانی ہم آہنگی یہ ہےکہ مرد اور عورت کے تعلقات مضبوط ہوں۔معاشرتی استحکام کی بنیاد خاندانی ہم آہنگی ہے۔ جس معاشرے میں خاندانی نظام میں عورت اور مرد کے تعلقات پر کوئی پابندی نہ ہو ، بچے خاندان کا لازمی جزو نہ ہوں معاشرہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ خاندانی ہم آہنگی فرد کے جذباتی تحفظ کا باعث بنتی ہے۔ دور حاضر کے معاشرتی انتشار کا سبب خاندانی بد نظمی ہے۔ جنسی تعلقات میں غیر ذمہ داری ، طلاق کی کثرت ۔اسلام نے خاندانی ہم آہنگی کے لیے عورت کا گھر رہنا پسند کیا ہےتاکہ گھر میں رہ کر اپنے خاوند اور گھر کے افراد کو سمجھ سکیں۔

 

تم اپنے گھروں میں رہو یہی تمھارا جہاد ہے۔[39] نبی کریم ﷺ کی اس تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں ایک بہتر خاندانی نظام وجود میں آتا ہے جس میں مرد اپنی حد کو پہچانتا ہے اور عورت اپنے فرائض کا تعین کرتی ہے۔ اس ذمہ داری سے اسلامی معاشرہ پرسکون ، باوقار اور مستحکم ہوتاہے،گھر کا ماحول بہتر ہوتا ہے اور بچوں کی تربیت بہتر انداز میں ہوتی ہے۔

 

10۔نان و نفقہ سے متعلق مسائل :

 

عصر حاضر میں شوہروں میں یہ رجحان فروغ پا رہا ہے کہ نان و نفقہ کی ذمہ داری شوہر فرض سمجھ کر ادا نہیں کرتے نہیں عورت پر بوجھ اور احسان سمجھ کر خرچ کرتے ہیں۔ بعض مرد شادی کے بعد اس فکر سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ کہ وہ گھر کے معاشی سربراہ ہیں۔ مجبور ا عورت کو ذرائع معاش کی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ بعض مرد ، عورت کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کرتے۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:

 

"اور ان عورتوں کا کھانا اور لباس معروف کے مطابق تمھارے ذمہ ہے "[40]

 

موجودہ دور کے خاندانی مسائل میں نان و نفقہ کے مسائل بھی زوجین کے مسائل بھی باعث نزاع ہیں ۔اسلام نے اگرچہ عورت کی یہ ذمہ داری مرد کے سپرد کی ہے اسی وجہ سے اسے قوام کا درجہ دیا گیا ہے اگر وہ اسے ارادتا نہیں کرتا تو اسے اللہ کے ہاں جوابدہ ہونا پڑے گا لیکن بعض اوقات حالات ساتھ نہیں دیتے تو ایسی صورت میں اگر بیوی پڑھی لکھی ہے تو خاوند کی معاشی لحاظ سے معاونت کرے گی،تو ایسی صورت میں مرد کو اسکا ممنون ہونا چاہیے اور ایسی حالات میں جو لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں وہ نہیں ہوں گے۔

 

11۔تعدد ازواج اور خاندانی مسائل:

 

تعدد ازواج کے حوالے سے شعوری یا غیر شعوری طور پر بعض صورتوں میں بالخصوص عملی حوالے سے مسلمانوں کے ہاں افراط وتفریط پایا جاتا ہے۔ بعض لوگ انتہائی اضطراری اور جنگی حالات کے علاوہ تعدد ازواج کے قائل نہیں ہیں۔ جب کہ بعض اس سنت اور جواز کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں گویا دوسر ی شادی سنت ہی نہیں بلکہ فرض یا تاکیدی اعتبار سے فرض کے قریب ہے۔ اسلام نے دوسری شادی کو عد ل سے مشروط کیا ہے۔ ارشاد نبوی ؐ ہے:

 

جس کی دو بیویاں ہوں وہ ان میں ایک کی طرف مائل ہو گیا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا نصف جسم مفلوج ہو گا۔ [41]

 

عصر حاضر میں اگر ایک شخص کی ایک سے ذائد بیویاں ہیں اور وہ ان کے درمیان عدل و انصاف کا مظاہرہ نہیں کرتا تو ایسی چیز بیویوں کے درمیان حسد اور رقابت کے جذبات کو فروغ دے گی اور ایسی صورتحا ل ازدواجی زندگی کو سکون جیسی دولت سے محروم کر دے گی۔ تاہم وقت اور حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اسوہ رسول وﷺکو سامنے رکھ کر اپنی ازدواجی زندگیوں کو خوشگوار بنایا جائے۔

 

. 12اخلاقیات کا خاتمہ اور رزائل اخلاق کا فروغ :

 

اخلاق، انسانیت کا زیور اور سماج کی زینت ہی نہیں ہے بلکہ اسکی حیثیت جسد زندگی میں قلب کی ہے جسکے لیے کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ بگڑجائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ایک جگہ رہتے ہوئے خواتین کا ایک دوسرے کا مذاق اڑانا ،غیبت ،چغلی اور بغض سے گریز نہ کرنا جیسی بری عادات پائی جاتی ہیں ۔قرآن پاک میں اللہ تعالی نے سورۃ الحجرات میں ان تمام بری خصلتوں سے منع فرمایا گیا ہے

 

"یااَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ"[42]

 

"اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو ایمان کے بعد فسق برا نام ہے ، اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں"۔

 

لہذا عمدہ اخلاق کے لیے قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل ضروری ہے کیونکہ ان تعلیمات پر عمل ہی سے برے اخلاق سے بچا جا سکتا ہے۔

 

حاصل بحث :

معاشرت انسانی کی بقاء کے لیے خاندانی نظام کی بقاء لازمی امر ہے ۔ دور جدید کا ترقی یاافتی انسان ذہنی طور پر جس قرب میں مبتلا ہے اس کی بڑی وجہ اس کی جائے تسکین کا بگاڑ کا شکار ہونا ہے ۔ اسلام نے انسان کو جہاں دیگر مسائل زندگی میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کا حکم دیا وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین اور مثالی خاندانی نظام کا بانی بھی قرار دیا ۔ دیگر تمام معاملات کی طرح معاشرتی معاملات میں بھی آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین بیٹے ،بہترین بھائی ، مثالی شوہر ، اعلی قسم کے باپ ، بلند پایہ سسر،محبت و مشفق نانا، ہمددرد دوست اور غرض کہ ہر معاشرتی رشتے میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر رشتے کو باخوبی نبھایا۔ اور اصلاح انسانی کے لیے ایک مثال قائم کردی۔

 

نتائج بحث :

خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ نے مندرجہ ذیل نتائج کو جنم دیا ہے:* حسن سلوک اور رشتوں کے تقدس کا خاتمہ ۔۔۔ایک دوسرے کی بات کو برداشت کرنے کے بجائے باہمی چاپقلش ۔

  • فرائض کی عدم توجہی ۔۔مرد اور عورت کا اپنے اپنے فرائض سے روگردانی کرنا ۔
  • حق قوامیت میں بگاڑ ۔۔اور اس کی وجہ سے مرد کا عورت کو اپنی ملکیت سمجھ کر ظلم و جبر کا نشانہ بنانا۔
  • عورت کی معاشی سرگرمیوں میں دلچسپی اور گریلو ذمہ داریوں سے بیزاری ۔۔جس کی وجہ سے گھر کا سکون تباہ ہوجاتا ہے۔
  • اعلی اخلاقی اقدار کا ختم ہوجانا۔
  • ملکی ترقی پر معاشرتی بگاڑ کا گہرا اثر پڑنا۔

 

 

 

تجاویز و سفارشات :

خاندان کے افراد ،اہل علم اورارباب اقتدار کو چاہیے کہ معاشرتی استحکام کے لیے درجہ ذیل اقدامات کریں ۔* گھر اور خاندان بننے میں بہت وقت لگتا ہے لیکن جب ٹوٹنے پر آتا ہے تو ایک لمحہ لگتا ہے اس لیے گھر کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے خاندان کے افراد کو محبت وبرداشت اور صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔تاکہ صحت مند خاندانی نظام کے اجتماع سے ایک صحت مند مثا لی معاشرہ وجود میں آسکے۔

  • معاشرے کی فکری تربیت کے لیے والدین ، اساتذاہ اور دیگر ارکان معاشرہ کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔والدین گھر کے ماحول کو متوازن بنا یئں ۔ حکومت ایسے ادارے تشکیل دے جہاں بچوں کی تربیت خصوصاً بچیوں کی تربیت جو بہترین خاندانی نظام کو تشکیل دینے کی ضامن ہیں ان کی اچھی تربیت کی جائے تاکہ پڑھی لکھی خواتین ایک صحت مند قوم کی بنیاد رکھ سکیں ۔
  • خاندان کے بہت سے مسائل سے بچنے کے لیے ضروری ہے ساس اور بہو کے درمیاں ماں بیٹی جیسا رشتہ قائم ہو جائے۔ دونوں اپنے اپنے حقوق و فرائض سے باخوبی آگاہ ہوں تاکہ پر امن ماحول بچوں کی اعلی ٰتربیت کے لیے ضامن ہو سکے ۔
  • اخلاقی قدروں کو پامال ہونے سے بچانے کے لیے تعلیم کا حصول ملازمت کے بجائے اخلاقیات کا حصول بنایا جائے اور اس کے لیے حکومت ہر فرد کے ذہنی معیار اور تعلیمی قابلیت کے مطابق روزگار کے مواقع فراہم کرےتاکہ غربت کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشرتی جرائم کا خاتمہ ممکن ہو سکے ۔
  • ادارہ خاندان کی اصلاح کی جائے اور گھریلوں تنازعات کو کنٹرول کیا جائے۔جائیداد وزمین پر ہونے والے جھگڑے قطع تعلقی کا باعث بنتے ہیں جو خاندانو ں میں نفرت و آتش کا سبب بنتے ہیں ۔ بچوں پر منفی اثرات مرتب کرنے کے ساتھ بے سکونی کا سبب بھی ہیں ۔ لہذاسربراہان خاندان کو فہم و فراست سے ان معاملات کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ بات بگھڑنے سے پہلے سنبھل جائے ۔
  • ہر فرد کو اپنے فرائض کی انجام دہی کرنی چاہیے ۔
  • اور ا ن سب سے اہم اور ضروری کام جو فرد اور معاشرے کی اصلاح کے لیے اولیت کی حثیت رکھتا ہے اور جس کے بغیر خاندان تو کیا انسان سے جڑاکوئی نظام بھی درست نہیں ہوسکتا اور وہ ہے تقوی ۔یعنی اللہ کی محبت میں اس کی نافرمانی سے ڈرتے ہوئے اس کےاصولوں کے مطابق زندگی گزاری جائے ۔
  • عورتوں کی تربیت کے ساتھ مردوں کی تربیت کا اہتمام بھی کیا جائے تو خاندانی نظام کی بنیادوں کو مضبوط کیا جا سکتا ہے کیو ں کہ مرد اکثر گرم طبیعت کے مالک ہوتے ہیں اور سخت مزاج بھی لہذا مردوں کی تربیعت کا بھی انتظام ہمارے معاشر ے میں ضروری ہے تاکہ مرد بہتریں قوام کے فرائض انجام دے سکیں ۔

لہذا یہ وہ چند کلیدی تجاویز ہیں جو معاشرے کی اہم اکائی خاندانی اصلاح کے لیے مدد گار ثابت ہو سکتی ہیں تاکہ ایک صحت مند مثالی معاشرہ قائم ہو سکے ۔

حوالہ جات

  1. خالد علوی ، ڈاکٹر ،اسلام کا معاشرتی نظام،المکتبہۃ العلمیہ،لاہور،۱۹۹۸،: 83
  2. سیدہ سعدیہ ،ڈاکٹر ،پاکستانی معاشرے میں خواتین کے سماجی و قانونی مسائل ،اداراہ اسلامیات ،لاہور ،2017،:3
  3. مسلم پرسنل لاء اور اسلام کا عائلی نظام،: 23
  4. محمد امین ،ڈاکٹر ،اسلام اور مغرب کی تہذیبی کشمکش ،مکتبہ بیت االحکمت،لاہور،: 230
  5. النساء، 4 : 1 5
  6. النساء، 4 : 34
  7. الروم، 30: 21
  8. النساء 4: 19
  9. مسلم ، ابن حجاج ،قشیری ، الجامع الصحیح ،کتاب الرضاع، با الوصیۃ بالسناء ، دار الحیاء التراث العربی، بیروت,رقم الحدیث 1468
  10. ترمذی، محمد بن عیسی ابو عیسیٰ ، الجامع ، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی حق المراۃ زوجھا، دار الشرکۃ مکتبہ و مطبوعہ مصطفی البانی الحکیم ۔س۔ن،مصر، رقم الحدیث 1162
  11. ابو داؤد ،سلیمان بن اشعث،السنن،باب ماجاء فی المزاح،رقم الحدیث:4999، 718/2
  12. بخاری، محمد بن اسماعیل ،الجامع الصحیح ،دار طوق النجاۃ ،الطبۃ الاولی ٰ، 1422 ھ ،کتاب النکاح، باب حسن المعاشرہ معا الاھل، رقم الحدیث 5190
  13. السجستانی ،سلمان بن اشعت ،السنن ابوداؤد، بیروت: دار الفکر ،س۔ن، کتاب الجھاد، باب فی السبق علی الرجل،رقم الحدیث: 2578
  14. ابو داؤد، کتاب الادب ، باب اللعب بالبنات، 49932
  15. بخاری, الجامع الصحیح، کتاب الادب، رقم الحدیث:6161
  16. بخاری، الجامع الصحیح، کتاب النکاح، رقم الحدیث: 5204
  17. مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقول عند دخول القبر، رقم الحدیث :973
  18. شبلی نعمانی،مولانا ، سیرت النبی ؐ،لاہور: اداراہ اسلامیات ،1423ھ،2/ 488
  19. صحیح بخاری، بحوالہ " محمد رسول اللہ ، شعبہ اردو ، دائر ہ معارف اسلامیہ، جامع پنجاب، لاہور
  20. دحلان ،احمد بن زینی ،سید ،علامہ ،السیرۃ النبویہ ،لاہور: ضیا ءالقرآن پبلیکیشنز،[مترجم: ذولفقار علی ،علامہ] 2014، 2/359 ،

     

    البیہقی ،ابی کر احمد بن الحسین ،امام ،[مترجم: الجاروی ، محمد اسماعیل،مولانا ،]دلائل النبوۃ، کراچی : دارالاشاعت، 2009، 3/ 2160
  21. نسائی، حافظ عبدالرحمٰن احمد بن اشعث ، السنن ،مکتبہ المطبوعات السلامۃ الحلب ،1986ء کتاب النکاح ، باب جھاد الرجل ابنتہ، 3386
  22. مجمع الزوائد،الہیشمی ، نور الدین علی بن ابی بکر ، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، دارالفکر، بیروت، 9 :210
  23. البیہقی ،ابی کر احمد بن الحسین ،امام ،دلائل النبوۃ، 3: 2160
  24. بخاری، کتاب النکاح ، باب لا یخلون رجل الامراۃ ، رقم الحدیث 5233
  25. صدیقی ،نعیم ،عورت معرض کشمکش، لاہور :ادارہ معارف اسلامیہ  ،1993 ،: 258
  26. نسائی، کتاب النکاح، باب الاصدقہ،رقم الحدیث: 2352

     

    ابن ماجہ، ابو عبداللہ محمد بن یزید ،السنن ،دارحیاء الکتب العربیہ ،س۔ن،کتاب النکاح، باب صداق النساء، 3890
  27. نسائی، السنن ، کتاب النکاح ، باب نحلۃ الخلوۃ،رقم الحدیث: 3277
  28. ابن ماجہ،ابو عبد اللہ محمد بن یزید، السنن ، کتاب النکاح ، باب صداق النساء ، مترجم مولانا عبد الحکیم اختر، سندھ ساکرکز سنٹر، لاہور،رقم الحدیث: 1890
  29. بن ماجہ، کتاب النکاح، باب صداق النساء، 3890
  30. بخاری، کتاب النفقات، باب حدقہ الرجل فی اھلہ، رقم الحدیث : 5363
  31. بخاری، کتا ب الاحکام، باب قول اللہ تعالیٰ اطیعواللہ، 71387
  32. الألوسي ،شهاب الدين محمود بن عبد الله الحسيني روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، دار الكتب العلمية - بيروتالطبعة: الأولى، 1415 ھ، 5 :23
  33. النساء ، 4: 34
  34. الحجرات 49: 13
  35. ترمذی ، الجامع ، ابواب البر والصلۃ، باب ماجافی ادب الولد2: 17
  36. ابن ماجہ ، السنن، کتاب الادب، رقم الحدیث 3871
  37. الاسراء،24: 17 اصلاحی، عبدالعظیم،صلہ رحمی اور خاندان کی شیرازہ بندی ،ادارہ علوم القرآن ،علی گڑھ 2010ء:,85
  38. مسلم،الجامع الصحیح ،کتاب البر 4/312
  39. بخاری ، الجامع الصحیح ، کتاب الجہاد، باب جہاد النساء ، رقم الحدیث: 402
  40. ابو داؤد ، السنن، کتاب النکاح ، باب فی حق المراۃ علی زوجھا، رقم الحدیث : 2142
  41. ابو داؤد، السنن، کتاب النکاح، باب فی القسم بین النساء،رقم الحدیث : 2134
  42. الحجرات، :49 :11
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...