Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-ʿILM > Volume 3 Issue 1 of Al-ʿILM

مکی دور نبوت اور مسلم اقلیت کافقہ السیرۃ کی روشنی میں سماجی مطالعہ |
Al-ʿILM
Al-ʿILM

Article Info
Authors

Volume

3

Issue

1

Year

2019

ARI Id

1682060040263_1165

Pages

48-69

PDF URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/16/14

Chapter URL

http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/16

Subjects

Muslims Seerah Makki period Fiq. Ul. Seerah Problems

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

رسول اقدسﷺ کی حیات طیبہ کواللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ عمل قراردیاہے اورکئی امامان ِ سیرت وحدیث کے مطابق آپﷺ کی مکمل زندگی تعمیم کے ساتھ اسوہ حسنہ کادرجہ رکھتی ہے۔اس لیے سیرت نبویﷺ کے کسی دورکی اہمیت سے انکارممکن نہیں ہے لیکن مکی دورنبوت کی مختلف جہات کامطالعہ اس طرح سے نہیں کیاگیاجیسا کہ اس کی ضرورت ہے۔اگرچہ مؤرخین وسیرت نگاروں نے مکی زندگی کے مختلف پہلوؤں پرگفتگوکی ہے لیکن اس کے باوجودبہت سے گوشوں پرابھی بھی دبیزپرد ے پڑے ہوئے ہیں۔مثال کے طورپرآپﷺ نے حضرت خدیجہؓ سے شادی کی اوریہ اعلان نبوت سے پہلے بھی ایک کامیاب شادی تھی اوربعدازبعثت بھی۔آپﷺ نے قبل بعثت ایک کامیاب تاجرکی حیثیت سے زندگی گزاری اوربلاذری،ابن کثیراوربعض دوسرے مؤرخین کے مطابق اعلان نبوت کے بعدابوسفیان بن حرب اموی جیسے بڑے قریشی تاجروصاحب مال کے ساتھ شراکت کی بنیادپرتجارت کی۔ جنگوں اورمعاہدوں میں اپنے قبیلے کے ساتھ شرکت کی۔ فلاحی ورفاہی کاموں میں بھرپورحصہ لیااورسماجی ومعاشرتی رسوم ورواج کے مطابق زندگی کے مختلف امورانجام دیے۔ان تمام امورکاگہرائی سے مطالعہ کیاجاناضروری ہے۔اس لیےمکی دورنبوت کے سماجی مطالعہ کی مددسے مسلم اقلیتوں کے معاشرتی اورمعاشی امسائل کے حل سے عہدہ برآہونے میں کافی مددمل سکتی ہے۔

 

ذرائع رسل و رسائل اورابلاغ میں ترقی ، قبائلی عصبیت میں تنزلی اورمختلف خطوں میں مقیم انسانوں کے باہمی میل جول سے دنیا تیزی سے Plural Society بن رہی ہے جس میں لسانی، مذہبی، سیاسی اورثقافتی عصبیتوں کی کمزروی کے نتیجے میں اقلیت و اکثریت کے قدیم تصورات میں بہت بڑا تغیر دیکھنے میں نظر آرہا ہے۔ ماضی میں ابتدائی مکی زندگی کے علاوہ مسلمانوں کو وسیع علاقوں پر حکمرانی اور وسائل کی فراوانی کی وجہ سے غلبہ حاصل تھااوروہ محکوم اقلیت نہ تھے۔ اپنے ملک میں وہ اقلیتوں کو احوال الشخصیہ کے عنوان سے بے انتہاء مذہبی آزادی دے دیتے تھے اوربطورذمی ان کے حقوق کاخیال رکھتے تھےلیکن خود اقلیت بنتے نہیں تھے ۔اس لیے فقہی لٹریچر میں صرف ذمی اور حربی کے مباحث ملتے ہیں۔ لیکن عصر حاضر میں کئی غیرمسلم ممالک میں مسلمان نہ صرف عددی اعتبار سے کمزور ہیں بلکہ انہیں شخصی اور مذہبی معاملات میں بھی مشکل حالات کاسامناکرنا پڑتا ہے جس سے مسلمانوں کےلیے ایک بالکل نئی صورتحال پیدا ہوئی ہے جس سے تاریخی طور پر وہ اپنی حریت پسندی کی وجہ سے نا آشنا تھے۔ ان حالات میں مسلمانوں کے لیے بحیثیت اقلیت کیا لائحہ عمل ہونا چاہئے؟ ان غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کا طرزِ معاشرت کیسا ہو؟ حکومتوں اور غیر مسلم عوام کے ساتھ ان کا تعلق کس نوعیت کاہو؟فکری بنیادوں پرغیرمسلموں کے شبہات کاجواب کیسے احسن طریقے سے دیاجائے؟مقامی وملکی قوانین کے حوالے سے ایک مسلمان کے لیے کیاحدودوقیود ہونی چاہییں؟مقامی ثقافت کوقبول کرنے کی کیاحدودہوسکتی ہیں؟وراثت اورنکاح وطلاق کے احکامات میں مرافعہ کی صورتحال کیاہوگی؟اسلامی شعائرکے تحفظ کے لیے کیاکیاجاسکتاہے؟غیرمسلم رشتہ داروں سے کس طرح کاطرزعمل اختیارکیاجائے؟تجارتی تعلقات کی نوعیت کیاہونی چاہیے؟تبلیغ دین کے لیے کونسے عملی طریقے اپنائے جائیں؟اس کے علاوہ مقامی غیرمسلموں کے ساتھ تہواروں میں شریک ہونا، اپنے عائلی مسائل کے حل کے لیے غیر مسلم عدالتوں سے رجوع کرنا، حلال و حرام کے مسائل، اولاد کی تربیت کے مسائل جیسے بہت سے جدید مسائل پیدا ہوئے جن کے حل کے لیے قرآن وسنت سے رہنمائی کی ضرورت ہے۔

 

مجموعی طورپرزندگی کے تمام مسائل کے حل کی تلاش کے لیے چونکہ ہمارے لیے اوّل و آخر نمونہ عمل نبی اقدسﷺ کی ذات اطہر ہے اس لیے اس سلسلہ میں سیرت رسول اللہ ﷺ سے رہنمائی بہت ضروری ہے کیونکہ نبی اقدسﷺ کی مکی زندگی کاسماجی مطالعہ مسلم اقلیتوں کے لیے ایک اہم ضابطہ عمل بن سکتا ہے۔عصرحاضرمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان نبی اقدسﷺ کی مکی زندگی کا اس نقطہ نظر سے نئے سرے سے مطالعہ کریں اور اس کی روشنی میں نہ صرف فقہ الاقلیات کے معیارات کو متعین کریں بلکہ اس امر کو بھی یقینی بنائیں کہ غلبے کے دور کے فقہی مسائل کو مسلم اقلیتوں پر مسلط کر کے ان کے لیے تنگی پیدا نہ کریں اور نہ ہی فقہ الاقلیات کے نام پر کفار سے اس قدر مشابہت اختیار کریں کہ ان کی اپنی شناخت ہی ختم ہو کر رہ جائے۔ آپﷺنے اپنی زندگی کابیشترحصہ مکہ میں گزارا۔اورآپﷺکی طرف سے اعلان نبوت کے بعدابتدائی مسلمانوں کے لیے مکہ کی زندگی بہت سے مسائل سے دوچارتھی۔ معاشرتی طورپرتومکہ کے مسلمان کسی نہ کسی طرح حالات کامقابلہ کررہے تھے لیکن مذہبی طورپرنومسلموں کی زندگی کسی عذاب سے کم نہ تھی لیکن اس کے باوجودکفارمکہ اورمسلمان مختلف معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق قائم رکھے ہوئے تھے۔ قبل بعثت اوربعدازبعثت مکی دورنبوت میں آپﷺ اورمسلمانوں نے مذہبی، معاشرتی اورسیاسی طورپرکون سے مسائل کاسامناکیااور ان کے حل کے لیے آپﷺ کی سیرت سے کیارہنمائی ملتی ہے؟قرآن مجیدمیں ان حالات میں کس قسم کے طرزعمل کے اپنانے کاحکم دیاگیا؟مکہ میں مسلمانوں نے بحیثیت اقلیت ، معاشی معاملات کی انجام دہی میں کیاطرزعمل اپنایا؟سماجی معاملات اورتجارتی معاملات کس نہج پرانجام دیے گئے؟

 

یہ ایک حقیقت ہے کہ دین حق ،اسلام کاآغازوارتقاء ہمیشہ غیرمسلم غلبہ والے علاقہ میں ہوا۔اس کے ماننے والے مسلمان اپنے وطن مالوف میں بالعمو م اقلیت میں ہی رہے ہیں۔کثیرقومی اورمختلف المذاہب سماج میں ان کاملّی تشخص اوردینی تفردقائم ہوا۔ہرسماج وتہذیب کے قومی دھارے کے خلاف یااس کے متوازی ان کاملی اورمذہبی نظام استوارہوا۔اسی بناء پرنئے نظام، نئے دین اوران کے پیروؤں کی مخالفت لازمی عنصرتھا۔پرانانظام اورپرانادین اصلاح وتہذیب کوبرداشت کرسکااورنہ ہی اس کے علمبرداراصلاح پسندوں کو۔حق وباطل کی یہ ستیزہ کاری حضرت آدمؑ سے لے کرپیغمبرآخرحضرت محمدرسول اللہ ﷺ تک جاری رہی۔یہی اسلام کی تہذیبی، ملی اوردینی تاریخ ہے۔ایسے ہی معاشرے میں اسلام کے ماننے والوں نے ہمیشہ اپنی بقاء کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔آج بھی دنیاکے بہت سے غیرمسلم ممالک میں مسلمانوں کوایسے ہی مسائل کاسامناہےجن کے لیے مکی اسوہ رسولﷺ بہترین راہ عمل ہے۔

 

مکی دورنبوت آپﷺ کی زندگی کاایک شاندارباب ہےلیکن اس پہلوکی طرف وہ توجہ نہیں دی گئی جواس کاحق تھا۔سیرت نگاروں نے مکی عہدکواس اندازسے بیان نہیں کیااوراس سے اعتنانہیں کیاجس قدراس کی ضرورت تھی۔ڈاکٹریٰسین مظہرصدیقی نے خطبات سرگودھا میں سیرت نگاروں کی اس غفلت اوربے اعتنائی کاذکرنہایت دردناک انداز میں کیاہے۔اورجس طرح سیرت نگاروں نے مکی اورمدنی واقعات کوگڈمڈکیاہے اس پرافسوس کااظہارکیاہے۔[1]دین اسلام کی تعلیمات نہایت واضح اورآسان وسادہ ہیں جن پرہرشخص کواپنی استطاعت کے مطابق عمل کرنے کاحکم دیاگیاہے۔اسی رعایت اورسادگی کی بدولت ہرمسلمان اس کی تعلیمات پرعمل پیراہوسکتاہے۔اوراسلام کی ان تعلیمات کے معلم اوربہترین عملی نمونہ کے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہمارے سامنے موجودہے۔جب تک آپﷺ کی سیرت کوپڑھانہ جائے اوراس کی صحیح تفہیم کے حصول کے لیے کوشش نہ کی جائے اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔اسی لیے اللہ تعالی نے مطلقاً رسول اکرمﷺ کی زندگی کے بارے میں ارشادفرمایاکہلَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [2]

 

زیرنظرمقالہ میں مکی دورنبوت کوسامنے رکھتے ہوئے مذہبی، معاشرتی اورسیاسی پہلوؤں سے بحث کی جائے گی کہ آپﷺ نے مکہ مکرمہ میں جونمونہ عمل پیش کیااس سے عصرحاضرمیں مسلم اقلیتوں کے مسائل کے حل میں کس طرح رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہےاورکس نہج پرمکی دورنبوت سے استفادہ کیاجاسکتاہے کیونکہ بحیثیت مسلمان ہمارے لیے جائے پناہ رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہی ہے جہاں سے ہم زندگی گزارنے کے اصول مستنبط کرسکتے ہیں۔ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پرفرض ہے کہ ہم ہرمعاملے میں رسول اکرمﷺ کی مکمل پیروی کریں۔حافظ ابن قیم بیان کرتے ہیں کہہرشخص کے لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ ﷺ کاقول پہنچ جانے کے بعدہردوسرے قول کومستردکردے کیونکہ آپﷺ کے حکم کے بعدکسی کاحکم قابل قبول نہیں ۔نہ آپﷺ کے قول کے بعدکوئی قول قابل تسلیم ہے اورنہ آپﷺ کے مسلک کے علاوہ کوئی مسلک لائق اختیارہے۔[3] غیررسول کی اطاعت وپیروی اسی صورت میں جائز ہے جب وہ رسول کے بتائے ہوئے احکام کوآگے پہنچائے اوراس کی حیثیت محض مبلغ کی ہواوروہ انہی باتوں کی تلقین کرے جورسول کے احکامات اورتعلیمات کے موافق ہوں۔

 

دورجدیدمیں مختلف انسانی معاشروں کوبہت سے سماجی، تہذیبی اورثقافتی مسائل کاسامناہےجومعاشرتی نشووارتقاء اورحالات وزمانہ کی تبدیلی کانتیجہ ہیں۔کسی بھی تہذیب وثقافت کابنیادی کرداریہ ہے کہ دنیوی اوردینی زندگی کے بارے میں ایسے افکاروعقائدکی حامل ہوجوفردکی تربیت اورانفرادی مسائل کے ساتھ ساتھ اجتماعی نظام کی تشکیل اوراس میں پیداہونے والی مشکلات ومسائل کااحاطہ کرسکےاورایسے اصول وکلیات پرمبنی ہوجوہرزمانے کے تقاضوں کاساتھ دے سکیں۔کثیرالمذاہب سماج میں رہائش پذیرافرادجب تہذیبی وثقافتی اوردینی مسائل کاسامناکرتے ہیں توان کے رویے تین طرح کے ہوتے ہیں۔1۔یاتوکلی طورپراپنی تہذیب وثقافت اوردین کوخیرآباد کہہ دیتے ہیں۔2۔جواس قدربڑاقدم نہ اٹھاسکیں وہ غیروں سے متاثرہوکراوران کے اعتراضات کاحصہ بن کراندرہی اندرکڑھنے لگتے ہیں اوراحساس کمتری کاشکارہوجاتے ہیں۔3۔وہ اس قدرپختہ اوروسیع الذہن ہوتے ہیں کہ اپنی تہذیب وثقافت اورمذہبی اقدارپرعامل رہنے کے ساتھ ساتھ دوسرے معاشرے کی اچھی اورمثبت اقدارکوبھی اپنالیتے ہیں اوربری اقدارسے اپنے آپ کومحفوظ بھی کرلیتے ہیں۔

 

آپﷺ کوجس معاشرے میں مبعوث کیاگیاوہ تہذیب وثقافت کی حامل قوم تھی۔آپﷺ نے اس تہذیب وثقافت کوکلی طورپرمنہدم کیااورنہ ہی مکمل طورپراسے قبول کرلیابلکہ جوچیزیں وحی اورفطرت انسانی کی روشنی میں اچھی تھیں ان کوقبول کرلیااوراس کے برعکس چیزوں کوترک کردیا۔آپﷺ نے جاہلی معاشرے کی رسوم ورواج کومکمل طورپرترک کرنے کی بجائے اسے اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔آپﷺ کے اس طرزعمل کوشاہ ولی اللہ نے حجتہ اللہ البالغہ میں بیان کیاہے جس کاخلاصہ یہ ہے کہ:

 

1۔جوباتیں شریعت اسمٰعیلیہ کے موافق تھیں یاشعائراللہ تھے ان کوباقی رکھااوردین ابراہیم واسماعیل کوخالص شکل میں پیش کیا۔

 

2۔جن باتوں میں آپﷺ کوتحریف یافسادنظرآیااورشعائراللہ کے خلاف نظرآئیں ان کوباطل قراردیااوران کی برائی شدت سے بیان کی۔

 

3۔رسوم صالحہ اورفاسدہ کی توضیح فرمائی۔رسوم صالحہ کی پابندی اورترغیب دی اوررسوم فاسدہ کی برائی واضح کی۔

 

4۔عادات کے ابواب میں آداب اورمکروہات کوواضح کیا۔

 

5۔دین ابراہیمی کےجواحکام زمانہ فترت میں متروک ہوچکے تھے اوربھلادیے گئے تھے ان کی تجدیدکی۔[4]

 

چونکہ اسلام کی تہذیبی ترقی اوراس کے تمدن کے فروغ کی بنیادآپﷺ کے قائم کیے ہوئے معیاراخلاق اورسیرت مبارکہ پرہے لہذااگرآج کسی بھی جگہ اسلامی امت کوتہذیب وتمدن اوردین کے مسائل کاسامناہے توان مسائل کے حل کے لیے ہمیں آپﷺ کی سیرت کوبطوراصول معاشرت کے اپناناہوگا۔جس طرح رسول اللہ ﷺ نے اپنے زمانے کے قدامت پسندخیالات اوررسوم ورواج کامقابلہ کرکے ایک نئی فکراورزندگی کی بنیادڈالی اسی طرح آج ہم بھی اسلام کی صحیح تعلیم اورتفہیم کولے کراپنے مسائل کاحل تلاش کرسکتے ہیں ۔

 

مکی دورنبوت میں آپﷺ نے مذہبی ، معاشرتی اورسیاسی طورپر مسلم اقلیتوں کے لیے کونسی مثالیں قائم کیں اوران سے کس طرح استفادہ کیاجاسکتاہے؟ذیل میں ان پہلوؤں پرمختصرگفتگوپیش کی جارہی ہے۔

 

مذہبی زندگی :

آپﷺ شارع اورسب سے بڑے داعی اورمبلغ ہیں اورآپﷺ نے بذات خودتمام اسلامی تعلیمات پرعمل کیااورامت مسلمہ کے لیےعملی نمونہ پیش کیا۔یہ حقیقت ہے کہ مکہ مکرمہ میں آپﷺ کی زندگی میں کفارمکہ کی طرف سے بے شماررکاوٹیں حائل کی گئیں لیکن آپﷺ نے تمام مشکلات کے باوجوداپنا کام جاری رکھااوراسلامی تعلیمات پرعمل اوران کی تبلیغ واشاعت کاسلسلہ جاری رکھا۔سیرت نگاروں نے آپﷺ کی دعوت کومختلف مراتب اورمرحلوں میں تقسیم کیاہے جومندرجہ ذیل ہیں۔

 

پہلامرحلہ:خفیہ دعوت۔یہ مرحلہ ابتدائی تین سال پرمحیط ہے۔

 

دوسرامرحلہ:اعلانیہ دعوت۔صرف زبان سے ۔یہ مرحلہ ہجرت تک جاری رہا۔

 

تیسرامرحلہ:اعلانیہ دعوت۔سرکشوں اورجنگ کاآغازکرنے والوں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے۔یہ مرحلہ صلح حدیبیہ کے سال تک جاری رہا۔

 

چوتھا مرحلہ:اعلانیہ دعوت۔مشرکین، ملحدین، بت پرستوں اوران تمام لوگوں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے جنہوں نے راہ دعوت میں رکاوٹ کھڑی کی یادعوت وتبلیغ کے باوجود اسلام قبول نہیں کیا۔یہی وہ مرحلہ ہے جس پراسلامی شریعت کانظام قائم اوراسلام میں جہادکاحکم مبنی ہے۔[5]

 

مکی دورنبوت میں آپﷺ نے پہلے دومراحل میں دین اسلام کی دعوت عام کی اورلوگوں تک اللہ تعالیٰ کاپیغام پہنچایا۔بحیثیت مسلم اقلیت دین اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لیے ان مراحل کے طریقہ کارکوبطورنمونہ عمل سامنے رکھ سکتے ہیں۔آج غیرمسلم ممالک میں بحیثیت اقلیت مسلمانوں کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ دین اسلام کی دعوت وتبلیغ کافریضہ انجام دیں اورعصرحاضرکے حالات کے تناظرمیں اسلام کی صحیح تصویردنیاکے سامنے پیش کریں۔اس سلسلے میں رسول اکرمﷺ کے مکی دورنبوت میں دعوت دین کی مختلف حیثیتوں اورمراحل کوسامنے رکھاجاسکتاہے۔

 

جب اللہ تعالی کی طرف سے يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۔قُمْ فَاَنْذِرْ۔وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ۔[6]اے چادر لپیٹنے والے اٹھیے اور (لوگوں کو) ڈرائیے اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجیےتوآپﷺ نے ابتداء میں اپنے گھروالوں کواللہ کاپیغام پہنچایااورجولوگ آپﷺ کے انتہائی قریب تھے ان کودین اسلام کی دعوت دی۔ایک بارجب آپﷺ اورحضرت علیؓ نماز اداکررہے تھےتوابوطالب نے دیکھ لیااورآپﷺ سے اس طریق عبادت کے بارے میں سوال کیاتوآپﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول بناکربھیجاہےاوربت پرستی سے منع کیاہے اوراپنی خاص عبادت فرض کی ہےجس کے اداکرنے کایہی طریقہ ہے۔اے چچاجان آپ بھی خداکے اس دین کوقبول کریں اوراس عظیم الشان کام میں میر ی مددکریں۔[7] اس طرزعمل کوسامنے رکھتے ہوئے مسلم اقلیتیں اپنے آس پاس کے قریبی لوگوں کواسلام کی دعوت دے سکتی ہیں جوان کے نہایت قریب ہیں اورجن پرانہیں اعتمادہے کہ وہ ان کی بات کوسنجیدگی سے لیں گے اوراس پریقیناغوروفکرکریں گے۔

 

مسلمانوں کی تاریخ ممالک کوفتح کرنے کے حوالے سے نہایت شاندارہے۔مسلم اقوام نے مفتوحہ علاقوں میں اسلامی تہذیب وتمدن کے انمٹ نقوش بھی چھوڑے لیکن حریف اقوام میں دین اسلام کی اشاعت وتبلیغ میں کوتاہی سے کام لیا۔ابتدائی دورمیں مفتوحہ علاقوں میں مسلمانوں نے نظریاتی اورعملی طورپرغیرمسلموں کواپنی اعلیٰ اخلاقی اورمعاشرتی اقدارسے بہت متاثرکیاجس کی بدولت غیرمسلم اقوام نے اسلام قبول کرنے میں زیادہ تأمل کااظہارنہیں کیا کیونکہ مسلمانوں نے اپنی قومیت کے پرچاراورنسلی ومذہبی تعصب سے بالاترہوکردین اسلام کی تبلیغ واشاعت کی اورخالصاًانسانیت کی اصلاح اوراللہ تعالیٰ کی رضاکی خاطریہ کام کیاگیا۔[8]لیکن بعدکے ادوارمیں یہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا۔ لیکن عیسائیت نے جب اسلام کواپنے لیے ایک خطرہ تصورکیااوراسے اپنامقابل سمجھاتواسلام دشمنی کاآغازکردیاحالانکہ اس سے پہلے عیسائی راہب آپﷺ کی آمدکی نویدسناچکے تھے اور راہب آپﷺ کی نشانیوں کوملاحظہ کرکے آپﷺ کی تصدیق بھی کرچکےتھے۔[9] لیکن اس کے باوجوداللہ تعالیٰ سے کیے گئے وعدہ کے مطابق آپﷺ کی مددکرنے کی بجائے عیسائیوں نے آپﷺ کی مخالفت کی۔مسلم حکومتوں اورمبلغین نے بھی عیسائی ریاستوں کوفتح کرنے کے بعدوہاں اسلام کی شمع روشن کرنے میں وہ کوشش اورسرگرمی نہیں دکھائی جومسلم اسلاف کاطرہ امتیازتھا۔لہذاعصرحاضرمیں مسلمانوں کافرض ہے کہ وہ دین اسلام کی تبلیغ کافریضہ انجام دیں اوراس کے لیے رسول اکرمﷺ کے اسوہ حسنہ کوسامنے رکھیں۔

 

تبلیغ اسلام کے پہلے مرحلے میں آپﷺ نے ابتدائی تین سال تک خفیہ تبلیغ جاری رکھی اورصرف اپنے خاص احباب کودین کی دعوت دی جوحکمت نبویﷺ کاایک شاہکارہے۔غیرمسلم غلبہ والے طبقے میں اشاعت اسلام کاسب سے ابتدائی اوراہم طریقہ خفیہ تبلیغ ہی ہے۔ تبلیغ دین واشاعت اسلام کے دوبنیادی اندازواسلوب مکی عہدمیں اختیارکیے گئے۔ایک خفیہ تبلیغ کاانداز، دوسرے اعلانیہ وببانگ دہل اشاعت کااسلوب۔یہ دونوں وقتی اورعارضی اسلوب نہیں ہیں بلکہ مستقل اورابدی ہیں۔ان دونوں میں تعاقب وتتابع یالازم وملزوم کااصول بھی ہمیشہ کے لیے کارفرماکردیاگیایعنی ایک اندازواسلوب کے بعدہی دوسرااسلوب اختیارکیاجائے گا۔پہلے خفیہ تبلیغ کاطریقہ فرض کردیاگیااوراس کی کامیابی کے بعداعلانیہ تبلیغ کااسلوب متعین فرمایاگیاان دونوں اسالیب میں عظیم حکمتیں پوشیدہ ہیں۔غیرمسلم غلبہ والے سماج میں ہرمقام، ہروقت اورہرزمانے میں تبلیغ کااندازخفیہ رکھنالازمی ہے۔[10]اس لیے مسلم اقلیتوں کوچاہیے کہ وہ اسلام کی اشاعت وتبلیغ کے لیے مکہ اسوہ نبویﷺ کواختیارکریں ۔

 

دوسرے مرحلے میں آپ نے اپنے اعزہ واقرباء کواپنے گھرمیں ایک دعوت طعام پرمدعوکیا اورکھانے سے تواضع کے بعدان کو اسلام کی دعوت دی جس کااکثرنے انکارکردیا۔اس طرزعمل سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ بحیثیت مسلمان غیرمسلم ممالک میں بطوراقلیت زندگی بسرکرنے والے لوگوں پرفرض ہے کہ وہ رسو ل اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق اپنے غیرمسلم رشتہ داروں کودین کی دعوت دیں۔اس حوالے سے ان کی طرف سے کسی قسم کی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔اللہ کاحکم آنے کے بعدآپﷺ نے شدیدقسم کی مخالفت کے باوجودمصلحت سے کام لیتے ہوئے دعوت دین کے کام میں کوئی تاخیرنہیں کی اوراپنے رشتہ داروں کی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اللہ کے حکم کی تعمیل کی۔لہذااس سے نتیجہ نکلتاہے کہ بحیثیت مسلمان کسی دنیاوی فائدے یامصلحت کاشکارہوئے بغیردین اسلام کی دعوت کافریضہ انجام دیناہمارافرض ہے۔

 

جب وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ۔[11]اور آپ ڈرایا کریں اپنے قریبی رشتہ داروں کو کاحکم نازل ہواتوآپ نے

 

عام لوگوں میں دین اسلام کاپیغام عام کرنے کا آغاز کیااوراس سلسلے میں صفاء پراہل مکہ کوبلاکراللہ تعالیٰ کاپیغام پہنچایا۔اس واقعہ کے بعدآپﷺ کے خاندان کے لوگ آپﷺ سے اجنبیت برتنے لگے اورآپﷺ کی دشمنی اورمخالفت میں ایک دل ہوگئے۔ابولہب نے آپﷺ سے متعلق نازیباگفتگوکی جس پرآیت تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ۔[12]نازل ہوئی۔[13]محمدسعیدرمضان البوطی کے مطابق:

 

ان رسول اللہ ﷺحین صدع بالدعوۃ الی الاسلام فی قریش وعامۃ العرب، فاجأھم بمالم یکونوایتوقعونہ أویألفونہ۔ تجدذلک واضحافی ردّابی لھب علیہ، ثم فی اتفاق معظم المشرکین من زعماء قریش علی معاداتہ ومقاومتہ۔[14]

 

جب آپﷺ نے قریش اورعام عربوں کے سامنے اسلامی دعوت کااعلان کیاتوان کے سامنے ایک ایسی چیزپیش کی جس کی انہیں بالکل توقع نہ تھی اورجس سے وہ بالکل نامانوس تھے۔اس کاثبوت یہ ہے کہ اس کوسن کرابولہب نے سخت سست کہاتھااورشریران قریش اس کی دشمنی اورمخالفت پرکمربستہ ہوگئے تھے۔

 

اس کے باوجود چندلوگ ایسے تھے جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی محبت جاگزیں کردی تھی۔یہ لوگ اگرچہ تھوڑے تھے لیکن وہ آپﷺ کی مدداورحمایت میں سینہ سپرہوگئے جن میں ایک آپﷺ کے چچاابوطالب بھی تھے۔[15] آپﷺ نے ان تمام پریشانیوں اورمخالفتوں کے باوجوداسلام کی تبلیغ کاکام جاری رکھااورکسی دشمنی کوخاطرمیں نہ لاتے ہوئے اسلام کاپیغام بھرپورطریقے سے عام کرتے رہے۔آج غیرمسلم ممالک میں مسلم اقلیتیں اس اسوہ حسنہ اور مجادلہ احسن کے اصولوں کومدنظررکھتے ہوئے تبلیغ اسلام کاعظیم کام انجام دے سکتی ہیں۔اس سے آگے عالمی سطح پراسلام کاپیغام عام کرنااسلامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔انفرادی طورپرمسلم اقلیتوں کے افراد کی ذمہ داری اسی حدتک ہے کہ وہ اپنے ہمسائیوں، رشتہ داروں اورعام لوگ جن سے انہیں بالعموم واسطہ پڑتاہے،کواسلام کی دعوت دینے میں کسی کوتاہی سے کام نہ لیں اور اپنے ایک مذہبی فریضہ کی انجام دہی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں۔

 

مذکورہ بالامراحل دین اسلام کی اشاعت وتبلیغ کے حوالے سے اہم ہیں ۔آپﷺ نے مکی عہدمیں اشاعت اسلام کے لیے تین طریقے اختیارفرمائے تھے۔ایک توآپﷺ خودبنفس نفیس ہرفردوبشرکوجاجاکردین کاپیغام پہنچاتے تھے۔دوسراآپﷺ نے اپنے تمام صحابہ کوداعی ، مبلغ اورمشنری بنادیاتھا۔تیسراطریقہ جوآپﷺ نے بیرونی علاقوں اورملکی وبین الاقوامی دیاروممالک میں اشاعت اسلام کے لیے اختیارفرمایاتھاوہ یہ تھاکہ عرب کے قرب وجواراوردوردرازکے گوشوں سے مکہ آنے والوں میں سے اسلام قبول کرنے والوں کوکچھ مدت تک تعلیم وتربیت سے آراستہ فرماکران کواپنے علاقوں اورقبیلوں میں دعوت وتبلیغ کے لیے بھیج دیتے تھے۔[16]

 

آپﷺ نے مکہ مکرمہ میں تعلیم وتربیت کے لیے مختلف مراکزقائم فرمائے تھےجن میں دارارقم سب سے پہلااوربنیادی مرکزتھا۔اوراس کوبہت زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ قدیم سیرت نگاروں اورمؤرخوں نے اس کابھرپورتذکرہ کیاہے۔جدیدسیرت نگاروں نے بھی اس کی اہمیت وشہرت اس حد تک بیان کی کہ مکہ مکرمہ کے دوسرے مراکزنظروں سے اوجھل ہوگئے۔یہ خفیہ تبلیغ کے آغازکے ساتھ ہی تعلیم وتربیت کامرکزبن گیاتھاجس کاثبوت یہ ہے کہ سابقین اولین نے دارارقم میں ہی اسلام قبول کیاتھا۔آپﷺ نے ابتدائی تنظیم اسلامی کاکام یہیں کیاتھا۔آپﷺ سے حضرت ابوذرغفاری ؓ نے یہیں پرملاقات کی تھی اورآپﷺ نے آپ کواپنی قوم میں واپس جانے اوراسلام کی تبلیغ کرنے کوکہا۔[17]اس کے علاوہ بھی کئی مراکزتعلیم وتربیت تھےجن میں خانہ کعبہ کاصحن مبارک، مسجدحرم کے دلان عظیم عمومی اوراجتماعی مراکزتھے۔صحابہ کرام کے گھربنیادی مدرسے بھی تھے اوردینی مراکزبھی۔حضرت ابوبکرصدیقؓ گھربھی ایک مرکزدعوت وتربیت بن گیاتھا۔آپﷺ وہاں تشریف لے جاتے تھے اورحضرت ابوبکرصدیقؓ سے مشورے فرماتے تھے۔اس کے علاوہ بھی کئی دوسرے مراکزتعلیم تھے جہاں نومسلوں کی تربیت کی جاتی تھی اورانہیں بنیادی عقائدومسائل سکھائے جاتےتھے۔مسلم اقلیتوں کے لیے یہ مشعل راہ ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں تعلیم وتربیت کامناسب اہتمام کریں اورایسے مراکزقائم کریں جہاں اسلام کی بنیادی تعلیمات واحکام کی تعلیم وتربیت کوممکن بنایاجاسکے۔

 

ایک مسلمان کوچاہیے کہ وہ اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں بھی رسول اقدسﷺ کے اسوہ حسنہ کوسامنے رکھے اورجس طرح آپﷺ نے مکہ مکرمہ میں مشکلات کے باوجوددینی فرائض کوانجام دیااور کفارمکہ کی تمام ایذاءرسانیوں کوبرداشت کیااسی طرح اگرعبادات کی ادائیگی میں انہیں کوئی مشکلات درپیش ہوں تووہ خندہ پیشانی سے انہیں برداشت کرے اورکسی بھی لمحہ اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے۔

 

البوطی کہتے ہیں کہ ان سب تکالیف کودیکھ کرایک سوال ذہن میں پیداہوتاہے کہ اگرآپﷺ اوراصحاب حق پر

 

تھے تواتنی تکالیف کیوں؟اللہ تعالیٰ نے انہیں ان مصائب سے کیوں نہ بچایاجب کہ وہ اس کے دین کے علم بردارتھے، ان کے درمیان اللہ کارسول موجودتھا۔اس کاجواب وہ یہ دیتے ہیں کہ :

 

أن أول صفۃ للانسان فی الدنیا، أنہ مکلف، أی أنہ مطالب من قبل اللہ عزوجل بحمل مافیہ کلفۃ ومشقۃ، وأمرالدعوۃ الی الاسلام والجھادلاعلاء کلمتہ من اھم متعلقات التکلیف، والتکلیف من اھم مستلزمات العبودیۃ للہ تعالی، اذلامعنی للعبودیۃ للہ تعالی ان لم یکن ثمۃ تکلیف، عبودیۃ الانسان للہ عزوجل ضرورۃ من ضروریات ألوھیۃ سبحانہ وتعالی، فلامعنی للایمان بہاان لم ندرک عبودیتنالہ۔[18]

 

دنیامیں انسان کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ مکلف ہے، یعنی اللہ عزوجل نے اس سے وہ باراٹھانے کامطالبہ کیاہے جس میں مشقت اورپریشانی ہے۔اسلام کی طرف دعوت اوراعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاداس کے اہم متعلقات میں سے ہیں۔مکلف ہوناعبودیت الہٰی کے اہم لوازم میں سے ہے۔اگرانسان کسی چیز کامکلف نہ ہوتوعبودیت الہٰی کے کوئی معنی نہیں۔اوراللہ کی عبودیت اس کی الوہیت کے تقاضوں میں سے ہے۔اگرہمیں اس کی عبودیت کااحساس نہ ہوتواس کی الوہیت پرایمان کے کوئی معنی نہیں۔اس سے معلوم ہواکہ عبودیت کاتقاضاہے کہ انسان مکلف ہواورمکلف ہونے کاتقاضاہے کہ وہ مشقت برداشت کرے، نفس کامجاہدہ کرےاور خواہشات پرقابورکھے۔

 

اس لیے غیرمسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کوچاہیے کہ وہ عبودیت کے تقاضوں کے مطابق اسوہ رسولﷺ کواپناتے ہوئےمشقتوں اورتکالیف کی پرواہ کیے بغیراپنے مذہبی فرائض اداکریں اوراگراس سلسلے میں کسی قسم کی تکالیف ، پریشانیاں اوررکاوٹیں سامنے آئیں توان کوخاطرمیں نہ لاتے ہوئے اپنے مقصدکی تکمیل میں سرگرم رہیں ۔اللہ تعالی بھی فرماتاہے کہ :

 

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ۔ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ۔[19]

 

کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انھیں صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائیگا کہ وہ کہیں ہم ایمان لے آئے اور انھیں آزمایا نہیں جائیگا ۔اور بیشک ہم نے آزمایا تھا ان لوگوں کو جو ان سے پہلے گزرے پس اللہ تعالیٰ ضرور دیکھے گا انھیں جو (دعوائے ایمان میں) سچے تھے اور ضرور دیکھے گا (ایمان کے) جھوٹے (دعویداروں) کو ۔

 

مکی دورنبوت مسلم اقلیتوں کےبہت سے عصری مسائل کاحل پیش کرتاہے۔ مکی دورنبوت میں جب کمزورمسلمانوں کے لیے مکہ میں جینادوبھرہوگیااوران کے لیے تکالیف ناقابل برداشت ہوگئیں توآپﷺ نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کاحکم دے دیا۔ہجرت حبشہ کایہ واقعہ بہت سے مسائل کوواضح کرتاہے۔واقعہ ہجرت حبشہ سے پتہ چلتاہے کہ اگرکسی ملک میں مسلمانوں کوایسے مسائل کاسامناہے جن کاتدارک ممکن نہیں ہےتوہجرت کاراستہ ان کے سامنے ہے۔البوطی کے مطابق ہجرت حبشہ سے معلوم ہوتاہے کہ عقیدے کی حفاظت کے لیے وطن، زمین اورجائیدادکوقربان کیاجاسکتاہےلیکن اس کے برعکس جائز نہیں ہے۔[20]اوراس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ مشروط طورپرغیرمسلموں کی پناہ حاصل کی جا سکتی ہے۔[21] سفرطائف سے واپسی پرآپﷺ نے مطعم بن عدی سے پناہ حاصل کی تھی جس سے البوطی کے موقف کی تائیدہوتی ہے۔[22]

 

آپﷺ کومعلوم تھاکہ حبشہ میں عیسائی حکومت ہےاس کے باوجودآپﷺ نے مسلمانوں کووہاں جانے کاحکم دیا۔بعدکے واقعات، نجاشی کاتحائف بھیجنااوروہاں مسلم پناہ گزینوں کاعیسائی معاشرے میں بھرپورمذہبی زندگی گزارنااس بات کوظاہرکرتاہے کہ اسوہ رسولﷺ اورصحابہ کوسامنے رکھتے ہوئے غیرمسلم معاشرے میں قیام اوراس کی تہذیب وتمدن سے متاثرہوئے بغیرزندگی گزاری جاسکتی ہے کیونکہ جتنی بھی روایات ملتی ہیں ان سے ثابت ہوتاہے کہ مکی مسلم اقلیت کے مہاجرین نے حبشہ میں اپنے دین کے تمام سماجی،اقتصادی اوردینی جہات پرپوری طرح عمل کیاتھا۔

 

مکی عہدمیں رسول اکرمﷺ نے غیرمسلم غلبہ والے سماج میں رہتے ہوئے اپنے دین ومذہب اورشریعت پرعمل کرنے، اس پرصلابت وعزیمت کےساتھ قائم رہنے اوراس کے تمام اخلاقی، دینی اورقانونی احکام کی بجاآوری کرنے کی سنت نبویﷺ اوراسوہ حسنہ قائم فرمایا۔یہ مسلمانوں کاحق ہے کہ وہ بے ترتیبی، بیزاری یامخالفت وعنادکے باوجوداپنے دین ومذہب پرعمل کریں جس طرح غیرمسلم غلبہ والے سماج کوحق حاصل ہےکہ وہ اپنے اپنے دین ودھرم پرعمل کریں۔

 

معاشرتی زندگی:

اکثریتی سماج میں اسلام بطوراقلیتی دین غالب معاشرے سے اس کے تمام جائز سماجی، معاشرتی، سیاسی،

 

اقتصادی اورتہذیبی معاملات میں نہ صر ف رواداری بلکہ مکمل تعاون کاقائل ہے۔اس سے یہ بات زیادہ اہم ہے کہ دوطرفہ تعامل اورباہمی اشتراک پریقین رکھتااوراپنے پیروؤں کواس کی تعلیم دیتاہے۔وہ مسلمانوں پریہ فریضہ بھی عائدکرتاہے کہ اکثریت کے ساتھ تمام میدانوں میں حسنِ معاملہ اورحسن ِ سلوک کواپنادینی فریضہ سمجھیں۔سیرت نبویﷺ کی روایات سے واضح ہوتاہے کہ آپﷺ نے اپنی بعثت کے بعداپنے غیرمسلم رشتہ داروں اوردوسرے ہم وطنوں سے بھی تمام سماجی تعلقات برقراررکھے تھےاوران کے ساتھ تمام قومی، ملکی اورتہذیبی امورمیں اشتراک جاری رکھاتھابلکہ مزیداخلاق کامظاہرہ کیاتھاتاکہ غیرمسلموں پریہ واضح ہوکہ اسلام حسنِ اخلاق کادین ہےاوراپنوں اوربیگانوں سب کے لیے رحمت عام لاتاہے۔

 

مکہ مکرمہ میں رسول اللہ ﷺکی کامیاب معاشرتی زندگی نہایت سبق آموزہے۔قابل غوربات یہ ہے کہ آپﷺ نے معاشرتی اقدارمیں بڑے شانداراورغیرمحسوس طریقے سے انقلابی تبدیلیاں پیداکردیں۔آپﷺ نے جاہلی معاشرے میں رہتے ہوئے جاہلانہ طورطریقوں کواس خوبصورتی اورنفاست سے اعلیٰ اقدارمیں تبدیل کردیاجس پرانسانیت بجاطورپرفخرکرسکتی ہے۔

 

مکی معاشرت رہی ہویاجاہلی سماجی زندگی یاخالص اسلامی معاشرتی زندگی، باہمی زیارت اورمیل ملاپ ایک عام اورمسلمہ سماجی روایت تھی۔لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں ملنے جاتے تھے، خاص طورسے رشتہ داروں اوردوستوں سے ملاقات عام تھی۔میل ملاپ، زیارت وملاقات اورباہمی ارتباط اسلامی روایت بھی ہے اوراسے صلہ رحمی کاایک اہم ترین سلسلہ سمجھاجاتاہے۔[23] آپﷺ اورصحابہ نے مکہ میں غیرمسلموں کے ساتھ سماجی تعلقات قائم رکھے ہوئے تھےاوران کے ہاں آناجاناتبلیغی اورسماجی معاملات میں جاری تھا۔

 

آپﷺ نے دعوت وتبلیغ اسلا م کے لیے اپنے قریبی اعزہ بنوعبدمناف کے لیے کھانے کی دعوت کااہتمام کیابلکہ دومرتبہ دعوت کے لیے کھاناپکوایا۔[24] جس سے یہ نتیجہ اخذکیاجاسکتاہے کہ دعوت کے کام کی اثرانگیزی کے لیے بالخصوص اورسماجی تعلقات کی استواری اوربہتری کے لیے بالعموم کھانے پینے کی دعوتیں غیرمسلموں کی اکثریت کے لیے کرنی چاہییں کیونکہ اس عمل سے بہت سے مثبت نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔

 

مکہ میں آپﷺ کے سامنے ایک بڑامسئلہ یہ تھاکہ مکی صحابہ میں دین کی بناء پراپنے عزیزوں اوررشتہ داروں سے معاشرتی بیگانگی کاجوشعورواحساس پیداہوگیاہے اسے کس طرح ختم کیاجائے؟کیونکہ مکی مسلم افراداورچھوٹے بڑے گروہوں کواس نئے سماجی انتشاراورمعاشرتی خلاسے بچاناضروری تھااوریہ امت اسلامی کی وحدت کے قیام کابھی تقاضاتھا۔آپﷺ نے اس مشکل سماجی مسئلہ کاحل دینی مواخات کی صورت ِ تعمیروتنظیم میں تلاش کیا۔آپﷺ نے ایک قریشی خاندان کے فردکودوسرے قریشی خاندان کے فردکادینی بھائی بنادیا۔آپﷺ نے مکی مسلمانوں کی بہتری کے لیے ان کوآپس میں متحدرہنے اورایک دوسرے سے تعاون کرنے کی تلقین کی جوایک سربراہ کی بنیادی ذمہ داری اورخوبی ہے۔آپﷺ نے مکی مسلمانوں کے باہمی ارتباط اورتعلق کومضبوط کرنے کے لیے ان کے درمیان مواخات کارشتہ قائم کردیاجس سے ظاہرہوتاہے کہ آپﷺ مکہ میں بھی مسلمانوں کی ہرممکن مددکرتےتھے اورانہیں کفارکے رحم وکرم پرنہیں چھوڑاتھا۔

 

مخالفین کی طرف سے صادق اورامین کے القاب کاعطاہوناآپﷺ کےاعلیٰ وارفع اخلاقی ومعاشرتی اقدارکاسب سے بڑاثبوت ہے۔بعثت سے قبل توآپﷺ کے تعلقات قریش اوردوسرے قبائل سے قائم تھے ہی لیکن بعثت کے بعدبھی آپﷺ نے ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھے۔مکہ مکرمہ اوراردگرد کے قبائل اورخاندانوں سے آپﷺ کے سماجی رابطے تھے اورمختلف مواقع پران سماجی روابط کالحاظ بھی کرتے تھے۔بعثت کے بعدآپﷺ کے قریش اوردوسرے خاندانوں سے مذہبی اورشخصی تعلقات موجودتھے۔ڈاکٹریٰسین مظہرصدیقی لکھتے ہیں:

 

چالیس برس کی عمرمبارک میں رسول اکرمﷺ کے تعلقات شخصی اوردینی بیک وقت تھے۔اعزہ واقرباجن میں رضاعی رشتہ داربھی شامل تھے اورخون کے قرابت داربھی، تاجروکاروباری، عام افرادوطبقات، شیوخ واکابرحتی کہ جان ودین کے دشمنوں سے آپﷺ کی ملاقاتیں اوردوسرے سماجی روابط شخصی ہونے کے ساتھ ساتھ دینی بھی تھے۔[25]

 

آپﷺ اورکئی صحابہ کرامؓ مکے میں تجارت کرتے تھے اورکئی غیرمسلموں کے ساتھ شراکت کی بناء پرتجارت کرتے تھے۔حضرت ابوبکرصدیق جمحی، عمربن خطاب عدوی، عثمان بن عفان اموی، عبدالرحمٰن بن عوف زہری، طلحہ بن عبیداللہ جمحی، زبیربن عوام اسدی، ابوعبیدہ بن جراح فہری، سعدبن ابی وقاص زہری، سعیدبن زید عدوی،خالدبن سعیداموی،ابوحذیفہ بن عتبہ عبشمی، اسودبن نوفل اسدی، یزیدبن زمعہ، مطلب بن ازہرزہری،طلیب بن ازہراورمقدادبن عمرو کندی رضی اللہ عنہم کےعلاوہ بھی کئی صحابہ کرامؓ تجارت کے پیشے سے وابستہ تھے۔حضرت عبداللہ بن سائب ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں جاہلیت میں نبی کریمﷺ کے ساتھ شریک تجارت تھا۔جب ہم مدینہ منورہ آئے توآپﷺ نے مجھے کہاکہ کیاتم مجھے پہچانتے ہو؟میں نے کہاجی ہاں میں آپ کوپہچانتاہوں۔آپ تومیرے شریک تجارت تھےاورآپ کیاہی اچھے شریک تھے ۔آپ نے کبھی بے جاتکراراورتوتکارنہ کی۔[26]

 

روایات سیرت کے مطابق قبل بعثت تو آپﷺ نے بذات خودتجارت میں حصہ لیالیکن نبوت کے بعدآپﷺ ہمہ وقتی دین واسلام کی تبلیغ، شریعت وقرآن کی تعلیم اورصحابہ کرامؓ کی تربیت میں لگ گئے اورتجارت دوسرے تاجروں کے ذریعے کرنے لگےیعنی آپﷺ اپنامال صاحب مال کی حیثیت سے شراکت کی بنیادپردوسرے تاجروں کودے دیتے۔بلاذری، ابن کثیر اوربعض دوسرے مؤرخین کے مطابق آپﷺ نے بعدنبوت کی زندگی میں ابوسفیان بن حرب اموی جیسے بڑے قریشی تاجروصاحب مال کے ساتھ شراکت کی بنیادپرتجارت کی تھی۔[27]

 

بعثت کے بعدمکہ مکرمہ آنے والوں سے لوگوں سے آپﷺ کامذہبی،شخصی، انفرادی اوراجتماعی تعلق قائم تھاجوتجارتی، مذہبی اورسماجی امورانجام دینے کے لے آتے تھے۔آپﷺ کی نبوت کاچرچاانہی مختلف لوگوں کے ذریعے بہت جلدمکہ مکرمہ سے باہربھی ہوگیاتھااوراس میں ایک اہم کردارتجارتی قافلوں کاتھاجوراستوں میں عارضی قیام کے دوران اوراپنے علاقوں میں واپس جاکرآپﷺ کی نبوت کی باتیں لوگوں کوبتاتے تھے۔آپﷺ کے والدایسے ہی کسی تجارتی قافلے کے لوگوں کی باتیں سن کرمکہ مکرمہ میں آئے تھے اورآپﷺ سے مکالمے کے بعدایمان لے آئے تھے۔[28]اورآپﷺ کی والد ہ حلیمہ سعدیہ ؓ بھی جب ایک بارآپﷺ کے پاس مکہ آئیں توآپﷺفرط محبت سے کھڑے ہوگئے اورمیری ماں میری ماں کہہ کرلپٹ گئے ۔[29]آپﷺ اپنی بعثت سے قبل اپنے بچپن کے تعلقات کابھی لحاظ کرتے تھے جس سے پتہ چلتاہے کہ غیرمسلموں سے تعلقات قائم کرنااوران کاپاس کرنابھی اسوہ رسولﷺ ہے جوقابل پیروی اوراتباع ہے۔آپﷺ کی رضاعی بہن حضرت شیماؓ جنگ حنین میں قیدی ہوکرآئیں توجب انہوں نے سپاہیوں سے رسول اکرمﷺ سے اپنی رضاعی رشتہ داری کاذکرکیاتوان کوآپﷺ کے سامنے پیش کیاگیا،انہوں نے رسول اکرمﷺ کواپنے شانے پردندان نبوی کی مہرمحبت دکھائی توآپﷺ روپڑے اوران کااعزازواکرام کیا۔[30]اس کے علاوہ غزوہ طائف کے بعدان کے شیوخ نے آپﷺ کی رحمت ومحبت کے واسطے سے اسیران جنگ کی رہائی کی درخواست کی اورابوصروزہیرنے کہاکہ وہ سب آپﷺ کی مائیں، خالائیں اورپھوپھیاں ہیں جنہوں نے آپ کی پرورش کی ہے۔آپﷺ نے اسی وقت خاندان بنوعبدالمطلب کے حصے میں آنے والے قیدیوں کوآزادکردیااورآپﷺ کی پیروی میں چندلوگوں کے سوااکثر قبائل نے بھی بنوسعدوہوازن اورثقیف کے قیدیوں کوآزادکردیا۔[31]

 

مذکورہ بالاتمام واقعات سے پتہ چلتاہے کہ آپﷺ قبل بعثت کے تعلقات کاپاس رکھتے تھے اوراس تعلق کی بناء پربھی لوگوں سے اچھاسلوک کرتےتھے۔

 

آج مسلم اقلیتوں کاایک بہت بڑامسئلہ غیرمسلموں کے ساتھ میل جول اوران کے ہاں قیام وطعام ہے۔اس کے علاوہ یہ سوال پیداہوتاہے کہ کیاکسی غیرمسلم کامہمان بناجاسکتاہے؟کیاکسی غیرمسلم کے گھرمیں قیام کیاجاسکتاہے؟تواس کاجواب بھی ہمیں رسول اکرمﷺ کے مکی دورنبوت سے بصراحت ملتاہے۔تقریباً تمام سیرت نگاروں کامتفقہ بیان ہے کہ آپﷺ نے شوال 10 نبوی میں طائف کاسفرکیا۔وہاں قیام کے دنوں کی تعدادمیں اختلاف ہے لیکن کم ازکم دس دن قیام پرتوکسی کواختلاف نہیں ہے،اگرچہ کئی سیرت نگاروں نے لکھاہے کہ آپﷺ نے وہاں ایک ماہ قیام کیاتھا۔[32]توسوال پیداہوتاہے کہ آپﷺ نے وہ ایک ماہ کہاں قیام کیاتھا؟آپﷺ کس کے گھرمیں ٹھہرے تھے؟سیرت نگاروں نے اس کی صراحت نہیں کی ہے۔ڈاکٹریسین مظہرصدیقی کے مطابق وہاں آپﷺ کے قیام کی جگہ کے بارے میں تین ممکنات ہوسکتے ہیں۔

 

1۔آپﷺ نے بنوعبدمناف کے دوخاندانوں بنوہاشم وبنوامیہ کے سسرالی عزیزوں میں سے کسی کے ہاں قیام کیاتھاکیونکہ وہ آپﷺ کے قریب ترین عزیزورشتے دارتھےاوران کہ بہوئیں یادامادآپﷺ کے حقیقی قرابت دارتھے۔

 

2۔بنوجمح کی خاتون جوتین سادات ثقیف میں سے کسی ایک کے گھرمیں تھیں،کے مہمان بنے تھےکیونکہ اس خاتون سے آپﷺ کی طرف سےشیوخ ثقیف کے برے سلوک پرمکالمہ اورشکوہ نقل کیاگیاہے۔اس سے اشارہ ملتاہے کہ آپﷺ ان کے مہمان بنے ہوں گے۔

 

3۔رسول اکرمﷺ چونکہ سادات ثقیف میں سے کسی کی حمایت ونصرت اورجوارکی طلب میں گئے تھے،

 

لہذاآپﷺ رئیس ثقیف عبدیالیل بن عمروبن عمیرثقفی کے مہمان بنے تھے۔[33]

 

بہرحال آپﷺ ان میں سے جس کے بھی مہمان بنے تھے وہ مسلمان نہیں تھےاورابھی غیرمسلم ہی تھے اورآپﷺ نے ان کے گھر میں قیام کیاتھا۔لہذاطائف میں آپﷺ کے قیام سے کئی مسائل مترشح ہوتے ہیں۔

 

1۔کسی غیرمسلم کامہمان بناجاسکتاہے۔

 

2۔غیرمسلم کی میزبانی سے استفادہ کیاجاسکتاہے۔

 

3۔غیرمسلموں کے ساتھ رہن سہن رکھاجاسکتاہے۔

 

4۔غیرمسلم کے ساتھ ضرورتاتعلق قائم کیاجاسکتاہے۔

 

اس سے پتہ چلتاہے کہ معاشرتی طورپرغیرمسلموں کے ساتھ تعلق وواسطہ قائم کیاجاسکتاہے اوراگریہ تعلق اوررابطہ اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے ہواوراس کاحتمی مقصدمسلم امت کی بہتری ہوتواس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 

مسلم اقلیتوں کے مسائل کے اسباب میں سے ایک سبب باہمی حمایت ومحبت اورربط کافقدا ن ہے۔مکی مسلم اقلیت پرنظرڈالنے سے بہت سے کردارسامنے آتے ہیں۔مسلم اقلیت میں مالی ومعاشرتی طورپرمضبوط مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دوسرے مذہبی بھائیوں کی حمایت اورمددمیں کمربستہ رہیں۔مثال کے طورپرحضرت نعیم بن عبداللہ ؓ کے کردارکوپیش کیاجاسکتاہےجنہوں نے اسلام قبول کرنے اوراسے کچھ عرصہ تک خفیہ رکھنے کے بعداسلام کااعلان کیااورہجرت کاارادہ کیاتوکفارمکہ نے انہیں ہجرت نہ کرنے کی درخواست کی کیونکہ وہ مکہ کے لوگوں کی بہت زیادہ مددکیاکرتےتھے اورخاص طورپرمکی مسلمانوں کے لیے بھی کسی رحمت سے کم نہ تھے۔ شایداسی وجہ سے آپﷺ نے انہیں ہجرت نہ کرنے کی اجازت دے دی تھی کیونکہ ان کی ذات مکی مسلم اقلیت کے لیے بہت سے مسائل سے چھٹکارے کی ضمانت تھی۔[34]

 

اس لیے مسلم اقلیتوں کوچاہیے کہ وہ باہمی ربط کویقینی بنائیں اورآپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اورمحبت کارویہ اپنائیں کیونکہ اسی میں مسلمانوں اوراسلام کی بہتری پوشیدہ ہے۔آپس میں مضبوط تعلق قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اسوہ رسولﷺ کوسامنے رکھتے ہوئے غیرمسلموں کے ساتھ بھی تعمیری ومثبت تعلق قائم کریں اورسماجی، معاشرتی اوراخلاقی طورپرتمام امورمیں شمولیت کویقینی بنائیں تاکہ بہترطریقے سے ان تک اسلا م کاپیغام پہنچایاجاسکے۔

 

سیاسی زندگی:

آپﷺ نے مکی دورنبوت میں مکہ مکرمہ میں قبائل کے باہمی معاملات میں بخوبی حصہ لیااورصحابہ کرامؓ نے بھی سیاسی معاملات میں بھرپورکرداراداکیا۔لوگوں کی فلاح اوربھلائی کے کاموں میں آپﷺ نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔حلف الفضول میں شرکت اس کی ایک اہم مثال ہے۔لیکن اس مقالہ میں بعدازبعثت مکی دورنبوت میں آپﷺاورصحابہ کرامؓ کی طرف سے سیاسی معاملات میں شرکت اورکردارکوپیش نظررکھاجائےگاکہ کس طرح آج مسلم اقلیتیں مکی اسوہ رسولﷺ وصحابہؓ کواپنے لیے مشعل راہ بناسکتی ہیں۔

 

مسلمانوں نے مکہ مکرمہ میں سیاسی انتظام وانصرام میں اپناکردارجاری رکھااوراہل مکہ نے بھی اختلا ف مذہب کے باوجودمسلمانوں سے وہ عہدے واپس نہیں لیے جوقبل ازاسلام ان کے پاس تھے۔مکہ مکرمہ کے سیاسی انتظام وانصرام سے متعلق کئی عہدوں کاذکرکتب سیرت میں ملتاہےجن میں سے کئی عہدے مسلمانوں کے پاس تھےاوراسلام قبول کرنے کے بعدبھی وہ ان عہدوں پرکام کرتے رہے۔سفارتکاری کامنصب حضرت عمربن خطابؓ اورمنافرہ ونسب کاعہدہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کے پاس ہی رہا۔کسی بھی روایت سے یہ معلوم نہیں ہوتاکہ ان حضرات کے مناصب محض اسلام لانے کے سبب قریشی انتظامیہ نے ان سے چھین لیے ہوں کیونکہ یہ عہدے ان لوگوں کو وراثت میں نہیں ملاکرتے تھے۔[35]اس لیے یہ بات یقینی ہے کہ ان مسلمان منصب داروں نے ان عہدوں پرکام کرتے ہوئے قومی، قبائلی اورانتظامی تعاون جاری رکھاتھااوریہ سیاسی، قومی اورمعاشرتی تعاون باہمی کی شاندارمثال اورسندہے۔اس سے یہ نتیجہ اخذکیاجاسکتاہے کہ غیرمسلم معاشرے میں مسلمان غیرمسلموں سے قومی اورانتظامی معاملات میں تعاون کرسکتے ہیں اورمعاشرتی وسیاسی امورمیں بھرپورکرداراداکرسکتے ہیں۔سعیدحوی میثاق مدینہ کی ایک دفعہ وان یہودبنی عوف أمۃ مع المؤمنینکے تحت لکھتے ہیں کہ مسلمان اورغیرمسلمان ایک سیاسی وحدت بن سکتے ہیں اورکسی ایک ملک میں رہنے والے مختلف مذاہب کے پیروکارایک امت کہلائے جاسکتے ہیں۔[36] ان کایہ نظریہ موجودہ دورکے کئی سیاسی مسائل کے حل کاپیش خیمہ ثابت ہوسکتاہےاوربین المذاہب ہم آہنگی کی بنیادبن سکتاہے۔

 

شہرمکہ میں جتنے قبائل تھے اسی تعدادمیں مجالس محلہ تھےجن کونادیکہاجاتاتھاجیساکہ مدینہ میں محلہ وارمجالس کوسقیفہکانام دیاگیاتھا۔نادیاورندواکامادہ نداہے۔قرآن میں بھی یہ لفظ استعمال ہواہے۔

 

فَلْيَدْعُ نَادِيَهٗ۔ [37]وہ بلالے اپنے حامیوں کی ٹولی کو

 

ان نادیوں میں مختلف قسم کے فیصلے ہوتے تھے۔آپﷺ نے زیدبن حارثہ ؓ کوغلامی سے آزادکرکے متبنیٰ بھی وہیں بنایاتھا۔[38]جس سے پتہ چلتاہے کہ آپﷺ قریش کے ساتھ سیاسی محفلوں میں شریک ہوتے تھے اورسیاسی معاملات میں حصہ لیتے تھے۔

 

یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دنیاکے بہت سے غیرمسلم ممالک میں مسلما ن اقلیتیں موجودہیں اوروہاں مختلف قسم کے تہذیبی وتمدنی مسائل سے دوچارہیں جن کاتعلق مسلم اقلیت کی انفرادی واجتماعی زندگی سے لے کرپورے معاشرے تک پھیلاہواہے۔اگرچہ مختلف غیرمسلم ممالک کی مختلف مسلم اقلیتوں کے مسائل مختلف ہیں لیکن کوئی بھی مسلم اقلیت چاہے جہاں بھی رہائش پذیرہواس کے لیے اسوہ حسنہ یعنی نبی کریمﷺ کی زندگی اورتعلیمات ہی راہنماہیں۔آپﷺ کومکہ میں خودایک اقلیت کے مذہبی راہنماکی حیثیت سے رہناپڑاکیونکہ اپنے وطن مکہ مکرمہ ہی میں اسلامی امت حکمران قریش سماج کے درمیان اقلیت بن کررہ گئی تھی۔[39]اس لیے سیرت نبویﷺ میں مسلم اقلیتوں کے لیے اسوہ نبویﷺ موجودہے۔رسول اکرمﷺ نے قرآنی تعلیمات والٰہی ارشادات کے پس منظرمیں تیرہ برسوں تک مکی مسلم اقلیت کی تعمیروارتقاء کاایک نقشہ تیارکیا۔[40]

 

عصرحاضرکے نامورسیرت نگارڈاکٹریٰسین مظہرصدیقی نے اپنی کتابمکی اسوہ نبویﷺ، مسلم اقلیتوں کے مسائل کاحل میں معاصرمسلم اقلیتوں کے لیے لائحہ عمل کے عنوان سے نہایت عمدہ لائحہ عمل مرتب کیاہے جس کی روشنی میں مسلم اقلیتیں اپنے مسائل کوحل کرنے کی کوشش کرسکتی ہیں۔مجوزہ لائحہ عمل کوچندنکات کی صورت میں ذیل میں پیش کیاجاتاہے:

 

1۔مسلم اقلیت میں اجتماعیت اورشعورمدنیت کافعال ہوناناگزیرہے۔

 

2۔مسلم اقلیت کوانفرادی کردارکی بجائے اجتماعی تعمیرکے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

 

3۔غیرمسلم ممالک میں دین اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لیے قابل قبول اورمؤثرلائحہ عمل مرتب کرناچاہیے۔

 

4۔مقامی مراکزتعلیم وتربیت اورمقامات اشاعت وتبلیغ کے قیام کویقینی بناناچاہیے۔

 

5۔جن علاقوں میں مسلم اقلیتوں کے جان ومال اوردین کی حفاظت ممکن نہ ہوانہیں چاہیے کہ وہ دوسری مسلم اقلیت یاکسی دوسرے محفوظ علاقے میں منتقل ہوجائیں۔

 

6۔مسلم اقلیت کواپنے دستورملکی، نظام حمایت اورانصرام تحفظ سے پوری طرح استفادہ کرناچاہیے۔

 

7۔مسلم اقلیتوں کوچاہیے کہ وہ اپنے آپ کوعصرحاضرکے چیلنجزسے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیاررہیں اورجدیدعصری تعلیم سے آراستہ کریں۔

 

8۔غیرمسلموں کے اسلام پراعتراضات کے جواب دینے کے لیے مسلم اقلیتوں کو مختلف مقامی زبانوں میں مہارت حاصل کرنی چاہیےتاکہ ان کوتشفی بخش جواب دیے جاسکیں۔

 

9۔مسلم اقلیتوں کی تعلیمی برتری، دینی فوقیت اورسماجی اجتماعیت کے ساتھ ساتھ اقتصادی اورمعاشی استحکام بھی ضروری ہےبلکہ یہ ان کادینی فریضہ ہے۔

 

10۔مسلم اقلیتوں کے چاہیے کہ وہ اپنی اپنی اکثریتوں سے سماجی روابط بحال رکھیں۔اس کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی کے لیے کوشش کرنی چاہیے اوردین سے مضبوط وابستگی اوراللہ تعالیٰ سے تعلق کوقائم رکھناچاہیے۔

 

11۔مسلم اقلیتوں کے لیے اسوہ نبویﷺ یہی ہے کہ وہ اپنی تہذیبی وملی اوردینی شناخت کوبہرحال قائم رکھیں کیونکہ یہی ہے جہان ابلیسی میں ان کی شان جبرائیلی۔[41]

 

عصرحاضرکی مسلم اقلیتوں کے لیے مندرجہ بالاپیش کردہ لائحہ عمل بہت عمدہ اورقابل عمل ہےاورغیرمسلم ممالک میں پیش آنے والے مسائل کے حل میں بہت معاون وکارآمدثابت ہوسکتاہے۔آج اسوہ حسنہ ہم سے اسی چیزکاتقاضاکرتاہے کہ ہم آپﷺ کی تعلیمات اورطرزعمل کی روشنی میں موجودہ حالات میں مقاصدشریعت کومدنظررکھتے ہوئے اوراسلامی اقدارکاتحفظ برقراررکھتے ہوئے غیرمسلم معاشروں میں غیرمسلوں کے ساتھ تعلقات اورسماجی روابط بحال رکھیں اورعصرحاضرکے پیداشدہ مذہبی، معاشرتی اورسیاسی مسائل کواسوہ حسنہ کی روشنی میں حل کریں۔

 

حوالہ جات

  1. ۔ صدیقی، ڈاکٹریٰسین مظہر، خطبات سرگودھا، سیرت نبویﷺ کامکی عہد، یونیورسٹی آف سرگودھا، 2016 ء، ۲۶۔۳۱
  2. ۔ الاحزاب،۳۳: ۲۱
  3. ۔ ابن قیم، محمد بن ابی بکر الجوزیہ، زادالمعاد، نفیس اکیڈمی کراچی، اگست 1962ء، ۱: ۳۳
  4. ۔ شاہ ولی اللہ، احمدبن عبدالرحیم، المحدث، حجۃ اللہ البالغہ (اردو)، مکتبہ رحمانیہ لاہور، س ن، :۲۱۵۔۲۲۰
  5. ۔ البوطی، محمدسعیدرمضان، ڈاکٹر، فقہ السیرۃ النبویۃ(مترجم ڈاکٹررضی الاسلام ندوی)، نشریات لاہور، 2017ء، :۱۲۹
  6. ۔ المدثر،۷۴ : ۱۔۳
  7. ۔ داناپوری، عبدالرؤف، اصح السیرفی ھدی خیرالبشر، نورمحمدکارخانہ تجارت کتب کراچی، س ن، :۷۱
  8. ۔ البوطی، سعیدرمضان، فقہ السیرۃ النبویۃ،:۱۳۸
  9. ۔ ابن ہشام، عبدالملک بن ہشام بن ایوب،سیرت النبیﷺ(مترجم قطب الدین احمد)اسلامی کتب خانہ لاہور، س ن، ۱: ۱۸۶
  10. ۔ ڈاکٹریٰسین مظہر ،مکی اسوہ نبویﷺ مسلم اقلیتوں کے مسائل کاحل، اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی، 2010ء، :۵۲
  11. ۔ الشعراء،۲۶: ۲۱۴
  12. ۔ المسد،۱۱۱: ۱
  13. ۔محمد غزالی السقا، فقہ السیرۃ(مترجم اظہرندوی)، نشریات لاہور، 2010ء، :۹۰
  14. ۔ البوطی، محمدسعیدرمضان، الدکتور، فقہ السیرۃ النبویۃ(عربی)، دارالفکرالمعاصر، بیروت لبنان،1411ھ/1991ء،:۱۱۲
  15. ۔ ابن ہشام، سیرت النبیﷺ، ،۱: ۲۵۷
  16. ۔ ڈاکٹریٰسین مظہر ،مکی اسوہ نبویﷺ مسلم اقلیتوں کے مسائل کاحل، :۵۱
  17. ۔ ایضا، :۵۰
  18. ۔ البوطی، سعیدرمضان، الدکتور، فقہ السیرۃ النبویۃ(عربی)،:۱۱۹
  19. ۔ العنکبوت،۲۹: ۲۔۳
  20. ۔ البوطی، سعیدرمضان، الدکتور، فقہ السیرۃ النبویۃ(عربی)، :۱۴۰
  21. ۔ ایضاً، :۱۴۲
  22. ۔ شبلی نعمانی، سیرت النبیﷺ، مومنہ خالدسعیدفاؤنڈیشن ملتان، س ن، ۱: ۱۵۵
  23. ۔صدیقی، ڈاکٹر یٰسین مظہر، خطبات سرگودھا، سیرت نبویﷺ کامکی عہد، :۱۳۸
  24. ۔ طبری، ابوجعفرمحمدبن جریر، تاریخ الامم والملوک، نفیس اکیڈمی کراچی، 2004ء، ۲: ۷۱
  25. ۔ صدیقی، ڈاکٹر یٰسین مظہر ،عہدنبوی میں قریش وثقیف تعلقات، وفاقی اردویونیورسٹی کراچی، 2015ء،:۲۲۲
  26. ۔ محمدصویانی، الدکتور، سیرت رسولﷺ اردو، فہم دین ویلفیئرسوسائٹی وزیرآباد، 2017ء،:۴۶
  27. ۔ صدیقی، ڈاکٹر یٰسین مظہر ،خطبات سرگودھا،سیرت نبویﷺ کاعہدمکی، :۱۵۷
  28. ۔ شبلی نعمانی، سیرت النبیﷺ، ۱: ۱۱۰
  29. ۔ ایضاً
  30. ۔ ابن اسحاق، محمد بن اسحاق بن یسار،سیرت النبیﷺ (مترجم محمداطہرنعیمی) مکتبہ نبویہ لاہور، 1431ھ،:۶۹۷
  31. ۔ ابن ہشام، سیرت النبیﷺ، ۳: ۱۵۷(ایک جگہ پرزہیرکی کنیت ابوصروذکرکی گئی ہے جبکہ اس سےاگلے صفحہ پرابوصررمذکورہے۔)
  32. ۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی، سیرت سروردوعالم، ادارہ ترجمان القرآن لاہور، 1978ء، ۲: ۶۳۳، نعیم صدیقی، محسن انسانیت، الفیصل ناشران وتاجران کتب لاہور، س ن،:۱۷۸
  33. ۔ ڈاکٹر یٰسین مظہر ، عہدنبوی میں قریش وثقیف تعلقات، وفاقی اردویونیورسٹی کراچی، 2015ء،:۲۳۴
  34. ۔ ڈاکٹر یٰسین مظہر ، مکی اسوہ نبویﷺ مسلم اقلیتوں کے مسائل کاحل، :۲۶۱
  35. ۔ ڈاکٹریٰسین مظہرصدیقی کے مطابق یہ مناصب موروثی طورپرنہ ملتے تھے( مکی اسوہ نبویﷺ مسلم اقلیتوں کے مسائل کاحل، :۱۶۵) جبکہ ڈاکٹرمحمدحمیداللہ کے مطابق یہ عہدے موروثی تھے جونسل درنسل چلتے تھے۔(عہدنبوی میں نظام حکمرانی،مشتاق بک کارنرلاہور، 2016ء،:۳۰۔۵۴)آپﷺ نے فتح مکہ کے بعدخانہ کعبہ کی چابی حضرت عثمانؓ بن طلحہ کوہی عطاکی تھی کیونکہ وہ ہمیشہ سے ان کے خاندان کے پاس چلی آرہی تھی،اس سے ڈاکٹرمحمدحمیداللہ کے موقف کی تائیدہوتی ہے۔
  36. ۔ سعیدحوی،الاساس فی السنۃ وفقہھا، دارالسلام للطباعۃ والنشروالتوزیع والترجمۃ،1416ھ/1995ء، ۱: ۴۰۷
  37. ۔ سورہ علق،۹۶: ۱۷
  38. ۔ محمدحمیداللہ، ڈاکٹر، عہدنبوی میں نظام حکمرانی، مشتاق بک کارنرلاہور، 2016ء، :۳۴
  39. ۔ ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی ، مکی اسوہ نبویﷺ، مسلم اقلیتوں کے مسائل کاحل، :۸۷
  40. ۔ ایضاً، :۲۷۹
  41. ۔ ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی، مکی اسوہ نبویﷺ، مسلم اقلیتوں کے مسائل کاحل، :۲۷۹۔۳۱۲
Loading...
Issue Details
Id Article Title Authors Vol Info Year
Id Article Title Authors Vol Info Year
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...