Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 3 Issue 1 of Al-ʿILM

مقام نبوت و رسالت: کتب مقدسہ کی روشنی میں: تجزیاتی مطالعہ |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060040263_1164

Pages

31-47

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/15/13

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/15

Subjects

Torah Gospel Holy Quran Jews Christians Muslims

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

یہودیت،عیسائیت اور اسلام جو اصطلاحاََالہامی مذہب کہلاتے ہیں،ان کے مشترکہ سرمایہ میں سے ایک مشترک چیز نبوت و رسالت ہے۔ عقیدہ نبوّت ورسالت کو الہامی مذاہب میں اہم اور نمایاں مقام حاصل ہے۔ وہ افراد جن کو اللہ تعالیٰ نے منصب نبوّت ورسالت کے لئے چن لیا، ان کے پیروکاروں کے لئے دینی امور میں ان کے فرامین اور معمولات زندگی قابل حجت اور لازم تقلید قرار دئیے گئے ۔

انبیاء و رسل اللہ تعالیٰ کی منشاء کا نمونہ و نمائندہ ہوتے ہیں، جن اقوام کی طرف ان کی بعثت ہوئی ان کے لئے انبیاء ورسل کی اطاعت و اتباع اسی طرح واجب قرار دی گئی تھی جس طرح اللہ کی اطاعت لازم ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیروکار یہودی،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اطاعت گزارعیسائی اورحضرت محمد صلی اللہ

علیہ وسلّم کے متبعین مسلمان کہلاتے ہیں اسی لئے انہیں بالترتیب یہودیت،عیسائیت اور اسلام کے بانی تصوّر کیا جاتا ہے، یہ ایک ہی سرچشمہ ہدایت سے فیض یافتہ تھے،کتابِ تورات،انجیلِ مقدس اور قرآن مجید کا نزول اسی ذات الٰہی کی طرف سے ان پر ہوا تھا ۔ ان کتب میں منصبِ نبوّت و رسالت کے بارے جو ہدایات میں دی گئی ہیں ان میں بہت حد تک اتفاق پایا جاتا ہے۔قرآن مجید میں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی اطاعت واتّباع اور تعظیم و احترام کو لازم کیاگیا ہے اسی طرح کتابِ تورات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور انجیل مقدس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے پیروکاروں کے لئے امام،پیشوا،معلّم،واجب اطاعت اور نمونہ تقلید قرار دیا گیا تھا۔ان کتب کی روشنی میں منصب نبوّت و رسالت کے جائزہ سے اس بات کی وضاحت کرنامقصود ہے کہ ا نبیاء ورسل جن اقوام کی طرف مبعوث کئے گئے تھے ان کے لئے ان کی اطاعت و اتباع کے بغیراکمال دین کا تصوّر بھی نہ تھا ان کی اطاعت و اتباع حقیقتاََ اللہ کی اطاعت تھی اور ان کی بات کا انکار دراصل اللہ کی بات کا انکارتھا ۔ انبیاء ورسل کے منصب ومقام کے بارے میں کتابِ تورات،انجیلِ مقدس اور قرآن مجید کی ہدایات درج ذیل ہیں۔

وحی الٰہی پر مبنی تعلیمات

انبیاء و رسل علیہم السلام کو یہ اعزاز اور امتیاز حاصل ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے معانی و مفاہیم کا تعین،مجملات کی تفصیل،مبہمات کی تبیین،مشکلات کی تفسیر،کنایات کی تصریح اور اشارات کی توضیح کرتے ہیں،اس لئے انہوں نے دینی امور میں جو فرمایا اور جو کیا ہے وہ ان کے پیروکاروں کے لئے نمونہ ہے ۔کتاب تورات،انجیل مقدس اور قرآن مجید میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جن پیغمبروں پر ان کتب کا نزول ہوا ہے دینی معاملات میں ان کے اوامرونواہی وحی الٰہی پر مبنی ہیں۔ حضرت موسٰی علیہ السلام،حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنے پیروکاروں کو جو احکام دئیے ہیں وہ احکام اللہ تعالٰی کی منشاء اور رضا کے مطابق دیئے ہیں۔ ان کی بجا آوری ان کی قوم پراسی طرح لازم قرار دی گئی ہے جس طرح احکامِ الٰہی کی بجا آوری لازم ہے۔

پیغمبر اپنی قوم کے لئے نمونہ تقلید اور اللہ کے احکام کی عملی تفسیر ہوتا ہے اس لئے وہ اللہ کی منشاء اور رضا کے مطابق ہی قوم کی راہنمائی کرتا ہے ۔کتاب خروج میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے:

’’پھر خدا وند نے موسیٰ سے کہا دیکھ میں نے تجھے فرعون کے لیے گویا خدا ٹھہرایا اور تیرا بھائی ہارون تیرا پیغمبر ہو گا۔ اور جو حکم میں تجھے دوں سو تو کہنا اور تیرا بھائی ہارون اسے فرعون سے کہے کہ وہ بنی اسرائیل کو اپنے ملک سے جانے دے‘‘[1]

کسی بھی نبی کے یہ شایان شان نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیغام میں کوئی کمی بیشی سے کام لے اس لئے ہر ایک نبی نے جو اس پر نزول ہوا تھا وہ کما حقہ اللہ کے بندوں تک پہنچادیا تھا اور اللہ کے احکام کو پہنچانے میں کمی و بیشی سے قطعاََکام نہیں لیا،تورات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں یہی گواہی دی گئی ہے کہ انہوں نے اللہ کے حکم کی خوب پابندی فرمائی تھی ۔ کتاب خروج میں ہے: "اور موسیٰ اور ہارون نے ویسا ہی کیا جیسا خداوند نے انہیں حکم دیا تھا"۔[2]

مزید فرمایا:  "سو موسیٰ اور ہارون فرعون کے پاس گئے انہوں نے ویسا ہی کیا جیسا خداوند نے انہیں حکم دیا تھا "۔[3]

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو بڑے صریح الفاظ میں فرمایا کہ میں جو تمہاری راہنمائی کرتا ہوں یہ میری باتیں نہیں ہیں بلکہ اس ذات کی ہیں جس نے مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا ہے۔ انجیل یوحنا میں ہے:

"جب عید کے آدھے دن گزر گئے تو یسوع ہیکل میں گیا اور وہی تعلیم دینے لگا۔ یہود متعجب ہو کر کہنے لگے۔ اس آدمی نے بغیر سیکھے اتنا علم کہاں سے حاصل کر لیا؟ یسوع نے جواب دیا: یہ تعلیم میری اپنی نہیں ہے بلکہ میرے بھیجنے والے کی طرف سے حاصل ہوئی ہے۔ اگر کوئی خدا کی مرضی پر چلنا چاہے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ تعلیم خدا کی طرف سے ہے یا میری طرف سے"۔[4]

نبی اللہ کلام کے معانی ومفاہیم معلوم کرتا ہے، پھر مطالب اخذ کرتا ہے اور مرادکا تعین کرتا ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی شخص کلام الٰہی کی مراد کو نہیں پا سکتا اسی بات کی وضاحت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یوں فرمائی ہے:

’’ اب وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے وہ سب تیری ہی طرف سے ہے۔ اس لیے جو پیغام تو نے مجھے دیا ، میں نے ان تک پہنچا دیا اور انہوں نے اسے قبول کیا اور وہ اس حقیقت سے واقف ہو گئے کہ میں تیری طرف سے آیا ہوں اور ان کا ایمان ہے کہ مجھے تو ہی نے بھیجا ہے"۔[5]

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذات گرامی کلام الٰہی کی مجسم اور عملی تفسیر ہیں دینی امور میں آپ ﷺ کے فرامین اور معمولات کی وہی حیثیت ہے جو وحی الٰہی کی ہے کیونکہ آپ ﷺ کا منصب یہ تھا کہ اپنے قول و گفتار اور عمل و کردار سے کلام الٰہی کی وہی تفسیر کریں جو اللہ تعالیٰ کی منشاء اور رضا کے تابع ہو ۔سورۃالنجم میں ہے:

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى۔وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى[6]’  "وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا،یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر

نازل کی جاتی ہے"۔

اس کی مزید وضاحت یوں کی گئی ہے کہ جب آپ ﷺ کوئی عمل سرانجام دیتے ہیں تو وہ وحی الٰہی کی پیروی میں ہی ہوتا ہے۔سورۃ یونس میں ہے:

وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيَاتُنَا بَيِّنٰتٍ ۙ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْهُ ۭ قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَاۗئِ نَفْسِيْ ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ[7]

’’جب انہیں ہماری صاف صاف باتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ " اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو "۔اے محمد ، ان سے کہو " میرا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اس میں کوئی تغیّر و تبدّل کرلوں، میں تو بس اس وحی کا پیرو ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے ۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کے عذاب کا ڈر ہے ‘‘۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی گواہی خود اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں بڑے صریح الفاظ میں فرمائی ہے کہ آپﷺوحی الٰہی میں کسی قسم کی کمی و بیشی نہیں کرتے۔سورۃ الحاقۃ میں ہے:

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ. لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ .ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ[8]

’’اور اگر اس (نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی،تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتےاور اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے"۔

اس آیت میں بڑی صراحت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے فرامین اور معمولات زندگی کی حیثیت کو متعین کردیا ہے کہ آپ ﷺ نے قرآن مجید کی تفسیر و توضیح میں جو کچھ فرمایا ہے یا عملاََ کرکے دیکھایا ہے وحی الٰہی ہی کے تابع تھا ۔

حکم و فیصلہ کی حیثیت

انبیاء و رسل کا منصب یہ ہے کہ وہ اپنے عمل و کردار اور قول و گفتارسے احکام الٰہی کی وضاحت کرتے ہیں،وحی الٰہی کے

حامل ہونے کی وجہ سے فرمانِ الٰہی کو ان سے زیادہ کوئی نہیں سمجھ سکتا اس لئے انبیاء و رسل کا حکم دراصل اللہ کا حکم ہوتا

ہے۔ قرآن مجیدمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم ، انجیل مقدس میں حضرت عیسٰی علیہ السلام اور کتاب تورات میں حضرت موسٰی علیہ السلام کے بارے میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ ان کی اطاعت و اتّباع دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔

پیغمبر جب دینی امور میں کوئی حکم صادر کرتا ہے اگرچہ وجود کے اعتبار سے وہ کلام الٰہی سے الگ ہوتا ہے لیکن اپنی حقیقت اور ماہیت کے اعتبار سے وہ منزل من اللہ ہی ہوتا ہے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام سے انکی قوم نے مسئلہ دریافت کیا تو آپ ؑ نے فرمایا جب تک اللہ کی طرف سے میری راہنمائی نہیں کی جاتی تب تک کچھ نہیں بتا سکتا۔کتاب گنتی میں ہے:

’’چنانچہ موسیٰ نے بنی اسرائیل کو عید مسیح منانے کے لیے کہا۔ اور انہوں نے پہلے مہینے کی چودھویں تاریخ کی شام کو دشتِ سینا میں اسے منایا اور بنی اسرائیل نے ویسا ہی کیا جیسا خداوند نے موسیٰ کو حکم دیا تھا۔ لیکن ان میں سے کچھ لوگ اس روز عید مسیح نہ منا سکے کیونکہ وہ کسی لاش کے سبب سے ناپاک ہو گئے تھے۔ چنانچہ وہ اسی دن موسیٰ اور ہارون کے پاس آئے اور موسیٰ سے کہنے لگے کہ ہم تو کسی لاش کے سبب ناپاک ہو چکے ہیں پھر ہم دوسرے اسرائیلیوں کے ساتھ مقررہ وقت پر خداوند کی قربانی پیش کرنے سے کیوں محروم رکھے جائیں؟ موسیٰ نے انہیں جواب دیا کہ جب تک میں پتہ نہ لگا لوں کے خدا وند تمہارے حق میں کیا حکم دیتا ہے ، تم ٹھہرے رہو‘‘ ۔[9]

دینی معاملات میں انبیاء کا حکم اذن خدا ہوتا ہے اس لیے وہ ہمیشہ کامیابی و کامرانی کا ضامن ہوتا ہے۔

کتاب استثناء میں ہے:  "لہٰذا آج کے دن تم جان لو اور اپنے دل میں یہ بات بٹھا لو کہ اوپر آسمان میں اور نیچے زمین میں خداوند ہی خدا ہے کوئی دوسرا نہیں۔ اس کے جو آئین اور احکام آج میں تمہیں دے رہا ہوں انہیں مانو تاکہ تمہارا اور تمہارے بعد تمہاری اولاد کا بھلا ہو اور اس ملک میں جو خداوند تمہارا خدا تمہیں ہمیشہ کے لیے دے رہا ہے، تمہاری عمر دراز ہو” ۔[10]

سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو جو احکام دیئے تھے ان میں افراط وتفریط سے کام لینے سے منع کیا تھا۔

کتاب استثناء میں ہے:

’’دیکھو جتنے احکام میں تمہیں دیتا ہوں ان سب پر عمل کرو ۔ ان میں نہ تو کچھ اضافہ کرو اور نہ ان میں سے کچھ گھٹاؤ"[11]

پیغمبر کی کوئی بات اللہ کے حکم کے متصادم نہیں ہوسکتی اور نہ ہی پیغمبر اللہ تعالٰی کے حکم کے بغیر اپنی قوم پرکسی بات کو

لازم کرسکتا ہے۔کتاب استثناء میں ہے:

’’جو نبی ایسی بات کہتا ہو جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا کوئی نبی دوسرے معبودوں کے نام سے کہے تو وہ جان سے مارا جائے ‘‘۔[12]

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے متبعین کو واعظ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو میں تمہاری راہنمائی کر رہا ہوں وہ میری بات نہیں بلکہ خدا کی بات ہے اور میری ذمّہ داری تو صرف خدا کی بات اس کے بندوں تک  پہنچانا ہے اگر تم خدا کے بندے ہو تو ان باتوں کو سنوں جو میں بتا رہاہوں ۔انجیل یوحنا میں ہے:

’’چونکہ میں سچ بولتا ہوں اس لیے تم میرا یقین نہیں کرتے۔ تم میں کوئی ہے جو مجھ میں گناہ ثابت کر سکے؟ اگر میں سچ بولتا ہوں تو تم میرا یقین کیوں نہیں کرتے؟ جو خدا کا ہوتا ہے وہ خدا کی باتیں سنتا ہے، چونکہ تم خدا کے نہیں، اس لیے سنتے نہیں ‘‘۔[13]انجیل میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے یہ صریح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ جو ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے گویا کہ وہ اللہ کی فرمانبرداری کر رہاہے۔انجیل یوحنا میں ہے:

’’میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جو میرے بھیجے ہوئے قبول کرتا ہے وہ مجھے قبول کرتا ہے اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبول کرتا ہے"[14]

مسلمانوں کے لئے رسول اکرم ﷺ کی اتّباع اور اطاعت اللہ تعالٰی کی اطاعت کے مترادف ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے رسول اکرم ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔ سورۃ النساء میں ہے:

مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ؂[15] ’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی ‘‘

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس بات کی بھی صراحت فرمادی ہے کہ جب رسول اکرم ﷺ کوئی حکم دیتے ہیں تو وہ اللہ ہی کی منشاء اور رضا کے تابع ہوتا ہے ۔سورۃ النجم میں فرمایا:

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى۔وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى[16]

’’وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا،یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے ‘‘۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم جن چیزوں کا حکم دیں ان کو اختیار کرنا اور جن چیزوں سے منع کریں ان سے رک جانا

لازم ہے۔ سورۃ الحشر میں ہے:  وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ ۤ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ؂[17]

’’جو کچھ رسول تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روکے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو‘‘۔

رسول اکرم ﷺ کے کسی حکم ،فیصلے سے تنگی اور حرج کو ذہن میں لانے کی ممانعت کی گئی ہے ،جو شخص آپ ﷺکے فیصلوں سے تنگی محسوس کرتا ہے وہ کبھی مؤمن نہیں ہوسکتا۔سورۃ النساء میں ہے:

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْاتَسْلِــيْمًا[18]

’’ نہیں ، اے محمد ! تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اِختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں ، بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔"

کلام الٰہی کی تبیین و تشریح انبیاء و رسل علیہم السلام کی بنیادی ذمہ داری تھی انہو ں نے اپنے قول و گفتار اور عمل و کردار سے کلام الٰہی کی جو وضاحت فرمائی تھی ان کے پیروکاروں کیلئے اس کی وہی حیثیت قرار دی گئی تھی جو وحی الٰہی کی تھی، اس لئے ہر قوم پر یہ لازم تھا کہ وہ دینی امور میں اپنے نبی کے اقوال اور معمولات کو کلام الٰہی سے زائد یا باہر کی چیز نہ سمجھے کیونکہ دونوں کا سرچشمہ ایک ہے۔دونوں ہی منزل من اللہ ہیں۔

معلمانہ حیثیت

انبیاء و رسل کی بعثت کا ایک بڑا مقصد یہ تھاکہ وہ اپنے قوال اور اعمال کے ذریعے ان کی طرف نازل کردہ کتاب کی لوگوں تعلیم دیں،انبیاء و رسل اللہ کے پیغام کا عملی نمونہ تھے اور اپنی قوم وملت کے لیے معلم کی حیثیت رکھتے تھے ۔ کتاب تورات، انجیل مقدس اور قرآن مجیدکا جن انبیاء کرام علیہم السلام پر نزول ہوا ہے ان کی تشریح و توضیح ان کا فریضہ منصبی تھا ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بھی دیگر انبیاء کی طرح یہی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی قوم کو احکامِ الٰہی پر عمل پیرا ہونے کی

واعظ و نصیحت کریں اور تورات کی تعلیم دیں۔ کتاب استثناء میں ہے:

’’تب اس نے اپنے عہد کے دسوں احکام تم پر ظاہر کیے اور انہیں ماننے کا حکم دیا اور پھر انہیں پتھرکی دو تختیوں پر لکھ دیا

اور اسی وقت خداوند نے مجھے حکم دیا کہ تمہیں وہ آئین اور احکام سکھاؤں جن پر تم اس ملک میں عمل کر و گے جسے تم ہر

دن کو پار کر کے حاصل کرنے والے ہو" ۔[19]

نبی کا کام صرف احکام الہٰی کو پہنچاناہی نہیں ہوتا بلکہ ان کو سکھانا اور ان کی وضاحت کرنا بھی نبی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس ذمہ داری کی وضاحت یوں فرمائی:

’’موسیٰ نے سب اسرائیلیوں کو بلوا کر ان سے کہا: اے اسرائیلیو! جو آئین اور احکام آج میں تمہیں سناتا ہوں انہیں سن لو۔ انہیں سیکھو اور ان پر ضرور عمل کرو "۔[20]

اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ تاکید کی گئی تھی کہ وہ احکامِ الہی کو نہ صرف اپنی قوم تک پہنچائیں بلکہ ان کو سکھائیں بھی تا کہ وہ ان پر عمل پیرا ہوسکیں۔کتاب استثناء میں ہے:

’’یہ وہ احکام ، آئین اور قوانین ہیں جنہیں خداوند تمہارے خدا نے تمہیں سکھانے کی مجھے تاکید کی ہے تم ان پر اس ملک میں عمل کرو جسے تم ہر دن پار کر کے حاصل کرنے والے ہو۔ تاکہ تم، تمہاری اولاد اور ان کے بعد ان اولاد خداوند اپنے خدا کے ان تمام آئین اوراحکام پر عمل کر کے جو میں تمہیں دے رہا ہوں ، زندگی بھر اس کا خوف مانو اور لمبی عمر پاؤ"[21]

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے لئے معلم کی حیثیت رکھتے تھے ۔ انجیل میں کئی جگہوں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو استاد کے لقب سے مخاطب کیا گیا ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے منصب معلمی کو ان الفاظ میں واضح فرمایاہے:

’’یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کو ردّ کر نے آیا ہوں۔ میں انہیں ردّ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین نابود نہیں ہو جاتے شریعت کا کوئی چھوٹا سا حرف یا ذرا سا شوشہ تک مٹنے نہ پائے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے۔ اس لیے جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں کو توڑتا ہے اور دوسروں کو بھی یہی کرنا سکھاتا ہے وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا۔ لیکن جو ان پر عمل کرتا ہے اور دوسروں کو بھی ان حکموں کی تعلیم دیتا ہے وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے گا "۔[22]مزید وضاحت انجیل متی میں یو ں کی گئی ہے:

’’چنانچہ جو کوئی میری باتیں سنتا اور ان پر عمل کرتا ہے وہ اس عقل مند آدمی کی مانند ٹھہرے گا جس نے اپنا گھر چٹان پر تعمیر کیا۔ بارش ہوئی، سیلاب آیا اور آندھیاں چلیں اور اس گھر سے ٹکرائیں مگر وہ نہ گراکیوں کہ اس کی بنیاد چٹان پر رکھی گئی تھی۔ لیکن جو میری باتیں سنتا ہے اور ان پر عمل نہیں کرتا وہ اس بیوقوف آدمی کی مانند ہے جس نے اپنا گھر ریت پر بنایا۔ بارش ہوئی، سیلاب آیا، آندھیا ں چلیں اور اس گھر سے ٹکرائیں اور وہ گر گیا اور بالکل برباد ہو گیا۔ جب یسوع مسیح یہ باتیں ختم کر چکا تو ہجوم اس کی تعلیم سے حیران ہوا۔ کیونکہ وہ انہیں ان کے علمائے شریعت کی طرح نہیں بلکہ ایک صاحب اختیار کی طرح تعلیم دیتا تھا "[23]

یقینا یہ انداز تمام معلمین اور علماء کا نہیں ہے بلکہ انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ خاص ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو نبوی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی افادیت اور اہمیت کو یوں اجاگر کیا:’’اے محنت کشو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو! میرے پاس آؤ۔ میں تمہیں آرام بخشوں گا۔ میرا جوأاٹھا لو اور مجھ سے سیکھو کیونکہ میں حلیم ہوں اور میرا دل فروتن ہے اور تمہاری روحوں کو آرام نصیب ہو گا اسی لیے کہ میرا جوأنرم اور میرا بوجھ ہلکا ہے "۔[24]

حضرت عیسیٰ علیہ السلام تعلیم وتدریس کے فرائض سر انجام دے رہے تھے تو ان کی قوم باتیں سن کر حیران ہوئی ۔

انجیل مرقس میں ہے : "سب لوگ اتنے حیرا ن ہوئے کہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ کیا ہے؟ یہ تو نئی تعلیم ہے۔ یہ بدروحوں کو اختیار کے ساتھ حکم دیتا ہے اور وہ اس کا کہا مانتی ہیں "۔[25]

انجیل مرقس میں ہی دوسری جگہ پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفت معلمی کو یوں واضح کیا گیا ہے:

’’جب سبت کا دن آیا تو وہ مقامی عبادت خانے میں گیا اور وہاں تعلیم دینے لگا۔ بہت سے لوگ اس کی تعلیم سن کر حیران ہوئے اور کہنے لگے۔ اس نے یہ ساری باتیں کہاں سے سیکھی ہیں۔ یہ کیسی حکمت ہے جو اسے عطا کی گئی ہے؟ اور اس کے ہاتھوں کیسے کیسے معجزے ہوتے ہیں؟" ۔[26]

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذات گرامی احکام الٰہی کی بجاآوری کے لئے عمدہ تصویر ہے،آپ ﷺ نے اپنے قول و عمل سے احکام الٰہی کی تعمیل کا طریقہ بتا دیا ہے۔قرآنی احکام کی کما حقہ ادائیگی اسی وقت ممکن ہے جب رسول اللہ صلی

اللہ علیہ وسلّم کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ہوگی۔سورۃ الاحزاب میں ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [27]

’’درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘

جس طرح کلام الٰہی کی تبیین و تشریح حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کا فریضہ تھا اسی طرح مجملات قرآن کی تفصیل،مبہمات قرآن کی توضیح ،مشکلات قرآن کی تفسیر اور اشارات قرآن کی تشریح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی بنیادی ذمّہ داریوں میں سے تھا۔سورۃ النحل میں ہے:

وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ؂[28]

"اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح و توضیح ان کے سامنے کرتے جاؤ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے"

مزید وضاحت یوں کی گئی ہے:       وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُـبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ؂[29]

"ہم نے یہ کتاب تم پر اس لیے نازل کی ہے کہ تم ان اختلافات کی حقیقت ان پر کھول دو "۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے محض قرآنی آیات سنانے پر اکتفانہیں کیا بلکہ اپنے اقوال و اعمال سے لوگوں کوتعلیم دی ، قر آن مجید کی تعلیمات کے مطابق ان کا تزکیہ بھی فرمایااور آپ ﷺنے لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی خرابیوں کو دور کرکے ان میں بہترین اوصاف پیدا کئے ۔سورۃ الجمعہ میں ہے:

هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ[30]

’’وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا، جو انہیں اس کی آیات سناتا ہے ان کی زندگی سنوارتا ہے ، اور ان کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے "۔

واجب اتباع انبیاء و رسل کے اوامر و نواہی عام انسانوں اور راہنماؤں کی طرح قیاس پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ ان کے اجتہادات اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بلاواسطہ ان کی راہنمائی فرماتاہے ااور جہاں کہیں چوک ہو فوراََ اللہ تعالیٰ اصلاح فرمادیتا ہے اسی لئے انبیاء و رسل جس قوم کی طرف مبعوث کئے گئے تھے ان کی اطاعت و اتباع قوم پر فرض قرار دی گئی تھی اگر کوئی قوم پیغمبر کی اطاعت و اتباع نہیں کرتی تھی تووہ عذاب الٰہی کی مستحق ٹھہرتی تھی۔

یہود کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اطاعت اور اتّباع کو لازم کیا گیا تھا کہ وہ معاملات زندگی میں ان سے راہنمائی

لیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اپنی اطاعت اور اتباع کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

"اب اے اسرائیلیو! جو آئین اور احکام میں تجھے سکھانے کو ہوں انہیں سنو اور ان پر عمل کرو تاکہ تم زندہ رہو اور جا کر اس ملک پر قابض ہو جاؤ جو خداوند تمہارے باپ دادا کا خد اتمہیں دے رہا ہے۔ جو حکم میں تمہیں دیتا ہوں اس میں نہ تو کچھ اضافہ کرنا اور نہ اس میں کچھ گھٹانا بلکہ خداوند تمہارے خدا کے جو احکام میں تمہیں دے رہا ہوں ان کے پابند رہنا"[31]

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو یہ نصیحت فرمائی کہ جو احکام میں نے تمہیں دئیے ہیں ان پر عمل کرنے میں احتیاط سے کام لینا یعنی کسی قسم کی غفلت اور لاپرواہی سے بچنا اور یہ باتیں اپنے تک محدود نہ سمجھنا بلکہ یہ پیغام اپنی آنے والی نسلوں تک پہنچاؤ تاکہ ان کو معلوم ہو کہ اصل کامیابی و کامرانی پیغمبر کی اتباع میں ہی پنہاں ہے۔ کتاب استثناء میں ہے:

’’دیکھو میں نے اپنے خداوند کے حکم کے مطابق تمہیں آئین اور احکام سکھا دئیے ہیں تاکہ تم اس ملک میں ان پر عمل کرو جس پر قبضہ کرنے کے لیے جا رہے ہو۔ تم نہایت احتیاط کے ساتھ ان پر عمل پیرا ہو کیونکہ اسی سے اور قوموں کو تمہاری عقل اور فراست کا ثبوت ملے گاا ور وہ ان تمام آئین کو سن کر کہیں گی کہ واقعی یہ عظیم قوم اور کونسی ہے جس کا معبود اپنی قوم کے اس قدر نزدیک ہو جیسا خداوند ہمارا خدا ہماری ہر دعا کے وقت ہمارے پاس ہوتا ہے؟ اور دوسری کونسی اس قدر عظیم قوم ہے جس کے پاس اس شریعت جیسے راست آئین اور احکام ہیں جیسے میں آج تمہارے سامنے رکھتا ہوں؟ لہذا محتاط اور نہایت خبردار رہو ایسا نہ ہو کہ جو کچھ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اسے ہمیشہ کے لیے بھول جاؤ اور وہ تمہارے دل سے محو ہو جائے۔ تم یہ باتیں اپنی اولاد کو اور ان کے بعد ان کی اولاد کو سکھاؤ"۔[32]

انسان اپنے لیے خیر اور بھلائی کو پسند کرتا ہے جو چیزیں انسان کی فلاح کے لیے ہوتی ہیں انسان کی طبع ان کو قبول کر تی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم کو احکام کی پیروی اور اتباع کرنے کا حکم دیتے ہوئے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اتباع اور پیروی میں صرف تمہارا ہی بھلا نہیں ہے بلکہ تمہارے بعد آنے والی تمہاری اولاد یں بھی خیر اور بھلائی پائیں گی۔

کتاب استثناء میں ہے:

" لہذا آج کے دن تم جا ن لو اور اپنے دل میں یہ بات بٹھا لو کہ اوپر آسمان میں اور نیچے زمین میں خدا وند ہی خدا ہے اور کوئی دوسرا نہیں۔ اس کے جو آئین اور احکام میں تمہیں دے رہا ہوں انہیں مانو تاکہ تمہارا اور تمہارے بعد تمہاری اولاد

کا بھلا ہو اور اس ملک میں جو خداوند تمہارا خدا تمہیں ہمیشہ کے لیے دے رہا ہے۔ تمہاری عمر دراز ہو" ۔[33]

جتنے انبیاء و رسل دنیا میں مبعوث ہوئے ہیں ان کی قوموں کی بقاء اور بھلائی اپنے نبی کی اتباع اور پیروی میں ہی ممکن تھی، اسی لیے تمام انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قوم کو اسی بات کی نصیحت کہ وہ نبی کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

"یہ احکام جو میں تمہیں دے رہا ہوں، تمہارے دل پر نقش ہوں تم انہیں اپنی اولاد کے ذہن نشین کرو، جب تم گھر میں بیٹھے ہو یا راہ چلتے ہو یا لیٹے ہو یا جب اٹھو تو ان کا ذکر کرتے رہا کرو۔ تم انہیں اپنے ہاتھوں پر نشان کے طور پر باندھنا اور اپنی پیشانیوں پر لپیٹ لینا اور انہیں اپنے گھروں کے دروازوں کی چوکھٹوں پر اور اپنے پھاٹکوں پر تحریر کرنا "۔[34]

حضرت موسیٰؑ  نے اپنی قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ برکت اور لعنت کے کون مستحق ہیں تویہ بات یاد رکھوجو میری پیروی کرے گا وہ برکت پائے گا اور جو انحراف کرے گا وہ لعنت کا مستحق ٹھہرے گا۔

’’دیکھو۔ آج میں تمہارے سامنے برکت اور لعنت دونوں رکھ دیتا ہوں۔ برکت اس حال میں پاؤ گے جب تم خداوند اپنے خدا کے احکام پر جو آج میں تمہیں دے رہا ہوں، عمل کرو گے اور لعنت اس صورت میں اگر تم خداوند اپنے خدا کے احکام پر عمل نہ کرو اور جن دوسرے معبودوں سے تم واقف نہ تھے ان کی پیروی کر کے اس راہ کو چھوڑ دو جس پر چلنے کا آج میں تمہیں حکم دیتا ہوں"۔[35]

مزید فرمایا:   "دیکھو کہ جتنے احکام میں تمہیں دیتا ہوں ان سب پر عمل کرو۔ ان میں نہ تو کچھ اضافہ کرو اور نہ ان میں سے کچھ گھٹاؤ"[36]

نصاریٰ کو بھی یہی حکم دیا گیا تھاحضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے لئے واجب اطاعت اور لازم تقلید ہیں۔حضرت عیسیٰ ؑ کے ساتھ محبت کی شرط یہ ہے کہ ان کی اتباع اور اطاعت کی جائے۔زبانی محبت کے دعوؤں کی کوئی حیثیت نہیں ہے اصل یہ کہ معمولات زندگی میں ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں۔

انجیل یوحنا میں ہے:         "اگر تم مجھے پیار کرتے ہو تو میرے حکم مانو "۔[37]

انجیل مقدس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا گیا ہے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے

اپنے شاگردوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

"جو تمہاری اطاعت کرے گا وہ میری اطاعت کرے گا اور جو میری اطاعت کرے گا وہ خدا کی اطاعت کرے گا ‘‘۔[38]

انجیل مقدس میں اقرارِ رسالت کو ایمان اور انکار رسالت کو کفر کی علامت اور نشانی قرار دیا گیا ہے۔

انجیل متی میں ہے:    "جو کوئی آدمیوں کے سامنے میرا اقرار کرتا ہے، میں بھی اپنے آسمانی باپ کے سامنے اس کا اقرار کروں گا لیکن جو کوئی آدمیوں کے سامنے میرا انکار کرتا ہے، میں بھی اپنے آسمانی باپ کے سامنے اس کا انکار کروں گا[39]

انجیل لوقا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اسی بات کی مزید وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے:

’’میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جو آدمیوں کے سامنے میرا اقرار کرتا ہے ، ابن آدم بھی خدا کے فرشتوں کے روبرو اس کا اقرار کرے گا۔ لیکن جو آدمیوں کے سامنے میرا انکار کرتا ہے۔ اس کا انکار خدا کے فرشتوں کے روبرو کیا جائے گا "[40]

مسلمانوں کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی اتّباع واطاعت اسی طرح فرض ہے جس طرح اللہ کے ہر حکم کی اطاعت کرنا فرض ہے۔قرآن مجیدمیں آپ ﷺ کی زندگی کو واجب تقلید قرار دیا گیاہے اور امّت کو آپ ﷺ کے اسوۂ کے اتّباع کی تلقین کی گئی ہے ۔ سورۃ النساء میں ہے:

وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ [41]

"ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اذنِ خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے"

اللہ تعالیٰ کی محبت کا حصول رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہی ممکن ہے۔   سورۃ اٰل عمران میں ہے:

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ [42]

’’اے نبی ! لوگوں سے کہہ دو کہ " اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو ، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں کو در گزر فرمائے گا ۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے "۔

کسی بھی مسلم کو اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی مخالفت کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے اگر کوئی مخالفت سے کام لیتا ہے تو عذاب کا مستحق ٹھہرے گا۔ سورۃ الانفال میں ہے:

وَمَنْ يُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ؂[43]

"اور جو اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت سخت گیر ہے"۔

اطاعت رسول ﷺسے انحراف دنیوی آزمائش یا مصائب میں ابتلاء کا سبب یا اخروی عذاب کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔

سورۃ النور میں ہے:    فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ؂[44] "رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے"۔

اطاعت رسول ﷺسے انحراف کرنے والے کے لئے قیامت کے دن سوائے ندامت اور مایوسی کے کچھ نہیں ہوگا۔سورۃ النساء میں ہے:      يَوْمَىِٕذٍ يَّوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ لَوْ تُـسَوّٰى بِهِمُ الْاَرْضُ [45]

’’اس وقت وہ سب لوگ جنہوں نے رسول کی بات نہ مانی اور اس کی نافرمانی کرتے رہے ، تمنا کریں گے کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں"۔

سورۃالفرقان میں مزید اس کی وضاحت کی گئی ہے:

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْهِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا؂[46]

’’ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا کاش میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ساتھ دیا ہوتا"۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی نافرمانی جہنم میں جانے کا سبب بن جاتی ہے۔سورۃالاحزاب میں ہے:

يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا[47]

"جس روز ان کے چہرے آگ پر الٹ پلٹ کیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کہ " کاش ہم نے اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کی ہوتی"۔

پیغمبر کی بعثت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کے نقش قدم پر چلاجائے ،کسی بھی قوم کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ اور اس کے پیغمبر کے فرامین میں کوئی فرق روا رکھے، احکام الٰہی اور فرامین رسول دونوں اسی ہستی بالا کی طرف سے ہوتے

ہیں۔پیغمبر کے فرامین اس کی قوم کے لئے اسی طرح حجت اور واجب اطاعت ہوتے ہیں جس طرح اللہ کے احکام واجب

التعمیل ہوتے ہیں، اس لئے کتب مقدسہ میں انبیاء و رسل کی اطاعت اور اتباع کو مستقل بالذات اور منفرد طور پر دین و

مذہب کی اساس قرار دیا گیاہے۔

خلاصہ بحث :

الہامی مذاہب میں انبیاء کرام علیہم السلام کے احترام ،تعظیم اوران کی ذات کی تقدیس کو لازم قرار دیا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے کتابِ تورات اور انجیلِ مقدس کے حاملین نے مذہبی تعصبات کی وجوہات پر ان کتب کے بعض اجزاء کو تلف کردیا اور بعض میں تحریف وتبدّل سے کا م لیاہے،اس کی بیّن شہادت کتاب تورات اور انجیل مقدّس میں انبیاء علیہم السلام کی طرف منسوب بعض ایسی باتیں ہیں جو منصب نبوّت ورسالت کے شایانِ شان نہیں ہیں،لیکن تحریف وتبدّل کے باوجود منصبِ نبوّت و رسالت کے متعلق ان کتب کی ہدایات کا قرآنی تعلیما ت کے مطابق ہونا ان کی الہامی شان کو نمایاں کر رہاہے۔کتاب تورات ،انجیل مقدس اور قرآن مجیدکی روشنی میں نبوّت ورسالت کا جائزہ لینے کے بعد مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی پیغمبر کوکسی قوم کی طرف معبوث کرتاہے تو وہ پیغمبر اپنی قوم کے لیے امام، پیشوا،معلّم، ہادی، واجب اطاعت اور نمونہ تقلید ہوتا ہے ۔انبیاء ورسل جن اقوام کی طرف مبعوث کئے گئے تھے ان کے لئے ان کی اطاعت و اتباع کے بغیراکمال دین کا تصوّر بھی نہ تھا ۔جس طرح مسلمانوں کے لئے رسول اکرم ﷺ کی حدیث قطعیت اور حجیت کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی طرح یہودیت کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور عیسائیت کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اقوال اور افعال کی پیروی لازم قرار دی گئی تھی ۔قرآن مجید کی طرح تورات اور انجیل میں بھی یہ صراحت کی گئی ہے کہ پیغمبر کی بات کا انکار دراصل اللہ کی بات کا انکارہے اور پیغمبرکی اطاعت و اتباع دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے قبل انبیاء کرام علیہم السلام یکے بعد دیگرے لوگوں کی اصلاح کے لئے تشریف لائے تھے، وہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قوم کے لئے واجب اطاعت اور نمونہ تقلید تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی آمد کے بعدسلسلہ نبوّت و رسالت کی تکمیل ہوگئی ہے اب پوری دنیا کے لئے دنیوی اور اخروی فلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی اتباع اور اطاعت میں ہی ممکن ہے۔آپﷺ کی حدیث کی حجیت اور قطعیت سے انکار حقیقت میں نہ صرف رسالت و نبوّت کا انکار ہے بلکہ انکارِ دین کے مترادف ہے۔رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو وحی اور حجت تسلیم کرنا ایمان کا اوّلین تقاضا ہے اور آپ ﷺ کی حدیث کے بغیر اکمال دین کا تصوّر محال ہے۔

حوالہ جات

[1] ۔ بائبل ،خروج،7: 1-2،انٹرنیشنل بائبل سوسائٹی ،یونائیٹڈسٹیٹس،امریکہ

[2] ۔ خروج، 6:7

[3] ۔ خروج، 7:10

[4] یوحنا، 7: 14-17

[5] یوحنا، 17: 7-8

[6] النجم، 53 : 3-4

[7] یونس،10: 15

[8] الحاقۃ، 69:  44-46

[9] گنتی، 9: 4-8

[10] استثناء، 4: 39-40

[11] استثناء، 12: 32

[12] استثناء ، 18: 20

[13] یوحنا، 8 :45-47

[14] یوحنا، 13: 20

[15] النساء،80:4

[16] النجم، 53 : 3-4

[17] الحشر ،59: 7

[18] النساء،4:65

[19] استثناء، 4: 13-14

[20] استثناء، 1:5

[21] استثناء، 6: 1

[22] متی، 5: 17-19

[23] متی، 8: 24-29

[24] متی، 11 : 28-30

[25] مرقس، 1: 27  

[26] مرقس، 6: 4

[27]الاحزاب،33 : 21

[28] النحل، 16 : 44

[29] النحل، 16 : 64

[30] الجمعۃ، 62: 2

[31] استثناء، 4 : 1-2

[32] استثناء، 4 : 5-9

[33] استثناء، 4 : 39

[34] استثنا، 6 : 6-9

[35] استثناء،  11 : 26-28

[36] استثناء، 12 : 32

[37] یوحنا،  14: 15

[38] متی، 10 : 40

[39] ۔ متی، 10 : 32-33

[40] ۔ لوقا،  12 : 8-9

[41] النساء، 4: 64

[42] اٰلِ عمران،3: 31

[43] الانفال، 8: 13

[44] النور، 24: 63

[45] النساء، 4: 42

[46] الفرقان، 25: 27

[47] الاحزاب، 33: 66

Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...